Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 چونکہ یہ سورت بندوں کی زبان پر گویا ایک عرضی کا مسودہ نازل ہوا ہے۔ اس لئے اسکے ترجمہ سے پہلے ” کہو“ محذوف سمجھنا چاہئے۔ یعنی اے میرے بندوں ! تم یوں کہو کہ ہم شروع کرتے ہیں سب کام اللہ کے نام سے جو باوجود گناہ بندوں کے بڑا ہی مہربان نہائت رحم والا ہے۔ عرض مطلب سے پہلے ہم اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ پاک کیلئے ہیں جو سب جہان والوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ سب مخلوق کیا چھوٹی کیا بڑی سب اسکی نمک خوار اور غلام ہیں۔ نہ صرف پرورش کرتا ہے بلکہ باوجود انکے گناہوں کے بڑا مہربان نہائت رحم والا ہے۔ اور اگر دنیا میں باوجود کثرت احسانات کے اسکی طرف رجوع نہ کریں۔ اور اپنے تکبر اور سرکشی میں پھنسے رہیں اس نے ایک دن بد بختوں اور نیک بختوں کی تمیز کرنے کو مقرر کر رکھا ہے۔ جس کا نام روز قیامت ہے۔ اس قیامت کے دن کا مالک بھی وہی ہے۔ چوں کہ ایسے اللہ مالک الملک کے حکم سے رو گردانی کرنابہت ہی مذموم اور قبیح امر ہے۔ نیزایسا مالک الملک کوئی اور نہیں۔ لہٰذا ہم سب سے علیحدہ ہو کر اے ہمارے مہربان مولا ! تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہر ایک کام کی انجام دہی میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ چنانچہ بالفعل ہماری ایک ضروری حاجت ہے جس کے سبب سے ہم تیرے عاجز بندے ایک دوسرے سے مخالف اور دشمن ہو رہے ہیں۔ اور نہائت ہی زور سے کوشش کرچکے ہیں تاہم کوئی فیصلہ بیّن طور پر نہیں ہوتا لہذاہم نیازمندان سب کے سب عاجز آکر التماس کرتے ہیں کہ تو ہی اے مولا ! مہربان ہم کو اس میں کامیاب کر۔ الفاتحة
2 شان نزول الحمدللہ : مکہ شریف میں جب نماز فرض ہوئی تھی تو یہ سورت نازل ہوئی۔ (فتح البیان) ١٢ اس سورت کے کئی نام ہیں ہر نام اس کی فضیلت ظاہر کرتا ہے اس کو فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں کیونکہ ابتدا کتاب اللہ کے آتی ہے اور سورت الشکر بھی اس کا نام ہے اس لئے کہ اس کے اول میں حمد ہے جو شکر سے بڑہکر ہے اس کا نام سورت الرقیہ یعنی دم کی سورت بھی ہے کیونکہ صحابہ کرام اس کو پڑھ کر بیماروں پر دم کیا کرتے تھے۔ ترمذی نے آنحضرتﷺ سے نقل کیا ہے کہ اس سورت جیسا بابرکت کلام نہ تورٰیت میں ہے نہ انجیل میں نہ کسی آسمانی کتاب میں نازل ہوا یہی قرآن عظیم ہے جو مجھ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا ہے۔ (منہ) الفاتحة
3 الفاتحة
4 الفاتحة
5 الفاتحة
6 وہ مطلب یہ کہ دین میں ہمیں سیدھی راہ پر پہنچا اور اگر یہی ہے جس پر ہم ہیں تو اسی پر ہمیں قائم رکھ اے ہمارے مولا ! ہماری یہ آرزو نہیں کہ جس راہ کو ہم ناقص العقل لوگ سیدھی سمجھیں یا ہمارے اور بھائی اچھی جانیں وہ دکھا۔ حاشا وکلا بلکہ ان بزرگوں کی راہ پر پہنچا جن پر تو نے بوجہ ان کی دینداری کے بڑے بڑے انعام کئے عطیات دیے اور مہربانیاں مبذول فرمائیں۔ نہ ان بے ایمان لوگوں کی جن پر انکی بدعملی کے سبب سے غضب کیا گیا جیسے یہودی وغیرہ۔ نہ ان لوگوں کی جو بوجہ اپنی کو تہ اندیشی کے گمراہ ہیں جیسے عیسائی وغیرہ۔ اے ہمارے مہربان مولا ! ہم عاجزوں کی یہ التماس مخلصانہ قبول فرما۔ اِھْدِنَا۔ یہ پہلا موقع قرآن کریم کا ہے کہ دعا کا اس میں ذکر آیا۔ نہ صرف ذکر آیا بلکہ تعلیم کی گئی۔ قرآن کریم اور حدیث شریف سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دعا جب دل کی توجہ سے کی جائے تو ضرور ہی قبول ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں تو صریح ارشاد ہے۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان یعنی مانگنے والا جب مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ ایسا جوّاد ہے کہ دعا گو بندے کے ہاتھ خالی پھیرنے سے اسے شرم آتی ہے۔ اسی مضمون کی آیات اور احادیث کثیر التعداد ہیں۔ جملہ اہل اسلام بلکہ جمہور انام بھی اس امر پر متفق ہیں اور عقل بھی اسی کی مقتضی ہے کہ ایک عاجز بندہ جو اپنے اللہ کو سب طاقتوں کا مالک جان کر اس سے اپنے ارادوں کے پورا ہونے میں امداد چاہتا ہے۔ تو ایسے وقت میں اس عاجز بندے کی حاجت روائی نہ کرنا ایک قسم کا بخل ہے۔ جب کہ انسانی طبائع کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سائل کا سوال الحاج کو پہونچتا ہے تو طبیعت انسانی اس کی حاجت روائی پر متوجہ ہوتی ہے۔ حالانکہ انسانی طبائع میں بخل بھی ہے پھر جو ذات ستودہ صفات بخل اور امساک سے مبرّا ہو اس کا یہ تقاضا ہو کہ سائل کے سوال پر متوجہ نہ ہو۔ تو اس سے زیادہ بخل کیا ہوگا؟ تعَالی اللّٰہ عن ذٰلک علوّا کبیرا یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَانٍ فَبِاَّیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۔ یہی وجہ ہے کہ سب لوگ بالطبع تکلیف کے وقت اس فعل پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کی طفیل سے اپنی حاجت روائی کی امید رکھتے ہیں۔ مگر اس زمانہ کے محقق سر سید احمد خاں علی گڈھی اس امر میں نہ صرف اہل اسلام بلکہ جملہ انام سے بھی مخالف ہو بیٹھے ہیں اور قبولیت دعا کے وہ معنے نہیں مانتے جو سب لوگ مانتے ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی پہلی جلد میں یوں رقمطراز ہیں :۔ ” دعا جب دل سے کی جاتی ہے ہمیشہ مستجاب ہوتی ہے۔ مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس مطلب کے لئے ہم دعا کرتے ہیں۔ دعا کرنے سے وہ مطلب حاصل ہوجائے گا۔ اور استجابت کے معنے اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے۔ حصول مطلب کے لئے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے۔ جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب میں جو مطلب کے نہ حاصل ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے“ (صفحہ ١٨) ناظرین غور کریں کہ سرسیّد کی کس قدر جرأت ہے اور مجھے ہمیشہ ان کی جرأت پر تعجب ہوا کرتا ہے کہ تمام جہان کے مقابلہ پر خم ٹھونک کر کھڑے تو ہوجائیں مگر اس کے سامان مہیا نہیں کرتے۔ کوئی دلیل قوی تو کجا ضعیف بھی اپنے دعویٰ پر پیش نہیں کرتے۔ بتلا دیں تو اس مسئلہ میں جو سب لوگوں کے خلاف رائے ظاہر کی۔ تو اس کی کوئی دلیل بھی بیان کی ہے؟ ہمارے خیال میں سرسید کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ اس مطلب کے اسباب میں سے نہیں مگر یہ فرمانا کہ نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے غلط ہے۔ ہم حسب درخواست سید صاحب تفسیر القرآن بالقرآن کئی ایک آیتیں بتلاتے ہیں جن سے سرسیّد کے اس بیان کی غلطی ناظرین و نیز سید صاحب پر پورے طور سے منکشف ! ہوجائے گی۔ اس مطلب کو بہت سی جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ انبیاء سابقین نے جب تنگ آکر دعا کی تو ہم نے فوراً ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا فَدَعَا "رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَآئِ بِمَآَئِ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰیٓ اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ فآء کو جس کا ترجمہ ” پس“ ہے۔ جب کسی کلام پر تعاقب لاتے ہیں تو پہلا کلام پچھلے کے لئے سبب ہوتا ہے جیسے سبَّنی زیدٌ فضربتُہ ” مجھے زید نے گالی دی پس میں نے اسے پیٹا“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گالی دینا پیٹنے کے لئے سبب ہے۔ اسی طرح اس آیت میں فَدَعَا رَبَّہٗ۔ فَفَتَحْنَا کے لئے علت ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا بارش کے لئے یا کم سے کم بارش کے اسباب جمع کرنے کے لئے سبب ہوئی۔ گو کفار کی ہلاکت کے اسباب کچھ اور ہی ہوں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ان اسباب کو جمع کرنے میں دعا کو بھی دخل ہے ورنہ ” ف“ لا کر فَفَتَحْنَا فرمانا بے معنے ہے۔ دوسری جگہ بھی اسی طرح فرمایا۔ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاَنْجَیْنٰہ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ناظرین ذرہ غور فرمائیں کہ کس طرح پہلے کلام پر پچھلے کو تقریباً بیان فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا کی کہ ” اے اللہ تو ہم میں فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس سے نجات دے“ اس سے آگے کے لفظوں میں ارشاد ہے کہ ” پس نوح ( علیہ السلام) کی دعا کرتے ہی ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی“ جس سے ایک جزء دعا کا پورا ہوا۔ ” پھر دوسروں کو ہلاک کردیا“ جس سے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعا کے دونوں جزء پورے کر دئیے ” بیشک اس میں بڑی نشانی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی دعا کو ضائع نہیں کیا کرتا۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) نہیں مانتے “۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی واضح طور پر بیان فرمایا بلکہ اجابت دعا کے معنے بھی صاف صاف بتلا دیئے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ فَاَسْتَجَابَ لَکُمْ رَبُّکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! تمہاری دعا فتح اسلام کے بارے میں اللہ نے اس طور سے قبول کی کہ میں تمہاری مدد کرنے کو ایک ہزار فرشتہ# نشاندار بھیجوں گا “ سرسید نے بجواب مولوی مہدی علی ملقب نواب محسن الملک مرحوم درخواست کی ہوئی ہے کہ آپ اپنے مطلب پر دلیلی عقلی یا نقلی ضرور پیش کریں۔ اور دلیل نقلی کی تعریف سید صاحب نے یہ کی ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن ہو۔ (دیکھو تہذیب الاخلاق بابت رمضان ١٣١٢؁ھ صفحہ ٢٥٤) ! طبع اوّل تفسیر ہذا سرسید مرحوم کی زندگی میں ہوا تھا۔ اور یہ جلد ان کو پہونچ چکی تھی۔ ہم بگمان حسن خاتمہ دعا کرتے ہیں رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ (منہ) " نوح نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ میری مدد کر پس ہم نے جوش والا پانی آسمان سے برسایا اور زمین سے چشمے نکالے پس پانی اپنے اندازہ (ہلاکت کفار) کو پہنونچ گیا (ترجمہ) منہ سید صاحب کا مذہب نزول ملائکہ کی نسبت ہمیں معلوم ہے اس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا وہ ہمیں کسی طرح مضر نہیں ہمارا مطلب تو صرف اس سے ہے کہ اِسْتَجَابَ کا مفعول اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ واقع ہے پس اگر ہمارا مطلب صحیح نہ ہو تو کلام میں کذب لازم آئے گا۔ وللتفصیل مقام اٰخر (منہ) اس سے صاف اور صریح طور پر معلوم ہوا کہ قبولیت دعا کے یہ معنے ہیں کہ جو مراد مانگی جائے وہ حاصل ہوجائے جیسے کہ صحابہ کرام کو جنگ بدر میں حاصل ہوئی۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآنی ہیں جن سے صاف صاف اگر بے تعصبی سے باقاعدہ سمجھنا چاہیں تو مفہوم ہوتا ہے کہ ہاں دعا بھی واقع حصول مطلب میں دخل رکھتی ہے بلکہ بھاری سبب ہے۔ نہیں معلوم سید صاحب کو اس کے مخالف کون سی دلیل عقلی یا نقلی سوجھی جو اس سے انکاری ہو بیٹھے۔ اگر وہی شبہ ہے جو عموماً عام لوگوں کو ہوا کرتا ہے کہ جس کام کے لئے دعا کی جاتی ہے اگر وہ شدنی ہے۔ تو دعا بے فائدہ ہے اور اگر ناشدنی ہے تو دعا سے ہو نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب وہی ہے جو حافظ ابن قیم (رح) نے ” الجواب الکافی“ میں دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا بھی مثل دیگر اسباب خورد و نوش کے ہے۔ جیسے کھانا بھوک کے لئے اور پینا پیاس کے لئے۔ پس اگر یہی سوال کھانے اور پینے پر وارد ہو کہ اگر بھوک نے جانا ہی ہے تو کھانے کی بھی حاجت نہیں اور اگر نہیں جانا تو کھانے سے بھی نہیں جائے گی پھر اس سوال کا جواب غالباً سرسید بھی یہی دیں گے کہ کسی چیز کا مقدر ہونا اس چیز کے متسبب ہونے کے مخالف نہیں ورنہ دنیا میں کوئی چیز بھی ایک دوسری سے مسبب نہ ہو اس لئے کہ سب امور واقعیہ کی تقدیر ہوچکی ہے۔ پس اسی پر دعا کو بھی قیاس فرما لیجئے۔ اصل یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر اسباب اللہ نے مقرر فرمائے ہیں ان سب کا یہی حال ہے کہ بعض دفعہ ان کے ہونے سے بھی وہ مطلب حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ محض اسباب کے ہونے سے ہی متسبب کا وجود نہیں ہوا کرتا۔ جب تک کہ اس کے موانع بھی معدوم نہ ہوں مثلاً آفتاب دھوپ کے لئے ایک سبب ہے حالانکہ اس کے طلوع سے جب تک کہ موانع مثل بادل وغیرہ کے مرتفع نہ ہوں دھوپ نہیں ہوتی۔ اس ہماری تقریر سے ایک اور شبہ بھی دور ہوگیا۔ جو دعا کے سبب ہونے پر کیا جاتا ہے جسے سید صاحب نے بھی تہذیب الاخلاق ماہ ربیع الاوّل ١٣١٣؁ھ میں پیش کیا ہے۔ کہ بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت پوری نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ دعا کوئی سبب حصول مقصود کے لئے نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا“ اس لئے کہ اگر حاجت روائی نہ ہونے سے دعا کے سبب ہونے میں شبہ آتا ہو تو دھوپ کے لئے آفتاب کے سبب ہونے میں یہی شبہ ہونا چاہیے بلکہ جو لوگ فی زماننا نوکری کے لئے پڑھتے ہیں اور سید صاحب بھی تعلیم علوم جدیدہ کو زمانہ حال میں معاش کا بڑا بھاری سبب جانتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے تعلیم یافتہ حیران و سر گردان ہیں پس ان کی ناکامی سے معلوم ہوا کہ علوم جدیدہ حصول معاش کے لئے سبب نہیں؟ حالانکہ ان کی ناکامی بہ نسبت دعا گوئوں کے تعجب انگیز ہے کیونکہ دعا گوئوں کو علیم حکیم سے معاملہ ہے جس کی نسبت یہ بھی گمان ہے کہ اس کے علم اور حکمت میں مطلوب کا ملنا ان کو مفید نہ ہو یا ان میں بعض امور ایسے ہوں جو دعا کی قبولیت کو مانع ہوں جیسے حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ حالانکہ ان کا کھانا پینا اور لباس سب حرام ہوتا ہے پھر ان کی دعا کیسے قبول ہو؟“ قرآن کریم نے بھی فلیستجیبولی کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دعا بھی مثل اور اسباب کے ایک سبب ہے پس جیسے اور اسباب پر حصول مطلب ضروری نہیں باوجود اس کے ان کی سببیت میں شبہ نہیں آتا اسی طرح اس میں بھی نہیں۔ ودلیلہ ما مرفتذکّرٰ (منہ) الفاتحة
7 الفاتحة
0 البقرة
1 سورۃ بقرہ میں ہوں اللہ سب سے بڑے علم والا اگر تم میرے علم پر یقین رکھتے ہو تو جان لو کہ یہ کتاب جس کا نام قرآن شریف ہے بلا شک (صحیح) اور میری طرف سے ہے اور جو یہ شبہ ہو کہ اگر یہ کتاب بلا شک صحیح ہے تو اس کو سب لوگ کیوں نہیں مانتے ؟ تو اس کا جواب سنو ! کہ مخلوق تین قسم پر ہے ایک وہ لوگ ہیں جنکو یہ خیال ہے کہ ہمارا کوئی مالک ہے جو ہم سے ہمارے افعال کی نسبت سوال کرے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ؟ ایسے لوگ تو ہمیشہ مجھ (اللہ) سے ڈرتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنے خیالات کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ غلط ہوں دوسرے کی سنتے ہی نہیں خواہ کیسی ہی کہے بلکہ الٹے حق گوئوں سے جو ان کی رائے کے مخالف ہوں دشمن ہوجاتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہیں جو اپنی غرض کے یار مطلب کے آشنا۔ نہ اسلام سے عداوت نہ کفر سے عار۔ بلکہ جس طرف دنیاوی مطلب ہو اسی طرف کے غلام اگر مسلمان ہیں تو اپنے مطلب کو۔ کافر ہیں تو اپنی غرض سے۔ پس یہ قرآن بیشک پہلی قسم کے لوگوں یعنی اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ بعد ہدایت یابی کے انکی پہچان کے دو نشان ہیں۔ اول نشانی اور بڑی ضروری نشانی یہ ہے جو وہ بِن دیکھی غیب کی باتیں حسب فرمان الٰہی مانتے ہیں اور نماز کو ایسا ادا کرتے ہیں کہ پانچوں وقت جماعت سے پڑھتے ہیں اور علاوہ اسکے ممسک اور بخیل بھی نہیں بلکہ ہمارے دیے ہوئے سے خرچ بھی کرتے ہیں اور دوسری نشانی یہ سمجھو کہ اللہ سے ڈرنے والے وہ ہیں اے پیغمبر ! تیری طرف اتری ہوئی کتاب اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی کتابیں بھی مانتے ہیں نہ صرف زبانی دنیا داروں کی طرح یا جھوٹے واعظوں کی مانند کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ بلکہ وہ نیک کام اور اخلاص میں ایسے مشتاق ہیں کہ ان کی اخلاص مندی دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہی لوگ قیامت کو مانتے ہیں جو ہر وقت اسی کی فکر میں لگے رہتے ہیں جو کام کرتے ہیں قیامت کی عزت اور ذلت کا لحاظ اس میں پہلے اس سورت کی فضیلت حدیثوں میں بہت آئی ہے۔ ایک حدیث میں جو ترمذی وغیرہ نے نقل کی ہے وارد ہے کہ یہ سورت قیامت کے روز اپنے پڑھنے والے کے ساتھ جناب باری میں آئے گی اور اس کی طرف سے بطور وکالت کے گفتگو کرے گی اور اس کی سفارش میں کہے گی کہ اے اللہ تیرے بندے نے مجھے تیرا کلام جان کر پڑھا تھا اور مجھ پر عمل کیا اس کو معاف کر دے۔ اسی طرح ہر ایک پڑھنے والے کی سفارش کر کے معافی کرائے گی۔ (منہ) ! (الٓمّٓ) ان حروف مقطعات کے معنے بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا۔ جس کا مفصل ذکر تفسیر اتقان اور معالم میں مرقوم کرلیتے ہیں ایسے لوگوں کی نسبت ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ بے شک یہی لوگ اپنے رب کے فرمان پر چلنے والے ہیں اور اگر یہ اسی طرز پر رہے تو بے شک یہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں ہاں وہ لوگ جو عناد کے سبب ہر ایک حقانیت سے انکاری ہیں یعنی جن کو تیرا سمجھانا یا نہ سمجھانا برابر ہے وہ اس کتاب کو نہیں مانیں گے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بھی اپنی جناب سے دور کردیا ہے۔ ہے۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح وہ معنے ہیں جو ابن عباس (رض) سے مروی ہیں کہ ہر ایک حرف اللہ کے نام اور صفت کا مظہر ہے اسی لئے میں نے یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے (منہ) (اور تجھ سے پہلے اتری ہوئی) بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی کسی مسلمان نے عیسائیوں سے انجیل کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل مانگی تو جھٹ سے انہوں نے یہ آیت یا اس کے ہم معنے کوئی دوسری آیت پڑھ دی اور سائل مسلمان پر زور ڈالا کہ تمہارا قرآن کتب سابقہ کی شہادت دیتا ہے۔ بلکہ ان کی تسلیم کو داخل ایمان بتاتا ہے۔ پھر تم اس سے زیادہ ثبوت کیا چاہتے ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس جگہ جو پہلا ہی موقع کتب سابقہ کی تصدیق کا آیا ہے ہم اس امر کی تحقیق کردیں کہ کتب سابقہ جن کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے وہ یہی ہیں جن کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت زمانہ حال کے عیسائیوں سے مطلوب ہے یا اور۔ اور ان کتابوں کی قدر و منزلت کہاں تک ہے اور یہ بھی واضح کردیں کہ اس مطلب پر عیسائیوں کا اس آیت کو پیش کرنا مثبت مدعا ہے یا صرف دفع الوقتی یا ناسمجھی۔ پس واضح ہو کہ کتب سابقہ جن کی تصدیق قرآن کریم نے کی ہے بحیثیت مجموعی یہ نہیں جو اس وقت متدادل ہیں۔ یہ تو ایک مثل کتب تواریخ کے ہیں۔ اس ہمارے دعویٰ کا ثبوت ان کا موجودہ طرز ہی بتلا رہا ہے تورٰیت ابتدا سے انتہا تک۔ انجیل اوّل سے آخر تک پڑھنے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے والے حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہما السلام کے سوا کوئی اور ہی ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے بعد کے واقعات کا اس میں درج ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ان جملوں کی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور مسیح ( علیہ السلام) کو خبر تک نہیں کجا یہ کہ اللہ کی طرف سے ان پر الہام ہوئے ہوں مثلاً حضرت موسیٰ کی وفات اور بعد وفات کے واقعات کا ذکر بھی تورٰیت میں مذکور ہے۔ تورٰیت کی پانچویں کتاب استثناء میں لکھا ہے :۔ ” سو اللہ کا بندہ موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہوآب کی سرزمین میں مر گیا اور اس نے اسے ہوآب کی ایک وادی میں بیت مغفور کے مقابل گاڑا آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا اور موسیٰ ( علیہ السلام) اپنے مرنے کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا کہ نہ اس کی آنکھیں دھندلائیں اور نہ اس کی تازگی جاتی رہی۔ سو بنی اسرائیل موسیٰ ( علیہ السلام) کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے“ (باب ٣٤۔ فقرہ ٥) آگے چل کر دسویں فقرے میں لکھا ہے :۔ ” اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا “ اورؔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے سولی پر جان دینے کا مذکور اناجیل میں بصراحت موجود ہے بلکہ سولی کے بعد کے واقعات بھی ان میں پائے جاتے ہیں ان سب امور پر غور کرنے سے یہ نتیجہ باآسانی نکل سکتا ہے کہ ان واقعات کے دیکھنے اور لکھنے والے سوا ان دو صاحبوں کے کوئی اور شخص ہوں گے اور اگر عیسائیوں کا عقیدہ بھی بغور دیکھیں تو وہ بھی اس امر کے قائل نہیں کہ تورٰیت انجیل موجودہ کے مصنف موصوفہ انبیاء ہیں۔ بلکہ ان کے خیال کے مطابق بھی ان کے بعد کے لوگ ہیں اناجیل کے مصنف تو یہی لوگ ہیں جن کے نام سے اناجیل مروج ہیں ایسا ہی تورٰیت وغیرہ کا لکھنے والا اور واقعات کا جمع کرنے والا بھی کوئی شخص ہوگا یوشع بن نون ہو یا کوئی اور۔ ہاں اہل اسلام اور عیسائیوں کا یہ واقعہ منقول ہے۔ صرف اس قدر اختلاف ہے کہ عیسائی اس کے قائل ہیں کہ جو کچھ اناجیل وغیرہ میں مذکور ہے بیشک حواریوں ہی نے لکھا مگر وہ اس کے لکھنے میں معصوم تھے ان کی حفاظت اللہ کے یا بقول ان کے مسیح کے ذمہ تھی جو خود اللہ ہے۔ جو واقعات مسیح کے تھے ان کو الہام کے ذریعہ معلوم ہوتے تھے وہ لکھتے جاتے تھے۔ مثلاً جو واقعات حضرت مسیح کو پیش آئے کہیں انہوں نے کلام الٰہی کا وعظ کہا کہیں اپنے معمولی بشری کاموں کھانے پینے میں مصروف رہے سب کے سب مصنفوں نے اناجیل میں درج کردیئے۔ چنانچہ ان کے اختلافات سے یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایک واقعہ کو تو ایک لیتا ہے دوسرا نہیں لیتا۔ مثلاً مسیح کا زندہ ہو کر آسمان پر چلا جانا مرقس لیتا ہے متی نہیں لیتا۔ متی کا مسیح کے پیچھے ہو لینا متی بیان کرتا ہے۔ مرقس وغیرہ نہیں کرتے۔ اسی طرح اور سینکڑوں واقعات ہیں جو ایک انجیل میں ہیں دوسری میں نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایسے واقعات کا چھوٹ جاناکچھ تعجب بھی نہیں۔ بالخصوص جب کہ ثبوت کی بنا صرف سماع ہی پر ہو۔ چنانچہ لوقا اپنی انجیل کے شروع میں ظاہر کرتا ہے کہ میں نے بلکہ سب نے راویوں سے سن سن کر واقعات لکھے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تورٰیت انجیل جن کی قرآن کریم نے شہادت دی ہے یہ نہیں۔ ان کو ان کے ساتھ بجز شراکت اسمی کے کوئی شراکت نہیں جیسے کوئی شخص خاندان مغلیہ کا حال لکھ کر اس کا نام گلستان رکھ دے تو وہ شیخ سعید کی گلستان نہ ہوگی۔ پس اس انجیل موجودہ کے ثبوت میں آیت قرآنی کا پیش کرنا اور آیت شریفہ قرآنیہ کو اپنے دعویٰ کا مثبت جاننا ہرگز صحیح نہیں۔ قرآن شریف نے کہیں یہ نہیں بتلایا کہ انجیل متداول مسیح پر نازل ہوئی یا یہ کہ اس کو بھی مانو بلکہ ایمان کے موقع پر اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ اَو مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰے یعنی ان کتابوں کو جو تجھ سے پہلے اتریں اور موسیٰ اور عیسیٰ کو ملیں۔ ان الفاظ شریفہ سے تعبیر کرنے میں اسی طرف اشارہ ہے جو ہم لکھ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ عیسائی ان کے مصنفوں کو الہامی مانتے ہیں۔ سو پڑے مانیں۔ اسی کا ثبوت ہم کو دیں کسی عقلی یا نقلی دلیل سے ثابت کریں کہ متی مرقس وغیرہ الہامی تھے اور یہ کتابیں ان کے الہام سے ہیں و دونہ ! خرط القتاد۔ آیت قرآنی کو پیش کرتے ہوئے خیال کریں کہ دعویٰ کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے اناجیل موجودہ کے مصنفوں کے الہامی ہونے کا ہے اور دلیل سے حضرات موسیٰ اور مسیح کا الہام ثابت ہوتا ہے فآنیّٰ ھٰذا مِن ذاک۔ بعض عیسائی بھولے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی غرض سے کہا کرتے ہیں کہ اگر موجودہ اناجیل اصلی نہیں تو اصل لا کر دکھائو۔ ہم اس سے مقابلہ کر کے دیکھیں جبکہ تمہارا قرآن شریف ان کی شہادت دیتا ہے تو ان کا وجود بھی بتلائو کہ کہاں ہے؟ اس کا جواب ہے کہ اگر کوئی شخص جنگل میں کسی کو ایک چاندی کا ٹکڑہ دکھا کر کہے کہ یہ انگریزی روپیہ ہے وہ شخص بوجہ اس کے کہ اس پر انگریزی سکّہ نہیں اس سے انکار کرے تو شخص مدعی کا حق ہے؟ کہ اپنے عوٰے کی یہ دلیل بیان کرے کہ اگر یہ روپیہ نہیں تو اصلی روپیہ لا کر دکھائو۔ اس سے مقابلہ کرو تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون۔ اگر نہ ملے تو میرا دعوٰے ماننا ہوگا۔ ہرگز یہ کلام مدعی کا صحیح نہیں۔ کیونکہ اس کے انکار کی وجہ تو یہ تھی کہ چونکہ اس ٹکڑے پر جو نشان روپیہ بننے کے ہونے چاہئیں وہ نہیں اس لئے یہ ٹکڑا روپیہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اناجیل موجودہ کی نسبت بھی مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ قطع نظر ان کے موجودہ طرز کے چونکہ ان میں ایسے واقعات بھی درج ہیں جو حضرت موسیٰ اور مسیح کے زمانہ کے قطعاً نہیں ہوسکتے اس لئے ہم ان کو انجیل مسیحی نہیں مانتے۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ اصلی انجیل کلا یا جزء اً اسی میں ہوجیسے کہ بعض فقرات جو حضرت مسیح نے بطور وعظ کے فرمائے ہیں یہی بتلا رہے ہیں مگر چونکہ ایسے فقرات الہامی۔ مجموعہ غیر الہامی میں آکر وہی رنگ اختیار کرلیتے ہیں اس لئے ہم من حیث المجموعہ ان پر غیر الہامی کا حکم لگاتے ہیں پس اناجیل موجودہ کی مثال بالکل یہ ہوگی کہ ایک واعظ قرآن کریم کی ایک دو آیتیں پڑھ کر گھنٹہ دو گھنٹہ تک وعظ کہے۔ پھر ! یہ ایک محاورہ ہے جو مشکل کام پر بولا جاتا ہے۔ اسی وعظ کو کوئی شخص اوّل سے آخر تک کسی اخبار یا رسالہ میں چھپوا دے پس جیسا کہ یہ اخبار یا رسالہ الہامی نہیں ہوسکتا گو اس میں آیات قرآنی بھی ہیں۔ ایسا ہی اناجیل موجودہ الہامی نہیں جب تک کہ عیسائی اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ ان کے مصنف بھی الہامی تھے۔ ودونہ خرط القتاد۔ منہ تحقیق اس کی یہ ہے کہ ہر زمانہ میں دستور ہے کہ بزرگوں کے واقعات سب کے سب چاہے کیسے ہی ہوں مسلسل قلم بند کیا کرتے ہیں گو ان میں اس بزرگ کے معمولی مشاغل کھانا پینا چلنا پھرنا بھی کیوں نہ ہو پھر اسی پر بس نہیں بلکہ وفات اور بعد وفات کے حالات بھی درج کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) اور حضرت صلحائے امت وغیرہ بزرگان کی سو انح عمریاں اس کی شاہد عدل ہیں۔ ان وقائع کے جمع کرنے سے مصنفوں کی یہ غرض ہوتی ہے کہ جو واقعات ان بزرگوں کی زندگی کے یا بعد مرنے کے جو ان کے تعلق ہوں بعض کو بطور مسائل شرعیہ اور بعض کو بغرض رقت قلب بیان کریں۔ یہ خیال ان کو ہرگز نہیں ہوتا کہ ان بزرگوں کے الہامی واقعات ہی کو لکھیں یہی وجہ ہے کہ ایسی تصنیفوں میں ان واقعات کا ذکر بھی ہوتا ہے جو ان بزرگوں کے الہامی تو کجا اختیاری بھی نہیں ہوتے مثلاً سوتے وقت خراٹے مارنا یا بحرکت طبعی گاہے بلندی سے پستی میں گر پڑنا یا موت کے وقت بتقاضائے طبیعت اللہ کو ایلی ایلی کہہ کر پکارنا وغیرہ وغیرہ۔ پس اسی طرح حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کے خادموں نے بھی وہ واقعات جو ان صاحبوں کے سامنے بلکہ اس سے پہلے اور پچھلے جو ان سے متعلق تھے سب کو یکجا جمع کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح کے پیدا ہونے کے پہلے کے حالات اور بقول ان کے بعد وفات کے واقعات بھی اپنی تحقیق اور حافظہ اور سماع کے مطابق ایک ایک جگہ جمع کر کے کتابیں بنائیں جسے فی زماننا اناجیل کہتے ہیں آخر کار لوگوں نے انہی کو بایں لحاظ کہ مسیح کے واقعات بتلا رہے ہیں۔ حضرت مسیح کی انجیل سمجھ لیا۔ نہ اس خیال سے کہ مسیح کی زندگی میں ان پر نازل ہوئی تھی بلکہ اس خیال سے کہ مسیح کے حالات بتلا رہے ہیں۔ قربان جائیں سرور عالم سید الانبیاء فداہ روحی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جنہوں نے ابتدا میں اسی لحاظ سے کہ شائد لوگ میرے واقعات اور میرے کلام اور کلام الٰہی میں فرق نہ کرسکیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح مورو اعتراض بنیں۔ اپنی حدیثیں لکھنے سے بھی منع فرما دیا تھا۔ لیکن جب لوگوں کو اس امر کی تمیز بخوبی ہوگئی کہ واقعات نبویہ اور ہوں۔ کلام الٰہی اور۔ وحی متلو اور ہو۔ اور غیر متلو اور۔ تو پھر احادیث نبویہ کے لکھنے کی اجازت ! بخشی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مسلمانوں کے ہاں علوم حدیث اور ہیں اور علوم قرآن اور۔ نہ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاملہ گذرا۔ جس کا دفعیہ ان سے مشکل ہو رہا ہے۔ ہماری اس مفصل تقریر سے اس شبہ کا جواب بھی ہوسکتا ہے جو عیسائی قرآن کریم کے قصص بنی اسرائیل پر کیا کرتے ہیں کہ فلاں قصہ جو قرآن شریف نے بنی اسرائیل کا بیان کیا ہے۔ کتب سابقہ میں نہیں۔ فلاں واقعہ جس طرح کہ قرآن شریف نے بیان کیا ہے اسی طرح کتب سابقہ میں نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتابیں سب کی سب مجموعہ بائیبل مثلا ایک تاریخ کے ہیں پس کسی واقعہ کا ان میں نہ ہونا یا کسی قصہ کا ان میں قرآن کریم کے مخالف ہونا قرآن پر اعتراض نہیں لا سکتا۔ کیونکہ بہت سی کتب تواریخ کا یہی حال ہے کہ کوئی کسی واقعہ کو چھوڑ جاتا ہے کوئی کسی قصہ کو کسی طرح بیان کرتا ہے دوسرا کسی طرح۔ پس جیسا کہ ان میں احتمال اس امر کا ہوتا ہے کہ مؤرخ کو یہ واقعہ سرے سے ملا نہ ہو یا ملا تو ہو مگر اس نے اس کو صحیح یا اپنے مذاق کے مطابق نہ پایا ہو۔ یا ناتمام ملا ہو۔ اسی طرح جا معین بائیبل پر احتمال ہے کہ ان کو وہ واقعہ جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے نہ ملا ہوگا۔ یا ملا مگر ناقص یا غلط۔ ان کے ایسا ہونے سے قرآن الہامی پر شبہ نہیں آسکتا۔ ہمارے اس بیان کی شہادت یوحنا مؤلف انجیل بھی دے رہا ہے جو اپنی انجیل یوحنا میں لکھتا ہے :۔ ” پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جدا جدا لکھے جائیں تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں تو دنیا میں نہ سما سکتیں“ (کیا سچ ہے یا الہامی مبالغہ؟) (باب ٢١۔ فقرہ ٢٥) پس اگر ایک واقعہ کتب سابقہ میں نہیں اور قرآن کریم میں ہے تو اس کے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں ہوسکتی کہ چونکہ ان میں نہیں۔ اس لئے غلط ہے کیونکہ کتب سابقہ میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس امر کی دلیل تو بیشک ہے کہ ان کے مصنف کو یہ واقعہ نہ ملا ہو یا اس کو حسب مذاق اپنا نہ سمجھا ہو مگر اس کی دلیل ہرگز نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہی نہ ہوا ہو۔ اس لئے کہ عدم علم سے عدم شیء لازم نہیں آتا۔ منہ ٢ ؎ سَوَائُ عَلَیْھِمْ بدل ہے صلہ (کَفَرُوْا) سے اور لَا یُؤْمِنُوْنَ خبر ہے ان کی۔ فاندفع ما اور داو کا دیرد۔ منہ فیہ اشارہ ! بخاری باب کتاب العلم۔ البقرة
2 البقرة
3 البقرة
4 البقرة
5 البقرة
6 البقرة
7 اب انکی ایسی بری حالت ہے کہ کوئی سچی بات انکے ذہن تک رسائی کر ہی نہی سکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں کو قبو لیت حق سے اور کانوں کو حق سننے سے بند کردیا اور انکی آنکھوں پر پردہ ہے پس تینوں طریق انسان کی ہدایت کے ہوتے ہیں سو اللہ تعالیٰ نے انکی سر کشی اور لا پر واہی کے سبب سے تینوں کو بند کردیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ چونکہ یہ لوگ بڑے معاند اور مفسد ہیں قیا مت کے دن انکو عذاب بھی بڑاہی ہوگا۔ (خَتَمَ اللّٰہُ) اس مقام پر بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ جب خود اللہ ہی نے ان کافروں کو گمراہ کیا اور ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھیں بند کردیں تو پھر ان کا قصور کیا؟ ایسے لوگوں کو عذاب کرنا انصاف سے دور ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں چونکہ یہ پہلی آیت ہے اس لئے ہم اس کے حاشیہ میں کسی قدر مفصل لکھیں گے اور پھر موقع بموقع اس کے حوالہ ہی پر قناعت کر جائیں گے مگر تحقیقی جواب سے پہلے یہ بتلانا ضروری ہے کہ اسلام کے قدیمی مہربان عیسائیوں نے اس مسئلہ کے متعلق جو زبان درازیاں کی ہیں بالکل انصاف سے بعید اور فہم کلام سے دور ہیں اور ان جنٹل میں عیسائیوں کی ایمانداری کا پورا ثبوت ہے۔ کہ انہوں نے اس معاملہ میں سونکن کے جلانے کو اپنی ناک کی بھی پرواہ نہ کی۔ قرآن کریم کی ان آیات پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ہاں کی بھی خبر نہ لی کہ تورٰیت انجیل نے بھی اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر بوضاحت لکھا ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج باب ٤ کے فقرہ ٢١ میں ہے :۔ عیسائیوں کی دوسری غلطی : ” اللہ نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ جب تو مصر میں داخل ہو دے تو دیکھ سب معجزے جو میں نے تیرے ہاتھ میں رکھے ہیں فرعون کے آگے دکھلائیو۔ لیکن میں اس کے دل کو سخت کروں گا وہ ان لوگوں کو جانے نہ دے گا “ ایضاً ١٠ باب کے فقرہ ٢٧ میں لکھا ہے :۔ ” اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا۔ اس نے ان کا جانا نہ چاہا “ ایضاً ١١ باب کا فقرہ ١٠:۔ ” موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) نے یہ عجائب فرعون کو دکھائے اور اللہ نے فرعون کے دل کو سخت کردیا کہ اس نے اپنے ملک سے بنی اسرائیل کو جانے نہ دیا “ اسی طرح مقامات ذیل میں بھی اس مسئلہ کا ذکر ہے۔ بغرض اختصار ہم صرف نام بتلانے ہی پر قناعت کرتے ہیں :۔ استثناء ٢ باب کا فقرہ ٣٠۔ ایضاً ٢٩ باب کا فقرہ ٤۔ یشوع ١١ باب کا ١٠۔ قاضیون ٩ باب کا ٢٣۔ سلاطین ٢٢ باب کا ٢١۔ زبور ١٠٥۔ ٢٥۔ ایضاً ١٤٨۔ ١٦۔ مثال ١٦ باب کا ٤۔ یسعیا ٦ باب کا ٩۔ ایضاً ٢٩ باب فقرہ ٩۔ متی ١٣ باب کا ١٤۔ لوقا ٨ باب کا ١٠۔ یوحنا ٦ باب کا ٢٤ وغیرہ۔ پادریوںؔ نے اپنے ہاں کی تو خبر نہ لی۔ لی ہوگی تو اپنی کلیسا میں رسوخ بڑھانے کو ناحق اسلام سے الجھے۔ پس پادری لوگ تو جب تک ان مقامات مذکورہ کا جواب نہ سوچ لیں ہم سے مخاطب نہیں ہوسکتے۔ فماَ ھو جوابھم فھو جوابناَ۔ رہا یہ امر کہ ایسی آیات قرآنی کا کیا مطلب ہے اور اس سوال کا حقیقی جواب کیا ہے۔ سو اس کے جواب دینے سے پہلے ہم چند اصول بتلانا مناسب جانتے ہیں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ اوّل : سوائے اللہ کے دنیا میں کوئی خالق نہیں۔ دنیا میں کیا جوہر کیا عرض بغیر خلق الٰہی کے پیدا نہیں ہوسکتا+ دوم : اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے ہر ایک چیز کو اس نے ایک ہی آن میں جان لیا ہوا ہے خواہ وہ چیز ہزارہا سال بعد کیوں نہ پیدا ہو - سوم : اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے۔ اگر وہ چاہے تو مخلوق سے خلاف طبع کام بھی کرا سکتا ہے۔ چہارم : اللہ نے انسان کو ایسی طاقتیں دے رکھی ہیں کہ اگر ان کو استعمال کیا جائے تو ترقی پذیر ہوئی ہیں اور اگر مہمل چھوڑی جائیں تو بیکار بلکہ قریب زوال بھی ہوجاتی ہیں۔ پنجم : کسی شخص کی نسبت قیافہ شناسی یا کسی اور وجہ سے پیشگوئی کرنا اس کو مجبور نہیں کرنا۔ ششم : انسان کو اللہ نے کسی قسم کی تمیز اور قدرت ضرور دے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات سے ممتاز ہو کر اشرف المخلوقات ہوا۔ ہفتم : کسی بیمار صاحب الفراش کا کسی برے کام میں چل کر شریک نہ ہونا اس کی مدح کا باعث نہیں ہوسکتا۔ پسؔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انسان جو قوانین الٰہی بلکہ قوانین شاہی کا بھی مکلف ہوتا ہے اسے ان احکام کے ادا کرنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔ بیشک بموجب اصول ششم ہے مگر خانہ زاد نہیں کسی کی دی ہوئی ہے اور وہ طاقت بموجب اصول چہارم اس قابل ہے کہ اسے کام میں نہ لایا جائے تو بیشک تنزل پذیر ہوتی ہے بلکہ اگر ایک مدت تک مہمل ہی رہے تو قریب فنا بھی ہوجاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لئے ہم چوروں اور ڈاکوئوں کا حال تمثیلاً بتلاتے ہیں کہ زمانہ ابتدا میں ان کو بڑے بڑے کام کرنے کی جرأت نہیں ہوتی اس لئے کہ ان کے دل میں اس کام کے عیوب نمایاں اور اس کی پاداش کا ڈر ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ایک حد تک پہونچ کر ایسے ہوجاتے ہیں کہ بے کس۔ مظلوم۔ یتیم۔ بیوہ عورتوں کا مال بھی اگر ملے تو نہیں چھوڑتے۔ وجہ اس کی بغیر اس کے کیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی عطاء کردہ طاقت سے کام نہیں لیا۔ جو آخر کار رفتہ رفتہ ایسی ہوگئی کہ گویا معدوم ہے مگر دراصل معدوم نہیں بلکہ مغلوب ہے۔ اسی مغلوبیت کو اس آیت میں ختم اللّٰہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بموجب اصول سوم اگر اللہ چاہے تو ان کو بھی ہدایت کر دے اور ان کو ان کی بے جا حرکتوں سے جو مثل طبعی کے ہو رہی ہیں جبراً روک دے۔ انہی معنے کی طرف آیات وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا+ وَلَوْ شَآَئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْا+ وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَآ اَشْرَکُوْا وغیرہ میں ارشاد فرمایا اور اگر انسان اپنی مغلوب طاقت سے کچھ کام لینا چاہے تو اللہ تعالیٰ بھی بموجب اصول چہارم اس پر نظر رحمت کرتا ہے۔ وَیَھْدِیْٓ! اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ یہی بتلا رہا ہے اور اگر توجہ ہی نہ ہو تو مطابق اسی اصول مذکور کی دن بدن حالت ردی اور ابتر ہوتی جاتی ہے ذٰلِکَّ" بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ اور فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ اسی مطلب کو واضح کرتی ہیں۔ رہایہؔ سوال کہ انسان کا قصد کون پیدا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب بموجب اصول ششم یہ ہے کہ اللہ نے جو انسان کو تمیز دے رکھی ہے اسی تمیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کو انسان ایک طرف اپنے اختیار سے لگا لیتا ہے اسی کا نام قصد ہے۔ اگر کہا جاوے کہ اللہ اس کے بد ارادوں کو روکتا کیوں نہیں تو اس کا جواب بموجب اصول ہفتم یہ ہے کہ اس صورت میں انسان کسی مدح کا مستحق نہیں ہوسکتا بلکہ ” عصمت بی بی ست از بے چادری“ کا مصداق۔ علاوہ اس کے اگر اللہ انسان کو بد ارادوں سے جبراً روک دے تو ایمان بالجبر کس کا نام ہے یہی تو محل نزاع ہے۔ اگر یہ سوال ہو کہ انسان کے دل میں ایسے خیالات جن کو وہ اپنے اختیار اللہ سے قصد اور ارادہ تک پہونچاتا ہے کون ڈالتا ہے انسان کا تو کام نہیں۔ بسا اوقات ہمیں بلا اختیار جی میں ایسی باتیں آجاتی ہیں جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کے خیالات اللہ ہی ڈالتا ہے۔ اَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا اس کا مثبت ہے مگر اتنی ہی حد تک جو اس کے بس میں نہیں۔ انسان پر کوئی عذاب بھی نہیں۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حد تک نیک خیال پر اجر بھی ملتا ہے ہاں جب اس سے بڑھ کر انسان اس خیال کو قصد تک پہونچاتا ہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے۔ جو ہونا چاہیے۔ اگر سوال کیا جائے کہ اس حدیث کے اور اس کی ہم معنے آیتوں کے کیا معنے ہوں گے؟ جن میں صاف آیا ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ خواہ خصی ہوجائو یا نہ ہوجائو جو زنا تمہاری قسمت میں لکھا ہوگا وہ تم سے ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی انتظام کرے گناہ مقدر سے بچ نہیں سکتا۔ تو اس کا جواب بموجب اصول دوم و پنجم یہ ہے کہ بیشک ایسا ہی ہوتا ہے مگر ایسا ہونا انسان کو مجبور نہیں بناتا بلکہ یہ تو با اختیار بناتا ہے۔ ہاں اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور حقانیت ضرور ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ اپنے نوکر کو حکم کرے کہ کل صبح چھ بجے میرے پاس حاضر ہوجیؤ۔ اتفاق سے بادشاہ اس وقت اپنے مقام معہود پر نہ تھا۔ نوکر نہ اس خیال سے کہ بادشاہ وہاں نہیں ہے بلکہ اس کی موجودگی کے علم پر بھی نہ آیا تو کیا وقت مواخذہ نوکر کا یہ عذر ہوسکتا ہے؟ کہ آپ اس وقت دربار میں نہ تھے۔ اس لئے میں نہ آیا۔ اگر کہے تو بادشاہ اس کا جواب یوں دے گا کہ گو میں اپنے دربار میں نہ تھا لیکن تم نے تو غیر حاضری اپنے قصد سے کی تھی پس اس کی سزا تم کو ملے گی۔ اسی طرح انسان بھی جو کچھ کرتا ہے اس کے مقدر میں ہوتا ہے مگر کرتا تو اپنے اختیار سے ہے اس سے اختیار ثابت ہوتا ہے نہ جبر۔ اسی کے مطابق ارشاد وارد ہے وَلَقَدْ#ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا۔ اگر یہ سوال ہو کہ اس آیت مَنْ یَّھْدِی۔ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُتْہَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا کے کیا معنے ہوں گے؟ اس سے تو صاف ثابت ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کی ہدایت اگر ہم چاہتے تو سب کو ہدایت کردیتے۔ ! اللہ اپنی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس کی طرف جھکتا ہے۔ " کیونکہ انہوں نے سرکشی کی۔ جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے۔ # اللہ نے بہت سی مخلوق جہنم کے لئے بنائی ہے۔ ۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو اس کا کوئی حمائتی نہ ہادی ہوگا۔ سے کوئی بھی ہدایت نہیں پا سکتا۔ اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی بھی ہدایت نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ سب کچھ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے تو اس کا جواب بموجب اصول اوّل یہ ہے کہ جو چیز دنیا میں پیدا ہوتی ہے خواہ وہ جوہر ہو یا عرض۔ بغیر مشیت اور ارادہ الٰہی کے ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت اور ضلالت بھی دنیا میں اعراض سے ہیں تو پس ان کے وجود کی بابت اگر یوں ارشاد ہو کہ بدون ہماری مشیت اور ارادہ کے نہیں ہوسکتے جیسے اور چیزیں تو اس میں کیا موقع اعتراض یا اشتباہ ہے؟ پس اس آیت کریمہ کے معنے بالکل روشن اور واضح یوں ہوئے کہ گو تم اپنے ارادہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طرف متوجہ ہو لیکن جس کی ہدایت کو ہم ہی پیدا کریں اور وجود دیں وہی ہدایت پر آسکتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے ارادے سے گمراہی کی طرف جھکے اور اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی وجود پذیر بھی ہوجائے تو پھر کوئی نہیں جو اس کو ہدایت دے سکے اس لئے کہ بجز ذات پاک کوئی دوسرا خالق ہی نہیں جو ضلالت موجود کو فنا کر کے ہدایت پیدا کردے۔ یہ امر بالکل واضح ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایسی آیتیں ہی کیوں نازل فرمائیں؟ جن سے کہیں تو گمراہی کو شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا اور کہیں اپنی طرف کیا جس سے کئی قسم کی غلط گمانیاں پیدا ہوگئی۔ ایکؔ تو یہ کہ گمراہ کرنے والا اللہ کو سمجھ گئے۔ دومؔ یہ کہ اس میں شیطان کو بھی اللہ جیسا اختیار ثابت ہوا حالانکہ بحیثیت تعلیم اسلامی یہ دونوں خیال غلط ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں کہیں گمراہی کو اپنی طرف نسبت کیا ہے اس سے تو مجوسیوں اور مشرکوں کو تغلیط کرنی منظور ہے جو اس بات کے قائل تھے کہ دنیا میں خیر جس میں ہدایت بھی داخل ہے ایک اللہ پیدا کرتا ہے اور شر جو گمراہی کو بھی شامل ہے دوسرا اللہ بناتا ہے اس لئے وہ دو الہٰوں اھرمنؔ اور یزدانؔ کے قائل تھے چونکہ یہ عقیدہ جیسا کہ سب انبیاء کی تعلیم کے خلاف تھا ویسا ہی عقل سلیم کے بھی مخالف تھا اس لئے قرآن کریم نے اس باطل عقیدہ کے رد کرنے کو صاف اور صریح الفاظ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ کی منادی کرا دی۔ ہدایت اور اضلال کے معنے اس سے پہلے ہم بتلا آئے ہیں اور جہاں کہیں شیطان وغیرہ کی طرف نسبت کیا ہے وہ حسب محاورہ سبب کی طرف ہے نہ کہ اصلی فاعل کی طرف جیسے کہ انبت الربیع البقلَ (موسم نے بہار لگا دی) بولا کرتے ہیں۔ اب ہم بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس امر کی تکذیب بھی کی ہے کہ انسان کو بالکل بیکار کاٹھ کی پتلی مثل حجر شجر کے مانا جائے۔ کفار نے یہ سن کر کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے ارادے سے ہوتا ہے اپنی پاکدامنی پر اس سے حجت پکڑی وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا نَحْنُ وَلَآ اٰبَآئُ نَا زبان پر لائے۔ چونکہ یہ بے سمجھی کی بات تھی نیز ایک کافر فاسق کو ایک قسم کا بہانہ تھا اسی لئے اس کے جواب میں وہ الفاظ استعمال کئے جن سے سخت اور نہ ملیں کَذٰلِکَ ! کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہہ کر اس نافہمی پر ناراضگی ظاہر فرمائی۔ پس اگر قرآن کریم کی تعلیم کا یہی منشا ہوتا کہ انسان اپنے افعال میں اپنے ارادے میں اپنی حرکات میں مثل جمادات کے ہے تو اس کا ایسے شدو مد سے رد نہ فرماتے بلکہ موقع غنیمت سمجھ کر کہ ہمارے ہم خیال ہوئے جاتے ہیں اس کی تائید کرتے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے ایسا کیوں نہ کیا کہ سب مخلوق نجات پاتی؟ دنیا میں جس قدر مذاہب مختلف ہیں یقینا بعض ان میں سے غلطی پر ہیں پھر ان کی نجات کا بھی تو کوئی ذریعہ ہونا چاہئے تھا۔ آخر وہ بھی تو اسی کی مخلوق ہیں۔ مانا کہ اللہ نے ہدایت کی راہ سب کو دکھائی اور جیسا کہ ثابت ہوا انسان اپنے ہی ارادہ سے غلطی کرتا ہے مگر کوئی صورت ایسی کیوں نہ کی کہ سب کے سب مدامی عیش میں رہتے؟ اس کا جواب علاوہ اصول سابقہ کے اور دو اصول پر مبنی ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو ہم نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے۔ ! اسی طرح پہلے لوگوں نے جھٹلایا تھا۔ البقرة
8 اور تیسری قسم عام انسانوں میں بعض لوگ ایسے ہیں جو مسلمانوں سے رسوخ پیدا کرنے کو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ باتیں انکی سب زبانی ہی ہیں اوپر سے چاپلوسی کرتے ہیں حالانکہ دل سے ان کو ایمان نہیں ایسے بد معاش مطلب کے یار ہیں اگر ہوسکے تو اللہ کو بھی فریب دیے جائیں چنانچہ یہ کاروائی ان کی دیکھنے سے دانا صاف جان جائیں گے کہ گو یا اللہ کو دھو کہ دیتے ہیں کیونکہ ایمان کا اظہار کرنا اور اندر کفر چھپانا اس لئے ہے کہ اللہ ان کے ظاہری ایمان کو دیکھ کر ان سے مومنوں کا سا معاملہ کرے ہرگز نہیں اللہ تو عالم الغیب ہے البتہ عام مسلمانوں کو جو غیب نہیں جانتے دھوکہ دیتے ہیں اور ان سے جو مطلب نکالنا ہو نکال لیتے ہیں مگر جان رکھیں کہ درحقیقت اپنی جانوں ہی سے فریب کرتے ہیں کیونکہ اس کا وبال آخر کار انہی کی جانوں پر ہوگا لیکن اپنی نادانی سے سمجھتے نہیں بھلا وہ ضرر کو سوچیں بھی کیا ؟ ان کے دلوں میں تو بیماری ہے۔ اور اللہ حکیم نے مطلق کی بتلائی ہوئی دوا قرآن مجید کو استعمال نہیں کرتے پس اللہ نے بھی ان کی بیماری زیادہ کردی یہ نہ جانیں کہ اس دوا کرنے سے نہ چھوٹ جائیں گے جس چیز کی چند صفات ہوں اس کی ہر صفت کا ظہور ضروری ہے خواہ وہ صفات متضاد ہی کیوں نہ ہوں اپنے اپنے موقع ہر سب کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ جیسے انسان کی صفات اٹھنا۔ بیٹھنا۔ بولنا۔ سکوت کرنا۔ چلنا۔ ٹھیرناوغیرہ ہر ایک صفت باوجود تضاد کے اپنا اپنا اثر دکھا رہی ہے۔ ! اللہ تعالیٰ جیسا خالق، مالک، رحیم، عادل، کامل ہے ویسا ہی اس کا غضب بھی اعلیٰ درجہ کا ہے جس کی برداشت ممکن نہیں۔ بلکہ جس قدر صفات کاملہ مخلوق میں پائی جاتی ہیں سب کی سب ذات باری جل مجدہٗ کی صفات کاملہ کے نمونے ہیں۔ پسؔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صفت خلق (پیدا کرنے کی) تو خلقت کے پیدا کرنے سے ظاہر ہوئی لیکن اتنی ہی بات سے باقی صفات کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب تک کہ ان کے آثار بھی نہ پائے جائیں چونکہ وہ صفات بظاہر کسی قدر متضاد بھی ہیں اس لئے اللہ عالم جل مجدہٗ نے جو بڑا عالم الغیب ہے ان صفات کے ظہور کے لئے جیسے کہ صفات مختلف نہیں ویسے ہی طریق اظہار بھی مختلف ایجاد کئے ایک طرف شیطان اور شہوات نفسانیہ پیدا کیں۔ جو لوگ ان کے پیچھے چلیں وہ مورد غضب بنیں۔ چونکہ بلحاظ انسانی طبائع کے قریب قریب تمام لوگوں کا اس میں پھنس جانا بھی کچھ مشکل نہ تھا۔ اور یہ طریق صفت عدل کے مخالف تھا۔ اس مخالفت کے دور کرنے کو اللہ نے انبیاء علیہم السلام بھیجے اور قویٰ ملکوتیہ کو پیدا کیا۔ جن سے انسان اپنے نفع نقصان کو سوچے۔ بعد سوچ کے موافق ارشاد انبیاء علیہم السلام سیدھی راہ پر چلے تو صفت عدل کا تقاضا پورا ہو۔ کہ وعدہ الٰہی کے موافق انعام اکرام کا مستحق ٹھیرے۔ رہا تقاضا رحم سو اس طرح پورا کیا کہ جو لوگ بعد قصور اپنے آپ کو نادم کریں اور اللہ کے آگے گڑگڑائیں۔ یا باوجود تقصیرات کے کسی ضروری حکم کی تعمیل کرچکے ہوں تو ان کو یا تو بغیر کسی مواخذہ کے معافی دی جائے یا بعد کسی قدر مواخذہ کے چھوڑا جائے بلکہ بعض بوجہ اخلاص کامل کے مورو انعام بھی ہوں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ تمام سلسلہ ظاہری اور باطنی دراصل صفات اللہ کے آثار ہیں اور ایسا ہونا بھی ضروری تھا۔ اس ہمارے تقریر سے اس شبہ کا بھی جواب آگیا جو عوام لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو کیوں پیدا کیا انبیاء کو کیوں بھیجا؟ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ صفات اللہ باوجود تضاد کے اس طریق سے سب کی سب پوری ہوجاتی ہیں نہ جیسا کہ عیسائیوں نے غلط فہمی سے اللہ کے عدل کو پورا کرنے کے لئے مسیح کا کفارہ تجویز کیا۔ جو بجائے عدل کے سراسر ظلم ہے۔ وللبحث مقام اٰخر (منہ) البقرة
9 البقرة
10 البقرة
11 البقرة
12 البقرة
13 البقرة
14 البقرة
15 البقرة
16 البقرة
17 البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 البقرة
21 (21۔25)۔ اب ہم تمہیں ١ ے۔ لوگو ! ایک ضروری امر بتلاتے ہیں زرا دل کے کان لگا کر سنو ! اور اس کی تعمیل بھی کرو۔ وہ یہ کہ تم اپنے مولا کریم کی صدق دل سے عبادت کرو اور اسی سے اپنی مرادیں مانگو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ اس پیدا کرنے کے شکر میں نہ سہی اس خیال سے کر وکہ شائد تم اس کے عذاب سے جو گردن کشوں پر آنیوالا ہے بچ جاؤ۔ بھلا ایسے مالک کی عبادت سے منہ پھیرنا کیسی نادانی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مثل فرش کے بنایا جہاں چاہو سورہو جہاں چاہو لیٹ رہو باوجود اس کے اگر کھیتی بھی چاہو تو کرسکو چنانچہ کرتے ہو اور آسمان کو مثل چھت کے سجایا اور علاوہ اسکے ہمیشہ تمہارے لئے بادلوں سے بارش اتارتا ہے۔ پھر اس بارش کے پانی کے ساتھ تمہارے لئے ہر قسم کے میوہ جات سے رزق پیدا کرتا ہے۔ پس جبکہ وہ ذات پاک ان سب کاموں میں اکیلا خود مختار ہے تو تم بھی دیدہ دانستہ اس اللہ کے لئے شریک نا بناؤ اور ہماری رضا جوئی ہمارے رسول کی معرفت سیکھو اور اگر تمہیں بوجہ غلط فہمی یا سوء ظنی کے اس کتاب کی سچائی میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بزریعہ وحی نازل کی ہے۔ تو اس غلطی کا دفعیہ یوں ہوسکتا ہے کہ چونکہ تم بھی اس جیسے آدمی ہو تمہاری انسانیت اور اس آدمیت میں کوئی فرق نہیں ظاہر تعلیم و تعلم میں بھی وہ تم لوگوں پر مزیت نہیں رکھتا۔ سو تم بھی اس جیسا ایک ٹکڑہ بنالاؤ اور سوا اللہ کے سب اپنے مددگاروں کو بلالو جو اس امر میں تمہاری مدد کریں اور تم کو اس مقابلہ میں کامیاب کرائیں اگر اس دعوٰی میں سچے ہو کہ اس رسول نے آپ ہی آپ بغیر الہام الٰہی کے کتاب بنالی ہے۔ تو ضرور مقابلہ پر آؤ۔ پس باوجود اس ابھارنے کے نہ کرو اور ہم تو ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ تم نہ کرو گے پس باوجود عاجز آنے کے تو عناد سے باز آؤ اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن مشرک آدمی اور ان کے جھوٹے معبودوں، بتخانوں اور قبروں کے پتھر ہونگے جن سے تمام عمر ان کی منتیں مانگتے ہی گزری ہوگی وہ بھی ان کے ہمرکاب بھڑکتی جہنم میں ہونگے اب تم اس کی گرمی کا اندازہ خود ہی کرلو۔ کہ دنیا کی آگ میں جب پتھر ڈالے جائیں تو سرد ہوجاتی ہے مگر وہ آگ اس غضب کی ہوگی کہ اس میں ایسی چیزیں مثل ایندن کے کام دینگی کیوں نہ ہو جبکہ تیار ہی کی گئی ہے کافروں گردن کشوں کے کئے تو اس کی اس درجہ حرارت بھی مناست ہے۔ پس تو اے پیغمبر ایسے سرکشوں مفسدوں سے منہ پھیر اور جو لوگ ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں ان کو مژدہ سنا۔ کہ ان کے لئے اللہ کے ہیں باغ ہیں جن کے مکانوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہ ان باغوں میں نعمتوں کی ایسی کثرت میں ہونگے کہ کثرت اقسام کی وجہ سے جب کبھی انکو کوئی پھل کھانے کے لئے ملے گا، وہ بوجہ مغائرت قلیلہ کے کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں ابھی ملا تھا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انکو ملتا جلتا ہی ملے گا صورت میں مشابہ ہوگا۔ بھر یہ نہیں کہ اس عیش وعشرت میں تجرد کی وجہ سے انکو تکلیف ہوگی بلکہ ان کے لئے ان باغوں میں بیویاں بد اخلاقی وغیرہ سے پاک ہوں گی۔ اور خاوندوں کی بڑی پیاری یہ بھی نہیں کہ ایسی نعمتوں میں چند روزہ ہی رہیں گے۔ بلکہ وہ ان باغوں میں ہمہشب رہیں گے۔ (ایک ٹکڑا بنا لائو) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ قرآن کریم کی صداقت بیان فرماتا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر تم کفار مکہ وغیرہ اس قرآن کو سچی الہامی کتاب نہیں مانتے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی بنا لائو اگر نہ بنا سکو اور یقین ہے کہ نہیں بنا سکو گے حالانکہ تم بھی اسی رسول محمدﷺ کی طرح آدمی ہو۔ بلکہ اس سے کسی قدر دنیاوی معاملہ فہمی میں زیادہ واقف۔ تو پھر کیا وجہ کہ وہ بنا سکے اور تم نہ بنا سکو بیشک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی طاقت تم سے زیادہ ہے جو تم میں نہیں۔ وہ وہی ہے مایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی یہ خلاصہ ہے اس آیت کی تقریر کا۔ سر سید کی دوسری غلطی : رہیؔ یہ بحث کہ مثل سے کیا مراد ہے سو اس کے متعلق بیان کس قدر بسیط چاہیے۔ پہلے ہم مفسرین کی رائے دریافت کرتے ہیں پھر ان میں جس رائے کو بقرائن قرآنیہ مرحج سمجھیں گے ترجیح دیں گے۔ مفسرین تو سلفاً و خلفاً اس پر متفق ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی البلاغت ہے۔ تفسرا کبیر الوسعود۔ فتح البیان۔ ابن کثیر۔ کشاف۔ معالم۔ بیضادی۔ جامع البیان۔ جلالین۔ کو اشی وغیرہ سب کے سب متفق ہیں کہ مثل فی البلاغت مراد ہے۔ مگر سرسید نے اس مسئلہ میں بھی سب کا مقابلہ کیا ہے۔ کہتے ہیں :۔ ” مثلیت قرآن کی فصاحت بلاغت کے لحاظ سے نہیں“ گویہ بھی مانتے ہیں کہ :۔ ” قرآن مجید بیشک بہت بڑا فصیح ہے مگر اس کی فصاحت کی بے نظیری اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی اس لئے کہ بہت سے کلام دنیا میں بے نظیر ہیں مگر وہ من اللہ نہیں ہوسکتے۔ اور نہ قرآن میں اس کا کوئی اشارہ ہے کہ مثلیت سے مراد فصاحت ہے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مثلیت سے مراد ہدایت مثلیت ہے۔ سورۃ قصص میں فرمایا کہ ” کافروں سے کہ دی کہ تورٰیت اور قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی کتاب لائویں اس کے پیچھے چلوں گا“ پس ثابت ہوا کہ قرآن گو کیسا ہے فصیح ہو مگر جو معارضہ ہے وہ اس کے ہادی ہونے میں ہے۔ ہاں فصاحت بلاغت اس کو زیادہ روشن کرتی ہے“ (تفسیر احمدی جلد اوّل صفحہ ٣٠٣) پسؔ پہلے ہم ان آیتوں میں قریتہ تلاش کرتے ہیں جن میں معارضہ چاہا گیا ہے۔ تاکہ سید صاحب کے قول (نہ آیت قرآنیہ میں اس کا کوئی اشارہ ہے) کی تصدیق یا تکذیب ہوسکے۔ علاوہ اس آیت سورۃ بقرہ کے سورۃ یونس میں ارشاد ہے : اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ ہود میں فرمایا اَمْ ! یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہٌ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیَاتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ" الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰیٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔ اس میں تو شک نہیں کہ یہ آیات تحدی سب کی سب اس پر متفق ہیں کہ کفار عرب کے مقابلے اور ان کے عاجز کرنے کو نازل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف مخاطبوں ہی کو نہیں بلکہ تمام ان کے اعوان اور انصار کو اس میں دعوت دی گئی ہے کہ مل کر مقابلہ پر آئو اور ساتھ ہی اس کے پیش گوئی بھی ہو رہی ہے کہ نہ کرسکو گے پڑے ایک دوسرے کے مددگار بھی بنو کچھ نہ بن سکے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ مقابلہ میں ایسی باتوں کا ذکر کہ تم سب کے سب مل کر اتفاق بھی کرلو تو بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکو گے وہاں بھی مناسب ہوتا ہے کہ جس امر پر اتفاق کرنے سے فریق مقابلہ کو بھی کچھ امید کامیابی ہوجیسا کہ ایک بڑی زبردست سلطنت ماتحت ریاستوں سے مقابلے کے وقت کہے کہ تم سب کے سب بھی متفق ہوجائو۔ تو بھی تم ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے نہ کہ ایسے امر کی نسبت ان کا اتفاق ذکر کر کے دھمکی دی جاتی ہے کہ جس امر کے حصول کی نسبت ان کو بعد اتفاق بھی وہم و گمان نہ ہو کجا وہ امر کہ اس کے حصول ہی کو برا سمجھیں پس بعد اس تمہید کے ہم دیکھتے ہیں کہ کفار عرب کو یہ جتلانا کہ تم سب کے سب مل کر بھی اس سورت بنانا چاہو تو نہ بنا سکو گے کیا معنے رکھتا ہے؟ اگر مثلیت سے مراد ہدایت میں مثل ہوجیسا کہ سید صاحب کہتے ہیں تو کلام بالکل بے معنے ہے۔ اس لئے کہ ان کا خیال ہی نہ تھا کہ ہم اتفاق کرلیں تو قرآن جیسی ہادی کوئی کتاب بنا لیں بلکہ ان کو تو قرآن کی ہدایت سے سخت نفرت تھی۔ بار بار یہی کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل ڈال۔ کوئی اور کتاب ہمارے پاس لا۔ یہ تو اچھا نہیں۔ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اس کی تکذیب کی وجہ معقول ان کے نزدیک ہی تھی کہ اَجَعَلَ اْلاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ پس ایسے لوگوں کے سامنے جو اس کتاب کی ہدایت سے بیزار اور سخت متنفر ہوں اور یہی وجہ ان کی نفرت کی ہو۔ اور کبھی اس کی ہدایت کو پسند نہ کریں اور کبھی اس جیسی ہادی بنانے کی طرف رخ نہ لادیں۔ ایسے لوگوں کو کیا کافر کہتے ہیں کہ رسول نے قرآن کو خود بنا لیا ہے تو کہہ اس جیسی ایک سورت تو لائو اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔ ! کیا کافر کہتے ہیں کہ قرآن اس جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں تو لے آئو اور اللہ کے سوا جن کو چاہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔ " تو کہہ اگر تمام انسان اور جن بھی جمع ہو کر اس قرآن جیسی کوئی کتاب لانا چاہیں گے تو اس جیسی نہ لا سکیں گے گو ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوں۔ یہ کہنا کہ تم سب کے سب مل کر اس کتاب جیسی کوئی کتاب ہادی انام بنا لائو اور ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی کردینا کہ ” ہرگز نہ لا سکو گے“ بالکل اس کے مشابہ ہے کہ جیسے کوئی ہندو بت پرست یا عیسائی تثلیث پرست کسی مسلمان کو (جو ان کی کتابوں سے ایسی ہی تعلیم کے سبب سے بیزار ہو) یہ کہے کہ اگر تو ہماری کتاب متضمن تعلیم بت پرستی اور تثلیث پرستی کو نہیں مانتا تو اس جیسی کوئی ہادی کتاب بنا لا اور ساتھ ہی اس کے یہ پیش گوئی بھی کرے کہ تو اور تیرے حمایتی ہرگز ایسی نہ بنا سکو گے‘ تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دانا اہل الرائے اس کی اس پیش گوئی کی کچھ وقعت کرے ہاں اس قائل کی حمایت کی دلیل کافی جانے گا۔ کیونکہ جو وجہ مسلمانوں کو اس کتاب کی تسلیم سے مانع ہے اسی قسم کی کتاب کا اس سے مطالبہ کرنا گویا ایک تکلیف بالمحال ہے اسی قاعدہ پر کفار عرب کا جواب پر آمادہ ہونا اور لَوْ لَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہنا صاف جتلاتا ہے کہ وہ اس کے طرز بیان کی نسبت معارضہ سمجھے تھے ورنہ یہ نہ کہتے اور ساتھ ہی اس کے اس آمادگی اور استعداد کی وجہ بھی بتلانا کہ اِنْ ھٰذَٓا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ بالکل واضح کر رہا ہے کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت نہیں۔ ورنہ ایسی مستعدی نہ بتلاتے بلکہ بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم تو اس قرآن کو اور اس کے مثل ہادی بنانے کو ہی کفر جانیں سونکن کے ساڑے اپنی ناک تھوڑی ہی کٹوانی ہے۔ نیز اس موقع پر کفار عرب کا کہنا کہ قرآن کا بنانا کیا مشکل ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں۔ قابل غور ہے اس لئے کہ ہدایت کی وجہ سے تو اس کو وہ بالکل نیا سمجھتے تھے مَا ! سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ المِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقْ صاف مظہر ہے کہ قرآن کو باعتبار ہادی ہونے کے ایک نئی چیز جانتے تھے بلکہ باعتبار ہادی ہونے کے موجب نفرت کہتے تھے۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے۔ کہ کفار عرب خود اس معارضہ کو باعتبار ہدایت نہیں جانتے تھے بلکہ باعتبار طرز بیان سمجھتے تھے جب ہی تو اس سہولت کی وجہ بتلانے میں حکایات سابقہ کہتے تھے ہاں سرسید نے جس آیت سورۃ قصص کا ذکر کیا ہے اور دلیل بیان کی ہے کہ مثل سے مراد ہادی ہے۔ ان کی نسبت حیرت افزاء ہے۔ سید صاحب نے (حسب دستور قدیم) یہ تو خیال نہ فرمایا کہ دعوٰی کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے مثلیت کا اور دلیل افضل کی اور وہ بھی من عند اللّٰہ۔ سید صاحب ! دعوٰے تو آپ کا یہ ہے کہ آیات تحدی میں جو معارضہ چاہا گیا وہ ہدایت میں ہے جس کی دلیل آپ نے یہ بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن اور تورات دونوں سے منہ پھیر کر (اے کفار مکہ) اپنے آپ ہی کو ہدایت پر جانتے ہو۔ اور ان دونوں کی تعلیم توحید کو غلط جانتے ہو اور ان کو بناوٹی کتابیں سمجھتے ہو اور خود دین الٰہی کے تابع کہلاتے ہو تو ان دونوں سے بڑھ کر کوئی ہادی کتاب اللہ کی طرف سے آئی ہوئی لاکر دکھائو۔ اگر وہ واقع میں اللہ کی طرف سے ہوئی تو میں اسی کے پیچھے ہو لوں گا۔ اس مضمون کو آیت تحدی سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ تو کفار کو صرف اس بات پر الزام دیا جاتا ہے کہ باوجود یکہ تمہارے پاس کوئی سمادی کتاب بھی نہیں۔ پھر بھی اس قدر مخالفت پر جمے ہوئے ہو کہ پناہ اللہ جیسا کہ کوئی بڑا واقف اسرار الٰہی اپنی کہتا ہوا دوسرے کی نہیں سنتا۔ پس اگر تم بھی دین سے ایسے ہی واقف اور آگاہ ہو تو اس کتاب الٰہی کو جس کے ذریعہ سے تمہیں ایسی آگاہی ہوئی ہے لا کر دکھائو۔ معلوم ہوجائے گا کہ حق بجانب کس کے ہے۔ اس مضمون کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ سورۃ قلم میں فرمایا اَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ اِنَّ لَکُمْ فِْیِہ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ سَلْھُمْ اَیُّھُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ پس اس آیت کو جس میں اَھْدی کتاب اور وہ بھی من عند اللّٰہ کی طلب ہے ان آیات کی تفسیر بنانا جن میں مثل کا معارضہ ہو۔ صریح غلط فہمی اور تفسیر الکلام بمَا لا یرضیٰ بہ قائلہ نہیں تو کیا ہے۔ بھلا اگر یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہوتی تو اس میں من عند اللّٰہ کا ؔ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام ہم بھی کہہ لیں یہ تو پہلے لوگوں کی صرف حکایتیں ہیں۔ ! ہم نے یہ (توحید) پہلی قوموں میں نہیں سنی یہ تو بالکل نہیں ہے۔ لفظ کیوں ہوتا؟ حالانکہ ان آیات تحدی میں کفار کی بنائی ہوئی کتاب کا مطالبہ ہے اور اس آیت میں (جو بقول آپ کے ان کی تفسیر ہے) اللہ کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کا تقاضا نہیں۔ تفاوت راہ از کجا ست تا بکجا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے ترجمہ میں من عند اللّٰہ کو (جس کے معنے اللہ کے پاس سے ہیں) اڑا دیا۔ کیونکہ آپ کے دعویٰ کو مضر تھا۔ حضرت ! قرآن کریم کا کوئی لفظ مضر نہیں۔ بلکہ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ہے۔ یہ تو انسان کی اپنی ہی غلط فہمی ہے۔ پس اصل مطلب ان آیات کا وہی ہے جو ہم نے بد لائل بینہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کی مثل سے مراد فصاحت بلاغت اور طرز بیان میں مثل ہے کہ مقدمات یقینیہ سے نتیجہ نکالنا اور ایسے طرز پر نتیجہ نکالنا کہ ہر مرتبہ کا آدمی اس سے مستفیض ہو۔ ذرہ سورۃ قیامت ہی پر غور کیجئے اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی دعویٰ ہے اَلَمْ یَکُ نُطْنَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُمْنَی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَاَلْاُنْثٰی دلیل بیان فرما کر نتیجہ پر اطلاع دیتے ہیں اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی اس دلیل پر جس مرتبہ کا آدمی غور کرتا ہے اپنی طبیعت کے موافق نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا باریک مسئلہ انسانی پیدائش اور معاد کا جس میں بڑے بڑے حکماء حیران پریشان ہیں ایسے سہل اور نرم الفاظ میں بیان کردیا کہ جن سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں۔ یہی قرآن کی اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے اور یہی اس کی فلاسفی۔ ہاں سرسید کا یہ کہنا کہ ” بہت سے ایسے کلام فصیح ہیں جن کی مثل بنایا نہیں گیا۔ مگر وہ من اللّٰہ نہیں ہوسکتے۔“ محض دعویٰ ہی دعویٰ اور مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہے۔ ورنہ کوئی کلام یا متکلم ایسا بتلا دیں؟ جس نے اہل زبان کے سامنے دعوٰے کیا ہو۔ نہ صرف دعویٰ بلکہ وَلَنْ تَفْعَلُوْا کے اعلان سے منکروں کی عاجزی کو دوبالا کردیا بجز اس ایک ذات ستودہ صفات آپ کے جدا مجد فداہ ابی و امی کے پس ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید بے مثل بلیغ کلام ہے۔ اس جیسا نہ کسی نے کلام بنایا نہ کوئی بنا سکے گا۔ نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا بھلا کیونکہ نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے البقرة
22 البقرة
23 البقرة
24 البقرة
25 البقرة
26 یہ نہ سمجھنا کہ ان کافروں سے اللہ کو خواہ مخواہ عناد ہے۔ بلکہ انہی کا قصور ہے کہ جب کبھی اللہ انکو شرک سے بچانے کے لئے کوئی بات بطور مثال کے کہتا ہے جیسے کہ ان مشرکوں کی مثال ہم نے ایک جگہ مکڑی سے دی ہے جو اپنا گھر بناکر اپنے زعم میں بڑا پنا ہگیر ہوجاتا ہے اور انکے معبودوں کی قدرت بتلائی ہے کہ اتنی بھی نہیں کہ سب کے سب مل کر ایک مکھی بھی بنا سکیں۔ ایسا ہی کہیں مچھر کی اور کہیں کسی کمزور جانور کی مثال دیتے ہیں تو یہ نادان بجائے ہدایت پانے کے الٹے ہم سے الجھتے ہیں کہ اللہ ان حقیر چیزوں کے نام ہی کیوں لیتا ہے؟ بھلا ان کے کہنے سے اللہ ہدایت کے لئے مثال بتانی بھی چھوڑ دیگا؟ ہرگز اللہ ہدائیت کے بتلانے سے نہیں روکتے۔ چھوٹی ہو یا بڑی مچھر کی ہو یا اس سے اوپر کی اس لیے کہ مثال تو صرف سامع کے سمجھانے کو ہوتی ہے اس میں کچھ متکلم کی شان کا لحاظ نہیں جو مثال مطلب بتانے میں مفید ثابت ہو وہی عمدہ ہے چاہے کیسی ہی حقیر اور چھوٹی چیز کی ہو۔ اسی بنا پر اللہ بھی سمجھانے کی غرض سے گاہے بگاہے کوئی مثال دیتا ہے پس جو لوگ مؤمن ہیں وہ تو جان جاتے ہیں کہ بے شک یہ مثال نہایت مناسب اور بالکل سچ ہے اور ان کے رب کی طرف سے بتلائی ہوئی ہے اور جو لوگ کافر ہیں بجائے ہدائیت حاصل کرنے کے الٹے یوں۔ کہنے لگتے ہیں کہ اللہ نے اس مثال بتلانے سے کیا چاہا جو مکھیوں اور مچھروں سے دیتا ہے ایسا عالیشان ہو کر ان خسیس اشیاء کا نام لیتا ہے آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس مثال کے ذریعہ اللہ بہتوں ان جیسوں کو ان کی بیجا نکتہ چینی کی وجہ سے گمراہ کردیتا ہے ان کو مطلقاً اس کا فائدہ سمجھ میں نہیں آتا اور بہت سے صاف باطن لوگوں کی راہ نمائی بھی کردیتا ہے نہ اس مثال کا قصور ہے نہ کسی اور کا بلکہ ان کی شامت اعمال سے ہے جب ہی تو سوائے ان فاسقوں بدکرداروں کے کسی دوسرے کو گمراہ نہیں کرتا۔ (ان کے لئے باغ ہیں) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر مجملاً بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی جگہ جنت دوزخ کا مذکور ہے جو بالکل کھلے کھلے لفظوں میں بیان ہوا ہے سب کی سب آیتیں اس پر متفق ہیں کہ قیامت کے روز انسان کو بشرط ایمان جنت یا دوسرے لفظوں میں باغ اور نعمتیں ملیں گی اور یہی مذہب تمام اہل اسلام کا ہے کسی معتبر فرقہ نے اس سے انکار نہیں کیا۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک سب کا اتفاق پایا جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس مضمون کی آیتیں اس قدر ہیں کہ بجائے خود جو ایک دفتر ہے مگر افسوس سرسدر احمد خاں مرحوم نے حسب دستور اس میں بھی مسلمانوں کا خلاف کیا ان کا خیال ہے کہ جنت میں ایسی نعمتوں کا ہونا صرف وہمی اور کوڑ مغز ملائوں اور شہوت پرست زاہدوں کے خیالی پلاؤ ہیں وہاں اس قسم کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ ایک روحانی لذت ہے جس کو کوئی نہیں سمجھتا۔ چنانچہ اپنی تفسیر جلد اوّل کے صفحہ ٣٨ پر لکھتے ہیں :۔ ” یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں باغ ہیں شاداب اور سرسبز درخت ہیں دودھ و شراب کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت چاندی کے کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے۔ ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے۔ ایک نے لب جاں بخش کا دبایں ریش (فش) بوسہ لیا ہے کوئی کسی کو نے میں کچھ کر رہا ہے۔ کوئی کسی کونے میں کچھ۔ بیہودہ ہے جس پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر بہشت یہی ہے تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“ (حوالہ مذکور) یہ ہیںؔ سید صاحب کے الفاظ شریفہ جن پر آپ کو اور آپ کے دل داروں کو بڑا فخر ہے کہ ہم محقق ہیں حالانکہ تحقیق اس کا نام نہیں کہ مخالفوں کے اعتراضوں سے دب کر اپنے مذہب کے مسلمات ہی سے انکار کیا جاوے جیسے کہ ایک بزدل کے مکان میں چور آگھسے اس بیچارے سے اتنا تو نہ ہوسکا کہ ان کا مقا بلہ کر کے اپنا مال بچائے مجبوراً اپنی ہمت کے موافق یہی مناسب جانا کہ گھر کا سارا اسباب چھوڑ کر بالکل علیحدہ ہوجائے تاکہ اس بلا سے نجات ہو۔ یہی حال سرسید کا ہے کہ مخالف ملحدوں کے اعتراض تو اٹھا نہ سکے ان کا تدارک یہی مناسب سمجھا کہ اپنے مسلمات ہی میں تصرف کیا جاوے۔ قرآن کریم تو بقول آپ کے جدا ١ ؎ مجد کے ساکت ہے جس طرف پھیریں اسے انکار نہیں۔ اسی قول پر آپ نے بنا کر کے جو چاہا کہہ دیا اور بعض سے منوا بھی لیا۔ مگر علماء کی تو یہ شان نہیں کہ ایسے مٹی کے کھلونوں سے کھیلتے پھریں۔ جب تک دلیل نہ دیکھیں آپ اپنے مذہب کی توضیح یا دلیل ان لفظوں میں فرماتے ہیں :۔ ” جنت یا بہشت کی ماہیت جو اللہ تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے کہ فَلَا تَعْلَمْ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک (راحت) چھپا رکھی ہے اس کے بدلہ میں جو وہ کرتے تھے۔ پیغمبر (علیہ السلام) نے جو حقیقت بہشت بیان فرمائی جیسا کہ بخاری مسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ قال اللّٰہ تعالیٰ اعددت لعبادی الصآلحین مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علٰے قلب بشر (صفحہ ٣٦) سید صاحب ! فرمائیے تو مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ مَّآ اُخْفِیَ کا بیان ہے یا کچھ اور؟ بیشک یہی ہے پس آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ جو ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپائی گئی ہے اس کو کوئی نہیں جانتا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ چھپی ہوئی چیز کوئی ایسی ہے جو دیکھنے سے راحت بخشتی ہوگی سو وہی ہے جس کو مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دیدار رب العالمین بتلایا ہے۔ بلکہ اس آیت کی تفسیر خود دوسری آیت ہی کر رہی ہے۔ دیکھے تو کس وضاحت سے ارشاد ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِۃٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٗ۔ شکر ہے کہ اس آیت میں بھی علام الغیوب نے مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ کا لفظ جوڑا ہوا تھا جس سے اہل انصاف ہمارے بیان کی تصدیق بخوبی کرسکتے ہیں پس اب اس آیت کو جو رویت کے متعلق ہے ان آیتوں کی تفسیر یا توضیح بنانا جن میں ایسی نعماء جنت مذکور ہیں جو نہ صرف دیکھنے سے متعلق ہوں گی (بلکہ دیکھنے سے تو ھٰذا ! الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ کہیں گے جو ایک قسم کی ناخوشی کا مظہر ہے۔ ہاں کھانے پینے سے بیشک تعلق رکھتی ہوں گی اور ان کی نسبت کُلُوْا وَاشْرَبُوْا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃٍ وَفَاکِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ وغیرہ ارشاد ہوتا ہے) غلط فہمی یا خلاف منشا متکلم کلام کی تفسیر نہیں تو کیا ہے؟ رہا سید صاحب نے جو حدیث نبوی سے استدلال پیش کیا ہے سو یہ اگر مطلب برآری اور الزام دہی کی غرض سے نہیں تو ہمیں حد سے زیادہ خوشی ہے کہ سید صاحب بھی حدیث نبوی کا نام لیں جس سے کو سوں دور بھاگا کرتے تھے۔ غالباً صفائی نیت سے بخاری مسلم یا مشکوٰۃ کی تلاش نہیں کی تھی جب ہی تو فہم مطالب میں غلطی کھائی۔ شکر ہے کہ اسی حدیث کے اخیر میں یہ بھی مرقوم ہے کہ اقرء وا ان شئتم فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (مشکوٰۃ باب صفۃ الجنہ صفحہ ٤٨٧) پس اس لفظ سے بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی اس آیت کی تفسیر ہے جس کو ہم ثابت کر آئے ہیں کہ وہ ان اشیاء سے متعلق ہے جو مشاہدہ اور روئت سے راحت بخش ہوں گی جیسے دیدار رب العالمین جس کی احادیث نبویہ میں تصریح اور قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ نہ ان اشیاء سے جو کھانے پینے سے لذت دیں گی جن کی بابت کلوا واشربوا ارشاد ہدایت بنیاد صادر ہوگا۔ پس اس سے بھی سید صاحب کا مدعا ہنوز و ربطن قائل ہے اسی مدعیٰ پر سرسید نے ایک اور روایت ترمذی سے نقل کی ہے۔ مگر چونکہ اس کی تلاش میں بھی اخلاص نیت نہ تھا۔ اس لئے اس کے معنے سمجھنے میں بھی غلطی سے محفوظ نہیں رہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :۔ ” اس امر کے ثبوت کے لئے کہ بانی مذہب کا ان چیزوں کے بیان کرنے سے صرف اعلیٰ درجہ کی راحت کا بقدر فہم انسانی خیال پیدا کرنا مقصود تھا۔ نہ واقعی ان چیزوں کا دوزخ و بہشت میں موجود ہونا ایک حدیث کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ جو ترمذی نے بریدہ سے روایت کی ہے اس میں بیان ہے کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ بہشت میں گھوڑا بھی ہوگا آپ نے فرمایا کہ تو سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہے گا اڑتا پھرے گا۔ پھر ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت ! وہاں اونٹ بھی ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ وہاں جو کچھ چاہو گے سب کچھ ہوگا۔ کئی منہ اس روز اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوئے خوش خرم ہوں گے۔ پس اس جواب سے مقصود یہ نہیں ہے کہ درحقیقت بہشت میں گھوڑے اور اونٹ موجود ہوں گے بلکہ صرف ان لوگوں کے خیال میں اس اعلیٰ درجہ کی راحت کے خیال کا پیدا کرنا ہی جو ان کے اور ان کی عقل و فہم طبیعت کے موافق اعلیٰ درجہ کی ہوسکتی ہے “ تعجبؔ بلکہ تاسف ہے۔ سید صاحب ! اب سو فسطائیہ کا زمانہ نہیں جو ایک اور ایک دو سے بھی انکاری ہوں۔ بھلا کوئی اہل عقل کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے جو آپ نے ایجاد کیا؟ اچھا اگر یہی مضمون بتلانا ہوتا کہ واقعی جنت میں گھوڑے اور اونٹ بھی ہوں گے۔ تو کس طرح اور کن لفظوں میں بتلاتے کوئی عبارت ایسی آپ ہی تجویز کریں جس سے یہ مطلب صاف صاف بلا تاویل سمجھ میں آوے۔ پھر دیکھیں کہ تفسیر الکلام بمالا یرضیٰ بہ قائلہ کس پر صادق آتا ہے۔ سید صاحب کی اس امر میں کہاں تک شکایت کی جائے۔ ماشاء اللہ بےدلیل کہنے کے آپ ایسے خو گیر ہیں کہ یہ عادت طبیعت میں پختہ ہوگئی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ دوسروں کو الزام لگانہ اور بدنام کرنے میں بڑے ہوشیار ہیں۔ کہیں ان کا نام کوڑ مغز ملا رکھا ہے۔ کہیں شہوت پرست کے لفظ سے عزت بخشتی ہیں کہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے مقلد بتلاتے ہیں۔ سچ ہے اور بالکل سچ ہے ؎ بلا سے کوئی اور ان کی بدنما ہوجا کسی طرح سے تو مٹ جائے دلولہ دل کا سید صاحب ! بھلا آپ جو اتنے ہاتھ پائوں جنت کی تاویل کرنے میں مارتے ہیں۔ براہ مہربانی پہلے یہ تو بتلا دیں کہ ایسی جنت کا ہونا جسے اہل اسلام عموماً مانتے ہیں جس کا فوٹو یہ ہے کہ ایک باغ (بلا تشبیہ) مثل شالا مار باغ لاہور کے ہو جس میں ہر قسم کے میوجات ہوں۔ اس میں نیک صلحا لوگ رہیں اور ان کی عافیت کو وہاں پر عورتیں پاکیزہ (جن کی صفت میں قاصرات الطرف ہے) بھی ہوں کسی دلیل عقلی یا نقلی سے محال ہے؟ اگر محال ہے تو براہ نوازش اور کرم گستری بیان کردی ہوتی۔ اگر آج تک نہیں کی تو کر دیجئے۔ اجی حضرت ! جس اللہ نے یہ نعمتیں ہم کو دنیا میں بلا کسی نیک کام کے عنایت کی ہیں۔ وہ کسی نیک کام کے عوض آخرت میں جسے روز انصاف آپ بھی مانتے ہیں اور واقعی ہے بھی۔ نہیں دی سکتا؟ یا دنیا میں دینے سے اس پر کوئی اعتراض اور اس کی قد و سیت کے خلاف نہ ہوا۔ مگر آخرت میں یہی نعمتیں مرحمت فرمائے تو وہ ذات ستودہ صفات محل اعتراض ہو؟ دنیا میں تو تجرد بلائے عظیم معلوم ہو اور اگر تاہل ہو تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کریں۔ مگر آخرت میں ان نعمتوں کا ملنا بجائے احسان کے اس منعم حقیقی کی ذات ستودہ صفات کی شان کے خلاف سمجھیں؟ واہ ہماری سمجھ ؎ گر ہمیں مکتب است وایں ملا کار طفلاں تمام خواہد شد اگر یہ ارشاد ہے کہ دلیل عقلی سے تو محال نہیں مگر چونکہ دلیل نقلی قرآنی سے اس کا ثبوت نہیں جیسا کہ آپ نے وجود ملائکہ کی نسبت عذر کیا ہے تو بسم اللہ لیجئے ایک نہیں بیسیوں‘ بیسیوں کیا سینکڑوں آیتیں اس مضمون کی چاہیں تو ہم سناتے ہیں سورۃ الرحمن ہی کی چند آیتیں سنئے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ الاٰیۃ سورۃ الواقعہ میں بھی مختصر سا جملہ اسی کے قریب قریب ہے اِنَّآ اَنْشَاْ نَاھُنَّ اِنْشَآئً الاٰیۃ فرمائے اس سے بھی کوئی صریح دلالت ہوگی۔ معلوم نہیں کہ باوجود اس قطعیت اور عدم مانع دلیل عقلی کے اس ایچ پیچ کرنے سے جو آپ کر رہے ہیں کیا فائدہ ہٹ چھوڑئے اب برسر انصاف آئے انکاری رہے گا مری جان کب تلک؟ اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ حشر اجساد کے قائل نہیں جیسے کہ اہل مکہ اس سے منکر تھے اور بار بار یہی مشکلات پیش کیا کرتے تھے۔ ئَ اِذَامِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًاط ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعْیِدٌ اسی لئے سید صاحب نعمائے جنت کے بھی منکر ہیں کہ روحانی زندگی سے روحانی نعمتیں مطابق ہوجائیں۔ پس ان آیتوں کی ذیل میں جن میں حشر اجساد کا ذکر آئے گا۔ ہم سید صاحب کی اس غلط بنا کی حقیقت کھولیں گے اور ثابت کریں گے کہ سرسید کی تاویل بناء فاسد علی الفاسد سے کم نہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ (منہ) جب کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں اور بت پرستوں کی تشبیہیں بغرض تفہیم بیان فرمائیں۔ کہیں مشرکوں کو مکڑی وغیرہ سے تشبیہ دی۔ کہیں معبودات باطلہ کی کمزوری بیان کرنے کو فرمایا کہ اگر مکھی بھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے بھی وہ چیز واپس نہیں لے سکتے تو یہ مثالیں سن کر مخالفوں نے عناداً بطور طعن کے کہا کہ اللہ کو ایسی مثالوں سے کار مطلب؟ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٤ معالم البقرة
27 جو اللہ کے عہد کو جو کبھی تکلیفوں اور تنگیوں کے وقت اللہ سے باندہا کرتے ہیں کہ اگر تو اس بلا سے ہم کو نجات بخشے گا تو ہم تیرے سب احکام مانیں گے مضبوط وعدہ کرنے کے بعد بھی توڑ ڈالتے ہیں پھر اسی کفر شرک اور دنیا سازی میں مبتلا ہوجاتے ہیں علاوہ اس کے ان میں ایک خرابی اور بڑی بھاری ہے کہ انسانی تعلق جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑ ڈالتے ہیں اللہ نے تو حکم کیا کہ آپس میں رشتہ دار سلوک کیا کریں مگر یہ لوگ بجائے سلوک کے الٹا رشتہ داروں ہی سے عناد رکھتے ہیں اور باوجود اس کے ملک میں فساد مچاتے ہیں اگر کوئی مخلص عاقل بالغ باختیار خود مسلمان ہوتا ہے تو اس کو بلاوجہ تنگ کرتے ہیں حالانکہ اس تنگ کرنے کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں جب ہی تو ان پر یہ فرد جرم ہے کہ یہی لوگ ٹوٹا پانے والے ہیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے اپنا ہی زیاں کرتے ہیں البقرة
28 کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بھلا تم اللہ کی توحید سے انکار کیسے کرتے ہو حالانکہ اس کی طرح طرح کی تم پر مہربانیاں ہیں تم اپنی اصل حالت کو نہیں دیکھتے کہ پہلے تو تم نطفہ کی صورت میں بے جان تھے۔ پھر اس نے تمہیں جان بخشی پھر بعد اس کے تم کو پرورش بھی کیا اور ایک مدت مقررہ تک زندہ رکھ کر پھر تم کو مار بھی دیتا ہے پھر مر کر بھی تم ایسے نہ ہوگے کہ اللہ سے کہیں غائب ہوجاؤ بلکہ بعد مرنے کے وہ تمھیں ایک روز زندہ کرے گا۔ بعد اس زندگی کے یہ نہ ہوگا کہ تم ایسے ہی مزے کرو۔ بلکہ تمہاری ساری لیاقت کھل جائے گی۔ اور اسی اظہار لیاقت کے لئے تم اس مالک الملک کی طرف پھیر جاؤ گے۔ البقرة
29 یہ حقوق مالکیت کچھ ایسے نہیں کہ خواہ مخواہ جابرانہ تسلط ہو۔ بلکہ وہ ذات پاک وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور دنیا کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کیں۔ تاکہ تم ان سے منافع حاصل کرو ورنہ اللہ کو بھی کوئی چزم کام آتی ہے؟ چار پارے ہیں تمہارے لئے نباتات ہیں تو تمہارے لئے جمادات ہیں تو تمہاری خاطر۔ تمہاری خاطر زمین پیدا کی زمین میں ہر قسم کی قوتیں ودیعت کیں۔ پھر تمہاری ہی فائدہ کو آسمان کو قصد کیا تو حسب ضرورت اس نے ان کو سات عددبنا دیا کسی پر چاند کسی پر سورج کسی پر کوئی ستارہ کسی پر کوئی اس لئے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو کچھ مناسب مقتضائے علم ہوتا ہے وہی کرتا ہے اس کے علم کامل کی شہادت علاوہ دلائل عقلیہ کے واقعات بھی بتلارہے ہیں۔ البقرة
30 (30۔33) یاد تو کر جب اس مالک الملک تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا ایک نائب بنانے کو ہوں۔ جو سب دنیا کی آبادی پر حکمرانی کرے۔ اور تمام اشیاء اس کی تابعدار ہوں یعنی آدم اور اس کی اولاد۔ یہ معلوم کرکے کہ اس نائب حکومت میں ہر قسم کی خواہشات بھی ہونگی وہ بولے کہ اس کے اجزا عناصراربعہ تو آپس میں متضاد ہیں ایسی ترکیب کی شئے سے بے جاجوش اور خون خرابے کچھ بعید نہیں۔ کیا آپ ایسے شخص کو نائب حکومت بناتے ہیں جو اس زمین میں فساد کرے۔ اور خون بہائے۔ اگر خلیفہ ہی بنانا منظور ہو تو ہم خاکسار ان خدام قدیمی اس منصب کے لیے ہر طرح سے قابل ہیں۔ اس لیے کہ ہم تو علاوہ اخلاص قلبی کے تیری خوبیاں بیان کرتے رہتے ہیں اور تجھے پاکی سے یاد کرتے ہیں۔ علاوہ اس کمال عملی کے ہم میں کمال علمی بھی پایا جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ چونکہ ان کا یہ ضمنی دعویٰ کہ ہر چیز کو جاتے ہیں بالکل غلط تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو کئی طرح سے غلط کیا پہلے تو یہ کہا کہ یقینا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ جس نیابت کے لئے انسان کو بنایا جاتا ہے اس نیابت کی اسی میں قابلتج ہے۔ دوم عملی طور سے اس کو غلط کیا کہ آدم کو بعد پیدائش سب چیزوں کے نام سکھائے پھر وہ فرشتوں کو دکھا کر۔ کہا کہ ان اشیاء کے نام مجھے بتاؤ۔ اگر تم اپنے دعوے ہمہ دانی میں سچے ہو۔ اس عملی مقابلہ سے عاجز آکر وہ بولے کہ بیشک ہمارا علم ناقص ہے توں سب نقصانوں سے پاک ہے ہمارا خیال ہمہ دانی غلط ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے مگر اسی قدر جو تو نے ہم کو سکھایا ہے۔ بیشک ہمیں یقین ہے کہ تو ہی بڑے علم اور حکمت والا ہے جو کچھ تو کرتا ہے اس میں کمال درجہ کی حکمت ہوتی ہے اور اس حکمت کو بھی کما حقہ سوا تیرے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد ان کا بقیہ گمان دفع کرنے کو آدم سے کہا کہ اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام بتلادے۔ پس جب حسب ارشاد اللہ اس (آدم علیہ السلام) نے ان کو ان چیزوں کے نام بتلائے اور فرشتوں نے سب ماجرا بچشم خود دیکھا اور جان لیا کہ ہمارا زعم کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں غلط ہے تو اللہ نے تنبیہاً ان کو خطاب کرکے کہا۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان و زمین کی سب چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں۔ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ بھی جانتا ہوں سر سید کی چوتھی غلطی : (فرشتوں سے کہا) یہ پہلا ہی موقع ہے کہ قرآن کریم میں فرشتوں کا صریح ذکر آیا ہے۔ چونکہ زمانہ حال کے محققوں نے اس مسئلہ میں بھی عجیب قسم کا اختلاف نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ جملہ ادیاں (یہود و نصارٰی) سے بھی بلاوجہ پیدا کیا ہے اس لئے اس موقع پر ہم بھی اگر کسی قدر تفصیل سے لکھیں تو ہمارا حق ہے فرشتہ کا لفظ (جسے عربی میں ملک اور ملایکہ کہتے ہیں) اصلی تو انہیں معنے میں اطلاق ہوتا ہے جس کو عام مسلمان بلکہ یہود نصارٰی اور عرب کے مشرک سمجھا کرتے تھے کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے جو گناہوں سے پاک اور اللہ کے حکم کی تابعدار۔ اس کی عبادت میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں کسی کا زمین سے تعلق ہے۔ کسی کا آسمان سے۔ آسمان والے بحکم الٰہی زمین پر آجاتے ہیں اور زمین والے آسمان پر جاسکتے ہیں۔ ان کو اللہ نے ایسابنایا ہے کہ ہوا کی طرح مرئی اور مشاہد نہیں ہوتے ہاں جب چاہیں اپنی شکل یا کسی آدمی کی صورت میں دکھائی دے سکتے ہیں وہ انبیاء پر اللہ کا پیغام لاتے ہیں اگر کوئی قوم سرکشی کرے تو اس کی ہلاکت بھی بحکم الٰہی انہیں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان معنوں کا جن پر اہل ادیان ” فرشتہ“ بولتے ہیں مگر مشرکین عرب میں ایک بات زائد تھی کہ وہ ملائکہ کو بوجہ ان کے مستور ہونے کے اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے چنانچہ قرآن کریم نے ان کی مذمت کے موقع پر فرمایا وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَادْ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اور اس قول شنیع کے رد کے لئے ارشاد فرمایا اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّھُمْ شَاھِدُوْنَ یہود و نصاریٰ کی کتاب تورٰیت انجیل تو اس مضمون سے پر ہیں احادیث نبویہ میں تو اس کا ذکر تبصریح ہے کہ حضرت جبرئیل آنحضرتﷺ کے پاس دحیہ کلبی صحابی کی صورت میں آیا کرتے تھے۔ غرض ان معنے سے کسی مسلمان نہ کسی یہودی نہ عیسائی کو انکار ہے کہ فرشتے اللہ کی ایک مخلوق جدا گانہ ہیں۔ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ مگر زمانہ حال کے محقق سرسید احمد خاں ان معنے کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس سے سخت انکاری ہیں چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل کے صفحہ ٤٩ پر رقمطراز ہیں :۔ ” جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ کے بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو اللہ نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کی پیدا کی ہیں ملک یا ملائکہ کہا ہے جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے “ تعجب ہے کہ سرسید اوروں پر تمسخر اور ہنسی تو آڑایا کرتے ہیں کہ ہمارے مفسرین کو بےدلیل کہنے کی عادت ہے۔ فلاں قوم امام رازی کا بےدلیل ہے فلاں توجیہ بیضاوی کی بے ثبوت مگر خود کہتے ہوئے یہ قاعدہ ہی بھول جائیں۔ کہ دعویٰ پر دلیل پیش کرنا بھی کوئی شئے ہوتا ہے۔ سید صاحب ! اس پر کیا دلیل ہے کہ ملائکہ سے مراد انسان کے قویٰ ہیں۔ حالانکہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فرشتوں کو اعلان کیا جاتا ہے کہ جب ہم آدم کو پیدا کریں گے تو تم نے اسے سجدہ کرنا۔ اس آدم سے مراد آپ نوع انسان ہی مراد لے لیں۔ اور اس قصہ کو ایک فطری تمثیل ہی کیوں نہ کہیں۔ بہر حال یہ تو آپ کو ماننا ہوگا کہ انسان سے فرشتوں کا (یا بقول آپ کی قویٰ کا) وجود پہلے تھا۔ تو پھر فرما دیں کہ کسی شئے کے عوارض کو (جو وجود میں بہرحال اس سے مؤخر ہوں) مقدم سمجھ کر ایک مضمون گانٹھنا فرضی نہیں تو کیا ہے؟ جسے آپ بھی صفحہ ٥٤ پر شاعرانہ جھوٹ فرما چکے ہیں۔ نیز کفار کا درخواست کرنا کہ اس رسول کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا جو اس کے ساتھ ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراوے بالکل بے معنے ہے اس لئے کہ قویٰ انسانیہ کا (جو بقول آپ کے ملائکہ ہیں) ظاہر ہو کر کسی کو ڈرانا کیا معنے؟ وہ تو ایسے مستور ہیں کہ ان کا بذات خود ظاہر اور مشاہد ہونا ہی مشکل بلکہ محال ہے۔ ہاں آپ کا ابوعبیدہ کے شعر ؎ لست لانسی واکن بملاک تنزل فی جوّ السماء بصوب سے استدلال کر کے اس امر کا ثبوت دینا کہ عرب قدیم اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مشرک قویٰ پر ملَک کا لفظ بولا کرتے تھے بہت ہی تعجب انگیز ہے جناب من ! کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ قائل کا مذہب بھی یہی ہو کہ مینہ برسانے پر فرشتے مقرر ہیں اور ممدوح کو ان فرشتوں سے تشبیہ دیتا ہو۔ جیسا کہ عرب کے شعرا کا عموماً دستور ہے چنانچہ ایک شاعر نے اپنی محبوب کو چاند سے تشبیہ دے کر کہا ہے لاتعجبوا ! من بلاغالتہ قد زراز رارہ علے القمر اس قسم کی تشبیہیں تو کوئی عرب ہی کا خاصہ نہیں۔ آپ نے اردو کا شعر بھی سنا ہوگا ؎ وہ نہ آئیں شب وعدہ تو تعجب کیا ہے رات کو کس نے ہے خورشید درخشاں دیکھا؟ (اے ممدوح) تو آدمی نہیں بلکہ فرشتہ ہے جو آسمان سے بارش اتارتا ہے۔ ! میرے محبوب کے دامن کہنہ ہونے سے تعجب نہ کر کیونکہ وہ ہے اس کا لباس کتان ہے جو قمر کو پہنایا گیا ہے۔ دیکھیں یہاں پر شاعر نے ایسا مبالغہ کیا ہے کہ محبوب کو ہو بہو سورج ہی بنا دیا۔ پھر آپ کا اس آیت قرآنی قالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَّلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَایُنْظَرُوْنَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَایَلْبِسُوْنَ کو نفی وجود ملائکہ بالمعنے المتعارف میں پیش کرنا پہلے سے بھی زیادہ تعجب انگزل ہے۔ خوش قسمتی سے جو دلیل آپ کے مخالف کی ہوتی ہے اسے شاید یاد بھی نہ ہو۔ آپ اسے اپنی سمجھ کر پیش کردیتے ہیں۔ بھلا اگر ملک کا اطلاق قویٰ ملکوتیہ پر ہے تو آیت کے کیا معنے ہوں گے یہ کہ اس رسول پر قویٰ کیوں نہیں اتاری گئیں۔ جس کا جواب ملتا ہے کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور اس رسول کو (یا ان قویٰ کو) بشر بناتے۔ پھر بھی تم کو وہی شبہ ہوتا جو ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ ! اس قرآن دانی اور فہم معانی کے کیا کہنے۔ حضرت ! اوّل تو کفار کو کیسے خبر تھی کہ اس رسول کے قویٰ نہیں جن کے نزول کی انہوں نے درخواست کی۔ درخواست سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی شئے مرئی اور مشاہدہ کی تھی جو بالکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہو۔ قویٰ کا مرئی ہونا کیا معنے؟ پھر جناب باری کی طرف سے یہ جواب ملنا کہ اگر ہم قویٰ ملکوتیہ اس رسول کو بناتے تو ضرور بشر ہی بناتے۔ کیسا منطبق ہوگا۔ سید صاحب ! آپ بھولے کیوں پھرتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر تو دوسری آیت سورۃ فرقان کی کر رہی ہے۔ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا دیکھئے تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کفار کو کسی شئے مرئی کی خواہش تھی چنانچہ اسی سورۃ کی دوسری آیت میں اس سے بھی واضح بیان ہے۔ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآَئَ نَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ نَریٰ رَبَّنَا۔ اس سے تو صاف روز روشن کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ واقعی کفار کو کسی چیز قابل دید کی درخواست تھی جب ہی تو جناب باری تعالیٰ نے ان کے جواب میں یْوَم یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ لَابُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ فرمایا۔ اگر شئے مرئی کی درخواست نہ ہوتی تو جواب میں رویت کا ذکر کیا معنے رکھتا ہے پس ثابت ہوا کہ کفار عرب ملک کے لفظ کو کسی شئے مرئی پر بولتے تھے۔ جو قوٰے ملکوتیہ کی طرح نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ وہ مرئی اور مشاہد نہیں ہیں۔ پھر سرسید کا کہنا کہ ” جہاں تک ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کے لفظ ملک یا ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہے ثابت نہیں ہوا۔“ بالکل بے معنی ہے اس لئے کہ اوّل تو عدم علم سے عدم شئے کا لازم نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ ہو اور ان کو نہ ملا ہو۔ اور اگر واقع میں قدیم عرب نے ملک کا لفظ ان معنے مشہور میں استعمال نہ کیا ہو تو کیا حرج ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے مشرک ملک کے یہی معنے سمجھتے تھے اور اسی کے موافق ان کی درخواست بھی تھی جس کا جواب بھی یہی جتلا رہا ہے کہ جناب باری تعالیٰ کو بھی ان معنے سے انکار نہیں تو پھر یہ عذر تار عنکبوت سے کچھ زائد قوت بھی رکھتا ہے؟ اس کی مثال شرع میں صلوٰۃ زکوٰۃ ہے ان لفظوں کو قدیم عرب سے آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ انہیں معنے میں اطلاق کرتے تھے۔ جن میں کہ اب ہو رہے ہیں۔ دوسری مثال اس کی ہمارے زمانہ میں پریس لمپ وغیرہ ہیں کسی تحریر میں اگر پریس اور لمپ کا ذکر ہو تو کوئی شخص اس عذر سے اس کے معنے بدلنے چاہے کہ قدیم ہند میں ان لفظوں کو ان معنے میں نہیں بولتے تھے جن میں انگریزی رواج کے بولے جاتے ہیں۔ تو کیا اس کی یہ وجہ قابل شنوائی اہل دانش ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ پھر بھلا اگر قدیم عرب ملک کو معنے متعارف پر نہ بولتے ہوں اور آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد رشد مہد میں اس کا رواج ان معنے میں ہوا ہو۔ جس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ خود اللہ نے مسلم رکھا۔ تو معتبر نہ ہوگا۔ فتفکر۔ باقی رہا آپ کا کلام مقصود اور غیر مقصود میں فرق کرنا سو یہ بھی قطع نظر فی الجملہ غلطی کے اس جگہ نہیں چل سکتا۔ اس لئے کہ یہاں پر ملائکہ کا ذکر (حسب تقریر آپ کے) غیر مقصود نہیں بلکہ عین مقصود ہے کیونکہ وجود ملائکہ پر کسی امر کی تعلیق نہیں جو اس کو غیر مقصود کیا جائے بلکہ ایسے امر کی خبر ہے جو قرآن کریم کا مطلب اصلی ہے یعنی ثبوت قیامت اگر فرما دیں کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ کفار کے خیالات مان کر بھی ان کو توحید سکھائی گئی ہے تو گذارش ہے کہ یہ تو مشرکین عرب کا بھی عندیہ نہیں تھا کہ ایک دن ایسا ہوگا کہ اس میں ہم ملائکہ کو دیکھیں گے اور وہ روز جزا بھی ہے بلکہ وہ تو اسی وجہ سے قرآن پر خفا تھے کہ یہ قیامت کیوں بتلاتا ہے ئَ اِذَا مِتْنَاوَکُنَّا تُرَابًاط ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعْیِدٌ اس کا شاہد عدل ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ سید صاحب یہ مانتے ہیں کہ ” ہمارے پاس کسی ایسی مخلوق کے ہونے سے جو کسی قسم کا جسم و صورت بھی نہ رکھتی جو ہم کو نہ دکھائی دیتی ہو انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔“ ص ٤٢ پھر فرشتوں کے ایسا ہونے سے کیوں انکاری ہیں نہ صرف انکاری۔ بلکہ ان کو نفی پر بزعم والا دلائل بیان کرتے ہیں۔ گو ان دلائل کا حاصل یہی ہوتا ہے۔ دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظ ! نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا اگر یوں فرما دیں کہ میرا انکار تو جب ہی تک ہے کہ قرآن سے فرشتوں کا ثبوت بمعنی متعارف ہو۔ اگر قرآن کی کسی آیت سے ان کا وجود مستقل ثابت ہوجائے گا تو مجھے بھی تسلیم سے انکار نہیں جیسا کہ صفحہ ١٤٢ سے مفہوم ہوتا ہے اور یہی تقاضا ایمانی ہے۔ تو گذارش ہے کہ آپ اگر انصاف سے غور کریں اور قرآن کو اس طور سے پڑھیں جس طور سے عرب کے رہنے والے سیدھے سادے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا تھا پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ انہیں کے لغت پر بھروسہ کریں تو مطلب بالکل صاف ہے اور اگر اٰمَنْتُ باللّٰہِ کو بی بی آمنت کا بلا بتلا دیں تو خیر۔ دیکھو تو کیسے صریح لفظوں میں فرشتوں کا ثبوت ملتا ہے قال عز من قائل جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحْۃٍ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُ۔ سرسید اور ان کے اتباع بتلا دیں اور ہماری معروضہ بالا گذارش کو زیر نظر رکھیں کہ ملائکہ کا رسول ہونا بلکہ پروار ہونا بھی ثابت ہے یا نہیں؟ اس پر بھی آپ بے پر کی اڑائیں تو اختیار۔ (منہ) ١ ؎ آریہ قوم کی غلطی : (اور آدم کو سب نام سکھائے) اس آیت کے متعلق بھی نافہموں نے بہت ہی ہاتھ پائوں مارے ہیں مگر بعد غور ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی نافہمی اور تعصب کے نتائج ہیں۔ قرآن کریم اپنے معانی بتلانے میں بالکل صاف ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے سمجھنے اور سمجھانے والے ہر زمانہ میں موجود رہے اور ہیں اور ہوں گے۔ ہماری ہمسایہ قوم آریہ نے اس کے متعلق بہت سے ورق سیاہ کئے ہیں جن کے دیکھنے سے اس قوم کی شوخی اور نئے جوش کا اندازہ ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس قوم نے باوجود دعوٰی توحید کے جس کی وجہ سے یہ لوگ اسلام سے بہت ہی قریب ہوگئے تھے۔ بجائے فہم و فراست کے تعصب اور ضد سے کام لیا۔ اس آیت کے متعلق ان کے اعتراضات حسب تفصیل ذیل ہیں۔ (١) اللہ نے فرشتوں سے مشورہ کیا جس سے اس کی بے علمی ثابت ہوتی ہے (٢) باوجویکہ فرشتوں نے جواب معقول دیا مگر اللہ نے (معاذ اللہ) اپنی ہی بات پر ہٹ کی جس کا نتیجہ آخر وہی ہوا جو فرشتوں نے کہا (٣) اللہ نے فرشتوں سے (معاذ اللہ) دھوکا کیا۔ کہ ان کے مقابل آدم کو سب نام بتلا دئے اور مقابلہ کرایا۔ اگر یہی نام فرشتوں کو بتلا دیتا تو وہ بھی بتلا سکتے تھے آدم کی اس میں کون سی بزرگی ہے؟ جواب۔ میں کہتا ہوں سب آفتوں کی جڑ یہی ہے کہ متکلم سے اس کے کلام کے معنے دریافت کرنے سے پہلے ہی اس پر رائے زنی کی جائے اور آپ ہی آپ اس کی شرح کر کے حاشیہ چڑھایا جاوے۔ اس آیت کے معنی جن کی طرف ہم نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے سمجھنے ہی سے سب اعتراضات اٹھ جاتے ہیں جو دراصل اپنے ہی دل کے غبارات ہیں۔ پہلے یہی غلط کہ اللہ نے مشورہ کیا۔ مشورہ نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس امر کے متعلق ان فرشتوں کو ایک حکم سنانا تھا اس کے اعلان کرنے کو یہ اظہار کیا۔ چنانچہ اسی قصہ کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے :۔ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ یہ مشہور ہے کہ ” تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں“ پس اس قاعدہ کلیہ سے اس آیت نے اس کی پوری تفسیر کردی ہے کہ فرشتوں پر اس امر کا ظاہر کرنا اس غرض سے تھا کہ ایک حکم کی ان کو اطلاع دی جائے یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہً کہہ کر ماتقولون فی ھٰذا الامر نہیں کہا جو مشورہ کا دستور ہے جیسا کہ بلقیس بیگم نے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے اپنا خیال ظاہر کر کے ماذَا تَاْمُرُوْنَ کہا تھا۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ؎ رموز مملکت خویش خسرواں دانند گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا۔ اور اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ کہہ کر قصور مہم کا اعتراف کیا۔ تیسرے سوال کا جواب بھی میں نے تفسیر میں ادا کردیا ہے یعنی یہ کہ فرشتوں نے علاوہ اپنی پاکی اور بزرگی جتلانے کے دعوٰے ہمہ دانی بھی کا تھا یعنی نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ کے علاوہ ونعلم الاشیاء کلھاّ بھی کہا تھا اس لئے کہ صرف بزرگی اور زہد تو خلاف کو مستلزم نہیں جب تک کہ ثبوت علمی نہ ہو۔ قرینہ اس حذف کا یہ ہے کہ فرشتوں کے دعوٰے تقدیس اور زہد پر جناب باری تعالیٰ کی طرف سے اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰؤٓلَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ارشاد ہے اگر فرشتوں کی طرف سے دعوٰے علم نہ ہوتا تو یہ بالکل اس کے مشابہ ہوتا ہے جو کسی مولوی صاحب نے کسی دہقانی کو سمجھایا کہ تہبند ٹخنوں سے اونچا رکھ وہ بولا کہ تیرے باپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈال دیا تھا؟ مولوی صاحب نے پوچھا اس قصہ کو میرے وعظ سے کیا تعلق۔ دہقانی بولا۔ تعلق ہو یا نہ ہو۔ بات سے بات نکل آتی ہے۔ سو اگر فرشتوں نے دعوٰے علم نہ کیا ہوتا تو بجائے لَاعِلْمَ لَنَا کہنے کے یہ کہتے کہ صاحب ! اس سوال کو یہاں کہ علاقہ؟ ہمارا دعویٰ زہد ہے اور سوال ہم سے علم کا۔ چہ خوش : ع بہ ببین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ پس یہ ارشاد اَنْبِئُوْنِیْ اور اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ جب ہی درست اور مناسب ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے کوئی دعویٰ علمیت بھی کیا ہو۔ جس کے جواب میں ان کی غلط فہمی رفع کرنے کو یہ ضروری ہوا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سب نام سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ بہت سے امور ایسے بھی ہیں جنیں ہم نہیں جانتے جب بھی تو اس الزام کے بعد سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ پکار اٹھے اور اپنے نقصان علم کے مقر ہوئے۔ اب بتلا دیں مدعی سست گواہ چست کا سا معاملہ ہے یا نہیں؟ اور فہم قرآن سے بے نصیبی کے آثار ہیں یا کچھ اور؟ رہا شیطانی جھگڑا سو اس کا جواب ختم اللّٰہ کے حاشیہ میں دے آئے ہیں فتذکر (منہ) البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 اور ایک واقعہ بھی اسی کے متعلق قابل شنید ہے جو گویا اس بیان کا تتمہ ہے سنو ! جس سے ہمارا کمال علمی ظاہر ہوجائے گا۔ سوچو توسہی کہ جب ہم نے تمام فرشتوں اور ان کے اتباع کو معہ ان کے حکم دیا تھا کہ آدم کی بزرگانہ تعظیم و پس سب نے تعظیم کی۔ مگر شیطان اس سے اترایا اور اپنے جی میں بڑا بن بیٹھا اور اپنے غرور میں اس حکم کے منکروں سے ہوگیا۔ جب ہی تو اپنے کئے کی پاداش کو پہنچا کہ بوجہ حسد بیجا کے ہمیشہ کے لئے ذلیل ہوا اس کے بعد بجائے اس کے کہ اس کے حسد سے آدم کا کچھ بگڑتا اسی کی عزت افزائی ہوئی گیا وہ ہمارا مہان ہوا (تعظیم کرو) اس آیت کے متعلق بھی ہمارے نامہربان پڑوسی آریہ وغیرہ نے دانت پیسے ہیں اور طرح طرح سے بے سمجھی کے سوالات کئے ہیں اور نئی توحید کے نشہ میں معلم التوحید قرآن شریف پر اعتراض کئے ہیں کہ وہ بت پرستی اور شرک سکھاتا ہے چنانچہ فرشتوں سے آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کروایا۔ کعبہ کو پجوایا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے آگ کو پوجا۔ طرفہ یہ کہ شیطان نے بوجہ توحید کے جو اس کے پہلے سے تعلیم ہوئی تھی سجدہ نہیں کیا۔ تو اس کو لعنتی گردانا وغیرہ وغیرہ۔“ باقی آیات کا جواب تو اپنے موقعہ پر آئے گا۔ بالفعل ہم اس آیت کے متلعق ان کی سمجھ کا پھیر بتلاتے ہیں۔ بھلا آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ عبودیت کا تھا یا کچھ اور۔ اگر عبودیت کا تھا تو بے شک قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اوّل درجہ کا مشرک ہے لیکن ایسا نہیں۔ بلکہ ایک تعظیمی سجدہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں سلام تعظیم کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر یہ عبادت ہوتا تو شیطان اپنی معذوری اور جواب دہی میں اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّاٍر وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ نہ کہتا بلکہ صاف کہتا کہ جناب والا یہ کیا انصاف ہے۔ کہ ہمیں ایک طرف تو شرک سے روکا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی شرک کی تعلیم ہوتی ہے کیونکہ وہ تو بڑا ہی شیطان ہے اسے تو یہ عذر ضرور ہی سوجھنا چاہیے تھا۔ جب کہ اس کے شاگردوں کو ایسی سوجھتی ہے کہ پناہ بخدا۔ تو پھر استاد کو ایسی کیوں نہ سوجھی۔ بلکہ اس نے تو ایک معنی سے یہ سجدہ خود ہی جائز سمجھا۔ کیونکہ وہ اپنے رکنے کی وجہ یہ بتلا رہا ہے کہ میں اس سے اچھا ہوں اس لئے اسے سجدہ نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدم کو جو اس کے خیال میں اس سے ادنیٰ تھا۔ اس کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو شیطان کو اپنے لئے سجدہ کروانے میں کسی طرح کا تامل نہ ہوتا اور نہ تعلیم توحید اس سے مانع ہوتی۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ یہ سجدہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ بلکہ محض ان معنے میں تھا جیسے کسی سردار یا نواب کا ماتحت ایک خاص وقت میں حاضر ہو کر اسلام کیا کرے۔ جس سے اس سردار کی رفعت اور ماتحتوں کی وفا داری کا ثبوت ہوتا ہے جو شیطان کو پسند نہ آیا (منہ) البقرة
35 اور ہم نے کہا کہ اے آدم ! تو اور تیری بیوی حوّاء اس باغ جنت میں رہو۔ اور اس میں سے جہاں چاہو کھلا کھاتے پھرو مگر اس انجیر کے درخت سے ایسا پرہیز کرنا کہ اس کے قریب بھی نا جائیو۔ نہیں تو ظالم ٹھہرو گے۔ البقرة
36 (36۔39) پس آخر کار شیطان نے ان کو اس جنت سے لغزش دی اور غلطی کراکر ان نعمتوں سے جن میں وہ دونوں بیوی خاوند رہتے تھے نکلوادیا۔ جب ان سے غلطی ہوئی تو ہم نے بھی کہا۔ تم اس جنت سے پستی میں اتر جاؤ۔ اس لئے کہ قطع نظر اس عداوت اور شررات کے جو شیطان نے تم سے کی خود تم آئندہ نسلوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور بہشت ایسے دشمنوں کے لئے نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا پس تم اس سے نکل جاؤ اور زمین پر جارہو اس میں تمہارے لئے ٹھہرنے کو جگہ اور زندگی تک گذارہ بھی مہیا ہے اس حکم کے مطابق نیچے تو آگئے۔ چونکہ ان سے یہ قصور واقع میں سہوًا ہوا تھا۔ نہ عنادًا۔ اس لئے وَے ہمیشہ اس کے تدارک میں لگے رہے اور رحمت الٰہی بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر موجزن ہوئی پھر آخر کار آدم نے اپنے اللہ کے الہام سے چند باتیں سیکھیں (ربنا ظلمنا انفسنا کی طرف اشارہ ہے۔ ٢١) جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اے اللہ ہم سے سہوًا غلطی ہوگئی تو ہی رحم والا مہربان ہے پس اللہ نے اس پر رحم کیا اس لئے کہ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بعد اس رحم کے حسب دستور آدم نے اپنا مسلوبہ مقام حاصل کرنا چاہا۔ اور دخول جنت کی درخواست کی۔ تو ہم نے کہا یہ نہ ہوگا بلکہ مناسب یہ کہ اب تم سب یعنی آدم۔ حوا اور ان کی اولاد اس باغ سے نیچے ہی اترے رہو پس اس حکم میں تبدیلی نہ ہوگی ہاں ایک ذریعہ تمہارے دخول جنت کے لئے ہم بتائے دیتے ہیں وہ یہ کہ اگر میری طرف سے تم کو کوئی پیغام ہدایت پہنچے تو جو لوگ تم میں سے اس میری ہدایت کے تابع ہوں گے سو وے بیشک جنت کے قابل ہوں گے نہ اس کو کچھ خوف ہوگا نہ غم کریں گے۔ اور جو لوگ اس ہدایت کے منکر ہونگے اور علاوہ اس ہدایت کی ہماری ہدایت کی نشانیاں جھٹلاویں گے وے ہرگز جنت میں نہ جاویں گے بلکہ جہنم کی۔ آگ کے قابل ہونگے نہ صرف چند روز بلکہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ اس امر کو اور لوگ بھولیں تو بھولیں۔ البقرة
37 البقرة
38 البقرة
39 (40۔46) مگر افسوس یہ کہ تم اے بنی اسرائیل اہل علم ہو کر بھی بھولتے ہو۔ حالانکہ میں نے تم پر کئی احسانات کئے اور ہر طرح کی نعمتیں بھی عطا کیں۔ ہمیشہ تم میں رسول بھی بھیجے زمین کا تم کو حاکم بھی بنایا پس تم میری نعمتیں یاد کرو جو میں نے تمہیں دیں اور میرے وعدہ کو جو اس رسول آخرالزمان کے متعلق خاص کر تم سے لیا ہوا ہے کہ جب وہ آئے تو اس پر ایمان لانا۔ اسے پورا کرو اس کے عوض میں بھی تمہارا وعدہ بخشش کا پورا کروں گا۔ اس ایفاء عہد اور ایمان لانے میں تنگی معاش کی فکر نہ کرو۔ رزق دینے والا میں ہوں پس تم مجھ ہی سے ڈرو جو تمہاری تنگی اور ثروت کا مالک ہوں پس تم مجھے ہی متولی امور جانو اور میری اتاری ہوئی کتاب کو مانو جو تمہاری ساتھ والی کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی اصلیت کو مانتی ہے اور اگر تم نے انکار کیا اور تم کو دیکھ کر اور لوگوں نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا تو ان سب کا گناہ تمہاری جان پر ہوگا۔ پس مناسب ہے کہ مان لو اور سب سے پہلے منکر نہ بنو اور اس وعدہ کو پھیر پھار کر اپنے ماتحتوں سے میرے حکموں کے بدلہ میں دنیا کا حقیر مال نہ لیا کرو۔ آخر کتنا کچھ لوگے سب کا سب بمقابلہ ان نعمتوں کے جو نیک بندوں کو آخرت میں ملنے والی ہے۔ دنیا کا سارا مال بھی تھوڑا اور ذلیل ہے میں تمھیں سچ کہتا ہوں کہ حق کے اختیار کرنے میں کسی سے مت ڈرو فقط مجھ ہی سے ڈر و۔ جو میں تمہارے عذاب اور رہائی پر قادر ہوں جھوٹی تاویلیں کرکے سچ کو جھوٹ سے نہ ملاؤ۔ اور نہ جان بوجھکر دنیاوی منافع کے لئے حق کو چھپایا کرو اور سیدھے سادھے مسلمان ہو کر نماز پڑھو اور مسلمانوں کی طرح مال کی زکوٰۃ بھی دیا کرو اور سب دینی کاموں کو چستی سے ادا کیا کرو بالخصوص نماز میں تو ایسے چالاک ہوجاؤ کہ پانچوں وقت پڑھو اور رکوع کرنیوالوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو یعنی باجماعت ادا کیا کرو تاکہ تمہارے دین کا اظہار پورے طور سے ہو بجائے اس کے تم الٹے نا بلد ہورہے ہو۔ کیا لوگوں کو بھلی باتیں بتلاتے ہو؟ ( بعض علماء یہود کا شیوہ تھا کہ جب ان سے کوئی قریبی رشتہ دار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے سوال کرتا تو اس پر اسلام اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ظاہر کرتے اور خود اسی کفر پر اڑے رہتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) گرجوں اور دیگر معبدوں میں لوگوں کو اپنے خیال کے مطابق اچھے کام بتلاتے ہو اور اپنے آپ کو باوجود کتاب پڑھنے کے بھلاتے ہو۔ کیا تم ہوش نہیں کرتے ؟ ہم پھر مکرر تمھیں کہتے ہیں کہ لوگوں سے مت ڈرو اس لئے کہ یہ شرک خفی ہے بلکہ اگر تم کو کوئی تکلیف آوے تو تم اس کے دفع کرنے میں صبر اور نماز کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگا کرو اس لئے کہ تکلیف میں صبر کے ساتھ جب آدمی مستقل ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو ضرور ہی تکلیف رفعہ ہوجاتی ہے۔ ہاں ظاہری اسباب سے منہ پھیر کر یہ مدد چاہنا اور صبر کرنا بیشک کارے دارد خاص کر ایک سی حالت میں نماز پڑھنا اور نماز کے ساتھ مدد چاہنا تو بہت بھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں پر بھاری نہیں کیونکہ وہ ہر کام کی علت العلل اللہ تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اگر وہ ظاہری اسباب کی طرف بھی رخ کرتے ہیں تو ان کا انجام بھی اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کرتے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ ایسے ہی پاکیزہ خیال ہیں جو اس بات کا پختہ خیال رکھتیں ہیں کہ وہ اس تکلیف کے عوض میں اپنے مولا سے نیک بدلا ضرور پاوینگے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ مر کر بھی وہ اسی کی طرف جائیں گے (بحذف مضافٍ ای ملاقوا جزأء ربھم) البقرة
40 البقرة
41 البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 البقرة
46 البقرة
47 (47۔53) افسوس اے بنی اسرائیل کی قوم تم ایسے نہ ہوئے حالانکہ میں (اللہ) نے تم پر ہر طرح سے احسان بھی کئے اور کچھ نہیں کرسکتے ہو۔ تو میرے احسان ہی یاد کرو جو میں نے تم پر کئے دنیا میں عزت دی کہ ملک کا حاکم بنایا اور دین میں بھی تم کو سب کا پیشوا بنایا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے سب جہان کے لوگوں پر تم کو بزرگی دی کیا احسان کا شکریہ یہی ہے جو کررہے ہو۔ اب بھی باز آؤ اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی نفس کسی کے کچھ بھی کام نہ آئیگا۔ نہ اس کی تکلیف خود اٹھا سکے گا۔ اور نہ سفارش کرسکے گا اور اگر فرضاً کرے بھی تو اس کی سفارش بھی قبول نہ ہوگی اور اگر اپنی نیکیاں دیکر بھی دوسرے کو چھڑانا چاہے گا تو اس سے عوض بھی نہ لیا جائے گا۔ بلکہ جو کچھ دنیا میں اس نے کیا ہوگا اس کی پورری جز اسزا پاویگا نہ اس میں کسی طرح کی تخفیف ہوگی اور نہ کمی اور نہ ان مجرموں کو کسی قسم کی مدد پہنچے گی اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعونیوں یعنی اس سے اور اس کی فوج سے چھڑایا تھا جو ہر طرح سے تم کو بڑے بڑے عذاب پہنچاتے تھے تمہارے لڑکوں کو جان سے مارڈالتے اور لڑکیوں کو زندہ اپنی خدمت کرانے کو چھوڑتے۔ اس واقع میں اللہ کی طرف سے تم پر بڑا احسان ہے کہ ایسے ظالم کے پنجہ سے بچا کر اصل ملک میں تم کو پہنچا دیا اور راہ میں بھی تم پر ہر طرح سے احسان کئے جب تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا پس تم کو ڈوبنے سے بچایا۔ اور تمہارے دشمن فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے دیکھتے ہی اسی میں غرق کردیا اور اس نجات بدنی کے بعد ہم نے تمہاری روحانی نجات کے اسباب بھی مہیا کئے کہ حضرت موسیٰ کی معرفت تم کو کتاب دی اور ہدایت کی اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا کہ ہم تجھ کو چالیس دن بعد تورات دیں گے۔ وہ تو تمہاری خاطر کوہ طور پر کتاب لینے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا لگے اس کی منت منائیں۔ سچ پوچھو تو تم بڑے ظالم ہو کہ ایک بے جان کو تمام جہان کا مالک سمجھ بیٹھے اور نہ جانا کہ یہ تو ہمارے ہی ہاتھوں کا بنا ہوا ہے باوجود ایسے قصور کے پھر بھی ہم نے بعد اس کے تم کو معاف کیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور احسان یاد کرو جب ہم نے تمہاری ہی بھلائی کے لئے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ثبوت کے لئے بڑے بڑے معجزے بھی دئے تاکہ تم دین کی سیدھی راہ پاؤ۔ اسی کتاب کی برکت تھی کہ تم نے بعض موقع پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ سر سید کی پانچویں غلطی : (دریا کو پھاڑا) اس آیت میں اللہ سبحانہ بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلاتا ہے جو تمام دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر تھی یعنی ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت اور ان کی نجات پھر وہ بھی ایسے طرز سے کہ قدرت اللہ کے نشانات بینہ ظاہر ہوں وہی پانی جس میں سے بنی اسرائیل باوجود بے سامانی کے بچ کر صاف نکل گئے اسی میں فرعون مع اپنے جرار لشکر کے باوجود سامان کثیر کے ڈوبا اس پر (کہ بنی اسرائیل کی خاطر اللہ نے دریا پھاڑا تھا۔ جس میں سے وہ بسلامت چلے گئے اور فرعون اسی میں ڈوبایا گیا) قرآن کریم اور تورات دونوں متفق ہیں مگر سرسید احمد خاں بہادر نے اس میں بھی بہادری دکھائی کہ سرے سے منکر ہی ہو بیٹھے کہ قرآن کریم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت موسیٰ کی خاطر دریا پٹھا تھا۔ بلکہ یہ تو ہمارے علما نے اپنی عادت قدیمہ کے موافق یہودیوں سے ایسی روایتیں لے کر قرآن کی تفسیر میں جڑی ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی دریا پٹھا اور نہ کوئی خلاف عادت معجزہ ظہور میں آیا تھا۔ بلکہ اس دریا کی سمندر کی طرح عادت ہی تھی کہ مدو جزر چڑھنا اترنا آناً فاناً اس میں ہوا کرتا تھا۔ پس رات کو جب موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سمیت وہاں سے گزرے تھے اس وقت خشک تھا اور جب فرعون گزرنے لگا تو اتفاقاً چڑھ گیا (جلداوّل صفحہ ٩٩) چونکہ اصل وجہ انکار سید صاحب کی اس واقعہ سے یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اس لئے ہم سب باتوں سے پہلے خرق عادت کے امکان یا محال ہونے پر گفتگو کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کی بناء فاسد علی الفاسد خوب واضح ہوجائے۔ خرق یا خلاف عادت پر سپر نیچرل اس کو کہتے ہیں جو قوانین مروجہ کے خلاف ہوجیسے پانی کا نیچے کی طرف کو جانا ایک قانون مروج ہے اگر پانی اوپر کی طرف کو جائے یا باوجود نیچے جگہ ہونے کے ٹھیر جائے تو خلاف عادت کہا جائے گا یا مثلاً آگ کا کام جلانا ہے اگر بلا مانع ظاہری نہ جلائے تو خرق عادت ہوگا۔ بحث اس میں ہے کہ یہی مروجہ قوانین قدرتی قانون ہیں یا ان کے سوا اور بھی ہیں؟ کچھ شک نہیں کہ اللہ کے جتنے کام ہیں سب اپنے اپنے اسباب سے وابستہ ہیں۔ مگر ان سب قوانین پر کوئی فرد بشر مطلع نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پیدائش کے متعلق اس کا قانون ہے کہ بکری کا بچہ مثلاً چار ٹانگ اور دو سینگ اور دو آنکھوں والا ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے لکھنؤ کے عجائب خانہ میں بکری کے بچہ کی شبیہہ ایسی ملتی ہے جس کی ایک ہی آنکھ ماتھے پر ہے اور بس۔ تو کیا یہ خلاف قانون ہے؟ نہیں اس کے لئے بھی ضرور کوئی قانون ہوگا۔ مگر ہمیں اس کی اطلاع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایسے امور جو حضرات انبیاء علیہم السلام سے بطور معجزہ کے ظاہر ہوتے ہیں ان کے لئے بھی مخفی اسباب ہوتے ہیں ان اسباب میں سے نبوت یا رسالت کا مجہول الکیف تعلق بھی ایک سبب ہے جس کی کیفیت ہماری سمجھ سے بالا ہے مگر ہے۔ حقیقت میں تو وہ اپنے ہی اسباب سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان اسباب پر عامہ مخلوق کو اطلاع نہیں ہوئی بلکہ عوام کے نزدیک جو ان افعال کے اسباب ہیں ان کے خلاف یہ امور ہوتے ہیں اس لئے ان کو خرق عادت یا سپر نیچرل کہا جاتا ہے ورنہ حقیقت میں سپر نیچرل نہیں ہوتے۔ بلکہ عین نیچرل ہوتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا کے معمولی قانون مروج کے خلاف بھی ہونا کوئی محال امر نہیں۔ اسی کا نام معجزہ ہے کہ ایک امر خلاف قانون مروجہ مگر ممکن بالذات کا وقوع بلا اسباب مدعی نبوت سے وقوع پذیر ہو۔ ایسے امر ممکن بالذات کی اگر کوئی مخبر صادق خبر دے تو اس کے تسلیم کرنے میں چون و چرا کرنا فضول ہے۔ پس بعد اس تمہید کے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ معجزہ عبور موسیٰ کا جو ایک امر ممکن ہے واقع بھی ہوا ہے یا نہیں اور اس کے واقع ہونے کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے یا نہیں اور تورٰیت میں بھی جو اس زمانہ کے واقعات کی مخبر ہے جس کو سید صاحب بھی غیر محرف مانتے ہیں اس امر کا ثبوت ہے یا نہیں۔ پس سنئے ! پہلی آیت سورۃ بقرہ میں ہے جس کے الفاظ شریفہ یہ ہیں وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۔ اس آیت کا سیاق ہی بتا رہا ہے کہ نبی اسرائیل پر کسی بڑے احسان کا جتلانا منظور ہے جب ہی تو فرما دیا کہ ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑا اور تمہیں بچایا اور تمہارے دشمن کو تمہارے دیکھتے دیکھتے غرق کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کچھ ایسے طور سے ہوا ہوگا جسے احسان بھی کہہ سکیں۔ افسوس کہ سید صاحب اس سیاق کلام سے غافل ہو کر کہتے ہیں کہ :۔ ” اس آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے دریا کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جا سکے“ صفحہ ٧٦ حالانکہؔ یہ بات صریح لفظوں میں ہے کہ تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا اور تمہیں نجات دی۔ اور تمہارے دشمن فرعون کو اس میں غرق کیا اور اس کے سباق سے احسان جتلانا مفہوم ہے مگر اس بلاوجہ انکار کا علاج کیا۔ بھلا صاحب یہ لفظ نہ سہی جس سے خلاف قانون قدرت پھٹنا معلوم ہو۔ لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فعل سے غرض بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی ہلاکت تھی پس اس سے بھی آپ کے جوار بھاٹ کو کسی قدر صدمہ پہنچے گا۔ کیونکہ جوار بھاٹ کی نسبت جو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا ایسا فرمانا کہ ہم نے تمہارے لئے کیا اور اس کرنے سے تمہاری نجات علت غائی تھی بالکل بے معنے ہے اور بنی اسرائیل پر کوئی احسان نہیں۔ دوسری آیت سورۃ شعرا میں ہے۔ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ اس آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ تو اپنی لکڑی دریار پر مار پس وہ اس کے مارنے سے ایسا پھٹ گیا کہ اس کا ایک ایک ٹکڑا بڑے بڑے ڈھیر کی طرح ہوگیا۔ باوجودیکہ یہ آیت نہایت ہی اپنے معنے (دریا کے پھٹنے) میں صاف تھی مگر سید صاحب نے اس کو بھی ٹیڑھی گھیر بنانا چاہا چنانچہ فرماتے ہیں کہ ” اس آیت میں ضرب کے معنے زدن کے نہیں بلکہ رفتن کے ہیں اور البحر پر فی محذوف ہے پس صاف معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کہا کہ اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں چل۔ وہ پھٹا ہوا یا کھلا ہوا ہے یعنی پایاب ہو رہا ہے“ (صفحہ ٨٨ جلد اوّل) یہ توجیہ سید صاحب کی دیکھ کر مجھے ایک حکایت زمانہ طالب علمی کی یاد آئی جس سے یہ ثابت ہوگا کہ ایسے حذف محذوف نکالنا بالکل اس کے مشابہ ہے کہ ملا آں باشد کہ چپ نشود۔ جن دونوں میں ” فیض عام“ کانپور میں پڑھتا تھا ایک طالب علم سے جو میرے ساتھ صدرا وغیرہ میں شریک تھے میں بھولے سے پوچھ بیٹھا کہ اِنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا کے کیا معنے ہیں وہ بولے کہ بڑا ہے دادا ہمارے رب کا۔ میں نے کہا باپ ہی نہیں۔ تو دادا کہاں؟ فرمانے لگے کہ بڑے کے معنے ہیں بہت بلندی پر یعنی معدوم اور یہ دلیل انی ہے کہ باپ ہی نہیں۔ آخر کار میں خاموش ہوگیا۔ اسی طرح سید صاحب کی عادت شریفہ ہے کہ کیسی ہی صریح عبارت دکھلائو۔ خواہ مخواہ اسے ٹیڑھی بنائیں گے۔ بھلا صاحب ! کسی شعر عرب کا بھی حوالہ دیا؟ یا کسی مستند شخص کے قول سے استشہاد بھی کیا؟ اگر فرما دیں کہ حروف جارہ کا حذف جائز ہے تو گذارش ہے کہ ہمشہ نہیں ورنہ فرمایا کہ صلی فی المسجد سے فی کو حذف کر کے صلی المسجد کہنا بھی جائز ہے یا دعالہ سے جارہ کو محذوف کر کے دعاہ کہنا۔ پھر اس سے وہی معنے سمجھنا جو دعالہ کا مفہوم ہیں درست ہے؟ اصل یہ ہے کہ آپ چونکہ ہمیشہ سے بےدلیل کہنے کے عادی ہیں۔ اس لئے ایسی باتیں آپ سے کچھ بعید نہیں جنتی چاہیں کہے جائیں مثل مشہور ہے جہاں سو وہاں ایک پر سو۔ ہاں ایک دلیل آپ کی قابل ذکر ہے جہاں فرمایا کہ :۔ ” فی کے حذف ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ اسی قصہ کو سورۃ طہٰ میں فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا فرما پس ایک جگہ لفظ فی مذکور ہے تو یہی قرینہ باقی مقامات میں اس کے محذوف ہونے کا ہے۔ “ پھر کہا کہ :۔ ” شاہ ولی اللہ صاحب نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے ” پس برو برائے ایشاں درراہ خشک“ یعنی شاہ صاحب نے ضرب کے معنے زون کے نہیں لئے رفتن کے لئے ہیں۔“ (جلد اوّل صفحہ ٩٨) میں کہتا ہوں اس دلیل سے سرسید کا مطلب ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ ایک جگہ اگر حرف جر مذکور ہو تو دوسری جگہ بھی اسی کو قرینہ بنا کر محذوف مانا جائے۔ یہ جب ہے کہ طریق بیان اور مطلب ایک ہو۔ الا اگر مطلب بدل جائے تو کلا (ہرگز نہیں) مثلاً ایک جگہ دعاہ ہے دوسری جگہ دعالہ ہو تو یہاں حرف جر کا مذکور ہونا پہلے میں اثر نہ کرے گا۔ اسی طرح اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں راستہ بنانے کا بیان ہے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ میں اس راہ چلنے کا حکم ہے چانچہ شاہ صاحب کا ترجمہ ہی اس کا محاکم بناتا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ آپ نے جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” بس بساز برائے ایشاں راہ خشک در دریا“ دیکھو حمائل مطبوعہ انصاری دہلی اور ایک نسخے میں تو بالکل ہی آپ کے دعویٰ کی تردید ہے۔ کہ شاہ صاحب نے ضرب کے معنے رفتن کے کئے ہیں ” بزن برائے ایشاں“ دیکھو حمائل مطبوعہ ہاشمی میرٹھ۔ ہاں ہم انصاف سے کہتے ہیں کہ آپ کا منقولہ ترجمہ بھی ایک قرآن مطبوعہ فارقی دہلی میں ہے۔ لیکن دو نسخے اس سے مخالف ہیں اس مخالفت کا فیصلہ اگر کثرت نسخ کے اعتبار سے آپ منظور کریں تو ہمیں مفید ہے ورنہ اذا تعارضا تساقطا تو نتیجہ لازمی ہے پس آپ کا دونوں آیتوں کے ملانے سے ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لینا اور فی کو محذوف ماننا ہرگز صحیح نہیں دونوں آیتیں اپنا اپنا مطلب ادا کرنے میں بالکل واضح ہیں اَنِ اضْرِبْ والی آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ دریا کو اپنی لکڑی سے مار تاکہ وہ راہ بن جائے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا کے معنے ” بنا ان کے لئے دریا میں خشک راستہ“ ہیں۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لئے جاویں یا ایک جگہ لینے سے دوسری جگہ لینے ضرور ہوجائیں۔ ہر ایک آیت اپنے اپنے معنے بتلانے میں جدا گانہ ہے پھر آپ نے جو فانفلق کی توجیہ میں تحریر یا تحریف فرمائی ہے انصاف سے کہیں وہ اس قابل ہے کہ عالم کی زبان سے نکلے۔ چونکہ آپ کی اس موقع کی ساری در افشانی اہل علم کے ملاحظہ کے قابل ہے اس لئے میں اسے من وعن نقل کرتا ہوں (قولہ) ” انفلق ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے۔ کہ جب ماضی جزا میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ اگرچہ ماضی اپنے معنے پر نہیں رہتی بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے۔ تو اس وقت اس پر ” ف“ نہیں لاتے اور جب کہ وہ اپنے مضمون پر باقی رہتی ہے اور جزا کی معلول نہیں ہوتی۔ تب اس پر ” ف“ لاتے ہیں۔ جیسے کہ اس مثال میں ان اکرمتنی فاکر متک امس یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کرچکا ہوں۔ اس مثال میں جزا (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کا معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا‘ ضرب کا معلول نہیں“ (جلد اوّل صفحہ ٨٢) سید صاحب کیا فرماتے ہیں۔ کہاں شرط اور جزاء کا مسئلہ اور کہاں یہ صورت اور آپ کی کہاں مثال۔ سچ ہے ؎ بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا بقول شیعہ اہل بیت معصوم تھے مگر آج تو آپ نے ان کی خوب ہی تغلیط کی۔ اوّل ! تو یہ قاعدہ ہی غلط ہے کہ ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوسکتی ہے۔ بلکہ وہ دلیل برجزا ہوتی ہے جزا نہیں۔ آپ کوئی مثال ایسی نہ بتلا سکیں گے جس میں ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوتی ہو۔ پس آپ کا مثال میں ان اکرمتنی فاکرمتک امس پیش کرنا بھی غلط ٹھیرا۔ اس لئے کہ اس مثال میں بھی فاکرمتک امس جزا نہیں بلکہ دلیل برجزا ہے جیسا کہ متنبی کے اس شعر میں ؎ ان تفق الانام وانت منھم فان المسک بعض دم الغزالٖ یا آیت کریمہ اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ ہاں ان معنوں سے صحیح ہوسکتی ہے جو ہم نے حاشیہ پر لکھے ہیں ۔ مگر ان کو یہاں علاقہ ہی نہیں۔ سید صاحب اس طرح کے ہاتھ پائوں مارنے سے بجزا اس کے کہ اہل علم میں ہنسی ہو کچھ فائدہ نہیں۔ عالموں سے غلطی بھی ممکن ہے مگر عالم کا فرض ہے کہ کہتے ہوئے اپنی تقریر کو مخالفانہ نظر سے دیکھے۔ ورنہ محبت تو ایسی بلا ہے کہ اپنا کانا بیٹا بھی سنوانکھا دکھاتی ہے۔ ہاں ایک توجیہ آپ کی عبارت کی ہوسکتی ہے شائد آپ نے اپنے جی میں وہی رکھی ہو جو (بقول نواب محسن الملک مرحوم) اللہ کو بھی نہ سوجھی ہو۔ کہ تقدیر کلام یوں ہے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَانْ ضَرَبْتَ نَجَوْتَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۔ یعنی (بقول آپ کے) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ دریا میں اپنی لکڑی کے سہارے چل۔ اگر چلے گا تو بچ جائے گا اس لئے کہ وہ دریا کھلا ہوا اور پایاب ہے پس اس صورت میں فانفلق اگرچہ جزا نہیں۔ مگر دلیل بزجزا جسے مجازاً جزا کہیں تو ہوسکتا ہے۔ سو اگر یہی آپ کی مراد ہے تو شاباش میرے نام ہے جس نے آپ کے مدعا کو جو دربطن قائل کا مصداق تھا ظاہر کیا۔ مگر اس پر بھی گذارش ہے کہ اوّل یہ بتلا دیں کہ اگر اتنی بڑی عبارت کا حذف جائز رکھا جائے اور ہر جگہ اس ٹوٹے پھوٹے ہتھیار کو پیش کیا جائے تو کوئی مسئلہ بھی قرآن کریم کا ثابت ہوسکتا ہے؟ ہر ایک جگہ یہی قاعدہ جاری ہوگا۔ کہ یہ حذف ہے وہ حذف ہے۔ حتی کہ مطلب ہی حذف ہے۔ دومؔ یہ کہ سیاق کلام کے بھی مخالف ہے کیونکہ سیاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام بطور نتیجہ کے ہم کو سنایا جاتا ہے اسی لئے آگے کے جملوں کو اس پر عطف کرتے گئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اور سب سے اخیر کیا ہی مختصر نتیجہ نکالا ہے۔ اِنَّ فِیْ ذَلٰکِ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یعنی موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کے بچانے اور فرعون کے غرق کرنے میں بڑی نشانی ہے۔ کہ اللہ کی قدرت کاملہ اور تصرف فی الامور کا پورا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) اسے نہیں مانتے پس جب یہ کلام بطور نتیجہ کے ہمیں سنایا جاتا ہے تو فانفلق سے لے کر اخیر تک حضرت موسیٰ کو خطاب نہیں اور کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ تیسری آیت سورۃ طہٰ کی ہے اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا یعنی موسیٰ کو ہم نے پیغام بھیجا کہ تو ہمارے بندوں کو رات ہی سے لے چل پھر ان کے لئے دریا میں راستہ خشک بنا۔ یہ آیت بھی جتلا رہی ہے کہ اس دریا سے عبور کرنے میں حضرت موسیٰ کے فعل کو بھی دخل ہے۔ ورنہ حضرت موسیٰ کو کیوں حکم ہوتا کہ تو ان کے لئے خشک راستہ بنا۔ غضب یہ کہ اس آیت کو سید صاحب اپنے دعوٰے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں حذف فی کا قرینہ بتاتے ہیں جس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں۔ پس بعد اللُّتیا والّٰتِی ہم اس دعویٰ پر کہ حضرت موسیٰ کا عبور خرق عادت تھا جو قرآن کی صریح الفاظ سے ثابت ہوتا ہے تورٰیت سے بھی جسے سید صاحب غیر محرف لفظی مانتے ہیں۔ شہادت پیش کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کہ حسب عادت قدیمہ کوئی عذر نہ رہے کہ کتب سابقہ میں اس کا ذکر نہیں اس لئے قابل تاویل ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج ١٤ باب ١٩ آیت سے اخیر تک مذکور ہے۔ ” اللہ کا فرشتہ جو اسرائیلی لشکر کے آگے چلا جاتا تھا پھرا اور ان کی پشت پر آرہا اور بدلی کا وہ ستون ان کے سامنے سے گیا اور ان کی پشت پر جا ٹھہرا اور مصریوں اسرائیلی لشکر کے بیچ میں آیا اور وہ ایک اندھیری بدلی ہوگئی پر رات کو روشن ہوئی سو تمام رات ایک لشکر دوسرے کے نزدیک نہ آیا۔ پھر موسیٰ نے دریا پر ہاتھ بڑھایا۔ اور اللہ نے بہ سبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات میں دریا کو چلایا اور دریا کو سکھایا اور پانی کو دو حصہ کیا۔ اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہوکے گذرگئے۔ اور پانی کے ان کے دہنے اور بائیں دیوار تھی اور مصریوں نے پیچھا کیا اور ان کا پیچھا کئے ہوئے وسے اور فرعون کے سب گھوڑے اور اس کی گھوڑیاں اور اس کے سوار دریا کے بیچو بیچ تک آئے اور یوں ہوا کہ اللہ نے پچھلے پہر اس آگ اور بدلی کے ستون میں سے مصریوں میں سے مصریوں کے لشکر پر نظر کی اور مصریوں کی فوج کو گھیرا دیا اور ان کی گاڑیوں کے پہیوں کو نکال ڈالا ایسا کہ مشکل سے چلتی تھیں چنانچہ مصریوں نے کہا آؤ اسرائیلیوں کے منہ پر سے بھاگے جائیں۔ کیونکہ اللہ ان کے لئے مصریوں سے جنگ کرتا ہے۔ اور اللہ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ دریا پر بڑھا تاکہ مصریوں اور ان کی گاڑیوں پر اور ان کے سواروں پر پھر آوے اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ دریا پر بڑھایا اور دریا صبح ہوتے اپنی قوت اصلی پر لوٹا اور مصری اس کے آگے بھاگے اور اللہ اور اللہ نے مصریوں کو دریا میں ہلاک کیا اور پانی پھرا اور گاڑیوں اور سواروں اور فرعون کے سب لشکر کو جو ان کے پیچھے دریا کے پیچ آئے تھے چھپا لیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل خشک زمین پر دریا کے بیچ میں چلے گئے اور پانی کی ان کے دہنے بائیں دیوار تھی سو اللہ نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے یوں بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کی لاشیں دریا کے کنارے پر دیکھیں اور اسرائیلیوں نے بڑی قدرت جو اللہ نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور لوگ اللہ سے ڈرے تب اللہ اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “ پسؔ ثابت ہوا کہ اس واقعہ (عبور موسیٰ) کے خرق عادت ہونے کے بیان میں قرآن کریم سے تورٰیت نے نہ صرف اجمالی اتفاق کیا ہے بلکہ اس طرح کہ اس کی کیفیت مفصل بیان کی ہے۔ پھر نہیں معلوم سر سید کو باوجود تورٰیت کو غیر محرف ماننے کے کون سا امر باعث ہے کہ ان دونوں کتابوں (قرآن اور تورٰیت) کے ظاہری اور صریحی الفاظ سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ہاں میں بھولا۔ دوامر ان کو باعث ہیں۔ ایک تو وہی پرانی لکیر کا پیٹنا یعنی سپر نیچرل (خلاف قانون قدرت) نہیں ہوسکتا۔ جس کا مفصل جواب گذر چکا۔ دوسرا مانع ایک نقلی امر ہے جس کو آپ بطلیموس سے نقل کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :۔ ” معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب بنی اسرائیل نے عبور کیا تھا بحر احمر ایسا تھا قہار سمندر نہ تھا۔ جیسا کہ اب ہے گو اس زمانہ کا صحیح جغرافیہ ہم کو نہ ملے مگر بہت پرانا جغرافیہ جو بطلیموس نے بنایا تھا مع اس کے نقش جات کے جو بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق بنائے گئے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں بحر احمر کا بھی نقشہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطلیموس کے زمانہ تک بحر احمر میں تیس چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے اور یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں بحر احمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے یا جیسا کہ ہمارے علماء اسلام بارہ سو برس سے اس کو دیکھتے آئے ہیں بحر احمر کی اس حالت پر خیال کرنے سے بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اترے بلاشبہ جوار بھاٹ کے سبب سے رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہوجاتا ہوگا۔ الیٰ ان قال مؤرخین کے قول کے بموجب بنی اسرائیل سن عیسوی سے دو ہزار پانسو تیرہ برس قبل بحر احمر کی شاخ سے اترے تھے اور بطلیموس جس نے جغرافیہ لکھا ہے جس کو کلاڈس ٹانی کہتے ہیں سنہ عیسوی کی دوسری صدی میں تھا۔ پس بنی اسرائیل کے عبور کرنے کے دو ہزار سات سو برس تک وہ جزیرے موجود تھے۔ یہ بطلیموس یونانی تھا مگر مصر میں رہتا تھا اور اس لئے بحر احمر کا حال جو اس نے لکھا ہے زیادہ اعتبار کے لائق ہے (جلد اوّل صفحہ ١٠٠) مگر سید صاحب (وآلٔہ) انصاف تو کریں کہ یہ ہتھیار ٹوٹا پھوٹا آپ کا کہاں تک کام دے سکتا ہے۔ آپ کی اس دلیل کو دیکھ کر مجھے محدثین (رض) کی دور اندیشی کی تصدیق ہوئی کہ اخیر عمر کے محدث کی روایت قابل حجت نہیں۔ یا تو آپ جانتے ہیں کہ مقابل میں بقول آپ کے کوڑ مغز ملاّیان مساجد ہیں کہ ان کو کچھ بھی سمجھ نہیں۔ کہاں میرے کلام پر غور کریں گے اور کہاں حسن قبیح سے واقف ہوں گے یا یہ خیال سمایا ہے کہ آخر بے خبروں سے ملک خالی نہیں بلکہ قریباً دوتہائی ایسے ہی ہیں بالخصوص مذہبی باتوں سے تو بالکل ناواقف۔ بھلا یہ تو فرما دیں اگر تاریخی واقعات پر پچھلے لوگ آپ کے کمالات اور قومی خدمات کو معلوم کرنا چاہیں گے تو منشی ! سراج الدین احمد اڈیٹر سرمور گزٹ کی تحریر (جو آپ کے حالات دیکھنے والے ہیں) ان کے نزدیک زیادہ معتبر ہوگی یا ان مورخوں کی جو تین ہزار برس بعد قریب قیامت ہوں گے؟ حاشا وکلا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی رضی" اللہ عنہ وارضاہ کے حالات دریافت کرنے کو تاریخ یمینی سب سے زیادہ قابل اعتبار ہے جو واقعات کو بچشم خود دیکھتا یا دیکھنے والوں سے سنتا رہا۔ پس یہ قاعدہ ہمیشہ صحیح ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ لیس الخبر کالمعائنۃ۔ تو پھر تمام تاریخ سے وہ تاریخ جو حضرت موسیٰ کے دیکھنے والوں نے لکھی ہوگی یعنی تورٰیت کیوں معتبر نہ ہوتی۔ خاص کر آپ تو ضرور ہی مانیں گے کیونکہ جناب والا اس کی نسبت تحریف لفظی کے قائل نہیں۔ پس انصاف سے سید صاحب وآلہ بتلا دیں اور سچ بتلا دیں اپنے نانا کے لحاظ ہی سے بتلا دیں کہ تورٰیت کی عبارت مذکورہ بالا کیا بتلا رہی ہے مجھے تعجب ہے سرسید کی تحقیقات پر کہ اس موقع پر انہوں نے تورٰیت کا نام تک نہیں لیا گویا کسی مسجد کے امام صاحب بن گئے۔ کہ تورٰیت انجیل کا پڑھنا پڑھانا بلکہ دیکھنا بھی حرام سمجھا۔ حالانکہ مطلب کے لئے تورٰیت کو پیش نظر رکھ کر آیات قرآنی میں بھی تاویل یا تحریف کردیا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو وَ اِذَا تَکُوْنُ کَرِیْھَۃٌ اُدْعٰی لَھَا وَ اِذَا یُحَاسُ الْخَیْسُ یُدْعٰی جُنْدَبٗ اے صاحب ! ہم اس کو بھی تسلیم کئے لیتے ہیں کہ بطلیموس نے بھی ٹھیک لکھا۔ مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل کے لئے دریا نہیں پھٹا تھا۔ اوّل تو اس میں دریا کے جوار بھاٹ ہونے کا کوئی ذکر نہیں اور میں کہتا ہوں۔ اگر صریح لفظوں میں بھی بطلیموس لکھ جاتا کہ میرے دیکھتے ہوئے اس دریا میں جوار بھاٹ ہوتا رہا۔ تو بھی ہمیں مضر نہ تھا۔ اس لئے کہ تناقض کے نئے وحدت زمانہ کی بھی علماء منطق نے شرط لگائی ہے یہ نہیں کہ ایک شخص خبر دے کہ زید صبح کے وقت مسجد میں تھا۔ اور دوسرا بتلاوے کہ شام کو بازار میں تھا۔ تو ان دونوں میں کسی قسم کا تناقض یا تدافع ہو۔ پس ممکن ہے کہ بطلیموس کے زمانہ میں جو قریباً تین ہزار برس بعد میں ہوا بحر احمر میں جوار بھاٹ بقواعد علم جو الجی ہوگیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کسی تاریخ سے بفرض محال اگر یہ بھی ثابت ہو کہ زمانہ عبور بنی اسرائیل میں جوار بھاٹ تھا۔ تو بھی ہمارے دعوٰی کو مضر نہیں۔ ممکن ہے کہ ہو مگر جب بنی اسرائیل گذرے ہوں تو خاص ان کی خاطر اللہ نے بہتے ہوئے دریا کو بند کردیا ہو۔ چنانچہ وَاِذْ فَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ بتلا رہا ہے اور تورٰیت کی عبارت مذکورہ اس کی مشرح کیفیت بتلا رہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ سید صاحب کس بناء پر قرآن کریم کو الہامی کتاب مان کر ایسی تاویلات رکیکہ اور اعذار بار وہ کیا کرتے ہیں۔ اس پر بھی طرہّ یہ کہ علماء کا لقب خشک ملا۔ کوڑ مغز۔ شہوت پرست آپ نے تجویز کر رکھے ہیں۔ کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر اللہ ناخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے رہا آپ کا یہ اعتراض کہ ” اگر یہ واقعہ خلاف قانون قدرت ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ سمندر کے پانی کو ہی ایسا سخت کردیتا کہ مثال زمین کے اس پر سے چلے جاتے“ (جلد اوّل صفحہ ٧١) اس کا جواب آپ نے خود ہی صفحہ ١٩٢ پر دے کر اس تکلیف سے ہمیں سبکدوش فرمایا جزاک اللّٰہ خیر الجزائ۔ جہاں پر آپ نے سمت قبلہ کے اختیار کرنے اور دوسری جانب کو چھوڑنے کی ترجیح بلا مرحج کے سوال کو اٹھانے کو فرمایا ہے کہ :۔ ” یہ شبہ بطور ایک شبہ عاتمہ الورود کے ہوگا جسے تمام عقلا لغو اور بیہودہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر بالفرض دو مساوی چیزوں میں سے ایک کے ترک اور ایک کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو تو جو شبہ اس پر وارد ہوتا ہے وہی اس وقت بھی وارد ہوگا جب کہ مختار کو ترک اور متروک کو اختیار کیا جائے“ (جلد اوّل صفحہ ١٩٢) پس اسی طرح کی یہاں صورت ہے آپ بتلا دیں آپ کے سوال کا نام وہی عقلاء کیا تجویز کریں گے۔ غالباً وہی لقب دیں گے جو آپ نے ایسے شبہ کے لئے تجویز فرمایا یعنی لغو اور بہ۔ علاوہ اس کے ہم اس شبہ کی لغویت اور طرح بھی ثابت کرتے ہیں کہ اگر اسی پانی کو ایسا سخت کیا جاتا تو آپ جیسے منکرین معجزات کو ایک قسم کی گنجائش مل جاتی کہ وہ پانی حسب نیچر سردی کی وجہ سے سخت ہوگیا ہوگا جیسا عموماً پہاڑوں میں ہوتا ہے کوئی سپر نیچرل (خرق عادت) معجزہ نہیں پس اسی بھید سے علام الغیوب اللہ تعالیٰ نے اس شق کو متروک اور اس کو اختیار کیا۔ فالحمدُللّٰہ علٰی ذٰلک (منہ) البقرة
48 البقرة
49 البقرة
50 البقرة
51 البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 (54۔59)۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو ! تم نے بچھڑے کو معبود بنانے کی وجہ سے اپنے پر ظلم کیا۔ اس کا علاج سوائے توبہ کے نہیں پس تم اپنے خالق کی طرف دل سے جھک جاؤاور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔ جو بچھڑا پوچنے میں شریک نہیں ہوئے وہ شریک ہونے والوں کو ماریں۔ یہ کشت وخون گو بظاہر تم کو برا معلوم ہوتا ہے لیکن تمہارے خالق کے ہاں یہی بہتر ہے پس تمہارے جھکنے کی ہی دیر تھی کہ اس مولانے بھی تم پر رحم کیا۔ اس لئے کہ وہ تو بڑا ہی رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے باوجود اتنی مہربانیوں کے بھی تم باز نہ آئے اور ہمارے رسول موسیٰ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی ہی سے پیش آتے رہے۔ چنانچہ وہ واقعہ بھی تمہیں یاد ہے کہ جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! ہم تجھے ہرگز نہیں مانیں گے۔ جب تک کہ اللہ کو سامنے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہاری اس گستاخی کا بدلا تم کو یہ ملا کہ اسی وقت بجلی نے تمہارے دیکھتے ہی تم کو پکڑ لیا اور ہلاک کرڈالا۔ پھر موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کے لوگ مجھ کو ملامت کرینگے تو اپنی مہربانی سے انہیں زندہ کردے۔ پھر ہم نے بعد تمہاری موت کے تم کو زندہ کیا۔ تاکہ تم اس نعمت کا شکر کرو اگر اسی موت سے مرے رہتے تو بسبب گناہ سابق کے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے۔ اب جو تم کو زندہ کیا تو اس سے توبہ کی گنجائش تم کو ملی پس اس نعمت کا شکر تم پر واجب ہوا۔ مگر تم ایسے کہاں تھے کہ شکر گذار بنتے۔ اگر ایسے ہوتے تو اس نعمت کا شکر کرتے۔ جب ہم نے جنگل بیابان میں تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور موسم برسات میں بارشیں کیں اور من سلوٰی بھی تم پر اتارا اور عام اجازت دی کہ ہماری نعمتیں کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں۔ آخر کار اس نعمت کی بھی ناشکری ہی تم سے ہوئی جس کا زوال بھی ان ناشکروں پر پڑا جسے انہوں نے بھگتا اور ہم پر اس ناشکری کی وجہ سے انہوں نے کوئی ظلم نہ کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے اور بھی سنو ! جب ہم نے کہا کہ اس بستی بیت المقدس میں چلے جاؤ۔ پھر اس شہر میں جہاں چاہو کھلم کھلا کھاتے پھرو۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ تکبر نہ کرو اور شہر کے دروازہ میں بعاجزی جھکتے ہوئے داخل ہونا۔ اور یہ بھی کہتے جانا۔ کہ ہماری گناہ کی معافی ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے نہ صرف معاف ہی کریں گے بلکہ جو لوگ توبہ ہی پر رہیں گے اور اعمال نیک کریں گے ان نیکوکاروں پر مزید عنائیت بھی ہم کریں گے۔ پھر بھی ہمارا حکم انہوں نے نہ مانا۔ بلکہ ظالموں نے بجائے اس کے جو ان کو حکم ہوا تھا کچھ اور ہی بدل دیا۔ اپناہی گیت گانے لگے بجائے حطّہ (معانی) کے حنطہ (گیہوں) کہنے لگے پس اس نافرمانی کا بدلہ بھی ان کو یہ ملا کہ ان ظالموں پر ہم نے خاص کر ان کے فساد اور فسق و فجور کے سبب سے آسمان سے عذاب اتارا جس سے وہ سارے کے سارے ہلاک ہوگئے ہم نے تو ان پر ہر طرح سے بندہ نوازی کی تھی مگر ان کی طبیعتیں ہمیشہ فتنہ پردازی میں لگی رہیں۔ البقرة
55 البقرة
56 البقرة
57 البقرة
58 البقرة
59 البقرة
60 (60۔66)۔ اور سنو ! جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے ہم سے پانی مانگا اور ہم نے حکم دیا کہ پتھر کو اپنی لکڑی مار۔ جب اس نے ماری تو بہہ نکلے اس سے بارہ چشمے اتنے ہی اس کی قوم کے مختلف قبائل تھے۔ لہٰذا ہر ایک شخص نے یہ جان کر کہ ہماری جماعتوں کے برابر ان چشموں کا شمار ہے اپنااپنا گھاٹ پہچان لیا۔ ہم نے بھی حکم دیا کہ کھائو پیئواللہ کے دیے ہوئے میں سے اور زمین پر فساد کرتے ہوئے نہ پھرو پھر اس نعمت کا بھی تم سے شکر نہ ہوا بلکہ الٹا کفران نعمت کیا پھر اسی پر بس نہیں اور سنو ! جب ہم نے تم پر میدان بیاباں میں من سلوٰی آسمان سے اتارا اور آرام سے تم کچھ مدت کھاتے رہے آخر کار بجائے شکریہ کے تم نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تو ہرگز ایک ہی قسم کے کھانے من سلوٰی پر صبر نہیں کریں گے پس ہمارے لئے اپنے رب سے دعا مانگ کہ وہ ہمارے لئے ایسی چیزیں پیدا کرے جو زمین سے نکلتی ہیں یعنی ساگ ککڑی گیہوں مسور اور پیاز وغیرہ تاکہ ہم اپنی ترکاریاں چٹ پٹی بنایا کریں اس کے جواب میں موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا تعجب ہے تمہارے حال پر کیا اچھی چیز من سلوٰی کے بدلہ میں ادنیٰ چیز مسور وغیرہ لینا چاہتے ہو۔ اگر تمہارا یہی شوق ہے تو کسی شہر میں جا بسو پس جو مانگتے ہو وہ تم کو وہاں ملے گا جب کہ انہوں نے خود ہی ان اشیاء کی درخواست کی تو اسی کے مناسب ان کی گت ہوئی اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈالی گئی جیسے کہ عموماً دہقانوں پر ہوتی ہیں نہ صرف مفلسی اور تنگ دستی بلکہ بعد اس کے بھی انہوں نے بے فرمانی کر کے اللہ تعالیٰ کا غضب اپنے پر لیا یہ اس لئے کہ ہمیشہ اللہ کے احکام کو جھٹلاتے رہے یہاں تک اس میں دلیر ہوئے کہ احکام شرعیہ کی عموماً گستاخی کرتے اور اللہ کے نبیوں کو جو کہ بڑی بھاری اللہ تعالیٰ کی نشانی ہوتی ہے ناحق ظلم سے قتل کرتے تھے چنانچہ حضرت یحیٰے ( علیہ السلام) اور زکریاکو ناحق انہوں نے قتل کیا قاعدہ ہے کہ ابتدا میں انسان چھوٹے چھوٹے گناہ دلیری سے کرتا ہے آخر نوبت یہ ہوتی ہے کہ بڑوں سے بھی پرہیزی نہیں کرتا چنانچہ یہ قتل قتال نبیوں کا جو بنی اسرائیل نے کیا اس وجہ سے تھا کہ وہ پہلے ہی سے نافرمانی اور سرکشی کیا کرتے تھے آخر نوبت بآں جا رسید کہ انہوں نے اپنے دنیاوی منافع کے لئے اللہ کے رسولوں کو قتل کر ڈالا اے بنی اسرائیل جو کچھ تم نے اور تمہارے بزرگوں نے پہلے سے کیا سو کیا اب بھی اگر تم باز آجائو گے تو ہم تمہیں معاف کردیں گے کیونکہ ہمیں اس بات کا خیال نہیں کہ کوئی کون ہے اور کوئی کون بلکہ ہمارے ہاں تو ایمان اور اخلاص معتبر ہے اس لئے ہم اعلان عام دیتے ہیں کہ جو لوگ سرسری اور ظاہری طور پر اللہ اور رسول کو مانتے ہیں یا جو لوگ یہودی ہیں جو سچے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺسے سخت بے جا عداوت رکھتے ہیں یا عیسائی یا دہرئے بےدین جو ایسے عقل سے خالی ہیں کہ اپنا خالق کسی کو نہیں مانتے کوئی ہو جو کوئی ان میں سے اللہ کے حکموں کو دل سے مانے اور قیامت کے دن کا یقین کرے اور عمل بھی شریعت محمدیہ کے مطابق اچھے کرے پس ان لوگوں کی مزدوری بڑی ہی محفوظ ان کے مالک اللہ عالم کے پاس ہے۔ نہ ان کو زندگی میں اس کے ضائع ہونے کا خوف ہے اور نہ وہ بعد مرنے کے اس کے ضائع ہونے سے غمناک ہوں گے اس لئے کہ وہ ضائع ہی نہ ہوں گی مگر تم ایسے کہاں کہ چپکے سے مان لو تمہاری تو ابتدا سے انکار اور غرور کی عادت رہی اور سنو ! کہ جب ہم نے تم پر پہاڑکواونچا کرکے تم سے وعدہ لیا کہ توریت پر عمل کرنا اور حضرت موسیٰ کی زبانی تاکید بھی کی کہ جو تم کو ہم نے دیا اسے مضبوط پکڑے رہنا اور جو اس میں ہے اسے دل سے یاد کرنا اور اس امر کی امید رکھنا کہ شائد تم عذاب سے چھوٹ جائو مگر تم ایسے کہاں تھے کہ سیدھے رہتے پھر بھی اپنے عہدوپیمان سے تم پھر گئے جس کے سبب مورد عتاب ہوئے پھر اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو بے شک تم ٹوٹا پاتے کہ دین اور دنیا میں تم کو سخت ذلت پہنچتی کیا تمہیں کچھ اس میں شک ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے رو گردانی کرتے ہیں ان کو کیسی ذلت اور خواری پہنچتی ہے حالانکہ یقینا تم ان شریر لوگوں کو جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے حکم میں زیا دتی کی جو ان کو حکم تھا کہ ہفتہ کے روز دنیاوی کام نہ کرنا انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی کسی حیلہ بہانہ سے دنیاوی کام کرتے ہی رہے پس ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم پھٹکارے ہوئے ہو بندر ہوجائو چنانچہ وہ ہوگئے پس ہم نے کیا اس قصہ کو ہیبت ناک نظارہ اس کے سامنے دیکھنے والوں کے لئے اور اس سے پچھلوں کے لئے اور اللہ سے ڈرنے والوں کے حق میں نصیحت بنایا اس انکار اور سرکشی کی عادت تم میں نئی نہیں ہے بلکہ یہ بد خوئی تم میں ابتدا ہی سے چلی آتی ہے سر سید کی چھٹی غلطی : (پتھر کو اپنی لکڑی مار) اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کے ایک معجزے کا بیان فرماتا ہے مطلب اس آیت کا تو صرف اتنا ہے کہ حضرت موسیٰ کے پانی مانگنے پر ہم نے ان کو پتھر پر لکڑی مارنے کا حکم دیا جب اس نے پتھر کو لکڑی سے مارا تو اس میں سے بارہ چشمے حسب تعداد قبائل بنی اسرائیل جاری ہوگئے۔ یہ واقعہ بعینہ تورٰیت میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج ١٧ باب اوّل آیت میں یوں ہے۔ ” تب ساری بنی اسرائیل کی جماعت نے اپنے سفروں میں اللہ کے فرمان کے مطابق سین کے بیابان سے کوچ کیا اور فیدم میں ڈیرا کیا۔ وہاں لوگوں کے پینے کو پانی نہ تھا۔ سو لوگ موسیٰ سے جھگڑنے لگے اور کہا ہم کو پانی دے کہ پیویں۔ موسیٰ نے انہیں کہا تم مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو۔ اور اللہ کا کیوں امتحان کرتے ہو۔ اور وہی لوگ وہاں پانی کے پیاسے تھے سو لوگ موسیٰ پر جنجھلائے اور کہا کہ تو مصر سے کیوں ہمیں نکال لایا کہ ہمیں اور ہمارے لڑکوں اور ہمارے مواشی کو پیاس سے ہلاک کرے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کر کے کہا کہ میں ان لوگوں سے کیا کروں وہ ہی سب تو ابھی مجھے سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ نے موسیٰ کو فرمایا کہ لوگوں کے آگے جا اور بنی اسرائیل کے بزرگوں کو اپنے ساتھ لے اور اپنا عصا جو تو دریا پر مارتا تھا اپنے ہاتھ میں لے اور جا دیکھ کہ میں وہاں حورب کی چٹان پر تیرے آگے کھڑا ہوں گا تو اس چٹان کو مار تو اس سے پانی نکلے گا تاکہ لوگ پیویں چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بزرگوں کے سامنے یہی کہا اور اس نے اس لئے کہ بنی اسرائیل نے وہاں جھگڑا کیا تھا اور اس لئے کہ انہوں نے اللہ کو امتحان کیا تھا اور کہا تھا کہ اللہ ہمارے بیچ میں ہے کہ نہیں اس جگہ کا نام مسہ اور مریبہ رکھا (یعنی امتحان کی جگہ)۔ گویہ واقع بھی سیدھے سادھے الفاظ سے قرآن کریم میں مذکور ہے اور تورٰیت میں اس کا مفصل ذکر ہے مگر سرسید کو وہی پرانی سوجھی انہوں نے اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہا اور یہ درفشانی کی :۔ ” حجر کے معنے پہاڑ کے ہیں۔ اور ضرب کے معنے رفتن کے۔ پس صاف معنے یہ ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے سے پہاڑ پر چل۔ اس پہاڑ کے پرے ایک مقام ہے۔ وہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا فانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا یعنی اس سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے (جلد اوّل صفحہ ١١٢) کاش کہ اسی پہاڑ سے ہی کہہ دیا ہوتا کہ مِنْہُ کی ضمیر مجرور اسی حجر کی طرف پھرجاتی ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ جو کچھ مضمون سید صاحب تراش رہے ہیں۔ موجود الفاظ سے وہ معنے کسی طرح مفہوم نہیں ہوتے۔ رہا حذف حروف جارہ کا۔ سو جب تک موجودہ عبارت معنے بتلانے میں بے غبار ہے اور وہ معنے فی نفسہ صحیح اور ممکن اور منقولات سے مبرہن ہیں تب تک کسی قسم کا خذف بلا ضرورت جائز نہیں۔ اور اگر ایسے بلا ضرورت حروف جارہ کا حذف مانیں تو فرمائے کہ مَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ سے اگر کوئی حرف جار کو حذف سمجھ کر تقدیر کلام فَلْیَصُمْ فِیْہِ بتلائے جس سے سارے مہینے رمضان کے روزوں کی فرضیت غیر ضروری ہو۔ بلکہ چند روزے رکھنے سے مکلف عہدہ برآہو سکے تو ایسے شخص کے جواب میں غالباً آپ بھی یہی کہیں گے کہ ایسے موقع پر جہاں کلام میں حذف کرنے سے موجودہ عبارت سے معنے ہی دگرگوں ہوجائیں حذف جائز نہیں اس لئے کہ حذف عبارت مثل مردار کے ہے۔ جب تک حلال (موجودہ عبارت) سے کام چل سکے تب تک حرام (حذف) کی طرف خیال کرنا گویا بلا ضرورت مردار خوری ہے۔ سو ہماری طرف سے بھی یہی جواب باادب یا اس کے ہم معنے یا لازم معنی گذارش ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ سید صاحب کو ایسے مواقع میں ہمیشہ وہی سپر نیچرل (خلاف قانون قدرت) کی مشکل در پیش آتی ہے جس کا جواب مفصل ہم اذفرقنا کے حاشیہ میں معروض کر آئے ہیں۔ گر قبول افتدز ہے عزو شرف۔ علاوہ اس کے گذراش خاص یہ ہے کہ اتنا تو سرسید بھی مانتے ہیں کہ عناصر میں کون و فساد بھی ہونا نہ صرف ممکن بلکہ مشاہد ہے یعنی ہوا سے پانی اور پانی سے ہوا وغیرہ بنتا ہے پس ممکن ہے کہ اس پتھر میں بھی جس سے بنی اسرائیل کے لئے پانی نکلا تھا کچھ اس قسم کے مسامات دقیقہ ہوں جن میں ہوا کی درآمد برآمد ہوتی ہو۔ اور اس کے اندر پہنچ کر بہ سبب برودت کے پانی ہو کر بہہ جاتی۔ لیجئے صاحب آپ کا نیچرل بھی بحال رہا اور آیت کے معنے بھی آپ کی آفت سماوی سے محفوظ رہے۔ رہا یہ شبہ کہ اس میں زدن کو کیا دخل تھا جس کے مارنے کا حضرت موسیٰ کو حکم ہو رہا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم معجزے کی تعریف میں کہہ آئے ہیں کہ بغیر اسباب کے محض قدرت اللہ سے ہوتا ہے۔ گو کہ یہ ضروری ہے کہ اس کے اسباب بھی کچھ ہوں مگر چونکہ وہ ان اسباب سے جو عام طور پر بطور عادت اور نیچرل کے اس کے لئے سمجھے جایا کرتے ہیں۔ خالی ہوتا ہے اس لئے اس کو بلا اسباب ہی کہا کرتے ہیں۔ پس اسی طرح ضرب موسیٰ ( علیہ السلام) کو بھی گو حسب عادت اس میں دخل نہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ ان اسباب خفیہ سے جن سے یہ بھی ایک خفی سبب ہی خلاف عادت اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ظہور فرمایا ہو۔ اخیر میں ہم سرسید کی کمال تحقیق کا ذکر کرنے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔ کہ انہوں نے اس موقع پر تورٰیت کے اصل مقام مناسب کا نام تک نہیں لیا۔ اور جولیا بھی تو ایسے ایک بے لگائو مقام کا کہ جس سے آیت کو کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ مگر چونکہ اس میں بارہ چشموں کا مذکور تھا اس لئے غنیمت جان کر فوراً ذکر کردیا۔ گو وہ واقعہ ایلیم کا ہے اور یہ رفیدیم کا سچ ہے ؎ کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے (منہ) البقرة
61 البقرة
62 البقرة
63 البقرة
64 البقرة
65 البقرة
66 البقرة
67 (67۔71)۔ اور سنو ! جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے جب انہوں نے ایک بے گناہ آدمی کو قتل کر ڈالا تھا اور آپس میں ایک دوسرے پر بہتان لگائے جیسا کہ آگے آتا ہے تو اس کے فیصلے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو تمہارے بزرگوں نے اس کی حکمت تو نہ سمجھی الٹے اعتراض کرنے لگے اور حضرت موسیٰ کے سامنے گستاخی سے بولے کہ اے موسیٰ کیا تو ہم سے مسخری کرتا ہے ؟ ہم تو ایک خون کا مقدمہ تیرے پاس لائے ہیں اور تو ہم کو گائے کا قصہ سناتا ہے سوال ازآسماں جواب ازریسماں کا معاملہ نہیں تو کیا ہے موسیٰ نے نہایت تہذیب کے ساتھ ان کو جواب میں کہا کہ ٹھٹھہ مسخری کرنا تو بازاری لوگوں اور جاہلوں کا کام ہے پناہ اللہ تعالیٰ کی اس سے کہ میں جاہل بنوں میں تو اللہ تعالیٰ کارسول ہوں اور اس کے احکام سناتاہوں موسیٰ کا یہ جواب سن کر ذراسرد پڑے مگر بیہودہ سوالات کی عادت نہ گئی آخر بولے کہ بہترہم آپ کا حکم مانتے ہیں لیکن اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں صاف بتلادے کہ وہ گائے کیسی ہے اور اس کی عمر کیا ہے موسیٰ نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہے نہ بہت چھوٹی بلکہ درمیانی عمر کی ہے اب سوال مت کرو جو کچھ تم کو حکم الٰہی ہوتا ہے وہی کرو مگر وہ اپنی عادت نہ بھولے کہنے لگے ایک دفعہ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں بتلادے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہے موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے ایسا عمدہ ہے رنگ اس کا کہ دیکھنے والوں کو نہایت بھلی لگتی ہے اتنا سن سناکر بھی باز نہ آئے اور بولے کہ ایک دفعہ پھر اپنے رب سے دعا کیجئے کہ بتلادے ہم کو کہ وہ گائے کیسی ہے وہ دودھ دینے والی ہے یا کام کرنے وا لی جیسا کہ بعض گائیں ہل جوتنے میں کام دیتی ہیں کیونکہ اس قسم کی گائیں ہمارے ہاں بہت ہیں اس لئے مختلف قسم کی گائیں ہم پر مشتبہ ہو رہی ہیں پورے طور سے معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کو کون سی گائے منظور ہے ہماری غرض اس سے تحقیق حق ہے انشاء اللہ آپ بتلادیں گے تو ہم ضرور ہی پا جائیں گے۔ موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ گائے کام کرنے وا لی نہیں جو ہل چلاکر زمین کو پھاڑتی ہو نہ کسی کھیت کو پانی پلاتی ہے بلکہ وہ بے عیب اور تندرست ہے کوئی داغ بھی اس میں نہیں یہ سب فضول جھگڑے کرکے بولے کہ صاحب ! اب آپ نے ٹھیک بات بتائی پس اللہ اللہ کرکے انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا ان کے جھگڑے سننے والوں کو تعجب ہوتا تھا اور دیکھنے والوں کو امید نہ تھی کہ وہ کریں گے البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 (72۔74)۔ اس آخرالزماں رسول سے بھی تمہارا انکار کوئی تعجب کی بات نہیں تم تو موسیٰ سے بھی در پردہ کبھی منکر ہوجایا کرتے تھے یاد کرو جب ایک نفس کو مار کر تم نے اس میں تنازع کیا کوئی کہتا تھا اس نے مارا کوئی کہتا اس نے تمہارا گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ کو خبر نہ کرے گا مگر اللہ ایسے امور پر اپنے رسولوں کو ضرور مطلع کیا کرتا ہے اور جس امر کو تم چھپاتے تھے اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا کیونکہ ظاہری قانون قدرت ہے کہ ظاہری اسباب سے کام ہوتے ہیں پس ہم نے حکم دیا کہ اس گائے مذبوحہ میں سے ایک ٹکڑا اس مردے سے لگائو انہوں نے اسی طرح حسب الحکم لگایا وہ مردہ زندہ ہوگیا مگر افسوس کہ تم نے ایسے نشان قدرت دیکھ کر بھی ایسی بداعمالیاں اختیار کیں گویا روز جزا ہی بھول گئے اور جان لیا کہ مر کر اللہ کے سامنے نہیں جانا بلکہ زندہ ہی نہیں ہونا سو یاد رکھو ! بے شک اللہ تعالیٰ اسی طرح باسباب مؤثرہ مردوں کو زندہ کرے گا جس طرح کہ یہ تمہارا مردہ بظاہر بلا اسباب مگر در حقیقت بااسباب مؤثرہ زندہ کر کے دکھلا دیا اور پہلے زندہ کرنے کے تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جائو مگر تم ایسے کہاں تھے کہ اتنی بڑی نشانی دیکھ کر بھی ہمیشہ کیلئے مان لیتے بعد اس کے پھر تمہارے دل سخت ہوگئے پس وہ سختی میں مثل پتھروں کی ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت کہ پتھروں کی سختی تو طبعی ہے اور بعض پتھر ایسے بھی ہیں کہ ان میں سے نہریں جاری ہوتی ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ وہ کسی قدر پھٹ جاتے ہیں پھر بسبب پھٹنے کے ان میں سے تھوڑا تھوڑا پانی نکل آتا ہے۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر جاتے ہیں مگر تم ایسے ہو کہ ان پتھروں سے بھی سخت دل اور بے پرواہ بن رہے ہو۔ یہ مت سمجھو کہ اس کی سزا تم کو نہ ہوگی۔ بے شک ہوگی۔ اس لئے کہ ظالموں کی سرکو بی سے خاموش رہنا غافلوں کا کام ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے البقرة
73 البقرة
74 البقرة
75 کیا تم اے مسلمانو ! ان کی ایسی کاروائیاں دیکھتے اور سنتے ہو پھر امید بھی رکھتے ہو کہ تمہاری باتیں مان لیں گے حالانکہ علاوہ واقعات گزشتہ کے اب بھی ایک گروہ ان میں ایسا ہے جن پر دنیا کی محبت ایسی غالب ہے کہ باوجود اہل علم اور پادری ہونے کے تورات کو جسے کلام الٰہی بھی مانتے ہیں اٹھا کر نہیں دیکھتے اور اگر کوئی انکو لاکر دکھا دے بھی تو کلام الٰہی کو سن کر۔ اپنے مطلب کی طرف پھیر لیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ غلط فہمی سے ایسا کرتے ہیں بلکہ بعد سمجھنے کے دیدہ ودانستہ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں واقعی برا ہے۔ (کلام الہٰی) اس آیت میں اللہ یہودیوں کے فعل شنیع کا حال بیان کرتا ہے۔ اس آیت کے متعلق اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تحریف لفظی ہے یا معنوی خاص طور پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ جس کی طرف کسی مفسر کی توجہ میری نظر سے نہیں گذری اور اس کے دفع کرنے کی طرف میں نے تفسرت میں اشارہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس تحریف کے کرنے والوں کی تعیین میں مفسرین نے دو توجیہیں کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ لوگ وہ ہیں جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر کلام الٰہی سننے گئے تھے اور انہوں نے آکر بنی اسرائیل سے جب بیان کیا تو سب کچھ کہہ کر اخیر میں اپنی طرف سے یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ کام تم کیجئیو اگر تم میں طاقت ہو۔ اور اگر نہ ہو تو خیر دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد ہدایت مہد میں تھے انہیں دوسرے معنوں کی آئندہ آیت تائید کرتی ہے کیونکہ جو حال اگلی آیت میں بیان ہوا ہے وہ کسی طرح سے ان لوگوں پر صادق نہیں آسکتا۔ جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ہمراہ تھے پس اس صورت میں یہ مشکل پیش آئے گی کہ تحریف کرنا خواہ لفظی ہو یا معنوں اس میں شک نہیں کہ علماء کا کام ہے اور کلام ہے اور کلام کا سن کر عمل کرنا جہلا کا کام۔ حالانکہ اس آیت میں فرمایا کہ سنتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں جو ایک طرح سے متضادین کا جمع کرنا ہے بظاہر مناسب یوں تھا کہ پڑھتے ہیں اور تحریف کرتے ہیں اس اعتراض کی طرف میں نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فعل شنیع کے بیان کرنے میں ان کی ایک قسم کی اور شناخت بیان ہو رہی ہے۔ کہ یہ لوگ کتاب اللہ کو خود تو بشوق پڑھتے نہیں۔ ہاں اگر کوئی مقابل میں لاکہ پیش کرے اور اس کے متعلق کچھ سوال کرے تو سن کر اس کی تحریف کردیتے ہیں۔ راقم کہتا ہے کہ ایسے افعال شنیعہ اور اطوار قبیحہ مسلمانوں میں بھی عام طور پر مروج ہوگئے ہیں۔ کتاب اللہ قرآن کریم چھوڑ کر نَبَذُوْا کِتَاب اللّٰہِ وَرَائَ ظُھُوْرِھِمْ کے مصداق بن رہے ہیں۔ جھوٹی روایات اور قصص واہیات کے بیان کے محل۔ اب ہمارے ممبر ہیں قرآن مجید جو عین وعظ تھا اور وعظ ہی کے لئے اترا تھا اور اسے ہی حضور اقدس فداہ روحی ہمیشہ اپنے خطبوں میں پڑھ کر لوگوں کو وعظ نصیحت کیا کرتے تھے۔ اسی کی یہ حالت ہے کہ خطبوں میں بھی اس کو جگہ نہیں ملتی۔ وہ جگہ ہی مروج خطب مصنفہ نے جن میں بعض نظم اور بعض نثر ہیں۔ اپنے لئے مخصوص کرلی ہے۔ ہاں تبرکاً اگر کوئی آیت منہ سے نکل جائے تو اور بات ہے واحسرتا اس روز ہم کیا جواب دیں گے۔ جب ہم پر اس مضمون کی نالش ہوجائے گی۔ وَقَال الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا۔ (رسول (علیہ السلام) بروز قیامت کہیں گے کہ اے میرے پروردگار ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا) (منہ) البقرة
76 (76۔82)۔ یہ تو انکی علمی کاروائی تھی اب عملی کیفیت بھی سنو ! ہر ایک کام میں اپنا مطلب مدنظر رکھتے ہیں اور جب کبھی مسلمانوں سے ملتے ہیں تو بوجہ اپنی دنیا داری کے ان سے بگاڑنا نہیں چاہتے بلکہ بطور دھوکہ دہی اور مطلب براری کے کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے دین کو مدت سے مانا ہوا ہے کہ سچی ہے اور واقعی اس نبی کی بابت پہلے ہی سے حضرت موسیٰ نے خبردی ہوئی ہے اور جب ایک دوسرے سے اپنی مجالس میں ملتے ہیں تو بطور ملامت کے کہتے ہیں۔ کہ تم بھی عجیب احمق ہو۔ کیا ان مسلمانوں کو وہ راز بتاتے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے خاص تم ہی کو بتلائے ہیں کیا ان مسلمانوں کو اس غرض سے بتلاتے ہوتاکہ وہ تم سے بعد مرنے کے اسی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا کریں۔ اگر یہی خیال ہے تو بڑے ہی نادان ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ اس کا ضرر کس پر ہوگا۔ افسوس ہے ان پر کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ انکے چھپانے سے چھپ جائے گا۔ اور نہیں جانتے کہ اللہ ان کی باتیں جو ظاہر کرتے ہیں اور جو چھپاتے ہیں سب جانتا ہے ایک گروہ کا تو یہ حال ہے جو سن چکے ہو۔ اور بعض ان میں سے ایسے ناواقف ہیں جو کتاب میں سے کچھ بھی نہیں جانتے ہاں اپنی بے جا امنگیں ضرور لئے ہوئے ہیں حالانکہ ان امنگوں کو درست ہونے کا بھی ان کو علم نہیں بلکہ یوں ہی اٹکلیں چلاتے ہیں اصل یہ ہے کہ اہل کتاب دو قسم پر ہیں۔ ایک تو عالم ہیں جن کو دعوٰی ہے کہ ہم اہل دانش اور اسرارالٰہی سے واقف ہیں۔ دوسرے عوام ہیں اہل علم عوام کا لانعام کو دھوکہ میں ڈالنے کی غرض سے اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ کی طرف لگاتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان نام کے عالموں کو جو اپنے ہاتھ سے ایک منصوبہ لکھتے ہیں۔ پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اس بناوٹ سے ان کی غرض کوئی ہدائیت خلق اللہ نہیں حاشا وکلا بلکہ سارے حیلے حوالے اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس کے عوض میں کسی قدر دنیا کا مال حاصل کریں دیکھو تو کیسا بڑا ظلم کرتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان کے حال پر ان کے لکھنے کی وجہ سے اور افسوس ہے ان پر ان کی کمائی سے منجملہ ان کی دروغگوئی کے یہ ہے کہ اپنے تئیں محبوب الٰہی ہونے کے مدعی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کریں۔ ہم کو چند روز سے زیادہ آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ نہایت سے نہایت چالیس روز تک اس لئے کہ ہمارے بزرگوں نے چالیس روز تک بچھڑے کی عبادت کی ہے۔ اے رسول تو ان سے کہ دے کہ تم نے کوئی اللہ سے اس امر کا اقرار لیا ہے کہ جو چاہو سو کیا کرو میں تمہیں کبھی بھی مواخذہ نہ کروں گا۔ اگر کوئی عہد لیا ہوا ہے تو بیشک قابل اعتماد ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس امر کا اقرار ہی کوئی نہیں۔ تو کیا اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ باتیں کہتے ہو۔ جو خود بھی نہیں جانتے۔ ہاں سنو ! حق یہ ہے کہ جو شخص گناہ کرے اور اس درجہ اس کی بداعمالیاں پہنچیں کہ اس کے ایمان کو بھی گھیر لین یعنی ہر قسم کے کفر وشرک وغیرہ میں مبتلا ہو۔ تو ایسے لوگ بے شک آگ میں جائیں گے نہ صرف چند روزہ بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں گے اور موافق مرضی اس کی کے اچھے کام کریں ایسے لوگ بیشک جنت میں جائیں گے۔ نہ صرف جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے تعجب کہ یہود کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم کو عزاب نہ ہوگا جو چاہیں ہم کئے جائیں۔ البقرة
77 البقرة
78 البقرة
79 البقرة
80 البقرة
81 البقرة
82 البقرة
83 (83۔86)۔ کیا ان کو یاد نہیں کہ جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس امر کا عہد لیا تھا کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ، قریبیوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنا اور علاوہ اس کے سب لوگوں سے اچھی طرح بولنا نہ صرف دنیا سازوں کی طرح کہ کہیں کچھ اور کریں کچھ۔ بلکہ خود بھی عمل کرنا اور نماز پڑھنا اور زکوٰۃ مال کی دیا کرنا اس لئے کہ ان دو کے کرنے سے بدنی اور مالی دونوں عبادتیں پوری ہوجاتی ہیں مگر تم اپنی ہٹ سے باز نہ آئے پھر بعد اس عہدوپیمان کے بھی تم سب اس سے پھر گئے۔ مگر بہت تھوڑے سے تم میں سے ثابت قدم رہے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تھوڑے ہی روز تم کو عذاب ہو۔ حالانکہ اب بھی تم اللہ کے حکموں سے منہ پھیرے جاتے ہو۔ نہ صرف یہی عہد تم نے توڑا بلکہ کئی اس سے پہلے پیچھے اور بھی توڑے۔ اور سنو ! جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خون ریزی نہ کرنا اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے وطن سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار بھی کیا اور اب تک تم اس امر کے شاہد ہو۔ مگر ظاہر جو ہوا وہ صرف زبانی جمع خرچ تھا۔ پھر تم نے اے بنی اسرائیل کے لوگو ! سب حکموں کا خلاف کیا چنانچہ پہلے ہی حکم کو تم نے اس طرح سے پلٹا کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو اور دوسرے حکم کا خلاف یہ کیا کہ اپنے میں سے ایک جماعت کو ضعیف جان کر بجائے جگہ دینے کے ان کے گھروں سے بھی نکال دیتے ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی جہاں تک ہوسکتا ہے کر گزرتے ہو۔ اور ان کو تکلیف پہنچانے میں ان کے دشمنوں کے گناہ اور ظلم میں مدد کرتے ہو۔ یہ نہیں سمجھتے ہو کہ یہ بیچارے آخری بھائی بند تو تمھارے ہیں جیسا کہ اس وقت سمجھتے ہو جب ان پر کوئی بیرونی دشمن غالب آتا ہے اور ذلیل کرتا ہے اس وقت تو ایسے مہربان بنتے ہو کہ اگر وہ تمہارے پاس دشمن کے ہاتھ قیدی ہو کر آویں تو بدلہ بھی دیکر ان کو چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان مظلوموں کا نکالنا بھی تو تم پر حرام ہے۔ اس کا خلاف کیوں ہمیشہ کرتے ہو۔ کیا آدھی کتاب کے حکموں کو مانتے ہو اور کچھ حصہ سے انکار کرتے ہو۔ پس جو کوئی تم میں سے یہ وطیرہ اختیار کرے اس کو دنیا میں خواری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا اور اسی پر بس نہیں بلکہ قیامت کے روز جو واقعی یوم الجزا ہے سخت عذاب میں پہنچائے جائیں گے۔ اس لیے کہ یہ بات بڑی مجرمانہ حرکت ہے۔ اور اللہ تمھارے کاموں سے کسی طرح بے خبر نہیں۔ ایسے شریروں کی سزا اس قدر کچھ زائد اور حد سے متجاوز نہیں۔ ان کا جرم بھی تو اعلیٰ درجہ کا ہے یہی تو ہیں جنہوں نے دنیا کو آخرت کے عوض میں لیا۔ محض دنیاوی فوائد کے لحاظ سے اپنی آخرت کا خیال نہیں کیا۔ پس ان کے جرم کے مناسب یہی سزا ہے کہ نہ تو ان سے عذاب تخفیف ہوگا اور نہ ان کو کسی سے مدد پہنچے گی۔ البقرة
84 البقرة
85 البقرة
86 البقرة
87 (87۔93)۔ بھلا اور قصہ بھی سن لو ! جس کے سننے کے بعد تم جان جاؤ گے کہ واقعی یہ لوگ اسی سزا کے لائق اور مستوجب ہیں ابتداء سے ہم نے ان پر ہر طرح کے احسان کئے۔ فرعون کی قید سے نکال کر ان کو حاکم بنایا۔ اور ان کی ہدائیت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کتاب بھی دی۔ مگر چونکہ طبیعت میں ان کی شرارت اور کجروی تھی۔ اس لئے حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں اس سے بھی الجھتے تھے بعد اس کے تو زیادہ ہی بگڑنے کا موقع تھا۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اس کے خلیفہ بنائے۔ اور اس کے پیچھے کئی رسول بھی بھیجے مگر ان لوگوں نے ایسے ظلم اور ستم ڈھائے کہ کسی کو قتل کیا اور کسی کو نکال دیا۔ سب سے اخیر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن معجزے دئیے اور اس کو جبرئیل کے ذریعے سے قوت بھی دی کہ اکثر اوقات مسیح کے ہم رکاب رہتا۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی نبی کی کما حقہ تعظیم نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ معاملہ دگرگوں ہی کرتے رہے۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے حکم لایا جنہیں تمہارے دل نہیں چاہتے تھے۔ تو کیا تم نے ان کے ماننے سے واقعی انکار اور تکبر کیا تھا۔ ایک جماعت کو جھٹلا یا اور ایک کو قتل بھی کیا۔ اس کے جواب میں بڑی دلیری سے اقرار کرتے ہیں اور اپنے زعم باطل کے مطابق اس کی وجہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس لئے ان کو نہیں مانا تھا کہ ہمارے دل محفوظ ہیں ان کی جھوٹی باتیں وہاں تک رسائی نہ کرسکتی تھیں۔ دیکھو تو کیا عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہیں۔ یہ عذر ان کا بالکل غلط ہے یہ ہرگز نہیں کہ وہ جھوٹی باتیں ان کو سناتے تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے پس اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ لوگ کسی سچی بات کو بھی بہت کم مانیں گے ان کی بے ایمانی اور طمع دنیاوی کا ثبوت بین سننا ہو تو اور سنو ! جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک کتاب بذریعہ محمد رسول اللہﷺ پہنچی جس کی سچائی کو خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ذاتی سچائی کے علاوہ ان کے ساتھ والی کتاب کی اصلیت کو مانتی ہے۔ تو بوجہ محض دنیاوی اغراض کے اس سے ناکاری ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے اسی کے وسیلہ سے اپنے مخالف کفار پر فتح یابی چاہا کرتے تھے آڑے وقت میں کہا کرتے تھے۔ خداوندا ! ہم تیرے دین کے خادم اور نبی آخرالزمان کے منتظر ہیں۔ پس تو ہم کو دشمنوں پر فتح دے۔ کیا اس سے یہی زیادہ دنیاداری کا ثبوت ہوگا پس اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ کی لعنت ہے ان جیسے کافروں پر جو دنیا کے عوض میں دین کو بیچ رہے ہیں۔ اگر غور کریں تو بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں اپنی جانوں کو دے چکے ہو اور عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے۔ وہ بدکاری کہ جس کے سبب سے اپنے آپ کو مورد عذاب بناچکے ہیں۔ یہ ہیں کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) قرآن نہیں مانتے نہ بوجہ غلط فہمی کے بلکہ محض حسد سے اس بات کے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے کسی پر اتارے پس اسی وجہ سے تو غضب پر غضب اللہ کا انہوں نے لیا اور دنیا کے عذاب سے بڑھ کر ان کافروں کو قیامت میں نہائیت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ عوام دنیا دار تو جو چاہیں سو بے پر کے اڑائیں۔ خواص بھی کسی طرح سے کم نہیں جو چاہتے ہیں سو کہہ دیتے ہیں اور جب کوئی بطور نصیحت ان سے کہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) کو مان لو تمہاری نجات ہوجائے گی۔ تو اس کے جواب میں کیسی بے ڈھب بات کہتے ہیں۔ کہ ہم تو صاحب ! اسی کتاب کو مانیں گے جو ہماری طرف اتری ہوئی ہے یعنی تورات گویا اسی کتاب پر حصر ہے کہ اسی کو مانیں اور جو اس کے سواہے سب سے انکار ہی کریں گے۔ حالانکہ ہر امر کی تکذیب کے لئے دوباتیں ہوا کرتی ہیں یا تو وہ امر فی نفسہٖ پائیہ صداقت سے گراہو یا وہ کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہو حالانکہ قرآن میں ان دونوں مواقع میں سے ایک بھی نہیں اپنے ثبوت میں وہ بالکل حق ہے دوسری وجہ بھی اس میں نہیں کہ ان کے کسی عقیدے کے خلاف ہو بلکہ ان کی ساتھ والی کتاب کی تصدیق کرتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس سے انکاری ہوئے جاتے ہیں۔ اور بار بار یہی منہ پر لاتے کہ ہم تو اپنی ہی کتاب کو مانیں گے۔ بھلا ان کا یہ عذر بھی نہ رہے بایں غرض کہ بدرا بدیایدرسانید تو اے رسول ان سے کہہ کہ اگر تم ایماندار ہو اور ہمیشہ سے تورات کو مانتے چلے آئے ہو تو پھر گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے تھے۔ کیا تورات میں نبی کا قتل جائز ہے؟ پس تمہارے ایسے ہی افعال شنیعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سے دنیا کے طالب رہے نہ تم کو تورات سے غرض نہ حضرت موسیٰ سے مطلب۔ پس تمہارا قرآن مجید سے انکار کرنا اور اس انکار کی وجہ یہ بتلانا کہ ہم تورات ہی کو مانتے ہیں اس لئے قرآن کے ماننے کی ہمیں حاجت نہیں۔ بالکل غلط ہے بلکہ بہت سے نبی تورات ہی کی تکمیل کو آئے تم نے ان کو بھی قتل کردیا۔ اگر یہ وجہ تمہاری معقول ہوتی تو ان کو کیوں مارتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ تم ہمیشہ سے اپنی خواہشوں کے تابع رہے اور دین کی آڑ میں بےدینی کے کام کئے گئے۔ چنانچہ اسی کی ایک نظیر اور سنو ! جب تمہارے پاس حضرت موسیٰ اپنی نبوت کی صاف صاف دلیلیں یعنی معجزے لایا اور تم نے اسے تسلیم بھی کیا۔ اور اس نے تم کو انہی معجزات کے ذریعہ فرعون سے نجات دلائی۔ جنگل میں تمہیں چھوڑ کر حسب ارشاد اللہ کوہ طور پر تمہاری ہدایت کے لئے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنالیا اور اس کی پوجا شروع کردی یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ سے تمہاری عادت ہی کجروی کی ہے اور نیز تم ظالم ہو۔ اور بھی کئی دفعہ تم نے ایسی ہی کجروی کی۔ سنو تو ! جب ہم نے تم سے باربار سمجھانے کے بعد کوہ طور تم پر کھڑا کرکے عمل کرنے کا وعدہ لیا اور کہا کہ خوب مضبوط قوت سے اس کو پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے اور جو کچھ ہم کہیں دل لگا کرسنو ! تو تمہارے باپ دادا بولے کہ صاحب ہم نے تو سن لیا اور جی میں ٹھان چکے کہ ہم کرنے کے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو طبیعت کی ان میں آزادی۔ اور دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں ان کے کفر کی شامت سے بچھڑے کی محبت رچ گئی تھی۔ تو کہہ دے اگر یہی ایمانداری ہے۔ تو تمہارا ایمان تم کو بری راہ بتلاتا ہے۔ اب بھی اگر تم ایسے ہی ایماندار ہو۔ تو براہ مہربانی اسے چھوڑ دو۔ اگر باوجود صریح الزام کے دعوٰی نجات ہی کئے جاویں۔ اور یہی کہے جاویں کہ قیامت کے دن ہم ہی نجات پاویں گے تو ایسے سینہ زوروں کو جو کسی دلیل کی طرف توجہ نہ کریں اور نہ اپنی ہٹ سے باز آویں۔ البقرة
88 البقرة
89 البقرة
90 البقرة
91 البقرة
92 البقرة
93 البقرة
94 (94۔96)۔ تو اے نبی ! کہ کہ اگر سب لوگوں سے علیحدہ تمہارے ہی لئے اللہ کے ہاں نجات اخروی ہے اور کسی کو اس میں شرکت نہیں اور تم کو اس کے حاصل ہونے میں صرف موت کی دیر ہے مرتے ہی سرگباشی اور جنتی ہوجاؤ گے تو پس تم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے موت مانگو۔ تاکہ مرتے ہی حقیقی عیش میں جا بسو اور ناحق تکلیف دنیاوی میں کیوں پھنس رہو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ضرور ایساہی کرو اگر آرزو موت کی نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ ان کو مذہب سے کوئی لگائو نہیں صرف اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور ہم ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ اپنے کیے ہوئے بد اعمالی کہ وجہ سے جن کی سزاکا بھگتنا ان کو بھی یقینی ہے ہرگز کبھی موت کی خواہش نہ کریں گے باوجود اس بد اعمالی اور جسارت کے دعویٰ نجات کرنا کیسا ظلم ہے پھر کیوں نہ ان کو سزا ملے حالانکہ ان کے ظلم پر ظلم بڑھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے کوئی اس سے چھپا نہیں بھلا یہ موت مانگیں گے ؟ یہ تو ایسے حریص ہیں اگر تم تمام جہان بھی تلاش کرو تو سب لوگوں سے زیادہ زندگی کا خواہش مند انہی لوگوں کو پائو گے حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی زیادہ ان کی خواہش کا اندازہ اسی سے کرلو ان میں ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر ملے حالانکہ عمر کی زیادتی ان کو کچھ بھی عذاب سے دور نہیں کرسکے گی۔ اس لئے کہ اللہ ان کے اعمال دیکھتا ہے جس قدر عمر دراز ہو کر سر کشی کریں گے سب کی سزا دیگا شان نزول : (تو کہہ دے) یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور بزرگوں کی اولاد ہیں۔ ہمیں عذاب اخروی ہرگز نہ ہوگا۔ اگر ہم میں سے کسی کو بد اعمالی کی وجہ سے ہوا بھی تو صرف چند روز ہوگا۔ پھر ہم ہمیشہ کو نجات پاویں گے۔ اور کوئی سوائے ہمارے نجات نہ پاوے گا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی مگر انہوں نے موت کی خواہش نہیں کی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اگر یہ لوگ موت چاہتے تو اسی وقت اپنا ہی تھوک نگلنے سے مر جاتے۔ اور کوئی یہودی دنیا میں زندہ نہ رہتا۔ (معالم) البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 (97۔101)۔ بھلا یہ بھی کوئی دینداروں کی بات ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس کا لانے والا جبرئیل فرشتہ ہے اور اس سے ہماری ابتدا سے دشمنی ہے کیونکہ وہ ہم پر ہمیشہ طرح طرح کے عذاب لاتا رہا اس نے ہم سے کبھی خیر نہیں کی۔ اے رسول ! تو کہدے یادرکھو جو کوئی ! جبرائیل سے دشمن ہوگا وہ سخت ٹوٹا پائے گا۔ اس لئے کہ وہ تو محض مامور ہے جو کچھ اسے حکم ہوتا ہے وہی کرتا ہے یہ قرآن مجید بھی اسی نے تیرے دل پر (اے محمدﷺ!) اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے اگر اس میں کوئی ان یہودیوں کی برائی مذکور ہے تو اس کا قصور نہیں سو یہ وجہ تکذیب کی بیان کرنا بھی عبث ہے بلکہ اصل وجہ تکذیب کی جیسا کہ ہم پہلے بتلاآئے ہیں دوہی امر ہوا کرتے ہیں یا وہ کلام فی نفسہ کسی دلیل سے ثابت نہ ہو یا ثابت ہو یا ثابت ہو مگر کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہوسو پہلے عذر کا جواب یہ ہے کہ یہ قرآن سچا بتلاتا ہے اپنے سامنے والی کتاب یینت تورات کو اور فی نفسہ کامل اور سچی ہدائیت ہے اور بڑی خوشخبری ہے اس کے ماننے والوں کو۔ اب بتلاؤ کہ مامور سے عداوت امر سے عداوت ہے یا نہیں۔ بھلا کوئی شخص کسی سپاہی سے جو حاکم کا حکم لیکر اس کے پاس آیا ہے۔ عداوت رکھے کہ یہ حکم کیوں لایا ہے تو ایسا شخص در اصل سپاہی سے عداوت نہیں رکھتا بلکی حاکم سے رکھتا ہے۔ ایسا ہی جبرئیل سے عداوت رکھنا گویا اللہ تعالیٰ سے بلکہ تمام اس کے مقربین ملائکہ سے عداوت ہے سو یاد رکھو جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے مقربین ملائکہ یا اس کے رسولوں سے یا جبرئیل یا میکائیل سے عداوت رکھے گا وہ اپنی بہتری نہ دیکھے گا اس لئے کہ اللہ ایسے بے ایمان کافروں کا خود دشمن ہے ایسا ہی معاملہ ان سے کریگا اور ایسے عذاب میں پھنسائے گا جیسا کوئی دشمن کسی دشمن کو پھنسایا کرتا ہے جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی بھلا یہ عذر ان کا کیسے مسموع ہوسکتا ہے حالانکہ ہم نے تیری طرف کھلی کھلی آیتیں اتاری ہیں جنہیں کسی طرح کا ایچ پیچ نہیں جن کو سب راست باز تسلیم کرتے ہیں اور بڑا بھاری ثبوت ان کی حقانیت کا یہ ہے کہ بدکار لوگ ہی ان سے انکاری ہوتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی بڑے راستباز اور دیانت دار ہیں حالانکہ جب کبھی انہوں نے ہم سے کوئی عہد کیا کہ آئیندہ ضرور تابعدار رہیں گے تو ایک فریق نے ضرور اسے ایسا چھوڑا کہ گویا پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ بہت سے ان میں سے مانتے ہی نہیں سرے سے دین مذہب سے منکر ہیں۔ اور ان کی بے ایمانی کا ثبوت سنو ! کہ جب ان کے پاس اللہ کے ہاں سے ایک رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ جس کی رسالت کو بقرائن شہادت کتاب خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ان کے ساتھ والی کتاب کی توحید میں تصدیق کرتا ہے تو با ایں ہم ایک جماعت نے ان کتاب پانے والوں میں سے اس رسول کا انکار کردیا اور کتاب اللہ تورات کو بھی اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور ایسے ہوگئے گویا کچھ بھی نہیں جانتے شان نزول : (جو کوئی جبرئیل) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے آنحضرتﷺ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کون فرشتہ قرآن لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جبرئیل۔ وہ بولا جبرئیل تو ہمارا قدیم سے دشمن ہے اس کی ہماری تو کبھی بنی ہی نہیں۔ ہمیشہ ہم پر عذاب لاتا رہا۔ اگر میکائیل ہوتا تو ہم مان لیتے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) سر سید کی ساتویں غلطی : ! (جو کوئی جبرئیل کا) اس آیت میں اللہ تعالیٰ جبرئیل کا ذکر فرماتا ہے اور اس کی ہستی جدا گانہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ (کہ جبرئیل ایک فرشتہ ہے جو انبیاء پر اللہ تعالیٰ کا کلام لایا کرتا ہے) تمام اہل الکتاب (یہود نصاریٰ اہل اسلام) میں متفق علیہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کا کئی جگہ ذکر صریح آیا ہے اور احادیث نبویہ تو بھری پڑی ہیں مگر باایں ہمہ سر سید احمد خاں نے حسب عادت قدیمہ باوجود دعوٰے اسلام کے اس سے بھی انکار کیا ہے۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل میں فرماتے ہیں :۔ ” یہ جبرئیل ایک ملکہ فطرتی کا نام ہے جو انبیاء میں ابتداء فطرت سے ہوتا ہے وہی ملکہ اس کو بلاتا ہے وہی اس (نبی) میں نئے نئے خیالات پیدا کرتا ہے یا پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ ایک لوہار کو اپنے فن آہنگری میں نئے نئے قسم کے خیالات سوجھتے ہیں یا جیسا کہ (معاذ اللہ) ایک دیوانہ کو نئے نئے جوش از خود اٹھتے ہیں حالانکہ اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ مگر وہ کسی کو اپنے پاس کھڑا سمجھ کر باتیں کیا کرتا ہے۔ اسی طرح (بقول سید صاحب) نبی اپنی نبوت کو نباہتا ہے اس کے پاس بھی سوائے اس ملکہ نبوت کے کوئی جبرئیل نہیں آتا۔ مگر وہ اس ملکہ کے ذریعہ سے سمجھتا ہے کہ میرے پاس کوئی کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے حالانکہ دراصل کوئی بھی اس سے باتیں نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے دل سے فوارہ کی طرح وحی اٹھتی ہے اور اسی پر گرتی ہے جس کو وہ خود ہی الہام کہتا ہے (خلاصہ صفحہ ٢٩) ناظرینؔ! یہ ہے سرسید کی کمال تحقیق۔ جس پر بڑا فخر کرتے ہوئے علماء اسلام کو کوڑ مغز ملا شہوت پرست زاہد وغیرہ وغیرہ القاب بخشا کرتے ہیں جس کے جواب میں علماء کہا کرتے ہیں بدم گفتی و خر سندم عفاک اللہ نکوگفنی نہیں معلوم سید صاحب کو بے ثبوت کہنے کی کیوں عادت ہے بےدلیل بات اور بے ثبوت دعویٰ کرنے کے خوگیر کیوں تھے؟ ہم اپنے ناظرین ہی سے نہیں بلکہ سید صاحب کے بااخلاص احباب سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ آپ نے اس امر پر کوئی دلیل ایسی بھی بیان کی ہے جس سے ایسا بڑا اہم مسئلہ جس کے ماننے کی تعلیم تمام سلسلہ نبوت میں پائی جاتی ہے طے ہوجائے۔ ہاں میں بھول گیا۔ ایک دلیل بھی بزعم خود لائے ہیں جس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ فرماتے ہیں :۔ قولہٗ:۔ ” اللہ نے بہت سی جگہ قرآن (مجید) میں جبرئیل کا نام لیا ہے مگر سورۃ بقر میں اس کی ماہیت بتا دی ہے جہاں فرمایا ہے کہ جبرئیل نے تیرے دل میں قرآن کو اللہ کے حکم سے ڈالا ہے۔ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی چیز وہی ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠) سید صاحب کے کیا کہنے ہیں یہ تو خیال فرما لیا ہوتا کہ ماہیت شئے کس کو کہتے ہیں ماہیت تو ذاتیات کو سنا تھا جن کا ذات سے تاخر محال ہے جیسے کہ انسان کی ماہیت حیوان ناطق (وغیرہ) کا تاخر انسان سے ممکن نہیں۔ پس اب میں پوچھتا ہوں کہ اگر تنزیل ماہیت جبرئیل ہے تو جب سے جبرئیل ہے تب سے ہی تنزیل ہوگی۔ حالانکہ تنزیل آنحضرتﷺ پر چالیس سال بعد شروع ہوئی اور جبرئیل تو بقول آپ کے ابتدائے پیدائش ہی سے ہوتا ہے چنانچہ آپ نے اس امر کی تصریح بھی کردی ہے جو لکھتے ہیں :۔ ” جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے اللہ تعالیٰ سے عنائت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے“ (صفحہ ٢٨) پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں : ” جس طرح اور قوٰی انسانی بمناسبت اس کے اعضاء کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے اور جب اپنی قوت پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے۔ جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں“ (صفحہ ٢٩) بتلا دیں ذات کا تقدم ذاتیات یا ماہیت سے ہوا یا نہیں فافھم فانہ دقیق خیر اس کو تو آپ ” شعر مرا بمدرسہ کہ برد“ کا مصداق بتادیں گے اور مولویا نہ فضول جھگڑا بتاویں گے اس لئے ہم بھی اس سے درگذر کرتے ہیں لیکن یہ بات کہ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج ہو اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ :۔ ” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرئیل نام ہے“ (صفحہ ٣٠) ہرگز قابل پذیرائی نہیں اس لئے کہ دل میں ڈالنا یا دل پر کسی چیز کا اتارنا یہ محاورہ ہے اس کے ذہن نشین کرنے سے بھلا اور کسی کی شہادت اس بارے میں تو آپ کا ہے کوئی مانیں گے آپ ہی کے لخت جگر آنریبل سید محمود صاحب مرحوم (جو بفحوائے ابن الفقیہ نصف الفقیہ گویا کہ آپ ہی ہیں) کا کلام پیش کرتا ہوں جو غالباً آپ کے ملاحظہ سے گذر کر تہذیب الاخلاق نمبر ٢ بابت ذی قعدہ ١٣١١ ھ؁ صفحہ ٣٢ کلام ٢ میں چھپا ہے جو میرے اس دعویٰ کی کامل شہادت ہے وہو ہذا :۔ سید محمود کی شہادت : ” میں سلطان کے پاس جاتا ہوں۔ ٹھیرمت جا۔ میں ابھی اس کے حضور سے آتا ہوں۔ اور اس دل میں ایسی باتیں ڈال آیا ہوں جو غرناطہ کے بادشاہ کو زبیا ہیں “ فرماویں اور سچ فرماویں کہ اس کا قائل کون تھا؟ کیا کوئی اہل زبان اس کے معنے یہ سمجھے گا کہ اس کلام کا قائل بادشاہ کے قویٰ ہیں۔ دور کیوں جائے گا اپنے صاحبزادے ہی سے ذرہ دریافت فرمالیں کہ انہوں نے کیا سمجھ کر اس کو لکھا تھا۔ یا اپنی کا نشنس (طبیعت) سے بانصاف استفسار کریں کہ آپ نے اس کلام سے بھی یہی معنے سمجھے تھے جو اس آیت سے بتلا رہے ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز نہیں۔ سید صاحب ! یہی عرب کا محاورہ ہے اور اس میں کسی زبان کی کچھ خصوصیت بھی نہیں۔ سب زبانوں میں برابر یہی محاورہ بولا جاتا ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ سب اہل زبان اس میں مجھ سے اتفاق رائے کریں گے۔ پس آپ کا جبرئیل اس آیت سے ثابت نہ ہوا کہ وہ انسانی قویٰ ہیں ہاں یہ ثابت ہو کہ جبرئیل بھی کوئی شخص ہے جو قرآن مجید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فدا روحی کے ذہین نشین کیا کرتا تھا۔ پھر یہ دلیل آپ کی ہوئی یا آپ کے مخالف کی؟ سچ ہے ؎ دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظؔ نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا پھر آپ کا فرمانا کہ : ” یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ قیامہ میں فرمایا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۔ یعنی ہمارے ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کرنے اور اس کے پڑھنے کا۔ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا۔ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں خود اللہ تعالیٰ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہ مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوی کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مثل دیگر قویٰ انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے اور وہی قوت ناموس اکبر ہے۔ اور وہی قوت جبرئیل پیغمبر“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠) عجیب ہی رنگ دکھا رہا ہے۔ سید صاحب ! واسطہ کی نفی تو جب ہوگی کہ اس فطری قوت کا بھی انکار کیا جاوے جسے آپ تسلیم کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے واسطہ کی نفی کرنا آپ جیسے دانائوں کی شان سے بعید ہے شائد کہ آپ فطری قوت نبوی میں اور جناب باری میں اتحاد محض کے قائل ہوں وھو کما ترٰی۔ سید صاحب انصاف فرمائے کہ آپ نے کس قدر اس آیت میں تصرفات کئے۔ اول تو آپ نے قرءنا میں نسبت حقیقی سمجھی پھر اسے بھول کر سب کو فعل فطری بنایا وھل ھٰذا لاتھافت قبیح وتناقض صریح۔ اگر آپ اس کی یہ توجیہ فرما دیں کہ قرئت حقیقتہً اس قوت فطری کا فعل ہے لیکن مجازاً اسی جناب باری سے نسبت کرسکتے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ خود اللہ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے اور پڑھتا ہے اور مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت کے ہیں“ تو آپ کا اور ہمارا چنداں اختلاف نہ رہے گا اس لئے کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس آیت میں نسبت مجازی ہے جیسی کہ یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ میں ہے یعی حقیقت میں تو قرئت فعل جبرئیل کا ہے مگر مجازاً جناب باری نے اپنی طرف منسوب کر کے فاذا قراء نا فرمایا ہے پس جب تک کہ آپ دلائل خارجیہ سے اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل یا یوں کہئے کہ بالمعنے المتعارف نہیں ہوسکتا اور اس سے مراد قویٰ فطری ہیں جو مثل دیگر قویٰ کے انبیاء میں ہوا کرتے ہیں تب تک آپ کی یہ توجیہیں تار عنکبوت سے بھی ضعیف سمجھی جائیں گی۔ ودونہ خرط القتاد۔ اسی طرح سورۃ والنجم کی آیت وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی کی نسبت آپ کا فرمانا کہ ” یہ تمام مشاہدہ اگر انہیں ظاہری آنکھوں سے تھا تو وہ عکس خود اپنی دل کی تجلیات ربانی کا تھا جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا۔ اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرئیل کہو یا اور کچھ۔ کچھ نہ تھا۔ (صفحہ ٣٠) ہرگز قابل التفات نہیں جب تک کہ آپ اس کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل (جیسا کہ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے اور تمام اہل ادیان (یہود نصارٰی مسلمان اس کو تسلیم کرتے ہیں) نہیں ہوسکتا سنا تھا کہ اہل علم قدیماً و حدیثاً اس سے پرہیز کرتے تھے۔ کہ کوئی بات ایسی منہ سے نہ نکالیں جس کی دلیل نہ ہو۔ مگر آپ نے اس شنید کی خوب ہی تکذیب کی۔ سچ ہے ترا دیدۂ و یوسف را شنیدہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ بلا سے کبھی آپ نے کوئی دلیل مثبت مدعا بیان کی ہو جس کا جواب دینا مقابل پر ضروری ہو بجز اس کے کہ دعویٰ کی دلیل دعوٰے ہوتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگ بوجہ علوم شرعیہ سے ناواقفی اور آپ سے حسن ظن رکھنے کے آپ کی بےدلیل باتیں بھی قبول کرلیں گے۔ مگر اہل علم تو ایسی بےدلیل بات پر توجہ نہیں کیا کرتے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ اصول ہے نگفتہ ندار و کسے باتو کار ولیکن چوگفتی دلیلش بیار (منہ) مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی نے اس ملکہ کا جواب یہ دیا ہے کہ اگر جبرئیل ملکہ نبوت کا نام تھا تو یہود کے جواب میں جو جبرئیل کو اپنا دشمن جانتے تھے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ جس جبرئیل (ملکۂ نبوت) کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تو اپنے نبی کے ساتھ چلا گیا۔ کیونکہ عوارض اپنے معروض سے ہوتے ہیں۔ یہ تو جبرئیل (ملکۂ نبوت محمدی) اور ہی ہے۔ لیکن میں نے اس لئے اس کو نقل نہ کیا کہ شاید سید صاحب ماہیت نوعیہ سے عداوت بتلا دیں۔ جو تغیر افراد سے بدلا نہیں کرتی۔ جیسی کرپانی اور آگ یا انسان اور سانپ میں۔ ١٢ فافہم البقرة
98 البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 البقرة
102 اور پیچھے ہولئے ہیں ان واہیات باتوں کے جو بدمعاش شیاطین سلیمان کے زمانہ میں پڑھتے اور رواج دیتے تھے جن میں کئی باتیں کفر کی بھی تھیں لیکن حق یہ ہے کہ سلیمان کے زمانہ میں ایسے واقعات ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بھی اس میں شریک تھا حاشا وکلاسلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا ہاں بدمعاش شیاطین یعنی ہاروت ماروت نے کفر کیا۔ اور کفر کی باتیں عوام میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو جادو کے کلمات واہیات سکھاتے تھے اور طرح طرح سے عوام کو ورغلاتے یہ بھی مشہور کرتے کہ یہ کلمات جادو گری کے آسمانی علم جبرئیل میکائیل دونوں فرشتوں پر شہر بابل میں اترا تھا حالانکہ نہ اتارا گیا تھا ان دو فرشتوں پر (شہر) بابل میں اور نہ کوئی آسمانی علم تھا بلکہ مہض ان ہاروت ماروت کی چالبازی تھی اس سے غرض ان کی صرف وثوق جتلانا تھا جبھی تو ان کی یہ عادت تھی کہ زبانی جمع خرچ بہت کچھ کرتے اور کسی کو جادو نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ میاں ہم تو خود بڑے بدکردار بلا میں پھنسے ہوئے مبتلا ہیں پس تو بھی مثل ہمارے ایسی باتیں سیکھنے سے کافر مت ہو۔ اس کہنے سے ان کا جاہلوں میں اور بھی زیادہ رسوخ پیدا ہوتا اور عوام میں مشہور ہوجاتا کہ سائیں صاحب بڑے منکسر المزاج ہیں جیسا کہ فی زماننا دغا باز پیروں۔ کا کام ہے پھر بھی لوگ ان سے متنفر نہ ہوتے بلکہ سیکھتے ان سے وہ کلمات جن کی وجہ سے خاوند بیوی میں جدائی ڈالتے اور اس کے عوض میں زانیوں سے کچھ کماتے اور اللہ کا غضب اپنے پر لیتے یہ مت سمجھو کہ ان کے منہ میں کوئی خوبی تھی یا قلم میں کوئی تاثیر تھی کہ جس کو چاہیں نقصان اور مضرت پہنچائیں بلکہ ان کے کلمات بھی مثل اور ادویہ کے تھے جب ہی تو کسی کو سوا اذن اللہ کے ضررنہ دے سکتے تھے چونکہ قانون خداوندی جاری ہے کہ ہر فعل انسانی پر اس کے مناسب اثر پیدا کردیتا ہے اگر کوئی سرد پانی پیتا ہے تو اسے ٹھنڈک بخشتا ہے زہر کھاتا ہے تو اس کی جان بھی ضائع ہوجاتی ہے اسی طرح ان کے جادو کا حال تھا کہ وہ ان کے حق میں مثل زہر کے مضر تھا لیکن وہ بہت خوشی سے اس کا استعمال کرتے اور اللہ تعالیٰ اپنی عادت جاریہ کے موافق اس پر آثار بھی ویسے ہی مرتب کردیتا مگر وہ لوگ اس بھید کو نہ سمجھتے اور وہی چیز سیکھتے جو ان کو ہر طرح سے جسمانی اور روحانی ضرر دے اور کسی طرح سے نفع نہ بخشے تعجب ہے کہ یہ لوگ اس زمانہ کے مدعیان علم بھی ان کے پیچھے ہولئے میں حالانکہ یقینا جان چکے ہیں کہ جو شخص اس جادو کی واہیات باتوں کو لے گا۔ قیامت میں اس کے لئے بھلائی سے حصہ نہیں باوجود اس جاننے کے اس میں ایسے منہمک ہیں کہ اپنی جانوں تک بھی اس کے عوض میں دیکر عذاب کے مستوجب ہو رہے ہیں یاد رکھیں برا ہے وہ کام جس کے بدلہ میں اپنی جانوں کو عذاب میں دے چکے ہیں کاش یہ لوگ سمجھتے ہوں گو جانتے اور سمجھتے ہیں پر جاننے پر جب عمل ہی نہیں تو گویا جانتے ہی نہیں اس آیت کی نسبت مفسرین نے عجیب عجیب قصے بھرے ہیں۔ کچھ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نسبت اور کچھ ہاروت ماروت کے متعلق۔ کسی نے ہاروت ماروت کو فرشتہ بنایا اور نبی آدم ( علیہ السلام) بنا کر زمین پر اتارا اور کسی نے فاحشہ عورت سے زنا کرنا اور شراب پینا۔ بت کو سجدہ کرنا۔ پھر اللہ کی طرف سے ان کو دنیاوی اور اخروی عذاب میں مخیر کرنا اور ان کا لوگوں کو جادو سکھانا وغیرہ وغیرہ بتلایا ہے۔ مگر امام رازی جیسے محققوں نے ان سب قصوں کو خرافات اور اباطیل سے شمار کیا ہے جو ترجمہ میں نے اختیار کیا ہے وہی قرطبی نے پسند کیا ہے چنانچہ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان وغیرہ میں مذکور ہے مولانا نواب محمد صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نقل کیا ہے بلکہ ترجیح دی ہے کہ ہاروت ماروت شیاطین سے بدل ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ شیاطین سے یہی دو شخص ہاروت ماروت مراد ہیں۔ اگر قرآن مجدج کی آیات پر غور کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیاطین کا فعل تعلیم سحر فرمایا ہے یُعَلِٓمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ دوسری میں اسی تعلیم کی کیفیت بتلائی ہے یعنی مایُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں تعلیموں کے معلم ایک ہی ہیں یعنی شیاطین کیونکہ یہ نہائت قبیح اور مخل فصاحت ہے کہ مجمل فعل کے ذکر کے موقع پر تو ایک کو فاعل بتلایا جاوے اور تفصیل کے موقع پر کسی اور کو بتلایا جاوے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مبدل منہ جمع ہے یعنی شیاطین اور بدل تثنیہ ہے یعنی ہاروت ماروت۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل میں جمعیت باعتبار اتباع کے ہیں اور بدل تثنیہ باعتبار ذات کے ہے۔ پس مطلب آیت کا بالکل واضح ہے کہ یہود کی اس امر میں شکایت ہو رہی ہے کہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر واہیات باتوں کے پیچھے لگ گئے پھر طرفہ کہ ان واہیات عقائد اور اباطیل کو بزرگوں کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے یہ باتیں سکھائی ہیں اور اس پر اللہ کے دو فرشتے جبرئیل میکائیل لائے تھے۔ سو ان کی اس آیت میں تکذیب کی جاتی ہے کہ یہ باتیں ان کی خرافات سے ہیں نہ سلیمان نے ان کو سکھلائی ہیں نہ کسی نبی یا ولی نے ان کو بتلائی ہیں۔ بلکہ اس زمانہ کے بدمعاش جن کے سرگردہ ہاروت ماروت تھے۔ لوگوں کو ایسی باتیں سکھاتے تھے۔ راقم کہتا ہے یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے عقائد میں ان کے وہ خرابیاں ہیں کہ پناہ اللہ کوئی کہتا ہے کہ پیر صاحب نے بارہ برس کے بعد ڈوبے ہوئے بیڑے کو مریدوں کی خاطر نکالا۔ کوئی کہتا ہے پیر صاحب نے ایک مرید کے زندہ کرنے کو کئی ہزار روحیں عزرائیل سے چھڑا دیں۔ کوئی کہتا ہے مجلس مولود میں آنحضرتﷺ بذات خود تشریف لاتے ہیں غرض عجیب عجیب قسم کے خرافات اپنے ذہنوں میں ڈال رکھے ہیں بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزارہا پیغمبر بھیجے تھے ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کرلئے ہیں۔ انہیں کی طفیل سے ہمارے قدیمی مہربان پڑوسی آریہ وغیرہ کو یہ جرأت ہوئی کہ عام طور پر کہنے لگے ہیں کہ اسلام میں بھی شرک ہے گو ان کا یہ حملہ اسلام پر دانائوں کے نزدیک بزدلانہ طریق ہے۔ مگر اس بات کو تو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں ؎ اڑ گئے دانا جہاں سے بے شعورے رہ گئے۔ یہ تو عقائد کا حال ہے اعمال کا تو پوچھے ہی نہیں۔ تمام عمر بھر دنیاوی کام کریں گے۔ علوم مروجہ جن سے صرف چند روزہ دنیاوی گذارہ مقصود ہو سیکھیں گے۔ بلا سے کبھی آٹھویں روز ہی قرآن کی دو آیتیں پڑھ لیں۔ الی اللّٰہ المشتکٰی الیہ الماٰب والرجعیٰ۔ افسوس ہم نے بدقسمتی سے یہ سب کچھ دیکھنا تھا۔ منہ البقرة
103 (103۔104)۔ اور اگر یہ ایماندارہوتے یعنی اللہ کے حکموں کو مانتے اور پرہیزگاری کرتے تو بڑی عزت پاتے کیونکہ اللہ کے ہاں کا بدلہ سب سے اچھا ہے کاش یہ سمجھیں سمجھیں تو اب بھی مان جائیں افسوس کہ بجائے ماننے کے انہوں ایک عادت قبیحہ اختیار کر رکھی ہے کہ گول مول الفاظ بولتے ہیں کہ جس سے مخاطب کچھ اور سمجھے اور ان کے جی میں کچھ اور ہو چنانچہ تمہاری محفل میں جب آتے ہیں تو ہمارے رسول کو دبی زبان سے راعنا کہہ کر گالی دی جاتی ہے جس کا مطلب تم لوگ اپنے خیال میں یہی سمجھتے کہ آنحضرت سے التجا کرتے ہیں کہ ہماری طرف التفات فرمائیے مگر وہ یہودی اس سے اپنے جی کچھ اور ہی خیال کر کے کہتے ہیں انہیں کو دیکھ کر تم بھی ایسا بولنے لگ گئے ہو۔ اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم راعنا مت کہا کرو گو تمہاری وہ مراد نہیں جو ان کم بختوں کی ہے پھر بھی کیا ضرورت ہے کہ ایسے کلمات بولو جن سے ان کی بیہودہ گوئی کارواج ہو اس لئے مناسب ہے کہ یہ چھوڑ دو اور انظرنا کہا کرو جو اسی کے ہم معنیٰ ہے بہتر تو یہ ہے کہ جب تم رسول کی خدمت میں آئو تو کچھ بھی نہ کہا کرو بلکہ خاموش رہو اور سنتے رہا کرو اس لئے کہ بولتے بولتے انسان کو زیادہ گوئی کی عادت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کبھی نہ کبھی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے سبب سے کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور کافروں کو نہائت درد ناک عذاب ہوگا۔ شان نزول : (ولا تقولو اراعنا) یہودی حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اپنے بھرے ہوئے غصہ سے جو شوکت اسلام کی وجہ سے ان کے دلوں میں جوش زن تھا آنجناب کو صریح لفظوں میں تو کچھ نہ کہہ سکتے پر کمینوں کی طرح ایک ایسا لفظ بولتے کہ جس سے عام مسلمان صاف معنے سمجھیں اور وہ اپنے دلی جوش کے مطابق کچھ اور ہی مراد لیں چنانچہ انہوں نے راعِنَا کو اس مطلب کے لئے تجویز کیا جس کے معنے یہ تھے کہ آپ ہماری طرف التفات فرمائے اور اگر اس کو ذرا لمبا کر کے راعِیْنَا کہیں تو اسی کے معنے ہوجاتے ہیں ” خادم اور کمینہ ہمارے“ وہ اسی طرز سے کہتے پس مسلمانوں کو اس کلمہ کہنے سے منع کیا گیا اور بجائے انظرنا جو اسی کی مثل دیکھنے کے معنے میں تھا مقرر ہوا تاکہ ان کی بھی عادت چھوٹ جائے۔ منہ البقرة
104 البقرة
105 (105۔107 (۔ بھلا یہ کیونکر نہ جلیں بھنیں تمہاری تو دن بدن شوکت ہو اور یہ کتاب والے کافر اور مکہ کے مشرک ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ کی طرف سے کچھ بھلائی تم کو ملے اور یہاں معاملہ ہی دگرگوں ہے کہ تم روز افزوں ترقی پر ہو اس لیے انکو بجز دشنام دہی کے کچھ نہیں سوجتا پس گالیاں بکتے ہیں مگر یاد رکھیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑیں گے اس لئے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت خاصہ کے ساتھ مخصوص کرلیتا ہے کسی کا اس پر نہ اجارہ ہے نہ کیونکہ زور اللہ بڑے فضل والا ہے ہمیشہ اپنے بندوں پر مناسب حال کرم بخشی کرتا ہے یہ تو ان کی غلطی ہے کہ اسلام کی اشاعت کو اپنے لئے مضر جانتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی قومی عزت (یہودیت) پر بڑاناز ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام چونکہ ہماری قومیت کے بر خلاف ہے اس کو مٹادے گا اس لئے اسلام کو کم درجہ جان کر اعراض کرتے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جب کبھی کوئی نشان قومی یا شخصی شرعی یاعرفی ہم تبدیل کریں یا بحالت موجود چند روز کے لئے اس کو پیچھے چھوڑرکھیں تو پہلی صورت میں اس سے اچھالے آتے ہیں یا بصورت دیگر اس جیساپس یہودیت کے آثار مٹنے سے اسلام ان کے اور سب کے حق میں بہتر ہوگا کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام حکومت اللہ کو ہی حاصل ہے وہ جو چاہے اپنی رعیّت میں احکام جاری کرے اسے کوئی مانع نہیں اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی والی ہے نہ مددگار جو اس کی پکڑسے تم کو بچائے البقرة
106 البقرة
107 البقرة
108 البقرة
109 تعجب ہے کہ تم لوگ ایسے زبر دست مولا کے تابع فرمان نہیں ہوتے ہو بلکہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے جو مولا نے محض تمہاری ہدائت کے لئے بھیجا ہے ایسے سوال کر کے وقت کھویا کرو۔ جیسے کہ پہلے حضرت موسیٰ سے کیے گئے تھے کہ کفار کے بتوں کو دیکھ کر کہ بنی اسرائیل جھٹ بول اٹھے تھے کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی اللہ بنا دے جیسا کہ ان کے لئے ہیں۔ اور یہ نہ سمجھے کہ ہم تو انہی بتوں کو چھوڑکر اب اہل توحید ہوئے ہیں اور یہ عام دستور ہے کہ جو شخص کفر کو ایمان سے بدلے یعنی موّحد بن کر پھر مشرک بنے تو جان لو کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا کیا مسلمانو ! یہ سن کر بھی تم انہیں کتاب والوں کی چال چلوگے ؟ حالانکہ قطع نظر ان کی ذاتی خباثت کے تمہارے حق میں بھی خیر نہیں چاہتے بلکہ اکثر اہل کتاب بعد ظاہر ہونے حق بات کے بھی محض اپنے حسد سے یہی چاہتے ہیں کہ بعد مسلمان ہونے کے بھی تم کو کافر بنادیں پس ایسے لوگوں کا علاج تو یہ ہے کہ بالکل ہی انہیں چھوڑ دو اور ان کا خیال بھی نہ لائو یہاں تک کہ اللہ کا حکم یعنی اس کی مدد تم کو پہنچے اور تمہارا ہی بول بالا ہو یہ تمہارے حاسد حسد سے مرتے رہیں۔ ہاں اللہ سے ہر وقت بھلائی کی امید رکھو اس لئے کہ اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے ایسے کام تو اس کے ہاں کچھ ان ہوئے نہیں ہیں شان نزول : مشرکوں کا ایک درخت تھا جس کا نام تھا ذات انواط وہ اس کی پوجا کرتے تھے ان کو دیکھ کر بعض سادہ لوح مسلمانوں نے بھی آنحضرت سے سوال کیا کہ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر کیجئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر) البقرة
110 پس اسی پر بھروسہ کرو اور نماز ہمیشہ پڑھتے رہو زکوٰۃ بھی دیتے رہو اور بھی جو کچھ بہتری کے کام اپنے لئے آگے بھجوں گے ضرور ان کو اللہ کے ہاں پائو گے ہرگز ضائع نہ ہونگے نہ کسی منشی کی وجہ سے نہ کسی سپاہی کے سبب سے اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں کو خود دیکھ رہا ہے البقرة
111 (111۔121)۔ تعجب ہے ان یہود و نصاریٰ کے حال پر تمہارے حسد میں باوجود آپس کی عداوت شدیدہ کے ایک ہو رہے ہیں طرح طرح کے منصوبے باندھتے ہیں۔ (شان نزول : جنگ احد میں جب مسلمانوں کو قدرے تکلیف پہنچی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ تو یہودیوں نے حذیفہ اور عمار سے کہا کہ اگر تمہارا دین سچا ہوتا۔ تو تمہیں تکلیف کیوں پہنچتی پس آئو ہمارے دین میں داخل ہوجائو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) اور کہتے ہیں کہ جنت میں وہی جائے گا جو یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو یہ سب ان کی اپنے نفس کی خواہشیں ہیں کوئی اس پر دلیل ان کے پاس نہیں بھلا آزمانے کو تُو کہہ تو دے بھلا اپنی دلیل تو لائو اگر اس دعوے میں سچے ہو اس لئے کہ بلا دلیل کسی کی بھی سنی نہیں جاتی ورنہ ہر ایک اپنی جگہ اپنا ہی گیت گا رہا ہے ہم بتلائے دیتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس اس دعویٰ پر دلیل نہیں اور نہ یہ دعویٰ فی نفسہٖ صحیح ہے ہاں جنت کے حق دار ہم بتلاتے ہیں جو کوئی اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور وہ اس تابعداری میں صرف زبانی جمع خرچ نہ رکھتا ہو بلکہ نیکو کار فرمانبردار ہو تو ایسے اشخاص کی نجات ہوگی اور ان کی مزدوری اور اخلاص مندی کا بدلہ ان کے مو لیٰ کے پاس ہے جس کا کسی طرح سے نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ غم اٹھائیں گے پس چونکہ یہودو نصارٰی بالکل اپنی خواہشوں کے غلام ہو رہے ہیں جس طرف ان کی خواہش لے جائے اسی طرف چلتے ہیں تو پھر کیونکر ان کو پہنچتا ہے کہ یہ دعوی کریں کہ سوا ان کے کوئی شخص بھی نجات کا مستحق نہیں ادھر تو تمہارے مقابلے میں یہ کہتے ہیں خواہ یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو ادھر آپس میں ان کا یہ حال ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا کچھ ٹھیک نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں کا کچھ ٹھیک نہیں حالانکہ اپنی زعم میں یہ دونوں فریق اللہ کی کتاب یعنی تورات پڑھتے ہیں یہ تو بھلا تھے ہی ایسا ہی بے علم عرب کے مشرک بھی انہی کی طرح بولتے ہیں کہ ہم ہی نجات کے حق دار ہیں سوائے ہمارے کوئی نجات نہ پاوے گا جب تک کہ بت پرستی نہ کرے گا ہرگز نجات نہ ملے گی پس تم ان کے خیا لات واہیات نہ سنو اللہ ہی ان کے جھگڑوں میں قیا مت کے دن فیصلہ کرے گا جس کا فیصلہ آخری ہوگا بھلا اور اختلاف تو ہوا سو ہوا اللہ کے ذکر میں بھی کسی کو اختلاف ہے ؟ پھر کس منہ سے یہ کافر دینداری کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کو اللہ کے ذکر سے بھی روکتے ہیں۔ (اس آیت کے متعلق بعض بلکہ اکثر مفسرین نے لف و نشر مانا ہے مگر لف و نشر میں کمال درجہ عداوت مفہوم نہیں ہوتی جیسی کہ اس توجیہہ میں۔ فَتَأَ مَّلْ۔ ) اور کون بڑا ظالم ہے ان لوگوں سے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکیں اور ان کی خرابی میں کوشش کریں اس لئے کہ جب ذکر والوں کو ہی روک دیا تو پھر ان میں کون آئے گا خیر چند روزہ روز دکھا لیں گے تھوڑے ہی دنوں بعد ان لوگوں کو قدرت نہ ہوگی کہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر دل میں ڈرتے ہوئے (یہ پیش گوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فتح مکہ کے بعد پوری ہوئی) نہ صرف یہی بلکہ دنیا میں انہی کو ذلت و رسوائی نصیب ہوگی اور قیامت میں بھی انہی کو بڑا عذاب ہوگا اگر تم کو اے مسلمانو ! یہ کفار مکہ روکتے ہیں اور کعبہ میں نماز نہیں پڑھنے دیتے تو کوئی حرج نہیں نماز ہر جگہ ہوسکتی ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا تو سارا مشرق و مغرب ہے (شان نزول : ! چند صحابہ نے جنگل میں بہ سبب اندھیری کے خلاف جہت کعبہ نماز پڑھی اور نیز نوافل سواری پر بھی پڑھا کرتے تھے تو اس مسئلہ کے بتلانے کو کہ اگر غلطی سے کعبہ کی طرف نہ ہوسکو یا نوافل سواری پر پڑھ لو تو جائز ہیں۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) پس ! جدھر کو منہ پھیرو گے وہیں اللہ کی توجہ اپنے حال پر پائو گے بے شک اللہ بڑی ہی وسعت والا ہے اس کے ملک کی وسعت کسی دنیا کے جغرافیہ میں محدود نہیں ہوسکتی پھر یہ بھی نہیں کہ کسی کے حل سے بے خبر ہو یا بتلانے کی حاجت پڑے بلکہ بڑے ہی وسیع علم والا ہے اس نے تو ہر ایک چیز کو ایک آن میں جان رکھا ہے کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں جاسکتی تم چاہے جنگل بیا باں میں پڑھو خواہ دریا وریگستان میں وہ سب کو جانتا ہے تمہارے دلی اخلاص کے مطابق تم کو بدلہ دے گا ان بے ایمانوں کے کہنے سننے سے تم ملول نہ ہوا کرو یہ تو اللہ پر بھی بہتان لگانے سے نہیں رکتے دیکھو تو کیا کہتے ہیں کہ اللہ نے بھی ہماری مثل اپنے لئے اولاد بنائی ہے کوئی کہتا ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کوئی کہتا ہے کہ مسیح اور عزیر اللہ کے بیٹے ہیں حالانکہ وہ ان کی بے ہودہ گوئی سے پاک ہے کوئی اسکا بیٹا بیٹی نہیں بلکہ سب آسمان اور زمین والے اسی کے غلام ہیں یہ بھی نہیں کہ کوئی غلام سر کشی کرسکے اور قہری حکم سے کسی طرح انکار کرے بلکہ سب کے سب اسی کے آگے گردن جھکانے والے ہیں۔ بھلا کیوں نہ ہو وہ پاک ذات ایسی قدرت وا لی ہے کہ آسمان اور زمین کو جو کہ اپنی ہیئت اور مضبوطی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے بلا نمونہ اسی نے بنایا ہے اور کمال یہ کہ جس وقت کوئی چیز چاہتا ہے تو صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ مطلوب چیز فوراً موجود ہوجاتی ہے اور بھلا تم ان کی باتوں سے ملال پذیر ہوتے ہو جو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم منہ سے کیا کہہ رہے ہیں آیا وہ امر ہو بھی سکتا ہے یا ہماری ہی ندامت کا باعث ہے سنو ! تو یہ بے علم ونادان عرب کے مشرک اپنی بے علمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بھلا صاحب ! یہ رسول جو اللہ کی طرف سے آکر ہمیں سمجھاتے ہیں اللہ ہی کیوں نہیں ہم سے سامنے ہو کرباتیں کرتا تاکہ ہم جلدی سے مان بھی لیں یا کوئی ایسی نشانی ہمارے پاس آوے جس سے ہم جان جائیں کہ کہ بے شک یہ سچا رسول اللہ کی طرف سے ہے اصل میں یہ ان کے بہانے ہیں ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کہا تھا کہ اللہ ہم کو سامنے لا کر دکھائو پھر ہم مانیں گے بغور دیکھا جائے تو بالکل ان کے دل ایک سے ہو رہے ہیں ایک ہی بیماری میں مبتلا ہیں سو جو علاج ان کا ہوا تھا ان کا بھی ہوگا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ہر ایک شخص مرضی کے موا فق نشانیاں مانگتا پھرتا ہے اصل نشانی نبوت کی تو قائل کی صفائی ہے کہ اس کی حالت دیکھو کہ وہ کیسا ہے آیا وہ دنیا ساز مکار ہے جنونی ہے یا کیا ہے ؟ بے شک یہی نشانی مفید ہے سو ایسی ہم بہت سی نشانیاں ماننے والوں کے لئے بیان کرچکے ہیں جن کو ان با توں کی تمیز ہے کہ نبوّت کی بناء کن امور پر ہوا کرتی ہے۔ سو بعد تلاش تجھ میں ضرور پائیں گے اس لئے کہ ہم نے تجھ کو سچی ہدائت کے ساتھ بھلے کاموں پر خوش خبری دینے والا اور برے اطوار پر ڈرانے والا مقرر کر کے بھیجا ہے۔ اگر یہ نالائق تیری بات نہ مانیں تو تجھے ان کی طرف سے ہرگز ملال نہ ہو اس لئے کہ تجھ سے دوزخ والوں کے حال سے سوال نہ ہوگا کہ یہ کیوں دوزخ میں پہنچے ہم جانتے ہیں کہ جتنے تیرے مخالف ہیں سب عنادی ہیں خاص کر اہل کتاب جو اپنے آپ کو اہل علم جانتے ہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ ہرگز تجھ سے خوش نہ ہوں گے نہ یہودی نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تو ہی ان کے غلط مذہب کا پیرو بنے پس تو ان سے کہہ دے کہ ہدائت تو اصل وہی ہے جو اللہ کے ہاں سے ہو۔ نہ کہ تمہاری اذلیات کہ اللہ نے اولاد بنائی اور اپنے بیٹے کو کفارہ کیا۔ وغیر ذلک من الخرافات ایسے ہی لوگوں کی چال سے ہوشیار رہو اگر تو بھی فرضاً بعد پہنچنے علم یقینی کے ان کی خواہش کے پیچھے چلا تو بس تیری بھی خیر نہیں سخت بلا میں مبتلا ہوگا پھر تیرا نہ کوئی اللہ کے ہاتھ سے ہمائتی ہوگا کہ اس سے رہائی دلا سکے اور نہ کوئی مددگار جو اس کی پکڑ سے چھڑا لے تجھے ان کے انکار سے کیوں ملال ہوتا ہے تیرے تابع تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پڑھتے ہیں جیسا پڑھنا چاہئے یہی لوگ اس کو مانتے ہیں (شان نزول :۔ کئی ایک صحابہ مشرکین سے تنگ آکر حبشہ کو چلے گئے وہاں کا حاکم عیسائی تھا۔ وہ کسی کے مذہب سے پریشان حال نہیں ہوتا تھا۔ جب انہوں نے آنحضرتﷺ کا حال سنا کہ آپ مدینہ منورہ میں ہجرت کر آئے ہیں اور سب مسلمان آپ کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں یہ سن کر وہاں سے مدینہ کو چل پڑے راہ میں بوجہ بحری سفر کے ان کو نہایت تکلیف ہوئی۔ ان کی خاطرداری کو یہ آیت نازل ہوئی (معالم) اور جو لوگ اس سے انکاری ہیں قیا مت میں وہی ٹوٹا پاویں گے کیا ایسے عنادی بھی اس قابل ہیں کہ تو ان کو خوش کرنے کی فکر کرے ہرگز نہیں خاص کر یہودی تو ایسی نرمی اور مداہنت سے زیادہ بگڑتے ہیں میں نے جس قدر ان پر احسان کیے سب کو بھلائے بیٹھے ہیں البقرة
112 البقرة
113 البقرة
114 البقرة
115 البقرة
116 البقرة
117 البقرة
118 البقرة
119 البقرة
120 البقرة
121 البقرة
122 (122۔129)۔ اے بنی اسرائیل کے لوگو یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے کہ تمہیں فرعون جیسے موزی سے چھڑایا اور تمام جہان کے لوگوں پر تم کو عزت دی کہ تم میں نبی اور رسول بھیجے پھر کیا میری شکر گزاری یہی کرتے ہو کہ میرے سچے رسول کو نہیں مانتے بلکہ بجائے ماننے کے سبّ و شتم سے پیش آتے ہو آخر ایک روز تو میرے سامنے آئو گے اب بھی اگر اپنی بہتری چاہتے ہو تو مراے رسول پر ایمان لے آئو اور اس دن کے عذاب سے بچ جائو جس میں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی سفارش ہی کچھ کام دے گی اور نہ ان مجرموں کو کسی زبر دست کی طرف سے مدد پہنچے گی کہ ہماری پکڑ سے ان کو رہائی دلا سکے بلکہ سب کے سب اپنے ہی حال میں حیران سرگردان ہونگے تعجب ہے کہ تم نے اپنے بڑوں کی اقتدا بھی چھوڑدی اور ابراہیم ( علیہ السلام) کی حالت بھی بھول گئے جب کہ اس ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس کے اللہ نے چند باتوں کا حکم دیا پس اس بندہ کامل نے ان سب کو پورا کیا جب اس کے انعام میں اللہ نے اس کو کہا کہ میں تجھ کو سب لوگوں کا امام اور پیشوا بنائوں گا وہی لوگ نجات پائیں گے جو تیرے پیچھے چلیں گے وہ اپنے نیک ارادوں سے بولا ! یا اللہ مجھے امام بنا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو یہ رتبہ نصیب کر کہ وہ بھی مخلوق کی رہنمائی کریں کیونکہ اولاد کی لیا قت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اللہ تعالیٰ نے کہا بے شک تیری اولاد سے بھی یہ رتبہ بعض کو ملے گا مگر چونکہ پانچوں انگلیاں بھی یکساں نہیں ہوتیں اس لئے ان میں بعض بد کردار بھی ہونگے جو آپس میں ظلم و ستم کریں گے پس ایسے ظالموں کو یہ میرا وعدہ نہیں پہنچے گا ایسے اخلاص اور اطاعت کے سبب سے ہم نے ابرا ہیم ( علیہ السلام) کے نیک کام کو قبول کیا تمہیں یاد نہیں ؟ کہ جب ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) کے بنائے ہوئے کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور بڑے امن کی جگہ بنایا اور عام طور پر حکم دیا کہ ابرا ہیم ١ ؎ ( علیہ السلام) کی جگہ نماز پڑھو (شان نزول :۔ حضرت عمر (رض) نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مقام ابراہیم میں نماز پڑھا کریں۔ ان کی درخواست پر یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے اس آیت سے بلحاظ اس قصہ کے فاروق اعظم (رض) کی کمال بزرگی ثابت ہوتی ہے مگر دیکھنے کو چشم بصیرت چاہیے۔) اور اس کی دعا کا کسی قدر ظہور تو اس کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا کہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ میرا عبادت خانہ طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے شرک کی آلودگی سے صاف ستھرا رکھو اس پر بھی اس بندہ کامل نے پورا عمل کیا اس کی اخلاص مندی کا ایک واقعہ اور بھی سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے مولا اپنی مہربانی سے اس شہر مکہ کو بڑے آرام کی جگہ بنا جس طرح اس کے ارد گرد لوٹ گھسوٹ ہوتی ہے اس میں نہ ہو اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ مثل سابق اب کی دفعہ بھی میری دعا فی الجملہ واپس نہ ہوگی۔ اس لئے اس نے بعد سوچ بچار ڈرتے ڈرتے یہ کہا کہ اس کے رہنے والوں کو جو پختہ طور سے اپنے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن پر یقین لاویں محض اپنی مہربانی سے عمدہ عمدہ میوے نصیب کر چونکہ یہ درخواست ابراہیم ( علیہ السلام) کی کچھ ایسے مطلب کی نہیں تھی جو کسی قوم نیک یا بد سے مخصوص ہو اس لئے کہ دنیا کا رزق تو عام طور پر ایسا ہے کہ باتیرے مومن حیران ہیں اور بہتیرے فاسق و فاجر مزے میں گزارتے ہیں اس لئے اللہ نے کہا ہاں بے شک ایمان داروں کو دوں گا اور ان کے سوا کافروں کو بھی دنیا میں کسی قدر نفع مند کروں گا پھر اس کے بعد ان کو عذاب میں پھینکوں گا جو بہت ہی بری جگہ ہے یہ سن کر ابراہیم ( علیہ السلام) بہت خوش ہوا اور اپنے کام میں مشغول رہا با لکل کسی طرح سے اس کے دل میں کوئی ایسی بات نہ آئی تھی جو اخلاص سے خالی ہو اور سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کا بیٹا اسمٰعیل ( علیہ السلام) کعبہ کی بنیاد بحکم ربّانی اٹھا رہے تھے تو اس وقت بھی یہی کہتے تھے اے ہمارے مولا تو ہم سے اس کار خیر کو قبول کر اسلئے کہ تو ہی ہماری باتیں سننے والا ہے اور ہمارے دل کی آرزوئیں جانتا ہے پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اپنی ترقی درجات کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہے کہ ہمارے مولا ہم کو اپنا فرمانبردار بندہ بنا نہ صرف ہم کو بلکہ ہم کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو ضرور ہی اپنا تابعدار کیجیے اور اے ہمارے مولا چونکہ ہم تیرے عاجز بندے ناقص العقل تیری رضا خود بخود دریافت نہیں کرسکتے جب تک تو ہی اپنی مرضی پر مطلع نہ کرے اس لئے ہم عرض پرداز ہیں کہ تو ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتلا اور اگر اس بتلائے ہوئے میں کسی طرح کا ہم سے قصور واقعہ ہو تو ہم پر رحم فرما اس لئے کہ تو ہی ہے بڑا رحم کرنے والا مہربان۔ یہ دونوں باپ بیٹا نیک کاموں میں کچھ ایسے حریص تھے کہ علاوہ مذکو رہ بالا دعا کے آئندہ کو بھی اپنی اولاد کے لئے درخواست کرتے رہے کہ اے میرے ہمارے مولا ! چونکہ بغیر کسی ھادی کے انسان کا ہدائت یاب ہونا مشکل امر ہے اس لئے گزارش ہے کہ تو ان لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھی پیدا کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تیری کتاب آسمانی کے احکام اور نیک اخلاق ان کو سکھلاوے اور اپنی صحبت موثرہ میں ان کو اخلاق رویہ مثل شرک کفر حسد بغض کینہ کبر وغیرہ سے پاک صاف کرے تو تو ایسے بہت سے کام کرسکتا ہے بے شک تو ہر کام پر غالب ہے جو چاہے سو کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا بھی ہے جس کسی کو اس خدمت کے لائق سمجھے گا معمور کرے گا۔ (ایک رسول پیدا کیجیو) اس آیت میں اللہ نے سید الانبیاء محمد مصطفیٰ علیہ وعلیٰ آلہ التحیۃ کی نبوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس بات کا ثبوت کہ آپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں محتاج دلیل نہیں کل دنیا کے لوگ یہود نصارٰے اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ آپ بلکہ آپ کا تمام خاندان قریش بلکہ قریب قریب کل عرب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور اسمٰعیل ابراہیم علیہما السلام کے بڑے بیٹے تھے جن کے حق میں تورٰیت سے بھی اتنی شہادت ملتی ہے :۔ ” اور ہاجرہ ابرہام کے لئے بیٹا جنی اور ابرہام نے اپنے بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی اسمٰعیل رکھا۔ اور جب ابرہام کے لئے ہاجرہ سے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرہام چھیاسی برس کا تھا۔“ (پیدائش ١٦ باب ١٨ آیت) اسی کتاب کی دوسری جگہ لکھا ہے :۔ ” اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے حق میں (اے ابراہیم ( علیہ السلام) میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا۔ اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا“ (١٧ باب ٢٠ آیت) پس عبارت مذکورہ بالا تورات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) ابراہیم ( علیہ السلام) کے نہ صرف بیٹے بلکہ موعود بالبرکت تھے گو یہ واقع بناء کعبہ تو تورٰیت میں مصرح مذکور نہیں اور اس کے مذکور نہ ہونے کی وجہ شائد وہی ہے جس کا مفصل ذکر ہم عیسائیوں کی پہلی غلطی کی ذیل میں کر آئے ہیں لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے لئے بہت کچھ خیال تھا۔ جس کے جواب میں ارشاد باری پہنچا کہ میں نے تیری سنی۔ خاندان نبوت اور سلسلہ رسالت بلکہ عام اہل اللہ کے حالات دیکھنے سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر دنیاوی برکت اور ظاہری کثرت تعداد سے خوش نہیں ہوا کرتے جب تک کہ ان کی اولاد میں سے بڑھ کر کوئی پیدا نہ ہو پس ان وجوہ کے لحاظ سے الفاظ قرآن اور تورٰیت دونوں متفق ہیں کہ اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد سے کوئی نبی ہونا چاہیے جس سے ان کی اولاد کو بابرکت کہا جائے پس وہ نبی وہی ہے جو سیّد ولد اٰدم ولا فخر کا مصداق ہے بیشک سچ ہے ؎ ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویداَ دعائے خلیل اور نوید مسیحا البقرة
123 البقرة
124 البقرة
125 البقرة
126 البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 البقرة
130 (130۔141)۔ بتلائو تو ایسے بھلے آدمی ابراہیم ( علیہ السلام) کی راہ سے سوا احمقوں کے کون روگردان ہوگا حالانکہ ہم نے اس کو تمام دنیا کے لوگوں میں پسند کیا ہے اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں کی جماعت میں ہوگا اس کی بزرگی میں شک ہو تو یاد کرو جب اللہ نے اسے کہا کہ میری تابعداری کرو وہ فوراً بو لا کہ میں دست بستہ حاضر اللہ ربّ العٰلمین کا بڑی مدّت سے تابعدار ہوں (شان نزول :۔ ع (ومن یرغب) عبداللہ بن سلام (رض) نے اپنے دو بھتیجوں کو کہا کہ تم بھی مسلمان ہوجائو۔ ایک تو ان میں سے ہوگیا دوسرے نے انکار کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) بعد اس کے پھر ہمیشہ تک ایسا ہی اخلاص مند رہا اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اور اس کی تاثیر صحبت سے اس کے پو تے یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لئے یہی توحید کا دین پسند کیا ہے پس تم مرتے دم تک اسی پر رہیو بلکہ اس امر کے تو تم بھی گواہ ہو یعقوب ( علیہ السلام) نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں بطور نصیحت اور آز مائش کہا تھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے جس سے اس کی غرض ہی تھی کہ ان کے منہ سے نکلوا لوں کہ صرف اللہ کی ہی عبادت کریں گے چنانچہ انہوں نے یہی اس کے منشاء کے مطابق ہی کہا کہ ہم اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے جو تیرا اور تیرے باپ دادا ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسمٰعیل اور اسحق کا اللہ تعالیٰ ہے اور ہم تو اب بھی اس کے فرمانبردار ہیں (شان نزول :۔ ١ ؎ (ام کنتم شھدائ) یہودیوں نے کہا کہ حضرت یعقوب نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں کو یہودیت کے قائم رکھنے کی وصیت کی ہوئی ہے آپ ہم کو یہودیت سے کیوں بدلاتے ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ معالم) یہ ایک جماعت کسیا بابرکت تھی جو اپنے وقت میں گزر گئی صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا ان سے کیا علاقہ ان کی کمائی ان کو ہوگی تمہاری کمائی تم کو ہے تمہیں ان کے کیے سے سوال نہ ہوگا نہ ان کو تمہارے کیے کی پوچھ۔ تم ان سے علیحدہ وہ تم سے جداتعجب ہے کہ با وجود زبانی جمع خرچ کے۔ یہ لوگ اپنے ہی کو ہدایت پر جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری طرح یہودی یا عیسائی ہوجاؤ اس سے ہدایت یاب ہوجاؤ گے گویا ان کے نزدیک سوائے یہودیت کے کوئی طریق درست نہیں تو کہہ دے کہ تمہاے زئلیات تو ہم ہرگز نہ سنیں گے اور نہ ان پر عمل کریں گے بلکہ ہم تو حضرت ابراہیم یک رخہ کے پیچھے چلیں گے اور اسی کی راہ ہم نے پکڑ رکھی ہے۔ جو تمام نفسانی خواہشوں سے پاک وصاف ہو کر اللہ کا بندہ ہوگیا تھا اور وہ مشرک نہ تھا۔ (شان نزول :۔ (قالو اکونوا ھودا) یہود مدینہ اور نصاریٰ نجران دونو مسلمانوں سے آکر جھگڑنے لگے اور ہر ایک اپنے مذہب کی طرف بلاتا تھا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف) جیسے کہ تم ہو۔ پس ہم تمہارے پیچھے چل کر مشرک بننا نہیں چاہتے۔ اس تمہارے کہنے سے اگر لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ مسلمان توریت انجیل کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تو تم بلند آواز سے کہہ دو کہ یہ الزام ہم پر غلط ہے سب سے پہلے ہم اللہ واحد کو مانتے ہیں اور اس کتاب کو مانتے ہیں جو ہماری طرف اتری اور اس کو بھی مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل اور چھوٹے بیٹے اسحاق اور اس کے پوتے یعقوب اسرئیل اور اس کی اولاد علیہم السلام کی طرف اللہ کے ہاں سے اتاری گئی اور خاص کر اس کلام کو مانتے ہیں جو کچھ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو اللہ کے ہاں سے زندگی میں ملا تھا اور جو عموماً سب نبیوں کو اللہ کی طرف سے ملا ہم سب کو تسلیم کرتے ہیں اور بدل وجان قبول کرتے ہیں بڑی بات ہم میں یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے تم حضرت مسیح اور سیدالانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منکر ہو اور ہم میں بفضلہ تعالیٰ یہ عیب بھی نہیں کہ ہم تمہاری طرح مطلب کے وقت اللہ کے حکموں پر غیروں کو ترجیح دیں بلکہ ہم تو صرف اسی کے تابعدار ہیں پس بعد اس اظہار صریح کے اگر وہ تمھاری مانی ہوئی کتاب یعنی قرآن مجید کو مان لیں تو جان لوکہ ہدایت پر آگئے اور اگر حسب دستور قدیم اعراض کریں تو معلوم کرو کہ وہ سخت ضدی ہیں اگر وہ تجھ سے (اے رسول) کچھ اذیت کا قصد کریں تو پس اللہ تعالیٰ تجھ کو ان کی شرارت سے بچائے گا اس لئے کہ وہ تیرے مخالفوں کی سرگوشیاں اور باہمی مشورے سنتا ہے اور ان کے دلی عنادوں کو بھی جانتا ہے ان کا یہ بھی ایک داؤ ہے کہ اپنے مذہب میں لاتے ہوئے رنگ کے چھینٹے ڈالتے ہیں اور اس کو الٰہی رنگ کہتے ہیں اور عوام لوگوں کو اس دھوکہ سے کہ آؤ اس سچے رنگ سے اپنے کو رنگو دام میں لاتے ہیں۔ سوئم ان کے جواب میں کہدو کہ تمہارا رنگ تو پھیکا بلکہ سرے سے کچھ بھی نہیں اصل اللہ کا رنگ ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اس کے خالص بندے بن چکے ہیں۔ بھلا بتلاؤ تو اللہ سے کس کا رنگ اچھا ہے؟ تمہاری طرح ہم زبانی جمع خرچ نہیں رکھتے۔ بلکہ ہم تو دل وجان سے اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بھی اگر یہ اہل کتاب باز نہ آئیں اور اے رسول ! تیری نبوت کو اس وجہ سے جھٹلاویں کہ تو نبی اسمٰعیل (علیہ السلام) سے ہے اور ان کا خیال ہے کہ نبوت خاصہ بنی اسرائیل کا ہے۔ تو تو ان سے کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے فضل اور بخشش کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ کیا نبوت اپنا ہی حق جانتے ہو اور ہم کو اس سے علیحدہ ہی رکھنا چاہتے ہو۔ بھلا تم میں کون سی ترجیح ہے حالانکہ بندگی میں ہم تم سب برابر ہیں۔ اور وہ ہمار اور تمہارا سب کا مالک ہے اور اعمال میں بھی تم کو کسی قسم کی رعائیت نہیں کہ اوروں کی کمائی تم کو مل جائے بلکہ ہمارے اعمال ہم کو اور تمہارے اعمال تم کو جو کرے وہ بھرے ہاں اگر غور کیا جائے تو قابل ترجیح بات ہم میں ہے کیونکہ ہم اس کے سب احکام کو مانتے ہیں۔ اور ہم دل سے اسی کے اخلاص مند ہیں نہ کہ تمہاری طرح مطلب کے یار۔ غرض ہو تو اللہ کے بن گئے۔ جب مطلب حاصل ہوا تو پھر کون۔ یہ بھی تو ان سے پوچھو کہ کیا تم بجائے چھوڑنے اس واہیات خیالات کے یہ کہتے ہو کہ حضرت ابراہیم اور اس کے دونوں بیٹے اور پوتا اسمٰعیل او اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور اس کی سب اولاد تمہاری طرح یہودی یا عیسائی تھے۔ تو اے رسول ! ان سے کہہ دے بھلا کیونکر ہم تمہاری باتیں مانیں کہ وہ ایسے تھے حالانکہ ہم کو اللہ نے پختہ طور سے بتلایا ہے کہ ان بزرگوں کی یہ روش نہ تھی جو تم نے نکال رکھی ہے کیا تم خوب جانتے ہو یا اللہ خوب جانتا ہے۔ جی میں تو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ حضرات ان جیسے نہ تھے مگر لوگوں کی شرم سے چھپاتے میں اور نہیں جانتے کہ یہ بھی ایک قسم کی شہادت ہے اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جو اپنے پاس سے اللہ کی بتائی ہوئی شہادت کو چھپائے۔ یقینا جانو کہ اللہ تم کو اس کتمان پر مواخزہ کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔ اصل پوچھو تو تم یہودو نصارٰی کو ان بزرگوں سے کیا مطلب؟ یہ ایک جماعت پسندیدہ تھی جو اپنے اپنے وقت پر گزرگئی ان کی کمائی ان کو ہے اور تمہاری تم کو اور تم ان کے کئے سے نہ پوچھے جاؤ گے اور نہ وہ تمہارے کردار سے۔ تم ان سے اجنبی وہ تم سے بیگانے پھر بار بار ان کا نام لینے سے کیا فائدہ۔ جب تک کہ ان کی تابعداری نہ ہو۔ البقرة
131 البقرة
132 البقرة
133 البقرة
134 البقرة
135 البقرة
136 البقرة
137 البقرة
138 البقرة
139 البقرة
140 البقرة
141 البقرة
142 (142۔147)۔ چونکہ تم مسلمان حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے تابع ہو اس لئے مناسب ہے کہ اسی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھو۔ مگر اس کی مصلحت اور حکمت نہ سمجھنے والے بے وقوف لوگ جھٹ سے کہیں گے کہ کسی چیز نے ان مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ بیت المقدس سے پھیردیا جس پر یہ پہلے سے تھے } شان نزول :۔ ١ ؎ (سَیَقول السُّفھآئ) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے گئے تو آپ بیت المقدس کی طرف جو انبیاء کا قبلہ رہا تھا قریباً سولہ مہینے نماز پڑھتے رہے مگر دل میں یہ شوق غالب تھا کہ میں اپنے باپ سید الموحدین ابراہیم (علیہ السلام) کے کعبہ کی طرف نماز پڑھوں چونکہ اس خواہش کے پورا ہونے پر مخالفین (یہود نصاریٰ مشرکین عرب اور چھپے دشمن ان کے بھائی منافقوں) نے شور مچانا تھا اس لئے حکم آنے سے پہلے ہی ان کے حال سے اطلاع دی گیش اور کسی قدر اجمالی اور تفصیلی جوابات کے بعد تحویل قبلہ کا حکم صادر فرمایا کہ تعمیل میں آسانی ہو۔ منہ){ تو ان کے جو اب میں کہہ دیجیو۔ کیا ہم بیت المقدس کی عبادت کرتے تھے کہ اب اس میں فرق آگیا ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مشرق مغرب جنوب شمال تو سب اللہ ہی کا ہے ہر ایک طرف سجدہ ہوسکتا ہے ہاں تعین جہت اس کے حکم سے ہے جس طرف کا حکم دے گا اسی طرف کو جھک جائیں گے ہاں یہ بیشک ہے کہ کسی جانب کی تعیین جب بھی ہوتی ہے۔ کہ اس میں کوئی مصلحت اور دوسروں سے ترجیح پائی جائے لیکن ایسے مصلحت آمیز امور ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے اللہ ہی جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جیساکہ ہم کو اسی نے اس کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی سمجھا دیا کہ ابراہیمی یادگار کا قائم رکھنا مناسب ہے جس نے اللہ کی مرضی کے حاصل کرنے کے لئے تمام لوگوں کی ناگوارسختیوں کو بھی برداشت کیا تاکہ لوگ اس امر کو جان کر کہ اللہ اپنے بندوں کے اخلاص کے موافق قدر افزائی کیا کرتا ہے اخلاص مندی کا سبق حاصل کریں جیسا کہ ہم نے تم کو کعبہ ابراہیمی کی راہنمائی کی ہے اسی طرح ہم نے تم کو ایک اور نعمت بھی عطا کی ہے وہ یہ کہ تم کو میانہ روش بنایا ہے دنیاوی اور مذہبی امور میں افراط تفریط سے بالکل صاف اور ظلم اور بیجا قومی حمایت سے پاک۔ سچ پوچھو تو یہ خصائل ترقی قومی اور بہبودی ملکی کے لئے ضروری ہیں اسی وجہ سے تم (اصحاب) کو ایسا بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر حکمران ہو۔ اور رسول جو ان صفات سے ہر طرح کامل اور مکمل ہے تم پر حاکم بنے } (لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) اس آیت کے معنے جمہور مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ ” تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بنے“ پھر اس میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ شہادت دنیا کے متعلق ہے یا آخرت میں۔ تفسیر کبیر میں پہلے لوگوں کی تقریر میں لکھا ہے۔ فھٰذہ الشھادۃ اما ان تکون فی الاٰخرۃ او فی الدنیا لاجائزان تکون فی الاٰخرۃ لان اللّٰہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لاجل ان یکونوا شھداء وذٰلک یقتضی ان یکونوا شھداء فی الدنیا انما قلنا انہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ و ھٰذا اخبار عن الماضی فلا اقل من حصولہ فی الحال و انما قلنا ان ذٰلک یقتضی صیرورتھم شھودا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس رتب کونھم شھداء علٰے صیرورتھم وسطا ترتیب الجزا علے الشرط فاذا حصل وصف کونھم وسطا فے الدنیا وجب ان یحصل وصف کونھم شھداء فی الدنیا (تفسیر کبیر جلد ٢ ص ١٠) یہ شہادت (دو حال سے خالی نہیں) یا تو آخرت میں ہوگی یا دنیا میں (لیکن) آخرت میں تو اس کا ہونا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل اس لئے بنایا تاکہ وہ گواہ بنیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں گواہ ہیں اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے وکذٰلک جعلٰنکم فرمایا ہے اور یہ خبر واقعہ گذشتہ سے دی گئی ہے پس کم سے کم اس کا حصول زمانہ حال میں ہونا چاہیے اور یہ جو ہم نے کہا کہ اس سے ان کا دنیا میں گواہ ہونا لازم آتا ہے اس کی دلیل یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو امت متوسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر اور رسول تم پر گواہ ہو۔ اس کلام کو ایسا مرتب کیا جیسے شرط جزا ہوا کرتی ہے۔ پس جب ان کا وسط ہونا دنیا میں حاصل ہے تو گواہ بھی دنیا میں ہونا واجب اور ضروری ہوگا“ انتہیٰ) رہاؔ یہ سوال کہ دنیا میں ان کی گواہی کا کیا مطلب۔ سو اس کا جواب ان لوگوں کے نزدیک جو اس شہادت کو دنیا کے متعلق مانتے ہیں یہ ہے کہ اس شہادت سے مراد اجماع ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں اس سے آگے چل کر کہا ہے کہ :۔ فثبت ان لایۃ تدل علیٰ ان الا جماع ججۃ (ج ٢ ص ١) ثابت ہوا کہ آیت اجماع کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بعض لوگ بلکہ اکثر کہتے ہیں کہ یہ شہادت قیامت میں ہوگی جب انبیاء کی امتیں تبلیغ رسل سے انکار کریں گی تو اس وقت امت محمدیہ انبیاء کی طرف سے شہادت دے گی کہ بے شک انہوں نے اپنی اپنی امت کو پہنچا دیا۔ اور جناب رسالت مآب اپنی امت کا تزکیہ کریں گے کہ میری امت کے لوگ سچے گواہ ہیں اس مضمون کی ایک حدیث بھی صحیح مسلم میں آئی ہے جو ان معنے کو تقویت دیتی ہے مگر چونکہ پہلے لوگوں کی دلیل بھی قوی ہے اس لئے امام رحمہ اللہ نے تفسیر کبیر میں دونوں کو جمع کرنا چاہا ہے اور کہا ہے کہ :۔ فالحاصل ان قولہ تعالیٰ فتکونوا شھداء علی الناس اشارۃ ان قولھم عند الاجماع حجۃ من حیث ان قولھم عند الاجماع یبین للناس الحق ویؤکد ذٰلک قولہ تعالیٰ ویکون الرسول علیکم شھیدا یعنے مودیا ومبینا ثم لایمتنع مع ذٰلک لھم الشھادۃ فی الاٰخرۃ فیجری الواقع منھم فی الدنات مجری التحمل لاٰنھم اذا اثبتوا الحق عرفوا عندہ من القائل ومن الرّاد ثم یشھدون بذٰلک یوم القیمۃ کما ان الشاھد علی العقود یعرف ما الذی لم وما الذی ثمّ یتم لم یشھد بذٰلک عند الحاکم (ج ٢ صفحہ ١) حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ تم گواہ بنو گے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کی بات اجماع کے وقت دلیل ہوگی اس لحاظ سے کہ اجماع کے وقت لوگوں کو حق بتا دیں گے اور اسی کی تائید کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ رسول تم پر گواہ ہوگا یعنی ادا کرنے والا اور بیان کرنے والا یہ ہو کر بھی اجماع حجت ہے اور اس دلیل سے دنیاوی شہادت معلوم ہوتی ہے ممکن ہے کہ قیامت میں بھی ان کی شہادت ہو پس دنیا کی شہادت ان کے حق میں گویا کہ دریافت واقع ہے اس لئے کہ جب انہوں نے دنیاوی شہادت سے ایک امر کو ثابت کیا تو گویا اس وقت وہ ماننے اور نہ ماننے والوں کو جان لیں گے پھر اس بات کی قیامت میں شہادت دیں گے جیسا کہ گواہ وقت بیع عقد تام اور غیر تام کو جانتا ہے پھر اس امر کی حاکم کے پاس شہادت ادا کرتا ہے۔“ انتہیٰ میں کہتا ہوں یہ طریق جمع بین الشہادتین جو امام ممدوح نے بیان کیا ہے اس میں ایک طرح کا شبہ ہے کیونکہ امام صاحب نے دنیاوی شہادت کو بمنزلہ تحمل شہادت کے قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس شہادت کو اس شہادت سے مبائنت ہے اس لئے کہ بعد تسلیم اس امر کے کہ اس آیت سے اجماع کی حجیت ثابت ہوتی ہے یہ کہنا باقی ہے کہ اجماع مثبت فروعات شرعیہ کا ہوتا ہے اور شہادت اخروی جیسے کہ حدیث مذکور سے ثابت ہے امم سابقہ کے مقابلہ پر ہوگی۔ جن کو فروعات شرعیہ محمدیہ سے کوئی علاقہ نہیں پس جب کہ حسب منشاء امام جمع بین الشہادتین ہی ضروری ہے اور یہ امر ہر حال میں اولیٰ اور انسب ہے کہ اس آیت سے دونوں شہادتین مراد ہوں تو کوئی وجہ نہیں۔ کہ شہادت کے معنے گواہی دادن کے لے کر کلام صحیح ہوسکے اس لئے میں نے شہادت کے معنے حکمرانی کے لئے ہیں پس یہ معنی نہ تو حدیث کے خلاف رہے اور نہ امام کے منشاء (جمع بین الشہادتین) کے مخالف ہاں شہادت کے مصداق متنوع ہوں گے یعنی دنیا میں حکمرانی اور نوع کی ہوگی اور قیامت میں اور قسم کی جیسا کہ عموم مجاز یا عموم مشترک (علیٰ تقریر جوازہ) کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ شہادت کے معنے حکمرانی کے ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مفسر بیضاوی نے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شہید حاکم کو بھی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مجالس میں واسطے تصفیہ مقدمات کے آیا جایا کرتا ہے۔ اور اگر آیت پر غور کیا جائے تو یہی معنے مناسب ہیں۔ اس لئے کہ تحویل قبلہ کا وقت ایک نہایت اضطراب اور بے قراری کا مسلمانوں کے حق میں تھا۔ جس میں ان کو ہر طرف سے کس و ناکس کے اعتراضات سننے پڑتے تھے ایسے موقع پر نہایت ضروری تھا کہ ان کی گھبراہٹ کے دفع کرنے کو کوئی خبر ایسی فرحت بخش سنائی جاتی جس سے ان کے لئے اس گھبراہٹ کا بہت جلد تبادلہ ہوتا چنانچہ بعد تدبران آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کی تسکین ہر طرح سے مقصود تھی کہیں تو ان کو طمع دی جاتی تھی۔ کہیں ان کو کفار کے شر سے بچنے کی تاکید ہو رہی ہے۔ اور بار بار اس امر کی تاکید ہے کہ ضرور اس کام پر پختہ ہوجائو اور کسی کی مت سنو اللہ بھی چاہتا ہے کہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس شہداء کے معنے حکمران لینا اور اس کو ایک قسم کی دلجوئی بلکہ پیشگوئی قرار دینا سیاق و سباق سے نہایت مناسب بلکہ انسب ہے ١٢ منہ){ یہ لوگ ایسے بے ہودہ بکواس ہی میں رہ جائیں گے۔ اور تم ان کے دیکھتے ہی ترقی کرجاؤگے۔ جو تمہاری سچائی کی دلیل ہوگی۔ رہا ان ظاہر بین نادانوں کا سوال کہ کبھی کسی طرف نماز پڑھتے ہیں اور کبھی کسی طرف سواس میں بھی کئی ایک مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں جو تمہاری ترقی کے لئے ایک زینہ ہے یادرکھیں کہ تیرا اصل قبلہ تو یہی کعبہء ابراہیمی ہے جس پر اعتراض کررہے ہیں مگر درمیان میں ہم نے اس قبلہ بیت المقدس کو جس کی طرف تو بالفعل متوجہ ہے اس لئے تجویز کیا تھا کہ رسول کے مخلص تابعین کو نافرمانوں اور دوزخی چال والوں سے ممتاز کریں جو سنتے ہی مان جائے گا وہ اخلاص مند ثابت ہوگا اور جو ایچ پیچ کرے گا۔ اس کی گردن کشی ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تمیز بھی نہایت ضروری ہے اس لئے کہ جب تک کسی قوم کے سب لوگ یکجان ہو کر اپنے مقاصد میں ساعی نہ ہوں ترقی مسدود ہوتی ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ انقلاب کعبہ بہت دشوار ہے مگر ایسے لوگوں پر دشوار نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہو اور وہ جانتے ہوں کہ رسول کے احکام ہر حال میں قابل تسلیم ہوتے ہیں شاباش تم ایمانداروں پر جو اپنے ایمان کی حفاظت دل وجان سے کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی تمہارا ایمان اور اعمال صالحہ ضائع نہیں کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے حال پر عموماً اور ایسے مسلمانوں کے حال پر خصوصاً بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے } (شان نزول : (وَمَا کَان اللّٰہُ) تحویل قبلہ سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے تھے۔ ان کی بابت ان کے احباب نے حضور مقدس سے سوال کیا کہ ان کی نمازیں مقبول ہوئیں یا نہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ضائع نہ ہوں گی ١٢ جلالین۔){ تو پھر رحم اور مہربانی اسی کا نام ہے کہ کئے ہوئے کام (نماز روزہ) بھی بلا وجہ ضائع کردے چونکہ تیرا مدت سے یہی جی چاہتا ہے کہ کعبہء ابراہیم کی طرف ہی (جو سب سے اول عبادت خانہ ہے) نماز پڑھے چنانچہ تیرے منہ کا آسمان کی طرف بانتظار وحی پھر ناہم دیکھ رہے ہیں نیز تعیین جہت سے کوئی یہ غرض نہیں کہ اس جہت کی عبادت کرائی جائے بلکہ عبادت تو ہماری ہے تعیین قبلہ تو صرف ایک عارضی امر ہے پس تجھ کو ہم اسی کعبہ کی طرف پھیریں گے۔ جسے تو پسند کرتا ہے لیجئے بس اب سے آئندہ کو اپنا منہ عزت والی مسجد یعنی کعبہ ابراہیمی کی طرف پھیر کر اور عام مسلمانوں کو بھی اعلان دیدو کہ جہاں کہیں تم ہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو۔ }آریوں اور عیسائیوں کی غلطی : (اپنا منہ عزت والی مسجد کی طرف پھیرا کر) اس آیت کے متعلق بھی نافہم مخالفوں نے کئی طرح سے دانت پیسے ہیں سب سے بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ اسلام نے بت پرستی کو رواج دیا جو سچے مذہب کے شایاں نہیں۔ کس طرح دیا؟ اس طرح کہ کعبہ جو پتھروں کا بنا ہوا مثل ایک بت کے ہے اس کی عبادت کا حکم کیا اور ایسا کیا کہ بغیر اس طرف رخ کرنے کے نماز قبول ہی نہیں ہوتی۔ دوسرا اعتراض نسخ احکام کے متعلق ہے کہ پہلے حکم کو اٹھانا اس کے ناتجربہ اور لاعلمی پر مبنی ہوتا ہے اس لئے جائز نہیں کہ احکام خداوندی میں سے کوئی حکم کسی زمانہ میں صادر ہو کر پھر اٹھا دیا جائے جیسا کہ یہاں پر پہلے کعبہ سے دوسرے کعبہ کی طرف منہ پھرنے کا حکم ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان دفتروں کا جو ہمارے قدیمی مہربان عیسائی اور ہمسایہ قوم آریہ وغیرہ نے بھرے ہیں پہلے سوال کا جواب دو طرح سے ہے اجمالی اور تفصیلی۔ اجمالی تو دو ٹوک بات ہے کہ شرک اور بت پرستی اسے کہتے ہیں کہ غیر اللہ کی عبادت کی جاوے یا کم سے کم اس سے وہ معاملے کئے جاویں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے چاہئیں مثلاً امید بھلائی یا دفع ضرر مگر چونکہ کعبہ کی نسبت اسلام نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا بلکہ صاف اور صریح لفظوں میں فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْت فرمایا۔ یعنی کعبہ کے اللہ کی عبادت کریں۔ تو اب اسلام کی نسبت یہ گمان کرنا کہ کعبہ پرستی اور بت پرستی سکھاتا ہے۔ سراسر انصاف کا خون کرنا ہے۔ تفصیلی جواب سے پہلے مسلمانوں کی نماز کا مطلب بیان کرنا بھی کسی قدر مفید ہوگا۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ اسلامی نماز جس پر تمام اہل اسلام فخر کیا کرتے ہیں کہاں تک توحید سے یا شرک سے بھری ہوئی ہے۔ پہلے میں اس نوٹس اذان کا مضمون سناتا ہوں جو نماز پنجگانہ کی حاضری کے لئے تجویز ہوا ہے۔ کچہری (مسجد) کے دروازہ یا کسی کونے میں چپڑاسی (موذن) کھڑا ہو کر بلند آواز سے کہتا ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھدان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان محمد الرسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ حی علی الصلوۃ حتی علی الصلوۃ حی علی الفلاح حی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ اللہ تعالیٰ! سب سے بڑا ہے (چار دفعہ) میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں (دو دفعہ) میں اس امر کا شاہد ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں (جن کو سوا پیغام پہونچانے کے خدائی میں کسی طرح کا حق نہیں) اے سب سننے والو ! آئو نماز پڑھنے کو (دو دفعہ) آئو عذاب سے رہائی پانے کو (دو دفعہ) اللہ سب سے بڑا ہے (دو دفعہ) سوائے اس کے کوئی بھی معبود برحق نہیں۔ یہ ہے مضمون اس نوٹس کا جو رسول اسلام (فداہ روحی) نے حاضری دربار رب العالمین کے لئے مقرر کیا ہے۔ سچ ہے ع سالیکہ نکوست از بہارش پیداست۔ اس نوٹس کے الفاظ میں نے حاشیہ پر نقل کر دئے ہیں تاکہ ہر موافق مخالف کو یہ موقع ملے کہ مسجد میں جا کر (اللہ کرے کہ سب جائیں) اپنے کان سے سن کر ہماری تصدیق کا اندارہ کرے اب میں اس نماز کا مضمون سناتا ہوں جس کے لئے یہ اعلان تجویز ہے۔ کھڑے ہوتے ہی (بایں خیال کہ میں اس وقت دنیا اور ماسوا اللہ سے علیحدہ ہوں) دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے کہ اللہ اکبر سبحنک اللھم بحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العلمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ کہہ کر نوکروں اور غلاموں کی طرح دونوں ہاتھ باندھ کر اقرار کرتا ہے۔ اے اللہ تو سب عیوب سے پاک ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں بڑی برکت والا ہے نام تیرا اور بلند ہے ذات تیری اور سوا تیرے کوئی معبود نہیں۔ شیطان مردود سے پناہ میں ہو کر اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اس بات کا صریح لفظوں میں اقرار کرتا ہوں کہ سب تعریفوں کا مستحق اللہ ہی ہے جو سب جہان کا پالنہار ہے بڑا بخشنے والا نہایت مہربان۔ انصاف کے دن کا حاکم (اس کے بعد مخاطب ہو کر اپنی آرزو کا اظہار کرتا ہے کہ) ہم تیری ہی اے ہمارے مولا ! بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے اپنے اڑے کاموں میں مدد چاہتے ہیں تو ہی ہم کو سیدھی راہ پر پہنچا۔ ان لوگوں کی راہ پر پہنچا کہ جن پر تو نے بڑے بڑے انعام و اکرام کئے اور نہ ان کی جن پر غصہ ہوا اور نہ گمراہوں کی۔ اس کے بعد کوئی سورت قرآنی بغرض ربط مخلوق بخالق پڑھ کر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہہ کر رکوع میں جاتا ہے اور اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ سبحان ربی العظیم۔ میرا ! مالک مربی اللہ بڑی بزرگی والا ہے (کم سے کم تین دفعہ) پھر سر اٹھاتے ہوئے اللہ کی عام قدرت کا اقرار کرتا ہے سمع اللہ لمن حمدہ۔ یعنی اللہ سنتا" ہے ان کی پکار کو جو اس کی تعریف کرتے ہیں۔ پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی اظہار ہے کہ ربنا لک الحمد۔ اے # ہمارے مولا ! تو ہی سب تعریفوں کا مالک ہے پھر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہتا ہوا سجدہ میں جاتا ہے وہاں تو خوب ہی بن آتی ہے من مانی دعائیں جی میں آئی عرضیں کرتا ہے سبحان ربی الاعلیٰ (پاک ہے رب میرا سب سے بلند) (کم سے کم تین دفعہ) کہہ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سر اٹھاتا ہے۔۔ پھر دوسرا سجدہ بھی اسی کیفیت سے کرتا ہے یہاں پہنچ کر ایک رکعت ختم ہوئی۔ ( دونوں سجدوں کے درمیان میں دعا پڑھنا لازمی رسول اللہﷺ سے مرفوع ہے۔ (١) ربی اغفرلی۔ (٢) ربی اغفرلی ورحمنی… الخ) اسی کیفیت کی دو تین چار جیسا وقت ہو پڑھتا ہے۔ سب سے اخیر بیٹھ کر اپنے مالک کی تعریف کے کلمات (التحیات للہ والصلوت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما برکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔) کہہ کر اور اپنے پیرو مرشد سچے رسول کے حق میں نیک دعا کر کے اور اپنے حق میں بھی کچھ کہہ سن کر نماز سے فارغ ہوتا ہے پس یہ ہے وہ نماز اور وہ عبادت جس کو ایک ناخواندہ (مگر خوندوں کے معلم) جنگلی ملک کے رہنے والے (فداہ روحی) نے بالہام الہٰی تجویز کیا ہے۔ کیا اس میں کوئی کلمہ بھی ایسا ہے کہ جس میں کعبہ کی مدح یا تعظیم ہو۔ پھر اس نماز کو بھی ہمارے نافہم مخالف شرک اور بت پرستی کہیں گے تو اس کے جواب میں ہم سے یہی سنیں گے پس تنگ نہ کرنا صح ناداں مجھے اتنا یا چل کے دکھا دے دہن ایسا کمر ایسی بعد اس کے ہم اپنے مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ اگر اسلام کو کعبہ پرستی منظور ہوتی اور شرک اور بت پرستی کا رواج مدنظر ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ ساری نماز میں کعبہ کا ذکر تک بھی نہیں۔ نہ اس کو خطاب ہے۔ نہ اس سے استمداد۔ نہ اس کا نام۔ پھر کعبہ پرستی ہے تو کہاں ہے؟ میں نہیں جانتا کہ کوئی منصف مزاج اس معروضہ تقریر پر غور کر کے اسلام پر کعبہ پرستی کا الزام لگائیں۔ رہا یہ سوال کہ نماز میں تو بیشک شرک کی بو تک نہیں۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آیا ہے۔ انسان کو اس امر میں مختار کیوں نہیں کیا گیا کہ جس طرف منہ کر کے چاہتا اپنے مالک کی عبادت کرتا۔ سو اس کا جواب بعد ایک تمہید کے ہم دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے :۔ ہمیشہ قاعدہ ہے کہ ایک امر مقصود اصلی کے ساتھ کوئی مقصود تبعی بھی ہوا کرتا ہے مثلاً علم کا پڑھنا مقصود اصلی ہے تو حروف ابجد کا سیکھنا غیر اصلی لازم ہے گو بعد حصول علم حروف ابجد کا خیال تک بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح دفع دشمن کے لئے تلوار بندوق کا اٹھانا لازم ہوجاتا ہے حالانکہ ان کے اٹھانے سے بجز تحمل بوجھ کوئی فائدہ نہیں مگر بایں لحاظ کہ یہ بوجھ ایک ضروری کام (دفع دشمن) کے لئے ذریعہ ہے یہی عمدہ اور احسن ہوجاتا ہے اس تقریر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو امر کسی دوسرے امر کا ذریعہ ہوا کرتا ہے اس کا حسن و قبح اصل ذی ذریعہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یہی تلوار کا اٹھانا جو بلحاظ اس امر کے کہ یہ تلوار دفع دشمن کے لئے ایک ذریعہ ہے احسن اور عمدہ ہے اور اس لحاظ سے کہ کسی بیکس مظلوم پر چلائی جائے۔ تو قبیح ہوتا ہے۔ ہاں اس امر کی پہچان بعض دفعہ مشکل ہوجاتی ہے کہ مقصود اصلی کیا ہے اور تبعی کیا۔ سو اس کے لئے عام قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو امر ایسا ہو کہ اس کے حصول کے بعد دوسرے کے لئے تردد کرنا باقی رہے۔ اور مقصود سے فارغ البالی نہ ہو۔ تو وہ مقصود اصلی نہیں اور جس کے حصول کے بعد دوسرے کی تلاش نہ رہے تو وہ امر مقصود اصلی ہوگا۔ مثلاً دوا کا بنانا اور گھوٹنا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے حصول پر قناعت نہیں کی جاسکتی۔ جب تک کہ بیمار کو بھی شفا نہ ہولے۔ ہاں اگر بغیر دوا نوشی کے مرض سے عافیت ہوجائے تو دوا کا مطلق خیال بھی نہیں ہوتا۔ ہماری اس تقریر سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مقصود اصلی کسی حال میں متروک اور مفروغ عنہ نہیں ہوسکتا۔ پس اب ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ تعیین جہت کو اسلام نے کوئی مقصود اصلی قرار دیا ہے یا تبعی۔ بعض مواقع پر اس حکم کا ساقط ہوجانا صاف دلیل ہے کہ یہ کوئی امر اصلی نہیں۔ مثلاً جنگ کی حالت میں بشدت خوف جدھر رخ ہو نماز پڑھتے جانا خواہ کعبہ کی طرف پیٹھ بھی ہو۔ اس امر کو ثابت کررہا ہے کہ کعبہ کی طرف توجہ کرنا مقصود اصلی نہیں۔ بلکہ صرف اس امر کے لئے ہے کہ مسلمانوں میں جیسا کہ معنوی اتحاد ہے صوری موافقت بھی حاصل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے جو اختیار دینے کی صورت میں متصور نہ تھا کیونکہ جب ہر ایک کو اختیار ملتا اور اس بات کا مجاز ہوتا کہ دوسرے کے منہ کی طرف منہ کرے یا پیٹھ ایک مشرق کو رخ کرے تو دوسرا مغرب کو۔ تیسرا جنوب کو چوتھا شمال کو۔ یہ فائدہ جو یک جہتی سے حاصل ہے نہ ہوتا۔ پس یہی وجہ اس کے تبعی مقصود ہونے کی ہے۔ یہ تقریر بالخصوص اس وقت بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز کے معانی اور مطالب ذہن نشین کر کہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں تو کسی جہت یا کعبہ کا نام تک بھی نہیں پس اگر یہ مقصود اصلی ہوتا تو اصل عبادت کے طریق اور اس کے الفاظ میں اس کا ذکر ہوتا کیونکہ بغیر مقصود کسی کام کا کرنا کون نہیں جانتا کہ علاوہ لغو ہونے کے تضیع اوقات اور بیہودہ پن ہے۔ پس ہماری ہمسایہ قوم آریہ اور عیسائی وغیرہ اسلام کے مخالف ہماری اس تقریر پر غور کریں اور نتیجہ سے ہمیں اطلاع دیں اگر کچھ شبہ ہو تو تمام قرآن میں تلاش کر کے کوئی آیت اس مضمون کی نکالیں جس سے ثابت ہو کہ نماز میں کعبہ کی پرستش ہے۔ نہ ملنے پر ہم آپ سے صرف ایک چیز چاہتے ہیں۔ جو نہایت آسان ہے گو کسی مخالف حق کے حق میں مشکل اور گراں سے گراں ہے وہ وہی ہے جس کا پیارا نام ” انصاف“ ہے جو انسان کو ہر ایک جگہ عزت دلاتا ہے اور عزاز سے یاد کراتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کعبہ کی جہت کیوں مقرر ہوئی۔ اور طرف کیوں نہ ہوگئی؟ مانا کہ نماز میں شرک نہیں اور تعین جہت شرک ہے لیکن اتنا تو ہے کہ اور اطراف بھی اس کے مساوی ہیں آخر اس میں کیا ترجیح ہے جو اس کو اختیار کیا گیا۔ کیا ترجیح بلا مرحج محال نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جہت میں سب سے بڑھ کر ایک ایسی ترجیح پائی جاتی ہے جو ہم خرما وہم ثواب کی مصداق ہے۔ یعنی یہ کعبہ ایک بڑے نامور سید الموحدین اس نیک بندے کا بنایا ہوا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور توحید کے اختیار۔ کرنے کی وجہ سے اپنے بیگانے سے وہ تکالیف دیکھی تھیں جن کا نمونہ آج کل تمام دنیا میں نہ مل سکے پس ایسے شخص کی یاد گار دل میں قائم رکہنے کی غرض سے کعبہ مقرر کیا گیا۔ تاکہ اور لوگوں کو بھی اخلاص مندی اور توحید کا اس سے سبق حاصل ہو۔ اسی حکمت سے حضور اقدس (فداہ روحی) کا دل تڑپتا تھا کہ میں کعبہ ابراہیمی کی طرف نماز پڑھوں ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کعبہ بھی مثل اور جہات کے ایک جہت ہے۔ ہاں کوئی وصف ہے تو یہ ہے بگفتا من گلے ناچیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم رہا اعتراض نسخ احکام کے متعلق سو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ یعنی حکم سابق کا اٹھا دینا یہ دو طرح پر ہے۔ ایک تو جس طرح سے حکام زمانہ کوئی قانون بعد ترویج بدلتے ہیں جس کی بابت پہلی ترتیب کے وقت ان کو علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا خرابی ہوگی جس کے سبب سے اس میں کچھ تغیر آئے گا۔ دوسری قسم طبیب کی تبدیلی نسخہ جات کی طرح ہے کہ رفتہ رفتہ بتدریج طبیعت کو درستی پر لاتا ہے۔ منضج دے کر مسہل تجویز کرتا ہے ان دو قسموں میں سے قسم اول تو بیشک حاکم کی لاعلمی پر دلالت کرتا ہے۔ مگر قسم دوم بجائے لاعلمی کے کمال بتلاتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اہل اسلام کون سے نسخ کے قائل ہیں؟ قسم اوّل کے۔ حاشا وکلّا (ہرگز نہیں) ان کی پاک کتاب کی تعلیم ہے یَعْلَمْ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ اور اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ۔ بھلا اس صریح تعلیم کے خلاف وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں اور اگر کہیں بھی تو یہ اعتراض ان پر ہوگا۔ نہ کہ اسلام پر۔ قسم دوم کے البتہ جمہور اہل اسلام معترف ہیں کتب اصول میں لکھا ہے کہ :۔ النسخ ھو بیان لمدۃ الحکم المطلق الذی کان معلوماً عند اللّٰہ الا انہ اطلق فصار ظاھرہ البقأ فی حق البشر فکان تبدیلا فی حقناببانا فی حق صاحب الشرع (نور الا نواز ص ٢٠٨) نسخ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے جو کسی حکم بلا قید میں مراد ہوتی ہے اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ حکم فلاں وقت تک رکھوں گا مگر بظاہر اس کو غیر مفید فرما دیتا ہے جس سے لوگ اس کو دوامی سمجھ جاتے ہیں پس اسی وجہ سے وہ ہمارے خیال میں پہلے حکم کی تبدیلی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے “ پسؔ ایسے نسخ سے نہ تو اللہ کے علم میں کوئی نقصان آتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اعتراض ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ابتدائے اصلاح قوم میں مصلحان کو کیا کیا دقتیں پیش آیا کرتی ہیں کبھی وہ مشکل سے مشکل کام بھی کر گذرتے ہیں اور کروا لیتے ہیں اور کبھی آسان سے آسان بھی بوجہ کسی مصلحت اور حکمت کے ان سے نہیں ہوسکتے ایک شخص کے خیالات کا اندازہ کرنا اور اس کی طبیعت مدت سے بگڑی ہوئی کو اصلاح پر لانا ہاتھ میں انگار لینا ہے تو پھر ایک قوم کی قوم کو یکدم پلٹا دلانے میں کیا کیا دقتیں نہ پیش آتی ہوں گی۔ سچ ہے اور بالکل سچ ہے پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار بہتے دریا کا پھیر لانا دشوار دشوار تو ہے مگر نہ اتنا جتنا بگڑی ہوئی قوم کا بنانا دشوار ایک حدیث میں جو امام مسلم نے نقل کی ہے مذکور ہے کہ آپ نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کے مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن سے زائد رکھنے سے منع کردیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی ایسا ہی شراب کے برتنوں میں بھی کھانا پینا منع کیا تھا۔ مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی اس حدیث سے ہمارے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسلامی نسخ بے علمی پر مبنی نہیں بلکہ کمال دور اندیشی کی خبر دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں ایسے مصلح اور رفارمر کی کسی پالیسی (حکمت عملی) یا دوسرے لفظوں میں نسخ پر کوئی اعتراض کرنا گویا ثابت کرنا ہے کہ اصول رفارمری سے ناواقف ہیں۔ سچ ہے سخن شناس نئی دلبر اخطا اینجاست۔ اسلامی نسخ جس قدر کہ ہے اس قسم کا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض مفسرین نسخ بتلانے میں ذرا جلدی بھی کر جاتے ہیں سو جس نے آیات منسوخہ کی صحیح تعداد اور ان کے متعلق محققانہ بحث دیکھنی ہو وہ رسالہ فوز الکبیر مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ کا مطالعہ کرے تمام تلاش میں شائد کوئی آیت منسوخ ملے گی۔ واللہ اعلم منہ اس لفظ میں استثناء باب ١٨۔ اور اعمال باب ٣ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ منہ{ اس امر کا خطرہ نہ کرو کہ جہاں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) تم کو طعن مطعن دیں گے اگر دیں تو کچھ پرواہ نہیں اس لئے کہ جو لوگ کتاب کے جاننے والے ہیں خوب جانتے ہیں کہ یہ (حکم) واقعی ان کے (اور تمہارے سب کے) مالک کی طرف سے ہے کیونکہ وہ بشہادت تورات ونیز بقرائن خارجہ اسے خوب سمجھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا نبی اور حضرت موسیٰ کی مانند رسول مستقل ہے۔ پس جو کچھ وہ حکم کرے گا ممکن نہیں کہ غلط اور باطل ہوگوہ بوجہ دنیا سازی مانتے نہیں سو یادرکھیں کہ اللہ ان کے کاموں سے بے خبر نہیں ضد اور تعصب میں تو یہاں تک بڑھے ہوئے ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ہر طرح کے نشان بھی لاوے گا تو جب بھی تیرے قبلہ ابراہیمی کی طرف نماز نہ پڑھیں گے اور نہ کسی طرح تو ان کے قبلہ کو مانے گا ان کی یہ مخالفت تیری حقانیت میں خلل انداز نہیں ہوسکتی پہلے وہ آپس میں تو فیصلہ کرلیں اس لئے کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے۔ یہود نصاریٰ سے مخالف اور نصاریٰ یہود سے۔ حالانکہ دونوں گروہ تورات کو مانتے ہیں پھر تجھ سے بھی الجھنے کی کیا وجہ کوئی دلیل ان کے پاس ہے ؟ کہ انہی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھی جاوے ہاں نفسانی خواہش تو بے شک ہے اور یاد رکھ کہ اگر تو بفرض محال باوجود جان لینے ان کی اندرونی حالت کے ان کی خواہش پر چلا تو بے شک تو بھی اسی وقت بے انصاف ثابت ہوگا اصل میں یہ ضد جہلاء اور نیم، ملّائوں میں زیادہ ہے ورنہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب تورات کی سمجھ دی ہے وہ تو اس رسول کو ایسا سچا پہچانیں جیسا اپنے بیٹوں کو جب ہی تو ماننے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ ہاں ایک فرقہ نیم ملّائوں کا ان میں سے بے شک دیدہ دانستہ حق بات چھپاتے ہیں اور اس کو شش میں ہیں کہ کسی طرح حق ظاہر نہ ہونے پائے مگر تو سن رکھ کہ حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو ان کی باتوں سے کسی طرح کا شک نہ کی جیو ان کی مخالفت سے کیا ہوتا ہے پڑے مخالفت کریں اللہ تعالیٰ نے اس دین کو ضرور ہی پھیلانا ہے۔ البقرة
143 البقرة
144 البقرة
145 البقرة
146 البقرة
147 البقرة
148 (148۔176)۔ اور ہم ابھی سے بتلائے دیتے ہیں کہ ہر ایک فر قہ کے لئے ایک جانب کعبہ کی مقرر ہے وہ فر قہ اس جہت کی طرف نماز میں اپنا رخ ضرور پھیرے گا جنوب شمال مشرق مغرب تمام اطراف کے لوگ اپنی اپنی طرف سے کعبہ کی طرف نماز پڑھیں گے جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اطراف میں ہوگی ہاں اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں تم کو کسی قدر تکلیف ہوگی سو کچھ حرج نہیں تکلیف میں بہت بڑا اجر ہے پس تم اس سے مت ڈرو بلکہ ایسی نیکیوں کے کرنے میں جلدی کرو اور یہ وہم مت لائو کہ مشرق مغرب کے لوگ اس کعبہ میں کیونکر آویں گے اور کیونکر آپس میں ملیں گے اس لئے کہ جہاں کہیں تم ہو گے اللہ تم سب کو ایک جگہ لے آئے گا بے شک اللہ سب کام کرسکتا ہے یہ کام اللہ کے سپرد کر اور اس کی تعمیل ارشاد میں مصروف ہو } (اپنا رخ ضرور پھیرے گا) اس آیت کے معنے بتلانے میں بھی مفسرین کا قدرے اختلاف ہوا ہے بعض کہتے ہیں ہر ایک کے لئے ایک جہت ہے جو وہ اپنا منہ اس طرف پھیرتا ہے مثلاً یہودی ایک طرف عیسائی ایک طرف مشرکین عرب ایک طرف حالانکہ بہتر وہی جہت ہے جو اللہ کے حکم سے ہو پس تم کعبہ کی طرف منہ کرو جو منشاء ایزدی کے موافق ہونے کی وجہ سے ہر طرح سے افضل اور فائق ہے بعض کہیں ھو کی ضمیر اللہ کی طرف پھرتی ہے پس اس توجیہ پر آیت کے معنے دو طرح سے ہوں گے ایک تو یہ کہ ہر ایک کے لئے جہان والوں سے ایک رخ ہے کہ اللہ نے ان کو اس طرف پھیرا ہے۔ مثلاً یہود کو ایک طرف عیسائیوں کو ایک طرف۔ دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ ہر ایک کے لئے تم مسلمانوں سے کعبہ کی ایک جہت ہے کہ اللہ تم کو اس طرف پھیرے گا ان معانی کا مفصل ذکر تفسیر کبیر میں مرقوم ہے من شاء فلیرجع الیہ۔ جو معنے میں نے کئے ہیں وہ بہئیت کذائی کسی کے کئے ہوئے تو میرے سے نظر سے نہیں گذرے لیکن انہی وجہ مذکورہ سے مستنبط ہوسکتے ہیں میں نے کل کا مضاف الیہ مخاطب یعنی مسلمان لئے ہیں اور ھو کی ضمیر کل کی طرف ہی پھیری ہے جو متبادر ہے یہ سب اس لئے کیا کہ ان معنے میں ایک قسم کی پیشگوئی ترقی اسلام کے متعلق معلوم ہوتی ہے جو ایسی گھبراہٹ کے زمانہ میں مناسب بلکہ انسب ہے جیسی کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ اور جنگ خندق میں آپ نے عین گھبراہٹ کے وقت ایک روشنی دیکھ کر صحابہ کو تسلی فرمائی کہ مجھے روم شام کا ملک دکھایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ یہ ملک میری امت کو ملے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی معہ ان دو قرآنی پیشگوئیوں کے اللہ کے فضل سے پوری ہوگئیں۔ فالحمدُللّٰہ علٰے ذٰلک { اور مدینہ سے باہر جہاں نکلے وہاں نماز پڑھنے لگے تو اسی عزت والی مسجد یعنی کعبہ شریف کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیر اس لئے کہ وہی سچا حکم تیرے مالک کی طرف سے ہے اور جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں اس تکلیف کا یہ بدلہ تم کو ضرور دے گا اس لئے ہم تم کو بار بار بتاتے ہیں کہ جہاں سے تو نکلے پس اسی مسجد عزت والی کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیرو اور تم بھی مسلمانو ! جہاں کہیں ہوئو نماز پڑھتے وقت اسی طرف اپنا منہ پھیرو تاکہ لوگوں کا جھگڑا تم سے نہ رہے کہ دعوٰی تو ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) کا کریں اور کعبہ ابراہیمی ( علیہ السلام) کو چھوڑدیں ہاں جو ان میں سے با لکل ہی کجرو ہیں سو ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو تاکہ تم ترقی کرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ پر پہنچو یہ نعمت یہ کامیابی بھی کوئی کم چیز نہیں بلکہ ویسی ہی جیسا کہ ہم نے تمہارے پاس ایک رسول تمہاری جنس کا بھیجا ہے۔ جو ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اور کدورت باطنی مثل کفر شرک کینہ نفاق وغیرہ سے تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب آسمانی اور رتہذیب روحانی سکھا تا ہے اور علاوہ اس کے ضروری ضروری باتیں وہ باتیں بھی تم کو سکھاتا ہے جو پہلے اس کے تم نہیں جانتے تھے بڑی بھاری اخلاقی بات جو تم ہمارے رسول سے سیکھتے ہو طریقہ ذکر ہے اس لئے کہ بہت سے لوگ اس میں بھولا کرتے ہیں پس تم اسی طریقہ معلومہ سے میری یاد کیا کرو میں بھی اس کے عوض میں تمہیں انعام خاص سے یاد کروں گا اور اس ہدایت کا احسان مان کر میرا شکریہ ادا کرو اور نا شکری مت کرو کہ اس طریقہ محمدیہ کو چھوڑ کر نئی نئی راہیں نکالنے لگو اور جس طریق سے ہمارے پیغمبر نے تم کو تعلیم نہیں دی اس طور سے ذکر کرنے لگ جائو کیونکہ الہی معلم کے طریق کو چھوڑنا بڑی بھاری نا شکری ہے اس میں شک نہیں کہ ذکر اور شکر بھی ایک مشکل کام ہے مگر اس کے لئے ایک آسان طریق ہم بتلاتے ہیں پس اے مسلمانو ! تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہا کرو یعنی تکلیفوں کے وقت صبر کے خو گیر ہوجائو اور ہر وقت اس کا خیال رکھو اور جب کبھی تکلیف ناگہانی آجاوے تو نفل پڑھ کر دعا کیا کرو ان دونوں کے استعمال اور مزاولت سے تم پکے ذاکر شاکر بن جائو گے اس لئے کہ ان دونوں کاموں پر بہت سے آثار باطنی فیضان ہوتے ہیں بڑی بات تو یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ کی ہر وقت مدد صابروں کے ساتھ ہے تمہارے صبر کی نشانوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے مرنے پر واویلا نہ کیا کرو اور خاص کہ ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہوتے ہیں مردے مت کہا کرو } شان نزول :۔ (وَلَا تَقُوْلُوْا) جنگ بدر میں چودہ مسلمان شہید ہوئے تھے ان کے وارث حسب طبیعت انسانی ان کا رنج رکھتے تھے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے کہ فلاں شخص مر گیا فلاں قتل ہوا ان کو ملال ہوتا تھا۔ ادھر کفار نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ یہ لوگ ناحق (ایک شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو کر جان دیتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو شہداء کے مردہ کہنے سے جو ان کے حق میں باعث رنجیدگی کا ہو روکنے کو یہ آیت نازل ہوئے۔ { اس لئے کہ جب تم آپس میں بول چال کرتے ہوئے کہتے ہو کہ فلاں مر گیا فلاں قتل ہوگیا تو اس کہنے سے تمہیں ایک قسم کا بے اختیاری قلق ہوتا ہے پس ایسا کہنا ہی چھوڑ دو بلکہ یہ سمجھو کہ وہ زندہ ہیں اور اگر غور کیا جائے تو زندہ ہی ہیں اس لئے کہ جو زندگی کا حاصل ہے وہ ان کو بطریق احسن حاصل ہے ہر طرح کے عیش و آرام میں ہیں لیکن تم اس کی کیفیت نہیں جانتے کہ کس قسم کا ہے کیونکہ تمہاری نظر سے غائب ہیں سچ پوچھو تو صبر ایک عجیب ہی وصف جامع کمالات ہے اس لئے ہم تم کو صبر کی ہدائت کرتے ہیں اور آئندہ تمہیں کس قدر دشمنوں کے خوف اور بھوک یعنی تنگی معاش اور مال و جان اور پھلوں کے نقصانات سے تجر بہ کار بنادیں گے جو ایسے وقت میں کامیاب ہوں گے انہی کے حق میں اپنے رسول کو ہدائت کرتے ہیں کہ تو ایسے صبر والوں کو خوش خبری سنا۔ جو مصیبت کے وقت بجائے بے ہودہ شور و غل کرنے کے بجائے بجوش دل کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی ملک ہیں جس طرح چاہے ہم میں تصرف کرے ہمیں کوئی عذر نہیں اور ہو بھی کیسے جبکہ بلا شک ہم اس کے حضور جا نے کو ہیں تو جیسا کچھ ہوگا وہاں کھل جائے گا سچ تو یہ ہے کہ انہی لوگوں پر ان کے رب کی شا باش ہے اور رحمت ہوگی اور یہی لوگ سیدھی دانائی کی راہ پر چلنے والے ہیں کیونکہ یہ کمال دا نائی ہے کہ ما تحت اپنے افسر سے بگاڑے نہیں اگرچہ اس کی طرف سے کیسی ہی تکلیفیں پہنچیں سب کو بڑی خوشی سے اٹھائے با لخصوص ایسا افسر جو تمام اختیا رات کاملہ رکھتا ہو دیکھو ہم تمہیں اس صبرکے متعلق ایک حکائت سناتے ہیں کہ جب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی والدہ نے جس وقت ابراہیم ( علیہ السلام) اس کو بحکم خداوندی جنگل میں چھوڑ گئے تو اس نے صبر وشکر سے کام لیا اور جب اسے پیاس کی سخت تکلیف پہنچی تو وہ بیچاری پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں پر جو شہر مکہ کے قریب ہیں جس کا نام صفا مروہ ہے دوڑنے لگی کہ کہیں سے پانی ملے اسوقت کی اس صابرہ کی یہ دوڑ ہمیں ایسی بھلی معلوم ہوئی کہ علاوہ ان احسانات کے جو اس وقت اس پر اور اس کے بچے پر کیے ہم نے عام طور پر اس صابرہ کا صبر جتلانے اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کو اعلان کردیا کہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں بے شک اللہ کی قبولیت کی نشانیاں ہیں جو شخص دیکھنا چاہے کہ اللہ صبر پر بھی کچھ بدلہ دیتا ہے وہ صفا مروہ کو دیکھ لے یہاں سے اس کو اسمٰعیل ( علیہ السلام) اور اس کی ماں کا قصہ معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے کیونکر اس کو صبر کا بدلہ دیا کہ عموماً اس کی نسل سے تمام عرب کو آباد کیا پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے پانی کی تلاش والی چال ان دونوں پہاڑیوں میں ہمیں یہاں تک بھلی معلوم ہوئی کہ ہم نے عام طور پر لوگوں کو حکم دیا کہ جو کوئی حج یا عمرہ کرنے کو آوے تو ان دو پہاڑیوں کے گرد بھی پھر لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے اور جو کوئی ایسے ثواب بھی کمائے گا تو ضرور اللہ اس کو بد لہ دے گا اس لئے کہ اللہ تو بڑا قدر دان اور ان کو جاننے والا ہے } شان نزول :۔ مدینہ کے لوگوں کے زمانہ کفر میں صفا مروہ پر دو بت رکھے تھے اور ان کا طواف کیا کرتے تھے جب اسلام لائے تو انہوں نے ان بتوں کے طواف کو تو برا سمجھا ہی تھا۔ یہاں تک ان سے بیزار ہوئے کہ صفا مروہ (جن پر وہ بت رکھے تھے) کے درمیان سعی کرنا بھی انہوں نے حرام جانا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی { با وجود اس کے بعض لوگ خبیث النفس ایسے بھی ہیں کہ ہمارے احکام متعلقہ صبر وغیرہ عوام سے چھپاتے ہیں صاف طور پر بیان نہیں کرتے سو یاد رکھو کہ جو لوگ ہمارے اتارے ہوئے کھلے کھلے احکام اور ہدائت لوگوں سے چھپاتے ہیں بعد اس کے جو ہم نے اس کو کتاب میں لوگوں کے لئے بیان بھی کردیا تو ایسے ہی لوگوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام دنیا کے لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں } یہود نصاریٰ کے علماء سچی باتوں کو اکثر لوگوں سے چھپاتے تھے جس سے غرض ان کی محض لوگوں کو خوش کرنا تھا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ علماء اسلام اس سے متنبہ ہوں کہ تھوڑی تھوڑی اغراض نفسانی کے لئے حق پوشی نہ کیا کریں ورنہ ان میں اور ان میں کیا فرق ہوگا۔ { ہاں جنہوں نے اس گناہ سے توبہ کی اور آئندہ کو عمل اچھے کیے اور اپنی پہلی غلطیاں بیان بھی کردیں تو ان لوگوں پر میں بھی رحم کرتا ہوں۔ اور میں ہمیشہ سے بڑا ہی رحم والا مہربان ہوں جو کوئی مجھ سے ڈر کر ذرہ بھی جھکے تو میں فوراً اس کو اپنی رحمت میں لے لیتا ہوں ہاں جو لوگ شریر اور متکبر ہیں کہ میری کتاب اور رسول سے منکر ہوئے اور تمام عمر بھی اس سے باز نہ آئے بلکہ اسی حالت کفرہی میں مرے تو ان پر اللہ اور اللہ کے فرشتوں اور سب نیک بندوں کی طرف سے لعنت ہے اور اسی لعنت کے وبال میں ہمیشہ رہیں گے نہ انکے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ عذرداری کے لئے ان کو مہلت ہی ملے گی کیونکہ انکا جرم بھی تو بہت بڑا ہے کہ توحید اور خداوندی احکام سے منکر ہیں اور اوروں کو اللہ بناتے ہیں حالانکہ تمہارا سب کا اللہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی اللہ نہیں وہ بڑا رحم والا نہائت مہر بان جس کی انہوں نے قدر نہ کی بلکہ بجائے شکر گزاری کے نا شکری کو پسند کیا تو کیسی نادانی کی بھلا ایسے اللہ مالک الملک کا بھی کوئی انکاری ہوسکتا ہے کہ جس کے وجود کی شہادت چاروں طرف سے آتی ہو آسمان ! اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی تبدیلی میں اور ان جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کے نفع کو چلتے ہیں اور اللہ کے آسمان سے اتارے ہوئے پانی میں جس سے زمین کو بعد خشکی کے تازہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلاتا ہے اور ہوا کے ادھر ادھر پھیرنے میں اور ان بادلوں میں جو زمین اور آسمان کے درمیان گھرے ہوئے ہیں بے شک عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو ان اشیا کے ہیر پھیر سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعی ان کا بنانے والا واحد لا شریک ہے اور وہی لائق عبادت ہے مگر باوجود ایسے نشانوں کے بھی بعض لوگ ایسے احمق ہیں کہ اللہ کے سوا اور معبود بناتے ہیں یہ نہیں کہ ان کو اپنا خالق جانتے ہوں یا رزاق سمجھتے ہوں نہیں طرفہ تو یہی ہے کہ رزق کا مالک ایک ہی اللہ کو جانتے ہیں باوجود اس کے ان بناوٹی معبودوں سے ایسی محبت اور دلی لگائو کرتے ہیں کہ جیسی اللہ سے چاہئے یہ بھی تو ایک قسم کا شرک ہے کہ اللہ کی سی محبت اوروں سے کی جائے یہی وجہ ہے کہ جو مومن ہیں وہ دلی لگائو اور قلبی خلوص سب سے زائد اللہ کے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی کمال دور اندیشی سے جانتے ہیں کہ ہمارا جس قدر تعلق اللہ کے ساتھ ہے اس طرح کسی اور کے ساتھ نہیں ہماری عزت، ذلت، غربت، امارت سب اسی کے قبضہ میں ہے بخلاف پہلے لوگوں کے جو اوروں میں بھی کچھ طاقت کارروائی کی سمجھتے ہیں اس بے وقوفی کا انجام آخرت میں تو دیکھ ہی لیں گے اگر ابھی سے یہ ظالم اپنے اس باطل عقیدے کی سزا اور عذاب کی گھڑی کو دیکھ لیں تو جان جائیں کہ بے شک ہم غلطی میں ہیں کہ اوروں میں بھی توا نائی سمجھتے ہیں اب معلوم ہوا کہ توانائی سب اللہ ہی کو ہے اور سوائے اس کے کسی کو نہیں اگر ہوتی تو ہمیں مصیبت سے ضرور ہی بچا لیتے ایسے ہی مشکل وقت میں قدر معلوم ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ واقعی اللہ کا عذاب سخت ہے ابھی تو یہ احمق اپنے شرک کی بلا میں پھنسے ہوئے کچھ نہیں سمجھتے لطف تو جب ہوگا کہ جس وقت ان کے جھوٹے پیشوا اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوجاویں گے اور سامنے سے عذاب دیکھیں گے اور ان کے سب علاقے ٹوٹ جاویں گے اور پیرو کار مرید تنگ آکر بول اٹھیں گے کہ اگر ہم دنیا میں ایک مرتبہ پھر جاویں تو ضرور ہی ہم بھی ایسے دغا بازوں سے ایسے ہی بیزارہوں جیسے کہ یہ ہم سے ہوئے اور کبھی بھی تو ان کی نہ سنیں گے چاہے جتنا بھی زور لگائیں مگر اس وقت کا افسوس کیا مفید نہ ہوگا ایسا ہی کئی دفعہ اللہ انکے اعمال قبیحہ ان کو دکھائے گا کہ اپنی بد کرداری پر افسوس کریں اور ہمیشہ ہی ان کو جہنم میں رکھے گا جس کی آگ سے کبھی بھی نکل نہ سکیں گے بعض لوگ اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے محبت جبھی ہوتی ہے کہ تمام کاروبار دنیاوی اور لذیذاشیا کو ترک کردیں ورنہ نہیں۔ سو ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کو ہم عام طور پر اعلان دیتے ہیں کہ اے لوگو کھائو اور پیئو دنیا کی حلال اور پاک چیزیں ایسی جائز لذت اٹھانے میں کوئی حرج اور ممانعت نہیں حرج تو اس میں ہے کہ اس کھا نے میں غرور ہو سو تم ایسا مت کرو اور شیطان کے پیچھے مت جائو وہ ضرور تمہارا صریح دشمن ہے کبھی تم سے بہتری سے پیش نہ آئے گا بلکہ ہمیشہ تمہاری برائی ہی کی تدبیریں سوچے گا اور سوچتا ہے کیونکہ وہ بجز بد اخلاقی اور بے حیائی کے کوئی بھی تم کو راہ نہیں بتلاتا اور ہمیشہ بری بری باتیں سکھلاتا ہے سب سے بری یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ بات کہو جسے تم خود بھی یقیناً نہیں جانتے چنانچہ تم سے اللہ کا شریک اور ساجھی کہلواتا ہے اور اس کی اولاد کی تلقین کرتا ہے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ تم بھی یقینی طور پر نہیں کہ سکتے ہو کہ اللہ کا کوئی ساجھی یا اولاد ہے اس کی بڑی بھاری چال بازی یہ ہے جس کسی کو بہکاتا ہے یہی کہہ کر بہکاتا ہے کہ تمہارے باپ دادا ایسا ہی کرتے آئے ہیں پس تمہیں بھی اسی راہ چلنا چاہئے کیا تم ان سے زیادہ دانا ہو کیا وہ بے وقوف ہی تھے ؟ پس لوگ اسی پر جم جاتے ہیں اور جب ان سے کوئی شخص بطور نصیحت کہنے لگے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کرو تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا تھے کیسی نادانی کا جواب ہے کہ کیا ان باپ دادوں ہی کے پیچھے چلیں گے گو باپ دادا ان کے ایسے احمق ہوں کہ کسی کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں اور نہ خودہی راہ پر ہوں سچ تو یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں باپ دادا کے اتباع کا خاقل بیٹھ جائے تو پھر کوئی ہدائت اثر نہیں کرتی بلکہ ایسے کافروں کو ہدایت اور راہ راست کی طرف بلانے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی ایسے جانور کو بلاتا ہے کہ جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا یہی حال ان احمقوں کا ہے جو کوئی ان کو ہدایت کی طرف بلائے اس کی آواز تو صرف سنتے ہیں مگر مطلب کی طرف جی نہیں لگاتے کہ کیا کہہ رہا ہے حق ہے یا باطل کیونکہ یہ لوگ اپنے خیالی پلائو میں حق سننے سے گویا بہرے ہیں سچ بولنے سے گونگے اور اپنی کج روی دیکھنے میں اندھے ہیں پس یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حق نہیں سمجھتے ہاں یہ خیال مت کرنا کہ اللہ کی محبت عمدہ اور لذت دار چیزوں سے روکتی ہی نہیں سنو ! ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی حلال چیزوں میں سے خوب کھائو اور جی میں یہ سمجھ کر کہ اللہ ہی نے دی ہیں اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو یہی مناسب ہے کیا تم نے شیخ سعدی کا قول نہیں سنا ــ” درویش صفت باش کلاہ تتری دار“ ہاں میتہ یعنی خود مردہ چیز اور ذبح کے وقت کا خون اور گوشت خنزیر اور جو اللہ کے سوا غیر کے نام سے پکاری ہو کہ فلاں ١ ؎ پیر کی نیازیا فلاں دیوی کا بکرا بے شک تم پر حرام ہے پھر بھی جو کوئی مجبور ہو نہ حرام خوری کی چاٹ میں حرام خوری کی تلاش کرنے والا ہو کر بلکہ پابند شریعت اور تابعدار من پسند ہو اور نہ کھانے میں حد سے بڑھنے والا ہو تو اس شخص پر کوئی اس گناہ کا مواخذہ نہیں بقدر حاجت کھا لے گو یہ اشیا اصل میں حرام ہیں لیکن بوجہ تنگی اس کی کے معافی دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا مہربان ہے } فلاں پیر کی نیاز) زمانہ حال میں یہ اختلاف ہے کہ غیر اللہ کے نام کی اشیاء جو بغرض تقرب مقرر کی جاتی ہیں جب ان کو بسم اللہ سے ذبح کیا جاوے تو حلال ہیں یا حرام؟ بعض لوگ اس کو حلال مانتے ہیں مگر محققین کے نزدیک حرام ہیں۔ حضرت حجۃ الہند شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی قدس سرہ العزیز نے اسی کو پسند کیا ہے اور مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ ایسی اشیاء کی حرمت کچھ ایسی عارضی نہیں ہوتی جیسے بغیر اجازت چیز میں ہوتی ہے جو بعد اجازت حلال ہوجاتی ہے بلکہ ان کی حرمت کا سبب شرک ہے جو ابتداء ہی سے اس میں اثر کر گیا ہے۔ سرسید سے اس مسئلہ میں مشرکوں کی تائید ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔ ” حرام نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوائے اللہ کے کسی کے نام کی کوئی چیز مقرر کر دیناشرک نہیں بلکہ اقدام علی الشرک ہے شرک جب ہوگا کہ اسی کے نام پر ذبح کی جائے اور جب ذبح اللہ کے نام پر ہے تو پھر اقدام علی الشرک سبب حرمت نہیں “ میں کہتا ہوں سید صاحب کا یہ فرمانا کہ تسمیہ غیر اللہ کے نام کا شرک نہیں صحیح نہیں بلکہ یہ بھی شرک ہے اس لئے کہ شرک تو نیت کے متعلق ہے نہ کہ خاص فعل سے لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُرْمُھَآ وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ اس کا مؤید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ نے غیر اللہ کی نسبت غلامی کو بھی شرک قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں :۔ ” از ینجا دانستہ شد کہ شرک در تسمیہ نوعیست از شرک چنانکہ اہل زمان ما غلام فلاں وعبد فلاں نام مے نہند“ (حاشیہ ترجمہ قرآن پارہ ٩ ربع ثالث) پسؔ آپ کا یہ فرمانا کہ یہ نیت اقدام علی الشرک ہے شرک نہیں۔ قابل نظر ہے۔ رہا ان لوگوں کا جھگڑا جو ایسی چیزوں کو اس تاویل سے کہ ہمیں ثواب رسانی مقصود ہوتی ہے۔ نہ کہ ان بزرگوں سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو یہ تنازع لفظی ہے اس لئے کہ ان کی تقریر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقرب غیر اللہ (تقرب غیر اللہ اس کو کہتے ہیں کہ سوا اللہ کے کسی کے نام کا بکرا یا کوئی اور چیز اس نیت سے دی جائے کہ یہ صاحب میری اس نیاز کو قبول کریں۔) اگر ہو تو بے شک حرام ہے مگر صورت مروجہ میں نہیں پایا جاتا۔ پس اب ہماری تلاش یہ ہوگی کہ ایسے موقعہ پر ہم بقرائن دریافت کریں کہ ان لوگوں کی غرض کیا ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی ایک قرینہ بتلایا ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے کہا جائے کہ تم اس بکرے جتنا گوشت بازار سے لے کر مساکین کو کھلا دو اور پیر صاحب کو ثواب پہنچا دو۔ تو ہرگز نہیں مانیں گے۔ معلوم ہوا کہ غرض ان کی صرف غیر اللہ کے نام پر جان دینے کی ہے نہ کچھ اور سو یہی شرک ہے۔ پس اس موقعہ پر بسم اللہ سے ذبح کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے؟ راقم کہتا ہے۔ تمام لوگوں کا پیر صاحب کے نام سے ذبح کرنا اور اس سے ایصال ثواب مقصود رکھنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت آدم کے نام کی کوئی نیاز نہیں کرتا۔ کسی نے آج تک حضرت موسیٰ کے نام کی چاء نہیں پکائی۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے بکرے کا ثواب حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کو پہنچایا ہو۔ حالانکہ اگر باعتبار بزرگی کے دیکھا جائے۔ تو اس تعظیم میں وہی لوگ زیادہ حق رکھتے ہیں جن کی بزرگی دلیل قطعی سے ثابت ہو۔ پس یہ بھی ایک قرینہ اس امر کا ہے کو ثواب رسانی مقصود نہیں۔ علاوہ اس کے ہم نے بذات خود ایسے لوگوں کا حال دیکھا ہے جن کو پیروں کے نام پر نیازیں دینے کی عادت ہے بالکل یہی جانتے ہیں اس نیاز کی قبولیت پیر صاحب کی طرف سے ہے اور اس قبولیت کے عوض میں وہ ہماری بلا ضرور ہی دفع کردیں گے۔ یا حصول مطلب کرا دیں گے۔ ہاں بعض لوگوں کا اعتراض بھی قابل ذکر ہے کہ پاک کتاب کی تفسیر ایسے سوالوں کے ذکر کے مناسب نہیں مگر اس لئے کہ ایسے لوگوں کا شبہ بھی حل ہوجائے کچھ لکھا جاتا ہے ایسے لوگ کہتے ہیں کہ اگر پیر صاحب کا بکرا کہنے سے وہ بکرا حرام ہوجاتا ہے تو پھر کوئی چیز بھی حلال نہ ہوگی اس لئے کہ ہر ایک چیز کو ہم کہا کرتے ہیں کہ یہ روٹی زید کی ہے اور وہ بیوی عمرو کی پس یہ بھی حرام ہوئیں سبحان اللّٰہ ما اَصْدَقَ رسول اللّٰہِ فداہُ ابِیْ و اُمِّی یٰرْفَعُ الْعِلْمُ وَیَفْشُوا لْجَھْلُ قَبْلَ الْقِیَامَۃِ۔ افسوس ان حضرات نے یہ نہیں سمجھا کہ ان صورتوں میں تو اضافت تملک ذات یا منافع کی ہے۔ پیر صاحب کی نسبت میں کون سی اضافت ہے۔ اگر یہی ہے تو مردہ کی ملک کیونکر ہوئی اور اگر ہوئی تو بلا اجازت ان کے اس چیز کو کیوں کھاتے ہو؟ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں بنی اسرائیل کی طرح بچھڑے کی محبت گھر کرگئی ہوئی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں ان سے کچھ بعید نہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ { ایسے صاف اور صریح احکام سن کر ان کتاب والوں کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی۔ تو ایک نئی بات نکالتے ہیں کہ اس نبی کے حق میں پہلی کتابوں میں کوئی پیش گوئی نہیں اور اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اس کے لیے کتب سابقہ میں ضرور کوئی خبر ہوتی حالانکہ جانتے ہیں کہ اکثر انبیاء نے یہ خبر دی ہوئی ہے مگر ان کے ظاہر ہونے سے ان کو نقصان پہنچتا ہے اس لیے ان کو چھپاتے ہیں سو یاد رکھیں کہ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تاری اور بتلائی ہوئی خبریں کتاب سماوی سے مخفی کرتے ہیں اور عوام لوگوں کو جو یہ بات ان سے پوچھتے ہیں تو اور ہی معنی بتلاتے ہیں اور اس کے عوض میں دنیائے دوں کا کسی قدر مال لیتے ہیں تاکہ مزے سے چند روزہ زندگانی بسر کریں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم پلاؤ گوشت کھا رہے ہیں بلکہ سراسر آگ ہی اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہیں جس کا بدلہ ان کو آگ ہی ملے گا اور نہ قیامت کے دن اللہ ان سے مہربانی سے کلام کرے گا اور گناہوں سے ان کو معافی دے گا بلکہ بجائے معافی کے مواخذہ ہوگا اور اس مواخذہ میں ان کو سخت عذاب پہنچے گا اس لیے کہ یہی تو ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلہ میں قرآن جیسی پاک کتاب چھوڑ کر اپنے اپنے خاچلات واہیہ میں پھنسے اور عذاب الٰہی کو بخشش کے عوض میں لے چکے ہیں۔ پس دیکھیے کیسے صابر ہیں آگ کے عذاب پر اس قدر ان پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے تو سچی کتاب قرآن کریم اتاری ہے اور جو لوگ اس میں کج روی سے مخالف ہیں ان کا حال ہم پہلے ہی بتلا چکے ہیں کہ وہ بڑی بھاری بدبختی میں ہیں البقرة
149 البقرة
150 البقرة
151 البقرة
152 البقرة
153 البقرة
154 البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 البقرة
158 البقرة
159 البقرة
160 البقرة
161 البقرة
162 البقرة
163 البقرة
164 البقرة
165 البقرة
166 البقرة
167 البقرة
168 البقرة
169 البقرة
170 البقرة
171 البقرة
172 البقرة
173 البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 (177۔188)۔ باوجود اس بد دیانتی کے جس کا ذکر تم سن چکے ہو اہل کتاب اس امر پر نازاں ہیں کہ ہم ہی انبیا کے کعبہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہیں اس لئے وہ سن رکھیں کہ بغیر اقرار رسالت یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق مغرب کی طرف پھیرتے جائو ہاں نیکی والے حقیقتاً وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اللہ کو اپنا خالق مالک رازق مطلق مانیں اور قیامت کے دن کو یقینی جانیں اور اللہ کے فرشتوں کو اور سب کتابوں اور نبیوں کو سچے مانیں جن میں سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص کر واجب الاتباع جانیں۔ اور عملی پہلو ان کا یہ ہو کہ اپنا مال عزیز باوجود اس کی خواہش اور ضرورت کے محتاج قریبیوں اور یتیموں اور مسکینوں اور بے سامان مسافروں اور ہر قسم کے مانگنے والوں کو دیویں اور غلاموں کی رہائی میں خرچ کریں نہ کہ تمہاری طرح کہ سب جہان کو کھا جا ئو اور ہنوز روزہ دار ہی کہلائو اور نیکی والوں کی تعریف میں یہ بھی ہے کہ وہ نماز کی پابندی رکھتے ہوں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہوں اور معاملہ کے ایسے صاف ہوں کہ جب کبھی کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں اور سختیوں اور بیماریوں میں اور جہاد کے وقت صابررہتے ہیں یہی لوگ اپنے دعوٰے میں سچے راست باز ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں باقی سب خلط ” شان نزول : (لَیْسَ الْبِرَّ) تحویل قبلہ پر یہودیوں نے اعتراض کئے اور اپنی شیخی بگھاری تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ ہاں یہ نہیں کہ اگر ان لوگوں پر کوئی نااہل زیادتی کرے یہاں تک کہ ان کو یا ان کے بھائی بندوں کو جان سے مار دے تو وہ اپنے صبر ہی میں خاموش رہیں ایسا صبر تو ان کی جان پر وبال ہوجائے گا صبر یہ نہیں کہ ظالموں کو دلیر کیا جائے بلکہ ایسے نالائقوں سے بدلہ لینا بھی ضروری ہے اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! مقتولوں کا بد لہ لینا تمہیں جائز ہے اس میں کسی خاص شخص یا قوم کی فضیلت بھی نہیں کہ ان میں کا قاتل چھوڑا جائے یا ان کے آزاد کے عوض غلام کو لیا جائے یا ان کی عورت دوسروں کی عورتوں کے ہم پلہ نہ ہوسکے بلکہ آزاد قاتل بدلے آزاد مقتول کے خواہ کوئی ہو مارا جائے گا اور غلام بدلہ غلام کے چاہے کوئی ہو مارا جائے گا اور عورت قاتلہ عوض عورت مقتولہ کے خواہ کسی قوم کی ہو ماری جاوے ہاں اگر باہمی صلح کی ٹھہرے تو پس جس قاتل کو اس کے بھائی مقتول کے وارثوں کی طرف سے کچھ معافی ملے کہ وہ اس کا مارنا چھوڑ کر کسی قدر نقدی پر فیصلہ کریں تو دستور کے موافق اس وارث کا یہ احسان شکریہ سے لینا واجب ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی ہی اکڑخانی میں رہو کہ ہم جان تو دے دیں گے پر احسان نہ مانیں ایسا مت کرو اور بخوشی اس وارث کا حق اس کو پہنچاؤ۔ کیا یہ نہیں سمجھتے ہو کہ تمہارا کتنا بڑا جرم تھا جو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اور ہم نے بھی اسے جائز رکھا۔ سچ پوچھو تو یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی ہے اور مہربانی ورنہ حق یہی تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے وہ ضرور ماراجائے پس بعدا اس فیصلہ کے جو کوئی ان میں سے کسی دوسرے پر زیادتی کرے گا یعنی معاف کرکے بدلہ لینے کی ٹھیرائے۔ یا وعدہ ادا کرنے رقم کا کرے اور ادانہ کرے تو اس کو سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔ ” شان نزول : (اَلْحُرُّ بالْحُرِّ) عرب کے بعض قبیلے ایک دوسرے پر فضیلت جانتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر شریف قبیلے کا ایک آدمی مارا جاتا تو دوسرے کے دو مار کر برابر سمجھتے۔ اگر شریف قبیلے کی عورت کو کوئی رذیل قبیلے کی عورت مارتی تو اس عورت کے بدلہ میں اس قبیلے کے مرد کو مارتے۔ یہاں تک ایک دوسرے پر فخر اور علو ہوتا تھا کہ شریف قبیلے رذیلوں کی لڑکیاں بلا مہر لے لیتے جب مشرف باسلام ہوئے اور ہنوز ان کے بعض معاملات خون کے تصفیہ طلب تھے شریف قبیلے نے حسب دستور قدیم خواہش کی اور اللہ کو یہ خواہش ان کی ناپسند تھی تو ان کے تصفیہ کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل “ ہاں اس میں شک نہیں کہ خونی کے قتل کرنے میں تمہاری گویا زندگی ہے اے عقل والو ! حتی الامکان یہی کیا کرو۔ تاکہ تم اس خوف سے کہ اگر قتل کردیں گے تو اس کے بدلہ میں مارے جائیں گے اس فعل شنیع سے بچتے رہو۔ چونکہ تنگدستی بھی ایک قسم کی گویا موت ہے خاص کر ایسے شخص کے حق میں جس کے ماں باپ یا اولاد کا ترکہ دوسرے لوگ لے جائیں اور وہ محروم ہی رہیں اس لئے جیسا کہ تم کو قتل قتال سے روکا اسی طرح تم پر فرض ١ کیا گیا ! ہے کہ اگر کوئی تم میں سے مال اسباب پیچھے چھوڑتا ہو تو مرتے وقت اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور شرع کے موافق وصیت کر جائے کہ میرے بعد میرے ماں باپ اور میری لڑکیوں اور بہنوں کو اتنا دینا اور فلانے کو اتنا فلانے کو اتنا کسی پر طرح کا ظلم زیادتی نہ کرنا بلکہ موافق شریعت کے تقسیم کرنا گویا یہ وصیت ہر ایک کے حق میں مفید اور مناسب ہے مگر خاص کر پر ہیز گاروں پر تو ضروری ہے ” شان نزول : (کَتِبَ عَلَیْکُمْ) عرب میں دستور تھا کہ سوائے لڑکے کے کوئی وارث نہ ہوتا تھا ان کی یہ عادت قبیحہ مٹانے کو یہ آیت نازل ہوئی (تم پر فرض کیا گیا ہے) اس آیت کی تفسیر میں بھی مفسروں کا کسی قدر اختلاف ہوا ہے۔ کوئی کہتا ہے اس آیت کا حکم پہلے تھا کہ ہر ایک شخص پر مرتے ہوئے اپنے مال کے متعلق وصیت کرنا فرض تھا کہ میری جائداد کو اس طرح تقسیم کرنا اتنا فلاں کو اور اتنا فلاں کو۔ لیکن جب آیت میراث نازل ہوئی تو اس میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی حصے فرما دئے کہ بیٹے کا بیٹی سے دوگنا ہووے۔ بیوی کا اتنا۔ خاوند کا اتنا۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہوگئی بعض علماء کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں بلکہ یہ حکم استحبابی ہے اور ان لوگوں کے حق میں ہے جن کا آیت میراث میں حصہ مذکور نہیں۔ جیسے باپ بیٹے کے ہوتے ہوئے چچا یا اس کی اولاد۔ پس اگر ایسے لوگوں کے حق میں کچھ وصیت کرے تو جائز ہے اور وصیت کی حد حدیث صحیح میں ثلث مال تک آئی ہے۔ خاکسار راقم کے نزدیک بھی قرآن کی دونوں آیتوں سے کوئی آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس آیت کی شرح ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کرنے کا حکم فرمایا تھا مگر چونکہ اس وصیت میں کمی زیادتی کرنا انسان طبائع سے کچھ بعید نہ تھا اس لئے خدائے عالم الغیب نے اس وصیت کی آپ ہی شرح کردی بلکہ اس فعل کو جو اس کی شرح میں مستعمل تھا خاص اپنی طرف نسبت کیا اور فرمایا یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ للذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ” یوصی“ کے لفظ کو اس جگہ لانا اور یحکم جو عموماً ایسے مواقع پر بولا جایا کرتا ہے نہ فرمانا اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ افعال (ایصائ) اس فعل (وصیت مکتوبہ) کی شرح ہے جو پہلے مجمل تھی پس اب آیت موصوفہ کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے ان وارثوں کے حق میں جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دئیے ہیں یہ وصیت کرنا تم پر فرض ہے کہ اپنے اپنے حصے موافق شریعت کے لیں۔ کوئی کسی پر ظلم زیادتی نہ کرے مگر ان ورثاء کے علاوہ اور لوگ بھی میت سے دور نزدیک کا تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ان کی نسبت وصیت کی کوئی شرح نہیں بلکہ وہ میت کے اختیار میں رکھا اور مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ میں اسی اختیار کی طرف اشارہ ہے ہاں اس کو بھی ایسا کھلا نہیں چھوڑا کہ سارے مال کی وصیت کسی کے حق میں کر جائے بلکہ اس کو بھی غَیْرَ مُضَآرٍّ سے مقید فرمایا ہے جس کی شرح حدیث میں ثلث تک آئی ہے۔ کہ تہائی مال کی وصیت کو آنحضرت (ﷺ) نے جائز رکھا اور غَیْرَ مُضَآرٍّ کی شرح فرما دی اور وارث کے حق میں لاوَصِیَّتَ لِوَارِثٍ کہہ کر یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ کو کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْوَصِیَّۃُ کی شرح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ دونوں آیتوں کا یہ ہوا کہ جن کے حق میں اللہ عالم الغیب نے حصے مقرر کردیئے ہیں ان کی نسبت تو مقرر حصص کے لیے وصیت کرنے کی حاجت نہیں بلکہ ان کی وہی وصیت ہے جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور جن لوگوں کے حصص مقرر نہیں کئے ان کے حق میں میت کو ثلث مال تک وصیت کرنے کی اجازت حاصل ہے پس سرسید احمد خاں کا فرماناکہ :۔ سر سید کی دسویں غلطی : ” قرآن مجید کی دونو آیتوں کے ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ مرنے والے نے اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کا مال اس کی وصیت کے مطابق تقسیم کیا جائے اور اگر اس نے کچھ وصیت نہیں کی یا جس قدر کہ وصیت کی ہے اس سے زیادہ مال چھوڑا ہے تو اس کے مالکی یا اس قدر کی جو وصیت سے زیادہ ہے آیت توریث کے مطابق تقسیم ہوجائے گی پس دونوں آیتوں کا حکم بحال اور قائم ہے“ (صفحہ ٢١٥) صحیح نہیں۔ کیونکہ بحکم القراٰن یفسر بعضہ بعضا۔ قرآن جو اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ وہ ہر طرح مقدم ہے۔ سرسید کی تفسیر اس اصول کے خلاف ہے امید ہے کہ سید صاحب ہمارے معروضہ بالا بیان پر غور فرمائیں گے تو اپنی اس رائے کو واپس لیں گے (تفسیر ثنائی کا بہت سا حصہ سرسید مرحوم کی زندگی میں چھپ گیا تھا اور ان کو پہنچ بھی گیا تھا۔) اس لیے کہ سید صاحب کو اس کہنے کی وجہ یہی پیش آئی ہے کہ کوئی آیت کسی آیت یا حدیث سے منسوخ نہ ہو سو ہم نے نہ کسی آیت کو آیت سے منسوخ ٹھیرایا ہے نہ حدیث سے بلکہ ایک آیت اور حدیث کو دوسری آیت کی تفسیر اور شرح بنایا ہے جو بالکل القراٰن یفسّر بعضہ بعضا کے مطابق ہے۔ فافھم “ ہاں جو لوگ اس وصیت کو بعد سننے کے بھی بدلیں گے تو اس ظلم کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہوگا۔ نہ کہ اس میت پر بے شک اللہ اس میت کی باتیں سنتا ہے اور ان بدلنے والوں کی حرکات ناشائستہ کو جانتا ہے پھر کیسا ہوسکتا ہے کہ اس میت کو باوجود وصیت کے کرجانے کے بھی موخذہ ہو۔ ہاں جو کوئی اس میت وصیت کنندہ سے کسی وارث کی حق تلفی کے سبب سے کجروی معلوم کرے یا کسی کو اس کے حق سے زائد دلانے یا کسی ناجائز جگہ صرف کرنے کی وجہ سے گناہ معلوم کرکے اس میں اصلاح مناسب کردے اگرچہ موصی کی وصیت میں تغیر ہی آوے۔ تو بھی اس پر گناہ نہیں بلکہ اس کی کوشش کا اس کو عوض ملے گا بے شک اللہ بڑی بخشش والا نہایت مہربان ہے مخلصوں کی تھوڑی سے محنت بھی ضائع نہیں کرتا یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ محض اپنے فضل سے تمہیں ایسے کام بتلاتا ہے جو تمہیں ہر طرح سے مفید ہوں یہی وجہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم پر روزہ فرض ہوا ہے جو تمہارے حق میں سراسر مفید ہے اس میں تمہاری خصوصیت نہیں بلکہ تم پر جو ہوا تو ویسا ہی ہوا جیساتم سے پہلے لوگوں پر ہوا تھا اس میں ہماری کوئی ذاتی غرض نہیں بلکہ یہی ہے تاکہ تم شہوات نفسانہل اور عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گھبراؤ نہیں چند ہی ایام ہیں پھر ان میں بھی ہر طرح سے آسانی کی گئی ہے کہ جو کوئی تم میں سے رمضان کے دنوں میں بیمار ہو جس سے وہ روزہ نہ رکھ سکے یا مسافر تو وہ بجائے ان دنوں کے اور دنوں سے شمار پورا کرے۔ ”(فرض ہوا ہے) اس آیت کے متعلق بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے بعض مفسر کہتے ہیں کہ یہ روزے اور ہیں اور رمضان کے روزے اور لیکن جب رمضان فرض ہوا تو یہ منسوخ ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے وہی ہیں جن کی تفسیر خود کلام اللہ نے کردی ہے کہ وہ رمضان ہے خاکسار کے نزدیک بھی یہ رائے ارحج ہے اس لئے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیات قرآنی کو خواہ مخواہ توجیہ ہوتے ہوئے بی منسوخ قرار دیں۔ خیر یہ اختلاف تو تھا ہی اس سے آگے کی آیت یُطِیْقُوْنَہٗ میں اس سے بھی کسی قدر زیادہ بحث ہوئی ہے بعض مفسرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر نہ رکھیں تو اس کے عوض میں ایک مسکین کو کھاناکھلا دیں ساتھ ہی اس کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم دوسری آیت فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھَرَ فَلْیَصُمْہُ سے منسوخ ہے اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم قطعی طور پر دے کر وہ (بیمار اور مسافر) ہی کو مستثنیٰ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ باقی لوگ روزہ ضرور رکھیں بعض صاحب نسخ سے بچنے کو اس کے معنے میں لا کو مقدر سمجھتے ہیں یعنی جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے اور بعض کی رائے ہے کہ باب افعال کا ہمزہ سلب کے لئے بھی آتا ہے یعنی حذف لا کی حاجت نہیں بلکہ یطیقونہ ہی کے معنے عدم طاقت کے ہیں غرض ان کی رائے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بعض کہیں یطیقون کے معنے دشواری سے روزہ رکھنے کے ہیں۔ پس یہ آیت منسوخ نہ ہوئی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر کے ماتحت سلمہ سے روایت ہے کہ شروع اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا تھا جو چاہتا افطار کر کے فدیہ طعام دیتا تھا یہاں تک کہ اس سے بعد کی آیت نازل ہوئی۔ سلمہ (رض) کا مطلب یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَ کے معنے طاقت رکھنے کے ہیں مگر دوسری آیت مَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ نے اس اختیار کو منسوخ کردیا۔ اسی صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ یطیقون کے معنی ہیں یطوقون یعنی بدقت و دشواری روزہ رکھنیوالے مراد ہیں جیسے بہت بوڑھے لوگ اس قول کے مطابق آیت منسوخ نہیں بلکہ کمزور بوڑھوں کے حق میں بحال ہے۔ میں نے جو ترجمہ کیا ہے۔ وہ ابن عباس کی روایت کی بنا پر کیا ہے لیکن سلمہ بن اکوع نے جو طاقت رکھنے والے بتائے ہیں ان معیک کی تردید کی میں کوئی دلیل نہیں پاتا۔ نیز اس تفسیر سے آیت موصوفہ کو منسوخ کہنے پر بھی کوئی قطعی دلیل از قرآن و حدیث میں مجھے نہیں ملی۔ رہی یہ بحث کہ یہ کون لوگ ہیں جن کو دقت اور دشواری ہوتی ہے۔ بہت سے مزدور تمام روز گرمی میں کام کرتے ہوئے بھی روزہ رکھتے ہیں اور بہت سے بابو لوگوں کو سرد مکانوں میں بیٹھے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے سواس کی تعیین یوں ہے کہ جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے ہم عمر دوسرے لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں تو وہ معذور نہ سمجھے جائیں گے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کی عمر ہی ایسے مرتبہ کو پہنچ چیی ہو جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ آئندہ کو انہیں طاقتور ہونے کی امید ہے جیسے شیخ فانی تو ایسے لوگ بیشک معذور ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ سر سید نے اس موقع پر ناتوانوں کی تفصیل نہیں کی بلکہ مطلقاً اختیار دیا ہے کہ :۔ ” جن لوگوں کو روزہ رکھنے میں زیادہ سختی اور تکلیف ہوتی ہے اور مشکل روزہ رکھ سکتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزوں کے بدلہ میں فدیہ دیں مگر ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر ہے“ (ج ١‘ ص ٢٢٩) (اس مضمون کی ایک حدیث بھی آئی ہے کہ بڈھی ارزل العمر کی روزہ کے بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلانا جائز ہے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی اگر روزہ رکھنے سے اس کے حمل کو یا بچہ کو کچھ نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی بیمار کی طرح معذور ہے۔ بعد فراغت رکھ سکتی ہے۔) اسؔ لئے گذارش ہے کہ یا تو تفصیل کیجئے اور اگر تفصیل منظور نظر نہیں بلکہ ہر ایک تکلیف اور سخی اٹھانے والے کو خواہ اس کی ناطاقتی صنفی ہو یا شخصی اجازت ہے تو فرما دیں مَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ والی آیت کا جو باستثناء دو قسم (مریض اور مسافر) مطلقاً فائدہ وجوب کا دیتی ہے۔ کیا جواب؟ رہی یہ بحث کہ سارے مہینے کے روزے قرآن سے ثابت ہیں یا نہیں۔ اس لئے کہ فَلْیَصُمْہُ کی ضمیر منصوب مفعول فیہ کے لئے استیعاب ضروری نہیں بلکہ کسی قدر اشتعال کافی ہے جیسا کہ دخلت الدار اور دخلت المسجد شبہ مولوی حشمت علی اہل قرآن کی مفید ایجاد ہے سواس کا جواب یہ ہے کہ ضمیر منصوب اس کی جگہ مفعول فیہ نہیں بلکہ مفعول بہ ہے تلویح میں لکھا ہے جو شخص کہے علی ان اصوم فی الشھر اسے تو مہینہ میں کم ازکم ایک روزہ واجب ہے اور جو شخص ان صوم الشھر کہے اسے سارا مہینہ رکھنے پڑتے ہیں اس لئے کہ الشھر مفعول فیہ مشابہ مفعول بہ کے ہوگیا۔ یہ محاورہ کسی قدر ہمارے ہاں بھی ملتا ہے اگر کوئی کہے کہ میں نے اس ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ چند ایام نہ تمام ہفتہ۔ اور اگر کہے کہ میں نے یہ ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے سارے ہفتہ کے دن ہوتے ہیں پس اسی طرح فلیصم فیہ اور فلیصمہ میں فرق ہے۔ فتدبر ١٢ منہ (فرضیت کے بارے میں) اس آیت کی تفسیر میں بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے اکثر صاحب اس کے ترجمہ میں حذف مضاف نہیں مانتے بلکہ صاف ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں رمضان میں لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر سارا قرآن آگیا تھا پھر حسب موقع ایک ایک سورت نازل ہوتی رہی بعض صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ :۔ (القول الثانی) فی تفسیر قولہ انزل فیہ القراٰن قال سفیان انزل فیہ القراٰن معناہ انزل فی فضلہ القراٰن وھٰذا اختیار الحسین ابن الفضل قال و مثلہ ان یقال انزل فی الصّدیق کذا اٰیۃ یریدون فی فضلہ قال ابن الانباری انزل فے ایجاب صومہ علے الخلق کما یقال انزل فی الزکوٰۃ کذا و کذا یرید فی ایجابھا و انزل فے الخمر کذا یرید فے حرمتھا۔ رمضان کی فضیلت میں قرآن نازل ہوا بعض کہیں رمضان کی فرضیت میں قرآن نازل ہوا جیسا کہ کہا کرتے ہیں کہ زکوٰۃ میں قرآن کی فلاں آیت اتری اور شراب میں فلاں آیت نازل ہوئی جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت میں اور شراب کی حرمت میں نازل ہوئی۔ میرےؔ نزدیک بھی یہی معنے ارحج ہیں چنانچہ میں نے انہیں کو اختیار کیا ہے اس لئے کہ اس سے آگے کی آیت میں ارشاد ہے فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الَّشْھَر فَلْیَصُمْہُ جس سے متبادر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم پہلے بیان پر تفریع مذکور ہے چنانچہ لفظ ف جس کے معنے پس کے ہیں یہی جتلا رہا ہے سو یہ تفریع جبھی صحیح اور درست ہوگی کہ اس سے پہلی آیت میں کچھ ایسا مذکور ہو جس کے ساتھ وجوب صیام تفریع پذیر ہوسکے وہ یہی ہے کہ انزل فی ایجاب صومہ یعنی اس کے روزوں کے فرض ہونے میں قرآن نازل ہوا ہے پس جو کوئی حاضر ہو وہ روزہ رکھے پہلے دونوں معنے کہ اس میں قرآن نازل ہوا یا اس کی فضیلت میں نازل ہوا۔ اس تقریر سے ایسے منطبق نہیں جیسے کہ یہ ہیں فافھم رہی سورۃ قدر کی آیت اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اس میں بھی اگر حذف مضاف مانا جائے جیسا کہ بعض نے مانا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ دونوں آیتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ اور انہیں تو جو وجہ میں نے بیان کی ہے وہاں چونکہ وہ نہیں اس لئے وہاں اس کے متبادر معنی بھی لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ فتفکر “ اور جو لوگ بوجہ غائیت ضعف جسمانی اور پیرا نہ سالی بد قّت ودشواری اس روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر روزہ نہ رکھیں تو ان پر ایک مسکین کا کھانا دینا واجب ہے پھر جو کوئی شوق سے نیکی زیادہ کرے کہ ایک کے بدلہ میں دو کو کھلاوے پس وہ دو کا کھلانا اس کے لئے بہتر ہے اور سب سے بہتر تو یہی ہے کہ روزہ ہی رکھو گو تکلیف شدید ہی ہو اس لئے کہ روزہ مثل ایک مسہل کے ہے جو سال بعد ہر ایک کو کرلینا چاہئے گو وہ کسی مرتبہ کاہو۔ اگر دینی رموز جانتے ہو تو ایسا ہی کرو۔ تم جانتے ہو کہ یہ ایام مذکورہ کیا ہیں اور کب ہیں سنو ! ماہ رمضان ہی وہ مہنہ ہے جس کے روزہ رکھنے کی فرضیت کے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے جو سب لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کی بین نشانیاں اور حق باطل کا فیصل ہے پس اب تو ضرور ہے کہ جو کوئی تم میں سے اس رمضان کے مہینے کو پائے وہ اس کے سارا مہینہ روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے جب وہ تندرست ہوجائے یا سفر سے واپس آجائے تو اسی قدر شمار پورا کردے اللہ تعالیٰ کو تمہاری تکلیف باجج منظور نہیں بلکہ اخلاص منظور ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے احکام میں تمہارے حق میں ہمیشہ آسانی چاہتا ہے اور کبھی تنگی نہیں چاہتا اور بیمار اور مسافر کو تمام مافات کا حکم بھی اسی لئے دیا تاکہ حتی المقدور تم اس مبارک مہینے کی گنتی پوری کرسکو اور بعد ختم ہونے رمضان کے بتلائے ہوئے طریق سے عید کے روز اللہ وحدہٗ لا شریک کی بڑائی اور تکبیریں بیان کرو تاکہ تم گناہوں کی معافی پر شکریہ کرو اس قسم کی مہربانی اور بخشش دیکھ کر جب میرے چاہنے والے بندے تجھ سے میرا حال دریافت کریں کہ اللہ ہم سے دورہے یا نزدیک؟ ہم کسی طرح سے اس کو مل سکتے ہیں یا نہیں؟ تو تو میری طرف سے ان کو کہہ دے کہ میں تم سے ہر حال میں قریب ہوں یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کی باتیں سنو تو دریافت کرسکو بلکہ ہوں تو جہاں ہوں البتہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ نہ کسی خاص حالت اور وقت میں بلکہ جب کبھی اور جس وقت مجھے پکاریں اور مجھ سے مانگے فوراً حسب الحکمت اس کو قبول کرتا ہوں پس تم کو اور کیا چاہئے اب اگر لوگ مجھ سے ملنا چاہیں اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے خواہشمند ہوں تو میری بات مانیں اور میری نسبت ایمان درست کریں اور دل میں مجھ ہی کو دینے والا جانیں تاکہ وہ اپنی مراد کی راہ پاویں یہ نہ سمجھو کہ میرے قریب ہونے سے تمہاری سب لذتین چھوٹ جائیں گی نہیں اسی طرح لذت حاصل کروگے جب ہی تو تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں بھی عورتوں سے جماع کرنا حلال کیا گیا کہ تم ان کے نہ ملنے سے تکلیف نہ اٹھاؤ اس لئے کہ وہ تمہارے لباس کی طرح ہیں اور تم ان کی پوشاک کی مانند ہو نہ وہ تم سے جدا ہوسکتی ہیں نہ تم ان سے علیحدہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے تم سے غلطیاں بھی ہوتی رہیں سو اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ تم اپنے نفسوں کی خیانت کرتے ہو کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع کرنے سے رکتے ہو جس سے تمہیں سخت تکلیف ہوتی ہے پس تم پر رحم کیا کہ تمہاری حاجت کے موافق تم کو اجازت دی اور پہلے قصور کو تم سے معاف کردیا پس اب سے رمضان کی راتوں کو ان عورتوں سے ملا کرو اور جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھی ہے اس کی طلب کرو۔ اور اسی نیت سے جماع کرو کہ اللہ تعالیٰ کوئی نیک اولاد عنایت کرے جو بعد مرنے کے نیک دعا سے یاد کرتا رہے ” شان نزول :۔ اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع نہ کرتے بعض لوگوں سے طبعی جوش اس کے برخلاف بھی ظاہر ہوا جس سے ان کو سخت رنج ہوا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ اور رمضان کی راتوں کو خوب جی بھر کرکھاتے پیتے رہو جب تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے علیحدہ ہو یعنی صبح صادق ہوجائے تو بس کرو ” شان نزول : اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ افطار کے وقت ہی جو چاہیے سو کھا لیتے پھر نہیں۔ چنانچہ ایک صحابی اپنے کھیت سے تھکا ماندہ ہو کر گھر میں آیا اور کھانا تیار نہ تھا اتنے میں تو سو گیا اور بوجہ سونے کے کھانا کھانے سے محروم رہا۔ اور دوسرے روز بھی اسے روزہ رکھنا پڑا جس سے اس کو بہت بڑی تکلیف ہوئی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ پھر شام تک کھانے پینے۔ جماع۔ غیبت۔ شکائیت۔ جھوٹ۔ وغیرہ سے بندر رہ کر روزہ پورہ کرو اور جب تم مسجدوں اخیردھاکہ رمضان میں مثلاً اعتکاف کرتے ہو تو دن رات میں کسی وقت بھی عورتوں سے مت چھوؤ یہ چند احکام مذکورہ گویا حدود خدا وندی ہیں پس خبردارہو ان سے گذرنا تو درکنار ان کے نزدیک بھی نا جائیو اسی طرح اللہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان پر تعمیل کرکے جہنم سے بچ جائیں پس تم ان احکام پر کار بندر ہو اور معاملہ مابین مخلوق بھی درست رکھو کہ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریق اور فریب سے مت کھانا اور اس مال کو جھوٹی نابشوں کے ذریعہ سے حکام تک نہ پہنچاناکہ ناحق جھوٹی ڈگریاں کرواکر لوگوں کے مال کا کچھ حصہ جان بوجھ کر کھاجاؤ۔ ” شان نزول :۔ ! دو شخصوں کا آپس میں کچھ تنازع تھا۔ مدعی نے حضور اقدس میں دعویٰ دائر کیا۔ آپ نے اس سے گواہ طلب کئے۔ وہ بولا میرے پاس گواہ نہیں۔ حضور نے حسب دستور مدعا علیہ کو قسم کا حکم دیا۔ وہ قسم کھانے پر تیار ہوگیا۔ آپ نے فرمایا اگر جھوٹی قسم کھا کر اس کا مال کھائے گا تو قیامت کے روز اللہ کا غضب اپنے پر لے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ مگر تعجب ہے کہ یہ لوگ ان حکموں کی تعمیل کرتے نہیں۔ ہاں بے کار سوال کرنے کے بڑے مشتاق ہیں۔ البقرة
178 البقرة
179 البقرة
180 البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 البقرة
184 البقرة
185 البقرة
186 البقرة
187 البقرة
188 البقرة
189 (189۔210۔ چنانچہ تجھ سے چاند کا حال دریافت کرتے ہیں کہ چاند کم وبیش کیوں ہوتا ہے اس کا فائدہ کیا ہے تو اے بنی علیک السلام ان کو کہہ کہ یہ چاند کا کم زائد ہونا لوگوں کے کاروبار کے اوقات اور حج کی تاریخ کے لئے ہے پس اسے ہی کافی سمجھو اور اپنی سمجھ سے بالا تر سوال نہ کرو۔ ” بعض لوگوں نے آنحضرت سے سوال کیا کہ چاند کم زائد کیوں ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ ان کے فہم سے عالی تھا اس کے سمجھنے کو علم ہئیت بھی چاہئے اس لئے اس کے سبب سے اعراض کر کے اس کے فائدہ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اصل بات تو یہ ہے کہ جو امر دینی نہ ہو اس کا سوال پیغمبر سے کرنا ایسا ہی لغو ہے جیسا کہ تمہارا یہ فعل کہ حج کرکے مکانوں کے دروازوں سے نہیں آتے ہو بلکہ اوپر سے چھت پھاڑ کر اترتے ہو۔ اور اس کو بڑا نیکی کا کام ! جانتے ہو۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ کوئی نیکی کا کام نہیں کہ تم اپنے گھروں میں بجائے دروازوں کے چھت کی طرف سے آؤ ” شان نزول :۔ ! عرب میں دستور تھا کہ حج کر کے واپسی کے وقت گھروں کے دروازوں سے اندر نہیں آتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر اوپر سے اترتے تھے اور اس کو ثواب جانتے چونکہ یہ رسم ان کی محض خیالی تھی اس لئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی “ ہاں نیکی کے کام تو ان لوگوں کے ہیں جو متقی ہیں سو تم بھی اگر نیک بننا چاہو تو یہ واہیات خیال چھوڑو اور گھروں کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کام کرو اس میں پہلے اللہ کی رضا عدم رضا کو سوچ لیاکرو۔ تاکہ تم مراد حقیقی کو پاؤ تمہاری مرادیابی کا پہلا زینہ یہ ہے کہ جو لوگ تم سے دین کی وجہ سے ناحق لڑتے ہیں تم انسے اللہ کی راہ میں اللہ کے خوش کرنے کو لڑو۔ ” شان نزول :۔ " مکہ شریف میں تو مسلمانوں کو اس امر کی ممانعت تھی کہ کسی سے تعرض اور لڑائی کریں۔ جب مدینہ میں ہجرت کی تو یہ آیت نازل ہوئی معالم “ ”(لڑو) یہ پہلی آیت جہاد کے متعلق آئی ہے۔ اس مسئلہ (جہاد) پر تو جو کچھ مخالفین اسلام نے اپنی بے سمجھی کے گل کھلائے ہیں‘ عیاں راچہ بیاں‘ کسی صاحب نے اسلام کو ایمان بالجبر کا معلم بنایا۔ کسی نے ظالم کا خطاب عطا فرمایا۔ کسی نے ترقی اسلام کا ذریعہ اسی کو سمجھا۔ مگر داراصل یہ سب کچھ ان کی بے سمجھی اور تعصب کے آثار ہیں ؎ سخن شناس نئی دلبر اخطا ایں جاست اسلامیؔ جہاد بالکل طبیعت انسانی کے موافق اور انصاف کے مطابق ہے۔ اس کا بیان کرنے سے پہلے ہم کسی قدر اس زمانہ کی آزادی کا مختصر ذکر مناسب سمجھتے ہیں جس وقت مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تھا۔ اس لئے کہ واقعات کو ملحوظ رکھ کر رائے لگانا ہی انصاف ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے جب تک دعویٰ نبوت نہ کیا تھا تمام ملک آپ کی نسبت حسن ظن رکھتا تھا۔ اور آپ کو نہایت ہی راستباز جانتے تھے اس پر کل مورخین (مسلم کافر) متفق ہیں کہ آپ کی نسبت پہلے دعوٰے نبوت کے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ بعد دعوٰے نبوت کے بھی آپ کے معاملات کی صفائی کے قائل تھے۔ اور آپ کو امین جان کر اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس روز آپ انہیں کفار کے ستائے ہوئے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مسافرانہ تشریف لے گئے اس روز بھی آپ کے پاس مانتیں رکھی تھیں۔ جن کے ادا کرنے کو آپ اپنے چچا زاد بھائی علی (رض) کو وکیل کر گئے انہوں نے تین روز میں سب امانتیں ادا کردیں۔ باوجود اس صفائی حال اور صدق مقال کے آپ کو اور آپ کے اتباع کو جس قدر تکالیف شدیدہ مخالفین نے پہنچائیں کتب تاریخ ان سے پر ہیں کسی کو انکار مجال نہیں۔ امام مسلم نے ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کے مشتے نمونہ خروار حالات اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔ ابوذر صحابی (رض) کہتے ہیں :۔ جملہ مخالفین کی غلطی : ” جب میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی خبر سنی تو میں نے اپنے بھائی انیس کو جو بڑا شاعر تھا دریافت حال کے لئے بھیجا۔ اس نے آکر بتایا کہ لوگ اس کو شاعر کہتے ہیں مگر میں نے اس کا کلام شعرا کے کلام سے مقابلہ کیا اور شعرا کے سامنے پیش کیا لیکن چہ نسبت خاک را باعالم پاک۔ ابوذر کہتے ہیں میں نے اس تحقیق کو ناکافی جان کر مکہ کا قصد کیا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے سے لوگ بگڑتے ہیں اور آپ کا نام بےدین (صابی) رکھا ہوا ہے میں نے مکہ میں آکر ایک شخص کو نہایت کمزور غریب طبع کم حیثیت سمجھ کر اس سے پوچھا کہ جس کو لوگ بےدین کہتے ہیں وہ کہاں ہے اس نے فوراً سب کو جمع کرلیا۔ ان لوگوں نے میری ایسی گت بنائی کہ میرا تمام جسم خون آلود سرخ ہوگیا۔ پھر میں نے کسی کے پاس آپ کا یہ نام بھی ظاہر نہ کیا۔ یہاں تک کہ قریباً میں پندرہ روز کعبہ شریف کی مسجد میں پڑا رہا اور ڈرتا ہوا کسی سے اتنا بھی نہ پوچھتا کہ یہ بےدین کہاں رہتا ہے۔ ایک روز آپ کا چچا زاد بھائی حضرت علی (رض) نے (جو اس وقت کم سن لڑکے تھے) مسافر جان کر یہ کہا کہ ابھی مسافر کو اپنی منزل معلوم نہیں ہوئی کہ یہاں سے جائے مگر نہ تو میں ان سے ڈرتا ہوا کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ انہوں نے ازخود مجھے کچھ کہا۔ یہاں تک کہ تین روز پے در پے ایسا ہوا۔ اخیر کو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہاں اتنی مدت سے کیوں ٹھیرے ہو میں نے کہا اگر بتلانے کا وعدہ کرو تو کہتا ہوں ان سے پختہ وعدہ لے کر میں نے حضور اقدس کا ٹھکانہ پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے ساتھ آئو۔ لیکن چونکہ میں حضور کے خدام سے مشہور ہوں میرے ساتھ چلنے سے لوگ تمہیں تکلیف دیں گے۔ اس لئے میں جب کسی موذی کو دیکھوں گا تو پیشاب کے بہانہ ٹھیر جائوں گا۔ تو آگے چلا جائیو۔ چنانچہ اللہ اللہ کر کے دونوں اسی طرح درد حالت تک پہونچے۔ حضور اقدس نے مجھے تلقین اسلام کر کے فرمایا کہ تو اپنی قوم میں چلا جا۔ میں نے عرض کیا کہ ایک دفعہ تو ضرور ان میں باآواز بلند حقانیت ظاہر کروں گا۔ چنانچہ میں نے آکر کعبہ شریف میں بلند آواز سے کلمہ پڑھا تو سنتے ہی سب نے مجھ پر ہجوم کیا اور خوب ہی خبر لی اتنے میں آپ کے چچا عباس ( جو ابھی تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے) آئے اور انہوں نے مجھے چھوڑایا۔ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے میرے اسلام کی حمایت کی بلکہ یہ کہا کہ تم (مشرکین عرب) شام کے ملک کو تجارت کے لئے جاتے ہوئے اس کی قوم سے ہو کر جاتے ہو۔ اگر اس کو ایسا تنگ اور بے عزت کرو گے تو نفصان تجارت کا اندیشہ ہے آخر کار میں وہاں سے اپنے وطن کو چلا گیا۔ بلالؔ اور صہیبؔ کو ان کے مالک ہر روز دھوپ میں کھڑا کر کے سخت بے رحمانہ مارتے۔ ابوبکرؔ جیسے معزز رئیس اور عمرؔ جیسے بہادر شجاع پر ہر روز بلا جرم حرم کعبہ میں (جہاد کوئی باپ کے قاتل کو بھی کچھ نہ کہتا تھا) حملے ہوتے۔ تنگی معاش کا یہ حال تھا کہ سب قریش نے اتفاق کرلیا تھا کہ مسلمانوں اور ان کے حمائتی ابوطالب بلکہ کل آپ کے خاندان بنی ہاشم سے خرید و فروخت ناطہ و نکاح وغیرہ بند کردیئے اور اس پر ایک مجمع عام میں بعد منظوری دستخط ہوئے جس پر تین سال تک عمل درآمد ہوتا رہا۔ حضور اقدس معہ چند مسلمانوں اور ابوطالب کے ایک پہاڑی میں بستے رہے کوئی قریش ان لوگوں سے لین دین تو کجا گفتگو تک بھی نہ کرتا تھا آپ راستہ میں چلے جائیں تو کنکر پتھر کے علاوہ پائخانہ آپ کے بدن مبارک (فداہ ابی و امی) پر ڈالا جاتا۔ آخر نوبت باں رسید کہ آپ نے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر طائف کی راہ لی وہاں بھی جو سلوک خدام والا سے ہوا اس کے بیان سے قلم عاجز ہے۔ انیٹیں پتھر برسائے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیچھے لگا کر تالیاں پٹوا کر شہر سے باہر نکالے گئے۔ پھر وہاں سے لوٹتے ہوئے مکہ شریف کو آئے۔ جہاں آپ کے جدی مکانات تھے اور جہاں کے آپ خاندانی رئیس تھے۔ اسی شہر میں آپ کو (فداہ روحی) قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ اللہ اکبر آخر ایک معمولی آدمی کی پناہ لے کر اندر آئے (عربوں میں دستور تھا کہ جب کوئی کسی کی پناہ سے شہر میں آتا تو اس کو کچھ نہ کہتے۔) تو آکر بھی کون سی عافیت تھیں ادھر مسلمانوں کا یہ حال کہ کفار لوگوں سے تنگ آکر گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے تھے۔ آخر یہ ہوا کہ خود ولت بھی مکہ شریف کو جو آپ کا وطن مالوف تھا چھوڑ کر سب ! سے چھپ کر چلے گئے مگر آپ لوگ اس پر بھی راضی نہ ہوئے مدینہ تک بھی پیچھا کیا۔ سو سو اونٹ پکڑنے والے کے لئے مقرر کئے۔ چنانچہ ایک بڑا بہادر ڈاکو مدینہ کی راہ میں جا ہی ملا۔ لیکن ؎ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جبکہ وہ با مہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا تھوڑی ہی دور تھا کہ اس کا گھوڑا بحکم الٰہی زمین میں دھس گیا۔ یہاں تک مجبور ہوا کہ اس نے خود ہی درخواست کی کہ آپ میرے لئے دعا کر کے مجھے چھڑائیں میں آپ تک کسی کو آنے نہ دوں گا اور وہ اپنے تجربہ سے یہ بھی جان گیا کہ آپ کی ضرور ترقی ہوگی چنانچہ اس نے ایک امان بھی اسی وقت ایک چمڑے کے ٹکڑے پر لکھوالی اور اپنے وعدہ کے موافق لوٹتے ہوئے جو تلاش کنندہ اس کو ملا اس نے پتہ نہیں بتلایا۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ مدینہ پر بھی فوج لائے اور منہ کی کھا کر گئے۔ آخر کار جنگ اخزاب میں تو تمام ملک کو جن میں مشرکین عرب اور ہمارے جنٹلمین اہل کتاب (باوجود معاہدہ امن اور عہد صلح کے) بھی شریک تھے۔ آکر تمام مدینہ کو گھیر لیا اور قریباً ١٨۔ ١٩ روز تک گھیرے رہے تمام شہر میں دہلی کے غدر سے کئی حصے زائد بربادی اور گھبراہٹ رہی۔ آخر کار خائب خاسر ہو کر واپس ہوئے۔ دیکھو اور غور سے پڑھو وَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا۔ اس برتے پر بھی اعتراض ہیں کہ پیغمبر اسلام نے جہاد کئے اور جہاد کی تعلیم دی ؎ اللہ رے ایسے حسن یہ یہ بے نیازیاں بندہ نواز ! آپ کسی کے اللہ نہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ اور اس کے سوا اور تکالیف جن کے لکھنے سے قلم کو رعشہ ہوتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اللہ کو کیوں پہنچائی گئیں۔ اسلام کے مخالفو ! ہمارے علاتی بھائی عیسائیو ! (حدیث شریف میں آیا ہے کہ انبیاء سب کے سب علاتی بھائی ہیں یعنی توحید میں جو اصل الاصول ہے سب شریک ہیں اس لحاظ سے عیسائیوں کو علاتی بھائی لکھا گیا گو انہوں نے توحید چھوڑ دی ہے مگر نام لیوا اتباع انبیاء تو ہیں۔) ہمارے مہربان پڑوسی ہندوئو ! ذرا انصاف سے اس سوال کو سوچو اور اللہ سے ڈر کر اس کا جواب صاف اور صحیح لفظوں میں دو۔ مگر آپ لوگ تو اپنے بھائیوں کے لحاظ سے حق کے لئے کہیں گے ہم ہی اس کی صحیح وجہ بتلاتے ہیں وہ یہی تھی کہ مکش بہ تیغ ستم والہان ملت را نہ کردہ اند بجز پاس حق گناہ دگر سب جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر ایک ہی مولا کریم سے لو لگائی تھی ذرا غور سے پڑھو اور خوب سمجھو یُخْرِجُوْنَ ! الرَّسُوْلَ وَاِیّٓاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ (سورہ ممتحنہ) کیا آپ یا آپ کا کوئی اور بھائی ثابت کرسکتا ہے کہ ان مظلوموں کا بجز اس کے کوئی اور گناہ بھی تھا۔ کیا حضور مقدس ( فداہ روحی) یا آپ کے خدام نے مکہ میں کسی پر ظلم کئے تھے۔ کیا کسی کا مال کھایا تھا یا جاگیر دبائی تھی؟ یا کسی کے باپ یا بیٹے کا قتل کیا تھا یا کم سے کم کسی مشرک کا پانی چھو دیا تھا؟ کچھ نہیں کہا اور ہرگز نہیں کیا۔ پھر کیا ان (مشرکین اور اہل کتاب) کا حق تھا؟ ان کو بھی بوجہ تبدیل مذہب ایسے تنگ کریں کہ جس کا ذکر شتے نمونہ از خرداء سن چکے ہو جس کا ادنے اثر ہو کہ وہ بیچاری مظلوم بجان آکر اپناوطن مالوف اور بیوی بچے بھی چھوڑ کر غیر وطن میں جابسے۔ اگر ان کا یہ حق تھا تو ہر ایک کا جو اپنے کو سچے مذہب کا پیرو سمجھے یہ حق ہونا چاہیے۔ پس صحابہ کا یہی حق تھا کہ ان ظالموں سے علاوہ بدلہ لینے کے اس حق کے لحاظ سے بھی بخوبی پیش آویں مگر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اگر ان مشرکوں کا حق نہ تھا تو جو کچھ انہوں نے کیا اسے انصافاً بے جا تو کہو اور اپنے بھائیوں کی بے جا حمائت تو چھوڑ دو۔ پھر بتلائیے کہ ایسے ظلم پر ظلم کی کہاں تک برداشت ہوسکتی ہے اور کہاں تک طبیعت انسانی متحمل ہے اور ساتھ ہی اس کے مذہبی رکاوٹ کے اٹھانے کا جوش بھی اندازہ کر کے بتلائوں۔ سنو ! اس جنگ جہاد کی وجہ قرآن کریم نے خود ہی بتلائی ہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَرِرس حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ الایۃ اس آیت کو ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور دل لگا کر سمجھو کہ اس جہاد کے بانی مبانی آپ ہی کے بھائی صاحبان تھے یا کوئی اور۔ میں سچ کہتا ہوں اگر مسلمانوں کو آزادی اور امن ہوتا اور کفار نانہجار کی طرف سے وہ سلوک جو پیش آئے نہ آئے ہوتے تو ان کو جہاد کی بھی ضرورت نہ ہوتی اور نہ وہ اس طرف خیال کرتے بلکہ اپنی صفائی حال اور صدق مقال سے ایسی ترقی کرتے اور آسائش میں رہتے جو اس جنگ و جہاد سے ان کو میسر نہ ہوئی تھی۔ اس آیت میں بھی جس کا حاشیہ ہم لکھ رہے ہیں جہاد کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور باوجود اس کے کہ اب ایک موقع بدلہ لینے کا ہے اور بدلہ بھی ایسے لوگوں سے جن کے ظلم و ستم کی کوئی حد ہی نہ رہی ہو۔ پھر بھی زیادتی کرنے سے روک دیا نہ صرف روک دیا بلکہ اس پر وعید شدید فرمایا کہ زیادتی کرنے والے اللہ کو کسی طرح بھی نہیں بھاتے۔ پھر اسی آیت میں بانیان جہاد پر الزام لگایا ہے کہ فتنہ وفساد کرنا جو تم کر رہے ہو جس سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قتل سے بھی برا ہے اس وقت لکھتے ہوئے مجھے اس کی وجہ کہ یہاں پر والْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ جناب باری نے کیوں فرمایا سمجھ میں آئی ہے کہ اس میں حال کے عیسائیوں اور آریوں وغیرہ کو الزام دیا جاتا ہے کہ تم اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کرتے ہو کہ اس نے جہاد کی تعلیم کی ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ تمہارے بھائیوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ سب فتنوں کی جڑ تو وہی ہیں جو فتنہ پروازی کرتے ہیں ایک اور آیت میں بھی اس امر کی طرف کہ مسلمان بمجبوری لڑتے ہیں اشارہ ہے قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً مگر افسوس کہ مخالفین اسلام بجائے اس کے کہ اس آیت پر غور کر کے نادم اور خجل ہوتے۔ الٹے الجھتے ہیں کہ صاحب یہاں پر قرآن نے فیصلہ ہی کردیا کہ سب کافروں کو مار ڈالو۔ مگر وہ اس کو نہیں دیکھتے کہ کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً کے بھی تو کچھ معنی ہیں۔ بھلا اگر اسلام اور قرآن کا یہی منشا ہوتا کہ کوئی کافر بھی دنیا میں زندہ نہ رہے تو ذمی کافروں کو رکھنے کا حکم اور ان کی حفاظت مثل مسلمانوں کے ہونے کا ارشاد کیوں ہوتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دفع فساد منظور ہے نہ کہ کشت و خون چنانچہ ایک جگہ صریح ارشاد ہے وَلَوْلَ ! دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلٰوۃٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا (الحج) جس جس آیت میں قتل قتال کا ذکر ہے سب میں نہیں تو اکثر میں ضرور ہی ہوگا کہ اس جہاد سے مقصود دفع مظالم ہیں۔ سنو ! وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا اس آیت نے اور بھی واضح کردیا کہ جہاد سے مقصود اصلی دفع مظالم اور آزادی کا کھولنا ہے ورنہ اسلام کی اصلی غرض تو منادی اور اعلائے کلمۃ الحق ہے اگر کوئی اس میں خلل انداز نہ ہو اور بلاوجہ مزاحمت نہ کرے تو اسلام نے بھی اس سے تعرض کی اجازت نہیں دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زمانہ کے مخالفین عیسائی اور ہندو (آریہ) اعتراض کرتے ہوئے اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے کہ جس جہاد پر ہم منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کر رہے ہیں وہ ہمارے ہی بھائیوں کی مہربانی کا ثمرہ ہے افسوس ہے کہ ہم نے کسی مخالف سے زبانی نہ تحریری یہ سنا کہ بیشک جو کچھ مشرکین عرب اور اس زمانہ کے جنٹلمین اہل کتاب نے حضور مقدس (فداہ روحی) اور آپ کے اللہ سے سلوک کئے واقعی حد سے متجاوز تھے۔ حیرانی ہے کہ ان مظلوم صحابہ کی نسبت عام اخلاق انسانی بھی بھول گئے کسی گلیڈ اسٹونی کو بھی اس پر آرمینیا کی نسبت سے عشر عشیر بھی رنج نہ ہوا سچ ہے الکفر ملّۃ واحدۃ۔ جانب واری ایسی ہی بلا ہے کہ آنکھوں پر پٹی بندھوا دیتی ہے سب سے زیادہ تعجب تو عیسائیوں کے حال پر ہے کہ اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر معترض ہیں حالانکہ ان کی کتب عہد عتیق ایسے ہی جہادوں سے پر ہیں۔ اسے تو جانے دیجئے۔ حال ہی میں جو کچھ یورپ کے عیسائیوں نے کیا ہے وہی دیکھئے کہ چین میں چند مشزیوں کو جو خواہ مخواہ لوگوں کے گھروں میں حسب دستور خویش ہندوستان پنجاب ہی سمجھ کر گھستے ہوں گے کسی قدر تکلیف پہنچنے پر تمام یورپ برانگیختہ ہوگیا۔ ملکہ معظمہ بھی اپنی تقریر افتتاح پارلیمنٹ ١٥۔ اگست ١٨٩٥؁ء میں اس طرف توجہ دلالتی ہیں لارڈ سالسبری وزیر اعظم انگلستان بھی گورنمنٹ چین کو لکھ رہے ہیں کہ اس کا کامل انتظام نہ ہوا تو انگلستان مزید کارروائی کرنے پر مجبور ہوگا۔ آرمینیا کا جھگڑا جو بات سے بتنگڑ بنیا گیا تھا قابل دید ہے کہ ان روشن ضمیر عیسائیوں اور تقدس مآب مشزیوں نے کہاں تک قوم کی حمائت جی کھول کر نہیں کی اور کس قدر ان کے امن اور عافیت کے اسباب مہیا کرنے میں کوششیں نہیں کیں اور کہاں تک ممکنات سے گذر کر محالات تک نہیں پہنچے۔ جو ناظرین اخبارات ١٨٩٥؁ء سے پوشیدہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے تو سب کچھ کیا اور امن عامہ اور ہمدردی قومی کے نام لینے سے نہ صرف بری ہوئے بلکہ قابل قدر بھی جانے گئے مگر اسلام نے قاتِلُوْا ! فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر کہہ دیا تو چاروں طرف سے گونج آرہی ہے کہ یہ کیا وہ کیا۔ ظلم کیا۔ ستم کیا۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ کیوں صاحب چین کے مشزیوں اور آرمینیا کے مفسدوں کو جس قدر تکلیف ہوئی مکہ کے معزز رؤسا ابوبکر عمر اور دیگر صحابہ اور خود سید الانبیاء (فداہ ابی و امی) کو کیا کم ہوئی تھی؟ ان روشن ضمیر عیسائیوں کو تقدس مآب پادریوں نے یہاں تک بھی سمجھا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں فرض ہے کہ ساری عمر میں ایک آدھ عیسائیوں کو ضرور ہی ماریں۔ مسٹرویب نو مسلم امریکن لکھتے ہیں۔ کہ مجھے ایک عیسائی نے پوچھا کہ کیا سچ ہے مسلمانوں کو جنت میں جگہ نہ ملے گی جب تک وہ ایک آدھ عیسائی کا خون نہ کریں افسوس ہے کہ اس روشنی کے زمانہ میں بھی روشنی کے لحاظ سے یورپ اندھیر نگری ہے۔ ہندوستان میں مشزی لوگ ایسے خیال ظاہر کرنے سے اس لئے رکتے ہیں کہ ان کو ڈر ہے کہ یہاں بھانڈا پھوٹ جائے گا اور علماء اسلام ہماری جہالت کی قلعی کھول دیں گے۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی جہاد جس قدر ہے صرف امن عامہ اور آزادی کے قائم کرنے اور وسعت سلطنت کے لئے ہے نہ کہ کافروں کو کفر کی سزا دینے یا جبراً مسلمان بنانے کو ان دونوں اوہام کو ذمیوں کے حقوق اور حفاظت پورے طور سے دفع کر رہے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔ ابؔ ہم مخالفین اسلام (عیسائیوں اور آریوں) کی کتابوں سے بتلانا چاہتے ہیں کہ ان میں کس قسم کا جہاد بھرا ہے اور وہ کس قسم کے جہاں کی تعلیم دیتے ہیں عیسائیوں کی مقدس کتاب تورٰیت میں لکھا ہے :۔ ” پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہل مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لیں۔ تب موسیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ بعضے تم میں سے لڑائی کے لئے تیار ہوویں اور مدیانیوں کا سامنا کرنے جاویں۔ انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا تھا۔ اور سارے مردوں کو قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مویشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا۔ اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان کے لئے تم ان کے بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف ہیں جان سے مارو لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقفت نہیں ہوئیں۔ ان کو اپنے لئے زندہ رکھو (گنتی ٣١ باب) اور جب کہ خداوند تیرا اللہ انہیں تیرے حوالے کر دے۔ تو تو انہیں ماریو اور حرم کیجئیو۔ نہ تو ان سے کوئی عہد کریو نہ ان پر رحم کریو نہ ان سے بیاہ کرنا۔ تم ان سے یہ سلوک کرو تم ان کے مذبحوں (ذبح کی جگہ) کو ڈہا دو ان کے بتوں کو توڑو۔ ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں اگر ہیں جلا دو کیونکہ تو خداوند اپنے اللہ کے لئے پاک قوم ہے۔ خداوند تیرے اللہ نے تجھے چن لیا۔ کہ تم سب گروہوں کی بہ نسبت جو زمین پر ہیں اس کی خاص گروہ“ (استثنا ٧ باب) انؔ حوالجات سے مسئلہ صاف ہے۔ عیاں زاچہ بیاں۔ مگر ناظرین اس کی پوری تفصیل ہمارے رسالہ تقابل ثلاثہ میں دیکھ سکتے ہیں اب سنئے ہمارے لالہ صاحبان کی کتھا۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ وید جس کو مخزن علوم و فنون کہا جاتا ہے جس کو بہت کچھ مجلّٰی کر کے نادانوں کے ہاتھ سونے کے بھائو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وید میں بھی جہاد کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے پس سنئے ! ” اے دشمنوں کے مارنے والے اصول جنگ میں ماہر بے خوف و ہراس پر جاہ وجلال عزیزوا اور جوان مردو ! تم سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو پر میشور کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو شکست دینے کے لئے لڑائی کا سرانجام کرو۔ تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے۔ (کب؟ شائد سلطان محمود کے زمانے میں) تم روئیں تن اور فولاد بازو ہو اپنے زور سجاعت سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور بازو اور ایشور کے لطف و کرم سے ہماری ہمیشہ فتح ہو“ (تھرووید کانڈ ١٦ نوواک اور گ ٩٧ منتر ٣) گو نمونہ تو اسی ایک ہی منتر سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ویدہاں وید مقدس میں جہاد کے متعلق (انہیں نہیں بلکہ تمام دنیا پر سلطنت کا سکہ جمانے کے لیے) یہ حکم ہے۔ جس نے مفصل بحث دیکھنی ہو وہ ہمارے رسالہ حق ! پر کاش۔ ترک اسلام اور جہاد وید وغیرہ میں ملاحظہ کریں۔ فاعتبروا الخ۔ “ کیونکہ ان کا ظلم وستم حد کو پہنچ چکا ہے جس کا دفعیہ اللہ کو منظور ہے پس جس قدر تمہیں تنگ کریں اسی قدر تم بھی کرو اور ظلم زیادتی نہ کرنا۔ اسی لئے کہ ظلم زیادتی کرنے والے اللہ کو نہیں بھاتے۔ البتہ ایسے ظالموں سے جو ناحق ظلم ہی پر کمر بستہ ہوں بدلہ لینا اور ان کی پوری گت بنانا کوئی زیادتی میں داخل نہیں بے شک بدلہ لو اور جہاں ان کو پاؤ قتل کرو اور جہاں سے وہ تمہیں نکال چکے ہیں تم ان کو نکال دو۔ اس لئے کہ باہمی فتنہ فساد جو وہ کررہے ہیں قتل سے بھی بدتر ہے۔ باوجود ان کی شرارت اور خباثت کے ہم ان کو مہلت اور سہولت دیتے ہیں کہ اگر وہ کعبہ شریف میں پناہ گیر ہوں تو نہ انہیں ستاؤ اور عزت والی مسجد یعنی کعبہ کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ خود تم سے اس میں نہ لڑیں پھر اگر وہ اس مسجد میں بھی تم سے لڑیں اور تمہارے دینی امرور میں خلل انداز ہوں تو تم بھی ان سے خوب لڑو پھر ان کی کسی بات کا لحاظ نہ کرو اسی طرح کی سزا ہے ظالموں کی جو ظلم وستم پر کمربستہ ہوں باوجود اس کے پھر بھی اگر وہ باز آویں اور اپنی پہلی خباثتیں چھوڑدیں تو اللہ بھی ان کو معاف کرے گا کیوں کہ وہ بڑا بخشنہار مہربان ہے اور اگر شرارت ہی پر کمربستہ رہیں تو ان سے خوب لڑو یہاں تک کہ ان کا فتنہ فساد معدوم ہوجائے۔ اور بالکل امن صورت ہو کر دین یعنی قانون اللہ کا جاری ہوجائے پھر بھی اگر اپنی شرارت سے باز آویں اور فتنہ فساد نہ کریں اور امن عامہ میں خلل انداز نہ ہوں تو ان پر کسی طرح کی دست اندازی جائز نہیں مگر ان لوگوں پر جو عہد شکنی کی وجہ سے ظالم ہیں بے شک ہاتھ بڑھاؤ یہاں تک کہ اگر وہ مہینے حرام میں بھی تم سے لڑیں اور عہد شکنی کریں تو تم بھی اسی مہینہ میں لڑو اس لئے کہ عزت کا مہینہ عزت والے مہینے کے مقابل ہے۔ جب وہ تمہارے مہینے کی عزت نہیں کرتے تو تم بھی ان کے مہینے کی عزت نہ کرو اور ہتک حرمت کا یہی بدلہ ہے جبکہ وہ تمہاری عزت کی پرواہ نہیں کرتے تو تم بھی ان کی مت کرو۔ بیشک موقع مناسب میں ان سے بدلہ لو۔ پھر بھی اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو کوئی تم پر زیادتی کرے اس سے اس کی زیادتی جتنا بدلہ لو اور اس سے زیادہ بدلہ لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ ” شان نزول :۔ مسلمانوں کو جب اپنے دفعیہ کے لئے لڑنے کا حکم ہوا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ اگر کفار عرب میہنے حرام میں ہم سے لڑیں گے تو ہم کیا کریں گے اس مہینے میں تو لڑنا جائز نہیں ان کے اس خیال پر یہ آیت نازل ہوئی (موضح القرآن) مہینے حرام کے وہ ہیں جن میں لڑائی کی ابتدا کرنی حرام ہے اور وہ چار ہیں۔ ذوالقعدہ۔ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب “ اور اس ڈرنے میں اپنا نقصان نہ سمجھو بلکہ دلی یقین سے جانو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ہاں ایسے بھی مت ہوجاؤ کہ قتل قتال کے جھگڑوں میں پڑ کر سبھی کچھ چھوڑ دو۔ کیونکہ لڑائی جھگڑا بھی اپنی حد تک ہی اچھا ہے حد سے زیادہ مصروفی کسی کام میں بھی اچھی نہیں۔ جنگ وجدال کی بھی کوئی حد ہے کہ جب کبھی تم کو کفار تنگ کریں اور احکام الٰہی کے تابع نہ ہوں تو اس کا دفعیہ ضروری ہے ہاں ایک کام ایسا ہی ہے جس کی کوئی بہارخزاں نہیں بلکہ سب موسم اس کے لئے بہار ہیں وہ یہ کہ اللہ کو اپنا داتا اور رازق مطلق جانو اور اللہ عالم الغیب کی راہ میں حسب موقع اپنے کمائے ہوئے حلال مال خرچ کرو اور بخل کی وجہ سے اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو ” شان نزول :۔ جب لوگوں کو مسکینوں پر خرچ کرنے کا حکم ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اگر ہم مال اپنا اسی طرح پر خرچ کرتے رہے تو ہم خود مسکین ہوجائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اور سب لوگوں کے حال پر چاہے کوئی ہو احسان اور مہربانی کیا کرو اس لئے کہ احسان کرنے والے اللہ کو بھاتے ہیں مال خرچ کرنا دو قسم پر جانو ایک تو یہ کہ دوسروں کو دیا جائے جیسے صدقہ وغیرہ۔ دوسری قسم وہ ہے جو خاص اپنی ہی جانوں پر خرچ کرو تو بھی تم کو ثواب ہے جیسے سفر حج میں پس تم پہلی قسم میں خرچ کرو اور حج اور عمرہ کو بھی مال حرچ کر کے جاؤ اور ان کو خالص لِلّٰہِ نیت سے پورا کیا کرو۔ پھر اگر راہ میں کسی وجہ سے گھر جاؤ اور کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جو چیز قربانی کی تم کو میسر ہو راستے ہی میں ذبح کردیا کرو۔ یا بھیج سکو تو بھیج دو اور اپنے سر نہ منڈواؤ اور احرام کی صورت جو پہلے سے تم نے دربار الٰہی کے لائق بنارکھی ہو۔ اسے نہ بدلا کرو جب تک کہ قربانی تمہاری اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ لے یعنی ذبح ہوجائے ” ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں اپنا عمرہ کس طرح کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف یعنی عمرہ میں جو احکام ہیں کہ احرام باندھ کر مثل حج کے طواف کرنا سو کرو اور جو امور منع ہیں ان سے بچتے رہو ““ ہاں جو شخص تم میں سے بیمار ہو۔ یا اس کے سر میں بالخصوص کوئی تکلیف ہو جس کے سبب سے وہ احرام کی تکلیف نہیں اٹھا سکتا۔ ایسا شخص اگر احرام توڑ دے تو اس توڑنے کے بدلہ میں تین روزے یا ساڑھے سات سیراناج کا صدقہ یا قربانی اس پر واجب ہے پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو جو شخص عمرہ کرکے دنیاوی لذائد اور فوائد سے حج تک بہرہ یاب ہو تو وہ اس کے شکریے میں ایک قربانی کرے جیسے اسے میسر ہو اور جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب وطن کو لوٹو یہ دھاکہ پورا اس پر واجب ہے نہ ہر ایک کو یہ حکم ہے بلکہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر والے مسجد حرام یعنی مکہ میں نہ رہتے ہوں بلکہ آفاقی ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو بتلائے سے کمی زیادتی نہ کرو اور یہ جان لو کہ احکام شرعیہ میں کمی زیادتی کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے ایسانہ ہو کہ حج کی فضیلت سن کر دیگر صدقات کی طرح ہر وقت ہی اس کے ادا کرنے میں لگو نہیں بلکہ اس حج کے لئے چند مہینے یعنی شوال ذوالقعدہ اور اول ہفتہ ذوالحج مقرر ہیں تمام عمر بھر کا فرض ان میں ادا ہوجاتا ہے ہر سال آنا جانا کچھ ضروری نہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جو کوئی ان مہینوں میں حج کو اپنے ذمہ لے وہ چند امور ممنوعہ سے ضرورہی بچتارہے بیوی سے جماع نہ کرے۔ فسق فجور نہ کرے اور نہ حج کے دنوں میں کسی سے جھگڑا کرے۔ گر چہ حق پر ہو۔ کیونکہ دربار شاہی میں اس قسم کی باتیں بے ادبی میں داخل ہیں اس کے سوا اور بھی جو کچھ بھلائی کروگے اس کا بدلہ پاؤ گے کیونکہ اللہ اس کو جانتا ہے اور ایسے زاہد اور متوکل بھی نہ بنو۔ کہ حج کو جاتے ہوئے کھانا کپڑا ہی چھوڑ جاؤ جس سے آخر کار مجبوری مانگنے تک نوبت آئے اس لئے سفر حج میں بلکہ ہر سفر میں سفر خرچ ساتھ لیا کرو ” شان نزول :۔ بعض لوگ بلا خرچ حج کو چلے آتے اور اپنا نام متوکل کہلاتے مگر مکہ شریف میں آکر مانگتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ کیونکہ خرچ کا بڑا فائدہ سوال سے بچنا ہے جو سفر خرچ نہ ہونے کی حالت میں تم کرتے ہو پس ایسے بے جا سوال اور ناحق کے بخل کرنے میں اے عقل والو ! مجھ سے ڈرتے رہو ہاں اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کریم سے تجارت کے ذریعہ فضل یعنی نفع چاہو بے شک حج کے موسم میں اسباب فروختنی لے جاؤ اور کماؤ اس میں تم پر گناہ نہیں۔ گناہ اس میں ہے کہ دنیا کمانے میں اللہ کو بھول جاؤ سو ایسا مت کرنا بلکہ اس کی یاد سب دنیاومافیہا سے افضل جانا کرو۔ پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرالحرام پہاڑی کے پاس اللہ کو خوب یاد کرو نہ اپنے بناوٹی طریق سے بلکہ اس کو اسی طرح یاد کرو جیسا اس نے تم کو بتلایا اس لئے کہ ابھی تم اس سے پہلے گمراہ تھے۔ پھر تمہاری رائے کا کیا ٹھیک ہے۔ تم تو کہیں اپنے خاول میں ایسے کلمات بولو جو شریعت میں پسند نہ ہوں۔ ! پھر لوٹو تم اے قریشیو ! جہاں سے اور عرب لوگ لوٹتے ہیں یعنی عرفہ سے اور اپنے بے جا ہٹ کو چھوڑ دو اور اپنے پہلے فعلوں پر اللہ سے بخشش مانگا کرو۔ وہ بخشے گا کیونکہ اللہ بڑاہی بخشنے والا مہربان ہے۔ ” قریش کے لوگ اور ان کے اتباع مزدلفہ میں جو عرفات سے ورے ایک میدان ہے ایام حج میں ٹھیر کر واپس مکہ ہوتے تھے اور دوسرے لوگ عرفات سے واپس ہوتے تھے اور حکم الہٰی دوسروں کے مطابق تھا اس لئے قریش کے لیے بطور فہمائش یہ آیت نازل ہوئی ١٢ (صحیح بخاری) “ چونکہ حج میں مقصود صرف ذکرالٰہی ہے اس لئے اس کی ابتدا انتہا میں کوئی فرق نہیں۔ پس مناسب بلکہ واجب ہے کہ جیسے ابتدا میں اللہ کو یاد کرتے رہے ہو اسی طرح جب تم حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپ دادا کو بعد حج کے بطور فخریہ یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زائد۔ کیونکہ باپ دادا کا مذاکرہ تو تمہاری باہمی مفاخرت اور ایک نکمی بڑائی کے لئے ہے اور اللہ کے ذکر سے تو تمہاری عاقبت بخیر ہوجائیگی ہماری تعلیم تو ایسی صاف ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ایسے کوتاہ اندیش ہیں کہ دعا کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا ! جو کچھ تو نے ہم کو دینا ہے اسی دنیا میں دے ہم بھی ایسے ویسوں کو جس قدر کچھ دینا ہوگا دیں گے اور آخرت میں ان کو ایسا بے نصیب کریں گے کہ ان کے لئے بھلائی سے کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اور ان کے مقابل بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ کو سب طاقتوں کا مالک سب کچھ دینے والا جان کر دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا؟ تو دنیا میں بہت ہم کو نعمت اور ہر طرح سے عافیت دے اور قیامت میں بھی نعمت اور آسائش نصیب کر اور سب سے زائد تیری رحمت سے یہ توقع ہے کہ تو ہم کو آگ کے عذاب سے رہائی دیجئیو۔ ان دوراندیشوں اور ان کو تہ بینوں کی مثال بین یہ ہے کہ یہ تو اللہ سے گویا عمدہ سی غذا مع سالن اور حبوب ہاضمہ کے مانکتے ہیں۔ اور وہ کم بخت گویا صرف روکھی روٹی اللہ مالک الملک سے چاہتے ہیں۔ پس تم آپ ہی فیصلہ کرلو کہ ان میں سے بہتر اور دنا کون ہے یقینا ان کی دور اندیشی اور بلند پروازی میں کسی کو کلام نہ ہوگا۔ جب ہی تو ان کی کمائی کا حصہ ان کو ہے اور ان کی دعا بھی قبول ہوگی اور اللہ ان دونوں کا بہت جلد محاسبہ کرنے والا ہے جس سے تمام اجر بجر فریقین کا کھل جائے گا اپنے اپنے برتے کے موافق پھل پاویں گے پس تم بھی اے لوگو ! اگر اللہ کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو اللہ سے اس طرح کے سوال کرو جو دونوں جہانوں میں کار آمد ہوں اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرو۔ بالخصوص چند دنوں میں یعنی بعد حج کے گیا رہویں بارہویں تیرھویں پھر بھی جو کوئی دو دن میں ہی جلدی کرے اور بارھویں کو لوٹ آوے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بلکہ ثواب ہے ہاں ہر ایک کو نہیں بلکہ ان کو جو پرہیز گاری کریں اور ہر کام میں اخلاص مند ہوں۔ پس تم اخلاص مند بنو اور اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہو۔ اور دل سے جان رکھو کہ تم نے اسی کے پاس جمع ہو کر جانا ہے مناسب تمہارے اعمال کی جزا سزا دے گا۔ اپنی ظاہر داری پرنازاں نہ ہو اس لئے کہ وہ تمہارے حال سے خوب واقف ہے تمہارے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ ہاں تم آپس میں ایک دوسرے کے حال سے مطلع نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات تمہارا دشمن دوست بن کر تم کو دھوکا دے جاتا ہے اور تم نہیں جان سکتے اور بعض ! لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی بناوٹی باتیں باوجود رسول ہونے کے اے رسول تجھ کو بھی دنیا کے معاملات میں بھلی معلوم ہوں اس لئے کہ غیب سے ناواقف ہے اور وہ طلاقت لسانی سے ادھر ادھر کی تجھ کو سناتا ہے اور اپنے مافی الضمیر پر بڑے صادق اور راست بازوں کی طرح اللہ کو گواہ کرتا ہے کہ اللہ قسم میں تمہارا دل سے خیر خواہ ہوں مجھے آپ سے بڑی محبت ہے حالانکہ وہ تمہارا سخت دشمن ہے اس کی دشمنی کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے تکلیف پہنچاتا ہے اور جب تیری مجلس سے پھر جاتا ہے تو زمین کی بربادی میں تگ ودو کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیتوں کو برباد کرے اور چارپایوں کی نسل کو مارے اگرچہ تو کبھی ایسے مدمعاش سے بوجہ ناواقفی کے خوش ہوگیا ہو یا آئندہ کو ہوجائے مگر اللہ تو ہرگز ان سے خوش نہ ہوگا اس لئے کہ اللہ فساد اور فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ ” شان نزول :۔ بعض لوگ منافقانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر نرم نرم باتیں کرتے اور اپنا اخلاص ظاہر کرتے۔ اور ہر طرح سے قسمیں کھا کر بھی یقین دلاتے کہ ہم خیر خواہ ہیں حالانکہ باہر جا کر ہر طرح سے ایذا رسانی میں کوشش کرتے اور مسلمانوں کی مال و جان کے ضائع کرنے میں بھی دریغ نہ کرتے چنانچہ اخنس بن شریق ایک شخص منافقانہ حضرت کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب اس کا دائو چلا تو رات کو جاتے ہوئے مسلمانوں کے کھیت جلا گیا اور مویشی قتل کر گیا۔ اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ جلالین “ یہ تو ایسا مفسد اور متکبر ہے کہ جب کوئی اسے بطور نصیحت کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر اور ایسے بیہودہ کاموں سے توبہ کر تو اپنی اکڑ خانی کی وجہ سے زیادہ گناہ پر اڑجاتا ہے اور کہنے سننے والوں کی تحقیر کرتا ہے بھلا کہاں تک کرے گا۔ ہم نے بھی اس کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے پس وہی جہنم اس کے غرور توڑنے کو کافی ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے جہاں اسے رہنا ہوگا۔ جیسا کہ یہ اعلیٰ درجہ کا متکبر اور مغرور ہے اسی طرح اس کی مقابل بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جان بھی اللہ کے خوش کرنے میں دے دیتے ہیں ایسے ہی لوگ مورد الطاف خدا وندی ہیں بھلا کیوں نہ ہوں ایک تو ان کی نیک نیتی اور ساتھ ہی اس کے یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہی ٹھیک ہے کہ اللہ کا بندہ بننا صرف زبانی خرچ سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے سب احکام نہایت تعظیم وتکریم سے نہ نبا ہے جائیں۔ جب ہی تو تم کو حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو ! سب احکام الٰہی کی فرمانبرداری کیا کرو۔ اور بعض کو کرنے اور بعض کو چھوڑنے میں شیطان کے پیچھے مت چلو اس لئے کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ وہ کبھی تم سے بھلائی نہ کرے گا پس بعد پہنچنے صریح اور روشن احکام کے بھی اگر تم بھولو گے تو جان لو کہ تم اپنا ہی نقصان کروگے۔ ” شان نزول بعض لوگ مسلمان ہو کر بھی اپنی رسوم چھوڑنے سے جی چراتے بعض یہودی مشرف باسلام ہو کر اونٹ کے گوشت سے حسب عادت سابقہ پرہیز کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ اور اللہ تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والاہے جب کھبی کوئی کام چاہتا ہے تو فوراً کردیتا ہے اور نہائیت حکمت سے کرتا ہے کسی مخلوق کی اطاعت سے اسے فائدہ نہیں کسی کی سرکشی سے اس کا نقصان نہیں۔ مگر یہ دنیا کے بندے کفار مکہ ایسے اللہ کے رسول کی بھی اطاعت نہیں کرتے اور ناحق ادھر اور ادھر کی باتیں بناتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ گویا اب اس امر کی انتظاری کرتے ہیں کہ خود اللہ اہی بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس چلکر آوے اور ساتھ ہی اس کے فرشتے بھی ہوں اور آخری کام کا فصلہز ہوجائے نیکوں اور بدوں میں تمیز ہو۔ ان کی ایسی بے جا آرزوؤں اور تمسخر کی سزا خوب ہی ملے گا آخر تو سب کام اللہ وحدہ لا شریک ہی کی طرف پھرتے ہیں ایسے لوگ تو پہلے بھی ہوچکے ہیں جو بظاہری نازو نعمت پر مغرور ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھولے تھے۔ پھر آخر کار عذاب الٰہی نے ان کو خوب گرفت کی۔ البقرة
190 البقرة
191 البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 البقرة
195 البقرة
196 البقرة
197 البقرة
198 البقرة
199 البقرة
200 البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 البقرة
204 البقرة
205 البقرة
206 البقرة
207 البقرة
208 البقرة
209 البقرة
210 البقرة
211 (211۔230)۔ ذرہ پوچھ تو بنی اسرائلس سے کہ کتنے ہم نے ان کو احسان خدا وندی کے نشان دئے۔ مگر انہوں نے بجائے شکر کے یہ سمجھا کہ ہماری لیاقت پر ہم کو ملے ہیں اس کی ناشکری کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر وبال نازل کئے کیوں نہ ہو جبکہ عام قاعدہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نعمت کو بعد حاصل ہوجانے کے بدلتا ہے یعنی بجائے شکر کے کفر کرتا ہے تو انجام کار سوائے ہلاکت کے اس کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسے نالائقوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے۔ ہمیشہ سے کوتاہ اندیش ظاہر بینی پر مرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کافروں کو دنیا کی زندگی کی نمائش اچھی لگتی ہے اور مسلمانوں سے بسبب ان کی تنگدستی کے مسخری کرتے ہیں اس چند روزہ زندگی اور اس کے تھوڑے سے اسباب کے لحاظ سے ان کو حقیر جانتے اور ان کا نام درویش اور ملانے رکھتے ہیں حالانکہ اللہ سے ڈرنے والے اہل ایمان قیامت کے روز ان سے بلند مرتبہ میں ہوں گے باقی رہی دنیاوی زیب وزینت سو یادر کھیں یہ کام اللہ کے ہیں جس کو چاہتا ہے رزق بے حساب دیتا ہے اس میں اس کی مصلحتیں ہوتی ہیں ” شان نزول کفار عموماً غربا مسلمانوں سے مسخری کرتے اور کہتے تھے کہ یہی لوگ جنت کے مالک ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ یہ کوئی لیاقت کی دلیل نہیں بہت سے نالائق جن کو بات کرنے کا بھی شعور نہیں ان کے آگے بہتیرے ذی شعور خادم بنے پھرتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ بناداں آنچناں روزی رساند کہ دانا اندراں حیراں بماند رہا ان کا یہ سوال کہ اللہ خود ہی آکر ان کو ہدائیت کرے سو یہ امر نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا اور نہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی ابتدا تاریخ سے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ سے بنی آدم ہی رسول ہو کر آتے رہے۔ اول اول تو سب لوگ ایک ہی دین پر متفق تھے۔ چند دنوں پر انہوں نے اس میں اختلاف کیا کوئی توحید پر رہا کوئی شرک میں پھنسا۔ جب یہ حالت ان کی ہوئی تو اللہ نے بنی آدم سے نبی بھیجے بھلے کاموں پر خوشی سنانے والے اور برے کاموں سے ڈرانے والے اور ان کے ساتھ ایک ایک سچی کتاب بھی نازل کی تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے اختلافوں کا فیصلہ کرنے اسے بہت لوگ مان گئے گو بعض اپنی جہالت پر بھی اڑے رہے خیر وہ زمانہ بھی گذرا بعض ہدائیت پر آئے اور بعض گمراہ رہے۔ طرفہ تو یہ کہ اس زمانہ کے لوگوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہم نے ہدایت کے لئے رسول بھیجا تاکہ لوگوں کو راہ راست پر لائے اس کے ماننے میں بھی ان لوگوں نے پس و پیش کیا اور سب سے زیادہ اختلاف رائے اس میں انہیں لوگوں نے کیا جن کو پہلے الہامی کتاب تورات انجیل ملی تھی اور وہ اس سلسلہ رسالت سے واقف ہیں نہ یہ کہ لاعلمی بلکہ بعد پہنچنے نشانات بینہ کے محض اپنے حسد کی وجہ سے منکر ہوئے۔ پس اس کا انجام یہ ہوا کہ یہی لوگ بے نصیب رہے اور اللہ تعالیٰ نے سچائی ماننے والوں کو محض اپنے فضل وکرم سے حق کی وہ راہ دکھائی جس میں یہ لوگ آپس میں مختلف ہورہے ہیں کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ با اختیار حاکم ہے۔ اور ہمیشہ اپنے اخلاص مندوں کی قدر کیا کرتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ہدائیت پر ثابت قدم رہنا ذرا مشکل کام ہے۔ علاوہ تکلیف احکام شرعیہ کے ناا ہلوں سے تکالیف اور اذیتیں بھی اٹھانی پڑتی ہیں جیسی کہ پہلے لوگوں کو ہوئیں اسی طرح تم پر بھی اے مسلمانوں تکالیف آئیں گی اور ضرور آئیں گی کیا تم خیال کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں جھٹ سے داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ تکالیف نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ہر طرح کی سختیاں اور تکلیفیں بھی ان کو پہنچیں اور مخالفوں کے خوف سے کانپتے رہے یہاں تک ان کو تکلیف پہنچی تھی کہ اس زمانہ کے رسول اور اس کے تابعدار مومن بعض دفعہ بول اٹھے تھے کہ اللہ کی مدد جس کا ہم سے وعدہ ہوا ہے کب ہوگی اس حال سے زیادہ مناسب وقت مدد کا کونسا ہوگا۔ اس پر اللہ کی طرف سے بطور تسلی ان سے کہا جاتا تھا کہ خبردار رہو۔ اللہ کی مدد بہت قریب ہے وہ حکمت والا ہے جب مناسب ہوگا مدد پہنچائے گا۔ ایسی تکلیفوں پر صبر تو کجا ابھی تو مسلمانوں پر یہ آئی ہی نہیں۔ ” شان نزول مکہ میں تو صرف مشرکین ہی کی تکلیف تھی مدینہ میں جب آپ نے ہجرت کی تو وہاں پر ایک طرف یہودی اور دوسری طرف چھپے دشمن دنیا دار منافق تیسرے مشرک سب ساتھ مل کر جنگ احزاب میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے جن میں یہود نصارٰے‘ اہل کتاب باوجود عہد مصالحت کے سب سے پیش قدم تھے ایسے واقعات سے صحابہ کرام کو بڑی تکلیف پہنچی ان کی ہمت بڑھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) “ ابھی تو اللہ کے فضل سے ہر طرح کی آسائش ہے مال ودولت کا یہ حال ہے کہ تجھ سے از خود ! سوال کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ چاندی دیں یا سونا یا حیوانات یا پیداوار ” ایک صحابی عمرو بن جموع نے جو بہت مال دار تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں کیا خرچ کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو کہہ دے اس امر سے کیا پوچھو جس کی توفیق ہو خرچ کرلو ہاں اس امر کا لحاظ رکھو کہ بیجا نہ دیا جائے بلکہ جو کچھ خرچ کرنا چاہو وہ پہلے ماں باپ کو دواگر وہ محتاج ہوں (” یہ صدقات سوائے زکوٰۃ کے مراد ہیں۔ زکوٰۃ کا مال ماں باپ کو دینا جائز نہیں “ ) پھر اور قریبیوں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو جن کا خرچ منزل تک نہ ہویا کا فی نہ ہو وہ ان کے علاوہ جس کو حقدار سمجھو دیتے رہو تمہارا دینا ضائع نہ ہوگا اس لئے کہ جو کچھ بھی تم نیکی کا کام کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور یہ جو تم بعض اوقات خرچ کرنے سے رکتے ہو اس کی وجہ یہ نہیں کہ خرچ کرنا ہی واقع میں اچھا نہیں بلکہ یہ ناخوشی تمہاری بھی اسی طرح جیسے کہ جنگ کرنا تم پر فرض ہوا ہے اور وہ تم کو ناپسند ہے تمہاری طبیعتوں کا کیا ٹھیک؟ تم تو بسا اوقات ایک چیز کو ناپسند کروحالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہوئی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز کو پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہیں مضر ہوتی ہے تمہاری بھلائی برائی اللہ ہی کو معلوم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے اور تم تو اپنا نفع نقصان بھی نہیں جانتے۔ ” شان نزول : مشرکین اور کفار ناہنجار کی تکالیف مسلمانوں کے حق میں از حد سرفزوں ہوگئیں تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ جب تم مسلمانوں کا یہ حال ہے تو ان کافروں کا کیا ٹھکانہ۔ ان کی نادانی کا تو یہی ثبوت کافی ہے کہ بطور طعن کے تجھ ! سے حرام مہینے میں لڑنے کا حکم پوچھتے ہیں یہ سمجھ کر کہ اگر اس نے لڑنا جائز ہے کہہ دیا تو تمام عرب میں اس کی بدنامی کریں گے یہ نہیں جانتے کہ حق بات کے ظاہر کرنے میں کبھی چوکنے کے نہیں۔ تو بے شک کہہ دیکہ اس مہینہ میں لڑنا بڑا گناہ ہے مگر صرف یہی گناہ نہیں بلکہ سیدھی راہ سے تمہاری طرح ٹیڑھے چلنا اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ دین اسلام سے اور مسجد حرام یعنی کعبہ شریف میں نماز پڑھنے سے روکنا اور اس کے حکموں کا انکار کرنا اور اس مسجد کے رہنے والوں کو محض اسلام کی وجہ سے اس سے نکال دینا اور ناحق تنگ کرنا یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ فساد کرنا جو تم کررہے ہو۔ قتل قتال سے بھی بڑا ہے پھر کسی منہ سے کیسے سوال کرتے ہیں اور ذرہ سی مسلمانوں کی غلطی کو بات کا بتنگڑ بنارہی ہیں اور سنو مسلمانو ! کافرلوگ اسی گزشتہ پر بس نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین اسلام سے بھی پھیردیں مگر کیا یہ کام کرسکتے ہیں ہاں اگر طاقت رکھیں تو ضرورہی کریں لیکن انشاء اللہ کبھی بھی ان کو اس امر کی طاقت نہ ہوگی۔ ہاں تمہیں بھی آگاہ رہنا چاہئے اور ہمارا اعلان سن رکھنا چاہئے کہ جو لوگ تم میں سے اپنا دین اسلام چھوڑ کر کفر کی حالت میں مریں گے تو ان کے نیک کام جس قدر کہ ہوں گے دنیا اور آخرت میں سب کے سب ضائع ہوجاویں گے۔ اور آخر کاریہ لوگ آگ ہی کے لائق ہونگے جس میں ہیشہ تک رہیں گے ” صحابہ کرام (رض) سے ایک موقع پر بوجہ غلطی کے یکم رجب میں (جو حرام کا مہینہ تھا) جنگ واقع ہوگئی اس پر مشرکین عرب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ پر طعن کرنے شروع کئے کیونکہ ان مہینوں میں لڑنا پہلے سے منع چلا آیا تھا اور عرب میں دستور عام تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ک۔ … اسؔ میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ سوال کن لوگوں نے کیا تھا بعض اہل اسلام کو سائل بتاتے ہیں اور بعض کفار کو میرے نزدیک آخری صورت یہ ہے اس لئے کہ آئندہ کے لفظوں میں بطور عار دلانے کے جو الفاظ فرمائے گئے ان کے مصداق کفار ہی ہوسکتے ہیں مسلمان نہیں “ ہاں جو لوگ اللہ کی توحید پر ایمان لائے اور اگر کفار نا ہنجار تنگ کریں تو بجائے دین چھوڑنے کے اپنا گھر اور وطن مالوف چھوڑ کر ہجرت کر آئے اور اگر اس پر بھی دشمنوں نے پیچھا نہ چھوڑا تو ایسے دشمنوں سے اللہ کے راہ میں خوب لڑنے انہی کو اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اللہ کی طرف سے علاوہ ان کی مزدوری کے بہت سی خلعتیں بھی ملیں گی اس لئے کہ اللہ تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے یہ بھی اس کی ایک مہربانی ہے جو ان کو ایسی سمجھ دے رکھی ہے کہ باوجود ایسی جہالت سابقہ کے جو کچھ کرتے ہیں پوچھ کر ہی کرتے ہیں گو وہ کام ان کی قدیمی عادت میں ہی کیوں نہ ہو دیکھو تو باوجود عادت قدیمہ کے تجھ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں کہ مفید ہے یا نہیں ” شان نزول :۔ حضرت عمر اور معاذ بن جبل اور بعض انصار نے شراب اور جوائے کی بابت سوال کئے کہ حضرت ان کی بابت ہمیں حکم دیجئے۔ یہ تو بہت ہی مذموم فعل ہیں ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ م راقم کہتا ہے چونکہ عرب میں مثل یورپ کے شراب کی از حد کثرت تھیں اس لئے بتدریج ہٹانے کی غرض سے اس آیت میں سہل طریق برتا گیا۔ جب وہ لوگ متنفر ہوئے تو اسی کو فعل شیطانی کہہ کر سختی سے روکا گیا۔ “ تو کہہ دے کہ ان دونو میں بڑا گناہ ہے اور کسی قدر لوگوں کے نفعے بھی ہیں کہ ایک قسم کا چند روزہ فربہ پن اور غیر معمولی تموّل ہوجاتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو نہ کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ ان میں قباحتیں بہت ہیں اور گناہ بھی ان کا نفع سے بڑا ہے اہل ایمان سے امید قوی ہے کہ ایسے افعال شنیعہ کے کرنے میں ہرگز پیش قدمی نہ کریں گے اس لئے کہ وہ ہمیشہ فائدہ اخروی ملحوظ رکھا کرتے ہیں جو ان میں مفقود ہے ان کی اس خصلت حمیدہ کی یہ قوی دلیل ہے کہ جب سنتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ضروری امر ہے تو برمناو رغبت تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کتنا رکھیں اور کتنا دیں جس قدر ارشاد ہو اتنا ہی دیں ” شان نزول : آنحضرتﷺ نے جب صدقہ کی ترغیب دی تو بعض صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ حضرت کتنا مال خرچ کریں یعنی کس قدر دیں اور کس قدر رکھیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو ایسے پاک باطنوں سے کہہ دے کہ سارا مال خرچ کرنے میں اگرچہ اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن ہر ایک آدمی اس کا متحمل نہیں ہوتا۔ اس لئے تم اپنی حاجت سے زائد یعنی مال کا چالیسواں حصہ خرچ کرو اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ تاکہ تم دنیا اور آخرت میں غور کرو اور فانی کو ترک کرکے باقی کو اختیار کرو کیا اس دنیا کے فانی ہونے میں بھی کسی کو شک ہے؟ کیا نہیں دیکھتے کہ بہت سے لوگ ان کے دیکھتے دیکھتے جارہے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد جن کو نہائیت ہی شفقت سے رکھتے تھے اپنے پیچھے یتیم چھوڑ جاتے ہیں اور یہ لوگ نہایت اخلاص سے ان یتیموں کی بابت تجھ ! سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح اس نے معاملہ کریں۔ ” ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یتیموں کے مال کھانے کی ممانعت نازل ہوئی تو جن لوگوں کے پاس یتیم بچے رہا کرتے تھے اور وہ ان کو اپنے کھانے پینے میں کسی قدر خرچ لے کر شامل کرلیتے تھے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ ان کا غلطی سے کھالیں۔ ان یتیموں کے کھانے کا بندوبست علیحدہ کردیا۔ اس عیحدے گی میں یتیموں کا خرچ زائد ہونے لگا۔ تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو کہہ دے بہر حال ان کی اصلاح کرنا اچھا ہے اور اگر ان کو اپنے ساتھ ہی ملالو اور ساتھ ان کو کھانا کھلاؤ گو ان سے اس کھانے دام بھی وصول کرو تو بھی کوئی حرج نہیں اس لئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اگر تمہاری نیت میں کوئی فساد ہوگا کہ ان کو ساتھ ملاکر ان کا مال کھا جائیں تو اس کی سزا پاؤ گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو مفسد اور مصلح سب معلوم ہیں۔ سب کو ان کی نیت کے موافق بدلہ دے گا۔ غور کرو تو یتیموں کے ساتھ ملانے کا حکم محض تمہاری ہی آسائش کے لئے ہے۔ ورنہ اگر اللہ چاہتا تو تم کو سخت تکلیف میں ڈال دیتا کہ بالکل ان سے کسی طرح کا ملنا ملانا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا بھی منع کردیتا ہے جس سے تمہیں بڑی دقت ہوتی۔ آخر وہ تمہارے بھائی ہیں بے شک اللہ بڑا زبردست حکمت والا ہے۔ یہ بھی اسی کی حکمت سے ہے کہ تم کو ایسے حکم دیتا ہے کہ تم خود بھی مشرک نہ بنو اور مشرک عورتوں سے نکاح بھی نہ کرو۔ جب تک وہ مسلمان نہ ہوں کیونکہ بیوی خاوند میں تفرقہ مذہبی خاص کر توحید اور شرک کا اختلاف مقصود خانہ واری میں مخل ہے ہمیشہ کے جھگڑے اور فساد دور تک نوبت پہنچاتے ہیں۔ اگر مقصود خانہ داری حاصل کرنا ہو تو کسی مؤمن موحدہ عورت سے نکاح کرو۔ اس لئے کہ کمینی لونڈی کو بھلی ایماندارمشرکہ خاندانی سے بہتر ہے۔ گو بوجہ حسن ظاہری وہ مشرکہ تم کو بھلی معلوم ہو اس میں تمہاری خانہ داری مقصود خوب حاصل ہوگا۔ اس میں تم کو ہمیشہ کی دقت ہوگی ایسا ہی یہ بھی تم کو ضروری ہے کہ اپنی لڑکیوں کو مشرکوں سے نہ بیاہ ہوکسی ایماندار نیک بخت سے بیاہ دیا کرو۔ گو وہ غلام ہی ہو۔ کیونکہ غلام مؤمن دیندار، مشرک بےدین سے اچھا ہے۔ اگرچہ وہ مشرک بوجہ اپنی ظاہری وجاہت کے تم کو بھلا معلوم ہو۔ ” ابومرثد صحابی نے ایک عورت خوبصورت مشرکہ سے نکاح کرنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے متعلق ایک عمدہ اصول بتلایا ہے کہ دامادی کی بابت ہمیشہ دین داروں کو ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے جہاں اور احکام خداوندی سے غفلت کی ہیں معقول اصول سے بھی بے پروائی کی۔ کیسا ہی ہو۔ مال دار ہو۔ ہمیشہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے نالائقوں سے پالا پڑ کر تمام عمر لڑکی کی جہنم میں گذرتی ہے مگر یہ سب کام انہیں لوگوں کے ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فرمایا وفَرِحُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّیْنَا “ اس لئے کہ یہ مشرک رشتہ دار لوگ عذاب آگ کی طرف تم کو بلاتے ہیں اور اللہ تو محض اپنی مہربانی سے تم کو بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور ہمیشہ لوگوں کے لئے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے۔ تاکہ وہ نصیحت پاویں۔ اور ہر اک امر دریافت کرکے عمل کیا کریں۔ جیسا کہ یہ مسلمان لوگ تجھ سے حیض والی عورتوں کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں کہ حیض کے دنوں میں ان عورتوں سے کیسا برتاؤ کریں؟ یہودیوں کی طرح بالکل علیحدہ ہی کردیں یا کچھ میل جول بھی رکھیں؟ ” شان نزول :۔ یہودیوں میں دستور تھا کہ جب عورت کو حیض آتا تو اس کو اپنے سے بالکل علیحدہ ہی کردیتے حتے کہ کھانا پینا سب اس کا الگ کردیتے صحابہ نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “ تو کہہ دے میل جول میں تو کوئی حرج نہیں بے شک ساتھ کھلاؤ پلاؤ ہاں حیض ایک قسم کی ناپاکی بے شک ہے سو حیض کی مدۃ میں عورتوں کے ساتھ ملاپ کرنے سے علیحدہ رہو اور ان سے اس حالت میں صحبت تو کجا قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ حیض کی ناپاکی سے پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب پاک ہوجائیں اور غسل بھی کرلیں تو بے شک ان سے ملاپ کرو۔ مگر ایسا ہی وحشیوں کی طرح بے سوچے سمجھے جہاں طبیعت چاہے نہ کرنے لگو بلکہ جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے یعنی جو اولاد پیدا ہونے کا قدرتی راستہ ہے اور اس ملاپ سے غرض یہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالح عنائیت کرے اور اس اولاد طلبی میں کفر شرک میں نہ پھنس جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جھکو اس لئے کہ اللہ جھکنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حیض کے دنوں میں بند کرتا صرف اسی وجہ سے ہے کہ یہ خون ناپاک اور عورت کے رحم کی غلاظت ہوتا ہے اس کا بہہ جانا ہی مناسب ہے ورنہ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جیسا کھیتوں میں بیج بوتے ہو اسی طرح اپنی عورتوں کی کھیتیوں کو جس طرح چاہو حسب منشا آباد کرو اولاد کے قابل بناؤ ” شان نزول :۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر پیچھے کھڑے ہو کر عورت کے موضع مخصوص میں جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کی تغلیط کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف۔ راقم کہتا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ عورت کے پیچھے میں دخول کرنا بھی جائز ہے بڑی غلط فہمی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حرث (کھیتی) سے عورت کو تشبیہہ دی ہے اور حرث جب ہی ہوگی کہ ایسے موضع میں دخول ہو جہاں سے پیداوار کی بھی امید ہو۔ اور پیچھے میں تو سب کچھ ضائع ہوتا ہے اور علاوہ اس کے عورت کو بجائے لذت کے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ کیونکہ وہ سوراخ اس غرض کے لئے نہیں بنا۔ اس لئے ایسا کرنا آدمیت کے خلاف ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص عورت کے پیچھے میں جماع کرے اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرتا ہے “ اور محض شہوت رانی میں نہ لگے رہو۔ بلکہ اپنی جانوں کے لئے آئندہ کی فکر کرو۔ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور صدق دل سے جان رکھو کہ ایک روز تم کو اس سے ملنا ہے اور تو اے رسول (علیہ السلام) احکام خداوندی ماننے والوں کو خوشخبری سنا جو ہر وقت اور ہر حال میں قانون شریعت کا لحاظ رکھتے ہیں اور ان کو یہ بھی سمجھا دے کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو اپنی قسموں کا بہانہ نہ بنایا کرو کہ قسموں کی آڑ میں نیکی کرنی چھوڑ دو۔ اور پرہیز گاری کے کام نہ کرو۔ اور لوگوں میں فتنہ فساد کے وقت صلح نہ کراؤ اور جو اس سے پہلے قسمیں کھاچکے ہو ان کی بابت جناب باری میں عذر کرو وہ معاف کریگا۔ اس لئے کہ اللہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کے دلوں کے حالات جاننے والا ہے۔ اگر ایسی قسموں کو جن میں نیکی کے کام کرنے سے روکنا ہو توڑ کر کفارہ دیدو گے تو کوئی مواخذہ نہ کرے گا جیسا کہ بلاقصد قسمیں کھانے پر اللہ تعالیٰ تم کو نہیں پکڑے گا۔ جیسے عام لوگ واللہ با للہ کہا کرتے ہیں۔ ہاں جو دل سے پورے طور پر تم نے قسمیں کھائی ہیں کہ واللہ باللہ ضرور ایسا ہی کرنگا ان پر مواخذہ کرے گا اور مواخذہ میں بھی یہ سہولت ہوگی کہ کفارہ دینے سے تمہارے گناہ بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور حلم والا ہی چھچھورے کم حوصلے حاکموں کی طرح تھوڑے سے قصور پر جلدی سے نہیں پکڑتا۔ ” دو صحابہ کو آپس میں کچھ رنج ہوا اس پر ایک نے قسم کھالی کہ نہ تو میں تیرے مکان پر آئوں گا۔ اور نہ کبھی تیرے معاملہ میں دخل دوں گا۔ چونکہ آپس کا رشتہ تھا۔ جب کوئی اس کی بابت اس کو کہے تو وہ کہہ دے کہ میں اس کے معاملہ میں دخیل نہ ہوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم “ یہ بھی اس کی مہربانی کا اثر ہے کہ مخلوق کو ظلم زیادتی سے روکتا اور ان کو ان کی عادات قبیحہ سے جو انہیں کے لئے مضر ہیں منع کرتا ہے۔ چنانچہ تمہاری عادت ابلا کے متعلق جو بڑی قبیحہ ہے اس سے عورت پر بلا وجہ از حد ظلم ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کے متعلق قاعدہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ ! اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں وہ بیوئییں چار مہینوں تک ان کی انتظاری میں ٹھیریں پھر اس سے بعد اگر وہ اپنے کہے سے باز آویں اور آرام چین سے رہیں تو اللہ بھی ان کے سابقہ قصور معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ” عرب کے لوگوں کا دستور تھا کہ عورت سے خفا ہو کر اس کے قریب جانے کی قسم کھا لیتے پھر نہ اسے چھوڑتے اور نہ اسے آباد ہی کرتے۔ بلکہ ہمیشہ کو تکلیف پہنچاتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ ”(جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں) اس آیت میں مسئلہ ایلا کا شروع ہوا ہے۔ ایلا کے معنی قسم کے ہیں۔ عرب میں یہ ایک دستور قیحے تھا کہ عورت کو تکلیف پہونچانے کی غرض سے قسم کھا لیتے کہ میں تیرے پاس نہیں آئوں گا۔ اس سے نہ تو وہ عورت اس خاوند سے مطلقہ ہوتی اور نہ آباد ہی رہتی۔ اسلام نے جہاں ان کی اور خرابیوں کی اصلاح کی تھی اس کی اصلاح بھی مناسب کردی کہ ایسے ظالموں کے لئے ایک مدت مقرر کردی کہ جو لوگ ایسی بیہودگی کریں ان کو ہمیشہ تک کامیابی نہ ہو۔ کہ اپنی مرضی کے مطابق عورتوں کو ستائیں بلکہ چار مہینے تک عورتیں ان کی انتظاری کریں اگر وہ رجوع کر آویں تو خیر و اس کی عورت اور وہ اس کا خاوند۔ اور اگر چار مہینے تک رجوع نہ کریں تو طلاق ہوجائے گی۔ آگے پھر کسی قدر علماء کا اختلاف ہے۔ کہ چار مہینے گزرنے سے طلاق خودبخود ہوجائے گی یا قاضی یا حاکم وقت کی بھی حاجت ہے۔ سو خیر یہ کچھ اختلاف ایسا نہیں جو مقصود قرآنی میں خلل انداز ہو۔ غرض تو یہ ہے کہ عورت سے مظالم جابرانہ کو دفع کیا جاوے۔ رہی یہ بحث کہ ایلا کے احکام مختلفہ کیا ہیں؟ اور ان میں ہر ایک کے دلائل کیا ہیں؟ سو کتب فقہ میں سب مذکور ہیں “ ” احق میں یہاں تفصیل نہیں جیسے کہ حدیث کے لفظ فان جاء صاحبھا فھوا حق بھا میں نہیں۔ “ اور اگر چھوڑنے کی ہی ٹھان لیں اور بعد چار مہینے کے بھی صلح صفائی نہ کریں اور منہ سے طلاق دیں یا دل میں اس کو چھپا دیں تو بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے ان کی طلاق ہوجائے گی۔ اور وہ عورتیں مطلقہ کہلائیں گی اور مطلقہ عورتیں تین حیضوں تک اپنے کو ٹھیرائے رکھیں جب تک وہ تین حیضوں سے بعد طلاق پاک نہ ہولیں نکاح ثانی نہ کریں۔ اگر بوجہ پیرانہ سالی کے حیض نہ آوے تو تین مہینے تک ٹھہریں اور اگر بوجہ حمل خون بند رہے تو وضع حمل تک انتظار کریں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹوں میں پیدا کر رکھا ہوا ہے اس کو بغرض جلدی نکاح نہ چھپاویں۔ اگر اللہ کو مانتی ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو ایسا ہی کریں اور خاوند ان کے جنہوں نے اب تک ایک یا دو ہی طلاقیں دی ہیں اس مدت کے اندر اندر پھیرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر ان کی غرض مصالحت کی ہو۔ بعد اس مصالحت کے تکلیف نہ دیں بلکہ جان لیں کہ جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی ان مردوں پر دستور کے موافق حقوق ہیں یہ نہیں کہ اپنے حقوق تو پورے لیں اور ان کے حقوق کی پرواہ نہ کریں حالانکہ مردوں کو عورتوں پر ایک قسم کی برتری ضرور ہے۔ یہ ان کے حاکم ہیں اور وہ ان کی گویا محکوم۔ پھر باوجود اس برتری کے ان پر ظلم کرنا گویا شان حاکمی کے خلاف ہے اور اب بھی اگر ان کے حقوق میں غفلت کریں گے تو سن لیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ان پر غالب ہے ان کی طرف سے خود بدلہ لے گا اور بڑی حکمت والا ہے کسی ایسے چکر میں پھنسائے گا کہ جہاں کا ان کو وہم وگمان بھی نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ہر ایک خاوند بعد طلاق روک سکتا ہے نہیں بلکہ جیسا ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں روکنے والی رجعی طلاقیں دو تک ہیں ! ” شان نزول :۔ عرب میں نہائت قبیح دستور تھا کہ عورت کی طلاق کی کوئی حد نہ تھی طلاق سے جب عدت گزرنے کو آوے تو خاوند رجوع کرلیتے اور پھر کچھ مدت بعد طلاق دے کر اسے خراب کرتے۔ پھر عدت کے قریب زبانی دارو مدار سے رجوع کرلیتے۔ جہاں تک چاہتے عورت کو تنگ کرتے رہتے ان کے منع کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی کہ روکنے والی دو ہی طلاقیں ہیں اور بس۔ “ ” (طلاق) اس مسئلہ طلاق پر مخالفین اسلام خفا ہیں جیسے کہ تعدد ازواج پر ناراض۔ مگر دراصل وہی مثل ہے ع گل ست سعدی و در چشم دشمنان خارست۔ تعدد ازواج کا جواب تو ہم اسی موقع پر دیں گے جہاں اس حکم کی آیت آئے گی۔ اور یہ بتلا دیں گے کہ اسلامی مسئلہ تعدد ازواج ہی عقل سلیم اور فطرت انسانی اور نظام عالم کے مطابق ہے۔ بالفعل یہاں طلاق کے ذکر کا موقع ہے۔ مخالف کہتے ہیں کہ طلاق کا مسئلہ رواج دینا اخلاق سے خلاف ہے جو اسلام نے کیا۔ کیونکہ جو شخص کسی دوسرے سے کچھ وقت بھی بسر کرے اور ہم راز بنائے اس کو ایسا چھوڑنا کہ پھر اس سے ملاپ ہی نہ ہو اخلاق سے کس قدر دور ہے۔ میں کہتا ہوں جس بنا پر اسلام نے اس مسئلہ کی اجازت دی ہے۔ وہ انسانی طبیعت کے موافق اور بالکل اصول معاشرت کے مطابق ہے۔ ہر ایک شخص اپنے خانگی معاملات پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ کوئی عورت تو ایسی ہوتی کہ ہمہ تن خاوند کی محبہ‘ پس و پیش یکساں خیر خواہ۔ حکم کی فرمانبردار۔ صورت کی دلکش۔ بخلاف اس کے بعض ایسی بھی ہوں جن کی مختصر کیفیت سعدی کے اس شعر میں ہے ؎ تھی پائے رفتن بہ از کفش تنگ۔ بلائے سفر بہ کہ درخانہ جنگ۔ زبان دراز۔ بدخو۔ منافق۔ بنے ہوئے گھر کو برباد کرنے والی۔ صورت کریہہ منظر۔ ایسی صورت میں آپ ہی بتلا سکتے ہیں کہ شخص مذکور کی عورت موصوفہ سے معاشرت کیسی ہوگی۔ دوسرا نکاح کرے تو بھی آپ صاحبان کی اجازت نہیں۔ ایسی بلا کے دفعیہ کو اسلام نے ایک اصول قائم کیا ہے جو نہایت ہی حسن معاشرت پر مبنی ہے وہ طلاق ہے۔ یہ بھی ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ اس کا بھی وہ طریق رکھا ہے کہ اگر معمولی سی خفگی ہو تو دور ہوجاوے۔ اور باہمی سلوک بھی ممکن ہو۔ وہ یہ کہ ایک مہینے ایک طلاق دیوے وہ بھی ایسے وقت میں دیوے جس وقت طبعی نفرت بھی اس عورت سے نہ ہو یعنی طہر (بندش خون) کے زمانہ میں دے جس وقت عموماً عورت اپنے آپ کو حتے المقدور دلکش بناتی ہے اس کے بعد بھی مرد کو اختیار ہے کہ اپنے اس کہنے سے پھرجائے اور عورت کو بلا کسی سزا دہی کے اپنے پاس بلالے اگر ایک مہینے میں بھی اس کی خفگی زائل نہ ہوئی تو دوسرے مہینے میں دوسری طلاق دیوے۔ پھر بھی اسے مثل سابق واپس بلانے کا اختیار ہے اور اس فعل پر بھی کوئی سزا نہیں۔ اگر اتنی مدت میں بھی اس کی ناراضگی نہ جائے اور صفائی نہ ہو تو اب اسے تیسری طلاق دینے کا اختیار ہے۔ پس اس طلاق سے (جس کی حد پر پہنچنے سے ان کی صفائی سے بھی مایوسی ہوتی ہے) بالکل علیحدگی ہوجائے گی چونکہ اتنی مدت مدید میں خاوند نے اپنی خفگی کو دور نہیں کیا اس لئے اگر وہ بعد طلاق ثانی کے اس کو واپس لانا چاہے تو اس کے لئے بدون ایک سزا بھگتنے کے یہ کام درست نہ ہوگا۔ وہ یہ کہ جب تک وہ عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے اس کے قبضے میں نہیں آسکتی تاکہ خاوند ثانی کی غیرت اس کے حق میں ایک قسم کی سزا ہو کہ اس کی ہٹ سے اس کی بیوی نے دوسرے کا منہ دیکھا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کی عورت ناراضگی کا کام کرے تو اسے زبان سے سمجھائے اگر نہ مانے تو اس کی طرف پیٹھ پھیر کر سوئے۔ اگر پھر بھی نہ مانے تو اس سے بسترا الگ کرلے۔ اگر اب بھی نہ مانے تو کسی قدر خفیف سا مارے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو طلاق دے۔ اس تفصیل سے مخالفین کے سوالات جڑ سے کٹ گئے۔ اس سے عمدہ حسن معاشرت بھی ہے؟ اور ہوسکتی ہے؟ ؎ بس تنگ نہ کر ناصح نادان مجھے اتنا یا چل کے دکھاوے دہن ایسا کمر ایسی “ پھر بعد اس کے یا تو اس کو روک لینے کا حق ہے۔ یا بھلائی سے رخصت کرنے کا حکم اور بھلائی میں یہ بھی داخل ہے۔ کہ اپنے دیے ہوئے میں سے کچھ نہ لو۔ ہاں جب دونوں (خاوند بیوی) یہ جانیں کہ ہم سے اللہ کے احکام متعلقہ زوجیت ادا نہیں ہونگے اور اس ملاپ میں ہمیں ہمیشہ تکلیف ہی رہے گی پھر اس صورت میں تم برادری کے لوگ بھی اگر بقرائین موجودہ یہ جانو کہ واقعی یہ دونوں خاوند بیوی احکام خدا وندی متعلقہ خانہ داری ادا نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں ان پر گناہ نہیں کہ عورت اپنے پاس سے کچھ دے کر رخصت لے (اس کا نام خلع ہے۔) یہ احکام اور اسی کی مثل اور بھی گویا حدود خداوندی ہیں پس ان سے نہ گذرو بلکہ بدل وجان ان پر کاربند رہو۔ اور جان لو کہ جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں اپنے ظلم کا بدلہ بے شک پاویں گے۔ پھر بعد ان دو طلاقوں کے جن میں خاوند عورت کو روک سکتا ہے اگر تیسری طلاق اس کو دے تو وہ اس کو حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے سوا اور خاوند سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر وہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے اور عدت بھی گذر جائے تو ان دونوں کو آپس میں ملاپ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر جانیں کہ احکام خداوندی متعلقہ زوجیت ادا کرسکیں گے ایسا نہ ہو کہ مثل سابق جوت پیزار کھڑکے یہ احکام مذکورہ گو یا اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ جیسا کہ بادشاہوں کے احکام متعلق رعیت ہوتے ہیں جاننے والوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو اس امر کو جانتے ہیں کہ احکام خدا وندی قابل تسلیم اور تعمیل ہوتے ہیں انہیں کو اس بیان سے فائدہ ہوتا ہے۔ البقرة
212 البقرة
213 البقرة
214 البقرة
215 البقرة
216 البقرة
217 البقرة
218 البقرة
219 البقرة
220 البقرة
221 البقرة
222 البقرة
223 البقرة
224 البقرة
225 البقرة
226 البقرة
227 البقرة
228 البقرة
229 البقرة
230 البقرة
231 (231۔242)۔ گو یہ احکام ابتدا سے عورتوں کو دفع ضرر کے لئے ہی ہیں۔ مگر تاہم ہم صاف اور صریح لفظوں میں تم سے کہتے ہیں کہ جب تم عورتوں کو ایک یا دو طلاق دے چکے اور وہ عدت ختم کرنے کو ہوں۔ تو اس حال میں تمہیں اختیار ہے کہ ان کو بھلے طریق سے رجوع کرکے اپنے پاس رکھ لو یا شریفانہ طرز سے چھوڑ دو اور یا درکھو کہ دکھ دینے کے لئے ان کو مت روکنا کہ ناحق ان پر ظلم کرنے لگو اور سن رکھو کہ جو کوئی ظلم کا کام کرے گا۔ تو جان لے کہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بلکہ اپنی ہی جان پر ظلم کیا ٖ۔ جس کا وبال اسے اٹھانا ہوگا پس تم دل سے ان حکموں کو مانو اور اللہ کی آیتوں اور قوانین کو ہنسی اور مسخری نہ سمجھو اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرو۔ اور اسے بھی یاد کرو جو تمہاری طرف کتاب اور تہذیب الحکمت اتاری ہے۔ اور ان پر عمل کرو اللہ تم کو اس کتاب کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے اور اس میں حکم ہے کہ اللہ سے ڈرو اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے تمہارا اخلاص اور غرور بھی اس سے مخفی نہیں اور یہ بھی اس سے مخفی نہیں کہ جو تم ناحق کے رنج اور کدورت میں اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے ملنے نہیں دیتے اس لئے تمہیں بتلایا جاتا ہے کہ جب تم اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے بوجہ ناچاقی کے طلاق دلاچکو اور وہ اپنی مدت ٹھیرنے کی پوری کرچکیں اور انہیں خاوندوں سے دوبارہ ان کی مرضی ہو تو تم ان کو ان کے پہلے خاوندوں سے جب وہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو اس امر کی خاص کر ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے بصدق دل اللہ کو مانتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ” شان نزول ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور عدت گزر گئی تو اسی عورت سے دوبارہ نکاح کی درخواست کی۔ عورت کی مرضی نکاح کرنے کی تھی لیکن اس کے بھائی نے بوجہ غیرت کے نکاح سے انکار کیا اور غیظ و غضب میں سخت سست بھی کہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) راقم کہتا ہے کہ یہ طلاق ایک یا دو ہوں گی اور مدت گذر چکی ہوگی اس لئے کہ اگر تین ہوتیں تو پہلی آیت کے موافق ان کا نکاح بدون نکاح ثانی کے درست نہ ہوتا۔ اس آیت کے متعلق اور توجیہیں بھی ہیں میرے نزدیک یہ بہت صحیح ہے “ غور کرو تو یہ حکم تمہارے لئے بڑا ہی ستھرا رہنے کا ذریعہ ہے اور بڑا ہی پاکیزہ ہے اور اللہ ہی اس کی خوبی کما حقہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ تمہیں تو اپنی روزمرہ کی باتیں بھی معلوم نہیں مثلاً شیر خوا بچہ کا دودھ پلانے کی مدت بھی تم نہیں جانتے کہ کتنی ہوتی ہے اس لئے ہم ہی ٹھیک ٹھیک بتلاتے ہیں کہ جو مائیں اپنے بچے کو پوری مدت دودھ پلانا چاہیں وہ پورے دو برس پلائیں اور جو اس سے پہلے ہی بچہ قوی تندرست جان کر چھڑا دیں تو انہیں اختیار ہے اور اس دودھ پلانے کی مدت میں ان کا ! کھانا کپڑا موافق دستور کے باپ کے ذمہ ہے۔ ” چونکہ بعد تولد بچہ کے خاوند بیوی میں علیحدگی بھی ہوجاتی ہے اس لئے یہ حکم فرمایا ورنہ خانہ دار عورت کا نفقہ تو خاوند کے ذمہ ہی ہوتا ہے۔ “ یہ نہ ہوگا کہ عورت اس کو مجبور کرے کہ میں پلاؤ ہی کھاؤں گی اور اطلس ہی پہنوں گی اور بچے کا باپ طاقت نہیں رکھتا بلکہ جس قدر اس کو وسعت ہو اتنا ہی دے اس لئے کہ ہر ایک نفس کو اس کی ہمت کے موافق ہی حکم ہوا کرتا ہے۔ نہ تو ماں اپنے بچے کی وجہ سے خاوند کو ضرر پہنچاوے کہ خواہ مخواہ خاوند سے زیادہ ہی مانگے اور نہ باپ اپنے بچہ کے سبب سے اس کی ماں کو تکلیف دے کہ خواہ مخواہ بلا ضرورت اس سے جدا کرکے کسی دوسری دایہ ہی سے دودھ پلوائے جس سے اس کی ماں کو بہ سبب جدائی بچہ کے تکلیف پہنچے غرض ہر ایک دوسرے کی آسائش اور آرام کے مخالف کام نہ کرے اور اگر باپ نہ ہو تو اسی قدر باپ کے وارثوں کے ذمہ ہے یعنی اگر تایا چچا یا دادا وغیرہ ہیں تو ان کے ذمہ ہے کہ اس بچہ کی پرورش کا خرچ اس کی ماں کو دیویں اگر وہ بھی نہ ہوں تو اسی بچہ کے مال سے جو اس کو وراثتاً باپ سے ملتا ہے اس کی ماں کا خرچ دیا جاوے پھر اگر وہ دونوں (ماں باپ) اپنی مرضی اور مشورہ سے بچے کو قوی لائق کھانے پینے کے جان کر مدت سے پہلے ہی دودھ بڑھانا یعنی چھڑانا چاہیں تو اس بڑھانے میں ان پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ ماں باپ سے زیادہ شفیق دنیا بھر میں کوئی نہ ہوگا مناسب قوت بچے کے جب چاہیں بڑھا سکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے مشورہ کر کے کسی دایہ سے اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو اور بچے کی ماں سے وعدہ کرلو کہ ہم بچے کو تجھ سے ہر روز یا دوسرے روز ملا دیا کریں گے اور وہ اس کو مان بھی جائے تو اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ ان کی دائیوں سے دینا کیا ہے دستور کے موافق دے دیا کرو۔ یعنی ماؤں اور دائیوں سے حسب وعدہ برتاؤ کرو اور اس ایفاء عہد میں اور نیز دیگر امور دینی اور دنیاوی میں اللہ سے ڈرتے رہو اور دل سے جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے یہ احکام مذکورہ متعلق زیست تو سن چکے ہو۔ اب کسی قدر موت کے متعلق بھی سنو ! جو لوگ مرتے ہوئے اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ بیویاں ان کے ماتم میں چارمہینے دس روز سوگ میں بیٹھا کریں ” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ شوہر کی موت کے بعد ایک سال تک بیوہ ماتم میں رہتی اور کسی قسم کی غلاظت بھی بدن سے دور نہ کرتی بعد ایک سال کے کسی چارپایہ کے منہ سے اپنا فرج لگا کر ایک مینگنی اپنے سر کے اوپر سے پیچھے کو پینک دیتی جس سے اس کی عدت کا خاتمہ سمجھا جاتا چونکہ اس قدر درازی مدت عورت کے لئے بلائے عظیم تھی اس کی مدت کم کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی “ پھر جب اپنی مدت پوری کرچکیں۔ تو جو کچھ وہ اپنے حق میں موافق دستور زیب وزینت بغرض نکاح ثانی کریں تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں تم اس سے ناراض نہ ہو اور اگر بوجہ بیہودہ عار اس امر کے کہ ہماری بہن یا بھاوج دوسرے سے نکاح کیوں کرتی ہے ان کو منع کروگے تو یادرکھو کہ اللہ تمہارے کاموں سے پوری خبر رکھتا ہے خوب ہی سزا دے گا۔ اور یہ بھی مت کرو کہ یہ سمجھ کر کہ بعد عدت کسی اور سے نکاح نہ کرے ابھی سے اس کا انتظام کرلو۔ ہاں اس میں تم پر گناہ نہیں کہ اشاروں سے پیغام نکاح پہنچاؤ مثلاً کسی ایسے شخص سے کہو جو اس عورت سے ملنے والا ہو۔ مرد یا عورت کہ اگر کوئی عورت پاک دامن ہمیں مل جائے تو ہم اس سے نکاح کرلیں یا اسی عورت ہی کو اشاروں سے کہہ دو کہ تیرے جیسی شریف عورت کو کون نہیں چاہتا یا اپنے جی میں اس راز کو چھپائے رکھو کہ بعد عدت میں اس سے نکاح کروں گا۔ اس سے بھی اگر تم کو روکا جاوے تو تم رک نہیں سکتے اس لیے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان کو ضرور یاد کرو گے اس امر کا کسی نہ کسی طرح سے اظہار بھی کروگے سواتنی کی تو اجازت ہے لیکن چپکے چپکے ان سے وعدہ نہ لیا کرو کہ ہم سے نکاح کرنا‘ ہاں اتنی اجازت ہے کہ بھلی بات ان سے کہو جس سے وہ تمہاری خواہش دریافت کرکے بعد فراغت ماتم سے تمہارا خیال رکھیں۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ نکاح کا وعدہ ہرگز پختہ نہ کیجو جب تک کہ عدت پوری نہ ہولے اس لئے کہ ماتم کے زمانہ میں عورت حواس باختہ ہوتی ہے ایسے وقت میں اسے تمیز نہیں ہوتی کہ کس سے کرنا ہے کس سے نہیں کون لائق ہے کون نالائق وہ بیچاری غم رسیدہ مردکانام بھی غنیمت سمجھتی ہے چاہے انجام اس کا اچھا ہو یا برا۔ لیکن بعد عدت جوایک زمانہ دراز ہے سب کچھ سوچ سمجھ کر کرے گی۔ جس کا انجام بھی اچھا ہوگا۔ سو تم ان کو ایسی مصیبت کے وقت کچھ نہ کہو اور جان لو کہ اللہ تمہارے دل کی باتیں بھی جانتا ہے سو اس سے ڈرتے رہو جس قدر اس نے اجازت دی ہے اسی پر اکتفا کرو اور جو کچھ غلطی ہوجاوے اس پر توبہ کرو۔ اور توبہ کرتے ہوئے دل سے جانو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔ ایسا نہیں کہ تھوڑے سے گناہ پر سخت عذاب نازل کردے اس بردباری کی وجہ سے تمہاری توبہ پر زیادہ توجہ ہوگی اس لئے کہ جو کوئی بالادست حاکم کو باوجود بردبار سمجھنے کے اس سے ڈرتا ہے اس کے آگے گڑگڑاتا ہے اس سے اچھا ہے جو اس کو غضب ناک جان کرنادم ہو اور ڈرے یہ بھی اس کی مہربانی کے آثار ہیں کہ تم کو سمجھاتا ہے کہ اگر بوجہ کسی خرابی ظاہری یا باطنی کے ملاپ کے ذریعہ عورتوں کو چھونے اور مہر باندھنے سے پہلے ہی طلاق دیدو تو تمہیں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کو بے عزت نہ کرو۔ اور کچھ خرچ ان کو دیا کرو۔ یہ نہیں کہ سو ہزار دینا فرض ہے نہیں بلکہ وسعت والا اپنے مناسب اور تنگی والا اپنے مناسب اچھی طرح گذارہ دستور کے موافق دیوے۔ گو یہ حکم عام طور پر بھی ہے لیکن بھلے لوگوں پر واجب ہے کہ دیویں کیونکہ وہ تو حتی المقدور کسی کی دل شکنی نہیں کیا کرتے پھر ایسے موقع پر کیوں نہ دیں جہاں چند پیسوں سے کسی زخم خودرہ کی دلجوئی ہوسکے اور اگر مہر باندھ کر ژقاف یعنی خاوند بیوی کے ملاپ سے پہلے طلاق دو تو مقررہ مہر سے نصف دینا تم پر واجب ہے ” شان نزول : ایک شخص نے انصار میں سے ایک عورت سے نکاح کیا تھا اور مہر بھی پختہ ٹھیرا تھا کہ ملنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے رنجش ہونے پر طلاق دے دی اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “ مگر جب عورتیں سب ہی معاف کردیں یا خاوند جو نکاح کا مالک ہے اپنا دیا ہوا سارا چھوڑدے اور نصف واپس نہ لے تو کوئی حرج نہیں اور حق تو یہ ہے کہ اگر پہلے دے چکے ہو تو سارا ہی معاف کرنا پرہیز گاری اور احسان کے زیادہ مناسب ہے اگر محسن ہو تو دیا ہوا واپس نہ لو اور باہمی احسان کرنا نہ سمجھ لو اس احسان کا عوض ضرور پاؤگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ عورتوں کے جھگڑوں میں پھنس کر اللہ کی یاد ہی بھول جاؤ اسی لئے ہم تمہیں خبردار کرتے ہں۔۔ کہ پنجگانہ نمازوں ! کو اپنے اپنے وقت میں جماعت سے ادا کیا کرو خاص کر درمیانی نماز یعنی عصر کی پورے طور سے نگہبانی کرو۔ ”(حافظوا) صحابہ کرام نماز میں ایک دوسرے سے باب چیت کرلیا کرتے تھے ان کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی معالم “ اور اللہ کے آگے نماز پڑھتے ہوئے عاجزی سے کھڑے ہوا کرو۔ یہ جان کر اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے دلی ارادوں کو دیکھتا ہے تم اگر نماز کے وقت کسی دشمن کے حملہ سے ڈرو تو تمہیں اختیار ہے کہ پاپیا وہ پڑھو یا سوار جس طرح تم کو اپنا بچاؤ معلوم ہواسی طرح کرو مقصود صرف توجہ الی اللہ ہے نہ کہ استقبال قبلہ پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو نماز میں اللہ کو یادر کیا کرو۔ جیسا کہ اس نے اپنے رسول کی معرفت تم کو سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے اس لئے کہ رسول کے بھیجنے سے غرض اصلی یہی ہوتی ہے کہ جس امر دینی کو قوم نہ جانتی ہو ان کو بتادے اور ان کی بیہودہ رسوم کو مٹا دے جیسے کہ تمہاری یہ رسم ہے کہ جو شخص مرتے وقت کہہ مرے کہ میری بیوی میرے مرنے کے بعد میرے ہی مکان میں ایک سال تک رہ کر گذارہ کرے تو اس کی بیوی پر ضروری ہوتا ہے کہ ایسا ہی کرے اور اس کے ورثا بھی اس بیچاری کو مجبور کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک بے ہودہ رسم ہے جس سے اس بیوہ پر ازحد تکلیف ہوتی ہے اتنی مدت مدیدہ میں وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ہے پس اس رسم قبیح کے مٹانے کو ہم حکم دیتے ہیں۔ ” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ مرتے ہوئے اگر خاوند اس مضمون کی وصیت کرجاتا تو خاوند کے ورثاء پر اس کی پابندی ضروری ہوتی ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی “ کہ جو لوگ مرتے ہوئے بیویاں پیچھے چھوڑ جائیں اور بغیر نکالنے کے سال بھر تک ان بیویوں کو خرچ دینے کی وصیت بھی کرگئے ہوں ! پھر بھی وہ عورتیں اگر بعد چار مہینے دس روز عدت شرعی پوری کرکے ان خاوندوں کے گھروں سے نکل جائیں۔ تو ان کو روکو نہیں اس لئے کہ جو کچھ وہ دستور کے موافق اپنے حق میں زیب وزینت بغرض نکاح کریں گی اس میں تم پر گناہ نہیں اور اگر تم ان کو روکو گے یا وہ خود ناجائز طریقے سے شرع کی مخالفت کریں گے تو اللہ ان کو خود سزا دے سکتا ہے اس لئے کہ اللہ ہر کام پر غالب ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا دنیا میں کسی ایسی بلا میں پھنسا دے گا کہ تمہیں پہلے سے اس کی خبر تو کجا وہم بھی نہ ہو پس اس سے ڈرو ”(وصیت بھی کرگئے ہیں) اس آیت کی تفسیر میں بھی قدرے اختلاف رائے ہوا ہے بعض بلکہ اکثر مفسرین اس کی تفسیر اسے طرز سے کرتے ہیں جس سے انہیں اس آیت کو منسوخ ٹھیرانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں ” جو لوگ فوت ہوں وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال کامل تک ان کو گذارہ ملے“ اور یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ بعد اس کے چار مہینے دس روز عدت والی آیت (جو اس سے پہلے آچکی ہے) نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ بعض صاحب کہتے ہیں کہ پہلی آیت اور اس آیت کے اپنے اپنے موقع پر معنے ہیں منسوخ ان میں سے کوئی نہیں۔ اگر عورت بعد وفات شوہر خاوند کے گھر میں رہنا پسند نہ کرے تو وہ چار مہینے دس روز عدت گذارے اور اگر اس میں رہنا پسند کرے تو سال بھر رہے۔ تیسری توجیہ اس آیت کے متعلق یہ ہے کہ ” جو لوگ مرتے ہوئے وصیت کر جاتے تھے کہ میری بیوی کو سال تک نہ نکالنا اور اس کا سارا خرچہ دیتے رہنا۔“ ان کی اس رسم کو مٹانا منظور ہے اختلاف اس لئے ہے وَصِیَّۃً سے پہلے ایک فعل محذوف ہے کیونکہ وصیت مفعول مطلق یا مفعول بہ ہے اس کا فعل محذوف ہے سو پہلے لوگ اس کا فعل فَلْیُوْصُوْا نکالتے ہیں جس کے معنے ہیں ” پس وصیت کر جائیں“ اور بعض علماء وَقَدْ اَوْصَوْا نکالتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ” وصیت کر گئے ہوں“ تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے اس توجیہ کے کرنے پر تین دلیلیں لکھی ہیں جو یہ ہیں :۔ (احدھا) ان النسخ خلاف الاصل فوجب المصیر الی عدمہ بقدر الا مکان (والثانی) ان یکون الناسخ متاخرا عن المنسوخ فی النزول واذا کان متاخرا عنہ فی النزول کان الاحسن ان یکون متاخراً عنہ فی التلاوۃ ایضا لان ھٰذا الترتیب احسن فاما تقدم الناسخ علے المنسوخ فی التلاوۃ فھو وان کان جائزا فی الجملۃ الا انہ یعد من سوء الترتیب وتنزیہ کلام اللّٰہ تعالیٰ عنہ واجب بقدر الا مکان ولما کانت ھٰذہ الاٰیۃ متاخرۃ عن تلک فی التلاوۃ کان الاولیٰ ان لایحکم بکونھا منسوخۃ بتلک (والوجہ الثالث) وھو انہ ثبت فی علم اصول الفقہ انہ متی وقع التعارض بین النسخ وبین التخصیص کان التخصیص اولیٰ وھھنا ان خصصنا ھاتین الاٰیتین بالحالتین علیٰ ماھو مذھب مجاھد اندفع النسخ فکان المصیر الیٰ قول مجاھد اولی من التزام النسخ من غیر دلیل وامآ علیٰ قول ابی مسلم فالکلام اظھر لانکم تقولون تقدیر الاٰیۃ فعلیھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا فلیوصوا وصیۃ فانتم تضیفون ھذا الحکم الیٰ اللّٰہ تعالیٰ وابومسلم یقول بل تقدیر الاٰیۃ والذین یتوفون منکم ولھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا وقد اوصوا وصیۃ لازواجھم فھو یضیف ھٰذا الکلام الیٰ الزوج واذا کان لابد من الاضمار فلیس اضمارکم اولیٰ من اضمارہ ثم علیٰ تقدیر ان یکون الا ضمارما ذکرتم بلزم تطرق النسخ الیٰ الاٰیۃ وعند ھٰذا یشھد کل عقل سلیم بان اضمار ابی مسلم اولیٰ من اضمارکم وان التزام ھٰذا النسخ التزام لہ من غیر دلیل مع ما فی القراٰن بھٰذا النسخ من سوء الترتیب الذے یجب تنزیہ کلام اللّٰہ عنہ وھٰذا کلام واضح واذا عرفت ھٰذا فنقول ھٰذہ الاٰیۃ من اولھا الیٰ اٰخرَھا تکون جملۃ واحدۃ شرطیۃ فالشرط ھو قولہ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الیٰ الحول غیر اخراج فھٰذا کلہ شرط والجزاء ھو قولہ فان خرجن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن من معروف فھٰذا تقریر قول ابی مسلم وھو فے غایۃ الصحّۃ (جلد ثانی ص ٢٩٢) ایک ! تو یہ کہ نسخ اصل کے خلاف ہے (یعنی اصل یہ ہے کہ ہر حکم جناب باری کا بحال رہے) پس حتی المقدور اسی طرف رجوع ہونا چاہیے (دوسری ٢ؔ دلیل) یہ ہے کہ ناسخ منسوخ سے اترنے میں پیچھے ہو۔ جب نزول میں پیچھے ہو تو انسب ہے کہ پڑھنے میں بھی پیچھے ہو اس لئے کہ یہی ترتیب (کہ ناسخ دونوں طرح منسوخ سے پیچھے ہو) بہت عمدہ ہے گو کہ کسی قدر ناسخ کا منسوخ سے پڑھنے میں پہلے ہونا بھی جائز ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ترتیب (کہ ناسخ پڑھنے میں پہلے ہو) اچھی نہیں سمجھی جاتی اور جہاں تک ہوسکے ایسی بے ترتیبیوں سے کلام اللہ کو پاک سمجھنا چاہیے اور یہ آیت (جس کو منسوخ ٹھیراتے ہیں) اس ناسخہ سے پڑھے جانے میں پیچھے ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کو اس سے منسوخ نہ ٹھیرایا جاوے۔ (تیسری دلیل) کا خلاصہ ١ ؎ بھی یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے دو آیتوں کو جمع کرنا ہی بہتر ہے منسوخ کرنے سے (اس کے بعد امام علام نے محاکمہ کیا ہے کہ) یہ تقریر ابومسلم کی نہایت ہی صحیح ہے“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علام امام رازی مرحوم بھی اسی کو پسند کرتے ہیں۔ حدیث ہے جو بخاری مسلم نے ام سلمہ کی روایت سے بیان کی ہے کہ ایک عورت نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری لڑکی کا شوہر فوت ہوگیا ہے اور قبل عدت اس کی آنکھیں دکھتی ہیں اس کو سرمہ لگا دیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں اب تو عدت صرف چار مہینے دس روز ہے اتنے میں تم کھساھ جاتی ہو اور ایام کفر میں تو کامل ایک سال تک اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں اور بعد سال کے حسب دستور مینگنی ڈالا کرتی تھیں۔ اس حدیث شریف میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے اس عورت کو سال بھر عدت کا عار دلانے کے لئے ایام کفر یاد دلائے اور یہ نہ فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حکم سال بھر بیٹھنے کا تھا۔ اب اس نے اپنی مہربانی سے چار مہینے دس روز کردیئے ہیں تم اب بھی گھبراتی ہو۔ اس سے دلالۃً مفہوم ہوتا ہے کہ سال بھر عدت اسلام میں پہلے نہیں تھی جس کو منسوخ کہا جائے اگر کوئی صاحب کہیں کہ ان ایام کفر کے یاد دلانے سے ان کی مینگنی کی رسم کی مذمت کا بیان کرنا منظور تھا سو قلت مدبر ہے سیاق حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدت سابقہ کی درازی کا جتلانا منظور ہے۔ نہ کہ مینگنی کا جھگڑا جسے طول یا قصر مدت سے کوئی بھی علاقہ نہ ہو۔ بہر حال یہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے میں نے اس آیت کو منسوخ نہیں ٹھیرایا۔ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم “ ( ای متمضمن للشرط۔ اس دلیل کی تقریر چونکہ اصولی طرز پر ہے جو عوام سمجھ نہیں سکتے اور خواص عربی ہی میں سمجھ سکتے ہیں اس لئے اسکا ترجمہ نہیں کیا۔ ) “ اور طلاق والیوں کا موافق دستور جو گذارہ ہے وہ ان کو دیا کرو بالخصوص پر ہیز گاروں یعنی نیک وکاروں پر ضروری ہے اس لئے کہ وہ عدت کے دنوں میں تمہارے ہی فراق میں ہیں تمہارے ہی زخم رسیدہ ہیں پھر کیا انصاف ہے کہ ان کی خبر نہ لو اسی طرح تمہارے لئے اللہ اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو اگر مال کی کمی سے ڈرتے ہو تو کیا تم نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہے تو بغیر خرچ کرنے کے بھی اس کو ضائع کردے۔ یہ تو مال ہی ہے اللہ تو ایسا زبردست مالک ہے کہ تمہاری جانیں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو ایک ہی آن میں تم سب کو فنا کردے البقرة
232 البقرة
233 البقرة
234 البقرة
235 البقرة
236 البقرة
237 البقرة
238 البقرة
239 البقرة
240 البقرة
241 البقرة
242 البقرة
243 (243۔252 (۔ کیا تمہیں ! ان لوگوں کا قصہ معلوم نہیں جو اپنے"گھروں سے ہزاروں جمع ہو کر موت سے ڈرتے ہوئے نکلے تھے یہ سمجھ رہے تھے کہ نکلنے سے ہماری جان سلامت رہے گی جیسا تم سمجھتے ہو کہ مال کے روکنے سے مال بچ رہے گا۔ اور خرچ سے کم ہوگا۔ پھر اللہ نے ان کو حکم دیا کہ مر جاؤ فوراً مرگئے پھر اس نے ان کو زندہ کیا ” شان نزول :۔ مشرکین عرب قیامت سے منکر تھے اور ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ مر کر زندہ ہونا ایک محال امر ہے ان کے مقابلہ میں یہ آیت دلیل نقلی کے طور پر نازل ہوئی “ ”(جو اپنے گھروں سے) ان لوگوں کی تعیین میں اختلاف ہے کہ کون تھے۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ ایک بستی میں وبا پڑی تھی وہاں کے بعض اشخاص نکل کر دوسری جگہ چلے گئے جب بعد دفع وبا کے واپس آئے تو ان کی صحت دیکھ کر پیچھے رہنے والوں نے کہا کہ اگر اب کے وبا پڑی تو ہم بھی نکل جائیں گے اتفاقاً پھر ایک دفعہ وبا پڑی تو وہ لوگ بھی نکل بھاگے۔ راہ ہی میں اللہ نے ان کو فوت کردیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے بنی اسرائیل میں سے اپنی قوم کو جہاد کا حکم دیا۔ وہ بہانہ کرتے ہوئے بولے کہ جس ملک میں ہمیں جانا ہے اس میں وبا ہے جب تک آرام نہ بنو لے ہم نہیں جائیں گے پس اللہ نے ان سب کو مار دیا ان کی دلیل ہے کہ اس سے آگے اللہ تعالیٰ جہاد کی ترغیب دیتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ بھی مجاہدین کا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حزقیل نبی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جہاد کی ترغیب دی تھیں وہ اس سے گھبرائے تو انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ ان کو کوئی نشانی انہیں کی جانوں میں دکھا تاکہ یہ تیرے حکم کو مانیں پس اللہ نے ان کو مار دیا اور پھر زندہ کیا۔ ان روایتوں سے کوئی روایت صحیح ہو یا کوئی غلط۔ قرآن کے مضمون کو اس سے بحث نہیں۔ قرآن کریم سے اتنا تو بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کو مار کر پھر زندہ بھی کیا۔ باقی رہی سر سید اور مرزا صاحب قادیانی کی تاویلات (یاتحریفات) سو الفاظ قرآنی کے مقابلہ میں تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہیں۔ ہرگز اس قابل نہیں کہ ادھر توجہ کی جائے کیونکہ دلائل عقلیہ سے احیاء اموات کا امکان اور نقلیہ سے اطلاق ثابت ہے۔ رہا سپر نیچرل (خلاف عادت) سو اس کا مفصل جواب پہلے گذر چکا “ تاکہ وہ اور ان کے اس قصہ کے سننے والے عبرت پاویں اور یہ سمجھیں کہ ہماری زندگی ہماری ترقی ہماری عمدہ تدبیروں پر مبنی نہیں بلکہ اصل میں سب اللہ کی مہربانی ہے بے شک اللہ لوگوں کے حال پر بڑا ہی مہربان ہے لیکن بہت سے لوگ اس مہربانی کا شکریہ نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی ترقی اور اپنی صحت اور سلامتی اپنی تدابیر ناقصہ سے جانتے ہیں۔ یہی شکر نہیں کہ ہر کام میں زبانی شکر شکر کیا کرو۔ بلکہ شکریہ ہے کہ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ بھی کرو اور (مسلمانو !) جب موقع ہو تو اللہ کی راہ میں مخالفوں سے لڑاکرو۔ اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک کی سنتا ہے اور جانتا ہے بعض لوگ جب خرچ کرنے کا نام سنتے ہیں تو ان پر مثل موت کے گراں گذرتا ہے یہ نہیں جانتے کہ دیا ہوا کہیں جانے کا نہیں آخرتم دنیا میں قرض بھی تو ایک دوسرے کو دیتے ہو۔ جو بعد مدت تم کو وصول ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کوئی ہے جو اللہ کو بھی قرض حسنہ ہی سمجھ کر دے پھر اس کی طرف سے تمسک لکھوالے کہ اخلاص مندی پر وہ کئی گنازیادہ اس کو دیگا ” جہاد وغیرہ ضروریات مذہبی اور قومی میں خرچ کرنے کی ترغیب دینے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ “ پس اے سودخوارو ! دنیا میں چار آنے آٹھ آنے روپیہ سینکڑا سو دلینے والو ! آؤ غربا پر احسان کرو اور اللہ سے اس کے عوض میں کئی گنا سود لو اور اگر اب بھی باز نہ آؤ تو یادرکھو کہ اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتا ہے سیدھے منہ نہ دوگے تو اسے تنگ کردینا بھی آتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ دوگے اس سے زیادہ تم کو دے گا۔ آخر تو تم نے اس کی طرف لوٹنا ہے اپنی بھلے کی سوچو اور بعض کوتاہ اندیشوں کی طرح بوالہوس نہ بنو کہ باوجود جاننے مفید کام کے محض اپنی عافیت ظاہری چند روز کے لئے ان سے منہ پھیر جاتے ہیں جس کی وجہ سے آخر کار دقت پر دقت ان کو نصیب ہوتی ہے۔ کیا مثال کے لئے تمہیں بنی اسرائیل کی جماعت کا قصہ حضرت موسیٰ کے بعد کا معلوم نہیں ” شان نزول :۔ ! جہاد میں ترغیب دینے کو یہ آیت بصوراک تاریخی واقع کے نازل ہوئی۔ “ جب انہوں نے خود ہی اپنے وقت کے نبی سے درخواست کی تیص کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ اعلیٰ فوجی افسر مقرر کردے جس کے ساتھ ہو کر ہم اللہ کی راہ میں اپنے دشمنوں سے جن کے ہاتھ سے ہم جاں بلب ہیں لڑیں اس (نبی) نے کہا کہ اگر اس بادشاہ کی طرف سے تم کو لڑنے کا حکم ہوا تو تم سے لڑنے کی امید نہیں تم تو بزدلی سے بھاگ جاؤ گے وہ بولے کہ اللہ کی راہ میں ہم کیوں نہ لڑیں گے حالانکہ اس سستی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ملک اور بال بچوں سے نکالے گئے ہیں اور سب مال اسباب ہمارا دشمنوں نے لوٹ لیا پس خلاصہ یہ کہ جب ان کو بادشاہ کی طرف سے لڑنے کا حکم ہوا تو سوائے چند اشخاص کے سب نے پیٹھ دیدی اور بد عہدی سے اپنی جانوں پر ظلم کئے جس کی سزا ان کو بھگتنی پڑی اس لئے کہ اللہ تو ظالموں کو خوب جانتا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ برطبق ان کی خواہش کے ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے ایک شخص طالوت کو (جو بوجہ) اپنی دینداری اور لیاقت علمی کے اس کام کے لائق ہے بادشاہ (اعلیٰ افسر) بنایا ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرو۔ اور اس کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں دشمنوں سے لڑو۔ انہوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے اس کی لیاقت اور دین داری پر تو غور نہ کی اور ظاہر بینوں کی طرح جھٹ سے بولے کہ بھلا وہ ہم پر کیسے حاکم ہوسکتا ہے حالانکہ ہم اس سے حکومت کا حق زیادہ رکھتے ہیں اس لیے کہ ہم تو کسی قدر مالدار بھی ہیں اسے تو مال کی بھی چنداں فراخی نہیں ہے۔ اس نبی نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ گو مال اس کے پاس نہیں اور نہ مال کی اس میں چنداں ضرورت ہے جن امور کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ تو تین ہی باتوں میں منحصر ہیں ایک تو دینداری کہ ناحق کے ظلم وستم نہ کرتا پھرے دوسری لیاقت علمی کہ امور مملکت کو بخوبی انجام دے سکے۔ تیسری کسی قدر جسامت اور ظاہری ڈیل ڈول بھی ہو ایسا دبلا پتلا بھی نہ ہو کہ دیکھنے سے بجائے ہیبت کے بے رعبی ہو۔ سو ان تینوں باتوں میں وہ کامل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ نے اس کو تم پر بزرگی دی ہوئی ہے اور علم بھی اس کو وسیع دیا ہوا ہے۔ اور بدن میں فربہی ( تروتازگی) بخشی ہے۔ علاوہ اس کے یہ ہے کہ اللہ اپنا ملک اور اس کی حکومت جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم سوال کرو اور اپنے استحقاق جتلاؤ مناسب غیر مناسب کو وہ خود ہی جانتا ہے تمہارے جتلانے کی حاجت نہیں اور اللہ بڑی ہی وسعت والا علم والا ہے باوجود اس بیان شافی کے انہوں نے قناعت نہ کی اور اس نبی سے اس کی حکومت کی نشانی مانگی جس کے جواب میں ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا ”(صندوق آئے گا) اس کا نام تابوت سکینہ تھا اس میں بنی اسرائیل کے بزرگوں کے تبرکات رکھے رہتے تھے لڑائی کی وقت بنی اسرائیل اس کو میدان جنگ میں بڑی جانفشانی سے لڑتے ایک تو اس کے سبب سے جوش مذہبی ہوتا تھا۔ دوم یہ خطرہ رہتا کہ کہیں سستی کرنے سے دشمن اس کو لوٹ نہ لیں۔ جس کا لٹ جانا ان کو ایسا ناگوار تھا۔ جیسا کہ امت میں نبی کا قتل ہوجانا مگر بنی اسرائیل کے ضعف سے آخر تابوت سکینہ مخالفوں کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اس کو بڑی بے ادبی سے پائخانہ میں رکھا تھا۔ جس کا بنی اسرائیل کو سخت رنج تھا۔ نبی نے ان کو خوشخبری سنائی کہ طالوت کی حکومت کی یہ علامت ہے کہ تابوت سکینہ تمہارے پاس آجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مخالفوں نے اس کو نکال کر بیل گاڑی میں لادا تو بیل فرشتوں کی تحریک سے سیدھے بنی اسرائیل میں چلے آئے بنی اسرائیل اس کو دیکھ کر شاد شاد ہوئے اور مقابلہ میں جان توڑ کر لڑے اور فتح یاب ہوئے “ جس میں اللہ کی طرف سے تمہیں تسکین ہوگی اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی قوم کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہوں گی یعنی عصا وغیرہ بزرگوں کی مستعملہ اشیاء ہونگی جن کو بنی اسرائیل بڑی متبرک سمجھتے تھے فرشتے اس کو اٹھائے ہوئے لاویں گے اور تمہارے بیچ میں رکھ دیں گے جس کے دیکھنے سے تمھیں تسلی ہوجائے گی۔ بیشک اس صندوق کے اس طور سے آنے میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہوگی اگر تم ماننے والے ہوئے تو اسی پر قناعت کروگے اور اگر ضدی ہوئے تو کوئی علاج نہیں چنانچہ ایساہی ہوا اور بعد دیکھنے اس واقعہ کے ان کے دلوں میں غیرت مذہبی اور غیظ ملکی جوش زن ہوا اور انہوں نے اس طالوت کو اپنا حاکم سمجھا پس اس نے فوج کی کمان شروع کی اور جہاد کے لئے سب نے تیاری بھی کرلی مگر چونکہ ان میں بہت سے ناآزمودہ کار اور خام جوشیلے تھے۔ نیز بسا اوقات کثرت ہجوم سے انتظام میں خلل بھی آجاتا ہے جس کے سبب سے انجام کار ہزیمت ہوجاتی ہے اس لئے ایسے وقت میں کسی زبردست پالیسی (حکمت عملی) کی ضرورت تھی پس اس نے ایسا ہی کیا کہ جب طالوت اپنی فوج کے ساتھ باہر کو چلا تو بولا کہ اللہ تم کو ایک نہر کے پانی سے آزمائے گا۔ پس جو شخص اس نہر سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہوگا۔ مگر جو شخص بوجہ شدت پیاس کے ایک چلو ہاتھ سے بھر لے گا اس کو معافی دی جائے گی پس جب لوگ اس نہر پر پہنچے تو سوائے چند لائق اشخاص کے سب نالائقوں نے اس سے پانی پی لیا۔ پس طالوت نے اپنے پہلے حکم کے مطابق ان کو علیحدہ کردیا پھر جب وہ اور اس کے حکم کے ماننے والے مخلص تابعدار اس کے ساتھ اس نہر سے آگے بڑھے۔ تو بعض لوگ دشمن (جالوت) کی شوکت دیکھ کر بول اٹھے کہ آج تو ہم میں جالوت اور اس کی فوج کے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں لیکن سب یکساں نہیں ہوتے جن لوگوں کو یقین تھا کہ اللہ کی مدد پاویں گے۔ وہ ان کے جواب میں بولے کہ گھبراتے کیوں ہو کیا ہوا اگر دشمن کی فوج عظیم اور بے شمار وباشوکت ہے بہت دفعہ تھوڑے لوگ بہتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجایا کرتے ہیں تم اللہ پر بھروسہ کرو اور اگر کچھ تکلیف پہنچے تو صبر کرو اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے۔ اور ان کے اس کہنے سے سب فوج کو تسلی ہوگئی اور مستقل ہو کر آگے بڑھے اور جب وہ جالوت کی فوج کے مقابل لڑنے کو آئے تو سب سے پہلے وہ اللہ سے مستدعی ہوئے کہ اے ہمارے مولا ! ہمیں تکلیفوں پر صبر عطاکر اور دشمنوں کے مقابلہ میں ہمارے قدم مضبوط رکھ اور ہمیں ان کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر بے شک تو ہی اپنے بنددوں کا مددگار ہے۔ اور تیری مدد سے بیڑا پار ہے پس اللہ نے ان کی یہ مخلصانہ دعا قبول کرلی اور انہوں نے ان سب جالوطیوں کو اللہ کے حکم سے بھیگا دیا اور ان کے بادشاہ جالوت کو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو ان دنوں جوان اور طالوت کی فوج میں سپاہی تھے‘ قتل کیا پھر تو طالوت کی فتح نمایاں ہوگئی اور اللہ نے داؤد کو طالوت کے بعد سب ملک کا اختیار دیا اور اصل تہذیب اور شائستگی جو حکومت کے لئے ضروری ہے حضرت داؤد کو سکھائی اور بوقت ضرورت اس داؤد نے جو سیکھنا چاہا اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھایا جس کے سبب سے اس کا لقب خلیفۃ اللہ ہوگیا پھر تو ان کے تمام دشمن دب گئے اور فتنہ وفساد فرد ہوگئے بے شک اگر اللہ بعض لوگوں ظالموں کو بعض عادلوں کے ذریعہ سے دفعہ نہ کرے تو زمین سب خراب ہوجائے۔ لیکن اللہ ایسے ظالموں کو جن کا ظلم اپنی حد تک پہنچ جاتا ہے ضرور ہلاک کرتا ہے اس لئے کہ وہ دنیا کے رہنے والوں پر بڑا ہی مہربان ہے کہ ان کے نقصانات کو کسی قسم کے ہوں جسمانی یاروحانی پورا کردیتا ہے یہ قصہ اور اس کے مشابہ ہماری بتلائی ہوئی خبریں ہیں ان کو ہم تجھ سے واقعی طور پر بیان کرتے ہیں اور تو بھی صحیح طور سے لوگوں کو سناتا ہے اس لئے کہ بے شک تو اللہ کے رسولوں سے ہے جیسے کہ وہ غائب کی خبریں با طلاع الٰہی سنایا کرتے تھے اسی طرح تو بھی بتلاتا ہے البقرة
244 البقرة
245 البقرة
246 البقرة
247 البقرة
248 البقرة
249 البقرة
250 البقرة
251 البقرة
252 البقرة
253 (253۔257)۔ گو رسالت کے مرتبہ میں سب برابر ہیں آغاز الجز الثالث من التفسیر :۔ مگر تاہم ہم نے ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر بزرگی اور فضیلت دی ہے۔ مثلاً تجھ کو اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سب سے افضل بنایا۔ اور بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جن سے اللہ نے باتیں بھی کیں جیسے حضرت موسیٰ اور بعض کے کسی اور وجہ سے درجہ بلند کئے اور عیسیٰ مریم کے بیٹے کو کھلی نشانیاں ہم نے دیں اور روح پاک جبرئیل سے اس کو قوت دی ” روح القدس کی تفسیر خود قرآن نے دوسری جگہ کردی ہے قل نزلہ روح القدس (یعنی جبرئیل (سورۃ النحل) “ نہ جیسا کہ اس کے مخالف یہودیوں کا خیال ہے کہ وہ جھوٹا نبی تھا اور نہ جیسا کہ اس کے نادان دوست عیسائیوں کا غلط گمان ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک کا بیٹا اور ایک حصہ تھا یہ ایسے خیالات واہیہ سب کے سب انبیاء سے پچھلے لوگوں نے تراشے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو نبیوں سے پچھلے لوگ بعد آنے دلائل واضح کے آپس میں نہ لڑتے جھگڑتے لیکن چونکہ انہوں نے باہمی اختلاف کیا یعنی بعض تو مان گئے اور بعض انکاری رہے جس کا اثر لازمی حسب عادت جاریہ قتل قتال اور لڑائی جھگڑا ہوا باوجود اس کے بھی اگر اللہ چاہتا تو کبھی نہ لڑتے وہ ان کے اثر لازمی کو بھی روک سکتا تھا۔ لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا اس لئے کہ وہ عموماً وہ کام کرتا ہے جو ارادہ کرے اور اس کا ارادہ ہمیشہ علل پر جیسی کہ ہوں آثار مرتب کرتا ہے جب ہی تو تمہیں حکم دیتا ہے کہ اے مسلمانو ! ہمارے دیے ہوئے میں سے غربا کی حاجت روائی میں خرچ کیا کرو۔ پہلے اس سے کہ وہ دن آپہنچے کہ جسمیں نہ تجارت ہوگی کہ اس مال سے فائدہ اٹھا سکو اور نہ کسی کی دوستی اور نہ سفارش ہی بلا اذن کام آئیگی۔ صرف نیک اعمال اور ہاتھ کا دیا ہی کام آئے گا۔ سو تم اگر اس دن کی تکلیف سے بچنا چاہتے ہو تو سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ کی توحید پر پختہ ہوجاؤ اور جان لو کہ توحید سے منکر ہی بڑے ظالم ہیں کیونکہ ایک سیدھی راہ چھوڑ کر ٹیڑھے جارہے ہیں یعنی اللہ کے سوا اور معبود مانتے ہیں حالانکہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں تھا نہ اب ہے نہ آئندہ ہی ہوسکتا ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک زندہ بلکہ سب چیزوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور اکیلا ہی بذات خود سب مخلوق کا انتظام کرنے والا اس کے کسی کام میں فتور نہیں آسکتا۔ اس لئے کہ نہ اس کو اونکھ آتی ہے نہ نیند۔ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے۔ وہ شہنشاہ ایسی ہیبت کا مالک ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے سامنے چوں کرے کون ہے جو بلا اجازت اس کے پاس کسی کی سفارش کرے کیا نبی کیا ولی کیا مومن کیا کافر سب اس کی ہیبت سے لرزاں اور ترساں ہیں۔ کمال علمی اس کے کی کوئی حد نہیں۔ وہ لوگوں کے آگے پیچھے کی سب چیزیں جانتا ہے اور لوگ اس کے معلومات سے کچھ بھی نہیں جان سکتے۔ مگر جس قدر کہ خود ہی بتلانا چاہے۔ اس کی حکومت ١ نے تمام آسمان اور زمین کو گھیر رکھا ہے مجال نہیں کہ کوئی چیز اس کی حفاطت سے باہر ہو اور ہو بھی کیسے جبکہ محافظ ایسا زبردست ہے کہ باوجود اس قدر وسعت کے ان کی حفاظت سے تھکتا نہیں۔ اور وہ سب سے بلند اور بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے ” اس آیت میں جو کرسی کا لفظ ہے اس کے معنے میں بھی مفسرین کا قدرے اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کرسی ایک چوکی ہے جو تمام آسمانوں سے اوپر ہے جس کے اوپر عرش ہے بعض کہتے ہیں کرسی سے مراد یہاں علم ہے۔ میں نے جو ترجمہ اختیار کیا ہے۔ یہ ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا ہے اور اسی پر یہی انسب ہے۔ کرسی کے معنے علم کے بھی آئے ہیں۔ یہ معنے بھی موقع کے مناسب ہیں۔ “ باوجود اس بیان واضح کے اگر تیری نہ مانیں تو غم نہ کر اس لئے کہ دین میں ظلم جبر نہیں کہ خواہ مخواہ کسی کو بزور پکڑ کر اسلام میں لایا جائے ” شان نزول :۔ ! عرب میں دستور تھا کہ جب کسی عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی تو وہ نذر مانتی تھی کہ اگر میرا بچہ زندہ رہے گا تو میں اس کو یہودی بنائوں گی جیسے ہمارے ملک کی عورتیں مشرکانہ خیال والی کہا کرتی ہیں کہ اگر میرا بچہ زندہ رہا تو فلاں قبر والے کا مرید بنائوں گی اور اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے نام کی چوٹی اس کے سر پر رکھی جاتی ہے) چنانچہ بہت سے لوگوں کی اولاد اتفاقاً زندہ رہ کر اسی طرح یہودی بنی ہوئی تھی جب آپ نے بنی نضیر کے یہودیوں کو ان کی بدعہدی کی وجہ سے عرب سے خیبر کی طرف جلا وطن کیا تو اس قسم کے بچے بھی ان یہودیوں میں تھے ان کے مسلمان ورثاء نے اس وجہ سے کہ یہ بچے ماں باپ کی غلطی سے یہودی بنائے گئے تھے چاہا کہ ان کو جبراً روک لیں اور یہودیوں کے ساتھ نہ جانے ویں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) مخالفین ذرہ غور سے دیکھیں ١٢ منہ “ ہدائیت کی راہ گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے پس جو کوئی جھوٹے معبودوں سے منہ پھیر کر اکیلے سچے اللہ پر ایمان رکھے تو جان لو کہ اس نے ایک ایسا نجات کا مضبوط سہارا لیا جو ہرگز نہ ٹوٹے گا اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اللہ سنتا ہے جانتا ایسے ہی مؤمنوں کا بالخصوص اللہ متولی امور ہے ہر طرح ان کی بہتری کے سامان مہیا کردیتا ہے چنانچہ محض اپنی مہربانی سے شرک کفر وغیرہ کے اندھیروں سے ان کو نکال کر نور توحید کی طرف لے جاتا ہے او توحید کو ان کے دلوں میں ایسا مضبوط کرتا ہے کہ مشرک کیسی ہی کوشش کریں ان کو شرک میں پھنسا دیں ہرگز نہیں پھنسا سکتے اور جو لوگ توحید سے منکر ہیں وہ چونکہ زاندئہ درگاہ ہیں اس لئے ان کے دوست شیاطین ہیں ہمیشہ ان کو ایمان سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں اور یہی ذہن نشین کرتی ہیں کہ فلاں بت یا فلاں قبر سے حاجت روائی ہوتی ہے جس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ یہی لوگ جہنم کی آگ کے لائق ہیں۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے تو ان کی بیہودہ باتیں سن کر کیوں تعجب کرتا ہے۔ ہمیشہ سے قاعدہ ہے کہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو دیندار چاہے کسی مذہب کے پیرو کار ہوں وہ تو بعد سمجھنے حق بات کے ہدایت سے سرتابی نہیں کرتے۔ دوسرے دنیا دار جو اپنے مذہب کو یونہی برائے نام بتلادیں اصل میں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا صرف چالبازی جانتے ہیں ایسے لوگ باوجود دیکھنے بین ثبوتوں کے بھی اپنے غلط خیال چھوڑا نہیں کرتے۔ البقرة
254 البقرة
255 البقرة
256 البقرة
257 البقرة
258 (258۔260)۔ کیا تجھے اس گمراہ شخص کا حال معلوم نہیں جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بوجہ اس کے کہ ابراہیم اللہ کی توحید کا قائل تھا اور وہ ملحد سرے سے اللہ کا منکر اپنے پروردگار کی بابت عناد سے جھگڑا کیا تھا۔ اس وجہ سے کہ اللہ عالم الغیب نے اس کو بادشاہ بنایا تھا پھر وہ اپنی چند روزہ بادشاہی پر ایسا نازاں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مدعی بن بیٹھا۔ جب ابراہیم نے اس کے سوال (کہ میرے سواتیرا اللہ کون ہے) کے جواب میں کہا میرا پروردگا وہ ہے جو سب کو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ زندہ تو میں رکھتا ہوں اور مارتا بھی میں ہوں چنانچہ اسی وقت ایک قصور وار مجرم کو چھوڑ دیا اور بے قصور کو مروا دیا۔ ابراہیم نے جانا کہ اس بات سے یہ نادان قائل نہ ہوگا اس کو کسی ایسے پیچ میں لائیں کہ اس کا جواب نہ دے سکے یہ سوچ کر ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو ہر روز مشرق سے لاتا ہے اگر تو ہی اللہ ہے تو ایک روز اس کو مغرب سے چڑھا اس لیے کہ جب مشرق سے تو لا سکتا ہے تو مغرب سے لانے میں کیا دقّت ہے۔ پس یہ سن کر وہ کافر حیران رہ گیا۔ جواب کچھ نہ بن پڑا چونکہ معانن تھا یہ نہ ہوا کہ ہدایت کو قبول کرتا اور اپنے مالک کے آگے جھکتا۔ الٹا ابرہیم سے الجھنے لگا جس کی سزا اس کو یہ ملی کہ اللہ نے اسے سمجھ ہی نہ دی کہ ابراہیم کے اس سوال کا جواب کیا دے اس لئے کہ اللہ ایسے ظالموں کو صادقوں کے مقابلہ میں راہنمائی نہیں کیا کرتا۔ جیسا یہ قاعدہ ظالوں کو ہدائیت نہ کرنے کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ایسا ہی یہ بھی مقرر ہے کہ جو کوئی با خلاص نیت کوئی سوال حل کرانا چاہے اور اللہ سے مدد مانگے اللہ اس کو آسان کرکے اس کی راہ نمائی کرتا ہے کیا تو اس شخص کو نہیں ! جانتا جو ایک پرانی گری ہوئی بستی پر سے گذرا اور اس کو خراب اور اس کے رہنے والوں کو مرے پڑے دیکھ کر بولا کہ اس بستی کے رہنے والوں کو بعد مرنے کے اللہ کیونکر زندہ کرے گا؟ یہ ایک قسم کا تردد اسے ہوا جس کے دریافت حال کو اس نے سوال کیا چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری کی وجہ سے تھا اس لئے اللہ نے اس کو ایسے طور سے تشفی دی کہ بعد اس کے کسی دلیل کا محتاج نہ رہا۔ پس اللہ نے سو برس تک اس کو مار رکھا۔ پھر بعد سو برس کامل کے اس کو زندہ کرکے پوچھاکہ کتنی مدت توں یہاں پر ٹھیرا ہے۔ وہ بوجہ مرنے کی حالت سے بے خبر ہونے کے بولا کہ ایک دن یا کچھ حصہ دن کا ٹھیرا ہوں (اللہ نے) کہا ایک آدھ دن تو کجا بلکہ سو برس تک ٹھیرا ہے مگر تجھے معلوم نہیں۔ یہ ہماری ہی قدرت ہے کہ تجھے سو برس بعد زندہ کیا نہ صرف تجھے ہی زندہ کیا بلکہ تیرے متعلق کئی ایک اور بھی خرق عادت محض اپنی قدرت کاملہ سے کئے تیری ایسی چیزیں جو عموماً درازی زمانہ سے بگڑ جاتی ہیں وہ تو صحیح سالم رکھیں ہیں اور جن کو کسی قدر درازی مضر نہیں ان کو بگاڑ دیا اور بگڑی ہوئی کو تیرے سامنے درست بھی کریں گے۔ پس تو دیکھنا چاہے تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ باوجود سریع الزوال ہونے کے ابھی تک نہیں بگڑا اور اپنی سواری کی طرف دیکھ کہ کیسی گلی پڑی ہے تجھے بعد سو برس کے زندہ کرکے تیری تشفی کرتے ہیں اور ہم تجھ کو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیں گے۔ تاکہ آئندہ جن لوگوں کو مردوں کے زندہ ہونے میں شک ہو وہ تیرے تاریخی حالات سن کر یقین کریں اور اپنی سواری کی ہڈیوں کو دیکھ کہ کس طرح ان کو ابھار کر گوشت چڑھائیں گے پھر تیرے سامنے ہی زندہ ہو کر پھرنے لگ جائے گا۔ پس جب اسے اصل حال معلوم ہوگیا ہاں بے شک اللہ ہی بڑی قدرت والا ہے تو بولا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کام کرسکتا ہے۔ چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری سے تھا اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا۔ ”(کیا تو اس شخص کو نہیں جانتا) اس قصہ اور اس سے آئندہ قصہ ابراہیمی کی نسبت کل مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعات ان دونوں سائلوں کی بیداری میں واقع ہوئے گو ان کا پہلے قصے میں بسبب نہ ہونے نام سائل کے کسی قدر اختلاف ہوا ہے کہ یہ سائل کون تھا بعض نے کہا کہ کوئی کافر تھا بعض نے کہا مؤمن۔ بعض نے کہا نبی۔ بعض نے اس نبی کا نام بھی بتلایا کہ وہ حضرت عزیر تھے۔ تفسیر کبیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سائل حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے مگر سرسید احمد خاں کو یہاں بھی ایک نیا ہی خواب آیا۔ کہ انہوں نے اس قصہ کا سرے سے انکار کر کے جان چھڑائی اور اس کو خواب سے متعلق بتلایا کہتے ہیں کہ اس بزرگ نے خواب میں اللہ تعالیٰ سے احیاء موتیٰ کا سوال کیا اور خواب ہی میں اپنے کو سو برس تک مرے ہوئے دیکھا اور حضرت ابراہیم نے بھی جو کچھ کیا خواب ہی میں کیا۔ وجہ اس انکار کی تو وہی سپر نیچرل (خلاف عادت کا استحالہ ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ :۔ ” بزرگوں کو جو اس قسم کے خلجان قلبی پیش آیا کرتے ہیں ان کا دفعیہ ان کو کشف اور خواب ہی میں ہوا کرتا ہے پس ضرور ہے کہ ان بزرگوں کو بھی جو ایک عقدہ دربارہ احیاء موتے پیش آیا ہے اس کا دفعیہ خواب میں ہوا ہوگا۔ حضرت ابراہیم سے نہ تو پہلے کسی نے اور نہ خود ابراہیم نے مردہ کا زندہ ہونا دیکھا تھا اس لئے کوئی ذی عقل اس قسم کے سوالات اللہ سے نہیں کرسکتا“ (تفسیر جلد اوّل ص ٢٩٢) دوسریؔ دلیل جو ذکر میں پہلے حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے کہ :۔ ” یہ سوال ابراہیم (علیہ السلام) کا رویت سے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ رویت کیفیت احیا موتی نہیں ہوسکتی اس لئے کہ غائت مافی الباب یہ ہے کہ اگر ہمارے سامنے مردہ زندہ ہوجائے یا کوئی بیمار اچھا ہو۔ تو ہم اتنا تو جان لیں گے کہ زندہ بیمار اچھا ہوگیا مگر اس کی زندگی کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہوگی کہ کس طرح ہوا پس حضرت ابراہیم کا سوال رویت قلبی سے متعلق تھا جو خواب میں ان کو حل ہوگیا (صفحہ ٢٩١) ناظرینؔ! سید صاحب کی اس قسم کی تاویلات سے آپ کو تو تعجب ہوتا ہوگا۔ مگر دراصل تعجب نہیں اس لئے کہ جناب تو اسی کے خوگیر ہیں بھلا اس کا بھی کچھ ثبوت دیا کہ بزرگان دین کو ہمیشہ عقدہ کشائی اور حل مطالب خواب ہی میں ہوا کرتا ہے۔ کیا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بے ٹا کی خبر سے تعجب نہیں ہوا تھا قالَ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا۔ کیا حضرت مریم علیہا السلام کا عقدہ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ بھی خواب میں خواب ہوا تھا۔ سید صاحب ! جیسا کہ پہلے کہہ آیا ہوں کہ علماء کا دستور تھا کہ کہتے ہوئے دعویٰ کی دلیل بھی سوچ لیتے تھے مگر آپ نے جیسا کہ مذہب میں تجدید کی طریق مناظرہ اور اثبات دعا دی میں بھی سب سے تجرد اور انفراد کیا سچ ہے؟ قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا پھر آپ کا یہ ارشاد کہ ” ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اس لئے یہ سوال ذی عقل کا کام نہیں“ حضرت ! بے ادبی معاف۔ حضرت موسیٰ سے پہلے کسی نے یا خود موسیٰ نے بھی پہلے سوال رویت (رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ) کے اللہ کو دیکھا تھا؟ پس بتلا دیں ایسی بے معنی بات جو جی میں آئے کہہ دینا ذی عقل کا کام ہے؟ نہیں بیشک نہ تو حضرت ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے احیاء اموات دیکھا تھا۔ مگر ممکن سمجھتے تھے ممکنات مقدورات باری سے سوال کرنا ہر ذی عقل اور ایماندار کا کام ہے گو آپ کا نہ ہو۔ ہاں آپ کا یہ کہنا کہ مردہ زندہ ہونا تو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر اس کی کیفیت نہیں دیکھ سکتے۔“ بہت خوب دلیل ہے۔ قطعی ہے۔ جناب والا حضرت ابراہیم کا سوال بھی اسی رویت سے متعلق تھا۔ جس کو آپ بھی مانتے ہیں ان کو اس کیفیت سے جو مقولہ کیفہ (لا یقتضی القسمۃ واللّٰہ قسمتہ) سے ہی بحث نہیں تھی۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اسباب اور آلات کی حاجت نہیں چنانچہ ان کا بَلٰے کہنا اس کی وضاحت کرتا ہے اطمینان قلبی وہ صرف رویت امر عجیب کے متعلق چاہتے تھے آپ کیف سے بلاکیف بگڑ گئے اور یہ سمجھ گئے کہ یہ کیفیت فلسفیانہ کیفیت ہے حالانکہ یہ کلام عرف پر مبنی ہے جیسا کوئی کسی مسحریزم والے کو کہے کہ میرے سامنے عمل کرتا کہ میں اس کی کیفیت دیکھوں تو اس کے معنے حسب عرف عام ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس سوال سے تاثیر فعل کا دیکھنا منظور ہے نہ کہ کیفیت فعل کا پس آپ کا فرمانا کہ کیفیت احیاء اموات تو کسی طرح مرئی نہیں ہوسکتی عرف عام اور خطابیات سے چشم پوشی ہے۔ رہا آپ کا ٹوٹا پھوٹا ہتھیار نیچرل سو اس کا جواب قرأت مرات گذر چکا ہے۔ فتذکر۔ جیسے سر سید احمد خاں ان واقعات سے انکاری ہیں ایسے ہی ان کے روحانی فیض یاب (مراز قادیانی) بھی منکر ہیں کیوں نہ ابن الفقہ نصف الفقیہ مشہور ہے ١٢ منہ “ اسی کی مثل ایک اور واقعہ بھی سنو ! جب ١ ابراہیم نے محض دینداری سے بغرض دریافت حال اپنے رب سے کہا کہ اے میرے مولا ! مجھ کو دکھاکہ تو مردوں کو کسی طرح زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اس امر کو جانتا تھا کہ ابراہیم کا سوال بغرض تسلی اور مزید اطمینان ہے نہ کہ انکار اور عناد سے مگر اس خیال سے کہ بعدلوگ ابراہیم کے اس سوال سے اس کا نقصان ایمانی نہ سمجھیں اس امر کے اظہار کرنے کو ابراہیم سے کہا کہ تجھے یقین نہیں؟ کہ مردے زندہ ہوں گے (ابراہیم نے) کہا ہاں لیکن میں محض اطمینان قلبی کے لئے (پوچھتا ہوں) کہ مجھے علم الیقین سے عین الیقین ہوجائے (اللہ عالم الغیب نے) کہا کہ چار جانور لے کر اپنے پاس رکھ لے تاکہ تجھے بخوبی ان کی پہچان ہو۔ پھر ان کو ذبح کرکے ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر جو اس وقت تیرے ارد گرد ہیں رکھ دے پھر ان کو بلا تو دیکھ کہ وہ فوراً تیرے پاس اللہ کے حکم سے بھاگتے ہوئے آوینگے اور بخوبی جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست حکمت والا ہے کسی کام کے کرنے سے عاجز نہیں ” شان نزول مشرکین عرب قیامت کو مردوں کے زندہ ہونے کے سخت مخالف تھے‘ اور اس کو ایسا مشکل محال جانتے تھے جیسا کہ سیاہ اور سفید کا ایک جگہ جمع ہونا ان کو سمجھانے کی خاطر حضرت ابراہیم (جن کو وہ لوگ بھی اپنا مقتدا مانتے تھے) کا واقع نقل کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ منہ “ ” عام طور پر اس آیت کا مطلب یہی بتایا جاتا ہے مگر تدقیق نظر سے ان معنے کا ثبوت قرآن مجید کے لفظوں سے نہیں ہوتا قرآنی عبارت میں دو لفظ قابل غور ہیں (١) صُرْ اس کے اصلی معنے ہیں جھکا چنانچہ تفسیر معالم وغیرہ میں اس کا ترجمہ اَمِلْ کیا گیا ہے اور شاہ عبدالقادر دہلوی نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ دوسرا لفظ جزو ہے جب وہ ایک چیز کی طرف نسبت ہوتا ہے تو اس چیز کا ایک ٹکڑا مراد ہوتا ہے اور جب کسی جمع کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس جمع میں سے ایک فرد مراد ہوتا ہے جیسے کہیں یہ لڑکا دسویں جماعت کا جزو ہے قرآن مجید میں بھی جزء مقسوم انہیں معنے سے آیا ہے پس اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہوئے کہ ان چار جانوروں کو اپنی طرف مائل کر پھر ان میں سے ایک ایک کو پہاڑ پر رکھ کر بلا تیرے پاس آجاویں گے تو اس سے سمجھ لے گا کہ جس طرح یہ وحشی جانور تیرے بلانے پر آگئے ہیں اللہ کے بلانے پر سب مردہ چیزیں زندہ ہوجاویں گی انشاء اللہ تعالیٰ منہ “ البقرة
259 البقرة
260 البقرة
261 (261۔266)۔ اس کے تمام کام باحکمت ہیں جو احکام لوگوں کی طرف بھیجتا ہے ان میں بھی صد ہا حکمتیں ہوتی ہیں مگر ان حکمتوں کو پورے طور سے وہ خود ہی جانتا ہے کسی کو غریب کرکے صبر کا حکم دیتا ہے اور کسی کو امیر بنا کر اس کو خرچ کا حکم دیتا ہے۔ اور مثال کے لئے بتلاتا ہے کہ جو لوگ ! اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور غریبوں کو حاجت کے موافق دیتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایک دانہ کی طرح ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بال میں ایک سو دانہ ہے بتلاؤ تو اس کسان کو کتنابڑا فائدہ ہوگا کہ ایک دانہ کے سات سو دانہ ہوگئے ” حضرت عثمان (رض) نے جنگ تبوک کے دنوں میں (جو نہایت تنگی کے زمانہ میں ہوئی تھی) ایک ہزار اونٹ معہ سازو سامان کے دے دئیے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار درہم نقد دیئے ان دونوں صاحبوں کے حق میں نازل ہوئی ١٢ ف مگر افسوس کہ ایسے بزرگوں کی نسبت بھی نادانوں کی آنکھ کا تنکا ابھی باقی ہے ع گدر خانہ اگر کس ست یک حرف بس ست (١٢ منہ “ اسی طرح جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کو بھی ایک پیسہ کے ساتھ سو پیسے ملیں گے اور اس سے بھی زائد جس کے لئے اللہ چاہے گا زیادہ کریگا اور اس کے اخلاص کے موافق اس کو بدلہ دے گا اس کے ہاں کسی طرح کی کمی نہیں اللہ بڑا فراخی والا بڑا جواد سب کے اخلاص کو جاننے والا ہے۔ پس سود خواروں کو اطلاع ہو کہ اگر اپنی دولت سے واقعی نفع اٹھانا چاہیں تو اللہ سے معاملہ کریں اس کی صورت یہ ہے کہ غربا پر رحم کریں اور جہاں تک ہوسکے ان کی حاجت برآری میں ساعی ہوں اور نہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ ان پر ظلم زیادتی سے ہاتھ صاف کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگر غربا پر کچھ احسان کریں تو بعد احسان کرنے کے ان پر کسی قسم کا بیجا دباؤ یا طعنہ نہ کریں۔ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور بعد خرچنے کے نہ احسان جتلاتے ہیں نہ کسی قسم کی تکلیف پہنچاتے ہیں ان ہی لوگوں کے خرچ کا بدلہ اللہ کے پاس ہے جہاں سے ان کو نہ ضائع ہونے کا خوف ہوگا اور نہ کسی قسم کے نقصان سے وہ غمناک ہوں گے سچ پوچھو تو محتاجوں سے اچھی طرح نرمی سے بولنا۔ اور معاف کرو کہہ کر واپس کردینا اور اگر مسائل بدزبانی کرے تو اس کی بدزبانی کو معاف کردینا بہتر ہے اس خیرات دینے سے جس کے دینے کے بعد تکلیف پہنچے اور احسان جتلایا جائے اس لئے کہ اس کا کسی قدر اللہ کے ہاں بدلہ بھی ہے مگر اس صدقہ خیرات کا عوض کچھ نہیں کیونکہ اللہ ایسے صدقات لینے سے بے پرواہ ہے بلکہ ایسے صدقہ دینے والے مستوجب سزا ہیں مگر اللہ بڑا برد بار حوصلہ والاہے جو ان کی عذاب رسانی میں جلدی نہیں کرتا اس لئے ہم عام اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! اپنی خیرات احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع مت کیا کرو اس شخص کی طرح جو لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے کہ انہیں سے شاباش سنوں اور اللہ کو جزا سزا کا گویا مالک نہیں مانتا اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اس کے تمام صدقات ضائع ہوجاتے ہیں پس اس کے خرچ کی مثال ایک پتھر کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو اور اس مٹی کی وجہ سے اس پر کچھ روئیدگی بھی ہو۔ پھر اس پر بڑے زور کا مینہ برس کر اس کو بالکل صاف مصفیٰ کر چھوڑے اسی طرح ان کا حال ہے جو لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کو مال کے خرچ کرنے سے کچھ بھلائی کی امید ہوتی ہے جیسے کہ پتھر کو دیکھ کر کسان کو۔ مگر اس پر انکا ریا جو مثل زور دار مینہ کے آپڑتا ہے بالکل ہی اس کو صاف کرجاتا ہے یہاں تک کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ سب کاسب ضائع کر بیٹھتے ہیں مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ لوگوں کو خوش کرتے ہم کیا لیں گے کوئی ایک آدھ گھڑی اگر خوش بھی ہوا اور اچھا بھی کہہ گیا تو اور کیا اور جو نہ کہہ گیا تو کیا مخلوق کی اتنی ہی شاباش کے لئے حقیقی مالک کی دائمی جزا سے محروم رہنا عقلمندی نہیں مگر غور نہیں کرتے اور اللہ بھی ایسے بے ایمان کافروں کو ہدایت نہیں کرتا یہ ان کے جی میں ڈالتا ہی نہیں کہ بھلا کس جانب ہے اور جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی خوشی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنے نفسوں کو مضبوط کرنے کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی تشبیہ ایک باغ کی سی ہے جو کسی میدان صاف کی نرم زمین میں ہو جہاں زور کی بارش پہنچنے سے وہ باغ دوسروں کی نسبت دوگنا پھل لادے پھر اگر گاہے اس باغ پر گاہے بارش نہ بھی ہو تو بھی بوجہ اس کی نرمائش زمین کے شبنم ہی کافی ہے اسی طرح ان کا حال ہے کہ ان کے خرچ کا بدلہ بھی جس قدر ملنا چاہئے تھا ان کے اخلاص کی وجہ سے اس سے بھی دو گنا ملے گا اور اگر کبھی ایسے مخلص لوگ نامناسب جگہ جان کر نہ بھی دیں تو اس کا بدلہ بھی ان کو ضرور ہی ملے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے جس نیت سے کرتے ہو اس کے موافق بدلہ دے گا۔ حاصل یہ کہ اخلاص مندی سے دیا ہوا ہی کام آتا ہے ریا کاری تو ایسی بری بلا ہے کہ بھرے گھر کو تباہ کرنے والی ہوتی ہے پھر تم ریا کرکے کیا کرلو گے کیا کوئی تم میں سے یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور اس باغ میں اس کے لئے ہرقسم کے میوجات بھی ہوں اور وہ خود عمر رسیدہ اور ضعیف ہو اور ساتھ ہی اس کے بچے بھی چھوٹے چھوٹے قابل پرورش ہوں پس ایسے نازک وقت میں اس باغ کو (جو سب اثاث البیت اس کا تھا اور اس پر اس کے سارے امور موقوف تھے) ایک لوکا جھوکا چل جائے جس میں آگ کی مانند گرمی ہو۔ پس وہ باغ اس گرم ہو اسے جل جائے بتلاؤ کہ کوئی شخص بھی ایسی مصیبت کو اپنے پر لینا چاہتا ہے؟ کہ عین حاجت شدید کے وقت پھر وہ حاجت بھی نہ صرف ذاتی بلکہ اپنے جملہ ضعفا کی بھی ساتھ ہی ہو پس ایسا ہی جان لو کہ اس حاجت سے (جس کا کسی قدر نقشہ تمہیں بتلایا ہے) بھی بڑھ کر ایک سخت حاجت تم پر آنے والی ہے جس میں تم اپنے خرچ کئے ہوئے مالوں کے اس ضعیف العمر سے بھی زیادہ محتاج ہوگے اگر ان میں ریاکاری یا محتاجوں کو دیکھ کر احسان جتلانا یا کسی قسم کی تکلیف پہنچانا مخلوط ہوگا تو سب کے سب اپنے ہاتھ سے دیے ہوئے مال مثل اس باغ کے راکھ ہوئے دیکھو گے اسی طرح اللہ کھول کھول کر احکام بتلاتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو اور مضر سے بچکر مفید کی طرف آؤ البقرة
262 البقرة
263 البقرة
264 البقرة
265 البقرة
266 البقرة
267 (267۔284)۔ تمہارے ہی فائدہ کو بتلاتا ہے کہ مسلمانو ! اپنی کمائی میں سے عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو اور اس میں سے بھی دو جو ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں اور یہ سمجھ کر کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اسی نے ہمارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے گندی چیز کے دینے کا قصد نہ کیا کرو۔ کیا ایسی گندی چیز اللہ کی راہ میں دیتے ہو۔ حالانکہ اگر تم کو کوئی دے تو خود اسے نہیں لیتے ہو ہاں جب قصداً اس سے چشم پوشی کرجاؤ اور بوجہ ناداری مقروض یا اپنی ضروری حاجت کے وہی معیوب لے لو تو اور بات ہے مگر اللہ تعالیٰ کو نہ تو حاجت ہے کہ خواہ مخواہ یہی قبول کرے اور نہ تمہارے فقر فاقہ کی اسے پرواہ کہ اپنے حق کے ضائع ہونے سے ڈرے ایسے خیالات فاسدہ کو دل میں نہ آنے دو اور یقینا جانو کہ اللہ تمہارے مال متاع اور خرچ برچ سے بالکل بے نیاز اور اپنی ذات میں تعریف والاہے تم نے کیا سمجھا کہ وہ تمہارے مالوں کا محتاج ہے ہرگز نہیں۔ وہ تو تمہارے ہی بھلے کو کہتا ہے۔ اگر بھلائی چاہتے ہو تو فوراً خرچ کرو۔ ورنہ شیطان تمہارا دشمن قدیم تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے وہ ہر وقت تم کو فقر فاقہ سے ڈراتا ہے کہ اگر کارخیر میں خرچ کرو گے تو تمہاری فلاں حاجت رک جائے گی ۔ بیٹے بیٹی کی شادی پر تمہیں اتناروپیہ چاہیے۔ اور برے کاموں اور بے حیائی کے طریق بتلاتا ہے ہمیشہ شراب نوشی کراتا ہے رنڈیوں کا ناچ دکھلاتا ہے ” ہمارے زمانہ کے امراء اس آیت کو بغور دیکھیں جن کی امیری سے بجز رنڈیوں اور شراب فروشوں کے کسی کو فیض نہیں ١٢ منہ “ اور اللہ تو باوجود اس کے کہ سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے پھر بھی تمہیں اس کے خرچ کرنے پر اپنی بخشش اور فراخی کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ بڑی ہی وسعت والا اور جاننے والاہے جس کو چاہے سمجھ اور تہذیب دے دیتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان کر اللہ سے اپنی نسبت جان جاتا ہے اور جسے اس امر کی سمجھ ملے کہ میں کیا ہوں اور اللہ کا کہاں تک محتاج ہوں اور اس سے میری نسبت کیا ہے سچ جانو کہ اسے تو بہت سے بھلائی مل گئی مگر اس بات کو سوائے کا مل عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا اور کوتاہ اندیشوں کا خیال اس کے برخلاف ہے۔ وہ بھلائی دولت کا نام رکھتی ہیں حالانکہ دولت کوئی عزت یا دانائی کی موجب نہیں بہت سے دولت مند ایسے احمق ہیں کہ قطع نظر ان کی دولت مندی کے کوئی ان کی بات سننے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اور بہت سے امیر اپنی بدکرداری اور بخل کی وجہ سے ہر ایک نظر میں حقیر اور ذلیل ہوتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ تم بخوشی خاطر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا بوقت ضرورت اللہ کے لئے کوئی نذر اپنے ذمہ مانتے ہو۔ تو سب کی جزا موافق تمہاری نیت کے ملے گی اس لئے کہ اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور جو لوگ دیتے ہوئے ریا کو داخل کرتے ہیں ایسے ظالموں کو سخت سزا ملے گی اور ان کا کوئی حمائتی نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کی پکڑسے بچاسکے جب ہی تو تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اخلاص مندی سے خرچ کرو چاہے تھوڑا کرو اگر بہ نیت اخلاص ظاہر کر کے خیرات دو گے تو بھی بہتر ہے اور اگر چھپا کر فقراء کو بانٹو گے تو وہ بہت ہی بہتر ہے اس لئے کہ چھپانے میں بہ نسبت اظہار کے ریا کو دخل کم ہے غرض ریا سے بچو گے تو اللہ تمہارے صدقات قبول کرے گا اور اللہ تمہارے گناہ دور کرے گا اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے تو اے رسول سچی راہ بتلادے اور خرچ کرنے کے طریق سکھا دے یہ تیرے ذمہ نہیں کہ ان کو راہ رست پر لاوے لیکن اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لے آتا ہے۔ ہر ایک کام کی سمجھ دیدیتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ صدقات خیرات کا کیا ڈھب ہے۔ اور تو یہ بھی بتلادے کہ جو مال تم خرچ کرتے ہو سو تمہارے ہی لئے ہے اور مناسب نہیں کہ اللہ کی خوشی حاصل کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ کرو۔ اور اس طریق سے جو مال خرچ کروگے اس کا بدلہ تم کو پورا ملے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہ ہوگا۔ جیسا کہ دینے میں اخلاص نیت ضروری ہے ایسا ہی مصرف کی تلاش بھی لازم ہے یعنی یہ بھی دیکھا کرو کہ کسی کو دیں ایسا نہ ہو کہ تم اخلاص سے دو مگر لینے والا اس کا مستحق نہ ہو جس سے مستحق کی حق تلفی لازم آوے اس لئے ہم ہی بتلائے دیتے ہیں کہ اس خرچ کے زیادہ حقدار کون ہیں ان محتاجوں کو دو جو اللہ کی راہ میں علم دینی پڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ باوجود حوائج ضروریہ کے دین خدمت کے خاطر ایسے ہو رہے ہیں کہ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ ناواقف لوگ ان کو نہ مانگنے سے مالدار جانتے ہیں مگر تو اور تیرے جیسا دانا ان کے چہرے سے ان کو پہچان لاتن ہے ہر ایک کا کام نہیں کہ ان کو پہچانے اس لئے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے پس ایسے لوگوں کی خاطر جہاں تک ہوسکے مقدم سمجھو اور سن رکھو کہ جو مال خرچ کروگے تو اس کا بدلہ ضرور ہی پاؤ گے اس لیے کہ اللہ اس کو پورے طور سے جانتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کے احکام سنتے ہیں ان کی تعمیل کرنے کو شب و روز پوشیدہ اور ظاہر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب خدا وند عالم کے ہاں موجود ہے جہاں سے نہ ان کو تلف ہونے کا خوف ہے اور نہ ضائع ہونے سے غمناک ہوں گے اس لئے ضائع ہی نہ ہوگا۔ بلکہ کل کا کل محفوظ رہے گا۔ ” شان نزول :۔ پہلی آیت کو سن کر حضرت علی اور عبدالرحمن بن عوف (رض) نے رات کو چھپا کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ “ یہ تو ان کا حال ہے جو بغرض تعمیل احکام خدا وندی اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے مقابل جو لوگ بجائے فیض رسانی کے بوقت ضرورت حاجتمندوں کو قرض دیکر بجائے فیض رسائی کے قرض پر ان سے سود لے کر کھاتے ہیں قیامت میں سخت ذلیل ہوں گے نشانی ان کی یہ ہوگی کہ قبروں سے اٹھتے ہوئے مخبوط الحواسوں کی طرح جنہیں کسی بھوت نے چھوا ہو اہو اٹھیں گے۔ ” شان نزول :۔ عرب کے مال دار لوگ عوام سے بے تحاشا سود لیتے تھے جیسا کہ ہمارے ملک کے ظالم بنئے سو سے ہزار تک نوبت پہنچاتے ہیں اس قسم کی کارروائی عام اخلاق سے بھی مخالف ہے ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ علاوہ اس ممانعت کے امیروں پر غربا پروری کے لئے زکوٰۃ بیل فرض کردی گئی ہے۔ مخالفین اس رحم کو غور سے دیکھیں ١٢ منہ “ یہ بری حالت ان کی اس لئے ہوگی کہ وہ دنیا میں اپنی نفسانی خواہش میں پھنس کر بغرض طیب قلبی کہا کرتے تھے کہ تجارت اور سود ایک سے ہیں حالانکہ ان میں بہت فرق ہے۔ جب ہی تو اللہ نے تجارت کو جائز کیا اور سود کو حرام۔ پس جس کے پاس ہدائیت خداوندی پہنچ گئی اور وہ اس فعل شنیع سود خوری سے باز رہا تو جو کچھ اسے پہلے وصول ہوا اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد چاہے عذاب کرے چاہے چھوڑدے اور جو لوگ بعد سننے نصیحت کے پھر وہی فعل سود خوری کریں گے تو یہی آگ کے لائق ہوں گے۔ جس میں وہ ہمیشہ تک رہیں گے۔ سود خوری تو اس قدر مزموم ہے کہ اللہ سود کو ہمیشہ گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سود خور ایسا ممسک ہوتا ہے کہ کسی سے بلا عوض احسان کرنا نہیں چاہتا اور مثل تن گدستوں کے ہمیشہ منہ تاکتا رہ جاتا ہے گیا وسعت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے مال سے کچھ بہرہ ور ہو۔ اور جو صدقات اور احسان کرنے کے خوگیر ہوں ان کے حوصلے فراخ اور بلند خیالات ہوں ہر کار خیر سے وہ حصہ لیں۔ کیا تم نہیں سنا۔ سخیاں زا موال برمیخورن بخیلاں غم سیم وزر میخورند علاوہ اس ذلت اور خواری کے جو سودخوروں کو دنیا میں نصیب ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ناشکروں کے دفتر میں لکھے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناشکرے بدکار کسی طرح نہیں بھاتے سچ پوچھو تو ان کا ایمان بھی درست نہیں ورنہ جو لوگ پکے مؤمن ہیں اور عمل بھی نیک کرتے ہیں لوگوں سے احسان بھی کرتے ہیں اور نماز باجماعت وقت پر پڑھتے ہیں اور مالداری کی صورت میں زکوٰۃ بھی دیتے ہیں بے شک ان کا بدلہ ان کے رب خداوند عالم کے ہاں محفوظ ہے نہ ان کو ضائع ہونے کا خوف ہے اور نہ وہ اس کی گم ہونے پر غمناک ہوں گے پس مسلمانو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور بقایا سود کا چھوڑ دو اگر تم سچے دل سے مؤمن ہو۔ پھر اگر بعد سننے کے بھی نہ کرو گے اور آئندہ کو سود ہی لیتے رہو گے تو اللہ اور رسول کی لڑائی کے لئے خبردار ہوجاؤ اس لئے کہ باوجود تاکید شدید کے نہ ماننا گویا مقابلہ کرنا ہے پس جب تمہاری یہ حالت ہے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے اسی کے مناسب معاملہ کرے گا۔ اور اگر باز آؤ تو تمہارے اصلی مال تم کو مل جائیں گے نہ کسی پر ظلم کرو۔ نہ تم پر ظلم ہوگا۔ ” شان نزول :۔ حضرت عباس اور عثمان (رض) نے کسی کسان سے کچھ معاملہ کیا تھا۔ جب کھیتی کٹنے کا وقت آیا تو کسان بولا کہ اگر تم اپنا سارا حق لے لو گے تو میرے کھانے کو بھی کچھ نہ رہے گا نصف لے لو اور نصف کے بدلے آئندہ کو میں تمہیں دگنا دوں گا۔ جب دوسرا موسم آیا اور انہوں نے جب وعدہ زیادہ چاہا تو یہ معاملہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت شریف میں پہنچا۔ تا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان دونوں بزرگوں نے سنتے ہی اس حکم کی تعمیل کی ١٢ م بیشک بڑوں کی بڑی باتیں ہیں ١٢ منہ “ اپنے حقوق اصلی بیشک پورے لوہاں لینے میں ایسی تنگی نہ کرو کہ خواہ مخواہ اس کے گلے پر چھری رکھ دو۔ نہیں آرام سے لو اور اگر (مقروض) تنگدست ہے تو فراخٰ تک اس کو ڈھیل دینا چاہئے۔ اور اگر بالکل معافی کے قابل ہو تو معاف کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر جانتے ہو تو ایسا ہی کرو اور حیلے کرتے ہوئے اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف پھر و گے پھر ہر ایک جان کو اس کی مزدوری پوری ملے گی اور ان کا کسی طرح سے نقصان نہ ہوگا اسی ظلم سے بچانے کو ہم اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! جب تم ایک مدت مقررہ تک قرض پر معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ آپ ہی نہ لکھو بلکہ کوئی کہنے والا تم میں انصاف سے لکھے اور لکھنے والا حیلے بہانہ سے رکے نہیں۔ کہ میرا خط اچھا نہیں ۔ یا مجھے کچھ کام ہے جیسا اللہ نے اس کو سکھایا ہے لکھنے سے انکار نہ کرے پس یہ سمجھ کر کہ اللہ نے مجھ کو محض اپنی مہربانی سے سکھایا ہے ضرور لکھے اور جس پر قرض ہے وہ بیان کرتاجائے اور بتلاتا ہوا اللہ سے ڈرے جو اس کا رب اور کارساز ہے اور اس کے حق میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ہاں اگر مقروض ناسمجھ ہو کہ جانتاہی نہیں کہ سو اور پچاس میں کیا فرق ہے۔ یا بہت ہی بوڑھایا ناتواں ہے یا کسی مانع سے بتلا نہیں سکتا۔ تو ان سب صورتوں میں اس کا متولی انصاف سے بتلاتاجائے اور بعد تحریر کاغذ دو مردوں کو گواہ بنایا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں جو بوجہ دینداری کے تمہاری پسندیدہ گواہوں سے ہوں۔ مقرر کرو۔ تاکہ ایک کے بھولتے وقت دوسری اسے یاددلا دے اس لئے کہ عورتوں میں عموماً نسیان غالب اور حافظہ مغلوب ہوتا ہے اور مقرر کدہ گواہ بلاتے وقت انکار نہ کریں اور مدت مقررہ تک لکھنے میں سستی نہ کیا کرو چھوٹا ہو خواہ بڑا۔ یہ لکھنا اللہ کے ہاں بہت انصاف کی بات ہے اور بڑا مضبوط ذریعہ شہادت یاد رکھنے کا ہے اور اس سے امید ہے کہ تم بروقت ادائے شہادت شک میں نہ پڑو گے۔ ہاں جبکہ معاملہ دست بدست ہو جس کو اسی وقت ہاتھ بہ ہاتھ لیتے دیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تمہیں گناہ نہیں۔ اور خاص خاص صورتوں میں خریدو فروخت کرتے ہوئے گواہ مقرر کرلیا کرو سنو ! اس قسم کے معاملات میں نہ محرر کو نقصان پہنچا یا جائے اور نہ گواہ کو کہ خواہ مخواہ موقع بے موقع ان کو کھینچتے پھر و جس سے ان کا نقصان ہو اور اگر اس کام میں اس کا قدرے نقصان ہو تو اس کا ان کو عوض دیا کرو اگر ایسا کروگے یعنی محرر اور کاتب کا نقصان کروگے اور ان کا ہر جانہ ان کو نہ دوگے تو یہ تمہارے حق میں گناہ کی بات ہوگی ایسا مت کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور تمہارے بھلے کی باتیں تم کو سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعد سکھانے کے غافل اور بے خبر نہیں بلکہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ” شان نزول :۔ معاملہ صفا رکھنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ منہ “ اور اگر تم سفر میں ہو اور محرر نہ پاؤ تو اپنی کوئی چیز قرض خواہ کے ہاتھ میں بغیر سود گرو دیدیا کرو ہاں اگر کوئی شخص کسی کو معتبر جانے اور اس سے کوئی چیز گرو نہ لے تو وہ معتبر اپنے قرضہ کو ضرورادا کر دے اور اس کی حق تلفی میں اللہ سے ڈرے جو اس کا مالک ہے اگر کسی قسم کی بددیانتی کرے گا تو گویا اپنے مالک سے بگاڑے گا جس کا نتیجہ اس کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں گواہ ہو تو گواہی نہ چھپاؤ جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ کسی غرض سے چھپاوے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے اس کی سزا پائے گا۔ کیونکہ اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے اس کا علم نہایت وسیع ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں ! اور زمینوں میں ہے جبکہ ملک اتنا وسیع ہے تو علم بھی وسیع کیوں نہ ہو پس تم یہ سمجھ کر کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ظاہر وباطن گنا چھوڑ دو اور اگر تم اپنے جی کی بات ظاہر ہو کر کرو گے یا پوشیدہ اس کو کرو گے تو ہر حال میں اللہ تم سے اس کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا عذاب کرے گا۔ نہ ہوگا کہ کسی قوی اور زبردست سے دب جائے کیونکہ اس سے تو کوئی زبردست ہی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ اللہ اپنی صفات خداوندی میں کامل اور یکتا ہے اسی طرح بعض بندے بھی اپنی صفات بندگی میں کامل ہیں جو حکم ان کو پہنچے خواہ ان کی طبیعت کے مخالف ہو یا موافق سب کو تسلیم کرتے ہیں ” شان نزول :۔ معاملہ سابقہ کی تاکید کرنے کو کہ انصاف سے کرو اور کسی کی جانبداری نہ کرو۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) “ البقرة
268 البقرة
269 البقرة
270 البقرة
271 البقرة
272 البقرة
273 البقرة
274 البقرة
275 البقرة
276 البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 البقرة
280 البقرة
281 البقرة
282 البقرة
283 البقرة
284 البقرة
285 (285۔286)۔ چنانچہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھ والے مسلمان کیسے اپنے اللہ کی اتاری ہوئی باتوں کو مان گئے۔ گو ان کی سمجھ میں نہ آئی لیکن انہوں نے فہم پر تسلیم کو مقدم رکھا پس سب کے سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر یقین لائے اور بولے کہ ہم اللہ کے کسی رسول کے ماننے میں فرق نہیں کریں گے۔ کہ یہود نصاریٰ کی طرح بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں۔ اور یہ بھی بولے کہ حکم ہم کو ہوا ہم نے دل لگا کرسنا اور قبول کرکے اس کی اطاعت کی اگر اس میں ہم سے غلطی ہوجائے تو اے ہمارے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ مر کر تیری طرف پھرنا ہے اللہ کی طرف سے بھی ایسے نیک بندوں کی دعا قبول ہوئی اس لئے اللہ کسی کو طاقت اس کی سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا ” شان نزول :۔ پہلی آیت جس میں اِنْ تُبْدُوْا ہے اس کے ظاہری معنی تھے کہ اگر تم اپنے جی کی بات کو چھپائو گے تو بھی عذاب ہوگا اس سے صحابہ کو رنج اور بیقراری ہوئی اور عرض کیا کہ اگر ہمارے دلوں کے خیالات فاسدہ پر بھی ہمیں سزا ملی تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا دل میں تو خیالات ہر طرح کے بلا اختیار آجاتے ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرح گھبرائو نہیں بلکہ جو حکم آئے اس کو تسلیم کرو اللہ علیم و حکیم ہے کوئی مناسب حکم اتارے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے جو غلط خیالات تمہارے دل میں بلا اختیار پیدا ہوتے ہیں یا آئندہ کو ہوں گے ان پر تم کو پکڑ نہ ہوگی ١٢ (ترمذی بتفصیل منہ) “ بعد مناسب حکم دینے کے جو کچھ کوئی نیکی کرے وہ اسی کو ملے گی اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا یہ سن کر بھی وہ مؤمن یہی کہتے رہے کہ ہمارے مولا ! نہ پکڑ ہم کو اگر ہم سے بھول چوک سے گناہ ہوجاوے اے ہمارے مولا ! نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا کہ رکھا تھا تو نے ہم سے پہلوں پر کہ ان کی توبہ قتل نفس سے ہوئی۔ اے ہمارے مولا ! ہم کو ایسے حکم نہ دیجئو جن کی ہم میں طاقت نہ ہو اے ہمارے مولا ! اور ہماری آرزو ہے کہ ہمارے قصورہم سے درگزر کر اور ہم کو اپنی مہربانی سے بخش اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا والی ہے پس تو کافروں کی قوم پر (جو تیری توحید اور تیرے رسول کے ماننے کی وجہ سے ہمیں ستائیں) ہم فتح یاب کر۔ ” اسؔ آیت کے فضائل احادیث میں بہت ہیں۔ ایک حدیث میں جو مسلم نے روایت کی ہے مذکور ہے کہ ایک فرشتے نے آسمان سے آکر حضرت اقدس کو مبارک باد دی کہ آپ کو دو چیزیں ایسی ملی ہیں کہ آپ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔ وہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقر کی اخیر کی آیتیں ہیں “ البقرة
286 البقرة
0 آل عمران
1 (1۔20)۔ اللہ فرماتا ہے میں ہوں اللہ بڑا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ مسیح نہ عزیر نہ پیر نہ فقیر نہ کوئی کیونکہ لائق عبادت وہ ہو جو دائم زندہ مخلوق کو تھامنے والا زندہ رکھنے والا ہو اور مسیح تو خود اپنی حیات اپنی بقا میں اللہ کا محتاج ہے پھر وہ کس طرح اللہ اور معبود ہوسکتا ہے۔ شان نزول (الٓمّٓ) بخران (شہر) سے قریب ساٹھ کے عیسائی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور گفتگو کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے طریق پر مسجد نبوی میں نماز ادا کی بعد نماز کے مجلس مناظرہ قائم ہوئی آپ نے ان کو فرمایا مسلمان ہوجائو وہ بولے ہم تو پہلے ہی سے مسلمان ہیں آپ نے فرمایا تم مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے ہونے کا عقیدہ اور صلیب کی عبادت اور خنزیر کا کھانا نہ چھوڑو۔ مسیح کی الوہیت میں گفتگو کرچکے تو آپ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ اولاد باپ کے مشابہ ہوتی ہے۔ بولے ہاں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہمارا مالک تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور مسیح تو فنا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو تمام زمین و آسمان کی چیزیں جانتا ہے اور مسیح تو سوا ان اشیاء کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بتلائی ہیں نہیں جانتا۔ کیا تمہیں یہ بھی خبر نہیں کہ مسیح کو اس کی ماں نے مثل اور عورتوں کی پیٹ میں اٹھایا اور وہ پیٹ میں بھی وہی غذا پاتا رہا جو اور بچے پاتے ہیں یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہونی شروع ہوئی (معالم مختصراً) یہ سورت الوہیت مسیح کے ابطال میں نازل ہوئی ہے۔ منہ راقم کہتا ہے کہ یہ واقعہ اخلاق محمدیہ کا کامل ثبوت ہے۔ عیسائی لوگ مسجد نبوی میں نماز اپنے طریق پر پڑھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) خاموش ہیں اور باوجود قدرت کے کچھ نہ کہیں والے برحال تاکہ ہم ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں جو غیروں کو بھی اپنی مسجد سے منع نہ کرے ہم ایک فریق دوسرے کو بایں جرم کہ ہمارے طریق کے خلاف نماز کیوں پڑھتا ہے گو مسلمان ہے مسجد سے باہر نکال دیتے ہیں اتنی ہی بات پر قناعت نہیں بلکہ کچہریوں میں غیر مسلموں سے اس امر کا فیصلہ کراتے ہیں کہ کون سا فریق مسجد میں رہنے کا حق دار ہے سچ ہے شنیدم کہ مردان راہ اللہ دل دشمناں ہم نہ کروند تنگ تراکنے میسر شود ایں مقام کہ بادو ستانت خلاف است و جنگ وہی اللہ جو سچا معبود ہے اس نے تیرے پاس اے محمد (علیہ السلام) سچی کتاب قرآن کی صورت میں بھیجی ہے جو اپنے سے پہلی کتب نازلہ کو سچا بتلانے والی اور غلط واقعات کی تغلیظ کرنے والی کیونکہ یہ کتاب نگہبان ہے واقعات گذشتہ پر مسیح کی الوہیت کے مضمون سے جو یہ کتاب انکاری ہے تو اس لیے کہ وہ مضمون منزّل من اللہ نہیں نہ اس لیے کہ یہ کتاب تورات اور انجیل کو مانتی نہیں بلکہ تورات اور انجیل کی بابت تو صاف لفظوں میں منادی کرتی ہے کہ اللہ نے تورات و انجیل کو پہلے سے لوگوں کی ہدائت کے لئے اتارا تھا اور ان کی تبلیغ عام کا حکم بھی دیا تھا مگر چونکہ نادان لوگوں نے ان میں کمی زیادتی اور بے جا تاویلیں کرنی شروع کردیں اس لئے اللہ نے فیصلہ کرنے والا قرآن شریف نازل کیا پس جو لوگ اللہ کے ان حکموں سے منہ پھیریں اور اپنی ہی ہٹ پر اڑ رہیں اور اللہ کے بندہ کو اللہ کہنے سے باز نہ آویں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ مسیح میں خدائی علامات میں سے تو کوئی بھی نہیں مسیح کو توکل کی خبر بھی معلوم نہ تھی اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں نہ آسمان کی نہ زمین کی اور مسیح تو مخلوق ہے اور اللہ خالق وہی اللہ تمہاری صورتیں تمہاری ماؤں کے رحموں میں جس طرح چاہتا ہے بنا دیتا ہے کسی کو اس فعل میں دخل نہیں یہ صفات لازمہ الوہیت مسیح کہاں ہیں پس یقینا جانو کہ اس کے سوا ساری دنیا میں کوئی بھی معبود نہیں جو بوجہ صفات مذکورہ کے بڑا غالب کسی سے مغلوب نہ ہونے والا نہ کسی سے دبنے والا اور بڑی حکمت والا ہے جس کام کو کرنا چاہے ایسی حکمت سے کرتا ہے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ نہ کہ دشمنوں سے دب کر۔ ایلی ایلی پکارے (انجیل متی ٢٧ باب کی طرف اشارہ ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے سولی پر چڑھ کر کہا ایلی ایلی بمقتنی اے میرے اللہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ ١٢ منہ) اور پھر بھی دعویٰ الٰہی کرے یادرکھو اسی زبردست غالب حکمت والے نے تیری طرف اے نبی واضح ہدائیت کرنوالی کتاب اتاری ہے جس میں سے بعض احکام بالخصوص وہ احکام جن میں یہ لوگ کجروی کرتے ہیں جیسے توحید خداوندی واضحہ لائحہ ہیں یہی ہیں اصل مقصود کتاب کے جس کے لئے کتاب بھیجی ہے جو ان حکموں کے الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے وہی مراد ہے اور ان الفاظ کا کوئی ترجمہ اور معنی بھی خلاف مطلب نہیں ” اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ اس آیت کے معنی بتلانے میں علما کا کسی قدر اختلاف ہے کہ محکمات اور متشابہات کیا ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق ان کی تفسیر کی ہے کوئی کہتا ہے جو ہر مذہب اور ملت میں برابر حکم رکھتے ہیں جیسے صدق و کذب محکمات ہیں اور جو ادیان میں مختلف ہیں وہ متشابہات ہیں کوئی کہتا ہے توحید محکم ہے اور اس کے سوا بعض احکام متشابہ ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ ناسخ محکم ہے اور منسوخ متشابہ بعض کہتے ہیں جو آیت اپنے معنی صاف لفظوں میں بتلا دے وہ محکم ہے اور جو کسی قدر خفا رکھتی ہو وہ متشابہ ہے اصل تحقیق اس امر کی قرآن کی اسی آیت پر غور کرنے سے ہوسکتی ہے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے گو محکم اور متشابہ کی ماہیت اور تعیین نہیں بتلائی لیکن اس میں شک نہیں کہ متشابہات کا نتیجہ بتلا دیا جس سے ان کی ماہیت کا بھی من وجہ علم ہوگیا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے بغرض فتنہ پردازی پڑتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی معنی سمجھنا چاہتے ہیں یا جو ہم نے بیان کئے ہیں یہی اصلی ہیں۔ اب ہم اپنے زمانہ کے اہل زیغ (عیسائیوں اور آریوں ہندئوں وغیرہم) کو دیکھتے ہیں تو اس آیت کی بالکل صداقت پاتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن شریف کی جن آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ آیات بول رہی ہیں کہ ہم متشابہات ہیں اور ہم پر نکتہ چینی کرنے والے اہل زیغ ہیں مثلاً آیت نَسُواللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ جس کے ظاہری معنی ہیں ” منافق اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور اللہ منافقوں کو بھول گیا اہل زیغ تو سنتے ہی کود اٹھے کہ اللہ بھی کسی کو بھول جاتا ہے۔ دیکھو مسلمانوں کا اللہ بھولتا ہے ایسا ہے ویسا ہے یا دوسری آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ الآیہ۔ جس کے ظاہری معنی ہیں کہ ” جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے کرتے ہیں‘ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے“ اس پر اہل زیغ نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) تو خود بخود خدائی کے مدعی ہیں اپنے ہاتھ کو اللہ کا ہاتھ بتلاتے ہیں۔ یا آیت مسیح (علیہ السلام) کے روح اللہ اور کلمۃ اللہ والی جس کے ظاہری معنی سے اہل زیغ نے ورقوں کے ورق سیاہ کردیئے کہ قرآن بھی مسیح کی الوہیت کا مقر ہے حالانکہ اس قسم کی آیتوں کا مطلب حسب محاورہ زبان صاف ہونے کے علاوہ خود قرآن شریف میں اس کا قرینہ بھی موجود ہے پہلی آیت کا قرینہ یہ ہے کہ خود اللہ نے فرما دیا وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (تیرا رب کسی کو بھولتا نہیں) اس سے معلوم ہوا کہ نَسِیَہُمْ اپنے ظاہری معنی پر نہیں ملے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ نے بھی ان کو اس بھول کی سزا دی۔ دوسری آیت کے معنی سمجھنے کو بھی قرآن مجید میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (کہ اللہ کی مثل اور مشابہ کوئی چیز نہیں) موجود ہے۔ پس آیت موصوف کے معنی بالکل صاف ہیں کہ لوگ جو کچھ تیرے ساتھ معاملہ کرتے ہیں چونکہ ہمارا رسول ہے اس لئے وہ دراصل ہمارے ہی ساتھ ہے۔ بیعت کے وقت تیرا نہیں گویا خود اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے اس میں کیا اعتراض ہے اسی طرح حضرت مسیح کی الوہیت کے متعلق اہل زیغ نے وہ مقامات قرآن مجید کے نہ دیکھے یا دانستہ اغماض کیا جن میں صریح لفظوں میں اس مسئلہ کو قرآن شریف نے رد کیا ہے چنانچہ اسی جلد کے کسی مقام میں مفصل آتا ہے۔ غرض اس قسم کی کارروائیاں اہل زیغ کی دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتیں بیشک متشابہ ہیں اور بعض محکم کیونکہ متشابہات کے معنی ہیں ملی جلی جس کو کم فہم مخاطب سرسری نظر سے نہ پہچان سکے۔ لیکن جو لوگ سمجھ دار اور راسخ فی العلم ہیں ان کو تو ان باتوں کی خوب پہچان ہے۔ اس کی مثال محسوس میں دیکھنی ہو تو سونے اور ملمع کا زیور ایک جگہ رکھ کر دیکھیں کہ کس طرح ناسمجھ آدمی دھوکہ کھا کر سونے کو چھوڑ کر ملمع کے پیچھے پڑتے ہیں اور صرف ایک نظر میں تاڑ جاتے ہیں کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے۔ ہاں یہ سوال رہا کہ اللہ تعالیٰ کو جب معلوم تھا کہ ان آیتوں پر لوگ معترض ہوں گے تو ایسے الفاظ میں مدعا کو بیان ہی کیوں کیا تو یہ سوال بالکل اس سوال کے متشابہ ہے جیسا مجھ سے کسی دہر یہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہے اور وہ بقول تمہارے رحیم و کریم بھی ہے تو بدہضمی کرنے والی چیزیں کیوں پیدا کیں اس کا جواب تو شاید کسی قدر مشکل بھی ہو متشابہات کے سوال کا جواب تو بالکل صاف ہے اور خود قرآن مجید میں مذکور ہے اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْاٰنًا عَربِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی قرآن ہم (اللہ) نے عربی زبان میں اتارا ہے۔ جو عربی کے محاورات ہوں گے انہی کے موافق مضمون ادا ہوگا بھلا اسی طرح ہم اہل زیغ سے پوچھتے ہیں کہ پر میشور نے جو وید میں اگنی کا لفظ بولا ہے جس سے عام ہندو اور حامیان وید نے آگ سمجھ کر آتش پرستی شروع کردی حالانکہ (بقول آریہ سماج) اگنی سے ذات باری مراد ہے تو اگنی کے بجائے کوئی اور لفظ مناسب کیوں نہ رکھ دیا جس سے بت پرستوں کو شبہ نہ ہوتا اسی طرح بایئبل میں اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کا فرزند کہا ! جس سے حامیان بایئبل خواہ مخواہ اعتراضات کے بچھاڑ میں آگئے ان کی بجائے کوئی اور مناسب لفظ کیوں نہ رکھ دیا۔ پس ہماری تقریر سے ثابت ہوا کہ متشابہات وہی احکام اور آیات قرآنی ہیں جن کو اہل زیغ بغرض فتنہ پردازی اشاعت کریں عام اس سے کہ وہ حروف مقطعات ہوں۔ نعماجنت ہوں یا عذاب دوزخ۔ سمع۔ بصر۔ صفات خداوندی ہوں یا معجزات نبوی۔ احکام متبدلہ ہوں یا ثابتہ۔ اگر قرآن شریف پر غور کیا جاوے تو یہ معنی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کل قرآن مجید کو محکم بھی فرمایا کِتَابٌ اُحُکِمَتْ اٰیَاتُہٗ اور سب کو متشابہ بھی بتلایا ہے کِتَابًا مُّتَشَابِھًّا پس یہ دونوں وصف باوجود متضاد ہونے کے صرف مخاطبین کے اعتبار سے جمع ہیں ہاں اس آیت میں جس کا ہم عاشیہ لکھ رہے ہیں بعض کو محکم اور بعض کو متشابہ فرمایا تو اس زمانے کے اعتبار سے ہے جو صرف توحید خالص اور ثبوت قیامت پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور تعلیم توحید کو سن کر اَجَعَل"الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ کا شور مچاتے تھے۔ پس جو آیات اہل زیغ کے لیے مزلۃ الاقدام ہوں اور بے سمجھی سے ان کے ذریعہ فتنہ پردازی کریں وہی متشابہات ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل زیغ نے کل قرآن کو حتی کہ بسم اللہ کو بھی اعتراض سے خالی نہیں چھوڑا پس اس لحاظ سے کل قرآن متشابہ ہوا جو دراصل سب کا سب ” محکم“ ہے اس مسئلہ کے متعلق ہمارا ایک مستقل رسالہ ” آیات متشابہات“ بھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ منہ “ اور دوسرے کچھ ملے جلے ہیں جن کے ظاہر الفاظ کا مطلب اصل مطلب سے غیر ہے پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کتاب میں سے ملتے جلتے احکام یا اخبار کے پیچھے پڑیں گے تاکہ لوگوں کو گمراہ کریں اور بظاہر یہ غرض جتلا دیں گے کہ ان کی اصل مراد پاویں اور لوگوں کو اصل مطلب سے آگاہ کریں حالانکہ ان کا اصل مطلب اللہ تعالیٰ اور راسخ علم والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کو اتنا رسوخ فی العلم کہاں کہ ان کی طرح یہ بھی سمجھیں یہ تو سرسری لفظوں کے تراجم اور ظاہری مفہوم کو بلا قرینہ سن کر بڑبڑا اٹھتے ہیں لائق اور قابل لوگ اس بھید کو جانتے ہیں جب ہی تو کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن کو مان چکے ہیں بے شک یہ سب اول سے آخر تک ہمارے اللہ کے پاس سے ہے اور اس بھید کو بخیر عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا سمجھ داروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ سب اپنے دینی اور دنیاوی امور سپرد اللہ کرتے ہیں اور اپنی تمام آرزوئیں اسی سے مانگتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ ہمارے دلوں کو بعد ہدایت کرنے کے ٹیڑھا مت کر کہ ہم بھی تیرے کلام سمجھنے میں کجروی نہ کریں اور اپنے ہاں سے ہم کو رحمت سے حصہ مرحمت کربیشک تو ہی بڑا فیاض ہے اور نشانی داناؤں کی یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے فرمودہ پر ایمان کامل رکھتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ بے شک تو سب بنی آدم کو ایک دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں اس لئے کہ اللہ کبھی اپنے وعدے خلاف نہیں کیا کرتا اس کی الوہیت خلاف وعدہ کرنے کے خلاف ہے یہی لوگ ہمارے ہاں مقبول بندے ہیں گو بوجہ ناداری ظاہربینوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوں اس لئے کہ مال ودولت ہمارے ہاں کوئی قابل عزت نہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو لوگ مال و دولت کے گھمنڈ میں ہمارے احکام کے منکر ہیں ان کو جب سزا ملنے لگے گی تو ان کے مال اور اولاد اللہ کے عذاب سے انہیں کچھ بچانہ سکیں گے۔ اور یہ لوگ جہنم کی آگ کا ایندھن ہوں گے ان منکروں کی حالت اور عادت بعینہ فرعونیوں کی اور ان سے پہلوں کی سی ہے جنہوں نے ہمارے حکموں کو جھٹلایا پس باوجود مال ودولت کے عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے آخر کار ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے ان کو پکڑا اور اللہ کی پکڑ سے کوئی ان کو بچا نہ سکا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے۔ اسے کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی اسی طرح یہ کفار تیرے معاند بھی جو اپنے ظاہری اعزاز پرنازاں ہیں ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔ بے شک ابھی سے تو ان منکروں کو کہہ دے کہ تم بھی تھوڑے دنوں تک مغلوب کئے جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ مغلوب ہوچکے ہیں۔ اور بعد مغلوب ہونے کے جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہوگا اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ باز آجائو ورنہ ذلیل و خوار ہوگے ” قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا جنگ بدر کے فیصلہ کے بعد حضرتﷺ نے یہود کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ دیکھو عزت بچا کر مسلمان ہوجائو ایسا نہ ہو کہ پھر تم بھی مثل کفار مکہ کے ذلیل و خوار ہو انہوں نے کہا کہ جن مشرکوں پر تم نے فتح پائی ہے وہ بیچارے سیدھے سادھے فن جنگ سے ناآشنا تھے ہم سے اگر مقابلہ ہوا تو دیکھو گے ہم کیسے ہاتھ دکھائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اگر اپنی صنعت جنگ وغیرہ پر ناز رکھتے ہو تو واقعات گذشتہ کو دیکھو تمہارے لئے ان دو فوجوں میں جو جنگ بدر میں بھڑی تھیں کمال قدرت اللہ کریم کی نشانی ہے ایک جماعت ان میں سے جو مسلمان تھی اللہ کی راہ میں بغرض نصرت دین لڑتی تھی اور دوسری جماعت جو کافر اور ظالم تھی علاوہ سازو سامان کے ان کی کثرت بھی اس درجہ تھی کہ مسلمان ان کو اپنے سے دو گنا آنکھوں سے دیکھتے تھے مگر پھر بھی ان ضعیف اور کمزور لوگوں کی فتح ہوئی جو علاوہ بے سروسامانی کے تعداد میں بھی بہت کم تھے اس لیے کہ اللہ اپنی مدد سے جس کو چاہتا ہے قوت دیتا ہے بے شک اس واقعہ میں سمجھ داروں کے لئے بڑی نصیحت ہے مگر چونکہ سردست اسلام میں تکلیف پر تکلیف ہے اور ان لوگوں کو اپنی خواہش کی چیزیں خوبصورت عورتیں اور اہل و عیال بیٹے بیٹیاں اور چاندی سونے کے ڈھیر اور بڑے خوبصورت پلے ہوئے گھوڑے اور چار پائے اور کھیتی باڑی وغیرہ اشیاء ہم کو جو قسم بھلی معلوم ہوتی ہے اس لیے اسلام سے رکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندے جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اگر ہے تو صرف دنیا کا گذاراہ ہے جو چند روز کے بعد فنا ہے اور اللہ کے ہاں نیک کاموں پر بڑی عزت کا مرتبہ ہے تو ان سے کہہ دے کہ میں تم کو اس دنیاوی عیش وعشرت سے اچھی چیز بتاؤں سنو ! جو لوگ بری باتوں سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں یہ نہیں کہ ان باغوں میں ان کا چند روز ہی بسیرا ہوگا بلکہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور اس عیش و آرام میں ان کو تجرد کی بھی تکلیف نہ ہوگئی اس لیے کہ ان کے لیے ان باغوں میں بڑی ستھری بیویاں ہوں گی اور بڑی بھاری نعمت ان کے لئے خوشنودی اللہ کریم کا اعزازی تمغہ ہوگا کیوں نہ ہو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے جو اس کے راستہ میں تکلیف اٹھاتے ہوتے کہتے ہیں اے ہمارے اللہ بے شک ہم تیرے احکام پر ایمان لائے پس تو ہمارے گناہ بخش دے اور بروز قیامت ہم کو عذاب جہنم سے بچائیو تکلیف پہنچے تو اس میں بڑی جوانمردی اور ثابت قدمی سے صبر کرتے اور باوجود کثیر المشاغل ہونے کے بھی سچ بولتے اور ہر کام میں اللہ کی تابعداری کرتے اور حسب توفیق خرچ کرتے اور صبح کے وقت جو بڑی راحت کا وقت ہوتا ہے اٹھ کر اللہ سے بخشش مانگتے ہیں بھلا ان کی روش کیوں نہ پسند یدہ ہو جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے سب فرشتے اور دنیا کے سب سچے علم والے ظاہر کرتے ہیں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں جو اکیلا باانصاف گناہوں گی سزا اور نیکیوں کا عوض دینے والا حاکم ہے پس سوائے اس کے کوئی معبود برحق نہیں نہ مسیح نہ کوئی وہ سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معتبر مذہب اسلام ہے جو حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم کا دین اور طریقہ ہے اور اب یہ اہل کتاب یہودونصاری جو اس امر میں مخالف ہوئے ہیں تو بعد پہنچنے واضح علم کے محض ضد سے مخالف ہوئے ہیں چونکہ ایک کا کام دوسرے کو ضرور معیوب معلوم ہوتا ہے اس لئے جو لوگ بوجہ حق سمجھتے اسلام کے مسلمان ہوتے ہیں دوسرے ان کی دشمنی سے خواہ مخواہ ان پر اعتراض کرتے ہیں اور عوام میں اپنا رسوخ بڑھاتے ہیں پس یادرکھیں کہ جو کوئی اللہ کے حکموں سے انکاری ہوگا خواہ کسی وجہ سے کسی کی ضد سے یا اپنی ہٹ سے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ان سے حساب لینے والا ہے دنیا کی زندگی کے چند روز ان کو مہلت ہے مرتے ہی ان کے لئے ہاویہ جہنم تیار ہے چونکہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ لوگ محض اپنی ضد سے مخالف ہیں۔ پس اگر تجھ سے کسی امر میں جھگڑا کریں تو تو ایسے ضدیوں کو بفحوائے جواب جاہلاں باشد خموشی کہدیجویو کہ میں اور میرے اتباع سب لوگ تو اللہ کے تابعدار ہوگئے ہیں۔ تم جانو تمہارا کام اپنے کئے کا بدلہ پاؤ گے یہ کہہ کر جھگڑا چھوڑدے اور تو بطور نصیحت ان کتاب والوں اور عرب کے ان پڑھوں سے کہہ دے کہ کیا تم بھی اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوتے ہو یا نہیں پس اگر وہ اللہ تعالیٰ کے تابعدار ہوگئے تو جان لیجو کہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو تیرا بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ تیرے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ جس سے انجام کار ان کو معاملہ ہے اپنے کل بندوں کو دیکھ رہا ہے یہ نہ سمجھیں کہ جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں آل عمران
2 آل عمران
3 آل عمران
4 آل عمران
5 آل عمران
6 آل عمران
7 آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 آل عمران
13 آل عمران
14 آل عمران
15 آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 آل عمران
19 آل عمران
20 آل عمران
21 (21۔30)۔ بے شک جو لوگ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو ناحق ظلم سے قتل کرتے ہیں۔ اور جو ان کے اس فعل قبیح کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ حق بات سے ان کو اس درجہ عداوت ہے کہ جو لوگ اہل علم میں سے انصاف اور حق پسندی کی بات بتلاتے ہیں ان کو بھی قتل کر ڈالتے ہیں یا ان کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادے کہ آخرتمہارا بڑے گھر میں بسیرا ہوگا انہی کے اعمال نیک بھی دونوں جہانوں دنیا وآخرت میں برباد ہوں گے نہ دنیا میں اس پر کوئی اثر مرتب ہوگا اور نہ آخرت میں ان کو بدلہ ملے گا بلکہ بجائے ثواب پانے کے گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا یہ لفظ خوشخبری کے مقابلہ میں محاورہ کا بولا گیا ہے عموماً حکام مجرموں کو جیل خانہ کی نسبت یہ لفظ کہا کرتے ہیں کہ تو بڑے گھر میں جائے گا یوں بھی کہا کرتے ہیں کہ تو سال بھر سرکاری مہمان رہے گا یعنی جیل خانہ میں قید ہوگا۔ ان سے جتنی سختی ہوبے جا نہیں یہ بھی تو جان بوجھ کراندھے بنے ہوئے ہیں کیا تو نے اے مخاطب ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب اللہ کریم سے جو بندوں کی ہدائیت کے لئے وقتاً فوقتاً آیا کرتی ہے اور وہی کتاب کسی زمانہ میں تورات انجیل زبور وغیرہ کے نام سے موسوم ہوئی تھی حصہ ملا تھا وہی لوگ جب اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف جو حسب مقتضائے زمانہ قرآن کے نام سے ہو کر آئی ہے بلائے جاتے ہیں تاکہ ان میں ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور ان کو مذہبی باتوں میں سچی راہ بتاوے اور یہ بھی سمجھائے کہ جن کو تم نے غلطی سے خدائی حصہ دے رکھا ہے ان کو خدائی میں کوئی حصہ نہیں یا اور امور جو تصفیہ طلب ہوں ان میں تصفیہ کرے تو بجائے تسلیم کرنے کے ایک جماعت جو اپنے آپکو اہل علم کہتے ہیں منہ موڑ کر پھرجاتی ہے اور اس امر کو ہرگز نہیں سوچتے کہ اس بے اعتنائی کا انجام کیا ہوگا۔ ” شان نزول :۔ (الم تر الی الذین اوتوا نصیبا) حضرتﷺ ایک دفعہ یہودیوں کے ایک مدرسہ میں تشریف لے گئے اور ان کو مسلمان ہونے کی بابت کہا دو آدمی ان میں سے بول اٹھے کہ آپ کس دین پر ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریق پر ہوں وہ بولے ابراہیم ( علیہ السلام) تو یہودی تھا۔ آپ نے فرمایا لائو توریت اسی پر فیصلہ رہا۔ یہ سن کر تورات لانے سے وہ انکار کر گئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا) اس آیت کے مضمون میں ہم نے اس مشہور سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے جو عام طور پر عیسائی اور اسلام کی مخالفت میں ان کے ہمنوا آریہ اور دیگر مخالفین کیا کرتے ہیں جس کا مطلب ” عدم ضرورت قرآن ہے۔ تقریر اس سوال کی یوں کی جاتی ہے کہ قرآن نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلی کتابوں کے ذریعہ سے پہلے لوگوں کو دی گئی تھی تو اتنی بڑی مخلوق کو کیوں محروم رکھا علاوہ اس کے کوئی نئی بات قرآن میں نہیں وہی احکام عشرہ تورٰیت کا تکرار اور عام اخلاقی امور ہیں جو ہر مذہب و ملت میں رائج ہیں۔ اور اگر شق اوّل ہے یعنی پہلی کتابوں میں پہلے لوگوں کو وہ تعلیم دی گئی تھی تو قرآن کی کیا ضرورت تھی یہ ہے ان تحریروں کا خلاصہ جن سے ہمارے قدیمی مہربان عیسائیوں نے ورقوں کے ورق اور جزوں کے جز سیاہ کئے ہیں اور ان کے شاگرد (مگر خاص اسلام پر اعتراض کرنے کے فن میں) آریوں نے بھی بڑے زور سے اس پر حواشی چڑھائے ہیں مگر اصل میں یہ اعتراض بالکل قرآن سے ناواقفی پر مبنی ہے۔ مفصل جواب سے پہلے ہم اپنے مخاطبوں سے الزامی طور پر پوچھتے ہیں کہ آپ ہی بتلاویں کہ مسیح نے جو تعلیم دی ہے وہ پہلے لوگوں کو دی گئی تھی یا نہیں بلکہ ذرہ اوپر چڑھ کر بھی ٹٹولئے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے جو تعلیم بذریعہ تورٰیت بنی اسرائیل کو سنائی وہ پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کسی کی معرفت دی تھی یا نہیں اگر نہیں تو ان کو محروم کیوں رکھا اور اگر دی تھی تو تورٰیت کی کیا حاجت تھی۔ اسی طرح آریوں سے پوچھتے ہیں کہ دید کی تعلیم جن کو بقول یورپین مورخوں کے دو ہزار برس بنے ہوئے گذرے ہیں آریہ تو ویدوں کی عمر ابتدا سے دنیا سے بتاتے ہیں جس کا ثبوت ان کے پاس بجز اس کے کوئی نہیں کہ پنڈت دیانندے رگوید بھاش بھومکا میں لکھا ہے اس مسئلہ کی تحقیق میں کہ آریوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ہمارا ایک مستقل رسالہ ” حدوث وید“ ہے قیمت۔ ١٢ اس کی تعلیم پہلے لوگوں کو بھی یا نہیں اگر نہیں تھی تو محروم کیوں رکھا اور اگر تھی تو اس کی کیا حاجت تھی۔ اس اعتراض سے وہی قوم بچے گی جو کسی پختہ دلیل سے اپنی کتاب کی قدامت ثابت کر دے جو مشکل بلکہ محال ہے۔ خیر اب ہم اصل مضمون پر آتے ہیں قرآن شریف نے کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں ایک نئی چیز لایا ہوں جو تم سے پہلے لوگوں کو نہیں ملی تھی بلکہ صاف لفظوں میں بے ایچ بیچ اس بات کا مقر ہے کہ میں وہی دین الہٰی ہوں جو ہمیشہ سے نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچا ہے اسی کو تازہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں چنانچہ آیات ذیل اس مطلب کے لیے شاہد عدل ہیں۔ شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ و عیسیٰ ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ تمہارے لئے وہی دین جاری کیا ہے جس کی بابت ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو ہدایت کی اور جو تیری طرف کتاب اتاری ہے کہ دین (رضاء مولا) کو قائم رکھو اور جدا جدا متفرق نہ ہو۔ “ ما یقال لک الا ماقد قیل للرسل من قبلک ان ربک لذو مغفرۃ و ذوعقاب الیم (السجدہ ع ٤) تجھے اے محمد (ﷺ) اللہ کی طرف سے وہی بات کہی جاتی ہے جو تجھ سے پہلے رسولوں کو کہی جاتی تھی بیشک تیرا رب بندوں کے حال پر پڑی بخشش کرنے والا ہے اور نافرمانوں ناشکروں کے حق میں سخت عذاب والا ہے۔ قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین۔ ’ تو کہہ دے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ یعنی ابراہیمی طریق کی ہدایت کی ہے جو یک رخہ اللہ تعالیٰ کا بندہ تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ “ ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین (نحل ع ١٠١) ” پھر ہم نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ تو ابراہیم موحد کے دین کا جو مشرک نہ تھا اتباع کر۔ آیات مذکورہ بالا جو مضمون بتلا رہی ہیں وہ مخفی نہیں بالکل واضح طور پر کہہ رہی ہیں کہ قرآن کی تعلیم کوئی نئی تعلیم نہیں بلکہ وہی پرانی حقانی تلقین ہے جو ابتدائے دنیا سے مخلوق کی ہدایت کے لیے آئی تھی لیکن یہ سوال کہ قرآن کی بصورت جدید کیا ضرورت تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانہ کے اہل کتاب کی بد اطواری خصوصاً تبلیغ احکام کے متعلق بددیانتی اور تورٰیت و انجیل کی طرز موجودہ اور مشرکین عرب کی ہدایت ہی موجب اس کی ہوئی کہ قرآن شریف بصورت جدید آوے چنانچہ ان امور کو قرآن شریف نے مفصلاً بیان کیا ہے پہلی آیت وہ ہے جہاں ارشاد ہے۔ واذ اخذ اللّٰہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس مایشترون (اٰل عمران ع ١٩) اللہ عالم الغیب نے کتاب والوں سے عہد لیا تھا کہ اس کتاب کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہنا اور اس کو مت چھپانا لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کو اپنے پیچھے پھینک دیا اور اس کے عوض میں دنیا داروں سے چند پیسے لینے شروع کردیئے پس جو لیتے ہیں بہت برا ہے۔ من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ (نساء ع ٧) بعض یہودی کلام کو اس کی اصل جگہ سے بدل دیتے ہیں۔ یٰٓاھل الکتب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق وانتم تعلمون۔ اے کتاب والو سچ کو جھوٹ سے کیوں ملاتے ہو اور دانستہ حق کو کیوں چھپاتے ہو۔ “ وان منھم لفر یقایلوون السنتھم بالکتاب لتحسبوہ من الکتاب وما ھو من الکتاب ویقولون ھو من عنداللّٰہ وما ھو من عنداللّٰہط ویقولون علے اللّٰہ الکذب وھم یعلمون (آل عمران ع ٧‘ ٨) بیشک ان اہل کتاب سے ایک فریق ہے جو زبانوں کو کتاب کے پڑھتے ہوئے مروڑتے ہیں تاکہ تم اس کو بھی جو دبی زبان سے کہتے ہیں کتاب جانو حالانکہ وہ کتاب سے نہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہاں سے ہے حالانکہ اللہ کے ہاں سے نہیں ہے اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں ۔ فبمالقضہم میثاقھم لعناھم وجعلنا قلوبھم قاسیۃ یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حظا مما ذکروا بہ ولا تزال تطلع علی خائنۃ منہم الا قلیلا منھم فاعف عنھم واصفح ان اللّٰہ یحب المحسنین٭ پس ان کے وعدے توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کتاب اللہ کو اصلی جگہ سے بدلتے ہیں اور جس چیز کی ان کو نصیحت ہوئی تھی ایک عظیم حصہ اس کا بھول بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ ان کی خیانتوں پر بجز چند لوگوں کے مطلع ہوتا رہے گا پس تو ان سے درگزر کر اور منہ پھیر کیونکہ اللہ نیکوں سے محبت رکھتا ہے “ ومن الذین قالوا انا نصاری اخذنا میثاقھم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ وسوف یبنہم اللّٰہ بما کا نوا یصنعون (مائدہ) عیسائیوں سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر وہ بھی بہت سا حصہ اس میں سے بھلا بیٹھے پھر ہم نے قیامت تک ان میں عداوت اور بغض ڈال دیا اور اللہ ان کو ان کے کاموں سے قیامت کے روز خبر دے گا۔ “ وھذا کتاب انزلنہ مبارک فاتعبوہ واتقوا لعلکم ترحمون ط ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طالفتین من قبلنا و ان کنا عن دراستھم لغافلین (انعام ع ٢٠) مشرکین عرب کو ارشاد ہے کہ ہم نے اس کتاب کو اس لئے اتارا ہے کہ تا تم نہ کہنے لگو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں کو کتاب ملی تھی اور ہم (بوجہ مغائرت زبان) ان سے بے خبر تھے۔ بالخصوص بیان لحاظ کہ تورٰیت و انجیل کے مضامین میں خلط ملط عظیم ہوا ہے جو اس کی طرز تحریر جتلا رہی ہے اور ان کی تعلیم واقعی یا بناوٹی کا بگاڑ کہ ایک اللہ کے تین اور تین سے پھر ایک بنانا جو نہ صرف انجیل بلکہ تورٰیت سے مستنبط کیا جاتا ہے بیشک اس بات کا مقتضی تھا کہ اللہ کی سچی تعلیم بالکل الگ کر کے حسب حال زمانہ ایسی طرز سے بیان کی جائے کہ اس میں کجرووں کو بالکل مجال سخن نہ ہو۔ اور پھر ساتھ ہی اس کے اس کتاب کی حفاظت صوری اور معنوی کا کوئی خاص انتظام ہو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ اللہ کی سچی تعلیم ایک ایسے قالب میں لا کر بیان کی گئی جس سے کجرووں کی کجروی نمودار اور عیاں ہوگئی جس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ۔ ما کان لبشر ان یوتیہ اللّٰہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللّٰہ ولکن کونوا ربا نیین بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون (آل عمران ع ١٨) ” کسی بندے کی شان ہی نہیں کہ اس کو اللہ کتاب عنایت کرے اور وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ اللہ سے ورے ورے مجھے بھی اللہ مانو لیکن یہ کہے گا کہ اپنے علم اور درس کی وجہ سے اللہ والے بنو۔ “ وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللّٰہ ولا تتبع اھواء ھم عما جاءک من الحق (المائدہ ع ٧) ایک آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے جو پہلی کتاب کو حق بتلاتی ہے علاوہ تصدیق کے اس پر خبرگیر بھی ہے (کہ اس میں کجرووں کی کجروی جو ہوئی ہو اس کی تغلیظ اور مضامین حقہ کی تصدیق کرے) پس تو ان میں اللہ کے اتارے ہوئے (قرآن) سے فیصلہ کر (کیونکہ وہ بلاشبہ صاف اور حق ہے) اور تیرے پاس جو سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کے (اور من گھڑت مطالب کے) پیچھے مت ہوجیؤ۔ ان آیات میں پہلی کتابوں کی تصدیق کر کے ان کے مخلوط بالغیر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ساتھ ہی قرآن شریف کے بصورت جدید آنے کی علت بتلائی ہے کہ قرآن اور کتب سابقہ کی مثال بالکل صحیح اور درست مسودہ اور مبیضہ کی سی ہے یعنی جس طرح مسودہ کو جس میں کئی زائد کم باتیں ملی ہوئی ہوں صاف کر کے مبیضہ بنایا جاتا ہے تو مسودہ سابقہ کو ردی میں پھینک دیا کرتے ہیں اسی طرح کتب سابقہ کے مضامین جن میں بجائے توحید خالص کے تثلیث اور مردم پرستی قائم کی گئی تھی ان کو صاف کر کے صحیح مضامین کو چھانٹ کر ایک صحیح مبیضہ تیار کیا گیا اور آئندہ کو اس کی حفاظت بندوں سے ہٹا کر اللہ عالم الغیب نے خود اپنے ذمہ لی۔ (تورٰیت اور انجیل کے مسودہ سے تشبیہہ اس کی حالت موجودہ کے لحاظ سے ہے جس میں ایسے مضامین بھی ہیں کہ حضرت لوط نے (معاذ اللہ) شراب پی کر اپنی لڑکیوں سے زنا کیا (پیدائش ١٩ باب) مسیح نے شراب کی دعوت میں شراب کے کم ہونے پر معجزہ سے شراب کو بڑھا دیا (یوحنا ٢ باب) اور نہ حقیقی تورٰیت انجیل نور ہدایت اور رحمت تھی جن کے مضامین قرآن میں آکر وہی لقب لے رہے ہیں۔ (فافہم) منہ) چنانچہ ارشاد ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الجزء ١٢) ” تم ہی نے اس نصیحت (قرآن) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “ چونکہ اللہ کے کام بذریعہ اسباب ہوا کرتے ہیں اس لئے اس حفاظت کا انتظام بھی حسب دستور اس نے اپنے بندوں سے اس طرح لیا کہ عموماً مسلمانوں میں بفضلہ تعالیٰ حافظان قرآن پائے جاتے ہیں۔ اس تنزل کے زمانہ میں بھی اللہ کی حفاظت کا یہ اثر ہے کہ مثلاً یہی شہر (امرت سر) جس میں تقریباً تین سو مسجد ہے رمضان میں عموماً ہر مسجد میں تراویح پڑھنے کو دو حافظ تو ضروری ہی ہوتے ہیں جس سے اوسط حساب چھ سو حافظ ہوتے جو خاص شہر کی آبادی کا حساب ہے اور گردو نواح کا اندازہ بھی اسی پر قیاس کرلیجئے پھر تمام اسلامی دنیا کا اس پر حساب ہونا آسان ہے حالانکہ یہ زمانہ عام طور پر مذہبی امور سے غفلت کا ہے اسی طرح نسلاً بعد نسل کرتے آئے ہیں اور کرتے جائیں گے جس سے کوئی کتنا بھی زور لگائے ایک زبر سے زیر اور پیش سے جزم نہ ہوگی۔ کیا کوئی اور قوم ہے جو اسلام کی اس خوبی اور پیشگوئی کا مقابلہ کر کے دکھائے بس تنگ نہ کر ناصح ناداں مجھے اتنا یا چلئے دکھاوے دہن ایسا مکر ایسی یہ ایک ایسی حفاظت ہے کہ مسلمانوں کو اسی کی بدولت وہ بدزمانہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا کہ اس کہنے پر مجبور ہوں کہ فلاں آیت الحاقی ہے اور فلاں باب جعلی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو کہنا پڑا (دیکھو تفسیر ہارن) پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم بالکل وہی ہے جو ابتدا سے اللہ نے اپنے بندوں کو دی تھی جس کو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے۔ ولقد وصینا الذین اوتوا الکتاب من قبلکم وایاکم ان اتقوا اللہ وان تکفروا فان للّٰہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللّٰہ غنیا حمیدا (نساء ع ١٩) ” تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہماری یہی نصیحت رہی تھی کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو جان رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور اللہ سب سے بے نیاز بذاتہ تعریفوں کے لائق ہے۔ “ ایک جگہ فرمایا : کتاب احکمت ایاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ان لا تعبدوا الا اللّٰہط اس کتاب کے حکم بڑے محکم اور اللہ کے پاس سے مفصل بیان ہوچکے ہیں کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرو۔ اس تعلیم سابق کا بطرز جدید بصورت قرآن بیان کر کے آئندہ کو ہمیشہ کے خطرات سے اسے محفوظ کردیا کہ دوبارہ کجرووں کے اختلاط سے بگڑنے نہ پاوے یہی وہ نسخ ہے جو عام طور پر اہل اسلام تورٰیت انجیل کو منسوخ کہا کرتے ہیں نہ از لات و عزیٰ براورد گرد کہ تورٰیت و انجیل منسوخ کرو اور یہی دلیل آپ کے خاتم نبوت ہونے کی ہے اس لئے کہ نبی کی بڑی ضرورت تو یہ ہے کہ حقانی تعلیم کی نسبت ہو غلو ہوا ہو اس کو معدوم کر کے اصل بات صاف صاف لوگوں کو پہنچا دے۔ لیکن جب اس تعلیم کا اللہ محافظ ہے اور اسی کی حفاظت کی وجہ ہے کہ اس میں کوئی خلل نہیں آیا تو نبی کے بھیجنے کی ضرورت کیا۔ رہی تبلیغ سو یہ عام طور پر علمائے اسلام کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے چنانچہ انہی معنی سے حدیث میں آیا ہے۔ علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل (حدیث) ” میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کا منصب رکھتے ہیں “ رہا یہ سوال کہ اگر قرآن شریف وہی خداوندی حقانی تعلیم ہے جو ہمیشہ سے بندوں کو ملتی رہی تھی تو ان میں رسوم مذہبی کا اختلاف کیوں ہے۔ مسلمانوں کی نماز وغیرہ عبادات عیسائیوں اور یہودیوں اور دیگر اہل کتاب سے کیوں مختلف ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں اسلامی عبادات صرف چار ہی ہیں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ (خیرات) نماز میں جو ارکان (قیام۔ رکوع۔ سجود) پائے جاتے ہیں پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا چنانچہ صدیقہ مریم کو ارشاد ہوتا ہے۔ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران ع ٥) ” مریم اپنے اللہ کے سامنے کھڑی ہو اور سجدہ اور رکوع کرنے والوں سے مل کر رکوع اور سجدہ کر۔ “ اسی طرح زکوٰۃ کا بھی ان کو حکم تھا جیسا کہ فرمایا۔ وما امروا الا لیعبدو اللّٰہ مخلصین لہ الدین حنفاء ویقیموا الصلوٰۃ ویوتوا الزکوٰۃ وذلک دین القیمۃ (منہ) ” ان کتاب والوں کو یہی حکم تھا کہ خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں اور نماز پر مضبوط رہیں اور زکوٰۃؔ (خیرات) دیتے رہیں یہی دین مضبوط دین الہٰی ہے۔ “ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (بقرہ) روزوں کی بابت بھی صاف حکم ہے کہ جس طرح تم پر روزہ فرض ہوا ہے اسی طرح پہلے لوگوں پر بھی ہوا تھا۔ اذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عیق لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم اللّٰہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقری (الحج ع ٤) ” ایسا حج کی بابت بھی ارشاد ہے کہ ابراہیم کو اللہ نے حکم کیا تھا کہ لوگوں میں حج کی منادی کر دے۔ تیرے پاس پاپیادہ اور دبلی دبلی اونٹنیوں پر دور دراز راستے سے سوار ہو کر آویں گے تاکہ اپنے منافع پر حاضر ہوں اور اللہ کا نام معین تاریخوں میں اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مویشی پر یاد کریں پس تم خود بھی ان میں سے کھائیو اور محتاج فقیروں کو بھی کھلائیو۔ “ باقی رہے اخلاقی مضامین (سچ بولنا۔ زنا نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا۔ ظلم نہ کرنا وغیرہ وغیرہ) سو یہ تو ایسے احکام ہیں کہ کسی شریعت اور قانون کی ذیل میں بیس آکر مبتدل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ اسلام نے بھی ان میں کسی طرح سے تغیر نہ کیا بلکہ مزید تاکید ہی ان کے متعلق فرمائی۔ ہاں بعض عبادات اہل کتاب کی اسلام سے بیشک مختلف ہیں جیسے مسیح کی عبادت صلیب کی پرستش وغیرہ۔ سو اس کے ذمہ دار خود یہی جنٹلمین ہیں جن کی یہ خانہ ساز ہیں اسلام تو اللہ کی تعلیم حقانی کا مظہر ہے نہ کہ ان کے ایجاد کا بلکہ سچ پوچھو تو ایسی باتیں ہی تعلیم الہٰی کو بہ لباس قرآن لانے کے لئے مقتضی ہوئیں چنانچہ ارشاد ہے۔ یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما تخفون من الکتاب ویعفوا عن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتب مبین (مائدہ ع ٣) ” اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول (محمد ﷺ) آگیا ہے جو تمہاری بہت سی چھپائی ہوئی کتاب کو ظاہر کرتا ہے اور بہت سے تمہارے ذاتی عیوب سے درگذر کرتا ہے بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کتاب روشن آپہنچی۔ “ پس مختصر یہ کہ قرآن شریف وہی حقانی تعلیم ہے جو ابتدائے آفرنیش سے بندوں کی ہدایت کے واسطے آئی تھی جو کجروؤں کی کجروی سے ردو بدل ہو کر مخلوط بالغیر ہوچکی تھی اسی کو صاف و مصفیٰ کر کے مع بعض واقعات تاریخیہ بطور عبرت بیان کیا گیا ہے پس جو مضمون اس محفوظ مضمون کے مخالف ہوگا وہ مردود متصور ہوگا اور جس کی قرآن شریف تصدیق کرے گا وہی صحیح اور قابل اعتبار ہوگا۔ رہی یہ بحث کہ تورٰیت و انجیل میں تحریف لفظی ہے یا معنوی سو یہ بحث طویل الذیل ہے اس لئے اس کو ہم کسی اور موقع پر چھوڑ کر اس حاشیہ کو ختم کرتے ہیں اور اخیر میں ارشاد خداوندی سب اہل کتاب کو سناتے ہیں۔ یایھا الذین اوتوا الکتاب امنوا بما نزلنا مصدقا لما معکم من قبل ان نطمس وجوھا فنردھا علی اذبار ھا او نلعنھم کما لعنا اصحب السبت وکان امر اللّٰہ مفعولا۔ (النساء ع ٧) اے کتاب والو ! ہماری اتاری ہوئی کتاب (قرآن) کو مانو جو تمہارے ساتھ والی کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے پہلے (مانو) کہ ہم کئی منہ بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی شکل پر ان کو کردیں یا ان کو لعنت کریں جیسی کہ سبت والوں کو لعنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا ہے۔ (منہ) “ مگر چونکہ ہر ایک امر جائز ہویاناجائز کسی وجہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے کرنے والے کے نزدیک کوئی نہ کوئی وجہ (خواہ واقع میں کیسی ہی غلط ہو) ہوا کرتی ہے یہ بے پروائی ان کی بھی اس وجہ سے ہے (دیکھو تو کیسی غلط وجہ سے) کہ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہمیں اگر ہوا تو چند روز ہی عذاب ہوگا کیونکہ ہم خاندان موت سے ہیں انبیاء کی اولاد بزرگوں کی ذریت ہیں مسیح ہمارا کفارہ ہے کیا ہمارا اتنا بھی لحاظ نہ ہوگا کہ ہمیں تھوڑا سا عذاب جتنے روز ہمارے بزرگوں سے بچھڑے کی پوجا ہوئی تھی ہو کر رہائی ہوجائے دیکھو تو کیسا ان کو مذہب کے بارے میں ان کے جھوٹے ڈھکوسلوں نے فریب دے رکھا ہے پس اگر یہ ایسے ہی خیالات واہیہ پر رہے تو ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ان کو جمع کریں گے جو بلاشبہ ہونیوالا ہے اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر کسی طرح ہماری طرف سے ظلم نہ ہوگا۔ اس روز ان کی کارستانی کی قلعی کھلے گی اور خوب جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی کچہری ایسی نہیں کہ وہاں کوئی چون وچرا کرسکے اور اپنے خاندانی حقوق جتلائے بلکہ جو کچھ عرض معروض کرنا ہوعاجزانہ سے ہوگا طریق چونکہ محکمہ اللہ کریم میں عجزونیاز ہی کام آتا ہے اس لئے ہم تجھے (اے نبی) ہدائت کرتے ہیں کہ تو اگر اپنی حاجت بر آری چاہتا ہے تو یوں کہہ کہ اے اللہ تمام ملک کے مالک تو جس کو چاہے دنیا کا ملک اور حکو مت دیتا ہے اور جس سے چاہے دیا ہوا چھین بھی لیتا ہے اور جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے ذلیل کرتا ہے حق یہ ہے کہ تیرے ہی اختیار میں ہر طرح کی بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے یہ تیری ہی قدرت کے آثار ہیں کہ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں کبھی دن کو بڑھاتا ہے اور کبھی رات کو اور زندہ کو مردہ جیسے نطفہ سے نکالتا ہے اور مر دہ کو زندہ زندہ سے باہر نکالتا ہے اور ساتھ ہی یہ کمال قدرت ہے کہ جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے ” شان نزول :۔ (قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ) آنحضرتﷺ نے اپنی امت کو وعدہ فتوحات کثیرہ کا دیا تو منافقین کوتاہ اندیشوں نے اس سے تعجب کیا کہ کیونکر ایسی فتوحات ضعیف مسلمانوں کو ہوسکتی ہیں۔ اس واقع پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) “ پس ایسے خیالات اور اعتقادات موجب نجات ہیں اور اگر کسی کافر یا فاسق کی محبت میں بیٹھ کر تم بگڑے تو گئے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی مت لگائیں تاکہ ان کی طرح بد اخلاق نہ ہوجائیں اور اللہ کے غضب میں نہ آجائیں جو کوئی یہ کام کرے وہ اللہ سے بے تعلق ہے ہاں اگر ان سے ضرر کا اندیشہ ہو تو کسی قسم کا بچاؤ کرلو تو جائز ہے تاکہ ان کے ظلم سے بچے رہو اور دنیاوی معاملات میں ان سے سلوک کرنا چاہو تو کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ تم دل سے ان کی محبت اور خیر خواہی کو مومنوں کی محبت اور بہی خواہی پر ترجیح دو خبردار ایسا نہ کیجیو اللہ تم کو اپنے آپ سے ڈراتا ہے بہتر ہے کہ تم سمجھ جاؤ اور جان لو کہ انجام کار تمہیں اللہ کی طرف پھر نا ہے اگر اس کی مرضی حاصل کی ہوگی تو نجات پاؤ گے ورنہ نہیں اور اگر ظاہر میں تیری بات کو ہاں ہاں کریں اور دل میں کافروں سے محبت رکھیں تو تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اس کو ظاہر کرو تو دونو طرح سے اللہ اس کو جانتا ہے کیونکہ وہ بڑا علام الغیوب ہے وہ تمام آسمان اور زمین کی چیزیں بھی جانتا ہے علاوہ اس کے وہ ہر ایک کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے ” شان نزول : (لایتخذ المؤمنون الکافرین) بعض سادہ مزاج مسلمان اہل کتاب سے دوستی محبت رکھتے تھے۔ دور اندیش مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی عداوتیں بین دیکھ کر ان کو اس دوستی سے منع کیا مگر وہ اس سے باز نہ آئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ بدکاروں کو ایسی سزا دے گا کہ یاد کریں گے کب دیگا؟ جس روز ہر ایک شخص اپنا بھلا برا کیا ہوا اپنے سامنے پاویں گے تو اپنے برے اعمال کی سزا دیکھ کر آرزو کرے گا کہ مجھ میں اور اس برے کام میں دوری دراز ہوجائے تاکہ میں اس پر وحشت چیز کے دیکھنے سے آرام پاؤں مگر اس آرزو کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا اسی وجہ سے اللہ تم کو اپنے آپ سے اور اپنے عذاب سے ڈراتا ہے کہ تم اس کے آنے سے پیشتر باز آجاؤغور کرو تو یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ بار بار تم کو اس سے متنبہ کرتا ہے اس لئے کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بندے بے خبری میں پھنس جائے آل عمران
22 آل عمران
23 آل عمران
24 آل عمران
25 آل عمران
26 آل عمران
27 آل عمران
28 آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 (31۔41)۔ انہیں کے بھلے کے لیے تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو غلط خیالات شرکیہ کفریہ چھوڑ کر میرے پیچھے چلو جس کا فائدہ تم کو یہ ہوگا کہ اللہ تم کو درجہ محبت سے ترقی دے کر درجہ محبوبیت میں پہنچا کر تم سے محبت کرے گا اور تمہیں یہ انعام عطا ہوگا کہ تمہارے گناہ معاف کردے گا کیوں کہ اللہ بڑا بخشنے والامہربان ہے تیری تابعداری تو اس لئے ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے پس تو کہہ دے کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو مطلب کو پہنچ جاؤ گے شان نزول :۔ (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ) یہود و نصاریٰ اپنے کو اللہ کا محب اور محبوب بتایا کرتے تھے اور مشرکین عرب بتوں کی عبادت کرنے کی یہی وجہ بتلایا کرتے تھے کہ ہم اللہ کی محبت کی غرض سے ان پوجا کرتے ہیں اصل مقصود ہمیں محبت الہٰی ہے پھر اگر وہ تیری بات سے منہ پھیریں تو جان لے کہ کافر اللہ کو ہرگز نہیں بھاتے بھلا اگر تیری نہ سنیں تو کیا حیرانی ہے جبکہ یہ لوگ اللہ کے بندے کو خدائی میں شریک سمجھتے ہیں اور اس کو اللہ اور اللہ کا بیٹا کہتے ہیں حالانکہ جس کی نسبت لوگوں کو یہ خیال ہے اس کا ساراخاندان عبودیت میں کمال کو یہاں تک پہنچا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح کو جیسا چنا تھا ویسا ہی ابراہیم اور عمران کے خاندان کو جو مسیح ( علیہ السلام) کے نانا تھے برگزیدہ کیا تھا ان میں سے ایک دورسرے کی اولاد تھے اور اللہ ہر ایک کی باتیں سنتا اور جانتا ہے ” شان نزول :۔ (اِنَّ اللّٰہ اصْطَفٰٓے اٰدَمَ) یہودیوں کا ہمیشہ سے بیہودہ دعویٰ تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے پیارے ان کے حق میں یہ آیت اتری کہ بتلاوے کہ انبیاء کی اولاد کو اللہ نے محض ان کے اخلاص قلبی کی وجہ سے برگزیدہ کیا تھا اگر ان جیسا ہونا چاہتے ہو تو اخلاص قلبی حاصل کرو ورنہ زبانی دعا دی کون سنتا ہے۔ نیز اس میں بالخصوص فرقہ عیسائیوں کی تردید کی تمہید ہے۔ معالم (بتفصیل منہ) “ ان کی اخلاص مندی کا ثمرہ تھا کہ ان کو معزز کیا ان کی بے ہودہ گوئی کا نتیجہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہوں گے یاد کرو جب عمران کی عورت مسیح کی نانی حنہ نے کہا تھا کہ اے میرے اللہ میں نے اپنے پیٹ کا بچہ خالص تیرے لئے نذر مانا ہے پس تو مجھ سے قبول کر بے شک تو ہر ایک کی باتیں سننے والا اور ہر ایک کے دلی خیالات جاننے والاہے۔ پس جب اس نے لڑکی جنی اور وہ (حنہ) حسب عادت عورتوں کے لڑکے کی امید رکھتی تھی تو حسرت سے بولی کہ اے میرے اللہ میں نے لڑکی جنی ہے اور نذر مانتے وقت میرے جی میں بیٹے کی امید تھی گو اللہ کو خوب معلوم تھا جو جنی تھی تاہم اس نے اپنی آرزو کا اظہار کیا اور کہا کہ لڑکی مثل لڑکے کے نہیں ہوا کرتی (تشبیہ مقلوبی ہے۔ دراصل کلام یوں ہے۔ لیس الانثی کالذکر۔) جو کام لڑکا بآسانی کرسکتا ہے لڑکی سے بمشکل بھی نہیں ہوتا۔ خیر تیرے دینے پر شکر کرتی ہوں اور اس کا نام میں نے مریم عابدہ رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے موافق اس لڑکی کو اچھی طرح سے قبول کیا اور عمدہ طرح سے پالاچونکہ مریم کا باپ نہیں تھا۔ اس لئے زکریا اس کا کفیل اور خبر گیر ہوا زکریا نے اس کو اپنے پاس چوبارہ میں رکھا تو مریم کو زکریا کے بااخلاص شاگردوں کی طرف سے زکریا کی بے خبری میں بھی کھانا دانا پھل پھول وغیرہ پہنچ جاتا۔ یہاں تک کہ جب کبھی زکریا اس کے پاس چوبارہ میں جاتا کچھ نہ کچھ کھانا اس کے پاس پاتا یہ واقعہ دیکھ کر زکریا نے ایک دفعہ اسے پوچھا کہ مریم یہ کھانا تجھ کو کہاں سے آتا ہے؟ مریم نے کہا یہ اللہ کے ہاں سے ہے مریم کو بے گمان کھانا پہنچ جاتا تعجب کی بات نہیں اللہ جس کو چاہے بے انداز رزق دے دیتا ہے ” اس آیت کے معنی میں عام طور پر خرق عادت کا اظہار کیا جاتا ہے یعنے مریم کو سردی کے میوے گرمی میں اور گرمی کے سردی میں پہنچتے تھے مجھے کسی خرق عادت یا کرامت سے انکار نہیں لیکن بغیر ثبوت خرق عادت ماننے سے بھی طبیعت رکتی ہے۔ بحال یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک روز پڑوسن نے حضرت فاطمہ کو کھانا بطور تحفہ بھیجا آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آیا ہے فاطمہ ممدوحہ نے کہا ھُوَ مِنْ عِنّدِ اللّٰہِ یہ اللہ کے پاس سے ہے (تفسیر و رمنثور) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ والے لوگ ہر معمولی واقعہ کو بھی اللہ ہی کی طرف نسبت کیا کرتے ہیں۔ منہ “ زکریا چونکہ لاولد بلکہ ضعیف تھا اور عورت اس کی بھی ضعیفہ اور بانجھ تھی اس بے گمان رزق کی وصولی کو دیکھ کر اسی وقت زکریا نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرے اللہ جس طرح تو مریم کو بے گمان کھانے وغیرہ دیتا ہے مجھ کو بھی اپنے ہاں سے اولاد نیک بخش بے شک تو سب کی دعا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے پس اس کی دعا کرنی ہی تھی کہ فرشتے نے اسے جب وہ اپنی نماز گاہ میں کھڑا تھا پکارا کہ اللہ نے تیری دعا قبول کی اور تجھے تیرے بیٹے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جیسا کہ تو نے مانگا ہے ویسا ہی ہوگا وہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرنے والا اور اپنے زمانہ کے دینداروں کا سردار اور عبادت اور یاد الٰہی میں محصور اور مشغول اور سب سے بڑھ کر یہ نیک بندوں میں سے اللہ کا نبی ہوگا۔ یہ مژدہ سن کرزکریا کو ایک طبعی خیال پیدا ہوا جس کا دفعیہ بھی اس نے اسی وقت چاہا بولا اے میرے اللہ میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ بظاہر ہر کئی ایک طبعی مانع موجود ہیں میں نہائیت بڑھاپے کو پہنچ چکاہوں اور عورت میری بانجھ ہے جس سے آج تک جوانی میں بھی اولاد نہیں ہوئی اللہ کے فرشتے نے اسے جواب میں کہا بے شک (واقعہ) ایسا ہی ہے جو تو نے کہا (لیکن) اللہ جو چاہے کردیتا ہے اسے کوئی امر طبعی اور طبی مانع نہیں ہوسکتا زکریا نے یہ جواب سن کر مزید تسلی کے لئے پھر کہا کہ اللہ کریم میرے لئے اس امر کی کوئی نشانی بتا اللہ کے فرشتے نے جواب میں کہا تیری نشانی خود تیرے اندر یہ ہوگی کہ تو تین روز لوگوں سے بول نہیں سکے گا لیکن اشارہ سے پس لازم ہے کہ تو اس احسان کا شکریہ کی جیو اپنے پروردگار کا ذکر بہت کیا کرو اور پاکی سے صبح وشام اس کی یاد کیا کر۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب زکریا لوگوں سے بولنا چاہتا باوجود صحت نہ بول سکتا اس سارے قصے سے تم کو بخوبی واضح ہوگیا کہ مسیح اور اس کا تمام خاندان و متعلقات اللہ کے آگے کیسے عاجزانہ التماس کیا کرتے تھے اور اللہ کی طرف سے ان سب کو مالکانہ جواب ملتا۔ یہ نہ تھا کہ کوئی ان میں سے اللہ یا اللہ کا بیٹا ہونے کا مدعی ہو آل عمران
32 آل عمران
33 آل عمران
34 آل عمران
35 آل عمران
36 آل عمران
37 آل عمران
38 آل عمران
39 آل عمران
40 آل عمران
41 آل عمران
42 (42۔54)۔ اب خاص ایک قصہ حضرت مسیح کی ماں کا بھی سنو جس سے ان دونوں گروہوں یہودو نصاریٰ کی غلطی تم پر واضح ہوجائے گی جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھے چنا ہے اور بری خصلتوں شرک کفر بداخلاقیوں سے پاک کیا ہے اور جہان کی موجودہ عورتوں پر تجھے بزرگی دی ” اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے بزرگ اور پاک آدمی کی پیدائش کا اجمالی بیان کرتا ہے جس کی پیدائش وفات بلکہ کل زندگی کے واقعات میں لوگوں کی مختلف رائیں ہو رہی ہیں عموماً ہر ایک شخص سے یہ معاملہ تو ہوتا ہے کہ اس کے دوست دشمن کی آراء مختلف ہوتی ہیں۔ مگر یہ بزرگ (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) اس بات میں بھی سب سے نرالے ہیں۔ یہود ان کے دشمن (بلکہ دراصل اپنے دشمن) تھے ان کی رائے ان کی نسبت مخالفانہ تو اسی اصل (عداوت) کی فرع اور کسی شاخ کا ثمر ہے مگر ان کے نادان دوستوں (عیسائیوں) نے بھی آپ کی نسبت دراصل مخالفانہ ہی رائے لگائی جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ طرفہ یہ کہ جس مسئلہ (بے باپ ولادت) کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا ہے اس میں سب کے سب ایک زبان متفق ہیں گو ان کے اتفاق کی بنا مختلف ہی کیوں نہ ہو آپ کے مخالف یہود تو اس حیثیت سے آپ کو بے باپ (حقیقی) مانتے ہیں کہ وہ جناب کی پیدائش بدگمانی اور گستاخی سے ناجائز طور کی کہتے ہیں۔ عیسائیوں نے تو جناب والا کی نسبت عجیب عجیب بعید از قیاس باتیں گھڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بیٹا تو ان کے ہاں عام طور پر زبان زد ہے۔ باپ کے ہونے کے وہ بھی زمانہ شروع اسلام سے آج تک اسی امر کے قائل ہیں کہ مسیح بے باپ پیدا ہوئے تھے مگر اس زمانہ خیر میں سرسید احمد خاں مرحوم نے اس سے انکار کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ بے باپ نہ تھے بلکہ مثل دیگر بچوں کے ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے اس لئے اس حاشیہ میں ہم مسیح کی ولادت کے متعلق دو طرح سے بحث کریں گے ایک ان آیات سے جن میں مسیح کی ولادت مذکور ہے۔ دوسری ان بیرونی شہادتوں سے جن کو سید صاحب بھی کسی قدر معتبر جانتے ہیں۔ اسی سورۃ آل عمران میں یوں فرمایا۔ اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللّٰہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسے ابن مریم وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین٭ ویکلم الناس فی المھد وکھلا ومن الصالحین٭ قالت رب انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشرط قال کذٰلک اللّٰہ یخلق مایشاء اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون (سورہ آل عمران آیات ٤٥ تا ٤٧) جب فرشتے نے کہا اے مریم بیشک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسے مسیح مریم کا بیٹا دنیا اور آخرت میں معزز اور (اللہ کے) مقربوں سے ہوگا اور لوگوں سے گہوارہ اور بڑھاپے میں کلام کرے گا اور وہ نیکو کاروں سے ہوگا۔ مریم نے کہا اے میرے رب مجھے کس طرح سے لڑکا ہوگا حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا فرشتے نے کہا تو ایسی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے اتنا ہی کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے “۔ دوسری جگہ سورۃ مریم میں اس سے بھی کسی قدر مفصل بیان ہے۔ واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا٭ فاتخذت من دونھم حجابا فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا٭ قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا ٭ قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا٭ قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا٭ قال کذلک قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا٭ فحملتہ فانتبذت بہ مکانا قصیا٭ فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا فنا داھا من تحتھا ان لاتحزنی قد جعل ربک تحتک سریا٭ وھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا٭ فکلی واشربی وقری عینا فاما ترین من البشر احد فقولی انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا (سورہ مریم آیات ١٦ تا ٢٣) ” مریم کا ذکر کتاب میں بیان کر جس وقت وہ اپنے گھر والوں سے مشرق کی جانب ہوگئی اور ان سے ورے ایک پردہ اس نے بنا لیا۔ پس اسی حال میں ہم نے اپنا رسول (جبرئیل) اس کی طرف بھیجا وہ کامل آدمی کی شکل میں اس کے سامنے آیاوہ (مریم بوجہ اپنی پاکدامنی کے) اس سے بولی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں ہوں (یعنے تیرے سامنے آنے کو پسند نہیں کرتی) اگر تو نیک ہے (تو آگے سے ہٹ جا) وہ بولا میں آدمی نہیں ہوں بلکہ) تیرے رب کا قاصد ہوں کہ تجھے ایک لڑکا ہونے کی خبر دوں۔ مریم نے کہا مجھے لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ مجھے نہ تو خاوند نے چھوا ہے اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا تو ایسی ہی ہے تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھ پر یہ کام آسان ہے اور ہم ایسا ہی کریں گے تاکہ اس کو لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی رحمت بنا دیں اور یہ کام تو ہوا ہے۔ پس مریم حاملہ ہوئی پھر وہ دور کی جگہ میں چلی گئی پھر وہ درد زہ کی وجہ سے درخت کھجور کے پاس آئی تو بولی ہائے افسوس میں اس سے پہلے ہی مر کر بھولی بسری ہوجاتی پس فرشتے نے اسے اس سے نچلے مکان سے پکارا کہ تو غم نہ کر تیرے رب نے (تیرے لئے) تیرے نیچے نہر جاری کردی ہے اور اپنی طرف کھجور کے تنے کو ہلا وہ تجھ پر تروتازہ کھجور گرائے گی پھر تو کھائیو اور پانی پیجیئو اور خوش رہئیو۔ اگر کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارہ سے) کہہ دیجیئو کہ میں نے اللہ کے لئے منہ بند رکھنے کی نذر مانی ہے۔ پس میں آج تمام دن کسی سے نہ بولوں گی یہ سب باتیں اشارہ سے کہیئو “۔ سورۃ آل عمران میں صرف اسی قدر اشارہ ہے۔ ان مثل عیسٰے عند اللّٰہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (سورہ آل عمران آیت ٥٩) مسیح اللہ کے نزدیک آدمی کی طرح ہے جس کو مٹی سے بنا کر ہوجا کہا وہ ہوگیا۔ ان آیات کریمہ پر کوئی حاشیہ لگانے کی حاجت نہیں اردو ترجمہ جو لفظی ترجمہ ہے ان کا مطلب صاف بتلا رہا ہے پس جو مطلب ناظرین اردو سے سمجھے ہوں گے وہی مطلب عرب کے فصیح بلیغ باشندے قرآن مجید کا سمجھتے تھے۔ ہمارے خیال میں ہی مسئلہ (دلات مسیح) بعد بیان ان آیات کے ناظرین کے فہم و فراست اور انصاف پر چھوڑنے کے لائق ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ سید صاحب یا ان کے دوست رنجیدہ نہ ہوں کہ ہمارے عذرات قوم تک نہیں پہنچائے اسی نے کسی قدر شرح کر کے آپ کے عذرات (رکیکہ) مع جوابات معروض ہوں گے۔ پہلی اور دوسری آیت اس امر پر متفق اور یک زبان ہیں کہ مریم ( علیہ السلام) نے لڑکے کی خوشخبری سن کر اسے اپنے مناسب حال نہیں سمجھا بلکہ سخت لفظوں میں اس سے انکار کیا اور استعجاب بتلایا کہ مجھ جیسی کو لڑکا کہاں سے ہوسکتا ہے جس کو کسی مرد نے نہیں چھوا (در صورت حمل متعارف ہونے کے (جیسا کہ سید صاحب کا خیال ہے) فرشتے کی طرف سے یا اللہ کی جانب سے اس کا یہ جواب ملنا کہ اللہ پر یہ کام آسان ہے دانائوں کی توجہ چاہتا ہے ہاں اگر یہ جواب فرشتے کی طرف سے ہوتا کہ گو ابھی تک مرد نے تجھے نہیں چھوا لیکن چھونا ممکن ہے“ تو اس سے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی تسلی ہوجاتی اور سید صاحب کو بھی متعدد صفحات لکھنے کی تکلیف نہ ہوتی اب جائے غور ہے کہ بجائے اس جواب کے یہ جواب دینا کہ بیشک تو ایسی ہے لیکن اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس کو بھی مدلل اور مفصل کر کے بیان کیا کہ اللہ جب کبھی کسی چیز کا ہونا چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے اگر سید صاحب کا خیال (کہ مسیح بطریق متعارف پیدا ہوئے تھے ٹھیک ہو تو کچھ شک نہیں کہ یہ جواب طول طویل مریم کے استبعاد کے متعلق نہیں ہوسکتا بلکہ ” سوال از آسمان جواب از ریسماں“ کا مصداق ہے۔ پھر مریم ( علیہ السلام) کے بچہ کو اٹھا لانے کے وقت قوم کا طعن مطعن شروع کرنا اور طعن میں ایسے الفاظ بولنا جو اس پاکدامن کی عصمت میں خلل انداز ہوں یعنے نہ ” تیرا باپ زانی تھا نہ تیری ماں بدکار زانیہ تھی“ صاف ثابت کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت کے وقت یہودیوں کا گمان فاسد ناجائز طور پر مولود پیدا ہونے کا تھا۔ جس کو حضرت مسیح نے اپنے جواب میں دفع کیا کہ میں اللہ کا نبی ہوں مجھے اس نے کتاب دی ہے اس لئے کہ بموجب کتب بنی اسرائیل حرامی بچہ دس پشت تک اللہ تعالیٰ کا نبی نہیں ہوسکتا۔ میں جب نبی ہوں تو حرامی کیسے ہوسکتا ہوں۔ افسوس کہ سید صاحب نے اس جواب پر غور نہیں کیا اس لئے جھٹ سے اعتراض جما دیا کہ ” اگر اس وقت یہودیوں کی مراد اس سے تہمت بدنسبت حضرت مریم ( علیہ السلام) کے اور ناجائز مولود ہونے کی نسبت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ہوتی تو ضرور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے جواب میں اپنی اور اپنی ماں کی بریت اس تہمت سے ظاہر کرتے۔ جلد دوم ص ٣٧ و ٣٨ طبع جدید ص ٣٣۔ (کتاب استثناء ٢٣ باب کی ٢ آیت (منہ) ہم نے بتلا دیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی ماں کی بریت عمدہ طبع سے فرمائی ہے۔ سید صاحب نے ہمارے پہلے طریق استدلال (یعنے عدم مطابقت سوال بجواب) کی طرف تو خیال ہی نہیں کیا تھا اور اس امر پر شاید غور کرنے کا انہیں اتفاق ہی نہیں ہوا اگر ہوتا تو غالباً تصویر کا رخ دوسرا ہوتا البتہ دوسری طرز استدلال کی طرف کسی قدر متوجہ ہو کر فرمایا ہے۔ ” یہودیوں کے اس قول سے بھی کہ یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَماَ کَانَتْ اُمُّکٍ بَغِیًّا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بن باپ کے پیدا ہونے پر استدلال نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس زمانہ میں جب کہ یہودیوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) سے یہ بات کہی کوئی بھی حضرت مریم پر بدکاری کی تہمت نہیں کرتا تھا طبع جدید ص ٣٢ جلد ٢ “ سید صاحب کو ایسی غفلت مناسب نہ تھی ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠ پر آپ خود مانتے ہیں کہ ” یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مریم ( علیہ السلام) پر جو بہتان باندھا تھا وہ یوسف کے ساتھ نہ تھا بلکہ پنتراٹامی کے ساتھ منسوب کیا تھا کیونکہ یوسف ان کے شرعی شوہر ہوچکے تھے “ صفحہ ٢٠ کچھ دور نہیں تھا یہاں پر آپ کا اس کو بھول جانا کلام الٰہی لِکَیْلَا یَعْلَمَ من بعد علم شیئا کی تصدیق ہے۔ اگر فرما دیں کہ ص ٢٠ کی عبارت ولادت کے متعلق ہے اور ص ٣٢ پر جو انکار ہے وہ اس وقت کے متعلق ہے جب حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائی تھیں دونوں عبارتیں مجھے یاد ہیں میں بھولا نہیں۔ ہمارا مدعا بھی یہی ہے کہ وقت ولادت یہودیوں نے مریم ( علیہ السلام) پر تہمت لگائی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ان کے نزدیک ناجائز مولود تھے جس سے ہمارا دعویٰ (بے باپ ولادت مسیح) تقویت پذیر ہے۔ آپ کا فرمانا کہ نہ اس آیت میں اس قسم کی تہمت کا ارشارہ ہے حیرت افزا ہے۔ کاش آپ اس ” آیت کی بجائے“ قرآن میں کا لفظ لکھ دیتے تو مدت تک فیصلہ ہوجاتا کوئی مخالف آپ کے سامنے وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًا پیش نہ کرسکتا سید صاحب اب بھی موقع ہے معاملے طے کردیں۔ مٹا نہ رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی رکے ہے ہاتھ ابھی ہے رگ گلو باقی آپ فرماتے ہیں۔ فری کے معنی بدیع و عجیب کے ہیں۔ اس لفظ سے غالباً یہودیوں نے مراد ہوگی شیئاً عظیماً منکراً مگر اس سے یہ بات کہ انہوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی نسبت ناجائز مولود ہونے کی تہمت کی تھی لازم نہیں آتی بلکہ قرینہ اس کے برخلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اس کے جواب میں اس تہمت دے بری ہونے کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا ص ٢٧ طبع جدید ص ٣٢ “ بیشک کہا ملاحظہ ہو ص ٢٧ تفسیر ثنائی جلد ہذا۔ اس جواب میں بھی حسب عادت قدیمہ مطلب سے تجاہل عارفانہ کر گئے ہیں فری کے معنی کرنے میں وقت کھو دیا حالانکہ ان نالائقوں کے صریح الفاظ تھے کہ اے مریم تیرا باپ زانی نہ تھا تیری ماں زانیہ بدکار نہ تھی تو ایسا لڑکا بقول سید صاحب) اوپرا کہاں سے لے آئی۔ کیا اس قدر مغلظ الفاظ کسی نے اپنی بیگانی لڑکی کی نسبت کہے ہیں یا کہتے سنا؟ یہودیوں کے یہ الفاظ کہنے کی وجہ سرسید یوں بیان کرتے ہیں “ ” جب انہوں (حضرت مسیح) نے بیت المقدس میں یہودی عالموں سے گفتگو کی اس بات پر یہودی عالم ناراض ہوئے اور انہوں نے آکر حضرت مریم ( علیہ السلام) سے کہا کہ تیرے ماں باپ تو بڑے نیک تھے تو نے یہ کیسا عجیب یعنی بد مذہب لڑکا جنا ہے حضرت مریم ( علیہ السلام) نے خود اس کا جواب نہیں دیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائیں (گود میں یا کندھوں پر) اس وقت انہوں نے فرمایا کہ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا : ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١ “ افسوس سید صاحب ! یہ مسئلہ حل نہ ہوگا جب تک آپ صریح الفاظ کو نہ لیں گے اور ان کے متبادل ترجمہ کو تسلیم نہ کریں گے جو واقعی قابل تسلیم ہے۔ آپ کے بیان مذکورہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی بدزبانی پہلے سن کر حضرت مریم ( علیہ السلام) مسیح کو اٹھا لائیں مگر قرآن کریم کے بیان سے ظاہر ہے کہ مریم کا بچہ کو اٹھا کر لانا پہلے ہے اور یہودیوں کی بدزبانی پیچھے۔ دیکھو تو کیا وضاحت سے ارشاد ہے کہ۔ فاتت بہ قومھا تحملہ قالوا یا مریم لقد جئت شیئًا فریًّا ” پس اس (مسیح) کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائی وہ بولے کہ اے مریم تو تو عجیب چیز لائی ہے “ سید صاحب ان باتوں سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو کیا فائدہ آپ اپنا عندیہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اس کھینچ تان سے آپ کا مطلب کیا ہے کہ جہاں آپ کو کچھ نہیں سوجھتا وہاں خواب میں چلے جاتے ہیں چنانچہ حضرت مریم (رض) کی فرشتے سے گفتگو کو جو آپ کے مذہب کے خلاف تھی (کیونکہ فرشتوں کے وجود خارجی سے آپ منکر ہیں) خواب کا واقعہ بتلایا ہے اور اس کی نسبت یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ” سورۃ مریم میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی رویا (خواب) کا واقع بیان ہوا ہے کہ انہوں نے انسان کی صورت دیکھی جس نے کہا کہ میں اللہ بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو بیٹا دوں طبع جدید ص ٣١ “ جناب ! خواب کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ اسی برتے پر آپ علماء کو یہودیوں کے مقلد شہوت‘ پرست‘ زاہد‘ کوڑ مغز ملا وغیرہ وغیرہ الفاظ بخشا کرتے ہیں اللہ رے ایسے حسن پہ یہ بے نیازیاں بندہ نواز آپ کسی کے اللہ نہیں آپ ہی بتلا دیں اگر کسی صحیح روایت کے اعتبار پر بات کہنے سے یہودیوں کا مقلد بننا لازم آتا ہے تو بے ثبوت بات کہنے پر کس کار خیر اس کا فیصلہ۔ تو ہم آپ کے جدا مجد (فداہ ابی و امی) کے روبرو کرائیں گے انشاء اللہ۔ اب ہم اس مسئلہ (ولادت مسیح) کے متعلق بیرونی شہادتیں دریافت کرتے ہیں اس میں تو کچھ شک نہیں کہ یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت مسیح بے باپ ہیں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبت تو آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان دونو خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ پیدا ہوئے تھے ص ٢٢ جلد ٢ طبع جدید ص ١٥ رہے یہودی سو ان کی بابت قرآن سے ثابت ہے کہ مسیح کی ولادت کو کیسے مغلظ الفاظ سے بیان کرتے تھے پس حضرت مسیح کے حالات دیکھنے والے یہود۔ نصاریٰ دونوں قومیں جو ان کے حالات کو تحقیق کرنے میں ہم سے زیادہ مشغول تھیں (گو اغراض ان کی مختلف ہوں یہود بوجہ عداوت اور نصاریٰ بوجہ عقیدت) ان دونو کا اس امر پر اتفاق ہونا کہ جناب مسیح کا باپ نہیں قابل غور نہیں؟ اس اتفاق کی تائید ان کی کتابوں سے بھی ہوتی ہے۔ انجیل متی میں صاف بیان ہے۔ ” اب یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھا آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ تب اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور نہ چاہا کہ اسے تشہیر کرے ارادہ کیا کہ اسے چپکے سے چھوڑ دے۔ وہ ان باتوں کی سوچ ہی میں تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے اس پر خواب میں ظاہر ہو کر کہا اے یوسف ابن دائود اپنے جورو مریم کو اپنے یہاں لے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس ہے“ انجیل متی باب اول درس ١٨۔ انجیل لوقا میں یوں مذکور ہے۔ اور چھٹے مہینے جبرئیل فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا بھیجا گیا ایک کنواری کے پاس جس کی یوسف نامی ایک مرد سے جو دائود کے گھرانے سے تھا منگنی ہوئی تھی اور اس کنواری کا نام مریم تھا اس فرشتے نے اس کے پاس اندر آ کے کہا کہ اے پسندیدہ سلام ! اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ تو عورتوں میں مبارک ہے۔ پر وہ اسے دیکھ کر اس کی بات سے گھبرائی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔ تب فرشتے نے اس سے کہا کہ اے مریم مت ڈر کہ تو نے اللہ کے حضور فضل پایا اور دیکھ تو حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام یسوع رکھے گی وہ بزرگ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا (نیک بندہ) کہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے باپ دائود کا تخت اسے دے گا اور سدا یعقوب کے گھرانے کی بادشاہت کرے گا اور اس کی بادشاہت آخر ہوگی۔ تب مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جس حال میں میں مرد کو نہیں جانتی فرشتے نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر اترے گی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا اس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا اللہ کا بیٹا کہلائے گا۔ انجیل لوقا باب اول درس ٢٦۔ (یہ ایک انجیلی محاورہ ہے کہ نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کے فرزند کہا جاتا ہے انجیل متی۔ ٥ باب۔ منہ) اس صاف اور سیدھے بیان انجیل کو بھی سید صاحب نے ٹیڑھا بنانا چاہا آپ فرماتے ہیں۔ ” اس بات کو خود حواری حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اور تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا خطبہ یوسف سے تھا۔ یہودیوں کے ہاں خطبہ کا یہ دستور تھا کہ شوہر اور زوجہ میں اقرار ہوجاتا تھا کہ اس قدر میعاد کے بعد شادی کریں گے یہ معاہدے حقیقت میں فقد نکاح تھے زوجہ کا گھر میں لانا باقی رہ جاتا تھا۔ یہودیوں کے ہاں اس رسم کے ادا ہونے کے بعد مرد اور عورت باہم شوہر اور زوجہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ اگر بعد اس رسم کے اور قبل رخصت کرنے کے ان دونوں میں اولاد پیدا ہو تو وہ ناجائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھیں شاید خلاف رسم بات ہونے سے معیوب گنی جاتی ہوگی اور دونوں کو ایک شرم اور خجالت کا باعث ہوگی خلاصہ ص ٢٧ طبع جدید ص ١٩ جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ” پس کوئی وجہ اس بات کے خیال کرنے کی نہیں ہے کہ یوسف فی الواقع حضرت مسیح کے باپ نہ تھے متی کی انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جب دیکھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) حاملہ ہیں تو ان کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا اگر یہ بیان (متی کا) تسلیم کیا جاوے تو اس کا سبب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عام رسم کے برخلاف حاملہ ہوجانے سے یوسف کو رنج اور خجالت ہوئی ہوگی جلد ٢ ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠ جناب سیادت مآب ایسی باتوں سے کیا فائدہ یوں تو ہم نے بھی ٹھیکہ نہیں لیا کہ آپ کو خاموش ہی کرا کے رہیں گے مگر آخر جہاں تک آپ کے جدا مجد (فداہ روحی) کی محبت کا ہمیں جوش ہے آپ کی حق ادائی کریں گے گو کسی استاد قول ؎ ملاآں باشد کہ چپ نہ شود“ صحیح ہے۔ بھلا حضرت ! اگر مریم ( علیہ السلام) کو خلاف رسم حمل تھا اور وہ حمل شرعاً درست اور بالکل بے عیب تھا جیسا آپ بھی ص ٢٧ پر تسلیم کر آئے ہیں تو یوسف اس پر اس قدر رنجیدہ کیوں ہوا کہ اس بیچاری حاملہ کے چھوڑنے پر کمر بستہ ہوگیا۔ آخر وہ اتنا تو جانتا ہوگا کہ یہ کرتوت ساری میری ہے۔ بالفرض اگر اس کو خلاف رسم حمل ہونے سے شرم تھی تو فرشتے نے خواب میں آکر اس کی کیا تسلی کی کہ اے یوسف ابن دائود اپنی جورو مریم کو یہاں سے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سوروح القدس سے ہے۔ متی باب ١ آیت ٢ کیا اس سے وہ حمل وہ خلاف رسم سے ہوا تھا موافق رسم ہوگیا ایسے فرشتے کو یوسف خواب ہی میں جواب دے دیتا کہ حضرت جس خجالت کی وجہ سے میں اسے چھوڑتا ہوں وہ روح القدس سے حاملہ ہونے سے تو نہیں جاسکتی۔ میں تو اس لئے چھوڑتا ہوں کہ خلاف رسم حمل ہے۔ میری رسومات متعلقہ شادی ابھی باقی ہیں۔ میں روح القدس کو کیا کروں میں اس شرم کے مارے پانی پانی ہوئے جاتا ہوں آپ مجھے روح القدس کا راگ سنائے جاتے ہیں۔ افسوس ! سید صاحب نے جیسا حضرت مریم کے سوال اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ کے جواب کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ پر غور نہیں فرمایا اسی طرح اس پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اس امر پر بھی سید صاحب بحوالہ انجیل متی ولوقا مصر ہیں کہ مسیح کو ابن دائود ابن ابراہیم کہا گیا ہے ص ٢٤ اور قرآن میں ابراہیمی ذریت سے ہونا ثابت ہوتا ہے ص ٢٥ نہیں معلوم ایسے صریح بیانات کے مقابلہ میں ایسے ضعیف احتمالات کیا مفید ہوسکتے ہیں سید صاحب ! اصول شاشی میں بھی لکھا ہے کہ عبارت النص اشارہ وغیرہ پر مقدم ہوتی ہے فافہم جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ صریح بیان ہر طرح سے ایسی تاویلات پر مقدم ہوتا ہے پس جب کہ صریح بیان انجیلی اور قرآنی دونوں اس پر (بشرطیکہ انصاف ہو) متفق ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بے باپ تھے تو ایسی تاویلات رکیکہ کی کیا قدر ہوگی حالانکہ قرآن کریم میں نواسے کو بھی بیٹا کہا گیا ہے جہاں مباہلہ کا حکم ہوتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ آئو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں بلا کر مباہلہ کریں جس پر آنحضرتﷺ نے اپنے نواسوں کو بلا کر مباہلہ کرنا چاہا تھا اور سیدنا حضرت حسن (رض) کو حضور نے اٹھا کر فرمایا تھا کہ میرے اس بیٹے کی طفیل اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ کتب الفتن جلد ٢ ص ١٠٥٣ (دیکھو صحیح بخاری) تو کیا امام حسن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے تھے نہیں نواسے کو بھی عام طور پر بیٹا کہا جاتا ہے۔ پس حضرت مسیح کو ابن دائود یا ابن ایراہیم کہا گیا ہے تو مریم کی وجہ سے کہا ہوگا غالباً آپ بھی اس محاورہ کو صحیح جانتے ہیں جب ہی تو یہ عذر کرتے ہیں کہ۔ ” یہودی شریعت میں عورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا دائود کی نسل سے ہونا ثابت نہیں“ ص ٢٥ گو یہ بھی اسی صفحہ پر تسلیم ہے کہ۔ ” حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت زکریا کی بیوی الیشع کی رشتہ دار تھیں اور الیشع ہارون کی بیٹی تھی مگر نہ یہ معلوم ہے مریم اور الیشع میں کیا رشتہ تھا اور نہ یہ معلوم کہ ہارون کس کی اولاد تھے“ ص ٢٥ حضرت ! ان باتوں سے بجز اس کے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہو کیا ہوسکتا ہے جب ہمیں انہیں اناجیل مروجہ میں صاف اور صریح الفاظ میں حضرت مسیح کا بے باپ ہونا اور عیسائیوں کا متفق علیہ عقیدہ اسی پر ہونا ثابت ہے تو پھر ایسے ویسے بعید از قیاس احتمالات کو کون سن سکے گا۔ ان کے رد کرنے کو صرف اسی قدر کافی ہے کہ یوسف دائود کے گھرانے سے تھا (دیکھو انجیل لوقا باب اول فقرہ ٢٧) جب یوسف دائود کے گھرانے سے تھا تو غالباً مریم بھی اسی خاندان سے ہوں گی جب تک کہ کسی قوی دلیل سے ثابت نہ ہو کہ مریم خاندان دائودی یا اسرائیلی سے نہیں تھیں اسی قدر کافی ہے۔ ہاں آپ کا اس فقرہ انجیلی پر کہ جیسا کہ گمان تھا وہ (مسیح) یوسف کا بیٹا تھا (لوقا باب ٣ درس ٣٣) نظر ڈالنا بھی حیرت بخش ہے جب کہ یہی لوقا باب الفاظ میں مسیح کی ولادت بے باپ لکھتا ہے تو پھر ایسے محاورات سے کیا نتیجہ۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے کہ یہ بیان ان کا اس پر بنی ہو کہ مسیح بعد ولادت اس کے گھر میں رہے جیسا کہ ربیب کو بیٹا کہہ دیا کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ سید صاحب اس مسئلہ میں اہل معانی کا قاعدہ بھی بھول گئے کہ موحد اگر (انبت الربیع البقل) کہے تو اس میں نسبت مجازی ہے اولم یر الانسان انا خلقناہ من نطفۃ فلینظر الانسان مم خلقط خلق من ماء دافق۔ اسی مسئلہ (ولادت مسیح) پر سید صاحب کے ہم خیال ان آیات سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں جن میں انسان کی پیدائش کی ابتداء نطفہ سے بیان ہوئی ہے مگر بعد غور دیکھیں تو یہ استدلال بھی ضعیف ہے اس لئے کہ ان آیات میں قضیہ کلیہ نہیں بلکہ مہملہ ہے جس میں کل افراد پر حکم ضروری نہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ان آیتوں میں سب انسانوں کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ اکثر کا ہے۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس پیدائش کے بیان سے متصل ہی انسان کی ناشکری‘ غرور‘ تکبر‘ گردن کشی کا بیان عموماً مذکور ہوتا ہے جو اکثر افراد انسان میں تو ہے کل میں نہیں بالخصوص حضرات انبیاء اور مسیح (علیہم السلام) کو تو ان سے کو سوں دوری ہے پس ان آیتوں سے تمام افراد انسان کی پیدائش کا نطفہ سے ثبوت دینا گویا کل انبیاء کی نسبت یا کم سے کم مسیح کی نسبت ان گناہوں کا گمان کرنا ہے جو ان آیتوں میں بیان ہیں۔ علاوہ اس کے اگر سب افراد پر بھی حکم ہو تو اس اجمالی بیان سے دوسری آیت مسیح کو نکال سکتی ہے جیسا کہ عام مخصوص البعض کا قاعدہ ہے مثلا ایک آیت میں فرمایا کہ “ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسہن اربعۃ اشھر وعشرا۔ جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس روز ٹھیر کر دوسرا خاوند کرسکتی ہیں۔“ (دوسری آیت میں فرمایا) واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن۔ ” حاملہ عورت بعد جننے کے نکاح کرسکتی ہے۔ “ خواہ وہ بعد مرنے خاوند کے ایک گھڑی بعد جنے خواہ نو مہینے بعد حالانکہ پہلی آیت کے مطابق اس کو چار مہینے دس روز کی عدت بیٹھ کر نکاح کی اجازت چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیونکہ دوسری آیت میں ” حاملہ کا خصوصیت سے ذکر آچکا ہے۔“ اس لئے پہلی آیت کے ذیل میں اس کو لانا گویا دوسری آیت سے غفلت ہے اس قسم کی کئی ایک مثالیں قرآن شریف میں بلکہ ہر ایک کتاب اور محاورہ میں ہوتی ہیں پس جیسا کہ ان دونوں آیتوں کے ماننے والے دونوں پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ پہلے عام فہم سے حاملہ کو نکال کر دوسری آیت کے ذیل میں لاتے ہیں تاکہ ایک ہی کے ذیل میں لانے سے دوسری سے انکار لازم نہ آئے اسی طرح ہم لوگوں کو جو سارے قرآن کو صحیح مانتے ہوں ان آیتوں سے (در صورت تسلیم عموم) مسیح کی پیدائش کو خاص کرنا ہوگا ورنہ ایک ماننے سے دوسری کا انکاز لازم آئے گا۔ سید صاحب اور ان کے حواریوں سے بڑھ کر ان حضرات سے تعجب ہے جو مسیح کی ولادت بے باپ کے قائل ہیں اور اس امر کو بھی مانتے ہیں کہ سب مسلمان سلفاً و خلفاً اسی طرح بے باپ ہی مانتے چلے آئے ہیں مگر (بقول ان کے) قرآن سے بے پاب ہونا ثابت نہیں حضرت ! ثابت تو روز روشن کی طرح ہے ” آفتاب آمد دلیل آفتاب مگر یوں کہیے کہ غور نہیں یا انصاف نہیں۔ سرسید نے جیسا مسیح کے بن باپ ہونے سے انکار کیا ویسے ہی ان کے کلام فی المھد (چھوٹی عمر میں بولنے) سے بھی منکر ہوئے ہیں کیوں نہ ہوں دونوں انکار ہی باپ کے توام ہیں یعنی سپر نیچرل (خلاف عادت) کے استحالہ کی فرع ہیں آپ سورۃ مریم کی آیت پر غور کرتے ہیں کہ۔ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیا تھا قرآن مجید کے یہ لفظ ہیں کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا اس میں لفظ کان کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے سے ہم کیونکر کلام کریں جو مہد میں تھا یعنی کم عمر لڑکا ہماری گفتگو کے لائق نہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے کہ ہمارے محاورہ میں ایک بڑا شخص ایک کم عمر لڑکے کی نسبت کہے کہ ابھی ہونٹ پر سے تو اس کے وہ بھی نہیں سوکھا کیا یہ ہم سے مباحثہ کے لائق ہے۔ تفسیر احمدی جلد ٢ ص ٣٧ سید صاحب کے اس امر کی تو ہم داد دیتے ہیں اور واقعی ہے بھی قابل داد کہ اپنے اصول نیچر کو بھولتے نہیں بلکہ جہاں تک ہوسکے دوسروں کو ان کی بات بہلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر آخر وہی مثل صادق آجاتی ہے۔ ” بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی “۔ آپ سورۃ مریم میں ناحق تکلیف کرنے چلے گئے اسی سورۃ آل عمران میں جس کا حاشیہ لکھنے کو بیٹھے ہیں غور فرماتے تو کان یکون کی گردان سے مخلصی ہوتی دیکھئے تو کس وضاحت سے بیان ہے ویکلم الناس فی المھد وکھلا اس آیت کا ترجمہ اور کسی کا کیا ہوا تو آپ کا ہے کو مانیں گے آپ ہی کی تفسیر سے جو خودبدولت کے قلم سے نکلا ہے پیش کرتا ہوں (مسیح) ” کلام کرے گا لوگوں سے گہوارہ میں اور بڑھاپے میں“ اسی کے انتظام کو آپ نے خطوط واحدانی ڈال کر (یعنے بچپنے میں) لکھ دیا ہے دیکھو صفحہ ٢١ حضرت اسی وجہ سے تو نحویوں نے اس کان کو ربط بتلایا ہے کہ دیکھو شرح ملا جامی اور سرح الشرح۔ علاوہ اس کے اس آیت (من کان فی المھد صبیا) کو آپ کے دعویٰ سے کیا تعلق؟ آپ تو اس واقعہ کو اس وقت سے متعلق کرتے ہیں جس وقت حضرت مسیح بڑے ہو کر وعظ گوئی کے لائق ہوچکے تھے اس وقت یہودیوں نے مریم کو کہا تھا کہ ہم اس لڑکے سے کیونکر بولیں جو گہوارہ میں کھیلا کرتا تھا (جلد ٢ ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١) مگر اللہ تعالیٰ کا کلام (تکلم الناس فی المھد) میں تو نہ کان ہے نہ یکون بلکہ صاف ترجمہ ہے کہ مسیح لوگوں کے ساتھ بولے گا گہوارے میں اور بڑھاپے میں ہمارا استدلال تو اس کلام سے ہے اس سے نہیں پس اس کے جواب میں اس کا پیش کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے آپ اس امر کی بابت بھی بار بار سوال کرتے کہ (مسیح کو) بن باپ پیدا کرنے میں حکمت الہٰی کیا ہوسکتی ہے ص ٢٣ آپ کے اس سوال سے مجھے بادشاہ اکبر کے دربار کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک دفعہ مجمع علماء میں کسی صاحب فضل سے دوسرے کسی صاحب نے سوال کیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کیا صیغہ ہے وہ بیچارہ خاموش رہ کر دوسرے روز دربار میں حاضر نہ ہوا اکبر نے اسے بلا کر عدم حاضری کی وجہ دریافت کی تو بولا بندہ نواز آج تو اس نے موسیٰ ( علیہ السلام) کا صیغہ پوچھا ہے کل کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کا پوچھے گا۔ سو اسی طرح آپ کے ان سوالات سے ہم ڈرتے ہیں کیا شاید آپ یہ بھی نہ دریافت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں آنکھیں سامنے کیوں لگائیں ایک آگے ہوتی ایک پیچھے تاکہ دونوں طرف کی چیزیں دیکھنے سے بہ نسبت حال کے دگنا فائدہ ہوتا۔ حضرت من ! اللہ عالم الغیب کے اسرار اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ ہاں جس قدر وہ بتلا دے اسی قدر ہم بھی کہہ سکتے ہیں سچ ہے اور بالکل سچ ہے۔ لَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ پس جب ہم اس غرض سے کہ امر کے متعلق اللہ عالم الغیب کی بتلائی ہوئی وجہ کیا ہے کلام الہٰی پر غور کرتے ہیں تو اس قدر پتہ چلتا ہے وَلِنَجْعَلَہٗ ٓاٰیَۃً للنَّاسِ (مریم) (تاکہ ہم اس (مسیح) کو نشانی بنا دیں گے۔ اس کے مقابلہ میں آپ کا عذر جب کہ ” اللہ تعالیٰ اقسام حیوانات کو بغیر توالد تناسل کے عادتاً پیدا کرتا رہتا ہے اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کو بے ماں و باپ کے پیدا کیا تھا تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے صرف بے باپ پیدا کرنے میں اس سے زیادہ قدرت کاملہ کا اظہار نہ تھا“ جلد ٢ ص ٢٣ تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہے آپ نے یہ خیال نہ فرمایا کہ کس امر کی نشانی حضرت من ! اس امر کی نشانی کہ بعد جاری کرنے اس سلسلہ کائنات کے بھی اللہ اس کے الٹ کرنے پر قادر ہے۔ پس اگر اقسام حیوانات بغیر توالد تناسل کے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے لئے وہی سلسلہ پیدائش مقرر کر رکھا ہے۔ اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش بھی ابتدا سالہ میں تھی اس لئے وہ بھی خرق عادت نہیں ہوسکتی اس پر آپ کا یہ شبہ کہ ” اگر خیال کیا جائے کہ صرف ماں سے پیدا کرنا دوسرے طور پر اظہار قدرت کاملہ تھا تو بھی صحیح نہیں ہوتا اس لئے کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے ایک امر تین اور ایسا ظاہر ہونا چاہیے کہ جس میں کسی کو شبہ نہ رہے بن باپ کے مولود کا پیدا ہونا ایک ایسا امر مخفی ہے جس کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے کیا گیا ہے جلد ٢ ص ٢٣ بالکل اس کے مشابہ ہے جیسا کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ سید صاحب کو نہ تو کوئی شبہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے مذہب کو قابل پذیرائی جانتے ہیں بلکہ انہوں نے خواہ مخواہ ایک تماشہ دیکھنے کو یہ نیا مذہب بنا رکھا ہے اس لئے شبہ ہو تو کسی ایسے امر میں جو کسی محاورہ زبان سے رفع ہوسکے نہ ایسے شبہات جو رفع ہوتے ہوئے قرآن کو بھی مرفوع کر جائیں پس جیسا کہ آپ کی دیانت داری اور قومی جوش اور ہائی ایجوکیشن کے نعرے سننے والے اس امر کو جانتے ہیں کہ آپ نے اسلام میں کھیل کے لئے تجدید مذہب نہیں کیا بلکہ دراصل آپ کی تحقیق ہی ہے ایسا ہی مریم صدیقہ کے حالات دیکھنے والے اور اس کی عفت کو جاننے والے اس قدر جانتے تھے کہ نہ تو مریم کا خاوند ہے اور نہ فاحشہ ہے پھر ایسی عفیفہ لڑکی کو جو بچہ پیدا ہوا ہو تو ضرور ہے کہ بے باپ کے ہوگا یہی وجہ ہے کہ بداندیشوں کو بجز اس کے نہ سوجھا کہ مریم ( علیہ السلام) کو تہمت سے ملوث کیا پھر بعد دیکھنے کمالات مسیحیہ کے شبہ جاتا رہا۔ اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ سپرنیچرل (خلاف عادت) محال سمجھتے ہیں اس لئے جہاں کہیں کوئی بات سپر نیچرل ہو اس کی تاویل میں ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیتے ہیں حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے کہ تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم پورا نہیں بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب واقعہ ہوا اور اس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع واقعہ ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر ہم کو اس کا علم نہیں“ جلد ٢ ص ٣٤۔ ثبوت کے لئے آیات قرآنی بشرط انصاف ملاخطہ ہوں۔ زمانہ حال کے منکرین سپر نیچرل کے لئے ایک واقعہ کا بیان شاید دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پیسہ اخبار لاہور ٢٨ نومبر ١٨٩٦؁ء میں بعنوان مرغی سے مرغا یہ خبر لکھی تھی کہ ” موضع آساپور ضلع دربھنگہ میں ایک شخص گوہر خاں کے یہاں عرصہ سے ایک مرغی تھی چند دفعہ انڈے دیئے اور بچے نکالے ایک دفعہ اس کے سر پر تاج مرغ جسے ہندی میں مور کہتے ہیں بڑھنا شروع ہوا اور معمول سے زیادہ تجاوز کر گیا تب اس نے بانگ مثل مرغوں کے دینا شروع کیا اب مرغیوں سے جفتی کرتا ہے مختصر یہ کہ مرغی سے مرغا بن گیا۔ (راقم خریدار ١٢٨٧٢) اس خبر کی تحقیق کو کہ کہیں بازاری گپ نہ ہو راقم خبر کا دفتر اخبار مذکور سے معلوم کر کے میں نے خط لکھا کہ معتبر آدمیوں کی تحریر جنہوں نے اس واقعہ کو بچشم خود دیکھا ہو مع دستخط خاص میرے پاس بھجوا دیں جس کے جواب میں صاحب مضمون کا خط پہنچا جو ذیل میں درج ہے۔ مولوی صاحب سرچشمہ فیض و کرم مدافضالہٗ وعلیکم السلام : آپ نے اس خبر کی جو میں نے ٢٨ نومبر ١٨٩٦؁ء کے پیسہ اخبار میں دی ہے تصدیق طلب فرمائی ہے میں اسجگہ کلکتہ میں ہوں اور اس امر کے جائے وقوع یعنی اپنے مکان شہر دربھنگہ سے تین سو میل کے بعد پر ہوں ایسی حالت میں مجھ سے فوراً انجام ہونا آپ کے حکم کا محال ہے لیکن اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں بعد ضرور اس خبر کی تصدیق آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے پاس بھجوائوں گا“ خادم محمد جلیل نمبر ٧ مکلوڈ اسٹریٹ کلکتہ ٦۔ اس کے بعد راقم خبر کی کوشش سے واقعہ دیکھنے والوں کا دستیطا خط پہنچا۔ مخدوم مکرم جناب مولانا صاحب مدظلہ العالی السلام علیکم وعلیٰ من لدیکم۔ الحمد للہ مزاج مبارک میں بمقام جالہ ضلع دربھنگہ مدرس مدرسہ تاج المدارس ہوں اتفاقاً بماہ ربیع الثانی ١٣١٤؁ھ مدرسہ سے رخصت لے کر بمقام آساپور ضلع دربھنگہ قبل پہنچنے کے اثنائے راہ میں سنا کہ بھائی گوہر خاں کی ایک مرغی مرغ ہوگئی ہے کچھ خیال نہ کیا افوا کو لغو سمجھا۔ جب بھائی موصوف کے مکان پر پہنچا قدرت صانع مطلق نمودار اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک پرند ہے ہیئت بجنسہ مرغی کی مؤز اور طوق جس کی ہندی مور ہے ایک گرہ دیکھا اور بانگ دینا جو خاصہ مرغ کا ہے اس سے بار ہا سنا اور جفتی کرتے ہوئے دیکھا۔ جنابا ! یہ وہ مرغی ہے جس نے تین بار بیضے دیئے اور اس کے بچے ہوئے اگرچہ یقین کامل اس کے دیکھتے ہی ہوجاتا ہے کہ یہ مرغی ہے اور مرغ بھی ہے تاہم بیسیوں تاویل اور توجیہ احقر نے کیا لیکن اس کی دلیل ایسے قوی ہیں کہ لامحالہ کہنا پڑتا ہے کہ امر واقعی ہے اور توجیہات اور تاویلات سے مقصود تھا کہ کہیں دھوکا نہ ہوگیا ہو مثلاً اسی صورت کا مرغ رہا ہو خلاصہ یہ کہ سرمو اس میں کلام نہیں حسب الطلب مالک مرغی و چند اشخاص نمازی عادل کے دستخط بقلم ان کے پشت پر ثبت ہیں روانہ خدمت عالی کرتا ہوں والسلام۔ فقیر محمد اسحق مدرس مدرسہ تاج المدارس تاریخ ٢٢ رجب ١٣١٤؁ھ مرغی مرغا ہوگیا العبد محمد رمضان خاں بقلم گلزار خاں۔ العبد ظہور خاں۔ گوہر خاں (مالک مرغی) بقلم امید علی خاں پسر گوہر خاں۔ کئی ایک دستخط گجراتی یا کسی دوسری اجنبی زبان میں ہیں جو یہاں کسی سے پڑھے نہ گئے۔ فروری ١٩٣٢ئ؁ میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے پنجاب کے اخباروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی یہاں ہم اخبار حمائت اسلام لاہور کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ ایک محیر العقول واقعہ ایک سترہ سالہ طالب علم لڑکی بن گیا۔ لاہور ٢٦ فروری۔ میو ہسپتال میں ایک حیرت انگیز مریض زیر علاج ہے۔ ایک نوجوان طالب علم مرد کے اوصاف کھو کر عورت بن رہا ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ خالصہ کالج امرتسر کا ایک طالب علم جس کی عمر اس وقت ١٧ سال کے قریب ہے مردانہ نشانات کھو کر عورتوں کے نشانات پا رہا ہے کچھ عرصہ ہوا اس کے جسم میں درد شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس کے فوطے گھٹنے شروع ہوئے حتی کہ گولیاں معدوم ہوگئیں تھوڑے عرصے کے بعد عضو مخصوص گھٹنا شروع ہوا اور گھٹتے گھٹتے اس کا بھی نشان باقی نہ رہا پھر چھاتی میں درد شروع ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے کی چھاتی اس طرح ابھر آئی جیسی عورتوں کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نقل و حرکت بھی عورتوں جیسی ہوتی گئی اب اسے اس غرض کے لئے ہسپتال لایا گیا اور کرنل ہارپرنیس انچارج میو ہسپتال کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے بھی اس حیرت انگیز مریض کا معائنہ کیا والدین کو فکرو امنگیر ہوئی کہ کہیں ان کا نور نظر لڑکی نہ بن جائے کیونکہ جہاں اس کے تمام اعضا عورتوں جیسے ہو رہے تھے وہاں اس کی داڑھی کے بال بھی نہیں اگے کرنل ہارپرنیس کے مریض کا معائنہ کیا اور دوا وغیرہ دی لڑکا دوا لے کر چلا گیا کرنل صاحب کے خیال میں اس مرض کا نام (F۔ TIB- SPNIL۔ WSS) ہے جس سے مرد عورت بن جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدا پہلے یورپ سے ہوئی اور یہاں سے امریکہ پہنچی شمالی ہند میں پہلا موقع ہے اور میو ہسپتال میں اس سے پیشتر ایسا مریض کوئی نہیں آیا۔ (حمایت اسلام لاہور ٣ مارچ ١٩٣٢ئ؁ ص ٥) قدرت کاملہ اس قسم کے واقعات کبھی کبھار دکھاتی رہتی ہے تاکہ لوگ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان لائیں۔ بالآخر ہم سید صاحب ہی کی تحریرات سے اپنی رائے کی تائید نقل کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہوسکتا ہے کہ پہلی ہی صدی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باپ میں اختلاف شروع ہوا اور یہ اختلاف ہونا ضروری تھا۔ پیدائش اور بناوٹ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایسی تھی کہ وہ خود اس اختلاف کا ہونا چاہتے تھے جو شخص ان کی ظاہری صورت کو دیکھتا تھا وہ یقین جانتا تھا کہ وہ انسان و ابن مریم اور جب یہ خیال کرتا تھا کہ وہ کسی ظاہری سبب سے پیدا نہیں ہوئے تو وہ یقین کرتا تھا کہ وہ روح ہیں اور یہ ظاہری انسانی صورت صرف اس سبب سے حاصل ہوئی ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ انسان کی صورت میں اللہ کا پیغام مریم کے پاس لے کر آیا۔ اگر وہ کسی اور صورت میں لے کر آتا تو بلا شبہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اسی صورت میں پیدا ہوتے۔ اور جب کوئی شخص ان کے اس مقتدرانہ معجزہ کو دیکھتا تھا کہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں جو اللہ کا کام ہے تو ان کو اللہ اور اللہ کا حقیقی بیٹا کہتا تھا۔ پس جس شخص نے ان کی ظاہری صورت پر نظر کی اس نے ان کو نرا انسان جانا اور جس نے انسانی صورت بننے کی وجہ پر خیال کیا اس نے ان کو صرف روح جانا اور جس نے ان کے معجزہ پر نظر کی اس نے اللہ اور ابن اللہ جانا اور جس نے سب پر نظر کی اس نے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ مانا اور ان سب چزنوں کو اللہ نے واحد سے جانا اور پھر سب کو ایک مانا تصانیف احمد یہ جلد دوم ص ٤ اس درس میں جو یہ لکھا ہے کہ (اس سے پہلے کہ وہ ہمبستر ہو) اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعد اس کے حضرت مریم یوسف سے ہمبستر ہوئی ہوں کیونکہ منگنی کے بعد حضرت مریم کا بیاہ ہونا پایا نہیں جاتا بلکہ تبقدیس اور اس بزرگی کے جو اللہ تعالیٰ نے اس اعجازی حمل سے حضرت مریم کو مرحمت فرمائی تھی یوسف نے حضرت مریم کا ادب کیا اور بیاہ سے باز رہا۔ چنانچہ بعض علماء مسیحی نے اس درس میں سے اس فقرہ کو کہ (قبل اس کے کہ ہمبستر ہوں) بعض نسخوں میں سے قصداً نکال ڈالا تھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ہمیشہ کی دوشیزگی پر کچھ شبہ نہ رہے (تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٣٨٠) ” جب یہ واقعہ یوسف کو معلوم ہوا تو نہایت متعجب ہوا کیونکہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا حمل ایسے عجوبہ طریقہ سے ہوا تھا کہ انسان کی سمجھ سے باہر تھا مگر یوسف نے اپنی نیکی اور بردباری اور سرتاپا خوبی سے اس کا مشہور کرنا نہ چاہا کیونکہ اگر یہ بات اس طرح پر ہوتی جس طرح کہ یوسف کے دل میں وہم ہوا تھا تو یہودی شریعت کے بموجب حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی سزا دی جاتی اس لئے یوسف نے چاہا کہ چپ چپاتے اس منگنی کو چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ستھرائی اور برگزیدگی ظاہر کرنے اور یوسف کے دل کا شک مٹانے کو اپنا فرشتہ خواب میں یوسف پاس بھیجا اور فرشتے نے کہا کہ تو مریم کو مت چھوڑ اور کچھ اندیشہ مت کر کیونکہ وہ روح قدس سے حاملہ ہے اس الہام سے یوسف کے دل کا شک مٹ گیا اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے تقدس کا اس کو یقین ہوا اور اس نے اس کو اپنے پاس رہنے دیا۔“ تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٣٩۔ اس درس میں وہ عبری لفظ جس کے معنی کنواری کے لئے ہیں (علمہ) ہے مگر یہودی اس پر تکرار کرتے ہیں اور وہ جوان عورت کے معنی بتاتے ہیں اور ترجمہ ای کوئلا میں بھی جو ٢٩ ء ؁میں ہوا اور ترجمہ تھیوڈوشن میں بھی جو ١٧٥ئ؁ میں ہوا اور ترجمہ ستیکس میں جو ٢٠٠ئ؁ میں ہوا اس کا ترجمہ جوان عورت کیا ہے اور بائیبل میں بھی بعض لوگوں نے صرف ایک جگہ جوان عورت کے معنی کہے ہیں مگر یہ تکرار یہودیوں کی درست نہیں ہے۔ اصلی معنی اس لفظ کے (پوشیدہ) کے ہیں اور جو کہ یہودی اپنی لڑکیوں کو لوگوں سے چھپاتے تھے اس لئے یہ لفظ کنواری لڑکی کے معنی میں ظ بولا جاتا تھا چنانچہ کتب عہد عتیق میں کئی جگہ یہ لفظ آیا ہے اور اس کے معنی کنواری کے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ایسا قرینہ ہو کہ اس کے سبب جوان عورت سمجھی جاوے تو اصلی استعمال سے پھیر کر بطور مجاز جوان عورت کے معنی لیتے ہیں مگر اس درس میں کوئی ایسا قرینہ نہیں بلکہ خلاف اس کے قرینہ ہے کیونکہ اشیاہ بنی نے معجزہ بتایا ہے۔ اور معجزہ جب ہی ہوتا ہے جب کنواری بیٹا جنے اس لئے اس جگہ بلاشبہ کنواری کے معنی ہیں نہ (بید) یعنے جوان عورت کے اور کچھ شبہ نہیں کہ ان پہلے تینوں مترجموں نے اس کے ترجمہ میں غلطی کی چنانچہ سبٹو ایجنٹ میں جس کو بہترّ علماء یہود نے مل کر ترجمہ کیا اس لفظ کا اس مقام پر کنواری ترجمہ کیا ہے (تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٤٠) ” غرض کہ ایک ایسا زمانہ آگیا تھا کہ روحانی تقدس کسی میں نہیں رہا تھا اس لئے ضرور تھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا جو روحانی تقدس اور روحانی روشنی لوگوں کو سکھاوے پھر وہ کوئی ہوسکتا تھا مگر وہ جو صرف روح سے پیدا ہوا ہو نہ کسی ظاہری سبب سے چنانچہ اس روحانی روشنی کے چمکانے کو حضرت مسیح (علیہ السلام) صرف روح اللہ سے پیدا ہوئے۔ تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٢۔ پس اب ہم سید صاحب کے بیانات کے بعد اہل مذاق کے انصاف پر بھروسہ کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ واللّٰہ یقولالحق وھو یھدی السبیل۔ منہ “ اے مریم چونکہ تو اللہ تعالیٰ کی بندی ہے اپنے رب کی عبادت میں لگی رہ بالخصوص نماز تو نمازیوں کے ساتھ جماعت میں پڑھا کر بھلاجس عورت کو اللہ تعالیٰ یہ بزرگی دے اس کی نسبت فحش اور بے حیائی کا خیال کرنا جیسا کہ یہودی کرتے ہیں کیسا جھوٹ ہے بلکہ کفر ہے کہ ایسی اللہ تعالیٰ کی بندی کے بیٹے کو اللہ سمجھنا انہیں دونوں گروہوں کی ہدائیت کے لئے یہ غیب کی خبریں تیری طرف ہم بھیجتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم یعنی قلموں کے لکھے ہوئے پر چے بطور قرعہ اندازی کے بایں غرض ڈالتے تھے کہ کون ان میں سے مریم کا مربی اور کفیل ہو اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے ” آمد مریم برسر مطلب اب وہ بات بھی سنو جس کے لیے یہ ساری تمہید تھی یعنی مسیح کی عبودیت کا ثبوت اور الوہیت کا ابطال۔ ” اصل میں شروع سورت سے ابطال الوہیت مسیح کی تمہید ہے جیسا ہماری تقریر سے واضح ہو رہا ہے۔ ١٢ منہ “ یاد کرو جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک حکم کی خوشخبری دیتا ہے کہ اس حکم سے تیرے رحم میں ایک بچہ پیدا ہوگا کہ اس کا نام مسیح بن مریم ہوگا دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور نیز اللہ کے مقرب بندوں سے ہوگا اور گہوارہ یعنی چھوٹی عمر میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے ہدائیت کی باتیں کرے گا نہ جیسا یہودی کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) ناجائز مولود تھا یا نصاریٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بٹار اور جزو ہے بلکہ وہ اللہ کانبی اور نیکو کاروں سے ہوگا مریم چونکہ اس وقت کنواری تھی بیٹے کی خبر سے گھبرا کر بولی میرے اللہ مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ بظاہر جو اسباب اولاد ہونے کے ہیں وہ تو مجھ میں مفقود ہیں بڑا بھاری سبب مرد کا اجتماع ہے سو مجھ کو تو ابھی تک کسی مرد نے ہاتھ سے نہیں چھوا پھر لڑکا ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے جواب میں کہا کہ بے شک بات یہی ہے جو تو نے کہی مگر اللہ کی قدرت سب سے نرالی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے گو بظاہر اسباب ہر شے کے اس نے رکھے ہیں تاہم اسباب کا خالق بھی وہی ہے پس جب کوئی چیز کرنی چاہتا ہے تو اس کے لئے صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجاپس وہ ہوجاتی ہے اسی تیرے بچہ کے اسباب بھی گو بظاہر مفقود ہیں لیکن وہ قادر قیوم تو ایک آن میں سب کچھ کرسکتا ہے وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ اور اس کو کتاب سماوی تہذیب اخلاق تورات اور انجیل سکھادے گا اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا بایں پیغام کہ میں تمہارے اللہ کی طرف سے رسالت کی یہ نشانی لایا ہوں کہ مٹی سے جانور کی شکل تمہارے سامنے بناکر اس میں پھونکتا ہوں۔ تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اندھے مادر زاد اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا ہوں اور مردوں کو تمہارے سامنے محض اللہ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں اور تم کو بتلا دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو بے شک اس میں میری نبوت پر تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم کسی کی ماننے والے ہو اور اگر تم یہ سمجھ کر مخالفت کرو کہ میں تمہاری کتاب کا منکر ہوں تو یہ بھی تمہاری غلطی ہے میں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی ہے تصدیق کرتا ہوں البتہ میں اس لئے بھی آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام ہیں اللہ کی طرف سے تم کو حلال بتائوں اور یہ میرا کسی چیز کو حلال حرام کہنا بےدلیل نہیں بلکہ میں اللہ کی طرف سے رسول ہوں اور تمہارے اور اپنے اللہ کی طرف سے اس دعویٰ پر نشان لایا ہوں پس تم اللہ اکیلے سے ڈرو اور شریعت میں مرای تابعداری کرو اس معجزہ نمائی سے مت خیال کرو کہ میں الوہیت میں کوئی حصہ رکھتا ہوں ہرگز نہیں بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا پالنہار ہے پس اسی کی عبادت کرو نہ کہ میری بھی یہی راہ سیدھی نجات تک پہنچانے والی ہے۔ مگر یہودیوں نے مسیح کی ایک نہ سنی بلکہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے پس جب یہودی شرارت میں حد سے بڑھ گئے اور مسیح نے ان سے انکار ہی پایا تو بغرض تمیز یگانوں اور بیگانوں کے نیز واسطے اظہار عجز اور عبودیت اپنی کے کہا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں حواری جو اس وقت مسیح کے مخلص دوست تھے بولے ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں پس تو گواہ رہ کہ ہم اللہ کے تابعدار اور اس کے دین کے خدمت گار ہیں یہ کہہ کر اللہ کی طرف جھک کر دعا کرنے لگے اے ہمارے اللہ ہم تیری اتاری ہوئی (کتاب) کو مانتے ہیں اور تیرے رسول عیسیٰ مسیح کے تابع ہیں پس تو ہم کو اپنی توحید کی گواہی دینے والوں میں لکھ رکھ اور یہودیوں نے مسیح کی ایذا کے لئے طرح طرح کے مخفی داؤ کئے اللہ نے ان سے داؤ کیا یعنی ان کی بے خبری میں حضرت مسیح کی حفاظت اور یہود کی ناکامی کے احکام جاری کئے یہی اللہ کا داؤ ہے اللہ سب داؤ کرنے والوں سے اچھا یعنی سب پر غالب ہے آخر یہودیوں کی شرارت کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ اس کی ہلاکت کے درپے ہوئے مگر اللہ اس کا ہمیشہ مددگار رہا اور موذیوں کی ایذا سے حفاظت کرتا رہا۔ آل عمران
43 آل عمران
44 آل عمران
45 آل عمران
46 آل عمران
47 آل عمران
48 آل عمران
49 آل عمران
50 آل عمران
51 آل عمران
52 آل عمران
53 آل عمران
54 آل عمران
55 یاد کرو جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ تو ان موزیوں کی ایذا سے بے فکر رہ تیری جان تک نہیں پہنچ سکیں گے بے شک میں ہی تجھے فوت کرنے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور ان کافروں کی بد زبانی سے بذریعہ قرآن پاک کرنے والا اور تیرے تابعداروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھنے والاہوں پھر بعد مرنے کے میری ہی طرف تم کو آنا ہے پس جس جس بات میں تم جھگڑتے ہو تم میں فیصلہ کروں گا مومنوں کو ثواب دوں گا اور کافروں کو عذاب۔ سید صاحب و مرزا صاحب کی غلطی :۔ (اِنِّیْ مُتَوَفِیْکَ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسی بزرگ (حضرت مسیح علیہ السلام) کے متعلق (جن کی تمام زندگی کے حالات کے علاوہ مرنے جینے میں بھی لوگ مختلف ہیں) ان کی وفات کا ذکر فرماتا ہے۔ اس آیت کے معنی میں علماء کا قریب قریب اتفاق ہے کہ یہاں موت مراد نہیں بلکہ دنیا سے اٹھانا مراد ہے مگر ہم نے سید احمد صاحب جو اس مسئلہ (وفات مسیح) کے موجد ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لحاظ سے (جو سید صاحب کے اس مسئلہ اور دیگر استحالہ سپر نیچرل میں پیرو ہیں) اس آیت کے معنی میں انہیں کا ترجمہ منظور کیا ہے اور متوفی کے معنی موت دینے والا ہی لکھا ہے مسئلہ ولادت مسیح میں تو سید صاحب ہی ہمارے مخاطب تھے اس مسئلہ (وفات مسیح) میں دونو صاحبوں ( سید صاحب و مرزا صاحب) سے (جو دراصل پیرو پیرو ہیں) ہمارا روئے سخن ہے۔ اس بیان سے پہلے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ دیا ہے بیرونی شہادت دیکھنی بھی ضروری ہے۔ یہود و نصاریٰ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حالات کو بچشم خود دیکھنے والے اور ایک دوسرے سے نسلاً بعد نسل سننے والے ہیں اس پر متفق ہیں کہ حضرت ممدوح سولی دیئے گئے گو ان کے اتفاق کے نتائج مختلف ہیں یہود کا نتیجہ بموجب تعلیم تورٰیت استثنا ١٣ باب فتح یابی ہے اور عیسائیوں کا نتیجہ کفارہ گناہ ہے خیر اس کا یہاں ذکر نہیں ہماری غرض صرف یہ ہے کہ دونوں فریق اس پر متفق ہیں کہ مسیح ! ؔسولی ہی دیئے گئے۔ پس ان دونوں گروہوں کے اتفاق سے یہ امر باآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ حضرت مسیح موت طبعی سے نہیں مرے ورنہ ممکن نہ تھا کہ دونوں گروہوں سے ان کی موت مخفی رہتی کیونکہ یہود اور نصاریٰ سے زائد اور نصاریٰ یہودیوں سے بڑھ کر ان کے حالات کے متلاشی تھے۔ یہودیوں کی غرض یہ تھی کہ وہ کہیں ملیں تو ان کو موت کا مزہ چکھائیں۔ عیسائیوں کو ان سے دلی محبت تھی اس لئے وہ ان کے حال کی تلاش میں سرگرم تھے چنانچہ اناجیل مروجہ سے اس بات کا پتہ باآسانی ملتا ہے کہ عیسائیوں کو مسیح کے حالات سے کس قدر مانوسیت تھی کہ ان کے معمولی مشاغل چلنا پھرنا بھی قلم بند کر رکھا ہے۔ پھر اگر وہ موت طبعی سے مرتے تو ممکن نہیں کہ عیسائیوں کو اس کی خبر نہ ہوتی پس سید صاحب کا فرمانا۔ کہ (حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تین چار گھنٹے کے بعد صلیب پر سے اتار لئے گئے تھے۔ اور ہر طرح پر یقین ہوسکتا ہے کہ وہ زندہ تھے رات کو وہ لحد میں سے نکال لئے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے حواریوں نے ان کو دیکھا اور ملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مر گئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کے خوف سے نہایت مخفی طور سے کسی نامعلوم مقام میں دفن کردیا ہوگا جو اب تک نامعلوم ہے اور یہ مشہور کیا ہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ ص ٤٥ تارعنکبوت سے بھی ضعیف ہے۔ یہ کبھی ممکن نہیں کہ سچے نبی کے تابعدار جن کی قرآن" میں بھی تعریف آئی ہے ایسے صریح کذب کے مرتکب ہوں اور بے فائدہ اپنے نبی اور اللہ پر افترا کریں کہ وہ آسمان پر چلا گیا۔ حالانکہ نہ گیا ہو۔ علاوہ اس کے اگر مسیح حواریوں کو ملے اور اپنی موت سے مرے تو کیا اتنی دیر میں یہودیوں کو خبر نہ ہوئی کہ وہ اپنی ناکامیابی پر افسوس کرتے اور دوبارہ سعی بلیغ کر کے کامیابی حاصل کرتے۔ پس سید صاحب کے احتمال کو نہ صرف واقعات جھٹلاتے ہیں بلکہ روایت و درایت دونوں اس کی تکذیب کرتی ہیں۔ حاصل یہ کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا اس امر پر متفق ہونا کہ مسیح (علیہ السلام) موت طبعی سے فوت نہیں ہوئے ضرور قابل غور ہے۔ خصوصاً مرزا صاحب قادیانی کے نزدیک تو یہ طریق استدلال بہت ہی صحیح ہے کیونکہ وہ اس طریق سے خود بھی مستدل ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ بائیسویں آیت (وفات مسیح پر یہ ہے کہ فاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہوجائے۔ سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ اگر کسی نبی گذشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارت کے کچھ اور معنی ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) آپ ہی فیصل کرچکے ہیں اور ان کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے دیکھو کتاب سلاطین و ملا کی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اترنا کس طور پر مسیح نے بیان فرمایا ہے۔“ ازالہ ص ٦١٦ مذکورہ بالاتقریر میں میرزا صاحب نے جو علمیت اور قابلیت کا اظہار کیا ہے وہ تو اہل علم سے مخفی نہیں۔ دعویٰ وفات مسیح ہے اور دلیل عدم رجوع کیا ہی تقریب تام ہے لیکن بلحاظ اس کے کہ میرزا صاحب تو علم لدنی کے عالم ہیں علوم ظاہر یہ مناظرہ وغیرہ ہے بے نصیب ہونا ان پر کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا ہاں بطور معارضہ بالمثل جو ہم نے استدلال کیا ہے اس میں بفضلہ تعالیٰ تقریب تام ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ عدم وفات بموت طبعی ہے اور (بقول مرزا صاحب) حسب الحکم آیت کریمہ جب ہم نے اہل کتاب سے وفات مسیح بموت طبعی کے متعلق سوال کیا تو دونوں گروہ نے بالاتفاق جواب دیا کہ نہیں۔ اب ہم آیات قرآنی پر غور کرتے ہیں سورۃ مائدہ میں کسی قدر تفصیل سے اس واقعہ کا بیان ہے۔ دونوں فریق یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح مصلوب و مقتول ہوا ہے۔ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللّٰہ الیہ وکان اللّٰہ عزیزاً حکیماً۔ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شھیداً حالانکہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا لیکن وہ ان کے سامنے مشتبہ کیا گیا جو لوگ اس امر میں (کہ مسیح کو قتل و سولی نہیں ہوئی قرآن کے بیان سے) مخالف ہیں وہ اس واقعہ سے بے خبری میں ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل ان کے پاس نہیں۔ ہاں اٹکلوں اور خیالوں کے تابع ہیں انہوں نے ہرگز اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے پاس اس کو اٹھا لیا اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔ اس آیت میں اللہ نے کئی باتیں بیان فرمائی ہیں اول تو صحیح لفظوں میں اس امر کا رد کیا جو یہود و نصاریٰ مسیح کے مصلوب ہونے کا خیالی پلائو پکا رہے تھے دوم اس واقعہ کی اصلیت پر اطلاع دی کہ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا یہاں تک تو ہمارا اور ہمارے مخاطبوں کا اتفاق ہے صرف اختلاف اس میں ہے کہ رفع کے کیا معنی ہیں ہمارے مخاطب کہتے ہیں کہ رفع سے مراد رفع درجات ہے۔ رفع جسم نہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر رفع سے مراد رفع درجات ہو تو یہودیوں کے قول کی مخالفت کیا ہوئی جو لفظ بل سے ہونی چاہیے تھی۔ بھلا یہودیوں نے اگر مسیح کو سولی دیا ہو تو رفع درجات نہیں ہوسکتا۔ جب کہ شہدا کی بابت عام طور پر قرآن بلندی مراتب کی خبر دیتا ہے بلکہ غور کیا جاوے تو ان معنی سے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لَاتَشْعُرُوْنَ یہودیوں کے قول کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اگر مسیح کو واقعی انہوں نے صلیب دیا ہو تو کون نہیں جانتا کہ یہ صلیب مسیح کو صرف دین داری کی وجہ سے ملی ہوگی جس سے ان کے درجات کی بلندی ہر طرح سے ظاہر و باہر ہے پھر قرآن کریم نے ان کے اس قول کی کہ ہم نے مسیح کو سولی دے دیا (بقول آپ کے) یہ کہہ کر ہم نے اس کے درجے بلند کردیئے گویا ایک قسم کی تائید ہے اگر یہی معنی ہیں تو قرآن کا مطلب بالکل اس قصے کے مشابہ ہوجائے گا جو کسی بادشاہ اور اس کے زمانہ کے نیک دل لوگوں کا مشہور ہے ایک بادشاہ سے جاہل فقیروں نے کہا آپ نے فوج کے اخراجات خواہ مخواہ اپنے ذمہ لے رکھے ہیں بادشاہ نے جواب میں کہا کہ دشمن کے خوف کا کیا علاج ہوسکتا ہے انہوں نے کہا ہم دعا کرتے رہیں گے اللہ فضل کرے گا مجال نہیں کوئی دشمن غالب آجائے۔ چنانچہ شامت زدہ بادشاہ اس دائو میں آگیا اور فوج کو یک لخت موقوف کردیا اتفاقاً دشمن نے فوج کشی کر کے جو مناسب تھا کیا جب بادشاہ نے اپنی حالت تباہ دیکھی تو دعا گوئوں کو بلا کر یہ ماجرٰی سنایا کہ دشمن نے تمام ملک لے لیا اگر آج فوج ہوتی تو ایسا کیوں ہوتا دعا گوئوں نے بیک زبان کہا کہ دشمن نے تو ہمارا کچھ نہیں لیا بلکہ ہم نے ان کا دین و ایمان چھینا کیونکہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا جس کی وجہ سے وہ بے ایمان ہوئے۔ سو اگر آپ دونوں صاحبوں (سید صاحب و مرزا صاحب) کے معنی سنے جائیں تو قرآن شریف کا بَلْ بھی اسی صوفیکل سوسائٹی کے بلکہ کی طرح ہوجئاے گا کیونکہ آیت کریمہ کے معنی یہ ہوں گے جیسا کوئی کہے کہ حضرت حمزہ (رض) کو کفار نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کا مرتبہ بلند کیا یا پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مشرکین نے مکہ سے نہیں نکالا بلکہ اللہ نے ان کی عزت افزائی کی تو ایسے محاورات سے کون نہیں سمجھتا کہ بجائے اس کے کہ فعل مذکور کی نفی ہو الٹا مع فوائد ثبوت ہوتا ہے علاوہ اس کے آیت مذکورہ کے آگے وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (اللہ غالب ہے حکمت والا) بھی متصل ہے جو ان تراشیدہ معنی سے بالکل بے محل ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کا محل کسی تعجب کا رفع کرنا اور مشکل بات کو سہل بتلانا ہے اور کسی نیک آدمی خصوصاً انبیاء کے مراتب کی رفعت کو کون شخص مشکل اور انہونی جانتا ہے؟ جس کو اس آیت نے آسان بتلایا پس معلوم ہوا کہ اگر رفع درجات کے لیں تو نہ صرف یہی کہ یہودیوں کی تکذیب کے بجائے تصدیق ثابت ہوتی ہے بلکہ ساتھ ہی آیت کے تمام الفاظ بھی درست اور چسپاں نہیں ہوتے جب تک یہ معنی نہ لیں کہ اللہ نے مسیح کو زندہ آسمان پر چڑھا لیا اگر اس پر خیال گذرے کہ کیسے اٹھا لیا اتنے دشمنوں کے ہوتے ہوئے وہ کیونکر صحیح سالم بچ کر چلے گئے تو اس کا جواب اس آیت میں اللہ نے دیا کہ ہم بڑے غالب اور حکمت والے ہیں جس کام کو کرنا چاہیں مجال نہیں کہ کوئی روک سکے ان معنی پر جو اعتراضات بے سود کئے گئے ہیں ان سب کا جواب آخر بحث میں ہم دیں گے پس جب اس آیت میں رفع سے مراد رفع درجات نہیں ہوسکتا تو آیت زیر بحث (اِنِّیْ مُتَوَفِّیَکَ وَرَافِعُکَ) میں بھی رفع سے مراد رفع درجات نہیں کیونکہ اس رفع میں جو وعدہ تھا اسی کو بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ نے پورا کردیا جیسا کہ مرزا صاحب کو مباحثہ دہلی میں یہ مسلم ہے کہ رفعہ اللّٰہ رافعک کے وعدے کا ایفاء عہد ہے پس اس میں بھی وہی معنی ہوں گے جو رفعہ اللہ میں ہیں یعنے بجسد عنصری زندہ اٹھانا اور اگر دوسرے حصہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ والے کو دیکھیں تو مطلب اور بھی عمدہ طور سے واضح ہوجاتا ہے۔ اس وضاحت کے لئے ہم اس آیت کا ترجمہ اپنا کیا ہوا نہیں بتلاتے بلکہ خود مرزا صاحب کے خلیفہ ارشد مولوی حکیم نور الدین صاحب کا جن کے علم و فضل کا کل اتباع مرزا بلکہ خود مرزا صاحب کو بھی ناز ہے پیش کرتے ہیں۔ غور سے سنیے۔ نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لادے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ (فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب جلد ٢ ص ٨٠ حاشیہ نمبر ٢ ترجمہ مذکورہ صاف بتلا رہا ہے کہ مرزا صاحب کا مطلب غلط ہے کیونکہ حکیم صاحب نے تمام ضمیریں مسیح کی طرف پھیری ہیں جو شخص قیامت میں گواہ ہوگا اسی کے ساتھ اس کی موت سے پہلے اہل کتاب ایمان لاویں گے اور اس میں تو شک نہیں کہ عیسائیوں پر قیامت کے دن حضرت مسیح ہی گواہ ہوں گے پس مرزا صاحب ہی کی تحریر سے (کیونکہ حکیم صاحب بفحوائے من تو شدم تو من شدی عین مرزا صاحب ہیں) ثابت ہوگیا کہ مسیح (علیہ السلام) فوت نہیں ہوئے۔ ان معنی پر مرزا صاحب نے کئی ایک لایعنی اعتراضات سے تمام کتابیں بھری ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ متوفی کا لفظ جو پہلے ہے اس کا ترجمہ پیچھے کیوں ہوتا ہے کہیں اس تاخیر کو فعل شیطانی کہا ہے کہیں تحریف یہود بتلایا۔ غرض بہت کچھ اس ترجمہ پر جوش مسیحائی ظاہر کیا ہے جو علاوہ اظہار مسیحیت کے لیاقت علی کا بھی مظہر ہے۔ حضرت من ! شرح ملا جامی۔ نورالانوار۔ حسامی۔ توضیح تلویح۔ مختصر معانی۔ مطول وغیرہ کتب نحو اصول اور معانی کو ملاحظہ فرمائیے کہ واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا اگر اس کی مثال قرآن سے چاہیں تو سنئے۔ ایک شخص مال دار کا سال تمام یکم رمضان کے دن ظہر کے وقت پورا ہوا اب بحکم آیت اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (بقول آپ کے) اس پر فرض ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور پھر زکوٰۃ دے اور اگر پہلے زکوٰۃ دے گا تو شاید آپ کے نزدیک گناہ گار ہو بلکہ زکوٰۃ اس کی ادا بھی نہ ہوگی کیا کوئی بھی اس میں آپ کے ساتھ ہے دوسری آیت اَقِیْمُوا ! الصَّلوٰۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے بموجب (بقول آپ کے) ضرور ہے کہ پہلے نماز ادا کرے اس کے بعد شرک چھوڑے اگر پہلے شرک چھوڑے گا تو شاید آپ خفا ہوں گے تیسری آیت اللہ نے فرعون کے جادوگروں کے قول کو ایک جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ بَرِبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ پ ٩ ع ٤ دوسری جگہ بِرَبِّ ھَارُوْنَ وَمُوْسٰی پ ١٦ ع ١٢ آیا ہے جو پہلے کے الٹ ہے حالانکہ جادوگروں نے یقینا ایک ہی طریق سے کہا ہوگا سو اگر وہ طریق اول ہے تو دوسرے میں کذب آئے گا اور اگر دوسرا ہے تو پہلا جھوٹ ہوگا علاوہ اس کے کئی ایک مقام پر انبیاء سابقین کا لاحقین سے پیچھے ذکر کیا ہے چنانچہ کَذٰلِکَ یُوْحِیْٓ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ پس جب واو کا لفظ ترتیب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ محض جمعیت کے لئے ہے تو متوفی کے معنی رافع سے پیچھے کرلینے میں کون سی قباحت ہوگی بالخصوص جب کہ پہلی آیت سے ہم صعود بجسد عنصری ثابت کر آئے ہیں جس سے دونوں آیتوں کی تطبیق لفظی معنوی بخوبی ہوجاتی ہے تقدم تاخر کی مزید تحقیق منظور ہو تو اتقاق ملاحظہ ہو جس میں چوالیسویں نوع خاص اسی مطلب کے لئے مصنف نے مقرر کی ہے کہ بعض الفاظ مقدم ہوتے ہیں لیکن ترجمہ ان کا مؤخر ہوتا ہے چنانچہ انی متوفیک ورافعک بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اب ہماری تقریر کے مطابق اس آیت کا ترجمہ یہ ہوا۔ کہ ” اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھ سے یہ سب معاملہ قیامت تک کروں گا “ اللہ کی شان یہ لقب (خلیفہ) ہم نے طبع اول کے وقت دیا تھا جس وقت مرزا صاحب زندہ تھے اور حکیم صاحب خلیفہ نہ تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہی خلافت پر متمکن ہیں ایسا فقرہ کہیں مرزا صاحب کی تحریر میں ہوتا تو اللہ جانے کیسی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی بن جاتا۔ منہ رہا یہ کہ پہلے کیا ہوگا اور پیچھے کیا اس کا ذکر نہیں اس کو دوسری آیت نے حل کردیا کہ رفع ہوچکا ہے۔ توفی اب آئندہ ہوگی۔ اگر یہ سوال ہو کہ بیشک پہلی آیت سے رفع بجسد عنصری مراد لینا ہی مناسب ہے اور کہ لفظ واو ترتیب کے لئے بھی نہیں ہوتا مگر آخر کلام اللہ تعالیٰ تو بڑا فصیح بلیغ ہے اس کا کیا سبب ہے؟ کہ متوفی کو پہلے لائے ہیں آخر بلاوجہ تو نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح کو بتقاضائے بشریت اعدا سے ہر وقت خوف رہتا تھا ان کی تسلی کے لیے اس لفظ کو پہلے کردیا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں ہی تجھے موت طبعی سے ماروں گا یہ نہ ہوگا کہ تیرے دشمن تجھے کچھ تکلیف پہنچا سکیں اور یہ روشن قرآن کریم کی بلکہ کل فصی کی عموماً ہے کہ کلام تسلی بخش کو پہلے لایا کرتے ہیں چنانچہ آنحضرتﷺ کی تسلی کے لئے عَفَا ! اللّٰہُ عَنْکَ پہلے لا کر لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ کو پیچھے فرمایا۔ تیسری آیت اس مسئلہ (وفات مسیح) پر سید صاحب نے یہ لکھی ہے کہ اذ قال اللّٰہ یعیسٰے ابن مریم ءاَنْتَ قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللّٰہ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب۔ جب اللہ تعالیٰ مسیح سے کہے گا کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا اللہ بنا لو مسیح کہے گا کہ تو پاک ہے شرک سے مجھے لائق نہیں کہ میں ایسی بات منہ پر لائوں جو میرا حق نہ ہو اگر میں نے کہی ہوگی تو جانتا ہے کیونکہ تو میرے اندر کی بات کو بھی جانتا ہے اور میں تیری مخفی بات نہیں جانتا تو غیب دان ہے۔ ماقلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدوا اللّٰہ ربی وربکم وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شیء شھید (المائدہ) میں نے تو ان سے یہی کہا تھا کہ اکیلے اللہ کی جو میرا اور تمہارا رب ہے عبادت کرو اور میں خود جب تک ان میں تھا ان کا نگہبان رہا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز تیرے سامنے ہے۔ اس آیت کے ترجمہ میں قائلین نیچر کا باہمی اختلاف ہے۔ سید صاحب تو اس کے معنی (جب اللہ کہے گا) کرتے ہیں اور مرز صاحب (جب اللہ نے کہا) کہتے ہیں اور مرزا صاحب کے خلیفہ اول مولوی حکیم نور الدین صاحب سید صاحب سے متفق ہیں (دیکھو مقدمہ اہل کتاب ص ١٧٨) غرض مرزا صاحب ماضی اور سید صاحب و حکیم صاحب مضارع مراد لیتے ہیں جس سے مطلب میں بھی کسی قدر فرق آجاتا ہے مگر انصاف سے دیکھیں تو سید صاحب و حکیم صاحب کے معنی صحیح ہیں اس لئے کہ حضرت مسیح کے جواب میں اللہ کی طرف سے جو جواب الجواب دیا جائے گا وہ یہ ظاہر کر رہا ہے یہ سوال و جواب بروز قیامت ہوگا۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ یہی دن ہے کہ سچوں کا سچ ان کو نفع دے گا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا دن جس میں اعمال حسنہ کا حقیقی نفع ہو وہ دن قیامت کا ہے خیر اس تصفیہ کے بعد ہم آیت کے طلب کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے مخاطب کہتے ہیں اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہوگئے کیونکہ وہ خود کہیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا میں جانتا ہوں اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو توہی ان کا نگہبان تھا۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں بیشک جس وقت (یعنے بروز قیامت) حضرت مسیح یہ کلام کہیں گے اس وقت سے پہلے فوت ہوچکے ہوں گے ہم بھی تو اس امر کے قائل ہیں کہ قرب قیامت دنیا میں تشریف لا کر بنی آدم کی طرح فوت ہوں گے اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس وقت بھی فوت شدہ ہیں ہاں ہم پر یہ اعتراض ہوگا کہ سوال اللہ تعالیٰ کا مطلب تو یہ تھا کہ تو نے ان کو اپنی الوہیت کی طرف بلا لیا تھا جس کا جواب حضرت مسیح نے یہ دیا اور پھر اس پر بس نہ کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگران حال تھا اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی نگہبان تھا اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت مسیح کو عیسائیوں کے شرک کی کوئی خبر نہیں اور یہ جب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ اب حضرت مسیح زندہ نہ ہوں کیونکہ اگر زندہ ہیں اور دنیا میں آویں گے (جیسا کہ مسلمانوں کا عام طور پر عقیدہ ہے) تو عیسائیوں کے کفر و شرک کی ان کو ضرور خبر ہوگی پھر اس سے انکار کیوں کریں گے۔“ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض نے کچھ تو دھوکا کھایا اور کچھ اپنی طرف سے حاشیہ لگایا۔ سوال خداوندی جس کا جواب حضرت مسیح کے ذمہ ہے صرف اتنا ہے کہ ” تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ بنا نو جس کے جواب میں حضرت مسیح مع شے زائد جواب دیں گے کہ یا اللہ تو شرک سے پاک ہے جو بات مجھے لائق نہیں میں وہ کیوں کہتا۔ اصل سوال کا جواب یہاں تک آگیا اب آگے اس کام پر صرف اپنی بیزاری کا اظہار کرنا ہے مگر اس میں حضرت کو ان لوگوں کی جنہوں نے جناب والا کی نسبت یہ افترا کیا تھا۔ سفارش بھی کرنی ہے اس لیے دونوں مطلبوں کو حاصل کرنے کو اپنی بیزاری بھی ظاہر کی کہ جب تک میں ان میں تھا ان کا نگہبان تھا (جس سے کسی قدر استحقاق شفاعت ثابت ہوتا ہے) اور جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ہر چیز پر نگہبان رہا ہے جیسے وہ ہیں تو جانتا ہے اس سے آگے ان کی ضمناً سفارش بھی کی کہ اگر تو ان کو عذاب کرے تو تیرے بندے ہیں کوئی تجھے روک نہیں سکتا اگر تو ان کو بخشے تو اِنْ تُعَذِّبْھِمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ تو بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے کوئی نہیں جو تیری اس بخشش کو خلاف مصلحت سمجھے۔ اب بتلائیے۔ اگر حضرت مسیح خود ہی ان کی نالائقی کا اعتراف کرلیتے تو ان کی سفارش کیونکر کرتے۔ حالانکہ ان کے شرک کرنے نہ کرنے سے سوال ہی نہ تھا بلکہ سوال صرف اس سے تھا کہ تو نے ان سے کہا تھا کہ مجھے اللہ بنا لو پس جب کہ سوال ہی اس سے نہیں اور اس کا اقرار ان کی سفارش میں خلل انداز بھی ہے تو مسیح کو کیا غرض کہ وہ اس کا اقرار کریں کہ یہ مشرک تھے ہاں کمال یہ ہے کہ انکار بھی نہیں کیا کس طرح کرتے جب کہ جان چکے تھے کہ ان عیسائیوں نے بیشک میری نسبت یہ افترا کیا ہوا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ جناب مسیح کے اقرار عدم اقرار پر کوئی بات موقوف نہیں معاملہ خدائے غیب دان سے ہے جس کو یہ بھی خبر ہے کہ انہوں نے شرک کیا اور یہ بھی خبر ہے کہ مسیح بھی اس کو جانتا ہے مگر مسیح کو کیا غرض پڑی کہ بلا سوال ایک ایسے جواب کی طرف متوجہ ہوں جس کا ان کو بھی ایک طرح سے امر مطلوب میں مضر ہونے کا اندیشہ ہو کہ وقت سفارش حکم ہو اے مسیح تو خود ہی ان کے شرک کو مانتا ہے اور آپ ہی ان کے حق میں شفاعت کرتا ہے پس اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح (علیہ السلام) اس وقت مردہ اور فوت شدہ ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں پس حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی وفات کا واقعہ بلحاظ کتب اسلامیہ اور نصرانہو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح کی جب چاروں طرف سے دار و گیر شروع ہوئی تو ان کے شاگرد یہود اسکریوطی نے ان کے پکڑوا نے پر رشوت لیلی اور ایک مقام پر آسانی سے پکڑوانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بحفاظت اٹھا لیا اور ان کی شکل کا حلیہ دوسرے کی مخالف شخض پر ڈال دیا اسی بیان سے آیت شبہ لھم اور قول ابن عباس (رض) کہ فبعث اللّٰہ جبرئیل فادخلہ فی خواختہ فی سقفہا روزنۃ فرفعہ الی السماء من تلک الروزنۃ فالقی اللہ شبہ عیسیٰ علیہ فقتلوہ وصلبوہ (تفسیر معالم مختصرا) اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو مسیح کو پکڑوانے کے لئے مکان کے اندر گیا تھا مسیح ( علیہ السلام) کی شکل پر بنا دیا اور مسیح کو مکان کی چھت کی روزن سے آسمان پر اٹھا لیا (دیکھو تفسیر معالم) اور اناجیل مروجہ بھی منطبق ہوجاتی ہیں اور اگر غور کیا جائے تو روایۃً بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ بموجب بیان اناجیل مروّجہ جن کو سید صاحب بھی معتبر جانتے ہیں (تبیسن الکلام) اور مرزا صاحب تو ان کی طرف رجوع کرنا فرض بتلاتے ہیں (ازالہ ص ٦١٦) ثابت ہے کہ جب اس شخص کو (جس پر مسیح کی شبیہ ڈالی گئی تھی پھانسی دی گئی تو اس نے ایسی گھبراہٹ کا اظہار کیا جو انبیا تو کجا عوام صلحا کی شان سے بھی بعید ہے تکلیف کے وقت چلانا۔ شور مچانا اور اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنا (جیسا کہ انجیل مرقس کے حوالہ منقولہ حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے) کون نہیں جانتا کہ صلاحیت اور نبوت سے کو سوں دور ہیں اس قسم کی تکالیف میں ذرا صحابہ کرام پھر اس مسیح نے دوبارہ جا کر دعا مانگی اور کہا کہ اے میرے باپ (یعنی خدا) اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ (موت) مجھ سے نہیں گذر سکتا تو خیر تیری مرضی انجیل متی باب ٤٦ درس نمبر ٤٢ اور یسوع (مسیح) نے بڑے شور سے چلا کر جان دی انجیل متی نمبر ٢٧ درس نمبر ٥ اور پون گھنٹہ یسوع بڑی آواز سے چلا کر بولا ایلی ایلی مما سبقتنی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ مرقس باب نمبر ١٥۔ کا حال بھی ملا حظہ کیجئے کیسے استقلال اور بردباری سے جان دے رہے ہیں اور بجائے چوں و چرا کرنے کے شکریہ کرتے ہیں۔ نمونہ کے لئے ذرا خُبَیْبکا حال ہی دیکھئے جس کا قصہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے کہ کس استقلال اور صبر سے جان دیتا ہے اور دشمنوں کے سامنے یہ اشعار پڑھتا ہے۔ ولا ابالی حِیْنَ اقتل مسلما علی ای شق کان فی اللہ مصرعی جب میں مسلمانی میں قتل کیا جائوں تو مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گروں وذٰلک فی ذات الالٰہ وَاِنْ یشا یبارک علیٰ اوصال شلو ممزع یہ میرا مرنا تو اللہ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے گا تو کٹے ہوئے جوڑوں میں بھی برکت کر دے گا کیا حضرت مسیح ( علیہ السلام) اس صحابی سا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے معاذ اللہ وہ اللہ کے مقرب رسول وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ صحابی کی کیا شان کہ حضرت مسیح کی گرو پا کو بھی پہنچے گو اپنے مرتبہ میں کیسا ہی بزرگ ہو وہ معصوم اور اولوالعزم پیغمبر وہ کلمۃ اللہ وہ روح اللہ پھر کیا وجہ کہ اس امتحان مقابلہ میں وہ فیل شدہ ہیں اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ شخص پھانسی شدہ مسیح نہ تھا مگر سرسید کہیں تو مسیح کو سولی پر چڑہاتے ہیں‘ تفسیر احمدی ص ٤٢ جلد ٢) اور جب ان کو ماصَلَبُوْا کا خیال ہوتا ہے تو یہ کہہ کر ” حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صلیب پر مرے نہ تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا (ص ٤٥) ٹال دیتے ہیں اور کہیں لٰکن شُبِّہَ لَھُمْ کا ترجمہ (لیکن ان پر صلیب پر مار ڈالنے کی شبیہ کردی گئی“ ص ١٦٥ جلد ٢ کہہ کر آگے چل دیئے ہیں لیکن چلا کہ جان دینے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں کیوں نہ ہوجان دینے کا موقع ایسا ہی ہے کہ سب بھول جاتے ہیں۔ رہا اصل اعتراض کہ مسیح کی شکل دوسرے پر کس طرح ہوگئی یہ تو سپر نیچرل (خلاف عادت) ہے جو سید صاحب کا قدیمی ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس اللہ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی لکڑی کی شکل بدل کر سانپ اور سانپ سے لکڑی بنا دی وہ مسیح کی سی شکل والا دوسرے کو بھی بنا سکتا ہے۔ جو اللہ مرغی انڈا دیتی کو مرغا انڈے دلانے والا بناتا ہے وہ ایک شکل کے دو آدمی یا ایک کی شکل دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔ گو ہماری معروضہ بالا تقریر سے کل مسئلہ حیات و ممات مسیح بالکل صاف ہے مگر بنظر استحسان مرزا صاحب کی پیش کردہ تیس آیات کا مفصل جواب بھی دیتے ہیں۔ مرزا صاحب نے حسب عادت شریفہ اس دعویٰ کو اس قدر بڑھایا ہے کہ رائی سے ہمالہ کی صورت دکھائی ہے چنانچہ کھینچ تان کر مجموعہ تیس آیات کا اس دعویٰ پر پیش کیا ہے مگر میرے خیال میں اگر ایسی ہی آیات کو جمع کرنا تھا تو چالیس پچاس بھی ہوسکتی تھیں بہر حال جو کچھ مرزا صاحب سے ہوسکا وہ یہی مجموعہ تیس آیات کا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ مرزا صاحب کی تقریر حسب عادت طوالت سے بھری ہونے کی وجہ سے بہت سی جگہ چاہتی ہے اس لئے ہم ان کے مطلب کو خلاصہ کر کے لکھیں گے جو اصل سے بالکل مطابق ہوگا جس کو شبہ ہو وہ اصل سے مقابلہ کرلے۔ (١) پہلی آیت یَا عِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ ازالہ اواہم ص ٥٩٨ اس آیت کا ترجمہ ہی کر کے چھوڑ دیا جو ہم نے کردیا ہے جس پر مفصل بحث ہوچکی ہے۔ (٢) دوسری آیت بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ رفع سے مراد باعزت موت ہے جیسے کہ حضرت ادریس کے لئے وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا ص ٥٩٩ اس کی بحث بھی مفصل ہوچکی ہے مزید یہ ہے کہ حضرت مسیح والا بَلْ یہاں نہیں۔ (٣) تیسری آیت فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ توفی کا لفظ موت کے لئے ہے پس ثابت ہوا کہ مسیح فوت ہوچکے ہیں ص ٦٠٠ اس کی بحث بھی ہمارے مضمون سابق میں آگئی ہے۔ (٤) چوتھی آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ اور ہم (مرزا) اسی رسالہ میں اس کی تفسیر بیان کرچکے ہیں۔ ص ٦٠٢ اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام اہل کتاب اپنی موت سے پہلے مسیح کی موت طبعی پر ایمان لے آتے ہیں اور مصلوب ہونے کے اعتقاد سے پھرجاتے ہیں۔ “ اس آیت کے پیش کرنے میں تو مرزا صاحب نے کمال کر دکھایا جس آیت سے مرزا جی کے مخالف حیات مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں مرزا جی نے جھٹ سے اسے اپنے قبضہ میں کرنا چاہا۔ ہم اس آیت پر مفصل بحث نہیں کرتے صرف مرزا صاحب کے خلیفہ راشد حکیم نور الدین صاحب کا ترجمہ جو ہم نے بصفحہ (٣٢) نقل کیا ہے پیش کردیتے ہیں اس بارے میں ہمارے وہی حکم ہیں ناظرین صفحہ مذکور پر تفسیر مذکور میں نظر ڈالیں۔ (٥) پانچویں آیت ہے مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلٌ وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَاْکُلَان الطُّعَامَ اس آیت میں ماں بیٹے (مریم و مسیح کے ذکر میں ” کھانا کھاتے تھے“ کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب نہیں کھاتے اور چونکہ بغیر کھانا کھانے کے زندگی محال ہے اس لئے ضرور ہے کہ مسیح فوت ہوگئے ہیں ص ٦٠٣ “ مرزا جی ! میدان مناظرہ مریدوں کا حلقہ نہیں کہ ” بیائد گفت اینک ماہ وپردیں“ کا مصداق ہو۔ یہ تو ان کی حالت مشہودہ مسلمہ فریقین سے جو دنیا میں ان پر آرہی تھی استدلال ہے اسے اس سے کیا علاقہ کہ اب وہ نہیں کھاتے۔ یہ کون سی دلالت ہے عبارۃ النص ہے۔ یا اشارۃ النص۔ دلالت النص ہے یا اقتضاء النص۔ اگرچہ آپ اپنے مولوی صاحبان سے دریافت فرما لیں کہ ” کانا“ کے لفظ سے زمانہ حال کی نفی نہیں ہوتی۔ لیجئے ہم آپ کی خاطر مانے لیتے ہیں کہ بیشک حضرت مسیح اس وقت کھانا نہیں کھاتے تو کیا ان کی زندگی محال ہے کیا حضرت آدم ( علیہ السلام) دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں کھانا کھاتے تھے حالانکہ آپ کے نزدیک تو جنت میں صرف روحانی لذائذ ہیں نہ کہ جسمانی چنانچہ آپ کی تقریر جلسہ مذاہب لاہور مندرجہ رپورٹ اس کی مظہر ہے۔ خیر یہ تو الزامی جواب ہے حقیقی جواب یہ ہے کہ شرعی طور پر بغیر طعام زندگی گزارنے کا ثبوت ملتا ہے کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں جس میں آنحضرتﷺ نے وصال صیام سے منع فرمایا تو صحابہ کے عرض کرنے پر کہ حضرت ! آپ کیوں وصال کیا کرتے ہیں آپ نے فرمایا تھا اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ یعنی میں اپنے رب کے پاس رات گذراتا ہوں وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے تم میرے جیسے نہیں “ اگر یہ حقیقی کھانا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال صیام ہی نہیں تھا حالانکہ اسی کے کرنے کی دلیل بیان ہے۔ پھر آپ کا مسیح کی بابت مخول کرنا کہ اللہ کے پاس کیا کھاتا ہے تو پائخانہ کہاں پھرتا ہے وغیرہ وغیرہ قابل مخول ہے یا نہیں۔ کیا آپ نے اصحاب کہف کا قصہ بھی قرآن شریف میں نہیں لکھا کہ تین سو نو برس غار میں بے خبر سوتے رہے اور زندہ رہے اگر آپ کو ان کی موجودہ زندگی میں شبہ ہے جیسا ص ٦٠٥ ازالہ سے مفہوم ہوتا ہے تو کیا فَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا بھی شبہ ہے جو نص قطعی ہے اگر کہیں کہ وہ تین سو نو برس بے طعام نہ تھے بلکہ کھاتے پیتے تھے تو ان کے باہمی سوالات کا کیا مطلب ہے جو انہوں نے بعد بیداری آپس میں کئے تھے کہ۔ قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوم او بعض یوم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم (کھف) ” ایک ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ تم کتنی مدت ٹھیرے ہو بولے کہ ایک دن یا کم (بعد غور و فکر بولے کہ اللہ خوب جانتا ہے جتنے ٹھیرے ہو۔ “ اگر وہ غذا کھاتے پیتے تو ان کو اپنے ٹھیرنے کا بھی وقت نہ معلوم ہوتا جس کی مدت اللہ نے تین سو نو برس بتلا دی ہے کیا آپ نے وہ حدیث بھی نہیں دیکھی جو مشکوٰۃ کے باب علامات الساعۃ کی دوسری فصل میں ہے جس کا مضمون ہے کہ تسبیح تہلیل بھی بندوں کی غذا کا کام دے سکتی ہیں پس جب تک ہمارے سوالات کو نہ اٹھائیں اس آیت کا پیش کرنا آپ کا حق نہیں ودونہ خرط القتاد۔ (٦) چھٹی آیت ہے وَمَا جَعَلْنَاھُمْ جَسَدًا لَّایَاکُلُوْنَ الطَّعَام سنت اللہ ہے کہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام زندہ نہیں رہ سکتا۔ (ازالہ ص ٦٠٤) اس کا جواب آیت سابقہ میں آگیا علاوہ اس کے اس آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ اللہ فرماتا ہے ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھائیں یعنی کھانے کو چھوئیں نہیں۔ یہ مشرکین عرب کا جواب ہے جو کہا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے جس کے جواب میں ارشاد پہنچا۔ مالھذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ کہ پہلے نبیوں کو کبھی ہم نے ایسا نہ بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ ایسا کوئی بشر نہیں ہوا جو کھانا نہ کھاتا ہو۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ کھاتے رہیں کیا پیغمبرﷺ روزہ وصال میں کئی کئی روز جو کھانا ترک فرماتے تھے تو وہ اس وقت وہ جسم نہ تھے؟ مرزا جی ! مطلقہ عامہ کے ثبوت سے وائمہ مطلقہ لازم نہیں آتا اگر نہ سمجھے ہوں تو کسی سے پوچھ لیجئے۔ (٧) ” ساتویں آیت یہ ہے {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ مَاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ} یعنی محمد ﷺ سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ص ٦٠٦ “ شاباش مرزا صاحب باوجود دعویٰ الہام وغیرہ وغیرہ اتنی چالاکی کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر خدا نخواستہ گرخشمگین ہوتے تو کیا کرتے کیا ہی عمدہ ترجمہ آپ نے گھڑ لیا کہ فوت ہوگئے جناب کے مرید تو سن کر علماء کو کو ستے ہوں گے کہ صاف آیت میں لکھا ہے۔ ” سب نبی فوت ہوگئے“ تو پھر جو علماء نہیں مانتے بیشک یہودیوں کی طرح ان کے دل سیاہ ہیں بیشک ایسے ہیں ویسے ہیں بیشک ان کے پیچھے نماز درست نہیں ان سے سلام علیکم ناجائز ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ پیغمبر اللہ کی پیشگوئی ١ ؎ کا ظہور ہو رہا ہے بھلا مرزا جی ! ” فوت ہوگئے“ کس لفظ کا ترجمہ ہے شاید ” خَلَتْ“ کی طرف توجہ سامی لگ رہی ہے جس کے معنی گذرنے‘ جانے‘ خالی کرنے وغیرہ کے ہیں جو ان تمام معانی میں مستعمل ہوا ہے وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیَاطِیْنِہِمْ۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ۔ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ۔ پس آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ تجھ سے پہلے کل نبی اپنے اپنے وقت میں کام کر کے چلے گئے جیسے کوئی کہے کہ موجودہ لفٹنٹ گورنر سے پہلے کئی لفٹنٹ گذر گئے تو کیا اس سے یہی مفہوم ہے کہ سب مر گئے پس اسی تقریر سے نویں آیت تِلْکَ اُمَّۃٌّ قَدْ خَلَتْ کا جواب بھی آگیا کیونکہ آپ وہاں بھی خلا ہی میں تیر رہے ہیں۔ (٨) آٹھویں آیت ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاِنْ مِتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ۔ کوئی بشر ہمیشہ زندہ نہیں رہا اس لئے مسیح بھی نہائت بوڑھے ہو کر فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٦ کیوں نہ ہوں؟ دو اور دو چار روٹیاں“ کی مثال اسے ہی کہیں۔ حضرت ! آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں کی بھلا اگر تو مر گیا تو کیا یہ کافر ہمیشہ رہیں گے ہرگز نہیں۔ بتلائیں کس کے مخالف ہے کیا ہم مسیح کو ہمیشہ زندہ رہنے والا مانتے ہیں کیا دائمہ مطلقہ کے سلب سے متعلقہ عامہ مسلوب ہوجاتا ہے یہ نئی منطق ہے بیشک آیت کا مطلب بالکل صاف ہے لیکن جب خود غرض کے قبضے میں آپھنسے تو کیا کرے۔ (١٠) دسویں آیت وَاَوْصَانِیْ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکوٰۃِ مَادُمْتُ حَیًّا ص ١٦٠٧ اس آیت سے بھی معلوم نہیں مرزا صاحب کیا مطلب لے رہے ہیں شاید یہ مطلب ہے کہ زندگی تک تو زکوٰۃ کا حکم ہے اگر وہ اب زندہ ہیں تو زکوٰۃ کس کو دیتے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت ہوگئے۔ چہ خوش ! ہمیں بار بار وہی دو اور دو چار روٹیاں والی مثال یاد آتی ہے۔ اجی حضرت آپ یہ تو بتلا دیں کہ جتنے روز مسیح دنیا میں رہے تھے زکوٰۃ کس کو دیتے تھے مرزا صاحب غلطی تو ہر ایک انسان سے ممکن ہے لیکن ایسی غلطی کہ ” بدوز دطمع دیدہ ہوشمند“ پناہ باللہ۔ کیا زکوٰۃ کے لئے اہل و اسباب زائد عن الحاجت ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں تو پس جب کہ ان کے پاس مال دنیاوی موجود ہی نہیں تو زکوٰۃ کیسے دیں اور کس کو دیں۔ اس آیت میں مرزا جی نے ایک عجیب بات بھی لکھی ہے جس کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔ ” اس سے بھی ظاہر ہے کہ انجیل کے طریق نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آویں گے تو برخلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھیں گے۔“ ص ٦٠٧ مرزا صاحب نے اس جگہ یہ بڑا استحالہ قائم کیا ہے کہ حضرت مسیح دو طرح کی نماز کس طرح پڑھیں گے کاش بتلایا ہوتا کہ عیسائیوں کی نماز ہاں اصل عیسائی نماز کس طرح کی ہے اور وہ کتنے حصے میں اسلامی نماز سے مخالف ہے۔ کیا آپ نے مسیح کی والدہ کی بابت فرمان ربانی نہیں سنا یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ بتلائیے آپ کی نماز سے یہ نماز کتنی کچھ مخالف ہے۔ ہاں آپ نے موجودہ عیسائیوں کی نماز دیکھی ہوگی۔ جس میں تثلیث کی پرستش بھی کرتے ہیں بیشک ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح اس نماز سے مخالف نماز پڑھیں گے بلکہ اس نماز کے مٹانے کے لئے تشریف لادیں گے چنانچہ آپ بھی براہین جلد رابع ص ٤٩٩ میں تسلیم کرتے ہیں معلوم نہیں مرزا صاحب کو ایسی باتوں سے کیا فائدہ ہوگا چونکہ علم لدنی کے متعلم ہیں اس لئے بقول صوفیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غلطی ممکن ہے۔ (١١) گیا رہویں آیت والسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثْ حَیًّا اس آیت میں مسیح کے تین واقعات ولادت موت اور بعثت کے ایام کئے گئے ہیں یوم رفع نہیں گنا اس لئے وہ کوئی جدا نہیں بلکہ بذریعہ موت ہی ہوا“ ص ٦٠٨ مرزا جی کی قوت استنباط یہ بہت صحیح ہے حالانکہ بوجہ بڑھاپے اور بیماری کے زرد رنگ میں مسیح کے مشابہ بھی بنا سکتے ہیں۔ خیر اس سے ہمیں بحث نہیں مگر مرزا صاحب یہ تو بتلا دیں کہ عدم ذکر سے عدم شے لازم آتا ہے؟ انسان کے لئے تین ہی واقعات عام طور پیش آتے ہیں اور یہ تینوں محل خطر ہیں موت اور قیامت کے دن کا خطرناک ہونا ظاہر البتہ پیدائش کے دن کا خطرناک ہونا جس کی طرف مسیح نے اشارہ کیا ہے دو وجہ سے ہے ایک تو اس حدیث کی وجہ سے جس کا مضمون ہے کہ مَامِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا وَیَمَسُّہُ الشَّیْطَانُ اِلَّا مَرْیَمُ وَاِبْنُھَا (اوکما قال) ہر ایک بچہ کو شیطان وقت ولادت چھوتا ہے سوا مسیح اور اس کی ماں کے کہ ان دونوں کو نہ چھوا تھا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ولادت کا وقت بھی ایک خطرناک وقت ہے جس کی سلامتی کی طرف حضرت مسیح نے اشارہ کیا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہودی حضرت مسیح کی ولادت ناجائز بتلاتے تھے اور ناجائز ولادت والے کو اللہ کی بادشاہت میں ذلیل سمجھتے ! تھے اس لئے مسیح نے ایسے واقعات کا جو سب لوگوں کو پیش آنے والے ہیں جن کے وقوع کا سب کو یقین ہے ذکر کیا اور رفع بجسد عنصری کا ذکر نہیں کیا کہ جو پہلے سے منکر ہیں کہیں اور بھی زیادہ نہ بگڑیں علاوہ ان توجیہات کے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کو یہ کلام بولتے وقت اپنے رفع بجسد عنصری کا علم ہی نہ تھی کیونکہ جب تک اللہ کریم کوئی وعدہ نہ کرے یا کوئی خبر نہ بتلادے نبی ہو یا رسول بلکہ افضل الرسل (علیہم السلام) کو بھی خبر نہیں ہوتی لایُحِیْطُوُن" بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَاشَآئَ کو پڑھ لو۔ (١٢) بارھویں آیت وَمِنْکُمْ مَّنْ یُتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان عمر طبعی تک پہنچ کر مر جاتا ہے پس مسیح بھی جو عمر طبعی تک پہنچ گئے ہیں ضرور فوت ہوگئے ہوں گے ص ٦٠٨ عجیب نئی منطق ہے۔ مرزا صاحب مسیح عمر طبعی کو دنیا ہی میں پہونچے ہوئے تھے یا اب پہونچے ہوں گے اگر دنیا ہی میں پہنچے تھے تو کیا ثبوت؟ حالانکہ روایات سے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں میں مرقوم ہیں صاف مفہوم ہے کہ حضرت مسیح کی عمر بوقت رفع تیتیس ٣٣ سال تھی اور اگر بعد رفع عمر طبعی کو پہنچے ہیں تو غنیمت ہے کہ آپ نے ان کا رفع بجسدہ تو مانا بعد رفع بجسدہ کے موت کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے دیجئے ودونہ خرط القتاد علاوہ اس کے عمر طبعی بھی تو مختلف ہے ایک عمر طبعی آپ کی ہے اور ایک حضرت نوح ( علیہ السلام) کی تھی جن کے صرف وعظ کا زمانہ ساڑھے نو سو برس کا قرآن کریم میں مذکور ہے تو کل عمر بلوغت کے سات اور بعد طوفان ملا کر دیکھیں تو اور بھی بڑھ جاتی ہے اور قصص میں بعض نبیوں کی عمر چودہ سو برس تک بھی پہونچتی ہے۔ نص قرآنی سے تو آپ کو انکار نہ ہوگا۔ پھر بتلادیں کہ آیت موصوفہ سے آپ کے دعویٰ کو کہاں تک تقویت یا تائید ہوتی ہے کیا ممکن نہیں کہ حضرت مسیح کی عمر طبعی کا اندازہ کوئی غیر محدود زمانہ ہو جس کی مثال دنیا میں آج تک کیی فرد بشر پر نہ آئی ہو۔ اس جگہ ایک لطیفہ بھی قابل بیان ہے جو مرزا جی کی تحریر سے نہیں بلکہ ان کے بعض مریدوں کی زبان سے سنا گیا ہے کہ حضرت مسیح کو آج تک زندہ سمجھیں تو حی قیوم کی صفت اللہ عالم الغیب میں شریک ہوجاتا ہے اور شرک تو کسی طرح اسلام میں درست نہیں پس ثابت ہوا کہ مسیح بھی کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے۔ کسی شہدے کو مولوی صاحب نے نماز کی تاکید کی تھی شہدا بولا کہ آپ نے دعوت کی تھی تو نمک زائد نہیں ڈالا تھا؟ مولوی صاحب نے فرمایا اس بات کو یہاں کیا علاقہ؟ شہدا بولا کہ بات سے بات نکل آتی ہے سو یہی حال ہماری اس الہامی جماعت کا ہے مسیح کی موت کے پیچھے ایسے پڑے ہیں کہ اگر ان کے لئے ایک سکینڈ کا اختیار بھی مل جائے تو سب سے پہلے جو کام ان سے سرزد ہو وہ یہی ہو کہ حضرت مسیح کو فوت کریں لیکن نہیں جانتے وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ بھلا حضرات اگر درازی عمر کی وجہ سے کوئی جاندار اللہ عالم الغیب کا شریک ہی ہوجاتا ہے تو جس کی عمر مسیح سے ہزارہا سال پہلے اور ہزارہا سال بعد تک ہوگی اگر اپنے بزرگ سرسید کی طرح شیطان قوائے حیوانیہ کو جانتے ہو تو قرآن کریم میں غور کرو قال فَانْظِرُنِیْ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ (١٣) تیرہویں آیت ہے وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّوَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم ! خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا ص ٦٠٩ مرزا جی دوسری آیت پر بھی غور کرلیا ہوتا جس میں مثل اس آیت کے لَکُمْ آیا ہوا ہے وَلَکُمْ"فِیْھَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ اَفَلَا تَشْکُرُوْنَ اگر اس آیت سے جس خاکی کا آسمان پر جانا منع معلوم ہوتا ہے تو اس آیت سے سوا چار پایوں کے دودھ اور منافع کے اور چیزوں کا دودھ اور منافع بلکہ تمام دنیا کے پانی پینے بھی منع ہوگئے کیونکہ اگر اس آیت میں مستقر مبتدا موخر ہے تو اس میں مَنَافِعُ اور مَشَارِبُ وہی حکم رکھتا ہے حالانکہ ہم تمام دنیا کے کنؤں کا پانی پیتے ہیں اور تمام چیزوں سے نفع لیتے ہیں کوئی چار پائیوں کی خصوصیت نہیں بتلاویں تو (بقول آپ کے) یہ دجال کا گدھا ریل گاڑی کون سے چار پایوں کا نفع ہے حالانکہ بقول آپ کے آیت میں ہے کہ سوا چار پایوں کے اور کسی چیز میں ہمارا نفع نہیں اور نہ ہمارے بچے کسی جاندار کا خواہ وہ بچے کی والدہ ہو دودھ پی سکتے ہیں کیونکہ مشارب کا لفظ اس سے روکتا ہے اگر یہی معنی ہیں تو میں نہیں جانتا کہ اس آیت سے (نعوذ باللہ) کوئی کلام غلطی میں مقابلہ کرسکے۔ مرزا صاحب نے اس آیت کی تقریر میں کچھ علمیت کے جوہر بھی دکھائے ہیں آپ فرماتے ہیں۔ ” کیونکہ لَکُمٗ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا بلکہ زمین سے نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا ص ٦٠٩ “ مرزا صاحب ! اس جگہ تو آپ نے ایک پرانا قصہ ہم کو یاد دلایا جس کو ہم آپ کے خاندان نیچر یہ کے بانی سرسید مرحوم کے لئے کسی جگہ لکھ آئے ہیں کہ ایک دفعہ بادشاہ دہلی مدرسہ عربی کا امتحان لینے گئے ایک طالب علم سے پوچھا کہ اَلْحَمْدُ لِوَلِیِّہٖ میں واو کیسا ہے طالب علم جھٹ سے بولا بندہ نواز ! عطف کا بادشاہ نے کہا یہ بھی لائق انعام ہے کیونکہ اتنا تو جانتا ہے کہ واو عطف کا بھی ہوتا ہے“ ہم بھی مرزا صاحب کو قابل انعام سمجھتے ہیں اور وقعی مرزا صاحب کی تعریف کرتے ہیں کہ آنجناب حصر کو جانتے ہیں لیکن بڑے ادب سے عرض ہے کہ اگر لکم فائدہ حصر کا دیتا ہے تو غالباً یہ حصر مسند الیہ (مُسْتَقَرٌّ) کا مسند میں ہوگا جیسا کہ مختصر معانی اور مطول سے مفہوم ہوتا ہے تو بتلائیے کہ اس حصر کا مطلب کیا ہوگا اور آیت کے معنی کیا بنیں گے وہی جو مختصر معانی اور مطول میں لکھے ہیں لَّافِیْھَا غَوْلٌ بخلاف خمور الدنیا فان فیھا غولا یعنی تمہارے لئے زمین مستقر (جگہ) ہے نہ کہ کسی اور جانور کے لئے بھلا اس حصر سے جسم خاکی کا آسمان پر جانا کیونکر منع ہوا ہاں یہ تو بیشک ثابت ہوا کہ دنیا میں سوائے انسان کے جو لکم کے مخاطب ہیں کسی جاندار کی جگہ نہیں۔ یہ معنی قطع نظر اس سے کہ واقع میں صحیح ہوں یا غلط آپ کے دعویٰ (جسم خاکی آسمان پر جا نہیں سکتا) سے کیا علاقہ انی ھٰذا من ذاک۔ ہاں اگر آپ کے معنی مراد ہوتے تو کلام خداوندی میں فی الارض مقدم ہوتا یعنی آیت یوں ہوتی وفی الارض مستقر ومتاع الٰی حین ایسی اصلاح قرآن شریف میں کرنا کون نہیں جانتا کہ اَتُنَبِّئُوْنَ#َ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمَآئِ وَلَا فِی الْاَرْضِ کے مصداق ہے۔ رہی یہ بحث کہ گو حصر مسند کا نہیں لیکن یہ تو معلوم ہوا کہ زمین میں مستقر ہے پس آسمان کا مستقر ہونا اس کے خلاف ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حصر نہیں تو خلاف بھی نہیں۔ نہیں تو بتلا دیں کہ مسلمان جو سب محمد رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو کیا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول نہیں صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی رسول ہیں۔ پس جس طرح کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنے سے موسیٰ ( علیہ السلام) رسول اللہ کی نفی نہیں ہوتی اسی طرح فی الارض مستقر کہنے سے فی السماء مستقر کی نفی لازم نہیں۔ علاوہ اس کے آسمان میں تو مستقرہی نہیں خصوصاً لکم کے مخاطبین کا جو تمام نبی انسان ہیں اگر مسیح چند روز چلے گئے۔ اول تو عارضی ہے۔ دوم وہ ایک فرد مخصوص ہیں مَا من عام الاوقد خص منہ البعض کو یاد کرو ایسے استدلالات میں ہاتھ پائوں مارنے سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو اور کیا فائدہ؟ (١٤) چودھویں آیت یہ ہے ” وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ یعنی درازی عمر میں حواس اور عقل زائل ہوجاتی ہے اگر مسیح اب تک زندہ ہوں تو ان کی عقل میں فرق آگیا ہوگا جس سے یقینی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدت سے مر گئے ہوں گے ص ٦١٠ مرزا صاحب چونکہ علم لدنی کے متعلم تھے اس لئے بیچارے علوم ظاہر یہ کی اصطلاحات بدیعہ سے بالکل نہ واقف ہوں تو ان کی ذات ستودہ صفات میں کوئی نقص نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا جی کے کان مبارک ” تقریب تام“ سے جو علم مناظرہ میں اہم اصول ہے کبھی آشنا نہیں ہوئے مرزا صاحب کا دعویٰ ممات مسیح اور دلیل لو سُلّم نقصان عقل یہیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ مرزا صاحب اگر کوئی شخص ستر ٧٠ برس کی عمر سے (جس کو آپ انتیسویں آیت میں امت محمدیہ کے لئے محدود کرتے ہیں) متجاوز ہوگیا جیسے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب مرحوم گنج مراد آبادی یا قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی یا مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی جن میں سے بعض صاحب سو اور بعض سو سے بھی متجاوز تھے کیا آپ کے نزدیک ان کا جنازہ بغیر روح نکلے ہی درست ہے کیونکہ آپ کی دلیل کا مقدمہ تو ثابت ہے کہ عمر درازی موت کو متلزم ہے پھر مدعا کیوں ثابت نہیں آئندہ کو آپ کے خاندان میں سے جو شخص ستر برس سے متجاوز ہو تو بغیر نکلے روح کے اس کو میت قرار دے کر قبر میں داخل کردیا کریں پھر دیکھیں نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ افسوس مرزا صاحب کو یہ خبر نہیں یا جان بوجھ کر تجاہل عارفانہ کرتے ہیں کہ عمر درازی کو اگر کچھ لازم ہے تو نکوس لازم ہے جو خود زندگی کو چاہتا ہے مردہ کی بابت نکوس فی الخلق کون کہے گا نکوس کے معنی اوندھا کرنے کے ہیں مطلب آیت کا بالکل واضع ہے کہ جس کی عمر دراز ہوتی ہے اس کی خلقت اور عادت پیرانہ سالی میں جوانی سے مغائر بچپن کی سی ہوجاتی ہے بالکل درست ہے صدق اللّٰہ وصدق رسولہ لیکن اس کو موت خصوصاً مسیح کی موت سے کیا علاقہ اگر آپ کے نزدیک ستر برس سے متجاوز پر نکوس فی الخلق ضروری ہے تو حضرت نوح ( علیہ السلام) تو آپ کے نزدیک تمام تبلیغ نکوس کے زمانہ بلکہ موت میں کرتے رہے ہوں گے یا للعجب۔ (١٥) پندرھویں آیت یہ ہے اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃٌ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً اس آیت سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ انسان کی عمر پر اثر کرتا ہے یہاں تک کہ پیر فوت ہوجاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔ ص ٦١٠ آمنا وصدقنا بیشک اثر کرتا ہے مگر اس کی حد مختلف ہے ایک حد بقول آپ کے ساٹھ ستر برس ہے دوسری بقول اللہ تعالیٰ کے عمر نوحی ہے جب تک آپ مسیح کے لئے حد نہ لگا دیں اس آیت کو پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے اعمارا متی بین الستین کا جواب آگے آتا ہے۔ (١٦) سولہویں آیت اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہٗ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَام یعنی کھیتی کی طرح انسان بعد کمال زوال کی طرف رخ کرتا ہے کیا اس قانون سے مسیح باہر رکھا گیا ہے“ ص ٦١١ مرزا صاحب کل بنی نوع انسان کی اگر یہ حالت ہے تو بتلا دیں کہ ایک بچہ جو ایک دن کا ہو کر مر جاتا ہے اس کا وہی کمال ہے؟ دوسرا آپ کی طرح بوڑھا ہو کر اس کے لئے وہی کمال ہے ایک ایسا ہوتا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی طرح ہزار سال تک بھی اس کمال کو نہیں پہنچتا ہے پس اسی تفاوت سے اگر مسیح کو بھی وہ کمال جس کے بعد ان کو زوال آنا ہے (جو بقول آپ کے موت کا مترادف ہے) ابھی تک نہ آیا ہو تو کیا محال ہے فاعتبروا یا اولی الابصار۔ (١٧) سترھویں آیت ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ تم اپنا کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہیں“ ص ٦١١ بکشر سچ ہے اس کا جواب آیت سابقہ کی تقریر میں پڑھو۔ (١٨) اٹھارھویں آیت اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مَخْتِلَفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ جَعَلَہْ حُطَامًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَاب انسان کھیتی کی طرح اپنی عمر کو پورا کرکے مر جاتا۔ ص ٦١٢ بالکل سچ ہے لیکن عمریں مختلف ہیں۔ (١٩) انیسویں آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمُشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ کوئی انسان بغیر کھانے پینے کے زندہ نہیں رہ سکتا ص ٦١٢ اس کا جواب پانچویں آیت کی تقریر میں ملاحظہ ہو۔ (٢٠) بیسویں آیت یہ ہے والَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَایَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّاَنَ یُبْعَثُوْنَ اس آیت میں مصنوعی معبودوں کی موت کی خبر دی گئی ہے مسیح ٢! بھی عیسائیوں کے مصنوعی معبود ہیں پس ضرور ہے کہ وہ بھی فوت ہوگئے ہوں ص ٦١٢ “ مرزا صاحب نے اس آیت کے لفظ ” اموات“ سے استدلال کیا ہے مگر اس امر پر غور نہیں فرمایا کہ اموات جمع میت کی ہے جو خود آنحضرتﷺ اور کفار مکہ کے حق میں عین زندگی میں وارد ہوا ہے غور سے پڑھو اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتٰوْنَ کیا مرزا صاحب ! اس آیت کے اترتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی وامی) اور کفار مکہ سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو پھر اس سے بعد کی آیتیں بلکہ خود یہی آیت کس پر نازل ہوئی تھی؟ اور اگر فوت شدہ نہ تھے تو کیوں نہ تھے؟ حالانکہ میت کا لفظ بقول آپ کے موت سابقہ چاہتاوہ ممکنات ہالک الذات ہیں نہ دائم الحیات حالانکہ معبودیت کے لئے غیر ہالک الذات دائم الحیات ہونا چاہیے۔ پس علیٰ طریق ہے۔ مرزا صاحب تو یونہی ادھر ادھر جاتے ہیں آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی اللہ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ مشرک پکارتے ہیں البرہان آیت کے مطلب کی تقریریوں ہوگی معبود کم ممکن الفناء ولا شیء من ممکن الفناء بمعبود نتیجہ صریح ہے کہ تمہارے مصنوعی معبود لائق عبادت نہیں۔ اموات کے معنی ممکن الموت کے لینا ایک تو ایت موصوفہ اِنَّکَ مَیِّتٌ بتلا رہی ہے دوئم ممکن الموت کا لفظ تمام معبودات باطلہ کو خواہ وہ نزول آیت سے پہلے کے ہوں یا اسی وقت کے یا پیچھے کے سب کو شامل ہے اور اگر اموات کے معنی فوت شدہ کے لیں تو یہ فائدہ متصور نہیں غیر احیاء کے معنی غیر دائم الحیات کے ہم نے اس لئے کئے ہیں کیونکہ خدائی صفت دائم الحیات ہے نہ چند روزہ حیات۔ پس ہماری تقریر بفضلہ تعالیٰ ہر طرح سے قابل پذیرائی اور مشتمل بہ مزید فوائد ہوئی اور آپ کی مطلب براری در بطن قائل کہیں جناب والا کے کسی حوا ٣ ؎ ری کو یہ شبہ نہ ہو کہ شکل اول میں فعلیت صغرٰی ضروری ہے اور مذکورہ شکل میں صغریٰ ممکنہ ہے پس منتج نہ ہوگی اس لئے کہ امکان شکل مذکور میں ربط کی قید نہیں بلکہ خود محکوم بہ ہے۔ فافہم۔ (٢١) اکیسویں آیت یہ ہے ماکَانَ مُحَّمَدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اس لئے مسیح ان کے بعد نہیں آسکتا پس معلوم ہوا کہ فوت شدہ ہے ص ٢١٤ مرزا جی یہاں بھی اصطلاحات بدعیہ سے معذوری کی وجہ سے تقریب تام سے غافل ہوگئے دعویٰ موت مسیح اور دلیل عدم تشریف آوری انّٰی ھٰذا من ذٰلک آیت کا مطلب تو بالکل صاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں ان کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی پس مسیح قرب قیامت باوصف نبوت آنحضرت کی امت بن کر آویں گے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ ان کو نبوت آنحضرتﷺ کے بعد نہیں ملی بلکہ نبوت سابقہ ہی سے موصوف ہوں گے پس جیسے حضرت ہارون ( علیہ السلام) بلکہ خود حضرت مسیح پہلے تورٰیت کے احکام کی تبلیغ کرتے رہے اسی طرح بعد تشریف آوری قرآن شریف کے تابع ہو کر رہیں گے اس میں کوئی حرج نہیں صاف ارشاد ہے لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ ایک نبی اگر دوسرے نبی کی کتاب کا تابع ہو تو اس میں کیا برائی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عام طور پر وعدہ لیا ہوا ہے کہ جب تمہارے زمانہ میں کوئی رسول آوے تو تم نے اس کو مان لینا اور اس پر ایمان لانا یہ تو مرزا جی کے ڈوبتے کو تنکے کے سہارے ہیں۔ (٢٢) بائسویں آیت ہم نے بصفحہ ٢٥ نقل کی ہوئی ہے وہیں مع جواب ملاحظہ ہو۔ (٢٣) تیئسویں آیت یٰٓاَیُّھُّاَ النَّفْسُ الْمُطْمَبْنَّۃُ اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادی وادْخُلِیْ جَنَّتِیْ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آدمی مرے نہیں اللہ تعالیٰ کی نیک بندوں میں نہیں ملتا چونکہ بموجب شہادت حدیث معراج حضرت مسیح نیک بندوں میں داخل ہوچکے ہیں“ اس لئے ضرور فوت شدہ ہیں ص ٦١٧ “ کیا نئی منطق ہے مرزا صاحب بموجب شہادت حدیث معراج خود آنحضرتﷺ نیک بندوں میں داخل تھے یا نہیں پھر آپ اس سے بعد دنیا میں دوسری زندگی سے آئے یا اسی سے؟ مرزا صاحب کو موت نہ اپنی بلکہ مسیح کی موت سے بڑی محبت ہے آیت کا مطلب بالکل صاف ہے اس آیت کی تفسیر وہی صحیح ہے جو حبرالامت ابن عباس (رض) نے کی ہے (جن کی تفسیر کو مرزا صاحب عموماً اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں پیش کیا کرتے ہیں اور اس کے منوانے کے لئے مخالفوں پر بڑا زور دیا کرتے ہیں) ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب نیک بندے قیامت کو قبروں سے اٹھیں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان سے کہیں گے ” اے نفس اللہ کے ذکر سے تسلی پانے والے اللہ تعالیٰ کی طرف چل اور راضی خوشی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں داخل ہو“ (دیکھو تفسیر معالم) اس کو مسیح کے فوت شدہ ہونے سے کیا تعلق ہے۔ (٢٤) چوبیسویں آیت اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ اس آیت میں چار واقعات انسان کی زندگی کے ہیں پیدائش پھر تکمیل و ترتیب کے لیے رزق مقسوم کا ملنا پھر اس پر موت کا وارد ہونا۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح فوت شدہ ہیں ص ٦١٩ مرزا صاحب تکمیل ترتیب کی حدود مختلف ہیں رزق مقسوم بھی ہر زندگی کے مناسب ہوتا ہے فافہم (٢٥) ” پچیسویں آیت یہ ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ہر نفس پر ہر دم فنا آتی رہتی ہے ” فَانٍ“ کا لفظ لانا اور یفنی نہ لانا اسی طرف اشارہ ہے کہ فنا کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے مگر ہمارے مولوی صاحب گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اس خاکی جسم کے ساتھ جس کو ہر دم فنا لگی ہوئی ہے زمانہ کے اثر سے محفوظ ہے ص ٦١٩ “ مرزا صاحب کی اس نئی منطق سے ہم تنگ آرہے ہیں کہ کہاں کی دلیل کہاں کا دعویٰ بے ربط بے ضبط کہیں کی کہیں کہہ دیتے ہیں۔ بھلا ہر دم فنا وارد ہونے سے فوت ہونا کیسے ثابت ہوا کیا آپ بھی اس فنا کے اثر سے متاثر ہیں یا نہیں ضرور ہوں گے کیونکہ بقول اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو بغیر تابعداری میری کے ان کو کچھ بھی جائز نہ ہوتا۔ (حدیث) آپ کے جیسے مسیح کو کوئی آیت مستثنیٰ کرنے والی نہیں آپ کو بھی نہیں پس محض فنا سے متاثر ہونا اگر فوتیدگی کو چاہتا ہے تو آپ بھی اپنے کفن کی تیاری کریں۔ مرزا صاحب ! اب تو اس آیت کے معنی ڈاکٹری تحقیقات سے بھی متحقق ہوچکے ہیں کہ سات سال بعد موجود جسم تمام کا تمام فنا ہوجاتا ہے لیکن موت اور شے ہے کیونکہ اس فنا کے ساتھ بدل بھی ہوتا رہتا ہے پس آیت موصوفہ کے معنی بالکل صاف ہیں کہ ہر زمین والے کو فنا دامنگیر ہے جو بالکل صحیح ہے ناظرین ! مرزا جی کی قوت علمیہ اور راستبازی کو دیکھیں کہ اپنے مطلب کے لئے آیت قرآنی کے لفظ ” عَلَیْہَا“ کو ہضم ہی کر گئے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے آیت کے معنی یہ بنتے تھے کہ جو شخص زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے چونکہ مرزا جی کے مخاطب مسیح کو آسمان پر مانتے ہیں پھر وہ اس آیت میں کیسے آسکتے ہیں۔ ہاں اگر آسمان پر ہونا کسی دلیل سے باطل کریں تو اصلی دللک وہ ہوگی نہ کہ یہ آیت پھر اس آیت کا پیش کرنا بجز اس کے کہ تعداد تیس کی پوری ہو کیا معنی رکھتا ہے لیکن اگر ہم سے پوچھ لیتے تو ہم مرزا جی کو ایسی آیات بتلاتے کہ جن سے بجائے تیس کے پچاس تک تعداد پہنچتی۔ (٢٦) چھبیسویں آیت اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وَّنَھَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر بندے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ بعد موت کے ہے ص ٦٢٠ “ بیشک اس آیت میں جس جنت کا ذکر ہے وہ بعد موت ہی ہے لیکن حضرت مسیح کا ایسی جنت میں داخل ہونا جو بعد موت کے ہے کسی دوسری آیت سے ثابت کریں جب وہ ثابت ہوگا تو جواب دیں گے وددنہ خرط القتاد۔ (٢٧) ستائیسویں آیت یہ ہے اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ لَایَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْمَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خَالِدُوْنَ۔ اس آیت سے مسیح اور عزیرکا جنت میں داخل ہونا ثابت ہوتا ہے جو بعد موت کے واقع ہے ص ٦٢١ “ حضرت !” جنت“ جس لفظ کا ترجمہ ہے جس میں آپ نے مسیح اور عزیر کو داخل کیا ہے فیما اشتھت کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” اپنی مرادوں میں رہیں گے“ کیا بامراد ہونا جنت ہی کو چاہتا ہے آپ کی مراد منکوحہ ! آسمانی ہے اس کے حاصل ہوتے ہی آپ جنت میں چل بسیں گے۔ آپ کے دشمن جنت میں جائیں آپ ایسے وہم و گمان کو پاس بھی نہ آنے دیں علاوہ اس کے اس آیت کا لفظ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی خود جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) اور ان کے صحابہ کبار (رض) و دیگر بزرگان کو بھی جن کو بےدین لوگ پکارتے ہیں اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں شامل ہے یا نہیں تو کیا یہ بزرگ آیت کے اترنے کے وقت سب کے سب فوت شدہ تھے؟ تو کیا پھر یہ آیت آپ پر نازل ہوتی ہے؟ یہ بھی تو آپ کے مرید مان لیں لیکن مشکل یہ ہے کہ پھر آپ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی سے خارج ہوتے ہیں کیونکہ اس میں داخل ہونے سے تو آپ کو موت سوجھتی ہے فافھم۔ (٢٨) اٹھائیسویں آیت اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکُکْمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیِّدَۃٍط اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جہاں ہو موت اور لوازم موت اس پر جاری ہوجاتے ہیں۔ بطور اشارۃ النص کے مسیح کو بھی شامل ہے ص ٦٢٢ “ بیشک صحیح ہے لیکن اپنے وقت مقدر پر اِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَایَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ کون کہتا ہے کہ مسیح کو نہیں پائے گی بے شک پاوے گی۔ اس آیت میں اشارۃ النص کا لفظ سن کر بے ساختہ میرے منہ سے ” پیریکہ دم زعشق زند بس غنیمت ست“ نکل گیا کہاں مرزا جی اور کہاں اشارۃ النص کا لفظ بھولے برہمن نے گائے کھائی ہے۔ لیکن ہمارا جو خیال تھا کہ مرزا جی بقول خود علم لدنی کے متعلم ہونے کی وجہ سے ظاہری علوم کے بوجھ سے سبکدوش ہیں وہ صحیح نکلا۔ حضرت ! اشارۃ النص اسے کہتے ہیں اما اشارۃ النص فہی ماثبت بنظم اننص لغۃ وھو غیر ظاھر من کل وجہ ولا سیق الکلام لاجلہ۔ شاشی۔ نور الا نوار۔ توضیح وغیرہ جو کلام کے ظاہری ترجمہ سے سمجھ میں آئے اور کلام سے مقصود اصلی نہ ہوجیسے کوئی کہے کہ میں مرزا جی سے آتھم کی پیشگوئی کے زمانہ میں ملا تھا تو آتھم کی پیشگوئی کا ذکر صاف لفظوں کے ترجمہ سے سمجھ میں آتا ہے لیکن متکلم کی غرض اصلی ملاقات کا واقعہ بتلانا ہے۔ پس آپ جو مسیح کا ذکر بطور اشارۃ النص فرماتے ہیں کس لفظ کے ترجمہ سے سمجھ آتا ہے اگر کنتم کی ضمیر مخاطب سے عام بنی آدم مراد ہوں جیسا کہ آپ کا ماضی الضمیر ہے۔ پھر تو مسیح کے لیے عبارۃ النص ہے جو اشارۃ النص سے قوی ہے اشارہ کہنے کے کیا معنی بہر حال اشارۃ کا لفظ آپ نے بول کر ہمارے موہومی خیال کو مضبوط کردیا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نیک عوض دے اور راہ راست دکھائے۔ (٢٩) انتیسویں آیت مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو دیا ہے کہ ! اَعْمَارُ اُمَّتِیْ مَا بَیْنَ السِّتِّیْْنَ اِلَی السَّبْعِیْنَ وَاَقَلُّھُمْ مَّنْ یَّجُوْزُ نیز فوت ہوتے وقت فرمایا مَا مِنْ نَفْسٍ مَّنْقُوْسَۃٍ یَّاْتِیْ عَلَیْھَا مِائَۃُ سَنَۃٍ وَھِیَ حَیَّۃٌ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا ص ٦٢٣ “ شاباش ” این کا راز تو آیدو مرداں چنیں کنند“ مرزا صاحب بہادری اسی کا نام ہے مرزا صاحب نے دو حدیثیں اس باب میں نقل کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میری امت کی عموماً ساٹھ ستر برس عمر ہوا کرے گی بہت کم لوگ ہوں گے جو اس حد سے بڑھیں گے اس مضمون کو تو مرزا صاحب کے دعویٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں حدیث میں بعض لوگوں کی عمر متجاوز ہونے کا بھی ثبوت ہے ممکن ہے کہ مسیح بھی انہیں میں ہوں علاوہ اس کے حضرت مسیح ہنوز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں محسوب بھی نہیں ہوئے تھے تو ان کا حکم ان پر کیسے لگا۔ جب تشریف لاویں گے اس وقت امتی بنیں گے بعد امتی بننے کے چالیس سال زندہ رہ کر فوت ہوجائیں گے علاوہ اس کے آپ کے نزدیک مسیح امت محمدیہ میں نہیں ہے تو پھر امت محمدیہ کا حکم ان پر کیوں لگاتے ہو اگر بطور الزام ہے تو امت محمدیہ بننے کے بعد نہ کہ پہلے ہی۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی و امی) نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا یعنی ان کی نسل رہ جائے گی خود نہیں رہیں گے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ علیٰ ظہر الارض بھی تھا جس کے معنی ہیں کہ ” زمین پر رہنے والے جاندار“ اور مرزا جی کے مخاطب تو مسیح کو زمین پر نہیں مانتے جس سے مرزا جی کی دلیل میں ضعف آتا تھا اس لئے حدیث پر ہاتھ صاف کرنا چاہا اور جھٹ سے تاویل یا تحریف کردی کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ” جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا“ مرزا جی کی اس تقریر سے مجھے ایک قصہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ کسی عیسائی سے تثلیث کے متعلق گفتگو تھی عیسائی بولا کہ آپ تو یونہی اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ تثلیث تو قرآن سے بھی ثابت ہے میں نے کہا کہاں قرآن میں تو تثلیث کا مدلل رد ہے۔ بولا دیکھو تو پہلے ہی بسم اللہ۔ الرحمن۔ الرحیم اللہ سے مراد باپ (اللہ تعالیٰ) ہے اور رحمن سے مراد مسیح اور رحیم سے مراد روح القدس ہے۔ کیا خوب؟ چہ خوش گفت ست سعدی ور زلیخنا الایا ایہا الساقی اور کا ساونا ولہا میں حیران ہوں کہ میرزا جی اپنی تقریر پر مخالفانہ نظر کیوں نہیں ڈالا کرتے۔ کیوں اس تقریر کو پیار سے دیکھا کرتے ہیں جس کا نتیجہ ” اپنا بیٹا کا نا بھی ہو تو سو انکھا نظر آئے“ ہوتا ہے۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ بعض مریدوں سے مشورہ کیا جاتا ہے لیکن مریدوں سے مشورہ اور عیوب نمائی۔ ایں خیال سب و محال ست و جنوں۔ لیجئے مرزا صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔ سنو اور انصاف سے سنو ! کیف فیکم اذا نزل فیکم ابن مریم من السماء واما مکم منکم یعنی کیسے اچھے ہوگے تم جس وقت مسیح ابن مریم آسمان سے اتریں گے حالانکہ امیر المومنین خلیفہ اسلام بھی اس وقت تم میں سے ہوگا۔ رواہ البیہقی واصلہ فی البخاری۔ اور بھی فرمان نبوی سننے ہوں تو مشکوٰۃ میں باب نزول عیسیٰ کو انصاف سے پڑھیئے۔ (٣٠) تیسویں آیت یہ ہے اَوْتَرْقی فِی السَّمَائِ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ خاکی جسم آسمان پر چڑھ جاوے پس مسیح بجسد عنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ بعد موت گئے ہیں ص ٦٢٥ سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم آیت کا مطلب بالکل صاف ہے کفار مکہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ جب تک تو آسمان پر نہیں چڑھے گا ہم تیری بات نہیں مانیں گے۔ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ کرسکتا ہے وہ ایسے کاموں سے عاجز نہیں وہ تو عاجزی سے پاک ہے ہاں میرا کام نہیں کہ میں خود بخود چڑھ جائوں میں تو صرف اس کا رسول ہوں جو مجھے ارشاد ہوگا تعمیل ارشاد کو حاضر ہوں۔ بتلائیے یہ کس لفظ کا ترجمہ ہے کہ ” عادۃ اللہ نہیں“ کہ خاکی جسم آسمان پر جائے تو آپ نے سبحان ربی کے معنی تو خوب تراش لئے کہ ایسے خلاف عادت کام کرنے سے میرا اللہ پاک ہے مگر ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا کو کیا کریں گے جو اپنے عہدو عبودیت کا مظہر ہے جس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ میں اس سوال کا مخاطب نہیں ہوسکتا چنانچہ دوسری آیات سے بھی یہی مفہوم ہے لااَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا کو غور سے پڑھو۔ اخیر اس طویل بحث کے جس کی طوالت کی وجہ سے ناظرین کے ملال طبیعت کا اندیشہ ہے مرزا صاحب کی ایک حیرت انگیز کارروائی پر ناظرین کو متنبہ کرنا ضروری ہے مراز صاحب اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ والی آیت کو ہمیشہ پیش کیا کرتے ہیں اور مریدوں کو ایسی ضبط کرا رکھی ہے کہ خواب میں بھی ان کو شاید ہی سوجھتی ہے اور اس کی شرح میں حضرت ابن عباس کی تفسیر نقل کیا کرتے ہیں یعنی اِنِّیْ مُمِیْتُکَ اس آیت اور اس تفسیر عباسی پر بڑا نور دے کر اپنے مخالفین سے موت مسیح کا اقرار کرانا چاہتے ہیں مگر واہ ری قرآن کی سچائی کس طرح ظہور کرتی ہے (لِکَیْلَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا) مرزا صاحب اپنی مطلب براری کی وجہ سے یا اگر ہم ان سے حسن ظن کریں۔ تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ اسی آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا ترجمہ مرزا صاحب نے اپنی الہامی کتاب براہین احمدیہ جلد چہارم ص ٤٩٩ پر موفی اجرک (پورا بدل دینے والا) کیا ہے۔ اور موت کے معنی جس سے ابن عباس کا قول ” مُمِیْتُ“ ماخوذ ہے نوم اور غشی کے خود ہی کیے ہیں دیکھو ازالہ وہام ص ٦٦٥ پس اگر ہم مرزا صاحب کی ان دونوں الہامی کتابوں کے ترجمہ کو لکھتے تو ہمیں بہت کچھ آسانی تھی۔ یعنی توفی کے معنی اجر پورا دینا۔ لیتے یا ابن عباس کی تفسیر کو بسند صحیح مان کر ممیت کے معنی منیم اور مغشی کے کرتے تو ہمیں آسانی تھی مگر ہم نے کسی الزامی جواب پر کفایت نہ کی کیونکہ الزامی جواب جدل ہونے کے علاوہ آج کل کے مناظرہ میں پسند بھی نہیں۔ مضمون وفات و حیات مسیح قادیانی مباحث کے لئے فیصلہ کن نہیں۔ فیصلہ کن وہی صورت ہے جو خود مرزا صاحب نے میرے حق میں بذریعہ اشتہار مورخہ ١٥ اپریل ١٩٠٧؁ء کو شائع کی تھی۔ جس کا خلاصہ دو حرفہ مرزا صاحب کے الفاظ میں یہ ہے۔ ” مگر یہ دعویٰ مسیح موعودہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری (اللہ کی) نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو نے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ “ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ مرزا صاحب موصوف اس اشتہار کے ایک سال دو ماہ گیارہ روز بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨؁ء کو میری زندگی ہی میں فوت ہوگئے فالحمد للّٰہ الذی اظہر الحق وابطل الباطل بکلماتہ آل عمران
56 (56۔68)۔ پس کافروں اور تیرے منکروں کو دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب دونگا اور ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوگا اور جو تیری رسالت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں (میں) اللہ انکو ان کی نیکیوں کا پورا بدلہ دے گا اور اللہ کو ظالم لوگ نہیں بھاتے اے محمد رسول اللہ یہ قصہ جو تجھ کو سناتے ہیں اللہ کی نشانیاں اور حکیمانہ نصیحت ہے جس سے تجھ کو اور تمام سننے والوں کو بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ مسیح اور اس کی ماں بلکہ اس کا سارا خاندان بھی مثل دیگر انسانوں کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلص بندے تھے ان میں کوئی اس قسم کی مزیت نہ تھی جس کے سبب سے وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا بن سکیں ہاں ایک بات جس سے نافہموں کو شبہ ہوتا ہے کہ مسیح بے باپ پیدا ہوا تھا اس لئے اللہ کا بیٹا تھا سو اس بات میں مسیح کی مثال اور مشا بہت اللہ کے نزدیک بالکل آدم کی سی ہے جیسا اس کو مٹی سے بنایا پھر اس کو حکم دیا کہ موجود ہوجا پس وہ ہوگیا اسی طرح مسیح کو مریم کے رحم میں اللہ نے محض اپنے حکم سے پیدا کیا جیسا آدم کو کیا تھا اس سے بھی مسیح کا مخلوق ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ اللہ ہونا پس سچی بات تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو اسی کو مانیو اور ہرگز اس میں شک کرنے والوں میں سے مت ہوجیو بلکہ دل میں اس امر کا یقین رکھیوکہ مسیح اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے نہ کہ اللہ یا اس کا بیٹا پھر جو کوئی بعد آنے علم اور عقل کی بات کے تجھ سے کج بحثی کرے اور اسی پر اڑارہے کہ مسیح اللہ اور اللہ کا بیٹا ہے۔ تو تو ایسے لوگوں کو جو کسی دلیل کو نہ جانیں کسی علمی بات کو نہ سمجھیں بغرض بدر ابدرباید رسانید کہہ دے کہ آئو ایک آخری فیصلہ بھی سنو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اپنی بیٹیاں اور تمہاری بیٹیاں اپنے بھائی بند نزدیکی اور تمہارے بھائی بھائی بند نزدیکی بلائیں پھر عاجزی سے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں اللہ خود فیصلہ دنیا ہی میں کر دے گا جو فریق اس کے نزدیک جھوٹا ہوگا وہ دنیا میں ہی برباد اور مورد عذاب ہوگا بے شک تو اپنے دعویٰ توحید پر مضبوط رہ اس لئے کہ یہی بیان جو مسیح کی عبودیت کا ہم نے تجھ کو سنایا ہے صحیح ہے اور اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں اور بے شک اللہ ہی بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے پھر اگر وہ عیسائی جو مسیح کی الوہیت کے قائل ہیں کوئی دعا کرنے سے منہ پھیریں تو تو پروا نہ کر کیونکہ اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے تو کہدے اے کتاب والو یہودیو ! اور عیسائیو ! اختراعی باتیں چھوڑ کر ایک بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مساوی ہے اور تینوں فریق کی کتابیں (قرآن تورات اور انجیل) بھی اس کی تاکید کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ ہم تم سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ کوئی ہم میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو مالک اور مربّی سمجھے کہ اس کے خوف سے سچی بات کے اظہار سے رکا رہے پس یہ امور ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے ہمارا تمہارا قصہ طے ہوتا ہے پس اگر یہ لوگ اللہ کو اور اس کے رسولوں کو مانتے ہونگے تو اس فیصلے سے راضی ہونگے اور اگر ضد میں آکر منہ پھیریں۔ تو تم مسلمانو ! کہدو کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے تابعدار ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی ہے اسی طرح ہم مانتے ہیں اپنی بات بنانے کے لئے دیکھو تو کیسے حیلے بہانے بناتے ہیں کہ انبیا کے جد امجد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے خیالات کا پابند بتلاتے ہیں پس تو ان سے کہدے کہ اے کتاب والو کیوں ابراہیم ( علیہ السلام) کے معاملے میں جھگڑتے ہو کہ یہودی تھا یا نصرانی تھا حالانکہ تورات اور انجیل جن سے یہودیت اور عیسائت بالخصوص تمہارے خیالات کی ابتدا ہوئی ہے وہ تو اسکے بعد اتری ہیں شان نزول :۔ (یاھل الکتب) یہود نصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے مذہب پر تھے مگر چونکہ یہ خیال غلط تھا اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) توحید میں تو سب کے استاد تھے لیکن جو دین یہود و نصاریٰ کا تراشا ہوا تھا اس سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) بالکل پاک صاف تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) پھر باوجود اس بعد بعید کے تم یہ دعوی کرتے ہو کیا اس غلطی کو سمجھتے نہیں ہو ؟ دیکھو تو جس چیز کے متعلق تمہیں کسی قدر علم تھا اس میں تو تم نے جھگڑا بھی کیا اور وہ جھگڑا کسی قدرمناسب بھی تھا لیکن ایسے معاملات میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں کیا تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) یہودی تھا یا عیسائی اللہ اس کے حال کو بخوبی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اللہ نے ہمیں بتلایا ہے ابراہیم نہ تو یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ سیدھا اللہ کا فرمانبردار تھا بندہ خالص توحید کا قائل مشرک بھی نہ تھا اسی لئے یہ بات بلاشبہ ہے کہ سب لوگوں میں سے ابراہیم ( علیہ السلام) سے قرب روحانی رکھنے والے وہی لوگ تھے جو توحید میں اس کے تابع ہوئے تھے اور یہ نبی محمد (علیہ السلام) اور جو اس پر ایمان لائے پس انہی کا آپس میں روحانی تعلق ہے۔ اور اللہ سب ایمانداروں کا متولی اور کارساز ہے۔ اللہ کی کارسازی کے ہوتے ہوئے کون ہے جو ضرر دے سکے کیا یہ لوگ آج تک تمہارا کچھ بگاڑ سکے ہیں آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 آل عمران
65 آل عمران
66 آل عمران
67 آل عمران
68 آل عمران
69 (69۔80)۔ حالانکہ پادریوں کی ایک جماعت کتاب والوں میں سے تم کو پھسلا نا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں اس سے انجام کار فائدہ کیا ہوگا یہی کہ گمراہی میں کوشش کرنے کا وبال اپنی گردن پر لیں گے اس لئے کہ حقیقت میں اپنی ہی جانوں کو گمراہ کر رہے ہیں کیونکہ کسی بندہ کو اللہ کی راہ سے بہکانے کا وبال بہکا نے والے کی گردن پر ہوتا ہے مگر یہ لوگ مسلمانوں کے عناد میں سر گرم ہیں اور سمجھتے نہیں شان نزول :۔ (وَدَّتْ طَائِٓفَۃٌ) معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان (رض) کو یہودیوں نے اپنے مذہب کی طرف دعوت دی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم تعجب ہے تم سے اے کتاب والو کیوں اللہ کے حکموں سے جان بوجھ کر منکر ہوتے ہو اے کتاب کا دعوٰی کرنے والو یہودیو ! اور عیسائیو ! کیوں سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملاتے ہو ؟ اور کیوں خالص حق کو دانستہ چھپاتے ہو ؟ اور اس کے چھپانے میں ہر طرح سے کوشش بذریعہ رسالوں اور واعظوں کے کرتے ہو ہوشیار رہو مسلمانو ! ہم تم کو ان کتاب والوں کی نئی شرارت سے اگاہ کرتے ہیں اہل کتاب میں ایک جماعت پادریوں اور احبار نے تجویز سوچ کر اپنے چیلے چانٹوں سے کہا کہ تم صبح کے وقت مسلمانوں کے قرآن کو مان لو اور شام کے وقت منکر ہوجائو جاہل لوگ تمہارے انکار کو دیکھ کر مذبذب ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے تو ایسے اہل علم کتابوں کے جاننے والے اس سے پھر گئے اس حیلہ سے شائد وہ بھی پھر آویں کیونکہ مشہور عام ہے ہر چہ گیرو علتی علت شود۔ کفر گیر کامل ملت شود۔ سوائے اپنے ہم مشربوں کے کسی کی بات نہ مانو کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو چاہے وہ کچھ ہی کہے تو اے نبی ان سے کہہ دے کہ اصل ہدائت تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جس کو نصیب ہوجائے خواہ کسی قوم کا ہو تم میں سے ہو یا ہم میں سے کہتے ہیں کہ یہ مت سمجھو کہ کسی کو بھی تمہارے جیسی بزرگی اور شرافت مل سکے گی یا اللہ کے ہاں پہنچ کر تم سے مقابلہ کرے تو ان نادانوں سے کہہ دے کہ مہربانی اور فضل تو سب اللہ کے ہاتھ ہے جسکو چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے تم کس طرح سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارے برابر کسی کو عزت اور شرافت اللہ کے ہاں نہیں ہوسکتی وہ تو اپنی رحمت سے جس کو چاہے خاص کرلیتا ہے اللہ بڑے فضل کا مالک ہے علاوہ اس عناد اور ہٹ کے بد اخلاقی میں یہ لوگ کمال رکھتے ہیں۔ گو سب قوم انکی یکساں نہیں بعض تو ان کتاب والوں میں سے بے شک ایسے بھی ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک خزانہ بھی امانت رکھے تو بوقت طلبی فوراً تجھے ادا کردیں گے اور بعض بلکہ اکثر ان میں سے ایسے بد دیانت ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک دینار (روپیہ یا اس سے کم و بیش) امانت رکھے تو تجھے واپس نہ دیں گے بلکہ اس کا اقرار بھی نہ کریں گے مگر جب تک تو ان کے سر پر کھڑا رہے اور تقاضا کرتا جائے۔ اسلام کے مخالف سب سے زیا دہ یہی لوگ ہیں یہ بد معاملگی ان کی اس لئے ہے کہ یہ لوگ اپنے جی میں ٹھان چکے ہیں کہ عرب کے جہلا ان پڑھوں کا مال کھانے میں کوئی گناہ نہیں گویا اللہ نے ان کو اجازت دی ہوئی ہے کہ جس کو چاہو لوٹ لو۔ کوئی گناہ نہیں (معاذ اللہ) ایک تو بری طرح کھاتے ہیں دوسرا اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں کہ ہم کو اللہ نے اجازت دی ہوئی ہے یہ اللہ کا حکم ہرگز نہیں ہاں حکم خدا وندی یہ ہے کہ جو شخص اپنے وعدہ کو خواہ کسی سے کیا ہو بشرطیکہ خلاف شریعت نہ ہو پورا کرے اور ہر ایک کام میں اللہ سے ڈرتا رہے تو ضرور اس کا بدلہ پاوے گا ایسے پرہیز گار نیک خصلت اللہ کو بھاتے ہیں اللہ کو صرف یہی منظور نہیں کہ میری اتاری ہوئی کتاب کو زبانی مان لو اور بظاہر اس کی تلاوت اور اس کے نام کی تعظیم بھی کرو مگر عملی پہلو کا یہ حال کہ حافظ شیرازی کا مقولہ حافظائے خورو رندی کن وخوش باش ولے دام تزویرمکن چوں دگراں قرآن را تمہارے حق میں صادق آوے نہیں ہرگز نہیں بلکہ شریعت خداوندی یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے نام کے وعدے اور قسمیں تھوڑے سے دنیاوی مال کی خاطر توڑ دیتے ہیں خواہ کتنا ہی کیوں نہ لیں دنیا کا کل اسباب متاع قلیل ہے بے شک ان لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ نہ تو ان سے بخوشی خاطر کلام کرے گا اور نہ بنظر رحمت آخرت میں ان کو دیکھے گا اور نہ گناہوں سے انکو پاک کرے گا بلکہ ہر طرح کی ذلت و خواری میں رہیں گے اور ان کو عذاب درد ناک ہوگا پس خود ہی سوچ لو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کس قدر دور ہیں پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ دھوکہ بازی میں ایسے چالاک ہیں کہ ایک جماعت ان میں سے زبان مروڑ کر کتاب پڑھتی ہے کئی فقرے اس کے ساتھ اور پڑھ دیتے ہیں۔ تاکہ تم اس ملائے ہوئے کو کتاب سے سمجھو اور یہ جانو کہ ان کو مذہبی حکم یہی ہے جو یہ کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتاب اللہ سے نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے مگر وہ اللہ کے ہاں سے نہیں بلکہ خود بد عملی کرتے ہیں اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں اللہ ہی پر جھوٹ باندھنے میں بس نہیں کرتے بلکہ اپنے رسولوں اور پیشوایان دین پر بھی جھوٹ باندھتے ہیں کہتے ہیں کہ مسیح نے ہمیں اپنی الوہیت کی تعلیم دی ہے حالانکہ کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ اسکو کتاب آسمانی سکھاوے اور علم پڑھائے اور نبو ّت دے پھر وہ۔ بنو نہ یہ مناسب ہے کہ تم کو حکم کرے کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو اپنے حقیقی پرورش کرنے والے رب بنا لو (ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ) شروع سورت سے جس مضمون (خلاف العقل والنقل عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح) کی تمہید تھی یہاں پر اس کا صریح اظہار فرمایا گیا ہے مسیح کے تمام خاندان کا ذکر دراصل تمہید تھا مقصود اس سب سے یہ تھا کہ الوہیت مسیح باطل ہے چنانچہ موقع بموقع ہم تفسیر میں اشارہ کرتے آئے ہیں اس مسئلہ میں قرآن شریف نے کئی دلائل بیان کئے ہیں مگر ان دلائل کے بیان سے پہلے عیسائیوں کا عقیدہ مذکورہ جو ان کے نزدیک مدار نجات ہے بیان کردینا بھی ضروری ہے جیسا عیسائیوں کی مشہور کتاب ” دعائے عمیم“ میں مسلمہ عقیدہ مقدس اتھا ناسیس کا یوں لکھا ہے۔ ” جو کوئی نجات چاہتا ہو اس کو سب باتوں سے پہلے ضرور ہے کہ عقیدہ جامعہ رکھے اس عقیدہ کو جو کوئی کامل اور بےداغ نگاہ نہ رکھے وہ بے شک عذاب ابدی میں پڑے گا اور عقیدہ جامعہ یہ ہے کہ ہم تثلیث میں واحد اللہ کی اور توحید میں تثلیث کی پرستش کریں نہ اقانیم کو ملائیں نہ ماہیت کو تقسیم کریں کیونکہ باپ ایک اقنوم اور روح القدس ایک اقنوم ہے۔ مگر باپ بیٹے اور روح القدس کی الوہیت ایک ہی ہے جلال برابر عظمت ازلی۔ یکساں جیسا باپ ہے۔ ویسا بیٹا اور ویسا ہی روح القدس ہے باپ غیر مخلوق بیٹا غیر مخلوق اور روح قدس غیر مخلوق بیٹا غیر محدود اور روح قدس غیر محدود باپ ازلی بیٹا ازلی اور روح قدس ازلی تاہم تین ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی اسی طرح تین غیر محدود نہیں اور نہ تین غیر مخلوق بلکہ ایک غیر مخلوق اور ایک غیر محدود یونہی باپ قادر مطلق بیٹا قادر مطلق اور روح قدس قادر مطلق تو بھی تین قادر مطلق نہیں بلکہ ایک قادر مطلق ہے ویسا ہی باپ اللہ بیٹا اللہ اور روح قدس اللہ قس پر بھی تین اللہ نہیں بلکہ ایک اللہ اسی طرح باپ اللہ تعالیٰ اور روح القدس اللہ تعالیٰ تو بھی تین اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ ایک اللہ تعالیٰ۔ دعائے میم مطبوعہ افتخار دہلی ١٨٨٩؁ء ص ٢٤) عیسائیوں کے بڑے پادری فنڈر لکھتے ہیں۔ ” ایمانداروں (عیسائیوں) پر لازم اور واجب ہے کہ جیسا باپ اور بیٹے پر ویسا ہی روح القدس پر ایمان لا کر اس کی عبادت اور بندگی کریں اور عنایت اور نعمت کی امید اس سے رکھیں۔ (مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ٤٥) عبارات مذکورہ بالا سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ہر ایک ان تینوں (باپ۔ بیٹا۔ روح قدس) میں سے مستقل اللہ تعالیٰ اور معبود ہے یہ ہے عیسائیوں کا دعویٰ جس پر مذکورہ ذیل دلائل کی نقلی دیا کرتے ہیں۔ یوں تو کہنے کو عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ انجیل سے کیا تورات بلکہ کل نبیوں کی کتب اور تحریروں بلکہ نیچرل لسٹ (نظام عالم) کے ہر ورق سے تثلیث اور الوہیت مسیح ثابت ہوتی ہے تاہم وہ اس بات کے قائل ہیں کہ تورات میں اس کا اشارہ ہوا ہے (مفتاح الاسراء ص ٤٩) اور انجیل میں بالوضاحت بیان ہے (مفتاح ص ٢٣) اس لئے ہم بھی ان دلائل کے بیان کرنے میں (بقول ان کے) انجیلی حوالوں پر نہیں بلکہ انہیں کے الفاظ پر قناعت کرتے ہیں۔ مفتاح الاسراء کے مصنف پادری فنڈر جو ہندوستان میں عیسائیوں کے امام مناظرہ مانے جاتے ہیں رسالہ مذکورہ میں یوں رقمطراز ہیں۔ ” مسیح نے اللہ کی ذات و صفات اور لفظ اللہ کو بھی اپنے ساتھ نسبت دیا ہے چنانچہ آئندہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے اور اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ان معنی سے اللہ کا بیٹا نہیں ہے جن معنی سے متقی پرہیزگار ایماندار لوگ اللہ کے فرزند کہے جاتے ہیں بلکہ اس معنی سے اللہ کا بیٹا ہے کہ صفات اور ذات میں اللہ کے برابر ہے پرہیزگار اور ایماندار لوگ تو اپنے ایمان کی جہت سے اللہ کے بیٹے ہیں لیکن مسیح وحدت اللہ کی نسبت اللہ کا بیٹا ہے چنانچہ مسیح نے اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے یوحنا کے ٨ باب ٢٣ آیت میں یہودیوں سے ایسا فرمایا ہے کہ تم پستی سے ہو اور میں بلندی سے ہوں تم اس جہان کے ہو میں اس جہان کا ہوں اور اسی باب کی ٥٨ آیت میں فرمایا ہے کہ پیشتر اس کے کہ ابراہیم ہو میں ہوں اور اس بات کو بیان کر کے یوحنا کے ١٧ باب کی ٥ آیت میں کہا ہے کہ اے باپ اب تو مجھے اپنے ساتھ اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا بزرگی دے۔ اور مکاشفات کے پہلے باب کی ١١ آیت میں فرمایا ہے کہ میں الفا اور آئے گا اول و آخر ہوں اب ان آیتوں میں مسیح صاف بیان کرتا ہے کہ میں آسمان سے اترا اور ابراہیم سے پیشتر بلکہ سارے عالم کے پیدا ہونے سے پہلے موجود اور اول و آخر ہوں پس ظاہر و عیاں ہے کہ مسیح قدیم اور ازلی ہے پھر متی کے ١١ باب کی ٢٧ آیت میں اس نے فرمایا کہ میرے باپ نے سب کچھ مجھے سونپا اور اپنے بیٹے کو کوئی نہیں جانتا مگر باپ اور باپ کو کوئی نہیں جانتا مگر بیٹا اور وہ جس پر بیٹا اسے ظاہر کیا چاہتا یعنی بیٹا کاشف ذات ہے پھر متی کے ٣٨ باب کی ١٨ آیت میں اس نے اپنے شاگردوں سے کہا ہے کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا یعنی انسانیت کی نسبت تو یہ سب اختیار اسے دیا گیا تھا اور الوہیت کے رو سے وہ اس حکومت کے لائق تھا ایسا ہی یوحنا کے ٥ باب کی ١٧ و ١٨ و ٢١ و ٢٢ و ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں مسیح نے اپنی الوہیت ظاہر کرنے کے لئے یہودیوں سے کہا ہے کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا مگر جو کچھ کہ وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے بیٹا بھی اسی طرح وہی کرتا ہے یعنی بیٹا باپ کے ساتھ ایسا ایک اور متحد ہے کہ ممکن نہیں کہ کچھ اور کرے مگر وہی جو باپ کرتا ہے اور بیٹا ارادت اور قدرت اور ذات میں باپ کے ساتھ ایک ہے پھر کہا کہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے جلاتا ہے اور باپ کسی شخص کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے ساری عدالت بیٹے کو سونپ دی اس سے تعجب مت کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے جس میں وہ سب جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سنیں گے جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اب دیکھو کہ ان آیتوں میں مسیح نے قادریت اور عالمیت کی صفتوں کو کھلا کھلی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے کیونکہ جس صورت میں یہ کہتا ہے کہ جو کچھ باپ کرتا ہے میں بھی وہی کرتا ہوں اور مردوں کو جلاتا ہوں اور زمین اور آسمان میں ساری قدرت مجھے دے گئی ہے اور باپ یعنی ذات کو جانتا ہوں اور قیامت کے دن کا حاکم میں ہوں تو ان سب باتوں سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اپنے قادر ہونے کا اقرار کیا ہے کیونکہ جو کوئی وہی کام کرے جو اللہ کرتا ہے اور جس کا حکم ساری زمین اور آسمان پر ہووے چاہیے کہ قادر ہو اور جو کوئی قیامت کے دن ساری خلقت کا حاکم اور ان کے سب فکروں اور کاموں سے واقف ہو چاہیے کہ وہ عالم ہووے اور یہ کہ مسیح نے آیات مذکورہ میں اپنی الوہیت کا اشارہ کیا ہے اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے ان باتوں کو سن کر اس کے قتل کا ارادہ کیا جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کے ١٨ آیت میں لکھا ہے کہ تب یہودیوں نے اور بھی زیادہ اس کو قتل کرنا چاہا کیونکہ اس نے اللہ کو اپنا باپ کہہ کر اپنے تئیں اللہ کے برابر کیا اور ایسا ہی متی کے ١٨ باب کی ٢٠ آیت میں مسیح اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے کہتا ہے کہ جہاں کہیں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں وہاں میں ان کے بیچ ہوں اور صعود کے وقت جو اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا کہ سارے عالم میں جا کر میرا کلام بیان کر کے تعلیم دو تب ایسا کہا کہ دیکھو میں زمانہ کے آخر تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں جیسا متی کے ٢٨ باب کی ٢٠ آیت میں لکھا ہے پس اس سے کہ مسیح نے اپنے صعود کے وقت یہ بات فرمائی ظاہر ہے کہ اس کا حاضر ہونا جسمانی نہیں بلکہ روحانی طور پر ہوگا اور اس حال میں یہ وعدہ کہ انتہا عالم تک میں تمہارے ساتھ ہوں نہ صرف ایک سے بلکہ سارے شاگردوں اور ایمانداروں سے کیا ہے تو ظاہر ہے کہ ان باتوں سے اور اگلی آیت سے بھی اس نے حاضریت کی صفت کو اپنے ساتھ منسوب کیا خلاصہ اور ان آیتوں میں مسیح نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو ایسا صریحا اپنے ساتھ نسبت کیا ہے کہ رد کے قابل نہیں ہے اور مابعد کی آیتوں میں تو ماقبل سے واضح تر اپنے تئیں ذات الٰہی کے ساتھ موصوف اور منسوب کیا ہے چنانچہ یوحنا کی ١١ باب کی ٢٥ آیت میں فرمایا ہے کہ قیامت اور زندگی میں ہوں۔ اور یوحنا کی ١٠ باب کی ٣٠ آیت میں کہا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور پھر یوحنا کے ١٤ باب کی ٩ آیت سے ١١ تک مسیح نے فیلبوس کو فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا ہے باپ کو دیکھا ہے اور تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھلا کیا تو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں اور باپ مجھ میں ہے۔ یہ باتیں جو میں تمہیں کہتا ہوں میں آپ سے نہیں کہتا لیکن باپ جو مجھ میں رہتا ہے وہ یہ کام کرتا ہے میری بات یقین کروں کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے اور اسی وحدانیت کی نسبت جو مسیح نے ان آیتوں میں اپنے ساتھ منسوب کی اور جس کے سبب باپ کے ساتھ یعنی اللہ کے ساتھ ذات میں ایک ہے اس نے ہم بندوں پر واجب کیا کہ جیسا باپ کو ویسا ہی اس کو بھی مانیں اور اس کی عبادت اور بندگی کریں جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کی ٢٣ آیت میں لکھا ہے کہ مسیح نے فرمایا کہ سب جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں بے ٹس کی عزت کریں وہ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جس نے اسے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا اور علاوہ اس کے مسحگ نے اللہ کا لفظ بھی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے یعنی اپنے قیام کے بعد ثوما کو جو اپنے شاگردوں میں سے تھا اجازت دی کہ اسے اللہ کہے جیسا کہ یوحنا کہے۔ ٢٠ باب کی ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں ذکر ہے یعنی جب شاگردوں نے ثوما کو کہا کہ مسیح نے قیام کیا ہم نے اسے دیکھا ہے تب اس نے انہیں کہا کہ میں جب تک میخوں کا نشان اس کے ہاتھ میں نہ دیکھوں اور اپنی انگلی میخوں کے نشان میں نہ ڈالوں اور اپنا ہاتھ اس کی پسلی میں نہ رکھوں تب تک باور نہ کروں گا آٹھ دن کے بعد مسیح نے پھر ان پر ظاہر ہو کے ثوما سے کہا کہ اپنا ہاتھ پاس لا اور میری پسلی ٹٹول اور بے ایمان مت ہو بلکہ ایمان لا تب ثوما نے سجدہ کر کے کہا اے میرے اللہ اے میرے اللہ اب اس صورت میں کہ مسیح نے اس کو منع نہ کیا بلکہ یوں فرمایا کہ اے ثوما اس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا ہے ایمان لایا مبارک دے ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا اور ایمان لائے پس ظاہر ہے کہ اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے اپنے تئیں اللہ کہلاتا زیادتی نہ جانا۔ مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ١٤۔ ١٨۔ ناظرین کرام ! کیسی (ناراست) صاف گوئی سے کام لیا ہے کتنے زور سے مسیح کے الٰہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اسے یاد رکھئے اور مزید بیان سنئے۔ رسالہ مسیح ابن اللہ کا مصنف بھی اپنا خیال یوں ظاہر کرتا ہے۔ اب ہم پرانے وثیقوں اور نئے وثیقوں کی بعضی آیتوں کو جدول ذیل میں باہم مقابلہ کر کے لکھتے ہیں تاکہ یہ ہمارے اس منشا کا کہ اسی طرح اور آیتیں بھی مقابلہ کر کے دیکھی جائیں ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ جدول یہ ہے پرانا وثیقہ اللہ کے حق میں کیا کہتا ہے اللہ کریم کہتا ہے کہ آسمان اور زمین مجھ سے بھرتے ہیں پرمیاہ۔ ٢٣ باب ٢٤ آیت تیرا تخت قدیم سے مستحکم ہے تو تو ازلی ہے ٩٣ زبور ٢ آیت میں اول اور میں آخر میں ہوں اور میرے سوا کوئی اللہ نہیں یسیا ٤ باب ٦ آیت نیا ! وثیقہ عیسیٰ کے حق میں اور عیسیٰ اپنے حق میں کیا کہتا ہے۔ وہ جو اترا وہی ہے جو سارے آسمانوں پر چڑھاتا کہ سب کو بھرپور کرے افیون ٤ باب ١٠ آیت وہ بیٹے سے کہتا ہے اے بیٹا تیرا تخت ابد ال آباد ہے خط عبرانیوں کو پہلا باب ٨ آیت میں اول اور آخر ہوں اور وہی ہوں جو ہوا تھا اور زندہ ہوں مکاشفات پہلا باب ١٧ و ١٨ آیات میں یہودہ ہوں اور تبدیل نہیں ہوتا یسوع مسیح کل اور آج اور ابد تک یکساں ہے ملا کی ٣ باب۔ ٦۔ آیت میں قادر مطلق اللہ ہوں۔ پیدائش ١٧ باب پہلی آیت تو اپنی تلاش سے اللہ کو پا سکتا ہے ایوب ١١ باب ٧ آیت خط عبرانیوں کو ١٣ باب ٨ آیت میں قادر مطلق ہوں۔ مکاشفات پہلا باب ٨ آیت کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگر باب متی ١١ باب ٢٧ آیت میں اللہ تیرا قدوس اللہ ہوں۔ یسیاہ ٤٣ باب ٣ آیت ابتدا میں اللہ نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا پیدائش پہلا باب پہلی آیت میں اللہ سب کا بنانے والا ہوں میں اکیلا آسمان کو تانتا اور آپ تنہا زمین کو فرش کرتا ہوں۔ یسیاہ ٤٤ باب ٢٤ آیت تم نے اس قدوس اور راست کار کا انکار کیا۔ اعمال ٣ باب ٤ آیت ابتدا میں کلام تھا سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں یوحنا پہلا باب ١ و ٣ آیات کیونکہ اس سے ساری چیزیں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور ان دیکھی کیا تخت کیا خاوند یاں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ٦ آیت انجیل سے پہلے حصے کا نام ہے۔ انجیل سے آخر تک حصہ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اپنے لئے بنائی۔ امثال ١٦ باب ٤ آیت اللہ تعالیٰ ساری زمین کا بادشاہ عظیم ہے ٤٧ زبور ٢ آیت اس لئے کہ تو فقط سارے ہی آدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ پہلا سلاطین پہلا باب ٣٩ آیت اللہ ہی عدالت کرنے والا ہے۔ ٥٠ زبور۔ ١٦ آیت اس کی بادشاہت سب پر مسلط ہے۔ زبور ١٠٣۔ آیت ١٩ اس دن ایک اللہ ہوگا اور اس کا ایک نام ہوگا۔ زکریا ١٤ باب ٩۔ آیت دیکھو خداوند اللہ زبردستی کے ساتھ آوے گا اس کا صلہ اس کے ساتھ ہے۔ یشعیاہ۔ ٤ باب۔ ١ آیت میں ہی اللہ تعالیٰ ہوں میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں ۔ یشیاہ ٤٣ باب ١١ آیت وہ ظفر مندی سے موت کو نگل جائے گا۔ یشعیا۔ ٢٥ باب ٨ آیت میں نے اپنی حیات کی قسم کھائی ہے کلام صدق میرے منہ سے نکلتا ہے اور نہ پھرے گا کہ ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ایک زبان میری قسم کھائے گی۔ یشعیاہ۔ ٤٥ باب ٢٣۔ آیت ساری چیزیں اس سے اور اس کے لئے پیدا ہوئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ١٦ آیت بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند مکاشفات ١٩ باب ١٦ آیت اور ساری کلیسائوں کو معلوم ہوگا کہ میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچنے والا ہوں۔ مکاشفات ٢ باب ٢٣ آیت کیونکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں ٢ خط قرنیتوں کو ٥ باب ١٠ آیت وہ سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔ اعمال۔ ١٠ باب ٣٦ آیت اور ایک خداوند ہے جو یسوع مسیح ہے جس کے سبب سے ساری چیزیں ہوئیں اور ہم اس کے وسیلے سے ہیں پہلا خط قرنیتوں کو ٨ باب ١٦ آیت دیکھ میں جلد آتا ہوں اور میرا اجر میرے ساتھ ہے۔ مکاشفات ٢٢ باب ١٢ آیت اور وہ کامل ہو کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے نجات کا باعث ہوا خط عبرانیوں کو ٥ باب ١٩ آیت اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں۔ اعمال ٤ باب ١٢ آیت اب ہمارے بچانے والے یسوع مسیح نے موت کو نیست کیا۔ دوسرا تمطائوس پہلا باب۔ ١٠ آیت ہم سب مسیح کے تخت عدالت کے آگے حاضر کئے جائیں گے چنانچہ یہ لکھا ہے کہ خداوند کہتا ہے کہ اپنی حیات کی قسم ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ہر ایک زبان اللہ کے سامنے اقرار کرے گی خط رومیوں کو ١٤ باب ١ و ١١ آیات عیسیٰ کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے گا خط فلیبیون کا ٢ باب ١٠ آیت اگرچہ اس جدول کو طول دینا آسان تھا لیکن ہمارا منشا خاص کر دونوں وثیقوں کی مطابقت کا نمونہ دکھلانا ہے ورنہ اس قسم کی سب آیات کو پیش کرنا بڑے فائدے کی بات ہوگی۔ اگر اس جدول کے دیکھنے سے ناظرینوں کو اس امر کی طرف رغبت ہوجاوے کہ اس ضروری مسئلہ کے ثبوت میں پاک کتاب کے دونوں حصوں کی شہادت کو آپ ہی دریافت کریں اگر اس طرح کی تحقیقات صداقت سے کریں تو ان کی خاطر جمع ہوجاوے گی کہ ضرور عیسیٰ حقیقی اور ابدی اللہ ہے اور وہ دریافت کریں گے کہ جو کچھ ایک وثیقہ میں خاص باپ کی طرف منسوب ہے وہ سب دوسرے میں بالکل عیسیٰ ناصری کی طرف منسوب ہے اور وہ دیکھیں گے کہ اللہ کے خاص خطاب اور قدرت اور کاملیت اور الٰہی کاروبار نئے وثیقے میں سب کے سب عیسیٰ کی طرف منسوب ہیں اور یہ نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے جو کہ قدیم الایام سے پاک نبیوں اور خود اللہ نے پورا نے وثیقے میں استعمال کئے تھے بلکہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ بار بار مابین اس پاک وجود کے جس نے پہلے آسمان سے کلام کیا اور عیسیٰ کے جس نے کئی صدیوں کے بعد انسانی شکل میں زمین پر گفتگو کی اصلی یگانگت تھی۔“ (رسالہ مسیح ابن اللہ ص ١٢٩ و ص ١٣٣ مطبوعہ لدیانہ ١٨٨٨؁ئ) گو اہل انصاف اس مسئلہ کی تصویر سے ہی متنفر ہو کر اس کے دلائل سے اور ہی نفرت کر گئے ہوں گے اور ہرگز امید نہیں کہ کسی صاف دل میں اس سیدھے گورکھ دھندے کو جگہ ملے تاہم اس کے ابطال میں کسی قدر دلائل واضح کا بیان کردینا اہل مذاق کے لئے ہر طرح مفید ہوگا۔ پس ہم ان دلائل کو پہلے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب (قرآن شریف) نے بیان کئے ہیں۔ لیکن چونکہ ان دلائل میں حکیمانہ طرز سے استدلال کئے گئے ہیں اس لئے بطور تمہید پہلے کئی امور کا بیان ضروری ہے قاعدہ عقلیہ ہے کہ جب دو نقیضوں میں سے ایک کو باطل کردیا جائے تو دوسری کا وجود ضرور ہوتا ہے یا ایک کا وجود ثابت ہو تو دوسری کا عدم ہوگا۔ مثلاً ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں رات نہیں تو دن ضرور ہوگا اور اگر ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں دن ہے تو رات نہ ہوگی۔ اس قسم کی دلیل کو علماء مناظرہ دلیل خلف کہتے ہیں اور جو حکم بعد تتبع اور تلاش جزئیات کثیرہ کے لگایا ہوا اس کو استقرا کہتے ہیں جیسا کہ بہت سے افراد انسانی کو خلقتہ دو پایہ دیکھ کر سب پر حکم لگایا جاوے کہ سب افراد انسانی دو پائے ہیں یہ بھی ایک قسم دلیل سے ہے مگر خلف کی نسبت سے کمزور اور جو بطور مشابہت کے حکم ہو اس کو تمثیل کہتے ہیں جیسا شراب کے نشہ پر دوسری نشہ آور چیزوں کو بھی قیاس کرلیں یہ قسم بھی گو درجہ اول کے برابر زور آور نہیں لیکن کسی قدر کارآمد ہے پس انہیں دلائل ثلثہ کی طرف قرآن شریف نے اشارہ کر کے فرمایا ہے۔ ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و امہ صدیقۃ کانا یاکلان الطعام انظر کیف نبین لھم الایت ثم انظر انی یوفکون۔ (المائدہ) ” کہ مسیح تو صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ (نیک بندی) تھی دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھایا کرتے تھے دیکھ تو ہم کیسے دلائل بیان کریں پھر بھی یہ کیسے بہکے جا رہے ہیں۔ “ اس لفظ میں کہ مسیح تو صرف ایک اللہ کا رسول ہے تمثیل کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسے اور رسول ہیں جن کو بندگی سے بڑھ کر اللہ کریم میں ذرہ دخل نہیں اسی طرح مسیح بھی فقط رسول ہی ہے نہ کہ اللہ اور اس لفظ میں کہ اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے استقرا کی طرف اشارہ ہے یعنی کل رسول جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں ان کے لئے بجز بندگی کے اور مرتبہ نہیں ہوتا پھر مسیح کا کیونکر ہونے لگا اور اس لفظ میں کہ اس کی ماں اللہ کی نیک بندی تھی اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ اس بڑی زبردست دلیل کی طرف اشارہ ہے جس کو دلیل خلف کہتے ہیں یعنی جب اس کی ماں تھی اور وہ بھی پھر اللہ کی نیک بندی اور وہ دونوں کھانے کے بھی محتاج تھے تو ایک دو وجہ سے نہیں بلکہ کئی وجہ سے مسیح کی عبودیت ثابت ہوئی ایک تو یہ کہ اس کی ماں ہے جس نے اس کو جنا۔ دوم یہ کہ اس کی ماں اللہ کی نیک تابعدار بندی تھی تو بیٹا بھی ضرور بالضرور بحکم الولد سر لابیہ اللہ کا بندہ ہوگا۔ سوم یہ کہ وہ دونوں ماں بیٹا طعام کے محتاج بھی تھے ایسے کہ جیسے اور لوگ محتاج ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جو کوئی محتاج الی الغیر ہو وہ مخلوق ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ بھی طعام وغیرہ کا محتاج ہو تو اس میں شک نہیں کہ طعام بلکہ کل دنیا کی چیزیں حادث ہیں ایک وقت سے ان کی ابتدا ہوئی ہے جس سے پہلے نہ تھیں پس جس وقت نہ تھیں تو اللہ کا گذارہ کیسے چلتا ہوگا یا تو اللہ بھی اس وقت نہ تھا تو اللہ بھی حادث ہوا یا تھا تو بڑی وقت میں گذارہ کرتا ہوگا۔ چونکہ اس بات کو ہمارے مخاطبین بھی مانتے ہیں کہ جو شے کھانے وغیرہ کی محتاج ہو وہ بیشک مخلوق ہوگی اس لئے اس پر زیادہ زور دینا کچھ ضروری نہیں پس قرآن کریم کی تینوں دلیلوں کی شرح ہوگئی کس خوبی سے بالاجمال مختصر الفاظ میں تینوں کی طرف اشارہ ہے مسیحی دوستو ! اب بھی قرآن کی بلاغت کے قائل نہ ہو گے؟ علاوہ اس فائدہ کے یہ فائدہ بھی ان آیات سے باآسانی حاصل ہوا کہ عیسائیوں کے فرقہ رومن کیتھلک کے خیالات بھی رد ہوگئے جو مسیح اور اس کی ماں دونوں کی عبادت کرتے ہیں ان آیات میں بھی جن پر ہم حاشیہ لکھ رہے ہیں دلیل خلف کو ایسے طریق سے بیان کیا ہے کہ جس کی کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ تفسیر میں ناظرین نے ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ چونکہ یہ دلیل قرآنی ایسی بدیہی اور پرزور ہے کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی اس سے انکار نہ کرے اس لئے عیسائیوں نے بھی صریح انکار تو نہیں کیا لیکن ایک عذر بارد اس کے متعلق یوں کیا۔ ” مسیح بندہ بھی ہے اور مالک بھی ہے اور آدمی ہے اور اللہ بھی ہے اسی سبب سے بعض آیتوں میں اس کی بشریت اور بعض میں الوہیت بیان و عیان ہوئی ہے۔“ (مفتاح الاسماء ص ١٩ دفعہ پنجم) ” کیونکہ ایمان صحیح یہ ہے کہ ہم اعتقاد اور اقرار کریں کہ اللہ کا بیٹا ہمارا اللہ یسوع مسیح اللہ اور انسان بھی ہے۔ اللہ ہے باپ کی ماہیت سے عالموں کے پیشتر مولود اور انسان ہے اپنی ماں کی مایہت سے عالم میں پیدا ہوا کامل اللہ اور کامل انسان نفس ناطقہ اور انسان جسم کے ساتھ۔“ (دعائے عمیم ص ٢٥ مطبوعہ افتخار دہلی) ناظرین غور فرما سکتے ہیں کہ کہاں تک اجتماع ضدین ہے۔ اس پر بھی یہ سوال ہے کہ کیا مسیح بشریت اور الوہیت سے مرکب تھا اگر مرکب تھا تو حادث ہوگا کیونکہ ترکیب حدوث کو مستلزم ہے پس پھر بھی اللہ نہ ہوا بلکہ حادث بنا جو اپنی ترکیب اور حدوث میں ترکیب دہندہ اور پیدا کرنے والے کا محتاج ہے علاوہ اس کے اگر مسیح میں بھی اللہ تھا اور دوسرے دو حصوں میں بھی اللہ ہے تو تین اللہ ہوئے تو پھر شرک کس کا نام ہے جس کے ماننے والے کو تم بھی عیسائی مذہب سے خارج جانتے ہو۔ (مفتاح مذکور ص ٤١) عیسائی اس پیش بندی کے لئے ایک اور چال چلتے ہیں جس سے صریحاً تثلیث کی بیخ کنی ہوتی ہے وہ یہ کہ شرک تو جب ہو کہ تم مسیح روح القدس اور اللہ کو مستقل اللہ جانیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ باپ۔ اللہ بیٹا اور اللہ روح القدس کہنا یعنی ہر نام کے اول لفظ اللہ کا استعمال کرنا درحالیکہ کوئی ان تینوں میں سے بغیر دوسرے کے اللہ نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے۔ الوہیت کے اقانیم (حصے) ثلثہ کے ایسے استعمال سے عیسائیوں کو محتاط رہنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں کہ صرف بیٹا یا روح القدس یا فقط باپ اللہ ہے ہم اکیلے باپ (اللہ) کو بھی اللہ نہیں کہتے۔ تشریح التثلیث ص ٨٠ ناظرین ! ذرا غور سے ان تعلیم یافتہ لوگوں کی باتیں سنئے انہیں کچھ بھی اپنے مذہب میں تخالف یا تناقض کا خوف ہے؟ پہلی عبارتیں عقیدہ اتھاناسیس اور پادری فنڈڈر کی عبارت صاف بتلا رہے ہیں کہ تینوں اللہ مستقل ہیں جس سے صاحب تشریح کو انکار ہے۔ خیر ہمیں اس سے بھی بحث نہیں کہ آپس میں مخالف ہیں یا موافق۔ ہم اس پہلو پر بھی نظر کرتے ہیں بھلا جب اللہ تین اجزا سے مل کر مرکب ہوا تو حادث پھر کس کو کہتے ہیں اس کا ترکیب و ہندہ پھر کون ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو حادث ہو وہ ایک وقت پر پہنچ کر فنا بھی ہوگا جس سے لازم آتا ہے کہ اللہ بھی ایک وقت میں فنا ہو۔ کیا پھر عجب نہیں کہ اپنے پرستاروں کو بدلہ دینے سے پہلے ہی چل دے جس سے ان کی حق تلفی کا الزام بھی اس پر عائد رہے گا۔ ایسے اللہ سے تو ہر وقت اندیشہ ہے کہ ہم سے بیگا رہی نہ لیتا ہو دینے دلانے کا شاید اسے موقع ہی نہ ملے۔ علاوہ اس کے جب چل دے گا تو اس وقت اللہ کا قائم مقام کون ہوگا اور اس کو قائم مقام کرنے والا بڑا اللہ کون ہوگا تو پہلے ہی سے اسے ہی کیوں نہیں اللہ مان لیتے اس لفٹنٹ کی کیا حاجت ہے اور اگر اس کا قائم مقام کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جس کا زور چلے گا وہ ہوجائے گا تو دنیا کی بربادی کا کیا انتظام؟ سچے اللہ کا سچا فرمان بیشک سچ ہے لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ الآیۃ کہ اگر دنیا میں چند معبود ہوتے تو مدت کی خراب ہوچکی ہوتی۔ اس پہلو سے بچنے کو عیسائیوں نے ایک مفتر نکالا ہے وہ بھی قابل سماع ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خود ہی اللہ تھا جو آسمان و زمین کا مالک ہے کوئی دوسرا کوئی نہیں تھا جس نے موسیٰ کو کوہ طور پر درخت میں جلویٰ دکھایا وہ مسیح تھا۔ (مفتاح الاسراء مصنفہ پادری فنڈر رفعہ ٥ ص ٣٨) ناظرین ! گھبرائیے نہیں آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہت اچھا صاحب جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ مسیح ہی تھا لیکن یہ تو بتلا دیں اس سے تثلیث کیونکر ثابت ہوئی۔ غایت مانی الباب اس سے تو حلول ثابت ہوا جس کو آپ اور آپ کے پیرو و مرشد پادری فنڈر مفتاح کے ص ٢٠ پر رد کرتے ہیں پس اگر حلول بھی نہیں بلکہ عینیت ہے تو وہی اللہ کے کلام کی دلیل خلف اس پہلو پر بھی وارد ہوگی کیونکہ کانا یا کلان الطعام اس صورت میں بھی عیسائیوں کو کھانا۔ پینا بھلاتا ہے اس بلائے ناگہانی سے بچنے کی تدبیر عیسائیوں نے یہ کی ہے کہ مسیح کی عبودیت کے اقراری ہو کر صرف مسیح سے اللہ کا ایک علاقہ خاص بتلایا ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے چنانچہ پادری فنڈر صاف مظہر ہے کہ وہ ایک خاص علاقہ ہے جس کی ماہیت اسرار الٰہی میں سے ہو کر عقل کی دریافت سے خارج اور معدوم الدرک کی قسم سے ہے مفتاح مذکور ص ٢٠ اور ڈاکٹر پادری کلارک میڈیکل مشنری امرت سر نے تو بالکل ہی صاف کہہ دیا کہ کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اس کا سمجھنے والا پیدا ہوا۔ نہ ہوگا۔ (جنگ مقدس ص ٩٥) شاباش عیسائیوں کے حال پر کہ ملا آں باشد کہ چپ نہ شود۔ پر انہوں نے عمل کر کے دکھا دیا۔ اب کوئی اپنا سر ناحق پھوڑے جب کہ یہ مدار نجات ہی سمجھ میں نہیں آتا اور نہ آنے کی امید ہے تو پھر کسی بحث مباحثہ سے کیا فائدہ؟ بھلا وہ تعلق مانا کہ مجہول الکیفیت ہی ہے لنکی اس سے مسیح کی الوہیت کا ثبوت کیونکر ہوا کیا تمام مخلوق سے اللہ کا تعلق نہیں؟ علاوہ اس کے عیسائیوں کو اس میں بھی غلطی لگی ہے کہ وہ دو راز عقل اور خلاف از عقل میں فرق نہیں کرتے بعید از عقل تو اسے کہتے ہیں کہ عقل اس کی کیفیت کو پا نہیں سکتی جیسے اللہ کے کاموں (مثلاً انسان کا دیکھنا سننا۔ زبان سے ذائقہ چکھنا اور کسی چمڑہ سے یہ کام نہ ہونا) سے عموماً حیران رہتی ہے ایسے تو اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہی ہیں خلاف از عقل یہ ہے کہ عقل ایک امر دریافت کرے اور بڑی تحقیق سے ثابت کر دے جس میں کوئی شبہ نہ رہے لیکن اللہ کی شریعت اس امر ثابت شدہ کے خلاف کہے مثلاً دلائل قطعیہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ دو دونے چار ہوتے ہیں مگر اللہ کی تعلیم ہم سے دو دونے پانچ کہلوا دے تو ایسی تعلیم اللہ کی طرف سے نہ ہوگی مسیح کی الوہیت کا مسئلہ بعید از عقل نہیں بلکہ خلاف عقل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ اگر مسیح۔ روح القدس۔ اللہ تینوں مستقل معبود ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٤٥ سے مفہوم ہوتا ہے تو شرک صریح لازم آتا ہے جو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں جس کو عیسائی بھی قبیح مانتے ہیں دیکھو مفتاح ص ٤١ اور اگر تینوں مل کر ایک اللہ بنتا ہے جیسا کہ تشریح التثلیث کا مضمون ہے تو ترکیب الٰہ ضروری ہوگی جس سے اللہ کا حادث ہونا لازم آئے گا اور اگر مسیح وہی اللہ ہے جو تمام جہان کا مالک ہے تو مسیح کی بشریت اور الوہیت مرکب ہو کر حدوث لازم آئے گا اور اگر الوہیت میں بشریت کو دخل نہیں بلکہ مسیح سے اللہ کا تعلق ظرف مظروف کا سا ہے جیسا کہ پانی کا برتن سے تو حلول لازم آیا جس کو تم بھی ناجائز جانتے ہو دیکھو مفتاح ص ٢٠ اور اگر مسیح سے اللہ کا کوئی خاص تعلق ہے جو عام افراد انسانی سے نہیں تو اس کا انکار کس کو ہے بیشک اللہ کا اپنے نیک بندوں سے جو تعلق خاص اور نظر عنایت ہے وہ عام لوگوں سے نہیں ہوتا اللہ کی پاک کتاب بتلاتی ہے کہ اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات (الآیۃ) اللہ ایمانداروں کا والی ہے اندھیروں سے ان کو نور کی طرف لے جاتا ہے۔ وھو یتولی الصالحین۔ (الایۃ) اور وہ نیکو کاروں کا ہمیشہ متولی ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس سے مسیح کی الوہیت کو کیا علاقہ نظر عنایت سے مخصوص ہونے سے الوہیت کا ثبوت نہیں ہوسکتا نہیں تو بہت سے اللہ کے نیک بندے اللہ بنیں گے اور اگر کوئی ایسا تعلق ہے جو ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٢٠ سے مفہوم ہے تو جب ہم اس تعلق کی کیفیت ہی نہیں جانتے تو یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلق سے مسیح کی الوہیت ثابت ہے نیک بندوں کا جیسا اللہ سے تعلق ہوتا ہے ویسا ہی ہوگا اس سے بڑھ کر ایسا تعلق کہ اس سے الوہیت کا ثبوت ہو چونکہ بنفسہ محال ہے اس لئے اس مجہول تعلق کی تعیین بھی ایسے تعلق سے نہ کی جاوے گی جو مثبت الوہیت ہو ورنہ وہ تعلق بھی محال ہوگا کیونکہ مستلزم محال محال ہے فتدبروا۔ بعض عیسائیوں نے مجھ سے بالمواجہہ یہ کہا کہ تم مسلمان توحید محض کے مدعی ہو حالانکہ تم بھی کثرت فی الوحدت مانتے ہو کیونکہ ذات باری کی صفات (مثلاً صفت علم۔ صفت خلق۔ صفت حیات وغیرہ وغیرہ) کو تم بھی مانتے ہو پس یہ بھی کثرت ہے محض وحدت تو جب ہو ذات بحت کو بلا صفات ہی مانو (ایسا ہی مفتاح سے بھی مفہوم ہے) سو اس کا جواب دو طرح سے ہے الزامی اور تحقیقی۔ الزامی تو یہ کہ اگر صفات سے بھی تعدد آتا ہے تو تمہارے بھی تین اللہ نہیں مع صفات کئی اللہ ثابت ہوں گے کیونکہ صفات اللہ کریم کے تم بھی قائل ہو پھر تثلیث ہی پر بس کیوں کرتے ہو آگے بھی چلو اور اگر آگے کے عدد میں کوئی خلل ہے تو بتلائو کیوں؟ کون سی چیز تعدد صفات سے تعدد آلہ کو روکتی ہے جو تم بتلائو گے وہی ہماری طرف سے ہوگی۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ تعدد صفات سے تعدد حقیقی موصوف کا نہیں آیا کرتا۔ اگر کوئی شخص مثلاً زید چار پیسے (سوت کا تنا۔ کپڑا بننا۔ کپڑے سینا۔ کپڑا رنگنا) جانتا ہے تو کیا ایک زید سے چار زید ہوگئے؟ کوئی دانا یہ کہے گا؟ اسی طرح صفات اللہ کریم کا معاملہ ہے ہاں اعتباری تعدد ضرور ہے یعنی اس لحاظ سے کہ اللہ علیم ہے اور ہے اس لحاظ سے کہ اللہ قدیر ہے اور ہے مگر ایسے اعتبارات بالکل اس قصے کے مشابہ ہوں گے جو دو منطقی بھائیوں کا مشہور ہے کہ آپس میں گالی گلوچ ہو پڑے مگر چونکہ دونوں کی ماں بہن ایک تھی اس لئے گالی دیتے ہوئے قید اعتباری لگا دیں کہ تیری ماں کو اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے دوسرا بھی اسی ماں کو گالی دے مگر بقید حیثیت اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے پس جیسا ان کی ماں میں حقیقۃً تعدد نہ تھا بلکہ یہ ان کی جہالت کا ثبوت تھا اسی طرح صفات کے اعتبار سے اللہ میں تعدد پیدا کرنا ایک نادانی کا اظہار ہے۔ پادری فنڈر بھی اسی کے قریب قریب نئی طرز پر چلے ہیں کہ قائلین وحدت الوجود کے اقوال کو سنداً بیان کر کے اپنا مطلب نکالنا چاہا ہے کہ جس طرح یہ لوگ تجلی اول اور تجلی ثانی جناب باری کے مراتب مختلفہ مانتے ہیں اسی طرح ہم بھی ثالوث فی التوحید کے قائل ہیں چنانچہ مفتاح ص ٥٨ سے مفہوم ہے ہمارے خیال میں عیسائیوں کو پادری صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے اس تثلیث جیسے ناقابل ثبوت مسئلہ کو حتی الامکان پوری کوشش سے نباہا ہے بھلا پادری صاحب یہ تو غور کیا ہوتا کہ وحدت الوجود کے قائلوں کے نزدیک درجہ وحدت میں تعدد کہاں ہے تعدد تو درجہ شخصیت میں ہے جو مخلوق ہے الکفر ملۃ واحدۃ جیسے ان کے خیالات واہی ویسے ہی ان کی تباہی۔ علاوہ اس کے اس میں بھی پادری صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ وحدۃ الوجود والے مرتبہ تعین کو ممکن اور مخلوق جانتے ہیں صرف مرتبہ تجلی اول کو معبود برحق مانتے ہیں باقی کو نہیں اور آپ تو دونوں تینوں تعناوت کو درجہ الوہیت دے رہے ہیں فانی لہ من ذلک اگر کہو کہ تم مسلمان بھی جب کہ انجیل۔ تورات کو کلام الٰہی مانتے ہو پھر مسیح کی الوہیت جب کہ ان میں صاف مرقوم ہے تو کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے ہم جلد اول میں زیر آیت وما انزل من قبلک ثابت کر آئے ہیں کہ تورات انجیل موجودہ کو ہم کلام الٰہی نہیں مانتے بھلا کر کیونکر مانیں حالانکہ جس کے ذریعہ سے ہمیں ان کو ماننا تھا وہ تو ایسے مضامین کی صاف صاف الفاظ میں تردید کرتا ہے اور ایسے مضامین کو تمہارے ہی ساختہ بتلا کر صاف کہتا ہے کہ یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلثۃ اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی مت کرو اور اللہ کے ذمہ سچی بات ہی کہو (یہ نہ کہو کہ مسیح اللہ یا بیٹا اس کا ہے) مسیح تو فقط (اللہ کی بندی) مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول اور اس کے حکم سے جو مریم کی طرف بھیجا تھا پیدا شدہ ہے اور اللہ کی طرف سے ایک معزز روح ہے پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور تین اللہ مت کہو۔ قرآن شریف جب کہ صریح الفاظ میں تثلیث اور الوہیت مسیح کا رد کرتا ہے تو پھر مسلمانوں پر یہ الزام کیسا ہے کہ تم تورات انجیل کو مانتے ہو حالانکہ خود ہی عیسائی انکار الوہیت مسیح کو تورات و انجیل کا انکار لازم جانتے ہیں (دیکھو مفتاح مذکور طبح ٥ ص ٣٥) پس جب کہ مسلمان اور مسلمانوں کی الہامی کتاب الوہیت مسیح کی انکاری ہے تو ان سابقہ کتابوں کو جن میں الوہیت مسیح واقع میں یا بقول تمہارے مذکور ہوگی ان کو کیسے تسلیم کریں گے۔ تقریر بالا سے نہ صرف الوہیت مسیح کا بطلان ہوا بلکہ تورات انجیل کا جن میں الوہیت مسیح مذکور ہے ابھی اعتبار نہ رہا اور کلام اللہ ہونے کے مرتبہ سے ساقط الاعتبار ہوگئیں پس تثلیثی عیسائیوں پر واجب ہے کہ یا تو الوہیت مسیح اور تثلیث کے عقیدہ سے باز آئیں اور جن مقامات میں مسیح کی الوہیت مذکور ہے ان کی تاویلات مثل یونیٹرین کے کریں اور اگر وہ قابل تاویل نہ ہوں تو ایسے گورکھ دھندے سے باز آئیں اور سیدھی اور صاف تعلیم کو مانیں جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔ قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ لیس کمثلہ شیء وھو المسیع البصیر۔ اللہ ایک ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ نہ کسی کو اس نے جنا۔ نہ اس کو کسی نے جنا نہ اس کا کوئی ہم قوم ہے۔ نہ اس جیسا کوئی اور ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ نہ پرستش کا تو محتاج نہ محتاج عبادت نہ عنایت تجھے درکار کسی کی نہ حمایت نہ شراکت ہے کسی سے نہ کسی سے ہے قرابت نہ نیازت نہ ولادت نہ بفرزند تو حاجت تو جلیل الجبروتی تو امیر الامرائی (منہ) بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جسے محض لوگوں کی ہدائت کے لئے رسول کر کے بھیجے وہی شرک پھیلائے کیا مسلمان ہونے کے بعد تم کو کفر بتلائے ہرگز نہیں پس جب ایسی آیات بیّنات یہ لوگ سنتے ہیں اور تو کوئی عذر نہیں کرتے جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر یہ نبی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بر حق ہوتا تو اس کے لئے کوئی پیش گوئی پہلی کتابوں میں ضرور ہوتی حالانکہ وہ اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ پیش گوئی نہیں آل عمران
70 آل عمران
71 آل عمران
72 آل عمران
73 آل عمران
74 آل عمران
75 آل عمران
76 آل عمران
77 آل عمران
78 آل عمران
79 آل عمران
80 آل عمران
81 (81۔91)۔ ذرہ یاد تو کریں جب اللہ تعالیٰ نے ہر ایک نبی کو حکم دیا اور تعمیل کا اس سے وعدہ لیا کہ میں نے جو تم کو کتاب اور حکمت تہذیب اور اخلاق کی تعلیم دی ہے پھر اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسول آوے جو تمہارے ساتھ والی تعلیم کی تصدیق کرتا ہو تو تم اس کو ناگوار سمجھ کر مخالف نہ ہوجا نا بلکہ اس پر ایمان لانا اس کی مدد کرنا پھر مزید تا کید کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا تم اقراری ہو اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو یا نہیں وہ بیک زبان بولے ہم اقراری ہیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم اس معاملہ میں گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس جو کوئی تم میں سے یا تمہاری امت میں سے بعد اس اقرار کے پھرجائے گا سو وہی بد کار ہوگا بھلا نبیوں کا عہدو پیمان جو بحکم خدا وندی انہوں نے کیا تھا جب نہیں مانتے تو کیا دین الٰہی سوائے اور دین چاہتے ہیں حالانکہ تمام آسمان و زمین کے لوگ چار و نا چار اسی کے زیر فرمان ہیں اور انجام کار اسی کی طرف پھیریں گے پس تو بلند آواز سے کہہ دے کہ جائو جو تمہارا جی چاہے کرو ہم تو سب سے پہلے اکیلے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور جو کچھ ہماری طرف اور ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) اور اسحٰق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) اور اس کی ساری اولاد کی طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتارا گیا اور بالخصوص جو موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور نبیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے سب کو مانتے ہیں ہم ان نبیوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے کہ تم اور بڑی بات یہ ہے کہ ہم اسی کے مخلص بندے ہیں نہ کہ تمہاری طرح مشرک کہ مسیح کو بھی اللہ مانتے ہو چونکہ ہمارے دین اسلام میں توحید اور اخلاص اعلیٰ درجہ کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عام اعلان ہے کہ جو کوئی سوائے اسلام کے اور دین تلاش کرے گا ہرگز اس سے قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں زیانکاروں سے ہوگا بھلا ایسے لوگوں کو کیونکہ اللہ جنت کی راہ دکھائے جو بعد ایمان لانے کے بغرض دنیوی منکر ہوگئے حالانکہ شہادت بھی دے چکے تھے کہ رسول بر حق ہے اور سچائی کے دلائل بھی ان کو پہنچ چکے مگر بایں ہمہ سب سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت سے ان کو محروم کردیا اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو جنت کی راہ نہیں دکھاتا سزا ان کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور جہان کے سب لوگوں کی ان پر لعنت ہو جس سے وہ کبھی رہائی نہ پاویں گے بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو عذر کی مہلت ملے گی لیکن جو لوگ دنیا میں بھی بعد اس کفر کے باز آئے اور اپنے اعمال بد کو سنوارا تو ایسے لوگ بخشش کا حصہ رکھتے ہیں کیونکہ اللہ بڑا بخشش کرنے والا نہائت مہر بان ہے اس کی بخشش کو اگر کسی کی سخت بد عملی مانع نہ ہو تو فوراً بندوں کو دبوچ لیتی ہے قابل ملامت وہ لوگ ہیں جو بعد ایمان لانے کے کافر ہوئے پھر کفر ہی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ مر گئے ان کی توبہ بروز قیامت کریں گے ہرگز قبول نہ ہوگی اور نہ ہی ان پر نظر رحمت ہوگی یہی لوگ اصلی راہ سے بھولے ہوئے ہیں اس لئے کہ ہمارے ہاں عام دستور یہ ہے کہ جو لوگ کافر ہوں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تمام عمر بھر اسلام اور فرمانبرداری کی طرف نہ آئیں ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایسے کہ ان میں سے کسی سے زمین بھر کر بھی سونا ہرگز قبول نہ ہوگا گو بغرض محال وہ اپنا جرمانہ بھی اتنے سونے سے ادا کرنا چاہے کسی طرح کی رعائت نہ ہوگی بلکہ ان کو درد ناک عذاب ہوگا اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا دیکھو تو یہی مال جس کے جمع کرنے میں انہوں نے از حد فزوں جانفشانی کی تھی وہ بھی اس قابل نہ ہوا کہ آخرت میں ان کے کام آتا۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے اس کو مناسب موقع پر خرچ نہیں کیا تھا یعنی اللہ کی مرضی میں نہیں لگایا بلکہ یا تو اس کی نگر انی اور حفاظت ہی کرتے رہے یا عیش و عشرت میں کھو یاسو تم بھی مسلمانو ! اس مال سے اگر یہی معاملہ کرو گے تو ان لوگوں کی طرح بے نصیب رہو گے آل عمران
82 آل عمران
83 آل عمران
84 آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 آل عمران
91 آل عمران
92 پس اگر تم اپنی بہتری چاہتے ہو تو اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ شکستہ دلی سے ردی مال کا خرچ کرنا تمہیں کسی طرح کام نہ آئے گا بلکہ تم نیکی اور اجر ہرگز نہ پائو گے جب تک اخلاص کے ساتھ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے اور پسندیدہ چیزدیتے ہوئے تنگ نہ ہو کیونکہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا عوض ضرور پائو گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے مناسب اس کا بدلہ دے گا سب باتوں کی اصل تو اخلاص ہے شان نزول :۔ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ) بعض لوگ طلباء کے لئے کچھ کھجوروں کے گچھے لٹکا جاتے تھے جن میں اکثر ردی اور ناقص ہوتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ آل عمران
93 یونہی دوسروں پر زبان درازی کرنا اور خود اعمال حسنہ سے بے بہرہ رہنا جیسا کہ یہودیوں کا حال ہے کچھ مفید نہیں بھلا یہ بھی کوئی دینداری کی باتیں ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں اور عوام الناس میں مشہور کرتے ہیں کہ مسلمان دعوٰی تو انبیاء سابقین کی اتباع کا کرتے ہیں اور تورات کے خلاف جانوروں کو کھاتے ہیں کیونکہ تورات میں حلال مویشی کے بعض ٹکڑے حرام ہیں اور یہ سب کچھ ہضم کر جاتے ہیں حالانکہ ماکول اللحم جانوروں کا سارا گوشت بنی اسرائیل کو بھی حلال تھا یہ نہیں کہ ایک ہی جانور کا ایک ہی ٹکڑا حلال ہو اور دوسرا حرام بلکہ جو جانور حلال ہے اس کے کھانے کی سب چیزیں حلال ہیں اور پہلے بھی تھیں لکنا جتنا حصہ یعقوب ( علیہ السلام) نے کسی مصلحت سے تورات کے اترنے سے پہلے چھوڑ رکھا تھا سو وہ حکم اسی کی ذات کیلئے مخصوص تھا نہ کہ تمام لوگوں کیلئے تو اے نبی کہہ تورات لاکر پڑھو اگر سچے ہو کہ مویشیوں کے بعض حصوں کی حرمت تورات میں ہے تورات بھی نہ لاویں اور یوں ہی کہتے جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے شان نزول :۔ (کُلُّ الطَّعَام حِلَّا) یہودیوں نے الزاماً حضرت اقدس سے کہا کہ آپ تو اتباع ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ابراہیم اور اس کی اولاد اونٹ کا گوشت ہرگز نہیں کھاتے تھے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی معالم عام طور پر یہی شان نزول بیان کیا جاتا ہے اصل بحث حاشیہ ذیل میں ملاحظہ ہو۔ (کل الطعام) اس آیت کے معنی میں عموماً یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہودی اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور کہتے تھے کہ تورات میں منع ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو کھانے مسلمانوں کو حلال ہیں وہ یہودیوں کو بھی حلال تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں اونٹ کی حرمت نہیں بلکہ یہودی غلط کہتے ہیں مگر یہ معنی نہ تو تورات موجودہ کے مطابق ہیں نہ قرآن کے۔ تورات کے اس لئے مطابق نہیں کہ تورات کی تیسری کتاب احبار کے باب ١ ١ میں اونٹ کی حرمت آج تک مرقوم ہے پس ایسی صریح حرمت کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو اس زور و شور سے تورات کے لانے پر ابھارنا بے معنی ہے اگر یہ خیال ہو کہ یہ آیت الحاقی ہے تو اگر آنحضرتﷺ سے پہلے کی الحاقی ہے تو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت یہودیوں سے تورات طلب کی جاتی ہے تو انہوں نے کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ دیکھو تورات میں صاف حکم اونٹ کی حرمت کا ہے جس کو ہم مانتے ہیں اور اگر بعد کی الحاقی ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے اور قرآن شریف کے موافق یہ معنی اس لئے نہیں کہ کل کا لفظ الطعام معرف باللام پر آیا ہے جس سے استغراق اجزا ہوگا نہ استغراق افراد اصول میں محقق ہے کہ فان دخلت (کل) علی المنکر او جبت عموم افرادہ وان دخلت علی المعروف او جبت عموم اجزائہ حتی فرقوا بین قولھم کل دمان ماکول وکل الرمان ماکول بالصدق والکذب (نور الانوار ص ٧٦) کل جب معرف باللام پر آوے تو احاطہ اجزا کرتا ہے اور اگر نکرہ پر آوے تو احاطہ افراد کرتا ہے پس اصول مذکورہ کے مطابق الطعام کے افراد مراد نہیں ہوں گے بلکہ اجزا ہوں گے جس سے ترجمہ آیت کا یہ ہوگا کہ ” سارا کھانا“ نہ کہ ” سارے کھانے“ جو عموم افراد پر مشتمل ہے۔ خیر بعد اس کے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے اور وہ قصہ موجودہ تورات سے بھی ملتا ہے یا نہیں تورات کی پہلی کتاب پیدائش کے ٣٣ باب سے پایا جاتا ہے کہ حضرت یعقوب (اسرائیل) کی ران دکھنے کی وجہ سے بنی اسرائیل ران کی نس کو نہیں کھاتے تھے عجب نہیں کہ اصل میں اسرائیل نے کسی وجہ ناموافق سے اس کا کھانا چھوڑ دیا ہو۔ رفتہ رفتہ یہ مذہبی شعار ہوگیا۔ حالانکہ دراصل مذہبی حکم نہ تھا چنانچہ لکھا ہے۔ ” اسی سبب سے بنی اسرائیل اس نس کو جو ران میں بہیتر وار ہے آج تک نہیں کھاتے کیونکہ اس نے یعقوب کی ران کی نس کو جو بہیتر وار ہے چڑھ گئی تھی چھوا تھا۔ پیدائش باب ٣٢۔ آیت ٣٢ تفسیر کبیر میں قفال سے بحوالہ ترجمہ تورات اس قصے کو لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قصہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ حضرت یعقوب کا نس کے کھانے سے پرہیز کرنا شرعی امر تھا اور نہ ہی تمہارا اس کو چھوڑنا کوئی شرعی مسئلہ ہے مسلمانوں میں اس کی مثال دیکھنی ہو تو کشمیریوں کو دیکھو۔ کشمیر کے ایک گائوں اسلام آباد میں ایک بزرگ گذرے ہیں (واللہ حسیبہ) جنہوں نے (بقول ان کے) گوشت نہیں کھایا کیونکہ گوشت کے کھانے سے ان کو شغل عبادت میں خلل آتا تھا اب ان کے اس ترک پر بنا کر کے (خواہ ان کا ترک کسی وجہ سے تھا اور تھا بھی تو کوئی (امر شرعی نہ تھا) اس گائوں والے کشمیریوں پر نسلاً بعد نسل ہر سال تین چار روز گوشت کا چھوڑنا مثل فرض کے ہے جب وہ دن آتے ہیں تو حضرات کشامرہ ایک روز پہلے ہی کل برتن جن میں گوشت پکا ہوتا ہے ان کو دھو کر بالکل صاف کر کے گوشت کے نام سے ایسے بیزار ہوتے ہیں کہ سال بھر خنزیر سے بھی ایسے بیزار ہوتے ہوں گے ان کا اعتقاد ہے کہ ان دنوں میں اگر ہم (اسلام آباد کے رہنے والے) گوشت کھا لیں تو ہمارے مکانوں کو آگ لگ جاتی ہے راقم خاکسارکا خاندان بھی اسلام آباد کے باشندے ہیں لیکن ہنر بنما اگر داری نہ جوہر گلست از خار ابراہیم از آذر آل عمران
94 تو یاد رکھیں کہ جو لوگ بعد اس کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں گے کہ بغیر بتلائے اللہ تعالیٰ کے کوئی حکم تجویز کرکے شرعی بتلاویں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی لوگ ظالم ہیں آل عمران
95 تو کہہ دے اللہ تعالیٰ نے سچ بتلایا ہے اب تم ایچ پیچ چھوڑ کر یک طرفہ ابراہیم ( علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ کا نیک مخلص بندہ تھا اور وہ اپنی ہوا و ہوس کے پیچھے چلنے والے مشرکوں میں سے نہ تھا آل عمران
96 (96۔97)۔ مگر ان یہودیوں کو ابراہیمی ( علیہ السلام) اتباع کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے ورنہ در اصل بات بجز جاہ طلبی اور ابلہ فریبی کے ان میں کوئی نہیں چنانچہ اسی بنا پر ہے جو لوگوں میں مشہور کر رہے ہیں کہ مسلمان دعویٰ اتباع انبیاء سابقین کا کرتے ہیں اور نماز ان کے قبلہ کی طرف نہیں پڑھتے حالانکہ بنظر غور دیکھا جائے تو کعبہ جو مکہ میں ہے سب سے پہلا مکان ہے جو لوگوں کے عبادت کے لئے بنا ہے بنابڑی برکت والا اور سب کے لئے ہدائت کا منبع ہے اس میں کئی نشانیاں اللہ تعالیٰ کی ہیں منجملہ ان کے مقام ابراہیم ہے اور یہ کہ جو اس میں داخل ہوتا ہے بے خوف ہوجاتا ہے اسی بزر گی اور قبولیت کی وجہ سے جو لوگ کعبہ تک پہنچ سکیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے عمر بھر میں ایک دفعہ حج کرنا ان پر فرض ہے اور جو بموجب ہدائت شرع کرے گا وہ تو بدلہ پاوے گا اور جو اس سے سرتابی کرے گا وہ کچھ اپنا ہی کھوئے گا اللہ تعالیٰ تو سب جہان سے بے پرواہ ہے شان نزول :۔ (اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ) یہود نے مسلمانوں پر طعناً کہا کہ ہمارا قبلہ بیت المقدس سب روئے زمین سے بہتر ہے مسلمانوں نے ان کے جواب میں اپنے کعبہ شریف کی فضیلت کا اظہار کیا اس قصے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئیں۔ معالم آل عمران
97 آل عمران
98 (98۔102)۔ اب بھی اگر یہ لوگ ایسی ویسی باتیں کریں تو تو کہہ دیجو کہ اے کتاب والو ! کیوں اللہ کے حکموں سے جو ہم پر بذریعہ وہی اترے ہیں انکاری ہوتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰتمہارے سب کاموں پر نگران ہے تو ان کو یہ بھی کہہ دے اے کتاب والو ! کیوں بے جا حیلوں حوالوں سے ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہو ؟ اس میں عیب جوئی کرتے ہو حالانکہ تم اس کی حقیقت کے گواہ ہو سنو ! اور یاد رکھو کہ اللہ عالم الغیب تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں تمہاری بد اعمالیوں کی پوری پوری سزا دے گا اصل یہ ہے کہ جس کے دل میں خوف اللہ نہ ہو اور اپنی ہی بات پر اس کو ضد ہو تو ایسے شخص کو کسی طرح ہدائت متصور نہیں بلکہ دوسروں کو اس سے ضرر کا خوف ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمانواگر تم ان کتاب والوں میں سے جو محض ضد سے حق کو چھوڑے ہوئے ہیں کسی ایک گروہ کے بھی مذہبی باتوں میں تابع ہوئے اور ان کی باتوں کو دل آویزلفظوں میں سن کر پھنس گئے تو یاد رکھو کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی تم کو کافر کر ڈالیں گے تم کیسے ان کی سن کر کافر ہونے لگے کیا تم ان سے مسائل دینی پوچھتے ہو حالانکہ شب و روز اللہ کے احکام تم پر پڑھے جاتے ہیں اور اس کا رسول بذات خود تم میں موجود ہے پس تم اللہ کی ہدائت جو رسول سے سنو اس کی اتباع کرو۔ اور اسی پر بس کرو کیونکہ جو شخص اللہ سے مضبوط تعلق کرتا ہے بیشک وہ سیدھی راہ پر ہے جو عنقریب اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے گی شان نزول :۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اِنْ تُطِیْعُوُا) انصار مسلمانوں کے دو قبیلے اوس او خزرج تھے قبل اسلام ان میں بہت ہی کشت و خون ہوچکی ہوئی تھی بعد حصول شرف سلام پہلا کینہ اور عداوت کا ان میں نشان بھی نہ رہا اس الفت اور برادری کو دیکھ کر جنٹلمین اہل کتاب یہودیوں کو رشک پیدا ہوا ایک شخص شماس نامی انصار کی مجلس میں آیا اور ان کو پہلے مناقشات یاد کرانے لگا چونکہ نئی نئی مصلح تھی اس کے مغالطہ میں آکر انصار آپس میں ناچاقی کرنے لگے یہاں تک کہ دونوں قبیلوں کے مقابلہ کے لئے ایک دن مقرر ہوا کہ آپس میں جنگ کریں گے جب یہ خبر حضور اقدس کو پہونچی تو آپ مخالفوں کی غرض کی تہ کو فوراً پہنچے اور بذات خود موقع لڑائی پر تشریف لے جا کر دونوں قبیلوں کو سمجھایا پھر کیا تھا سب سمجھ گئے اور اسی وقت آپس میں ملاقات اور معانقہ ہوگئے اس قصے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ مسلمانو اس لئے تمہیں کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑو اور اللہ ہی سے ڈرتے رہو جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے جیسا وہ حقیقی شہنشاہ دنیا اور آخرت کا مالک ہے اسی انداز سے اس کا ڈر رکھو اور مرتے دم تک اسی کے تابع رہو آل عمران
99 آل عمران
100 آل عمران
101 آل عمران
102 آل عمران
103 (103۔109)۔ اور سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن مجید کو مضبوط پکڑو۔ اور اس کی تبلیغ میں پھوٹ نہ ڈالو ورنہ تمہارے دشمن تم پر غالب آجائیں گے اور اپنے حال پر اللہ کا احسان یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی پس تم اس کے فضل اور مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور یاد کرو جب تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور قریب تھا کہ مرتے ہی اس آگ میں داخل ہوجاتے پھر اس نے تم کو اپنے رسول کے ذریعہ اس سے بچایا جس طرح تم کو اس بلا سے رہائی دی اسی طرح حسب مصلحت تمہارے لئے احکام بیان کرتا رہے گا تاکہ تم راہ پائو۔ دیکھو ! تمہاری ہدائت کے لئے ہم نے یہ انتظامی حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت علماء کی ہمیشہ موجود رہے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انکو نیکی کے کام بتلائے اور بروں سے روکے اور خود بھی نیک عمل کرے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کریں گے اور یہی لوگ با عزاز و اکرام نجات پاویں گے یہ آیت علماء کرام کے اظہار عزت کو کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی اور عزت کی خبر دیتا ہے ہاں ذمہ داری بھی بڑی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ کہنے پر عمل بھی کریں ورنہ لم تقولون مالا تفعلون کا عتاب ہے۔ ١٢ البتہ یہ ضرور ہے کہ علم پڑھ کر اغراض دنیوی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہو کر دھڑے بندی نہ کرنا اور ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو اغراض دنیاوی کے لئے آپس میں پھوٹ پڑے۔ اور احکام پہنچنے اور سمجھنے کے بعد مختلف ہوگئے کیونکہ دنیا میں بھی دانائوں کے نزدیک یہ لوگ ذلیل ہیں اور قیامت کے روز بھی ان خود غرض لوگوں کو بڑا عذاب ہوگا جس دن بہت سے چہرے اپنی نیک کرداری کی وجہ سے چمکتے اور بہت سے اپنی بد کرداری کی وجہ سے سیاہ ہونگے پس اس روز سیاہ منہ والوں سے فرشتے پوچھیں گے کیا تم ایمان کی باتیں پہنچنے کے بعد منکر ہوئے تھے پس اپنے کفر اور انکار کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو جس سے تمہاری نجات نہ ہوگی اور دوسرے لوگ ان کے مقابل سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں ہمیشہ رہیں گے اور نعماء الٰہی میں عیش و عشرت سے گزاریں گے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جو تجھ کو (اے نبی) راستی سے سناتا ہے جو چاہے نیک عمل کر کے رحمت الٰہی سے حصہ لے اور جو چاہے سیاہ منہ کر کے عذاب میں پھنسے اپنے اپنے کئے کا پھل پاویں گے تیرا کیا لیں گے اللہ تعالیٰ کا ارادہ جہان کے لوگوں پر ظلم کرنے کا ہرگز نہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے اللہ ہی کا مخلوق اور ملک ہے اور انکی حاجتوں کے سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع ہیں پس جبکہ پیدائش بھی اسی کی اور محتاج بھی اسی کے پھر بھلا وہ ظلم کیوں کرنے لگا بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بندوں کی ہدائت کے لئے رسول بھیجتا رہا نیک بندوں کو لوگوں کی ہدائت کے لئے پیدا کرتا رہا آل عمران
104 آل عمران
105 آل عمران
106 آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 (110۔117)۔ چنانچہ تم بھی اے مسلمانو ! ایک عمدہ اور نیک جماعت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اللہ اکیلے پر ایمان رکھتے ہو بھلے کام لوگوں کو سکھلاتے ہو اگر یہ کتاب والے بھی تمہاری طرح قرآن کو مان لیتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا گو بعض ان میں سے مومن ہیں لیکن بہت سے ان میں کے بد کار ہیں اس لئے تو یہ تم سے عداوت رکھتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ بجز زبانی ایذا کے کوئی تکلیف تم کو نہ پہنچا سکیں گے شان نزول (لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذٰی) عبداللہ بن سلام (رض) اور اس کے ساتھی جب مسلمان ہوئے تو یہودیوں نے ان کو تکلیف پہنچانے کا قصد کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور اگر بقول شخصے چوحجت نماند جفا جوئی را بہ بیکار کردن کشد روئے را تم سے لڑنے کو آئیں گے تو پیٹھ دیکر بھاگیں گے پھر یہ بھی نہیں کہ مجتمع ہو کر غلبہ اور فتح پاویں گے بلکہ ذلیل و خوار ہو نگے کبھی انکو اللہ کے ہاں سے مددنہ پہنچے گی کیونکہ اللہ کے ہاں سے ذلت ان پر غالب کی گئی ہے جہاں پائے جائیں گے ذلیل رہیں گے مگر اللہ کی پناہ اسلام میں یا لوگوں کی پناہ میں جزیہ اور ٹیکس دے کر رہیں گے تو امن پاویں گے اور اللہ کے غضب میں آئے ہوئے ہیں اور ان پر ذلت اور خواری برس رہی ہے کیونکہ اللہ کے حکموں سے انکار کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ ان کی حالت اس لئے ہوئی کہ ابتدا میں شریعت کی بے فرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے حتی کہ نوبت بایں جا رسید ہاں یہ ٹھیک ہے یہ سب یکساں بھی نہیں ان کتاب والوں میں سے بعض لوگ سیدھی راہ پر بھی ہیں جو سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی آیتیں دن رات پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر کامل یقین رکھتے ہیں اور نیک کام بتلاتے ہیں اور برے کا موں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں کو تو ایسے خوش ہو کر کرتے ہیں کہ گو یا ان میں دوڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ عام حالت میں نیک ہیں اور اپنے کئے پر مغرور نہیں ہوتے شان نزول (لَیْسُوْا سَوَآئً) عبداللہ بن سلام وغیرہ کے مسلمان ہونے پر یہودیوں نے طعن کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریر شریر لوگ ہوتے ہیں کوئی شریف نہیں ہے اگر شریف ہوتے تو اپنے باپ دادا کے طریق کو کیوں چھوڑتے اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔ راقم کہتا ہے باپ دادا کے طریق کی محبت اکثر دفعہ عوام کو باعث گمراہی ہوتی ہے جس کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ مسلمان بھی اسی بلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمُ لَایَعْلَمُوْنَ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قبولیت ہے اور آئندہ کو عام مژدہ ہے کہ جو نیکی کا کام کریں گے ان کی بے قدری نہ کی جا وے گی کیونکہ اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ان نیک نیتی کا ان کو بدلہ دیگا اور جو لوگ اس کے حکموں سے منکر ہیں وہ بہت ہی بری حالت میں ہوں گے ان کے مال اولاد اللہ ہاں ان کو کچھ کام نہ آویں گے۔ یہی لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے دنیا میں جو کچھ بغرض اشاعت مذہب خرچ کرتے ہیں کہ کسی طرح سے لوگ ان کے دام تزویر میں پھنسیں یہ نہ سمجھیں کہ اس کا ان کو ثواب ہوگا بلکہ وہ پالے والی بائو کی طرح ہے جو ظالموں کے کھیت پر پہنچ کر اس کو ضائع کرتی ہے اسی طرح ان کے چندے ہیں جو لوگوں کے گمراہ کرنے میں خرچتے ہیں باقی اعمال کو جو کبھی نیت خالص سے کئے ہوں ضائع کردیتے ہیں اللہ تو ان پر کسی طرح ظلم نہیں کرتا لیکن یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا غضب لیتے ہیں شان نزول :۔ (مثل ماینفقون) اہل کتاب تو ہمیشہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو پھسلاویں اس تدبیر میں سینکڑوں ہزاروں روپیہ بھی خرچ کرتے جیسا کہ آج کل پادری لوگ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے خرچ اور چندہ کے متعلق بیان فرماتا ہے (معالم بتفصیل منہ) اس تشبیہہ میں وقت ہے یعنی فاعل کو فاعل سے تشبیہہ دی ہے یا مفعول کو مفعول سے۔ اکثر بزرگوں کی تفسیر اور تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفعول کو فاعل سے تشبیہہ ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے کفر و شرک کی وجہ سے ان کے نفقات ضائع ہیں۔ میں نے اس میں دقت سمجھی ہے اس لئے نفقات کو ہالکات نہیں بتایا بلکہ مہلکات بتایا ہے۔ اس کے مقابل میں مشبہ بہ رنج ہے جو مہلک ہے۔ فافھم منہ آل عمران
111 آل عمران
112 آل عمران
113 آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 آل عمران
117 آل عمران
118 (118۔120)۔ انسان کی گمراہی کا سبب بسا اوقات بد صحبت بھی ہوتی ہے اس لئے تم کو ہدائت کی جاتی ہے کہ مسلمانو ! اپنی قوم کے سوا غیر قوموں کو راز دار دوست مت بنانا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے تمہارے رنج سے خوش ہوتے ہیں تمہاری عداوت ان کے مونہوں سے کئی دفعہ ظاہر ہوچکی ہے اور ابھی تو جو کچھ تمہارے متعلق ان کے دلوں میں خلاف وشقاق مخفی ہے بہت بڑا ہے شان نزول :۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا) بعض مسلمان بوجہ قرابت اور صداقت یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم ہم نے تمہارے سمجھنے کیلئے نشانات بتلائے ہیں اگر تم سمجھدار ہو تو سمجھ لو دیکھو تو کیا بات ہے کہ تم تو انہیں چاہتے ہو وہ تم کو نہیں چاہتے اور تم سب کتابوں تورات انجیل وغیرہ کو مانتے ہو اور وہ دل سے سب کو نہیں مانتے بلکہ الٹے مسخری کرتے ہیں اور جب کبھی تم سے ملتے ہیں تو براہ مخول کہتے ہیں کہ ہم بھی قرآن کو مانتے ہیں اور جب تم سے علیحدہ ہوتے ہیں تو تمہارے حسد میں اپنی انگلیاں چباتے ہیں کہ ہائے ان کی دن دگنی ترقی کیوں ہو رہی ہے تو بھی ان شریروں کی پرواہ نہ کر اور کہہ دے کہ اپنے غصے میں مر رہو اللہ تمہارے دلوں کی باتوں کو بھی جانتا ہے خوب ہی سزا دے گا ان کی شرارت تو اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اگر تم کو بھلائی پہنچے تو رنجیدہ ہوتے ہیں اور اگر تم کو تکلیف ہو تو اس سے خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا ان مسلمانوں کی ذلت ہوئی اگر تم ہوشیار رہو گے اور تکلیف کے وقت صبر کرتے اور حدود شرعی کے تجاوز سے بچتے رہو گے تو ان کی فریب بازیاں تم کو کچھ بھی ضرر نہ دیں گی۔ یقینا اللہ انکے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے ہمیشہ انکے حیلے اور فریب تم سے دفع کرتا رہے گا آل عمران
119 آل عمران
120 آل عمران
121 (121۔129)۔ اور بطور نظیر اس وقت کو یاد کر اور ان کو سنا کہ دیکھو کس طرح اللہ نے کفار کے مکر تم سے دفع کیے تھے جب تو اپنے گھر والوں سے نکل کر مومنوں کو لڑائی کی جگہ بٹھا تا تھا اور کفار بھی فوجیں جرار لے کر تمہارے مارنے اور تباہ کرنے کو آئے تھے اور بڑے دعووں سے کہتے تھے کہ کسی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور جو کچھ وہ کہتے یا کرتے تھے۔ اللہ اس کو سنتا اور جانتا تھا اور اس وقت جبکہ اپنی جماعت کی قلت اور مخالفوں کی کثرت دیکھ کر تم میں سے دو قبیلوں نے پھسلنا چاہا کہ چلو نبی کو چھوڑ چلیں اور اپنی جان بچائیں مگر چونکہ اللہ ان کے اخلاص سابق کی وجہ سے ان کا والی تھا ان کے حال پر خاص نظر عنائت تھی اس لئے اس نے ان کو تھام لیا آخر کار انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اصل میں مومنوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کیا کریں تاکہ اپنی بہبودی کو پاویں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کیا کرتا شان نزول :۔ (وَاِذْ غَدَوْتَ) جنگ احد کے متعلق جو تیسرے سال ہوئی تھی) یہ آیات نازل ہوئیں۔ معالم شان نزول :۔ (اِذْھَمَّتْ طَائِٓفَتَانِ) جنگ احد میں مسلمان قریباً ایک ہزار لڑنے کو نکلے تھے جن میں سے تقریباً تین سو کے جو صرف ظاہری مسلمان اندرون منافق تھے میدان میں پہنچنے سے پہلے ہی علیحدہ ہوگئے ان کی علیحدگی کو دیکھ کر بعض سادہ لوح مسلمان سست ہوگئے مگر دراصل چونکہ یہ منافق نہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی حمایت میں لیا اور اللّٰہ ولیھما فرمایا۔ (معالم بتفصیل منہ) دیکھو تو اللہ نے جنگ بدر کے موقع پر جبکہ تم نہائت کمزور اور بے طاقت تھے تمہاری مدد کی پس تم اللہ کی نعمتوں کو غیروں کی طرف نسبت کرنے سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بنو اے نبی اس وقت کا واقعہ بھی ان کو سنا جب تو مومنوں سے کہہ رہا تھا کہ اگر تمہارے دشمن ہجوم کرکے آئے ہیں تو کوئی خوف نہیں کیا تمہیں کافی نہیں کہ تمہارا رب اور مالک آسمان سے اترے ہوئے تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے جس کا جواب تو ان کی طرف سے خود ہی دیتا تھا کہ کیوں نہیں بے شک کافی ہے بلکہ اگر تم ایسی تکلیفوں پر صبر کرتے اور حدود شرعی کی تجاوز سے ڈرتے رہو گے اور وہ تم پر ایسے ہی جوش سے چڑھے آئیں گے کہ تو آئندہ کو پانچ ہزار فرشتوں کہ لیس اور تیار فوج سے اللہ تمہاری مدد کرے گا اصل میں یہ تو اللہ نے تمہارے صرف خوش کرنے کو کیا تھا تاکہ تم گھبرائو نہیں اور تاکہ تمہارے دل اس سے مضبوط رہیں ورنہ فتح تو صرف اللہ ہی کے ہاں سے ہے۔ جو سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے تمہاری فتح اور نصرت اس لئے ہے کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک اور بعض کو مغلوب کرے بطور رفع وہم کے ہم اعلان کرتے ہیں تجھے اے نبی اس میں کوئی اختیار نہیں اللہ تعالیٰ ان سے جو چاہے معاملہ کرے مارے جلائے یا ان پر رحم کرے یا ان کو عذاب کرے گو یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں کیونکہ یقیناوہ ظالم ہیں مگر پھر بھی یہ سب اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ ہی کی ہیں وہ اپنی حکومت میں کسی کی رائے کا تابع یا کسی رکن الدولہ کا محتاج نہیں بلکہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ اور جس کو چاہے معذب کرسکتا ہے کوئی اس کے حکم کو ما نع نہیں شان نزول :۔ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ) جنگ احد میں جب آپ کو بہت تکلیف پہنچی یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک شہید ہوگئے اور سر میں بھی زخم پہنچا تو اس وقت آپ نے فرمایا کس طرح وہ قوم چھوٹ سکتی ہے جس نے اپنے نبی کا سر پھوڑا اور دانت توڑا پھر بعض کفار کے حق میں بتقاضائے طبیعت نام بنام لعنتیں کیں بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جو انجام کار مشرف باسلام ہوئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی معالم بتفصیل منہ اور یہ بات بھی بے شک ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت میں بے ضابطہ حکم نہیں کرتا بلکہ بے ضابطہ کر کے توبہ کرنے والوں کے حق میں بخشنہار اور تابعداروں پر بڑا مہربان ہے جو اس کی مخلوق سے بھلائی کرے وہ اسے بھی محبت کرتا ہے اور جو ان پر ظلم و جور کرتا ہے اسے بھی اپنی مہربانی سے پہلے روکتا ہے۔ اور اگر وہ باز نہ آئے تو مناسب طور پر پکڑ لیتا ہے آل عمران
122 آل عمران
123 آل عمران
124 آل عمران
125 آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 آل عمران
129 آل عمران
130 (130۔138)۔ اسی لئے تم کو حکم دیتا ہے مسلمانو ! مخلوق پر رحم کرنا سیکھو جس کی ابتدا یوں ہے کہ دوگنا چوگنا سود نہ کھایا کرو جیسا کہ تم اور تمہارے زمانے کے لوگ لے رہے ہیں بلکہ سرے سے ہی اس عادت قبیحہ کو چھوڑو اور اس ظلم کرنے میں اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا بھلا ہو اللہ جب ثروت اور توفیق دیوے تو اللہ کے بندوں پر مہربانی کرو شان نزول :۔ (لَاتَاکُلُوا الرِّبٰو) کفار کا عام دستور تھا کہ قرض داروں پر بہت سختی کرتے تھے اس سے روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بذریعہ اعمال صالحہ اس آگ سے بچو جو ناشکرے بندوں کے لئے تیار ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی تا بعداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم ہو اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور نیک عمل کر کے اس باغ کی طرف جلدی چلو جس کا پھیلائو آسمانوں اور زمینوں جتنا ہے وہ پر ہیز گاروں اور نیکوں کے لئے تیار ہے جو محض اللہ کی رضاجوئی کیلئے فراخی اور تنگی میں بھی اپنی ہمت کے موافق خرچ کرتے ہیں اور اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچاوے تو جس سے اس کو سخت صدمہ بھی ہو اور غصہ بھی دبا لیتے ہیں اور موذی لوگوں سے قصور معاف کردیتے ہیں بلکہ ان پر احسان کرتے ہیں جس کا بد لہ ان کو ضرور ہی ملے گا اس لئے کہ احسان کرنے والے اللہ کو بھاتے ہیں اور پرہیز گار وہ لوگ بھی ہیں جو کبھی کسی قسم کا فحش یا بوجہ کسی غلطی کے اپنے حق میں برائی کر گزریں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ہی بخشنہار ہے اور اللہ کے سوا کون گناہ بخشتا ہے یعنی کوئی نہیں اور بڑی بات ان میں یہ ہے کہ کبھی ان سے غلطی ہوجائے تو دانستہ اپنی غلطی پر اڑتے نہیں کیونکہ غلطی ہوجا نا تو انسانی فطرت میں داخل ہے گناہ ہوجائے تو فوراً تو بہ کرنا اس کا علاج ہے انہی لوگوں کا بدلہ اللہ کے ہاں سے بخشش ہے اور کئی ایک باغ جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے لوگو نیک عمل کرو اور غور کرو کہ نیک عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے اگر اس صاف اور سیدھی تعلیم سے منہ پھیریں تو تو ان کو کہہ دیجو کہ تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں پس تم زمین پر پھرو اور پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ابتر ہوا یہ پہلے لوگوں کے واقعات ہیں اس زمانے کے لوگوں کے لئے سمجھوتی اور ہدایت اور بالخصوص پر ہیز گاروں کے لئے تو بہت بڑی نصیحت ہے وہ ان واقعات سے عمدہ عمدہ نتائج نکالتے ہیں کہ اصلی عزت اللہ تعالیٰ کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 آل عمران
134 آل عمران
135 آل عمران
136 آل عمران
137 آل عمران
138 آل عمران
139 (139۔158)۔ اسی لئے ان کو سمجھا یا جاتا ہے کہ تم نہ تو سست ہوئو اور نہ غمگین اگر تم ایمانداری پر مضبوط رہو گے تو تم ہی غالب ہو گے ہاں بعض دفعہ بظاہر کسی قدر تکلیف تم کو بھی ہو تو اس سے گبھرائو نہیں شان نزول :۔ (وَلَا تَھِنُوْا) جنگ احد میں جو مسلمانوں کو بعد فتح ہونے کے اپنی غلطی کی وجہ سے قدرے تکلیف پہنچی اس کی تسلی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اگر تم کو تکلیف پہنچے تو سست ہونے کی کوئی وجہ نہیں آخر کفار کی قوم کو بھی اتنی ہی تکلیفیں پہنچ چکی ہیں چنانچہ جنگ احد میں تمہاری جماعت کو تکلیف ہوئی تو اس سے پہلے جنگ بدر میں ان کو بھی ہوچکی ہے پھر جب وہ لوگ باوجود کفر وشرک کے سست نہیں ہوتے تو تم با وجود توحیدا وردعوی صداقت کے کیوں سست ہوتے ہو زمانہ کی گردش لوگوں میں ہم پھیرتے رہتے ہیں کبھی کسی کے ہاتھ ہے کبھی کسی کے اور اب کی دفعہ تکلیف کسی قدر تم کو اس لئے پہنچی ہے کہ اللہ خالص ایمان داروں کی منافقوں سے تمیز کردے کہ جو لوگ بعد تکلیف کے بھی رسول کا حکم بسرو چشم رکھیں گے وہی خالص مومن ہونگے اور جو تکلیف سے ڈر کر سستی کریں گے ان کے ایمان میں ضعف ثابت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ بعض کو تم میں سے درجہ شہادت دے کر شہید بنائے وہ بھی اس جنگ احد کی تکلیف سے پو را ہوا ورنہ یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے راضی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ظالم مشرک نہیں بھاتے اور اس تکلیف رسائی سے یہ بھی ملحوظ ہے کہ اللہ مومنوں کو ان تکالیف سے نکھار لے اور کفار کو جڑ سے کاٹے کیونکہ وہ اب کی دفع سے کسی قدر خوشی سے آئندہ سال جمع ہو کر آویں گے اور ذلیل وخوار ہو کر واپس جاویں گے اصل تو یہ ہے کہ آسائش بعد تکلیف حاصل ہو تو قابل قدرہوتی ہے کیا تم سمجھ بیٹھے تھے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے نیت خالص سے جہاد کرنے والوں کو تم میں سے الگ نہیں کیا اور صابروں کی تمیز بھی نہیں کی اس آیت میں یَعْلَمَ کی نصب نے علماء نحو کو مجبور کیا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ناصبہ تلاش کریں چنانچہ انہوں نے اس کی تقدیر یوں بنائی ہے قبل ان یعلم الصبرین مگر مینے اس ترکیب کو اختیار نہیں کیا کیونکہ یعلم کا حق جر کا ہے مگر ایسی حالت میں بوجہ خفت فتح بھی آتی ہے کتب نحو میں اس کی مثال بھی ملتی ہے۔ منہ اس تھوڑی سی تکلیف پر تمہاری سستی عجب ہے تم تو اس سے پہلے میدان جنگ میں مرنے کی خواہش رکھتے تھے پس اب تم اسے آنکھ سے دیکھ چکے ہو ابھی تو ہمارا رسول بھی تم میں موجود ہے پھر باوجود اسکے تمہیں تسلی نہیں تو مر نے کے بعد کیا ہوگی حالانکہ محمدﷺ اللہ کے صرف رسول ہیں جن کا ہمیشہ کے لئے جینا ممکن نہیں ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موت طبعی سے مر جائے یا میدان جنگ میں مارا جائے تو کیا تم لوگ دین سے پھر جائو گے شان نزول :۔ (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ) جنگ احد میں عین تکلیف اور گریز کی وقت یہ آواز آئی کہ حضرت قتل ہوگئے جس سے صحابہ کرام کی کمریں ضعیف ہوگئیں جیسا کہ عام دستور ہے کہ سردار کے نہ ہونے سے ہوا کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم التنزیل یاد رکھوجو کوئی دین اسلام سے پھرجائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا بلکہ جو کچھ بگاڑئے گا اپنا ہی بگاڑے گا اور اللہ شکر گزاروں تابع داروں کو بدلہ دے گا موت کوئی اختیاری امر نہیں بغیر حکم الٰہی کے کوئی مر نہیں سکتا اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وقت ہے البتہ بعض کوتاہ اندیش اس خدائی تقرر کو نہیں سمجھتے اور صرف دنیا ہی کو اپنا مدار کار جانتے ہیں سو جو کوئی ایسا ہے کہ اپنے کاموں سے دنیا ہی کا بدلہ فوائد یا نیک نامی چاہتا ہے ہم بھی اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں کہ چند لوگ اس کی چند روزہ واہ واہ کردیتے ہیں اور جو کوئی اپنے نیک اعمال سے صرف آخرت کا بدلہ چاہے ہم اس کو اس میں سے دے دیتے ہیں اور ہم ایسے شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دیں گے بھلا تم اس تھوڑی سی تکلیف سے کیوں رنجیدہ ہوتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ بہت سے اللہ والے لوگ کئی نبیوں کے ساتھ ہو کر دشمنان دین سے لڑتے رہے۔ پھر نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف پہنچنے سے ہارے اور نہ سست پڑے اور نہ دشمنوں سے دبے وہ اس ثابت قدمی کا اجر عظیم پاویں گے اس لئے کہ اللہ ثابت قد موں اور صبر کرنے وا لوں سے محبت کرتا ہے وہ تو ایسے ثابت قدم تھے کہ عین تکلیف شدید میں بھی ان کی آواز یہی ہوتی تھی کہ اے ہمارے مو لا ! ہمارے گناہ بخش اور ہماری سستی جو دین کے بارے میں ہم سے ہوئی ہو ہم کو معاف فرما اور ہم کو دشمنوں کے مقابلہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم کو کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر پھر اللہ نے ان کو دنیا کا بد لہ یعنی غلبہ بھی دیا اور آخرت کا بدلہ بھی بہت خوب بخشا اس لئے کہ اللہ کو نیکو کار لوگ بھاتے ہیں مسلمانو ! اس قصہ سے تم سمجھ گئے ہو گے کہ مومن کافروں پر فتح یابی کی ہمیشہ دعا کرتے رہے ہیں اگر تم بجائے اس دعائے فتح کے ان کافروں کے کسی بات میں تابع ہوئے تو تم کو دین سے پھیر دیں گے پھر تم ٹوٹے میں پڑ جائو گے یہ غلط کہتے ہیں کہ اللہ تمہارا مددگار نہیں بلکہ اللہ تمہارا متولی ہے اور وہ سب سے اچھا مددگار ہے کسی کی مدد اس کے برا بر نہیں ہوسکتی چنانچہ آئندہ کو ہماری مدد کی ابتدا یوں ہوگی کہ ہم کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب اور خوف ڈالیں گے شان نزول :۔ (سنلقی) جنگ احد سے فراغت پاکر مشرکین جب مکہ شریف کو واپس گئے تو راہ میں انہوں نے پھر حملہ کرنے کا قصد کیا مگر اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھرایا ہے جس کی شرکت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اس لئے ان کا ٹھکا نا دوزخ میں ہے جس میں بے طرح تڑپیں گے اور وہ جہنم ظالموں کے لئے بہت بری جگہ ہے اللہ نے تو اپنا وعدہ فتح کے متعلق تم سے سچا کردیا تھا۔ جب تم ان کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود ہی اکھڑے اور رسول کے حکم میں جھگڑنے لگے کہ بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے تمہاری پسندیدہ چیز یعنی فتح مندی تم کو دکھا دی تم نے بے فرمانی کی کیونکہ بعض تم میں سے دنیا چاہتے ہیں اور بعض آخرت چاہتے ہیں پھر تم کو ان سے ہٹا لیا الٹی تکلیف تم کو پہنچی تاکہ تمہاری غلط کاریوں کی وجہ سے تم کو مبتلائے تکلیف کرے اور اب تو تم سے یہ قصور معاف کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے حال پر بڑے فضل والا ہے (لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ) حضرت پیغمبر اللہ ﷺ نے جنگ احد میں ایک پہاڑ کے دروازہ پر چند آدمی مقرر کئے تھے اور ان سے فرمایا تھا کہ ہماری فتح ہو یا شکست تم نے اس جگہ کو نہ چھوڑنا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان غالب آگئے اور لوٹ میں مصروف ہیں اور کفار بھاگ گئے اب تو یہاں ہمارا ٹھیرنا فضول ہے ہرچند ان کے سردار نے سمجھایا اور حضرت کا فرمان عالی یاد کرایا مگر ظاہر داری سے وہ غلطی کھا گئے صرف دس بارہ آدمی اس سردار کے ساتھ اس دروازہ پر ٹھیرے رہے اتنے میں مشرکین کفار نے میدان خالی پاکر ان پر حملہ کیا تو مسلمانوں کو لنے دینے پڑگئے فتح سے شکست مبدل ہوگئی اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہے۔ معالم الامر لفظ کے دو معنی ہیں اختیار حکم ! آبرو۔ عزت یا وقعت۔ منافق اپنے لئے عزت چاہتے تھے جواب میں امر کے معنی ” اختیار“ کے ہیں۔ یعنی اللہ عالم الغیب کو اختیار ہے جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے ١٢ منہ تم سخت غلطی کر رہے تھے جب تم بھاگے ہوئے چڑھے جا رہے تھے اور پھر کسی کو نہ دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا رسول تم کو پیچھے سے بلا رہا تھا۔ پس تم کو غم پر غم پہنچا یا تاکہ تم ہاتھ سے گئی ہوئی چیز یعنی گئی ہوئی فتح پر غم نہ کرو اور پہنچی ہوئی مصیبت پر رنج نہ کرو یعنی بعد اس رنج کے دفع ہونے کے فتح کے جاتے رہنے کا بھی تم کو غم نہ رہے اس میں شک نہیں کہ تمہارا یہ قصور عناد اور سرکشی سے نہ تھا بلکہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے تھا چونکہ اللہ تمہارے سب کاموں سے آگاہ ہے اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے بعد غم کے تم پر بغرض آرام جسمانی نیند ڈالی جو تم میں سے ایک جماعت پر غالب آرہی تھی جس سے ان کے تکان وغیرہ سب دور ہوگئے اور منافقوں کی ایک جماعت کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اللہ کی نسبت جاہلانہ غلط گمان کررہے تھے اور منہ سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں بھی کچھ اختیار یعنی عزت ہے تو کہدے کہ عزت اور ذلت دینے کا اختیار سارا اللہ کو ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے جو عزت کے مستحق ہیں اللہ ان کو عزت دیگا۔ تم عزت کے اہل نہیں ہو ابھی تو یہ باتیں ان کے منہ کی ہیں تو وہ وہ باتیں رکھتے ہیں جو تیرے سامنے بیان نہیں کرسکتے عام مسلمانوں کے پھسلانے کو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہماری (یعنی مسلمانوں کی) بھی اللہ کے ہاں کچھ عزت ہوتی تو ہم یہاں نہ مارے جاتے تو کہدے کہ موت کیلئے تو ایک وقت معین ہے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا ہوتا اپنی قتل گاہ میں ضروری آجاتے اور یہ تکلیف پہنچا کر اللہ کو سب لوگوں پر تمہارے جی کی باتیں ظاہر کرنی تھیں اور تمہارے دلوں کے خیالات کو نکھارنا تھا اور یوں تو اللہ بذات خود سب کے سینوں کے بھید جانتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ جو لوگ وہ دو فوجوں کے ملنے کے دن (یعنی بروز جنگ، احد) منہ پھیر گئے تھے ان کو شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی شامت سے پھسلایا تھا مگر خیر اللہ نے ان کو معاف کردیا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا حوصلہ والا ہے۔ یہ بھی اس کی بخشش ہے جو تم کو سمجھاتا ہے کہ اے مسلمانو ان لوگوں جیسے مت بنو جو خود بھی منکر ہوئے اور اپنے بھائیوں کے حق میں جب وہ دینی سفر کو جائیں یا کہیں جنگ کرنے کو روانہ ہوں اور بقضائے الٰہی وہیں مرجائیں تو یہ کافر کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ٹھہرے ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے بھلا ان کا کہنا کہاں تک صحیح ہے اگر ان کی موت آجاتی تو یہ ان کو موت سے بچاسکتے تھے؟ ہرگز نہیں پھر اس بات کے کہنے سے کیا فائدہ ہاں اگر یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اس خیال کو ان کے دلوں میں باعث حسرت اور افسوس کرے گا کہ جس قدر اپنی تدبیر پر بھروسہ کریں گے اسی قدر زیادہ افسوس اٹھاویں گے اور ناحق اپنا دل دکھاویں گے اصل بات تو یہ ہے اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے باقی رہا مرنا اور جینا سواس کی بابت بھی سن لو کہ اگر تم اللہ کی راہ قتل کئے جاؤ یا دین سفر میں مرجاؤتو جو ایسے مرنے پر اللہ کے ہاں سے بخشش اور مہربانی ہے سب لوگوں کے اسباب جمع کئے ہوئے سے اچھی ہوئی ہے بھلا زندگی کے اتنے سامان بنانے اور اس پر اتنا رنج ظاہر کرنا کیا فائدہ آخر کو تو مرنا ہے پس گو تم موت طبعی سے مرے یا اللہ کی راہ میں مقتول ہوئے آخر تو اللہ کے پاس ہی جمع کئے جاؤ گے جہاں تم کو اپنے اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ ملے گا آل عمران
140 آل عمران
141 آل عمران
142 آل عمران
143 آل عمران
144 آل عمران
145 آل عمران
146 آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 آل عمران
151 آل عمران
152 آل عمران
153 آل عمران
154 آل عمران
155 آل عمران
156 آل عمران
157 آل عمران
158 آل عمران
159 (159۔180)۔ اس جنگ احد کی تھوڑی سی تکلیف کے متعلق جس قدرمنافقوں اور اسلام کے دشمنوں نے زبان درازیاں کی ہیں ان کا تو اظہارہی کیا ہے تعجب تو یہ ہے کہ عوام مسلمانوں نے بھی اس کے متعلق جو کچھ کیا ہے تیرا حوصلہ تھا جو تو دیکھ اور سن کر رنجیدہ نہ ہوا کیونکہ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم دل پیدا ہوا ہے کیونکہ اللہ نے اعلیٰ درجہ کا علم تجھ کو بخشا ہے اور اگر تو بدخو سخت دل ہوتا تو تیرے پاس سے بوجہ سخت زبانی کے فوراً یہ لوگ بھاگے جاتے پس مناسب ہے تو ان کو معاف کر اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ اور ان سے اپنے کام میں مشورہ لیا کر تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو پھر بعد مشورہ تو جب کسی کام کا قصد کرے تو اپنے اسباب سے قطع نظر اللہ پر بھروسہ کیا کر وہ تیری ضرور ہی مدد کرے گا اللہ کو بھروسہ کرنے والے بھلے لگتے ہیں بھلا اگر اللہ پر بھروسہ نہ کروگے تو پھر کس پر کرو گے وہ تو ایسا زبردست حاکم ہے کہ اگر وہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہ آویگا اور اگر وہ ذلیل کرنے کو ہو تو بتلاؤ کون ہے جو اس کے بعد تم کو مدد دے اسی لئے تو مومنوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔ جب ہی تو ہر قسم کی برائی سے بچ سکیں گے یعنی جب اللہ ہی پر بھروسہ کریں گے۔ تو کسی کا مال نہ کھائیں گے چوری بھی نہ کریں گے اس لئے کہ یہ امور تو کل کے منافی ہیں چونکہ اس توکل کے وصف سے انبیاء سب سے زیادہ موصوف ہوتے ہیں بالخصوص خاتم الانبیا توبہمہ وجوہ متصف ہے اس لئے کسی نبی کی شان نہیں کہ کسی قسم کی خیانت کرے شان نزول جنگ احد میں بعض بدگمانوں نے بدگمانی کی کہ پر غمب (علیہ السلام) مال غنیمت سے کچھ علیحدہ نہ رکھ لیں چونکہ یہ بدگمانی بہت بے جا اور کفر تک پہنچانے والی تھی اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) بھلا ایسا برا کام کیونکر ایسے معزز او برگزیدوں سے ہوسکے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے متعلق یہ ہے کہ جو کوئی خیانت کرے گا قیامت کے روز اپنی خیانت کو سب کے روبرو ذلت سے اٹھا کر جناب باری میں لائے گا جہاں اپنے کئے کا پورا بدلہ پائے گا یہی خائن کیا وہاں تو سب لوگ حاضر ہوں گے اور اپنا اپنا حساب دیں گے۔ پھر ہر ایک شخص کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا نہ ان پر گناہ زیادہ کئے جاویں گے اور نہ ان کی نیکیاں ضائع ہوں گی غرض کہ کسی طرح سے ان پر ظلم نہ ہوگا ایسے وقت میں بھلا بتلاؤ جو شخص اللہ کی مرضی کا تابع رہا ہو اس کی طرح ہوجائے گا جس نے بوجہ بدکاری کے اللہ کا غصہ اپنے پر لیا ہو اور اس بدکاری کی وجہ سے اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا جو بہت بری جگہ ہے۔ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے بلکہ وہ لوگ جو اللہ کی مرضی میں عمر گزارے ہوں گے اللہ کے نزدیک ان کے بہت بلند درجے ہیں اس لئے کہ اللہ ان کے کاموں کو جو دنیا میں اس کی رضا جوئی کے لئے کر رہے ہیں دیکھتا ہے بنی آدم میں جبکہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی کسی کے خوش کرنے کو اپنے پر تکلیف شاق اٹھاتا ہے تو وہ اس کی قدر کرتا ہے اللہ تو بندوں کے حال پر بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے عام انسانوں پر اور مسلمانوں پر خصوصاً کتنا بڑا احسان کیا جبکہ انہیں میں سے ایک آدمی رسول کرکے ان کے سکھانے کو بھیجا جو اس کی آیتیں پڑھ کر ان کو سناتا ہے۔ اور ان کو بری خصلتوں شرک کفر حسد کبر وغیرہ سے پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب الٰہی اور تہذیب روحانی سکھاتا ہے ورنہ پہلے تو سخت غلطی میں تھے ہرقسم کی خرابیوں میں مبتلا تھے پھر کیا مسلمانو ! اس نعمت کی شکر گزاری یہی ہے کہ جب تمہیں جنگ احد میں کچھ تکلیف پہنچی جس سے دگنی تم ان کو پہنچا چکے تھے تو بڑے حیران ہو کر تم بول اٹھے کہ یہ کہاں ہے آگئی (اے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان سے کہدو کہ اصل میں تو سب تکلیف اور راحت پہنچانے والا وہی اللہ ہے مگر بظاہر ایسی تکالیف پہنچنے کی کئی ایک وجوہ ہیں جن پر خیال کرکے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ یہ تکلیف تمہاری ہی طرف سے ہے کیونکہ تم رسول کا بتلایا ہوا مقام چھوڑ کر اور طرف چلے گئے۔ جنگ احد میں آنحضرتﷺ نے ایک مقام پر جس کی حفاظت اور روک ضروری تھی چند مسلمانوں کو کھڑا رہنے کا حکم دے کر تاکید فرمائی کہ خواہ ہماری فتح ہو یا شکست تم اسی جگہ ٹھیرے رہنا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کفار بھاگ گئے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوئے تو چند نوجوانوں نے وہ مقام چھوڑ دیا کفار نے وہ مقام خالی پاکر پھر حملہ کیا مسلمان خالی الذہن فتح کے نشہ میں غافل تھے ناگہانی حملہ سے گھبرا کر بھاگے تو فتح سے ہزیمت ہوگئی اناللہ الخ اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے۔ ثنائی۔ مگر تمہیں اس سے شکستہ خاطر نہ ہونا چاہئے آخر کار تمہارے ہی نام کی فتح ہے گو بالفعل تم آزردہ دل ہورہے ہو لیکن تمہاری آزردگی جلد مٹ جائے گی اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اور جو تکلیف تم کو دو لشکروں کے مقابلہ کے روز جنگ احد میں پہنچی اس سے بھی آزردہ خاطر نہ ہوئے اس لیے کہ وہ بھی اللہ کے حکم سے تھی جس میں تمہیں ثواب پہنچانے کے علاوہ یہ حکمت بھی تھی کہ اللہ پختہ مومنوں کو تمیز کرے اور نیز ان لوگوں کو جدا کرے جو دل میں نفاق رکھتے ہیں۔ اور جن کو ایماندار لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں کفار سے لڑو یا اگر لڑ نہیں سکتے ہو تو بوجہ ہجوم کے کفار کو ڈرا کر مدافعت کرو ان کے کہنے پر عمل تو کجا بلکہ ایک غلط عذر کرکے ان کو ٹال دیا بولے اگر ہم لڑنا جانتے تو تمہارا ساتھ دیتے مگر کیا کریں ہم تو لڑائی کرنا بھی نہیں جانتے بغیر جاننے کے میدان میں بغلیں بجاتے ہوئے جانا کیا فائدہ یہ ایک غلط عذر کرکے ان کو ملاتے رہے اصل یہ ہے کہ وہ اس روز نسبت ایمان کے کفر کی طرف بہت جھکے ہوئے تھے۔ اپنے منہ سے وہ باتیں اخلاص مندی کی کہہ رہے تھے جو ان کے دل میں نہ تھیں۔ تو کیا ان کو ظاہرداری کی باتیں کچھ مفید ہوں گی ہرگز نہیں جو چھپارہے ہیں اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے یہ دو رخے لوگ وہی تو ہیں جنہوں نے گھر بیٹھ کر اپنی برادری کے لوگوں کی نسبت کہا کہ اگر یہ مسلمان لوگ ہمارا کہا مانتے اور جیسا کہ ہم نے ان کو کہا تھا جنگ میں نہ جاتے تو مارے نہ جاتے تم اے نبی ان سے کہہ کہ جو مرتا ہے اپنی اجل سے مرتا ہے یہ لوگ جو مرے ہیں اپنی اجل سے مرے ہیں ایسا ہی جب تمہاری تقدیر آئے گی تم بھی چلو گے ذرہ اپنی جان سے تو موت کو ٹال دیجیئو اگر تم سچ بولتے ہو کہ تدبیر سے جان بچ جاتی ہے اور یہ بھی ان کا غلط خیال ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ جانتے ہیں جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں تم مسلمانان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ در اصل زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں اللہ کے دیے ہوئے فضل سے خوشی مناتے ہیں شان نزول :۔ (لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ) جنگ احد میں قریباً ستر مسلمان شہید ہوئے تو ان کے رشتہ دار حسب تقاضائے طبیعت طول ہوئے اور آپس میں ماتم پرسی کے طور پر افسوس سے کہیں کہ فلان مر گیا چونکہ ان الفاظ سے اہل میت کو اکثر رنج ہوا کرتا ہے ان کے دفعیہ کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم التنزل) اور ان لوگوں کی طرف سے جو ان کے پیچھے ہیں اور ہنوز ان کو نہیں ملے یعنی زندہ مسلمانوں کی طرف سے بھی خوش خبری چاہتے ہیں کہ ان کو بھی شہادت نصیب ہو تاکہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو اور نہ کسی قسم کے غم میں مبتلاہوں اب بتلائوکہ ان کا تو یہ حال ہے اور یہ جھوٹے مکار کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے بنے رہتے تو نہ مرتے گویا یہ ان کے شہید ہونے پر رنج کرتے ہیں اور وہ اللہ کی رحمت اور مہر بانی کے ساتھ خوشیاں منا رہے ہیں اور بڑی خوشی ان کو یہ ہے کہ اللہ ایمان داروں کا اجرضائع نہیں کرتا جس سے ان کو بروز قیامت اور بھی اعزاز کی امید ہے شہادت تو بلا ریب ایک اعلی درجہ ہے لیکن جن لوگوں نے بعد تکلیف پہنچنے کے بھی اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کی وہ بھی شہداء کے قریب قریب ہیں اس لئے کہ ان نیکو کاروں اور پرہیز گاروں کے لئے بھی بڑا اجرہے شان نزول :۔ (اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا) بعد واپسی جنگ احد کے مشرکین مکہ نے راہ میں مشورہ کر کے ایک آدمی کو مدینہ میں اس غرض سے بھیجا کہ وہاں جا کر مشہور کرے کہ تمہارے مقابلہ کو کئی ہزار آدمی جمع ہو رہے ہیں۔ ابھی تم پر حملہ ہوگا۔ جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو آپ نے چند صحابہ کو اس خبر کی تحقیق کے لئے بھیجا۔ جن میں خلفائے راشدین ابوبکر۔ عمر۔ عثمان۔ علی (رض) بھی تھے۔ جب یہ بزرگ وہاں پہنچے تو وہ خبر غلط نکلی۔ وہاں پر ایک منڈی لگا کرتی تھی وہاں سے انہوں نے مال خریدا اور مدینہ میں لا کر فروخت کیا۔ جس میں بہت سا نفع پایا۔ اس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ راقم کہتا ہے اس آیت سے حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اور عثمان ذوالنورین اور سیدنا علی علیہم السلام کی بزرگی اور شجاعت اور اخلاص اعلیٰ درجہ کا ثابت ہوتا ہے۔ منہ بعد تکلیف کے بھی فرانبرداری کرنے والے وہ لوگ ہیں جنکو بعض لوگوں نے خوف دلا نے کی نیت سے آکر کہا کہ سب لوگ تمہارے مارنے کو جمع ہورہے ہیں تو تم ان سے ڈرتے رہو اور اسلام کو چھوڑ کر ان سے موافقت کرلو پس ان کو بجائے خوف کے ایمان میں ترقی ہوئی اور بولے کہ اگر لوگ ہماری ایذا رسانی پر جمع ہورہے ہیں تو کچھ پروا نہیں اللہ ہم کو کافی ہے اور وہ بہت ہی اچھا کار ساز ہے جس مقام پر کفار کا جمع ہونا انہوں نے سنا تھا فوراً وہاں پہنچے اور کسی دشمن کو نہ پایا پھر وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس آئے وہاں پر انہوں نے سوداگری کا مال خریدا جس میں انکو مدینہ میں بہت سا نفع ہوا اور ان کو کچھ بھی ضرر نہ پہنچا اور اللہ کی مرضی پر چلے جس کے بدلے میں اللہ نے ان کو بھی خوشی دکھائی کیونکہ اللہ بڑے فضل والاہے اس میں شک نہیں کہ ڈرانے والا شیطان کا ایک چیلا تھا جو اپنے دوستوں (کفار) سے ڈرارہا تھا اس کے دوستوں سے نہ ڈرو وہ کچھ بھی ضرر نہیں دے سکتے میری مرضی پر چلو اور مجھ ہی سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو آخر کار تمہارے ہی نام کی فتح ہوگی گو بظاہر ان دنوں کفار جوش وخروش کر رہے ہیں میں اے نبی تو کفر میں کوشش کرنے والوں کی فکر نہ کر کتنی ہی کوشش کریں ہرگز اللہ کے دین کا کچھ نہ بگاڑیں گے انجام کار ذلیل وخوار ہوں گے اللہ کو منظور ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہ کرے اور ان کو بڑا عذاب ہوگا اس لئے کہ اللہ کے ہاں عام دستور ہے کہ جو لوگ ایمان کے عوض کفر اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا کچھ کھوتے ہیں اور ان کو دکھ کی مار ہوگی کافر ہرگز گمان نہ کریں کہ ان کو ہمارا ڈھیل دینا ان کے لئے بہتر ہے چونکہ وہ بوجہ اپنی بدکرداری کے ہماری جناب سے مردود ہیں ہم صرف اس لئے ان کو ڈھیل دے رہے ہیں کہ اور بھی گناہ کریں ان کو ذلت کا عذاب ہوگا اسی طرح کفار جنگ احد سے اپنی سلامتی اور مسلمانوں کی تکلیف کو اپنی عزت اور ان کی ذلت نہ سمجھیں اس میں حکمت اللہ کریم یہ ہے کہ اللہ کو منظور نہیں کہ مومنوں کو تمہاری موجودہ حالت پر چھوڑ رکھے جب تک کہ بسبب تکالیف چند در چند کے ناپاک کو پاک سے علیحدہ نہ کرے جس سے تم کو دوست دشمن میں تمیز ہوجائے اور بغیر ان تکالفا کے اللہ کو منظور نہیں کہ تم کو غیب کی خبر بتلائے کہ فلاں شخص تم میں منافق ہے اور فلاں شخص ضعیف الایمان ہے ہاں اللہ اپنے رسولوں کو اس اطلاع کے لئے چن لیا کرتا ہے سو ان کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں شخص منافق ہے فلاں تمہارا دشمن ہے اس کے دائو سے بچتے رہیو پس تم اللہ اور رسول کی بات مانو جو کچھ وہ ارشاد کریں اسے بسرو چشم تسلیم کروکیونکہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو خواہ تمہاری جان یا تمہارے مال کے متعلق ہو مانو گے اور اس کے حکم کے موافق پر ہیزگاری کرو گے تو تم کو بڑا ہی اجر ملے گا بعض دنیا داروں کو اللہ اور رسول کے حکم ماننے سے اور کوئی امر بجز اس کے مانع نہیں ہوتا کہ اللہ اور رسول نیک کام میں مال خرچ کرنے کا ان کو حکم کرتے ہیں اور وہ اس کو پسند نہیں کرتے کہ کسی فقیر کو پھوٹی کوڑی بھی دیں بلکہ مال کو جمع کرنے میں اپنی عزت اور بھلائی جانتے ہیں سو اللہ کے دیے میں بخل کرنے والے اس بخل کو اپنے لئے بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کو انجام کار مضر ہوگا وہ اسی مال کا جس کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن طوق پہنایا جائے گا در اصل وہ خرچ کرنا انہی کو مفید تھا اسی لئے اللہ ان کو حکم کرتا ہے ورنہ یوں تو آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ہر پہلو اس کا جانتا ہے جس نیت اور جس خیال سے کرو گے اس کے موافق بدلہ دے گا آل عمران
160 آل عمران
161 آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 آل عمران
165 آل عمران
166 آل عمران
167 آل عمران
168 آل عمران
169 آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 آل عمران
173 آل عمران
174 آل عمران
175 آل عمران
176 آل عمران
177 آل عمران
178 آل عمران
179 آل عمران
180 آل عمران
181 (181۔188)۔ بے شک اللہ نے ان لوگوں کی بات چیت سن لی ہے جو خرچ کرنے کے حکم میں اپنی غلط فہمی سے سمجھے کہ اس میں اللہ کا اپنا فائدہ ہوگا جب ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ محتاج ہے۔ اور ہم مالدار ہیں کیونکہ وہ ہمیں بار بار خرچ کرنے کا حکم کرتا ہے شان نزول :۔ (لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ) مخالفین اسلام نے زکوٰۃ کا حکم سن کر طعناً اور مسخراً کہا ہم غنی ہیں اور اللہ فقیر ہے جب ہی تو ہم سے زکوٰۃ مانگتا ہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یاد رکھیں ہم بھی ان کی یہ بے ہودہ بات اور انبیاء کو ناحق قتل کرنا دونوں لکھ رکھیں گے تاکہ وقت پر ان کو انکار کی گنجائش نہ رہے اور بروز حساب ان کو کہیں گے کہ لواب آگ کا عذاب اپنی بد زبانی کے عوض میں چکھو تم جانتے ہو کہ یہ عذاب تم کو کیوں ہوا یہ ان کاموں کی وجہ سے ہے جو تم نے دنیا میں اس دن کے لئے پہلے بھیجے تھے۔ اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ بندوں کے حق میں ظالم نہیں کہ بد معاشوں اور بد زبانوں کو چھوڑ دے اور نیکوں کے برابر ان کو کر دے جو ایک قسم کا ان پر ظلم ہے اس لئے کہ اس کی حکمت اور عدالت کا تقاضا ہے کہ ظالموں اور بے ایمانوں کو ضرور سزادیوے یہ وہی تو ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ اللہ نے ہم سے کہہ رکھا ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس سوختنی قر بانی نہ لاوے جسکو آگ جلاوے یعنی ہمارے طریقہ کے مطابق سوختنی قر بانی کرے اور اس کا حکم دے یہ ایک بہانا صرف ہٹ دھرمی کا ہے ورنہ کوئی حکم اللہ نے ایسا نہیں دیاتم اے رسول کہہ دو کہ بے شک مجھ سے پہلے کئی ایک رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور وہ چیز بھی لائے تھے جو تم نے بتلائی ہے پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا تھا اگر تم اس بات میں سچے ہو جب اس کا جواب کچھ نہ دیویں اور نہ کچھ دیں گے پھر اگر تجھ کو جھٹلا دیں تو تو غم نہ کر اس لئے کہ بہت سے رسول تجھ سے پہلے جھٹلائے جا چکے ہیں حالانکہ وہ دلیلیں روشن یعنی معجزے اور کتب سماوی یعنی کتاب روشن صاف ہدائت والی بھی لائے باوجود اس کے انہوں نے محض اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چل کر انبیا کو ناحق قتل کیا اور آخر کار خود بھی بڑی ذلت سے ہلاک ہوئے ایسا ہی تم بھی اے عرب کے نادانو اور اہل کتاب کے پیشوائو اپنی خواہش نفسانی سے اس رسول کی تکذیب کرو گے تو جان رکھو کہ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے تم بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہ رہو گے بلکہ آخر مرو گے اور قیامت کے روز اپنے اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیے جائو گے یہاں کے چند روزہ مزے کسی کام نہیں اصل عیش تو اخرت کا ہے پس جو کوئی اس روز آگ کے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد پا گیا باقی رہا دنیا کا چند روزہ عیش جس کے لئے تم اتنی دقتیں اٹھا رہے ہو سو یہ دنیا کی زندگی کے مزے تو صرف دھوکے کی پونجی ہے اے مسلمانو دنیا میں حقیقی عیش کہاں ہے اور کس کو نصیب ہے دنیا میں تو تم اپنے مالوں اور جانوں میں آزمائے جائو گے اور ان لوگوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی اور نیز عرب کے مشرکوں سے بہت سی رنج کی باتیں سنو گے ان پر گھبرائو نہیں کیونکہ اگر تم ان کی تکلیفوں پر صبر کرو گے اور گھبراہٹ اور بے چینی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو گے تو تمہیں اس دنیا کے نقصان اور ان تکالیف کے عوض بہت بڑا اجر ملے گا اس لئے کہ یہ بڑی ہمت کا کام ہوگا اہل کتاب کی بد زبانی سے تو بالکل رنجیدہ خاطر نہ ہو یہ تو اس سے بھی بڑھ کر بد اعمالیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ اور اللہ کے حکموں کو ہیچ سنجھتے ہیں حالانکہ جب اللہ نے ان کتاب والوں سے وعدہ لیا تھا تو بہت تاکیدی حکم دیا تھا کہ ضرور اس کتاب کو لوگوں سے بیان کرنا ہرگز اس کو نہ چھپا نا اس وقت تو سب نے قبول کیا پھر انھوں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور بجائے بیان کرنے کے بغرض طمع دنیاوی اس کو چھپا کر اور اس کے عوض میں تھوڑے سے دنیا کے کھوٹے دام لے رہے ہیں کیونکہ اس کی سزا میں ان کو بہت ہی سختی اٹھانی ہوگی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ نادم نہیں ہوتے بلکہ الٹے خوش ہوتے ہیں سو ان جا ہلوں کو جو اپنے کردار (بد) پر خوش ہوتے ہیں اور بن کِئے نیک کاموں کے اپنی تعریف چاہتے ہیں یعنی نیک اعمال تو کرتے نہیں لیکن صلحا کہلانے کا شوق رکھتے ہیں ان کو عذاب سے خلاص نہ سمجھ بلکہ ان کو سخت درد ناک عذاب ہوگا وہاں پر ان کی تیز زبانی ایک نہ چلے گی اور نہ کسی طرف جا سکیں گے شان نزول :۔ (لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ) آنحضرتﷺ نے یہود سے ایک دفعہ ایک بات دریافت کی انہوں نے واقعی نہ بتلائی باوجود خیانت کے استحقاق شکریہ جتلانے لگے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ آل عمران
182 آل عمران
183 آل عمران
184 آل عمران
185 آل عمران
186 آل عمران
187 آل عمران
188 آل عمران
189 (189۔200)۔ اس لئے کہ تمام آسمان اور زمین کا ملک تو اللہ کا ہے پھرجائیں تو کہاں جائیں کتنا ہی اپنے آپ کو بچانا چاہیں اس کے عذاب سے کسی طرح چھوٹ نہیں سکیں گے وہ اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے جہاں ہونگے وہاں ہی ان کو عذاب پہنچائے گا اگر اس کی قدرت کا ثبوت چاہیں تو آسمان اور زمین کی پیدائش پر غور کریں کیونکہ آسمان و زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے کئی ایک نشان ہیں شان نزول :۔ (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ) فضول جھگڑوں سے منہ پھیر کر اصل مطلب کی طرف توجہ دلانے کو یہ آیت نازل ہوئی (معالم التنزیل) تم جانتے ہو عقل مند کون ہیں ہم بتا تے ہیں کہ جو کھڑے بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اللہ ہی کو یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور اس میں عجیب عجیب حکمتیں پاتے ہیں نہ کہ دنیاوی علمداروں کی طرح کہ جن کو بجز دنیاوی فوائد کے کسی طرح کا خیال ہی نہیں ان عقلمندوں کا خیال اصل بات کی طرف ہوتا ہے اسی لئے تو وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا تو نے اس عالم کو عبث نہیں بنایا عبث فعل کرنے سے تو پاک ہے بلکہ اس میں کئی حکمتیں اور غایتیں ہیں منجملہ یہ ہے کہ جو ان میں سے تیری قدرت کا ثبوت پاکر تجھ کو مالک الملک قادر وقیوم جانیں گے ان پر تیرا انعام و اکرام اعلی درجہ کا ہوگا اور جا اپنے فوائد دنیاوی مثلاً جہاز رانی کے لئے ان میں غور کریں گے اور تیری توحید اور اقرار ربوبیت سے بے غرض رہیں گے تو ان کو عذاب اٹھا نا ہوگا۔ سو تو ہم کو پہلی قسم کے لوگوں سے بنا کر آگ کے عذاب سے رہائی دے اے ہمارے مولا ! جس کو تو بسبب ان کی بد اعمالی کے جہنم میں داخل کرے گا تو سب کے سامنے اس کو ذلیل کرے گا ایسی ذلت جس سے اس کو کبھی نجات نہ ہوگی اور نہ تیرا وعدہ بدلے گا اس لئے کہ تو سچا ہے اور نہ ان ظالموں کا کوئی حمائتی ہوگا جو اس بلا سے چھڑائے اے ہمارے مولا قطع نظر ان دلائل کے جو آسمان اور زمین سے ہم نے سمجھے ہیں ایک اور وجہ بھی ہمارے سامنے کی ہے کہ ہم نے ایک پکارنے والے رسول یا نائب رسول کو ایمان کے لئے پکارتے ہوئے سناکہ لوگو اپنے پروردگار پر ایمان لائو پس اس کو سنتے ہی ہم تجھ پر ایمان لے آئے اے ہمارے مولا چونکہ اس ماننے میں ہماری کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے بلکہ محض تیری ہی رضاجوئی منظور ہے پس تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور انجام کار ہم کو نیک بختوں کے ساتھ فوت کو جیی اے ہمارے مولا جو تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے وعدہ کیا ہے بعد مرنے کے ہم کو عنائت کیجئیو اور قیامت کے روز ہم کو ذلیل نہ کیجیو ہم تیرے وعدہ کے موافق عزت افزائی کی امید رکھتے ہیں بے شک تو اپنے وعدے خلاف نہیں کیا کرتا پس ان کے دعا کرنے میں دیر نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے ان کو جواب دیا کہ تم گھبرائو نہیں بلکہ تسلی رکھو۔ میں ہرگز تم میں سے کسی کا کام ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس لئے کہ تم سب آپس میں ایک ہی ہو کیا عورتیں اور کیا مرد سب کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دوں گا پس سنو جب لوگوں نے دین کی حفاظت میں اپنا وطن چھوڑا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور دین کے دشمنوں سے لڑے اور مارے گئے ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو ایسے عمدہ باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اللہ کی طرف سے ان کو یہ بد لہ ملے گا اور علا وہ اس کے اللہ کے ہاں اور بھی نیک بدلہ ہے جس سے وہ نہایت محفوظ ہونگے یعنی خوشنودی اللہ تعالیٰ اصل انعام اور اصل عزت تو یہ ہے باقی رہی ظاہری بناوٹ سو چند روزہ ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں یہ آیت اولی الالباب سے یہاں تک کسی واقع کی حکائت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی اور ان کی دعائوں اور اللہ کی قبولیت کی ایک تمثیل ہے اس قسم کی تمثیلات قرآن مجید میں بہت ہیں عباد الرحمٰن والی آیت بھی اسی قسم سے ہے۔ اس قسم کی تفصیلات سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جس زمانے میں ہوں ان کے ایسا کرنے پر اللہ کی طرف سے یہی برتائو ہوتا ہے۔ والعلم عنداللہ۔ منہ جب ہی تو تجھ کو اے مخاطب کہا جاتا ہے کہ تو کافروں کے جوش وخروش کے ساتھ شہروں میں پھرنے اور ہر قسم کی سوداگری تاروں اور ریلوں کے ایجاد کرنے سے دھوکہ نہ کھائیو کہ اس سے تو ان کے دین کی مقبولیت سجھ کر بےدین بن جائے یہ تو تھوڑا سا دنیا کا اسباب ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا جہاں ان کو ہمیشہ تک رہنا ہوگا وہ بہت بری جگہ ہے ہاں جو لوگ ان میں سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے ایسے عمدہ باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ انہیں میں رہیں گے اللہ کے ہاں سے مہمانی کھائیں گے علاوہ اس کے جو نیک لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں موجود ہے وہ سب دنیا سے بہتر ہے اس انعام اکرام کو دیکھ کر بعض اہل کتاب بھی اللہ کو اکیلا مالک الملک مانتے ہیں اور جو کچھ تمہاری طرف نیز ان کی طرف اللہ کے ہاں سے تورات وانجیل اور قرآن اتارا گیا ہے اس کو بھی اللہ سے ڈر کر مانتے ہیں اور اللہ کے حکموں کے عوض دنیا کے تھوڑے پیسے حاصل نہیں کرتے انہی لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں بدلہ ہے بے شک اللہ اچھا بدلہ دینے والا ہے شان نزول :۔ (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ) بعض اخلاص مند لوگ یہود و نصارٰے میں سے اپنا دین چھوڑ کر مشرف باسلام ہوئے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئیں معالم التنزیل۔ اے مسلمانو ! یہ انعام واکرام اگر حاصل کرنا چاہو تو تکلیفوں پر صبر کیا کرو اور ایک دوسرے کو صبر سکھا یا کرو اور باوجود اختلاف رائے کے آپس میں ملے رہو اور بڑی بات یہ ہے کہ کہ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم انعام واکرام سے مراد پائو۔ شان نزول :۔ اصبروا مسلمانوں کو تکالیف پر صبر و شکم سکھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم آل عمران
190 آل عمران
191 آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 آل عمران
196 آل عمران
197 آل عمران
198 آل عمران
199 آل عمران
200 آل عمران
0 النسآء
1 اے لوگو چند احکام تم کو مالک الملک کی طرف سے سنائے جاتے ہیں ان کو سنو اور عمل کرو سب سے اول اور ضروری یہ ہے کہ اپنے مولا حقیقی پالنہار سے ڈرتے رہا کرو وہ مالک جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اس طرح کہ ایک جان یعنی آدم کو پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا یعنی بیوی پیدا کی پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کر کے تمام دنیا میں پھیلائے اور اس مالک الملک خدا وند عالم سے ڈرو جس کے نام سے تم ایک دوسرے کو بوقت ضرورت سوال کیا کرتے ہو اور نیز قطع رحم سے بچتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے اس ڈرنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبانی کہو کہ ہم ڈرتے ہیں اور عمل اس کے خلاف کئے جائو نہیں بلکہ اس کے سب احکام دل وجان سے مانو النسآء
2 منجملہ یہ ہے کہ یتیموں کے مال جو تمہارے پاس ان کی نا بالغی کے زمانہ میں سپرد کئے گئے ہوں (ان کو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائیں ) واپس دے دیا کرو اور اچھے کے عوض ان کو برا اور خراب نہ دیا کرو اور یہ بھی یاد رکھو کہ بوجہ ظاہری دنیاوی شرم کے سارا مال کھا جانے سے پرہیز کرتے ہو تو حساب کے ایچ پیچ میں لاکر ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر نہ کھائو جائو خبردار اس سے بچتے رہو اس لئے کہ یہ بڑا گناہ کا کام ہے شان نزول :۔ (وَاٰتُو الْیَتٰمٰی اَمْوَالَھُمْ) ایک شخص کے پاس حسب دستور اپنے بھتیجے خروسال یتیم کا کچھ مال امانت تھا بعد بلوغ جب اس نے طلب کیا تو چچا صاحب اکڑے اور انکاری ہوگئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ معالم النسآء
3 اور یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف کرو اگر تم کو ان یتیموں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو یعنی اگر تم اپنی طبیعت پر قابو نہ سمجھو تو ان سے نکاح نہ کیا کرو بلکہ اور عورتوں سے نکاح کیا کرو جو تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں خواہ ایک سے کرو خواہ دو سے خواہ تین سے خواہ چار سے پھر اس میں بھی ایک شرط ہے کہ اگر تم زیادہ عورتیں کرنے میں بے انصافی سے ڈرو تو بس ایک ہی منکوحہ رکھو یا در صورت نہ پانے منکوحہ کے لونڈی پر کفائت کرو یہ بے انصافی سے بچنے کا بہت اچھا ذریعہ ہے بس اسی پر صابر شاکر رہو (مَثْنٰی وَثُلٰثَ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اٹل قانون کے لحاظ سے مردوں کو حسب ضرورت متعدد ازواج کو نکاح میں لانے کی اجازت دی ہے اس مسئلہ (تعداد ازواج) کے متعلق تو مخالفین نے جس قدر ورق سیاہ کئے ہیں ان کا کچھ حساب نہیں کسی نے اس مسئلہ کی طفیل اللہ تعالیٰ کے پاک مذہب اسلام کو ظالم بتایا کسی نے آزادی بنی آدم کے مخالف کا خطاب عطا کیا کسی نے اپنے لکچروں میں کہا کہ ” اسلام سے بجز تعداد ازواج کے کچھ بھی روشنی دنیا میں نہیں آئی۔ غرض کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ لیکن یہ مسئلہ اپنی بنا قوی (قانون فطرت) کی وجہ سے ایسا مضبوط ہے کہ ایسے ویسے ہوا کے جھونکوں سے تو کیا بڑے بڑے زلزلوں سے بھی متاثر نہیں ہونے کا اس مسئلہ کی تصحیح اور مخالفین کے جوابات میں علماء اسلام نے بہت کچھ لکھا اور لکھتے ہیں اور لکھیں گے لیکن ہمارے خیال میں جب تک اس کی بنا اور قانون فطرت جس پر یہ مبنی ہے بیان نہ کیا جاوے کسی دوسرے جواب کا ذکر موزون نہیں اس لئے ہم اس قانون فطرت کو پہلے بیان کریں گے جس پر اس مسئلہ کی بنا ہے۔ نظام عالم میں دنیا کی مختلف چیزوں کی طرف نظر کرنے سے اتنا پتہ تو چلتا ہے کہ خالق کائنات نے ان سب چیزوں میں سے بعض کو مستعمل (کام میں لانے والی برتنے والی) اور بعض کو مستعملہ (قابل استعمال) بنایا ہے۔ بے جان چیزوں میں تو کچھ خفا نہیں کہ کپڑا برتن وغیرہ سب مستعملہ ہیں جانداروں میں بھی سوائے انسان باقی تمام حیوانات انسان کے مستعملہ ہیں مثلاً گھوڑا۔ اونٹ۔ ہاتھی۔ گائے۔ بیل۔ بھینس وغیرہ وغیرہ سب کے سب انسان کے لئے مستعملہ ہیں اور انسان ان کا مستعمل (برتنے والا ہے) اسی طرح انسان کی دونوں قسموں (مرد عورت) کو بھی دییں ع کہ ان میں بھی یہ دستور جاری ہے یا کہ دونوں مساوی ہیں؟ بعد غور اس نتیجہ پر پہونچنا کچھ مشکل نہیں کہ بیشک مرد مستعمل (برتنے والا) عورت مستعملہ ہے اس دعوٰی پر ہمارے پاس ہر طرح کے دلائل (فطری۔ عرفی۔ مذہبی) موجود ہیں۔ دلائل فطریہ (١) غرض تزوج میں مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے کیونکہ جب مرد جماع کرنا نہ چاہے عورت اس سے جبراً نہیں کرا سکتی ہاں مرد جبراً چاہے تو کرسکتا ہے جس سے صاف ثابت ہے کے مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے۔ (٢) آلہ استعمال مرد کو عطا ہوا ہے تو پھر مرد کے مستعمل ہونے میں کیا شک ہے؟ (٣) مرد عورت کی ظاہری شکل اور ہئیت بھی اس نسبت کو بیان کرتی ہے مرد کے چہرہ پر وقت بلوغت عموماً بالوں کا نکلنا اور عورت کا منہ ہمیشہ تک صاف رہنا جو اس کے مرغوب الطبع ہونے کا ایک قوی ذریعہ ہے اس نسبت کی قوی دلیل ہے۔ (٤) اولاد کے حق میں ان کا مشقت اور تکلیف شافہ اٹھانا حالانکہ وہ نطفہ یقینا مرد کا ہے اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ عورت مثل ایک مزدور کے مستعملہ ہے اور مرد اس کا مستعمل۔ (٥) مرد کا عموماً تنومند اور طاقتور ہونا یہاں تک کہ تمام طاقت کے کاموں کا (مثل جنگ ! وغیرہ) سب کا متکفل ہونا اور عورت کا اس سے بالکل سبکدوش رہنا اس امر کی دلیل یا قرینہ ہے کہ مرد مستعمل اور عورت مستعملہ ہے۔ داڑھی منڈانے سے چہروں کی صفائی رکھنے والے ان پر ذرا غائر نظر سے غور کریں۔ اس روشنی کے زمانہ میں بھی اس مسئلہ کے مخالفوں سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی عورتوں کو اس قابل بنا دیں کہ وہ بھی مثل مردوں کے میدان جنگ میں آسکیں افسوس ہے یورپ کے پادریوں پر عورتوں کو مساوی حقوق دلانے کے خواہش مند ہیں وہ بھی اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ عورتوں کو ملٹری (جنگی محکمہ) میں داخل کرا دیں کیسے قانون قدرت سے مقابلہ نہ ہوا خالہ جی کا حلوا ہوا۔ منہ دلائل عرفیہ یعنی وہ دلائل جن پر کل بنی آدم بلا لحاظ مذہب عمل کرتے ہیں (١) عموماً شادی کر کے خاوند کا عورت کو اپنے گھر میں لے جانا اور وقت نکاح کے کچھ دینا اور گھر میں لے جا کر اس پر مناسب حکمرانی کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ عموماً بنی آدم عورت کو مستعملہ جانتے ہیں۔ (٢) عموماً بازاروں میں عورتوں کا زنا کے لئے مزین ہو کر بیٹھنا اور مردوں سے عوض لے کر ان سے زنا کرانا اور مردوں کا عوض دے کر ان سے بدفعلی کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت بھی مثل دے کر اشیا مستعملہ کے ہے۔ (٣) عموماً ہر قوم کا عورتوں کو زیب و زینت سے مزین رکھنا اور اس زینت کو معیوب نہ سمجھنا بلکہ عورتوں کا بھی طبعی طور سے اس طرف مائل رہنا اس امر کا ثبوت ہے کہ کل قومیں عورت کو مستعملہ جانتی ہیں۔ اس امر کا زیادہ ثبوت لینا ہو تو ہمارے ملک کے ہندئوں کی چال دیکھئے کہ کس طرح سے عورتوں کو زینت لگا کر بازاروں میں گشت کرایا کرتے ہیں اور کسی طرح سے معیوب نہیں جانتے بلکہ جنٹلمین عیسائیوں کی عورتیں بھی مردوں کی نسبت سبک کمر اور دیگر لوازمات ضروریہ سے مزین رہتی ہیں۔ ١٢ ( ) ٤) عورت کا حمل کی وجہ سے تکلیف اٹھا کر بھی ہر مذہب میں بچہ کا باپ کی نسل سے ہونا بھی اس امر کا قرینہ بلکہ دلیل ہے کہ عورت مستعملہ ہے۔) یہ دلیل اور دلائل فطریہ کی چوتھی دلیل آپس میں متغائر ہیں کیونکہ اس میں محض عورت کے حمل کا لحاظ ہے اور اس میں بچہ کی نسبت باپ کی طرف ہونے کا ذکر ہے۔ ١٢ منہ ( دلائل مذہبی یعنی وہ دستور العمل جو ہر مذہب والے بتعلیم مذہب مانتے ہیں سب سے پہلے اس امر میں ہم اپنے قدیمی مہربان عیسائیوں کی شہادت لیتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ میں بحیثیت مذہبی کیا فتوٰی دیتے ہیں عورت مستعملہ ہے یا نہیں عیسائیوں کا دستور العمل جس کا نام دعاء عمیم کی کتاب ہے دیکھنے سے ہماری تائید ہوتی ہے کہ عورت کو عیسائی بھی مستعملہ مانتے ہیں چنانچہ کتاب مذکور میں نکاح کی ترتیب کے بیان میں لکھا ہے۔ خادم الدین (پادری) مرد سے یہ کہے۔ فلانے (مثلاً زید) کیا تو اس عورت کو اپنی بیاہتا جورو ہونی قبول کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگانی گزارے گا۔ اور تو اس سے محبت رکھے گا اس کو تسلی دے گا اس کی عزت کرے گا اور بماکری و تندرستی میں اس کی خبر لے گا اور سب دوسروں کو چھوڑ کر دونوں کی زندگی بھر فقط اسی کے ساتھ رہے گا؟ مرد جواب دے۔ ہاں البتہ تب تسیس عورت سے کہے فلانی (مثلاً ہندہ) کیا تو اس مرد کو اپنا بیاہتا شوہر ہونا قبول کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب نکاح کی پاکیزہ حالت میں اس کے ساتھ زندگانی گذارے گی اور تو اس کے حکم میں رہے گی اور اس کی خدمت کرے گی اور اس سے محبت رکھے گی اس کا ادب کرے گی اور بیماری و تندرستی میں اس کی خبر لے گی اور سب دوسروں کو چھوڑ کر دونوں کی زندگانی بھر اسی کے ساتھ رہے گا عورت جواب دے ہاں البتہ۔ دعائے عمیم ص ٢٦٢۔ اس سے زیادہ تاکید دیکھنی ہو تو افسیوں ٨‘ ٢٢ ملاخطہ ہو۔ عبارت مذکورہ بالا ہمارے دعویٰ کی صریح شہادت ہے کہ عورت مستعملہ ہے اسی لئے تو اس کے ماتحت اور تابع رہنے کی پادری صاحب بھی وصیت کرتے ہیں جو مرد کو نہیں کرتے (پادری صاحب یہاں پر مساوی حقوق دلانا بھول گئے) اس کے بعد ہم اپنے پڑوسی ہندئووں کا رواج دیکھتے ہیں۔ رسالہ کھتری ہتکاری آگرہ میں یوں لکھا ہے۔ بچپن میں والدین کی اور بعد شادی کے شوہر کی مرضی مطابق چلنا ان (عورتوں) کا فرض قرار دیا ہے۔ اسی فرض کا انتقال شادی کنیاں (کنواری) کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بعد ادائے اس رسم کے اسی معنی پر وہ اپنے سوامی (خاوند) کے اقتدار میں آجاتی ہے۔ والدین کو اس بات کا حق حاصل نہیں رہتا کہ خلاف اس کے سوامی کی مرضی کے اپنی مرضی کو مقدم مان کر اس سے اس پر کاربند ہونے کے خواستگار ہوسکیں۔ باب ماہ مئی ١٨٩٦؁ء ایسے یہ دوسری شہادت ہندو دھرم کی منوجی مہاراج کے دھر شاستر سے درج ذیل ہے۔ عورت نابالغ ہو یا جوان یا بڈھی گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے۔ عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے۔ اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں۔ اور بعد وفات شوہر کے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے۔ باب ٥۔ فقرات ١٤٧۔ ١٤٨ آریوں نے تو عورت کو استعمال میں یہاں تک بڑھایا ہے کہ اگر کسی مرد کے نطفہ میں ضعف ہو جس سے اولاد نہ ہوتی ہو تو وہ خاوند عورت کو کسی دوسرے سے بذریعہ نیوگ ہم صحبت کرا کر اپنے لئے اولاد لے سکتا ہے) اس مسئلہ کے متعلق کچھ لطائف دیکھنے ہوں تو مرزا صاحب قادیانی ضلع گورداسپور کا رسالہ آریہ دھرم“ ملاحظہ کرو ہمیں ان لطائف کے بیان کا موقع نہیں۔ ١٢ ( اس مسئلہ کو سوامی دیانند بانئے فرقہ آریہ سماج نے اپنے متعدد رسالوں ستیارتھ پرکاش وغیرہ میں بیان کیا ہے غرض دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو ہمارے اس دعویٰ (عورت کے مستعملہ ہونے) کے خلاف کہنے کی جرأت کرسکے اگر کرے گا تو قانون قدرت کی مضبوط بنا اور زمانہ کا رواج اور تمام اہل مذاہب کا برتائو اس کی تکذیب کریں گے۔ پس جب کہ عورت مستعملہ ! ہے تو کیا وجہ ہے کہ جب ضرورت مثل دیگر اشیاء مستعملہ (کرتہ کوٹ اچکن وغیرہ) کے اس کا تعدد جائز نہ ہو۔ اسی مضبوط بنا کی طرف اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف نے اشارہ کر کے مخالفوں کے تمام سوالوں کا دندان شکن جواب دیا ہے جہاں ارشاد ہے الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْ یعنی مردود کی حکومت عورتوں پر دو وجہ سے ہے ایک تو قدرتی (جس کی شہادت دلائل فطریہ دے رہے ہیں) دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد اپنی کمائی میں سے عورتوں کو خرچ وغیرہ دیتے ہیں۔ اس تقریر پر یہ شبہ کرنا جو عموماً اس مسئلہ کے مخالفین کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ ” مرد عورت لذات نفسانی میں برابر ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مرد کو متعدد نکاحوں کا حکم ہوا اور عورت کو ایک وقت میں صرف ایک پر قناعت کا ارشاد“ گویا قانون قدرت کا مقابلہ ہے جو کسی طرح سے چل نہیں سکتا۔ جب کہ قدرت نے جیسا کہ ابھی ہم ثابت کر آئے ہیں عورت کو مستعملہ بنایا ہے اور مرد کو مستعمل تو ان کو مساوی حقوق دینا یا دینے کا خیال کرنا گویا پانی کو اوپر کی طرف کھینچنا اور ہوا کو نیچے کی طرف لانا ہے ‘ ) پردہ داری کی جو اسلام میں تاکید ہے اسی بنا پر ہے کہ عورت مستعملہ ہے جس کے برہنہ رہنے سے بگڑنے کا اندیشہ ہے اس لئے مثل باقی اشیاء مستورہ کے اس کا محفوظ رہنا ہی مناسب ہے تفصیل اپنے موقعہ پر۔ ١٢ منہ ( علاوہ اس کے ہم بداہتہً دیکھتے ہیں کہ عورت مرد کی نسبت سے عموماً مواقع قدرتی (مثل حیض و نفاس وغیرہ) کی وجہ سے بہت ہی کمزور ہوتی ہے اور بسا اوقات اس میں کئی ایک امور مثل حمل وغیرہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جماع کو سخت مکروہ جانتی ہیں اس امر کا تجربہ ان لوگوں کو ہوتا ہوگا۔ جو حمل کے وقت اس امر پر غور کرتے ہوں گے یا علم طب سے ان کو کچھ واقفیت ہوگی۔ ہم اس فرق کی وجہ دوسرے طور سے بھی بضمن تقریر ثانی بیان کریں گے اور اس شبہ کا جواب بھی اسی تقریر میں دیں گے کہ اگر عورت مستعملہ ہے تو مثل دیگر اشیاء مستعملہ کے دو مالکوں میں بھی مشترک ہونے میں کیا حرج ہے۔ تقریر ثانی :۔ تقریر اوّل تو بلحاظ قانون فطرت کے تھی اب ہم اس مسئلہ کے فوائد پر لحاظ کرتے ہیں اور اس کے خلاف کے نقائص بتلاتے ہیں تاکہ ” سالے کہ نکوست از بہارش پیداست“ کے مطابق اس مسئلہ کا بھی کمال ظاہر ہو۔ سب سے بڑا فائدہ اس مسئلہ کا کثرت بنی آدم ہے اس امر (کثرت بنی آدم) کے ضروری اور اہم ہونے میں کس کو کلام ہے ذیل میں ہم ایک شہادت نقلی پیش کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ کثرت بنی آدم ایک ایسا اہم مسئلہ ہے کہ اس کی فکر میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام یورپ اور ایشیا وغیرہ ممالک بھی اس کو اہم سمجھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ذرائع نکالے جاتے ہیں مگر کیا مجال کہ کوئی ذریعہ اسلام کے بتلائے ہوئے ذریعہ کا مقابلہ کرسکے۔ پچھلے دنوں علی گڑھ گزٹ میں ایک مضمون کثرت بنی آدم کے متعلق نکلا تھا جو ہمارے دعویٰ کی شہادت کامل ہے جو یہ ہے۔ تکثر نفوس یعنی ترقی تعداد بنی آدم ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ یورپ کے ہر ایک گوشہ میں قابل غور و فکر قرارد دیا گیا ہے۔ فرانس کے ملک میں اس آخری زمانہ کے اندر انسانی تعداد میں ترقی نہ ہونے کے سبب سے وہاں کے منتظم اور علماء سیاست (پولٹیشن) کے اندر بہت اندیشہ پیدا ہوا اور جو کچھ تدابیر اس بارے میں کی جاسکتی ہیں ان کے اجرا میں گورنمنٹ فرانس برابر آگے کو قدم بڑھا رہی ہے۔ جرمنی میں اولاد کی بیشی میں ترقی دینے کے واسطے یہ تدبیر اختیار کی گئی ہے کہ جو اشخاص تین لڑکوں کے والدین ہوجائیں ان کی اعانت گورنمنٹ کے خزانہ سے کی جاتی ہے۔ اسقاط جنین (بچوں کے گرنے) کے سبب سے جو نقصان ترقی بنی آدم کے واسطے ہوتا ہے اس کے انسداد کرنے کے واسطے بعض ملکوں میں طرح طرح کی تدابیر کی گئی ہیں اور جہاں تک ممکن ہوسکا ہے اس کی روک کی گئی ہے خواہ اسقاط جنین کسی طرح سے ہو واضعان قوانین کی طرف سے اس کے جرم قرار دیئے جانے اور اس کے ارتکاب کرنے والے کے لئے سنگین سزائیں مقرر کئے جانے سے غرض صرف یہی ہے کہ ملک کی آبادی میں ترقی ہو۔ “ چونکہ تکثر نفوس کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے اور ہر ایک سلطنت اور گورنمنٹ نے اس کو نہایت ضروری اور اہم مسئلہ قرار دیا ہے اس وجہ سے وہ ملک اور قومیں جن میں توالدو تناسل زیادہ ہوتا ہے دیگر اقوام کی نظر تجسس کو اپنی طرف زیادہ مائل کرتی ہیں۔ “ مختصر علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گڑٹ ١٧ اکتوبر ١٨٩٦؁ء مضمون بالا سے ہمارے دعویٰ کا ثبوت ملتا ہے کہ کثرت بنی آدم نہایت ضرور مسئلہ ہے اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ اہم مسئلہ تعدد ازواج کی صورت میں آسانی سے طے ہوسکتا ہے یا وحدت کی حالت میں جس میں مرد کی تین برس مفت ضائع جائیں مثلاً آج اگر عورت کو حمل ہوا تو اس کے جننے کے وقت تک مرد کا اس کے ساتھ جماع کرنا اس مسئلہ (کثرت اولاد) کے لحاظ سے بالکل بے فائدہ ہے کیونکہ رحم کا منہ بند ہوچکا ہے اب اس میں نہ نطفہ جاسکتا ہے جاتے تو فائدہ نہیں بعد جننے کے کچھ مدت تو عورت میں خواہ مخواہ علاوہ ضعف کے طبعی کراہت بوجہ غلاظت آلود ہونے کے رہتی ہے نیز اس وقت میں جماع کرنے سے بچہ کو ضرر ہوتا ہے اس ضرر کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جن کو ایسے وقت میں جماع کرنے کا اتفاق ہوا ہو یا طبی قاعدہ سے واقف ہیں کیونکہ مرد کی حرکت سے عورت میں ضرور ایک قسم کی حرارت پیدا ہوتی ہے جس سے اس کے دودھ میں گرمی بڑھ کر بچہ کو ضرر ہوتا ہے اور اگر اس وقت (شیر خواری) میں حمل ثانی بھی ہوجائے تو اور مصیبت کیونکہ حمل کے ہوتے ہی دودھ بگڑ جاتا ہے ایسے وقت کا دودھ بچے کے حق میں ہر طرح سے مضر ہے اور دودھ کی مدت دو ڈیڑھ برس سے تو کیا ہی کم ہوگی۔ پس نئی حمل کے ملانے سے پونے تین برس کا مل یا کم سے کم سوا دو برس کا جماع اس مسئلہ کے لحاظ سے بالکل بے فائدہ ہے۔ ) یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں دودھ کی حالت میں جماع کرنے پر کسی قدر ناراضگی بھی آئی ہے گو حرام نہیں فرمایا۔ ١٢ منہ ( اگر یہ سوال ہو کہ دودھ پلانے کو اور عورت رکھی جاوے تو اس صورت میں نقصان کا اندیشہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ علاوہ اس کے کہ ہر ایک شخص کی مقدرت اور وسعت نہیں کہ وہ ہر ایک بچہ کے لئے ایک ایک دایہ بھی رکھ سکے۔ دایہ رکھنا بھی خلاف قانون فطرت ہے‘ کیونکہ قانون فطرت نے دودھ پلانے کے لئے ماں کو بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ بعد ولادت بلا کسی دوا اور تدبیر کے ماں کو دودھ آجاتا ہے اسی احسان کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے۔ اَلَمْ ! نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ وَھَدَیْنَاہ النَجْدَیْنِ کیا ہم (اللہ) نے انسان کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے۔ اور اس کو دو گھاٹیوں (ماں کے پستانوں) کی طرف راہ نمائی نہیں کی؟ (منہ) ( اور بعد چھوڑنے بچہ کے خود ہی بند ہوجاتا ہے اور اگر دودھ کے لئے دایہ بھی رکھی جائے تو بھی حمل کے نو مہینے اور بعد ولادت مدت خون کا نقصان تو کسی طرح سے پورا نہیں ہوسکتا پس اسی بھید سے اسلام نے تعداد ازواج کو جائز رکھا ہے جو بالکل قدرتی قانون کے مطابق ہے۔ اس صورت میں اسلام کا اگر کچھ قصور ہے تو یہ ہے کہ اس نے اس تعداد کو بلا تحدید نہیں چھوڑا بلکہ محدود کردیا اور ساتھ اس کے ایسا اختیار نہیں دیا کہ جو شخص چاہے کرسکے اور جس طرح چاہے معاملہ کرے بلکہ اس کو بھی بہت سی مناسب قیود سے مقید کیا جس کا کسی قدر ذکر ہم کریں گے۔ پس اس تقریر سے ان دونوں شبہوں کا جواب آگیا جن کے جواب دینے کا ہم نے اوّل وعدہ کیا تھا کیونکہ عورت کو اگر متعدد خاوندوں کی اجازت ہو تو اس مسئلہ (کثرت بنی آدم) کے لحاظ سے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک زمین میں جس میں تخم وغیرہ ایک کسان نے ڈالا ہو۔ دوسرے کو اس میں تخم ڈالنے کی اجازت دی جائے جسے کون نہیں جانتا کہ بیہودہ پن ہے اسی طرح اگرچہ عورت مستعملہ ہے اور مرد مستعمل ہے لیکن عورت کے استعمال سے جن نتائج کی بلحاظ اس مسئلہ (کثرت بنی آدم بلکہ توالدو تناسل) کے امیر ہے وہ اس کے اشتراک کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتے علاوہ اس کے اس صورت میں اولاد مشتبہ رہ کر کس کے نام سے کھلاوے گی مثلاً ایک مسماۃ ہندہکے چار خاوند۔ زید۔ عمر۔ بکر۔ خالد ہیں۔ اب ہندہ کے حمل کا کون دعویدار اور مربی ہوگا۔ جب کہ سب کے حقوق مساوی ہیں اگر سب نے اس کی پرورش کا ذمہ لے بھی لیا اور اشتراک سے کام چلا بھی لیا تو نسبت کا کیا انتظام آخر نسبت اولاد کی تو ایک ہی باپ کی طرف ہوگی جو صورت مذکورہ میں محال ہے کیونکہ ترجیح بال مرحج لازم آتی ہے پس ایک عورت کے متعدد نکاح کرنے کی صورت میں یہ خرابیاں ہیں۔ جن کی وجہ سے اسلام نے عورت کو اجازت نہیں دی بلکہ مرد کو دی جو سراسر قانون فطرت کے موافق ہے ھٰذا مما تفردت بہ بالھام اللہ تعالیٰ لعلک لاتجد مثل ھٰذا فی غیر ھٰذا التعلین۔ اب ہم ان ہدایات کا کسی قدر مختصر سا ذکر کرتے ہیں جو اسلام نے تعدد ازواج کے متعلق فرمائی ہیں عام طور پر حسن سلوک کی ہدایت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ عاشروھن بالمعروف (نسائ) عورتوں سے نیک سلوک کیا کرو۔ ایک جگہ فرمایا۔ {وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنْ فَعِظُوْھُنَّ وَاْھُجُرْوُھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنُکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا } (نسائ) جن عورتوں سے تم مخالفت اور سرکشی پائو تو پہلے ان کو وعظ و نصیحت کرو پھر بھی نہ مانیں تو ان کو بستروں سے الگ کر دو اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو ان کو خفیف سا مارو پس اگر اتنے سے تمہاری تابعدار ہوجائیں تو ان کی تکلیف کی راہ نہ نکالو۔ خاص اسی مسئلہ (تعداد ازواج) کے متعلق صاف لفظوں میں فرمایا ہے۔ فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّتَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ مگر تمہیں بے انصافی کا خوف ہو تو ایک ہی پر گذارہ کرو یا صرف لونڈی باندیوں سے جو تمہاری بیویوں کی طرح ہیں تباہ کرتے رہو۔ “ اب ہم ان ہدایات کا کسی قدر مختصر سا ذکر کرتے ہیں جو اسلام نے تعدد ازواج کے متعلق فرمائی ہیں عام طور پر حسن سلوک کی ہدایت اس سے اسلام تمام بنی آدم کو جن مساوی نظر سے دیکھتا ہے دنیا میں شاید ہی کوئی مذہب ہوگا۔ میراث کے بارے میں بیٹا بیٹی دونوں کو حصہ دلاتا ہے۔ مرد کو عورت کا وارث بناتا ہے تو عورت کو بھی مرد کے ترکہ سے حصہ مقرر دلاتا ہے عورت کے مال سے مرد کو بالکل بے تعلق بتلاتا ہے حتی کہ زرمہر میں سے بھی مرد کو اختیار نہیں کہ بدون اجازت عورت کے کچھ دبالے چنانچہ ارشاد ہے۔ {وَاٰتُوْ النِّسَآئَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیِئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْئًا مَّرِیأً} (النسائ) عورتوں کو ان کے مہر خوشی بخوشی بغیر کسی دل آزاری کے دیا کرو پھر اگر وہ اپنی مرضی سے اس میں سے کچھ چھوڑیں تو اسے بخوشی خاطر لے لو۔ ذرہ اس کے مقابل انگلستان جیسے مہذب ملک کا حال بھی سن لو کہ وہاں عورتوں کی بجز تھیٹر ہال کے تماشہ دیکھنے کی کچھ اور وقعت بھی ہے۔ ) یورپ کے ملکوں کو لوگ مہذب کہا کرتے ہیں اسی بنا پر ہم نے بھی یہ لفظ (مہذب) لکھا ہے ورنہ حقیقت میں یورپ جیسا کوئی ملک مخرب اخلاق دنیا بھر میں نہ ہوں گا جہاں کروڑ روپیہ کی شراب کے جہاں کروڑ ہا حرامی بچے پیدا ہوں جہاں مرد و عورت تالابوں میں ننگے نہائیں جہاں سربازار حسین عورتیں بوسہ نیلام کرائیں وغیرہ وغیرہ وہ ملک مہذب ہوسکتا ہے؟ تعوذ باللہ منہ ( ” عورتوں کے حقوق کے باب میں قدم رسوم سے قطع نظر کر کے صرف انگلستان کے قانون کو دیکھا جاوے کہ ان لوگوں نے باایں ہمہ اصلاح وہ تہذیب عورتوں کے حق میں کیسے جور اور حیف کو جائز رکھا ہے اور مردوں کی خود رائی کے ان کو تابع کردیا ہے۔ نکاح کے بعد بہت سے احکام میں عورت کی ذات ہی قائم ہی نہیں رہتی وہ اپنے نام سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکتی اور اس کی ذاتی جائداد جو قبل نکاح سے حاصل کی ہو وہ بھی شوہر کی ملک میں آجاتی ہے اور اسے اختیار ہوتا ہے جیسے چاہے اسے صرف کرے۔ عورت کو اتنا بھی حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے نام سے یا اپنی ذات خاص کے لئے ضروریات خرید کرے یا منگوا بھیجے گو مرد پر نان و نفقہ عورت کا واجب ہے مگر انگلستان میں اس کی تعمیل کا کوئی صاف ذریعہ نہیں ہے اور نہ عورت کو روٹی کپڑے کی نالش کرسکنے کا حق ہے مگر کچھ ضمنی صورتیں نکالی گئی ہیں اور نیز بہت سے مدارج بدسلوکی اور اذیت کے ایسے ہیں جن کا کچھ چارہ نہیں۔ نہ عورت کی کوئی فریاد سنتا ہے نہ عدالت کچھ کرسکتی ہے۔ گو عورت اپنے شوہر سے مفارقت کر کے عرصہ تک الگ رہے مگر چونکہ جائداد وہ حاصل کرے گی وہ شوہر کی ہوگی۔ اگر عورت پیشتر کچھ بندوبست نہ کرائے تو عورت کا وہ مال و اسباب جو اس نے ایام مفارقت میں حاصل کیا ہے ــ۔ اس کے شوہر کے قرض خواہ اس سے لے سکتے ہیں مرد کو اپنی کل جائداد کا اختیار حاصل ہے چاہے وہ اپنی حین کو حیات میں غیروں کو دے جائے عورت کو کچھ نہیں مل سکتا۔ جب اسے دستور جاری ہوں اور مرد تنک مزاج اور موم کی ناک ہو تو عورت کی بڑی حق تلفی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بعض باتوں میں عورتوں کی رعائت اور مردوں کی حق تلفی بیع ہے۔ جرائم سنگین میں تو نہیں مگر اور جرموں میں اگر عورت اور مرد دونوں اس کے مرتکب ہوئے ہوں تو عورت سزا یاب نہ ہوگی۔ احسان (خاوند عادی) کی وجہ سے عورت کو یہاں تک آزادی ہے کہ زنا کی سزا سے بھی محفوظ ہے۔ اور اگر عورت اپنے شوہر کا کیسا ہی مال و متاع لے جاوے اس کی پرسش نہ ہوگی اگر کوئی غیر شخص صرف مال کے لالچ سے (بغیر زنا) عورت کے ساتھ اس کے شوہر کا مال نکلوا لے جاوے تو اکثر صورتوں میں دونوں میں سے ایک بھی سزا نہ پائے۔ غرض یہ سب افراط و تفریط کے بے موقع قانون ہیں جن کی مہذب قومیں پابند ہیں گو اب اس کے ابطال کے لئے بہت کچھ زور مارتے ہیں اور اس کی شناعت اور قباحت رفع کرنے کو حیلے بھی پیدا کئے ہیں مگر وہ امیروں کے لئے ہیں اوسط اور ادنیٰ درجہ کے لوگ ان سے محروم ہیں۔ البتہ سکاٹ لینڈ کے قانون بعض باتوں میں کچھ معقول ہیں مگر پھر بھی سب کے سب احکام الہٰی اور وحی کی اصلاح کی محتاج ہیں۔ (اسلام کی دنیوی برکتیں ص ١٨) منہ۔ النسآء
4 (4۔10) اور عورتوں کے مہر خوشی سے ان کو دیا کرو پھر اگر وہ بخوشی خاطر اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اس کو مزے سے بلا کھٹکا قبول کرلیا کرو اور بے وقوفوں عورتوں اور بچوں کو اپنا سارا مال جس کو اللہ نے تمہارا گزارا بنا رکھا ہے حوالہ نہ کردیا کرو ان میں سے ان کو کھلاتے پہناتے رہو اگر وہ زیادہ ہی تنگ کریں اور تم ان کو بوجہ نادانی اور کم فہمی کے دینا مناسب نہ جانو تو ان پر سختی نہ کرو بلکہ بھلی بات کہتے رہو کہ تمہارا ہی مال ہے میں تو اس کو تمہارے ہی لئے کماتاہوں وغیرہ وغیرہ اور جوانی تک پہنچنے تک گاہے بگاہے یتیموں کا امتحان کرلیا کرو پھر اگر ان میں کچھ ہوشیاری اور لیاقت پائو تو ان کے مال جو تمہارے پاس امانت رکھے ہوں دے دیا کرو شان نزول :۔ پہلی آیت کے موافق صحابہ (رض) نے یتیموں کا مال واپس کرنے کا وقت دریافت کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور ان کی شادی میں فضول خرچی سے اور ان کے بڑا ہونے کے ڈر سے پہلے ہی جلدی سے نہ کھا جا یا کرو کہ بڑے ہو کر تقاضا نہ کریں بلکہ اس مال کو بذریعہ تجارت بڑھائو جو آمین غنی ہو وہ اس کام کا عوض لینے سے پرہیز کرے اور جو فقیر ہو وہ اپنی محنت کا عوض دستور کے موافق ان کے مال سے لے لیا کرے پھر جب ان کو دینے لگو تو ان کے سامنے گوا کرلیا کرو با وجود اس کے اگر کچھ خیانت کرو گے تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی حساب لینے والا بس ہے ایسا بھی نہ کرو کہ یتیموں کے ماں باپ مرتے وقت ناحق کی فضول خرچیوں میں ان کا روپیہ اس خیال سے اڑا جائو کہ ہنوز یتیموں کے قبضہ میں نہیں آیا اس لئے ان کا نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ماں باپ قریبی چھوڑ جاتے ہیں اس میں لڑکوں کا حصہ ہوتا ہے ) شان نزول :۔ (لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ) ایک شخص انصاریوں میں سے فوت ہوگیا ایک بوہی اور تین لڑکئیں چھوڑ گیا اس کا سب مال حسب دستور مشرکین عرب اس کے چچا زاد بھائیوں نے سمیٹ لیا اس کی بیوی اور لڑکیوں کو کچھ نہ دیا اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ ( گو ان کے قبضے میں بالفعل نہ ہو اور ایسا ہی ماں باپ اور قریبیوں کے چھوڑے ہوئے مال میں لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ ) راقم کہتا ہے لڑکیوں کو حصہ دینا جیسا کہ مشرکین عرب پر دشوار تھا۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زائد زمانہ حال کے مسلمانوں پر ہے ان سب آفتوں کی جڑحب دنیا ہے جس کی بابت حب الدنیا راس کن خطیئۃ ارشاد وارد ہے۔ گو ان کے قبضے میں نہیں ہے اور نہ بوجہ اپنے ضعف عقل کے قبضہ کرسکتی ہیں خواوہ مال کم ہو یا زیادہ موافق شریعت کے جو آگے آتا ہے حصہ مقرر لیں گے اور جب بانٹنے کے وقت قریبی رشتہ دار مفلس (جن کا حصہ اس مال میں نہیں) اور غریب نادار یتیم بچے اور شہر کے مساکین آجاویں تو ان کو بھی اس مال میں سے احساناً کچھ دیا کرو وہ بھی مردہ کے لئے دعا گو ہونگے اور بغرض تسلّی ان کو اچھی بات کہا کرو وہاں ایسا بھی نہ کرو کہ ان سائلوں کو یتیم سمجھ کر ایسے خوش کرنے لگ جائو کہ تمام مال یا اس میں سے بڑا حصہ ان کو دے دو کہ جس سے ان یتیموں کا جو اصلی مالک ہیں حرج ہو اس کام سے پرہیز کرو خاص کر جو لوگ اپنی کمزور اور نابالغ اولاد کے پیچھے رہنے میں خوف کرتے ہیں۔ کہ کوئی ان کا مال ضائع نہ کرے۔ وہ تو اس معاملہ میں دل سے خوف کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ کہ ایسے کام کیوں کرتے ہیں۔ جس سے یتیموں کا حرج ہو اور اگر زیادہ ہی سائل پیچھے پڑیں تو ان کے جواب میں معقول بات کہیں صاحب ہمارا اس میں بس نہیں یہ مال یتیموں کا ہے ہم تو صرف تقسیم کرنے کا حق رکھتے ہیں جس قدر ہمارے اختیار میں تھا ہم نے بمشورہ دیگر ورثا تم کو دے دیا زیادہ ہماری وسعت میں نہیں اگر یتیموں کا مال بے جا خرچ کرو گے گو کسی دوسرے کو دو اللہ کے ہاں اس کا گناہ تمہارے ہی ذمہ ہوگا پھر یاد رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال بے جا طور سے کھاتے ہیں وہ جان لیں کہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں جس کا انجام یہ ہوگا کہ عنقریب وہ جہنم میں جائیں گے النسآء
5 النسآء
6 النسآء
7 النسآء
8 النسآء
9 النسآء
10 النسآء
11 (11۔14) یہی نہیں کہ اللہ تم کو غیروں کے مال کھانے سے روکتا ہے بلکہ مسلمانوں کی اولاد کے حصوں کی بابت حکم فرماتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے پھر اگر اس میت کی وارث لڑکیاں دو یا دوسے زائد ہوں تو ان سب کے لئے دو تہائی چھوڑے ہوئے مال میں سے ہے اور اگر ایک ہے تو اس کو نصف ترکہ ملے گا اور اس میت کے ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ ترکہ میں سے دیا جاوے بشرطیکہ میت کی اولاد بچہ بچی بھی ہو اور اگر اس کی اولاد نہیں ہے اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس صورت میں ماں کا ثلث ہے اور باقی سب باپ کا اور اگر میت کے چند بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے یہ سب حصص بعد ادائے وصیت کے ہیں جو میت کسی کے حق میں کر مرے اور بعد ادائے قرض کے جو کسی کا اس کے ذمہ ہو یعنی اگر میت قرض دار مرے تو واجب ہے کہ اس کا قرضہ ادا کرو اور پھر اگر کچھ وصیت کر مرا ہے تو اس کو موافق شریعت کے عمل میں لائو مال اس طرح بانٹو جس طرح ہم نے تم کو بتلایا ہے اور یہ نہ سمجھو کہ فلاں شخص زیادہ کا حقدار ہے اور فلاں شخص کم کا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ اور بیٹوں میں سے کون تم کو زیادہ نفع پہنچا سکتا ہے تعلیم کے مطابق کرو ہرگز اس کے خلاف نہ کرو اس لئے کہ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں جو کچھ اس نے حصے اس نے مقرر کئے ہیں وہی ٹھیک اور انصاف کے ہیں بے شک اللہ بڑے حلم والا بڑی حکمت والا ہے (یُوْمِیْکُمُ اللّٰہُ) اس آیت کے مضمون کی نسبت مسلمانوں کے دو گروہ سنی شیعہ مختلف ہیں۔ شیعہ اس کو عام اور سب لوگوں کے حق میں جانتے ہیں حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی شامل بتلاتے ہیں یعنی جس طرح ہمارے مال کے حصے ہمارے ورثہ میں ہوتے ہیں اسی طرح انبیاء اور بالخصوص سید الانبیاء کے مال کے حصے ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناب امیر المومنین ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے ترکہ نبوی تقسیم نہ کرنے سے یہ لوگ ناراض ہیں نہ صرف ناراض بلکہ ناراضگی کو داخل ایمان جانتے ہیں۔ شیعہ نے اس مسئلہ کی آڑ میں اکثر صحابہ کو عموماً اور شیخین کو خصوصاً وہ صلواتین سنائی ہیں کہ اللہ ان کو صلواتین ہی بنائے۔ افسوس اس گروہ اسلام نے اپنا وقت کسی اچھے کام میں نہیں لگایا ان کو طبقہ اولیٰ کا اتنا بھی لحاظ نہیں کہ ان کی طفیل ہم کو اسلام پہونچا بالخصوص ابوبکر (رض) (جن کے فضائل بعد تحریر مسئلہ فریقین کی کتابوں سے ہم نقل کریں گے) تو ایسا کچھ انہوں نے سب و شتم کا ہدف بنایا ہوا ہے کہ کہنے سننے سے باہر ہے کوئی تو ان کو منافق بتلاتا ہے (معاذ اللہ) کوئی کافر کہتا ہے (نعوذ باللہ) غرض آئے دن آنجناب والا کے اعدا کا نیا نام تجویز ہوتا ہے وجہ یہ کہ انہوں نے باوجود تقاضا جنابہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا (علی ابیہا علیہا السلام) کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مال سے ان کو حصہ نہیں دیا اور حدیث بیان کردی کہ پیغمبر (ﷺ) فرما گئے ہوئے ہیں۔ نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکناہ صدقت (بخاری) کہ ہم انبیاء کی جماعت ہیں ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ مگر شیعوں نے اس امر میں شیخ معدی کے قول گل است سعدی دور چشم دشمنان خاراست۔ کی خوب تصدیق کی واہ ! ظنوا المؤمنین خیرا پر عمل کرنے والے اور اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی سے ڈرنے والے کاش کہ آپ لوگ اس غیض و غضب میں آنے سے پہلے اپنی کتابوں کا مطالعہ کرلیتے بھلا صاحب اگر حضرت ابوبکر (رض) نے محض ایک بہانہ بنایا تھا تو کس فائدہ کو؟ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم جائداد ہوتی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی دختر نیک اختر ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) کو بھی تو حصہ ملتا۔ جب انہوں نے اپنی صاحبزادی بلکہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کی صاحبزادی کو بھی حصہ سے محروم رکھا تو اس کی کیا وجہ؟ کیا خود وبا لیا یا اپنی اولاد کے نام پر رجسٹری کرا دیا یا بیت المال میں داخل کرلیا آخر کیا تو کیا کیا؟ وہی کیا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) اپنی زندگی میں کیا کرتے تھے پھر اس سے ابوبکر (رض) کو فائدہ کیا ہوا۔ ہاں بقول شیعہ اہل بیت کو محض تکلیف رسانی منظور ہو تو اس حدیث کا کیا جواب جو شیعوں کی مشہور کتاب کلینی ! میں عن ابی عبداللّٰہ قال ان العلماء ورثۃ الانبیاء ذلک ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا وانما اور ثوا احادیث من احادثیھم فمن اخذ بشیء منھا اخذ حظا وافرا ابوعبداللہ کی روایت سے مرقوم ہے کہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اس لئے کہ انبیاء درہموں اور دیناروں کا و رثہ نہیں چھوڑا کرتے وہ تو اپنی (علمی) باتوں میں سے باتیں ورثہ دیتے ہیں پس جس نے ان باتوں میں سے کچھ لیا اس نے بڑا ایک حصہ عظیم لے لیا۔ (کلینی کتاب العلم) (یہ الفاظ ایک حدیث کا ٹکڑا ہیں جو شیعوں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہیو یعنی ان کی نسبت بدگمانی نہ کیجو۔ ١٢ یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے کلینی میں موجود ہے۔ ١٢) پس معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کی وجہ سے شیعوں کا رنج جناب صدیق اکبر اور فاروق اعظم (رض) سے اپنی بے خبری کا تقاضا ہے ورنہ دونوں گروہوں کی کتابوں میں اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ انبیاء کا ورثہ ان کی اولاد کو نہیں ملا کرتا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حدیث نبوی چونکہ مفسر قرآن ہے اس لئے اس کا یہ حق ہے کہ احکام عامہ قرآنی کے معنی بتلاتے ہوئے یہ بتلائے کہ اس عام کے سب افراد مراد ہیں یا بعض۔ اس تفسیر کو عرف اصول میں تخصیص کہتے ہیں علماء اصول کی اس میں گفتگو ہے کہ عام اپنے افراد پر یقینی اور قطعی دلالت کرتا ہے یا ظنی۔ عند جمھور العلماء اثبات الحکم فی جمیع مایتناولہ من الافراد قطعا ویقینا عند مشائخ العراق و عامۃ المتاخرین و ظنا عند جمھور الفقہا۔ والمتکلمین وھو مذھب الشافعی والمختار عند مشائخ سمرقند حتیٰ یفید وجوب العمل دون الاعتقاد ویصح تخصیص العام من الکتاب بخبر الواحد والقیاس۔ تلویح۔ جمہور اور اکثر کا مذہب ہے کہ ظنی جو لوگ قطعی مانتے ہیں وہ تو آیات کے عام حکم کو حدیث خبر واحد سے تخصیص نہیں کرتے۔ اور جو ظنی مانتے ہیں وہ خبر واحد سے بھی تخصیص جائز جانتے ہیں لیکن یہ اختلاف بھی ان کا اسی صورت میں ہے کہ عام کی تخصیص کسی حکم سے نہ ہوچکی ہو اگر تخصیص ہوچکی ہو تو پھر اس آیت کی تخصیص کرلینے میں مشکل نہیں۔ پس اس مسئلہ میں دونوں طرح سے باآسانی جواب ہوسکتا ہے۔ پہلا مذہب کہ عام قرآنی حکم کی تخصیص خبر واحد سے جائز ہے ہمیں اس موقع پر لینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں گو ہمارے نزدیک بھی صحیح ہے دوسرے مذہب پر بنا کر کے بھی ہم جواب باآسانی دے سکتے ہیں کیونکہ آیت تورٰیت مخصوص البعض ہے اس لئے خاص اس فرد میں تخصیص کرنا کس طرح منع نہیں۔ (کیونکہ راقم کے نزدیک عام ظنی ہے اس کے ظنی ہونے کے دلائل مذکورہ فی الاصول کے علاوہ یہ بڑی مضبوط دلیل ہے کہ خاص (زبد) کے ذکر معیوب کرنے سے گناہ اور غیبت لازم آتی ہے۔ اور اس کی ساری قوم (جس میں زید کا ہونا یقینی ہے) کے ذکر معیوب سے شرعاً غیبت نہیں اور قانوناً ہتک عزت نہیں۔ فتدبر۔) المانع من الارث اربعۃ الرق وکافرا کان او ناقصا والقتل الذی یتعلق بوجوب القصاص او الکفارۃ واختلاف الدینین واختلاف الدارین اما حقیقتاً کالحربی والذمی او حکما کالمستامن والذمے او الحرییین من دارین مختلفین (شرائع الاسلام۔ سراجی) باپ بیٹے میں سے ایک غلام ہو یا ایک دوسرے کا قاتل ہو یا ایک دو میں سے کافر ہو یا ایک دو میں سے اہل اسلام کی رعیت ہو اور دوسرا حربی کفار کی ہو تو وارثت نہیں ملتی۔ حالانکہ آیت سب کو شامل ہے کیونکہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے“ پس جیسے یہ افراد سب کے نزدیک اس حکم سے میٰثن ہیں اسی طرح نبی کی وراثت بھی مستثنے ہے دلیل اس تخصیص کی وہی حدیث ہے جو امام بخاری نے بروایت ابوبکر صدیق (رض) آنحضرتﷺ سے اور کلینی نے بروایت ابوعبداللہ موقوف و مرفوع بیان کی ہے۔ ہاں اگر یہ سوال ہو کہ جب انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث فریقین سے ثابت ہے تو ان آیات قرآنی کا کیا جواب ہے جن میں حضرت سلیمان کی وراثت حضرت دائود ( علیہ السلام) سے اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی وراثت کی دعا حضرت زکریا ( علیہ السلام) سے مذکورہے تو اس امر کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں وراثت مالی مراد نہیں بلکہ علمی مراد ہے قرینہ اس کا یہ ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کے اور کئی بیٹے بھی تھے حالانکہ ان کی وراثت کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان میں سے خاص کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) ہی کا ذکر کیا نیز اگر وراثت مالی ہوتی تو اس امر کا اظہار ہی کیا تھا کہ سلیمان ( علیہ السلام) دائود ( علیہ السلام) کا وارث ہوا جب کہ وہ بیٹا تھا تو وارث بھی تھا۔ اس بات کو علم اصول و معقول کے جاننے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ بدیھی کسی علم کا مسئلہ نہیں ہوتا یہی جواب حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی نسبت ہے کہ اگر وراثت مالی ہوتی تو قطع نظر اس سے کہ ایسے خیال کہ ہمارے مال کا ہم سے پیچھے کوئی وارث ہو انبیاء کی شان سے کو سوں دور ہیں اس امر کا ذکر ہی کیا ضروری ہے کہ مجھے بیٹا ہو جو میرے مال کا وارث ہو جب بیٹا ہوتا تو وارث بھی ہوتا علاوہ اس کے یہ کہ نہ صرف اپنی ہی وراثت کا مالک چاہا بلکہ آل یعقوب کی وراثت بھی اس کے لئے مانگی تو کیا آل یعقوب کا وارث سوا ان کے اور کوئی نہ تھا اپنے باپ کی وراثت ان کو کیسے مل سکتی تھی۔ جن کی حضرت زکریا ( علیہ السلام) نے درخواست کی حالانکہ خود ہی کہا کہ میں اپنے پیچھے اپنے موالی سے ڈرتا ہوں بھلا ان سب کا وارث یحییٰ ( علیہ السلام) کیسے ہوسکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آیت موصوفہ میں ان حضرات کا مالی ورثہ مراد نہیں بلکہ دینی خلافت ہے جو ہر طرح سے شان انبیاء کے لائق اور مناسب ہے۔ یہ تقریر ہماری (متعلقہ تخصیص آیت توریث اولاد) تنزل سے ہے ورنہ یہ حدیث تو ایسی ہے کہ اس سے تخصیص کرلینا کسی فریق کے نزدیک بھی منع نہیں کیونکہ یہ حدیث متواتر یا کم سے کم مشہور ہے اس لئے کہ تمام امت سلفا و خلفا سنی و شیعہ سب کے سب اس بات کو مانتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) کے ترکہ کی تقسیم نہیں ہوئی جس کی وجہ بھی باجماع امت یہ ہے کہ حضرت صدیق (رض) نے ایک حدیث اس باب میں بیان کی تھی کہ انبیاء کا ورثہ تقسیم نہیں ہوا کرتا جسے ایک فریق سنی تو صحیح مانتے ہیں اور دوسرے فریق شیعہ تسلیم نہیں کرتے مگر چونکہ وہ روایت ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے اس لئے ان کو بھی اس کی تسلیم سے چارہ نہ ہوگا۔ پس بہر حال حضرت صدیق (رض) تک متواتر ہوئی ان کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک چونکہ صحابہ نے سن کر اس امر سے انکار نہیں کیا تو ضرور ہے کہ انہوں نے بھی آنحضرت سے سنا ہوگا۔ پس حدیث ہذا احاد نہ رہی بلکہ متواتر یا کم سے کم مشہور ضرور ہوئی پس اس مسئلہ کے متعلق فرقہ نیچر یہ دور متعلق بہا منکرین احادیث بھی اگر اس بناء پر اعتراض کریں کہ احادیث احاد کا اعتبار نہیں چونکہ یہ مسئلہ (عدم تقسیم ترکہ انبیائ) حدیث پر مبنی ہے اس لئے صحیح نہیں۔“ تو ان کا جواب بھی ہماری تقریر بالا میں آگیا ہے کیونکہ قطع نظر اس بحث سے کہ احادیث احاد حجت ہیں یا نہیں خاص اس مسئلہ میں بطریق آسان ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث چونکہ متواتر یا کم سے کم مشہور ہے جو دونوں گروہوں کی کتابوں میں موجود ہے اس لئے اس پر اسی ٹوٹے پھوٹے ہتھیار سے حملہ کرنا کہ احادیث احاد حجت نہیں۔ صحیح نہیں۔ (متواترہ حدیث اس کو کہتے ہیں کہ جس کے بیان کرنے والے آنحضرت تک اتنے راوی ہوں کہ ان کی تعداد پر کذب کا احتمال نہ ہوسکے اور مشہور حدیث وہ ہے کہ صحابہ کے درجے میں راویوں کی کثرت رکھتی ہو۔ ١٢) بعد فراغت مسئلہ ہذا کے ہم حضرت ابوبکر راوی حدیث مذکور کے فضائل مختصر فریقین کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں۔ کل دنیا کی تاریخیں اس پر متفق ہیں کہ بعد پیغمبر (علیہ السلام) کے عرب کے مسلمانوں میں ایک عجیب ہل چل مچ گئی تھی ایک طرف مسیلمہ کذاب نے زور پکڑ کر اپنی نبوت کا نشان بلند کیا جس کے ساتھ کئی ایک قبیلے مل گئے دوسری طرف منکرین زکوٰۃ وغیرہ نے بغاوت شروع کردی یہاں تک کہ بجز مکہ مدینہ (زادھما اللہ شرفاً) شاید ہی کوئی ایسا مقام ہوگا جہاں پر بغاوت نہ پھیل گئی ہو اس سب بلائے ناگہانی کو صدیق اکبر (رض) نے بڑی متانت اور جوانمردی سے فرو کیا۔ ایک طرف مسیلمہ کذاب کو مارا دوسری طرف تمام ملک میں امن قائم کر کے صرف اڑھائی سال کی مدت خلافت میں دمشق تک فتح بھی کرلی آخر راہی ملک بقا ہوئے (رض) وارضاہ کیا ایسے مخمصونین میں کسی دشمن اسلام کا کام تھا جو ابوبکر (رض) نے کر کے دکھا دیا کیا یہ وقت ایسا نہ تھا کہ اگر ابوبکر صدیق ذرہ سی بھی غفلت کرتے تو اسلام عرب سے کیا کل دنیا سے اٹھ گیا ہوتا۔ میں سچ کہتا ہوں قطع نظر ان احسانات کے جو صدیق اکبر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اسلام اور اہل اسلام پر کیے تھے۔ جن کی بابت خود پیغمبر ﷺ بھی مظہر ہیں کہ : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالاحد عندنا یدا لا وقد کافیناہ ماخلا ابابکر (مشکوٰۃ باب مناقب ابی بکر) ” میں نے سب کے احسانات کا عوض دے دیا مگر ابوبکر (رض) کا عوض مجھ سے نہ ہوسکا۔ “ بعد وفات کا احسان مسلمانوں پر ایسا ہے کہ تاقیامت ان کی گردنیں اس کے لشکر سے سبکدوش نہیں ہوسکتیں۔ اس وقت جو کچھ اسلام کی تازگی یا نام و نشان ہے اس کے متعلق یہ کہتے ہیں بالکل مبالغہ نہیں کہ ابوبکر (رض) ہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے چونکہ یہ مضمون بے موقع ہے اس لئے بطریق اختصار علاوہ شہادت متفقہ مذکورہ بالا کے ایک ایک حدیث دونوں فریق (سنی‘ شیعہ) کی کتابوں سے نقل کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ عن عائشہ (رض) قالت قال لی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادعی ابابکر اباک حتی اکتب کتابا فانی اخاف ان یتمنی متمن ویقول قائل انا ولا ویابی اللہ والمومنون الا ابابکر (مشکوۃ باب مناقب ابی بکر) عائشہ صدیقہ (رض) نے کہا ہے کہ مجھے پیغمبر خدا صلعم نے فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر (رض) کو بلا کہ میں لکھ دوں اور فیصلہ کر دوں ایسا نہ ہو کہ کوئی متمنی اس بات کی تمنا کرنے لگے کہ میرے سوا کوئی خلافت کے لائق نہیں حالانکہ ابوبکر ہی اللہ کو اور سب مومنوں کو منظور ہے۔ (کیا ہی واقعی بات ہے) شیعوں کی مشہور کتاب کشف الغمہ فی معرفتہ الامئہ میں لکھا ہے کہ امام ابوجعفر سے کسی نے پوچھا کہ تلوار کے قبضہ کو چاندی سے مرصع کرلیا کروں امام نے فرمایا ہاں ابوبکر صدیق بھی اپنی تلوار کو چاندی سے مزین کرلیا کرتے تھے سائل نے کہا حضرت ! آپ بھی ابوبکر کی نسبت صدیق کہتے ہیں امام اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر بڑے زور سے فرمانے لگے کہ نعم الصدیق نعم الصدیق نعم الصدیق جو اس کو صدیق نہ جانے اللہ اس کو دنیا و آخرت میں سچا نہ کرے (اللہ چاہے ایسا ہی ہوگا) منہ۔ ابھی کچھ حصے باقی ہیں سو وہ بھی سنو ! اور تمہاری بیبیوں کے ترکہ میں سے بشرطیکہ انکی اولاد نہ ہو تمہارے لئے نصف مال ہے اور اگر انکی اولاد ہو تو تم کو ربع ملے گا یہ حکم بھی بعد وصیت کے ہے جو وہ مرتے ہوئے کر جائیں بعد ادائے قرض کے جو میت پر ہو اور تمہارے چھوڑے ہوئے مال سے ان (تمہاری بیویوں) کا حصہ ربع (چوتھائی) ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد بھی ہے تو ان کا آٹھواں حصہ ہوگا تمہاری وصیت اور قرض کے بعد اگر مرد یا عورت جس کی میراث بانٹنی ہے ماں باپ اور بیٹا بیٹی نہیں رکھتے اور ان کا ایک بھائی اور بہن ہے تو ہر ایک کے لئے ان دونوں میں سے چھٹا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زائد ہوں تو پھر وہ تہائی میں سب شریک ہوں بعد وصیت کی ہوئی کے اور بعد ادائے قرض کے جس سے کسی کا نقصان نہ کیا ہو یعنی ثلث سے زائد وصیت نہ ہو اور ناحق کسی کا قرض بوجہ محبت اپنے ذمے نہ لیا ہو اللہ کا یہی حکم ہے اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے اور ظالم اور مظلوم کو خوب پہچانتا ہے با وجود اس کے پھر عذاب میں جلدی نہیں کرتا اس لئے کہ بہت بڑے حلم والا ہے اپنے و سیع حوصلے سے بد اعمال لوگوں کو جلدی نہیں پکڑتا یہ حدود خداوندی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم پر چلیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نہ چند روزہ بلکہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے اور غور کرو تو یہی بڑی بھاری کامیابی ہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بے فرمانی کرے گا اور حدود خداوندی سے آگے بڑھ جائے گا کہ جو کچھ اللہ نے احکام بتائے ہیں ان کی پرواہ نہیں کرے گا اللہ اس کو دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا جہاں اس کو ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا اور علاوہ اس کے اس ذلت کا عذاب ہوگا النسآء
12 النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 (15۔23) احکام میراث کے بعد کچھ احکام تہذیب اور شائستگی بھی سنو ! بڑا بھاری تہذیب کے بگاڑنے کا ذریعہ زنا ہے اس کے لئے سب سے پہلے عورتوں کا انتظام ضروری ہے پس جو تمہاری عورتوں میں سے زنا کریں ان پر اپنے لوگوں (مسلمانوں) میں سے بد کاری دیکھنے والے چار گواہ مقرر کرلیا کرو پھر اگر وہ قاضی کے سامنے گواہی دے دیں تو بالفعل ان کی یہ سزا ہے کہ ان کو اپنے گھروں میں بند رکھو بالکل کہیں جانے نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر جائیں یا اللہ ان کے لئے کوئی حکم بتائے کہ جو متعلق سزا ہو جسے بھگت کر پھر وہ چھوٹ جائیں چنانچہ وہ حکم آگیا الزانیۃُ والزانی فاجْلِدوا کلَّ واحِدِِ منھما مِاَتہَ جَلْدَۃٍچونکہ صرف عورتوں کے رکنے سے زنا بند نہیں ہوسکتا بلکہ ایک اور ذریعہ بھی زانیوں کے لئے موجود ہے کہ لڑکوں سے بد کاری کریں سو اس کی بابت بھی سنو کہ جو دو مرد تم میں سے آپس میں وہی لوطیوں کا کام کریں اور وہ بشہادت ثابت بھی ہوجائے تو ان کو تکلیف پہنچائو اور زبانی بھی لعن طعن کرو کہ تم نے بہت بے جا کیا ہے جس سے تمہارے اعتبار اور نیک بختی میں فرق آگیاجب ہر طرف سے ان کو برا سننا ہوگا تو خود ہی اس فعل قبیح سے باز آجائیں گے پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنے اعمال درست کریں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو اللہ تعالیٰ بھی ان کو معاف کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے یہ بھی نہیں کہ ہر ایک کی توبہ قبولیت کو پہنچ جاوے بلکہ صرف انہی لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہے جو غلطی سے برے کام کرتے ہیں پھر جلدی سے توبہ کرتے ہیں ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے اللہ تعالیٰ کو سبھی کچھ معلوم ہے کہ کون دل کے اخلاص سے توبہ کرتا ہے اور کون نہیں کرتا اور وہ بڑی حکمت والا ہے اس قبول توبہ میں بھی اس کی کئی حکمتیں ہیں اور ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو مرتے وقت عذاب الہی دیکھ کر کہنے لگتا ہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں اور عذاب دیکھ کر کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے توبہ کی۔ ان کی توبہ کہاں ان کے لئے تو ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ایک اور امر بھی زنا کے پھیلنے کا بڑا بھاری ذریعہ ہے یعنی عورت مرد کی نا رضامندی جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ابتدا میں عورتوں کو مجبور کر کے نکاح کرایا جاتا ہے جیسا کہ عرب میں عموماً اور ہندوستاں کی بعض قوموں میں خصوصاً دستور ہے کہ جب ایک بھائی مرتا ہے۔ تو اس کے وارث یوں سمجھتے ہیں کہ یہ عورت بھی ہمارے ورثہ کی چیز ہے جبراً اور قہراً خود نکاح کرلیتے ہیں یا اپنی مرضی سے کسی سے کچھ لے کر کرادیتے ہیں اور وہ بیچاری بوجہ لحاظ خاندان کے خاموش رہتی ہے مگر آخر کار دل کی رنجش کو کون دور کرے جس کا کبھی نہ کبھی ظہور ہو ہی جاتا ہے اسی لئے تم کو اے مسلمانو حکم ہوتا ہے کہ تم کو جائز نہیں کہ زبردستی سے عورتوں کے مالک بن جائو (شان نزول :۔ (لایحل لکم ان ترثوا النسائ) مشرکین عرب کا دستور تھا اگر ایک بھائی مرتا تو اس کے وارث جہاں اس کی جائداد تقسیم کرتے اس کی بیوی بھی جائداد میں شمار کر کے اس پر کپڑا ڈال دیتے پھر جیسا سلوک چاہتے اس عورت سے کرتے خواہ اپنے نکاح میں لاتے یا کچھ وصول کر کے دوسری جگہ نکاح کردیتے اس فعل شنیع سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) گو وہ ناراض ہوں مگر زور دیکر بھی ان سے نکاح کرلو یا کسی سے بغیر مرضی ان کے کرادو اور نہ ان کو بے جا تنگ کرکے روک رکھو کہ کسی طرح سے دیے ہوئے مہر میں سے کچھ واپس لے لو ہاں جب وہ کھلی بے حیائی (زنا وغیرہ) کریں تو اس صورت میں وہ مہر کی مستحق نہیں عقد نکاح میں عفت کا مضمون داخل ہے پس تم ان سے بطور خلع کچھ لے کر چھوڑ دو یا نقد لے لو تو جائز ہے اور بھلی عورتوں سے موافق دستور کے نباہ کرو پھر اگر تم ان کو کسی وجہ (بد شکل وغیرہ) سے ناپسند کرو تو بھی نباہ کرو شائد اللہ تعالیٰ تمہاری ناپسند چیز میں تمہارے لئے بہت سی بہتری کردے کہ ان سے کوئی اولاد صالح پیدا ہوجائے جو تمہاری فلاح دارین کے لئے کافی ہو اور ایک ضروری حکم سنو ! اگر ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو تو پہلی بیوی کو بہت سا مال دے چکے ہو پھر بھی اس مال میں سے کچھ نہ لیا کرو کیا ناحق اور صریح ظلم سے لینا چاہتے ہو؟ بھلا کیونکر اس کو لیتے ہو حالانکہ خاوند بیوی ایک دوسرے سے علیحدہ مل چکے ہیں اور وہ عورتیں تم سے مضبوط عہد بھی لے چکی ہیں کہ ہمارا تمہارا ہمیشہ کا نباہ ہوگا چھوڑتے تو تم ہو اپنی مرضی سے ان کا کیا قصور ہاں یہ بھی نہیں کہ ہر ایک عورت کو نکاح میں لے آؤ بلکہ یہ ضروری ہے کہ اپنے باپ کی وہ بیاہی ہوئی عورتوں سے نکاح مت کرو ّشان نزول :۔ (ولا تنکحوا ما نکح ابآء کم) مشرکین عرب میں عام دستور تھا کہ سوتیلی ماں سے نکاح کرنا معیوب نہیں جانتے تھے چنانچہ ایک شخص قیس نامی نے حضرت اقدس کے زمانہ میں بھی بعد انتقال باپ کے سوتیلی ماں کو نکاح کا پیغام دیا اس نے کہا کہ میں آنحضرت صلعم سے مشورہ کرلوں۔ اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) مگر جو گذرچکا یعنی نزول قرآن سے پہلے جو عرب کے دستور سے لوگ کیا کرتے تھے سو معاف ہے۔ آئیندہ ایسا نہ کرنا اس لئے کہ یہ بڑا بے حیائی کا کام اور غضب کی بات ہے اور برا طریق ہے علاوہ اس کے تمہاری مائیں بیٹیاں بہنیں پھوپھیاں خالائیں بھتیجیاں بھانجیاں دودھ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا۔ تمہاری دودھ کی بہنیں۔ تمہاری ساسیں اور تماری بیویوں کی مائیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو پچھلی لڑکیاں جو اکثر اوقات تمہاری پرورش میں ہوں یہ سب تم پر حرام ہیں۔ ہاں اگر تم نے ان بیویوں سے جماع نہیں کیا تو تم پر ان منکوحہ کے بعد ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹیوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے مگر جو گذرا (سو معاف ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے اور خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں مگر جن کے تم جنگ کی لوٹ میں مالک ہوئے ہو وہ بعد انقضائے عدت ایک ماہ تم کو حلال ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں تم پر اور ان عورات مذکورہ بالا کے سوا عورتیں جن سے تم بذریعہ مال زر مہر نکاح کرنا چاہو وہ منکوحہ تم کو حلال ہیں بشرطیکہ گھر باری بننے کی نیت سے ہو نہ صرف چند روزہ مستی نکالنے کو پھر جتنے مال کے عوض تم نے ان سے تعلق کیا ہو ان کا حق پورا مقررہ شدہ حوالے کرو اور بعد مقرر کرلینے مہر کے بھی کسی مقدار کم یا زائد پر تم خاوند بیوی آپس میں راضی ہوجاؤ تو مضائقہ اور گناہ کی بات نہیں بے شک اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کبھی خاوند بیوی خود ہی اپنی خوشی سے ایسا کیا کرتے ہیں اور بڑی حکمت والا ہے جو باہمی تعلقات میں سختی کا حکم نہیں دیتا النسآء
16 النسآء
17 النسآء
18 النسآء
19 النسآء
20 النسآء
21 النسآء
22 النسآء
23 النسآء
24 (24۔35)۔ اور جو کوئی تم میں سے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی بہ سبب زائد خرچ ہونے کے مقدور نہ رکھتا ہو وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈیوں ہی سے (نکاح کرلے) ان لونڈیوں کے ایمان کی زیادہ کھوج کرنے کی حاجت نہیں ظاہر پر اکتفا کرو۔ ان لونڈیوں کے ایمان کی زیادہ کھوج کرنے کی حاجت نہیں ظاہر پر اکتفا کرو کیونکہ اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے باوجود ضرورت نکاح کے لونڈیوں کے نکاح سے عارنہ کرو اس لئے کہ اصل میں تو تم ایک ہی ہو تم بنی آدم ایک دوسرے کی اولاد ہو پس اگر تم کو ضرورت ہو تو ان کے مالکوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلیا کرو بشرطیکہ وہ بھلی مانس بن کر رہنے والیاں ہوں نہ مستی نکالنے والیاں ہوں نہ چھپے چھپے دوست رکھنے والیاں کہ خاوند صرف پردہ پوشی کی غرض سے کریں اور درپردہ تعلق کسی اور سے رکھیں اور بوقت نکاح یا بعد جس وقت تم کو مسرن ہو حسب دستور اور نیک طریق سے ان کے مہر ان کو دے دیا کرو پھر اگر نکاح میں آکر بھی بے حیائی (زنا) کریں تو آزاد عورتوں کی نسبت نصف سزا ان کو ہوگی یعنی پچاس درے یہ لونڈیوں سے نکاح کی تجویز اس کے لئے جو تم میں سے بدکاری کا اندیشہ کرے اور زنا میں مبتلا ہونے کا اسے خوف ہو اور باوجود اس کے صبر کرنا تمہارے لئے اچھا ہے بشرطیکہ گناہ میں نہ پھنسو اس لئے کہ لونڈیوں سے جو اولاد ہوگی عرفی طور پر ماں کی وجہ سے ان پر عار ہوگی اس تجردکی حالت میں تمہیں کسی نوع کی بدکاری کا دل میں خیال گذرے اور تم صبر پر ثابت قدم رہو تو اللہ ایسے خیالوں کو معاف کرے گا اس لئے اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے تمہارے حق یہاں تک مہربانی ہے کہ اللہ کو منظور ہے کہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرے اور تم کو پہلے دیندار لوگوں کی راہ دکھاوے اور تم پر مہربانی کرے اس لئے کہ اللہ جاننے والا ہے کہ تمہارا اخلاص اپنی حد کو پہنچ چکا ہے اور باوجود علم کے بڑی حکمت والا ہے اس رتبہ اخلاص پر اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ایسے معاملے کرتا ہے مگر اس مرتبہ والوں کے عموماً جہلا بد باطن بدخوا اور دشمن ہوا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تم پر مہربانی کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہش کے غلام ہیں۔ ہر طرح سے وہ یہی چاہتے ہیں کہ تم کسی سخت غلطی میں پڑو جس سے تم پر عذاب خداوندی نازل ہو اور تم موردعذاب بنو مگر اللہ کو ہر طرح سے منظور ہے کہ تمہاری فلاح دارین ہو۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیف میں تخفیف چاہتا ہے کیونکہ انسان کی خلقت عموماً ضعیف ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے تمہاری ہدائت منظورہے۔ لہٰذا ایک امر ضروری سے جو عموماً بہت سی خرابیوں کا سرچشمہ ہے تم کو مطلع کرتا ہے کہ اے مسلمانو ! ایک دوسرے کا مال آپس میں برے طریق دغا، فریب، چوری، رشوت، ظلم وستم سے نہ کھایا کرو (شان نزول :۔ (لاتاکلوا اموالکم) اہل عرب میں جواء شراب خوری ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا جیسا کہ ان کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ لوٹ مار تو ان کا رات دن کا شیوہ ہی تھا۔ ایسے افعال شنیعہ سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔) ہاں ایک طریق ہے کہ اس سے غیر کے مال کو کھاسکتے ہو وہ یہ کہ اپنی مرضی سے سوداگری کرو جس میں دونے تگنے چوگنے بھی کرلو تو مضائقہ نہیں اور اپنے بھائیوں کو قتل مت کیا کرو۔ یہ احکام تمہارے ہی فائدہ کو اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے اس لئے اللہ تم پر مہربان ہے ہاں جو کوئی باوجود سننے احکام اللہ تعالیٰ کے باز نہ آئے گا بلکہ یہ کام قتل وقتال سرکشی اور ظلم سے کرتارہے گا ہم بھی اس کو جہنم کی آگ میں ڈالیں گے گو وہ کتنا ہی رئیس کیوں نہ ہو ضرور ہی اس کو سزا ملے گی کیونکہ یہ امر اللہ پر آسان ہے وہ بڑے سے بڑے کو بھی سزا دے سکتا ہے ہاں ہم اتنا تو بتقاضائے رحمت تو ضرور کردیں گے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جیسے شرک کفر زنا چوری غیبت شکائت وغیرہ جن سے تم کو روکا جاتا ہے باز رہو گے تو تمہاری غلطیوں کو ہم معاف کردیں گے اور تم کو بعد مرنے کے بڑی عزت کی جگہ (جنت) میں داخل کریں گے پس اگر یہ عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اخلاقی برائیوں کی جڑ یعنی حسد کی جڑ کاٹ ڈالو۔ اس حسد کا ازالہ سرے سے یوں ہوسکتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہوا ہے اسی پر قناعت کرو اور جن امور کے ساتھ اللہ نے بعض کو بعض پر بڑائی دے رکھی ہے ان کی تمنا نہ کیا کرو کیونکہ کسی کی چیز کی تمنا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند روز تک نہ ملے گی تو حسد کرنے لگ جاؤ گے مثلاً کسی کا اچھا مکان دیکھ کر یہ تمنا کرنے لگو کہ ہمارا بھی ایسا مکان ہو چند روز تک یہ تمنا پوری نہ ہوئی تو دل میں خیال آیا کہ اللہ کرے اس کا بھی خراب ہوجائے تاکہ دونوں ایک سے ہوجائیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ کسی کی چیز کی تمنا اور خواہش نہ کیا کرو (شان نزول :۔ (لاتتمنوا) مرد کے لئے عورت کی نسبت دگنا حصہ سنکر عورتوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں مردوں سے کمی کیوں دی گی۔ حالانکہ ہم زیادہ محتاج معاش ہیں اس آرزو سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) ہاں اللہ سے اپنے بھلے کی دعا کیا کرو اور یاد رکھو مردوں کو مردوں کے کئے سے اور عورتوں کو عورتوں کے کئے سے حصہ ہے کوئی کسی کا حق نہیں لے گا مرد نیک و بد جو کچھ کریں گے ان کو ملے گا عورتیں نیک وبد کچھ کریں گی ان کو ملے گا پس تم ان بیہودہ خیالات ” تمنی“ حسد وغیرہ سے باز آؤ۔ اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگا کرو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے پس تم اسی سے مانگو وہ تمہاری ہر ایک حاجت مناسب مصلحت پوری کرے گا دنیاوی ہیرو پھیر اور ترقی تنزل اور کمی زیادتی کے متعلق گھبرایا نہ کرو۔ اور چونکہ ہر ایک مال میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار بہن بھائی بیوی خاوند چھوڑمریں ہم (اللہ) نے حصہ دار مقرر کئے ہیں پس مارے حسد اور رنج کے ان کے حصے دبایا نہ کرو بلکہ ہر ایک کو پورا پورا دیا کرو اور جن لوگوں سے تم نے دوستی کے عہدو پیمان کئے ہیں ان کے ساتھ بھی ہمدردی کیا کرو اور ان کا حصہ مروت بھی جو بحق دوستی تم پر واجب ہو پورا دیا کرو اور جان رکھو کہ سب چیزیں اللہ کے سامنے ہیں یہ نہ سمجھو کہ جن کو میراث میں حصہ زائد ملا ہے وہ بلاوجہ بھی اللہ مقبولیت کا حق رکھتے ہیں جیسا کہ بعض مردوں نے اپنا دگنا حصہ سن کر یہ جانا کہ ہمیں نیک اعمال کا بھی بدلہ دگنا ہی ملے گاسو یہ خیال ان کا غلط ہے کیونکہ مرد عورتوں پر حاکم اور افضل اس لئے ہیں کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دے رکھی ہے۔ (شان نزول :۔ (الرجال قوامون) ایک صحابی سعد بن ربیع نامی نے اپنی بیوی کو جنگل میں ایک طمانچہ مارا اس کے باپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں شکائت کی۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اس سے بدلہ لے لے مگر چونکہ ایسا قاعدہ عام طور پر عورتوں کو ادب سے مانع تھا اس پر یہ آئت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) کہ مرد بہ نسبت عورتوں کے فہم فراست میں عموماً بڑھ کر ہوتے ہیں اور نیز اس وجہ سے کہ وہ اپنے مال بیویوں کے نان ونفقہ اور مہر میں خرچتے ہیں جیسا کہ ان کی حاجتیں بہ نسبت عورتوں کے زیادہ ہیں ویسا ہی ان کا حصہ بھی زائد کیا گیا ہے عورتوں کو چاہئے کہ اس اللہ تعالیٰ کی مصلحت کو سمجھیں اور بمقابلہ اس خرچ کے خاوندوں کی تابعداری کریں پس جو عورتیں نیک ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ خاوندوں کی تابعدار ہیں اور بمقابلے اس کے جو اللہ نے ان کے حقوق محفوظ رکھے ہیں خاوندوں کے غیب کی یعنی اپنے آپ کی ان کے اسباب کی ان کے رازوں کی غیروں سے حفاظت کرنے والی ہیں ایسی عورتوں کی تم بھی قدر کیا کرو جن عورتوں کی تم شرارت معلوم کرو پہلے ان کو بآہستگی سمجھاؤ اور اگر اپنی کج ادائی سے وعظ ونصیحت سے متاثر نہ ہوں تو باشی سے ان کو علیحدہ کردو پھر بھی نہ سمجھیں اور باز نہ آئیں تو منہ بچا کر خفیف سا ان کو مارو پھر اس پر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو اس خیال سے کہ ہم حاکم ہیں ان پر بے جا الزام لگا نے کی فکر نہ کرو۔ تم سب جہان کے حاکم تو نہیں اللہ سب سے بلند اور بڑا حاکم ہے پس وہ باوجود بڑا ہونے کے رحم کرتا ہے تو تم صرف چند روز حکومت پر اتنا زور کیوں دکھاتے ہو اور اگر خاوند بیوی میں مخالفت پاؤ جو معملولی کوشش سے روبہ صلح نہ ہوسکتی ہو اور کہنے سننے سے نہ سمجھیں تو ایک منصف مرد کے کنبہ سے تجویز کرو اور ایک عورت کے کنبہ سے اگر وہ دونوں منصف مل کر صلح کرانی چاہیں گے اور نیک نیتی سے کوشش کریں گے تو اللہ بھی ان کو صلح کی توفیق دے گا بے شک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر ایک شے سے خبر رکھتا ہے چونکہ بسا اوقات عورتوں کے جھگڑے غفلت تک پہنچا دیتے ہیں لہٰذا مناسب ہے کہ ہمہ وجوہ اس طرف نہ جھک جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا عالم میں نقارہ بجاؤ۔ النسآء
25 النسآء
26 النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 النسآء
30 النسآء
31 النسآء
32 النسآء
33 النسآء
34 النسآء
35 النسآء
36 (36۔43) اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہو کہ تمہارے کہنے کا بھی لوگوں کو اثر ہو اور بہیچ وجہ اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو جیسا کہ انہوں نے تم کو ابتدا سے پرورش کیا نہ صرف ماں باپ سے بلکہ قریبی رشتہ داروں یتیموں مسکینوں نزدیک اور دور کے پڑوسیوں سے اور ساتھ والوں سے خواہ گاڑی میں چند منٹ تک تمہارے ساتھی ہوں اور مسافروں اور غلاموں سے بھی احسان کیا کرو کیونکہ توفیق ہوتے مخلوق سے احسان نہ کرنا ایک طرح سے تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ متکبروں اترانے والوں سے محبت نہیں کیا کرتا یعنی خیررسانی سے بخل کرنا بتاتے ہیں مثلاً اگر کوئی ان سے کچھ طلب کرے تو دینا درکنار اس کے آگے اپنے آپ کو ایسا محتاج بن کر دکھاتے ہیں کہ گویا اللہ کے دئے ہوئے فضل مال ودولت عیش و آرام کو چھپاتے ہیں جو ایک قسم کی سخت ناشکری ہے۔ پڑے کریں اور یہ بھی سن لیں کہ ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے جیسا کہ یہ لوگ دنیا میں اپنی ذلت ظاہر کرتے ہیں ویسے ہی قیامت میں ذلیل وخوار ہوں گے اور انہیں کے بھائی ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کے دن کو نہیں مانتے کہ امید نیک جزا کی رکھیں بلکہ شیطان نے ان کو سخت گرداب میں پھسا رکھا ہے کیوں نہ ہو جس کا شیطان دوست بنے تو پھر اس کے ایمان کی خیر کہاں اس لئے کہ وہ بہت برا دوست ہے یارانہ گا نٹھ کر فریب دیتا ہے بھلا ان کا کیا حرج تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ واحد لاشریک ہے مان لیتے اور ساتھ ہی اس کے قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ سب کاموں کا بدلہ دے گا اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے تو ضرور ہی ان کو بدلہ ملتا اس لئے کہ اللہ ان کو خوب جانتا ہے علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ کسی پر ایک ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا اگر ذرہ جتنی بھی نیکی ہوگی تو اسے بھی اپنی مہربانی سے دگنا کردے گا اور اپنے پاس سے علاوہ اس نیکی کے فعل اخلاص کامل پر بڑا بدلہ دے گا بھلا یہ ریا کار مکار اللہ تعالیٰ کے منکر جو دنیا میں لوگوں کے دکھانے کو کام کرتے ہیں جہاں ان کے دل کا کھوٹ لوگوں کے دل سے چھپارہتا ہے پھر قیامت کے روز ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک گواہ لاویں گے اور تجھ کو بھی ان منکروں مشرکوں۔ اور ریاکاروں پر گواہ بنا کر لاویں گے اس دن ان کافروں اور رسولوں کے نافرمانوں کی آرزو ہوگی۔ کاش ہم زمین میں دبائے جاتے اس قدر ذلت کا باعث یہ ہوگا کہ گواہوں کی گواہی سے جب راز عیاں ہوجائیں گے اور خود بھی اللہ سے کچھ نہ چھپاسکوں گے مناسب بلکہ واجب تو یہ تھا کہ ایسی ریاکاری کرتے ہوئے اللہ سے جو ان کے دلوں کے حال سے واقف ہے حیا کرتے کیونکہ حیا کی صفت اللہ کو نہایت پسند ہے جو لوگ اس سے حیا کرتے ہیں وہی انجام کار فلاح یاب ہوں گے جب ہی تو مسلمانوں کو حیاداری سکھاتا ہے کہ مسلمانو ! اللہ کے خوف سے نشے کی حالت میں اس کے حضور میں نماز کے قریب نہ جایا کرو جب تک کہ اپنی بات کا مطلب نہ سمجھو (شان نزول :۔ (ولا تقربوا الصلوۃ) شراب کی حرمت سے پہلے بعض صحابہ (رض) نے مستی میں نماز پڑھنی شروع کی تو سورۃ کافرون میں لا اعبد کی جگہ اعبد پڑھ دیا جس سے معنے دگرگوں ہوگئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم اور نہ بے غسلی کی حالت میں نماز پڑھو جب تک غسل نہ کرلو لیکن مسافری کی حالت میں ہو تو اس کا حکم آگے آتا ہے وہ یہ ہے اگر تم بیمار ہو یا سفر میں جارہے ہویا کوئی تم میں سے پاخانہ پیشاب پھر کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو پھر ان سب صورتوں میں تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو طریقہ اس تیمم کا یہ ہے کہ منہ اور ہاتھوں کو مٹی مل لیا کرو جس سے تمہاری اللہ کے حضور میں خاکساری پائی جائے اور اس خاکساری سے عفو کی امید رکھو بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے النسآء
37 النسآء
38 النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 النسآء
42 النسآء
43 النسآء
44 (44۔50)۔ اس خاکساری کے بھید کو جو لوگ نہ سمجھیں اور جھٹ سے اعتراض کریں تو تو (اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف کان بھی نہ لگا کیا تو ان کتاب والوں (یہودونصاریٰ) کو آنکھوں سے نہیں دیکھ چکا کہ کس طرح کی بے ایمانیاں کرتے ہیں (الم تر الی الذین) یہود کی شرارت یہاں تک پہنچی تھی کہ مارے رنج اور حسد کے حضرت ( علیہ السلام) کی خدمت میں آتے تو جہلا کی طرح زبان مروڑ مروڑ کر گالیاں دیتے گو ان گالیوں کو مسلمان نہ سمجھتے لیکن وہ اپنے جی میں خوشی مناتے ان کی اس مخفی خباثت پر اطلاع دینے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) گویا گمراہی کو دام دے کر خریدتے ہیں اور پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ ساتھ اس کے دل سے چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تم بھی سیدھی راہ سے بہک جاؤ مگر تم ان سے مطمئن رہو اللہ تمہارے دشمنوں کو یہ ہوں یا اور ان کے بھائی بند خوب جانتا ہے اللہ ہی تمہاری کارسازی اور حمایت کو کافی ہے اس کے ہوتے کسی کی حاجت نہیں ان کتاب والوں کی کہاں تک تم کو سنائیں ایسے ایسے کام کرتے ہیں جن سے یوں سمجھا جائے کہ گویا اللہ سے بھی منکر ہیں بعض یہودی تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بھی حسب موقع بدل ڈالتے ہیں اور تیرے سامنے آکر کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کا ارشاد سن لیا اور جی میں کہتے ہیں نہیں مانا اور چلتے ہوئے بددعادے جاتے ہیں کہ اے نبی ہماری سن اللہ کرے تیری کوئی نہ سنے اور زبان مروڈ کر دین میں طعنے کرنے کو تجھے مخاطب کرکے راعنا کہہ جاتے ہیں (راعنا کے دو معنے ہیں (ہم کو دیکھنے) اور (ہمارے چرواہے) یہودی دوسرے معنے مراد لیتے اور مسلمان اول سمجھتے۔ ١٢) جس سے جانتے ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے حالانکہ ان کے حق میں یہ کار وائی سراسر مضر ہے ہاں اگر تیری حضور میں آکر یوں کہتے کہ صاحب جو کچھ آپ نے فرمایا ہم نے خوب سنا اور اس کے تابع بھی ہوئے ہماری فددیانہ بات سنئے اور ہماری طرف نظر شفقت کیجئے تو یہ طریقہ کلام ان کے لئے اچھا اور درست ہوتا کہ انجام کار ان کو ذلت نہ پہنچتی جو اس پہلی گفتگو سے پہنچنے والی ہے لیکن اللہ نے ان کی بے ایمانی اور سخت دلی کی وجہ ان کو اپنی رحت سے دور کردیا سواب سوائے کسی قدر ظاہری ایمانداری کے اللہ تعالیٰ کی باتوں کو دل سے نہیں مانیں گے اب ہم تم سب کو مخاطب کرکے ایک بھلی بات بتلاتے ہیں جس کا جی چاہے مانے جس کا جی نہ چاہے انکار کرے سنو ! اے کتاب والو (یہودیو اور عیسائیو) ہمارے اتارے ہوئے کلام کو مانو جس کے انکار کی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں نہ تو وہ بذات خود غلط ہے اور نہ تمہارے عقائد سابقہ کے خلاف ہے بلکہ تمہاری پاس والی کتاب کی تصدیق کرتا ہے کہ بے شک تورات انجیل کی اصل تعلیم اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ہے یہی وجہ کسی کلام کے انکار کی ہوتی ہیں کہ یا تو وہ بذات خود صحیح اور مدلل نہیں ہوتا اور اگر مدلل ہو تو بسا اوقات انسان کے مسلمات سابقہ کا مخالف ہوتا ہے اس لئے وہ اس کو تسلیم کرنے سے اعراض کرتا ہے۔ سو ان دونوں وجہوں میں سے کوئی وجہ بھی نہیں پائی جاتی پس تمہیں مناسب بلکہ واجب ہے کہ اس کو مان لو پہلے اس سے کہ کتنے کافروں کے مونہوں کو ہم بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی شک پر الٹ دیں یا ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ میں زیادتی کرنے والوں پر کی تھی اور یہ دن ضرور ہونے والاہے اس لئے کہ اللہ کا حکم ہو کر ہی رہتا ہے کوئی اس کو مانع نہیں ہوسکتا اس دن کے فیصلہ کا خلاصہ بھی سن لو کہ اللہ شرک ہرگز نہ بخشے گا ہاں اس کے سوا جس کو چاہے گا بخش دے گا اس لئے کہ جو کوئی اللہ سے شرک کرتا ہے وہ بڑا ہی طوفان باندھتا ہے اس روز سب کو اپنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا ہوگا نہ بیٹے کو باپ کا فخر ہوگا نہ باپ کو بیٹے کا باوجود ایسے اعلان صریح کے بعض لوگ اس بات کی وجہ سے دلیری کرتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اللہ کے بڑے مقبول تھے کیا تو نے ان احمقوں کو نہیں دیکھا جو باپ دادا کے فخر پر اپنے آپ کو گناہوں سے پاک سمجھتے ہیں کیسی غلطی پر ہیں کیا وہ اپنے آپ کو پاک کہنے سے پاک ہوجائیں گے ہرگز نہیں ہاں اللہ جس کو چاہے گناہ معاف کرکے پاک کرتا ہے اس غلط خیالی کا مزہ بھی اس روز جانیں گے جس روز سب لوگوں کا حساب لیا جائے گا اور ان پر ایک دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا غور تو کر اللہ پر کیسا بہتان باندھتے ہیں ییس صریح گناہ ان کو جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے تو ان کے اس افترا پردازی پر بھی تعجب کرتا ہوگا یہی ایک تعجب کی بات ان میں نہیں بلکہ یہ تو تعجبات کے پتلے ہیں النسآء
45 النسآء
46 النسآء
47 النسآء
48 النسآء
49 النسآء
50 النسآء
51 (51۔59)۔ کیا تو نے ان میں سے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کچھ حصہ کتاب الٰہی کا ملا تھا وہ کیسی بےدینی کر رہے ہیں ب ے دینی کی باتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اگر وقت پر بتوں کے آگے سجدہ بھی کرنا پڑے تو کردیتے ہیں (شان نزول :۔ (الم ترا الی الذین) ایک دفعہ بعض یہودی اپنے بچوں کو اٹھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے اور پوچھا کہ بتلائیے ان پر بھی کوئی گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ اسی طرح ہم بھی گناہوں سے صاف ہیں ہمارے دن کے گناہ رات کو محو ہوجاتے ہیں اور رات کے دن کو اس کے متعلق یہ آیت نازل ہئوی۔ م۔ راقم کہتا ہے کہ زمانہ حال کے بعض پیر اسی طرح اپنی شیخیں بگھارتے اور اللہ سے مردود ہوتے ہیں ان آفتوں کی جڑ حب دنیا ہے۔ (نعوذ باللہ) اور کافروں کے حق میں جو شرک کفر میں مبتلا ہیں کہتے ہیں یہ مسلمانوں سے سیدھی راہ پر ہیں کیسے ظلم کی بات ہے کیوں نہ کریں انہی پر اللہ نے لعنت کی ہے جس کے سبب سے دین اور دنیا میں ذلیل اور خوار ہوں گے کیوں نہ ایسے ہوں جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لئے تو کوئی حمائتی نہ پاوے گا جو اس کو ذلت اور خواری سے بچاوے باوجود اس کے پھر اتنی دلیری سے کفر اور شرک لوگوں کو سکھاتے ہیں کیا ان کا بھی اللہ کے ملک میں کچھ حصہ ہے کہ جو چاہیں اپنے صوبے میں احکام نافذ کریں اور جس کو چاہیں رزق دیں پھر تو علاوہ بےدینی کے لوگوں کو بوجہ اپنے بخل کے ایک رائی برابر بھی نہ دیتے جب یہ کچھ نہیں تو پیغمبر کے مقابلہ میں لوگوں کو کفر اور شرک کی باتیں بتانا کیا معنی کیا یہ لوگوں (رسول اور اس کے اتباع) سے اللہ کے دیے ہوئے فضل پر حسد کرتے ہیں کہ ان کو ہدائت کیوں ملی یہ کیوں ممتاز قوم بنتے جاتے ہیں سو یہ بھی غلط خیال اور برا فعل ہے اس لئے کہ ہم نے پہلے بھی تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور تہذیب دی تھی اور دنیا میں بھی ان کو بڑا ملک بخشا تھا جس سے ان کے دونوں پہلو (دین اور دنیا کے) قوی ہوگئے تھے کیا ان کے حاسد ان کا کچھ بگاڑ سکے تھے جو یہ لوگ مسلمانوں سے حسد کر کے ان کا بگاڑیں گے حاسد محسود کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ اپنا ہی بگاڑتا ہے کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ حسدباہل حسد کار میکندصائب چنانکہ آتش سوزندہ میخورد خود را پھر یہ سنتے ہی بعض تو ان میں سے نبی کو مان گئے اور بعض ابھی تک اس سے انکاری ہیں جس میں انہی کا حرج ہے ان کے جلانے کو جہنم کافی ہے کچھ ہی کریں ہمارے ہاں عام قائدہ ہے کہ جو لوگ ہمارے احکام سے منہ پھیرتے ہیں ہم ان کو ضرور ہی آگ میں ڈالیں گے۔ جہاں پر ان کی حالت یہ ہوگی کہ جب کبھی ان کے چمڑے جل جایا کریں گے ان کے عوض ہم ان کو چمڑے اور بدل دیا کریں گے ( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدَھُمْ) اس آیت کے مضمون سے بعض آریوں نے مسئلہ تناسخ پر دلیل پکڑی ہے اس کے علاوہ اور کئی آیتوں سے بھی جو اس کی ہم معنی ہیں جن کی فہرست ہم ذیل میں دیں گے مطلب براری کرنے کی کوشش کی ہے آیات مذکورہ کے بتلانے سے پہلے آریوں کا دعویٰ جس پر وہ ان آیات کو بطور الزامی دلائل کے پیش کیا کرتے ہیں بتلانا ضروری ہے جو انہیں کے الفاظ میں درج ہے۔ آریوں کا مذہب ہے کہ دنیا میں جو بندے گناہ کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے حیوانوں کے قالبوں میں ان کو جانا پڑتا ہے مگر کس طرح؟ بیٹھے بیٹھے حیوان نہیں بن جاتے بلکہ باقاعدہ انڈے کے اندر یا حیوانوں کے پیٹ میں جسم تیار ہوتا ہے اس میں گناہ گار آدمی کی روح ڈالی جاتی ہے۔ غرض دنیا کا انتظام جس قدر اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور حیوانوں میں ملاپ کا رکھا ہے یہ سب انتظام بندوں کے گناہوں پر موقوف ہے چنانچہ آریہ مذہب کا ایک بڑا حامی (پنڈت لیکھرام) اپنے رسالہ ثبوت تناسخ میں یوں رقمطراز ہے۔ ” مسئلہ اور گون (تناسخ) کے رو سے دو قسم کے جسم مانے گئے ہیں ایک کرم جونی (اعمال خانہ) دوم بھوگ جونی (سزا خانہ) جس جسم میں سمجھنے کی طاقت اور نیک و بد کرنے کی تمیز دی گئی ہے وہ کرم جونی اور جس جسم میں نہیں دی گئی وہ بھوگ جونی ہے اس لحاظ سے انسان کرم جونی اور باقی بھوگ جونی ہیں چونکہ حیوان بھوگ جونی ہیں وہ نیک یا بدکام کر نہیں سکتے جس طرح جیل خانہ کے قیدی (کو) سزا کی میعاد گذرنے کے بعد جیل سے رہائی ہوتی ہے نہ کہ کسی اچھے کرم سے اسی طرح سزا کی میعاد گذرنے کے بعد حیوانی قالب رہائی ہونی چاہئے اور وہ پھر جس درجہ جسمانی سے تنزل ہوا تھا اسی درجہ میں انتقال کیا جاتا ہے حیوانی قالب کے ثواب اعمال سے نہیں۔ (ثبوت تناسخ ص ٩٨۔ ١٩٧) یہ ہے آریوں کا دعویٰ جس پر آیات مندرجہ ذیل کو مسلمانوں کے الزام کی غرض سے پیش کیا کرتے ہیں۔ ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین فلما عتواعما نھوا عنہ قلنالھم کونوا قردۃ خاسئین (اعراف) قل ھل انبئکم بشر من ذلک مثوبۃ عنداللہ من لّعنہ اللہ وغضب علیہ وجعل منہم القردۃ والخنازین (مائدہ) واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورھم ذریتہم واشھدھم علی انفسھم الست بربکم قالوا بلی (اعراف) ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم (اعراف) نحن خلقنھم وشددنا اثرھم واذا شئنا بدلنا امثالھم تبدیلا (دھر) یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا (انبیائ) ' فاخرج منھا انک من الضاغرین (اعراف) ( ویقولون سبعۃ وثامنھم کلبھم (کھف) کلما نضجت جلودھم بذلنھم جلودا غیرھا لیذوقوا العذاب (نسائ) کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا (بقرہ) ببابل ھاروت و ماروت (بقرہ) , نحن قدرنا بینکم الموت وما نحن بمسبوقین (الواقعہ) ۔ وما من دابۃ فی الارض ولا طائر یّطیر بجناحیہ الا امم امثالکم . ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ پہلے مطلب بتلانے آیات قرآنی کے بغرض توضیح تناسخ متنازعہ کے معنے بیان کرنے بھی ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ تناسخ جسے ہندی میں پنرجنم اور آواگون بھی کہتے ہیں یہ ہے کہ روح بعد چھوڑنے اس جسم کے جس میں وہ اب ہے کسی ایسے جسم میں چلی جائے جو حسب دستور ماں کے پیٹ یا انڈے کے اندر تیار ہوا ہو جس کو دوسرے لفظوں میں تناسخ توالد بھی کہتے ہیں۔ یہ ہے آریوں کا دعویٰ جس پر آیات متذکرہ بالا پیش کرتے ہیں اب ہم ان آیات موصوفہ کا صاف مطلب بتلاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بائبل کے مقامات کا جواب گو ہمارے ذمہ نہیں تاہم ہماری تقریر سے ان مقامات کا جواب بھی آجائے گا جس کے لئے دونوں فریق (آریوں اور عیسائیوں) کو ہمارا مشکور ہونا چاہیے آریوں کو تو اس لئے کہ ان کے شبہات دور ہوجائئیں گے۔ عیسائیوں کو اس لئے کہ ان کی طرف سے معترضین کو جواب دے کر ہم نے سبکدوش کیا اور ان کی طرح نہیں کیا کہ تکذیب براہین میں مسلمانوں کے مقابل تمام انبیاء علیہم السلام کو گالیاں سن کر یہ بھی آریوں کی مدح سرائی کرتے تھے (اخبار نور افشاں) پہلے جواب دینے اور مطلب بتلانے ان آیات کے یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ ہر ایک کلام کے معنی وہی صحیح ہوتے ہیں جو متکلم منشاء کے مطابق ہوں اور اگر کسی کلام کے ایسے معنی ہوں جو متکلم ان کو صحیح نہ جانتا ہو گو اپنی کھینچ تان سے ہم ان کو سیدھا بھی کرلیں حقیقت میں سیدھے نہیں ہوں گے کیونکہ متکلم جن معنی سے انکاری ہے وہ غلط ہیں غالباً یہ اصول سب اہل زبان کو پسند ہوگا !۔ پس بعد اس تمہید کے اجمالی جواب ان آیات کا یہ ہے کہ چونکہ متکلم قرآن (یا یوں کہیے کہ اللہ) کو تناسخ کا انکار ہے کیونکہ اس نے جزا سزا کا جو طریق بتلایا ہے کسی سے مخفی نہیں متکلم قرآن کتے بلے کی جوں کو ہرگز سزا نہیں بتلاتا بلکہ نالائقوں اور مجرموں کے لئے وہ جہنم کا راستہ کھولتا ہے تو پس آپ (یا منصف مزاج آپ کے بھائی) سمجھ سکتے ہیں کہ جس متکلم نے تناسخ سے صاف اور واضح الفاظ میں انکار کیا ہو اسی کے کلام سے تناسخ کا ثبوت کہاں تک ریت کے تیل اور دم دار آدمی اور سینگدار گدھے کے مشابہ ہوگا۔ اب تفصیلی جواب بھی سنیئے پہلی دوسری اور تیسری آیت کا مطلب بالکل واضح ہے (اگر ان کے ظاہری معنی بھی لئے جاویں) کہ بعض نالائقوں کی شکل کو اللہ نے اسی زندگی میں آدمی سے بندر کی شکل میں مبدل کردیا۔ اس واقعہ کو تناسخ سے کوئی علاقہ نہیں تناسخ تو یہ ہے کہ روح بعد چھوڑنے اس بدن کے کسی ایسے بدن میں جو موافق قاعدہ توالد ماں کے پیٹ یا انڈے کے اندر تیار ہوا ہو داخل ہوجیسے ہم نے پہلے تفصیل کی ہے ہاں اگر اس کو بھی آریہ تناسخ کہتے ہیں تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ چوتھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ابتدائے پیدائش میں تمام بنی آدم کی روحوں کو موجود کر کے اپنی ربوہیت کا اقرار کرایا اور اس اقرار کو ان کی طبعیت میں و دیعت کردیا یہی وجہ ہے کہ اگر آدمی کو بدصحبت نہ ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا قائل ہوتا ہے بھلا اس کو تناسخ سے کیا علاقہ؟ پانچویں آیت کا مطلب بھی صرف اتنا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مرتے ہیں چونکہ زندگی کی اصل غرض جو نجات ہے ان کو حاصل ہوچکی ہے اس لئے ان کو مردہ نہ سمجھنا چاہیے۔ بلکہ وہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں بھلا اسے تناسخ سے کیا تعلق۔ چھٹی آیت کا مطلب بھی صرف اتنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کافروں کو (جو قیامت کے ہونے سے منکر ہیں کہ اللہ اتنی بڑی مخلوق کو کیونکر جمع کرے گا) پیدا کیا ہے۔ اور جب چاہیں گے ان کے تبدیل اشکال کردیں گے اور مٹی میں ملاویں گے اور پھر اسی سے اٹھائیں گے اس کو بھی تناسخ سے کیا تعلق۔ ساتویں آیت کا مطلب بھی بالکل واضح ہے بلکہ مکذّب کے سارے تانے بانے کو توڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس دن قیامت کے لئے پکار اور آواز کی جائے گی اس دن تم لوگ جماعت در جماعت ہو کر سب حاضر ہوجائو گے اسے بھی تناسخ سے کیا مطلب معلوم ہوا کہ قرآن شریف نے جزا و سزا کے لیے روز قیامت مقرر کیا ہے نہ کہ کتوں اور سوروں کی جونیں۔ آٹھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ شیطان نے جب نافرمانی کی تو اسے حکم ہوا کہ تو اس جگہ سے نکل جا کیونکہ تو بوجہ اپنی بدکاری کے ذلیل ہوچکا ہے اسے بھی تناسخ سے کیا علاقہ۔ نویں آیت کا مطلب بھی اصحاب کہف کا قصہ ہے کہ چند لوگ بوجہ اپنی دین داری اور توحید باری کے مخلوق سے تنگ آکر ایک پہاڑ کی غار میں جا چھپے تھے جب وہ چلے تو ان کے ساتھ ایک کتا بھی چلا پھر ان کی تعداد میں اہل کتاب باہم مختلف تھے ان کی بابت اللہ فرماتا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ وہ جوان دین دار سات تھے اور کتا ان میں آٹھواں۔ اسے بھلا تناسخ سے کیا مطلب۔ دسویں آیت بھی بالکل واضح ہے اور تناسخ کی جڑ کاٹ رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کافروں اور مکذبوں کو آگ جلا دے گی تو ان کے جلے ہوئے چمڑوں کے بجائے ان کو اچھاچمڑا دیا جاوے گا تاکہ پھر جلیں اس سے تو تناسخ بالکل ہی اکھڑ گیا کیونکہ اللہ نے جزا سزا کے لئے کتے بلوں کی جونوں کو تجویز نہیں کیا بلکہ روز قیامت کو جزا سزا کا دن مقرر کیا۔ گیا رھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ تم اسے مشرکو ! اور ناشکر ! (دہریو !) اللہ سے کس طرح منکر ہوتے ہو حالانکہ تم پہلے بے جان (یعنی مٹی) تھے پھر تم کو اللہ نے پیدا کیا اسے بھی تناسخ سے کیا تعلق۔ اگر اموات کے لفظ پر شبہ ہو تو یہ لفظ قرآن میں خشک زمین پر بھی آیا ہے دیکھو فَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا اموات کے معنی بے جان کے ہیں چنانچہ دوسری آیت پیدائش انسانی یوں بیان کرتی ہے اَلَمْ نَخْلُقْکُمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ یعنی ہم نے تم کو ذلیل پانی منی سے پیدا نہیں کیا۔ پس دونوں آیتوں کا مطلب ایک ہے جیسا کہ مشاہدہ بھی اس کا شاہد ہے کہ انسان قبل صورت موجودہ کے بصورت منی ہوتا ہے۔ بارھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ زمانہ سابق میں دو شخص ہاروت ماروت لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اس کی تفصیل تفسیر ہذا جلد اوّل میں دیکھو اسے بھی تناسخ سے کوئی علاقہ نہیں۔ تیرھویں آیت کا مطلب وہی ہے جو چھٹی آیت کا۔ پندھویں آیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ صفا مروہ دو پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کی نشانی ہیں تفصل کے لئے دیکھو تفسیر ہذا جلد اوّل اسے بھی تناسخ سے کیا تعلق چودھویں آیت البتہ قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں مکذب نے کسی قدر جھوٹ سے بھی کام لیا ہے اصل مطلب آیت کا تو صرف اتنا ہے کہ زمین کے چرند پرند بھی تمہاری طرح جماعت در جماعت ہیں جیسے تم ایک نوع ہو وہ بھی ایک ایک نوع ہیں مگر چونکہ اتنے مطلب سے مکذب کا مقصود حاصل نہیں ہوتا تھا اس لئے اس نے اس کے ترجمہ میں (تھیں) کا لفظ زیادہ کیا اور یوں ترجمہ کردیا کہ ” امتیں تھیں مثل تمہاری“ جس سے آریہ سماج نے جانا کہ ہمارے اپدیشک بڑے ودہ دان (عالم) ہیں عربی میں بھی ایسے فاضل ہیں کہ چاہیں تو سیدھی عبارت کا الٹا ترجمہ کردیں۔ اس پر حیرانی یہ ہے کہ خود ہی فارسی ترجمہ تفسیر حسینی سے نقل کرتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ (ایشاں امتاں اند مثل شما در آفرینش و مردن و زندہ شدن) کیا کوئی اتنا فارسی دان بھی سماج میں نہیں جو اس آسان فارسی کو بھی سمجھے کہ ” اند“ کا لفظ حال کے لئے ہے یا ماضی کے لئے اصل یہ ہے کہ جب آدمی کو خوف اللہ نہ ہو تو پھر جو چاہے کرتا پھرے سچ ہے ؎ بے خدا باش ہرچہ خوا ہی کن۔ بعد جواب آیات مذکورہ کے ہمارا حق ہے کہ ہم بھی آریوں سے کچھ پوچھیں۔ آریوں کا دعویٰ جو ہم نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے اپنے مفہوم بتلانے میں بالکل صاف اور واضح ہے کسی شرح اور حاشیہ کا محتاج نہیں مضمون صاف ہے کہ انسانی قالب روحوں کے لئے اصل ہے اور باقی حیوانی قالب بطور سزا حسب جرائم ملتے ہیں پس اگر یہی آریوں کا مذہب ہے اور بیشک یہی ہے تو ہماری طرف سے اس پر مختصر سی نظر ہے۔ (١) اوّل یہ کہ دنیا کے کل اجسام جو اجزا سے مرکب ہیں اپنی ترکیب کی وجہ سے ضرور کسی خاص وقت سے موجود ہوئے ہیں جس سے پہلے نہ تھے اس لئے کہ مرکب اپنی حالت ترکیب اجزا میں علیحدگی اجزا کی خبر دیتا ہے پس ضرور ہے کہ کسی خاص وقت سے اس کی ابتدا ہوئی ہو جو ترکیب کنندہ نے اس کے لئے مناسب سمجھی ہو پس ابتدائے آفرینش عالم میں اللہ نے روحوں کو کون سا قالب بعد ترکیب عنایت کیا تھا اگر سب کو قالب انسانی ہی دیا تھا اور قرین انصاف بھی یہی ہے کہ جب جرم نہیں تو حیوانی قالب جو روحوں کے لئے بدکاری پر ایک قسم کا قید خانہ ہے کیوں ملنے لگا جو اللہ کی قد وسیت کے برخلاف ہے پس ایسے وقت میں کہ تمام روحیں دنیا میں انسانی قالب میں ہی ہوں گی حیوانی کام کس سے لیتے ہوں گی جن کا شمار کرنا وقت ضائع کرنا ہے کون نہیں جانتا کہ دنیا کے انتظام کا مدار حیوانات پر ہے یہ سب کام جو حیوانات دے رہے ہیں (مثلا ہل چلانا‘ دودھ دینا‘ چمڑوں سے فائدہ پہونچانا) کون دیتا ہوگا اور کس سے لئے جاتے ہوں گے۔ علاوہ اس کے آریوں کے خیال کے مطابق مرد عورت کا تفرقہ بھی اعمال ہی سے ہے۔ پس ابتدائے آفرینش میں اگر سب مرد ہی ہوں گے اور غالباً یہی ہے کہ مرد ہی ہوں۔ تو حاجت بشری کا کیا طریق اگر بچہ بازی کو جائز رکھیں تو نطفہ کس طرح ٹھیرتا ہوگا اور اگر کل عورتیں تھیں تو بھی مشکل جب تک مرد کوئی نہ ہو تو توالد تناسل مشکل بلکہ عادۃً محال ہے۔ (٢) جب انسانی قالب بھوگ جونی (قید خانہ) نہیں تو پھر وہ سوال جس سے بجان آکر آپ لوگوں نے تناسخ تراشا تھا اسی طرح بحال رہا یعنی یہ کہ انسانوں کی مختلف پیدائش مختلف حالت کیا باعتبار مرض و صحت (کیا باعتبار دولت و غربت) کیوں ہے اس سوال سے بچنے کی غرض سے آپ لوگوں نے پنر جنم (پہلے اعمال) کا بدلہ مانا تھا جس انسان نے جو کچھ پہلی جون میں کیا وہی اس کو یہاں ملتا ہے اور جو کچھ یہاں کرتا ہے وہ کسی دوسری جون میں ملے گا لیکن آریہ مسافر کی مذکورہ عبارت کہہ رہی ہے کہ انسانی قالب بھوگ جونی نہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ انسانی قالب سزا کے لئے تجویز نہیں ہوا بلکہ روحوں کی اصل منزل ہے جب ہی تو آپ کی تمثیل قیدی والی صحیح ہوگی تو اب بتلائیے لنگڑا لنگڑا کیوں ہوا اور کوڑھی کوڑھی کیوں ہوا اور اندھا اندھا کیوں ہوا۔ اگر گھبرا کر کہیں کہ پچھلے اعمال کا بدلہ ہے تو غلط جب کہ انسانی جون بھوگ جونی نہیں تو اس جون میں پہلے جرموں کی سزا کیسی۔ عربی مثل بے شک سچ ہے۔ فَرَّ مِنَ الْمَطْرِ قَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ۔ مینہ سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے آ کھڑا ہوا۔ (٣) اگر انسانی قالب سے روح نکل کر اپنے برئے کاموں کا پھل کسی حیوانی جون میں بھگتنے کو جاتی ہے تو چاہیے تھا کہ انسانوں کی نسبت حیوانات دن بدن ترقی پر ہوں اور انسانی پیدائش بالکل تنزل پر اس لئے کہ یہ تو ظاہر ہے دنیا کی تمام آبادی میں سے اس مسئلہ کو ماننے والے بہت ہی تھوڑے ہیں جن کو لوگ ہندو کہتے ہیں باقی سب کے سب کیا مسلمان اور کیا یہود اور کیا عیسائی کیا برہم وغیرہ اس سے منکر ہیں اسی انکار کی وجہ سے وہ بقول آپ کے اللہ کو سخت ظالم اندھا راجہ سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے یہ غضب کہ کوئی موسیٰ ( علیہ السلام) نبی کو مانتا ہے کوئی عیسیٰ ( علیہ السلام) کو کوئی سید الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (علیہ السلام) کو جن کا ماننا آریوں کے نزدیک مہاپاپ (کبیرہ گناہ) ہے پس بقول آپ کے اگر یہ لوگ بڑے بڑے نیک کام بھی کیوں نہ کریں تو بھی مجرم ہیں۔ کافر ہیں۔ پاجی ہیں۔ دشٹ ہیں وغیرہ وغیرہ کیا نہیں کیا ہیں۔ غرض سب بے ایمانیوں کی جڑ ہیں پھر اس پر طرفہ یہ کہ ان میں بھی اکثر بلکہ قریب کل کے عام طور پر اس (گوشت) خور وغیرہ وغیرہ ہیں رہے ہندو جو اس مسئلہ کے ماننے والے اور انبیاء سے منہ پھیرنے والے سو ان کی حالت بھی یہ ہے کہ عام طور پر سوائے متعدد چند آدمیوں کے (جن کا حساب ہاتھوں کی انگلیوں پر ہوسکتا ہے) سب کے سب بت پرست زانی شرابی جھوٹے دغا باز وغیرہ وغیرہ یہ بھی گئے رہی مقدس قوم آریہ سو ان میں سے بھی ایک پارٹی گوشت ! کھانے کی وجہ سے آریہ مسافر لیکھرام کے نزدیک راندہ درگاہ ہے اور شراب وغیرہ تو ان میں کچھ کم نہیں ہے پس بعد تلاش بسیار کے اگر پوترا اور برگزیدہ مخلوق اور بھلے مانس اور نیک اور برے ہی نیک ہوں تو گھاس پارٹی کے آریہ اور پرتی مذہبی سبہا کے ممبر ہوں گے جو ان سب خرابیوں اور گناہوں سے پاک صاف شاید ہوں پس وہ لوگ جن میں سوائے کسی حیوانی قالب میں پوری نہ کرلیں۔ پس تمام دنیا کی آبادی کا اللہ حافظ حالانکہ مردم شماری دن بدن ترقی پذیر ہے بالخصوص یورپ میں اور خاص کر انگلینڈ میں جہاں (بقول آریہ) تمام ہی حیوانی جون کے لائق ہیں پس ثابت ہوا کہ مسئلہ تناسخ اپنے اثرات کے لحاظ سے صحیح نہیں۔ (فتدبر) (٤) قاعدہ کی بات ہے کہ جس مجرم کو سزا دے کر اس کی اصلی حالت کی طرف پھیرنا ہو اس کو اس سزا کا علم بھی ہونا چاہیے کہ یہ سزا مجھ کو فلاں گناہ کے عوض میں ملی ہے تاکہ آئندہ کو اس گناہ سے بچے۔ پس اگر حیوانی قالب سزا کے لئے ہے تو حیوانوں کو بھی اس جرم کی خبر ہونی چاہیے کہ فلاں جرم کی پاداش میں مجھے سزا ملی ہے تاکہ بعد پورا کرنے اس سزا کے انسانی قالب میں آکر ویسے جرم نہ کرے لیکن برعکس اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی آریہ کو خبر نہیں کہ پہلے وہ کس حیوان (کتے۔ بلے۔ گھوڑے۔ بیل) کی جون میں تھا اور کس جرم کی سزا کا بدلہ تھا۔ پس جب اللہ کے انصاف کو اس تفاوت مراتب کی وجہ سے بچاتے ہو تو اس سراسر ظلم کی کوئی صورت تدارک نہیں کہ مجرم کو بے خبری میں سزا دینا اور اس کو خبر نہ ہونا کہ کس جرم کے عوض میں یہ سزا ملی تھی اور بعد بھگتنے سزا کی اصل حالت میں بھی اس سے بے خبری (واہ رے انصاف)؟ (٥) اگر انسان بداعمالی کی سزا بھگت کر اپنی اصلی حالت کی طرف ہی آتا ہے تو بے چارے بھنگی۔ اندھے۔ کوڑھی۔ جذامی۔ سائل۔ گدا۔ فاقہ پر فاقہ اٹھانے والے کیا ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے اور ہمیشہ سے اسی حالت میں ہیں کیونکہ بقول آپ کے جس درجہ جسمانی سے تنزل ہوا تھا اسی درجہ میں انتقال کیا جاتا ہے تو کیا ان معذوروں کی روحوں نے کوئی تمسک لکھ دیا ہوا ہے کہ ہمیں یہی حالت پسند ہے اور کہہ دیا ہے اور ہوں گے تیری محفل میں الجھنے والے حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے (٦) اگر حیوانی قالب بھوگ جونی اور جرموں کے لئے سزا خانہ ہے تو آپ لوگوں کو مسلمانوں اور دیگر اقوام گوشت خوروں کا شکر گذار ہونا چاہیے جو جانوروں کو ذبح کر کے بہتیرے آریوں کے بھائی بندوں کی نجات کراتے ہیں یا کرانے کے سبب ہیں۔ (آریوں کی دو پارٹیاں ہیں ایک گوشت خوری کو جائز بتلاتی ہیں دوسری حرام مصنف ثبوت تناسخ پچھلی پارٹی سے ہے پہلی کا نام ماس پارٹی دوسری کا گھاس پارٹی ہے۔ منہ) (٧) اگر قالب انسانی روحوں کے لئے اصل ہے اور آپ لوگوں کا یہ بھی اصول ہے کہ روح کی خواہش ترقی علم کی طبعی اور اصل ہے اسی وجہ سے وہ باوجود قدیم ہونے کے اللہ کے قابو میں آئی تاکہ اس سے جسم لے کر اپنے معلومات وسیع کرے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بہت سے انسان بالخصوص برہمن جو ہندئوں میں بڑی اوّل درجہ کی شریف قوم ہے ترقی علم سے محروم ہیں اگر اس قالب انسانی میں روح اپنے اصلی تقاضا کو پورا نہ کرے گی تو کون سے قالب میں کرے گی حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت لوگوں کو علاوہ دنیاوی موانع کے قدرتی موانع بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آنکھ سے اندھا ہونا یا کان سے بہرہ ہونا کسی ایسے نادار کے گھر میں پیدا ہونا جہاں بجز پیٹ پالنے کے (وہ بھی بھیک مانگنے اور پائخانہ اوٹھانے سے) کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ (٨) اگر انسانی قالب اصلی ہے اور جس قالب سے انتقال ہوتا ہے اسی قالب میں روح آتی ہے تو نابالغ بچے کیا اسی طرح مرتے رہیں گے اور ان کی روحیں ہمیشہ سے اسی طرح چھوٹی عمر میں بلکہ بعض ماں کے پیٹ میں ہی قالب چھوڑتی آئی ہیں اگر مذکورہ درجہ جسمانی کے معنی یہ بتلائو کہ امیری اور غریبی کی حالت مراد ہے اور تو پھر وہی سوال ہوگا کہ غریب بدمعاش بہنگڑ جو بے وجہ ناداری کے سب برے اعمال کر گذرتے ہیں یہی ان کے لئے اصلی درجہ ہے تو ان بیچاروں کی کیسی شامت آئی کہ ایک تو بوجہ ناداری اور غریبی بدافعال کرنے پر دنیاوی حاکم ان کو قید کریں اور پھر ان کی سزا میں بندر سور بھی بنیں پھر وہاں سے خلاصی پاکر بھی آویں تو حسب فتویٰ مکذب وہی ناداری اور غریبی کے قالب میں پر میشور ان کو ٹھونسے پھر اسی طرح ہمیشہ تک ان کی بری گت ہوتی رہے۔ اور اگر یہ نیک بھی ہوں تو کیا فائدہ جب کہ تھوڑے گناہ پر بھی حیوانی قالب میں قید ہونا اور وہاں سے چھوٹ کر اصلی حالت (غریبی اور محتاجی) میں آنا ہے تو کیا نتیجہ ہوگا اس سے تو بہتر ہے کہ اس بے چاری روح کو جو بقول آپ کے اللہ کی پیدائش بھی نہیں اس چند روزہ زندگی کے احسانات کے بدلہ میں (جو اس غریبی) اور محتاجی کی حالت میں اللہ نے اس پر کئے تھے اور در در بھیک منگانی تھی) ان سے دوگنے چوگنے برس قید کرلیا جاتا اور پھر ہمیشہ کے لئے اس کمبخت کو رہائی ہوتی اور اپنی کمائی سے آپ گذارہ کرتی اور ایسے اللہ کو دور سے سلام کہتی۔ سچ پوچھو تو اگر اللہ اسے چھوڑ دے تو کبھی بھی اللہ کے سامنے نہ آوے اور ایک ہی بار کے آزمانے پر اس کے بلانے پر بھی دور سے اس کو لکھ بھیجے۔ مَنْ جَرَّبَ الْمُجَرَّبَ حَلَّتَ بِہِ النَّدَامَۃَ بلکہ اور روحوں کو بھی یہ کہہ کر روکے ؎ حسینوں سے نہ مل اے دل ہمارے دیکھے بھالے ہیں نہیں ڈسنے سے رکنے کے ستم گر ناک کالے ہیں (٩) اگر انسانی قالب روحوں کے لئے اصل ہے اور حیوانی قالب قید خانہ تو بتلائیے اگر ایکہزار یا کم سے کم سو سال تک تمام مخلوق نیک کام کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے وہ لائق سزا ہوں تو بوجہ ان کی دین داری کے یہ تو حیوانات کے قالب میں جانے سے رہے ہاں البتہ حیوانات اپنی اپنی قید بھگت کر اصلی حالت (انسانی قالب) کی طرف آویں گے جس کی وجہ سے حیوانات میں ایک روز ایسی کمی ہوگی کہ ہمیں سواری کے لئے کوئی گھوڑا دودھ کے لئے کوئی گائے اور شہد کے لئے کوئی مکھی بھی نہ ملے گی کیا پھر ان بیچارے نیکوں کا جو کئی سالوں تک نیکی کے کاموں میں لگے رہے یہی انعام ہونا چاہیے تھا جو آرام ان کو بدکاری میں تھا گاڑی سواری کو گائے بھینس دودھ پینے کو جانور بوجھ برداری کو وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے بلکہ بغور دیکھیں تو کل انتظام عالم میں فرق آگیا اس وقت ان نیک بھگتوں کے منہ سے بیساختہ نہیں نکلے گا چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی (١٠) یہ تبدیل الفاظ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر حیوانی قالب بھوگ جونی ہے تو ہم فرض کرتے ہیں کہ تمام دنیا میں سو دو سال تک تمام لوگ بدکار غدار (جیسا کہ آج کل عموماً ہیں) زانی شرابی کل کے کل اسی قسم کے ہور ہیں جن میں سے کوئی بھی انسانی قالب کے لائق نہ ہو تو بتلائیے تمام دنیا کا انتظام کس طرح ہوگا جب کہ سارے ہی جیو (روح) بوجہ اپنی بدکاری کے حیوانی قالب میں چلے گئے اور ایک روز ایسا آپہونچا کہ سب کے سب حورانات ہی ہوں اور انسان ایک بھی نہ ہو تو نتیجہ اہل الراء سوچ میں۔ منہ ہماری اس تقریر سے نہ صرف مسئلہ تناسخ کا ابطال ہوا بلکہ بغور دیکھیں تو کل دیدک مت (مذہب دید) کا بطلان لازم آتا ہے کیونکہ دیدک تعلیم میں یہ تقاضا یہی نہیں کہ میری پابندی سب لوگ کریں حالانکہ دین الہٰی کا یہ تقاضا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ (عدم تقاضائے دید) پر مفصل بحث ہماری کتاب ” الہامی کتاب“ میں مل سکتی ہے) تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں ہمیشہ اسی طرح بلا میں مبتلا رہیں گے یہ نہ ہوگا کہ کسی وقت اتفاق کرکے اللہ تعالیٰ پر حملہ کریں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا ہی زبر دست بڑی ہمت والا ہے کسی کی کیا مجال کہ اس کے سامنے چوں کرسکیں ان کے مقابل کے لوگ جن سے یہ حسد کرتے ہیں یعنی جو لوگ اللہ اور رسول کے حکموں پر دل و جان ایمان لائے ہیں اور پھر اسی کے مطابق نیک عمل بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کو موت بھی آجاتی ہے ہم (اللہ) ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نہ صرف چند روزہ بلکہ انہیں میں ہمیشہ رہیں گے ان باغوں میں علاوہ نعماء خداوندی ان کے لئے بیویاں پاک ہوں گی جو سوا اپنے خاوندوں کے کسی کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں گی۔ اور ہم ان کو دائمی عیش میں داخل کریں گے اگر یہ انعام حاصل کرنا چاہتے ہو تو سنو ! اللہ تم کو ایک ضروری حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں مالکوں کو جس وقت وہ تم سے طلب کریں دے دیا کرو ایسا نہ کرو کہ ان کو خود ہی ہضم کر جائو یا دیتے وقت کسی بے پرواہی سے کسی اور شخص کو دے دو جس سے ان کا حرج ہو (شان نزول :۔ (ان اللّٰہ یامرکم ان تؤدو الامنت) فتح مکہ کے زمانہ میں آپ نے کعبہ شریف میں داخل ہونا چاہا تو دربان نے چابی دینے سے انکار کیا حضرت علی (رض) نے اس سے جبراً چھین لی جب آپ کعبہ سے باہر آئے تو حضرت عباس نے چاہا کہ کعبہ کی کنجی مجھے ملے اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے مطابق حضرت علی (رض) سے کنجی لے کر اس دربان کے پاس بھیج دی تو اس نے کہا پہلے تو مجھ سے جبراً چھین لی اب کیوں دیتے ہو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہی حکم بھیجا ہے منصفانہ ارشاد سن کر وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ معالم۔) اور جب لوگوں میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے کیا کرو بسا اوقات تم کو انصاف سے روکنے والے ناصح مشفق بن کر ڈرائیں گے کہ فلاں صاحب بڑے رئیس ہیں گو وہ ناحق پر ہیں لیکن اگر آپ ان کے خلاف فیصلہ کریں گے تو وہ صاحب رنجیدہ ہوجائیں گے جس سے آپکا نقصان ہوگا میں آپ کو دوستانہ سمجھاتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ان کے خلاف فیصلہ کسی طرح نہ کریں سو ایسے نادان دوستوں کی نصیحت پر کان نہ لگانا جو نصیحت اللہ تم کو کرتا ہے وہی خوب ہے اگر تم انصاف پر کمر بستہ رہو گے تو کوئی بھی تمہیں چاہے کتنا بڑارئیس بھی کیوں نہ ہو تکلیف نہ پہنچا سکے گا اس لئے کہ اللہ سب کی باتیں سنتا ہے اور سب کے کام دیکھتا ہے ممکن نہیں کہ جو لوگ اس کی رضا جوئی کو مقدم کریں ان کو اللہ ذلیل کرے بلکہ ہمیشہ وہی معزز رہیں گے ان کا خاتمہ بخیر وعافیت ہو اس لئے تو تمہیں حکم ہوتا ہے مسلمانو اللہ اور رسول کا کہا مانا کرو اور اپنے میں سے فرمانروائوں کی موافق شریعت تابعداری کیا کرو (شان نزول :۔ (واولی الامر منکم) حضرت اقدس نے ایک دفعہ کسی طرف فوج بھیجی اس کو حکم کیا کہ اپنے سردار کی تابعداری کرنا موقع پر پہنچ کر وہ سردار کسی وجہ سے فوج پر خفا ہوگیا حکم دیا کہ لکڑئیں بہت سی جلائو جب جل پڑیں تو بولا کہ تم جانتے ہو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں میری تابعداری کا حکم دیا ہوا ہے وہ بولے کہ بیشک دیا ہوا ہے بولا کہ میرا حکم ہے کہ اس آگ میں کود پڑو اس پر بعض کی رائے تو مصمم ہوگئی مگر دوسروں نے ان کو سمجھایا کہ ہم تو مسلمان ہی ہوئے تھے اسی غرض سے کہ آگ سے بچیں جب مسلمان ہو کر بھی ہمیں آگ ہی نصیب ہوئی تو اسلام نے ہمیں کیا فائدہ دیا چنانچہ یہی ہوا کہ کوئی بھی اس پر جرأت نہ کرسکا جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ قصہ عرض کیا آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے اس لئے کہ کسی مخلوق کی اطاعت خالق کی بے فرمانی میں جائز نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری) یعنی امور جائزہ میں اپنے افسروں کی اطاعت کرو اور خلافت شریعت میں نہیں۔ (واولی الامر منکم) اس آیت کے معنے بالکل صاف اور واضح ہیں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماتحت اولوالامر کی اطاعت امور جائزہ میں واجب ہے اولوالامر لفظ مرکب ہے جس کے معنی صاحب امر کے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں امیر یا حاکم کہتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیت موصوفہ کا شان نزول اسی طرح آیا ہے جیسا کہ ہم نے کلام شان نزول میں لکھا ہے پس اس حدیث سے اس آیت کے معنے بالکل صاف ہوگئے کہ اولوالامر سے مسلمانوں کے امیر یا حاکم مراد ہیں رہی یہ بحث کہ علماء مجتہدین کے قیاسات اور استنباطات کا اتباع واجب ہے یا نہیں یہ بحث سلف امت میں نہ تھی اس لئے کہ علماء کی عصمت کا تو کوئی بھی قائل نہیں اصول فقہ میں صاف مذکور ہے کہ مجتہد کی بات بعض دفعہ صحیح اور بعض دفعہ غلط بھی ہوجایا کرتی ہے۔ المجتہد قریصیب وقد یخطی۔ پس اگر اس کے قیاسات قرآن اور حدیث سے مستنبط ہوں گے جن کو دوسرے لفظوں میں فہم قرآن و حدیث کہنا چاہئے تو ان کے ماننے اور تسلیم کرنے سے کون مسلمان انکار کرے گا اور اگر بتقاضائے مایت اور بمقتضائے بشریت ان سے کچھ خلاف ہوگیا تو اس کے ماننے کی اسے کون ہدایت کرے گا۔ پس مولانا عبدالحق صاحب تفسیر حقانی کا فرمانا ” آج کل ایک فرقہ نیا پیدا ہوا ہے جو اپنے آپ کو غیر مقلد اور اہل حدیث سے ملقب کرتا ہے اس (قیاس) کا منکر ہے اور اس کے جواب میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جیسے کتاب و سنت پر عمل کرنے کی تاکید اور قیاس مخالف کتاب و سنت کی برائی پائی جاتی ہے لیکن جمہور کو اس سے کب انکار ہے۔ بلکہ کتب اصول فقہ میں احناف و شوافع کے علماء علام نے تصریح کردی ہے کہ اول کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ پھر اجماع امت پھر قیاس اور جو قیاس حدیث کے برخلاف ہو اس پر عمل کرنا درست نہیں نہ وہ قالس درست ہے بلکہ امام اعظم حضرت ابوحنیفہ (رح) نے تو صحابہ کے قیاس کے مقابلہ میں بھی اپنے قیاس کو معتبر نہ سمجھا چہ جائیکہ حدیث و اجماع کے خلاف ہوا“ تفسیر مذکور جلد ٢ ص ٢٣٢۔ حیرت افزا ہے کہ کس زور و شور سے مولوی صاحب نے فرقہ غیر مقلدین اہل حدیث کا ذکر کیا اور کیسے حقارت آمیز الفاظ میں ان کا نام اللہ اللہ کر کے قلم سے نکالا مگر آخر بات نکلی تو یہ کہ ان کی دلیل کو مع دعویٰ مولانا صاحب نے تسلیم فرما لیا اور بجز ظاہری خفگی کے اندرونی اتفاق سے اطلاع بخشی قسم قنعم الوفاق یہی وجہ ہے کہ ہم نے تفسیر ہذا میں ان مسائل پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی مبارک ہیں وہ لوگ جو اس دعویٰ پر (کہ غیر نبی کا قول و فعل نبی کے قول و فعل کے مقابل سند نہیں) عملی ثبوت دکھاویں ورنہ زبانی لفاظی پر جو اللہ تعالیٰ نے خفگی فرمائی ہے کسی سے مخفی نہیں صاف فرمایا ہے۔ لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عنداللہ ان تقولوامالا تفعلون کیوں وہ باتیں منہ پر لاتے ہو جو کر کے نہیں دکھاتے یہ تو اللہ کے ہاں بڑے غضب کی بات ہے کہ کہے پر عمل نہ کرو۔ (منہ) پھر اگر کسی معاملے میں تم افراد میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پھیرو یعنی حاکموں کے سامنے عدالت میں قانونی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اللہ اور رسول کا حکم پیش کرنا ہوگا پھر اگر حاکم تمہارے منشا اور مفہوم کے خلاف آیت یا حدیث کا مضمون سمجھ کر فیصلہ کر دے تو بطریق انتظام اسے تسلیم کیا کرو بطریق اعتقاد اسے غلط سمجھنے کا تم کو اختیار ہے اگر تم اللہ کو اپنا مالک مانتے ہو اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اسی طرح کیے جائو یہ کام ہر طرح سے بہتر ہے اور انجام کار بھی اچھا ہے ظاہر باطن میں احکام شریعت کو تسلیم کرو نہ کہ منا فقوں کی طرح ظاہر ظاہر۔ النسآء
52 النسآء
53 النسآء
54 النسآء
55 النسآء
56 النسآء
57 النسآء
58 النسآء
59 النسآء
60 (76۔67) کیا تو نے (اے نبی) اور تم نے اے مسلمانو ! ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو دعوی کرتے ہیں کہ جو کچھ تجھ پر اور تجھ سے پہلے اللہ کا کلام اترا ہے ہم سب کو مانتے ہیں اور حالت عملیہ ان کی بالکل اس کے مخالف ہے جب کبھی کوئی معاملہ آپڑے تو موافق شریعت اللہ تعالیٰ ان کا حرج ہوتا ہو تو اس صورت میں چاہتے ہیں کہ شریروں اور شریعت کے مخالفوں سے فیصلہ کرائیں حالانکہ پہلے ہی سے ان کو اس کے انکار کرنے کا حکم ہوچکا ہے مگر وہ باز نہیں آتے اور شیطان بھی اپنے گھات میں ہے چاہتا ہے کہ کسی طرح ان کو بہکا کر ہدائت سے دور ڈال دے اور یہ اپنا نفع ونقصان نہیں جانتے (شان نزول :۔ (الم ترا الی الذین یزعمون) ایک یہودی اور مسلمان منافق میں کچھ تنازع تھا یہودی نے کہا اس کا فیصلہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلتے ہیں منافق بوجہ اس کے کہ دل میں جانتا تھا کہ میں غلطی پر ہوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کبھی غلطی کی حمایت نہ کریں گے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری سے انکار کیا اور ایک یہودی کا نام لیا کہ اس کے پاس چلیں جو کچھ وہ فیصلہ دے گا منظور کروں گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہاں کچھ دے کر کام بن جائے گا آخر وہ یہودی بھی مجبور ہوگیا اور دونوں ایک کاہن کے پاس فیصلہ کرانے کو گئے اس پر یہ آیت نازل ہوء اور منافق بظاہر مومن کی قلعی کھل گئی۔ معالم۔) اور جب کوئی ان سے کہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے حکم اور اس کے۔ رسول کی طرف آئو جو کچھ فرماویں اس کے موافق اس سے فیصلہ کرائو جب ان کو کسی طرح کا حرج معلوم ہو تو تو ان منافقوں کو دیکھتا ہے کہ تیرے سامنے آنے سے رکتے ہیں بھلا پھر کیا ہوگا جب ان کی ایسی بد عملی کے سبب سے ان پر کوئی مصیبت پہنچے گی تو تیرے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ واللہ باللہ ہم نے تو صرف بھلائی اور ملاپ چاہا تھا معاذاللہ خدانخواستہ ہم کوئی آپ کے فرمان سے منحرف ہیں ؟ آپ ہم سے کسی نوع کا رنج نہ رکھیں ہمارے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہماری تکلیف دور کر دے غرض ایسی ویسی ادھر ادھر کی بہت سی باتیں بنائیں گے ان کے دلوں کی بات اللہ کو معلوم ہے پس تو ان کے برا بھلا کہنے سے منہ پھیر لیا کر اور نصیحت کیا کر نہ سختی سے بلکہ نہائت نرم بات اثر کرنے والی ان کو کہہ یہ کتنے ہی تیرے مخالف کوشش کریں تیری ترقی کو کسی طرح مسدود نہ کرسکیں گے اس لئے کہ تیری ترقی کے ہم خود حامی اور ذمہ دار ہیں کیوں نہ ہو یہ تو عام قاعدہ ہے کہ رسول ہم اس لئے بھیجتے ہیں کہ ہمارے حکم سے لوگ اس کی تابعداری کریں سو تیرے سے بھی یہی معاملہ ہوگا ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں تک تیرے ماننے والوں کی نوبت پہنچے گی اور اگر یہ لوگ بھی اس وقت جب انہوں نے بوجہ انکار کے اپنا برا کیا تھا تیرے پاس آکر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کی منت اور اخلاص کو دیکھ کر ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگتا تو اللہ کو ضرور اپنے حق میں معافی دینے والا مہر بان پاتے پس تیرے رب یعنی ہم کو اپنی ذات برکات کی قسم ہرگز یہ لوگ ایمان دار نہیں ہونگے جب تک یہ آپس کے جھگڑوں میں تجھ ہی کو منصف نہ بنا دیں گے پھر اپنے دلوں میں تیرے فیصلے سے نا راض نہ ہو نگے۔ بلکہ اس کو بخوشی قبول کرلیں گے یہ تو ان کا حال سیدھے سیدھے احکام کے متعلق ہے اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں قتل کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جائو تو شاید بہت کم ہی لوگ ان میں سے کرتے اکثر بالکل علانیہ منکر ہو بیٹھتے اور جو کچھ ان کو نصیحت کی جاتی ہے اگر اس پر عمل کرتے تو ان کے لئے ہر طرح سے بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور اس وقت ہم ان کو اپنے ہاں سے بڑا ثواب دیتے اور ان کو راہ راست کی منزل پر پہنچا دیتے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کفرے مانبرداری کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کئے یعنی اللہ کے نبی اور صدیق اور شہید اور نیکو کار اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں ان کی صحبت میں رہنے والا بھی وہی انعام پاوے گا جو ان کو ملے گا (شان نزول :۔ (من یطع اللہ والرسول) ایک شخص ثوبان نامی آنحضرت صلعم سے نہایت محبت رکھتا تھا ایک دفعہ نہایت بے قراری میں بھاگا آیا آپ نے پوچھا ثوبان کیا حال ہے اچھے ہو کہا کہ حضرت اچھا ہوں کوئی بیماری نہیں فقط میں نے آج آپ کی زیارت نہ کی تھی اس لئے گھبراہٹ ہوئی اور مجھے قیامت یاد آئی تو اور بھی زائد رنج ہوا اس لئے کہ جنت میں آپ بلند مرتبہ انبیاء کے ساتھ ہوں گے وہاں ہماری رسائی کیسے ہوگی کہ ہم دیدار پر انوار سے مشرف ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم راقم کہتا ہے کہ آپ کی محبت کی علامت یہ ہے ہر معاملہ میں آپ کی سنت ملحوظ رکھ کر اس پر عمل کرے ورنہ دعویٰ محبت غلط۔ (منہ) یہ مہر بانی خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی نہ کسی مخلوق کی طرف سے جو ان پر کسی قسم کا احسان جتلاوے اور اللہ ہی جاننے والا کافی ہے موافق اپنے علم کے ان کو دے گا ان کو سوال کرنے کی بھی نوبت نہ پہنچے گی چونکہ غیب دانی خاصہ اللہ تعالیٰ ہے جو تم میں نہیں پایا جاتا اس لئے بسا اوقات بے خبری میں تم تکلفی اٹھائو گے لہذامسلمانو ! اپنے دشمنوں سے بچائو کے لئے اپنے ہتھیار لے لیا کرو پھر چاہے متفرق ہو کر نکلو یا جمع ہو کر جس طرح اپنے لئے مناسب سمجھو عمل کرو مگر بوقت ضرورت ضروری نکلو ہم جانتے ہیں کہ کوئی تم میں سے بوجہ ضعف ایمان یا نفاق قلبی کے سستی کرتا ہے اور جنگ میں نہیں نکلتا پھر اگر اتفاقاً تم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے تو وہ بطور شکریہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا ہی احسان کیا جو میں ان مسلمانوں کے ساتھ حاضر نہ تھا ورنہ میں بھی مبتلا۔ آفات ہوتا اور اگر تم پر خدا کی طرف سے مہربانی ہوجائے تم لوگ فتحیاب ہوجائو اور مال غنیمت تم کو ہاتھ آئے تو ہاتھ ملتا ہوا کہتا ہے ہائے افسوس میں بھی ان کے ساتھ جنگ میں ہوتا تو آج ان کی طرح بڑی مالی مراد پاتا پھر تمہارے اس مال ودولت پر ایسا حسد کرتا ہے گویا تم میں اور اس میں کبھی دوستی کی نسبت ہی نہ تھی ورنہ یہ تو سمجھتا کہ گو مجھ کو فائدہ نہیں پہنچا لیکن جب میرے دوستوں کو پہنچا ہے تو فی الجملہ مجھے بھی خوش ہونا چاہئے مگر یہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس نے دنیا کو دین پر مقدم سمجھ رکھا ہے خالص مومنوں کی یہ عادت نہیں بلکہ وہ تو دین کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ دنیا کو دین کے عوض حسب موقع فروخت کردیتے ہیں پس جو لوگ دنیا کے فوائد کو آخرت کے بدلے میں ہیچ سمجھ کر گویا بیچ دیتے ہیں اور دنیا کو چھوڑ کر دین لیتے ہیں اللہ کی راہ میں آخرت حاصل کرنے کو دین کے دشمنوں سے جب وہ ان کو تنگ کریں تو خوب جنگ کریں یہ نہ سمجھیں کہ مقتول ہونے ہی پر یہ بدلہ ان کو ملے گا بلکہ جو کوئی اللہ کی راہ میں لڑائی کرے پھر چاہے وہ مارا جائے یا دشمن پر غالب آجائے دونوں حالتوں میں ہم اس کو بہت بڑا بدلہ دیں گے اس قدر جہاد کی فضیلت سن کر بھی تم کو کیا ہوا کہ مستعد ہو کر اللہ کی راہ میں اور ان بے چارے ضعیف مردوں اور عورتوں اور بچوں کو بچانے کے لئے نہیں لڑتے ہو جو کفار کی تکلیف سے تنگ آکر کہتے ہیں اے ہمارے مولا ! ہم کو ظالموں کی اس بستی سے جس میں ہم رہتے ہیں کسی طرح سے نکال اور ہمارے لئے اپنے ہاں سے کوئی حمائتی مقرر کر اور کوئی مددگار بنا۔ سنو ! جو لوگ مومن ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں سو تم شیطان کے دوستوں کو مارو وہ تم پر کسی طرح غالب نہیں آسکیں گے۔ اس لئے کہ ان کے حمائتی شیطان کی تدبیر نہایت سست ہے بایں ہمہ بعض ظاہری مسلمانوں کے حوصلے بہ نسبت سابق کے بھی پست ہوگئے ہیں۔ النسآء
61 النسآء
62 النسآء
63 النسآء
64 النسآء
65 النسآء
66 النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 النسآء
70 النسآء
71 النسآء
72 النسآء
73 النسآء
74 النسآء
75 النسآء
76 النسآء
77 (77۔91) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کی در خواست پر ان کو حکم ہوا تھا کہ ابھی جنگ کا موقع نہیں اپنے ہاتھوں کو لڑنے سے بند رکھو اور خاموش ہو کر صبر سے نماز پڑھتے رہو زکوٰۃ دیتے رہو (شان نزول :۔ (قیل لھم کفوا ایدیکم) بعض صحابہ (رض) نے بوجہ تکلیف شدید مشرکین مکہ کے آرزو ظاہر کی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت ہو حکمت الٰہی کا تقاضا نہ تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اجازت نہ دی جب مدینہ میں حکم نازل ہوا تو بعض سادہ لوح اس سے گھبرائے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔) پھر ان کو جب لڑنے کا حکم ہوا تو ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے بوجہ بزدلی کے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بطور رنج کے کہتے ہیں اے ہمارے مولا کیوں تو نے ہم پر ابھی سے جہاد فرض کردیا کیوں تھوڑی سی مدت تک تو نے ہم کو تاخیر نہ دی تو اے نبی ان سے کہہ دے کہ بھلا کب تک جیو گے دنیا کی زندگانی اور اس کا سامان تو بہت ہی قلیل ہے اس میں دل لگا کر کیا لو گے آخرت کا گھر پرہیز گاروں کے لئے بہت بہتر ہے جہاں تم کو پو را بدلہ ملے گا اور تم پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا یہ بھی ضرور نہیں کہ تم میدان جنگ میں مر ہی جائو اور بغیر جنگ کے ہمیشہ زندہ رہو جہاں تم ہو گے خواہ میدان جنگ میں یا اپنے گھروں میں ہو وقت مقرر پر موت تم کو آدبائے گی گو تم اس وقت بڑے مضبوط قلعوں میں ہو تعجب ہے کہ بجائے فرمانبرداری اور اطاعت کے ایسے ہو رہے ہیں۔ اگر ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہم کو پہنچی ہے اور اگر اتفاقاً کوئی تکلیف پہنچے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تو اے نبی ! کہہ کہ سب کچھ اللہ کے تکوینی حکم سے ہوتا ہے۔ ممکن نہیں کوئی وقوعہ بغیر حکم الہی کے ہوسکے پھر ان نافہم لوگوں کو کیا ہوا کہ ایسی سہل بات بھی نہیں سمجھتے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے گو یہ بات با لکل صحیح ہے کہ ہر کام کے اسباب ہوتے ہیں مگر اس طور سے نہیں جیسے یہ سمجھتے ہیں کہ ایک کی نحوست سے دوسرے کو تکلیف پہنچے ہاں یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات انسان کو اس کے اعمال سے تکلیف پہنچ جاتی ہے چاہے وہ غلطی مذہبی یا اخلاقی ہو یا بد پرہیزی ہو اس قاعدے سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں سو اے نبی جو جو تجھ کو بھلائی پہنچتی ہے وہ تو محض اللہ کی مہربانی سے ہے کیونکہ کسی کا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کسی طرح کا حق نہیں جو کچھ ہے اس کا احسان ہے اور جو تجھ کو تکلیف پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی غلطی سے ہے یہ ہرگز نہیں کہ تیری نحوست سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے ادنیٰ درجے کے آدمی سے بھی ایسا نہیں ہوتا تو تو ایک بڑے درجے کا ہے ہم نے تجھ کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور تیری تبلیغ رسالت پر اللہ ہی گواہ کافی ہے پھر کیا رسالت کا یہی اثر ہونا چاہئے کہ تیری نحوست سے ان کو تکلیف پہنچ جائے ہرگز نہیں بلکہ تو تو ایسا بابرکت ہے جو کوئی تیرے جیسے رسول کی تابعداری کرتا ہے در حقیقت وہ اللہ کی تابعداری کرتا ہے جس نے اس کو بھیجا ہے اور جو تیری اطاعت سے منہ پھیرتا ہے تیرا کچھ نہیں بگاڑتا کیونکہ ہم نے تجھ کو ان پر نگہبان کرکے نہیں بھیجا کہ ان کے بگڑنے کا تجھ سے جواب طلب ہو ہم ان کی حالت خوب جانتے ہیں علاوہ بد اعمالیوں کے دورخی چال چلتے ہیں تیرے سامنے آکر کہتے ہیں کہ ہم تعمیل ارشاد کو حاضر ہیں پھر جب تیرے پاس سے علیحدہ ہوتے ہیں تو ایک جماعت ان میں سے یعنی سر گروہ ان کے تیرے کہنے کے برخلاف بہتان باندھتی ہے اور مشورے کرتی ہے جس سے لوگوں کو تیری طرف سے نفرت ہو یاد رکھیں ان کے مشورے اور بہتان اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جن کی سزا ان کو بھگتنی ہوگی پس تو ان سے منہ پھیر اور انکی پرواہ نہ کر اور اللہ پر بھروسہ کر اس لئے کہ اللہ ہی کار ساز کافی ہے کیا ایسی منصوبہ بازی میں وقت ضائع کرتے ہیں اور اس قرآن شریف پر غور نہیں کرتے کس طرح ان کا رازافشا صاف صاف لفظوں میں کرتا ہے کہ ان کو مجال تکذیب نہیں ہوتی اگر یہ قرآن سوا اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں کئی طرح کا اختلاف پاتے مضامین میں روانگی عبارت میں مصنف کے خیالات میں اخبار گذشتہ اور آئندہ میں غرض ہر قسم کے احکامات اور واقعات میں چنانچہ یہ امر مشاہدہ اور تجربہ میں آچکا ہے کہ جس مصنف کی عمر بیس پچیس سال کی ہو اس کے خیالات میں نمایاں فرق ہوجاتا ہے مگر قرآن میں کوئی نہیں اگر اختلاف ہوتا تو بے شک ان مخالفوں کو اختلاف کا موقع ملتا اور ان کی چال بازی سنو ! جب ان کے پاس کسی طرف سے امن یا خوف کی بات پہنچتی ہے تو بلا سوچے سمجھے اس کو مشہور کردیتے ہیں۔ تاکہ ملک میں بد نظمی پھیلے اور اگر اس خبر کو سن کر ہمارے رسول تک یا مسلمانوں کے بااختیار لوگوں کے پاس پہنچاتے تو ان میں سے تحقیق کرنے والے اس خبر کو محقق کرتے اور نتیجہ نکالتے اگر اس کی اشاعت میں مصلحت ہوتی تو اشاعت کرتے نہیں تو مخفی رکھتے سچ تو یہ ہے کہ مسلمانو ! اگر تم پر اللہ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو موقع بموقع ان منافقوں کی چالبازی سے تم کو مطلع نہ کرتا اور فتح پر فتح نمایاں نہ دیتا تو بجز چند سمجھ دار لوگوں کے تم سب شیطان کے پیچھے ہو لیتے کچھ تو ان منافقوں کی کار گزاری سے اور کچھ تکلیف دینی اور شکست کھانے سے پس تو اس شکر کے بدلہ میں کہ تیری امت کو ان دو بلائوں سے اللہ نے محفوظ رکھا اللہ کی راہ میں مستعد ہو کر جہاد کر خواہ تیرے ساتھ کوئی ہو یا نہ ہو تو اپنی جان ہی کا ذمہ دار ہے سو پورا کر اور مسلمانوں کو بھی اس کار خیر کی رغبت دے اگر مستعد ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کیے جائو گے تو عنقریب اللہ تمہارے دشمنوں یعنی کافروں کی جنگ کو روک دے گا اور ان کو مغلوب کر دے گا پھر وہ تمہارے سامنے ہرگز نہ ٹھہرسکیں گے اس لئے کہ تمہارا حامی اللہ تعالیٰ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی جنگ زبر دست اور اس کا عذاب بہت ہی سخت ہے اسی طرح تو مسلمانوں کو ترغیب دیتا رہ تیرا کیا حرج ہے مانیں یا نہ مانیں تجھے تو ہر حال میں ثواب مل جائے گا کیونکہ جو شخص کسی کو نیک کام بتلاتا ہے یا بھلے کام کی سفارش کرتا ہے تو کوئی اس پر عمل کرے یا نہ کرے اس ناصح کو تو ضروری ہی اس میں سے حصہ ملتا ہے اور ایسا ہی جو کسی کو برے کام کی راہنمائی کرتا ہے اس کو بھی اس برائی کا حصہ پہنچتا ہے پھر چاہے کوئی چھپ کر کرے یا ظاہر کسی صورت میں اس کی کمی نہ ہوگی کیونکہ اللہ ہر چیز پر محافظ اور نگران ہے۔ ہمیشہ لوگوں کو نیکی کی ترغیب دیتے رہو اور خوش خلقی سے پیش آئو اور خوش خلقی سے ہدائت کی اشاعت ہوتی ہے اس لئے تو ہم تم کو کہتے ہیں کہ جس وقت کوئی تم کو تحفہ دے یا کسی قسم کا سلوک کرے تو اس کے تحفہ سے اچھا تحفہ اس کو دیا کرو یا اس کے سلوک سے اچھا سلوک اس کے ساتھ کیا کرو کم سے کم اسی جیسا دیا کرو غرض کچھ بھی ہو کسی قسم کا سلوک بطور شکریہ ضرور کیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور تعلقات اچھے ہوتے ہیں لیکن دوستانہ تحفہ دینے والا زیادہ لینے کی نیت سے نہ دیا کرے نہ دینے والا بد نیتی سے دے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے وہ ہر ایک کام کا بدلہ اس کی نیت کے مطابق دے گا ان صفات کا اس میں ہونا ضروری ہے اس لئے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اللہ نہیں تمام جہان کا مالک پرورش کنندہ وہی ہے اسی نے تمہیں دنیا میں پیدا کر کے آباد کر رکھا ہے انجام کار بلا شبہ قیامت کے روز تم کو جمع کرے گا جہاں تمہیں حساب دینا ہوگا اس واقعہ کو بالکل سچ جا نو اللہ سے زیادہ راست گو کون ہے جس کی بات پر یقین کرو گے اللہ ہی تو ابتدا سے تمہارے دشمنوں کے حال تم پر ظاہر کرتا رہا جن کو تم نے بالکل مطابق پایا پھر کیوں تم منافقوں کے بارے میں جو اعلی درجہ کے تمہارے دشمن ہیں دو گروہ ہو کر متفرق ہوگئے ہو بعض ان کو مسلمان جانتے ہیں اور بعض کافر حالانکہ وہ یقینی کافر ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان کو بوجہ ان کی بداعمالی کے گمراہ کردیا اب وہ ہرگز راہ پر نہیں آسکیں گے کیونکہ جس کی نسبت جناب باری میں سزا کا فتوٰی لگ جائے اسے کوئی بچا نہیں سکتا پھر کیا تم اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ پر لانا چاہتے ہو ہرگز تم اس خیال میں کامیاب نہ ہوگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بداعمالی کی سزا میں راہ نہ دے تو اسکے لئے کوئی صورت نہ پاوے گا کہ کسی طرح اس کو راہ راست پر لاوے تم ان کے ایمان کی نسبت جھگڑتے ہو اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہو کر ایک سے ہوجاؤ پس جب ان کی یہ حالت ہے تو ان میں سے کسی ایک کو بھی دوست نہ بناؤ جب تک وہ گھر چھوڑ کرا للہ کی راہ میں لڑنے کو نہ نکلیں اور ثابت قدم نہ رہیں اور اگر باوجود دعوٰی اسلام کے اس سے منہ پھیریں اور دھوکہ دہی اور چال بازی سے باز نہ آویں تو ان کو پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرڈالو اور ان میں سے نہ تو کسی کو دوست بناؤ اور نہ حمائتی بس بالکل علیحدگی اختیار کرو ہاں ان کو نہ مارو جو تم سے معاہدہ کئے ہوئے ہیں بلکہ جو تمہارے معاہدہ والوں سے معاہدہ رکھیں یا تمہارے لڑنے اور اپنی قوم (کفار) کے ساتھ لڑنے سے باز آکر تمہارے پاس آجاویں اور تم سے صلح جوئی کریں ایسے نیوٹرل لوگوں سے لڑنا بزدلی ہے اپنی قوت بازو کے غرور میں ایسے لوگوں کو نہ مارو اور اللہ کا شکر بجالاؤ کہ تم کو ان پر فتح عنائت کی ورنہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں کو تم پر غالب کردیتا پھر وہی تم کو مارتے پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کے پیغام بھیجیں تو ان کے درپے ہرگز نہ ہو اس لئے کہ ان سے لڑنے کی اللہ نے تم کو اجازت نہیں دی ہاں انہی کے قسم لے اور لوگ ایسے بھی تم کو ملیں گے جو بظاہر چاہیں گے کہ تم سے امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی لیکن عملی کارروائی ان کی یہ ہوگی کہ جب کوئی ان کو جھگڑے فساد کی طرف بلائے گا تو بھاگ کر اس کی طرف ایسی سرعت سے جائیں گے گویا اس میں گر پڑیں گے پس اگر وہ تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور تمہاری طرف صلح کے پیغام نہ بھیجیں اور اپنے ہاتھوں کو تمہاری لڑائی سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کر ڈالو انہیں لوگوں پر تم کو غلبہ دینا اللہ عالم الغیب نے مقدر کر رکھا ہے ہاں مسلمانوں کے قتل سے پرہیز کرو۔ النسآء
78 النسآء
79 النسآء
80 النسآء
81 النسآء
82 النسآء
83 النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 النسآء
87 النسآء
88 النسآء
89 النسآء
90 النسآء
91 النسآء
92 (92۔104) کسی مسلمان کا کام نہیں کہ کسی مسلمان کو دانستہ قتل کرے مگر غلطی سے ہو تو امردیگر ہے مثلاً مارا شکار کو مرا مسلمان یا غصے میں ماری لاٹھی جس سے قتل نہ ہوتا تھا لیکن مرگیا یا تلوار سے مارے مگر ایمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ کسی اور امر پر غصے کی وجہ سے مارے اس کا تدارک یوں ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے مار دے تو وہ ایک غلام مسلمان آزاد کرے اور اس کے وارثوں کو اس کا خون بہا دیوے مگر جب وارث اس کے خون بہا کو خود ہی معاف کردیں تو معاف بھی ہوسکتا ہے اور اگر وہ مقتول تمہارے دشمنوں یعنی حربی کفار میں سے ہے مگر وہ خود مسلمان ہے تو صرف مسلمان غلام کا آزاد کرنا قاتل کے ذمہ واجب ہے اور اگر وہ مقتول مومن تمہارے معاہدہ دار قوم میں سے ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا دینا اور ایک غلام مسلمان کا آزاد کرنا ضروری ہے پھر جو شخص غلام یا اس کی قیمت نہ پاوے تو دو مہینے پے درپے روزے رکھے یہ اللہ کے ہاں سے معافی ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے اس کے علم و حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ بھلی باتیں تم کو بتلاوے اور ذرہ سے جھکنے پر بھی معافی دیدے البتہ جو شخص مومن کو بلحاظ ایمان یعنی بحیثیت مومن ہونے کے دانستہ قتل کر ڈالے تو اس کا بدلہ اس گناہ کی سزا میں جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ غضب اور لعنت اس پر ہوگی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار ہے کیونکہ قاتل نے اس کو قتل کرکے اس بات کا اظہار کیا کہ اس کے ایمان اور اس کے اسلام سے اس کو رنج ہے پھر ایسے شخص کو کافروں کی پوری سزا کیوں نہ ملے اس خیال سے کہ تم بھی اس عذاب میں کہیں مبتلا نہ ہوجاؤ تمہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ مسلمانو ! جب کبھی تم اللہ کی راہ میں سفر کو جاؤ تو مخاطبوں کا حال بخوبی دریافت کرلیا کرو مومن ہیں یا کافر (شان نزول :۔ (یایھا الذین امنوا) ایک دفعہ صحابہ (رض) کے لشکر کے مقابل ایک شخص سلام کہتا ہوا آیا اس کی غرض یہ تھی کہ چونکہ میں مسلمان ہوں ان کو خبر کر دوں تاکہ غلطی سے مجھے قتل نہ کر ڈالیں۔ صحابہ میں سے ایک شخص نے اس خیال سے کہ یہ صرف ظاہرداری کرتا ہے اسے قتل کر ڈالا چونکہ یہ قتل اسلامی قانون کے خلاف تھا اس لئے یہ آیت نازل ہوئی (معالم بالاختصار) منہ۔) تاکہ غلطی سے کسی مسلمان کو نہ ماردو اور جو کوئی ناواقفی میں تم کو اسلام علیکم کہے تو اس کو مت کہو کہ تو مسلمان نہیں یونہی ہم کو فریب دیتا ہے کیا تم اس کو مار کر دنیا کا اسباب لینا چاہتے ہو دینی بدلہ تو اس میں نہیں اگر تم کو مال اسباب کی خواہش دامن گیر ہے تو اللہ سے مانگو وہ ضرور تم کو دے گا کیونکہ اللہ کے ہاں غنیمتیں بہت ہیں اگر تم سمجھو کہ یہ شخص مسلمان ہوتا تو کافروں کو چھوڑکر پہلے ہی سے ہم میں کیوں نہ آملتا تو جان لو کہ تم بھی پہلے اسی طرح کفار سے دبے ہوئے تھے لیکن اللہ نے تم پر احسان کیا پس تم بخو بی دریافت کرلیا کرو اس میں ہرگز سستی نہ ہونے دو دل میں سمجھ رکھو کہ اللہ تمہارے کاموں سے آگاہ ہے اس حکم سے ڈر کر ایسا بھی نہ کرو کہ جہاد ہی چھوڑدو پھر تو تم ثواب عظیم سے محروم رہ جائو گے اس لئے کہ بے عذر مسلمان گھر میں بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں اپنے مال اور جان سے لڑنے والوں کو گھروں میں بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے مرتبہ میں بڑائی دے رکھی ہے ہاں دونوں کو عام طور سے اچھاوعدہ دیا ہے انکے ایمان اور اعمال صالح کا بدلہ جنت میں ان کو ملے گا اور اللہ نے مجاہدوں کو بیٹھے رہنے والوں پر ثواب عظیم کی فضیلت عطا کی ہے ہے یعنی کئی درجے اپنی طرف سے اور بخشش اور مہربانی کے وعدے کیوں نہ ہوں اللہ تو بڑابخشنے والا مہربان ہے یہ نہیں کہ خواہ مخواہ بھی بلا وجہ کفار کے ملک میں (جہان پر احکام شریعت بجا لانے سے تکلیف پہنچائی جاتی ہو) ٹھہر کر معذور ہوجائیں بلکہ ایسے لوگ درحقیقت اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں ان لوگوں کو جو اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں بجائے معذور رکھنے کے فوت کرتے وقت بطور زجر کے پوچھتے ہیں کہ کیوں صاحب تم لوگ کہاں تھے کس حال میں رہے کہ ہمیشہ دینی امور میں ذلت اور رسوائی ہی اپنے پر لیتے رہے اس کی وجہ کیا تھی (شان نزول :۔ (ان الذین توفہم الملئکۃ) بعض لوگ باوجود مسلمان ہونے کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد بھی مکہ شریف میں رہے حتی کہ طوعاً کرہاً جنگ میں مشرکین مکہ کی ہمراہ ہو کر مقابل اہل اسلام لڑنے کو بھی آئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم باختصار منہ۔) وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم مجبوری سے کافروں کی زمین میں رہتے تھے یہ وجہ ہماری دینی ذلت کی تھی فرشتے کہتے ہیں یہ تمہاری وجہ معقول نہیں کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ اس میں تم ہجرت کر جاتے اور دوسری جگہ بامن وعافتی اپنی مختصر زندگی گزار تے سو ایسوں کا ٹھکانا بے شک جہنم ہوگا اور وہ بری جگہ ہے ہاں وہ ضعیف مرد اور عورتیں اور بچے جو نہ نکلنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ بیچارے راہ پہچانتے ہیں ان کے لئے دونوں مانع سخت درپیش ہیں سو امید ہے کہ ایسوں کو اللہ معاف کرے گا اس لئے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے تھوڑے سے عذر واقعی پر بھی معاف کردیتا ہے لوگ تو خواہ مخواہ ذلت اٹھا کر کفار کے ملک میں رہتے ہیں اور ہجرت نہیں کرتے حالانکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی راہ میں کفار کی تکالیف سے تنگ آکر ہجرت کرے گا زمین میں بہت آسائش اور فراغ دستی پائے گا یہ بھی نہیں کہ ہجرت کا بدلہ دنیا ہی میں ملے اور بس نہ یہ کہ گھر سے نکل کر کسی امن کی جگہ پہنچ جائے تو ملے نہیں بلکہ جو کوئی اللہ اور رسول کے دین کی خاطر گھر سے بہ نیت ہجرت نکلے پھر پہلے پا نے کسی امن گاہ کے راہ ہی میں اس کو موت آجائے تو اللہ کے ذمہ اس کا ثواب ہوگیا جہاں سے پورا پورا بدلہ اس کو ملے گا ایک حبہ بھی نقصان نہ ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ذرا دل جھکنے کی دیر ہے کہ فوراً اس کی رحمت دامنگیرہو جاتی ہے دیکھو تو دنیا میں اس کی رحمت کے آثار جو مہاجروں پر ہیں بلکہ ان کی طفیل تمام مسلمان مسافروں پر ایسے ہیں کہ ہم نے عام حکم دے رکھا ہے کہ جب تم زمین میں سفر کرنے کو جائو تو تمہیں تماز قصر کرنا جائز ہے یعنی بجائے چار رکعت کے دورکعتیں پڑھو۔ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر لوگ نماز میں تم کو ستائیں گے واقعی کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب تو (اے نبی یا تیرا کوئی نائب) ان مسلمانوں میں ہو اور نماز پڑھانے لگے تو چاہیے کہ ان حاضرین میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہوجاوے اور ایک جماعت کفار کے مقابلہ پر جمی رہے اور وہ کھڑے ہونے والے بقدر حاجت اپنے ہتھیار بھی ساتھ لئے رہیں پھر جب پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ کرچکیں تو وہ تم سے پیچھے چلے جائیں اور دوسری جماعت جنہوں نے ابھی نماز کی کوئی رکعت نہیں پڑھی اور ہنوز تمہاری حفاظت کو کفار کے مقابل کھڑے ہیں آجائیں اور تیرے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ لیں اور جب تو اپنی دورکعتوں پر سلام دے چکے تو ہر ایک جماعت پہلی اور پچھلی اپنی ایک رکعت علیحدہ پڑھ لیں مگر اپنا بچاؤ اور ہتھیار ساتھ ہی رکھیں شاید کہ عین نماز میں ہی کفار حملہ آور ہوں تو ان کو روکنا پڑجائے اس لئے کہ کافروں کی تو یہ دلی آرزو ہے کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہوجاؤ تو تم پر ایک دفعہ ٹوٹ پڑیں سو تم اس کا لحاظ رکھو کہ کہیں ان کو تمہاری غفلت میں موقع نہ مل جائے ہاں اگر تم کو بارش وغیرہ کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو اور تمام ہتھیار اٹھانے تم کو مشکل ہوں تو ایسی صورت میں ہتھیار اتار رکھنے میں تم پر گناہ نہیں۔ رکھ دیا کرو مگر پھر بھی تمام نہیں تو بقدر ضرورت اپنا بچاؤ ساتھ رکھا کرو اور یہ نہ سمجھو کہ کفار کی بڑی شان و شوکت ہے جو ہم کو ایسے تاکیدی حکم ہور رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ اگر ہم سے ذرہ غفلت ہوجائے تو کافر ہم پر غالب آجائیں ہرگز تم پر غالب نہیں آویں گے اس لئے کہ اللہ نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے سو اب ان کی ذلت کے ایام آگئے ہیں پھر جب اسی جھگڑے میں نماز پڑھ چکو تو ہر حال میں کھڑے بیٹھے کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرو پھر جب تم کو جنگ سے آرام ملے اور کسی قسم کی گھبراہٹ نہ ہو تو مثل سابق پوری نماز پڑھو اس لئے کہ نماز مسلمانوں پر بڑا تاکیدی وقت بوقت فرض ہے اس میں کسی طرح کی کمی نہ ہونے دو اور آرام میں پھنس کر کفار کی تلاش میں سست نہ ہوجاؤ اگر تم اس میں تکلیف پاتے ہو تو کیا خوف ہے وہ بھی تو تمہاری طرح تکلیف اٹھاتے ہیں پس جب وہ تمہاری تلاش میں سست نہیں ہوتے تو تمہاری سستی کے کیا معنی؟ حالانکہ تم اللہ سے اس ثواب کی امیدرکھتے ہو جس کی ان کو نہیں اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے اس نے اپنے دین کی حمایت کا دارومدار تم ہی پر نہیں رکھا ہوا بلکہ اپنی حکمت کے ذریعہ ہر طرح سے کرسکتا ہے النسآء
93 النسآء
94 النسآء
95 النسآء
96 النسآء
97 النسآء
98 النسآء
99 النسآء
100 النسآء
101 النسآء
102 النسآء
103 النسآء
104 النسآء
105 (105۔134)۔ اس جنگ جہاد سے یہ ہرگز منظور نہیں کہ تم خونخواروں کی طرح موقع بے موقع آدمیوں کو تنگ کرتے پھرو اور مسلمان اور کافر کے معاملہ میں مسلمان ہی کو خواہ مخواہ چاہے وہ غلطی پر بھی ہو ترجیح دینے لگو ہمیں ہرگز یہ منظور نہیں بلکہ ہم نے تو یہ سچی کتاب تیری طرف اس لئے اتاری ہے کہ تو لوگوں میں اللہ کے بتلائے ہوئے قانون سے حکم کرے (شان نزول :۔ (انا انزلنا) ایک شخص نے کسی دوسرے کی بوری آٹے کی چرا کر ایک یہودی کے ہاں رکھ دی لوگوں میں جب اس چوری کا چرچا ہوا تو بعض لوگوں نے آٹے کے نشان سے پہچانا کہ یہاں سے آٹا نکل کر اس یہودی کے مکان پر گیا ہے اس یہودی سے دریافت کیا تو اس نے اصل چور کا نام لے دیا۔ اس چور کی برادری کے لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت شریف میں آ کر واویلا کیا کہ ہمارا آدمی ناحق بدنام ہو رہا ہے آپ لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس کا نام نہ لیں چنانچہ آپ نے ان کے ظاہری حال پر رحم کھا کر چاہا کہ لوگوں کو اس کے نام لینے سے روکیں مگر چونکہ درحقیقت اسی کا کام تھا اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) عدالتی احکام میں پہلا حکم یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم میں تمیز کرو اور دغابازوں کے حمایتی نہ بنو اس فیصلے میں غلطی ہوجائے تو اللہ سے اس کی بخشش مانگا کرو وہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور ان بدمعاشوں کی طرف سے جھگڑا نہ کیا کرو جو اپنے بھائیوں بنی نوع کی خیانت کرتے ہیں ان کے اموال کو اور جان کو ناجائز طریق سے نقصان پہنچاتے ہیں اللہ کو دغا باز بدکار ہرگز نہیں بھاتے یہ بدکار نہیں سمجھتے کہ لوگوں سے تو چھپ سکتے ہیں اللہ سے نہیں چھپ سکتے اس لئے کہ جب رات کو ناپسندباتوں کے مشورے کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کے ساتھ ہوتا ہے ناپسند باتوں ہی کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ ان کے تمام اعمال کا اللہ نے احاطہ کر رکھا ہے بھلا تم نے دنیا میں تو ان کی طرف سے جھگڑا کرلیا قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑے گا یا کون ان کی کارسازی کرے گا کوئی نہیں البتہ دنیا میں اس بداعمالی کا تدارک ممکن ہے کہ جو شخص براکام کرے جس سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے یا کسی بھائی بنی نوع میں سے کسی پر ظلم کرے جس سے دوسرے کو صدمہ مالی بدنی یا روحانی پہنچے پھر اللہ سے ڈر کر مظلوم سے معافی چاہے اور اپنے افعال قبیحہ پر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے اللہ کی بخشش اور مہربانی کا حصہ ضرور پاوے گا ان بدکاروں کو چاہئے کہ اپنی بداعمالیوں کا بہت جلد علاج کریں اس لئے کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے اپنا ہی برا کرتا ہے کسی کو اس کی خرابی نہیں پہنچے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا ہے اس کی حکمت اور دانائی اس کے مخالف ہے کہ کسی کا کیا کسی پر ڈالے اور یہ بھی سن لو کہ جو شخص کسی قسم کا چھوٹا موٹا گناہ کرکے کسی بے گناہ کے ذمہ لگاتا ہے وہ سخت سزا میں مبتلا ہوگا کیونکہ اس نے بڑا بہتان یعنی الزام اور صریح گناہ اپنے سر اٹھایا سچ تو یہ ہے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اے نبی تیرے شامل حال نہ ہوتی کہ وقت بوقت تجھے تیرے مخالفوں کے حال سے مطلع نہ کرتا تو تو ضرور غلطی کر بیٹھتا اس لئے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے بہکانے کا قصد کرچکی تھی کہ تجھے کسی طرح غلطی میں ڈالیں کہ خلاف واقع سچ جھوٹ بول کر تجھ سے فیصلہ کرالیں لیکن دراصل وہ اپنے آپ کو بہکاتے ہیں کہ ان کی ایسی کوششوں کا وبال انہی کی جان پر ہوگا جس کا عوض پائیں گے اور تجھے کچھ بھی ضرر نہ دے سکیں گے تو بلا ان کے بھلانے بہکانے سے کیسا بھول جائے گا تجھ پر تو اللہ نے کتاب قرآن شریف اور دانائی اور فہم کی باتیں اتاری ہیں اور تجھے وہ باتیں سکھائی ہیں جو تو نہیں جانتا تھا اور علاوہ اس کے تجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہے پھر بھلا جس کی حمایت اور حفاظت اس طور سے ہو اس کو یہ خام عقل والے کیا ضرر دے سکتے ہیں پڑے سرگوشیاں کریں ان کی بہت سی کانا پھوسیوں میں بھلائی نہیں ہاں جو شخص اپنی سرگوشی میں دوسرے کو صدقہ یا نیک کام یا لوگوں میں اصلاح کرنے کا حکم کرے اس کی کانا پھوسی البتہ بہتر ہے کیونکہ جو کوئی یہ کام اللہ کی مرضی حاصل کرنے کو کرتا ہے ہم اس کو بہت بڑا اجر دیں گے اور جو شخص بعد معلوم ہونے ہدایت کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور مومنوں کی خلاف راہ چلے گا تو جس طرف اس نے رخ کیا ہم بھی اسی طرف اس کو پھیر دیں گے اور انجام کار اس کو جہنم میں داخل کریں گے جو بہت بری جگہ ہے (شان نزول :۔ (ومن یشاقق الرسول) جس چور کا پہلی آیت میں ذکر ہے بعد ثبوت چوری کے مکہ کے مشرکوں میں جاملا اور اسلام اور اہل اسلام سے مرتد ہوگیا اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم راقم کہتا ہے یہ حالت اور سزا مرتد کی جب ہے کہ ارتداد پر قائم رہے اور اگر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے تو سب کچھ معاف ہے چنانچہ الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفور رحیم میں ارشاد ہے۔ منہ) جس روز ایسے امور کا عام فیصلہ ہوتا ہے اس روز کا قانون یہ ہے کہ اللہ شرک کے جرم کو ہرگز نہیں بخشے گا اور سوائے اس کے جو چاہے گا بخش دے گا اس لئے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ بڑی ہی دور کی گمراہی میں پڑجاتا ہے دیکھو تو کیا احمق پن ہے کہ اللہ کے سوا عورتوں جیسی کمزور چیزوں کو پکارتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کن کو پکار رہے ہیں وہ اپنی زندگی میں نیک ہوں یا مقرب الٰہی ہوں مگر درجہ خداوندی اور حاجت روائی تو کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہوسکتا گو بظاہر اپنے زعم میں ان بزرگوں کی عبادت کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ لوگ شیطان مردود کو پکاررہے ہیں جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے ضرور ایک حصہ اپنا تابعدار بنالوں گا اور ان کو گمراہ کروں گا جس کا طریق یہ ہوگا کہ ابتدا میں ان کے جی میں امیدیں ڈالوں گا اور بعد اس کے جب وہ کسی قدر اس میں مصروف ہوں گے تو ان کو حکم دوں گا تو چار پاؤں کے کان پھاڑیں گے اور غیر اللہ کے نام سے ان کو وقف کریں گے اور پھر ان کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی صفت خلق کو بدل دیں گے یعنی اللہ کی پیدا کی ہوئی اور دی ہوئی چیز کو غیر اللہ کی طرف نسبت کریں گے یادرکھو جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو جس کے ارادے تمہاری نسبت یہ ہیں جو ذکر ہوئے اپنا دوست بنائے گا تو وہ صریح ٹوٹا پائے گا سنو ! شیطان تو ایسا مکار ہے کہ یونہی ان کو بذریعہ خام خیالوں کے وعدے دیتا ہے کہ تم فلاں قبر کی منت مانویا فلاں بت کے آگے مٹھائی رکھو تو تمہا را یہ کام ہوجائے گا اور ان کو آرزوئیں دلاتا ہے کہ فلاں قبر پر نذر چڑھانے سے قیامت کے روز ان کی شفا عت سے نجات ہوجائے گی دنیا کا فلاں کام سنور جائے گا وہ احمق لوگ جو اس کے خیال میں آجاتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں اور حقیقت میں ان کو جھوٹی آرزوئیں دلا تا ہے پس جو لوگ اس کی باتوں میں پھنس جاتے ہیں انہی لوگوں کا ٹھکا نہ جہنم ہے جہاں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا اور اس سے کہیں نکلنے کی راہ نہ پاویں گے اور ان کے مقابل وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کیے ان کو ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی جن میں ہمیشہ رہیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے بتلائو تو اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے پس اگر تم بھی اسے ایسا ہی مانتے ہو تو سنو ! کہ نجات کا مدار نہ تمہاری مشرکوں کی خواہشوں پر ہے کہ بت پرستی سے ہر قسم کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور نہ اہل کتاب کی مرضی پر ہے (شان نزول :۔ (لیس بامانیکم) مشرکین عرب اور یہود نصاریٰ جو اپنی اپنی غلط فہمیوں کی وجہ سے بےدینی کو دین سمجھ کر راہ نجات جانتے تھے ان کے سمجھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) کہ مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہوجاتی ہے نیک اعمال موجب نجات نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی برا کام کرے گا اس کی سزا اٹھائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمائتی اور مددگار نہ پاوے گا اور ایسا ہی جو شخص مرد ہو یا عورت جو مسلمان ہو کر نیک کام کریں گے سو جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہوگا کہ ان کے اعمال صالحہ میں سے کچھ کم کیا جائے کیوں نہ ان لوگوں کو ایسا بدلہ ملے جنہوں نے اللہ کے حکموں کو بدل و جان قبول کرلیا کیا کوئی شخص اس سے بھی اچھا دین دار ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کا تابعدار بنایا پھر اس کی مرضی کے موافق نیک کام بھی کرتا رہا اور خاص کر یہ خوبی کہ ابراہیم ( علیہ السلام) یکطرفہ کے طریق پر چلا اور کامل اخلاص کی وجہ سے ابراہیم کو اللہ نے اپنا مقرب بندہ بنایا تھا یوں تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے کوئی مقرب بننے سے اس کا ساجھی نہیں ہوسکتا دنیا کے بادشاہوں پر جو وزیروں کے قبضے میں سب کچھ دے رکھتے ہیں اللہ کی حکومت کو ان پر قیاس کرنا غلط ہے اللہ باوجود اس قدر وسیع سلطنت کے بذات خود سب کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر ایک بات کو مناسب جانتا ہے اور اسی کے موافق حکم دیتا ہے لہذا تو اس کی تبلیغ میں سر گرم رہ اور رسوم قبیحہ (شرک کفر اور چھوٹی لڑکیوں کا قتل اگر بڑی ہوں تو والدین کے مال سے انکو محروم کرنا یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لاکر ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرنا وغیرہ وغیرہ) کے مٹانے میں کوشش کرتا رہ تیری کوشش کا نتیجہ ہے کہ اکثر لوگ شرک کفر چھوڑ کر اب اس درجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ عورتوں کی بابت تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کو نکاح میں لاکر کس طرح معاملہ کریں (یستفتونک) خانہ داری کے متعلق انصاف اور اخلاق برتنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) تو ان کو کہہ دے کہ اللہ خود تم کو عورتوں کی بابت بڑے انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو کتاب (قرآن) میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق مقرر نہیں دیتے اور بوجہ خوبصورتی اور مالداری کے ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور جو ضعیف اور ناتواں بچوں کے لئے تمہیں اسی کتاب قرآن میں سنایا جاتا ہے کہ ان کے ماں باپ اور قریبیوں کے مال سے ان کو خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں حصہ موافق شریعت دیا کرو اور خلاصہ سب کا یہ ہے کہ یتیموں سے انصاف کی کاروائی کرو جو ان کے حقوق واجبہ اور جائزہ ہیں عمدہ طور سے ادا کرو اور علاوہ اس کے جو کچھ تم ان سے یا کی غیر سے بھلائی کرو گے اس کا بدلہ پائو گے اس لئے کہ اللہ کو سب معلوم ہے بیوی خاوند ہمیشہ مصالحت سے نباہ کریں اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی بد مزاجی یا بے پرواہی معلوم کرے تو ان کو باہمی صلح کرلینے میں گناہ نہیں کسی طرح سے خواہ نان و نفقہ کی کمی سے بھی ہو عہد وپیماں جائز طور سے کرلیں غرض صلح سے رہیں کیونکہ صلح عموماً بہ نسبت فساد کے بہتر ہے کوئی فریق اس بات کا خیال نہ رکھے کہ میرا کسی طرح کا نقصان نہ ہو ایسا کرنے سے صلح نہ ہوگی اس لئے کہ ہر نفس کو اپنے فائدے کا لالچ ہے دوسرے کا نقصان ہی کیوں نہ ہو اپنا ہی فائدہ ہر ایک کو ملحوظ رہتا ہے یہ عادت اچھی نہیں بلکہ اگر تم آپس میں احسان کرو گے اور ظلم وستم کرنے سے بچو گے تو اللہ کے ہاں اس کا بڑا ہی اجر پائو گے کیونکہ اللہ تمہارے سب کاموں سے خبر دار ہے تمہارے سب کا موں کا پورا بدلہ دے گا اس حکم خانہ داری کا ایک ذمیمہ ہنوز بیان طلب ہے وہ بھی سنو کہ متعدد بیویوں کی صورت میں تم ہر ایک کے ساتھ کھانے پینے دلی محبت وغیرہ میں برابری ہرگز نہ کرسکو گے گو تم خواہش بھی کرو کیونکہ یہ امر متعذر بلکہ قریب محال ہے پس منع یہ ہے کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جائو کہ دوسری کو لٹکتی ہوئی چھوڑو کہ نہ وہ ایسی ہو کہ خاوند دار کہلائے حالانکہ تم اسے پوچھو نہیں اور نہ بے خاوند بیوہ ہے کیونکہ تم نے اسے قید رکھا ہے چھوڑتے نہیں اور اگر آپس میں صلح سے رہو گے اور اختیاری معاملات یعنی کھانا پینا اور شب باشی میں ظلم سے بچو گے تو دیگر امور (جیسے دلی لگائو کا کسی طرف زائد ہونا) اللہ تم کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ بڑابخشنے والا مہربان ہے ناموافقت کی صورت میں عورت کو بند کرنے سے چھوڑ دینا بہتر ہے اگر دونوں علیحدہ ہوجاویں گے اور ایک دوسرے کے ظلم سے دور رہیں گے تو اللہ بھی اپنی فراخ دستی سے ان کو ایک دوسرے سے بے پرواہ کر دیگا ایسا کرنا اللہ سے کچھ دور نہیں اس لئے کہ اللہ بڑی فراخی والا ہے جس قدر چاہے ہر ایک کو دے سکتا ہے اور ساتھ ہی بڑی حکمت والا ہے کہ ایسے طور سے دیتا ہے جو کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آتا فراخی اس کی کا یہی ثبوت کافی ہے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے درحقیقت اللہ ہی کی ملک ہے چونکہ آسمان اور زمین کے سب لوگ کیا پہلے اور کیا پچھلے ہمارے ہی غلام اور مخلوق ہیں اس لئے ہم نے تم سے پہلے کتاب والوں (یہود و نصاری) کو اور تم کو بھی یہی نصیحت کر رکھی ہے کہ اللہ سے جو سب آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے ڈرتے رہو کسی حال میں اس کی بے فرمانی مت کرو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہوگا (شان نزول :۔ (ولقد وصینا الذین) اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے بعض سوالوں کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اور اگر تم ناشکری کرو گے تو اس کا کوئی حرج نہیں جو کچھ حرج ہے تمہارا ہی ہے کیونکہ جو کچھ آسمان اور زمین میں سب اللہ ہی کا ہے کوئی شے دنیا میں نہیں جو اس کی ملک نہ ہو با وجود اس قدر وسعت کے اللہ تعالیٰ ان سب سے بے پرواہ اور وہ بڑی خوبیوں والا ہے پھر سن رکھو آسمان اور زمین کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں اگر بھلائی اپنی چاہو تو اسی کے ہو رہو اللہ اکیلا کار ساز کافی ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی کی حاجت نہیں وہ ایسا بڑازبردست مالک ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو اس دنیا سے فنا کو لے جاوے اور تمہاری جگہ اوروں کو لے آوے یعنی تم کو فنا کر کے تمہاری جگہ اور مخلوق بسا دے یقیناً سمجھو کہ اللہ اس پر قادر ہے ایسے مالک الملک کی مرضی کے خلاف جو شخص فقط دنیا ہی کا انعام چاہتا ہے کیسی سخت غلطی میں ہے اسے چاہئے تھا کہ دونوں جہانوں کا انعام مانگے کیونکہ اللہ کے ہاں دنیا اور آخرت دونوں کا انعام موجود ہے اس کی وسعت اس امر کی مقتضی ہے کہ صرف دنیا اس سے طلب نہ کی جائے بلکہ دونوں جہاں کی بھلائی اس سے مانگی جائے وہ ہمیشہ مناسب مصلحت دیتا ہے اور اللہ سب کی سنتا ہے اور سب کو دیکھتا ہے النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 النسآء
110 النسآء
111 النسآء
112 النسآء
113 النسآء
114 النسآء
115 النسآء
116 النسآء
117 النسآء
118 النسآء
119 النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 النسآء
123 النسآء
124 النسآء
125 النسآء
126 النسآء
127 النسآء
128 النسآء
129 النسآء
130 النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 النسآء
134 النسآء
135 (135۔147) پس اے مسلمانو ! تم بھی اگر دین و دنیا کا انعام لینا چاہتے ہو تو سنو ! اس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تمہارے دونوں پہلو زبر دست ہوں کسی طرح کا ان میں ضعف نہ ہو سب سے زیادہ تا کیدی کام توحید کے بعد تمہارے معاملات کا پہلو ہے اسے ایسا مضبوط رکھو کہ علاوہ اپنے معاملات کے اگر کسی معاملہ میں شاہد بھی بنو تو اللہ لگتی منصفانہ گواہی دیا کرو گو وہ شہادت خود تمہارے لئے یا تمہارے ماں باپ کے لئے یا تمہارے قریبیوں کے لئے نقصان دہ ہو تو بھی تم سچی شہادت سے نہ رکو اگر کوئی شخص غنی ہو یا فقیر تو بھی ان کے لحاظ سے شہادت میں کمی زیادتی نہ کرو نہ غریب کے حال پر ترس سے اور نہ غنی کے ڈر یا نفع کی امید سے شہادت کو بدلو ( یایھا الذین امنوا) تہذیب اخلاق اور معاملات میں انصاف سکھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) کیونکہ اللہ ان کا متولی ہے نہ تم غریب کو اس طرح سے بغیر منظوری اللہ کے نفع پہنچا سکتے ہو نہ غنی سے بغیر مرضی اللہ فائدہ لے سکتے ہو پس تم انصاف کرنے میں اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو اور اگر صاف شہادت نہ دو گے تو بلکہ زبان دبا کر کچھ ایسی ذوالوجہین باتیں کہو گے جن سے کسی حقدار کا نقصان ہو یا بالکل ہی شہادت سے منہ پھیرو گے تو ان دونوں صورتوں میں سزا یاب ہو گے اور اللہ سے کسی طرح اپنے آپ کو چھپا نہ سکو گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے ہر وقت آگاہ ہے مسلمانو ! تمہارا دوسرا مگر رتبہ میں اول پہلو دینداری کا ہے جو دوسرے لفظوں میں تعلق باللہ کے نام سے موسوم ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے ماننے میں مضبوط رہو اور جو کتاب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ﷺ) پر اور جو کتابیں اس سے پہلے حضرات موسیٰ و عیسیٰ اور دیگر انبیا پر اتاری ہیں ان کے ماننے میں بھی ثابت قدم رہو اور قرآن کے موافق عمل کرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو کوئی اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کی کتابوں کا یا اس کے رسولوں کا یا دن قیا مت کا انکار کرے گا وہ سیدھی راہ سے بڑی دور بھٹک جائے گا جس سے اس کو حق کی طرف متوجہ ہونا مشکل ہوگا اس لئے کہ ایسے امور ضروریہ کا انکار صریح کفر ہے تو کجا بعد ماننے کے جب ہی تو ہم کہتے ہیں جو لوگ ایمان لاکر پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے بعد اس کے پھر منکر ہوگئے پھر دن بدن اپنے کفر میں بڑھتے گئے یہانتک کہ مر گئے اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا اور نہ ان کو جنت کی راہ دکھائے گا (شان نزول :۔ (ان الذین امنوا) بعض دنیا دار پھر تو گھر تو خود غرضوں کے حق میں جو دین فروشی کو اپنا شیوہ سمجھتے ہیں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) انہی کے بھائی ہیں وہ لوگ جو بظاہر تو کسی غرض دنیاوی کے منکر نہیں بنتے پر دل میں کفر چھپائے ہوئے ہیں۔ تو ان منافقوں کو بھی سنا دے کہ ان کو سخت درد کا عذاب پہنچے گا ان کو اگر تم نے پہچاننا ہو ہم بتلائے دیتے ہیں یہ لوگ وہی ہیں جو مومنوں کے سوا کافروں کو مخلص دوست بناتے ہیں ضرورت کے موقع پر مومنوں کے مقابلے میں کافروں کو ترجیح دیتے ہیں کیا یہ نا لائق ان کافروں کے ہاں سے عزت چاہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے لوگوں میں معزز بنیں ہرگز عزت نہ پائیں گے اس لئے کہ عزت تو ساری اللہ کے ہاتھ میں ہے بغیر اس کی مرضی کے کوئی معزز نہیں ہوسکتا دیکھو تو اس چند روزہ عزت کے لئے کیا کیا خرابیاں کیسے کیسے کفریات اختیار کرتے ہیں جو لوگ اللہ کی آیتوں سے ٹھٹھہ اور مسخری کرتے ہیں ان سے ملا قاتیں رکھتے ہیں حالانکہ اس نے کتاب (قرآن شریف) میں تم پر یہ حکم نازل کردیا ہوا ہے کہ جب تم اللہ کے حکموں سے انکار یا مسخری ہوتی سنو اور تم اس کا رد بھی نہ کرسکو تو تم ان کے ساتھ مت بیٹھو جب تک وہ کسی دوسری بات میں نہ لگیں ورنہ اسی وقت تم بھی ان جیسے ہوجا ئو گے جیسے یہ لوگ دنیا میں کفار سے دوستی محبت کرتے ہیں اسی طرح اللہ قیامت کے روز ان منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جا جمع کرے گا اور نشان ان کی معرفت کا معلوم کرنا ہو تو سنو یہ وہ لوگ ہیں جو تم سے علیحدہ رہ کر تمہاری گھات میں لگے رہتے ہیں پھر اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح پہنچے تو خوشامدی بن کر کہتے ہیں کیوں صاحب ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اس سے مقصد انکا غنیمت سے حصہ لینا ہوتا ہے جو ان کی نہائت کوشش ہے اور اگر کبھی کافروں کی چڑھت ہو تو چونکہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں لہٰذا اگر ان کی معیت کا دعوی کریں تو صاف جھٹلادیں گے اس لئے ان سے یوں نہیں کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ تھے بلکہ ان سے اور ہی چال چلتے ان پر احسان جتلاتے ہوئے کہتے ہیں کیوں صاحب کیا ہم نے جنگ میں تم پر قابو نہیں پایا تھا پھر باوجود اس کے تم کو مسلمانوں سے نہیں بچایا اس وجہ سے ہم انعام کے قابل نہیں ؟ یہ ان کی کاروائی دنیا سازی کی ہے پس اللہ ہی قیا مت کے روز تم بنی آدم مو منوں اور کافروں میں فیصلہ کرے گا جہاں پر واقعی ان کی قلعی کھل جائے گی دنیا میں بھی اللہ ہرگز مومنوں پر کافروں کو غلبہ نہ دے گا بشرطیکہ مومن مومن ہوں نہ کہ دورخے اور نام کے مومن جن کے حق میں استاد مومن خاں مرحوم کہہ گئے ہیں۔ عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے اور ایسی بے جا حرکتیں جو منافق کر رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خیال میں اللہ سے دائو بازی کرتے ہیں وہ بھی ان کو دائو بازی اور فریب کی سزا دیگا ممکن نہیں کہ ان چال بازیوں سے اسے فریب دے سکیں جو کچھ کرتے ہیں اخلاص مندی تو اس میں مطلقاً نہیں ہوتی یہاں تک کہ جب نماز پڑھنے کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست سست کھڑے ہوتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جبریہ بگار میں پکڑے ہوئے ہیں پھر یہ بھی اخلاص سے نہیں بلکہ صرف لوگوں کے دکھا نے کو کہ ہم مسلمان ہیں تاکہ موقع پر آگے بڑھ کر دم مارنے کو تیا رہوں۔ جب نماز کا یہ حال ہے تو پھر اور کسی کام کا کیا ٹھکانہ اللہ کی یاد تو بہت ہی کم کرتے ہیں کبھی پھنسے پھنسائے اللہ کا نام منہ پر آگیا تو آگیا ورنہ کوئی غرض مطلب ہی نہیں اسی حال میں متردد ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر دل سے نہ ان کی طرف نہ ان کی طرف صرف اپنے مطلب کی طرف ان کی ایسی حرکتوں کی یہی سزا ہے کہ اللہ نے بھی ہمیشہ کے لئے ان کو سیدھی راہ سے دور کردیا ہے پھر جس کو اللہ ہی راہ سے بھٹکادے اس کی نجات کی راہ نہ پاویں گے چونکہ ان پر جو بلا آئی ہے وہ کفار کی دوستی سے آئی ہے لہذا تم مسلمانو مو منوں کو چھوڑ کر کافروں کو مخلص دوست نہ بنائو کیا تم بھی چاہتے ہو کہ صریح الزام اللہ کا اپنے ذمہ آپ لگا ئو اسی دوستی کی وجہ سے تو منافق لوگ دوزخ کے نچلے درجے میں ہوں گے جہاں سب سے زیادہ مصیبت ناک عذاب میں رہیں گے اور تو اے مخاطب بہت بڑی تلاش سے بھی کوئی ان کا حمائتی نہ پاوے گا جو ان کو اس بلائے عظیم سے رہائی دیوے یا دلائے ہاں اس میں شک نہیں کہ جنہوں نے اس فعل قبیح سے دنیا میں توبہ کرلی اور باقی ماندہ عمل اپنے درست کر لئے اور اللہ کے دین کو مضبوط پکڑ لیا اور اخلاص سے اللہ کی عبادت کرتے رہے سو یہ لوگ پکے مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے اللہ مومنوں کو بڑا ہی بدلہ دے گا اس لئے جو باتیں چاہئے تھیں وہ انہوں نے پوری کردیں پھر عذاب کیونکر ہونے لگا جو سرکشی اور مخالفت احکام الٰہی کا نتیجہ ہے ورنہ اگر تم شکر گزاری کرو اور اللہ کے حکموں کو مانو تو اللہ کو تمہارے عذاب سے کیا مطلب بلکہ تمہاری نیکیوں کا عمدہ بدلہ دے گا اس لئے کہ اللہ ہی قدر دان ہے اور ہر ایک کے اخلاص کو جانتا ہے اور اسی کے موافق بدلہ بھی دیتا ہے النسآء
136 النسآء
137 النسآء
138 النسآء
139 النسآء
140 النسآء
141 النسآء
142 النسآء
143 النسآء
144 النسآء
145 النسآء
146 النسآء
147 النسآء
148 (148۔162)۔ چونکہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اس لئے اس نے ان منافقوں کی عادات قبیحہ کا اظہار کیا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا اس سے مت سمجھو کہ تم بھی ایک دوسرے کے عیب علانیہ بیان کرتے پھرو یہ تمہیں ہرگز جائز نہیں کیونکہ کسی کے حق میں بری بات کا اظہار کرنا اللہ کو پسند نہیں ہاں جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس ظلم کا اظہار کسی سے کرے یا ظالم کے حق میں بد دعا کرے تو جائز ہے باوجود اس کے وہ بھی اگر آہستہ آہستہ صرف اللہ کے سامنے اس ظلم کا اظہار کرے تو بہتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ آہستہ ہو یا خفیہ سنتا اور ہر ایک کا حال جانتا ہے جب ہی تو تیں مج کہتا ہے کہ اگر تم بجائے شکائت ظاہری کے اس ظالم سے ظاہر طور پر یا چھپ کر نیکی کرو اور سلوک سے پیش آئو یا اگر اتنا بڑھ کر تمہارا حوصلہ نہیں کہ ظالم سے بجائے بدلہ لینے کے نیک سلوک کرو اس کی برائی معاف کردو اللہ بھی تمہارے گناہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑی قدرت والا ہے مگر بایں ہمہ جو لوگ اللہ کی توحید سے اور اس کے رسول سے منکر ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے ماننے میں فرق کریں بعض کو مانیں بعض سے انکاری ہوں نہ صرف یہی کہ یہ کفر مخفی رکھتے ہیں بلکہ زبان سے بھی کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض سے انکاری ہیں جیسے یہودی اور عیسائی اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ بیچ ایک راہ نکالیں ان لوگوں کو سخت ذلت پہنچے گی یہی لوگ پکے کافر ہیں گو یہ اپنے آپ کو اہل کتاب اور مومن کہیں اور انہی کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اللہ کی توحید اور اسکے سب رسولوں کو مانتے ہیں اور ان میں سے کسی رسول کے ماننے میں تفرقہ نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں عنقریب اللہ قیامت کے دن ان کے کاموں کے اجر ان کو دے گا اور ان کے سب گناہ معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ہر طرح کے لوگوں پر احسان کرتا ہے دنیاوی حاجتوں کے علاوہ دینی حاجات کے لئے نبی اور رسول بھیجتا ہے بالآخر سب لوگوں کی ہدائت کے لئے تجھے (اے محمد ﷺ) رسول کرکے بھیجا اور طرح طرح کے معجزات دیے اور آئندہ بھی دے گا ہاں جو سوال انکا خلاف مصلحت اور مخالف حکمت ہوگا وہ ہرگز پورا نہ ہوگا چنانچہ یہ بات جو تجھ سے اہل کتاب (یہودی) سوال کرتے ہیں کہ ان کے سامنے آسمان سے ساری کتاب دفعۃً اتار دے مصلحت کے خلاف ہے (شان نزول :۔ (یسئلک اھل الکتب) بعض یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اپنی کتاب کو ایک ہی دفعہ اتار لائیں ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اول تو سامنے کسی کے کوئی کتاب اتری نہیں ایسا اگر ہو تو ایمان بالغیب پھر کیا دوم چونکہ قرآن شریف کے مخالف بہت قسم کے لوگ ہیں ایک تو صریح اور کھلے طور پر مخالفت کرتے ہیں ایک خفیہ درپے مخالفت ہیں جیسے منافق ان کی بے ایمانیوں اور شرارتوں سے پیغمبر کو اطلاع دینی ضروری ہے جو قرآن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً دی جاتی ہے پس ان اہل کتاب کا یہ سوال مصلحت کے خلاف ہے مگر تم لوگ ان کے اس سوال سے تعجب نہ کرو اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے اس سے بھی بڑھ کر سوال کیا تھا کہنے لگے کہ اے موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ ہم کو کھلم کھلا سامنے دکھا بھلا بتائو یہ سوال بھی کوئی دانائی کا ہے کبھی کسی نے اللہ کو دنیا میں سامنے دیکھا بھی ہے اور ممکن بھی ہے کہ کوئی بشر اس کو دیکھ سکے ؟ ہمیشہ اس کی قدرت سے اس کا ثبوت ملتا ہے پس چونکہ ان کا یہ سوال بہت بے جا اور قواعد الہیہ کے خلاف تھا لہٰذا ان کے اس ظلم اور سخت غلطی کی وجہ سے ان پر بجلی گری جس سے وہ مر گئے پھر ہم نے ان کو زندہ کیا تاکہ وہ احسان مانیں پھر اس بے جا سوال پر ہی انہوں نے بس نہیں کی بلکہ کھلی کھلی نشانیاں آنے کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اس بے جان کو پوجنے لگ گئے پھر ہم نے یہ بھی معاف کردیا اور ان کے سردار اور پیغمبر موسیٰ ( علیہ السلام) کو دشمنوں پر ظاہر غلبہ دیا اور ان کی سر کشیوں کے سبب ہم نے ان (بنی اسرائیل) پر وعدہ لینے کیلئے کوہ طور کے ایک حصے کو ان پر کھڑا کردیا اور ان کو شکر سکھانے کے لئے ہم نے ان سے کہا اس مفتوحہ بستی کے دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوئو اور یہ بھی ہم نے ان سے کہا کہ ہفتے میں زیادتی نہ کرو یعنی ہفتہ کے روز کی مقررہ عبادت کے ادا کرنے میں سستی اور برے کاموں میں چستی نہ کرو اور اس پر ہم نے ان سے بڑا مضبوط وعدہ لیا تھا مگر انہوں نے ایک کو بھی ملحوظ نہ رکھا پھر جو کچھ ان سے معاملہ ہوا سو کچھ تو ان کی بدعہدیوں کی وجہ سے اور کچھ آیات خداوندی کے انکار کی وجہ سے اور کچھ انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اور کچھ اس پیغمبر کے سامنے ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم تیری بات نہیں سنتے اس لئے کہ ہمارے دل بری اور غلط باتوں کی رسائی سے محفوظ ہیں حالانکہ یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ نے ان کے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے ان پر مہر کردی ہے پس اسی لئے نصیحت کو بہت کم مانتے ہیں اور بالآخر بقیہ بلا ان کے آخری کفر اور مریم صدیقہ پر بہتان عظیم باندھنے کی وجہ سے اور مسیح کی نسبت اس بیہودہ اور غلط گوئی کی وجہ سے تھا کہ بے شک ہم نے عیسیٰ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول قتل کرڈالا حالانکہ نہ تو انہوں نے اس کو مارا اور نہ سولی دیا۔ ہاں ان کو ایک قسم کا اشتباہ بے شک ہوا جس سے خیال کر بیٹھے کہ ہم نے اس کو مارڈالا اصل بات یہی ہے جو ہم نے بتلائی ہے اور جو لوگ اس میں ہمارے بتلائے ہوئے سے مخالف ہیں سخت غلطی میں ہیں واقعی طور پر ان کو علم نہیں ہاں اپنے خیال کی پیروی میں ہیں اصل بات تحقیقی ہم بتلاچکے ہیں کہ انہوں نے ہرگز اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف زندہ اٹھالیا گو کسی آدمی کا زندہ آسمان پر چڑھ جانا بظاہر عادت کے خلاف اور بعض کوتاہ اندیشوں کی نظروں میں نہ صرف مشکل بلکہ محال ہے مگر اللہ کے نزدیک ایسے امورنہ محال ہیں نہ مشکل کیونکہ اللہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے بہت سے کام لوگوں کی نظروں میں مشکل ہیں مگر اللہ ایسی حکمت سے ان کو پورا کردیتا ہے کہ بڑے بڑے عقلا حیران رہ جاتے ہیں رفع مسیح بھی ظاہر بینوں کی نظر میں بڑا مشکل ہوتا ہے اللہ نے اس کو کر کے دکھا دیا اور انجام بھی یہ ہوگا کہ قرب قیامت جب مسیح دنیا میں آوے گا تو اس کے مرنے سے پہلے پہلے سب اہل کتاب یہود ونصاری اس کو اللہ کا رسول مان جائیں گے اور وہ قیامت کے دن ان کی شہادت دے گا کہ انہوں نے مجھے جیسا کہ چاہئے تھا مانا خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ مسیح کے متعلق تھا اب اصل کلام سنو پس خلاصہ یہ کہ یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے جب وہ اپنی حد سے گزر گئے اور بہت سے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور حرام بیاج لینے کی وجہ سے حالانکہ اس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال حرام طریق سے کھانے کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی پاک پاک چیزیں جو ان کو پہلے حلال تھیں حرام کردیں یہ ان کی سزا دنیاوی تھی اور قیامت کے روز ان میں سے کافروں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے البتہ ان میں سے آلہیات کے پختہ علماء اور عام ایمان دار تیری طرف اتاری ہوئی کتاب اور تجھ سے پہلے اتاری ہوئی کو واقعی طور پر جیساکہ چاہئے مانتے ہیں اور نماز بجماعت پنجگانہ پڑھنے والے قابل مدح ہیں اور حسب طاقت مال کی زکوٰۃ بھی غرباء اور مساکین کو دینے والے اور اللہ اور پچھلے دن (قیامت) پر صحیح ایمان رکھنے والے ہم ان کو بڑا اجر دیں گے النسآء
149 النسآء
150 النسآء
151 النسآء
152 النسآء
153 النسآء
154 النسآء
155 النسآء
156 النسآء
157 النسآء
158 النسآء
159 النسآء
160 النسآء
161 النسآء
162 النسآء
163 (163۔176) تعجب ہے کہ تیری رسالت سے کیوں منکر ہیں تو نیا رسول ہو کر تو دنیا میں نہیں آیا ہم نے تو تیری طرف اسی طرح الہام کیا جس طرح نوح ( علیہ السلام) کی طرف اور اس سے پیچھے اور نبیوں کی طرف اور ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسمعیل ( علیہ السلام) اور اسحق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) اور ان کی اولاد اور بالخصوص عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ایوب ( علیہ السلام) اور یونس ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کی طرف الہام کیا تھا اور دائود ( علیہ السلام) کو ہم نے پڑھنے کو زبور دی اسی طرح تجھ کو قرآن دیا مختصر یہ کہ ہمیشہ سے ہم مخلوق کی ہدائت کے لئے انبیاء بھیجتے رہے بہت سے رسولوں کی ہم نے تجھے اطلاع دی ہے اور بہت سے ابھی تک تجھ کو نہیں بتائے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ نے بلا واسطہ باتیں کیں ہمیشہ ہم رسول بھیجتے رہے جو لوگوں کو اچھے کاموں پر خوشخبری دیتے اور عذاب سے ڈراتے تاکہ بعد آنے رسولوں کے لوگوں کا اللہ پر کوئی عذر باقی نہ رہے کہ عذاب ہونے پر یہ نہ کہیں کہ ہم کو تو نے اطلاع نہیں کی تھی کہ فلاں کام برا ہے اسے نہ کرنا اور فلاں کام اچھا ہے اسے کرنا اللہ بڑا غالب ہے اس کے رسولوں سے منکر ہو کر کہیں بچ نہیں سکتے وہ بڑی حکمت والا ہے اپنی حکمت سے ان کے اندر ہی اندر عذاب کے اسباب پیدا کرسکتا ہے یہی مطلب سمجھانے کو تجھے رسول کر کے بھیجا کہ عرب کے مشرکوں اور یہود و نصاری کو ان کی برائیوں پر مطلع کرے سو یہ لوگ اگر تیری نہیں مانتے اور تجھ کو اللہ کا رسول نہیں جانتے نہ جانیں اللہ تو تیری طرف اتاری ہوئی کتاب کی شہادت دے رہا ہے کہ اسی اللہ نے اس کو اپنے علم کے ساتھ مفید جان کر ان کی ہدائت کے لئے نازل کیا اور آسمان اور زمین کے فرشتے بھی گواہی دے رہے ہیں اور اصل تو یہ ہے کہ اللہ ہی کی شہادت کافی ہے اسی کی شہادت پر اسلام کو انجام کار فتح نصیب ہوگی وہ اپنی شہادت کا ایسا ثبوت دے گا کہ دیکھیں گے باقی رہے کفار اہل کتاب سو ان کی شہادت ہوئی تو کیا نہ ہوئی تو کیا کیونکہ جو لوگ کافر ہیں اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں مشرکین عرب ہوں یا اہل کتاب وہ بڑے سخت گمراہ ہیں۔ بے شک جو لوگ کافر ہیں اور اور لوگوں پر بوجہ گمراہ کرنے کے ظلم کر رہے ہیں جیسے آج کل کے مشنری اور آریوں کے پنڈت وغیرہ اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا اور نہ ان کو نجات کی راہ سجھائے گا ہاں جہنم کی راہ ضرور ان کو دکھا دے گا جس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ نہ سمجھو کہ دنیا میں تو ان کا بڑا رسوخ ہے بڑے بڑے حکام بھی ان سے ڈرتے ہیں پھر اللہ ان کو عذاب کیسے کرے گا اللہ پر یہ آسان ہے کچھ مشکل نہیں دنیا کے حکام میں اگر ان کا رسوخ ہے یا وہ ان سے ڈرتے ہیں تو وہ اس لئے کہ یہ ان کو کچھ ضرر پہنچا سکتے ہیں اللہ کو ان کے ضرر سے کیا خوف وہ ذات وراء الورا اکبر الکبریا ہے تمہیں بلند آواز سے پکار رہا ہے لو گو یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے سچے احکام لا یا اس کو مانو تو تمہارا بھلا ہوگا اور اگر نہ مانو گے تو سخت سزا دے گا اس لئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب اللہ کی ملک ہے تمہارے کفر وشرک سے اس کی خدائی میں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ممکن نہیں کہ اس کی حکومت سے تم باہر جا سکو اور ساتھ ہی اس کے اللہ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے وہ اپنے قوانین اور مصالح کو خوب جانتا ہے اے کتاب والو بالخصوص تمہیں ہدائت کی جاتی ہے کہ اپنے مذہب میں حد سے نہ نکلو اور سوائے سچی بات کے اللہ کے ذمہ مت لگایا کرو جیسا کہتے ہو کہ مسیح اللہ ہے حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) مسیح ابن مریم صرف اللہ کا رسول ہے اور اس کے حکم سے جس کو اس نے مریم کی طرف بھیجا پیدا شدہ ہے اور اس کی طرف سے ایک روح یعنی ذی حیات ہستی ہے پس سیدھی روش تو یہ ہے کہ اللہ کو واحد بلا ساجھی اللہ اور اس کے رسولوں کو اس کے رسول مانو تین اللہ یا تین جزوں سے مرکب اللہ نہ کہو اس سے باز آئو اور اپنا بھلا چاہو اللہ تعالیٰ تو صرف ایک ہے نہ کوئی اس کا جز ہے نہ ساجھی اولاد ہونے کے عیب سے پاک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اسی کی ملک ہے اللہ ہی سب بندوں کی کار سازی کو کافی ہے وہ سب کا مالک ہے نہ مسیح کو جسے تم اللہ اور اللہ کا بیٹا تجویز کرتے ہو اللہ کا بننے سے کسی قسم کا عار ہے اور نہ مقرب فرشتوں کو جنہیں مشرکین عرب اللہ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں اس میں کچھ تکبر ہے اور ہو بھی کیونکر سکتا ہے جبکہ انہوں نے یہ قاعدہ سن رکھا ہے اور اس کا ان کو پورے طور پر یقین بھی ہے کہ جو کوئی اللہ کی بندگی سے عار سمجھے یا کسی قسم کا تکبر کرے سو اپنا ہی برا کرتا ہے اس لئے کہ وہ اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا پھر جو لوگ ایمان لائے اور عمل اچھے کئے ہونگے ان کو پورا بدلہ دے کر اور زائد بھی اپنے فضل اور مہربانی سے عطا کرے گا اور جنہوں نے اس کی بندگی سے عار اور تکبر کیا ہوگا ان کو درد ناک عذاب کرے گا جس سے کسی طرح نہیں چھوٹ سکیں گے اور اللہ کے سوا نہ کوئی کار ساز پاویں گے نہ حمائتی بالآخر پھر ہم کہتے ہیں لوگو ! اگر اپنی بہتری چاہتے ہو تو سنو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک رہنما (محمد) تم کے پاس آچکا اور اس کی شہادت کو ہم نے کھلا نور قران شریف تمہاری طرف اتارا ہے پس بعد اس کے یہ فیصلہ ضرور ہوگا جو لوگ اس راہنما کے ذریعہ سے اللہ کو واحد لاشریک مانیں گے اور اسی سے مضبوط تعلق کریں گے تو اللہ ان کو اپنی رحمت اور مہربانی میں داخل کرے گا۔ اور ان کو اپنی طرف پہنچنے والے سیدھے راستہ پر پہنچا دے گا جہاں پر پہنچ کر ان کی یہ علامت ہوگی کہ جو کچھ کریں گے تجھ سے (اے رسول) پوچھ کر اور تیری اجازت سے کریں گے جیسا کہ یہ مسلمان تجھ سے یہ کلالہ کا فتوی پوچھتے ہیں تو ان کو کہہ کہ تمہاری نیک نیتی کا ثمرہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو کلالہ کا حکم سناتا ہے تم کان لگا کر سنو اگر کوئی ایسا شخص مرے جس کی اولاد نہ ہو اور اس کی بہن ہو تو اس صورت میں وہ بہن اس کی متروکہ جائداد میں سے نصف کی مالک ہوگی اور بھائی سب مال کا وارث ہوگا اگر اس کی ہمشیرہ کی کوئی اولاد نہ ہو اور مر جائے پھر اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو ثلث ترکہ میں سے ملیں گے اور اگر اس کلالہ کی کئی بہن بھائی مرد عورت وارث ہوں تو مرد کو عورت سے دگنا حصہ ملے گا اللہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ نہ بھولو۔ ہرگز اس کے بتلائے کے خلاف نہ کرو اللہ کو سب کچھ معلوم ہے جس کسی کا جو حصہ اور جو اس کے متعلق حکم صادر فرمایا ہے اسے ہی واقعی سمجھو۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا فِیْمَنْ ھَدَیْتَ (کلالہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ماں باپ اور بیٹا بیٹی نہ ہوں۔ النسآء
164 النسآء
165 النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 النسآء
171 النسآء
172 النسآء
173 النسآء
174 النسآء
175 النسآء
176 النسآء
0 المآئدہ
1 (1۔5) مسلمانو ! ایمان لا کر جن احکام خداوندی کو تم اپنے ذمہ لے چکے ان احکام الٰہی کی تعمیل کرتے رہو وہ کئی قسم ہیں۔ کئی ایک اوامر کسی کے فعل کے کرنے کے متعلق ہیں اور کئی ایک نواہی کسی کام سے روک ہیں۔ بعض مباح بھی ہیں۔ (شان نزول : تعلقات خالق و مخلوق کو باحسن وجوہ پورا کرنے کی تعلیم کی بابت یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ منہ ) سنو ! چارپائے مویشی باستثناء ان کے جو اسی سورت میں تم کو بتائے جاتے ہیں تم کو حلال ہیں۔ بشرطیکہ احرام کی حالت میں تم نہ ہو۔ بعض کی اجازت اور بعض کی ممانعت کرنے میں تم متردد نہ ہوئو۔ اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں اگر ان حکمتوں کو نہ پا سکو تو یہی سمجھو کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم دیتا ہے اس پر کسی کا زور یا ناراضگی کا حق نہیں۔ پس تم مسلمانو !! اللہ کے دستورات مقررہ کو نہ توڑو اور نہ ہی ماہ حرام کی بے حرمتی کرو ( لا تحلوا شعآئر اللہ۔ ایک شخص شریح بن ضبیعہ نامی مدینہ طیبہ میں آ کر دھوکہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچا کر چلا گیا۔ حج کے دنوں میں یمامہ کے ایک قبیلہ کے ہمراہ بصورت حاجی بہ نیت تجارت بہت سا مال لے کر مکہ معظمہ کی طرف آرہا تھا۔ صحابہ نے اپنا عوض لینے کو اس کے پکڑنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی۔ آپ نے منع فرمایا صحابہ کی مکرر درخواست کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔ اسلام پر بے جا لوٹ گھسوٹ کا الزام لگانے والو کہاں ہو؟ شوم !!!) اور نہ لوگوں کی قربانیاں جو دور دور سے اللہ تعالیٰ کی نذر مان کر بہ نیت ثواب خانہ کعبہ میں لاتے ہیں لوٹا کرو اور نہ سیلی پہنے ہوئے جانور جو بہ نیت نذر گذارنے کے لوگ لاتے ہیں راہ میں پکڑا کرو اور نہ بیت المعظم کعبہ شریف میں آنے والے لوگوں کو بے حرمت کیا کرو۔ دیکھو تمہیں ان کے ستانے اور بے عزت کرنے میں شرم آنی چاہئے۔ گو وہ اسلام کے قائل نہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مرضی چاہنے کو دور دراز ملکوں سے سفر کر کے آتے ہیں اور تم ان کو بے حرمت کرو اور لوٹو؟ (مسلمان مسلمانوں کو تو نہ لوٹتے تھے نہ ان کو روکتے تھے اس آیت میں امین البیت سے وہ لوگ مراد ہیں جو اطراف مکہ سے غیر مسلم لوگ آیا کرتے تھے۔ منہ) اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یہ تو انسان ہیں۔ حیوانوں کے شکار سے بھی جب تک تم محرم ہو‘ بچتے رہو۔ ہاں جب احرام سے فارغ ہوجائو تو شکار کی اجازت ہے۔ مزے سے کرو۔ خبردار، کسی قوم کی عداوت سے کہ انہوں نے کسی زمانہ میں تم کو کعبہ شریف میں آنے سے روکا تھا اب موقع پا کر بے اعتدالی اور ظلم زیادتی پر کمربستہ نہ ہوئو ایسا نہ ہو۔ کہ انتقام کے خیال میں کسی کو جوش آوے تو دوسرا بجائے جوش مٹانے کے اس کو بھڑکاوے۔ خبردار ! ایسی بے جا حرکتوں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیا کرو اور نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم پر حمایت نہ کیا کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے سخت عذاب والا ہے۔ وہ جانور جن کی حرمت کا ذکر شروع میں تم کو سنایا تھا۔ غور سے سنو ! خود مردہ ! جانور جو بوجہ حبس دم کے مضر ہوتا ہے اور ذبح کے وقت کا خون جو بدن انسان کو ضرر رساں ہے اور خنزیر کا گوشت جو اخلاق انسانی میں مضر ہے۔ اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر بغرض تقرب غیر کے پکاری جائے کیونکہ یہی بناء شرک ہے اور گلاگھٹ کر یا لکڑی پتھر وغیرہ کی چوٹ سے یا گر کر یا کسی زبردست کے سینگ لگنے سے مرا ہو۔ اور جس کو درندہ جانور کھا جائے سب حرام ہیں مگر جس کو درندے سے چھڑا کر بحالت زندگی تم ذبح کر ڈالو وہ حلال ہے اور جو بتوں اور قبروں وغیرہ ناجائز موقعوں پر ذبح کیا جائے۔ وہ بھی حرام ہے اور یہ جو تم تیروں وغیرہ آلات رمل سے قسمت آزمائی کرتے ہو۔ یہ بھی حرام ہے۔ بلکہ یہ سخت گناہ کا کام ہے کیونکہ ایک تو جھوٹ ہے۔ دوم دھوکہ دہی۔ (شان نزول ! حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ۔ شرک۔ بت پرستی۔ پیر پرستی۔ وغیرہ کی جڑ کاٹنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) مسلمانو ! آج کفار تمہارے دین کے مٹنے سے مایوس ہوگئے ہیں اور جو خیالی پلائو جی میں اسلام کی بربادی کے پکایا کرتے تھے وہ سب بھول گئے۔ پس اب تم اجرائے دین میں ان کا ذرہ بھر خوف نہ کرو۔ ان کے چھکے چھوٹ چکے ہیں وہ تمہارا مقابلہ نہ کریں گے ان کی پرواہ بھی نہ کرو اور مجھ (خدا) سے ڈرو آج میں نے بذریعہ قرآن اور رسول تمہارا دین بلحاظ اصول شرائع کامل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت بذریعہ فتوحات اور اظہار اسلام پوری کی ہے اور میں نے اسلام کو ہاں اصل اسلام ٹھیٹھ اسلام جس میں سوائے قرآنی اور حدیثی تعلیم کے کسی قوم یا ملک کی رسوم کو دخل نہیں بس یہی اسلام تمہارا مذہب پسند کیا ہے۔ پس تم احکام شرعیہ کی تعمیل کرو جو حلال ہے اس کو حلال سمجھو اور جو حرام ہے اس کو حرام جانو۔ (شان نزول اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری حج یعنی حجۃ الوداع میں بطریق آخری پیغام کے یہ آیت نازل ہوئی منہ) جو شخص بغیر رغبت گناہ کے بھوک سے تنگ ہو اور حلال کھانا اس کو میسر نہ آتا ہو تو محرمات مذکورہ میں سے بقدر سدرمق کچھ جس سے اس کی جان بچ جائے کھا لے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید رکھے اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ شاباش ہے ان مسلمانوں پر جو سنتے ہی ایسے تابع ہوئے ہیں کہ کوئی کام بلا اجازت کرنا نہیں چاہتے۔ گو عام مفہوم سے مستنبط بھی ہوسکتا ہے۔ دیکھو تو بغرض دریافت تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا چیزیں ان کو حلال ہیں یعنی کن کن چیزوں کے کھانے کی ان کو اجازت ہے شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ) ایک شخص عدی بن حاتم نامی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کتوں کے ساتھ شکار کیا کرتے ہیں اس میں ہمیں کیا ارشاد ہے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ (معالم) تو اے نبی ان سے کہہ کہ محرمات کو چھوڑ کر سب کچھ پاک ہے پس تم پاکیزہ چیزیں اور پاکیزہ جانور جن پر شرع نے حرمت کا حکم نہیں دیا۔ سب حلال ہیں بلا کھٹکا کھائو اور جو شکاری درندے تم نے شکار کرنے کو سدھائے ہوں جن کو تم شکار کی تعلیم دیتے ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر تم کو تعلیم دی ہے۔ ان کا کیا ہوا شکار جو وہ تمہارے واسطے محفوظ رکھیں وہ تم کھالیا کرو اور زندہ ہو تو ذبح کرتے ہوئے اور کھاتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اللہ کا نام اس پر ذکر کیا کرو۔ اور بے فرمانی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ جان رکھو کہ اللہ کے مواخذہ میں دیر نہیں بہت جلد حساب لینے والا ہے اور سنو ! اب کل مباح چیزیں تم کو حلال ہیں اور کتاب والوں کا پکا ہوا کھانا بھی بشرطیکہ تمہاری شریعت میں حرام نہ ہو۔ تم کو حلال ہے۔ ہندوئوں کی طرح اسلام میں چھوت نہیں کہ غیر قوم کے ہاتھ لگنے سے ناپاک ہوجائے ہاں اگر وہ حسب عادت کوئی حرام چیز کھائیں پکائیں تو وہ نہ کھائو جیسا تم کو ان کا پکا ہوا کھانا حلال ہے تمہارا پکا ہوا کھانا ان کو حلال ہے۔ کھانے پینے کے کیا معنے بھلی مانس عورتیں جیسی مسلمانوں میں سے تم کو نکاح میں لانی جائز ہیں ایسی ہی تم سے پہلی کتاب والوں یہود و نصاریٰ کی بھلی مانس عورتیں تم کو نکاح میں لانی حلال ہیں۔ بشرطیکہ تم بھی بھلے مانس بنکر گھر باری بننے کی نیت سے ان کے مہر ادا کر دو نہ صرف چند روزہ شہوت رانی کی غرض سے اور نہ مخفی آشنائی کرنے کو رکھو اور سنو ! یہود و نصاریٰ کی عورتوں کی محبت میں پھنس کر بے ایمان نہ ہوجانا۔ سن رکھو جو کوئی ایمان کی باتوں سے منکر ہوگا اس کے تمام نیک عمل برباد ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں ٹوٹا پانے والوں کی جماعت سے ہوگا۔ المآئدہ
2 المآئدہ
3 المآئدہ
4 المآئدہ
5 (6۔19) ایسا نہ ہو کہ نکاح وغیرہ خانہ داری کے دھندوں میں پھنس کر احکام شریعت میں سستی کرنے لگو سب سے پہلا حکم عام طور حکم عام طور پر نماز کا ہے ایسا نہ ہو کہ اسے بھی کسی بہانہ سے ٹلانے لگ جائو۔ مسلمانو ! احکام شرعی کے لئے مستعد رہوجب نماز کو آمادہ ہو تو پہلے ادا کرنے اور شروع کرنے کے بغرض طہارت وضو کرلیا کرو (شان نزول (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ) نماز کے متعلق طہارت کا طریق بتلانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ (معالم) جس کا طریق یہ ہے کہ منہ سارا اور ہاتھ کہنیوں تک اور سروں پر صرف ہاتھ پھیر لیا کرو اتنا ہی کافی ہے اور پائوں ٹخنوں تک دھویا کرو اور اگر بوجہ خروج منی نیند میں یا بیداری میں تم جنبی ہو تو نہا لیا کرو اور اگر بیمار ہو کہ نہانا مضر پڑتا ہو یا سفر میں ہو یا پائخانہ سے پھر کر آئو یا تم نے عورتوں کو چھؤا یعنی تم نے ان سے جماع کیا ہو اور ان صورتوں میں پانی نہ پائو تو ستھری اور پاک مٹی لے کر اس سے تیمم کرلیا کرو۔ جس کا طریق یہ ہے کہ مٹی اپنے مونہوں اور ہاتھوں پر کسی قدر مل لیا کرو جس سے تمہاری خاکساری اللہ تعالیٰ کے دربار میں نمایاں ہو۔ اللہ تعالیٰ کو تو دلی اخلاص منظور ہے وہ تم پر جا بے جا ناحق تنگی کرنا نہیں چاہتا کہ ایسے حکم دے جس سے تم سبکدوش نہ ہوسکو بلکہ اسے تو یہ منظور ہے کہ جس طرح ہوسکے تم دلی اخلاص اور توجہ سے اس کے حکم بردار بنو اور وہ تم کو گناہوں سے پاک و صاف کرے اور اگر تمہارا اخلاص قلبی کامل ہو تو اپنی مہربانی تم پر پوری کرے کہ روحانی درجات میں تم ترقی پائو تاکہ تم اس کے کامل شکر گذار بندے بنو۔ اللہ کی مہربانی اور مضبوط وعدے جو اس نے تم سے لئے ہوئے ہیں ان کو یاد کرو۔ جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے دل سے تیرے حکموں کو (اے نبی !) سنا اور بجان و دل تابع ہوئے۔ پس اب باخلاص تابع ہوجائو اور اس کے خلاف کرنے میں اللہ سے ڈرو۔ دل میں بھی اس کی مخالفت کا خیال تک نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ مسلمانو ! یہ احکام تو تمہاری عبادات وغیرہ کے متعلق تھے اب تمدنی احکام بھی سنو، سب سے پہلے یہ کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ تعالیٰ لگتی گواہی انصاف سے دیا کرو اور کسی قوم کی عداوت سے بے انصافی نہ کرنے لگو بلکہ ہر حال میں عدل ہی کیا کرو کیونکہ عدل پرہیزگاری کے جو تمہارا اصل مدعا ہے۔ بہت ہی قریب اور مناسب ہے تم جو پرہیزگاربننے کے طالب ہو ہر حال میں عدل کیا کرو اور بے انصافی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے تمہیں معلوم ہے؟ اگر تم ان احکام کی پابندی کرو گے تو تم کو کیا انعام و اکرام ملیں گے۔ (شان نزول کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ عدل و انصاف اور حقیقی تہذیب کے سکھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) پس تم جانو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خدائی اور رسول کی رسالت پر ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ کر رکھا ہے جو کبھی خلاف نہ ہوگا اور ان کے مقابل جو منکر ہو کر ہمارے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے ہیں وہیجہنمی ہیں۔ پس تم تعمیل احکام خداوندی میں سستی نہ کرنا۔ مسلمانو ! تمہیں اس سے بھی کچھ زاید چاہئے جو تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان کئے ہیں۔ وہ کیا کم ہیں۔ ذرہ اس وقت کی اللہ تعالیٰ کی مہربانی کو یاد کرو جب ایک قوم یہودیوں نے تم پر حملہ کرنا چاہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تم سے ہٹا رکھا اور کامیاب نہ کیا۔ پس تم اس کا شکر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ تکلیف اور بلا میں بجز ذات باری کے کیا پر بھروسہ نہ کرو۔ کیونکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ( اذکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ) حسب دستور مصالحین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام میں بغرض استمداد یہودیوں کے گائوں میں مع چند صحابہ کے تشریف لے گئے۔ ظالموں نے موقع پا کر آپ کے دوستوں کو تکلیف رسائی کا ارادہ کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضور کو ان کی بدنیتی سے مطلع کیا۔ چنانچہ آپ اسی وقت ان کی بے خبری میں ہی وہاں سے چلے آئے۔ اس قصہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ (معالم) سچ ہے ؎ دشمن اگر قوی ست نگہبان قوی تراست (منہ) گو یہ حکم یعنی اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا اور اپنا تعلق اس سے درست رکھنا عام حکم ہے۔ ہر ایک قوم اور مذہب کے لوگ اس کے مکلف ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی اس امر ! کا وعدہ لیا تھا اور ان کے بارہ قبیلوں میں سے بارہ آدمی برگزیدہ کر کے ان پر سردار مقرر کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا تھا کہ اگر تم اپنا تعلق مجھ سے درست رکھو گے یعنی نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانو گے اور ان کی عزت جیسن میں بتلائوں ویسی کرو گے اور اللہ کو قرض دیتے رہو گے یعنی نیک کاموں میں مال خرچ کرو گے تو میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور میری مدد تم کو پہنچتی رہے گی۔ اور تمہارے گناہ دور کروں گا اور تم کو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی داخل کروں گا جو تم میں سے اس کے بعد منکر ہوگا وہی سیدھی راہ سے بھٹکے گا۔ مگر انہوں (بنی اسرائیل) نے اس وعدہ کی پابندی نہ کی بلکہ اس کو توڑ دیا پس ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ ایسا کہ بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھتے۔ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ بَنِیْ اِسْرَآئِ ْیلَ) یہود و نصاریٰ کو اسلام کی عداوت میں کمزور اور حق کی طرف مائل کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی (منہ) ایسے بگڑے کہ کلام الٰہی میں بھی تحریف اور تغیر کرتے ہیں اور اپنے مطالب نکال لیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت ہوئی تھی ان میں سے ایک حصہ عظیم بھول کر نسیاً منسیاً کر بیٹھے ہیں۔ اب ان کے اخلاق کی حالت ایسی ردی ہو رہی ہے کہ علی الاعلان بدکرداریاں بد معاملگیاں کرتے ہیں۔ ان کی بدمعاملگی کسی وقت اور کسی زمان سے مخصوص نہیں۔ بلکہ تو ہر وقت ان سے بجز بعض معدودے چند لوگوں کے خیانت اور بد معاملگی پاوے گا۔ پھر بھی تو ان کی پرواہ نہ کر۔ بلکہ ان کو معافی دے اور درگذر کر اس لئے کہ اللہ تعالیٰ محسنوں نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے مناسب ہے کہ تو بھی احسان کر کس کس کی شکایت کی جائے۔ یہ جو آج کل بڑے جنٹلمین بنے ہوئے ہیں دعویٰ سے کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں ہم ہمدردان بنی نوع ہیں ہم مہذب ہیں ہم ایسے ہیں ہم ویسے ہیں ہم ہی کل دنیا کی خوبیوں کا مجموعہ ہیں ان سے بھی بذریعہ مسیح کے ہم نے اتباع محمدی کا پختہ وعدہ لیا تھا پھر وہ ایک غلط گھمنڈ (کفارہ مسیح) میں آ کر نصیحت کی بہت سی باتیں جو ان کو سمجھائی گئی تھیں بھول گئے۔ پھر ہم نے بھی ان سے ایسی کی کہ قیامت تک ان میں عداوت اور کینے کی آگ سلگا دی کبھی بھی کسی کام پر خصوصاً مسلمانوں کے دکھ دینے اور اسلام کے بگاڑنے پر متفق نہ ہوں گے اور ابھی تو آئندہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی کارستانیاں اور فریب بازیاں بتلا دے گا جہاں بجز ندامت کچھ نہ بن پڑے گی اے کتاب والو ! اور الہامی کتاب کے مدعیو ! ہمارا رسول محمد (صلی اللہ علہ وسلم) تمہارے پاس آیا جو بہت سی باتیں جن کو تم اپنی الہامی کتاب میں چھپاتے تھے تم پر ظاہر کرتا ہے اور بہت سی تمہاری بد اخلاقیوں اور ذاتی عیوب سے چشم پوشی بھی کرتا ہے تم شکر نہیں کرتے ہو؟ تمہارے پاس اللہ کا نور (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور روشن کتاب قرآن شریف آئی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے طالب ہیں اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور ان کو راہ راست دکھاتا ہے مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو ایسی واضح تعلیم اور روشن کتاب سے منہ پھیریں اور جھوٹے ڈھکوسلوں کے پیچھے چلیں اور دو راز عقل باتوں کے شیدائی ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ناراض ہو کر اعلان دیتا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے کچھ شک نہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں گو ایسے لوگوں سے گفتگو کرنا بجز تضییع اوقات کچھ حاصل نہیں۔ بھلا کوئی دانا کہہ سکتا ہے جو ان کا خیال ہے تاہم بفحوائے ” بدرا بدر باید رسانید“ تو اے محمد ! ان سے کہہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح اور اس کی ماں مریم اور تمام جہان والوں کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی کسی طرح اللہ تعالیٰ کو روک سکتا ہے۔ چنانچہ تمہاری کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ مسیح نے جس کو اللہ تعالیٰ کہتے ہو سولی پر لٹکتے ہوئے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے التجائیں کیں اور بڑے زور سے چلا کر جان دی آخر بجز تسلیم حق چارہ نہ ہوا تو بھلا ایسا شخص اللہ تعالیٰ ہوسکتا ہے جس کے اختیار میں اتنا بھی نہ تھا کہ اور تو اور اپنے ہی کو اس مصیبت سے جس کے لئے بارہا رو رو کر دعائیں مانگ چکا تھا۔ بچا لیتا اور اللہ تعالیٰ کا تو وہ اختیار ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کل حکومت اللہ ہی کی ہے جو چاہے پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قادر ہے اور مسیح کی قدرت تو (بقول تمہارے یہاں تک بھی ثابت نہ ہوئی کہ اپنے آپ ہی کو بچا لیتا۔ باوجود اس ڈبل بد اعتقادی کے یہ دونوں گروہ یہودی اور عیسائی دعوے سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور پیارے ہیں چہ خوش برعکس نہند نام زنگی کافور۔ تو اے نبی ! ایک مختصر سا سوال کرنے کو ان کو کہہ کہ اگر تم اللہ کے پیارے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تم کو گاہے بگاہے عذاب کیوں کیا کرتا ہے۔ یہ دعویٰ تو تمہارا غلط ہے بلکہ تم اس کی مخلوق میں سے اور آدمیوں کی طرح آدمی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حکومت عام ہے جس کو اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے بخشنا چاہے بخش دیتا ہے اور جس کو بد اعمالیوں کی سزا میں عذاب دینا چاہے عذاب کرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا نہیں کیونکہ کل آسمانوں اور زمینوں کی اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کی حکومت اللہ ہی کو ہے پھر روکے تو کون؟ اپیل سنے تو کون؟ اسی کی طرف تو سب چیزوں کا رجوع ہے ممکن نہیں اس کے حکم کے بغیر کوئی کام ہوسکے یا کوئی چیز وجود پا سکے وہی سب کا مرجع ہے اور وہی سب کی پناہ ہے پس اے کتاب والو ! ان ایچ پیچ کی باتوں کو چھوڑو ہمارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رسولوں کے خاتمہ پر آ کر تم سے صاف صاف باتیں اور احکام الٰہی بیان کرتا ہے اس کی اتباع کرو اب تم کو خاص کر توجہ اس لئے دلائی جاتی ہے کہ مبادا کل قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ بعد حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح کے مدت مدید گزر گئی تھی اور ہمارے پاس کوئی نبی نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ تو ہم مدتوں کے بگڑے ہوئے درست کیسے ہوتے۔ لو پس اب تو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا سچا نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا۔ اپنی قوت اور جمعیت پر نازاں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے کسی طرح مقابلہ نہ کرسکو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قادر ہے پس تم اس گھمنڈ میں نہ رہو المآئدہ
6 المآئدہ
7 المآئدہ
8 المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 المآئدہ
12 المآئدہ
13 المآئدہ
14 المآئدہ
15 المآئدہ
16 المآئدہ
17 المآئدہ
18 المآئدہ
19 المآئدہ
20 (20۔26) اور ایک عبرتناک واقعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سنو ! یاد کرو جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا تھا۔ میرے بھائیو ! اللہ کا احسان یاد کرو۔ کہ اس نے تم میں سے انبیاء اور تم کو بادشاہ بنانے کا وعدہ کیا۔ اور تم کو ایسی چیزیں عنایت کیں جو دنیا کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیں۔ تمہارے لئے من اور سلویٰ نازل کیا۔ تم کو دشمن سے نجات دی وغیرہ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خطاب اس وقت ہے جب کہ وہ اور قوم ابھی میدان میں ہیں اور ابھی تک فلسطین (شام) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ اس وقت سے پہلے بنی اسرائیل میں بادشاہ کوئی نہ ہوا تھا۔ جو ہوئے وہ بعد میں ہوئے۔ اس لئے اس آیت میں جعل اپنے اصلی معنے میں چسپاں نہیں ہوتا۔ لہٰذا میں نے اس کی وعدے سے تفسیر کی ہے۔ ممکن ہے کسی صاحب کو اس سے بھی اچھی توجیہ سوجھ جائے۔ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔ (منہ) یہ کہہ کر بہت ہی نرمی سے کہا۔ بھائیو ! تم بلا خوف پاک زمین کنعان میں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں مقدر کر رکھی ہے داخل ہو چلو اور دشمن کو پیٹھ نہ دو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں آ کر نقصان اٹھائو گے۔ وہ بزدل نابکار بولے اے موسیٰ! اس ملک میں بڑے زبردست لوگ ہیں اس لئے جب تک وہ وہاں سے نہ نکلیں ہم تو وہاں جانے کے نہیں۔ ہاں اگر وہ لوگ خودبخود نکل جائیں تو ہم فوراً چلے جائیں گے۔ یہ عام رائے ان لوگوں کی تھی جن کے تم لوگ خلف کہلاتے ہو اور جن کے تعلق نسب پر اتنے اتراتے ہو کہ الامان ! ان سب کے مقابلہ میں دو آدمی یوشع اور کالب بے فرمانی سے ڈرنے والے جن پر اللہ نے مہربانی کی تھی۔ اور وہ کچھ اپنی ہمت اور استقلال پر مضبوط تھے۔ ان کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگے۔ بھائیو ! تم اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرو اور شہر کے دروازہ سے ان کے پاس چلو تو داخل ہوتے ہی تم غالب ہو گے پس چلو اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔ بزدل نہ بنو۔ اگر ایماندار ہو تو ایسا ہی کرو پھر بھی وہ بزدل نہ مانے بولے اسے موسیٰ! ہم تمہاری میٹھی باتوں میں نہ آئیں گے جب تک وہ اس زمین میں ہیں ہم کبھی اس میں نہ جائیں گے پس تو اور تیرا اللہ تعالیٰ جائو اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں یہاں سے ہلنے کے نہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ نے نہایت ناراضگی سے کہا اے میرے خدا ! میں اپنی ذات خاص اور اپنے بھائی ہارون کے سوا کسی پر قابو نہیں رکھتا پس تو ہم دونوں میں اور ان بدکار لوگوں میں علیحدگی کیجئو کہیں ان کی بداعمال کا اثر ہم تک بھی نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا چونکہ انہوں نے حد سے زیادہ گستاخی کی ہے پس یہ لوگ چالیس سال تک اس پاک زمین سے محروم رہیں گے اسی طرح جنگل میں گھومتے بھٹکتے پھریں گے پس تو ان بے فرمانوں کے حال پر افسوس نہ کیجئو چنانچہ ایسا ہی ہوا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ بھی اسی جنگل میں فوت ہوئے۔ بعد ان کے یوشع نے اس زمین کنعان کو فتح کیا۔ یہ ان کی فرمانبرداری کی مختصر تاریخ ہے جو اس وقت تیرے سامنے مدمقابل ہیں اور مارے حسد کے جلے بلے جاتے ہیں۔ المآئدہ
21 المآئدہ
22 المآئدہ
23 المآئدہ
24 المآئدہ
25 المآئدہ
26 المآئدہ
27 (27۔31) تو اے نبی ! ان کو آدم کے دو بیٹوں ہابیل قابیل کا سچا قصہ سنا۔ جس سے ان کو معلوم ہو کہ حاسدوں کا انجام کیسا بد ہوا کرتا ہے اس گھڑی کا ذکر سنا جب دونوں بھائیوں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانیاں کیں۔ ایک سے تو بوجہ اس کے اخلاص قلبی کے قبول ہوئی اور دوسرے سے بوجہ فخر و ریا وغیرہ کے قبول نہ ہوئی جس کا علم ان کو حضرت آدم کے ذریعہ ہوگیا۔ تو جس سے قبول نہ ہوئی تھی یعنی قابیل ہابیل سے مارے حسد کے بولا کہ میں تجھے ضرور مار ڈالوں گا اس نے کہا بھائی ! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دستور ہے کہ وہ صرف پرہیزگاروں مخلصوں سے قبول کیا کرتا ہے جو تجھ میں نہیں اور اگر تو میرے مارنے کو ہاتھ پھیلانا چاہتا ہے تو خیر کچھ حرج نہیں۔ پر میں تو تیرے قتل کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ کیونکہ میں خدائے رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ بلکہ تیرے حملہ کرنے کا ارادہ سن کر جو بد خیال مرفے جی میں تیری نسبت آیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تو ہی میرا اس بدخیالی کا گناہ اور اپنا گناہ سمیٹے اور جہنمی بنے۔ میں تجھ پر زیادتی کرنا کسی طرح نہیں چاہتا۔ اور یہ میرا کہنا بھی صرف تیری ہدایت کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سن کر تو باز آئے۔ اور اس بات کو دل میں لگائے کہ یہی ظالموں کی سزا ہے مگر وہ ایسا بدمست تھا کہ اس ارادہ سے باز نہ آیا۔ بلکہ آمادۂ پیکار رہا۔ پس اس کے جی میں بھائی کا مار دینا ہی بھلا معلوم ہوا چنانچہ اس نے اس کو مار ہی دیا۔ پس وہ اس گناہ کے سبب سے خود ہی ٹوٹے میں پڑا۔ ایسا مبہوت اور مخبوط الحواس ہوا کہ اسے کچھ سوجھتا نہ تھا کہ اس مردے کی لاش سے کیا کرے پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوا جس کے منہ میں ایک مرا ہوا کوا تھا بھیج دیا۔ وہ زمین کو کریدنے لگا تاکہ اسے بھائی کی لاش کا چھپانا سکھاوے۔ بارے اسے بھی سمجھ آگئی حسرت سے بولا کہ ہائے میری کم بختی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوا کہ گڑھا نکال کر اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دوں۔ پس وہ کوے کی ہمدردی اور اپنی سنگ دلی دیکھ کر سخت نادم ہوا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 المآئدہ
30 المآئدہ
31 المآئدہ
32 (32۔43) چونکہ قتل بے وجہ سے کئی ایک مفاسد اور خرابیاں ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے بنی اسرائیل پر جو شریعت نازل کی اس میں ہم نے لکھ دیا تھا یعنی ان کو متنبہ کردیا تھا کہ جو کوئی کسی جان کو بغیر بدلے کسی جان کے یا بغیر ملک میں فساد کرنے کی سزا کے مارتا ہے وہ گویا تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے اس جرم سے اور لوگوں کو بھی جرأت ہوتی ہے پس اس کی سزا بھی ایسی خصوصاً اس زمانہ میں چاہئے تھے کہ جس سے کل لوگوں کو تنبیہ ہو اور جو جرأت اس نے دلائی تھی اس کو بھول جائیں۔ اور جس نے کسی نفس کو زندہ رکھا یعنی قاتل کو معاف کیا یا دشمن پر قابو پا کر اپنا غصہ دبا لیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو زندہ رکھا کیونکہ اس نیک رسم پر جتنے لوگ عمل کریں گے اس کو بھی ثواب ہوگا۔ اتنے تاکیدی احکام کے علاوہ ہمارے رسول ان بنی اسرائیل کے پاس کھلے کھلے احکام لائے اس کے بعد بھی بہت سے ان میں سے ملک میں زیادتی کرتے پھرتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان عام ہے کہ جو لوگ فتنہ و فساد کر کے گویا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چوری اور ڈاکہ زنی کے کام کرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ اگر فساد عظیم قتل و غارت کئے ہیں تو قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا اگر فساد کم ہے تو ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھی یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پائوں ان کے کاٹ دئیے جائیں یا اگر اس سے خفیف ڈاکہ ہے یعنی صرف مسافروں کو دھمکایا ہے نہ مال و اسباب کچھ چھینا اور نہ قتل و قتال کیا تو ملک بدر کر دئیے جائیں۔ غرض یہ سب صورتیں حاکم کی رائے پر ہیں۔ جیسی صورت پیش آئے اور جو مناسب سمجھے عمل کرے یہ ذلت ان مفسدوں کے لئے دنیا میں ہے اور ہنوز آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ مگر جو ڈاکو تمہارے پولیس مینوں کے قابو پانے سے پہلے ہی دل سے توبہ کر جائیں اور ان کی توبہ کے آثار بھی بظاھر اچھے معلوم ہوں تو ان کو چھوڑ دو۔ اور جانو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔ ( شان نزول (اِنَّمَا جَزَآؤُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ) عرب کے بعض مفسد جن میں اہل کتاب اور مشرک بھی شامل ہوتے باوجود صلح اور وعدہ امن کے فساد برپا کرتے اور وقت بے وقت مسلمانوں کو دھوکہ سے اپنے بن کر نقصان پہنچاتے ان کے علاج اور قیام امن کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) مسلمانو ! تم ان مدعیوں کی طرح جو آبا و اجداد پر فخر کرنا جانتے ہیں مت ہونا بلکہ اپنے عملی پہلو کو درست رکھو۔ سب سے مقدم اور سب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ یعنی گناہ اور بے فرمانی اس کی نہ کیا کرو۔ اور نیک اعمال سے اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں سر توڑ کوشش کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ سنو ! جن لوگوں نے دنیا میں اس پاک تعلیم کی قدر نہیں کی بلکہ اس سے کفر کیا ان کی بری گت ہوگی ایسی کہ ساری دنیا کے مال سے دگنا بھی ان کو ملے کہ جرمانہ دے کر قیامت کے عذاب سے چھوٹ جائیں تو اسے بھی بخوشی خاطر قبول کریں گے مگر یہ فدیہ اور جرمانہ ان سے قبول نہ ہوگا اور ان کو نہایت دکھ کی مار ہوگی۔ ایسی کہ اس سے نکلنا چاہیں گے پر نکل نہ سکیں گے۔ کیونکہ یہ حکم خداوندی ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ کفر شرک بداخلاقی تو کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں چاہے کسی قوم سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض بعض بد اخلاقیوں کی جن کا اثر دوسروں تک بھی پہنچتا ہو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی بغرض انتظام سزا مقرر کر رکھی ہے۔ سب سے بڑھ کر بداخلاقی میں چوری ہے۔ سو تم کو اس بارے میں حکم بتلائے جاتے ہیں کہ چور مرد ہو یا عورت ان کے داہنے ہاتھ ان کے اعمال کے بدلے کاٹ دیا کرو۔ یہ سزا ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ بڑا زبردست انتظامی مصلحتوں میں حکمت والا ہے۔ ہاں جو بعد ظلم زیادتی اور چوری چکاری کے توبہ کرلے اور اپنی حالت سنوار لے اور بھلا مانس بن جائے تو اس سے پولیس کی نگرانی اٹھا لو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں سے تو دنیا کے معمولی حاکم بھی درگذر کر جاتے ہیں جن کو ایسے بدمعاشوں کی شورہ پشتی سے انتظام سلطنت میں خلل کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حکومت تو تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ کیوں نہ ایسے لوگوں سے درگذر کرے اور معافی دے حالانکہ اس کی یہ طاقت بھی ہے کہ جس کو عذاب کرنا چاہے کسی وقت میں ہو کہیں ہو کرسکتا ہے اور جس کو بخشنا چاہے بخش سکتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے جس وقت کسی کی امداد کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس کی وہ امداد کرے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے جو لوگ کفر میں کوشش کرتے ہیں اور زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور دل سے ایماندار نہیں اور جو یہودیوں میں سے جھوٹ کے بہتان کھڑے کرنے کی غرض سے اور غیر قوم کے لئے جو آج تک تیرے پاس نہیں آئے کنسوئیاں لیتے پھرتے ہیں اے رسول تو ان سے آزردہ خاطر نہ ہو۔ شان نزول (یَاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ) یہود مدینہ میں ایک دو واقعہ ایسے پیش آئے کہ ان میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منصف بنایا۔ ایک تو زنا کا وقوعہ ان میں تھا۔ دویم بنی قریظہ اور بنی نضیر میں یہ جھگڑا مدت سے چلا آتا تھا کہ بنو نضیر‘ قریظہ پر قصاص وغیرہ میں اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے یعنی جس قدر قریظہ کے آدمی کے خون کا بدلہ ہوتا نضیر اس سے دو چند لینا چاہتے۔ ان دونوں جھگڑوں کے متعلق آں حضرت نے فیصلہ فرمایا بلکہ توریت کا بھی حوالہ دیا کہ اس میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔ ہرچند یہودیوں نے توریت کے اس مقام کو چھپانا چاہا مگر آخر ظاہر ہونے پر نادم ہوئے۔ اس واقعہ کو متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) یہ تو ایسے سرکش اور چیرہ دست ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بھی اصل جگہوں سے بے جگہ کردیتے ہیں۔ بلکہ ہوسکے تو جملوں کو ہی حذف کر جائیں نہ ہو تو معنٰی کے بدلنے میں تو ان کو کچھ مشکل ہی پیش نہیں آتی جیسا مخاطب دیکھا ویسا کرلیا۔ لطف یہ ہے کہ ایسے بے باک ہیں کہ اس چیرہ دستی کے بعد بھی مخاطب سے صاف کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہی معنی مسلمانوں کی طرف سے بتلائے جائیں تو قبول کرلینا اور اگر یہ نہ ہوں بلکہ اصل معنٰی جن کو غیر صحیح کہہ کر چھپانا چاہتے ہیں تم کو ملیں تو ان سے بچنا ہرگز قبول نہ کرنا نہ ان کو دل میں جگہ دینا ان کی بددیانتی اور سرکشی بے شک حد سے متجاوز ہے ایسی کہ اصلاح ان کی مشکل ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ سخت بدکاری کی وجہ سے گمراہی میں رکھنا چاہے تو تجھے اللہ کی طرف سے اس کے بچانے کا کوئی اختیار نہیں۔ ان لوگوں کی بےدینی اور بددیانتی کی وجہ سے جیسا کہ عام اصول خداوندی ہے کہ جو لوگ اس سے ہٹتے جاتے ہیں وہ بھی ان کو اپنی طرف سے دور کئے جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہا۔ کیونکہ بموجب اصول مذکورہ وہ قابل علاج ہی نہیں رہے۔ ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہوگا۔ جھوٹی باتیں سننے کے عادی حرام خوری کے خوگیر پس اگر تیرے پاس کسی مقدمہ کے فیصلہ کو آئیں جس سے ان کی بدنیت مترشح ہوتی ہو تو تجھے اختیار ہے کہ حسب مصلحت ان میں فیصلہ کر یا اعراض کر اگر تو ان سے اعراض کرے گا تو کوئی خوف نہ کیجیئوکیونکہ تجھے کسی طرح ضرر نہیں دے سکتے۔ ہاں اگر فیصلہ کرنا چاہے تو ان کا فیصلہ انصاف سے کیجیو۔ کسی کی بدزبانی اور تیزلسانی سے دب کر یا کسی بدنامی کے خوف یا نیک نامی کی شہرت کی ہوس سے انصاف کے خلاف نہ کرنا کیونکہ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جس کو چاہے نیک شہرت دے جس کو چاہے بدنام کرا دے۔ اس لئے تو اسی سے اپنا تعلق بنا کیونکہ بے شک اللہ منصف ججوں اور بے رعایت و بلالحاظ قومی انصاف کرنے والے حاکموں سے محبت کرتا ہے۔ بھلا وہ تجھے منصف کیوں ٹھیراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کتاب توریت موجود ہے۔ اس میں اس بارے میں اللہ کا حکم موجود ہے اس کے بعد بھی یہ لوگ قبول حق سے منہ پھیرے جاتے ہیں ان کو تو سرے سے ایمان ہی نہیں۔ المآئدہ
33 المآئدہ
34 المآئدہ
35 المآئدہ
36 المآئدہ
37 المآئدہ
38 المآئدہ
39 المآئدہ
40 المآئدہ
41 المآئدہ
42 المآئدہ
43 المآئدہ
44 (44۔56) بیشک ہم نے توریت اتاری تھی اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اسی کے ساتھ اللہ کے فرمانبردار بندے انبیاء اور مشائخ اور علماء یہودیوں کے درمیان فیصلے کرتے رہے کیونکہ کتاب اللہ کی محافظت ان پر ڈالی گئی تھی۔ اور وہ اس کے نگہبان تھے۔ جس طرح یہ اللہ تعالیٰ کے بندے بلا خوف لومَۃَ لائم سچے فیصلے کرتے تھے۔ تمہیں اے کتاب والو ! کیا ہوا کہ ان کی روش چھوڑ کر نفس کے بندے ہوگئے ہو اور مخلوق سے ایسے ڈرتے ہوجیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے پس مناسب ہے کہ تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ (خدا) ہی سے ڈرو اور میرے احکام کو بگاڑ کر دنیا کے ناچیز دام نہ لو۔ کمائی کرو مگر جائز۔ سچے فیصلے کرو۔ کتمانِ حق نہ کرو جو لوگ باوجود طاقت اور وسعت کے اللہ کے اتارے ہوئے حکم سے فیصلہ نہ کریں گے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی کافر ہیں۔ سنو ! ہم بتلاتے ہیں کہ احکام الٰہی کیا ہیں جو موجودہ توریت میں بھی ہیں ہم نے اس میں حکم کیا تھا کہ جان کے بدلے جان ماری جائے اور آنکھ کے عوض آنکھ نکالی جائے اور ناک کے بدلے ناک کاٹی جائے اور کان کے عوض کان کاٹا جائے اور دانت کے بدلے دانت اور زخم بھی قابل عوض ہیں۔ ہاں جو شخص اس کو یعنی اپنا عوض لینا چھوڑ دے وہ اس کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے یعنی اس فیاضی کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اس کے قصور معاف کرے گا۔ اور یہ بھی اس میں بتلایا تھا کہ جو کوئی باوجود طاقت کے اور امکان کے اللہ کے اتارے ہوئے حکم سے فیصلہ نہ کریں وہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہیں۔ اور انہیں انبیاء کے قدم بہ قدم ہم نے مسیح ابن مریم کو اس سے پہلے مضامین حَقَّہ یعنی توریت کی تصدیق کرنے والا بھیجا اور اس کو کتاب انجیل بھی دی اس میں ہدایت اور نور تھا اور توریت کی جو اس سے پہلے اتری ہوئی تھی‘ تصدیق کرتی تھی اور وہ انجیل ہدایت اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت تھی۔ اب بھی انجیل والوں کو لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اس میں احکام اتارے تھے جن کا کسی قدر اب بھی اس میں پتہ چلتا ہے ان سے فیصلہ کریں۔ اور سن لیں کہ جو کوئی دانستہ باوجود وسعت اور طاقت کے اللہ کے اتارے ہوئے احکام سے فیصلہ نہ کریں گے وہی بدراہ ہیں۔ اور ان سے بعد ہم نے اے رسول ! تیری طرف سچی کتاب جس کا نام قرآن شریف ہے اتاری ہے جو اپنے سے پہلی کتاب کے سچے مضمونوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے خلط ملط واقعات پر جو اس کے نادان پیروئوں کی حسن اعتقادی یا خود مطلبی سے درج ہوگئے ہیں محافظ اور نگہبان ہے۔ پس جن مضامین میں قرآن شریف کتب سابقہ سے موافق ہے وہ صحیح سمجھو۔ جیسے توحید اور بعض احکام شریعت رسالت۔ نبوت۔ قیامت وغیرہ اور جن میں قرآن ان سے مخالف ہے جیسے تثلیث۔ ابنیت مسیح۔ کفارہ وغیرہ وہ غلط۔ پس جبکہ قرآن کے دستخطوں اور تصحیح پر ہی دارومدار ہے تو تو اے پیغمبر ! ان اہل کتاب میں فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے حکموں سے جو تیری طرف اترے ہیں فیصلہ کیجئیو کیونکہ یہ قطعی اور صحیح ہیں اور ان کے سوا مشتبہ ہے اسی پر مضبوط رہئیو۔ اور جو تیرے پاس سچی تعلیم آئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات نفسانی کے پیچھے نہ ہوجیئو اس میں ان کو بھی کسی قسم کا رنج نہ ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے تم بنی آدم میں سے ہر ایک کو وقت بوقت شریعت اور مذہب بتلایا ہے جو دراصل سب ایک ہی ہیں زمانہ کی رفتار سے جو لوگوں نے کجی ڈال رکھی تھی وہ اب آخری زمانہ میں اے پیغمبر ! تیرے ذریعہ نکال دی جائے گی اور اگر باوجود ان اختلافات کے اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک جماعت کردیتا۔ کون اسے روک سکتا تھا۔ کون اس کے قلم کو پھیر سکتا تھا لیکن وہ جبر نہیں کرتا تاکہ تم کو تمہارے دئیے ہوئے اختیارات اور قوی عطا شدہ میں آزماوے اور تمہاری محنت کا جو تم اختیار سے کرو دوسروں پر اظہار کرے پس تم نیک کاموں کو لپکو اور جلدی کرو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تم سب نے پھر کر جانا ہے وہ تم کو قیامت کے دن تمہارے اختلافی امور سے خبر دے گا اور فیصلہ کرے گا اس روز حقانی اور سچے لوگ اپنے سچ کا پورا بدلہ پائیں گے ( صفحہ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمُ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢) اور تجھے تاکیدی حکم ہے کہ تو ان میں اللہ کے اتارے ہوئے قرآن سے حکم کیجئیو اور ان منکرین کی خواہشات پر نہ چلئیو اور ان سے بچتے رہئیو۔ کہیں کسی حکم سے جو اللہ تعالیٰ نے تیری طرف اتارا ہے تجھے بھٹکا نہ دیں اگر وہ اس سچی تعلیم سے جو بذریعہ قرآن تیرے پاس پہنچی ہے جس سے ان کی کجروی نکال دی گئی ہے سرتابی کریں تو یقینا جان کہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو کوئی عذاب پہنچاوے اور اگر سچ پوچھو تو ان لوگوں میں سے بہت سے بدکار ہیں جن کو نہ اللہ تعالیٰ سے مطلب ہے نہ رسول سے نہ دین سے نہ مذہب سے۔ فقط اپنے مطلب کے یار ہیں۔ جس کی یہ مثل بالکل ٹھیک ہے۔ ” ہندو ہو یا مسلمان؟“ ” جدھر رعایت ہو“ کیا پھر تجھے اور تیرے فیصلے کو چھوڑ کر جاہلیت اور سکھا شاہی کی حکومت چاہتے ہیں؟ یعنی مطابق شریعت فیصلے نہیں کراتے بلکہ رسمی طور سے کرانا چاہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ایمانداروں کے لئے اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہوسکتا ہے۔ المآئدہ
45 المآئدہ
46 المآئدہ
47 المآئدہ
48 المآئدہ
49 المآئدہ
50 المآئدہ
51 المآئدہ
52 المآئدہ
53 المآئدہ
54 المآئدہ
55 المآئدہ
56 المآئدہ
57 (57۔56) چونکہ ان لوگوں کو دین و مذہب سے کوئی۔ مطلب نہیں صرف دنیا کے بندے ہیں اس لئے تم کو حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! ان دنیا داروں یہودیوں اور عیسائیوں بلکہ عام کافروں کو مخلص دوست نہ سمجھا کرو (یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا) غیر قوم سے خفیہ تکالیف اٹھا اٹھا کر آخر کار ان سے مذہبی کاموں میں علیحدگی کرنے کی بابت یہ آیت نازل ہوئی (منہ ) کہیں ان کی صحبت کا اثر تم کو بھی نہ ہوجائے معمولی کاروبار سے منع نہیں دنیاوی لین دین بیشک کرو اس سے روک نہیں یہ لوگ تمہارے مقابلہ پر ایک دوسرے کے دوست ہوجاتے ہیں۔ گو وہ دوستی ان کی آپس کی بھی دیکھا دیکھی چند روزہ ہوتی ہے تاہم وہ ایک دوسرے سے ملیں گے اور تمہارے ساتھ نہ ملیں گے۔ پس یاد رکھو جو ان سے دوستی لگاوے گا وہ قیامت کے روز انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک ایسے ظالموں کو جو ذاتی مفاد کے مقابل قومی نقصان کی پرواہ نہ کر کے ان سے دوستی لگائے گا اللہ تعالیٰ ہدایت خاصہ میں سے حصہ نہیں دے گا۔ جس سے فائز مرام ہوسکیں باوجود اس تاکیدی حکم کے پھر بھی تو اے رسول ! بیمار اور کمزور دل والوں کو دیکھتا ہوگا کہ ان بےدینوں کے معاملے اور خیر خواہی میں تگ و دو کر رہے ہیں جس کی وجہ زبانی بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ مبادا ہم مسلمانوں کو کوئی مصیبت نہ پہنچ جائے کسی لڑائی میں انہی کی فتح اور مسلمانوں کی شکست ہو تو پھر اگر ہم ان سے ملاپ نہ رکھتے ہوں گے تو ایسے آڑے وقت میں یہ ہم سے کیونکر رفاقت کریں گے غرض ان کا طریق عمل بالکل اس شعر پر ہے بشر کو چاہئے ملتا رہے زمانہ میں کسی دن کام بہ صاحب سلامت آہی جاتی ہے مختصر یہ کہ ان کو اسلام کی حقیقت کا یقین نہیں اور مطلب کے یار ہیں اس لئے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں پس تم مسلمانو ! اللہ سے بہتری کی امید رکھو وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو فتح مبین دے گا (جیسے صلح حدیبیہ۔ ١٢) یا اپنے پاس سے کوئی اور غلبہ کی صورت پیدا کر دے گا پھر یہ منافق اپنے جی کی پوشیدہ باتوں پر جو اس وقت دل میں رکھتے ہیں۔ خودبخود شرمندہ ہوجائیں گے کہ ہائے ہم کس خیال میں تھے اور ہو کیا گیا اور اس وقت مسلمان بھی ان کو شرمندہ اور ذلیل کرنے کو آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہیں گے کیوں صاحب یہ وہی ہیں جو بڑے زور کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اب کیا بات ہے کہ باوجود اس اظہار اخلاص کے اس وقت جو موقع خوشی ہے بجائے مسرور کے محزون نظر آتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل سے ہمارے ساتھ نہ تھے۔ چونکہ ان کی کوششیں ضائع ہوئی ہیں اور سب کیا کرایا اکارت گیا ہے پس یہ اب صریح نقصان اٹھائے ہوئے ہیں جن کی مثل بالکل اس کے مطابق ہے ” دونوں سے گئے پانڈے۔ نہ حلوا ملا نہ مانڈے“ عموماً دین فروشوں کا یہی حال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں۔ کسی کا کیا لیتے ہیں۔ پس مسلمانو ! سن رکھو کہ جو شخص تم میں سے اپنے دین سے برگشتہ ہوگا کیگ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کیلئے ایسے لوگ تیار کرے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے مسلمان ایمانداروں سے نرم کافروں مرتدوں کے مقابلہ میں مضبوط ہوں گے۔ کیا مجال کہ کافروں کی نرم چال یا دھوکہ دہی ان کو نرم کرسکے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور اس جہاد سے روکنے والے اور شرمندہ کرنے والے ملامت گر کی ملامت کا خوف نہ کریں گے دراصل یہ فضل الٰہی ہے جسے وہ چاہے دے اور اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے پس تم اللہ کے ہوجائو اور کسی سے دوستی کی امید نہ رکھو کیونکہ تمہارے حقیقی دوست اللہ اور رسول اور وہ مسلمان ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور باوجود ان سب کاموں کے اللہ تعالیٰ کے آگے عاجز ہیں۔ گو ان تینوں قسم کی دوستی جداگانہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا اثر یہ ہے کہ وہ بذات خود کام سنوار دیتا ہے اور رسول اور مومنوں کی دوستی کا یہ اثر ہے کہ وہ اپنے دوست کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں یہ نہیں کہ خود کوئی ایسا کام جو اللہ تعالیٰ کے اختیار کا ہو سنوار سکیں۔ اس اصول کو یاد رکھو اور ان تینوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں سے دوستی گانٹھتے ہیں وہ ہمیشہ ظفریاب ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ اللہ کی جماعت ہے پس اللہ کی جماعت ہی غالب ہوا کرتی ہے جبھی تو مسلمانو ! تم کو حکم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو ہنسی مخول بنا رکھا ہے جو جی میں آیا کرو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔ صرف نیشنلٹی (قومیت) جن کا اصول ہے یعنی جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی یعنی یہود و نصاری دوسرے عام کافروں کو جو اسی قبیل سے ہوں ان میں سے کسی کو مخلص دوست نہ بنائو اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم ایماندار ہو تو اس کا خلاف نہ کرو۔ تم دیکھتے نہیں کہ اپنے مذہب کو ہنسی مخول بنانے کے علاوہ تم جب نماز کے لئے اذان دیتے ہو حالانکہ وہ بھی ذکر الٰہی ہے جو کسی مذہب میں منع نہیں اسے بھی یہ لوگ ہنسی مخول کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جہالت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔ تو اے پیغمبر ! ان سے کہہ کہ اس تمہاری رنجیدگی کی وجہ کا ہے۔ کیا بجز اس کے بھی کوئی عیب ہم میں پاتے ہو کہ ہم اکیلے اللہ تعالیٰ پر اور جو کتاب ہماری طرف اور جو ہم سے پہلے اتری ہے۔ ان سب پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ہم اپنی شریعت کے پابند ہیں اور تم میں بہت سے بے فرمان ہیں۔ ذرا یورپ کو عموماً اور انگلینڈ کو خصوصاً دیکھو تو سہی کس طرح وہاں آج کل تہذیب جو دراصل تخریب اخلاق ہے کوڑیوں سیر بکتی ہے۔ پس اگر تو اے پیغمبر ! ان سے کہہ یہ تو کوئی عیب نہیں جس کی وجہ سے تم ہم سے رنجیدہ اور برگشتہ ہو۔ میں تم کو اس سے بھی جس کو تم عیب سمجھے ہوئے ہو بہت بڑے عیب والے بتلائوں وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تھی اور ان پر غضب اتارا اور ان میں سے بعض کی بدکاریوں کی وجہ سے بندر اور بعض کو سور بنایا تھا اور جنہوں نے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے بچھڑے وغیرہ کی عبادت کی۔ پس تم خود ہی سمجھ لو کہ یہ کون لوگ ہیں ” درخانہ اگر کس است یک حرف بس است“ پس یہی لوگ برے درجے والے ہیں اور یہی لوگ راہ راست سے دور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اور ان کی چالبازی سنو ! ان کتاب والوں میں سے بعض نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ بغرض مطلب براری جب تمہارے (مسلمانوں کے) پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی تمہارے دین پر مدت سے ایمان لائے ہوئے ہیں حالانکہ جیسے کفر کو جی میں لے کر مجلس میں آئے تھے۔ ویسے ہی اسے لے کر نکل گئے ہیں اور جو کام مخفی طور سے یہ لوگ کرتے تھے اور کرتے ہیں اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔ تو تو اے پیغمبر ! ان میں سے بہتیروں کو دیکھے گا کہ گناہ اور ظلم زیادتی اور حرامخوری میں بڑے ساعی ہوں گے سوچیں تو بہت ہی برے کام کرتے ہیں اگر غور سے دیکھیں تو ان کو اپنے کاموں کی برائی خود ہی معلوم ہوجائے بھلا جو ان کے مشائخ بزرگ پیر اور پادری لوگوں کو اسلام سے روکتے اور برگشتہ کرتے پھرتے ہیں۔ وہ ان کو جھوٹ بولنے اور حرام خوری سے کیوں منع نہیں کرتے۔ ہر ایک دیندار کی نگاہ میں بہت ہی برا کرتے ہیں ایسے معمولی اخلاق بھی ان کو نہیں بتلاتے تو پھر بتلاتے ہی کیا ہیں۔ یہ بھی ان کے پادریوں اور ان کے مشائخ کے سکوت کا نتیجہ ہے کہ یہودی عام اخلاق سے تجاوز کر کے حسب فحوائے ” بازی بازی باریش بابا بازی“ اللہ تعالیٰ تک بھی بے ادبیاں کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو زکوٰۃ کا حکم ہوتے سن کر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ آج کل تنگ ہے جو مسلمانوں سے قرض مانگتا ہے اللہ تعالیٰ کرے انہیں کے ہاتھ تنگ ہوں اور ان کے بکواس بکنے سے ان پر پھٹکار پڑے نالائق نہیں سمجھتے کہ زکوٰۃ کا حکم کرنا اللہ تعالیٰ کے تنگدست ہونے کی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تو کبھی تنگ ہوا ہی نہیں بلکہ دونوں ہاتھ اس کے کھلے ہیں ایسے کہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ ( شان نزول (وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُاللّٰہِ) یہودیوں پر مسلمانان حال کی طرح بدکاریوں کی پاداش میں تنگدسی نے غلبہ کیا تھا تو قرآن میں مسلمانوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم سن کر کہنے لگے اللہ تعالیٰ بھی تنگدست ہو رہا ہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) اتنا تو یہ کمبخت بھی مانتے ہیں مگر چونکہ تیرے ساتھ ان کو خاص ضد ہے اس لئے جو بات تیرے منہ سے نکلتی ہے خواہ وہ ان کی بھی مسلمہ ہو انکار کر بیٹھتے ہیں۔ اسی ضد اور حسد کا نتیجہ ہے کہ جو کلام تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ کو ملا ہے ان میں سے بہتوں کو سرکشی اور کفر بڑھاتا ہے کیونکہ یہ اسے سن کر انکار کرتے ہیں اور بضد ہوتے ہیں جیسے جیسے انکار کرتے ہیں کفر میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی اس کی سزا ان کو مختلف اقسام کی دی ہے۔ حکومت ان سے چھین لی ہے اور عداوت اور بغض ان میں قیامت تک ڈال دیا ہے جب کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں جمع ہو کر لڑائی کی آگ بھڑکائیں گے اللہ تعالیٰ اس آگ کو بجھا دے گا اور ان کے فتنہ و فساد کو جو کئے پھرتے ہیں ایک دم ملیامیٹ کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اگر یہ اہل کتاب ایماندار ہوتے اور پرہیزگاری کا طریق اختیار کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ دور کردیتے اور آئندہ قیامت کے روز ان کو نعمتوں کے باغوں میں داخل کرتے اور اگر وہ توریت انجیل پر اور جو کلام اللہ تعالیٰ کے پاس سے ان کی طرف اترا ہے یعنی قرآن۔ اس پر پورا جیسا کہ چاہئے عمل کرتے تو البتہ ہم ان کو ایسی فارغ البالی عطا کرتے کہ اوپر سے بارش عمدہ باموقع سے محظوظ ہوتے اور نیچے سے زمین کے پھل پھول بکثرت پیدا ہوتے جن کو خوب بافراغت کھاتے بعض لوگ ان میں سے اس حال میں بھازچھے متوسط چال ہیں لیکن اکثر تو ان میں سے بہت ہی برے کام کرتے ہیں تو اے رسول ان کی پرواہ نہ کر اپنی تبلیغ احکام میں لگا رہ۔ جو کچھ تیری طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے سب پہنچا دے کوئی بھلا سمجھے یا برا مانے اس کی پرواہ نہ کر اور یاد رکھ کہ فرضاً اگر تو نے ایسا نہ کیا یعنی سارا نہ پہنچایا بلکہ کچھ حصہ خواہ کسی قدر ہی قلیل ہو چھپا لیا تو ایسا سمجھا جائے گا کہ گویا تو نے اس کا پیغام کچھ بھی نہیں پہنچایا اور اگر بتقاضائے بشریت کچھ لوگوں سے خوف زدہ اور ہراساں ہے تو سن لے کہ اللہ تعالیٰ ہی تجھے لوگوں کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔ کافروں کو تیری ایذا رسانی اور ہلاکت تک کبھی بھی راہ نہ دے گا۔ (شان نزول (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ) نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخالفوں کی کثرت اور زور کو دیکھ کر ملول خاطر ہونا ایک طبعی امر تھا۔ آپ کی تسلی اور تشفی کو یہ آیت نازل ہوئی (حاصل معالم) (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ۔ الجوامع میں حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا کہ علی مرتضیٰ کو بجائے اپنے کل آدمیوں کا حاکم مقرر کریں۔ اور لوگوں کو بھی اس امر سے مطلع کردیں۔ پس آں حضرت کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ امر میرے اصحاب میں سے ایک گروہ کو ناگوار گزرے گا۔ اور لوگ یہ کہیں گے کہ آں حضرت اپنے ابن عم کے نفع کے لئے کہہ رہے ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بروز غدیر خم آں حضرت نے علی مرتضیٰ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کو دکھایا اور یہ فرمایا مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہٗ اور یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ تفسیر عیاشی میں بھی روایت سے مختصراً اسی قدر واقعہ نقل ہوا ہے۔ تفسیر مجمع البیان میں ثعلبی اور خستکانی وغیرہ کئی مفسرین اہل سنت سے قریب قریب یہی واقع درج کیا گیا ہے۔ کافی میں جناب امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک حدیث منقول ہے جس کا ایک جزو یہ ہے کہ ولایت جناب امیر المومنین کا حکم جمعہ کے دن کہ عرفہ بھی تھا آیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ اکمال دین و اتمام نعمت علی ابن ابی طالب کی ولایت کا حکم سنا دینے پر موقوف ہے۔ جناب رسالت مآب نے یہ عرض کیا کہ میری امت چونکہ ابھی ابھی سے کفر سے داخل اسلام ہوئی ہے تو اگر میں اپنے ابن عم کے بارے میں اطلاع دوں گا تو کوئی کچھ کہے گا۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے زبان سے کسی سے نہیں کہی تھی۔ بلکہ صرف میرے دل میں ایسا خیال گذرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا حکم تاکیدی پہنچا۔ جس میں مجھے عذاب سے ڈرایا گیا تھا۔ اگر اس حکم کو نہ پہنچائوں چنانچہ یہ پوری آیت یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ الخ نازل ہوئی تو جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی مرتضیٰ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا اَیُّھَا النَّاسُ جو انبیاء مجھ سے ہو گذرے ہیں ان میں سے ہر ایک کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کردیا تھا جب ان کو بلایا چلے گئے۔ اب قریب ہے کہ میں بھی بلایا جائوں اور چلا جائوں۔ سوال مجھ سے بھی کیا جائے گا اور تم سے بھی۔ اس وقت تم کیا کہو گے؟ سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے احکام اللہ تعالیٰ پہنچائے۔ ہماری خیر خواہی کی جو کچھ آپ کے ذمہ تھا اسے آپ نے ادا فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں اور رسولوں سے افضل جزا آپ کو دے۔ آں حضرت نے یہ سن کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا اللھم اشھد۔ پھر ارشاد ہوا کہ اے گروہ مسلمین ! یہ علی ( علیہ السلام) میرے بعد تم سب کا ولی اور والی ہے۔ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دیں۔ جناب امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خلق اللہ تعالیٰ پر علم اللہ تعالیٰ کے اور اس دین کے جو خدائے تعالیٰ نے پسند فرمایا تھا امین تھے حق امانت ادا فرما گئے۔ نیز انہی حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ولایت علی کا حکم دیا اور ان پر آیت کریمہ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ الخ نازل فرمائی۔ اور اولی الامر کی ولایت واجب کی۔ مگر لوگ سمجھتے نہیں تھے کہ وہ چیز کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ ولایت کی تفسیر ان کے لئے ایسی ہی کردیں جیسے کہ نماز روزہ و حج و زکوٰۃ کی تفسیر کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچا تو جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی قدر تردد ہوا۔ خوف یہ تھا کہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اور میری تکذیب نہ کریں۔ پس پروردگار عالم کی طرف رجوع کی تو ادھر سے یہ وحی آئی یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ الخ حضرت نے امر اللہ تعالیٰ کی تعمیل کی۔ یوم عذیر خم الصلوۃ جامعۃ پکارے جانے کا حکم دیا۔ اور علی کو مولا مقرر فرمایا اور لوگوں کو یہ حکم دے دیا کہ جو حاضر ہے وہ غائب کو اس امر کی خبر کر دے۔“ (ترجمہ قرآن مولوی مقبول احمد شیعہ حاشیہ ص ١٨٨) اقول : کس قدر کوشش ہے قرآن مجید کو چیتان بنانے کی تاکہ کسی طرح مسئلہ متنازعہ (خلافت علی بلا فصل) کا ثبوت قرآن مجید سے مل جائے۔ قابل توجہ :۔ شیعہ اصحاب ذرہ سا غور فرمائیں تو انہیں اپنے اس خیال کی غلطی واضح ہوجائے وہ یہ کہ اس آیت سے تبلیغ خلافت علی (بلا فصل) اگر مقصود ہے تو کیا وجہ ہے کہ خلافت علی کو صریح لفظوں میں ذکر نہ فرمایا۔ مثلاً یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ بلغ ما انزل الیک من خلافۃ علی اتنا اہتمام جس امر کا ہو کہ اس کو قرآن مجید کی نص صریح میں ذکر کیا جائے کیا وجہ ہے کہ اسے صاف لفظوں میں ذکر نہ کیا جائے تاکہ اس کے سمجھنے میں بے وجہ اختلاف پیدا نہ ہو۔ اللہ اللہ کتنی دلیری ہے کہ بات بنانے کے لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور (علیہ السلام) اس کی تبلیغ کرنے سے ڈرتے تھے اس لئے مکرر سہ کرر حکم پہنچا کہ ڈرو نہیں ۔ اہل ایمان خود ہی اندازہ کرلیں کہ یہ روایت اور تفسیر کہاں تک قابل التفات ہے۔ (منہ) تو یہ بھی ان سے کہہ دے کہ اے کتاب والو ! جب تک تم توریت انجیل پر اور جو ان کے بعد مع قرآن شریف تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اترا ہے اس پر پورا پورا عمل نہ کرو گے تمہاری کسی بات کا ٹھیک نہیں اے پیغمبر ! کیا یہ تیری مانیں گے؟ ہرگز نہیں ان کو تو تیرے سے ایسی عداوت ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ کو ملا ہے ان میں سے بہتوں کو شرارت اور کفر بڑھاتا ہے پس تو ان کافروں کی قوم پر کسی طرح سے افسوس نہ کر ان کو تو اپنی شرافت پر ناز ہے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں ہم شریف ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دستور ہی اور ہے۔ وہاں شرافت آبائی بغیر لیاقت نمائی کے ہیچ ہے وہاں کا تو دستور یہ ہے کہ مسلمان قوم سے ہوں یا یہودی یا صابی لا مذہب ہوں خواہ عیسائی۔ کوئی بھی ہو جو ان میں سے اللہ اکیلے پر اور پچھلے دن کی زندگی پر پختہ ایمان لائیں گے اور اخلاص سے نیک عمل کریں گے ان کو نہ تو کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ہم نے متقدمین بنی اسرائیل سے بھی یہی وعدہ لیا تھا اور نیک اعمال کی تاکید کی تھی… اور اس تاکید کو مؤکد کرنے کے لئے ان کی طرف کئی ایک رسول بھی بھیجے مگر وہ اپنی شرافت آبائی پر ایسے غراں ہوئے کہ شریعت کی انہوں نے کچھ بھی قدر اور عظمت نہ سمجھی بلکہ جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس ان کی خواہشات کے خلاف تعلیم لاتا تو کتنوں کی تکذیب کرتے اور کتنوں کو جان سے ہی مار ڈالتے اور یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اس تکذیب اور قتل سے ہم کو کوئی عذاب اور نقصان نہ ہوگا۔ پس اس خیال میں پھنس کر اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مہربانی کی ان کی حالت کو سنوارا ان کی پریشانی کو یکجا جمع کردیا دنیاوی عزت بخشی مگر پھر بھی ان میں سے بہت سے اندھے بہرے ہوگئے اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں تک بگڑے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی بھی ان کو معرفت نہ رہی حالانکہ یہ معرفت اصل ایمان ہے جب ہی تو ان کے حق میں یہ کہنا صحیح ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ کافر ہیں اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں نادان ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ مسیح نے خود کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے اس کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ بنائو بیشک جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا وے گا اللہ تعالیٰ اس پر بہشت اور آخری زندگی کی خوشحالی حرام کر دے گا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اور ایسے ظالموں کا کوئی حمائتی نہ ہوگا۔ یہ تعلیم مسیحی کجا اور ان غلط گوئوں کا مذہب کجا۔ لطف یہ ہے کہ پھر ایک بات پر جمتے بھی نہیں کبھی تو صاف مسیح کو اللہ تعالیٰ کہہ دیتے ہیں اور صاف لکھ دیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کو پہاڑ پر نظر آنے والا مسیح ! ہی تھا۔ کبھی تینوں باپ (خدا) بیٹے (مسیح) اور روح القدس کا مجموعہ اللہ تعالیٰ بنا دیں۔ دیکھو انجیل مرقس۔ ١٢ باب فقرہ ٢٩ ! دیکھو مفتاح الاسرار ص ١٤ پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین معبودوں میں کا ایک ہے وہ بھی کافر ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں دہریوں سے بدتر اور نہیں جانتے کہ دلائل عقلی اور نقلی سے یہی ثابت ہے کہ معبود ہاں حقیقی معبود اکیلا ہی ہے اور کوئی نہیں۔ اگر یہ اس کہنے سے جو یہ کہتے ہیں باز نہ آئے تو جو ان میں سے مرتے دم تک کافر رہیں گے ان کو سخت دکھ کی مار ہوگی تو کیا یہ سن کر اور سمجھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہاں حقیقی معبود کی طرف نہیں جھکتے اور سابقہ گناہوں پر اس سے بخشش نہیں مانگتے اور نہیں جانتے کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے یہ تو اپنے ضد میں ماننے کے نہیں تاہم جہان تو سننے والوں سے خالی نہیں۔ مذکورہ نقلی دلیل کے علاوہ ایک عقلی دلیل سے بھی ان کے اس خیال کو کہ مسیح میں بھی الوہیت تھی باطل کر۔ (اس آیت کی تفسیر اور مسئلہ الوہیت مسیح کی پوری کیفیت معہ تردید جلد ثانی حاشیہ نمبر ٥ میں ملاحظہ ہو۔ ١٢) پس ان کو سنا کہ مسیح تو اللہ کا صرف رسول تھا اس سے پہلے بھی کئی ایک رسول گذر چکے ہیں اور اس کی ماں بھی ایک پاکدامن اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے پھر معبود کس طرح ہوئے۔ دیکھ ہم کس طرح کے دلائل بیان کرتے ہیں اور ان کو دیکھ یہ کہاں کو بہکے جاتے ہیں ان کو اتنا بھی ہوش نہیں کہ جو کھانے کا محتاج تھا اس کو ہم خدایا جزو اللہ تعالیٰ کیونکر کہتے ہیں تو اور ایک طرح سے انہیں سمجھانے کو کہہ کیا مسیح تم کو کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے جب کہ وہ اپنی تکالیف کو بھی نہ ہٹا سکا حالانکہ ان کے ہٹانے کی دعائیں کرتا تھا۔ تو تمہارے نفع یا نقصان کا اس کو اختیار کیونکر ہوا تو پھر کیا تم اللہ کے سوا ان چیزوں کی بھی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ رکھیں کیسے جب کہ اصل بنیاد نفع نقصان کی یعنی دور و نزدیک کے حاجتمندوں کی فریادوں کا سننا اور کمال علمی سے ان کے دل کے حال پر بھی مطلع ہونا ان میں نہیں۔ کیونکہ اللہ ہی ہر ایک کی سننے والا ہر ایک کی حاجت کو جاننے والا ہے کوئی دوسرا اس صفت میں اس کا شریک نہیں تو ایک طریق نرمی سے ان کو کہہ اے کتاب والو کسی کی ضد اور عداوت سے یا اپنی کم فہمی سے دین میں ناحق زیادتی اور کجی کی راہ اختیار نہ کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہمارے پہلے لوگ یہی کہتے چلے آئے ہیں اس لئے ہم اپنے آبائی مذہب کو کیوں کر ترک کریں۔ ان واہیات خیالات کو چھوڑ دو اور اپنے سے پہلے لوگوں کی جو خود بھی گمراہ ہو لئے اور بہتوں کو سیدھی راہ سے گمراہ کر گئے مذہب میں ان کی خواہشوں پر نہ چلو اور اس بات پر تو مطلقاً ناز نہ کرو کہ ہم اسرائیل کی اولاد ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان پر حضرت دائود اور حضرت مسیح ابن ! مریم کی زبانی اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار پڑی تھی کیونکہ ایک تو وہ بے فرمانی کرتے اور حدود خداوندی سے تجاوز کرتے تھے۔ دوئم جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے۔ پس لوگ بے روک ٹوک برے کام کرتے جس سے ایک تو بدکاری پھیلتی دویم شریعت اور احکام الٰہی بالکل دب جاتے۔ غور کرتے تو بہت ہی برا کرتے تھے ان کے پیشوائوں کے اس فعل کا اثر ہے کہ اب بھی تو ان میں سے بہتوں کو دیکھ رہا ہے کہ مسلمانوں کو جو توحید خداوندی اور خاندان نبوت کے بھی قائل ہیں ان سے مخالف ہیں تو صرف نبوت محمدیہ میں ہیں تاہم یہ لوگ ان کو چھوڑ کر کافروں بت پرستوں سے دوستی لگاتے ہیں یہ وتیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہے اور آخرت میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے اور اگر یہ اللہ پر اور اس نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور جو اس کی طرف قرآن شریف اترا ہے اس پر ایمان لاتے تو اس کی برکت سے یہ ایسے پرہیزگار ہوتے کہ ان مشرکوں اور کافروں کو دوست نہ بناتے جن کی دوستی سے ان کو توریت میں بھی منع کیا گیا تھا لیکن اب جو ان کی یہ حالت ہے تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بہت سے ان میں سے بدکار اور بے راہ ہیں اس بدکاری کی وجہ سے ہی ایسے بہکے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں سے عداوت کر کے مشرکوں کے ہم پلہ ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ تو مسلمانوں کے حق میں سب لوگوں سے زیادہ ضد کرنے میں یہودیوں اور مشرکوں کو بڑھے ہوئے پاوے گا۔ (شان نزول (وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہَمُ) حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ستر آدمی سفیر بھیجے تھے قرآن شریف سن کرنہایت متاثر ہوئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) کیونکہ ان کی طبیعتوں میں دنیا کا میلان اور محبت سب سے زیادہ ہے یہی جڑ ہے سب گناہوں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ یعنی مسیحی کہتے ہیں ان میں سے بعض کو جن کا ذکر آگے آتا ہے مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قدم بڑھے ہوئے پاوے گا کیونکہ ان میں علماء اور مشائخ ہیں اور یہ لوگ ان کی صحبت کے پاک اثر سے حق کے قبول کرنے میں تکبر نہیں کرتے بلکہ جب ان کو ایمانداری کی باتیں سنائی جائیں تو فوراً قبول کرتے ہیں اور جب اس رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اترا ہوا کلام قرآن سنتے ہیں تو تو دیکھتا ہے کہ حقانی تعلیم پہچاننے سے تیرے سامنے ان کی آنکھیں آنسو بہاتی نظر آتی ہیں اور بڑی آرزو کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے۔ کہتے ہیں۔ مولا ! ہم اس قرآن پر ایمان لائے پس تو ہم کو دین حق کی تصدیق کرنے والوں بلکہ اس کی سچی شہادت دینے والوں میں لکھ رکھ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا اس میں عذر ہی کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور جو ہمارے پاس سچی تعلیم آئی ہے اس پر ایمان نہ لائیں اور اس بات کی امید کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو نیکوں کی جماعت میں شامل کرے گا۔ پس ان کے اس اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کہنے کے صلے میں ان کو ایسے باغ عطا کئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں نہ صرف چند روزہ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے۔ کیوں نہ ہو خلوص والے نیکوں کا یہی بدلہ ہے۔ اور ان کے مقابل جو کافر ہیں اور ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں وہی جہنم کے قابل ہیں۔ المآئدہ
58 المآئدہ
59 المآئدہ
60 المآئدہ
61 المآئدہ
62 المآئدہ
63 المآئدہ
64 المآئدہ
65 المآئدہ
66 المآئدہ
67 المآئدہ
68 المآئدہ
69 المآئدہ
70 المآئدہ
71 المآئدہ
72 المآئدہ
73 المآئدہ
74 المآئدہ
75 المآئدہ
76 المآئدہ
77 المآئدہ
78 المآئدہ
79 المآئدہ
80 المآئدہ
81 المآئدہ
82 المآئدہ
83 المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 (87۔110) اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سستی کرنا اور بے پروائی سے ٹلا دینا ہی بسا اوقات موجب کفر ہوتا ہے۔ جب ہی تو تم کو حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی اور مباح بتلائی ہوئی چیزوں کو حرام مت سمجھو۔ بلکہ ان کے استعمال میں اعتدال سے رہو اور کسی طرح کسی جانب سے حد سے نہ بڑھو اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (شان نزول (لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ) چند صحابہ دنیا سے دل برداشتہ ہو کر عہد کرچکے کہ آئندہ کو لذیذ غذا نہ کھائیں گے اور عمدہ لباس نہ پہنیں گے چونکہ یہ ارادہ شریعت الٰہی کے خلاف تھا۔ کیونکہ شریعت کو تو منظور ہے کہ انسان اپنے دل کا لگائو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھے کھانے پینے کو جو چاہے حلال طیب کھائے اس لئے ان کو اس ارادہ سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی (معالم) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال طیب رزق دیا ہے وہ کھائو اور ناشکری اور بے فرمانی کرنے میں جس اللہ پر تم ایمان اور یقین کامل رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو۔ حتی المقدور کسی طرح اس کی بے فرمانی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ بھی تم کو ناحق خواہے نخواہے تنگ کرنا نہیں چاہتا۔ دیکھو تو اس کی مہربانی تم پر کیسی ہے کہ وہ تمہاری لغو قسموں میں جو باتوں باتوں میں تم واللہ باللہ کہا کرتے ہو مواخذہ نہیں کرتا۔ شان نزول (لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ) پہلی آیت جب اتری تو جن صاحبوں نے اپنے ارادوں پر قسمیں کھائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کی بابت آنحضرت سے سوال کئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) لیکن جن باتوں پر تم نے دل سے مضبوطی کر کے خلاف کیا ہو ان پر مواخذہ کرتا ہے پس اس کی مہربانی کو دیکھو کہ اس کا علاج بھی بتلا دیا کہ اس کے کفارہ میں دس مسکینوں کو متوسط درجے کا کھانا عموماً تم اپنے عیال کو کھلاتے ہو کھلائو یا اگر مقدرت رکھتے ہو تو بجائے کھانے کے ان کو لباس پہنائو۔ یا اگر اس سے زیادہ مقدور والے ہو تو ایک غلام آزاد کرو۔ اور جس کو یہ کچھ بھی میسر نہ ہو اور ان تینوں میں سے کسی امر کی طاقت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم کھا کر خلاف کرو اور بہتری تو اسی میں ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنی قسموں کی خوب حفاظت کرو بشرطیکہ کسی ناجائز کام کی قسم نہ ہو۔ حتی المقدور پوری کیا کرو اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تم سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم احسان مانو اور شکر گذار بنو۔ منجملہ ان احکام الٰہی کے ایک حکم اخلاقی یہ ہے کہ تم مسلمانو ! شراب اور جوا وغیرہ بداخلاقیوں کے نزدیک بھی نہ جائو۔ ( شان نزول (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ) عرب میں کس قدر شراب اور جوئے کا رواج تھا اس کا اندازہ کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے حضرت عمر (رض) ہمیشہ سے اس کے مخالف تھے اس لئے ہمیشہ ہی اس کے حال سے مستفسر رہتے۔ آخر حکم ربانی اس کی بابت یہ پہنچا۔ منہ) مشرکین عرب میں جہاں اور بداخلاقیاں تھیں یہ بھی تھی کہ انہوں نے چند تیر اس قسم کے رکھے ہوئے تھے کہ ان کے ذریعہ فال ڈالتے تھے کسی پر (کر) اِفْعَلْ لکھا ہوتا اور کسی پر لاَ تَفْعَلْ (نہ کر) ہوتا۔ اگر اِفْعَلْ (کر) والا ہاتھ میں آتا تو اس کام کو کرلیتے۔ اگر لاتفعل (نہ کر) والا آتا یعنی اس کام کو نہ کر تو نہ کرتے اور سکوت والا ہوتا تو پھر ڈالتے۔ ان کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) کیونکہ شراب خواری اور جوا بازی اور بت پرستی اور تیر یعنی تیروں سے تقسیم کار کرنا شیطانی کام ہیں پس تم ان سے بچتے رہیو۔ تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور مہذب اخلاق بن جائو شیطان یہی جاہتا ہے کہ شراب خواری اور قمار بازی کی وجہ سے تم میں باہمی عداوت اور بغض ڈالے۔ اور یاد الٰہی اور نماز سے تم کو غافل اور بے خبر کر دے تو کیا اس دشمن کے فریب سے اطلاع پا کر بھی تم باز نہ آئو گے پس ان سب خرابیوں کی جڑ کو چھوڑ دو اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور بے فرمانی سے بچتے رہو۔ پھر اگر اس تاکیدی حکم کے سننے کے بعد بھی تم احکام شریعت سے منہ پھیرو گے تو جان رکھو کسی کا کچھ نہ کھوئو گے۔ ہمارے رسول کے ذمہ تو صرف تبلیغ احکام کا بوجھ ہے اور کچھ نہیں۔ تعمیل احکام کی بابت سوال تم سے ہے ہاں یہ بات بھی بیشک صحیح ہے کہ اطاعت کا حکم بھی ان ہی مسائل اور احکام میں ہے جن کی بابت حکم اترا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حرمت خمر سے پہلے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اس حال میں وہ جو کچھ شراب کباب کھا پی چکے ان پر گناہ نہیں جب کہ انہوں نے حرام چیزوں سے پرہیز کیا اور ان کی حرمت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے پھر پرہیزگاری پر جمے رہے اور ایمان دار بنے رہے اور ہر وقت وہ تقویٰ شعار رہے اور احسان اور اچھے اچھے لوگوں سے سلوک اور نیک کام کرتے رہے ان کو کیوں گناہ ہونے لگا اللہ تعالیٰ تو محسنوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی اطاعت میں سرگرم رہتے ہیں انہیں بھی جانتا ہے اور جو ظاہری ڈیل ڈول دکھا کر دھوکہ بازی کرتے ہیں وہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں مگر کبھی کبھی بندوں کے سامنے مخلصوں کا اظہار بھی اس کو منظور ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمانو ! تم کو بھی اسی غرض سے کہ دو رخے اور کمزور خیال کے لوگ تم سے جدا ہوجائیں اللہ تعالیٰ تم کو ایک ذرا سی بات یعنی شکار سے جس تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچتے ہوں گے یعنی وہ تم سے بہت ہی قریب ہوں گے ایام احرام اور حج میں منع کر کے آزماوے گا۔ تاکہ جو لوگ اس اللہ تعالیٰ سے نادیدہ ڈرتے ہیں ان کو الگ کر دے اور جو دوسروں کی دیکھا دیکھی یا کسی مطلب دنیاوی سے دعویٰ اسلام کرتے ہیں ان کی اصلیت ہی لوگوں پر واضح کر دے پس جو اس سے پیچھے زیادتی کرے گا اللہ تعالیٰ کی ممانعت سے بے پرواہ ہوگا اسی کو دکھ کی مار ہوگی۔ لو مسلمانو ! اب صریح حکم سن لو کہ احرام کی حالت میں شکار نہ کیا کرو۔ اور جو تم میں سے ایسا شکاری ہو کہ شکار دیکھ کر اس کی رال ٹپکتی جائے اور وہ جان بوجھ کر اس شکار کو مارے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس جیسا کوئی چار پایا جس کی بابت دو انصاف والے تم میں سے فیصلہ کریں کعبے تک پہنچنے والی قربانی دیوے یا اگر اس جیسا جانور نہ ملے تو چند مسکینوں کو کھانا کفارہ میں دے یا اگر اس کو یہ بھی وسعت نہیں تو اسی قدر تین چار روزے رکھے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ اپنے کئے کی سزا کا مزہ چکھے جو اس سے پہلے گذرا سو اللہ تعالیٰ نے معاف کیا اور جو اس سے بعد ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے اسی قسم کی سزا دے کر بدلہ لے گا اور اللہ کی بے فرمانی سے بچتے رہو کیونکہ وہ بڑا زبردست بدلہ لینے والا ہے ۔ تمہیں اس اطاعت میں تکلیف ہی کیا ہے جب کہ دریائی جانوروں کا شکار کرنا اور کھانا تم کو احرام کی حالت میں بھی حلال ہے تاکہ تمہارا اور تمہارے قافلے والوں کا گذارہ ہو۔ اور جنگلی شکار ہرن وغیرہ جب تک تم محرم رہو تم کو حرام ہے پس اس کو نہ کھائیو اور بے فرمانی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہئو جس کے پاس تم نے جمع ہونا ہے اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے چونکہ وہ جانتا تھا کہ اسلام اقطاح عالم میں پھیلے گا اور اہل اسلام بکثرت لا تعداد ہوں گے جس کے لئے کوئی جگہ بطور مرکز ثقل کے ضروری ہے اس لئے حسب مصلحت اس نے کعبہ کو جو بوجہ بنانے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز عبادت خانہ ہے تمام دنیا کے مسلمان لوگوں کا ذریعہ ملاقات و اتحاد بنایا ہے اور حکم دیا ہے کہ جس کو وسعت ہو۔ وہ ایک دفعہ کعبہ میں ضرور پہنچ کر اسلامی دارالخلافہ دیکھے اور حرمت والے مہینوں کو جن میں لڑائی کرنی منع ہے اور قربانیوں اور پٹے اور سیلیوں کو بھی بغرض انتظام امن عامہ اہل عرب کے مقرر کیا ہے کہ وہ یوں تو ہمیشہ اور ہر چیز پر لوٹ گھسوٹ ڈالا کرتے ہیں مگر ماہ حرام میں اور قربانیوں کے جانوروں پٹے باندھے ہوئوں کو نہیں لوٹتے تھے یہ تمہیں اس لئے بتلایا ہے کہ تم جانو کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں جانتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور باخبر ہے پس تم دل سے یقین رکھو اور خوب جانو کہ اللہ بے فرمانوں کے حق میں سخت عذاب والا ہے اور فرمانبرداروں کے لئے اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اگر بے فرمانی کرو گے تو اپنا کچھ کھوئو گے اور کسی کا کچھ نہ بگاڑو گے رسول کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے کیا تم نے مشہور مقولہ نہیں سنا ” بررسولاں بلاغ باشد وبس“ تعمیل کا سوال تم سے ہوگا۔ اور تمہارے ظاہر باطن کے کام سب اللہ کو معلوم ہیں اکثر لوگ بےدینوں کی کثرت دیکھ کر بےدینی کرنے لگ جاتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کیونکہ اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے کہہ دے کہ خبیث یعنی بدخصلت اور نیک کردار مساوی نہیں گوتم کو خباثت اور بداخلاقی کی کثرت حیرانی میں ڈالے۔ پس تم عقلمندو ! ہر ایک چیز کو اس کے ذاتی اوصاف سے پرکھا کرو۔ اور بداخلاقی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ مسلمانو ! ایسی چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جن میں احتمال ہو کہ ظاہر ہونے پر تم کو تکلیف دہ ثابت ہوں۔ یعنی ان کی تعمیل سے تمہارے نفسوں پر سختی پہنچے گی اور اگر تم قرآن کے اترتے وقت یعنی پیغمبر (علیہ السلام) کی زندگی میں تم ان کا سوال کرو گے تو لامحالہ تم پر ظاہر کی جائیں گی کیونکہ پیغمبر تو اسی لئے آیا کرتے ہیں کہ بھولوں کو راہ پر لاویں پس کیا فائدہ کہ تم ناحق ایک حکم کی تعمیل کے نیچے آجائو‘ اگر ضرورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ خود ہی بتلا دے گا اب تو اللہ تعالیٰ نے تم سے در گذر کیا اور معافی دی آئندہ کو ایسا نہ کرنا اللہ بڑا ہی بخشنہار بردباد ہے عذاب کرنے میں جلدی نہیں کیا کرتا اسی طرح تم سے پہلے بھی ایک قوم نے ایسے سوال کئے تھے پھر بعد ظاہر ہونے کے ان کی تعمیل سے انکاری ہوگئے پس جو کچھ اللہ تعالیٰ تم کو بتلاتا ہے وہ کئے جائو اور مشرکوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر بہتان نہ باندھو (شان نزول اس آیت کے شان نزول میں چند روایات منقول ہوتی ہیں جن میں سے ایک یوں ہے کہ ایک لڑکے کی پیدائش کی نسبت بدگمانی کرتے تھے کہ یہ ناجائز مولود ہے۔ اس نے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا میرا باپ کون ہے۔ آنحضرت نے وہی بتایا جو اس کی والدہ کا ناکح تھا بس فیصلہ ہوگیا۔ راوی کہتا ہے اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی مگر دقیق نظر میں یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے وہ یوں ہے کہ آیت کے سارے لفظوں سے دو جملے حاصل ہوتے ہیں۔ (١) جو سوال تم کرو گے اس کا جواب تم کو تکلیف دہ ہوگا۔ (٢) نزول قرآن کے وقت اگر سوال کرو گے تو جواب ضرور ملے گا۔ ان دو جملوں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوال کا جواب قرآن مجید میں دیا جائے گا۔ نیز یہ کہ وہ جواب تم کو تکلیف دہ ہوگا۔ حالانکہ جو جواب اس سائل کو ملا۔ وہ قرآن میں نہیں۔ نہ تکلیف دہ ہے۔ بلکہ تسلی بخش اور فیصلہ کن ہے۔ پھر یہ روایت اس آیت کی محل نزول نہ ہوگی۔ بلکہ محل نزول یہ ہے کہ صحابہ کفار سے تنگ آکر جہاد کی اجازت چاہتے تھے۔ اور مصلحت الٰیہ میں ابھی وقت نہ آیا تھا۔ ان کو سمجھانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ اس آیت کے ساتھ ہی پہلے لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے جہاد کی بابت عرض معروض کیا تھا۔ اِبْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (ہمارا افسر مقرر کیا جائے تو ہم اللہ کی راہ میں لڑیں) جب ان کی درخواست منظور ہوئی تو منہ پھیر گئے۔ میرے نزدیک آیت کے یہ معنی ہیں۔ رہی روایات مذکورہ سو وہ سنداً صحیح ہیں یعنی واقعہ ایسا ضرور ہوا کہ بعض لوگوں نے سوال کئے لکن سوالوں کو اس آیت سے متعلق کرنا یہ راوی کا فہم ہے۔ ایسا ہوا کرتا ہے کہ ایک راوی محض اپنے فہم سے کسی واقعہ کو آیت کا محل تہ دل سمجھ کر بیان کردیتا ہے چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے رسالہ فوز الکبیر میں ایسا لکھا ہے۔ اللہ اعلم (منہ) جیسا وہ اپنی طرف سے من گھڑت باتیں اللہ تعالیٰ کی نسبت لگاتے ہیں کہ سائبہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو کوئی بحیرہ اور نہ کوئی سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام مقرر کئے ہیں مگر کافر جو ان کی حد درجہ تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور ان کو اپنے پر حرام سمجھتے ہیں اور اس حکم کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور بہت سے ان میں سے بے عقل بے سمجھ ہیں۔ (شان نزول (مَاجَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ) عرب میں جہاں اور جہالتیں تھیں یہ بھی ایک دستور تھا کہ جس اونٹنی کے پیٹ سے پانچ بچے پیدا ہوچکیں اس کے کان پھاڑ کر چھوڑ دیتے نہ اس پر سوار ہوتے نہ اس کی اون کترتے نہ اس کو دانے پانی سے خواہ کسی کی زمنل میں جاتی روکتے اور اس کا نام بحیرہ یعنی کان کٹی رکھتے۔ ایسا ہی اگر کوئی بیمار ہو کر نذر مانتا کہ اگر میں اچھا ہوا یا میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک اونٹنی اللہ تعالیٰ کی نذر کروں گا تو پھر اس اونٹنی کو روک ٹوک نہ ہوتی بلکہ نہایت ادب سے دیکھی جاتی جہاں چاہتی جاتی جہاں چاہتی کھا پی لیتی اس کا نام سائبہ یعنی چھوڑی ہوئی رکھتے۔ اگر کسی اونٹنی کو یکے بعد دیگرے دو مادہ بچے پیدا ہوتے تو پچھلی کو متبرک جانتے اور اس کا نام وصیلہ (یعنی پہلی سے ملی ہوئی) رکھتے ایسا ہی جس اونٹ کا بوتا قابل سواری ہوتا اس پر سواری وغیرہ چھوڑ دیتے اور اس کا نام حامی رکھتے یعنی اپنی حفاظت کرنے والا۔ غرض ان سب کو اس طرح سے حق پنشن دیتے اور اس عطیہ کو حکم اللہ تعالیٰ بتلاتے۔ اس کی تکذیب کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) ان کی بے سمجھی کی دلیل اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ جب کوئی ان سے کہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے کلام قرآن شریف اور رسول کی بتلائی ہوئی شریعت کی طرف آئو اور اسی پر عمل کرو تو بجائے کسی دلیل طلبی یا مطلب فہمی کے جھٹ سے کہتے ہیں صاحب ! جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو کام کرتے پایا ہے وہی ہم کو کافی ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مذہبی امور میں بغیر حکم اللہ تعالیٰ اور رسول کے کسی کی بات معتبر نہیں ہوا کرتی مگر اسی حالت میں کہ فرمودہ خدائی کے مطابق ہو۔ کیا یہ اسی آبائی لکیر کے فقیر رہیں گے۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ راہ راست پائے ہوں۔ اگر کہیں کہ نہیں ہم اس حال میں اپنے باپ دادا کی نہ سنیں گے بلکہ ان کے کاموں کو عقل سے جانچیں گے تو بس ثابت ہوا کہ محض آبائی طریق کا نام لینا جب تک کہ وہ صحیح نہ ہو صحیح نہیں۔ مسلمانو ! اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگوں کو جو محض بے سمجھی سے آبائی تقلید میں پھنسے ہوئے ہوں راہ راست پر لانا ذرا مشکل امر ہے اسی لئے تم کو تسلی رہے کہ جب تم خود ہدایت یاب ہوئے تو گمراہ لوگ تم کو ضرر نہ دے سکیں یعنی جب تم اپنی ہدایت پر کار بند رہے جس کار بندی میں گمراہوں کو بملاطفت سمجھانا بھی شامل ہے تو بعد سمجھانے بتلانے کے بھی جو گمراہ رہیں گے ان کا گناہ تم پر نہیں ہوگا۔ پڑے اپنا سر کھائیں تم سب نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے کاموں پر مطلع کرے گا (شان نزول مسلمان کفار کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ان کی بدزبانی اور کفر شرک کی باتیں سن کر نہایت ملول ہوتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢) مسلمانو ! یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سمجھو کہ علاوہ احکام شریعت کے تمدنی احکام بھی تم کو سکھاتا ہے چنانچہ ایک حکم یہ ہے۔ کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر اس نے کچھ وصیت کرنی ہو تو وصیت کرنے پر دو عادل گواہ تم مسلمانوں میں سے ہونے چاہیے اور اگر تم سفر میں ہو اور اسی حالت میں تم کو موت آجائے اور اپنے مسلمانوں سے گواہ میسر نہ ہوں تو غیر قوم میں سے دو گواہ ہونے چاہئے اب ان کی گواہی لینے کا قاعدہ سنو ! کہ ! ان کی معمولی گواہی میں اگر تم کو شبہ ہو تو بعد نماز عصر حاکم کے سامنے ان کو کھڑا کرو پھر وہ دونوں اللہ کے نام کی قسم کھاتے ہوئے کہیں کہ ہم اس قسم کا کچھ عوض کسی سے نہیں لیتے اور سچ کہتے ہیں خواہ ہمارا کوئی قرابتی بھی کیوں نہ ہو اور ہم اللہ تعالیٰ لگتی گواہی چھپاتے نہیں۔ ورنہ ہم خود گنہگار ہوں گے (شہادۃ بینکم) ایک شخص مسلمان مدینہ منورہ سے بغرض تجارت سفر کو گیا۔ دو عیسائی بھی اس کے ہمراہ ہو لئے۔ اتفاقاً راہ میں مسلمان مرض الموت کے پھندے میں پھنسا اور اپنے ہمراہیوں سے کہہ دیا کہ بعد میرے مرنے کے میرا اسباب میرے وارثوں کو پہنچا دینا اور خفیہ سے ایک فہرست اسباب بھی کسی تہ میں رکھ دی۔ ہمراہیوں نے اس کے اسباب میں سے ایک چاندی کا مرصع پیالہ نکال کر باقی اس کے وارثوں کے پاس پہنچا دیا۔ وارثوں کے ہاتھ جب وہ فہرست آئی تو مقابلہ سے انہوں نے پیالہ نہ پایا۔ ان سے دریافت کیا تو وہ منکر ہوگئے۔ آخر یہ معاملہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور پہنچا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) حکم یہ ثابت ہوا کہ سفر میں وصیت کرنے کی ضرورت آن پڑے تو ہم بھی ایسا کریں مسلمان گواہ تو مقدم ہیں نہ ہوں تو غیرمسلم بھلے مانس گواہ کر لئے جائیں۔ منہ پھر اگر کسی ذریعہ سے معلوم ہو کہ یہ گواہ حلف دروغی سے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو اور دو آدمی میت کے قرابتیوں میں سے جن کی حق تلفی ہوئی ہے اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہیں کہ ہماری شہادت ان دونوں گواہوں کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے اس میں کوئی زیادتی نہیں کی ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہوں گے قرین قیاس ہے کہ اگر اس طرح گواہی درست بتا دیں گے اور ڈریں گے کہ ہماری قسموں کے بعد اور قسموں کی نوبت نہ آئے یعنی وارثان میت ہماری قسموں کی تکذیب نہ کریں پس تم ایسا نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام سنو ! بدکاری کی راہ اختیار نہ کرو ورنہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بدکاروں کو جب وہ اپنی بدکاری میں حد تک پہنچ جائیں راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ پس تم اس بلائے بےدرماں سے بچتے رہو۔ اور اس دن (قیامت کے روز) کو یاد رکھو جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کر کے بطور فہمائش لوگوں کے پوچھے گا بتلائو تم کو لوگوں کی طرف سے کیا جواب ملا تھا۔ وہ (انبیائ) مارے دہشت اور ہول قیامت کے سب کچھ بھولے ہوں گے۔ کہیں گے ہم کو تو کچھ بھی معلوم نہیں غیب کی باتیں تو ہی جانتا ہے تیرے سوا اور کون ہے؟ یہ سوال بلکہ اس سے بھی بڑے بڑے سوال انبیاء سے ہوں گے کیا تم نہیں جانتے ” کس نمے آرد کہ آنجا دم زند“ کوئی کتنا ہی بڑے منصب کا نبی یا ولی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا مگر بعض لوگ محض نادانی سے کسی نبی یا ولی سے کوئی کام خلاف عادت ظہور پذیر ہوتا دیکھ لیں تو جھٹ سے اس میں کوئی نہ کوئی نشان یا خاصۂ الوہیت سمجھ لیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ” کوئی محبوب ہے اس پردۂ زنگاری میں“ چنانچہ انہی نادانوں کی فہمائش کو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا اس موقع کو یاد کر جب اللہ تعالیٰ کہے گا۔ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے میری نعمتوں کو جو تجھ پر اور تیری ماں پر تھیں یاد کر جب میں نے تجھ کو روح القدوس یعنی جبرئیل کے ساتھ قوت دی جس کا اثر یہ تھا کہ تو گہوارہ کی عمر یعنی شیر خواری کے زمانہ میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے وعظ و نصیحت کی باتیں کیا کرتا تھا اور جب میں نے تجھ کو کتاب یعنی تہذیب کی باتیں اور توریت اور انجیل بلا مدد استاد سکھائی تھیں اور جب کہ تو میرے حکم سے پرندوں کی سی صورتیں مٹی سے بناتا تھا پھر ان میں پھونک دیتا تو وہ میرے حکم سے پرند ہوجاتے اور اڑ جاتے اور تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا۔ اور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کر کے لوگوں کے سامنے نکالتا تھا۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل سے تجھ کو محفوظ رکھا جس وقت تو ان کے پاس معجزات بینہ لایا تو ان میں سے کافر لوگ بجائے تیری تسلیم کے کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے ( شان نزول (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰے) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حق میں یہودیوں اور عیسائیوں کے افراط تفریط کی اصلاح کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰے ابن مریم) ان آیتوں میں اللہ جل شانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات عجیبہ کا جو بطور معجزہ ان سے ظہور ہوئے تھے بیان کرتا ہے اس لئے معجزہ کی حقیقت کا بیان کرنا اور سر سید احمد خان مرحوم کے شبہات کا جواب دینا ضروری ہے۔ علماء اسلام نے جو معجزہ کی تعریف کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ معجزہ ایک ایسا فعل ہے جو مدعی نبوت سے خرق عادت کے طور پر ظہور پذیر ہو۔ مگر ہمارے نزدیک معجزہ خرق عادت ہے بھی اور نہیں بھی۔ خرق عادت کا لفظ جو علماء نے درج کیا ہے اس سے ان کی جو مراد ہے وہ اور ہے اور ہم نے جو انکار کیا ہے اس سے ہماری مراد اور ہے۔ ہمارے نزدیک معجزہ موافق عادت اس لئے ہے کہ ہم اس کو نبوت کے ساتھ لازمہ مجہول الکیفیت مانتے ہیں یعنی جیسا نبوت کے لئے کوئی قانون الٰہی ضرور ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ تاکہ اتنا بڑا سلسلہ نبوت بے قانون نہ رہے گو ہمیں اس کا علم نہیں اور ہم اس کو نہ جانیں کہ وہ کیا ہے لیکن دراصل وہ ضرور کسی قانون سے مربوط ہے اسی طرح نبوت سے ایک مجہول الکیفیت تعلق معجزہ کو ہی سید صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ :۔ ” تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم بھی پورا نہیں ہے بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب امر واقع ہو اور اس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع واقع ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر اس کا علم ہم کو نہیں کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خلاف قانون قدرت کوئی امر نہیں ہوتا۔ اور جب وہ کسی قانون قدرت کے مطابق واقع ہوا ہے تو وہ معجزہ نہیں۔ کیونکہ ہر شخص جس کو وہ قانون معلوم ہوگیا ہو اس کو کرسکے گا۔ (تفسیر احمدی جلد ٣ صفحہ ٣٤) سید صاحب کی عبارت مذکورہ بھی بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ عناصر کے لئے موجودہ مروجہ قانون ہی پر بس نہیں بلکہ ممکن ہے۔ کہ اس کے سوا کوئی اور قانون بھی ہو۔ پس ممکن ہے کہ وہی قانون ہو جس کے ظہور کا وقت ہمارے نزدیک عنداللہ کسی ایسے قانون سے وابستہ ہو جو نبوت کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے جس طرح نبوت کا ظہو رکسی قانون الٰہی کے ماتحت ضرور ہے اور بحکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ہر ایک شخص اس عہدے کے لائق نہیں ہوسکتا اور ہو بھی کیونکر کلاہ خسروی و تاج شاہی بہرکل کے رسد حاشا و کلا حتیٰ کہ جملہ اہل اسلام بلکہ خود سید صاحب کو بھی اس کی انتہا بحکم خاتم النبیین مسلّم ہے۔ ٹھیک اسی طرح معجزہ کا ظہور بھی کسی غیر معلوم الحقیقت اور غیر مدرک قانون سے وابستہ ہے۔ یا اسی سلسلۂ نبوت سے استلزام رکھتا ہے یا کم سے کم اس کا نبوت سے اتنا تعلق ہو کہ مخالفین کے انکار اور بضد اصرار پر اس قانون کا وقت پہنچتا ہو۔ پس کونی ! بردا وسلاما (اے آگ ابراہیم کے حق میں سرد باسلامت ہوجا۔ ) کا وقت جب آیا تھا تو اس کا ظہور بھی اسی طرح ہوا تھا۔ کہ جس طرح نُحْرِجُ بِہٖ زَرْعًا (ہم پانی کے ساتھ نباتات پیدا کرتے ہیں) کا ہوتا ہے۔ اور اگر ہم آیات قرآنی پر غور کریں تو ہمیں اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ نبوت کے ساتھ ظہور معجزہ کو ایک خاص تعلق ہے مَا نُرْسِل بالاٰیٰتِ الاَّ تَخْوِیْفًا (ہم معجزات ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں) اس کے علاوہ یہ بھی بتلا دیا کہ ما کان لرسول اَنْ یَّاتِی بِاٰیَۃٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ (کسی رسول کی طاقت نہیں کہ بغیر ارادہ الٰہی معجزہ دکھا سکے) پس سید صاحب کا یہ کہنا کہ ” جب کسی قانون قدرت کے مطابق واقع ہوا ہے تو معجزہ نہیں کیونکہ ہر وہ شخص جس کو وہ قانون معلوم ہوگیا ہے۔ کرسکے گا۔“ کیونکر صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ نبوت کا لازمہ ہے اور اس کے ساتھ ایک مجہول الکیفیت تعلق رکھتا ہے تو جیسے نبوت بہ حکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (اللہ تعالیٰ نبوت کے محل کو خوب جانتا ہے۔) اس کلیہ کے ماتحت نہیں کہ جسے قانون معلوم ہو وہ نبی بن جائے تو معجزہ کس طرح کرسکے گا۔ زیادہ وضاحت اس تقریر کی اس وقت ہوسکتی ہے جب ہم نظام عالم پر غور کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ بعض ستارے تو ہمیں ہر روز دکھائی دیتے ہیں اور بعض برسوں بعد اور بعض صدیوں بعد اور ایک ایسے بھی ہیں کہ ان کے ظہور کا وقت کسی حساب میں آج تک نہیں آسکا۔ لطف یہ کہ بڑے بھی ایسے ہوں کہ اگر وہ ظہور کریں تو خواہ دنیا کے کسی حصہ میں ہوں ممکن نہیں کہ مخفی رہیں تاہم وہ لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَا الاَّھُوَ کے مصداق ہیں پس معجزہ میں اعجاز انہیں معنے سے ہے کہ وہ بحسب اس قانون مقررہ کے غیر نبی سے ہو نہیں سکتا۔ یا یوں کہو کہ فطرت نے اس قانون کو غیر نبی سے تعلق ہی نہیں دیا۔ جیسے کہ پانی سے حرارت کو تعلق نہیں بخشا اس کی واضح مثال میدان جنگ میں بہادروں کی کارگذاری سے ملتی ہے کہ وہی تلوار جس سے بہادر کئی ایک سر تن سے جدا کرسکتا ہے کسی بزدل کے ہاتھ دی جائے تو بجز اپنے ہی نقصان کرلے نس کے کچھ نہ کرسکے گا۔ سچ ہے لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ ہر کسے را بہر کارے ساختند میل اور درولش انداختند ہم اس تقریر میں جیسے علماء اسلام سے متفرد نہیں کیونکہ انہوں نے جو خرق عادت کا لفظ داخل تعریف کیا ہے اس عادت سے ان کی مراد عام معمولی عادت ہے سید صاحب سے یہی مخالف نہیں۔ سید صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ : ” معجزات و کرامات سے جب کہ ان کے معنوں میں غیر مقید ہونا قانون فطرت کا مراد لیا جائے تو (ہم) انکار کرتے ہیں اور اگر ان کے معنوں میں یہ بھی داخل کیا جائے کہ وہ مطابق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں تو صرف نزاع لفظی باقی رہ جاتی ہے کیونکہ جو امر کہ واقع ہوا اور جس شخص کے ہاتھ سے واقع ہوا اس کو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر وہ ان کا معجزہ یا کرامت نام رکھتے ہیں ہم اس کا یہ نام نہیں رکھتے۔“ ج ٣ صفحہ ٣٨ (نعم الوفاق وحبذا الاتفاق) نام کی کیا بات ہے۔ آپ نام کچھ ہی رکھ لیں۔ کام سے کام ہے۔ نام سے نہیں۔ سید صاحب نے اپنے انکار معجزات کو ایک اور پہلو سے واضح لفظوں میں بھی بتایا ہے جن کا نقل کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں کہ : ” حکماء و فلاسفہ نے معجزات یا کرامات کا انکار کسی وجہ سے کیا ہو ہمارا انکار صرف اس بناء پر نہیں کہ وہ مخالف عقل کے ہیں اور اس لئے ان سے انکار کرنا ضرور ہے۔ بلکہ ہمارا انکار اس بنا پر ہے کہ قرآن مجید سے معجزات و کرامات یعنی ظہور امور کا بطور خرق عادت یعنی خلاف فطرت یا خلاف جبلت کے امتناع پایا جاتا ہے جس کو ہم مختصر لفظوں میں یوں تعبیر کرتے ہیں۔ کہ کوئی امر خلاف قانون قدرت واقع نہیں ہوتا۔“ (جلد ٣ صفحہ ٣٧) مختصر یہ کہ سید صاحب کو معجزہ سے انکار نہیں۔ بلکہ مطلب ان کا یہ ہے کہ قرآن شریف میں معجزات کا ذکر نہیں پس ہماری کوشش صرف یہ ہونی چاہئے کہ ہم سید صاحب اور ان کے ہم خیالوں کو قرآن شریف سے معجزہ تلاش کردیں۔ پس ہم آیت زیر حاشیہ کے بیان کی طرف آتے ہیں اس مقام پر اللہ جل شانہ نے حضرت مسیح کی کئی ایک باتوں کا یا ہمارے محاورے میں معجزات کا ذکر کیا ہے۔ اول تَکَلُّمْ فِی الْمَھْدِ ہے اس کا ذکر تو کسی قدر ہم جلد ثانی میں کر آئے ہیں۔ دوئم خَلْقِ طَیْر یعنی جانوروں کا بنانا۔ سید صاحب اس معجزے کی تقریر یوں کرتے ہیں :۔ ” یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے۔ اور بچپنی کے زمانہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔“ (تفسیر احمدی جلد ثانی ص ٢٣٥) اس توجیہ کی بنا سید صاحب نے ایک غیر مشہور انجیل طفولیت پر رکھی ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ :۔ ” انجیل اوّل (طفولیت) میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے :۔ ” اور جب کہ حضرت عیسیٰ کی عمر سات برس کی تھی۔ وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل۔ چڑیاں اور اور مورتیں بنا رہے تھے۔ ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا۔ اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ تب حضرت عیسیٰ نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دوں گا اور فی الفور وہ حرکت کرنے لگیں گی اور جب انہوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو واپس آئیں انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انہوں نے ان کو ٹھیر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھیر گئیں۔ اور وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے تو کھاتی پیتی تھیں۔ جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو ! آئندہ سے اس کی صحبت سے احتراز کرو۔ دیکھو کہ وہ جادوگر ہے اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔ “ ” اور انجیل دوئم میں اس طرح پر ہے ” جب حضرت عیسیٰ کی عمر پانچ برس تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا۔ حضرت عیسیٰ عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارے کھیل رہے تھے۔ اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں ٹھیر رہا تھا۔ مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کردیا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا تب انہوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے مگر ایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی ان کا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جا کر اطلاع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارے کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کر رہا ہے۔ تب یوسف اس جگہ جہاں حضرت عیسیٰ تھے آیا۔ اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوں تم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔ تب حضرت عیسیٰ نے اپنی ہاتھوں کی ہتھیلیاں بجا کر چڑیوں کو بلایا اور کہا جائو اڑ جائو اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو۔ پس چڑیاں شور مچاتی ہوئی اڑ گئیں یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے اور چلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے آدمیوں سے جا کر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ سے ان کے سامنے ظہور میں آیا۔“ (صفحہ ٢٣٨) یہاں تک تو ہمیں بھی مفر نہیں بلکہ موید ہے مگر آگے چل کے سید صاحب نے جو استثناء کیا ہے وہ ضرور قابل غور ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پر غور کی جاتی ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ بچپنی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں جانور بناتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں (علی گڑھ میں کہتے ہوں گے) اللہ تعالیٰ ان میں جان ڈال دے گا۔ وہ بھی کہتے ہوں گے مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑجاتی تھی۔ قرآن مجید نے اسواقعہ کو اس طرح پر بیان کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر قوی نہ تھا۔ بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ “ اس کے بعد کم زبان علماء پر نظر شفقت فرماتے ہیں : ” علماء اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنے یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشاق تھے اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے۔ انہوں نے ان الفاظ کی اسی طرح تفسیر کی جس طرح غلط ملط عیسائیوں کی روایتوں میں مشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔“ ص ٢٣٩ سید صاحب علماء اسلام پر نظر شفقت فرماتے ہوئے ہمیشہ یہی القاب بخشا کرتے تھے کبھی یہودیوں کے مقلد کبھی شہوت پرست زاہد۔ کوڑ مغز ملا سچ ہے بلا سے کوئی ادا ان کی بدنما ہوجا کسی طرح سے تو مٹ جائے ولولہ دل کا مگر ہم بڑے ادب سے گذارش کرتے ہیں کہ جناب والا کو بڑھاپے کی وجہ سے خود اپنی ہی تصنیفات ذہن نشین نہیں رہی تھیں۔ ذیل میں ہم ایک شہادت آپ ہی کی تصنیف سے نقل کرتے ہیں جس سے ثابت ہوگا کہ علماء اسلام تو یہودیوں اور عیسائیوں کے مقلد ہوں گے مگر آپ نے ان کی تقلید کو خوب مدلل اور مبرہن کر کے ان کو سبکدوش فرمایا ہے جس کے لئے وہ آپ کے شکر گذار ہیں آپ ایک جگہ کتب سابقہ کے اعتبار اور عدم اعتبار کے متعلق بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ ” کتابوں کی معتبری اور غیر معتبری دریافت کرنے کا اصل مدار اس کے مصنف کی معتبری اور غیر معتبری پر ہے پس جس کتاب کی معتبری اور غیر معتبری دریافت کرنی ہو۔ تو اول یہ بات دیکھنی چاہئے کہ اس کا لکھنے والا معتبر شخص ہے یا نہیں۔ اگر معتبر ہے تو وہ کتاب بھی معتبر ہے اور اگر معتبر نہیں ہے تو وہ کتاب بھی معتبر نہیں ہے۔ پھر اگر وہ کتاب معتبر شخص کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس بات کی سند درکار ہوتی ہے کہ درحقیقت یہ کتاب اسی شخص کی لکھی ہوئی ہے اور یہ بات ثابت نہیں ہوتی جب تک ہمارے زمانہ سے اس کتاب کے لکھنے والے تک سند متصل ہمارے پاس نہ ہو اور سند متصل ہم اس کو کہتے ہیں کہ کسی معتبر شخص نے اس کتاب کو اصل لکھنے والے سے پڑھا ہو۔ پھر اس سے دوسرے نے پھر اس سے تیسرے نے یہاں تک کہ ہمارے زمانہ تک اسی طرح اس کی گواہی پہنچی ہو۔ چنانچہ حاشیہ بطور مثال قرآن مجید کی سند متصل جس طرح کہ مجھ تک پہنچی ہے لکھتا ہوں اسی طرح پر اور کتابوں کی بھی سند متصل ہم چاہتے ہیں مگر ان کتابوں (مندرجہ بائیبل) کی نسبت ایسی سند متصل ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لئے ان کتابوں کے معتبر اور غیر معتبر ٹھیرانے کو دوسرا قاعدہ بلحاظ شہرت اور قبول کے قرار پایا ہے پس ان جملہ کتابوں کی خواہ وہ بالفعل بائیبل میں داخل ہیں یا نہیں۔ چار قسمیں قرار پائی ہیں۔ قسم اول جن کتابوں کو علماء ہر وقت نے بلارد و انکار قبول کیا اور سب کا ان کی صحت پر اتفاق ہوا اور شہر بہ شہر مشہور ہوئیں اور علماء ان کی تعلیم و تعلم میں قرناً بعد قرنٍ مشغول و مصروف ہوئے اور کبھی اور کسی زمانہ میں ان کی صحت و اعتبار پر رد و انکار نہیں ہوا وہ سب معتمد اور صحیح ہیں۔ قسم دوئم وہ کتابیں ہیں جن کو معتبر لکھنے والوں نے لکھا اور اکثر علماء نے ان کو تسلیم کیا۔ مگر بعضوں نے ان کے تسلیم کرنے میں انکار بھی کیا۔ یا کسی عہد میں وہ کتابیں اکثر علماء کے نزدیک مقبول رہیں اور معتبر اور مقدس لوگوں نے ان سے سند لی اور اپنی تحریرات میں ان کے اقوال اخذ کئے۔ مگر پھر کسی زمانہ میں متروک ہوگئیں یا یہ کہ کسی زمانہ میں ان کی شہرت ہوئی اور پھر وہ شہرت جاتی رہی۔ ان کتابوں کو بھی ہم صحیح اور معتمد مانتے ہیں مگر پہلی قسم سے درجہ اعتبار میں کمتر جانتے ہیں“ (تفسیر احمدیہ جلد اول صفحہ ١٨٦) اسی جلد تفسیر میں ان کتابوں کی بابت جن سے آپ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی طفولیت کا حال لکھا ہے رقمطراز ہیں :۔ ” انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی میں ناسٹک کے ہاں جو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج اور مسلم تھی اور از منہ مابعد میں بھی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم مثل پوسیبس واتھا ناسیس وایپی فینس و کرائی ساسٹم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بیس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیا و افریقہ کے اکثر گرجائوں میں پڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کا دارومدار تھا۔ فیبریشش کے نزدیک وہ یہی انجیل تھی (جس سے سید صاحب نے عبادات متعلقہ جانور سازی مسیح (علیہ السلام) بزمانہ طفولیت نقل کی ہیں) انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ طامسن کی طرف سے منسوب ہے اور ابتدائً انجیل مریم کے ساتھ شامل خیال کی گئی ہے۔“ (صفحہ ٢٣٧) ناظرین تقریرات مذکورہ بالا میں خود ہی غور کریں اور فیصلہ دیں کہ سید صاحب انہی انجیلوں کو جن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے خلق طِیَر کا ذکر ہے کہاں تک صححن اور معتبر جانتے ہیں۔ اس فیصلہ کو ہم ناظرین کی رائے پر چھوڑ کر سید صاحب کے عذرات جو انہوں نے نفس قرآن کریم کی آیات کے متعلق کئے ہیں بتلا کر ان کے جوابات عرض کرتے ہیں۔ قرآن شریف نے جس خوبی اور تفصیل سے ان معجزات کو بیان کیا ہے واقعی اس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ مگر سید صاحب نے حسب عادت شریفہ ان سے بھی انکار کیا۔ مگر کمال یہ ہے کہ اصل وجہ جو ان سب ہاتھ پائوں مارنے کی ہے اس کا نام تک نہیں لیا۔ یعنی سپر نیچرل (خلاف عادت) جس کا جواب ہم کئی ایک مواضع میں دے چکے ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم بھی اس میں سید صاحب کے متتبع بنیں اور انہی کی طرز تقریر اختیار کریں جس بات کو وہ مخفی رکھیں۔ ہم بھی ظاہر نہ کریں۔ سید صاحب نے جو تقریر اس مسئلہ پر کی ہے اس کو بتمامہ نقل کرنا مناسب ہے۔ فرماتے ہیں : ” اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا۔ اور کیا درحقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہونا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے۔ تمام مفسرین اور علماء اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں مگر ہمارا جواب یہ ہے کہ نہیں (کیوں نہ ہو۔ عالم بمنت یکطرف آں شوخ تنہا یک طرف) بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صحیح و غلط روایات کی تقلید سے بٹھا لئے ہیں خالی کر کے نفس قرآن مجید پر بنظر تحقیق غور کیا جائے (ان شاء اللہ تعالیٰ ہم ایسا ہی کریں گے اور سب نے ایسا ہی کیا ہے)۔ سورۃ آل عمران میں جو یہ الفاظ ہیں۔ اَنِّیٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ میں مٹی سے پرندوں کی مورتیں بناتا ہوں۔ پھر ان میں پھونکوں گا۔ تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میں کہی تیّ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہو بھی جاتی تھیں۔ اور اڑنے بھی لگتی تھی۔ فَیَکُوْنُ پر جو (ف) ہے۔ وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی۔ کیونکہ وہ اگر عاطفہ ہو تو یَکُوْنُ طَیْراً اِنَّ کی خبر ہوگی اور اس کا عطف اخلق پر ہوگا۔ اور یَکُوْنُ طَیْراً میں یکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم اِنَّ کی طرف راجع ہوسکے اس لئے یَکُوْنُ طَیْراً نحو کے قاعدہ کے مطابق یا یوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طرح اِنَّ کی خبر نہیں ہوسکتا۔ اور فیکون کی (ف) عاطفہ قرار نہیں پا سکتی اب ضرور ہے کہ وہ (ف) تفریع کی ہو اور پھونکنے اور ان مورتوں کے پرند ہوجانے میں گو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یا مجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع علیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میں بیان کرے (خواہ کذب صریح بھی کیوں نہ ہو) جہاں کلم مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میں لکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلم مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ درحقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کردیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا امر دوسرے امر کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو مگر صرف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی اور دلیل سے ثابت نہ ہو کہ وہ امر فی الحقیقت وقوع میں بھی آیا تھا اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ پرندوں کی مٹی کی مورتیں درحقیقت جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔“ (ص ٢٣٦) اس ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ فَیَکُوْنُ طَیراً کلام محقق مصدق من اللہ نہیں ہے بلکہ مسیح کا مزعوم ہے یعنی حضرت مسیح نے ہی لڑکپن میں کہا تھا کہ دیکھو میں ایسی مٹی کی مورتیں بناتا ہوں اور ان میں پھونکتا ہوں تاکہ وہ جانور ہوجائیں پس یہی مدار ہے سید صاحب کے مذہب کا کہ فیکون ماقبل پر معطوف نہیں۔ چنانچہ سورۃ مائدہ کی آیت کے متعلق اسی بنا کے پختگی کے درپے ہیں فرماتے ہیں :۔ ” اس آیت میں بھی فیکون پر کی (ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف تخلق پر ہوگا۔ اور معطوف حکم معطوف علیہ میں ہوتا ہے اور معطوف علیہ کی جگہ قائم ہوتا ہے اور یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف علیہ کو حذف کردیا جائے اور معطوف اس کی جگہ رکھ دیا جائے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہونے پاوے اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر معطوف علیہ کو حذف کر کے فیکون طیرا اس کی جگہ رکھ دیں تو کلام اس طرح ہوجاتا ہے کہ اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ اِذْ تَکُوْنُ طَیْراً اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے اب ضرور ہے کہ یہ (ف) بھی اسی طرح تفریع کی ہوجیسی کہ سورۃ آل عمران میں (ف) تفریع کی تھی اور اس (ف) کے ذریعے سے تنفخ متفرع علیہ اور تکون متفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوں گے اور تقدیر کلام یوں ہوگی اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ اِذْتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْراً مگر اس صورت میں فتکون طیرا صرف تنفخ پر تفریع ہوگی اور اذ کا اثر جو مضارع پر آنے سے تحقق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کردینے کا ہے تکون تک نہیں پہنچتا۔ کو نکہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ تکون کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اس کا عطف تخلق پر جائز ہوتا۔ اس صورت میں تکون کو محض تفریعی تعلق اپنے متفرع کا وقوع ثابت نہیں ہوتا۔ اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ بچپنے کی حالت میں مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجائیں گے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے پس حضرت عیسیٰ کا یہ کہنا ایسا ہی تھا۔ جیسے کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔“ ص ٢٤٠ شکر ہے کہ سید صاحب نے اپنی تقریر کو قواعد عربیہ پر خود ہی مبنی کیا ہے ورنہ اندیشہ تھا کہ اگر اس کے جواب میں علماء کے منہ سے یہ سنتے تو شائد کوئی اور معزز لقب عنایت کرتے۔ اس تقریر کا بھی مختصر مضمون یہ ہے کہ آیت موصوفہ میں فَتَکُوْنُ طَیراً کلام سابق پر عطف نہیں کیونکہ کلام مہمل ہوجائے گا۔ غالباً سید صاحب کا کافیہ اور شرح ملاجامی کی عبارت مندرجہ حاشیہ پر غور کرنے کا موقع نہ ملا ہوگا۔ ولما کان لقائل ان یقول ھذہ القاعدۃ منقضۃ بقولہم الذی یطیر فیغضب زید الذباب فان یطیر فیہ ضمیر یعود الی الموصول ویغضب المعطوف علیہ لیس فیہ ذلک الضمیر فاجاب بقولہ انما جاز الذی یطیر فیغضب زید الزباب لانھا ای الفاء فی ھذا الترکیب فاء السببیۃ ای فاء لھا نسبۃ الی السببیۃ بان یکون معناھا السببیۃ لا العطف فلا یرد نقضا علی تلک القاعدۃ اویکون معناھا السببیۃ مع العطف لکنھا تجعل الجملتین کجملۃ واحدۃ فیکتفی بالربط فی الاولی والمعنی الذی اذا یطیر فیغضب زید الذباب او یفہم منھا سببیۃ الاولی للثانیۃ فالمعنی الذی یطیر فیغضب زید بسببیتہ الذباب ویمکن ان یقدر فیہ ضمیر ای الذے یطیر فیغضب زید یطیر انہ الذباب (شرح جامی بحث عطف) ورنہ تصویر کا رخ اور ہی ہوتا جس طرح مثال مندرجہ کافیہ کی تصحیح خود شارح جامی نے کردی ہے اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت کی ہوسکتی ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے :۔ انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون بنفخی طیرا باذن اللہ پس آپ کا فرمانا کہ نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقعہ ہوئی ہے کہ اسم اِنَّ کی طرف راجع ہوسکے۔“ قابل نظر ہے۔ ایسا ہی سورۃ مائدہ کی آیت کے عطف ہونے میں بھی آپ نے جو استحالہ قائم کیا ہے استحالہ نہیں۔ بڑا استحالہ بقول آپ کے یہ ہے کہ کلام اس طرح پر ہوجاتا ہے کہ اذکر نعمتے علیک اذ تکون طیرا اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے۔“ مگر یہ اہمال صرف آپ کے خیال تک ہی ہے۔ علماء عربیہ کے نزدیک اس میں بھی کوئی اہمال نہیں کیونکہ تکون کی ضمیر کے بجائے اس صورت میں اسم صریح رکھنا ہوگا اور سببیت کو لفظوں میں ظاہر کر کے تقدیر کلام یوں ہے اذکر نعمتے علیک اذتکون الھیئۃ التی تخلقھا من الطین بنفخک طیرا باذنی اس میں کیا اہمال ہے پس آپ ہی کے قول سے کہ ” جس مضارع کے صیغہ پر اِذْ کا اثر پہنچے گا وہ امر تو متحقق الوقوع ہوجائے گا۔“ بحکم عطف فتکون طیرا متحقق الوقوع ہوگیا۔ سید صاحب نے اس مسئلہ کی خاطر دور دور تک پیش بندیاں کی ہیں۔ آیۃ کے لفظ سے جو اَنِّیْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ میں ہے حکم الٰہی مراد لیتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : ” ہم اسباب کی تحقیق سورۃ بقرہ میں لکھ آئے ہیں کہ آیت اور آیات اور آیات بنیات سے اللہ تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیں۔ جو انبیاء کو وحی کئے جاتے ہیں پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں۔“ (ج ٢ ص ١٤١) لیکن اس سے آگے اَنِّی أَخْلُقُ میں اَنَّ کے مفتوحہ ہونے سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا کہ کیوں ہے اس سے پہلے انی پر جو اَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ میں ہے۔ غور فرماتے رہے کہ : ” صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقدیر کلام یوں کی ہے فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ اَنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں۔ فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ قَالَ مُجِیْبًا لَھُمْ بانّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ۔“ (جلد ٢ صفحہ ٢٤٢) مگر میں پوچھتا ہوں کہ پہلے اَنَّ مفتوحہ کی طرح دوسرے کے فتح کی بھی کوئی وجہ ہے اگر وہ اٰیَۃ سے بدل الکل ہے جیسا کہ ظاہر ہے تو وہ صورت آیت سے حکم الٰہی مراد لینے کے بدل و مبدل منہ میں وحدت مصداق نہیں رہتی۔ کمالایخفی۔ اور اگر پہلے انی سے یہ ان بدل کہیں تو یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ بقول آپ کے پہلا اَنَّ وعظ و نصیحت کے زمانہ کا ہے۔ اور دوسرا اَنَّ بچپنے کا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :۔ ” جب حضرت عیسیٰ لوگوں میں وعظ و نصیحت کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ نے فرمایا قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ “ (ج ٢ ص ٢٤٢) پس جب کہ ان دونوں کا مصداق ہی نہیں جو بدل الکل میں ہونا ضروری ہے تو بدل کیونکر بنا اور بدل الغلط کا تو فصیح کلام میں ہونا ہی غلط ہے علیٰ ہذا دوسرے سے بدلوں میں بھی کئی شبہات قائم ہیں پس ضرور ہے کہ ایۃ سے مراد حکم الٰہی نہ ہو بلکہ معجزہ ہو اور اَنِّی أَخْلُقُ لَکُمْ اس کا بدل یا عطف بیان جو چاہو بنا لو۔ فالحمدللہ احیاء اموات :۔ اس سے بھی سید احمد خان صاحب منکر ہیں۔ کیوں نہ ہو۔ سپر نیچرل کا اصول بہت سے فروع رکھتا ہے۔ مجھے سخت تعجب اس بات کا ہمیشہ سے ہے کہ سید صاحب مرحوم علماء کو بدنام اور بے اعتبار کرنے کے لئے یہودیوں کے مقلد اور عیسائیوں کے متبع بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس معجزے کے انکار کی ذیل میں بھی ترش روئی سے فرماتے ہیں۔ ” علماء اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنے یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے (بڑا ہی غضب کیا کہ) ان آیتوں کے معنے بھی بیان کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اندھوں کو آنکھوں والا اور کوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے۔ اور مردوں کو جلا دیتے تھے۔“ (ج ٢ ص ٢٤٤) مگر خود سید صاحب جب انہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کی طرف جھکتے ہیں تو ایسے کہ مفسر ہی بن جاتے ہیں چنانچہ تبیین الکلام میں آپ نے توریت اور انجیل کی تفسیر جیسی کی ہے کوئی معتقد بھی ایسی نہ کرے بڑے زور دار دلائل سے ان کی حقیقت پر بحث کی ہے اور پر زور براہین سے اس کے ہر ایک مضمون کو مبرہن کیا ہے۔ خیر اس شکایت کا تو یہ موقع نہیں مطلب کی بات صرف اتنی ہے کہ سید صاحب نے اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی میں موتیٰ کے لفظ سے کفار مراد لئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” انسان کی روحانی موت اس کا کافر ہونا ہے۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تعلیم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بتانے سے لوگوں کو اس موت سے زندہ کرتے تھے اور کفر کی موت کے پنجے سے نکالتے تھے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی - اس دعوے پر آیت ذیل سے استدلال کیا ہے :۔ ” اِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتٰی وَمَا یَسْتَوِیْ الاَحْیَآئُ وَلا الاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یَسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَمَآ اَنْتَ بِمَسْمِعٍ مَّنْ فِیْ القُبُوْرِ۔“ (ج ٢ ص ٢٤٧) مطلب یہ ہے کہ ان آیتوں میں جیسا موتیٰ اور اموات سے مراد کفار ہیں اسی طرح اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی میں کفار مراد ہیں۔ افسوس سید صاحب زندہ ہوتے تو ہم بڑے ادب سے ان سے دریافت کرتے کہ اگر واقعی یہی مضمون ادا کرنا ہوتا کہ بے جان مردوں کو زندہ کرتا تھا۔ تو کس عبارت اور کن لفظوں میں ادا کیا جاتا۔ سید صاحب کا کوئی مرید ہمیں وہ عبارت بتلاوے تو ہم ان کے مشکور ہوں۔ سید صاحب کو اس سے تو کوئی مطلب ہی نہیں کہ حقیقت کیا ہوتی ہے اور مجاز کیا۔ اگر کہیں شیر کے معنے قرینہ سے بہادر کئے جائیں تو بلا قرینہ بھی سید صاحب جہاں مطلب ہو وہی معنے لینے کو وہی موقع پیش کردیتے ہیں۔ سچ ہے کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے حالانکہ خود ہی اپنی تصنیفات میں اس امر کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ :۔ ” ہم مسلمانوں کے ہاں قاعدہ ہے کہ ہمیشہ جہاں تک ہوسکتا ہے لفظ سے اس کے اصلی اور حقیقی معنے مراد لیتے ہیں۔“ (تصانیف۔ احمدیہ ج ١ ص ٣١٨) علاوہ اس کے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر یہ یہی مینئ ہوں جیسا کہ سید صاحب کی رائے ہے کہ :۔ اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی یعنی واذتخرج الکافر من کفرہ باذنی (ص ٢٤٨) تو اس کا موقع ہی کیا کہ تو اس وقت کو یاد کر جب تو کافروں کو ہدایت کرتا تھا جب وہ نبی تھے اور الوالعزم نبی تھے تو پھر یہ تو ان کا نصب ہی تھا کہ کافروں کو ہدایت کریں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنے منصب اور عہدے کو خوب نباہتے تھے یہ تو ان کی لیاقت کی بات مستوجب انعام ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان۔ یوں کہنے کو تو سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور یہ بالکل ٹھکس اور درست ہے کہ منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمیکنی منت ازد بداں کہ بخدمت گذاشتت مگر سیاق کلام تو ایسے احسانات سے متعلق نہیں بلکہ ایسے احسان سے متعلق ہے جو اللہ تعالیٰ نے صریح طور سے مسیح پر کیے تھے جنہیں دیکھ کر دوست دشمن بھی تسلیم کرے کہ واقعی ایک بات قابل ذکر ہے۔ یہاں پر پہنچنے سے ہمیں ایک اور بات یاد آئی کہا گر سید صاحب کے معنے صحیح ہوں تو اسی سورۃ مائدہ میں وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ الاٰیۃ کی کیا حاجت تھی کیونکہ یہ بھی بقول سید صاحب اِذْتُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی ای تخرج الکافر من کفرہ باذنی کی قسم ہے بلکہ بعینہٖ وہی ہے پھر اس کو الگ کر کے بیان کرنا جب تک کوئی نیا مطلب نہ ہو۔ التاسیس اولی من التاکید کے صریح خلاف ہے۔ پس جب تک سید صاحب یا ان کے حواری اس مقام پر موتٰی سے کفار مراد لینے کا قرینہ نہ بتلا دیں گے ہم بھی جواب میں مشغول نہ ہوں گے اس سے بڑھ کر ان لوگوں سے تعجب ہے۔ جو حقیقت میں تو سید صاحب سے ہی استفاضہ کا روحانی تعلق رکھیں مگر اس مسئلہ میں ان سے بھی ایک درجہ آگے بڑھے ہوئے ہیں ان کا قول ہے کہ ایسے معجزات کا مسیح سے ظہور ماننا سرا سر شرک ہے جس کے رد کرنے کو تمام قرآن شریف بھرا پڑا ہے مگر ان حضرات کو شرک سے ایسی نفرت ہے جیسی کہ پنڈت دیانند بانی فرقہ آریہ کو ہے جو لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کا جوڑ بھی شرک سمجھتے ہیں بھلا شرک کیونکر ہوا۔ اسی شرک کے ازالہ وھم کرنے کو تو اللہ تعالیٰ علام الغیوب نے بِاِذْنِ اللّٰہِ اور بِاِذْنِی کی ہر جگہ قید لگائی ہے۔ زیادہ تعجب تو اس لئے ہے کہ یہ قول ان لوگوں کا ہے جو معجزہ شق القمر وغیرہ کا وقوع بھی مانتے ہیں بھلا اگر یہ خلاف عادت پرندوں کا بنانا اور اللہ کے حکم سے اڑا دینا اور مردوں کا اللہ کے حکم سے زندہ کرنا مسیح کی نسبت خیال کرنا شرک ہے۔ تو شق القمر اور دوسرے اسی قسم کے معجزات کو تسلیم کرنا کیا کم شرک ہے۔ حضرات مَا کَانَ ! لِرَسُوْلٍ اَنْ یَاْتِیَ بِاٰیَۃٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ کو غور سے پڑھو۔ سید صاحب نے جیسا ان معجزات (احیاء اموات وغیرہ) سے انکار کیا ہے ویسا ہی بیماروں کے اچھا کرنے وغیرہ سے بھی منکر ہوئے چنانچہ فرماتے ہیں :۔ ” اندھے لنگڑے اور چوڑی ناک والے کو یا اس شخص کو جس میں کوئی عضو زائد ہو۔ اور ہاتھ پائوں ٹوٹے ہوئے کو اور کبڑے اور ٹھنگنے اور آنکھ میں پھلی والے کو معبد میں جانے اور معمولی طور پر قربانیاں کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ سب ناپاک اور گنہگار سمجھے جاتے تھے اور عبادت کے لائق یا اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق متصور نہ ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے یہ تمام قیدیں توڑ دی تھیں اور تمام لوگوں کو کوڑھی ہوں یا اندھے یا لنگڑے۔ چوڑی ناک کے ہوں یا پتلی ناک کے۔ کبڑے ہوں یا سیدھے ٹھنگنے ہوں یا لنبے پھلی والے ہوں یا جالے والے سب کو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی منادی کی تھی کسی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں کیا۔ اور کسی کو عبادت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ سے نہیں روکا۔ پس یہی ان کا کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرنا تھا یا ان کو ناپاکی سے بری کرنا۔ جہاں جہاں بیماروں کا انجیلوں میں اچھا کرنے کا ذکر ہے اس سے یہی مراد ہے اور قرآن مجید میں جو یہ آیتیں ہیں ان کے بھی یہی معنے ہیں۔“ (صفحہ ٢٤٦) معہ ہذا یہ بھی اقرار ہے کہ :۔ ” ہاں اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک ایسی قوت رکھی ہے جو دوسرے انسان میں اور دوسرے انسان کے خیال میں اثر کرتی ہے اور اس سے دوسرے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نہایت عجیب معلوم ہوتے ہیں اور جن میں سے بعض کی علت ہم جانتے ہیں اور بہت سوں کی علت نہیں جانتے بلکہ اس کے عامل بھی اس کی علت نہیں جانتے اسی قوت پر اس زمانہ میں ان علوم کی بنیاد قائم ہوئی جو مز مریزم اور اسپریچرم ایلزم کے نام سے مشہور ہیں اور سابقین بھی اس کے عامل تھے مگر اس علم سے ناواقف تھے یا اس کو مخفی رکھتے تھے مگر چونکہ وہ ایک قوت ہے قوائے انسانی میں سے اور ہر ایک انسان میں بالقوہ موجود ہے۔ جیسی قوت کتابت تو اس کا کسی انسان سے ظاہر ہونا معجزہ میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو فطرت انسانی میں سے انسان کی فطرت ہے۔ فافھم و تدبر“ (ج ٢ ص ٢٤٦) عجب نہیں کہ فافہم وتدبر میں سید صاحب نے حسب مذاق اہل معقول خود ہی جواب کی طرف اشارہ کیا ہو۔ وہ یہ کہ ان علوم کے ماہر سلب امراض وغیرہ بڑی محنت اور سالہا سال کی مشقت سے حاصل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی عمل ہوتا ہے اور کبھی تخلف مثل علاج اطباء جو کتابی قانون سے علاج کرتے ہیں۔ جس میں کوئی قومی یا ملکی خصوصیت نہیں بلکہ ہر ایک شخص خواہ کسی ملک یا قوم کا ہو بپا بندی ان قواعد کے جو ان علوم میں مذکور ہیں عمل سیکھ کر اثر کرسکتا ہے مگر معجزہ یا کرامت جو بظاہر نبی یا ولی کا فعل ہوتا ہے بحکم اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ضرور مخصوص بالنبی یا بالولی ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے کہ کسی قانون کے ذیل میں ضرور ہوتا ہے۔ مگر وہ قانون ایسا مجہول الکیفیت ہے کہ اس کی کنہہ بندوں کی سمجھ سے بالا ہے جیسی کہ رسالت کی ماہیت اور وہ قانون جس پر رسالت مبنی ہے بندوں کے ادراک سے وراء الورا ہے یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات معجزے کے فعل کو اللہ تعالیٰ خاص اپنی ذات کی طرف نسبت کرتا ہے۔ غور سے سنو ! مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ تو نے نہیں چلائی مگر اللہ نے چلائی۔۔ اِذْ تُخْرِجُ المَوْتٰی بِاِذْنِی۔ جب تو میرے حکم سے مردوں کو نکالتا تھا۔ ۔ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی ہم اس کی پہلی کیفیت پھر لاویں گے۔ وَغَیْر ذلک پس معجزہ اور مسمریزم میں فرق بَیَّن ہوگیا کہ معجزہ کے کرنے والا دراصل خود اللہ تعالیٰ ہے اور وہ کسی ظاہری تعلیم کا اثر نہیں ہوتا۔ بخلاف مسمریزم کے کہ وہ مثل دیگر افعال بندوں کے بندوں کا فعل ہے جو دوسرے کاموں کی طرح ظاہری تعلیم کا اثر ہوتا ہے جس کے کرنے پر دوسرے لوگ بھی ویسے ہی قدرت رکھتے ہیں جیسی کہ مسمرائزر (عمل مسمریزم کرنے والا) گو بظاہر ظاہر بینوں کی نظر میں ان دونوں کے آثار یکساں ہوں لیکن ان کی یکسانگی بعینہٖ پیتل اور سونے کی یک رنگی کے مشابہ ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کام کے لئے مختلف علل ہوں لیکن بنظر ان علتوں کے وہ مختلف کہلاتے ہیں مثلاً کسی مسافت کا طے کرلینا اس کی علت سواری اور سواری بھی مختلف (ریل گاڑی۔ گھوڑا گاڑی وغیرہ) اور پاپیادہ چلنا وغیرہ وغیرہ ہیں۔ حالانکہ معلول (قطع) مسافت ایک ہی ہے اسی طرح ایک ہی معلول مثلاً (سلب امراض) ہے جس کے لئے نبی یا ولی کا فعل جس کو معجزہ یا کرامت کہتے ہیں) اور مسمرایزر کا عمل دونوں بظاہر علت ہوسکتے ہیں مگر اپنی اپنی ماہتی اور حقیقت میں مختلف ہیں جیسے ریل‘ گھوڑا گاڑی وغیرہ باہمی مختلف ہیں۔ ہاں اس امر کی تمیز ظاہر بینوں کی نظر میں کسی قدر مشکل ہے کہ یہ فعل معجزہ ہے یا مسمریزم کا عمل۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ تو دونوں نبی اور مسمرایزر کے طریق عمل سے ہی نمایاں ہوجاتا ہے کیونکہ مسمرایزر اکثر اوقات پاس (جس کو ہندی میں جھاڑنا کہتے ہیں) کے ذریعہ سے علاج کرتا ہے۔ چنانچہ زندہ کرامات صفحہ ١٢ میں اقسام پاس کو مفصل لکھا ہے مگر نبی ان میں سے کوئی ایسا فعل نہیں کرتا۔ جو ظاہری طور پر مؤثر ہونے کا احتمال رکھے وہ اکثر دفعہ صرف دعا کرتا ہے اور بعض دفعہ بغیر اس کے کسی فعل اختیاری کے وہ فعل (معجزہ) صادر ہوجاتا ہے۔ غور سے سنو ! فَاَلْقَاھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی قَالَ خُذْھَا وَلاَ تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجُ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوٓئٍ اٰیَۃً اُخْرٰی (سورۃ طٰہٰ پ ١٦) اور بعض دفعہ ان دونوں (معجزہ اور مسمریزم) کی تمیز ان افعال سے ہوسکتی ہے جہاں ایک سے دوسرا جدا ہو یعنی معجزہ کا اثر تو ہو مگر مسمریزم کا اثر نہ ہو۔ جیسے احیاء اموات (مردوں کو زندہ کرنا) یا چاند کا دو ٹکڑے کردینا وغیرہ یہ کسی مسمرایزر کا کام نہیں ہے۔ مسمرایزر صرف یہ کرسکتا ہے کہ کسی انسان کو بے ہوش کر کے جس میں جان ہو پھر ذی ہوش کر دے یا کسی محاط مکان میں نظر بندی سے داخل مکان لوگوں کے لئے کسی چیز کو ایک سے دو کر دکھاوے مگر حقیقتاً کسی مردہ کا زندہ کرنا یا محاط مکان سے باہر والوں کو ویسا ہی نظر آنا جیسا کہ داخل مکان والوں کو نظر آیا تھا یہ نہیں ہوسکے گا کیونکہ اس کے اثر سے حقیقت شئے کی نہیں بدل سکتی۔ پس بعض علمائ! مسمریزم کا اس کی تعریف میں بڑھ کر یہ کہنا کہ یہی مذہب کا ستون اور مذہب ایجاد کرنے والوں کی اصل طاقت تھی“ (زندہ کرامات ص ٢٢) کسی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ معجزہ کی ماہیت سے عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ سخن شناس نئی دلبر اخطا اینجاست“ اس سے بڑھ کر ان قائلین کا قول غلط بلکہ کفر ہے کہ :۔ ” حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معجزات مسمریزم کا اثر تھے۔ اگر میں اس کو کراہت سے نہ دیکھتا تو ابن مریم سے کم نہ رہتا۔“ (ازالہ اوھام صفحہ ٣٠٣) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ مائدہ کے معجزات کے بعد کفار کا یہ قول بیان کیا ہے کہ کافروں نے حضرت مسیح کے قول کو جادو یعنی مسمریزم کہا ہے۔ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ اِنْ ھٰذَا الاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ ع ١٥) سحر سے مراد ہم نے مسمریزم لاٰ ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلوں نے بھی مسمریزم ہی کیا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے جادوگر کہا ہے غور سے پڑھو فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّداً کیونکہ ان کا جادو جو قرآن میں بیان ہوا ہے یہی ہے فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیَّتُہُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی جو بالکل مسمریزم کا اثر ہے پس ان دونوں آیتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ علم مسمریزم بھی جادو کی قسم سے ہے اور حضرت مسیح کے معجزات کو جادو یا مسمریزم کہنا کافروں کا کام ہے چونکہ سید صاحب نے انجیل کا ذکر بھی کیا ہے اس لئے ہم ایک دو مقام انجیل کے نقل کر کے بغیر کسی شرح اور تفسیر کے ناظرین کی سمجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انجیل متی میں (جسے سید صاحب بھی سب انجیلوں میں سے زیادہ معتبر مانتے ہیں بلکہ اس کے مفسر ہیں) مذکور ہے :۔ ” ایک کوڑھی نے آ کے اسے (مسیح کو) سجدہ کیا اور کہا اے اللہ تعالیٰ اگر تو چاہے تو مجھے صاف کرسکتا ہے یسوع نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا اور کہا میں چاہتا ہوں کہ تو صاف ہو اور وہیں اس کا کوڑھ جاتا رہا۔“ (متّٰی ٨ باب ٣) ” اور جب وہ گھر میں پہنچا اندھے اس کے پاس آئے اور یسوع نے انہیں کہا۔ کیا تمہیں اعتقاد ہے کہ میں یہ کرسکتا ہوں وہ بولے ہاں اے اللہ تعالیٰ تب اس نے ان کی آنکھوں کو چھوا اور کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ (متّٰی ٩ باب ٢٨ آیت) کیا یہ واقعی ازالہ مرض ہے یا شرعی برأت (جیسے سید صاحب کا خیال ہے) اسی قسم کے کئی ایک معجزات ہیں جو انجیلوں میں مصرّح ملتے ہیں۔ رہا عیسائیوں کا خیال کہ حضرت مسیح اپنے اختیار سے کرتے تھے اس لئے وہ الوہیت کے درجہ پر تھے اس کا مفصل جواب جلد ثانی حاشیہ نمبر ٥ میں ہوچکا ہے۔ ١٢ منہ حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ سانپ بن کر بھاگنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کو پکڑ لے اور خوف نہ کر ہم اس کی پہلی حالت (لکڑی کی) پھیر دیں گے اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈال وہ بغیر بیماری کے سفید براق جیسا ہو کر نکلے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ منہ) المآئدہ
88 المآئدہ
89 المآئدہ
90 المآئدہ
91 المآئدہ
92 المآئدہ
93 المآئدہ
94 المآئدہ
95 المآئدہ
96 المآئدہ
97 المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 المآئدہ
101 المآئدہ
102 المآئدہ
103 المآئدہ
104 المآئدہ
105 المآئدہ
106 المآئدہ
107 المآئدہ
108 المآئدہ
109 المآئدہ
110 المآئدہ
111 (111۔120) اور جب میں نے تیرے حواریوں کو القا کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول مسیح پر ایمان لائو۔ وہ تجھ سے مخاطب ہو کر جھٹ سے بولے کہ ہم ایمان لائے اور مسیح تو گواہ رہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہیں۔ بعد میں وہ مسیح (علیہ السلام) کے ایسے فرمانبردار رہے کہ نہایت تکالیف شاقہ میں بھی مسیح کے ساتھ ہی رہے یاد کر کہ جب بھوک سے تنگ آکر حواریوں نے کہا اے حضرت عیسیٰ ابن مریم کیا تیرا اللہ تعالیٰ کرسکتا ہے کہ اوپر سے ایک خوانچہ کھانے کا لگا لگا یا ہم پر اتارے۔ چونکہ یہ سوال ایک طرح سے خلاف عادت الٰہی تھا اس لئے مسیح نے کہا تم اللہ سے ڈرو ایسے سوال اللہ تعالیٰ سے نہیں کیا کرتے اللہ تعالیٰ سے عافیت اور حسن عاقبت مانگا کرتے ہیں۔ اگر تم ایماندار ہو تو ایسا مت کہو۔ وہ بولے معاذ اللہ ہم کسی بدنیتی سے نہیں کہتے بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل اسے عطیہ الٰہی سمجھ کر اس کے ساتھ تسکین پاویں اور ہم عین الیقین جانیں کہ تو نے جو ہم سے کہا ہے وہ سچ کہا ہے اور ہم بھی اس پر گواہ بنیں مسیح ابن مریم (علیہ السلام) نے ان کی نیک نیتی اور حاجت شدیدہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا اے اللہ تعالیٰ ہمارے مولا ! تو ہم پر آسمان سے ایک خوانچہ اتار جو ہمارے پہلے اور پچھلوں کے لئے عید کا سادن ہو۔ اور تیری طرف سے میری نبوت پر نشان بنے اور ہم کو رزق دے تو بڑا اچھا رزق دینے والا ہے اللہ تعالیٰ نے کہا میں تمہاری نیک نیتی سے آگاہ ہوں اس لئے میں تم پر خوانچہ اتاروں گا پھر جو کوئی اس سے پیچھے تم دنیا کے لوگوں میں سے میرے احکام سے منکر ہوگا تو میں اس کو ایسا عذاب کروں گا کہ دنیا کے لوگوں میں سے کسی کو ایسا عذاب نہ کروں گا۔ ایسی ایسی مسیح کی باتیں اور معجزے دیکھ کر بعض نادانوں نے اس کی نسبت الوہیت کا خیال کر رکھا ہے نہ صرف اس کی نسبت بلکہ بعض جہال تو اس کی اور اس کی ماں کی تصویر رکھ کر عبادت کرنے لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسیح کو قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کہے گا اے عیسیٰ مریم صدیقہ کے بیٹے تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے ورے ورے مجھے اور میری ماں کو بھی معبود سمجھو اور ہماری عبادت کرو تو وہ سنتے ہی سخت گھبرائے گا اور کہے گا الٰہی ! تو شائبہ شرک سے ہمیشہ سے پاک ہے مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ میں ایسی بات کہوں۔ جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں اگر فرضاً میں نے یہ بات کہی ہوگی تو تو خوب جانتا ہے۔ کیونکہ تو میرے دل کی چھپی ہوئی بات بھی جانتا ہے اور میں تیری پوشیدہ بات نہیں جان سکتا۔ غیب کی باتیں تو ہی خوب جانتا ہے میں نے تو ان لوگوں سے وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا اور یہی تعلیم دی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ بنائو اور میں علاوہ تعلیم کے جب تک ان میں رہا ان کی اس بات پر خبر گیری بھی کرتا رہا۔ پھر جب تو نے مجھے فوت ! کرلیا تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ تو سب کچھ جانتا ہے اور تو ہر ایک چیز سے مطلع ہے۔ واقع تو یہ ہے اب آگے تو ان کو عذاب کرے تو تیرے بندے ہیں کسی کو چون و چرا کی مجال نہیں اور اگر تو باوجود ان کی اس نالائقی کے بخش بھی دے تو بیشک تو ہی سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے۔ کوئی کام تیرا بغیر حکمت کے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کہے گا جو کچھ تو نے کہا سچ کہا۔ آج راست گوئوں کو ان کی راست گوئی نفع دے گی۔ ان میں سے بھی جن لوگوں نے راستی اختیار کی ہوگی ان کے لئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ نہیں کہ چند روزہ ہی ان کو ملیں گے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے راضی وہ اللہ تعالیٰ سے راضی۔ یہی بڑا ڈبل پاس اور عظیم کامیابی ہے دنا کے بادشاہ بھی اپنے فرمانبرداروں کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی بادشاہی تو ایسی ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ ہی کی حکومت ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر اور توانا ہے پھر فرمانبرداروں اور نیاز کیشوں کو انعام و اکرام سے مالا مال کیوں نہ کرے اور بے فرمانوں کو ان جیسا کیونکر کر دے یہ کبھی نہ ہوگا۔ آمین ! المآئدہ
112 المآئدہ
113 المآئدہ
114 المآئدہ
115 المآئدہ
116 المآئدہ
117 المآئدہ
118 المآئدہ
119 المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 (1۔24) سورۂ انعام سب قسم کی تعریفیں اللہ ہی کو سزا وار ہیں جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور دنیا کو پیدا کر کے اس کا انتظام یہ کیا کہ لوگوں کی معاش اور کاروبار کے لئے اندھیرے اور روشنی بنائے کہ چاندنی میں معاش کمائیں اور اندھیرے میں سو رہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے منکر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اوروں کو برابر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے منہ پھیرے جاتے ہیں۔ حالانکہ اسی نے تم کو ابتدا میں مٹی سے بنایا پھر تم میں سے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر کیا اور بے فرمانوں اور سرکشوں کی سزا اور فرمانبرداروں اور نیک بختوں کے انعامات کے لئے ایک وقت مقرر قیامت کا دن اس کے پاس ہے جس کو کوئی نہیں جانتا جس کے آثار بعد الموت ہی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں ایسے نشانات دیکھ کر پھر بھی تم اس کی توحید اور خالص الوہیت میں شک کرتے ہو۔ حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں وہی سب کا معبود ہے علم اس کا اس قدر وسیع ہے کہ تمہارے مخفی بھید اور ظاہر کی باتیں بھی جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ بھی اسے معلوم ہیں۔ پھر بھی یہ نالائق اللہ تعالیٰ کی تعظیم نہیں کرتے اور اس کے حکموں کی تعمیل نہیں کرتے بلکہ جب کبھی احکام الٰہی میں سے کوئی حکم ان کے پاس پہنچتا ہے تو اس سے منہ پھیر جاتے ہیں۔ اور بے پروائی سے ٹلا دیتے ہیں۔ پھر جب سچی تعلیم قرآن شریف کی ان کے پاس آئی تو اس کو بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ پس جس چیز کی ہنسی اڑاتے ہیں اس کی اطلاع ان کو ہوگی ایسی کہ جیسی پہلوں کو ہوئی تھی کیا انہوں نے اس میں فکر نہیں کی کہ ان سے پہلے ہم نے کئی قوموں کو اسی حق کی تکذیب کرنے کی وجہ سے تباہ کردیا۔ حالانکہ ہم نے ان کو زمین میں ایسا قابو دیا تھا کہ تم مکہ کے مشرکوں کو ایسا نہیں دیا۔ وہ بڑے بڑے طاقتور گرانڈیل جوان تھے اور ہم نے ان پر موسلا دھار مینہ برسائے اور ہم نے ان کے باغوں اور مکانوں کے تلے نہریں جاری کی تھیں پھر بھی باوجود اس ساز و سامان کے ہم (یعنی اللہ) نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو تباہ کردیا۔ اور ان سے بعد اور کئی لوگ پیدا کر دئیے اسی طرح ان سے ہوگا یہ تو کچھ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں بھلا یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے جو تجھ سے کہتے ہیں کہ آسمان سے کاغذ پر لکھی ہوئ کتاب لا کر ہمیں دکھا تو ہم مانیں گے۔ ایسے بے ہودہ سوالات بھی کسی نے کئے ہیں اور اگر ان کی درخواست پر ہم آسمان سے کاغذ میں لکھی ہوئی کتاب اتار دیں پھر یہ اس کو اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیں تو بھی یہ منکر اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے بلکہ کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ اور کچھ نہیں اور سنو ! کہتے ہیں اس نبی پر فرشتہ کیوں نہیں اترتا۔ جو اس کے ساتھ ہو کر لوگوں سے کہتا پھرے کہ یہ نبی ہے اس کو مان لو اور یہ نہیں جانتے کہ اگر ہم نے یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کو ان کے سامنے اتارا ہوتا تو فیصلہ ہی ہوچکا ہوتا کیونکہ بعد دیکھنے فرشتہ کے بھی یہ لوگ تکذیب پر اڑے رہتے پھر ان پر فوراً تباہی آئی اور ذرہ بھر ان کو ڈھیل نہ ملتی اور اگر ہم رسول کا عہدہ فرشتہ کو بھی دیتے تو اس فرشتے کو بھی آدمی کی شکل میں بھیجتے پھر اس وقت بھی ان کو وہی شبہات ہوتے جو اب ہو رہے ہیں۔ ان باتوں سے تو گھبرا نہیں یہ کوئی گھبرانے کی بات نہیں تجھ سے پہلے بھی کئی رسولوں سے ٹھٹھے مخول ہوئے پھر جن لوگوں نے ان پیغمبروں سے ٹھٹھے مخول کئے تھے انہی کو اس عذاب نے جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے آگھیرا۔ اور بری گت سے تباہ ہوئے۔ اے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ان سے کہہ اگر تم کو اس تاریخی واقعہ میں کچھ شک ہو۔ تو زمین میں پھرو پس دیکھو کہ رسولوں کے مکذبوں کا انجام کیا ہوا اور کس طرح تباہ اور ذلیل ہوئے اس تاریخی واقعہ سے اگر نہ سمجھیں اور اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں اور اس طرف توجہ نہ کریں تو تو ان سے ایک عقلی دلیل جس کا سمجھنا کسی تاریخی واقعہ پر موقوف نہیں بتلانے کو کہہ کہ تم نے جو اتنے معبود بنا رکھے ہیں یہ تو بتلائو کہ آسمان و زمین کی چیزیں کس کی ہیں اور کس کی ان پر اصلی حکومت ہے چونکہ اس کے جواب میں یہ لوگ تیرے ساتھ متفق ہیں۔ مگر ظاہری شرم سے منہ پر نہیں لاتے تو تو خود ہی کہہ کہ تم بھی مانتے ہو کہ اللہ ہی کی ہیں پھر یہ معبود تمہارے کہاں سے آئے ہیں۔ اور کس مرض کی دوا ہیں سنو ! اب بھی باز آجائو۔ یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری پہلی بدکاریوں سے اس قدر رنجیدہ ہے۔ کہ اب وہ راضی ہی نہ ہوگا۔ نہیں اس نے محض اپنی مہربانی سے اپنی ذات پاک پر لازم کر رکھا ہے کہ وہ مخلوق پر مہربانی کرے گا۔ جو اس کی طرف ذرا سی بھی حرکت کرتے ہیں فوراً ان کو لے لیتا ہے اور اگر تم اس کی رحمت کے اس وقت مستحق نہ بنو گے اور شرک و کفر بت پرستی و بداخلاقی نہ چھوڑو گے تو تمہاری بری گت ہوگی۔ کیونکہ وہ قیامت کے دن میں جو بلاریب آنے والا ہے تم سب کو ضرور یکجا جمع کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ یہ سمجھ رکھو کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو ٹوٹے میں ڈال رکھا ہے اور جن کا انجام بجز خسران کے اور کچھ نہیں۔ وہی اس توحید اور نبوت پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ جس اللہ تعالیٰ کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے۔ وہ ایسا مالک الملک ہے کہ سب چیزیں جو رات کے اندھیری میں اور دن کی روشنی میں بستی ہیں اسی کی ہیں سب پر حکومت حقیقی اسی کی ہے وہ سب کی سنتا اور جانتا ہے اے رسول ! تم ان سے کہو کہ کیا میں اللہ کے سوا جو تمام آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے کسی غیر کو اپنا متولی امور اور نفع رساں سمجھوں؟ حالانکہ وہ سب کو روزی دیتا ہے اور سب کی غذا مہیا کرتا ہے اور وہ کسی سے روزی نہیں پاتا۔ نہ وہ روزی کا محتاج ہے۔ اے رسول ! تم کہو کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میں خدائی میں حصہ دار ہوں۔ بلکہ مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بنوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے خبردار مشرکوں میں سے نہ ہوجیئو۔ تم کہو اب بتائو میں کیا کروں تمہارا ساتھ میں کیونکر دوں بے فرمانی کی صورت میں میں بھی تو بڑے دن یعنی قیامت کے عذاب سے ڈرتا ہوں اس دن جس سے وہ عذاب ٹل گیا پس سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا ہی رحم کیا اور یہی ڈبل پاس اور صریح کامیابی ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اگر تو اس رحم سے حصہ لینا چاہتا ہے۔ تو سب سے اول دل سے اس بات کا یقین رکھ کر اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کوئی تکلیف مالی یا جسمانی پہنچائے تو کوئی اس تکلیف کا دور کرنے والا سوائے اس کے نہیں اور اگر وہ تجھ کو کچھ فائدہ اور بھلائی پہنچائے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے بھلا اسے کون روکے وہ تو اپنے سب بندوں پر غالب ہے مجال نہیں کہ کوئی اس کے قہری حکم کے آگے چوں بھی کرے اور وہی بڑی حکمت والا سب سے باخبر ہے اے رسول ! تو ان سے کہو کہ اگر تم مجھ سے اس دعویٰ کی شہادت پوچھو تو پہلے یہ بتلائو کہ بڑی معتبر گواہی کس کی ہے؟ پھر تو آپ ہی ان کو بتا کہ اللہ ہی کی گواہی سب سے بڑی معتبر ہے پس اللہ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے (اللہ تعالیٰ کے احکام دو قسم کے ہیں۔ ایک قہری۔ دویم اختیاری۔ قہری وہ حکم ہیں جن کی تعمیل کرنے میں بندوں کے اختیار کو دخل نہیں جیسے مرض‘ موت وغیرہ۔ جس طرح ان حکموں کی تعمیل حضرت موسیٰ جیسے الوالعزم رسول نے کی تھی اسی طرح فرعون جیسے سرکش نے بھی چوں نہ کی۔ دوسری قسم کے احکام میں بندوں کو اختیار دیا گیا ہے جیسے نماز روزہ وغیرہ۔ ان احکام کی تعمیل بعض کرتے ہیں بعض نہیں کرتے۔ نتہجا بھی مختلف ہے۔ (منہ) وہ ایسی گواہی دے گا کہ تھوڑے دنوں میں تم دیکھ لو گے کہ اونٹ کس پہلو بیٹھتا ہے اور یہ قرآن میری طرف اس لئے الہام ہوا ہے کہ میں تم کو اور جسے یہ قرآن پہنچے اس قرآن کے ذریعہ عذاب الٰہی سے جو بدکاروں پر آنے والا ہے ڈرا دوں کیا تم مشرکو ! مکہ کے رہنے والو ! دل سے اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہیں اے رسول تم کہو میں تو ایسے صریح البطلان دعویٰ پر گواہی نہیں دیتا تم یہ بھی کہو بھلا میں اس غلط دعوے پر گواہی کیسے دوں؟ حالانکہ معبود صرف ایک ہی ہے اور یہ بھی ان سے کہو کہ یقینا میں تمہارے شرک کرنے سے بیزار ہوں اے رسول تم ہی انوکھے اس دعوے کے مدعی نہیں آئے ہو۔ بلکہ تم سے پہلے کئی ایک رسول‘ اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر آئے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم (اللہ) نے تم سے پہلے آسمانی کتاب دی ہے یعنی یہود و نصاریٰ میں سے نیک لوگ وہ بھی اس سچی تعلیم اور اس تعلیم کے پہنچانے والے سچے رسول کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں یعنی جس طرح ان کو اپنے بیٹوں کی پہچان میں غلطی اور شبہ نہیں ہوتا اسی طرح ان کو اس تعلیم کے حق سمجھنے میں شک و شبہ نہیں ہوتا۔ لیکن جن لوگوں نے اپنا نقصان آپ کرنا ہے اور بڑے دن میں زیاں کار ہونا ہے وہ کسی طرح نہیں مانیں گے۔ وہ یہی کہتے جائیں گے اور یہی راگ الاپتے رہیں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر افترا کرتا ہے۔ بہتان لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ جو اللہ تعالیٰ پر افترا کرے یا اس کے حکموں کی تکذیب کرے اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہے؟ علاوہ اس کے تیرے منہ سے جب یہ بھی ان کو پہنچتا ہے کہ ایسے ظالموں کو کامیابی نہیں ہوگی تو پھر کس منہ سے تجھے مفتری کہتے ہیں اور تیری تکذیب کرتے ہیں ان کی یا وہ گوئی کی سزا کچھ تو ان کو اسی دنیا میں ملے گی اور کچھ اس دن ملے گی جس دن ہم ان سب کو اپنے حضور جمع کریں گے پھر مشرکوں سے پوچھیں گے تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدائی میں ساجھی یا مختار سمجھا کرتے تھے پھر ان کی طرف سے کچھ جواب نہ ہوگا مگر یہی کہیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم تو مشرک نہ تھے جب تو دیکھیو کس طرح اپنے کئے سے انکاری ہوں گے اور جو کچھ اس وقت یہ کہہ رہے اور افترا کر رہے ہیں سب کو بھول جائیں گے مثل مشہور ہے مغل دیکھ کر فارسی بھولتی ہے۔ الانعام
2 الانعام
3 الانعام
4 الانعام
5 الانعام
6 الانعام
7 الانعام
8 الانعام
9 الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 الانعام
13 الانعام
14 الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 الانعام
18 الانعام
19 الانعام
20 الانعام
21 الانعام
22 الانعام
23 الانعام
24 الانعام
25 (25۔40) بعض ان میں سے بہ نیت بد‘ قرآن سننے کو تیری طرف کان جھکاتے ہیں کہ کہیں کوئی موقع گرفت ملے تو اڑائیں یہی وجہ ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور ہم نے بھی ان کے دلوں پر سمجھنے سے غفلت ڈال رکھی ہے اور ان کے کانوں میں بوجھ کہ نہ سنیں اور نہ سمجھیں یہ ان کی بدنیتی کی سزا ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب اگر یہ ساری نشانیاں اور ہر قسم کے معجزات بھی دیکھ لیں تو نہ مانیں گے ایسے ضدی ہیں کہ جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے جھگڑتے ہوئے اور کچھ جواب نہیں آتا تو یہ کافر لوگ جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اس قرآن میں رکھا کیا ہے یہ تو محض پہلوں کی کہانیاں ہیں اور لوگوں کو اس قرآن سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رکتے ہیں اور دور ہٹتے ہیں اور اگر سمجھیں تو ان باتوں سے اپنی ہی تباہی کرتے ہیں اور کسی کا کیا نقصان ہے مگر سمجھتے نہیں۔ ان کی اس دنیا میں بھی بری گت ہوگی اور اگر تو ان کو اس وقت دیکھے جب قیامت میں آگ کے سامنے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش ہم دنیا میں ایک دفعہ پھیرے جائیں اور اپنے پروردگار کے حکموں کی تکذیب نہ کریں اور ایماندار بنیں۔ یہ کہتے ہوئے تو ان کو دیکھے تو تو یہی سمجھے کہ دل سے کہتے ہیں واقعی اگر ان کو مہلت ملے تو صالح بن جائیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ جو کچھ کفر و شرک دنیا میں چھپاتے تھے وہ یعنی اس کا بدلہ ان کو سامنے دکھائی دے گا۔ یہ نہیں کہ واقعی نیک بختی کا قصد کرچکیں گے نہیں بلکہ جھوٹ بولیں گے اور اگر دنیا میں واپس بھیج دئیے جائیں تو پھر بھی وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے یعنی کفر و شرک سے ہرگز باز نہ آئیں گے۔ اور یہ جو اس وقت اظہار اطاعت کرتے ہوں گے محض دروغ گوئی سے جھوٹ بولتے ہوں گے اور سنو ! کھلم کھلا کہتے ہیں حیاتی بس یہی دنیا کی زندگی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ مرے سو گئے۔ نہ ہم کو کچھ بدلہ ملنا ہے اور نہ ہی ہم نے دوسری زندگی کے لئے اٹھنا ہے اگر تو اے رسول ان کو اس وقت دیکھے جب یہ اپنے رب کے دربار میں کھڑے کئے جائیں گے وہ ان سے بطور سوال کہے گا کیا یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو واقعی نہیں؟ بولیں گے اللہ تعالیٰ کی قسم ہاں واقعی ہے۔ حکم ہوگا کہ پس اپنے کفر کی شامت میں عذاب اٹھائو اور مزے سے اس کا ذائقہ چکھو اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی جناب میں حاضری نہیں مانتے وہ سخت نقصان میں ہیں ان کو معلوم ہوگا کہ ہم کس غلطی میں تھے دنیا میں تو اسی طرح مزے کریں گے حتیٰ کہ جب ناگاہ ان پر قیامت کی گھڑی آئے گی تو اس وقت کہیں گے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس قیامت کے بارے میں ہم نے کی اور یہ کہتے ہوئے۔ اپنے گناہوں کا بوجھ کمر پر اٹھائے ہوں گے وہ بوجھ کوئی معمولی چیز کا نہیں ہوگا سنو جی ! اور سچ سمجھو کہ برا ہی بوجھ اٹھائیں گے جس سے ان کی خلاصی کسی طرح نہ ہوگی دنیا میں پھنس کر یہاں تک ان کی نوبت پہنچ گئی ہے حالانکہ دنیا کی زندگی کا حاصل سوائے کھیل اور کود کے کچھ بھی نہیں اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت کا گھر ہی ہر حال سب سے بہتر ہے کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے اور دنیا کی غفلت نہیں چھوڑتے بجائے اطاعت اور فرمانبرداری کے الٹے تمسخر اڑاتے اور گستاخی کرتے ہو۔ اے رسول تو ان کی اس حرکت سے آزردہ خاطر نہ ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کی بیہودہ گوئی سے تجھے رنج ہوتا ہے۔ پس تو اس رنج کو دور کر اور دل سے مطمئن رہ کیونکہ یہ تیری تکذیب نہیں کرتے۔ بلکہ یہ ظالم اللہ کے حکموں سے انکار کرتے ہیں پس وہ خود ہی ان سے سمجھ لے گا تجھ سے پہلے بھی کئی ایک رسولوں کی تکذیب ہوئی۔ پھر انہوں نے باوجود تکذیب اور ایذا کے صبر کیا یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچی اور وہ کامیاب ہوئے اور تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اور تیرے پاس پیغمبروں کے حالات پہنچ چکے ہیں پھر گھبرانے سے کیا مطلب اور اگر اتنے سے بھی تیری تسلی نہیں ہوتی اور ان کا اعراض اور سرکشی تجھ پر گراں اور مشکل ہو رہا ہے تو تجھ میں اگر طاقت ہے کہ زمین میں سرنگ نکال کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر کوئی نشان ان کو لادے تو بے شک لے آ۔ جب تو یہ نہیں کرسکتا تو خاموش رہ اور یہ یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ مگر وہ حکیم ہے اس کا کوئی کام خالی از حکمت نہیں وہ کسی کو افعال اختیار یہ میں جبر نہیں کیا کرتا ورنہ اس کا اجر ہی کیسے ملے پس تو نادانوں سے ہرگز نہ ہوجیئو۔ تکلیفوں پر بے صبری کرنا ایک قسم کی ناراضی ہے قاعدہ کی بات ہے کہ جو لوگ حق کی تلاش میں دل سے متوجہ ہو کر سنتے ہیں وہی قبول بھی کرتے ہیں اور جو کفر اور شرک اور پابندی قومی سے مردے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کو زندہ کرے گا۔ پھر میدان محشر میں اس کی طرف جزا سزا لینے کو پھر قے جائیں گے اور ان کی بددیانتی سنو ! کہ آئے دن کہتے ہیں اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے ہماری خواہش کے مطابق جیسا ہم کہیں اس پر کوئی نشان کیوں نہیں اترتا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان سے کہہ بات اصل تو یہ ہے کہ نشان اور معجزات سب کے سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں کسی نبی اور پیغمبر کا ان میں کوئی اجارہ اور زور نہیں بیشک اللہ تعالیٰ نشان اتارنے پر قادر ہے وہ جیسے پہلے تم کو نشان دکھاتا رہا اب بھی دکھائے گا۔ لیکن بہت سے ان میں نادان ہیں جانتے نہیں کہ نشان نمائی کے لئے بھی موقع ہوتے ہیں جن کو وہی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یہ کوئی مداری کا تھیلا نہیں کہ ایک جاہل نے چاہا مجھے شق القمر دکھائو اسے بھی دکھائیں دوسرے نادان نے کہا مجھے کچھ اور دکھائو تیسرے نے کچھ اور ہی فرمائش ڈال دی اللہ تعالیٰ اس کی مصلحت اور حکمت کو خوب جانتا ہے اتنی بڑی اس کی مخلوق ہے وہ ہر ایک کے حال سے واقف اور مطلع ہے جس قدر زمین میں جتنے جانور اور دو بازوئوں سے اڑنے والے پرندے ہیں سب تمہاری طرح مخلوق ہیں جن کے انواع کا حساب بھی انسان کی طاقت سے باہر ہے مگر ہماری نوشت سے کوئی چیز باہر نہیں یعنی ہم سب کو جانتے ہیں اور ایک ایک کو اس کا رزق اور اس کا محتاج الیہ پہنچاتے ہیں پھر سب نے اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے پس جن لوگوں نے اعمال حسنہ کئے ہوں گے وہ تو عیش و آرام میں ہوں گے اور جنہوں نے ہمارے احکام کو جھٹلایا ہوگا وہ کانوں سے بہرے اور زبان سے گونگے ہو کر جیسے دنیا میں اندھیرے میں پڑے ہیں آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں گے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زبان اور دل سے انہوں نے کام نہ لیا۔ اسی کی ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے یہ سزا ملی کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گمراہ کرے اور دائمی ضلالت میں رکھے اور جس کو چاہے راہ راست پر لاوے لیکن یہ اس کا چاہنا بلاوجہ اور بغیر حکمت کے نہیں ہوتا جس طرح بعض جسمانی امراض میں بدپرہیز آدمی ہلاکت کو پہنچ جاتے ہیں اسی طرح روحانی بداخلاقی میں بھی بے باک آدمی دائمی ہلاکت کے مستوجب ہوتے ہیں۔ یہ ان کو اللہ تعالیٰ سے ہٹ رہنے کی سزا ملی ہے پس تو اے رسول پوچھ کہ بتلائو تو تم جو اللہ تعالیٰ سے اتنے ہٹ رہے ہو اور غیروں کو اپنی مشکلات میں پکارتے ہو اگر عذاب الٰہی تم پر آجائے۔ یا قیامت تم پر قائم ہوجائے تو کیا اس وقت بھی تم غیر اللہ معبودوں کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو۔ تو غیروں ہی کو پکارنا۔ مگر نہیں تم ایسا نہ کرو گے بلکہ خاص اسی ایک سچے معبود کو پکارو گے اور اس کے سوا جن کو تم شریک سمجھتے ہو۔ سب کو بھول جائو گے پھر اگر وہ چاہے گا تو اپنی مہربانی سے تمہاری تکلیف جس کے لئے تم اسے پکارتے تھے تم سے دور کر دے گا۔ نہ چاہے گا تو نہیں کرے گا۔ پھر بتلائو کہ جب تکلیف کے وقت اسی کے بنتے ہو تو آسائش کے وقت کیوں اس سے ہٹ کر غیروں سے توقع رکھتے ہو۔ الانعام
26 الانعام
27 الانعام
28 الانعام
29 الانعام
30 الانعام
31 الانعام
32 الانعام
33 الانعام
34 الانعام
35 الانعام
36 الانعام
37 الانعام
38 الانعام
39 الانعام
40 الانعام
41 الانعام
42 (42۔73) مکہ والوں کو تو ابھی تک صرف زبانی زبانی ہی ہدایات سنائی جاتی ہیں تجھ سے پہلے ہم نے کئی قوموں کی طرف رسول بھیجے پھر ان کی شرارت اور عداوت پر ہم نے ان کو سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کسی پر قحط کی بلا بھیجی کسی پر وبا طاعون وغیرہ مسلط کی تاکہ وہ ہمارے سامنے عاجزی کریں اور گڑ گڑائیں۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب پہنچا تو کیوں نہ گڑ گڑائے کہ ان کی تکلیف دفع ہوجاتی اور آسانی ہوتی لیکن بجائے عاجزی کرنے کے الٹے گستاخیاں کرنے لگے کیونکہ ان کے دل سخت ہوچکے تھے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نظروں میں مزین اور آراستہ‘ سجے سجائے کر دئیے تھے پھر اس سے بعد جب وہ تمام نصیحت کی باتیں بھول گئے تو ہم نے ہر طرح کی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئیے خوب عیش و آرام ان کو دئیے یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر مستی کرنے اور اترانے لگے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا ایسا پکڑا کہ پھر وہ اپنی عافیت اور آسائش سے بالکل مایوس اور بے امید ہوگئے۔ بس ظالموں کی جڑ کٹ گئی اور مظلوموں اور نیک دل لوگوں کے منہ سے اس وقت یہ پکار نکلی کہ سب تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے اور کوئی نہیں وہی تمام دنیا کا مالک پروردگار ہے ہر ایک چیز اسی کے قبضہ میں ہے۔ اے رسول تو ان سے پوچھ کہ بتلائو تم جو اللہ تعالیٰ سے ایسے ہٹے جاتے ہو اور غیر معبودوں سے امید و بیم رکھتے ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری قوت سامعہ اور بصارت چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر کے سخت کر دے جو تم کسی طرح ان سے نیک کاموں میں مدد نہ لے سکو۔ تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون معبود ہے جو تم کو یہ اسباب لادے۔ جب کوئی نہیں تو پھر کیوں اس کی ناشکری کرتے ہو۔ غور تو کرو ہم کس طرح کے دلائل بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ بہکے ہوئے منہ پھیرے چلے جائیں تو ایک اور بات ان سے پوچھ کہ بتلائو اگر اللہ کا عذاب بے خبری یا باخبری میں تم پر آجاوے تو کیا بے فرمانوں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا؟ کوئی نہیں تو پھر بے فرمانی کیوں نہیں چھوڑتے ہو۔ یہ گناہوں پر ناراضگی اور نیکیوں پر خوشنودی آج ہی سے تو شروع نہیں ہوئی۔ ہم تو پیغمبروں کو ہمیشہ سے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہی بھیجا کرتے ہیں۔ جو نیکیوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور گناہوں پر ناراضگی بتلاتے تھے۔ پھر جو لوگ ایمان لاتے اور ان کا کہا مان کر صلاحیت اختیار کرتے ان پر نہ تو کچھ خوف ہوتا اور نہ وہ غمگین ہوتے اور جو ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ان کی بدکاری کی شامت میں انہیں کو عذاب پہنچتا۔ مگر ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ایسے عذاب کا بھیجنا یا آئندہ کسی خبر کا بتلا دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتلاوے کوئی نہیں بتلا سکتا پس اے رسول جو لوگ تجھ سے اس قسم کی باتیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضۂ قدرت میں رکھی ہیں پوچھتے ہیں تو تو ان سے کہہ کہ میں تم سے جب یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ بن بتلائے اس کے غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں کہ بے کھائے پئے زندگی بسر کروں پھر اس قسم کے سوال مجھ سے کیوں کرتے ہو۔ میں تم بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے سوا جو میری طرف آتا ہے میں کسی چیز کا تابع نہیں ہوں پس یہی وہ بصارت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے تو کہہ کیا اندھا اور سوانکھا ایک سے ہیں۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کے نور سے روشنی پا کر چلتا ہے ایک اپنی نفسانی خواہشوں کے اندھیرے میں ہے۔ کیا دونوں برابر ہیں۔ تم اس میں فکر نہیں کرتے ہو۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو اپنے مخالفوں سے سرسری بات کر اور اپنے تابعداروں کو جنہیں اللہ تعالیٰ کے پاس ایسے حال میں جمع ہونے کا خوف دامن گیر ہے جس میں نہ تو کوئی ان کا دوست اور متولی امور ہوگا اور نہ کوئی سفارشی اس قرآن کے ذریعہ بدکاریوں سے اچھی طرح ڈراوے تاکہ وہ سچے متقی بن جائیں مگر کسی موقع پر کبھی بھی دنیا داروں کی طرف مت جھکیو اور جو اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کو صبح و شام اس کی یاد میں لگے رہتے ہیں‘ دنیاداروں کے خوش کرنے کو ان کو اپنے پاس سے مت نکالیو اگر دنیا دار تجھے ان غریبوں کی بابت یہ کہہ کر دل شکنی کریں کہ یہ غربا صرف اس لیے تیرے ساتھ ہوئے ہیں کہ ان کو صدقات خیرات سے کچھ مل جاتا ہے ورنہ دل سے تیرے ساتھ نہیں تو یاد رکھ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی جواب دہی تیرے پر نہیں اور تیری جواب دہی ان پر نہیں پس تو اگر ان کو نکالے گا تو خود اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ظالموں میں داخل ہوجائے گا (شان نزول (وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ) دنیا دار متکبروں کی تو ہمیشہ سے یہی عادت ہے کہ غربا کے ساتھ ایک جگہ بیٹھنا گوارا نہیں کرتے ان ہی فرعونی دماغ والوں نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم حضور کے پاس آویں تو ہماری موجودگی میں ان غریب کنگلوں کو نہ بیٹھنے دیا کریں۔ آپ کو بھی بایں نیت کو یہ فرعونی دماغ اگر صحبت میں حاضر ہوا کریں گے تو آخر ان کی حالت بھی درست ہوجائے گی اس لئے چند روز کے لیے یہ حکم نافذ کرنے کا خیال آیا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی قدر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے امیری اور غریبی کو وہاں کوئی دخل نہیں الاَّ مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ہی معزز ہیں اس لئے غیرت خداوندی کو جوش آیا۔ اور یہ آیت نازل فرمائی (معالم بتفصیل منہ) اس مضمون کی آیات قرآن شریف میں بکثرت ہیں راقم کہتا ہے یہ فرعونی دماغ کے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں خصوصاً اس تہذیب (تخریب) کے زمانہ میں تو ان فرعونوں کی ایسی کثرت ہے کہ الامان۔) ان دنیا دار مغروروں کے کہنے کا کیا ہے اسی طرح پہلے بھی ہم نے غریبوں کو دینداری اور مغروروں کو دولت دنیا دے کر بعض کو بعض سے آزمایا تھا کہ مغروروں کے منہ سے نکلے اور وہ یہ بات کہیں کہ کیا یہی رذیلے ہیں جن پر ہم میں سے الگ اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی ہے اور انہیں کو دیندار وارثان جنت بنایا ہے سبحان اللہ یہ بھی کوئی قابل تسلیم بات ہے کہ دنیا میں تو ہم معزز اور مالدار ہوں اور آخرت میں یہ ذلیل عزت پاویں یہ نادان اپنی عقل کے ڈھکوسلوں سے کام لیتے ہیں۔ کیا یہ اتنی موٹی بات بھی نہیں جانتے کہ دینداری اور آخرت کی وراثت تو تقویٰ اور اخلاص سے حاصل ہوتی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے شکر گذار بندے بخوبی معلوم نہیں۔ اور سن یہ تو ایک معمولی بات تھی کہ نیک دل غریبوں کو اپنے پاس سے مت نکال۔ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کی خاطر کر کہ جب ہمارے حکموں پر ایمان رکھنے والے تعمیل ارشاد بجا لانے والے تیرے پاس آویں تو تو خود ابتدا میں ان کو السلام علیکم کہہ اور ان کو خوشخبری سنا کہ تمہارے پروردگار نے رحم اور عفو کرنا از خود اپنے پر لازم کر رکھا ہے۔ مگر اس رحم سے حصہ لینے کا یہ طریق نہیں کہ سرکشی سے حکم عدولی کئے جائو اور رحم کی امید رکھو نہیں بلکہ یہ کہ جو کوئی تم میں سے برا کام غلطی سے کر گذرے پھر اس سے پیچھے توبہ کرے اور صالح بن جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کے رحم سے ضرور حصہ لے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے حق میں بخشنہار مہربان ہے۔ پس یہی طریق رحم سے حصہ لینے کا ہے اسی طرح ہم مفصل احکام بتلایا کرتے ہیں۔ تاکہ لوگ سمجھیں اور مجرموں کی راہ واضح ہوجائے تو کہہ دے مجرموں کی راہ بھی کئی قسم ہے گو ان سب کا مال اور اصول ایک ہی ہے ایک تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے سرکشی کریں جس کا بیان ہوچکا ہے۔ دوئم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسے تعلق اوروں سے کریں اور غیر معبودوں سے جو درحقیقت اس قابل نہیں ان سے دعائیں مانگیں ان مکہ والوں میں یہی خرابی اثر کر رہی ہے۔ (شان نزول (قل انی نھیت) مشرکین تو ہر طرح سے مخالفت کرنا اپنا فرض جانتے تھے کبھی تکلیف سے تو کبھی تخفیف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بآشتی سمجھاتے بہتر ہے کہ آپ ہمارے معبودوں کی عبادت اگر نہیں کرتے تو ایک دفعہ ان پر ہاتھ لگا دیجئے پھر ہم آپ کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں گے۔ چونکہ یہ ایک بے ہودہ طریق تھا اس لئے اس بارے میں کئی دفعہ آیات نازل ہوئیں یہ آیت بھی انہی میں سے ہے۔ (منہ) پس تو اے رسول ان سے پکار کر کہہ دے کہ اللہ کے سوا جن مصنوعی معبودوں کو تم پکارتے ہو اور اڑے وقت جن سے تم دعائیں مانگتے ہو ان کی عبادت اور ان سے دعا کرنے سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع ہے۔ تو یہ بھی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم چھوڑ کر میں تمہاری خواہشوں پر نہ چلوں گا ورنہ میں اوروں کو ہدایت کرتا کرتا خود گمراہ ٹھیروں گا اور ہدایت والوں سے نہ رہوں گا تو یہ بھی کہہ دے کہ بھلا میں تمہاری خواہشوں پر کیونکر چلوں حالانکہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل اور واضح دین پر ہوں اور تم اس سے منکر ہوچکے ہو اور الٹے مجھ سے بگڑ کر عذاب کے خواستگار ہوتے ہو۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ تم جس عذاب کی جلدی چاہتے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ جب اللہ کے سوا کسی کا اختیار ہی نہیں۔ وہی حق حق بیان کرتا ہے اور مناسب وقت اظہار نشان بھی کردیتا ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ تو کہہ بھلا تمہارا جلدی چاہا ہوا عذاب اگر میرے بس میں ہوتا تو میرا تمہارا مدت کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔ کیونکہ میں بھی تمہاری طرح آخر آدمی ہوں پنجری میں گھبرایا بھی کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہی ظالموں کے حال سے بخوبی واقف ہے اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو وہی جانتا ہے بلکہ جو کچھ جنگلوں اور دریائوں میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جو پتہ درخت سے گرتا ہے خواہ کسی ملک میں ہو وہ اس کو بھی جانتا ہے کوئی چھوٹا سا دانہ تر ہو یا خشک زمین کے نیچے اندھیروں میں بھی ہو وہ بھی اس کے روشن علم میں ہے اور اس کا کمال قدرت دیکھنا سننا ہو تو سنو ! وہی ذات پاک ہے جو تم کو رات میں مثل موت کے سلا دیتا ہے اور تمہارے دن کے کاموں سے مطلع ہے پھر بعدنیند کے تم کو صبح سویرے اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری اجل مقررہ جو دنیا کی زندگی کے لیے مقرر ہے پوری ہو۔ پھر اسی طرح مرور زمانہ سے مدت گذار کر تم نے اسی اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے۔ پھر وہ تم کو تمہارے کاموں سے خبر دے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ جانتے ہو کون ہے۔ سنو ! وہ اپنے سب بندوں پر خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں کسی کی رعایا ہوں یا کسی ملک بلکہ دنیا بھر کے بادشاہ ہیبت ناک بھی کیوں نہ ہوں وہ سب کو قابو میں رکھنے والا ضابط ہے مجال نہیں کہ کوئی اس کے حکم قہری سے ذرا بھر بھی سرتابی کرے وہ تم پر اپنے چوکیدار نگہبان فرشتے بھیجتا ہے پس جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کو فوت کرتے ہیں اور وہ کسی طرح تعمیل احکام میں کمی نہیں کرتے پھر بعد مرنے کے اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔ سن رکھو دل میں جگہ دے کر سنو ! کہ اسی کا اصل حکم ہے وہی سب محاسبوں سے جلدی حساب لینے والا ہے اس کے حساب میں دیر ہی کیا ہے دنیا کے نیک و بد افعال قیامت کو اٹھتے ہی ایک دم میں اپنا اثر نمایاں دکھا دیں گے ایسے کہ کسی کو مجال انکار نہ ہوگی چہروں کی رنگت اور حلیہ کی شناخت ہی سے نیک و بد آثار نظر آجائیں گے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تو ان سے دریافت کر کہ تم نے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساجھی بنا رکھے ہیں ذرا بتلائو تو جنگلوں اور دریائوں کے اندھیروں سے جب تمہاری کشتیاں چلتی چلتی بھنور میں پھنس جاتی ہیں اس وقت کون تم کو خلاصی دیتا ہے کس کو گڑ گڑا کر پوشیدہ پوشیدہ پکارا کرتے ہو اور یہ کہا کرتے ہو کہ اگر وہ ہم کو اس بلا سے نجات دے تو ہم ضرور ہی اس کے شکر گذار فرمانبردار بنے رہیں۔ تو کہہ اس میں شک نہیں کہ اللہ ہی تم کو اس مصیبت سے اور اس کے سوا ہر ایک گھبراہٹ سے نجات دیتا ہے مگر پھر بھی اس کا ساجھی بتاتے ہو۔ یہ کیا ایمانداری اور فرمانبرداری کی باتیں ہیں تو کہہ دے کہ سن رکھو اگر تم باز نہ آئے تو وہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے مثل امساک یا طوفان باراں یا نیچے سے مثل وبا امراض بھیج دے یا اور کچھ نہیں تو تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے سے مزہ چکھا دے اور تمہاری باھمی ایسی سر پٹھول کرا دے کہ دیکھو۔ پس تم اس سے ہر آن ڈرتے رہو اور بداخلاقیوں سے کنارہ کش ہوجائو۔ تو دیکھ ہم کس طرح کے دلائل ان کو بتلاتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں اور عقل کریں مگر یہ ایسے کہاں کہ غور کر کے نتیجہ پر پہنچیں۔ پہلے تو تیری قوم قریش ہی نے اس قرآن کو جھٹلایا ہے حالانکہ یہ بالکل حق ہے مگر اپنی جہالت سے نہیں مانتے تو کہہ بہت خوب ! نہ مانو پڑے اپنا سر کھائو میرا کیا حرج ہے میں تم پر داروغہ اور محافظ تو نہیں ہوں کہ تمہاری تکذیب اور انکار سے مجھے باز پرس ہو بلکہ تم خود ہی اس انکار کا خمیازہ اٹھائو گے جو تمہارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اگر جلدی چاہو تو یہ بھی میرے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر ایک بات کا وقت مقرر ہے اور تم خود ہی جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ان کے پاس اور تو کوئی وجہ اس تکذیب کی پائی نہیں جاتی ہاں ایک مسخرا پن البتہ ضرور ہے سو اس مسخرا پن کا بجز اس کے کیا جواب ہوسکتا ہے کہ جب تو ہمارے حکموں سے مسخری کرنے والوں کو دیکھے تو جب تک وہ کوئی دوسری بات شروع نہ کریں ان سے ہٹ رہ اور ان کے ساتھ نہ بیٹھ۔ کیا تو نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا قول نہیں سنا آں کس کہ بقرآن و خبر زو نہ رہی ایں ست جوابش کہ جوابش نہ دہی ہاں البتہ اگر کوئی میدان مناظرہ ہو جس میں معقول آدمی سوال و جواب کریں تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس سے نتیجہ کی امید ہے لیکن ایسے مسخرا پن کی مجلسوں میں تو ہرگز نہ بیٹھا کر اور اگر شیطان تجھ سے یہ حکم فراموش کرا دے تو جب یاد آوے بعد یاد آنے کے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھیو بلکہ طرح دے کر گذر جائیو اس میں گناہ نہیں ہے کیونکہ جو پرہیزگار ہیں ان پر ان مسخروں کی کچھ جواب دہی نہیں ہے ہاں ایک بات ان کے ذمہ بھی ہے کہ ان کو نصیحت کردیں۔ مگر اس نیت سے کہ شاید وہ بھی ایسی بداخلاقی سے بچ جاویں۔ پس تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور جن لوگوں نے اپنا مذہب جس کے پابند کہلاتے ہیں محض ہنسی اور مخول سمجھ رکھا ہے اور دنیا کی زندگی سے فریب کھائے ہوئے ہیں۔ ان کو چھوڑ دے اور ان کی بے ہودہ گوئی کی پرواہ نہ کر اور اس قرآن کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کر مبادا کوئی نفس بے خبری میں اپنی بداعمالی کی سزا میں ہلاک ہو اور ایسی آفت میں اس کا اللہ تعالیٰ سے ورے نہ تو کوئی حمایتی ہوگا کہ خودبخود اس کو رہائی دے سکے اور نہ کوئی سفارشی جو سفارش کر کے چھڑا دے اور نہ ہی اس کو اجازت ہوگی کہ کچھ دے کر چھوٹ سکے بلکہ تمام قسم کے معاوضات اور بدلے بھی جو دنیا میں روپیہ پیسہ سے یا مالی جانی ضمانت سے ممکن ہیں اگر دینا چاہیے گا۔ تو بھی اس سے نہ لئے جائیں گے۔ یہ لوگ جو اپنی بد کرتوت کی وجہ سے تباہ ہوں گے انہی کو سخت کھولتا ہوا گرم پانی پینے کو ملے گا اور ان کے کفر کی شامت سے دکھ کی مار ہوگی۔ کیوں ہوگی؟ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں سے اپنی حاجات مانگیں اور غیروں کو جو درحقیقت کچھ بھی نفع یا نقصان نہ دے سکتے تھے محض جہالت سے پکارا پس یہی ان کی بدکاری تھی اور یہی ان کی کرتوت تھی تجھے بھی اگر اپنے دین کی طرف بلائیں تو تو کہہ کیا ہم ایسے احمق ہیں کہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکاریں جو نہ ہم کو نفع دے سکیں اور نہ نقصان۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو محض اپنی مہربانی سے راہ راست کی ہدایت کی تو اب ہم اس سے بعد اللہ تعالیٰ کا ساجھی بتانے سے الٹے پائوں گمراہی کی طرف لوٹیں؟ جیسے کسی کو جنگل میں بھوت حیران کردیں اور اس کے دوست اس کو بلائیں کہ سیدھی راہ پر آ مگر وہ شیطانوں کے قابو میں ایسا پھنسا ہو کہ اس کو خبر تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ تو کہہ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اور تم ہم کو گمراہی کی راہ بتلاتے ہو۔ پس خود ہی بتلائو کہ ہم کس راہ چلیں۔ مسلم بات یہ ہے کہ ہدایت اللہ کریم ہی اصل ہدایت ہوتی ہے اس کے برابر کسی کی راہ نمائی نہیں ہوسکتی پس ہم تمہاری نہ سنیں گے اور ہم کو یہ حکم پہنچا ہے کہ ہم اللہ رب العالمین ہی کے تابع ہوں تمہارے مصنوعی معبودوں کی پرواہ نہ کریں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ نماز پڑھتے رہو اور اسی اکیلے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ خوب دل میں یقین رکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس کی طرف تم نے لوٹ کر جانا ہے وہی ذات پاک ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو سچے قانون اور پختہ ضابطہ سے پیدا کیا ہے ایسے کہ کسی کو ان کی تبدیلی کی طاقت نہیں اور جس دم کسی چیز کو ” ہو“ کہتا ہے وہ فوراً ہوجاتی ہے اس کی بتلائی ہوئی بات اور اس کا حکم صادر کیا ہوا بالکل ٹھیک اور حق ہے اور اس دنیا کے علاوہ جس دن قیامت بپا ہوگی اسی کا اختیار ہوگا۔ دنیاوی حکاّم کی طرح کوئی مجازی اختیار بھی نہ رکھتا ہوگا وہی غائب اور حاضر کو برابر جانتا ہے اور وہی بڑا باحکمت باخبر ہے الانعام
43 الانعام
44 الانعام
45 الانعام
46 الانعام
47 الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 الانعام
51 الانعام
52 الانعام
53 الانعام
54 الانعام
55 الانعام
56 الانعام
57 الانعام
58 الانعام
59 الانعام
60 الانعام
61 الانعام
62 الانعام
63 الانعام
64 الانعام
65 الانعام
66 الانعام
67 الانعام
68 الانعام
69 الانعام
70 الانعام
71 الانعام
72 الانعام
73 الانعام
74 (74۔94) اور جب تمہارے بزرگ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے جو مشرک تھا کہا تھا کیا تو بتوں کو اپنے معبود بناتا ہے بیشک میں تجھ کو اور تیری قوم کو جو تیرے ساتھ اس فعل قبیح میں شریک ہیں صریح گمراہی اور بے ایمانی میں دیکھتا ہوں (شان نزول (اِذْ قَالَ اِبْراہِیْمُ) مشرکین کو شرک سے روکنے کے لیے ان کے مسلمہ بزرگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا قصہ نازل ہوا۔ منہ) اس کہنے سے بھی ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہی مطلب تھا کہ لوگ ہماری توحید کی طرف جھکیں اور شرک اور ہوا پرستی چھوڑ دیں جس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ خیال سمجھایا اسی طرح اس سے پہلے بھی ہم ابراہیم کو تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت دکھاتے تھے یعنی یہ سمجھاتے تھے کہ کل دنیا کیا آسمان کی چیزیں اور کیا زمین کی سب ایک زبردست طاقت کے نیچے کام کر رہی ہیں۔ کوئی ان میں سے مستقل موثر نہیں اس لیے دکھاتے اور سمجھاتے تھے کہ وہ ان میں غور کرتا کرتا پورا کامل یقین رکھنے والا ہوجائے اور درجہ بدرجہ ترقی کرے کیا مولانا رومی کا قول تم نے نہیں سنا اے برادر ! بے نہایت درگہیست ہرچہ بروے مے رسی بروے مایست چنانچہ اسی اصول سے ابراہیم ترقی کرتا گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس روز اس کی باپ سے گفتگو ہوئی تمام دن اسی خیال میں سوچتا رہا کہ دنیا کا مالک میں کس کو سمجھوں پھر جب رات کا اندھیرا اس پر ہوا تو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کو دیکھ کر بولا شاید یہ میرا رب ہے مگر چونکہ متلاشی تھا اس لئے جب وہ غروب ہوا تو یہ سمجھ کر کہ طلوع و غروب ہونا ایک قسم کا انفعال ہے جو واجب تعالیٰ کے مناسب حال نہیں کہنے لگا میں ان ڈوبنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے پسند نہیں کرتا۔ پھر تھوڑی دیر بعد جگمگاتا چاند دیکھ کر کہنے لگا شاید یہ میرا رب ہے کیونکہ ستارہ کی نسبت یہ بڑا ہے پھر جب وہ بھی قریب صبح کے کسی پہاڑ کی اوٹ میں غروب ہوگیا۔ تو کہنے لگا میں تو سخت غلطی میں ہوں اگر میرا حقیقی پروردگار مجھے ہدایت نہ کرے گا تو میں بھی گمراہوں میں ہوجائوں گا پھر اس سے پیچھے جب صبح ہوئی۔ تو سورج کو بڑی آب و تاب سے چمکتا ہوا اس نے دیکھا تو کہنے لگا شاید یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ تو بہت بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی غروب ہوا تو بولا۔ اے میرے بھائیو ! میری قوم کے لوگو ! میں تمہارے شرک سے جو تم کر رہے ہو بیزار ہوں اور جن چیزوں کی اللہ تعالیٰ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ ان کو چھوڑ کر میں نے یکطرفہ ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف پھیرا ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے اب سے میں بالکل اسی کا ہو رہوں گا اور میں تم مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے جاہلانہ گفتگو میں جھگڑا شروع کیا تاہم اس نے نہایت نرمی سے ان کو سمجھانے کو کہا۔ بھائیو ! تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست کی ہدایت کی ہے اور تم جو مجھے اپنے مصنوعی معبودوں سے ڈراتے ہو میں تمہارے بنائے ہوئے ساجھیوں سے نہیں ڈرتا کہ مجھے تکلیف پہنچاویں گے لیکن جو میرا پروردگار چاہے وہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ اگر وہ کوئی تکلیف مجھے پہچانی چاہے۔ اور اس کی مصلحت ایسی ہی ہو تو بسر و چشم کیونکہ میرے پروردگار کو ہر چیز کا علم ہے اس کے ہر کام میں حکمت ہے کیا تم نصیحت نہیں پاتے کہ اتنی بات کو بھی سمجھو کہ دنیا کا مالک وہی ہوسکتا ہے جو کسی سے متاثر اور منفعل نہ ہو بجائے ڈرنے کے الٹے مجھے ہی ڈراتے ہو بھلا میں تمہارے مصنوعی ساجھیوں سے کیونکر ڈروں تم تو بےدلیل اللہ کا ساجھی بنانے سے نہیں ڈرتے پس تم خود ہی غور کرو کہ میں جو صرف اللہ ہی کی طرف ہو رہا ہوں اور تم جو اس کے ساجھی بھی بناتے ہو۔ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ امن کا مستحق ہے یہ بالکل صریح بات ہے کہ غلط واقعات اور واھی خیالات ہمیشہ غلط ہی نتیجہ دیا کرتے ہیں اگر تم کو بھی کچھ علم ہے تو سمجھ لو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائے اور اپنے ایمان کو بے راہی اور ظلم یعنی شرک سے بچاتے رہے انہی کو امن ہوگا اور عافیت اور وہی راہ راست پر ہیں۔ یہ ابراہیمی تقریر سن کر مشرک سخت شرمندہ ہوئے اور کچھ جواب نہ دے سکے کیونکہ یہ دلیل ہم (اللہ) نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل سمجھائی تھی پھر بھلا کون مقابلہ کرسکتا ہم جس کو چاہیں بلند درجہ عنایت کریں ہر ایک کی قدر افزائی اس کے مناسب ہوتی ہے تیرا پروردگار بڑی حکمت والا بڑا ہی علم والا ہے ہر ایک کے حال سے بخوبی واقف اور آگاہ ہے کسی کے بتلانے کی اسے حاجت نہیں۔ اور علاوہ اس غلبہ اور جیت کے ہم نے اس کو ایک لائق بیٹا اسحق اور ایک پوتا یعقوب جو اسرائیل کے نام سے مشہور ہے بخشا۔ ان سب کو ہم نے راہ راست دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت کی تھی اور ابراہیم کی اولاد میں دائود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو ہدایت کی تھی یہ ہدایت اور رفع شان کچھ انہی سے خاص نہیں بلکہ اسی طرح ہم عام نیکوکاروں کو بھی بدلہ دیا کرتے ہیں ان کے بھی رفع درجات اور ترقی مدارج کیا کرتے ہیں ان کے علاوہ اور کئی ایک صلحاء کو ہم نے ہدایت کی منجملہ ان کے زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس علیہم السلام کو ہدایت کی یہ سب ہمارے نیک بندے تھے اور ان کے سوا ابو محمد اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو راہ دکھائی اور ان سب کو ہم نے کل جہان کے لوگوں پر برتری دی اور ان کے بزرگوں اور خردوں اور برادری کے لوگوں میں سے بھی بعض کو ہدایت کی اور برتری دی اور برگزیدہ کیا اور راہ راست کی ہدایت کی یہ روش جو ان لوگوں کی تھی جن کا ذکر ہوا ہے اللہ کی راہنمائی سے تھی اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس روش کی ہدایت کردیتا ہے یہ لوگ باوجود اس قدر رفع درجات کے یہ نہیں کہ خودمختار تھے بلکہ نہایت ہی عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی میں سرگرم اور اگر فرضاً یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ساجھی بناتے تو ان کا بھی کیا کرایا سب اکارت ہوجاتا۔ اور اس معاملہ میں ان کا بھی کچھ لحاظ نہ ہوتا۔ مگر یہ ایسے نہ تھے بلکہ یہ اور لوگوں کو راہ راست بتاتے تھے کیونکہ انہی کو ہم نے کتاب اور سمجھ اور نبوت عطا کی تھی چنانچہ انہوں نے اس کو پہنچایا اور لوگ ان کی تعلیم اور صحبت سے بہرہ یاب بھی ہوئے گو کئی ایک منکر بھی رہے مگر انجام تابعداروں ہی کا رہا پس یہ لوگ عرب کے باشندے بھی اگر تیری نبوت سے منکر ہوں تو کوئی حرج نہیں تیری تعلیم کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے کیونکہ ہم نے اس کی خدمت گذاری کے لیے ایک ایسی مطیع اور فرمانبردار قوم کو تعینات کیا ہے جو اس کے کسی حکم سے منکر نہ ہوں گے پس تو ان منکرین کی بکواس کی پرواہ نہ کر اور ان لوگوں کو دیکھ جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی جن میں سے بعض بلکہ عموماً تیرے نسبی بزرگ بھی ہیں پس تو ان کی ہدایت اور طریق پر چل بالکل گھبراہٹ کو پاس بھی نہ آنے دے اگر تجھے زیادہ بھی کچھ کہیں سنیں اور بیہودہ گوئی سے پیش آویں تو تو کہہ دیجیو کہ میں تم سے اس تبلیغ کے بدلے کوئی مزدوری نہیں مانگتا جو مانگوں وہ تم ہی کو ہوئیں تو تمہاری اس بربادی پر کبھی بولوں بھی نہیں مگر چونکہ یہ قرآن سب جہان والوں کی خالص ہدایت ہے اس لئے بطور ادائے امانت اللہ کریم کے کچھ کہنا سننا ہی پڑتا ہے لیکن تیرے مخالف تو کچھ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ تیری ضد میں اپنے مسلمات کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی شان کے مناسب ! قدر نہیں کرتے (شان نزول ! (مَا قَدَرُوا للّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ) بعض یہودیوں نے جن کو دراصل اپنے مذہب سے کچھ بھی پرواہ نہ تھی صرف مخالفت قومی کی وجہ سے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مقابلہ کرتے تھے ایک دفعہ مقابلہ میں مطلقاً نزول کتب سے منکر ہو بیٹھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں آفرینش سے اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی پر کوئی کتاب نازل ہی نہیں کی لطف یہ ہے کہ یہ بات کہنے والے خود اپنے آپ کو اہل کتاب کہلاتے ہیں پس تو ان سے پوچھ کہ جس کتاب کو حضرت موسیٰ لائے تھے وہ کس نے اتاری تھی جو نور اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی جس کو تم متفرق اوراق میں لکھ رکھتے ہو پھر کچھ تو ظاہر کرتے ہو اور بہت سا حصہ چھپا لیتے ہو۔ حالانکہ وہ باتیں تم کو بتلائی گئی تھیں جو تمہارے باپ دادوں کو بھی معلوم نہ ہوئی تھیں جن کا تم کو شکریہ چاہئے تھا۔ اگر اس کا جواب نہ دیں تو خود ہی کہہ کہ اللہ ہی نے اتاری تھی یہ کہہ کر پھر ان کو ان کی بکواس میں چھوڑ دے۔ پڑے جھک ماریں دین سے تو ان کو مطلب نہیں صرف ہنسی مخول میں کھیلتے ہیں توریت کے بعد بھی کئی ایک کتابیں ہم نے بھیجی ہیں جو اپنے اپنے وقت پر مفید ہوئیں اور اس بابرکت کتاب قرآن شریف کو جو اپنے سے پہلے کتاب کی تصدیق کرتی ہے ہم نے اس لئے اتارا ہے کہ تو مکہ اور اس کے اطراف والوں کو برے کاموں کے نتیجہ سے ڈراوے ضروری بات ہے کہ بعض لوگ اس سے انکار کریں گے اور بعض مانیں گے مگر یہ یاد رکھ کہ جو لوگ آخرت اور دوسری زندگی پر ایمان رکھتے ہوں گے اور جن کے دل میں یہ نہ سمایا ہوگا کہ جو کچھ ہے یہی محسوس دنیا ہے بس وہ تو ضرور ہی اس قرآن کو مانیں گے اور اس کی ہدایت کے موافق نماز اور عبادت نہ صرف معمولی ادا کریں گے بلکہ اس پر محافظت کرتے رہیں گے دانائوں کے نزدیک یہ حیرانی کی بات ہے کہ کفار تیری تکذیب کرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تو تو خود اس بات کا زور سے اظہار کرتا ہے اور بڑے دعویٰ سے بلند آواز سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کا افترا کرنے والے سے جو برے برے عقیدے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرے یا جو کہے کہ مجھے الہام ہوتا ہے حالانکہ اسے الہام کچھ بھی نہ ہوتا ہو یا جو کہے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے کلام جیسا کلام اتار سکتا ہوں ان سے بڑھ کر بڑا ظالم کون ہوگا۔ پس سوچ لیں اور جلدی نہ کریں ایسا نہ ہو کہ جلدی میں مکذب بنیں اور جو مکذبوں کے لیے عذاب ہے اس میں شامل ہوجائیں اب تو تو بھی ان کی اس جرأت اور دلیری سے حیران ہوتا ہوگا۔ اگر تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھے تو مزہ ہو جب یہ موت کی سختی میں ہوتے ہیں اور فرشتے لمبے ہاتھ کر کے ان کو سختی سے کہتے ہیں کہ چلو مرو اور ان قالبوں کو خالی کرو۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو تم جھوٹی اور ناسزا باتیں کہا کرتے اور اس کے سچے حکموں سے تکبر کرتے تھے اس کی وجہ سے آج تم کو ذلت کی مار ہوگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ فرمان بھی پہنچتا ہے کہ کیا وجہ ہے جیسا ہم نے تم کو پہلے بے زر و مال پیدا کیا ہے ویسے ہی تم ہمارے پاس آئے ہو۔ اور جو ہم نے تم کو دنیا کی نعمتیں عطا کی تھیں جو تمہارے غرور کا باعث ہوئی تھیں ان کو تو تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ہو نہ کچھ مال ہی ساتھ لائے اور نہ ہی تمہارے ساتھ سفارشی نظر آتے ہیں جن کو تم اپنے حق میں ہمارا شریک اور ساجھی سمجھے ہوئے تھے اور یہ جانتے تھے کہ وہ تم کو ہمارے عذاب سے رہائی دے سکیں گے۔ کیا ہوا آج تمہارے تعلقات سب ٹوٹ گئے اور جو تم اٹکل پچو گمان فاسد کیا کرتے تھے تم کو سب بھول گئے الانعام
75 الانعام
76 الانعام
77 الانعام
78 الانعام
79 الانعام
80 الانعام
81 الانعام
82 الانعام
83 الانعام
84 الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 الانعام
88 الانعام
89 الانعام
90 الانعام
91 الانعام
92 الانعام
93 الانعام
94 الانعام
95 (95۔117) پس اے مشرکو ! اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ میں ساجھی سمجھنے والو ! سنو ! اور غور سے سنو ! اللہ تعالیٰ کی سی صفات کاملہ جس میں نہ ہوں ہرگز اس سے نفع نقصان کا خیال مت کرو۔ منجملہ صفات اللہ کریم کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے اور بے جان کو جاندار سے نکالتا ہے منی اور انڈے سے زندے حیوانات پیدا کردیتا ہے اور زندوں سے مرے ہوئوں کو الگ کرتا ہے۔ یہی اللہ سچا معبود ہے پھر تم کدھر کو بہکے چلے جاتے ہو کہ اس حقیقی مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں سے استمداد کرتے ہو۔ اڑے وقتوں میں غیروں کو پکارتے ہو سنو ! صبح کو بھی وہی روشن کرتا ہے اس نے رات کو آرام کے لئے اور سورج اور چاند کو علاوہ اور فوائد کے حساب کے لیے پدحا کیا ہے۔ مجال نہیں کہ اپنے موسم کے لحاظ سے ایک منٹ بھی آگے پیچھے ہوجائیں۔ بھلا کیونکر ہو‘ یہ بھی کوئی میل ٹرین ہے جو باوجود تار برقی وغیرہ انتظامات کے عموماً لیٹ ہو کر پہنچتی ہے جس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اوقات مقرر کرنے والوں کو آئندہ کی مشکلات کا پورا علم نہیں ہوتا۔ کہہ فلاں وقت کیا حادثہ پیش آئے گا۔ نہ ہی جب کوئی حادثہ پیش آوے تو اس کو رفع دفع کرنے کی ان میں طاقت ہوتی ہے پس نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اوقات مقررہ میں فتور آجاتا ہے یہ چاند سورج کا اندازہ اور تعیین اوقات تو بڑے غالب بڑے ہی علم والے کا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تقدیم و تاخیر مطلقاً نہیں ہوتی اسی پر اس کی قدرت بس نہیں اور سنو ! اسی نے تمہارے لئے ستارے بنائے ہیں کہ تم ان کے ساتھ جنگلوں اور دریائوں کے اندھیروں میں راہ پائو علمداروں اور سمجھداروں کے لئے ہم نے اپنی قدرت کے نشان بتلا دئیے ہیں تمہیں بھی عقل اور علم ہے تو نتیجہ پائو۔ اور سنو ! ادھر ادھر کیوں جائو اپنے نفس ہی میں غور کرو۔ اسی نے تم سب کو ایک جان آدم سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے میں سے بعض کے لئے دنیا کو قرارگاہ اور بعض کو عارضی ٹھیرائو ہے یعنی کوئی تو ایک مدت دراز تک اس میں رہتا ہے اور کوئی چند روز بلکہ بعض چند لمحے ہی ٹھیر کر چل دیتے ہیں جو لوگ سمجھتے ہیں ان کے لئے ہم نے کھلے کھلے نشان بتلا دئیے ہیں اور سنو ! ہم (اللہ) ہی تمہارے لیے اوپر سے پانی اتارتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ ہر قسم کی انگوریاں نکالتے ہیں پھر ان میں سے سبزہ باہر لاتے ہیں اور اس سبزہ میں سے گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور ہماری ہی قدرت اور اجازت سے کھجوروں کے گابھے میں سے جھکے ہوئے گچھے نکلتے ہیں اور انگوروں اور زیتون اور اناروں کے باغ پیدا کرتے ہیں جن کے پھل کوئی تو آپس میں مشابہ ہوں اور کوئی غیر مشابہ مثلاً آم ہیں کہ ایک قسم کے دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور دوسری قسم کے نہیں۔ ذرا غور سے ان چیزوں کے پھلوں کی طرف دیکھوجب نکلتے ہیں اور پکتے ہیں کیا ہی ان سے قدرت صانع نمودار ہوتی ہے بیشک راستی کے ماننے والوں کے لیے اس میں بڑے نشان ہیں یعنی جن کو راستی سے محبت ہے اور راستی کے ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں وہ اس میں غور کریں تو ان کو اپنے خیالات کی تصحیح ہوسکتی ہے اور یہ تیری قوم کے لوگ تو ایسے ہیں کہ بجائے ہدایت اور راستی اختیار کرنے کے ہر بات میں الٹے چلتے ہیں سب سے مقدم بات اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے یہ اس میں بھی کج رو ہیں دیکھو تو کیا ہی حماقت ہے کہ جِنّوں کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ساجھی بنا رکھا ہے ہزار دفعہ سن چکے ہیں کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں کر رکھے ہیں ان میں کسی غیر سے استمداد کرنا شرک ہے مگر یہ ایسے نادان ہیں کہ جب کسی جنگل میں ڈیرہ لگاتے ہیں تو پہلے نعوذ بسید ھذا الوادی کہہ لیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ وہ خود اس کے محتاج ہیں تو پھر یہ اتنا بھی نہیں جانتے جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا (یعنی ہم اس جنگل کے سردار کی پناہ میں آتے ہیں۔ سردار سے مراد جن ہے۔ ) اور سنو ! کہاں تک ان کی نالائقی کا اظہار کیا جاوے محض جہالت سے اس اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور بیٹیاں اپنی طرف سے گھڑ رہے ہیں فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور اللہ کے صلحا بندوں کو اس کے بیٹے بناتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ان کی اس بیہودہ گوئی سے پاک اور بلند ہے وہ تو سب آسمانوں اور زمینوں کا موجد ہے یہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس کی اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اس نے سب کو پیدا کیا۔ پھر اس کا بیٹا یا بیٹی کون ہوسکتا ہے؟ کیا حادث قدیم کے ہم جنس ہوسکتا ہے اس کا علم بھی اس قدر وسیع ہے کہ وہ ہر ایک چیز کو خواہ کہیں بھی ہو‘ جانتا ہے دنیا میں کون ہے جو اس وسیع علم کا مدعی ہو۔ جب دونوں صفتیں (خلق اور علم) سوائے اس کے کسی میں نہیں تو یقین جانو کہ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی ہر ایک چیز کا پیدا کرنے والا ہے پس تم اسی کی عبادت کرو وہ ہر ایک چیز پر قادر اور سب کا متولی ہے مجال نہیں کوئی چیز اس کے حکم سے سرتاب اور خارج ہوسکے اس کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی وہ سب آنکھوں اور آنکھوں والوں کو دیکھتا ہے اور وہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔ وہ کسی آنکھ کان کا محتاج نہیں اس کی ذات ہی مجمع اوصاف حمیدہ ہے پس تو ان سے کہہ لوگو ! تمہارے پروردگار کی روشنی اور ہدایت یعنی قرآن جس میں سچے اور صحیح عقائد مذکور ہیں تمہارے پاس آچکے ہیں پس جو روشنی لے گا اسی کا بھلا ہے جو دانستہ اندھا بنے گا اسی پر وبال ہوگا۔ نہ کسی کی نیکی سے کسی کو فائدہ نہ کسی کی برائی سے کسی کا نقصان اور میں تم پر محافظ تو ہوں نہیں کہ تمہاری کج روی کا سوال مجھ سے ہو۔ اسی طرح ہم (اللہ) اپنے احکام بتلاتے رہیں گے جس پر انجام یہ ہوگا کہ سمجھنے والے سمجھیں گے اور کہنے والے تجھ سے یہی کہیں گے کہ تو کہیں سے پڑھ آیا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے ورنہ تو بھی تو ہمارے میں سے تھا تجھ میں کون سی زیادتی ہے جو تو ایسی باتیں نئی نئی کہتا ہے اور علم والوں کے لئے ہم واضح کر کے بتلا دیں گے وہ ان کے ایسے کہنے سے قرآن کی صداقت سمجھ لیں گے۔ پس جو تیرے پروردگار کے ہاں سے تجھے ملا ہے تو اس کی پیروی کر کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تو اسی کا ہو رہ اور اس کے ساجھی بتلانے والوں سے کنارہ کر اور یہ بھی سن رکھ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ کبھی بھی شرک نہ کرتے کیا اس کے قہری حکم کو بھی کوئی مانع ہوسکتا ہے؟ ایک دم میں سب کافروں کو اسلام میں لا سکتا ہے۔ لیکن وہ ایسے اختیاری کاموں میں جبر نہیں کیا کرتا پس تو صبر کر اس لئے کہ تجھے ان کے کاموں سے سوال نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں بنایا کہ خواہ مخواہ ان کی نگرانی تیرے ذمہ ہو اور نہ تو ان پر تعینات ہے۔ کہ افسروں کی طرح ماتحتوں کی نالائقی پر تجھے عتاب ہو۔ یہ تعلیم تو اپنے تابعداروں کو بھی سنا دے اور بتلا دے کہ تم اپنا کام کئے جائو اور غصہ میں آ کر جنہیں اللہ کے سوا پکارتے ہیں یعنی ان کے مصنوعی معبود ان کو کہیں گالیاں نہ دینے لگو نہیں تو بے سمجھی سے ضد میں آ کر تمہارے جلانے کو سچے معبود جس کا نام اللہ ہے اس کو گالیاں دینے لگیں ! گے کیونکہ ہر ایک کو اپنے ہی عمل بھلے معلوم ! ہوں پس تاوقتیکہ وہ اپنی غلطی سے باقاعدہ مطلع نہ ہوں کیونکر ان کو چھوڑیں پھر گالیاں دینے سے بجز بداخلاقی کے کیا نتیجہ؟ آخر اپنے پروردگار کی طرف ان کو لوٹنا ہوگا پس وہ ان کے کاموں سے ان کو اطلاع دے گا گالیاں تو یوں بھی ایک قبیح اور مذموم طریق ہے خاص کر ایسے لوگوں کو جو اعلیٰ درجہ کے ضدی ہونے کے علاوہ دروغ گو بھی ہوں ناحق ایک بدزبانی کا موقع دینا ہے (شان نزول (وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ) بعض دل جلے مسلمان جوش میں آ کر مشرکوں کے معبودوں کو برا بھلا کہہ دیا کرتے تھے۔ ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے یہ ایک نہایت پاکیزہ اصول ہے کہ مناظرہ میں فریق ثانی کے بزرگوں کو انہی لفظوں سے یاد کرنا چاہئے جن لفظوں سے ہم اپنے بزرگوں کا نام سننا چاہیں افسوس ہے کہ زمانہ حال میں اس طریق کی گفتگو بہت ہی کم ہوتی ہے جس کا نتیجہ بھی ظاہر ہے۔) (افسوس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے بایں ہمہ دعویٰ مسیحیت و مہدویت و مجددیت اور کیا نہیں کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بے نقط سنائیں اور عذر یہ کیا کہ میں یسوع کو جو عیسائیوں کا مصنوعی معبود ہے گالیاں دیتا ہوں مسیح کو نہیں۔ عذر گناہ بدتر از گناہ۔ شاید مرزا صاحب نے اس آیت کے جدید معنے سوچے ہوں کیوں نہ ہو مجدد بھی تو ہیں۔ ) اس آیت میں متکلم کا ترجمہ ہم نے نہیں کیا کیونکہ اس قسم کے تکلم اللہ تعالیٰ کی نسبت عموماً علت العلل کے قسم سے ہیں۔ فافہم) دیکھو تو ہر بار مضبوط مضبوط حلف اٹھا چکے ہیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی نشان آوے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی معجزہ دکھا دے تو ہم ضرور مان لیں گے اور اس پر ایمان لے آویں گے (وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ) مشرکین تو کوئی نہ کوئی پہلو ہمیشہ اس بات کا سوچا کرتے تھے کہ جس طرح ہوسکے ہمارا غلبہ رہے بعض دفعہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ درخواست کرتے کہ اگر آپ حضرت موسیٰ کی طرح عصا وغیرہ کا معجزہ دکھائیں تو ہم آپ کو مان لیں گے لیکن کاش کہ دلی اخلاص سے کہتے بلکہ اس میں یہ سوچتے تھے کہ سردست تو ایک عذر ملے بعد ظہور معجزہ کوئی اور عذر تراشیں گے ایسوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) مگر پھر کئی معجزات دیکھ کر بھی ویسے ہی اڑے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ایک دیکھ کر نئی فرمائش کردیتے ہیں اس لئے تو ان کے قطعی فیصلہ کو ان سے کہہ دے کہ نشانات سب اللہ کے پاس ہیں تم مسلمانوں کو بھی تو ان کا حال معلوم نہیں کہ ان کے دلوں میں کیا کیا خیالات واہیہ اور گمان فاسدہ بھرے ہوئے ہیں چونکہ ان کے دلوں سے ہم (اللہ) ہی واقف ہیں اس لئے ہم جانتے ہیں کہ وہ کسی قسم کے معجزے کے آنے پر بھی ایمان نہ لاویں گے اور ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو حق بینی سے پھیر دیں گے کیونکہ پہلی دفعہ اس نشان پر ایمان نہیں لائے اور محض ضد سے انکاری ہوئے اور مسخری میں واہی تباہی سحر اور جادو کہتے رہے اور ہم ان کو انہیں کی سرکشی میں چھوڑ رکھیں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی ہم سے مستغنی اور بے پرواہ بنتا ہے ہم بھی اس کو اسی کی طرف سونپ دیتے ہیں ان کے استغناء اور سرکشی کی نوبت تو یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر جیسا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فرشتے رسول ہو کر کیوں نہیں آتے۔ آسمان سے ہم فرشتوں کو ان کے سامنے اتارتے اور وہ آ کر بزبان خود ان کو تعلیم دیتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرتے اور سب غائب چیزوں کو جو آئندہ کو ہونے والی ہیں لا کر ان کے سامنے کھڑا کردیتے گویا قیامت ابھی ان کے سامنے قائم ہوجاتی تو بھی یہ کسی صورت پختہ ایمان نہ لاتے ہاں اللہ تعالیٰ چاہتا تو یک دم سیدھا کردیتا مگر اللہ تعالیٰ کسی پر اختیاری کاموں میں جبر نہیں کیا کرتا لیکن بہت سے لوگ ان میں سے جہالت اور نادانی کرتے ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہمارا دین اور طریق اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوتا تو ہم کو اس میں پیدا ہی کیوں کرتا یا کفر شرک اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہو تو کفر کرنے والوں کو کیوں یک دم تباہ اور ہلاک نہیں کردیتا۔ تُو مخالفوں کی مخالفت سے گھبرا نہیں اسی طرح قدیم سے چلی آئی ہے ہم نے شریر انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔ ان کی طبائع ہی اس مخالفت کی مقتضی ہیں۔ ایک شریر دوسرے کو دھوکہ بازی سے بے ہودہ اور لغو باتیں پھونکتے رہتے ہیں کوئی کسی بت کی طرف بخیال طمع جھکاتا ہے کوئی کسی قبر اور قبر والے سے التجا کرواتا ہے اور جی میں خیال ڈال دیتا ہے کہ یہاں سے فلاں آدمی کو مراد ملی تھی جو کوئی یہاں باخلاص قلبی نذر چڑھاتا ہے وہ ضرور مراد پاتا ہے۔ اور اگر تیرا پروردگار چاہتا‘ کہ ایسا نہ کریں تو یہ لوگ ایسا نہ کرتے۔ بلکہ مجبور کر کے ان سے چھڑا دیتا پس تو ان کی پرواہ نہ کر اور ان کا اور ان کی افترا پردازیوں کا مطلق خیال نہ کر۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو۔ اس پاجیانہ حرکت سے ان کو کئی ایک غرضیں ملحوظ ہیں ایک تو اپنے واہیات خیالات لوگوں میں پھیلانے اور بڑی بھاری غرض یہ کہ کسی طرح قیامت کی جزا سزا پر ایمان نہ لانے والوں یعنی بے ایمانوں کے دل ان کی طرف جھکیں اور وہ اس طریق کو پسند کریں اور بتوں کے پجاری اور قبروں کے مجاور جو کمانا چاہیں کمائیں۔ ساری بات کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ” ایں ہمہ ازیئے آنست کہ زرمیخواھد“ تجھے بھی اگر ایسی بات سنا کر کسی آدمی کے فیصلے کی طرف بلائیں تو (تو کہہ دیجیو) کیا میں اللہ کے سوا اور کسی کو منصف بنائوں؟ اسی ذات پاک نے تو تمہاری طرف مفصل کتاب قرآن اتاری ہے جس میں کوئی کسی طرح کا ایچ پیچ نہیں لیکن جن کے دلوں میں کجی ہے وہ سیدھی تعلیم کو نہیں مانتے۔ اور جن کو ہم نے کتاب اللہ کی سمجھ دی ہے وہ یقینی جانتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر اترا ہے حق اور واجب العمل ہے۔ پس تو ان بےدینوں کی ایسی ویسی باتوں سے ہرگز شک مت کیجیو اور سن رکھ تیرے رب کے فیصلے صدق اور عدل سے بھرپور ہیں ممکن نہیں کہ اس کے احکام اور مواعید میں کبھی خلاف ہو کیونکہ اس کی ذات کذب اور عجز سے پاک ہے کوئی دوسرا اس کے حکموں کو بدلنے والا نہیں وہی اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ مناسب موقع پر سب کچھ کر دے گا تو اسی کا ہو رہ اور اس خیال کو دل سے نکال دے کہ اکثر لوگ جس طرف بلائیں اس میں فائدہ ہوتا ہے سن رکھ اگر تو زمین کے باشندوں میں سے اکثر کے پیچھے ہؤا تو ضرور تجھ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے کیونکہ وہ تو صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں اور نری اٹکلیں ہی دوڑاتے ہیں (شان نزول (وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ) جہاں بھی بری بلا ہوتے ہیں مردار اور ذبیحہ کی نسبت گفتگو کرتے ہوئے مشرکین عرب کہا کرتے تھے ہ صاحب عجیب بات ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو۔ پھر اس دعویٰ کو اپنی کثرت سے مدلل بھی کیا کرتے کہ ہم چونکہ تعداد میں تم سے زیادہ ہیں اس لئے تم کو چاہئے کہ ہمارے مذہب کو اختیار کرو اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) راقم کہتا ہے اس آیت نے قطعی فیصلہ دیا ہے کہ کسی جماعت کی محض کثرت بغیر قوت دلیل کے ہرگز اس جماعت کی حقیقت کو مستلزم نہیں بلکہ صداقت اور حقانیت کے لئے قوت دلیل ضروری ہے۔ منہ) جو کچھ کریں تو اس سے بے فکر رہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکتے ہیں تیرا پروردگار ان کو خوب جانتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر چلنے والوں سے بھی خوب واقف ہے الانعام
96 الانعام
97 الانعام
98 الانعام
99 الانعام
100 الانعام
101 الانعام
102 الانعام
103 الانعام
104 الانعام
105 الانعام
106 الانعام
107 الانعام
108 الانعام
109 الانعام
110 الانعام
111 الانعام
112 الانعام
113 الانعام
114 الانعام
115 الانعام
116 الانعام
117 الانعام
118 (118۔135) پس تم مسلمانو ! ان گمراہوں کی چال میں نہ آنا جو غیر اللہ کے نام کی چیزیں اور خود مردہ جانور بھی سب کھا جاتے ہیں اور مسلمانوں پر حلت حرمت کے مسئلہ میں معترض ہوں ان کی ایسی باتیں لا یعنی ہیں اگر تم اللہ کے حکموں کو مانتے ہو تو جن چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر ہو انہی کو کھائو۔ اور ان کے سوا تقریباً غیر اللہ کے نام پر پکاری ہوئی کوئی چیز مت کھائو۔ اللہ تعالیٰ کا نام جن چیزوں پر ذکر کیا جاوے ان کے نہ کھانے میں تمہارا کیا عذر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزیں سب تم کو مفصل بتلا دی ہیں پس حلال کھائو اور حرام سے بچو مگر مجبوری اور لاچاری کی حالت میں معاف بھی ہے یعنی اگر ایسی حالت میں تم ہو کہ حلال طعام تم کو نہ ملے اور بغیر حرام ماکول کے گذارہ محال ہو تو تھوڑا سا بقدر سدر مق جس سے تمہاری جان بچے کھالو تو معاف ہے اور یاد رکھو بہت سے لوگ دنیا میں ایسے بھی ہیں کہ بلاتحقیق اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو بے فکر رہ یقینا تیرا پروردگار حدود اطاعت سے گذر جانے والوں کو خوب جانتا ہے تم ان کی بدصحبت سے دور رہیو اور ظاہری باطنی گناہ چھوڑ دو۔ نہ مجالس میں بداخلاقیاں کرو نہ پوشیدگی میں کیونکہ جو لوگ گناہ کے کام کرتے ہیں وہ اپنی کرتوتوں کے برے بدلے پاویں گے اور سنو ! بڑا ضروری کام تمہارا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط رکھو اور ماسوا سے بے نیاز رہو۔ اس تعلق اللہ کریم کا ظاہری نشان یہ ہے کہ جن چیزوں پر اللہ کا نام ذکر نہ ہو ان کو مت کھایا کرو۔ یعنی جن اشیاء پر اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کا نام بطور تقرب پکارا جائے یا دل میں خیال غیر کا رکھا جائے کہ وہ اس کو قبول کر کے مراد پوری کر دے یا کرا دے تو ایسی چیزوں کو خواہ جانور ہوں یا دیگر قسم کی اشیاء خوردنی ان کو مت کھائو اور سمجھ رکھو کہ یہ کام یعنی اس قسم کی چیزوں کا کھانا یقینا ناپاک ہے اور یہ مشرک جو تم سے آ کر کج بحثی کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شیاطین اپنے ڈھب کے لوگوں کو شبہات ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے جھگڑیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تم سے کج بحثی کرتے ہیں اور اگر تم ان کے کہنے میں آ کر ان کے پیچھے چلے اور غیر اللہ کے نام کی چیزیں کھانے لگے تو تم بھی مشرک بن جائو گے۔ کیا یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم یعنی اللہ تعالیٰ جو کسی بے علم کو جو مثل بے جان کے ہے علم دیں اور اس کو نور اور روشنی عطا کریں وہ لوگوں میں روشنی پھیلاتا ہو اور یہ چاہتا ہو۔ لوگ بھی مثل میرے ہدایت یاب ہوں کیا وہ اس جیسا ہے جو کئی ایک جہالت کے اندھیروں میں محبوس ہے ایسا کہ ان اندھیروں سے نکل ہی نہیں سکتا۔ کچھ شک نہیں کہ علم دار مثل جاندار کے ہے اور بے علم جاہل مثل بے جان کے ہے۔ مگر ان جاہلوں کو اپنی ہی جہالت بھلی معلوم ہوتی ہے ہمیشہ سے اسی طرح کافروں کو اپنی ہی بدکاریاں شرک کفر بھلی معلوم ہوا کرتی ہیں جیسے تیرے مخالف بڑے بڑے دولت مند لوگ ہیں۔ اسی طرح ہم نے ہر ایک بستی میں بدکاروں کو بڑا بنایا ہے کہ وہ علاوہ اپنی بدکاریوں کے اس بستی میں دل کھول کر دائو چلائیں اور لوگوں کو بہکائیں اور اپنے سوار پیادے دوڑا لیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جتنی کچھ دائو بازیاں کرتے ہیں اپنے ہی حق میں کرتے ہیں اور وہ نقصان کو نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ کسی کی نہ سنتے ہیں نہ مانتے ہیں جب کبھی ان کے پاس کوئی نشان معجزہ وغیرہ آتا ہے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ یا نشان قدرت اللہ کریم اور دلیل صحت نبوت محمدی کی دیکھتے ہیں تو بجائے تسلیم کرنے کے کہتے ہیں کہ جب تک ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی طرح راہ راست پیغام نہ ملے ہم نہیں مانیں گے اللہ تعالیٰ جس جگہ اور جس شخص کو اپنی رسالت اور پیغام رسانی سپرد کرتا ہے اس کو خوب جانتا ہے ان بدکاروں کو ان کی بدکرداری اور دائو بازی کی وجہ سے اللہ کے ہاں سے ذلت اور سخت دکھ کی مار پہنچے گی تو جانیں گے پس یہ سن رکھیں آئندہ کی جانے دیں اسی دنیا میں پہچان لیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک بد کی یہی تمیز ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرنا چاہے اس کا سینہ بے کینہ اسلام کے قبول کرنے کو کھول دیتا ہے اور اسلامی احکام پر عمل کرنا اس کو آسان ہوجاتا ہے اور جس کو اس کی گردن کشی اور نخوت کی وجہ سے گمراہ ہی کرنا چاہے اس کے سینے کو نہایت تنگ کردیتا ہے۔ اسلام کا آسان سا مسئلہ بھی اس کی سمجھ میں بدقت و دشواری آتا ہے بلکہ آتا ہی نہیں عمل کرنا سخت مشکل اور ناگوار ہوتا ہے۔… گویا آسمان پر اس کو چڑھنا پڑتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر پھٹکار ڈالا کرتا ہے تو سن رکھ اور لوگوں کو سنا دے یہی اسلام تیرے پروردگار کی سیدھی راہ ہے جو لوگ نصیحت پانے کو ہوں انکے لئے ہم نے اس دعویٰ (صحت اسلام) کے کھلے کھلے نشان اور دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ وہ اسی قرآن پر غور کرنے سے کامیاب ہوسکتے ہیں ان ہی کے لئے اس کے عوض اللہ کے ہاں دارالسلام ہے یعنی سلامتی کا گھر انہیں رہنے کو ملے گا اور ان کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہی ان کا متولی ہے اس نے ان کی تولیت خود اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دور ہٹے ہوئے ہیں جس روز اللہ ان سب کو جمع کرے گا اور گمراہ کرنے والے یا گمراہی کا سبب بننے والے شیاطین سے (کہے گا) اے جنوں کی جماعت شیطانوں ! تم نے بہت سے آدمی دنیا میں گمراہ کئے اب بتلائو آدمیوں میں سے ان کے دوست اور تابعدار یہ سمجھ کر کہ شائد ساری خفگی انہی بہکانے والوں پر پڑے گی جھٹ سے کہیں گے اللہ کریم ! دنیا میں ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں یعنی ان کے بہکائے ہوئے ہم برے کام کرتے اور یہ ہم کو بہکا کر اپنی من مانی بات پوری کرتے تھے۔ اے اللہ ! جو وقت تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا اب ہم اس پر آپہنچے ہیں ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں تو جانتا ہے ہمارا اس میں قصور نہیں۔ انہیں لوگوں نے ہمیں خراب کیا تھا۔ پس یہی مستوجب سزا ہیں اللہ تعالیٰ کہے گا تم سب کا ٹھکانا آگ ہے۔ اس میں ہیشہ رہو گے سزا تو تمہاری یہی ہے آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار۔ اگر کسی کو سزا سے رہا کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے اور یہ اس کا چاہنا سراسر حکمت ہوتا ہے کیونکہ تیرا پروردگار بڑا باحکمت اور بڑے علم والا ہے جس طرح ان گروہ چیلوں کو آگ میں رہنے کا حکم دیا ہے اسی طرح ہم یعنی اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو ان کی کرتوتوں کی وجہ سے بعض کے ساتھ ملا دیں گے اور ایک قسم کے بدکاروں کو ایک جا عذاب میں جمع کر کے کہیں گے اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے پیغمبر نہ آئے تھے جو تم کو میرے حکم سناتے اور اس دن قیامت کی جزا و سزا کے ملنے سے تم کو ڈراتے وہ کہیں گے ہم خود اپنے مخالف گواہ ہیں کہ بیشک رسول آئے تھے اور وہ یہ بھی تسلیم کریں گے کہ ہم کو دنیا کی زندگی نے فریب دیا تھا۔ اور اپنے مخالف شہادت دیں گے اور اقرار کریں گے اور مانیں گے کہ ہم کافر تھے۔ یہ نبیوں کا بھیجنا تو اس لئے ہے کہ تیرا پروردگار لوگوں کو ظلم سے اور بے خبری میں ہلاک نہیں کیا کرتا۔ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کی طرف ہادی تو بھیجے نہیں جو ان کو برے بھلے کاموں میں تمیز بتلاوے اور یوں ہی بے خبری میں ان پر تباہی ڈال دے اس لئے وہ ضرور نبی بھیجتا ہے اور ہدایت کرتا ہے پھر لوگ ایمان اور کفر کی وجہ سے خود ہی مختلف ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک کی کمائی کے مناسب انکو درجے اور مراتب ملیں گے کیونکہ تیرا پروردگار ان بندوں کے کاموں سے بے خبر نہیں۔ جو کچھ بندے کرتے ہیں انہی کا فائدہ ہے اور تیرا پروردگار تو سب سے بے نیاز ہے اسے کسی کی بندگی سے فائدہ نہیں اور گناہ سے نقصان نہیں اور بڑی رحمت والا ہے وہ ایسا بے نیاز ہے کہ اگر چاہے تو سب کو دنیا سے اٹھا لے جائے اور تم سے پیچھے جس کو چاہے تمہارا خلیفہ اور جانشین بنا دے جیسا کہ تم کو تمہارے بزرگوں کی نسل سے پیدا کیا۔ پس تم یقینا جانو کہ جو تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک و بدکاموں کا وعدہ ملتا ہے ضرور آنے والا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو کسی طرح کہیں بھاگ کر یا غائب ہو کر یا مقابلہ کر کے عاجز نہیں کرسکتے بلکہ جہاں تم ہوتے ہو۔ وہیں اس کی پولیس اور فوج خود تمہارے ہی اندر موجود ہے۔ اگر تیری ایسی راست راست تعلیم بھی نہیں مانتے تو تو کہہ دے بھائیو ! پڑے اپنے طریق پر عمل کرو میں بھی کئے جاتا ہوں جس کا انجام بخیر ہوگا اور جس کو کامیابی ہوگی تم خود ہی معلوم کرلو گے یہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قاعدہ مقرر ہے کہ ظالم اور بے انصاف خصوصاً اللہ تعالیٰ پر افترا گھڑنے والے مراد نہیں پایا کرتے۔ اصل تو یہ ہے کہ شرک تو ان میں ایسا جاگزین ہوگیا ہوا ہے گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ اڑے وقت میں تو اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور آسائش کے وقت کا یہ حال ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے مصنوعی معبودوں کا پھر اپنے خیال میں خود ہی سمجھ رکھتے ہیں اور تعیین کو چھوڑتے ہیں کہ یہ حصہ مثلاً دائیں جانب کا ڈھیر تو اللہ کا ہے اور یہ مثلاً بائیں طرف کا انبار ہمارے مقرر کردہ اللہ تعالیٰ کے ساجھیوں کا جن کو وقت پر پکارا کرتے ہیں۔ اور ان سے مدد چاہا کرتے ہیں۔ باوجود اس کے پھر ان کے برتائو کی عجیب ہی کیفیت ہے کہ جو ان کے مصنوعی ساجھیوں کا ہو وہ تو کسی طرح ہوا وغیرہ سے اڑ کر بھی اللہ کی طرف نہ جانے پاوے اور جو اللہ تعالیٰ کے حصہ کا ہو۔ وہ کسی ذریعہ نابالغ بچے کے اٹھانے سے یا ہوا کے اڑانے سے غرض بوجہ مّنَ الوجوہان کے مصنوعی ساجھیوں کی طرف پہنچ سکتا ہے اس کی وجہ بھی سنو کیا بنا رکھی ہے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے اسے کسی قسم کی حاجت نہیں اور نہ وہ ایسی معمولی حرکات سے ناراض ہوتا ہے اور یہ ہمارے شریک اور پیر فقیر چونکہ درحقیقت مخلوق ہیں اس لئے ان کے حوصلے بھی اتنے نہیں۔ یہ تھوڑی سی بات سے خفا ہو کر تباہی ڈال دیا کرتے ہیں نالائق کیسے برے اور غلط فیصلے کرتے ہیں اتنا بھی نہیں جانتے کہ پیدا تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کرے یہ کون ہیں جن کے ہم اس کے ساتھ حصے مقرر کردیتے ہیں جس طرح اس فعل قبیح کی برائی ان کی سمجھ میں نہیں آتی بلکہ اس کو اچھا جانتے ہیں اسی طرح بہت سے مشرکوں کو مادہ اولاد کا مار ڈالنا ان کے بنائے ہوئے معبودوں نے مزین کر دکھایا ہے تاکہ انجام کار ان پر تباہی لاویں یعنی غضب الٰہی کے سبب بنیں اور ان کا اصل دین ان پر مشتبہ کر ڈالیں یعنی مشرکوں کا مادہ اولاد کا مار ڈالنا ان کے شرک کی شامت سے ہے کیونکہ شرک کرنے سے انسانی دماغ میں اس قسم کا فتور آجاتا ہے کہ وہ معمولی بداخلاقیوں کو بداخلاقی نہیں سمجھتا پس تو ان سے کنارہ کر اور یہ سمجھ رکھ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتے۔ بھلا ان کی مجال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت پر مجبور کرے تو ہدایت یاب نہ ہوں۔ لیکن اس نے اختیاری افعال میں اختیار دے رکھا ہے کیونکہ جس فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہ ہو اس کے کرنے پر ثواب اور نیک جزا مرتب نہیں ہوا کرتی یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جبراً ہدایت یاب نہیں کرتا۔ پس تو ان کو اسی افترا پردازی میں چھوڑ دے اور دیکھو تو کیسے من گھڑت مسئلے بنا رکھے ہیں کہتے ہیں یہ چوپائے اور کھیتی ہماری رسمی پابندی سے متروک الاستعمال ہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا۔ مگر وہی جس کو ہم اپنے خیال میں مناسب جان کر کھلانا چاہیں اور کئی ایک چوپائے ایسے بھی ہیں جن پر سوار ہونا حرام سمجھا گیا ہے اور کئی چوپائوں پر اللہ کا نام بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ اپنے مصنوعی معبودوں کے نام ہی پر تصدق و قربان کرتے ہیں ان ڈھکوسلوں اور مصنوعی مسائل کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کر کے اللہ تعالیٰ پر افترا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی افترا پردازی کی سزا ان کو دے گا الانعام
119 الانعام
120 الانعام
121 الانعام
122 الانعام
123 الانعام
124 الانعام
125 الانعام
126 الانعام
127 الانعام
128 الانعام
129 الانعام
130 الانعام
131 الانعام
132 الانعام
133 الانعام
134 الانعام
135 الانعام
136 (136۔148) اور ایک بات بھی ان کی سنو ! یہ کہتے ہیں کہ جن مویشی کو ہم کان وغیرہ پھاڑ کر بحیرہ سائبہ وغیرہ بناتے ہیں جو ان چوپایوں کے پیٹ کے اندر بچہ ہے وہ اگر زندہ نکلے تو صرف ہمارے مرد کھائیں اور عورتوں کو ان کا کھانا منع ہے اور اگر وہ مرا ہوا ہو تو پھر مرد و عورت سب اس میں حصہ دار ہیں سب کھا سکتے ہیں اس کو یہ لوگ مسئلہ شرعی بتلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس بیان کا بدلہ سزا دے گا بیشک وہ بڑا حکیم اور علیم ہے۔ ہر ایک کے حال سے مطلع ہے اس کے کام سب باحکمت ہیں دنیا میں جو کچھ وہ کرتا ہے کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اگر کسی کو لڑکا دیتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہوتی ہے اور اگر کسی کو لڑکی دیتا ہے تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں مگر یہ نادان نہیں جانتے ان کو یہی خیال ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو وہ نہایت ذلیل ہے اس لئے یہ موقع پا کر لڑکیوں کو مار ڈالتے ہیں پس کچھ شک نہیں کہ جو لوگ اپنی مادہ اولاد کو بیوقوفی اور جہالت سے قتل کر ڈالتے ہیں اور محض اپنی تجویز سے اللہ تعالیٰ پر افترا باندھ کر بغیر حکم شریعت اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حلال رزق کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے ہی ٹوٹے میں ہیں اور سیدھی راہ سے دور بھٹکے ہوئے اور راہ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں ان جیسی سمجھ بھی کسی کی ناقص ہوگی؟ جب ان کی عقل کا معمولی امور میں یہ حال ہے تو الٰہیات میں کیا رائے لگا سکتے ہیں اور کیا دلائل سمجھ سکتے ہیں تاہم ان کو بالکل بے سمجھائے تو چھوڑنا مناسب نہیں اس لئے ایک ایسے طریق سے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے چل اور معرفت حاصل کرا کہ ان کی عقلوں کے مناسب حال ہو۔ پس ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ جس کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں وہ وہی ہے جو ہرے بھرے باغ بیلدار اور غیر بیلدار پیدا کرتا ہے یعنی انگوروں کے باغ جو ٹٹیوں کے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور ان کے سوا جو ایسے نہ ہوں اور کھجوریں اور عام ہر قسم کی کھیتی ہمچوں قسم گیہوں وغیرہ جو کھانے میں مختلف ہوتی ہے اور زیتون اور انار بعض ظاہر باطن میں بھی ملتے جلتے ہیں اور بعض مختلف ہیں۔ تم اس سے نتیجہ پائو کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی کوئی ہے اور اس کے حقوق بھی تم پر کچھ ہں۔ اور جب پھلیں تو ان کا پھل کھائو اور کاٹنے کے روز اللہ تعالیٰ کا حق بھی مسکینوں کو دیا کرو۔ اور کثرت پیداوار کو دیکھ کر دہقانوں کی طرح فضول نہ اڑایا کرو۔ مسرف اور فضول خرچ کرنے والے اللہ تعالیٰ کو ہرگز نہیں بھاتے اور دیکھو اللہ تعالیٰ نے چوپایوں میں سے بعض دراز قد بوجھ بردار تمہارے لئے پیدا کئے ہیں جیسے اونٹ‘ گھوڑا اور ہاتھی وغیرہ اور بعض پستہ قد زمین سے لگے ہوئے جیسے بھیڑ‘ بکری وغیرہ جو صرف تمہارے دودھ پینے اور بوقت ضرورت کھانے کے کام آتی ہیں پس تم اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے کھائو اور شیطان کی چال نہ چلو کہ دیوے تو اللہ تعالیٰ اور تم اس میں سے حصہ نکالو غیروں کا۔ یہ پیر کی نیاز اور فقیر کی نذر یہ طریق ناپسند شیطانی شرارت کا اثر ہے وہ شیطان تو تمہارا صریح دشمن ہے دیکھو وہ کس کس پیرایہ میں بنی آدم سے دشمنی کرتا ہے۔ ان مشرکوں کے دلوں میں وہم ڈال رکھا ہے کہ بعض حلال جانوروں کو بھی حرام سمجھنے لگ گئے ہیں۔ پھر ایک بات پر جمتے بھی نہیں کبھی کسی نر کو بحیرہ وغیرہ بنا کر حرام سمجھ لیتے ہیں کبھی مادوں سے بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ حلت حرمت جہاں سے ظہور ہوئے سرے سے اس کے منکر ہیں۔ یعنی نبوت کسی نبی کی اور الہام کسی ملہم کا انہیں تسلیم نہیں سنو ! اللہ تعالیٰ نے چارپائے نر مادہ آٹھ قسم پیدا کئے ہیں۔ بھیڑوں میں زیادہ دو اور بکریوں میں سے زیادہ دو۔ تو ان سے دریافت کر کہ بتلائو اللہ تعالیٰ نے نر جانور حرام کئے ہیں یا مادہ یا جو مادہ کے پیٹ سے نکلے نر ہو یا مادہ مجھے تحقیقی بات بتلائو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو یا ان میں سے بعض کو حرام کیا ہے پہلے اپنا دعویٰ تو متعین کرو اور بھی سنو ! اونٹوں میں سے نر مادہ پیدا کئے اور گائے کی قسم کے نر مادہ بھی دو پیدا کئے۔ تو ان سے دریافت کر کہ ان میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے نر حرام کئے ہیں یا مادہیا جو مادہ کے پیٹ سے نکلے نر ہو یا مادہ کچھ ہو بتلائو دعویٰ متعین کر کے دلیل لائو۔ کیا کسی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھیجا ہے یا جس وقت اللہ تعالیٰ نے اس بات کا تم کو حکم دیا تھا تم خود اس وقت وہاں موجود تھے؟ اور اپنے کانوں کی سنی ہوئی شہادت دیتے ہو۔ اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہیں۔ کسی کتاب کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ کسی کتاب کے قائل نہیں۔ خود تو کیا ہی موجود ہوں گے۔ مثل مشہور ہے ” کے آمدی وکے پیر شدی“ پس تو ان سے کہہ دے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹ لگاتے ہیں کہ لوگوں کو بے سمجھی میں اسی دائو سے گمراہ کریں ان سے بڑھ کر کوئی بھی زیادہ ظالم نہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخی کرنی کہ جو اس نے نہ فرمایا ہو اس کے نام پر کہہ دینا صریح ظلم ہے اور ظلم ایسی بری بلا ہے کہ اپنی حد تک پہنچ کر ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہرگز راہ نہیں دکھایا کرتا تو ان سے کہہ تم تو یونہی اٹکل پچو ہانک رہے ہو یہ حرام وہ حرام میں تو اپنی الہامی کتاب میں کسی کھانے والے کے حق میں جو بہ نیت نیک کھانا چاہے بجز خود مردہ جانور اور خون ذبح کے وقت بہنے والے اور خنزیر کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ پس یہ سب حرام اور ناپاک ہیں اور وہ گناہ کی چیز یعنی جو غیر اللہ تعالیٰ کے نام سے پکاری جائے اور کسی پیر یا فقیر یا ولی یا شہید کے نام پر بطور تقرب اس کو مانا جائے یہ بھی حرام ہے پھر بھی جو شخص یہ نیت نیک نہ بے فرمانی کرنے والا اور نہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے والا بھوک سے مجبور ہو اور اس مجبوری کی حالت میں مذکورہ حرام چیزیں کھالے تو اس پر گناہ نہیں خدائے تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے اور یہودیوں پر ہم نے ناخن والے جانور یعنی چرے ہوئے کھروں والے گائے اور بھیڑ بکریوں کی چربی حرام کی تھی۔ مگر اس قدر جو ان کی پشت یا آنتوں میں یا ہڈیوں سے چمٹی رہے وہ حلال تھی یہ ان کی سرکشی کی سزا تھی۔ گو وہ اپنی پردہ پوشی کو کچھ کا کچھ بیان کریں ان کی کتابیں اور ان کی روش ہی جتلا رہی ہے کہ ان کا بیان صحیح نہیں ہوتا اور ہم (یعنی اللہ) تو یقینا سچے ہیں پھر بھی تیری تکذیب کریں تو تو کہہ کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے جو تم کو اس سرکشی اور جورو ظلم پر سردست مواخذہ نہیں کرتا۔ ہاں یہ بھی جانو کہ جس وقت وہ پکڑنا چاہے فوراً پکڑ سکتا ہے اور اس کا عذاب مجرموں کی قوم سے تو کسی طرح سے بھی پھرا نہیں کرتا کوئی اس کا رد کرنے والا نہیں مگر چونکہ تیری موجودگی میں عذاب کا بھیجنا مناسب نہیں کیونکہ تو رحمۃ للعالمین ہے اس لئے جو چاہتے ہیں کہتے ہیں۔ ابھی تو آئندہ کو مشرک کہتے کہتے یہ بھی کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی شے کو اپنے پر حرام سمجھتے پس جب اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے تو پھر ہمیں کیا گناہ۔ دراصل ان کی یہ حجت بازی ہے۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں سے انکار کیا تھا وہ بھی ایسے ہی بے ہودہ گوئی کیا کرتے تھے اور یہی کہتے رہے یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ چکھا یہ لوگ اپنی کم علمی اور نفسانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور رضا میں فرق نہیں سمجھتے۔ مشیت اس کی تو ایسی ہے کہ کوئی کام بغیر اس کی مشیت کے ہونا ممکن ہی نہیں لیکن یہ ضرور نہیں کہ ہر ایک کام دنیا میں اس کی مشیت سے ہو وہ اس سے راضی بھی ہو۔ دنیاوی حاکموں کو دیکھو کہ رعایا بہت سے کام حسب اجازت قانون کرتی ہے مگر حکام ان سے راضی نہیں ہوتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قانون کو سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی نیک یا بدکام کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس کے حسب منشاء اسباب مہیا کردیتا ہے بعد ازاں جیسا کام ہو ویسا عوض دیتا ہے تو کہہ تمہارے پاس اس دعویٰ پر کہ مشیت الٰہی پر رضا الٰہی لازم ہے کوئی علمی دلیل ہے جو ہمیں بتلا سکو۔ کیا بتلائو گے تم تو صرف وہموں پر چلتے ہو اور محض اٹکلیں ہی مارتے ہو الانعام
137 الانعام
138 الانعام
139 الانعام
140 الانعام
141 الانعام
142 الانعام
143 الانعام
144 الانعام
145 الانعام
146 الانعام
147 الانعام
148 الانعام
149 (149۔165) تو ان سے یہ کہہ کہ اللہ تعالیٰ ہی کی بتلائی ہوئی دلیل غالب ہے پس سنو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کردیتا اس سے یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا نہ چاہنا بھی اس کی مرضی کی دلیل ہے۔ نہیں غور سے سنو ! اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایک قدرت اور طاقت افعال اختیار یہ کے متعلق بخشی ہوئی ہے۔ بندے جس کام میں اس طاقت کو خرچ کرنا چاہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا اثر مرتب کردیتا ہے اور اگر چاہے تو اس طاقت دادہ کے مخالف بھی ان سے کام لے سکتا ہے۔ پس یہی معنے اس آیت کے ان کو سمجھا اور اصل مسئلہ (شرک اور تحریم اشیائ) کے متعلق ان سے کہہ اپنے گواہ لائو جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ جس کو تم حرام سمجھتے ہو حرام کیا ہے پھر اگر وہ گواہی دیں بھی تو تو ان کے موافق ہرگز گواہی نہ دیجیو کیونکہ یہ شہادت ان کی محض ضد اور عداوت سے ہوگی اس لئے تو ان سے الگ رہیو اور جو لوگ ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں اور جو آخرت کی زندگی پر یقین نہیں کرتے اور اپنے پروردگار کے ساتھ غیروں کو برابر کرتے ہیں۔ کل صفات میں یا بعض میں تو ان کی مرضی پر نہ چلیو تو ان سے کہہ کہ تم تو یونہی آئیں بائیں مارتے ہو یہ حرام وہ حرام آئو میں تم کو بتلائوں جن چیزوں کا تمہارے پروردگار نے تم کو حکم دیا ہے سب سے اول یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو ساجھی نہ بنائو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ہی تو تم کو اور ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور ظاہر باطن بے حیائی اور بدکاری ایسی چھوڑو کہ اس کے قریب بھی نہ جائو اور جس جان کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق نہ ماریو۔ انہی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم ان پر عمل کرنے سے عقلمند بنو اور یتیم لڑکا ہو یا لڑکی اس کے بلوغت کو پہنچنے تک اس کے مال کو ہاتھ بھی نہ لگائو۔ مگر کسی اچھی طرز سے جس میں اس کا بھی نفع ہو یعنی اس کے مال کی تجارت کرو جس سے اس کو بھی نفع ہو‘ اور تم بھی بحالت ضرورت کچھ لے لو۔ اور ماپ اور تول انصاف سے پورا کیا کرو۔ یہ نہیں کہ ایسا پورا کہ جس کو حقیقی مساوات کہیں جو انسانی طاقت سے بالا ہو‘ اس کا تم کو حکم نہیں ہوتا کیونکہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیا کرتے پس تم عرفی مساوات کردیا کرو۔ جو ہر جنس کے مناسب ہو۔ مثلاً گیہوں کی مساوات الگ ہے اور چاندی سونے کی الگ پس ہر چیز کو مساوات سے دیا کرو۔ اور جب کوئی بات کہنے لگو تو انصاف سے کہو۔ خواہ کوئی فریق تمہارا قریبی بھی کیوں نہ ہو اور تمہاری راست بیانی سے اس کا ضرر بھی ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے نام سے دئیے ہوئے وعدے پورے کرو۔ انہی باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور جانو کہ یہی میرا یعنی اللہ تعالیٰ سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کی تابعداری کرو اور دیگر راستوں کی تابعداری نہ کرو ورنہ تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے الگ کر کے تتر بتر کردیں گے اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو اور ایک بات یہ بھی یاد رکھو کہ ہم نے قرآن سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی تاکہ نیکوں پر نعمت پوری کریں۔ اور ہر ایک امر مذہبی کی تفصیل اور ہدایت اور عمل کرنے والوں کے لئے رحمت تاکہ وہ بنی اسرائیل اسے پڑھ کر اپنے پروردگار کی جزا و سزا پر ایمان لائیں اور دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں کی ذرہ ذرہ نیک و بد جزا و سزا دے گا پھر بعد ازاں کج روئوں نے دین الٰہی کو بگاڑ کر اپنی تحریفات کو اس میں داخل کردیا تو ہم نے کئی ایک نبی بغرض تبلیغ احکام بھیجے اور یہ بابرکت کتاب قرآن شریف ہم نے نازل کی پس تم اس کی اتباع کرو تاکہ تم پر رحم ہو۔ اس بابرکت کتاب کا الگ کر کے اتارنا ایک تو اس لئے تھا کہ لوگ بےدینوں اور کج روئوں کی غلطی سے بچ جائیں دوم اس لئے کہ تم عربی لوگ کہیں بوقت محاسبہ کہنے لگو کہ کتاب آسمانی تو ہم سے پہلے صرف دو گروہوں یہود و نصاریٰ کو ملی تھی اور ہم کو مطلق ان کی تعلیم سے آگاہی نہ تھی کیونکہ ایک تو وہ ہماری زبان میں نہ تھی دوئم اہل کتاب ہند کے براہمنوں کی طرح کسی کو بتلاتے نہ تھے یا کہنے لگو کہ ہماری گمراہی کا سبب یہ تھا کہ ہم کو کتاب نہیں ملی تھی اور اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان یہود و نصاریٰ سے کئی درجہ بڑھ کر ہدایت یاب ہوتے۔ لو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی دلیل اور ہدایت اور رحمت یعنی کتاب اللہ تعالیٰ آچکی ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حکموں کو جو قرآن کی معرفت آئے ہیں جھٹلائے گا اور ان سے روگردانی کرے گا وہ بڑا ہی ظالم ہے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ سن رکھو جو لوگ ہمارے حکموں سے روگردانی کرتے ہیں ہم ان کی روگردانی کی وجہ سے برے عذاب کی سزا ان کو دیں گے کہو تو اب کیا عذر کریں اور ایمان کیوں نہیں لاتے پس ان کو یہی انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا خود اللہ تعالیٰ چل کر ان کے سمجھانے کو آوے اور خود آکر کہے کہ آئو مان جائو میرے حکموں پر ایمان لائویا شاید اس بات کی انتظار ہے کہ تیرے رب کے عذاب کے نشانوں میں سے کوئی نشان آوے تو مانیں گے مگر یاد رکھیں جس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نشانوں میں سے کوئی نشان آئے گا تو کسی شخص کو جو پہلے اس سے ایمان نہ لایا ہوگا یا ایمان لا کر اپنے ایمان کے وقت کوئی کار خر نہ کیا ہوگا۔ اس کا اس وقت میں ایمان لانا اور اطاعت کا اظہار کرنا ہرگز نفع نہ دے گا تو کہہ دے اگر تم اسی روز کے انتظار میں ہو تو منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں اور یہ بھی سن رکھ کہ جن لوگوں نے دین میں پھوٹ ڈال رکھی ہے اور الگ الگ جماعتیں بنے ہوئے ہیں اصل دین الٰہی کو چھوڑ کر اپنے اپنے راگ الاپتے ہیں اے رسول ! تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں یہ نہیں کہ تجھے ان کی وجہ سے باز پرس ہو ان کا اختیار سب اللہ تعالیٰ کو ہے پس وہی ان کو ان کے کاموں سے خبر دے گا۔ جس شخص نے نیک کام کیا ہوگا اس کو تو دس گنا ثواب ملے گا اور جس نے برائی کی ہوگی اس کو اسی قدر سزا ملے گی اور ان پر زیادتی ہو کر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا۔ تو کہہ تمہارے جھگڑوں سے مجھے مطلب نہیں مجھے تو میرے پروردگار نے سیدھی راہ دکھائی ہے جو مضبوط دین ابراہیم (علیہ السلام) یک رخے کا طریق ہے اور وہ مشرکوں میں نہ تھا۔ تجھ سے اس دین کی ماہیت پوچھیں تو کہہ سنو ! خلاصہ اور مغز اس دین کا یہ ہے کہ تم دل سے اللہ تعالیٰ کے ہو رہو جیسا کہ میں ہو رہا ہوں۔ تو کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سب جہان والوں کا پالنہار ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہی مجھ کو حکم ملا ہے اور یہ نہ سمجھو کہ میں اس کا کسی طرح سے ساجھی ہوں جیسا کہ بعض نادانوں نے اپنے نبیوں کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھ رکھا ہے میں بھی کچھ ایسے رتبہ کا مدعی ہوں نہیں ہرگز نہیں میں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں خلاصہ میرے مذہب کا یہ ہے سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش رہ تو کہہ جب کہ میرا یہ اصول ہے جو تم سن چکے ہو تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو اپنا معبود اور پروردگار سمجھوں؟ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی سب کا پالنہار ہے اور یہ سن رکھو کہ جو شخص برا کام کرتا ہے وہی اس کی سزا اٹھائے گا۔ اور یہ ہرگز نہ ہوگا کہ کوئی اس کے بوجھ کو اٹھانا تو کیا ہلکا بھی کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی جان کسی جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔ بس تم نے اپنے حقیقی پالنہار کی طرف پھر کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے اختلافی امور کے تصفیہ کی خبر دے گا۔ جانتے ہو وہ کون ہے وہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا۔ ایک کے بعد دوسرا قائم مقام ہوجاتا ہے اور ایک کو دوسرے پر کسی نہ کسی وجہ سے درجوں میں برتری دے رکھی ہے تاکہ جو تم کو دیا ہے اس میں تم کو آزماوے اور تمہاری کرتوتوں کا سب کے سامنے اظہار کرے اس کی تاجیل اور ڈھیل سے غرہ نہ ہوئو۔ اللہ تعالیٰ سزا دینے لگے۔ تو جلد سزا دے سکتا ہے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ اس میں حلم بھی اعلیٰ درجہ کا ہے اور وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان بھی ہے الانعام
150 الانعام
151 الانعام
152 الانعام
153 الانعام
154 الانعام
155 الانعام
156 الانعام
157 الانعام
158 الانعام
159 الانعام
160 الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 الانعام
164 الانعام
165 الانعام
0 الاعراف
1 (1۔10) سورۂ اعراف۔ میں ہوں اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا صادق القول پس سنو ! یہ کتاب ! قرآن تیری طرف اس لئے اتاری گئی ہے کہ اس کے ذریعہ تو بدکاروں کو عذاب الٰہی سے ڈراوے اور ایمانداروں کے لئے نصیحت ہو۔ پس تو اس سے دل تنگ نہ ہو۔ ) حروف مقطعات کی بحث جلد اول میں دیکھو۔ شان نزول ! (کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ) مخالفوں کی کثرت اور موافقوں کی قلت دیکھ کر سست ہوجانا انسانی طبیعت کا تقاضا ہے اس کے موافق آں حضرت کے قلب مبارک پر بھی کبھی صدمہ گذرا ہو تو آپ کی تسلی و تشفی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم ( جو مانیں سو مانیں جو نہ مانیں نہ مانیں ہاں تو ان کو سنا دے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر قرآن میں اترا ہے اس پر چلو اور اس کے سوا اور مصنوعی دوستوں اور بناوٹی دنیا ساز پیروں اور راہ مار گدی نشینوں کی چال نہ چلو۔ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو اور ان کے سوا کسی کے قول کو خواہ کیسا ہی عالی مرتبت کیوں نہ ہو بغیر موافقت شرع کے مذہبی امور میں واجب الاتباع نہ جانو مگر تم بہت ہی کم سوچتے اور نصیحت نہیں پاتے ہو۔ اور ہماری طرف سے یہ بھی سنا دے کہ ہم بگڑے ہوئوں کو دوسری طرح بھی درست کرلیا کرتے ہیں دیکھو ہم نے کئی ایک بستیاں تباہ کردیں جب انہوں نے انبیاء سے مقابلے کئے تو راتوں رات یا دن کو سوتے وقت ان پر ہمارا عذاب آیا۔ پھر جب ہمارا عذاب ان پر آپہنچا تو بجز اس کے کچھ نہ کہہ سکے کہ بیشک ہم ہی ظالم ہیں ہم نے دانستہ سچے لوگوں کا مقابلہ کیا۔ جس کا نتیجہ ہم کو ملا۔ پس جن لوگوں کی طرف رسول بھیجے گئے تھے ان لوگوں سے اور رسولوں سے بھی ہم پوچھیں گے کہ بتلائو تم نے ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح سے برتائو کیا۔ پھر اگر وہ اپنی بدکرداریوں سے منکر ہوئے تو ہم ان کو اپنے علم سے واقعات سنائیں گے جو واقعی ہم کو معلوم ہیں کیونکہ ہم سب کو جانتے ہیں اور ہم کسی واقعہ سے غائب نہیں۔ بلکہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے اس روز ان کو قدر عافیت معلوم ہوگی جس روز سب کچھ ان کے سامنے ہوگا۔ اور اعمال کا اندازہ بھی اس روز برحق ہے کہ جن لوگوں کے نیک اعمال وزن میں زائد ہوں گے وہی پاس ہوں گے اور جن کے نیک اعمال کم ہوں گے ہماری حکم عدولی کی وجہ سے انہوں ہی نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا ہوگا جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا ہوگا۔ ہم (اللہ) نے تو تم سے احسان کرنے میں کمی نہیں کی دیکھو تو ہم نے تم کو پیدا کیا اور ہم ہی نے تم کو زمین میں جگہ دی اور تمہاری معاش کے ذرائع اس میں بنائے ایک دوسرے کا محتاج ہے تجارت پیشہ دور دراز ملکوں سے مال لاتے ہیں تو دوسروں کی حاجت پوری ہوتی ہے لوگ ان سے خریدتے ہیں۔ تو ان کی معاش چلتی ہے۔ غرض ایک کو دوسرے کا محتاج بنا رکھا ہے۔ غور کرو تو کیسا انتظام ہے مگر تم کچھ ایسے ناسمجھ ہو کہ بہت ہی کم شکر گذاری کرتے ہو۔ الاعراف
2 الاعراف
3 الاعراف
4 الاعراف
5 الاعراف
6 الاعراف
7 الاعراف
8 الاعراف
9 الاعراف
10 الاعراف
11 (11۔25) اور سنو ! ہم ہی نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ مدت دراز تک اس کا خمیر ہوتا رہا پھر ہم ہی نے تمہاری یعنی تمہارے باپ آدم کی صورت مناسب بنائی۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو تعظیمی سجدہ یعنی سلام کرو پس سب نے کیا۔ مگر ابلیس تعظیم کرنے والوں میں نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں نے جب تجھے حکم دیا تو پھر تجھے تعظیم کرنے سے کس نے روکا۔ کیا یہ تعظیم شرک تھی؟ بولا شرک تو نہیں البتہ وجہ یہ ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ روشن سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آگ مٹی سے لطیف اور پاک شفاف عنصر ہے۔ پس میں باوجود افضل ہونے کے مفضول کی تعظیم کیوں کروں؟ چونکہ یہ قیاس اس کا مقابلہ نص کے تھا جو کسی طرح سے جائز نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا پس تیری سزا یہ ہے کہ تو اس جماعت سے نکل جا۔ کیونکہ ان میں رہ کر تجھے ایسی شیخی بگھارنی مناسب نہ تھی پس تو نکل جا کیونکہ تو ذلیل ہے اور یہ ایک معزز جماعت ہے۔ بے حیا نے پھر بھی شیخی بھگارنی نہ چھوڑی۔ بولا چونکہ آدم کی ذریت پھیلے گی اور ان کے نیک و بد کا حساب بھی ایک روز ہوگا پس ان کے جی اٹھنے کے دن تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تجھے مہلت ہے۔ بولا چونکہ تو نے مجھے ان کی وجہ سے اپنی جناب سے درکایا ہے میں ان کو روکنے کے لئے تیری سیدھی راہ میں بیٹھوں گا یعنی ان کو تیری طرف آنے سے روکوں گا پھر ان کے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں سے آئوں گا یعنی ایک ایک آدمی کے بہکانے کو اس کے باپ دادا‘ بیٹے بیٹیاں‘ دوست آشنا وغیرہ کو ذریعہ بنائوں گا۔ غرض کئی ایک طرح کے اسباب بہم پہنچائوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا لغو باتیں نہ بنا ذلیل و خوار ہو کر اس جماعت سے نکل جا۔ سن رکھ تو ہو یا کوئی جو ان میں سے تیرے پیچھے ہوگا اور تیرے دام میں پھنسے گا میں تم سب کو جہنم میں ڈالوں گا پس چپ رہ اور چلا جا اور آدم کو حکم دیا کہ اے آدم تو اور تیری بیوی باغ میں بسو ) اس امر کے متعلق کہ یہ باغ زمین پر تھا یا آسمان پر کوئی آیت یا حدیث مرفوع نہیں ہے البتہ ایک حدیث میں بنی اسرائیل سے روایت کی اجازت آئی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج یعنی بنی اسرائیل سے صحیح روایت جو قرآن سے کسی طرح مخالف نہ ہو بیان کرلیا کرو۔ اگر اس اجازت پر بنا کر کے موجودہ توریت سے اس کا پتہ دریافت کریں تو باغ عدن معلوم ہوتا ہے چنانچہ موجودہ توریت کی پہلی کتاب پیدائش باب دوم کا صریح مضمون ہے۔ (منہ) ( اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھائو اور اس درخت وغیرہ کے نزدیک نہ جانا ورنہ تم نافرمانوں سے ہوجائو گے پھر شیطان نے ان دونوں خاوند بیوی کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان سے مخفی تھیں ان کے سامنے برہنہ کر دکھاوے کیونکہ اس درخت کا نام نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔ اسی کے کھانے سے ان کو سمجھ آئی کہ ہم برہنہ ہیں ہم کو ننگا نہ رہنا چاہئے اور شیطان نے بہکانے کو ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس درخت کے پھل کھانے سے تم کو محض اس لئے منع کیا ہے کہ تم اس کے کھانے سے فرشتے نہ بن جائو یا ہمیشہ اسی باغ میں نہ رہ جائو کیونکہ اس درخت کی تاثیر ہی یہی ہے کہ جو کوئی کھاتا ہے وہ یا تو فرشتہ بن جاتا ہے یا دائم اسی جنت میں اقامت گزین ہوتا ہے اور اس امر پر یقین دلانے کو ان سے قسم کھا کر کہتا رہا کہ واللہ تعالیٰ باللہ تعالیٰ میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں پھر دھوکہ سے ان کو پھسلا ہی لیا۔ پس اس درخت کو انہوں نے کھایا ہی تھا کہ ان کی شرمگاہیں ان کو دکھائی دینے لگیں۔ اور جب وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئے جاتے تھے اور وہ باغ کے چوڑے چوڑے پتے اپنے اوپر لپیٹنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کیا میں نے تم کو اس درخت کے پھل کھانے سے منع نہ کیا تھا؟ اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے وہ دونوں خاوند بیوی اپنے قصور کے معترف ہوئے اور بولے اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور نہ رحم کرے گا تو یقینا ہم زیاں کاروں سے ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے کہا اس باغ سے اترے رہو تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت معین یعنی موت تک ٹھکانہ اور سامان ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اسی زمین میں تم زندگی گذارو گے اور اسی میں مرو گے اور مر کر اسی میں سے نکالے جائو گے یہ تو آدم کی سرگذشت تھی الاعراف
12 الاعراف
13 الاعراف
14 الاعراف
15 الاعراف
16 الاعراف
17 الاعراف
18 الاعراف
19 الاعراف
20 الاعراف
21 الاعراف
22 الاعراف
23 الاعراف
24 الاعراف
25 الاعراف
26 (26۔41) اب تم اے بنی آدم اپنی بھی سنو ! دیکھو ہم (اللہ) نے تم پر کتنا احسان کیا کہ تمہاری پردہ پوشی کی حاجت سمجھ کر تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہیں ڈھانپتا ہے اور اس ظاہری شرمگاہ کے علاوہ ایک اندرونی شرمگاہ بھی ہے جس کا علاج پرہیزگاری ہے دراصل یہی پرہیزگاری ہی سب لباسوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ ظاہری لباس تو چند روزہ آرام دہ اور پردہ پوش ہیں اور پر ہزیگاری کا لباس دائمی فرحت بخش ہے یہ پرہیزگاری احکام الٰہی کی تعمیل سے ملتی ہے۔ یہ واقعات ہم ان کو سناتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت یاب ہوں۔ یہ بھی ان کو سنا اے بنی آدم ہوش سے رہئیو۔ تم سن چکے ہو کہ شیطان نے تمہاری بابت قسم کھائی ہوئی ہے کہ ضرور ہی تم کو گمراہ کرے گا۔ پر دیکھنا کہ تم کو سیدھی راہ سے نہ بہکاوے جیسا تمہارے ماں باپ آدم و حوا کو جنت سے اس نے نکالا تھا۔ ان دونوں سے لباس اتارتا تھا کہ ان کی شرمگاہیں انہیں برہنہ کر کے سامنے دکھا دے یعنی ایسے کام ان سے اس نے کرائے کہ وہ کام اس بے عزتی اور ذلت کے موجب ہوئے۔ بالکل چوکنا ہو کر اس سے رہیو۔ کیونکہ وہ اور اس کی ذریت تم کو ایسی گھات سے دیکھ رہے ہیں کہ اس گھات سے تم ان کو نہیں دیکھتے۔ باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی جو لوگ سچی تعلیم کو نہیں مانتے ہم شیاطین کو ان کے دوست بنا دیتے ہیں کہ ان سے من مانی حرکتیں کرائیں اور آخر ان کو مستوجب سزا بنائیں۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ جی کھول کر بدکاریاں کرتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ جب کوئی کام بے حیائی کا کرتے ہیں جیسے ننگے ہو کر کعبہ کا طواف یا جیسے ہندوستان کے ہندو ہولیوں کے ایام وغیرہ میں کرتے ہیں تو منع کرنے پر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی پر پایا ہے کیا ہم ایسے سپوت ہیں کہ اپنے باپ دادا کے طریق کو چھوڑ دیں حالانکہ وہ ہم کو اس پر لگا گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو ہمارے باپ دادا بھلا ایسا کیوں کرتے کیا وہ احمق تھے کیا ان کو سمجھ نہ تھی کیا وہ دیندار نہ تھے۔ کیا وہ سب کے سب جہنمی تھے غرض اسی طرح کی بہت سی طمطراقیاں کرتے ہیں تو ان سے کہہ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کرنے کا حکم نہیں دیتا جیسے کہ تم کہہ رہے ہو۔ کیا جن باتوں کو تم نہیں جانتے وہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہو۔ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس بے حیائی (برہنہ طواف کرنے) کا حکم دیا ہے۔ یہ تو سراسر افترا ہے۔ تو کہہ آئو میں تم کو بتلائوں اللہ تعالیٰ نے کن باتوں کا تم کو حکم دیا ہے میرے پروردگار نے سب سے اول ظاہر و باطن تہذیب اور شائستگی کا حکم دیا ہے اور اس سے بعد یہ حکم ہے کہ ہر نماز کے وقت مستعد ہوجایا کرو اور دلی اخلاص سے اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے پکارا کرو۔ جی میں اس بات کا خیال رکھو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم کو اکیلے تن تنہا پیدا کیا ہے اسی طرح تم اس کی طرف پھیرے جائو گے اس روز کی فکر کرنی تم کو ضروری ہے باقی باتیں تو خیر گزر جائیں گی جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم کو اکیلے اکیلے پیدا کیا اسی طرح تم اس کی طرف اکیلے اکیلے لوٹو گے تم میں سے ایک فریق کو ہدایت کی ہے۔ وہ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور ایک جماعت کو ان کی بد راہی کی وجہ سے گمراہی چمٹ رہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا دوست اور حمائتی بنا رکھا ہے اور ان کے بہکانے سے جو برے کام کرتے تھے کئے اور الٹے اپنے آپ کو ہدایت یاب بھی جانتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی تم دو گروہ ہو گے اور اپنے اپنے اعمال کا ثمرہ پائو گے اسی لئے تم سب کو کہا جاتا ہے اے آدم کے بیٹو ! مشرکوں کی طرح بدتہذیب نہ بنو) تہذیب کے معنے میں انصاف بھی داخل ہے۔ ( کہ ننگے برہنہ طواف کرنے لگو۔ بلکہ نماز کے وقت اپنی سجاوٹ کا لباس پہنا کرو جس سے ایک شریف بھلے مانس معلوم ہو۔ یہ بھی ضرور نہیں کہ اس قدر زینت کرو کہ حد سے بڑھ جائو نہیں بلکہ مناسب لباس پہنو اور کھائو پیو اور فضول خرچی اور اسراف کسی کام میں نہ کرو کسی حال میں حد سے نہ بڑھو۔ اللہ تعالیٰ کو مسرف اور حد سے بڑھنے والے کسی طرح نہیں بھاتے تو ان سے کہہ کہ اللہ تعالیٰ کو دلی اخلاص پسند ہے ظاہری زینت کا ترک کرنا اس کا حکم نہیں بھلا جس زینت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا اس کو اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے؟ پس خلاصہ یہ کہ انسان کی فطری خواہشات کا روکنا کوئی دینداری کی بات نہیں اگر فطری خواہشات کا اجراء اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوتا تو وہ انسان میں ایسی خواہشات پیدا کیوں کرتا۔ تم نے نہیں سنا کہ سعدی مرحوم نے کیا کہا ہے ” درویش صفت باش کلاہ تتری دار“ ہاں یہ ضروری ہے کہ خواہشات نفسانی کے پورا کرنے میں شریعت کے تابعدار ہو تاکہ ان نعمتوں سے آخرت میں محروم نہ ہوجائو کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں تو ایمانداروں کے لئے مشترک ہیں کافر بھی ان میں شریک ہیں مگر قیامت کے روز خاص کر ایمانداروں کے لئے ہی ہوں گی کافروں کے حق میں حرام۔ پس تم سمجھو اور غور کرو اسی طرح ہم علمداروں کے لئے اپنے احکام مفصل بیان کیا کرتے ہیں کہ وہ بغور نتیجہ پر پہنچیں تو ان سے کہہ کہ زیب و زینت تو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے مباح کی ہوئی ہے اسے تو حرام کہنا اور جائز طور پر بلانیت تکبر و فخر اس کا استعمال منع کرنا صحیح نہیں۔ میرے پروردگار نے صرف ظاہر و باطن کی بے حیائی کو حرام کیا ہے یعنی خلوت جلوت میں حرام کاری اور گناہ دروغ گوئی وغیرہ اور ناحق کی ایک دوسرے پر زیادتی کرنی اور اللہ تعالیٰ کا ساجھی ان چیزوں کو بنانا جن کے ساجھی بنانے کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری یہ سب حرام ہیں اور یہ بھی حرام ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نسبت وہ باتیں کہنے لگو جو خود تم کو بھی یقینا معلوم نہیں صرف سنی سنائیں اٹکل پچو مارتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں فلاں شخص اس کا ساجھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پس جو تجھے حکم پہنچتا ہے ان کو سنا دے اور اگر اس کے مقابلہ میں حسب عادت عذاب کی جلدی چاہیں تو ان کو کہہ دے کہ ہر ایک قوم کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ایک وقت مقرر ہوتا ہے پھر جب ان کا وقت آلگتا ہے نہ وہ اس سے گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اس لئے میں (اللہ) نے پہلے ہی حکم دے رکھا ہوا ہے کہ اے آدم کے بیٹو ! اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے میرے رسول آویں جو تم کو میرے احکام سناویں۔ تو سنو ! جو ایمان لائیں گے اور صلاحیت اختیار کریں گے ان پر نہ تو خوف ہوگا۔ اور نہ کسی نقصان اعمال سے رنجیدہ اور غمزدہ ہوں گے اور جو لوگ ہمارے حکموں سے انکاری ہوں گے اور تکبر کریں گے وہی جہنمی ہو کر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے پس تم خود ہی بتلائو کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افترا کرے یعنی جھوٹا دعویٰ نبوت کرے اور الہام کا مدعی ہو یا اس کے حکموں کو جھٹلاوے جیسے یہ لوگ قرآن کے منکر ہیں تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہے؟ یقینا نہیں۔ انہی کو الٰہی کتاب میں سے عذاب کا حصہ پہنچے گا اور جب ان کے پاس ہمارے فرستادہ فرشتے ان کو فوت کرنے کے لئے آویں گے تو وہ ان کے ذلیل کرنے کو کہیں گے اور پوچھیں گے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا بوقت حاجت بلایا کرتے تھے وہ آج کدھر چلے گئے؟ وہ کہیں گے آج تو وہ ہم سے ایسے غائب غُلّا ہوگئے کہ ہماری سنتے ہی نہیں اور اپنے آپ پر خود گواہی دیں گے اور اقرار کریں گے کہ بے شک ہم کافر تھے اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جو تم سے پہلے جن اور انسان کفر میں گذر چکے ہیں انہیں میں آگ کے اندر تم بھی داخل ہوجائو۔ وہاں دوزخ میں یہ حال ہوگا کہ جب کبھی کوئی قوم اس میں جائے گی تو اپنے ساتھ والوں کو جن کی صحبت بد سے بگڑی ہوگی لعنت کرے گی حتیٰ کہ جب سارے ہی اس میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے پہلوں کو یعنی جو دنیا میں پیچھے آئے ہوں گے اور پہلے لوگوں کی غلط راہ پر چلے ہوں گے ان کے حق میں کہیں گیا للہ تعالیٰ! تو جانتا ہے انہوں نے ہی ہم کو گمراہ کیا تھا کیونکہ اگر یہ بدطریق نہ چھوڑ جاتے تو ہم کیوں گمراہ ہوتے۔ پس تو ان کو آگ میں ہم سے دگنا عذاب دے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا۔ تم سب کو دگنا دگنا ہے پہلوں کو تو اس لئے کہ وہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے برا طریق اپنے پیچھے چھوڑ گئے پچھلوں کو اس لئے کہ ایک تو انہوں نے برے کام کئے دوم اس لئے کہ بے سوچے سمجھے پہلے لوگوں کی بدروش لے بیٹھے پس درحقیقت تم دونوں کو دہرا عذاب ہے لیکن تم ایک دوسرے کی تکلیف نہیں جانتے۔ اور پہلے لوگ جب پچھلوں کی یہ عرضی سنیں گے تو پچھلوں سے کہیں گے کہ تم کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں کہ اس کے سبب سے تم کو تخفیف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا جواب بھی تم نے سن ہی لیا ہے پس اپنا سا منہ لے کر اپنی بدکاری کے عوض عذاب کا مزہ چکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہوا ہے۔ کہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے انکاری ہوں اور تکبر کریں بعد مرنے کے ان کی روحوں کے لئے نہ تو آسمان کے دروازے کھلتے ہیں کہ باعزاز ان کی آئو بھگت ہو اور نہ وہ جنت میں داخل ہونے پاتے ہیں یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائے یعنی جسات یہ مشکل بلکہ محال ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے اسی طرح ہمارے حکموں کی تکذیب کرنے والوں کا جنت میں جانا عادۃً محال ہے اسی طرح مجرموں اور نالائقوں کو ہم سزا دیا کرتے ہیں ان کے لئے آگ ہی کا بچھونا ہوگا اور آگ ہی کا اوپر سے اوڑھنا ہم اسی طرح ظالموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں الاعراف
27 الاعراف
28 الاعراف
29 الاعراف
30 الاعراف
31 الاعراف
32 الاعراف
33 الاعراف
34 الاعراف
35 الاعراف
36 الاعراف
37 الاعراف
38 الاعراف
39 الاعراف
40 الاعراف
41 الاعراف
42 (42۔58) اور جو لوگ ایمان لائے اور بعد ایمان عمل صالح کرتے رہے۔ جس قدر ان سے ہوسکا کیونکہ ہم کسی نفس کو اس کی ہمت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتے کہ ایک غریب آدمی کو جس کا اپنا ہی گذارہ بصد مشکل چلتا ہو سینکڑوں ہزاروں کی خیرات کا حکم دیں بلکہ اس کی حسب حیثیت ہی بتلایا کرتے ہیں۔ پھر جو لوگ حسب حیثیت ہدایت پر عمل کریں وہی جنتی ہیں۔ وہی اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور ہم ان کو علاوہ اور نعمتوں اور آسائشوں کے یہ بڑی نعمت دیں گے کہ دنیا کی باہمی کدورتوں سے ان کے سینے صاف کردیں گے جنت میں ایسے ایک دل ہو کر رہیں گے کہ رنجش اور کدورت کا نام و نشان بھی نہ ہوگا ان کے مکانوں کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی بڑے مزے میں مہذبانہ زندگی گذاریں گے اور خوشی میں کہیں گے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کو ہیں جس نے ہم کو اس کام کی راہ نمائی کی تھی اور اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم کبھی بھی راہ نہ پا سکتے ہمارے پروردگار کے رسول سچی تعلیم اور سچے وعدے لے کر آئے تھے جن کا یہ نتیجہ ہوا کہ آج ہم اس عیش میں گذار رہے ہیں اور ان کو ایک پکار آئے گی کہ یہ جنت تمہارے نیک عملوں کے عوض میں محض فضل الٰہی سے تم کو ملی ہے لو اس میں اب ہمیشہ رہو اور کبھی ایسا بھی ہوگا کہ دل لگی کرنے کو جنت والے جہنم والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہم سے جو اللہ تعالیٰ نے نیک عملوں پر وعدہ فرمایا تھا ہم نے تو اسے درست پایا۔ کیا تم نے بھی بدکاریوں پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ٹھیک پایا ہے یا نہیں وہ دوزخ والے کہیں گے ہاں بیشک ہماری بھی بری گت ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے ہماری کوئی سفارش کرو۔ اہل جنت کے دلوں میں کسی طرح کی رقت اور مہربانی ہونے کو ہوگی کہ اتنے میں ایک پکارنے والا پکار دے گا کہ ان ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور اس میں بے جا اعتراضات کرنے کو کجی سوچا کرتے تھے۔ اور جو کچھ کرتے تھے محض اپنے مشن کو راضی کرنے کے واسطے کرتے تھے ورنہ دراصل یہ آخرت کی زندگی سے منکر تھے تم ان پر رحم کا خیال نہ کرو پس وہ پیچھے ہٹ رہیں گے اور ان دونوں طریقوں کے درمیان ایک روک ہوگی جس سے ایک فریق دوسرے فریق کی اوٹ میں ہوجائے گا۔ اور اعراف پر یعنی جنت دوزخ کی درمیانی دیوار پر چند لوگ ہوں گے جن کو ہنوز داخلہ جنت کا حکم نہ ہوا ہوگا وہ ہر ایک فریق کو نشانوں سے پہچانیں گے مسلمانوں کو ان کی پیشانیوں کی سفیدی سے اور کافروں کو ان کی تیرگی اور سیاھی سے اور جنت والوں کو بڑے ادب اور تعظیم سے سلام علیکم کہہ کر پکاریں گے خود ابھی تک داخل جنت نہ ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ضرور ہوں گے اور جب ان کی نظر بائیں طرف دوزخیوں پر کہیں جا پڑے گی تو ان کی بری حالت دیکھ کر بے چارے جھٹ سے کہیں گے اے ہمارے مولا ! تو ہم کو ان ظالموں کی قوم کے ساتھ نہ کیجیو ! اور اعراف والے یعنی وہ لوگ جو بسبب کمی اعمال نیک کے ہنوز جنت میں نہ گئے ہوں گے دوزخیوں کو بھی جن کو ظاہری متکبرانہ نشانوں سے پہچانتے ہوں گے بلا کر کہیں گے نہ تو تمہارے جتھے اور نہ حمایتی کچھ کام آئے اور نہ تمہارا وہ زور اور مال جس کی وجہ سے تم شیخیاں بگھارا کرتے تھے۔ ذرا دیکھو تو یہی غریب لوگ ہیں جن کے حق میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں جو ہمارا دست نگر کر رکھا ہے آخرت میں بھی انکو رحمت الٰہی سے بہرہ ور نہ کرے گا۔ لو تم تو یہیں آگ میں پھنسے جھلس رہے ہو اور ان کو اجازت ہوچکی ہے کہ جنت میں داخل ہوجائو نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم کسی بات سے غمگین اور رنجیدہ ہو کے اس بات کو سن کر جنتی تو خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں گے اور جہنمی اپنی دنا کی صاحب سلامت جتلا کر جنتیوں سے کہیں گے ہم تو جلے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ا ہم پر قدرے پانی تو ڈالو۔ یا جو اللہ تعالیٰ نے تم کو رزق کی فراغت اور آرام دیا ہوا ہے اس میں سے کچھ ہم کو عنایت کرو۔ جنتی کہیں گے ہم مجبور ہیں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے یہ دونوں نعمتیں روک رکھی ہیں اور ہمیں منع فرما دیا ہے اس لئے ہم ان میں سے تم کو کچھ دے نہیں سکتے۔ کون کافر؟ جنہوں نے اسلام کے متعلق اپنا طرز عمل ہنسی اور کھیل بنا رکھا تھا جو کچھ منہ پر آتا کہتے جو دل میں آتا کرتے۔ نہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ رسول کی اجازت جیسے ہندوستان کے ہندو جو ہولیوں اور دسہرا کے ایام میں تمام زمانہ کی بدکاریاں کریں اور ان کو دین سمجھیں اور تعزیہ دار مسلمان جو نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں نہ رسول سے شرم کرتے ہیں بلکہ صرف اپنی من مانی باتوں پر چلتے ہیں اور دنیا کی زندگی اور عیش و عشرت سے فریب کھائے ہوئے ہیں پس ان کی سزا بھی یہی ہے کہ ہم (اللہ) ان کو اس روز دوزخ میں دانستہ ایسے بھول جائیں گے یعنی عذاب میں مبتلا رکھیں گے گویا بھولے ہوئے ہیں جیسے یہ اس دن کے پیش آنے کو دنیا میں بھولے ہوئے ہیں اور جس طرح ہمارے حکموں سے انکار کرتے ہیں اب تو ان کی اس غفلت کا کوئی بھی عذر نہیں رہا۔ رسول آچکا ہے اور ہم نے ان کے پاس کتاب بھی پہنچا دی جس کو ہم نے یوں ہی مجمل نہیں چھوڑا بلکہ بڑی سمجھ بوجھ سے اس کو مفصل بیان کردیا اور وہ ماننے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے اور منکروں کے حق میں ہلاکت اور خسارت اب یہ تیرے منکر تو صرف اس کے انجام کے منتظر ہیں کہ کون سا روز ہو کہ قرآن کی بتلائی ہوئی خبروں کے مطابق جزا سزا کا میدان قائم ہو۔ مگر یہ بھی سن رکھیں کہ جس دن اس کا انجام آبھی پہنچا تو جو لوگ اس انجام کو پہلے سے بھولے بیٹھے ہوں گے عذاب کو دیکھ کر صاف کہیں گے۔ ہائے ہم غفلت میں رہے ہمارے پروردگار کے رسول سچی تعلیم لے کر ہمارے پاس آئے تھے مگر ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ پس کوئی ہے کہ اس اڑے وقت میں ہمارا سفارشی ہو۔ کہ ہماری سفارش کرے کہ ہمارے عذاب میں تخفیف ہو یا ہم کو پہلی زندگی میں لوٹا دیا جائے کہ ہم پہلے کئے کے خلاف نیک عمل کریں اور اس بلا سے چھوٹیں اس روز سب کو واضح ہوجائے گا کہ بیشک انہوں نے اپنا آپ نقصان کیا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان کو بھول گئیں۔ بتلائو وہ کیسا دن ہوگا اور کون ان کا حمایتی بنے گا اللہ تعالیٰ پر شرک اور اُبُوَّۃ کے الزام لگانے والو باز آئو اب بھی سمجھ جائو ادھر ادھر غیر معبودوں کے پاس نہ بھٹکتے پھرو۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا پالنہار ایک ہی معبود ہے جس کا نام پاک اللہ تعالیٰ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ روز کی مدت میں پیدا کیا پھر تخت پر بیٹھا یعنی ان پر حکمران ہوا۔ سب کچھ اسی کے قبضہ میں ہے حتیٰ کہ دن کی روشنی کو رات کی ظلمت سے بھی وہی ڈھانپتا ہے دن رات ایک دوسرے کے پیچھے چپکے چپکے گویا تلاش میں لگے ہوئے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو اسی نے اپنے حکم سے پیدا کر کے کام میں لگا رکھے ہیں لوگو ! سن رکھو اسی اللہ واحد نے سب کچھ بنایا ہے اور اسی کا سب اختیار ہے پھر تم کہاں کو جاتے ہو۔ اور کس سے مانگتے ہو؟ کیا تم نے نہیں سنا وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ سے جسے تم مانگتے ہو اولیاء سے یاد رکھو سب اسی کے محتاج ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بابرکات ہے جو سب جہان والوں کا پالنہار ہے۔ بس تم غیروں سے ڈرنا اور مانگنا چھوڑ دو۔ اور اپنے رب ہی سے گڑ گڑا کر چپکے چپکے مانگا کرو پس یہی تمہاری بندگی کی حد ہے کہ انسانی طاقت سے بالا جو حاجت چاہو وہ اسی سے مانگو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اس حد سے گزرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ) کے جو معنی ہم نے کئے ہیں۔ نئے نہیں عربی محاورہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لے اور رعیت پر فرمان شاہی جاری کرے تو کہا کرتے ہیں استوی الملک علی العرش او علے السریر یعنی بادشاہ حکمران ہوا سلطان العلماء شیخ الاسلام ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام جو چھٹی صدی ہجری میں مصر کے نامور علماء سے ہوئے ہیں۔ اپنی کتاب الاشارۃ الی الایجاز فی بعض المجاز میں لکھتے ہیں السادس عشر استواءہ وھو مجاز عن استیلاءہ علے ملکہ وتدبیرہ ایاہ قد استوی بشر علے العراق من غیر سیف و دم مھراق وھو مجاز التمثیل فان الملوک یدبرون مما لکھم اذا جلسوا علے اسرتھم ص ١١٠ یعنی استوی علی العرش کا جملہ مجاز ہے ان معنی میں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں پر حکمران ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی اور آیات صفات کے متعلق ایک عام قانون بتایا ہے کہ ان کے لغوی معنی جاننے کا ہم کو حق حاصل ہے چنانچہ شیخ ممدوح کی عبارت یہ ہے : قال ابن عباس (رض) لیس فی الدنیا مما فی الجنۃ الا الاسماء وھذا تفسیر قولہ اتوابہ متشابھا علٰے احدالاقوال فبین ھذہ الموجودات فی الدنیا وتلک الموجودات فی الاخرمشابھۃ وموافقۃ واشتراک من بعض الوجوہ وفھمنا المراد واجبناہ ورغبنا فیہ وبینہما مباینۃ ومفاصلۃ لا یقدر قدرھا فی الدنیا وھذا من التاویل الذی لا نعلمہ نحن بل یعلمہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ ولھذا کان قول من قال ان المتشابہ لا یعلم تاویلہ الا اللہ تعالیٰ حقا وقول من قال ان الراسخین فی العلم یعلمون تاویلہ حقا وکلا القولین ماثور عن السلف من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان فالذین قالوا انھم یعلمون تاویلہ مرادھم بذلک انھم یعلمون تفسیرہ ومعناہ والافھل یحل لمسلم ان یقول ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماکان یعرف معنے مایقولہ وما یبلغہ من الایات و الاحادیث بل کان یتکلم بالفاظ لایعرف معانیھا ومن قال انہم لا یعرفون تاویلہ ارادوا بہ الکیفیۃ الثابتۃ التی اختص اللہ تعالیٰ بعلمھا ولھذا کان السلف کربیعۃ ومالک بن انس و غرلھا یقولون الاستواء معلوم والکیف مجھول وھذا قول سائر السلف کابن الماجثون والامام احمد بن حنبل وغیرھم و فی غیر ذلک من الصفات فمعنے الاستواء معلوم وھو التاویل التفسیر الذی یعلمہ الراسخون والکیفیۃ ھو التاویل لبنی ادم وغیرھمالذی لا یعلمہ الا اللہ تعالیٰ وکذلک ما وعد بہ فی الجنۃ تعلم العباد تفسیر ما اخبر اللہ تعالیٰ بہ واما کیفیتہ فقد قال اللہ تعالیٰ تعالیٰ فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون و قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الحدیث الصحیح بقول اللہ تعالیٰ تعالیٰ اعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر فما اخبرنا اللہ تعالیٰ بہ من صفات المخلوقین۔ نعلم تفسیرہ ومعناہ ونفہم الکلام الذی خوطبنا بہ ونعلم معنے العسل واللحم واللبن والحریر والذھب والفضۃ ونفرق بین مسمیات ھذہ الاسماء واما حقا ئقھا علٰے ماھی علیہ فلا یمکن ان نعلمہ نحن ولا نعلم حتی تکون الساعۃ (شرح حدیث النزول ص ١٣) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ دنیا کی نعمتوں اور جنت کی نعمتوں میں صرف نام کی مشابہت ہے اور یہی معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول کے واتوابہ متشابھا پس ان دنیاوی نعمتوں اور اخروی نعمتوں میں مشابہت اور اشتراک بعض وجوہ سے ہے اسی وجہ سے تو ہم نے مراد کو سمجھا ہے اور پسند کیا ہے اور ان کی خواہش کرتے ہیں ورنہ دراصل ان میں بہت بڑا فرق ہے جس کا اندازہ دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ تاویل ہے جس کو ہم نہیں جانتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (یعنی جنت کی نعمتوں کی حقیقت کا معلوم کرنا خاصہ الٰہی ہے) اسی واسطے جو لوگ کہتے ہیں کہ متشابہات کے معنے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا قول حق ہے۔ اور جو کہتے ہیں کہ علماء راسخین ان کے معنے جانتے ہیں ان کا قول بھی حق ہے اور دونوں قول سلف صالحین۔ صحابہ۔ تابعین اور تبع تابعین سے نقل ہیں (پھر اس کی تفصیل کرتے ہیں کہ) جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم آیات متشابہات کے معنے سمجھتے ہیں ان کی مراد اس سے لغوی ترجمہ اور لفظی تفسیر ہے ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان یہ کہے۔ کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن آیات اور احادیث کی لوگوں کو تبلیغ کرتے تھے ان کا ترجمہ بھی نہ سمجھتے تھے؟ بلکہ ایسے مہمل الفاظ بولتے تھے جن کے معنے وہ خود بھی نہ سمجھتے ہوں؟ ( ہرگز ایسا نہ ہوسکتا) اور جو لوگ کہتے ہیں کہ علماء راسخین بھی ان آیات کی تفسیر نہیں جان سکے ان کی مراد اس سے وہ کیفیۃ مخصوصہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (نہ کہ لغوی اور لفظی ترجمہ جو ہر ایک سمجھ سکتا ہے) اسی واسطے سلف صالحین مثل ربیعہ اور امام مالک وغیرہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا استوا تو معلوم ہے مگر کیفیت اس کی مجہول ہے۔ تمام سلف صالحین مثل ابن الماجثون اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کا صفات باری میں یہی مذہب ہے (کہ استوا وغیرہ کے لغوی معنے مان کر کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں) پس استواء کے معنے معلوم ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جو تاویل اور تفسیر اس کی علماء راسخین جانتے ہیں (یعنی لغوی اور لفظی ترجمہ وہ معلوم ہوسکتا ہے اور کیفیت مجہولہ سے وہ تاویل مراد ہے جو تمام بنی آدم سے مجہول ہے) جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ (نہ کہ لغوی ترجمہ) اسی طرح جن نعمائے جنت کے ہم کو وعدے دئیے گئے ہیں بندوں کو ان کی تفسیر یعنی لغوی ترجمہ جو اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے معلوم ہے (مثلاً وہ جانتے ہیں کہ انار کے یہ معنی ہیں۔ مگر کیفیت ان کی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ بندوں کے لئے جو نعمتیں مخفی ہیں ان کو کوئی نہیں جان سکتا۔ اور آں حضرت نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی بشر کے دل پر گذریں پس جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہم کو مخلوق کی صفات بتلائی ہیں۔ اس کو تو ہم جانتے ہیں اور جس کلام سے ہم کو مخاطب کیا گیا ہے اس کو ہم بخوبی سمجھتے ہیں اور شہد۔ گوشت۔ دودھ۔ ریشمی لباس سونا اور چاندی وغیرہ کے معنے جن کے ملنے کا ہم کو وعدہ دیا گیا ہے ہم جانتے ہیں اور ان کے مصداق میں تمیز کرسکتے ہیں انار کو آم سے الگ اور خربوزہ کو تربوز سے جدا جانتے ہیں) لیکن ان کی اصل حقیقت کا ہم کو علم حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب تک قیامت نہ قائم ہو۔ ہم اس کو جان نہیں سکتے۔ “ شیخ ممدوح نے اس کلام میں مؤولین اور مفوضین میں مصالحت کرائی ہے اور ان کے دو مختلف طریقوں میں تطبیق دی ہے۔ یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی آیات کے معنے معلوم ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ لغوی معنے ہم کو معلوم ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ان کے معنے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ان لغوی معنے کی حقیقت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی کیفیت ہم کو معلوم نہیں۔ بالکل سچ ہے دور بینان بارگاہ الست جزازیں پے نبردہ اندکہ ہست اللہ اعلم بذاتہ وصفاتہ (منہ) اس لئے تم اس حد کو محفوظ رکھو اور باہمی تعلقات کو عمدگی سے نباہیو۔ اور سچی تعلیم اور حقانی تلقین سے دنیا کی اصلاح ہوئے بعد فساد نہ پھیلائو کہ نئی نئی بدعات نکال کر اصل دین کو مٹائو اور غیروں سے خوف و رجا کرنے لگو۔ خبردار ! ایسی حرکات سے بچو۔ اور خوف اور طمع سے دونوں حالتوں میں اسی اللہ تعالیٰ کو پکارا کرو۔ کیونکہ جو لوگ اسے ہی پکارتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ان نیکوکاروں کے بہت ہی قریب ہوتی ہے۔ کیا تمہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو۔ حالانکہ وہی ذات پاک ہے جو اپنی رحمت سے پہلے سرد ہوائوں کو بارش کی خوش خبری دیتی ہوئیں بھیجتا ہے ایک پر ایک کی تہ لگاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بوجھل بادلوں کو لے اڑتی ہیں تو ہم (اللہ) اس بادل کو خشک بستی کی طرف چلاتے ہیں پھر اس میں سے جہاں مناسب ہوتا ہے بارش اتارتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ ہر قسم کے پھل پھول نکالتے ہیں پس تم ان کو کھائو اور شکر منائو۔ دیکھو جب تم پر بارش کی تنگی ہوتی ہے تو گھبراتے ہو اور جب آسائش ہوتی ہے تو سب حقوق اللہ تعالیٰ بلکہ موت اور جزا سزا سب بھول جاتے ہو۔ سن رکھو جس طرح ہم خشک زمین کو تازہ کردیتے ہیں اور معدوم پہلوں کو موجود کردیتے ہیں اسی طرح مردوں کو قبروں سے نکالیں گے تم کو یہ بتلایا جاتا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور سمجھو کہ برائی اور بھلائی کا نتیجہ یکساں نہیں ہوگا۔ جہاں تک ہوسکے نیک عمل کرو اور بدصحبت سے بچتے رہو مگر نیک دل جو ہوں وہی سمجھتے ہیں جس طرح بارش سے عمدہ زمین کی انگوری ہری بھری نکلتی ہے ناقص اور ردی زمین کی پیداوار ردی ہی نکلا کرتی ہے اسی طرح نیک دل آدمی نصیحت یاب ہوں اور بدطینت الٹے بگڑیں تم نے نہیں سنا کہ باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و درشورہ بوم خس شکر گذار قوم کو سمجھانے کے لئے ہم اپنے احکام بار بار بتلاتے ہیں اور وہی ان سے فائدہ بھی پاتے ہیں الاعراف
43 الاعراف
44 الاعراف
45 الاعراف
46 الاعراف
47 الاعراف
48 الاعراف
49 الاعراف
50 الاعراف
51 الاعراف
52 الاعراف
53 الاعراف
54 الاعراف
55 الاعراف
56 الاعراف
57 الاعراف
58 الاعراف
59 (59۔64) تیری تعلیم توحید سے یہ لوگ اتنے سٹ پٹاتے ہیں کیا تو کوئی نئی تعلیم لایا ہے تجھ سے پہلے ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا پھر اس نے بھی یہی کہا تھا کہ بھائیو ! اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اگر اسی حال میں تمہاری گذری تو تمہارے حال پر مجھے بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے اس وقت بھی نالائق اور بے سمجھ لوگ تھے سب سے زیادہ بے سمجھ مذہبی باتوں میں عموماً مالدار ہوتے ہیں اس لئے اس کی قوم کے سرگروہ بولے ہم تو تیری نہیں مانیں گے کیونکہ ہمارے خیال میں تو تو صریح گمراہی اور غلطی میں ہے جو بزرگوں کی روش سے ہم کو ہٹاتا ہے۔ نوح نے کہا بھائیو ! اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں گمراہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں کہ اس کے پیغام تم کو پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور نہیں تو میرا اس میں کیا فائدہ ؟ میں تو محض تمہاری ہمدردی کرتا ہوں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان باتوں کی اطلاع ہے جن کی تم کو نہیں میں جانتا ہوں کہ غلط عقائد اور کفر و شرک کے خیالات نتیجہ اچھا نہیں دیا کرتے کیا تم اس سیدھی سادھی تعلیم سے منکر ہو اور تعجب کرتے ہو کہ تمہیں میں سے ایک آدمی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے تم کو نصیحت پہنچے تاکہ وہ تمہیں برے کاموں سے ڈراوے اور تم پرہیز گار بنو اور تم پر رحم کیا جائے اتنا مفلن بیان سن کر پھر بھی لوگوں نے اس کو نہ مانا پس ہم نے اس کی دعا کرنے پر اس کو اور اس کے ساتھیوں کو جو بالکل معدودے چند تھے بیڑی میں غرق ہونے سے نجات دی اور جنہوں نے ہمارے حکموں کی تکذیب کی تھی ان کو غرق آب کردیا۔ کیونکہ وہ بدکاریوں میں اندھے ہو رہے تھے الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 الاعراف
64 الاعراف
65 (65۔72) اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو نبی بنا کر بھیجا اس نے بھی یہی کہا تھا کہ اے بھائیو ! اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم برے کاموں پر عذاب الٰہی سے ڈرتے نہیں اس کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے ہم تیری نہیں مانیں گے کیونکہ ہمارے خیال میں تو بے وقوف ہے جو بڑوں کی چال سے مخالف چلتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم تجھ کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہیں کہ تو نے خواہ مخواہ ایک جتھا بنانے کو ایک نئی شاخ نکالی ہے۔ ہود نے کہا بھائیو ! میں بے وقوف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ رب العالمین کا فرستادہ رسول ہوں۔ کہ تم کو اس کے پیغام پہنچائوں اور اگر تم غور کرو تو میں تمہارا حقیقی خیر خواہ ہوں جو برے کاموں سے تم کو روکتا ہوں۔ کیا تم اس بات سے انکاری ہو؟ اور تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم ہی میں سے ایک آدمی کے وسیلے سے تم کو نصیحت پہنچے تاکہ وہ تم کو برے کاموں سے ڈراوے بلکہ اس بات کا شکر ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی کو یاد کرو کہ اس نے تم کو نوح کی قوم سے پیچھے زمین میں ان کا جانشین بنایا اور جسمانی طاقت بھی تم کو اوروں سے زیادہ دی پس تم اس کا احسان مانو۔ تمہارا بھلا ہو اور اس شکر کے عوض وہ تم پر اپنی نعمت فراواں کرے۔ کم بخت بجائے اطاعت کے الٹے یوں بولے کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم لوگ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اور جن معبودوں کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ پس اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو جس عذاب کا ہم کو ڈراوا دیتا ہے ہم پر لے آ۔ ہود نے کہا اگر تمہارا یہی وتیرہ ہے تو سمجھ لو کہ پروردگار کا عذاب اور غضب تم پر آہی چکا۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ مجھ سے محض ان ناموں کی بابت جھگڑتے ہو۔ جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے فرضی مقرر کر رکھے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کی کوئی سند نہیں بتلائی۔ کہیں نہیں بتلایا کہ فلاں بت یا فلاں قبر والا تمہاری کچھ حاجت روائی کرسکتا ہے پس بہتر ہے اب تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ دیکھا جائے گا۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے آخر اس رد و بدل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی رحمت کے ساتھ بچا لیا اور جنہوں نے ہمارے حکموں کی تکذیب کی تھی ان کی جڑ کاٹ دی کہ کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ چھوڑا کیونکہ وہ سچی تعلیم پر ایمان نہ لاتے تھے الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 الاعراف
71 الاعراف
72 الاعراف
73 (73۔84) اور ہم نے ثمودیوں کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول کر کے بھیجا اس نے بھی یہی کہا بھائیو ! اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک واضح دلیل بھی تم کے پاس آئی ہے۔ اگر غور کرو گے تو مفید پائو گے لو یہ میری دعا سے اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے) یہ اونٹنی کیسے پیدا ہوئی تھی اس کی بات کسی آیت یا حدیث میں ثبوت نہیں اتنا تو قرآن کی نصوص سے ثابت ہے کہ اس کی پیدائش میں کچھ عجوبہ امر تھا جو اس کو آیت نبوت کہا گیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (منہ) ( پس اسے چھوڑ دو اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور بغرض ایذا رسانی اسے ہاتھ نہ لگانا۔ ورنہ دکھ کی مار تم کو پہنچے گی اور اس احسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کے بعد تم کو زمین پر نائب بنایا اور زمین میں تم کو جگہ دی اور ڈھب سکھایا کہ تم صاف زمین میں بڑے بڑے محل بنا لیتے ہو اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بناتے ہو پس تم اللہ تعالیٰ کے احسان مانو اور زمین میں ناحق فتنہ و فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اس کی قوم کے متکبر سرگروہوں نے ضعیف لوگوں کو جو ایمان لائے ہوئے تھے کہا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ وہ بولے یقین کا جو کچھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے۔ ان متکبروں نے کہا جسے تم نے بلا سوچے سمجھے مانا ہے ہم اس سے منکر ہیں ہماری سمجھ میں وہ بات نہیں آتی۔ تم تو ظاہر میں بزدل ہو۔ صالح کے ڈرانے سے تم ڈر گئے ہو۔ بڑا ڈر تو وہ اونٹنی کا سناتا ہے۔ سو آج ہم اس کا فیصلہ ہی کئے دیتے ہیں پس انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی اختیار کی اور بولے اے صالح ! اگر تو رسول ہے تو جس بات کا ہم کو ڈراوا دیتا ہے ہم پر لے آ۔ دیکھیں تو کیا ہوتا ہے پس ان کے کہنے کی دیر تھی کہ ان پر زلزلہ آیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے اور دم نکل گیا۔ پس صالح (علیہ السلام) ان کی یہ حالت دیکھ کر ان سے ہٹ گیا اور بولا۔ میری قوم کے لوگو ! افسوس میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچائے اور تمہاری خیر خواہی بھی کی۔ مگر تم ایسے شریر ہو کہ خیر خواہوں کو اپنا دوست نہیں جانتے۔ بلکہ الٹے بگڑتے ہو۔ پس اس کہے کا نتیجہ تم نے پایا۔ اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے رسول کر کے بھیجا۔ اس نے بھی اپنی قوم کو بہت کچھ سمجھایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا۔ اس کے تمام واقعات میں سے وہ واقعہ ضروری قابل تذکرہ ہے جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو لواطت جیسی بے حیائی سے روکنے کے لئے کہا تھا۔ کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو جو تم سے پہلے دنیا کے کسی باشندے نے نہیں کی۔ غضب ہے کہ تم عورتوں کو جو خاص اسی کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں چھوڑ کر لڑکوں سے شہوت رانی کرتے ہو بلکہ تم اسی طرح کئی امور قبیحہ کر کے حد سے بڑھے ہوئے ہو یہ سن کر معقول جواب تو دے نہ سکے اور بجز اس کے کچھ نہ بولے۔ کہ ایک دوسرے کو مخاطب کر کے تمسخر سے کہنے لگے کہ میاں اپنی بستی سے ان نیک آدمیوں کو جو لوط کے تابع ہوئے ہیں نکال دو کیونکہ یہ نیک پاک آدمی ہیں ان کو ہم گنہگاروں میں رہنے سے کیا مطلب۔ پس جب وہ حسد سے ہی متجاوز ہونے لگے تو ہم نے لوط کو اور اس کے تابعداروں کو بچا لیا مگر اس کی عورت اپنی بے فرمانی اور شرارت کی وجہ سے تباہ ہونے والوں میں رہی اور انہیں کی سنگت میں ہلاک ہوئی وہ بھی برباد کئے گئے اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی پس تو غور کر کہ بدکاروں کا انجام کیسا برا ہوا۔ الاعراف
74 الاعراف
75 الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 الاعراف
80 الاعراف
81 الاعراف
82 الاعراف
83 الاعراف
84 الاعراف
85 (58۔102) اور شہر مدین والوں کی طرف ہم نے انہیں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو رسول کر کے بھیجا اس نے بھی یہی تعلیم دی اور کہا بھائیو ! اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آچکی ہے۔ میری سچائی کے نشان تم دیکھ چکے ہو۔ پس تم میں جو شرک اور بت پرستی کے علاوہ ہند کے بنئے بقالوں کی طرح کم تولنے ماپنے کی عادت ہے اسے چھوڑ دو اور ماپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کو سودا سوت کی چیزیں دیتے ہوئے کم نہ دیا کرو۔ دیکھو اس طرح ملک میں بدنظمی اور بے اعتباری پھیل گئ ہے تم ایسا کام نہ کرو اور انتظام درست ہونے کے بعد ملک میں فساد نہ پھیلائو اگر تم کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو یہ کام تمہارے لئے اچھا ہے اس سے مخلوق میں اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بہتر ہے پس اسی پر کاربند رہو۔ اور سنو ! سڑکوں پر ڈرانے دھمکانے کو اور ایمانداروں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے کو اور اس میں بیہودہ سوالات کر کے کجی نکالنے کو نہ بیٹھا کرو یہ بہت بری بات ہے کہ ایک تو تم خود نہیں مانتے دوسرے ماننے والوں کو روکنے کے لئے تم نے مختلف ذرائع نکال رکھے ہیں غریب آدمی ہؤا تو صرف کاروبار اور مقدمہ کی دھمکی دے کر اور اگر ذرا اکڑنے والا ہؤا تو لالچ دے کر اور جو مذہبی مذاق رکھنے والا ہؤا تو شبہات ڈال کر روکتے ہو۔ پس تم یہ وتیرہ چھوڑ دو اور اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ دیندار تھوڑے سے ہیں ہمارے مقابلہ میں کیا کریں گے۔ تو اس وقت کو یاد کرو جب تم ہی تھوڑے سے ہی تھے۔ ) راقم کہتا ہے آج کل کے عیسائی ان تینوں طریق سے بالخصوص متوسط سے کام لیتے ہیں۔ اعاذنا اللہ تعالیٰ منہم۔ ( پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو بہتائیت دی اور تمہاری مردم شماری کو بڑھایا اور اس پر غور کرو کہ مفسدوں کا انجام کیسا برا ہؤا اور اگر اس سے بے چین ہو کہ ایک جماعت تم میں سے میری تعلیم کو جو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آیا ہوں مان چکی ہے اور ایک جماعت نے نہیں مانا۔ جس سے تم دو گروہ ہو کر باہمی اختلاف رائے سے لڑتے جھگڑتے ہو اور ایک دوسرے کو تنگ کر رہے تو ذرہ دیر ٹھہرو اور صبر کرو۔ جب تک اللہ تعالیٰ ہم میں فیصلہ فرماوے اس کا فیصلہ سب پر ناطق ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کا مالک ہے اور وہ سب سے اچھا۔ اور بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اس کی قوم میں سے متکبر سرداروں نے کہا اے شعیب ! ایک نہ ایک دن یہ ہو کر ہی رہے گا ہم تجھ کو اور تیرے ماننے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تم خودبخود ہمارے مذہب اور چال چلن کی طرف لوٹ آئو گے حضرت شعیب نے کہا کیا یونہی ہم تمہارے دین میں آجائیں گے اگرچہ ہم کو ناپسند بھی ہو۔ کچھ شک نہیں کہ اگر ہم تمہارے دین میں یعنی بت پرستی اور شرک میں بعد اس سے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے بچایا ہے لوٹ آئے اور تمہارے برے کاموں میں شریک ہوگئے اور اپنی پہلی بات کی جو ہم کہا کرتے ہیں کچھ پرواہ نہ کی تو صاف ثابت ہوگا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا تھا جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے منع فرماتا ہے گویا ہم اپنی بات کے آپ ہی مکذب ہوئے چونکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر ہم کو پورا یقین ہے اس لئے ہم سے تو ہو نہیں سکتا کہ تمہارے دین میں آجائیں ہاں اللہ تعالیٰ ہی جو ہمارا پروردگار ہے کسی وقت ہمارے حق میں یہ بدبختی بطور سزا چاہے تو اور بات ہے۔ ہمارے پروردگار نے سب کچھ جانا ہوا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں محض اخلاص ہے اسی وجہ سے ہم تم سے مخالف ہو رہے ہیں وہ اپنے مخلص بندوں کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اپنے پروردگار ہی سے دعا مانگتے ہیں کہ مولا ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ فرما کر کیونکہ تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ شعیب کا یہ مستعد اور مضبوط جواب سن کر عام لوگوں کو بہکانے کے لئے اس کی قوم میں سے سرگروہوں نے جو کافر ہوئے تھے غریب مسلمانوں سے بہکانے کو کہا کہ یاد رکھو اگر تم شعیب کے تابع ہوئے اور اس پر ایمان لائے تو تمہاری خیر نہیں تم سخت زیاں کار ہو گے پس وہ لوگ انہی باتوں میں تھے کہ ایک سخت زلزلہ ان پر آیا جس سے وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے یاد رکھو جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا تھا اللہ تعالیٰ کے غضب سے ایسے ہوگئے کہ گویا اس بستی میں کبھی بسے ہی نہ تھے وہ تو تابعداروں کو زیاں کار بتلاتے تھے حقیقت میں جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی۔ وہی زیاں کار ہوئے جب وہ تباہ اور برباد ہوئے تو پھر شعیب ان سے پھرا اور میدان میں آ کر بحسرت ان سے خطاب کر کے کہنے لگا۔ بھائیو ! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچائے اور سب طرح سے تمہاری خیر خواہی بھی کی مگر تم نے ایک نہ سنی۔ پھر اب میں کافروں کی قوم پر کیونکر رنجیدہ ہوں۔ جس طرح شعیب اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی قوموں کی تکذیب کرنے پر کافروں کو تباہ کیا گیا اسی طرح جس بستی میں ہم نے کوئی نبی یا رسول بھیجا تو اس میں رہنے والوں کو کفر شرک اور سچی تعلیم سے انکار کرنے کی وجہ سے مبتلائے سختی و مصیبت کیا۔ تاکہ وہ اپنی کرتوتوں کو سمجھ کر گڑگڑائیں مگر جب وہ باز نہ آئے تو پھر ہم نے تکلیف کے بدلے ان کو آسانی دی حتیٰ کہ خوب پھولے اور بڑھے چڑھے اور اترائے اور مستی میں آ کر بجائے عبرت پکڑنے اور شکر گذاری کرنے کے کہنے لگے کہ یہ گردش زمانہ ہے اسی طرح رنج و راحت ہمارے باپ دادوں کو بھی پہنچتے رہے ان پر کبھی ارزانی اور کبھی گرانی ہوتی رہی یہ کوئی نئی بات نہیں نہ اس کو کسی کے نیک یا بدعملی سے کوئی تعلق ہے جب وہ اس حد پر پہنچے تو ہم نے ان کو ناگہاں جب انہیں کچھ بھی خبر نہ تھی پکڑ لیا اور ایسا پچھڑا کہ کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ چھوڑا آخر انہوں نے اپنی کرتوت کے پھل پائے اور اگر یہ بستیوں والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ایمان لاتے۔ اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے کہ وقت پر بارشیں ہوتیں اور زمین سے عمدہ عمدہ پھل پھول پیدا ہوتے۔ مگر انہوں نے یہ کمبختی کی کہ سرے سے ہمارے حکموں کی تکذیب کی اور اسی پر مصر رہے پس ہم نے بھی ان کے افعال بد کے بدلے میں ان کو پکڑا اور خوب پچھڑا۔ کیا ایسے واقعات بھی سن کر ان بستیوں والے اس بات سے بے فکر ہیں کہ ہمارا عذاب راتوں رات ان کے سوتے وقت ان پر آجائے کیا ان بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ہمارا عذاب دن دہاڑے ان کے کھیلتے ہوئے ان پر آجائے اور ان کو پیس ڈالے کیا یہ اللہ تعالیٰ کے خفیہ دائو سے بے فکر ہیں خود ہی نقصان اٹھائیں گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے دائو اور خفیہ عذاب سے زیاں کار ہی بے خوف ہوا کرتے ہیں ) اللہ تعالیٰ کی نسبت جو ” مکر“ کا لفظ آتا ہے اس پر بعض لوگوں کو کچھ تردد سا ہوتا ہے لیکن بغور دیکھیں تو کوئی تردد نہیں کیونکہ مکر کے معنے ہیں کسی کی بے خبری میں تکلیف پہنچانا اللہ تعالیٰ کا عذاب بے فرمانی کی سزا ہو یا نہ ہو کسی کو خبر کر کے تو نہیں آیا کرتا۔ پس مکر کے معنوں میں کیا شبہ ہے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو سامنے آ کر مارا۔ بلکہ اندر ہی اندر اس کے احکام کام کر جاتے ہیں اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ (اللہ تعالیٰ گھات میں ہے) کے معنی بھی یہی ہیں۔ (منہ) ( ورنہ کیا ان زیاں کار لوگوں کو جو یکے بعد دیگرے زمین کے مالک ہوتے ہیں اور ایک کے مرنے پر دوسرا اس کی جگہ قائم ہوجاتا ہے یہ امر راہ نمائی نہیں کرتا کہ اگر ہم چاہیں تو آناً فاناً ان کی بدکاریوں کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کریں اور ان کے دلوں پر ایسی سختی ڈالیں کہ گویا مہر کردیں پس وہ اس مہر اور غضب الٰہی کی وجہ سے ایسے ہوجائیں کہ سنیں ہی نہیں۔ یعنی اگر اس بات میں غور و فکر کریں کہ برے کاموں کے نتائج ہمیشہ برے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ عادل کے ہاں نیک و بد دونوں ایک سا پھل دیں تو ضرور ہدایت یاب ہوجائیں مگر غور نہیں کرتے اسی طرح ان سے پہلے لوگ گذرے ہیں ہم ان بستیوں کے کسی قدر احوال تجھ کو سناتے ہیں مختصر یہ کہ اپنی معمولی زندگی میں نہایت سرکشی کو پہنچے اور ان کے پاس رسول بھی کھلی تعلیم واضح واضح احکام لے کر آئے پھر بھی وہ جس بات سے پہلے دانستہ منکر ہوچکے تھے اس پر ایمان نہ لائے بلکہ سخت بضد ہوگئے۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ دانستہ کفر کرنے والوں کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے۔ اور ہم نے ان میں سے بہتوں کو بدعہد پایا جب کبھی کوئی تکلیف ان پر نازل ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے اور عہد کرتے کہ آئندہ کو بدعملی نہ کریں گے مگر پھر جس وقت ذرا بھر آسانی ہوتی پہلی مصیبت کو جھٹ سے بھول جاتے اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے بدکار پایا پس تباہ کردیا۔ الاعراف
86 الاعراف
87 الاعراف
88 الاعراف
89 الاعراف
90 الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 الاعراف
94 الاعراف
95 الاعراف
96 الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 الاعراف
100 الاعراف
101 الاعراف
102 الاعراف
103 (103۔141) پھر بعد مدت ان سے پیچھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے درباری سرداروں کی طرف اپنے حکم دے کر بھیجا تو انہوں نے بھی ان احکام سے انکار کیا کبھی جادوگر کہا کبھی فریبی بتلایا پھر جس طرح مفسدوں کا انجام ہوا اس کو بھی تو سوچ لے کہ جس پانی کی نسبت فرعون کہا کرتا تھا کہ میرے حکم سے چلتا ہے اس میں اس کو غرق کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہرچند کہا اے فرعون ! میں اللہ تعالیٰ رب العالمین کا رسول ہوں میرا فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حق میں بجز سچی بات کے کچھ نہ کہوں یعنی پیغام الٰہی جتلا کر وہی بات کہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ دیکھو میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کے ہاں سے ایک کھلی دلیل بھی لایا ہوں کہ لکڑی سے سانپ بنتا ہے اور ید بیضا دکھاتا ہوں پس تو ان باتوں سے میری نبوت پر ایمان لا اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے ہم اپنے آبائی وطن میں چلے جائیں اللہ تعالیٰ نے اس کے دینے کا ہم سے وعدہ کیا ہے۔ فرعون کو دراصل اس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ لوگ میرے ملک سے باہر اپنی قوت یکجا کر کے مجھ پر حملہ آور نہ ہوں اس لئے ان کا چھوڑ دینا علاوہ ویرانی ملک کے یوں بھی مناسب نہ سمجھتا۔ مگر بہانہ بنانے کو بولا کہ اگر تو کوئی نشان لایا ہے جیسا کہ تیرا بیان ہے تو اسے لا کر دکھا اگر تو سچا ہے تو کس موقع کی تجھے انتظاری ہے پس یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی جو ہاتھ میں اس وقت لئے تھا پھینک دی دیکھتے ہی وہ صریح ایک اژدہا بن گیا۔ سب لوگ جو دربار میں بیٹھے تھے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ سب کو جان کے لالے پڑ گئے (فَاَلْقٰی عَصَاہُ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کئی ایک معجزے بیان فرمائے ہیں منجملہ ایک ” عصا“ اور ” یدبیضا“ بھی ہے۔ یہ دونوں معجزے اس خوبی اور تفصیل سے بیان ہوئے ہیں کہ ان جیسی تفصیل اور کسی بیان میں شائد ہی ہو۔ مگر سید احمد خاں مرحوم نے وہی اپنا ہاتھ اسی پرانے ہتھیار (سپرنیچرل) سے ان پر بھی چلانا چاہا۔ اس لئے مناسب ہے کہ پہلے تمام آیتیں جن میں ان معجزوں کا مذکور ہے ہم لکھ دیں۔ پھر سرسید کے عذرات بھی قوم کو سنائیں۔ پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ : فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانُ مُّبِیْنٌ۔ وَنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ للنّٰظِرِیْنَ۔ قَالَ الْمَلأَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لسَاحِرٌ عَلِیْمٌ۔ (اعراف۔ ع ١٣) حضرت موسیٰ نے اپنی لکڑی پھینکی تو وہ اسی وقت ظاہر سانپ تھا اور اپنا ہاتھ نکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے سفید تھا۔ فرعون کے سرداروں نے کہا۔ بیشک یہ موسیٰ بڑے علم والا جادوگر ہے۔ “ مفصل قصہ سورۃ طہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وما تلک بیمینک یموسی قال ھی عصایا توکوئا علیھا واھش بھا علی غنمی ولی فیھا مارب اخری۔ قال القھا یموسی فالقھا فاذا ھی حیۃ تسعی۔ قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولی۔ واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضآء من غیر سوٓء ایۃ اخری۔ لنریک من ایتنا الکبری قالوا یموسی امآ ان تلقی واما ان نکون اول من القی۔ قال بل القوا فاذا حبالھم وحصیہم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ قلنا لاتخف انک انت الاعلی۔ والق مافی یمینک تلقف ماصنعوٓا انما صنعوا کید ساحر ولا یفلح الساحر حیث اتی فالقی السحرۃ سجدا قالوا امنا برب ھرون و موسیٰ (طہ ع ١۔ ٣) موسیٰ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے کہا یہ میری لکڑی ہے میں اس پر تکیہ کیا کرتا ہوں اور اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے پتے جھاڑا کرتا ہوں اور بھی اس میں مجھے کئی فوائد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا موسیٰ! اسے پھینک دے۔ موسیٰ نے اسے پھینکا ہی تھا کہ وہ سانپ تھا بھاگتا۔ حکم ہوا کہ اسے پکڑلے اور خوف نہ کر ہم اس کی پہلی (لکڑی والی) صفت بدل دیں گے۔ اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال وہ سفید بےداغ ہو کر نکلے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے ہم تجھے اتنی بڑی بڑی نشانیاں دکھایں گے (چنانچہ وہ فرعون کے پاس گیا اور جادوگروں سے مقابلہ ہونے لگا) جادوگروں نے کہا موسیٰ! تو پہلے اپنا عصا ڈالے گا یا ہم ڈالیں موسیٰ نے کہا نہیں تم ڈالو۔ پس ان کے ڈالتے ہی ان کے جادو کے اثر سے موسیٰ کو خیال ہونے لگا کہ وہ ہل رہی ہیں موسیٰ اپنے جی میں خوفزدہ ہوا ہم نے کہا موسیٰ ڈر نہیں۔ تو ہی غالب رہے گا۔ جو تیرے ہاتھ میں لکڑی ہے پھینک دے۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے سب کو نگل جائے گی وہ جادو کا تماشہ بنا لائے ہیں اور جادو گر جہاں کہیں ہو کامیاب نہیں ہوا کرتا موسیٰ کے عصا ڈالنے کی دیر تھی کہ جادو گر تو سجدے میں گر کر بولے ہم ہارون اور موسیٰ کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں۔ “ ایک جگہ بیان ہے کہ قال لئن اتخذت الھا غیری لاجعلنک من المسجونین قال اولو جئتک بشیء مبین۔ قال فأت بہٓ ان کنت من الصدقین۔ فالقی عصاہ فاذا ھی ثعبان مبین۔ ونزع یدہ فاذا ھی بیضآء للناظرین۔ قال لِلْمَلا حولہ ان ھذا لسٰحرٌ علیم۔ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ فماذا تامرون۔ قالوا ارجہ واخآہ وابعث فی المدآئن حشرین یاتوک بکل سحّار علیم فجمع السّحرۃ لمیقات یوم معلوم وقیل للناس ھل انتم مجتمعون لعلنا نتبع السّحرۃ ان کانوا ھم الغلبین فلما جآء السّحرۃ قالوا لفرعون ائنّ لنا لاجرًا ان کنا نحن الغلبین۔ قال نعم وانکم اذً لمن المقربین قال لھم موسیٰ القوامآ انتم ملقون فالقوا حبالھم وعصیہم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون فالقی موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف ما یافکون فالقی السّحرۃ سجدین قالوآ امنا بربّ العلمین۔ ربّ موسیٰ وھرون (شعراء ٣) فرعون نے موسیٰ سے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے سنگسار کروا ڈالوں گا۔ موسیٰ نے کہا اگرچہ میں کوئی واضح چیز بھی لا دکھائوں۔ فرعون نے کہا لا اگر تو سچا ہے پس موسیٰ نے اپنی لکڑی پھینک دی تو وہ اسی وقت ظاہر بڑا سانپ تھا۔ اور اپنا ہاتھ نکالا تو وہ بھی سب دیکھنے والوں کے سامنے چٹہ سفید تھا۔ فرعون کے گرد گرد سرداروں نے کہا یہ بڑا علم والا جادوگر ہے۔ اس کا منشا ہے کہ تم کو اپنے جادو سے ملک بدر کر دے پس تمہاری کیا رائے ہے۔ پھر مجتمع ہو کر فرعون سے ملتجی ہوئے کہ اسے اور اس کے بھائی کو ڈھیل دیجئے اور کل ملک میں ایلچی بھیج دیجئے کہ وہ حضور کے پاس بڑے بڑے علم دار جادوگروں کو جمع کر کے لے آویں پس جادوگر ایک وقت معین پر جمع کئے گئے اور لوگوں کو بھی کہا گیا کہ تم نے بھی جمع ہونا شاید جادوگر فتحیاب ہوں تو ان کا جلو کرنے کو ہم ان کے ساتھ ہوں۔ جب جادوگر فرعون کے حضور آئے تو فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم غالب رہے تو ہم کو کچھ ملے گا بولا ہاں اور تم میرے مقربوں میں سے ہوجائو گے موسیٰ نے ان سے ڈالنے کو کہا پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لکڑئیں ڈالیں اور فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم ہی غالب رہیں گے۔ پس موسیٰ نے بھی اپنی لکڑی ڈالی تو وہ ان کی بناوٹی چیزوں کو کھا رہی تھی پس یہ امر دیکھتے ہی جادوگر سجدے میں گرے اور بولے ہم رب العٰلمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا اللہ تعالیٰ ہے ایمان لائے۔ ایک جگہ ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے کہا : وَاَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰھَا تَھْتَزُّ کَاَنَّھَا جَآنٌّ وَلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰی لاَ تَخَفْ اِنِّی لاَیُخَاف لَدَیَّ المرسلون٭ الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوٓء فانی غفور رحیم وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضآء من غیر سوٓء فی تسع ایت الی فرعون و قومہ انھم کانوا قوما فسقین۔ (نمل ع ١) اپنی لکڑی پھینک دے پس جب اس نے اسے ہلتے ہوئے (ایسی تیز حرکت کرتی تھی کہ) گویا پتلا سا سانپ (جلدی جلدی حرکت کرتا) ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر بھاگا ایسے کہ پھیر کر بھی نہ دیکھا اللہ تعالیٰ نے کہا اے موسیٰ ڈر نہیں میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے۔ جو گناہ کرے اور اس سے پیچھے توبہ کر کے نیکی بھی کرے تو میں بخشنہار مہربان ہوں تو اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال بغیر کسی بیماری کے سفید ہو کر نکلے گا تو ان نو نشانیوں میں فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا وہ بڑے بدکار ہیں۔ ایک جگہ مذکور ہے اللہ تعالیٰ نے کہا : وان الق عصاک فلما راھا تھتزکانھا جآن ولّی مدبرا وَلَمْ یعقب یموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین٭ اسلک یدک فی جیبک تخرج بیضآء من غیر سوٓء واضمم الیک جناحک من الرھب فذنک برھانان من ربک الی فرعون وملائٓہ انہم کانوا قوما فسقین۔ (قصص : ع ٤) اللہ تعالیٰ نے کہا اپنی لکڑی پھینک دے پس جب اس کو تیز تیز چلتے دیکھا گویا وہ پتلا سا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پھر کر نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے پکارا اے موسیٰ ادھر دیکھ اور ڈر نہیں تحقیق تو بے خوف ہے اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کر بغیر بیماری کے سفید نکلے گا اور خوف کے مارے دونوں بازو ملا رکھ یہ دو دلیلیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف جا۔ وہ بدکاروں کی قوم ہیں۔ موجودہ توریت میں ان معجزات کا بیان اس طرح سے ہے : ” تب موسیٰ نے جواب دیا کہ دیکھ وے مجھ پر ایمان نہ لائیں گے۔ نہ میری سنیں گے وے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دکھائی نہیں دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے وہ بولا عصا پھر اس نے کہا اسے زمین پر پھینک دے اس نے زمین پر ڈال دیا اور وہ سانپ بن گیا اور موسیٰ اس کے آگے سے بھاگا۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھا اور اس کی دم پکڑ لے اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے پکڑ لیا۔ وہ اس کے ہاتھ میں عصا ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر چھپا کے رکھ۔ اور جب اس نے اسے نکالا تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ برف کی مانند سفید مبروص تھا۔ پھر اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر پھر چھپا کے رکھ اس نے پھر رکھا تو جب باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ پھر ویسا ہی جیسا کہ اس کا سارا بدن تھا ہوگیا (خروج باب ٤۔ آیت ١) “ دوسرے موقع کا ذکر اس طرح ہے کہ : ” اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون کو کہا کہ جب فرعون تمہیں کہے کہ اپنا معجزہ دکھائو تو ہارون کو کہئیو کہ اپنا عصا لے (حضرت موسیٰ نے اپنا عصا حضرت ہارون کی سپرد کیا ہوا تھا) اور فرعون کے آگے پھینک دے۔ وہ ایک سانپ بن جائے گا۔ تب موسیٰ اور ہارون فرعون کے آگے گئے اور انہوں نے وہ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا تھا کیا۔ ہارون نے اپنا عصا فرعون اور اس کے خادموں کے آگے پھینکا اور وہ سانپ ہوگیا۔ تب فرعون نے بھی دانائوں اور جادوگروں کو طلب کیا چنانچہ مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادوئوں سے ایسا ہی کیا کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا عصا پھینکا اور وہ سانپ ہوگیا۔ لیکن ہارون کا عصا ان کے عصائوں کو نگل گیا۔ (خروج باب ٧ آیت ٨۔ ١٢) “ ایسے صاف بیان کے ہوتے ہوئے بھی سید صاحب اس سے انکاری ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : ” تمام انسانوں میں خواہ وہ انبیاء ہوں اولیا یا عوام الناس اور کسی مذہب کے ہوں حتیٰ کہ حیوانوں میں بھی ایک قسم کی قوت مقناطیسی موجود ہے جو خود اس پر اور نیز دوسروں پر ایک قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ یہ بمقتضائے خلقت بعضوں میں ضعیف اور بعضوں میں قوی ہوتی ہے۔ یہ قوت مقناطیسی جس میں قوی ہوتی ہے وہ دوسرے شخص پر بھی (اثر) ڈال سکتا ہے اور اس دوسرے شخص پر بحالت بیداری ایک قسم کی خواب مقناطیسی اس پر طاری رہتی ہے یہ قوت بعض آدمیوں میں خلقی نہایت قوی ہوتی ہے اور جو لوگ مجاہدات کرتے ہیں اور لطائف نفسانی کو متحرک کرتے ہیں خواہ وہ ان مجاہدات میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا کریں۔ یا اور کسی کا۔ ان میں بھی یہ قوت ہوجاتی ہے اور اس کے اثر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ان اثروں کو جب کہ مسلمانوں سے ظاہر ہوتے ہیں مسلمان کرامت سے تعبیر کرتے ہیں اور جب کہ غیر مذہب والوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کو استدراج سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ دونوں کی اصلیت واحد ہے بہرحال جو کچھ کہ اس سے ظاہر ہو اس کا کوئی وجود اصلی و حقیقی نہیں ہے۔ بلکہ صرف وجود وھمی و خیالی ہے۔“ (ج ٣ صفحہ ١٣۔ ١٤۔ ٢١٥) اس تمہید کے بعد خاص معجزہ عصا وغیرہ کی بابت بعد ارقام آیات متعلقہ فرماتے ہیں : ” ان آیتوں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت جو حضرت موسیٰ پر طاری ہوئی اسی قوت نفس انسانی کا ظہور تھا جس کا اثر خود ان پر ہوا تھا۔ یہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا۔ (ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ معجزہ بھی داخل قانون فطرت ہے) اور نہ اس پہاڑ کی تلی میں جہاں یہ امر واقع ہو کسی معجزہ کے دکھانے کا موقع تھا اور نہ یہ تصور ہوسکتا ہے کہ وہ پہاڑ کی تلی کوئی مکتب تھا (حضرت علی گڑھ کالج ہی لکھ دیا ہوتا) جہاں پیغمبروں کو معجزے سکھائے جاتے ہوں اور معجزوں کی مشق کرئی جاتی ہو۔ حضرت موسیٰ میں ازروئے فطرت و جبلت کے وہ قوت نہایت قوی تھی (حضرت معاف رکھئے آپ بھولتے ہیں یہ قوت لکڑی میں تھی چنانچہ آپ کی آئندہ تقریر اسی کی موید ہے) جس سے اس قسم کے اثر ظاہر ہوتے ہیں انہوں نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھی پھینک دی اور وہ ان کو سانپ یا اژدہا دکھائی دی (حضرت ! کہئے یہ لکڑی کی قوت کا اثر حضرت موسیٰ پر ہوا یا حضرت موسیٰ کا اثر لکڑی پر) یہ خود ان کا تصرف اپنے خیال میں تھا۔ وہ لکڑی لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا فانقلبت العصا ثعبانا یعنی وہ لاٹھی بدل کر اژدہا ہوگئی۔ بلکہ سورۃ نحل میں فرمایا کانھا جان یعنی وہ گویا اژدہا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ درحقیقت وہ اژدہا نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ وہ لاٹھی کی لاٹھی تھی۔ (جلد ٣ صفحہ ٢٢٢) ایسا ہی یدبیضا کی نسبت فرماتے ہیں : ” جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان میں ایک ایسی قوت ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے قوائے مخیلہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر اس میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور ان میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس میں مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے۔ پھر ان کو اپنے موثرہ قوت سے دیکھنے والوں کی حس پر ڈھالتا ہے پھر دیکھنے والے ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہے حالانکہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا اور قرآن مجید کے الفاظ سے جو آیات بالا میں گذرے ہیں اور جن سے پایا جاتا ہے کہ لاٹھیاں اور رسیاں اسی قوت مخیلہ کے سبب سے سانپ یا اژدھے دکھائی دی تھیں تو یدبیضا کا مسئلہ ازخود حل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا بھی لوگوں کو اس طرح پر دکھائی دینا اسی قوت نفس انسانی کا اور تصرف قوت متخیلہ کا سبب تھا نہ یہ کہ وہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت تھا۔ اور درحقیقت حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی ماہتی بدل جاتی تھی۔ جہاں قرآن مجید میں یدبیضا کا ذکر آیا ہے۔ وہاں یہ مضمون بھی موجود ہے کہ : وَنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ للنّٰظِرِیْنَ جب حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو یکایک چٹا تھا۔ دیکھنے والوں کے لئے اور یہ مضمون صاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہ چٹا دکھائی دیتا تھا۔ جو اثر قوت نفسانی کا تھا نہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت۔“ (ج ٣ صفحہ ٢٢٥) اس سے آگے ایک سوال کا از خود جواب دیتے ہیں : ” اس مقام پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر عصائے موسیٰ کا اژدہا بننا اور ہاتھ کا چٹا ہوجانا اسی قسم کی قوت نفسی سے لوگوں کو دکھائی دیتا تھا جس طرح کی قوت نفسی سے سحرۂ فرعون کی رسیاں اور لاٹھیاں دکھائی دیتی تھیں اور کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا تو خدانے عصا اور یدبیضا کی نسبت یہ کیوں فرمایا کہ فَذٰنِکَ بُرْھَانَانِ مِنْ رَّبِّکَ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان کیوں تعبیر کیا ہے مگر برہان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عصائے موسیٰ کا اژدہا مرئی ہونا یا ہاتھ کا چٹا دکھائی دینا۔ فرعون اور اس کے سرداروں پر بطور حجت الزامی کے تھا وہ اس قسم کے امور اس بات کی دلیل سمجھتے تھے کہ جس شخص سے ایسے امور ظاھر ہوتے ہیں وہ کامل ہوتا ہے (ٹھیک ہے جب ہی تو مزدوری پر جادوگروں کو جن کی قدر و منزلت ان کے سوال اَئِنَّ لَنا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الغَالِبِیْن سے ہی معلوم ہوتی ہے بلا کر مقابلہ کرایا تھا۔ یہی دلیل بس ہے ان کے کمالات پر جس سے فرعون اور اس کے افسروں نے بھی ان کو یقینا کامل سمجھا ہوگا۔ کاش کہ سید صاحب کامل کی بھی ذرہ تشریح کر جاتے کہ کس بات میں کامل) اور اسی سبب سے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کرشمہ دکھایا جائے گا تو وہ موسیٰ کو سچا جانیں گے۔“ (جلد ٣ صفحہ ٢٢٦) ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم ایسی تاویلات بلکہ تحریفات کا کیا جواب دیں جہاں یہ حال ہو بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا ہاں ایک جواب سید صاحب کی تحریر سے یاد آیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہم مسلمانوں میں قاعدہ ہے کہ ہمیشہ جہاں تک ہوسکتا ہے لفظ سے اس کے اصلی اور حقیقی معنے مراد لیتے ہیں۔ مگر جہاں کہیں سیاق کلام سے یا اور کسی دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حقیقی معنے مراد نہیں ہیں بلکہ تمثیلی معنے مراد ہیں جس کو ہم مجازیا استعارہ کہتے ہیں۔ وہاں اس کے تمثیلی معنے قرار دیتے ہیں خواہ وہ دلیل اسی مقام میں موجود ہو یا دوسرے مقام میں“ (تصانیف احمدیہ جلد ٦ ص ٣١٨) کاش یہاں اصلی معنے چھوڑنے کی کوئی دلیل بتلائی ہوتی اگر وہی پرانا ہتھیار (سپر نیچرل) ہے تو اس کا کچھ جواب تو پہلے ہوچکا ہے اور کچھ آگے آتا ہے۔ ہاں سید صاحب کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے فانقلبت العصا ثعبانا نہیں کہا۔ غور طلب ہے اس پر ہمیں ایک قصہ یاد آیا ایک واعظ صاحب اپنے فریق مقابل فرقہ اہل حدیث کا رد کرتے ہوئے ایک دفعہ فرمانے لگے کہ یہ لوگ قرآن و حدیث کو زیادہ پیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو موحدین کہلاتے ہیں۔ کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے موحد کر کے کسی کو پکارا بھی ہے؟ سب جگہ ایمانداروں کو ہی پکارا گیا۔ موحدین کے نام سے تو کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے خطاب نہیں فرمایا۔ جس طرح واعظ موصوف کے جواب میں ان کے مقابل ساکت تھے ٹھیک اسی طرح ہم بھی سید صاحب سے نادم ہیں۔ واقعی ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ لفظ تو نہیں مگر بڑے ادب سے عرض ہے کہ اگر انہی معنی کو ادا کرنے والا کوئی اور لفظ ہو تو جو مسلمان قرآن کے تیس پاروں کو کلام الٰہی مانتا ہے اسے اس کے ماننے میں بھی تامل نہ ہوگا۔ سنئے اور غور سے سنئے سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی ذرہ لفظ اعادہ جس سے سَنُعِیْدُ مشتق ہے اور بالخصوص سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی میں غور کے جئ اعادہ کے معنی پھیر لانے کے ہیں اور سیرت کے معنے خصلت کے ہیں۔ سیرت اولیٰ کو بالخصوص قابل توجہ ہم نے اس لئے کہا ہے کہ سیرت کا لفظ لانا اور صورت نہ کہنا اسی طرف اشارہ ہے کہ اتنی دیر کے لئے اس کی قلب ماہیت ہوگئی تھی۔ اور اگر یہ نہ ہوتا بلکہ بقول سر سید صرف حضرت موسیٰ کی آنکھوں میں ہی وہ اژدہا دکھائی دیتا اور درحقیقت وہ لاٹھی کی لاٹھی ہوتی تو اعادہ سیرۃ نہ کہا جاتا سبحان اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین کے کلام کو جس کے امکان کذب میں بھی علماء مختلف ہیں مروڑ مراڑ کر دبی زبان سے کاذب کہا جاتا ہے اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَکَفٰی بِہٖ اثماً مُّبِیْنًا۔ اس سے زیادہ کذب کیا ہوگا کہ حقیقتاً نہ تو صورت بدلی اور نہ سیرت بلکہ صرف حضرت موسیٰ کی آنکھیں دھند لا رہی ہیں تاہم سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی جو سلب اور عدم سیرت اولیٰ پر موقوف کہا جاتا ہے۔ سید صاحب مرحوم نے قرآن کے ساتھ جو کچھ کیا ہمارا اعتقاد ہے کہ عناد سے نہیں کیا بلکہ خوش اعتقادی سے ہی کیا مگر یہ تو ہم ضرور کہیں گے خوب کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر اللہ تعالیٰ ناخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے اصل میں سید صاحب کو بار بار وہی سپر نیچرل تنگ کرتا رہا یعنی خلاف فطرت نہیں ہوا کرتا اور نہ ہوسکتا ہے مگر ہم حضرت مسیح کے معجزات کے ذیل میں یہ امر مفصل ذکر کر آئے ہیں کہ معجزات کا ظہور خرق عادت اور خلاف فطرت نہیں۔ پس جب تک سید صاحب یا ان کے ہم مشرب اس بات کو رد نہ کریں گے کسی تاویل کرنے کے مجاز نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ سید صاحب نے علم مسمریزم کی کتابیں دیکھی ہیں مگر ہم یقینا کہتے ہیں کہ ان میں بھی سید صاحب نے اپنی مجتہدانہ روش نہیں چھوڑی کیوں نہ ہو امن ازد یاوک فی الدجی الرقباء اذ حیث کنت من الظلام ضیاء جہاں تک ہمیں معلوم ہے اور ہم نے اس فن کا مطالعہ کیا ہے اس کا یہ ہرگز منشا نہیں جو سید صاحب نے حضرت موسیٰ کی لاٹھی اور یدبیضا کی کیفیت لکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ خود سید صاحب کے کلام میں ان کا رد موجود ہے آپ کی تقریر کا خلاصہ تو صرف دو لفظوں میں ہے کہ انسان میں ایک قوت مقناطیسی ہے جس کے ذریعہ سے دوسروں پر اپنا اثر پہنچا سکتا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت موسیٰ اسی قوت سے متاثر ہوئے تھے دانائوں کی توجہ چاہتا ہے کیونکہ اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ حضرت موسیٰ بقول سید صاحب اگر مسمریزم کے عامل ہوتے تو دوسروں پر اپنے خیالات کا اثر پہنچا سکتے تھے۔ نہ کہ لکڑی سے خود ہی ایسے متاثر ہوتے کہ بھاگتے ہوئے پیچھے کو پھر کر بھی نہ دیکھتے کیا یہی مسمریزم ہے سچ ہے پائے استدلالیاں چوبیں بود پائے چوبیں سخت بے تمکین مسمریزیم اور معجزہ میں فرق کے متعلق ہم معجزات مسیحیہ میں مختصر سی تقریر کر آئے ہیں۔ یہاں پر سید صاحب کے تبعاً بھی کچھ ذکر کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فرعون کے جادوگر بھی مسمریزم کے عامل تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کا فرمانا کہ ان کے سحر سے موسیٰ کو رسیاں ہلتی ہوئی نظر آتی تھیں یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰے ہمارے اس قول کا موید ہے مگر تعجب ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت بھی سید صاحب نے وہی گمان کیا جو فرعون نے کیا تھا۔ فرعون نے جادوگروں کے ایمان کا حال سن کر ان سے کہا انہ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ (وہ تمہارا استاد ہے جس نے تم کو جادو (مسمریزم) سکھایا ہے) گویا فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو مسمریزم کا عامل سمجھا جو سید صاحب نے دبی زبان سے کہا جس کا جواب اسی وقت اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے دے دیا تھا کہ لاَ یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی (جادوگر مراد کو نہیں پہنچا کرتے) پھر فرعون کے جادوگروں کا جو اس مشق مسمریزم میں اعلیٰ درجہ کے مشاق تھے ایمان لانا اور حضرت موسیٰ کو بھی برحق اور ان کے فعل کو فعل اللہ تعالیٰ اور معجزہ سمجھنا بھی قابل غور ہے حالانکہ ” ولی را ولی مے شناسد“ دز درا دزو مے شناسد“ کا مقولہ بھی مشہور ہے۔ پس قصہ مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ کی نسبت مسمریزم وغیرہ کا خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ خوف کفر ہے۔ جو آیات قرآنی سے متبادر مفہوم ہوتا ہے فقط۔ (منہ) اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ کرتے کے گریبان میں ڈال کر باہر کیا تو وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے سفید براق تھا ایسا کہ سورج کی طرح چمکتا تھا یہ عجیب معجزات دیکھ کر بھی فرعون کی قوم کے سردار حسب منشاء فرعون کے کہنے لگے کہ یقینا یہ موسیٰ بڑا علمدار جادوگر ہے۔ اپنے خیالات سفلیہ پر قیاس کر کے ایک دوسرے سے کہنے لگے اس کا ارادہ ہے کہ ایک جتھا بنا کر تم کو تمہارے آبائی ملک مصر سے نکال دے اور آپ اس پر قابض ہوجائے۔ پس تم کیا تجویز سوچتے ہو۔ شاھی کونسل میں جب یہ تجویز باقاعدہ پیش ہوئی تو سب نے فرعون سے متفق اللفظ کہا کہ مصلحت یہ ہے کہ اس موسیٰ کو اور اس کے بھائی ہارون کو تھوڑی مہلت دیجئے اور سب ملک میں جمع کرنے والے ہر کارے بھیج دیجئے کہ ہر ایک جادوگر کو جو بڑے علم والا ہو حضور کے پاس لائیں قصہ مختصر ہر کارے ملک میں بھیجے گئے اور جادوگروں نے فرعون کے حضور آکر کہا کہ اگر ہم اس پر غالب رہے تو ہم کو کچھ ملے گا بھی یا یونہی بگار میں ٹلا دیا جائے گا۔ فرعون نے کہا ہاں بے شک تم کو بہت کچھ انعام ملے گا اور تم میرے دربار کے مقربوں میں سے ہوجائو گے۔ بھلا تمہارے جیسا حکومت کا خیر خواہ کون جو موسیٰ جیسے باغیٔ سرکار کو مغلوب کرے۔ جادوگر فرعون سے عہد و پیمان لے کر میدان مقابلہ میں آئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے اے موسیٰ تو پہلے اپنی لاٹھی ڈالتا ہے یا ہم پہلے ڈالیں؟ غرض اپنی بہادری کا اظہار کرتے تھے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تیرے ارمان جی کے جی میں ہی رہیں نہیں اگر تو چاہتا ہے تو ہم بڑی خوشی سے تیرے وار کو اپنے پر لینے کو تیار ہیں موسیٰ نے کہا۔ نہیں بلکہ تم ہی جو ڈالنا چاہو۔ پہلے ڈالو۔ پس جب میدان میں انہوں نے اپنا سامان لوگوں کے سامنے ڈالا تو قلب ماہیت کیا ہی کرسکتے تھے صرف انہوں نے بقاعدۂ مسمریزم اتنا ہی کیا۔ کہ لوگوں کی آنکھوں کو جادو کردیا کہ ان کو رسیوں کے سانپ نظر آنے لگے اور لوگوں کو دہشت میں ڈالا اور ایک بڑا ہی مؤثر جادو کا کھیل بنا کر لائے۔ وہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے اور موسیٰ ان کی اس حرکت سے ذرا سا خوف زدہ ہوا تھا کہ ہم نے موسیٰ کو فرشتے کے ذریعہ الہام کیا کہ تو بھی اپنی لکڑی پھینک دے پس اس کے پھینکنے کی دیر تھی کہ اسی وقت وہ ان کے مصنوعی جھوٹ موٹ کے سانپ جو وہ بنا رہے تھے ان کو نگلتی چلی جاتی تھی پس سب لوگوں نے دیکھ لیا کہ حق غالب آیا اور جو کچھ وہ جھوٹ موٹ مقابلہ میں بنا رہے تھے سب برباد ہوگیا۔ پس فرعونی وہاں مغلوب ہوئے اور اپنا سامنہ لے کر گھروں کو ذلیل و خوار لوٹ گئے اور جادوگر جو کسی بدنیتی اور ضد سے نہیں آئے ہوئے تھے بلکہ محض اپنی لیاقت پر نازاں تھے جب انہوں نے حضرت موسیٰ کا اژدھا دیکھا اور باقاعدہ فن مسمریزم کے سمجھ گئے کہ یہ کام جادو سے نہیں ہوسکتا۔ بلکہ محض تائید ایزدی سے ہے تو اوندھے سجدے میں گر پڑے اور اپنے ایمان کا اظہار کرنے کو بولے ہم اپنے پروردگار پر جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے سچے دل سے ایمان لائے ہیں فرعون نے جب سنا کہ جادوگر جن کو مقابلہ کے لئے ہم نے بلایا تھا وہ تو موسیٰ کے ساتھ مل گئے اور اس کو مان گئے اس سے تو عام بغاوت کا اندیشہ ہے اس لئے بغرض دھمکی دینے کے بولا یعنی ان کو کہلا بھیجا کہ تم میرے اذن دینے سے پہلے ہی اس پر ایمان لے آئے۔ یقینی بات اب معلوم ہوئی ہے کہ یہ تمہارا سب کا فریب ہے جو تم نے اتفاق کر کے اس شہر میں چلایا ہے کہ شہر کے اصل باشندوں اور مالکوں کو اس سے نکال دو اور خود مالک بن جائو۔ پس تم اس کا نتیجہ ابھی جان لو گے کہ پہلے تو میں تمہارے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے کٹوا دوں گا پھر بعد اس تکلیف کے تم سب کو سولی پر لٹکائوں گا۔ جادوگر یہ دھمکی سن کر بڑی متانت اور استقلال سے بولے کہ جو کچھ تو کرنا چاہے کرلے ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں آخر ایک روز تو مرنا ہے بہتر ہے کہ اس کی راہ میں ہی مریں۔ اور تو ہم میں صرف اتنی ہی بات بڑی عبی دار پاتا ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے نشانوں پر جب ہم کو موسیٰ کی معرفت ملے ہم ایمان لے آئے سو تو پڑا برا مان ہمیں تیری کیا خوشامد ماری جاتی ہے البتہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے مولا ! فرعون کی تکلیفوں پر ہم کو صبر عنایت کیجئے ان تکلیفوں میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تیری طرف سے پھرجائیں بلکہ تو ہم کو اپنی تابعداری میں ہی ماریو۔ خیر مختصر یہ کہ فرعون نے ان کو مروا دیا اور مثل مشہور ” نزلہ بر عضو ضعیف می افتد“ کی پوری تصدیق کی تو اس کی قوم کے سرگروہوں یعنی ممبران کونسل نے کہا کیا حضور ان غریبوں کو مروا کر موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیں گے کہ ملک میں کھلے جی سے فساد پھیلائیں اور حضور کو اور حضور کے مقرر کردہ چھوٹے چھوٹے معبودوں کو ترک کردیں۔ ) فرعون نے اپنی شکل کے بت لوگوں میں تقسیم کئے ہوئے تھے ان کو چھوٹے معبود کہتا اور آپ ربکم الاعلی کہلاتا۔ فرعون کی نسبت اگر یہ یقین کیا جائے کہ جو کچھ وہ لوگوں سے منوانا چاہتا تھا۔ واقعی اس کا خیال بھی ایسا ہی تھا تو ہندوئوں کے جین مت والوں کے قریب قریب اس کا خیال ہوگا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک عہدہ ہے جس پر روحیں حسب اعمال پہنچ کر انتظام دنیا کرلیتی ہیں۔ اس مذہب کے ایک پنڈت سے راقم کی گفتگو ایک دفعہ ہوئی تھی۔ پنڈت جی تھے تو بڑے وِدّ وان مگر ” دروغ را فروغ نباشد“ آخر مغلوب ہوئے۔ ١٢ منہ ( اس سے تو انتظام میں سخت خلل کا اندیشہ ہے پس مناسب ہے کہ حضور اس طرف بھی توجہ فرماویں۔ یہ سن کر فرعون نے کہا ٹھیک بات ہے۔ گورنمنٹ ان سے بے فکر نہیں۔ ہم نے ان کا انتظام یہ سوچا ہے کہ ان کے لڑکوں کو مروا ڈالیں گے اور لڑکیوں کو خدمت کے لیے زندہ رہنے دیں گے۔ اور اگر چون و چرا کریں گے تو ہم ان پر ہر طرح سے غالب ہیں سسرے جائیں گے کہاں؟ یہ سن کر بنی اسرائیل تو لگے کانپنے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے بغرض تسلی ان سے کہا بھائیو گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو اور صبر کرو زمین اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عنایت کرتا ہے اور یقین جانو کہ انجام بخیر ہمیشہ پرہیزگاروں ہی کا ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ! تیرے آنے سے پہلے بھی ہم کو ایذائیں پہنچتی رہیں اور تیرے آنے سے بعد بھی وہی حال رہا۔ حضرت موسیٰ نے کہا بیشک تم سچ کہتے ہو آخر پر ایک چیز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ تمہارے دشمن کو ضرور ہلاک کرے گا۔ اور تم کو زمین میں بادشاہ بنا دے گا۔ پھر تمہارے کاموں کو بھی دیکھے گا۔ جب تک درست رہو گے ترقی اور بہبودگی میں رہو گے اور جب بگڑو گے اپنا ہی کچھ کھوئو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہم نے فرعون کو ہلاک کیا اور فرعون کی قوم کو خشک سالی اور پھلوں کی کمی کے عذاب میں مبتلا کیا۔ تاکہ وہ نصیحت پاویں۔ پھر بھی بدمعاش ایسے شریر تھے کہ جب کوئی آسائش پہنچتی تو کہتے یہ ہمارا حق ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنیت تو حضرت موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے اور کہتے کہ جب سے یہ منحوس نکلے ہیں ایسی ایسی آفتیں آنے لگی ہیں۔ وہ تو اس بات کو نہ جانتے تھے۔ مگر تم سن رکھو کہ دراصل ان کی شامت اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں سے تھی لیکن بہت سے ان میں سے نہیں جانتے تھے کہ یہ غضب الٰہی ہے۔ یا کیا اور صاف مقابلہ میں کھلے منہ کہتے تھے کہ کوئی بھی نشان تو ہم کو دکھا کہ جس کے ذریعہ تو ہم پر جادو کرے اور پھسلانا چاہے ہم تجھے نہ مانیں گے اور کبھی بھی تیری اطاعت نہ کریں گے پھر ہم نے ان پر یعنی فرعونیوں پر طوفان بھیجا اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون وغیرہ بلائیں بھیجیں جو کھلے کھلے نشان تھے پھر بھی وہ لوگ متکبر اور مجرم ہی رہے اولوں کی بارش سے ان کے تمام ملک کو تباہ کیا۔ پھر بھی باز نہ آئے مینڈک بھیج دئیے تب بھی نہ مانے جوئیں کثرت سے ان کے بدنوں میں پیدا کردیں۔ ٹڈی دل بھیج دیا جو تمام ان کے کھیتوں کو برباد کر گیا۔ غرض مختلف قسم کے عذاب نازل کئے ) اس زمانہ میں بھی اس عذاب کی مثال پیدا ہوگئی ہے۔ اخباروں میں یہ خبر گشت کر رہی ہے : ” ایک مضمون نگار لکھتا ہے کہ میں نے ایک موقع پر دو سیاحوں کو دیکھا کہ ان کے لبادوں میں بہت چھوٹے چھوٹے مینڈک لپٹے ہیں مسافر سر سے پائوں تک بھیگ گئے تھے۔ میرے استفسار پر کہا ایسی جگہ سے آرہے ہیں جہاں سخت طوفان آیا۔ بارش ہوئی اور ساتھ ہی بے شمار مینڈک برسے۔ یہ واقعہ فرانس کے شہر طولون کا ہے۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ میں ان مسافروں سے رخصت ہو کر چند ساعتوں کے بعد ایسے مقام پر پہنچا۔ جہاں مینڈکوں سے زمین ڈھکی ہوئی تھی جابجا مینڈک گھوڑوں کے سموں کے پائوں اور گاڑیوں کے پہیوں سے کچلے پڑے تھے۔“ (اخبار زمیندار لاہور پنجاب۔ سنڈے ایڈیشن۔ مورخہ ٩ اکتوبر ١٩٢٧ئ) ممکن ہے اسی طرح فرعونیوں پر مینڈک پڑے ہوں۔ جن سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوئے ہوں۔ ٹڈی دل بھی کہیں نہ کہیں آتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بلائوں سے محفوظ رکھے۔ (منہ) ( وقت پر عاجز ہوتے اور جب کبھی کوئی عذاب ان پر نازل ہوتا تو فریاد کرتے ہوئے کہتے اے موسیٰ چونکہ تجھ سے اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا وعدہ کیا ہوا ہے ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا مانگ۔ اگر تو ہم سے یہ عذاب دور کرا دے گا تو ہم تیری بات مان لیں گے۔ اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ غرض جس طرح ہو ہمارے حال پر مہربانی کر۔ پھر جب ہم عذاب کو ایک مدۃ تک ہٹا دیتے جو ہمارے علم میں مقرر ہوتی تو وہ لوگ اس مدۃ کو پہنچتے ہی فوراً بد عہدی کرتے اور اسی طرح بد اطواری میں پھنس جاتے جیسے پہلے ہوتے۔ پھر آخر ہم نے ان سے ان گستاخیوں کا بدلہ لیا پس ہم نے دریا کے اندر پانی میں ان کو غرق کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے نشانوں کی تکذیب کرتے تھے اور ان کی تکذیب کی پاداش سے غافل تھے اور جس قوم کو طرح طرح کی تدبیروں سے ضعیف اور کمزور کیا جاتا تھا ہم نے اسے بڑی بابرکت زمین کنعان وغیرہ کے مشرق مغرب پورب پچھم کا مالک بنا دیا اور چونکہ بنی اسرائیل نے تکلیفوں پر صبر کیا تھا اللہ تعالیٰ کے نیک حکم یعنی عمدہ عمدہ وعدے ان کے حق میں پورے ہوئے اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم تجویزیں کیا کرتے اور عالیشان عمارتیں بناتے تھے ہم نے سب برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے عبور کرایا تو وہ ایک قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں پر ہندوستان کے ہندوئوں کی طرح ڈیرے ڈال کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنی دعائیں اور منتیں ان سے مانگا کرتے تھے ان کو دیکھ کر بنی اسرائیل بولے : اے موسیٰ! جیسے ان کے پتھر اور پیتل کانچ کے بڑے بڑے خوبصورت معبود ہیں ہمیں بھی ایک معبود بنا دے ہم بھی اس کی پوجا پاٹھہ کیا کریں گے۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم بے سمجھ لوگ ہو۔ جو یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ بنائے سے نہیں بنتا۔ اسی خرابی کے دفع کرنے کو تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول بھیجا کرتا ہے پس تم یقینا سمجھو کہ جس دین پر یہ ہیں یقینا وہ برباد اور تباہ ہونے والا ہے اور جو یہ کرتے ہیں سب باطل اور فریب ہے جس کا کوئی نتیجہ نیک نہیں حضرت موسیٰ نے یہ بھی کہا کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لئے تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان کے لوگوں پر برتری دی ہے تم کو خاندان ابراہیمی اور اسرائیلی سے پیدا کیا پھر کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسی درخواست کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ کی شان کے صریح نقیض ہے اور سنو ! اللہ تعالیٰ تم کو فرماتا ہے کہ وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے نجات دی جو تم کو بڑی تکلیف پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو بغرض خدمت زندہ رکھتے تھے اور اگر سوچو تو اس نجات میں تم پر اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے الاعراف
104 الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 الاعراف
109 الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 الاعراف
116 الاعراف
117 الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 الاعراف
124 الاعراف
125 الاعراف
126 الاعراف
127 الاعراف
128 الاعراف
129 الاعراف
130 الاعراف
131 الاعراف
132 الاعراف
133 الاعراف
134 الاعراف
135 الاعراف
136 الاعراف
137 الاعراف
138 الاعراف
139 الاعراف
140 الاعراف
141 الاعراف
142 (142۔171) اور محض تمہاری بہتری کو ہم نے حضرت موسیٰ سے کتاب دینے کے لئے تیس یوم کا وعدہ کیا اور دس روز ان کے ساتھ اور بڑھائے تو وعدہ الٰہی پورا چالیس روز کا ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ چونکہ اب تم فرعون سے چھوٹ کر ایک آزاد قوم ہوگئے ہو۔ اس لئے تمہارے دینی اور دنیاوی حاجتوں کے لئے کسی قانون الٰہی کی ضرورت ہے۔ پس تو پہاڑ پر آکر ایک مہینا مخلوق سے بالکل علیحدہ ہو کر تزکیہ نفس میں مشغول ہوجا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایسا ہی کیا۔ ایک مہینا گذر گیا اور ہنوز ترقی کمال مناسب میں کچھ کمی تھی اس لئے اور دس روز بڑھائے گئے اور چلتے وقت موسیٰ اپنے بھائی ہارون سے کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری نیابت کیجئیو اور ان کی اصلاح کرتے رہیئو اور ہوشیار رہیو کہ ہمیشہ اصلاح سے مفسدوں کو رنج ہوتا ہے بلکہ جو مصلح اصلاح کرنا چاہے یہ کمبخت اس کے بھی مخالف ہوجاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مصلح ان کے ہمرائے ہو رہیں پس تو ہوشیار رہیو کہ ان کی راہ اور روش پر نہ چلیو یہ کہہ کر حضرت موسیٰ قوم سے رخصت ہو کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جب کوہ طور پر چلہ کشی کو آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا تو مارے محبت کے موسیٰ نے بے تاب ہو کر کہا میرے مولا ! چونکہ یہ صحیح ہے کہ نہ تنہا عشق از دیدار خیزد بساکیں دولت از گفتار خیزد اس لئے میں غلبۂ شوق سے مجبور ہوں پس تو مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھوں اللہ تعالیٰ نے کہا تو مجھ کو ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ تیری اور میری نسبت کیا؟ بھلا ممکن ہے کہ مخلوق خالق کو دیکھ سکے لیکن اگر تو زیادہ اس بات کو چاہتا ہے تو پہاڑ کی طرف نظر رکھ اگر جلوہ الٰہی سے وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو سمجھیو کہ تو بھی مجھے دیکھ سکے گا اور اگر وہ اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا تو تو اس سے سمجھ لو کہ تو بھی نہ دیکھ سکے گا۔ پس اس قرارداد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جب پہاڑ کی جانب پر ذرا سا جلویٰ کیا اور ذرا سا نور ڈالا تو اس جانب کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اور موسیٰ بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا پھر جب ہوش میں آیا تو بولا کہ میرے مولا ! تو جسم جسمانیت سے پاک ہے میں تیرے سامنے تائب ہوں اور میں اس بات پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ دنیا میں تجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اے موسیٰ بنی آدم کے لئے جتنے مراتب علیاممکن ہیں ان سب میں سے درجہ رسالت اعلیٰ ہے سو میں نے تجھے اپنی رسالت اور ہم کلامی سے سب لوگوں سے برگزیدہ کیا۔ پس جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے وہ مضبوط پکڑ اور شکر گذاروں میں ہو۔ اور ہم نے اس کے لئے ان تختیوں میں جن میں موسیٰ کو توریت دی تھی ہر قسم کی نصیحت اور ہر ایک مذہبی بات کی تفصیل لکھ دی تھی۔ پس اے موسیٰ تو اس کو قوت اور مضبوطی سے پکڑیو اور اپنی قوم کو حکم کیجئیو کہ اچھی طرح اس کو پکڑے میں عنقریب تم کو تھوڑی سی مدت بعد فرعونی بدکاروں کا ملک مفتوحہ حالت میں دکھائوں گا۔ ) بنی اسرائیل فرعون کے ڈوبتے ہی تو ملک مصر کو لوٹے نہ تھے کیونکہ چالیس سال ایک ہی میدان میں گھومتے پھرنا تو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ ہاں بعد ترقی مصر پر بھی قابض ہوگئے ہوں گے۔ اسی لئے ہم نے تھوڑی مدت کی قید لگائی ہے۔ (منہ) ( اور تم کو اس کا مالک بنائوں گا اور جو لوگ زمین پر ناحق بڑائی کرتے اور پھولے پھرتے ہیں ان کو اپنے حکموں سے پھیر دوں گا اگرچہ ہر قسم کے نشان اور معجزے بھی دیکھیں۔ تو بھی ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ ہاں یہ ہوگا کہ بہکتے جائیں گے اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں تو اس پر نہ چلیں گے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ پائیں گے تو جھٹ سے اس کو اپنی راہ بنا لیں گے کیونکہ وہ ہمارے حکموں سے تو انکاری اور بے پرواہ ہوں گے اور یہ اعلان بھی ان کو سنا دیجیو کہ جو لوگ ہمارے حکموں کی تکذیب کریں گے اور آخرت کی زندگی سے منکر ہوں گے ان کے نیک عمل سب کے سب باطل ہوجائیں گے اور جو کچھ کفر و شرک۔ تکبر۔ غرور وہ کرتے ہوں گے اسی کا بدلہ ان کو ملے گا۔ کوئی ناکردہ گناہ ان پر نہ ڈالا جائے گا۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتاب لینے گیا ادھر اس کی قوم نے اس سے پیچھے اور ہی گل کھلائے کہ کم بختوں نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا۔ وہ کیا تھا محض ایک آواز دار جسم تھا کہ سامری نے اس کو ایسا کھوکھلا بنایا تھا کہ پیچھے سے ہوا اس میں گھستی اور آگے سے نکل جاتی اور اس کرتب سے اس میں سے آواز نکلتی تو وہ احمق جانتے کہ اللہ تعالیٰ بول رہا ہے ) موجودہ توریت کی دوسری کتاب کے بتیسویں باب میں جو لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے خود ہی ان کو بچھڑا بنا دیا تھا یہ صریح غلط ہے شان نبوت اور شرک اجتماع ضدین؟ عیسائیو ! قرآن کے مھیمن (علی التوریت) ہونے میں اب بھی شک کروگے؟ (منہ) ( کیا ان جاہلوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ ان سے بولتا تو تھا نہیں اور نہ ان کو کسی قسم کی راہ نمائی کرتا تھا پھر اس کو معبود کیونکر بنا بیٹھے آخر برائی کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے چنانچہ ان سے بھی ایسا ہی ہوا کہ اس بچھڑے کو معبود بناتے ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم اور بے انصاف ٹھیر گئے آخر حضرت موسیٰ کے سمجھانے بجھانے سے سمجھے اور جب اپنے کئے پر نادم ہوئے اور سمجھے کہ ہم تو واقعی راہ راست سے سخت بہک گئے تھے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہنے لگے اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہ کرے گا اور ہم کو ہمارے قصور نہ بخشے گا تو کچھ شک نہیں کہ ہم زیاں کاروں سے ہوجائیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے غصہ کا بھرا ہوا رنجیدہ اپنی قوم کی طرف آیا تو آتے ہی کہنے لگا میرے پیچھے تم نے بہت ہی برا کام اختیار کیا۔ کیا تم کو شرم نہ آئی میں تو تمہارے لئے کتاب لینے کو جائوں اور تم نے اس طرح کی بداطواری اپنے پاس سے نکال کر گمراہی اختیار کی۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے پہلے ہی تم جلد بازی کر گئے اللہ تعالیٰ کے احکام تو ابھی پہنچے ہی نہیں اور تم نے اپنے پاس سے نئی بدعت نکال لی۔ یہ کہہ کر سخت رنجیدہ ہوا اور ان تختیوں کو جو پہاڑ پر اسے ملی تھیں پھینک دیا اور اپنے بھائی ہارون کے سر کے بالوں کو پکڑ کر کھینچنے لگا اس نے نہایت نرمی سے کہا۔ بھائی ! میں کیا کروں قوم نے مجھے کمزور اور ضعیف سمجھا اور بے فرمان ہوگئے بلکہ ایسے بگڑے اگر میں زیادہ کچھ کہتا تو میرا مار دینا بھی ان سے کچھ دور نہ تھا پس تو مجھے ذلیل کر کے دشمنوں کو مجھ پر نہ ہنسا اور مجھے بھی ظالموں کے سنگ میں مت کر کہ جیسی اس معاملہ میں ان کو ذلت پہنچنی ہے مجھے بھی نہ پہنچا۔ حضرت موسیٰ کو بھائی کے عذرات سن کر یقین ہوا اور جوش فرو ہوا تو اس نے دعا کی کہ اے مولیٰ! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہم کو اپنی رحمت میں داخل کرکیونکہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے خیر بھائیوں کے ملاپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو الہامی حکم دیا کہ جن لوگوں نے بچھڑا بنایا تھا ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے غضب اور ذلت کی مار دنیا میں پہنچے گی۔ افترا کرنے والوں اور جھوٹ باندھنے والوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں اس میں سرمو فرق نہیں اور جو لوگ برے کام کر کے توبہ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لاتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ تیرا رب توبہ کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے وہ بندوں کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیسا کوئی اپنی نہایت پیاری چیز کے گم ہونے کے بعد مل جانے پر۔ پیغام الٰہی پہنچانے کے بعد جب حضرت موسیٰ کا غصہ فرو ہوا تو اس نے ان تختیوں کو جنہیں اس نے پھینک دیا تھا پکڑا ان کے مضمون میں ہدایت تھی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے رحمت۔ آخر بنی اسرائیل تائب ہوئے اور حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو ہماری حاضری کے لئے منتخب کیا اور ان کو ہمارے حضور لا کر پاک کلام سنوایا۔ مگر وہ ایسے کچھ سیدھے سادھے عقل سے خالی تھے کہ کہنے لگے ہم تو جب تک اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں گے نہ مانیں گے پس اس گستاخی کی پاداش میں جب پہاڑ پر غضب الٰہی کی بجلی ١ ؎ گرنے سے بھونچال سا ان پر آیا اور بنی اسرائیل اس کے صدمہ سے مر گئے تو حضرت موسیٰ نے دعا کی الٰہی اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور ان کے ساتھ مجھ کو بھی مار دیتا۔ کیا ہم میں سے بے وقوفوں کی نامعقول بات کرنے سے ہم کو ہلاک کئے دیتا ہے؟ انہوں نے اپنے احمق پن سے نامناسب سوال کیا۔ چونکہ تیرے ہر ایک کام میں حکمت ہوتی ہے اس لئے ہمارا ایمان ہے کہ یہ کام بھی سراسر تیری جانچ ہے جس کو تو چاہے اس کے سمجھنے سے گمراہ کر دے وہ تیری حکمت سمجھنے کے بجائے تیرا ظلم کہنے لگے اور جس کو چاہے اس کی سمجھ دے کہ وہ اس کو تیری حکمت جان کر ایمان لائے تو ہمارا والی ہے پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہمارا مالک ہے اور تو سب سے بڑا بخشنے والا ہے اور علاوہ بخشش کے ہمیں دنیا کی عافیت نصیب کر اور آخرت میں بھی کیونکہ ہم تیرے بندے اور تو ہمارا مولا ہے یقینا ہم تیری طرف رجوع ہیں پس تو ہم پر نظر رحمت فرما اور ان کو زندہ کر دے چنانچہ حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کیا۔ اور کہا کہ موسیٰ تیری دعا کا ایک حصہ تو قبول ہو کر اثر پذیر بھی ہوگیا۔ دوسرے حصہ کی بابت یہ ہے کہ اپنا عذاب میں جس پر چاہوں گا پہنچائوں گا کوئی مجھے ملزموں کی سزا دینے سے روک نہیں سکتا۔ میں دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہوں کہ بسا اوقات مجرموں کو سزا دینی چاہتے ہیں تو دے نہیں سکتے اور میری رحمت بھی ایسی فراخ ہے کہ سب دنیا کی چیزوں کو شامل ہے ایک رحمت تو ایسی ہے کہ مومن‘ کافر‘ انسان‘ حیوان‘ جاندار‘ بے جان‘ سب کو گھیرے ہوئے ہے اور ایک رحمت ایسی ہے کہ خاص تابعداروں کے حصے میں ہے پس یہ رحمت جو خاص تابعداروں کے حصے کی ہے میں ان کے نام کروں گا جو پرہیزگاری کرتے ہوں گے۔ اور زکوٰۃ دیتے ہوں گے۔ اور جو میرے حکموں کو دل سے مانتے ہوں گے یعنی ان لوگوں کے نام کی کروں گا جو رسول نبی امی یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دینی امور میں تابعداری کریں گے جس کو وہ توریت ! انجیل میں اپنے پاس لکھا ہوا پائیں گے جو ان کو نیک باتوں کا حکم دے گا اور ناجائز کاموں سے منع کرے گا۔ (یجدونہ مکتوبا عندھم) اس مقام پر ہم کتب سابقہ کی پیشگوئیوں کا کسی قدر ذکر کریں گے اس کے متعلق علماء نے متعدد تحریریں لکھی ہیں کئی ایک رسالے فریقین (مسلمانوں اور عیسائیوں) کے شائع ہوچکے ہیں اس لئے ہم تمام پیشینگوئیوں کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے صرف دو تین کا ذکر کریں گے اور عیسائیوں نے غلط فہمی سے جو کچھ تاویلات کر کے ان کے متعلق ہاتھ پائوں مارے ہیں ان کا جواب بھی دیں گے۔ پہلی پیشین گوئی توریت کی پانچویں کتاب استثناء کے ١٨ باب کے پندرہویں فقرے میں مرقوم ہے اس کی عبارت یہ ہے : ” اللہ تعالیٰ تیرا اللہ تعالیٰ تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو اس سب کی مانند جو تو نے اپنے اللہ تعالیٰ سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں اللہ تعالیٰ اپنے اللہ تعالیٰ کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اور جو کچھ اسے میں فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا۔ اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے۔ (استثناء ١٨ باب ١٥ آیت) کچھ شک نہیں کہ یہ پیشین گوئی پیغمبر خدا محمد مصطفی محی عبادت واحد مطلق فداہ ابی وامی علیہ الصَّلٰوۃ کے حق میں ہے کیونکہ حضرت موسیٰ سے آنجناب کو جو مشابہت ہے وہ دونوں کے کاموں اور کارگذاریوں سے واضح ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ صاحب شریعت تھے۔ ایسے ہی محمد رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاحب شریعت مستقلہ ہیں حضرت موسیٰ نے کفار سے جہاد کئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جہاد کئے۔ حضرت موسیٰ نے بتوں کو توڑا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بتوں کو توڑا بلکہ بت پرستی کو معدوم کیا۔ حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر معراج ہوا۔ آں حضرت کو بھی ہوا۔ غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں مشترک ہیں پس جب آں حضرت موسیٰ کی مانند ہیں تو پیشین گوئی آپ ہی پر چسپاں ہے نہ کسی اور پر۔ عیسائیوں نے اس کے متعلق کئی طرح سے کوشش کی ہے پادری فنڈر کا اس پر زیادہ زور ہے کہ نبی موعود خود بنی اسرائیل میں سے ہی ہوگا۔ کیونکہ آیات مذکورہ میں ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ بھی ہے۔ جس سے مراد (بقول پادری صاحب) بنی اسرائیل ہیں اور پیغمبر اسلام فداہ روحی چونکہ بنی اسمٰعیل سے ہیں اس لئے وہ اس پیشگوئی کے مصداق نہیں ہوسکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ چونکہ یونانی ترجمہ میں نہیں۔ اس لئے غلط ہے موجودہ نسخوں کا اختلاف بھی اس فقرہ کے غلط ہونے کی تائید کرتا ہے۔ ایک نسخہ عربی میں جو ١٦٧١ ء کے نسخہ سے نقل ہو کر ١٨٥٧ ء میں بمقام لنڈن چھپا ہے۔ یوں مرقوم ہے ” فان نبیا من شعبک ومن اخوتک مثلی یقیمہ لک الرب الھک فاسمع منہ“ دوسرے عربی نسخے میں جو ١٨٦٩ ء میں چھپا ہے یوں مذکور ہے۔ ” یقیم لک الرب الھک نبیا من وسطک من اخوتک مثلی لہ یسمعون“ غرض ایک نسخہ میں وائو عاطفہ کے ساتھ اور دوسرے میں بغیر وائو کے مرقوم ہے جس سے بظاہر دونوں عبارتوں کے معنے میں فرق آتا ہے اردو ترجموں میں بھی وائو عاطفہ نہیں ہے اور اگر اس فقرے کو صحیح مانا جائے تو یہی نسخہ بدون ” وائو“ کے صحیح نظر آتا ہے۔ پس ہم اس فقرہ کو مان کر بھی جواب دیں گے کہ بغیر واؤ کی صورت میں اِخْوَاتِکَ بدل ہے مِنْ وَسْطِکَ سے اور ” واؤ“ کی صورت میں عطف تفسیری ہوگا تو پس دونوں صورتوں میں ” تیرے ہی درمیان“ کے لفظ سے ” تیرے ہی بھائیوں میں سے“ مراد ہوگا۔ دلیل یا قرینے اس توجیہ کے کئی ہیں۔ اول یہ کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے جو کلام نقل کیا ہے اس میں ” تیرے ہی درمیان“ کا لفظ نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ ” میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک بنی برپا کروں گا۔ “ دوسری دلیل یہ ہے کہ اعمال کے ٣ باب کے بائیسویں فقرے میں بھی اس پیشنگوئی کو نقل کیا ہے اس میں بھی ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ نہیں ہے بلکہ صرف اس طرح ہے کہ : ” موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ ہے تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی میری مانند اٹھائے گا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو“ (اعمال ٢٢/٣) پس ثابت ہوا کہ ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ الحاقی ہے یا ماوّل چنانچہ ہم نے اس کی تاویل کردی ہے ہماری تاویل کے خلاف اگر پادری فنڈر کی بات سنی جائے اور یہ کہا جائے کہ من اخوتک کا لفظ من وسطک کی تابع ہے یعنی من وسطک کے جو معنی ہیں وہی من اخوتک سے لئے جائیں تو صریح خلاف محاورہ ہوگا کیونکہ کلام ثانی کو اول کی تفسیر کے لئے لایا جاتا ہے نہ کہ اول کو ثانی کے لئے چنانچہ کتب نحو میں تابع کی تعریف ہی ان لفظوں سے کی جاتی ہے التابع کل ثان باعراب سابقۃ علاوہ اس کے یہ خرابی لازم آوے گی کہ دوسرے مقاصوں میں جن سے ہم نے عبارات نقل کی ہیں کلام ثانی ہی پر اکتفا کرنا صحیح نہ ہوگا۔ حالانکہ مقصود اول کلام ہے پس نتیجہ صریح ہے کہ من وسطک بغیر وائو کے مبدل ہے من اخوتک بدل ہے اور وائو کے ساتھ عطف تفسیری ہے یعنی حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی غلط فہمی دفع کرنے کو من وسطک کہہ کر من اخوتک سے تفسیر کردی کہ مبادا یہ لوگ غیر مراد کو مراد سمجھ لیں۔ پادر فنڈر سے بڑھ کر بعض جلد بازوں نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح کے حق میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : ” حضرت مسیح محمد صاحب کی پیدائش سے چھ سو برس پیشتر اس خبر کو اپنے حق میں بتلا چکے ہیں اور حواری بھی اس خبر کو باربار مسیح کے حق میں بیان کرچکے ہیں چنانچہ یوحنا کے ٥ باب آیت ٤٦ میں ہے اگر تم موسیٰ پر ایمان لاتے تو مجھ پر بھی لاتے اس لئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے لیکن جب تم اس کی لکھی ہوئی بات پر ایمان نہیں لاتے تو میری باتوں پر کیونکر ایمان لائو گے۔ پھر یوحنا کے پہلے باب کی آیت ٤٥ میں ہے فیلبوس نے نتھنئل سے کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ پھر لوقا کے ٢٤ باب آیت ٢٧ میں ہے اور موسیٰ سے لے کر سب نبیوں کی وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے بیان کیں۔ پھر اعمال کے ٧ باب ٢٧ میں ہے یہود ہی موسیٰ ہے جس نے بنی اسرائیل کو کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا اللہ تعالیٰ تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا اس کی سنو۔ پھر اعمال کے ٣ باب آیت ٢٢ میں ہے۔ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ تعالیٰ ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا۔ پس اب ہم ان سب نبیوں کو غلط ٹھیرا کر مولوی صاحب کی بےدلیل بات کیونکر تسلیم کریں۔ کیونکہ ہم کو کتب الہامیہ سے بڑی سند مل چیر ہے کہ یہ آیت ضرور حضرت مسیح کے حق میں ہے نہ محمد صاحب کے اور لفظ برادران جس سے مولوی صاحب بنی اسمٰعیل مراد لیتے ہیں۔ یہ بھی خلاف ہے کیونکہ بنی اسماعیل بلکہ بنی اودم بھی برادران میں نہیں ہیں اور بنی اسرائیل آج تک بنی اسمٰعیل کو اپنا بھائی قرار نہیں دیتے۔ غیر قوم جانتے ہیں۔ اب رہی تشبیہ سو حضرت مسیح کو حضرت موسیٰ سے کمال درجہ کی تشبیہ ہے۔ مولوی رحمت اللہ تعالیٰ وآل حسن صاحب جو احکام شرعیہ میں محمد صاحب کو تشبیہ دیتے ہیں یہ غلط ہے۔ کیونکہ وہ سب احکام جو محمدی تعلیم میں مذکور ہیں سب موسیٰ ہی کی شریعت ہے اور توریت سے ہی انتخاب ہو کر قرآن میں لکھے گئے ہیں یہ تشبیہ موسیٰ سے نہیں ہوسکتی۔ تشبیہ کمالات میں دینا چاہئے پس دیکھو کہ کمالات میں موسیٰ کی مانند محمد صاحب ہیں یا حضرت مسیح ہیں موسیٰ جب پیدا ہوا تو فرعون بچوں کو مار رہا تھا۔ مسیح جب پیدا ہوا ہیرود نے بیت لحم کے لڑکوں کو قتل کیا تھا۔ موسیٰ چالیس دن پہاڑ پر بھوکا رہا مسیح بھی چالیس دن پہاڑ پر بھوکا رہا۔ موسیٰ کا منہ اللہ تعالیٰ کے جلال سے چمکنے لگا مسیح کا چہرہ بھی اللہ تعالیٰ کے جلال سے چمکنے لگا۔ پھر موسیٰ ایک آسمانی شریعت لایا اور مسیح اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا فضل اور روحانی شریعت لایا اور موسوی شریعت کا حاصل دکھلایا موسیٰ نے عجیب و غریب معجزے دکھلائے مسیح نے اس سے زیادہ عجیب معجزات دکھلائے الغرض کمالات ذاتیہ میں مشابہت درکار ہے۔ سو مسیح میں کماحقہ موجود ہے۔ محمد صاحب میں ہرگز مشابہت موسوی ثابت نہیں ہوتی اور احکامات شرعیہ کی تشبیہ بالکل ناقص ہے علاوہ ازیں اسی باب کی ١٥ آیت سے ١٩ تک خود موسیٰ نے اس مشابہت کا ذکر کردیا ہے کہ وہ آئندہ نبی کس طرح مشابہت رکھے گا یعنی وہ آدمیوں کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بچولا ہوگا جیسا کہ میں حوریب کے مقام پر ہوا تھا۔ رہا مطالبہ اگر تمہارے قول کے مطابق مطالبہ دنیاوی مراد لیں تو بھی یہ صفت مسیح میں ہے نہ محمد صاحب میں۔ کیونکہ جن لوگوں نے مسیح کی نہ سنی ان سے اللہ تعالیٰ نے بڑا مطالبہ کیا۔ چنانچہ قیامت کا نمونہ یروشلم کی تباہی میں دکھلایا۔ اور یہودی جو مسیح کے خلاف تھے برباد ہوئے آج تک پراگندہ اور بے عزت مارے مارے پھرتے ہیں اور سوائے ان کے اور لوگ بھی جو مسیح برخلاف ہیں باطل جہان سے گھٹتے اور بحالت تنزل تباہ ہوتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ تعالیٰ مسیح کے لوگوں کو جہان میں ایسی ترقی اور رونق دے رہا ہے کہ اٹھارہ سو برس میں دیکھو کیا کچھ ترقی ہوئی۔ یہ خبر کسی طرح محمد کی شان میں نہیں ہوسکتی۔ ضرور مسیح کے حق میں ہے۔“ (تحقیق الادیان مصنفہ پادری عمادالدین صفحہ ٥٤ تا ٥٦) چہ دلاورمے ست ازدے کہ بکف چراغ دارد۔ کی مثل یہی ہے اور دلائل تو بجائے خود تھے ہی پادری صاحب نے غضب کیا کہ اعمال ٣ باب کی ٢٢ کو بھی اپنے ثبوت میں کہ یہ پیشگوئی مسیح کے حق میں ہے پیش کردیا۔ اس لئے سب سے پہلے ہم اسی گواہ سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے ابتدائی بیان اس گواہ کا یوں ہے : ” پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کر تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے تازگی بخش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ضرور ہے کہ آسمان اسے (مسیح کو) لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا۔ اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ تعالیٰ ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا جو کچھ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اس نبی کو نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سمویل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی۔ تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابرہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پائیں گے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے یسوع کو پہلے بھیجا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دیں“ (اعمال ٣ باب کی ٢٢) شہادت مذکورہ صاف بتلا رہی ہے کہ حواریوں کو حضرت مسیح کے بعد بھی اس نبی مثیل موسیٰ کا انتظار لگا ہوا تھا۔ اور وہ اس بات کو بھی مانتے تھے کہ جب تک مثیل موسیٰ پیغمبر نہ آ لے حضرت مسیح مکرر دنیا میں تشریف نہ لائیں گے۔ پس اب پادری صاحب خود ہی غور کریں کہ بمقابلہ حواریوں کے جن کو پادری صاحب الہامی اور نبی مانتے ہیں ان کی رائے کیا وزن رکھتی ہے گو بعد اس قطعی شہادت کے پادری صاحب کے کسی عذر اور شبہ کا جواب دینا ضروری نہیں۔ تاہم بغرض مزید توضیح ان کے ہر ایک شبہ کا جواب بھی مرقوم ہے۔ پہلا شبہ پادری صاحب کو یوحنا ٤٥/١ سے ہوا کہ فیلبوس نے نتھنی ایل سے کہا ہے کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ لیکن پادری مذکور نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ فیلبوس نے یہ کلام اپنی رائے سے کہا یا الہام سے۔ اگر الہام سے کہا تو ثبوت اس کا دیویں اور اگر رائے سے کہا تو حواریوں کے الہام کے مقابل جو اعمال ٣ باب سے نقل ہوا ہے۔ کیا وقعت رکھتا ہے؟ ایسا ہی لوقا ٢٧/٢٤ سے بھی پادری صاحب کا مدعا در بطن ہے کیونکہ اس کا مضمون بھی صرف اتنا ہے کہ حضرت مسیح نے پہلی کتابوں کی توضیح اور تفسیر ان کو سنائی۔ غالباً وہ تفسیر اتباع انبیاء کی بابت ہوگی کیونکہ پہلے اس سے یہ ذکر ہے : ” کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح یہ دکھ اٹھائے اور اپنے جلال میں داخل ہو اور موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کر کے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے تفسیر کیں۔“ (لوقا ٢٤ باب کی ٢٦) پادری صاحب کو اتنا بھی خیال نہیں کہ میری دلیل بازی کو کوئی مخالف دیکھ کر کیا رائے لگائے گا۔ یوں تو ہر ایک مخالف دوسرے کی بات کو رد کرتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ مدعی کے دل سے مخالف آواز نکلے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عبارت کو پادری صاحب کے دعویٰ سے کہ (توریت کی مثلی پیشینگوئی سے حضرت مسیح مراد ہیں) کیا تعلق ہے اعمال ٣ باب کی ٢٢ آیت والی عبارت بھی جو پادری مذکور نے نقل کی ہے یہی حکم رکھتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر چنانچہ ہماری منقولہ عبارت سے یہ امر بخوبی واضح ہے ہاں وجوہ تشبیہ میں غور کرنا ضروری امر ہے۔ پادری صاحب نے وجوہ تشبیہ بھی عجیب بیان کی ہیں ان کے جواب دینے سے پہلے ہم اس کی تحقیق لکھتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر ایسی تشبیہ سے مراد کیا ہوتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ تشبیہ ہمیشہ کسی وصف مشہور میں دی جاتی ہے جسے مخاطب بھی جانتا ہو مثلاً کسی کو شیر سے تشبیہ دیتے ہوئے زید کالاسد کہیں گے تو شیر کی بہادری میں زید کو تشبیہ ہوگی اور اگر کسی کو گدھے سے تشبیہ دیتے ہوئے زید کالحمار کہیں گے تو گدھے کی بے وقوفی میں جو عام طور پر زبان زد خلائق ہے تشبیہ ہوگی اور اگر کوئی شخص پہلی صورت میں وجہ تشبیہ حماقت اور دوسری میں شجاعت سمجھے تو کہا جائے گا کہ یہ شخص خود نابلد کا لحمار ہے اگر وجہ تشبیہ کسی عبارت میں صریح طور پر مذکور ہو تو اس کے وجہ تشبیہ ہونے سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کا مذکور ہونا دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک تو یوں ہوتا ہے کہا جائے کہ زید علم میں عمر کی مانند ہے دوسرے یہ کہ زید عمرو جیسا عالم ہے اس دوسری صورت میں گو ” علم میں“ کا لفظ جو وجہ تشبیہ تھا مذکور نہیں مگر ” عالم“ وجہ تشبیہ بتلانے میں اس سے کم نہیں۔ جیسا اہل زبان پہلے کلام سے وجہ تشبیہ علم کو سمجھتے ہیں دوسرے سے بھی برابر سمجھیں گے الا من سفہ نفسہ پس بعد اس تمہید کے ہم اس پیشگوئی کی تشبیہ پر غور کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ حضرت موسیٰ اپنے وصف نبوت میں ایسے مشہور ہیں جیسے شیر شجاعت میں پس اگر اس پیش گوئی میں ” نبی“ کا لفظ نہ بھی ہوتا تو بھی حسب قاعدہ اس تشبیہ کی بنیاد اس مشہور وصف پر ہوتی۔ جیسی زید کالاسد والی صورت میں شجاعت پر تھی جب کہ حضرت موسیٰ نے اس وجہ تشبیہ کا ذکر بھی کردیا ہے اور ” میری مانند ایک نبی“ کے فقرہ سے اس کی توضیح بھی کردی ہے تو اب تو یقینی بات ہے کہ وجہ تشبیہ صرف نبوت ہے اور یقینا یہی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کام حضرت موسیٰ نے بحیثیت نبوت و رسالت کئے ہوں گے ویسے ہی وہ موعود نبی کرے گا۔ پس پادری صاحب کا حضرت مسیح کو حضرت موسیٰ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب پیدا ہوا تو فرعون بچوں کو مار رہا تھا۔ مسیح جب تولد ہوا ہیرود نے بیت لحم کے لڑکوں کو قتل کیا تھا وغیرہ وغیرہ بے بنیاد کلام ہے۔ اس مدعی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ فرعون کا یا ہیرود کا بچوں کو مارنا وصف نبوت میں داخل نہیں حالانکہ آگے چل کر خود ہی لکھتے ہیں کہ ” الغرض کمالات ذاتیہ میں مشابہت درکار ہے“ بھلا فرعون اور ہیرود کا بچوں کو قتل کرنا موسیٰ اور مسیح کے وصف ذاتی میں کیا اثر رکھتا ہے ایک تو یہ قتل غیر کا فعل دوم فعل بھی ایسے وقت کا کہ صاحب کمال ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے یہ تشبیہ تو ایسی ہے جیسی کوئی کہے زید بھی عمرو کی طرح عالم ہے کیونکہ جس طرح عمرو زمانہ قحط میں پیدا ہوا تھا زید بھی ایام قحط میں پیدا ہوا ہے اس لئے یہ ضروری نتیجہ ہے کہ زید بھی عمروکی طرح علم میں کامل ہو۔ تو جیسے اس تشبیہ کے نتیجہ پر دانا ہنسیں گے ایسے ہی پادری مذکور کی وجہ تشبیہ سن کر مسکرا دیں گے۔ تعجب تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے عقیدے میں جب مسیح خدا۔ معبود برحق ” حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر انا ربک کہنے والا (دیکھو مفتاح الاسرار (دفعہ ٥ ص ١٤) پھر جب مطلب ہو تو اس کی نبوت کو ایک بندے (موسیٰ) کی نبوت سے تشبیہ دیں (حیرت !) مگر سچ بھی کیا ہی جادو ہے کہ بلا اختیار منہ سے نکل جاتا ہے کہ ” موسیٰ ایک جسمانی شریعت لایا مسیح اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا فضل اور روحانی شریعت لا۔“ چہ خوش کیا ہی اچھی تشبیہ ہوئی پادری صاحب تو جی میں بہت ہی خورسندہ (یا شرمندہ) ہوں گے کہ ہم نے بہت ہی عجیب وجہ تشبیہ بیان کی۔ کاش کہ اس روحانی شریعت کی کوئی تمثیل بجز کفارہ مسیح کے جو بنیاد ارتداد و الحاد ہے آج تک ہمارے گوش گذار بھی ہوتی۔ علاوہ اس کے حضرت موسیٰ جب جسمانی شریعت لائے اور حضرت مسیح روحانی تو یہ تو مبائنتہ اور مخالفت ہوئی یا مشابہت و موافقت اس کو مشابہت کہنا بجز پادری صاحب اور دیگر ان کے ہم مشربوں کے کسی کا کام نہیں۔ یہ ایسی مشابہت ہے جیسے ایک پہلوان جسیم کو پادری صاحب جیسے عالم فاضل سے تشبیہ دی جائے ” چہ نسبت خاک را باعالم پاک“ کہنا نہایت موزوں ہے۔ ہاں پادری صاحب نے یہ بھی خوب کہا کہ موسیٰ نے اس مشابہت کا ذکر کردیا ہے کہ وہ آئندہ نبی کس طرح مشابہت رکھے گا یعنی وہ آدمیوں کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بچولا ہوگا۔ بہت ٹھیک ذرا قرآن شریف کو پڑھئے مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ فَاِنَّھُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ۔ عیسائیوں کی ایک حیرت انگیز کارروائی پر اطلاع دینی بھی ضروری ہے جس سے ناظرین کو حافظ نباشد کی تصدیق کامل ہوگی۔ انجیل یوحنا باب اول کی ١٩ میں مرقوم ہے : ” اور یوحنا کی گواہی یہ تھی جب کہ یہودیوں نے یروشلم سے کاہنوں اور لاویوں کو بھیجا کہ اس سے پوچھیں کہ تو کون ہے اور اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا تو اور کون ہے۔ کیا تو الیاس ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں پس تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔“ (یوحنا ١٩/١) عربی بائیبل میں وہ نبی کی جگہ النبی معرف بلام العہد ہے بائیبل کے حاشیہ میں اس نبی کا حوالہ استثناء کے ١٨ باب کی ١٥ پر دیا گیا ہے پس ان دونوں مقاموں کے ملانے سے خود باقرار خصم ثابت ہوتا ہے کہ استثناء کے ١٨ باب کی ١٥ والی پیشینگوئی کے مصداق نہ حضرت مسیح تھے نہ الیاس نہ یوحنا بلکہ کوئی اور ہی ذات ستودہ صفات ہے فداہ ابی و امی۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کو اس نبی کے آنے کی ایسی انتظار تھی کہ ہر ایک راست گو سے یہ سوال کرتے تھے کہ تو وہی نبی تو نہیں۔ جو استثناء کے ١٨ کی ١٥ میں موعود ہے۔ منصفو ! بتلائو۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی ثبوت ہوسکتا ہے کہ خود باقرار بائبل ثابت ہوا کہ مسیح اور ہے اور وہ نبی جو استثناء ١٨ کی ١٥ میں موعود ہے اور ہے۔ فداہ روحی علیہ افضل الصلوۃ والسلام۔ دوسری پیشگوئی جس کو ہم درج کرنا چاہتے ہیں۔ انجیل یوحنا ١٤ باب فقرہ ١٥ کی ہے جس کا بیان یوں ہے : ” اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔ اور میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا دے گا کہ تمہارے ساتھ ابد تک رہے یعنی سچائی کی روح جسے دنیا نہیں پا سکتی کیونکہ اسے نہیں دیکھتی اور نہ اسے جانتی ہے لیکن تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہووے گی۔ میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ تمہارے پاس آئوں گا۔ تھوڑی دیر باقی ہے کہ دنیا مجھے اور نہ دیکھے گی پر تم مجھے دیکھتے ہو کیونکہ میں جیتا ہوں اور تم بھی جیو گے۔ اس دن جانو گے کہ میں باپ میں اور تم مجھ میں اور تم میں ہوں جو میرے حکموں کو یاد رکھتا اور انہیں حفظ کرتا ہے وہی ہے جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھے پیار کرتا ہے میرے باپ کا پیارا ہوگا اور میں اس سے محبت رکھوں گا۔ اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کروں گا۔ یہودا نے (نہ اسکریوطی نے) اسے کہا اے اللہ تعالیٰ یہ کیا ہے کہ تو آپ کو ہم پر ظاہر کیا چاہتا ہے اور دنیا پر نہیں۔ یسوع نے جواب دیا اور اسے کہا اگر کوئی مجھے پیار کرتا ہے وہ میرے کلام کو حفظ کرے گا۔ اور میرا باپ اسے پیار کرے گا اور ہم اس کے پاس آویں گے اور اس کے ساتھ سکونت کریں گے۔ جو مجھے پیار نہیں کرتا میری باتوں کو حفظ نہیں کرتا ہے اور یہ کلام جو تم سنتے ہو میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے تم سے کہیں لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب کچھ سکھلائے گا اور جو کچھ میں نے تمہیں کہا ہے تمہیں یاد دلاوے گا۔ اسلام تم لوگوں کے لئے چھوڑ کے جاتا ہوں اپنی سلامتی میں تمہیں دیتا ہوں نہ جس طرح سے دنیا دیتی ہے میں تمہیں دیتا ہوں تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے تم سن چکے ہو کہ میں نے تم کو کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں۔ اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے اس کہنے سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں تو خوش ہوتے کیونکہ میرا باپ مجھ سے بڑا ہے اور اب میں نے تمہیں اس کے واقعہ ہونے سے پیشتر کہا ہے تاکہ جب ہوجائے تم ایمان لائو۔ آگے کو تم سے بہت باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ اس دنیاکا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں لیکن اس لئے کہ دنیا جانے کہ میں باپ سے محبت رکھتا اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ویسا ہی کرتا ہوں۔ اٹھو یہاں سے چلیں۔ “ پھر ١٦ باب کے فقرہ ٧ میں ہے : ” لیکن میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تمہارے پاس نہ آوے گا۔ پر اگر جائوں تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے ملزم ٹھیرائے گا۔ گناہ سے اس لئے کہ دے مجھ پر ایمان نہ لائے۔ راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت سے اس لئے کہ اس دنیا کے سردار پر حکم کیا گیا ہے۔ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ تم سے کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے ہو۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آوے تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی کیونکہ وہ اپنی نہ کہے گی بلکہ جو کچھ سنیے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گی کیونکہ میری چیزوں سے لے گی اور تمہیں بتاوے گی۔ سب کچھ جو باپ کا ہے میرا ہے اس لئے میں نے کہا کہ وہ میری چیزوں سے لے گی اور تمہیں بتاوے گی۔ اس پیشگوئی میں حضرت مسیح نے علاوہ توضیح کرنے آنے والے نبی یا روح حق کی اس کے کاموں کی تفصیل بھی کردی ہے اول یہ کہ وہ تسلی دے گا۔ دوم وہ حضرت مسیح کی تصدیق کرے گا۔ بلکہ آپ کے منکروں کو مجرم ٹھیرائے گا بلکہ سزا بھی دے گا۔ سوم وہ سردار ہوگا چہارم وہ اپنی نہ کہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ سے جو الہام پائے گا کہے گا۔ پنجم مسیح کی تعلیم عیسائیوں کو یاد دلائے گا۔ اب ان سب باتوں کا ثبوت ہادیٔ برحق فداہ روحی میں دکھانا ہمارے ذمہ ہے جسے ہم بفضلہ تعالیٰ پورا کرتے ہیں۔ اول وہ تسلی دے گا۔ قرآن کو غور سے پڑھو۔ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ تم میرے بندوں سے جو اپنے نفسوں پر زیادتی کرچکے ہیں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے امید نہ ہوئو تم توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔.اندوہگین کو اس سے زیادہ تسلی کیا ہوسکتی ہے۔ دوسرا کام حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تصدیق ہے یہ تو قرآن اور پیغمبر قرآن نے ایسا کیا ہے کہ تاقیامت عیسائیوں کی گردن اس احسان سے جھکی رہے گی اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ واہ ری سچائی۔ ایک طرف مشرکین عرب کی کثرت اور یہودیوں کی شرارت اور ایک طرف حق کا پاس مگر اس روح حق نے ان سب مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کر کے صاف صاف اور کھلے کھلے لفظوں میں رَسُوْلااِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مسیح کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرایل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اور وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیَْنَ (مسیح دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور اللہ تعالیٰ کے مقربوں میں سے تھا) کی منادی کرا دی عیسائیو ! اس احسان کو مانو۔ اس محسن کی قدر کرو ورنہ بتلائو اگر قرآن مسیح کے حق میں نیک شہادت نہ دیتا تو آج مسیح کے بدگوئوں کی کتنی ترقی ہوتی۔ اے احسان فراموشو ! باز آئو۔ کب تک شکران نعمت کو کفران سے بدلتے رہو گے۔ سچ ہے مجھ میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہوں میں ان میں دو وصف ہیں بدخو بھی ہیں خود کام بھی ہیں تیسرا کام سرداری ہے یعنی حکمرانی۔ غور سے پڑھو فلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰے یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ جب تک تجھ پیغمبر اسلام کو اپنے جھگڑوں میں منصف نہ بنائیں گے یہ مؤمن نہ ہوں گے۔ وَمَن یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ۔ جو کوئی رسول کی تابعداری کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی کری۔ چوتھا کام وہ اپنی نہ کہے گا۔ سنو ! کان لگا کر سنو ! وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ الاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے الہام سے بولتا ہے۔ ۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ۔ اگر رسول ہمارے ذمہ کوئی بات لگا دے جس کے کہنے کی اسے اجازت نہ ہو تو ہم اس کو فوراً ہلاک کر ڈالیں۔ پانچواں کام حضرت مسیح کی تعلیم کا عیسائیوں کو یاد دلانا ہے اس کی طرف خاص توجہ مطلوب ہے۔ ذرہ دل سے متوجہ ہو کر غور سے سنو ! لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاوٰہُ النَّارُ وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۔ جو لوگ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں حالانکہ مسیح نے خود کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل ! میرے رب کی اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ جو کوئی شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔۔٭ لَقَدْ ! کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ الاَّ اِلٰـہٌ وَاحِدٌ وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّآ یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیَْن کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (المائدۃ) جن لوگوں کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ تینوں میں سے ایک ہے وہ کافر ہیں اللہ تعالیٰ صرف ایک ہے اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ان کو عذاب الیم ہوگا۔ اس کے مطابق مسیح کے الفاظ کا پتہ لینا ہو تو سنو ! ” سب حکموں میں اول حکم یہ ہے اے اسرائیل سن وہ اللہ تعالیٰ جو ہمارا اللہ ہے ایک ہی اللہ تعالیٰ ہے۔“ (مرقس ١٢‘ ٢٩) مضامین خمسہ مذکورہ تو قرآن شریف کی عموماً ہر سورۃ اور ہر پارہ میں مل سکتے ہیں۔ اس لئے بجائے اس تفصیل کے عیسائیوں کے شبہات کا جواب ضروری ہے۔ پادری فنڈر میزان الحق میں لکھتے ہیں : ” علمائے محمدی آیات کے باقی کلمات اور مطالب پر کچھ متوجہ نہیں ہوتے۔ حالانکہ اسی ١٤ باب کی ٢٦۔ آیت میں بھی موعود تسلی دینے والا روح القدس کہلایا ہے اور اس کے حق میں کہا گیا ہے کہ وہ سب چیزیں حواریوں کو سکھائے گا اور مسیح کی بات انہیں یاد دلائے گا اور پھر ١٦ و ١٧ آیت میں مسیح حواریوں سے کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا اور تم میں ہووے گا۔ اور دنیا اسے نہیں دیکھتی الحاصل ظاہر و آشکار ہے کہ محمد کسی مقام پر روح القدس اور روح حق نہیں کہلایا اور کیونکر ہوسکتا تھا کہ محمد جس کا خروج حواریوں سے پانسو برس بعد ہوا پھر وہ مسیح کی بات انہیں یاد دلائے اور انہیں سکھائے اور ہمیشہ ان کے پاس اور ان میں رہے ظاہر ہے کہ ایسی بات تو کوئی عقلمند نہ کہے گا۔ اور محمد کو تو سب لوگوں نے آنکھوں سے دیکھا مگر پار اقلیت کے حق میں مسیح نے کہا ہے کہ دنیا اسے نہیں دیکھ سکتی اور اگر تو کوئی اور بھی دللا چاہتا ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوجائے کہ وہ تسلی دینے والا جس کا حواریوں سے وعدہ ہوا تھا محمد نہیں ہے۔ تو یہ بات بھی سن لے جو اعمال کے پہلے باب کی ٤ و ٥ آیتوں میں مذکور ہے کہ مسیح نے اپنے صعود سے پہلے اپنے شاگردوں سے ملاقات کر کے بڑی تاکید سے کہا کہ یروشلم سے باہر نہ جائو بلکہ باپ کے اس وعدہ کی جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو راہ دیکھو۔ یوحنا نے تو پانی سے بپٹسمہ دیا۔ پر تم تھوڑے دنوں بعد روح القدس سے بپٹسما پائو گے۔ اور مسیح کا یہی حکم لوقا کے آخر باب کی ٤٩۔ آیت میں بھی مرقوم ہے اور درحالیکہ مسیح نے حواریوں کو یہ حکم دیا تھا کہ جب تک وہ مدد کرنے والا موعود یعنی روح القدس تمہارے پاس نہ آئے یروشلم سے الگ مت ہونا سو اگر وہ مدد کرنے والا محمد ہوتا جیسا کہ محمدی لوگ کہتے ہیں تو ضرور ہوتا کہ حواری یہی مسیح کی عدول حکمی نہ کر کے نہ صرف چند روز بلکہ چھ سو برس تک اسی یروشلم میں زندہ" رہ کر محمد کا انتظار کرتے کیونکہ محمد نے تو مسیح سے چھ سو برس بعد خروج کیا۔ خلاصہ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں باطل ہیں اور ان آیات کو محمد سے منسوب کرنا عقل و انصاف سے باہر ہے۔ پوشیدہ نہ رہے کہ مدد کرنے والا جس کا مسیح نے حواریوں کو وعدہ دیا تھا روح القدس تھا۔ چنانچہ مسطورہ آیتوں سے صاف و آشکار و یقین ہوتا ہے اور روح القدس جو انجیل کی تعلیم کے موافق اقنوم ثالث سے مراد ہے مسیح کے وعدہ کے بموجب مسیح کے عروج سے دس دن بعد حواریوں پر نازل ہوا جیسا کہ اعمال کے ٢ باب میں مفصل بیان ہوا ہے اور جب کہ روح القدس حواریوں پر نازل ہوچکا اور رسالت کا مرتبہ اور معجزہ کی قوت انہیں دے چکا تو انہوں نے یروشلم سے نکل کر سارے جہان میں انجیل کا وعظ کیا۔ چنانچہ ان مطالب کا ذکر اس کتاب کے دوسرے باب کے آخر میں ہوچکا ہے۔“ (دفعہ ٢ ص ٣٤٥) خلاصہ یہ کہ بقول پادری صاحب جس روح کی بابت مسح نے پیشگوئی فرمائی ہے وہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صدیوں پیشر حواریوں پر نازل ہوچکی تھی۔ جس کا بیان اعمال ٢ باب میں مفصل مذکور ہے۔ پادری صاحب کے حوالہ کے بموجب ضروری ہے کہ ہم اعمال ٢ باب کی پوری پوری عبارت نقل کریں۔ گو یہ واجب ان پر تھا جو انہوں نے ادا نہیں کیا۔ وہ یہ ہے : ” اور جب عید پا تکوست کا دن آچکا وہ سب ایک دل ہو کے اکٹھے تھے اور یکایک آسمان سے آواز آئی جیسے بڑی آندھی چلے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے بھر گیا۔ اور انہیں آگ کی سی جدی جدی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر بیٹھیں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے۔ اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں تلفظ بخشا بولنے لگے اور اللہ تعالیٰ ترس یہودی ہر قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے تھے۔ سو جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگی اور وہ دتگ ہوئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی بولی بولتے سنا۔ اور سب حیران اور متعجب ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ دیکھو یہ سب جو بولتے ہیں کیا گلیلی نہیں۔ پس کیونکر ہر ایک ہم میں سے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے۔ پارتھی اور میدی اور علامی اور رہنے والے مسوپوتامیہ یہودیہ اور کپادوکیہ پنطس اور اسیا۔ فریگیہ اور پمفیلیہ مصر اور لبنہ کے اطراف کے جو قورینہ کے قریب ہے۔ اور رومی مسافر اصلی اور داخلی یہودی۔ کریتی اور عرب ہم اپنی زبانوں میں او نہیں اللہ تعالیٰ کی عمدہ باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور شیہ میں پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے یہ کیا ہوا چاہتا ہے اوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ شراب کے نشہ میں ہیں۔ تب پطرس نے گیا رہوں کے ساتھ کھڑا ہو کے اپنی آواز بلند کی اور انہیں کہا۔ اے یہودی مردو ! اور یروشلم کے رہنے والو ! یہ تمہیں واضح ہو اور کان لگا کر میری باتیں سنو ! کہ جیسا تم سمجھتے ہو متوالے نہیں کیونکہ دن کی تیسری گھڑی ہے بلکہ یہ وہ ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے ہر جسم پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے۔ ہاں ان دنوں میں اپنے بندوں اور بندیوں پر اپنی روح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوت کریں گے۔“ (اعمال باب ٢۔ ٨) پس ناظرین خود ہی انصاف فرما دیں کہ جس روح کے آنے کی حضرت مسیح نے خبر دی ہے۔ وہ یہی ہے؟ کیا مسیح کے بتلائے ہوئے آثار اس روح میں پائے جاتے ہیں۔ کیا مسیح کی بڑائی اور تصدیق اس روح نے کی؟ کیا منکروں پر سزا کا حکم لگایا۔ مسیح کی بھولی ہوئی تعلیم لوگوں کو اور خصوصاً حواریوں کو یاد دلائی؟ تعجب تر یہ کہ خود حواری بھی اس روح کو حضرت مسیح کی بتلائی ہوئی روح نہیں بتلاتے۔ کیا اگر حواری بھی اس کو حضرت مسیح کی بتلائی ہوئی روح جانتے تو بجائے یوئیل نبی کے مسیح کا حوالہ نہ دیتے۔ جس کا منکروں کے سامنے ذکر کرنے سے اور فائدہ ان کے ایمان کا بھی ہوتا۔ ہاں پادری صاحب کا یہ شبہ کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تو حواریوں سے پیچھے ہوئے۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ ان کو بھولی ہوئی باتیں یاد دلائے۔ پادری صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی تحریریں کتب مذہبی سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ پادری صاحب ہمیشہ کتب مقدسہ میں بلکہ عموماً کتب قومی میں صیغہ خطاب سے خاص مخاطب مراد نہیں ہوتے بلکہ عام خواہ ان سے بعد سینکڑوں نہیں ہزاروں سال ہوں۔ ورنہ بتلائے کہ انجیل متی باب ٥ کا تمام پہاڑی وعظ کس کے لئے ہوگا۔ جس میں تم تم کے لفظ سے حضرت مسیح خطاب فرما کر احکام بتلاتے ہیں۔ اس سے زیادہ وضاحت منظور ہو تو متی ٢٦ باب ٦٤ کو غور سے پڑھو۔ جہاں سردار کاہن سے مسیح فرماتے ہیں کہ : ” اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی داہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ “ بتلائیے ! سردار کاہن کو آج تک بھی بادلوں میں مسیح کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہاں یہ خوب کہی کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو سب لوگوں نے دیکھا۔ مگر پارا قلت کے حق میں مسیح نے کہا کہ دنیا اسے نہیں دیکھ سکتی پادری صاحب ! مسیح کو بھی سب نے دیکھا بلکہ (بقول آپ کے) پکڑ کر سولی بھی دیا اور بیچارہ ایلی ایلی لماسبقتانی بھی پکارا تاہم یہی کہتا رہا کہ والعالم لیس یروننی وانتم تروننی (عربی بائیبل انجیل یوحنا ١٩/١٤ مطبوعہ لندن) ” یعنی جہان کے لوگ مجھے نہیں دیکھتے اور تم (اے حواریو !) مجھے دیکھتے ہو“ شاید اسی پیش بندی کے لئے اردو میں اس کے ترجمہ میں کچھ لفظ زائد کر کے یوں ترجمہ کیا گیا ہے ” اب تھوڑی دیر ہے کہ دنیا مجھے پھر نہ دیکھے گی پر تم مجھے دیکھتے ہو“ جس پر ادنیٰ توجہ کرنے سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ پس جس طرح مسیح کو دنیا نہیں دیکھتی تھی اس طرح محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو دنیا نے نہیں دیکھا۔ سچ ہے۔ اگر دیکھتے تو ظالم مکہ سے کیوں نکال دیتے۔ بیشک حواریوں نے یعنی حواریوں جیسے ایمانداروں نے اس کو دیکھا اور دیکھ بھی رہے ہیں اور آئندہ کو دیکھیں گے۔ مگر کافروں نے دونوں (محمد اور مسیح) کو نہیں دیکھا اور نہ دیکھ سکتے ہیں حضرت مسیح کے قول سے قرآن کی مطابقت چاہتے ہو تو سنو ! مِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ (بعض کفار تیری طرف نظر کر رہے ہیں مگر حقیقتہً اندھے ہیں تجھے نہیں دیکھتے۔ کیا پھر تو اندھوں کو راہ دکھا سکے گا گو وہ دانستہ نہ دیکھیں) ہاں پادری صاحب کا یہ کہنا کہ مسیح نے اپنے صعود سے پہلے اپنے شاگردوں سے ملاقات کر کے بڑی تاکید سے کہا کہ یروشلم سے باہر نہ جائو بلکہ باپ کے اس وعدے کے موافق جس کا ذکر تم مجھ سے کرچکے ہو راہ دیکھو وغیرہ۔ حیرت افزا ہے کہ پادری صاحب ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی مثل صادق کر رہے ہیں۔ یہ وہی روح قدس ہے جس کا ذکر اعمال ٢ باب والی عبارت میں ہے اور جس کا جواب پہلے ہوچکا کہ یہ روح یوحنا کے ١٤ باب والی روح نہیں ہاں پادری صاحب نے سردار کے متعلق جو توجیہ گھڑی ہے واقعی اس نے سب کو ماند کردیا۔ جو بالکل ” ایجاد بندہ اگرچہ گندہ“ کی مصداق ہے۔ آپ لکھتے ہیں :۔ ” علمائے محمدی اس آیت کو محمد سے نسبت دیتے ہیں حالانکہ الفاظ ” اس جہان کے سردار“ جو اس آیت میں مذکور ہیں ان سے شیطان مراد ہے۔ چنانچہ انجیل کی اور آیتوں سے صاف معلوم و یقین ہوتا ہے اور سارے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے جاننا چاہئے کہ انجیل کے مضمون کے بموجب وہ لوگ جو گناہ کرتے ہیں گناہ ہی کے بندے ہوجاتے ہیں اور گناہ ان کا مالک ہوجاتا ہے (اس میں کوئی انجیل کی ہی خصوصیت نہیں۔ قرآن مجید بلکہ کل کتب مقدسہ کا یہی محاورہ ہے اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ کو غور سے پڑھو) رومیوں کے ٦ باب کی ١٦ آیت اور گناہ اور جھوٹ کا باپ شیطان ہے یعنی گناہ اور سزا اسی سے ہے۔ یوحنا ٨ باب کی ٤٤ آیت اور ہوا کا سردار یعنی شیطان کے سبب نافرمانبرداروں میں تاثیر و حکم کرتا ہے چنانچہ افیؤں کے باب ٢ کی پہلی اور دوسری آیتوں میں مرقوم ہے۔ (میزان الحق دفعہ ٢ صفحہ ٢٤٩) جی نہیں چاہتا کہ پادری صاحب کے اس قول کا رد کیا جائے بلکہ اس کو بحال خود چھوڑ کر ناظرین سے انصاف چاہا جائے کہ وہ خود ہی یوحنا ١٤ باب کو جو ہم نے نقل کردیا ہے۔ پڑھ کر پادری صاحب سے سمجھ لیں مگر اس خیال سے کہ پادری صاحب اور دیگر ان کے ہم مشرب ناراض نہ ہوجاویں کہ ہماری محنت کی داد نہیں ملی کچھ عرض کی جاتی ہے۔ بیشک ہم مانتے ہیں کہ قرینہ سے گنہگاروں اور بدکاروں کا سردار بلکہ معبود بھی اگر شیطان کو کہا جائے تو ممکن ہے اور صحیح ہے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول بلکہ (بقول آپ کے) خود اللہ تعالیٰ یوں کہے کہ بعد اس کے میں تم سے بہت کلام نہ کروں گا اس لئے کہ اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں تو مقام غور ہے کہ یہ سردار شیطان ہوسکتا ہے؟ کیا کسی حواری کو شبہ ہوا تھا کہ مسیح بھی (معاذ اللہ تعالیٰ استغفر اللہ) کوئی شطانی حرکت اور شرارت ہے جس کے دفعیہ کو حضرت مسیح نے فرمایا کہ مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں۔ عیسائیو ! مقام مدح اور مقام ذم میں بھی تو فرق ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے پادری صاحب نے ” اضافت الی البعض اور اضافت الی الکل“ میں فرق نہیں کیا۔ شیطان کی سرداری کا اظہار باضافت گنہگاروں کے تو صحیح ہے لیکن باضافت کل بندگان یا باضافت مطلقہ صحیح نہیں مثلاً یوں اگر کوئی کہے کہ شیطان مشرکوں کا سردار ہے تو صحیح ہے لیکن اگر یوں کہے کہ شیطان دنیا کا سردار ہے تو ” دنیا“ کے لفظ سے بجز یورپ ! مراد لینے کے کوئی وجہ صحت کلام کی نہیں۔ فافہم۔ ناانصاف عیسائیو ! کیوں شریروں کی ماتحتی پسند کرتے ہو۔ باز آئو باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ ایں درگہ ما درگہ نو میدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ اور حلال طیب جو سب انبیاء کی شریعت میں جائز چلے آئے ہوں گے ان کو حلال بتلائے گا۔ اور جو حرام ہوں گے ان کو حرام ٹھیرائے گا اور ان یہودیوں اور عیسائیوں سے احکام کی سختی اور گلے کے پھندے جو ان پر پڑے ہوں گے دور کر دے گا۔ پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور اس کی عزت اور توقیر کئے اور اس کی مدد کئے اور جو نور اور ہدایت یعنی قرآن اس نبی کے ساتھ اترا ہوگا اس کی تابعداری کئے ہوں گے وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ اس لئے تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم واضح لفظوں میں ان سے کہہ دے کہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ وہ اللہ تعالیٰ جس کی حکومت تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے (اصر اور اغلال کی پوری تفصیل مع ثبوت دیکھنی ہو تو ہماری کتاب ” تقابل ثلاثہ“ توریت‘ انجیل اور قرآن کا مقابلہ“ میں احکام شریعت ملاحظہ کریں۔ ١٢ منہ) جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے پس مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حکموں پر دل سے ایمان رکھتا ہے ایمان لائو اور اس کی اطاعت کرو تاکہ تم سیدھی راہ پائو۔ اسی طرح پہلے لوگوں کی طرف ہم نے رسول بھیجے تھے بعض لوگ ان سے مستفیض ہوتے اور بعض انکار کر جاتے یہ کوئی ضروری نہیں کہ سب کے سب ہی مان جائیں اور راہ راست پر آجائیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل میں سے بھی ایک ہی جماعت تھی جو حق بات کی راہ نمائی کرتی اور اسی حق سے عدل و انصاف کرتی تھی جو کوئی بات ان سے پوچھے صحیح اور بے خوف بتلاتے تھے اور ہم نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے احسان کئے ان کی مردم شماری یہاں تک بڑھائی کہ ان کو بڑے بڑے بارہ گروہ اور مختلف قبیلے بنایا اور ان کی حاجت روائی کا اس درجہ خیال رکھا کہ جب موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل نے میدان میں ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی ضرورت معلوم کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغام دیا کہ اپنی لکڑی جو تو ہاتھ میں لئے ہوئے ہے پتھر پر مار پس اس پتھر کو لکڑی کا لگنا ہی تھا کہ بارہ چشمے اس میں سے بہہ نکلے جو ان کے بارہ گروہوں کو کفایت کرتے تھے اس لئے ہر ایک آدمی نے ان میں سے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا اور حسب ضرورت پانی پیتے رہے اور ہم نے ان پر میدان تیہ میں بادلوں کا سایہ کیا۔ یعنی بارشیں کرتے رہے اور ان پر من اور سلویٰ اتارا من جنگل کی خود رو سبزی تھی اور سلوی شکار کے جانور جیسے بٹیر تیتر وغیرہ۔ (منہ) اور عام اجازت دی کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ نعمتیں کھائو اور بے فرمانی نہ کرو۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ مخالفت پر کمربستہ ہوئے آخر کار ہمارا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن اس مخالفت میں اپنا نقصان کرتے رہے۔ اور جب انہوں نے گیہوں پیاز وغیرہ کی درخواست کی تو ان سے کہا گیا کہ اس بستی اریحا میں چلے جائو۔ اور جہاں سے چاہو کھلے کھاتے پھرو۔ اور معافی چاہتے ہوئے حِطَّۃ کہو یعنی معافی چاہو اور شہر کے دروازہ میں متواضعانہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہونا۔ یہ تمہاری طرف سے شکر یہ سمجھا جائے گا نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور آئندہ نیکوکاروں کو زیادہ بھی دیں گے پھر جو لوگ ان میں سے کجرو اور ظالم تھے انہوں نے کہی ہوئی بات کے مخالف ایک اور بات کہی یعنی استہزاء کے طور پر بجائے حطہ (معافی) کے حنطہ (گیہوں) کہنے لگے پس ہم نے ان کی بداطواری کی وجہ سے آسمان سے ان پر عذاب نازل کیا۔ جس سے سب کے سب ذلیل اور خوار ہوئے بجائے فتح کے الٹی شکست ہوگئی۔ پس تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے یہودیوں کی اس بستی کا حال پوچھ جو دریا کے کنارے بستے تھے جب وہ سبت (شنبہ) کی تعظیم میں زیادتی کرتے تھے کیونکہ سبت کے دن ان کو دنیاوی کاموں سے فراغت کر کے عبادت میں مشغول رہنے کا حکم تھا اور دریا کی مچھلیاں بھی اس دن زور سے ٹڈی دل کی طرح آتیں اور جس دن وہ سبت میں مشغول نہ ہوتے بالکل نہ آتیں۔ یہ دیکھ کر وہ گھبرائے کیونکہ ان کا گذارہ معاش اکثر اسی شکار پر تھا۔ آخرکار انہوں نے سبت کی تعظیم کو بالائے طاق رکھ کر شکار کرنا شروع کردیا۔ اصل بات یہ تھی کہ اس بدتعظیمی کے علاوہ اور بھی بے حکمیاں کرا کرتے تھے۔ ان کی بے حکمی کرنے کی وجہ سے ہم ان کو اسی طرح آزماتے تھے۔ اور ان کی بداطواری دنیا پر ظاہر کرتے تھے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی قوم میں بدکاری پھیلتی ہے تو بعض ان میں سے ناصح بن کر ان کو سمجھایا کرتے ہیں تو بعض ان ناصحوں کے ناصح بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو ان کو وعظ و نصیحت سے باز رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس بستی والوں۔ کی حالت ہوئی۔ بعض خود غرض تو ان میں سے بدتعظیمی اور بے حکمی کرنے لگنے اور بعض ان کو سمجھانے لگے اور جب ان میں سے خاموشی اختیار کرنے والی ایک جماعت ناصحین کو مخاطب کر کے بولی کہ کیوں تم ایسے لوگوں کو سمجھاتے ہو کہ جن کی بداطواری دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بالکل تباہ کرنے کو ہے یا دنیا ہی میں سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ انہوں نے ان کے جواب میں کہا اس وعظ و نصیحت سے جاسی کہ عام طور پر ناصحوں اور مصلحتوں کی غرض ہوا کرتی ہے۔ ہماری بھی وہی غرض ہے یعنی ہم اس لئے ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پاس اپنا عذر بنا سکیں اور یہ بھی خیال ہے کہ شاید وہ بھی اس بدکاری سے بچ جائیں آخر ہمیں علم غیب تو نہیں کہ یہ لوگ راہ راست پر نہ آئیں گے جب تک ناصح کے نزدیک امکان تاثیر ہو اس کا فرض ہے کہ نصیحت نہ چھوڑے مگر بدکاروں نے ان کی ایک نہ سنی پس جب وہ بدکار لوگ پند و نصائح سب بھول بیٹھے اور سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا تو ہمارا غضب بھی ان پر آیا پھر ہم نے انہی لوگوں کو جو برائی اور بدکاری سے منع کیا کرتے تھے بچایا اور باقی سب ظالموں کو جو بدکاری کرتے تھے اور جو ان کی بدکاری پر خاموش تھے سب کو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا کیا پھر کچھ دنوں تک عافیت دی مگر جب وہ حد ممانعت سے بڑھتے ہی گئے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ تم ذلیل و خوار بندر بن جائو تمہاری یہی سزا مناسب ہے اور ایک واقعہ بھی ان کو سنا جب اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا کہ اگر بنی اسرائیل نے میرے حکموں کی پرواہ نہ کی اور شریعت کے مخالف کام کرنے لگے تو میں ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہوں گا جو ان کو سخت عذاب پہنچاتے رہیں گے بیشک تیرا پروردگار بڑی جلدی عذاب پہنچا سکتا ہے ممکن نہیں کہ کوئی اسے روک سکے اور وہ اپنے فرماں بردار توبہ کرنے والے بندوں کے حق میں بڑا بخشنہار مہربان ہے اور سنو ! ہم نے ان کو زمین میں مختلف جماعیں ت بنا رکھا ہے۔ بعض ان میں سے نیک ہیں اور بعض اس کے سوا ہیں یعنی بدعمل ہیں اور ہم نے ان کو کبھی احسانوں سے اور کبھی تکلیفوں سے آزمایا تاکہ وہ برے کاموں سے پھریں اور ہدایت پر آویں۔ مگر یہ ایسے کے ویسے ہی رہے پھر ان سے پیچھے ان کے ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو آسمانی کتاب کے وارث تو ہوئے مگر غلط مسائل اور بے جا تاویلات کر کے جہاں سے دنیا کا مال حاصل کرتے ہیں اور اپنے بے جا گھمنڈ میں کہتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معاف کیا جائے گا اور طرفہ تریہ کہ ایک ہی طرف سے نہیں لیتے بلکہ کسی معاملہ میں اگر ایک طرف والا کچھ رشوت دے کر غلط مسئلہ لے جائے اور پھر دوسری طرف سے بھی اسی کے مثل مال ملے تو وہ بھی لے لیتے ہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم نے ایک طرف سے لیا ہے اب دوسری طرف سے کس منہ سے لیں۔ کیا آسمانی کتاب میں ان سے عہد نہیں لیا گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر حق بات ہی کہیو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم اب تک توریت میں موجود ہے اور جو کچھ اس میں ہے یہ لوگ پڑھ بھی چکے ہیں مگر نہیں سمجھتے کیونکہ دنیا کا مال و اسباب ان کو مرغوب ہے حالانکہ آخرت کا گھر ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو پرہیزگار ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے کیوں تم شعور نہیں کرتے اور جو لوگ کتاب سماوی کو مضبوط پکڑتے ہیں اور نماز اور جو ان پر عبادت بدنی مقرر کی گئی ہے اس کو عمدہ طرح سے گذارتے ہیں وہی مزے سے عیش میں ہوں گے کیونکہ ایسے نیکوں کے اجر ہم ضائع نہیں کرتے یہ بےدینی کی عادت ان میں کوئی نئی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہے ہم ان کو ہمیشہ اس قبیح عادت سے روکتے رہے اور سمجھاتے رہے جب ہم نے پہاڑ کو ان کے بڑوں کے سروں کے اوپر ہلایا اس حال میں کہ وہ گویا ان پر چھتری کی طرح سایہ تھا۔ اور وہ سمجھے کہ وہ پہاڑ ہم پر گر پڑے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے قوت اور مضبوطی سے اسے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے خوب یاد کرو تاکہ تم پرہیزگار ہوجائو اس سے بھی یہی غرض تھی کہ ان کجروئوں کو نصیحت ہو۔ مگر وہ ایسے ٹیڑھے تھے کہ وقت پر تابعدار اور بعد وقت فرار چنانچہ اس وعدے کے بعد انہوں نے یہی روش اختیار کی اس کا پھل بھی ویسا ہی پایا۔ الاعراف
143 الاعراف
144 الاعراف
145 الاعراف
146 الاعراف
147 الاعراف
148 الاعراف
149 الاعراف
150 الاعراف
151 الاعراف
152 الاعراف
153 الاعراف
154 الاعراف
155 الاعراف
156 الاعراف
157 الاعراف
158 الاعراف
159 الاعراف
160 الاعراف
161 الاعراف
162 الاعراف
163 الاعراف
164 الاعراف
165 الاعراف
166 الاعراف
167 الاعراف
168 الاعراف
169 الاعراف
170 الاعراف
171 الاعراف
172 (172۔188) اور سنو ! ہم نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انتظام کر رکھا ہے وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے آدم اور بنی آدم کی ذریت ان کی صلب سے نکالی اور انہیں کو گواہ بنایا سوال یہ تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ بیک زبان بولے کہ ہاں بیشک تو ہمارا پروردگار ہے ہم اس امر کے گواہ ہیں دنیا میں جتلانے سے بھی یہی غرض ہے کہ کہیں قیامت کے روز نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل تھے ہمیں تو کچھ خبر ہی نہ تھی یا نہ کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے باپ دادوں نے پہلے ہی کیا اور وہی اس فعل قبیح کے بانی مبانی تھے اور ہم تو ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے پھر کیا تو ہم کو دوسرے غلط کاروں کی غلط کاری سے تباہ اور برباد کرتا ہے اسی طرح ہم احکام کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ یہ تیری قوم کے لوگ ہماری طرف رجوع ہوں۔ اور اگر اس سے بھی ہدایت یاب نہ ہوں اور دنیا کے ایچ پیچ ہی میں پھنسے رہیں تو ان کو اس دنیا دار یعنی فرعون ١ ؎ کا قصہ سنا جس کو ہم نے اپنے احکام دئیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت ہدایت پہنچائی پھر بھی وہ اپنی شرارت سے باز نہ آیا بلکہ ان حکموں سے صاف ہی نکل گیا۔ بالکل کان بھی اس نے نہ جھکائے اس آیت کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کہ یہ کون شخص ہے ان سب میں سے عجیب تر قول یہ ہے کہ ایک شخص بلعم بن باعورا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں تھا۔ حضرت موسیٰ کے مخالفوں کے کہنے سننے سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں اس نے بددعا دی جس سے ان کی فتح سے شکست ہوگئی جس کی وجہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ تعالیٰ سے دریافت کی تو ارشاد اللہ تعالیٰ پہنچا کہ بلعم بن باعورا نے جو ایک مستجاب الدعوات شخص ہے تمہارے حق میں بددعا کی ہے اس لئے تمہاری فتح سے شکست ہوگئی۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ نے اس کے حق میں بددعا کی جس کا اثر یہ ہوا کہ کہیں تو ایسا مستجاب الدعوات تھا۔ اس بددعا کی تاثیر سے آخر بے ایمان ہو کر مرا۔ یہ قول عجیب تر اس لئے ہے کہ موجودہ توریت سے جس سے زیادہ تر معتبر حضرت موسیٰ کے حالات بتلانے والی بعد قرآن شریف کے کوئی تاریخ نہیں اس قصہ کے برعکس ثابت ہوتا ہے۔ توریت کی چوتھی کتاب گنتی کے باب ٢٢ سے ٢٤ تک دیکھنے سے اس قصہ کی تکذیب ہوتی ہے وہاں صریح مرقوم ہے کہ ” موابیوں کے بادشاہ بلق نے ہرچند بلعم سے حضرت موسیٰ کے خلاف دعا کرانی چاہی بہت کچھ طمع اور لالچ بھی دیا مگر اس بندہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز بنی اسرائیل کے خلاف دعا نہ کی بلکہ برکت کی نیک دعا اس کے سامنے کی چنانچہ بادشاہ بلق اس سے سخت ناراض ہوا مگر وہ یہی کہتا رہا کہ میں تو وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ میرے منہ میں ڈالے گا۔“ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس قصہ کو فرعون کی طرف لگایا ہے کیونکہ بنی اسرائیل کو فرعون کا قصہ سنانا ایک طرح مناسبت بھی رکھتا ہے اس آیت میں اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا آیا ہے تو دوسری جگہ فرعون کے حق میں اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی فرمایا ہے۔ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ اور اگر اہل دل کے مذاق پر اس آیت کی تفسیر کی جائے تو یہ ایک تمثیل ہے دنیا دار عالموں کی جو زمین یعنی زمینی مال کی طرف جھکتے ہیں اور علم سے صاف بے لوث نکل جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اَلَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰیتَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا انہی معنے کی طرف اشارہ ہے شیخ سعدی مرحوم نے کیا سچ فرمایا ہے علم چند انکہ بیشتر خوانی چوں عمل در تو نیست نادانی نہ محقق بود نہ دانشمند چار پایہ برو کتابے چند ١٢ (منہ) پس اس شرارت اور خباثت کی پاداش اس کو یہ ملی کہ شیطان ہمہ تن اس کے پیچھے پڑگیا۔ یہاں تک کہ جو چاہتا اس سے کروا لیتا پس انجام کار وہ سخت راہ بھولوں میں جا ملا اور اگر ہم چاتے۔ تو باوجود ان کی گردن کشی کے ان احکام کے ساتھ اس کو بلند رتبہ کرتے وہ ان پر عمل کرتا اور درجے پاتا لیکن چونکہ اس نے خود ہی پستی میں گرنا چاہا اور اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے لگا تو ہم نے بھی اسے چھوڑ دیا پس اس کی مثال اس ذلیل کتے کی سی ہے جس پر تو بوجھ لادے تو ہانپتا ہے۔ اور اگر چھوڑ دے تو بھی ہانپتا ہے اسی طرح اس کی حالت دونوں جہانوں کی زندگی میں ہوئی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر مرا آخرت میں النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا اس کی شان میں وارد ہے۔ یہ ذلت اور خواری کی تمثیل کچھ اسی سے مخصوص نہیں بلکہ اس قوم کی ہے جو ہمارے حکموں سے منکر ہوں پس تو ان کی ہدایت کے لئے قصے بتلایا کرتا کہ یہ کم بخت کچھ فکر کریں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے منکر ہیں اور اپنے بھائی بندوں پر ظلم کرتے ہیں بداخلاقی سے پیش آویں ان کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی بری ہے اصل عزت اور آبرو تو ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی راہ پر لگائے اور اس کے اعمال صالحہ قبول فرمائے وہی ہدایت یاب ہے اور جن کو وہ اپنی جناب سے دھکیل دے اور راہ راست سے پھینک دے وہی نقصان والے اور زیاں کار ہیں بہت سے جن اور انسان جن کو ہم نے بحواس خمسہ پدٰا کیا مگر فطرت اللہ تعالیٰ کو بگاڑ کر بدصحبتوں سے ایسے متاثر ہوئے ہیں کہ دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ جہنم کے لئے ہی ہم نے بنائے ہیں کیونکہ بظاہران کے سینوں میں دل ہیں پر ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں پر وہ ان سے حق و باطل دیکھتے نہیں اور ان کے سروں پر کان ہیں پر وہ ان سے ہدایت کی باتیں سنتے نہیں خلاصہ یہ کہ وہ حماقت میں گویا مثل چارپائوں کے ہیں بلکہ چارپائوں سے بھی گئے گذرے کیونکہ چارپائے اپنے فرائض کو پہچانتے ہیں۔ کتے کو دیکھو اپنے مالک کے مال کی ایسی حفاظت کرتا ہے کہ جان تک بھی دینے کو تیار ہوتا ہے اور یہی لوگ اپنے فرائض سے غافل ہیں کچھ نہیں سوچتے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا پس ان کی بدکاری اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ دیکھنے والا ان کو جہنم کی پیدائش کہے تو بجا ہے ان کی کجروی کئی طرح کی ہے ایک تو بداخلاقی سے مخلوق میں فساد ڈالتے ہیں دویم اللہ تعالیٰ کی صفات میں اپنی من گھڑت باتوں سے یعنی جو صفات حسنہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں وہ اوروں پر بولتے ہیں خواہ اپنی زبان میں ہوں یا غیر میں۔ مخلوق کو دستگیر۔ داتا۔ گنج بخش وغیرہ کہتے ہیں۔ حالانکہ سب نیک صفات کے نام اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں۔ پس تم مسلمانو ! ان ناموں سے اس کو پکارا کرو اور جو بےدین لوگ اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں اس کے نام اپنے پاس سے من گھڑت بولتے ہیں یا اس کے نام اوروں پر اطلاق کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے اور ہماری مخلوق میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کجروئوں کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو حق بات کی بے لاگ ہدایت کرتے ہیں اور خود بھی اسی حق کے مطابق عدل و انصاف کرتے ہیں اور جو لوگ ہمارے حکموں سے منکر ہیں ہم ان کو بتدریج ایسے راستہ سے جسے وہ نہیں جانتے جہنم کی طرف گھسیٹیں گے یعنی وہ ایسے کام کریں گے۔ کہ جہنم میں جانے کا سبب ہوں گے اور اب تو میں (اللہ) ان کو قدرے ڈھیل دے رہا ہوں یقینا سمجھ کہ میرا دائو بڑا ہی مضبوط ہے یہ جو نبی کی تکذیب پر کمر بستہ ہو رہے ہیں کیا یہ فکر نہیں کرتے کہ ان کا ہم صحبتی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجنون تو نہیں کہ بلاوجہ ان کی ہر بات میں مخالفت کرتا ہے اگر غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ عذاب الٰہی سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہے اور بس۔ کیا یہ لوگ آسمانوں اور زمینوں کے انتظام اور حکومت میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں غور و فکر نہیں کرتے اور یہ بیر نہیں سوچتے کہ شاید ان کی اجل اور موت قریب ہی آلگی ہو اور بعدالموت ان پر کیا کچھ گذرے گا۔ پھر اس سچی تعلیم کو چھوڑ کر کس بات کو باور کریں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی جناب سے دھتکار دے اس کے لئے کوئی راہ نما نہیں ہوسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیتا ہے حیران و پریشان ہیں بطور مسخری و استہزاء تجھ سے قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ کب ہوگی تاریخ بتلائو تو جواب میں کہہ کہ اس کی خبر صرف میرے پروردگار کو ہے۔ وہی مناسب وقت میں اسے ظاہر کرے گا ہاں یہ بتلائے دیتا ہوں کہ اس کا خوف اتنا ہے کہ تمام آسمان والوں اور زمین والوں پر دہشت ناک ہے۔ اچانک ہی تم پر ظاہر ہوجائے گی تجھ سے تو اس طرح پوچھتے ہیں (شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ) قریشیوں نے استہزائً آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا اور ہمارا تعلق رشتہ کا ہے قیامت کے آنے کی ہمیں تاریخ تو بتلا دے تاکہ ہم اس کے آنے سے پہلے ہی خبردار ہوجائیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) گویا تو اس کی ٹوہ میں ہے۔ اور تجھے اس کی تاریخ ہی سے بحث مباحثہ ہے۔ تو پھر کہہ دے اس کی خبر تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے میں اس سے مطلع نہیں۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص کسی علم کا دعویدار نہ ہو اس سے اس کی بابت سوال کرنا سراسر حماقت ہے۔ اے ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو یہ بھی ان سے کہہ دے میں تمام لوازمات بشریہ میں تمہاری طرح ہوں اللہ تعالیٰ کے کاموں میں میں ایسا ہی بےدخل ہوں جیسے تم۔ سرکاری کاغذات میں غلاموں کا کیا دخل۔ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی جلب نفع اور دفع ضرر کا اختیار نہیں رکھتا۔ ہاں جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنا بہت سا بھلا اور فائدہ کرلیتا اور مجھے کبھی تکلیف نہ پہنچتی۔ تکلیف کے پہنچنے کا سبب عدم علم ہی ہوا کرتا ہے مالی اور بدنی وغیرہ جتنے نقصان ہوتے ہیں سب اس لئے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کا حال معلوم نہیں۔ ورنہ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ فلاں تجارت میں مجھے نقصان ہے۔ وہ اس تجارت میں کیوں ہاتھ ڈالے گا۔ ایسا ہی جس کو معلوم ہو کہ فلاں چیز کا کھانا مجھے مضر ہوگا وہ کیوں کھانے لگا (اس آیت نے صاف فیصلہ کردیا ہے کہ پیغمبروں کو علم غیب مطلقاً نہیں ہوتا جس قدر اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اسی قدر وہ جانتے ہیں فقہاء حنفیہ نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ جو شخص کسی معاملہ میں رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گواہ کرے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب ہونا اعتقاد کیا (دیکھو فتاویٰ قاضی خان) مگر افسوس کہ مسلمان اس ایمانی مسئلہ سے بھی ناواقف ہیں کہ انبیاء تو بجائے خود اولیاء کے لئے بھی غیب دانی سمجھ بیٹھے ہیں شیعوں کی معتبر کتاب کلینی کی کتاب العلم میں مصنف کتاب نے باب تجویز کیا ہے ائمہ اہلبیت کو علم غیب ما کان اور مایکون گذشتہ اور آئندہ سب کا تھا نعوذ باللہ تعالیٰ من الھفوات انہی کی تبعیت میں نام کے سنیوں نے غیب دانی کا عقیدہ مشائخ کی نسبت سیکھا ہے قرآن شریف ان سب باتوں کا رد کرتا ہے۔ صریح نص جیسی اس باطل خیال کے رد میں ہے کسی دوسرے مسئلہ میں شائد ہی ملے شیخ سعدی مرحوم نے کیا ہی ٹھیک کہا ہے کسے پر سید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خردمند زمصرش بوئے پیراہن شنیدی چرا در چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال ما برق جہان ست دمے پیدا و دیگر دم نہان ست گہے برطارِم اعلیٰ نشینیم کہے برپشت پائے خود نہ بینیم سچ ہے لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَ سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَماَ مَسَّنِیَ السُّوٓئُ (منہ) میں تو صرف بدکاریوں پر ڈرانے والا اور ایمانداروں کو خوش خبری سنانے والا ہوں الاعراف
173 الاعراف
174 الاعراف
175 الاعراف
176 الاعراف
177 الاعراف
178 الاعراف
179 الاعراف
180 الاعراف
181 الاعراف
182 الاعراف
183 الاعراف
184 الاعراف
185 الاعراف
186 الاعراف
187 الاعراف
188 الاعراف
189 (189۔206) اگر پوچھو کہ بھئی کس نے بھیجا ہے تو میرا بھیجنے والا وہ معبود برحق ہے جس نے تم کو ایک جان آدم سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس بیوی کے ساتھ تسلی پاوے چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے پھر جب مرد عورت سے حاجت روائی کرتا ہے تو اس کو ہلکا سا حمل ہوجاتا ہے مگر وہ اتنے حمل سے چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب قریب ایام آتے ہیں۔ اور بوجھل ہوتی ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں اور گڑگڑاتے ہیں کہ اگر تو ہم کو صحیح سالم بچہ عنایت کرے تو ہم تیرے شکر گذار ہوں مگر پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو صحیح سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو اس کے دئیے میں ساجھی بنا دیتے ہیں بندوں کی طرف نسبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی پیراں دتا۔ کوئی میراں دتا۔ کوئی سالار بخش۔ کوئی احمد بخش وغیرہ وغیرہ نام رکھ دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ دینے دلانے والا کوئی اور ہی ہے جس کی شان ہے یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَشَآئُ الذُّکُوْرَ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًاوَّیَجْعَلُ مَنْ یَشَآئُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ پس اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بلند ہے اس کی ذات تک شرک کا شائبہ بھی نہیں پہنچتا۔ کیا ان کو یہ بھی شرم نہیں آتی کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو پیدا نہ کرتا تو پیدا ہی نہ ہوسکتے اور نہ ان کی وہ مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کی اگر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کسی بات میں پکڑ لے تو مجال نہیں کہ چوں بھی کر جائیں تم اتنا بھی سمجھ نہیں سکتے کہ اگر تم ان مصنوعی معبودوں کو بغرض ہدایت طلبی بلائو اور دعا مانگو اس آیت کو بعض مفسروں نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے متعلق کیا ہے ایک ضعیف حدیث بھی اس مضمون کے متعلق بیان کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ حوا جب حاملہ ہوئی تو ان کے پاس شیطان نے آ کر کہا کہ تیرے پیٹ میں جو ہے اس کا نام عبدالحارث رکھنا تجویز کرے تو بچہ صحیح و سالم نکلے گا اور حارث شیطان کا نام ہے چنانچہ حوا نے ایسا ہی کیا۔ اس آیت میں یہ بیان ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ آیت بنی آدم کی عام حالت کا نقشہ ہے چنانچہ اس لفظ میں تعالیٰ اللہ تعالیٰ عما یشرکون جمع کا صیغہ لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تصریح کردی ہے کہ یہ عام بنی آدم کی کیفیت کا بیان ہے۔ نتیجہ :۔ اس آیت کا مفہوم ہے کہ آج کل جو اولاد کا نام عبدالنبی یا عبدالرسول یا دیوی دتا یا پیراں دتا رکھتے ہیں یہ شرک ہے۔ (منہ) تو تمہارے حسب منشا نہیں کرسکتے۔ پس نفع رسانی کی حیثیت سے برابر ہے کہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔ ہاں پکارنے میں ضرر ضرور تم کو ہوگا۔ کیونکہ اپنی جیسی مخلوق کو بغرض مراد طلبی پکارنا شرک ہے اور اس میں تو شک نہیں کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو تمہاری طرح کے بندے ہیں پس اگر تم اپنے دعویٰ میں کہ ان کو بھی کچھ ایصال نفع میں اختیار ہے سچے ہو تو ان کو بلائو پھر دیکھیں کہ وہ تمہاری مان بھی لیں کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ تو اپنی اپنی نوبت گذار گئے اور جان بحق تسلیم کرچکے وہ تو ان باتوں میں بھی جن میں بنی آدم باھمی ایک دوسرے کی معمولی کاموں میں دستگیری و فریاد رسی کیا کرتے ہیں بوجہ فوتیدگی کے کچھ نہیں کرسکتے کیا تم دیکھتے ہو کہ ان کے پائوں ہیں جن کے ساتھ وہ چلتے تھے۔ یا ان کے ہاتھ ہیں جن کے ساتھ وہ چیزوں کو پکڑتے تھے یا ان کی آنکھیں ہیں۔ جن کے ساتھ وہ دیکھا کرتے تھے۔ یا ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنا کرتے تھے جب ان کا کوئی جوڑ بھی نہیں رہا بلکہ سب کے سب قبروں میں گل گئے ہیں تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ نے زندوں کو ایک دوسرے کی کاربراری کی دی ہوئی تھیں جب وہ بھی ان میں نہ رہیں تو بیرون از طاقت کاموں میں ان سے فریاد رسی اور استمداد کیونکر جائز ہوگی تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے صاف کہہ دے کہ اچھا اپنے ساجھیوں اور شریکوں کو بلائو پھر جو کچھ تم سے ہوسکے مجھ پر دائو چلا لو اور مجھے کسی طرح ڈھیل مت دو۔ میں دیکھوں کہ تمہارے مصنوعی معبود میرا کیا کرسکتے ہیں۔ میرا متولی اور کار ساز تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جس نے میری طرف کتاب نازل کی ہے اور وہی سب لوگوں کا عموماً اور نیکوکاروں کا خصوصاً متولی ہوا کرتا ہے اور تم جن کو اس کے سوا پکارتے۔ اور ان سے دعائیں مانگتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے نفسوں کی اور اگر تم ان کو راہ نمائی کے لئے بلائو اور دعا مانگو تو تمہاری سنیں گے بھی نہیں۔ مگر اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیرے مخاطب شرک کفر کی بیماری میں ایسے اندھے ہیں کہ تیرے سامنے آ کر کھلی آنکھیں تیری طرف نظر کرتے ہیں اور تو سمجھتا ہے کہ مجھے دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ جیسا چاہئے نہیں دیکھتے۔ متحیرانہ مدہوشانہ نظر کرتے ہیں اور حیران ہیں کہ یہ کیا کہتا ہے تو ان کی دیوانگی اور دیوانہ تحیر کی پرواہ نہ کر بلکہ درگذر کی خوکر اور نیک کام موافق شریعت بتایا کر اور جاہلوں سے علیحدہ رہا کر۔ ان کی کسی جاہلانہ بات کا جواب نہ دے بلکہ شیخ سعدی مرحوم کے قول ” جواب جاہلاں باشد خموشی “ پر عمل کر اور اگر فرضاً شیطان کی طرف سے تجھے کوئی حرکت پہنچے کہ جوش میں آ کر ان کا سامنا کر بیٹھے تو جھٹ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لیجیو اور اعوذ باللہ تعالیٰ من الشیطن الرجیم واعوذ باللہ تعالیٰ ان اکون من الجاھلین پڑھیو بیشک اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور ہر ایک کی بات کو جانتا ہے یہ ہمیشہ سے طریقہ چلا آیا ہے کہ پرہیزگاروں کو بتقاضاء بشریت جب کوئی حرکت شیطانی سوجھتی ہے تو اسی وقت عذاب الٰہی سے ان کو سوجھ آجاتی ہے تو وہ بینا ہوجاتے ہیں جو گناہ کی ظلمت کا پردہ ان کے دلوں پر آیا ہوتا ہے وہ فوراً اٹھ جاتا ہے اور ان تیرے مخاطبوں کی تو یہ حالت ہے کہ ایک تو یہ خود ہی گئے گذرے ہیں ایسے مردہ دل ہیں کہ کبھی ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بیٹھی ہی نہیں۔ دوئم ان کے ہم خیال بدصحبتی ایسے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہر وقت ان کو گمراھی کی طرف ہی زور سے دھکیلے لئے جاتے ہیں اور ان کی تباہی اور بربادی میں کوئی کمی نہیں کرتے ہاں یہ ہر وقت سمجھاتے رہتے ہیں کہ تیری نہ مانیں بلکہ الٹے مخول ٹھٹھے سے پیش آتے ہیں اور جب تو ان کو ان کے حسب منشاء حکم بتوں کی تعظیم وغیرہ نہیں لا دیتا تو کہتے ہیں کہ تو نے یہ حکم کیوں نہ بنا لیا اپنے پاس سے گھڑ کر دکھا سنا دے تو ان نادانوں سے کہہ دے کہ میں اسی بات کے پیچھے چلتا ہوں جس کی مجھے میرے پروردگار کے ہاں سے اطلاع ملتی ہے تمہارے لئے بھی یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت کی بات اور ہدایت ہے اور ایمانداروں کے لئے تو سراسر رحمت ہے اسی لئے تمہیں حکم ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔ اور جب بغرض تذکیر اور وعظ تم پر قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنا کرو اور چپ ! رہا کرو تاکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم ہو مشرکین جب قرآن میں بت پرستی اور شرک کی مذمت سنتے تو کہتے تھے اِیْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ھٰذَا اَوْ بَدِّلْہٗ۔ یعنی اس قرآن کے سوا اور قرآن لا۔ یا اس کا اتنا حصہ بدل دے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اٰیۃ کے معنے معجزے کے یہاں ٹھیک نہیں۔ ١٢ (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ) اس آیت کی تفسیر میں ہم نے یہ لفظ ” بغرض تذکیر اور وعظ“ بڑھا کر ایک بڑے معرکۃ الآرا مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے لکھنے کا پہلے ہمیں خیال نہ تھا بلکہ اس کے لئے کوئی اور مقام تجویز تھا مگر بعض وجوہ پیش آمدہ سے اس مقام پر اس کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا۔ وہ مسئلہ قرءۃ خلف الامام کا ہے قدیم الایام سے تو یہ مسئلہ اختلاف رکھتا تھا مگر اس زمانہ میں مسلمانوں کی خوش قسمتی سے جہاں اور کلیں خراب ہو رہی ہیں اس میں بھی اختلاف سے مخالفت کی صورت بدل گئی ہے۔ دونوں گروہوں (قائلین اور مانعین) میں اس مسئلہ نے جو اپنا اثر دکھایا ہے۔ وہ ہندی مسلمانوں سے مخفی نہیں۔ اسی مخالفت کی وجہ سے ہمارا طریق عمل تفسیر کے متعلق ہم کو اس تحریر کی اجازت نہ دیتا تھا مگر چونکہ ایک ہی کام کے لئے مختلف نیتیں ہوسکتی ہیں جو اپنا اپنا الگ الگ اثر دکھاتی ہیں۔ اس لئے بہ نیت نیک اپنے نزدیک راجح مذہب کا اظہار کرنا کچھ معیوب نہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ائمہ مجتہدین کے کئی ایک مذہب ہیں شافعیہ اور اہل حدیث کے نزدیک تو فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے جمہور خنفیہ کے نزدیک منع بلکہ حرام ہے بعض ائمہ کے نزدیک سنت۔ حنفیہ جو مطلقاً سری اور جہری دونوں نمازوں میں منع کہتے ہیں ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ آیت ہے جس کا مطلب وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اور جس گھڑی قرآن شریف پڑھا جائے سننے والے کا فرض ہے کہ اسے کان لگا کر سنے اور خود منہ سے کچھ نہ کہے جیسا کہ فاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا سے مفہوم ہے۔ چونکہ امام نماز میں پڑھتا ہے اس لئے مقتدی کو بحکم آیت موصوفہ کے پڑھنا نہ چاہئے۔ یہ ہے حنفیہ کی دلیل کی مختصر تقریر ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اصل اصول سے گفتگو اٹھائیں اور جس نیو پر یہ مسئلہ مبنی ہے اس کی تھوڑی سی تفصیل اور تشریح کر کے پھر اس کی توضیح کریں مگر چونکہ یہ تقریر کسی قدر علمی اصول پر ہوگی اس لئے محض اردو خوانوں سے اگر وہ ان کی سمجھ میں بخوبی نہ آسکے معافی کے خواستگار ہیں تاہم کوشش کریں گے کہ جس طرح سے ہوسکے آسان طرز سے مضمون ادا ہو۔ علمائے اصول ” عام“ کے بارے میں مختلف ہیں کہ وہ اپنے افراد کو قطعی شامل ہوتا ہے یا ظنی جمہور علماء کے نزدیک ظنی اور بعض کے نزدیک قطعی اور یہی مذہب جمہور حنفیہ کا ہے۔ گو بعض حنفیہ کو بھی یہ مسلم نہیں چنانچہ تلویح میں مذکور ہے کہ : وعند جمھور العلماء اثبات الحکم فی جمیع مایتناولہ من الافراد قطعا ویقینا عند مشایخ العراق وعامۃ المتاخرین وظنا عند جمھور الفقہا والمتکلمین وھو مذھب الشافعی والمختار عند مشایخ سمرقند حتی یفید وجوب العمل دون الاعتقاد و یصح تخصیص العام من الکتاب بخبرالواحد والقیاس۔ (تلویخ ص ٤٠) ” عام کا حکم اس کے افراد میں مشائخ عراق اور عامہ متاخرین کے نزدیک یقینی ہے۔ لیکن جمہور فقہاء اور متکلمین کے نزدیک ظنی ہے اور یہی مذہب شافعی کا ہے اور مشائخ سمرقند کا مختار بھی یہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وجوب عمل کا فائدہ دیتا ہے۔ وجوب علم کا نہیں اور تخصیص کتاب اللہ تعالیٰ کی خبر واحد اور قیاس سے (در صورت ظنی ہونے کے) جائز ہے “ مذکورہ بالا عبارت سے نہ صرف یہی کہ علماء کا اختلاف ” عام“ کے بارے میں معلوم ہوا ہے بلکہ ثمرہ اختلاف بھی واضح ہوا (یعنی جن لوگوں کے نزدیک ” عام“ اپنے مسمیات میں قطعی ہے۔ وہ تو خبر واحد سے اس کی تخصیص قبل تخصیص بالمساوی جائز نہیں جانتے اور جن کے نزدیک ظنی ہے۔ ان کے نزدیک تخصیص بخبر واحد قبل تخصیص بالمساوی جائز ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تخصیص عام بخبرالواحد کوئی مسئلہ متنازعہ فیہ نہیں بلکہ متنازعہ فیہ براسہ اشتمال عام ہے۔ علماء اصول نے اپنے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے بہت سے دلائل دئیے ہیں بہتر ہے کہ پہلے ان کے بتلائے ہوئے دلائل بیان کریں بعد ازاں کچھ اپنی طرف سے حسب ضرورت ایزاد کریں کیونکہ الفضل للمتقدم مسلم امر ہے۔ صدر الشریعت صاحب توضیح جن کے بعد ان سے بڑھ کر تو کیا ان کے رتبہ کا بھی اصول دانی میں کوئی پیدا نہ ہوا ہوگا۔ جو اصولوں کے عموماً حنفیوں کے خصوصاً افتخار ہیں اپنے دعویٰ (قطعی اشتمال) کو مدلل کرتے ہیں جن کی مزید توضیح صاحب تلویح کی عبارت میں ہم بتلاتے ہیں : ان اللفظ اذا وضع لمعنی کان ذلک المعنی لازماثابتا بذلک اللفظ عند اطلاقہ حتی یقوم الدلیل علی خلافہ والعموم مما وضع لہ اللفظ فکان لازما قطعا حتی یقوم دلیل المخصوص لفظ جب کسی معنے کے لئے وضح ہوتا ہے تو وہ معنے اس لفظ کو لازم ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف کی قائم نہ ہو۔ عموم کے لئے بھی لفظ موضوع ہیں تو عموم بھی اپنے لفظ کو قطعی لازم ہوگا۔ جب تک دلیل خصوص قائم نہ ہوجیسے خاص کا مسمیٰ قطعی ثابت ہوتا ہے جب تک دلیل مجاز قائم نہ ہو “ قائلین بالظن کی طرف سے صاحب تلویح نے یہ دلیل بیان کی ہے : ان کل عام یحتمل التخصیص والتخصیص شائع فیہ کثیر بمعنی ان العام لایخلو عنہ الا قلیلا بمعونۃ القرائن کقولہ تعالیٰ ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر وللّٰہ ما فی السموات وما فی الارض حتی صار بمنزلۃ المثل انہ ما من عام الاوقد خص منہ البعض وکفی بھذا دلیلا علی الاحتمال و ھذا بخلاف احتمال الخاص المجاز فانہ لیس بشائع فی الخاص شیوع التخصیص فی العام حتی ینشا عنہ احتمال المجاز فی کل خاص (تلویح ص ٤١) ہر عام احتمال تخصیص کارکھتا ہے اور تخصیص عام طور پر شائع بھی ہے یعنی کوئی عام شاذ و نادر وہ بھی بالقرائن کے سوا تخصیص سے خالی نہیں جیسا قول اللہ تعالیٰ ان اللہ تعالیٰ علی کل شیء قدیر۔ وللہ ما فی السموات وما فی الارض یہاں تک کہ یہ ایک مثل ہے ” کوئی عام ایسا نہ ہوگا جس کی تخصیص نہ ہوئی ہو“ اور احتمال کے لئے اتنی ہی دلیل کافی ہے۔ بخلاف احتمال خاص کے معنے مجازی کے لئے کیونکہ وہ تخصیص کی مثل شائع نہیں تاکہ ہر خاص میں احتمال مجاز پیدا ہوسکے۔ “ قائلین بالظن کی اس دلیل کے علاوہ ہمارے خیال میں یہ ایک دلیل بھی عام کے قطعی نہ ہونے کی قطعی ہے کہ ” عام“ اگر مساوی خاص کے قطعی ہو تو زید کی غیبت جیسی منع ہے عام افراد کی بھی منع ہوتی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ” زید“ کو جو خاص ایک شخص ہے برا کہے تو شرع میں اس کو غیبت کا گناہ ہے۔ اور حکام مجازی لائیبل (ہتک عزت) قرار دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص زید کی ساری قوم یا ہم پیشہ لوگوں کو جن میں زید کا شمول بھی ہے برا کہے تو نہ شرعاً غیبت کا گناہ ہے نہ عرفاً لائیبل کا دعویٰ۔ پس اگر دونوں (عام اور خاص) اپنے مسمیات کے اشتمال میں مساوی الاقدام ہوتے تو نتیجہ بھی مساوی الدرجہ ہوتا۔ وارتفاع اللازم یستلزم ارتفاع الملزوم۔ یہ تقریر ہماری خاص کر اس وقت زیادہ وضاحت دیتی ہے۔ جب ہمارے سامنے کوئی شخص علماء کی نسبت بدزبانی کرتا ہوا یوں کہے کہ آج کل کے علماء ایسے ویسے ہیں ۔ اور دوسرا شخص خاص کر ہمارے نام سے وہی الفاظ ہمارے سامنے زبان پر لاوے تو دونوں حالتوں میں جتنا مختلف اثر ہم اپنے اندر پائیں گے اسی قدر ان دونوں لفظوں کی دلالت کا فرق ہوگا۔ دونوں حالتوں میں مختلف اثر کیوں ہے؟ اس لئے ہے کہ جب کوئی شخص ہمارے نام پر برا کہے تو اس میں کوئی تاویل یا عدم شمول کا خیال نہیں ہوسکتا ہے۔ اور جس وقت کوئی شخص ہماری ساری قوم کو یا ہم پیشہ لوگوں کو برا کہتا ہے تو ایک ضعیف سا وہم اور خیال اس بات کا باقی رہتا ہے کہ شاید یہ قائل ہم کو ایسے لوگوں سے الگ سمجھتا ہو۔ گو قائل نے کوئی قرینہ اس خیال کا بھی قائم نہ کیا ہو۔ پس اسی طریق دلالت کا نام ظنی اشتمال ہے فھوما اردنا۔ ہماری اس تقریر میں صاحب توضیح کا جواب بھی مل سکتا ہے کیونکہ کسی لفظ کو معنے کے لئے وضع کرنے کے یہ معنے ہیں کہ اس لفظ سے وہ معنی سمجھے جائیں۔ کسی طریق سے ہوں قطعی ہوں یا ظنی۔ خاص میں قطعی طریق سے دلالت ہوگی۔ عام میں ظنی سے۔ ہاں اگر عام میں قطعیت منظور ہوگی تو تاکید سے کام لیا جائے گا۔ تو افقا للادلۃ۔ فافھم۔ پس بعد اس تمہید کے ہم آیت کے جواب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اولاً تو آیت موصوفہ عام نہیں کیونکہ ” اذا“ کا لفظ سورۃ کلیہ کا نہیں بلکہ مہملہ ہے وھی تلاذم الجزئیۃ لا الکلیۃ۔ جب عام ہی نہیں تو حدیث سے تخصیص کسی طرح مشکل نہیں اور اگر بفحوائے مھملات العلوم کلیۃ عام بھی ہو تو بوجہ اشتمال ظنی مسمیات اپنے کے خبر واحد سے مخصوص ہوسکتا ہے۔ وہ کیا ہے ؟ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب۔ ولا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرؤھا (الحدیث) اس تخصیص کی تمثیل مسلمہ سننی ہو۔ تو سنو ! اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ۔ الایۃ۔ باوجو اس کے ایک وضو سے متعدد نمازیں جائز ہیں کما ھو مجمع علیہ فما ھو وجھہ وجہ ذا۔ اگر اس تقریر سے بھی ہم تنزل کریں اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ ” عام“ کا اشتمال قطعی ہے۔ تو بھی ہم باآسانی جواب دے سکتے ہیں کیونکہ در صورت قطعیت تخصیص بخبر واحد اسی صورت میں منع ہے جس میں عام مخصوص البعض نہ ہوچکا ہو۔ اور اگر ” عام“ کسی مخصص کے ساتھ مخصوص البعض ہوچکا ہے۔ تو پھر تخصیص بخبر واحد میں کوئی اشکال نہیں چنانچہ تصریحات علماء اس پر شاہد ہیں۔ اما العام الذی خص عنہ البعض فحکمہ انہ یجب العمل بہ فی الباقی مع الاحتمال فاذا قام الدلیل علی تخصیص الباقی یجوز تخصیصہ بخبرالواحد والقیاس (اصول شاشی ص ٤) جس عام سے بعض افراد مخصوص کئے جائیں اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے باقی افراد پر عمل کیا جائے۔ باوجود احتمال پھر جب باقی افراد میں سے کسی فرد کی تخصیص پر دلیل قائم ہوجائے تو خبر واحد اور قیاس سے اس کی تخصیص جائز ہے۔ “ پس اب دیکھنا چاہئے کہ سوا خلف الامام کے کتنے افراد میں حنفیہ بھی آیت موصوفہ کو مخصوص مانتے ہیں۔ اگر جہری اور سری دونوں نمازوں میں اسے دلیل سمجھا جائے جیسا کہ ان کے سیاق دلیل سے معلوم ہوتا ہے تو پہلا فرد مخصوص صلوٰۃ فرادیٰ فرادیٰ ہے۔ دوم صبح کی نماز میں جماعت کے ہوتے اور امام کی قرأت پڑھتے وقت وہ سنتوں کا باب المسجد پر یا ستون کی اوٹ میں ادا کرنا کماھو مذکور فی الھدایۃ۔ سوم مسبوق کا امام کی قرأت کے اثناء میں تکبیر تحریمہ کہہ کر شریک ہونا حالانکہ تکبیر تحریمہ ” اللّٰہ اکبر“ ایک جملہ تامہ ہے جو فاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا کے صریح خلاف ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ پس ایسا ہی چوتھا فرد خلف الامام بھی مخصوص ہو تو آیت موصوفہ سے کیونکر مخالف ہوسکتا ہے۔ یہ طرز استدلال ہمارا آیت کی تخصیص سے دراصل مدافعت ہے۔ نہ کہ اثبات دعویٰ۔ اب ہم دعویٰ کا ثبوت آسان طرز سے جس میں طول الامل بھی نہ ہو دیتے ہیں اور وہ یہ ہے قولہ تعالیٰ فاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ القُرْآنِ الایۃ۔ کل مفسرین و اہل مذاہب متفق ہیں کہ آیت موصوفہ نماز کے متعلق ہے۔ چنانچہ اسی آیت کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک مطلق قرأت بلاتعیین فاتحہ فرض ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اسی آیت سے قرأت فاتحہ خلف الامام کی فرضیت ثابت ہے۔ اس لئے کہ ” مَا“ جو مَا تَیَسَّرَ میں ہے۔ تین احتمال رکھتا ہے ” عام“ ” مطلق“ اور ” مجمل“۔ پہلے دو احتمال تو یہاں نہیں ہوسکتے۔ تیسرا صحیح ہے۔ ” عام“ تو اس لئے نہیں کہ ” عام“ کا حکم اس پر مترتب نہیں۔ ھو بمنزلۃ الخاص فی حق لزوم العمل بہ لا محالۃ وعلی ھذا قلنا اذا قطع السارق بعدما ھلک المسروق عندہ لایجب علیہ الضمان لان القطع جزاء جمیع ما اکتسب بہ فان کلمۃ ما عامۃ یتناول جمیع ماوجد من السآرق (اصول شاشی) عام کا حکم یہ ہے کہ وہ لزوم عمل میں بمنزلہ خاص کے ہے یقینا اسی بناء پر ہم (حنفیہ) نے کہا ہے کہ چور کے ہاتھ اگر اس کے پاس سے مال مسروقہ ضائع ہوجانے کے بعد کاٹے جائیں تو اس پر ضمان نہیں آتی کیونکہ قطع اس کے تمام کام کے عوض میں ہے اس لئے کہ کلمہ ” ما“ عام ہے۔ چور سے جو کچھ ہوا۔ اس سب کو شامل ہے۔ “ اسی لئے صاحب نورالانوار کو یہ تاویل کرنی پڑی کہ : لا یقال فحینئذ ینبغی ان یجب قرءۃ جمیع ما تیسر من القران فی الصلوۃ عملا لقولہ تعالیٰ فاقرء وا ماتیسر من القران لا نانقول بناء الامر علی التیسر ینا فی ذلک (نور الانوار ص ٧٦) تمام ما تیسر کا پڑھنا اس لئے واجب نہیں ہوا کہ آیت فاقرء وا الایۃ کا آسانی پر مبنی ہونا اس کے منافی ہے۔ “ لیکن جہاں ” ما“ کی عمومیت پر دلیل لایا کرتے ہیں وہاں پر یہ مثال بھی ساتھ ہی مذکور ہوتی ہے کہ : اذا قال المولٰی لجاریتہ ان کان ما فی بطنک غلاما فانت حرۃ فولدت غلاما وجاریۃ لم تعتق لان المعنی حینئذان کان جمیع ما فی بطنک غلاما فانت حرۃ ولم یکن کذلک بل کان بعض ما فی بطنہا غلاما وبعضہ جاریۃ فلم یوجد الشرط (نور الانوارص ٧٦ و اصول شاشی ص ٢) مالک اپنی لونڈی سے کہے کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں ہے۔ اگر یہ لڑکا ہے تو تو آزاد ہے۔ وہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی جنی تو آزاد نہ ہوگی کیونکہ مالک کے کلام کے یہ معنے تھے کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں قابل اولاد ہے وہ سارا لڑکا پیدا ہو تو آزاد ہوگی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اس میں سے بعض تو لڑکا ہوا اور بعض لڑکی ہوگئی پس شرط نہ پائی گئی۔ “ پس جب اس ” ما“ میں اتنی گنجائش نہیں کہ ایک لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی بھی سما سکے۔ بلکہ دو تین لڑکے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہو۔ تو بھی ” ما“ کے خلاف ہے۔ تو جس صورت میں تمام قرآن متیسر ہونے کے وقت تین آیتوں سے فرضیت کا سقوط ہو تو ” ما“ کا حکم کیا بحال رہے گا؟ ہرگز نہیں مطلق اس لئے نہیں کہ مطلق کا حکم بھی یہاں پایا نہیں جاتا کیونکہ فان حکم المطلق ان یکون الاٰتی بای فرد کان اتیا بالمامور بہ (اصول شاشی ص ٥) مطلق کا حکم ہے کہ اس کے افراد میں سے جس فرد کو مکلف ادا کرے واجب ہی ادا ہوتا ہے۔ پس اس بنا پر اگر کوئی شخص ایک رکعت میں سورۂ بقرہ کو متیسر سمجھ کر ساری ختم کرے تو کہا جائے گا کہ اس کی قرأت سے فرضیت ادا ہوئی؟ نہیں بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ایک آیت یا تین آیتوں سے تو فرضیت ادا ہوئی اور باقی سے سنیت ! یا استحباب۔ پس موصوفہ میں ” ما“ مطلق بھی نہ ہوا جب دونوں (عام اور مطلق) نہیں تو تیسری قسم مجمل ہونے میں کیا اشتباء ہے۔ اما المجمل فما ازدحمت فیہ المعانی واشتبہ المراد بہ اشتباھا لا یدرک بنفس العبارۃ بل بالرجوع الی الاستفسار ثم الطلب ثم التامل المجمل ما احتمل وجوھا فصار بحال لا یوقف علی المراد الاببیان من قبل المتکلم (اصول شاشی) مجمل کی تعریفات شتیٰ پر غور کرنے سے بھی اس ” ما“ کا مجمل ہونا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ازدحام معانی۔ اشتباہ مراد احتمال وجوہ شتیٰ سب اس میں پائے جاتے ہیں (اس کی مزید توضیح آگے آتی ہے) پس جب یہ ” ما“ مجمل ہے تو بموجب حکم مجمل الاببیان من قبل المتکلم وغیر ذلک اس کا بیان حدیث مذکور لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ولا تفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب وغیرذلک من صحاح الاحادیث کرنے کو کافی ہیں۔ یہ تقریر ہماری بعینہ صدر الشریعۃ کی تقریر سے مشابہ ہے۔ صاحب موصوف نے مسح ربع راس کے اثبات کے لئے جو تقریر کی ہے۔ ناظرین وہ بھی سنیں۔ پھر ہماری طرز استدلال کو اس سے مقابلہ کریں۔ صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ : اما نفی مذھب الشافعی فمبنی علی ان الایۃ مجملۃ فی حق المقدار لا مطلقۃ کما زعم لان المسح امراء الید المبتلۃ ولا شک ان مماسۃ الانملۃ شعرۃ او ثلثا لا تسمی مسح الرأس وامرار الید یکون لہ حد وھو غیر معلوم فیکون مجملا لانہ اذا قیل مسحب بالحائط یرادبہ البعض وفی قولہ تعالیٰ فامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ الکل فیکون الایۃ فی المقدار مجملۃ ففعلہ (علیہ السلام) انہ مسح علی ناصیۃ یکون بیانالہ (شرح وقایۃ لکھنوی ص ٦١) شافعی (رح) کے مذہب میں نفی اس پر مبنی ہے کہ آیت مقدار میں مجملہ ہے مطلق نہیں جیسا کہ شافعی کا گمان ہے کیونکہ مسح بھیگے ہاتھ کے پھیر کو کہتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ایک دو یا تین بالوں کو انگلیوں کا چھو جانا مسح نہیں کہلاتا اور ہاتھ کے پھیرنے کی بھی کوئی حد ہے جو معلوم نہیں پس آیت مجمل ہے کیونکہ جب کہا جاتا ہے میں نے دیوار کو مسح کیا تو تمام دیوار مراد نہیں ہوتی بلکہ بعض ہوتی ہے اور فرمان اللہ تعالیٰ میں کہ مونہوں کو مسح کرو۔“ کل منہ مراد ہیں۔ پس آیت مقدار میں مجملہ ہے پس آں حضرت کا فعل کہ آپ نے ناصیہ (بقول حنفیہ ربع سر) پر مسح کیا۔ اس کا بیان ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح ہم آیت فاقرء واما تیسر الایۃ کی تقریر کرسکتے ہیں کہ : لا شک ان التیسیر لہ حد وھو غیر معلوم فیکون الایۃ مجملۃ لانہ اذا قیل تیسر لی القران فقرأت کلّہ یراد بہ الکل وفی قولہ فاقرء واما تیسر الایۃ بے شک تیسیر (آسانی) کی کوئی حد ہے پس آیت مجملہ ہے۔ کیونکہ جب کہا جائے کہ مجھے قرآن متیسر ہوا تو میں نے سارا پڑھا کل مراد ہے اور فرمان اللہ تعالیٰ فاقرء واما البعض فیکون الایۃ مجملۃ قولہ (علیہ السلام) فی الصحیح لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ولا تفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب الحدیث یکون بیانا لہ فالحمدللہ تیسر الایۃ میں بعض پس آیت مجمل ہوئی پس فرمان نبوی صحیح حدیث میں کہ سوائے فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی اور نماز میں امام کے پیچھے بجز فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو اس آیت مجملہ کا بیان ہے۔ بعض اعلام رحمہ اللہ تعالیٰ العلام حسب مذاق خود اور ہی طرز پر چلے ہیں کہ امام اور مقتدی کی نماز درحقیقت صلوٰۃ واحد ہے یعنی امام مقتدی کے لئے واسطہ فی العروض ہے۔ چونکہ واسطہ فی العروض میں حرکت ایک ہی ہوتی ہے اس لئے جماعت کے وقت دونوں کی نماز میں ایک ہی فاتحہ ہوگی جو امام پڑھتا ہے فرماتے ہیں کہ اس سے لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب والی حدیث بھی بحال رہی اور قرءۃ الامام قرءۃ لہ کے معنے بھی واضح ہوگئے۔ یہ سب کچھ تو ہوا۔ لیکن ہمیں ایک شبہ باقی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر امام واسطہ فی العروض ہوتا تو جیسی بحکم حرکت واحدہ مقتدی سے قرءۃ ساقط ہوئی تھی دیگر ارکان رکوع۔ سجود۔ قعدہ وغیرہ بھی ساقط ہوتے حالانکہ ایسا نہیں۔ یہاں تک کہ تسبیحات وغیرہ سنن بھی ساقط نہیں ہوتیں۔ نیز چونکہ واسطہ فی العروض میں اصل حرکت سے موصوف واسطہ ہوتا ہے اور ذی واسطہ نہیں بلکہ ذی واسطہ سے حرکت حقیقتہ مسلوب ہوتی ہے جیسی سفینہ اور سوار کی تمثیل سے ظاہر ہے کہ السفینۃ متحرکۃ والراکب لیس بمتحرک حقیقۃ پس حسب مقتضائے واسطہ فی العروض ہم کہہ سکتے ہیں کہ الامام مصل حقیقۃ والمقتدی ولیس بمصل حققۃ ی جس کا نتیجہ صریح ہے کہ مقتدی نے فرمان واجب الاذحان اقیموا الصلوۃ پر عمل ہی نہیں کیا۔ بلکہ من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر کی ذیل میں آگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ گو مقتدی حقیقۃ موصوف بالصلوۃ نہیں مگر حکماً تو ہے اتنا ہی اس کے لئے کافی ہے تو کہا جائے گا کہ اقیموا الصلوۃ میں جو سب اہل ایمان کو حکم ہے حقیقی صلوۃ کا ہے یا حکمی کا۔ اگر سب کو حقیقی کا ہے تو ایراد وارد۔ اور اگر سب کو حکمی کا تو امام صاحب غیر مطیع اور اگر حقیقی اور حکمی دونوں کا ہے تو جمع بین الحقیقۃ والمجاز وھو کما تری۔ ہاں اگر امام کو واسطہ فی الثبوت قسم ثانی کہا جائے تو البتہ صحیح ہے کیونکہ واسطہ فی الثبوت میں ذی واسطہ سے حرکت مسلوب نہیں ہوتی۔ کما تری فی حرکۃ الید والمفتاح۔ جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اپنے مدعا کے اثبات میں کسی مغالطہ یا سفسطہ سے کام نہیں لیا۔ امید ہے کہ ناظرین اگر ہماری معروضہ بالا تقریر کو بغور پڑھیں گے مذہب میں متفق اللفظ نہ ہوں گے تو تقریر کے طرز استدلال کے محسن ضرور ہوں گے۔ اب ہم ایک دو حدیثوں کا جو مانعین کی سر دفتر ہیں جواب عرض کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ اول حدیث وہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں من کان لہ امام فقرءۃ الامام لہ قرءۃ (مذکور فی الھدایۃ وغیرہ) یعنی جو شخص امام کے پیچھے ہو۔ امام کی قرأت اس کے واسطے کافی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس حدیث کو بہت سے علماء نے غیر معتبر کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جزء القرأت میں ھذا خبر لم یثبت عند اھل العلم لانقطاعہ وارسالہ کہا ہے۔ حافظ ابن حجر اور دارقطنی وغیرہ نے اس کو ضعیف کہا ہے اور اگر نہایت عرقریزی کر کے اس حدیث کو پایہ اعتبار تک پہنچایا جائے تو غایت ما فی الباب حسن کے درجہ تک پہنچے گی جو احادیث صحیحہ و آیات قرآنیہ کے مقابلہ میں مرجوح ہے۔ علاوہ اس کے تطبیق بھی ممکن ہے۔ کیونکہ اس میں عام قرأت کی کفایت ہے اور احادیث صحیحہ میں خاص قرأت فاتحہ کا ثبوت ہے پس عام اور خاص کے متعلق جمہور کے مذہب پر جس کو ہم نے بھی مدلل کیا ہے۔ (کما مر مفصلا) بالکل آسان بات ہے۔ کہ الخاص مقدم علی العام لانہ قطعی والعام ظنی حنفیہ کے نزدیک بھی گو عام مساوی خاص کے ہے۔ خاص سے عام کی تخصیص ممکن ہے چنانچہ نور الانوار میں مرقوم ہے واذا اوصی بخاتم للانسان ثم بالفصمنہ لاخران الحلقۃ للاول والفص بینہما بخلاف ما اذا اوصی بالفص بکلام موصول فانہ یکون بیانا لان المراد بالخاتم فیما سبق الحلقۃ فقط فتکون الحلقۃ للاول والفص للثانی۔ پس جمع بنا الادلۃ کے اصول سے بھی یہی رائے صحیح ہے کہ سورۃ فاتحہ کے سوا باقی قرأت میں امام کو نائب سمجھا جائے۔ کذا قال البیہقی وغیرہ۔ دوسری حدیث وہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” امام اس لئے مقرر ہوا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب پڑھے تو چپ رہو“ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو اس حدیث کا اخیر فقرہ کہ جب پڑھے۔ تو چپ رہو۔ ضعیف ہے امام نووی نے کہا ہے کہ حفاظ حدیث اس کے ضعف پر متفق ہیں ۔ دوم یہ حدیث بھی مخصوص ہے۔ بغیر فاتحہ کے اس دعویٰ پر علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو اس حدیث کے راوی ہیں انہی سے کسی نے پوچھا کہ امام کے پیچھے ہم پڑھا کریں یا نہیں۔ ابوہریرہ نے کہا اقرء بھا فی نفسک یعنی آہستہ آہستہ پڑھ لیا کر۔ کیونکہ حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی نصفین ولعبدی ماسأل فاذا قال العبد الحمدللہ رب العالمین قال اللہ تعالیٰ حمدنی عبدی واذا قال الرحمن الرحیم قال اثنی علی عبدی واذا قال مالک یوم الدین قال مجدنی عبدی واذا قال ایاک نعبد و ایاک نستعین قال ھذا بینی و بین عبدی ولعبدی ما سأل فاذا قال اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال ھذا لعبدی ولعبدی ما سأل (رواہ مسلم) میں نے نماز (یعنی فاتحہ) کو اپنے اور بندے میں دو حصے کیا۔ میرا بندہ جو مانگے اس کو دیتا ہوں۔ جب بندہ کہتا ہے الحمدللہ رب العالمین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی ہے اور جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری ثنا کی ہے اور جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب ایاک نعبد و ایاک نستعینکہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ جملہ میری تعریف کا اور بندے کی حاجت کا ہے اور میرے بندہ نے جو مانگا اس کو ملے گا اور جب اھدنا الایۃ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندہ کے فائدہ کے لئے ہے جو اس نے مانگا اسے ملے گا۔ “ علاوہ اس کے اگر عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث کو زیر نظر رکھا جائے تو ان سب قضایا کا فیصلہ ہی ہوجاتا ہے۔ جس کا مضمون یہ ہے : عن عبادۃ ابن الصامت قال صلی رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الصبح فثقلت علیہ القرئۃ فلما انصرف قال انی اراکم تقرء ون وراء امامکم قال قلنا یا رسول اللہ تعالیٰ ای واللہ تعالیٰ قال لا تفعلوا الابام القران فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرء بھا۔ رواہ ابوداود والترمذی و فی لفظ فلا تقرئوا بشئ من القران اذا جھرت الابام القران رواہ ابوداود والنسائی والدار قطنی وقال کلھم ثقات (کذا فی المنتقی) عبادہ بن صامت نے کہا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صبح کی نماز پڑھائی تو آپ کی قرأت رک گئی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ مجھے گمان ہوتا ہے کہ تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔“ (ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سبح اسم اونچی پڑھی تھی) ہم نے عرض کیا۔ ہاں حضرت ! فرمایا سوائے ام القران یعنی فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں۔ ایک روایت میں ہے جب میں اونچے پڑھوں تو سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ “ یہ حدیث سب جھگڑوں کی بیخ کن ہے اس حدیث کے مالہ وما علیہ کی تفصیل کی جگہ نہیں من شاء التفصیل فلیرجع الی تخریج الزیلعی وغیرہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم۔ انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذ اکبر فکبروا و اذا قرء فانصتوا۔ ١٢ اور اس قرآن کے حکموں میں سے ایک حکم یہ ہے کہ تو اپنے پروردگار کو جی ہی جی میں عاجزی اور اس کی عظمت کے خوف سے نہ زور کی آواز سے بلکہ مناسب درمیانی آواز سے صبح شام پکارا کر اور غافلوں کی جماعت سے نہ ہوجیو۔ تمام روز دنیا کے دھندوں میں ہو کر لاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ الاَّ قَلِیْلاً کے مصداق ہیں جن کے حق میں کسی بزرگ نے کیا ہی خوب کہا ہے اہل دنیا کافران مطلق اند روز و شب در زق زق دور بق بق اند بے شک جو تیرے پروردگار کے نزدیک مقرب یعنی حضرات انبیاء اور اولیاء اللہ تعالیٰ ہیں وہ باوجود اس اعلیٰ رتبہ کے بھی اس کی عبادت کرنے سے تکبر اور سرکشی نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ فروتنی سے اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اسی کو سجدے کرتے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ وے اس کے ہیں اور وہ ان کا ہے۔ کیا سچ ہے سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنْہُمْ۔ اٰمین الاعراف
190 الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 الاعراف
194 الاعراف
195 الاعراف
196 الاعراف
197 الاعراف
198 الاعراف
199 الاعراف
200 الاعراف
201 الاعراف
202 الاعراف
203 الاعراف
204 الاعراف
205 الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 (1۔40) اے رسول ! (علیہ السلام) مال غنیمت کا حکم تجھ سے پوچھتے ہیں شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ) جنگ بدر چونکہ پہلی جنگ تھی اس سے پہلے کوئی لڑائی ایسی کامیابی سے نہ ہوئی تھی کہ مال غنیمت ہاتھ آیا ہوتا اس لئے اس کی تقسیم کے متعلق صحابہ میں تکرار ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سوال ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم کہ اس مال کو جو جنگ میں غالب کو مغلوب کی شکست کی حالت میں حاصل ہوتا ہے کس طرح تقسیم کریں تو ان سے کہہ دے کہ اصل میں مال غنیمت تو اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے رسول کے قبضہ میں ہے پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس طرح وہ تم کو اس بارے میں حکم دے گا اسی پر تم نے عمل کرنا چنانچہ اس نے بتلایا ہے کہ مال غنیمت سے پانچواں حصہ نکال کر باقی لشکریوں پر بانٹ دو پس تم اسی طرح کرو اور آپس میں جھگڑا اور فساد نہ کرو بلکہ صلح سے رہو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اگر تم ایماندار ہو تو ایسا ہی کرو اس سے سرمو تفاوت نہ کرو کیونکہ ایماندار بس وہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے کانپ جاتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کر اس کی عظمت اور شہنشاہی کا تصور ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ان کی نظروں میں نہیں سماتی اور جب اللہ تعالیٰ کے حکم ان کو سنائے جاتے ہیں تو ان کا ایمان اور بھی تازگی میں بڑھتا ہے اور احکام الٰہی دل لگا کر سنتے اور پڑھتے ہیں اور بڑی بات ان میں یہ ہے کہ اپنے پروردگار واحد لاشریک ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور سوا اس کے اپنی حاجات طلبی میں کسی سے سروکار نہیں رکھتے یعنی وہ لوگ جو نماز پنجگانہ بروقت پابندی جماعت ادا کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت نیک کاموں میں فی سبیل اللہ تعالیٰ خرچ بھی کرتے ہیں سچ پوچھو تو یہی سچے مومن ہیں انہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے ہیں اور گناہوں پر بخشش اور عزت کی روزی مقرر ہے تم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی نسبت خلف کا ہرگز وہم نہ کیجئیو ضرور بالضرور پورے ہوں گے یَسْئَلُوْنَکَ اس حاشیے میں ہم جہاد کی مختصر سی تحقیق اور آنحضرت فداہ روحی علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام کے غزوات کی مجمل تاریخ بتلائیں گے اور کسی قدر مخالفین اسلام اور سرسید احمد خان مرحوم کے شبہات کا جواب بھی دیں گے۔ جلد اول میں ہم بتلا آئے ہیں کہ جہاد بانی مبانی حقیقت میں مشرکین عرب اور ان کے مخلص دوست بلکہ بھائی بند یہود و نصاریٰ ہی تھے۔ جنہوں نے آنحضرت اور آپ کے خادموں کو ناحق از حد فزوں ایسی تکلیفیں دیں جن سے غیرت اللہ تعالیٰ کو جوش آیا تو اس نے مسلمانوں کو بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت بخشی چنانچہ اُذِن لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ جن لوگوں (مسلمانوں) کو ہر طرف سے مارا جاتا ہے ان کو بھی بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں مقابلہ کی اجازت دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے۔ ان معنی کی طرف اشارہ بلکہ صراحت ہے۔ اس مضمون میں ہم بتلائیں گے کہ جہاد جس کو ہمارے مخالفوں نے ایک ھوَّا سمجھ رکھا ہے خود ان کی کتابوں میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے بڑے بڑے اور سخت سے سخت مخالف اس جہاد کے دو گروہ ہیں عیسائی۔ آریہ عیسائیوں کی کتابوں میں جس قسم کے جہاد کا ذکر ہے اس کے مقابلہ میں اسلامی جہاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سراسر نعمت عظمیٰ ہے غور سے پڑھو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہل مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لیں اور تو بعد اس کے اپنے لوگوں سے مل جائے گا تب موسیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ بعضے تم میں سے لڑائی کے لئے تیار ہوویں اور مدیانیوں کا سامنا کرنے جاویں تاکہ اللہ تعالیٰ کے لئے مدیان سے بدلہ لیں اسرائیل کے سب فرقوں میں سے ہر ایک فرقے پیچھے ہزار جنگ کرنے کو بھیجو۔ سو ہزاروں بنی اسرائیل میں سے ہر فرقے کے ایک ایک ہزار حاضر کئے گئے۔ یہ سب جو لڑائی کے لئے ہتھیار بند تھے بارہ ہزار ہوئے موسیٰ نے ان کو لڑائی پر بھیجا ایک ایک فرقہ کے پچھے ایک ہزار کو انہیں اور الیعزر کاہن کے بیٹے فیخاس کو پاک ظروف کے ساتھ بھیجا اور پھونکنے کے نرسنگے اس کے ہاتھ میں تھے اور انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی جیسا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا تھا اور سارے مردوں کو قتل کیا اور انہوں نے ان مقتولوں کے سوا ادی اور رقم اور صور اور ربع کو جو مدیان کے پانچ بادشاہ تھے جان سے مارا اور بعور کے بیٹے بلعام کو بھی تلوار سے قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مواشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان لئے اور وہ قیدی اور غنیمت اور لوٹ موسیٰ اور الیعزر کاہن اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس خیمہ گاہ موآب کے میدانوں میں یرون کے کنارے جو یریحو کے مقابل ہے لائے۔ تب موسیٰ اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سارے سردار ان کے استقبال کے لئے خیمہ گاہ سے باہر گئے اور موسیٰ لشکر کے رئیسوں پر اور ان پر جو ہزاروں کے سردار تھے اور ان پر سینکڑوں کے سردار تھے جو جنگ کر کے پھرے غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ کیا تم نے سب عورتوں کو جیتا رکھا دیکھو یہ بلعام کے کہنے سے فغور کی بابت اللہ تعالیٰ کے آگے اسرائیل کے گنہگار ہونے کا باعث ہوئیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں وبا آئی۔ سو تم ان بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف تھیں جان سے مارو۔ لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقف نہیں ہوئیں ان کو اپنے لئے زندہ رکھو اور تم سات دن تک خیمہ گاہ سے باہر رہو جس کسی نے آدمی کو مارا ہو اور جس کسی نے لاش کو چھوڑا ہو وہ آپ کو اور اپنے قیدیوں کو تیسرے دن اور ساتویں دن میں پاک کرے تم اپنے سب کپڑے اور سب چمڑے کے برتن اور سب بکری کے بالوں کی بنی ہوئی چیزیں اور کاٹھ کے سب برتن پاک کرو تب الیعزر کاہن نے ان سپاہیوں کو جو جنگ پر گئے تھے کہا کہ شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا سو یہ ہے فقط سونا‘ روپا‘ پیتل‘ لوہا‘ رانگا‘ سیسہ اور وہ سب چیزیں جو آگ میں ڈالی جاتی ہیں تم انہیں آگ میں ڈالو اور وہ پاک ہوں گی پھر انہیں جدائی کے پانی سے بھی پاک کرو پھر وہ چیزیں جو آگ میں نہیں ڈالی جاتیں تم انہیں اس پانی میں ڈالو اور تم ساتویں دن اپنے کپڑے دھوئو بعد ازاں خیمہ گاہ میں داخل ہوئو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تو اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سردار مل کے سارے انسان اور حیوانوں کا جو لوٹ میں آتے ہیں شمار کروائو اور لوٹ کر برابر تقسیم کر کے اوہا ملکر جنہوں نے اس جنگ کو اپنے ذمہ میں رکھا اور میدان بھی پکڑا اور اوہا ساری جماعت کو دے اور ان جنگی مردوں کو گئے تھے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک حصہ لے ہر پانچسو جاندار پیچھے ایک جاندار خواہ انسان ہوں خواہے گائے بیل خواہے گدھے ہوں خواہ بھیڑ بکری۔ ان لوگوں کے آدھے سے لے اور الیعزر کاہن کو دے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اٹھانے کی قربانی ہو اور بنی اسرائیل کے آدھے سے جو انہوں نے پایا کیا انسان کیا گائے بیل کیا گدھے کیا بھیڑ بکری یعنی سب اقسام جانوروں کی پچاس پچاس پیچھے ایک ایک لے اور انہیں لاویوں کو دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسکن کی محافظت کرتے ہیں۔“ (گنتی ٣١ باب ١ سے ٣٠ تک) اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک مقام ہیں جو بخوف طوالت چھوڑ دیتے ہیں آریوں کے حال پر زیادہ افسوس ہے کیونکہ عیسائیوں نے تو توریت اور دیگر کتب عہد عتیق کو حضرت مسیح کے آنے سے متروک کردی ہے آریوں نے تو وید سے وہ برتائو نہیں کیا بلکہ یہ تو وید بھگوان کی منادی تمام دنیا میں کرنا چاہتے ہیں اور وید کے مقابلہ پر پرانوں وغیرہ متبرک کتب مذہب ہنود کو بے نقط سناتے ہیں اور وید پر ہی اطاعت منحصر رکھتے ہیں مگر عملی پہلو ان کا بھی وہی ہے جو ان کے استادوں (عیسائیوں) کا ہے۔ وید بھگوان اور دیگر کتب معتبرہ آریہ قوم بڑے زور سے جہاد کی تعلیم دیتی ہیں مال غنیمت کی تقسیم (جس کا اس آیت میں ذکر ہے) کی نسبت آریوں اور ہندوئوں کو وید کی پہلی ہدایت اسلحہ جنگ کی درستی کے متعلق ہے جو رگوید منڈل اول سوکت ٣٩ منتر ٢ میں مرقوم ہے۔ ” اے فرمانبردار لوگو ! تمہارے اسلحہ آتشیں وغیرہ از قسم توپ تفنگ تیر تلوار وغیرہ ششتر مخالفوں کو مغلوب کرنے اور ان کو روکنے کے لئے قابل تعریف اور باستحکام ہوں تمہاری فوج مستوجب توصیف ہوتا کہ تم لوگ ہمیشہ فتحیاب ہوتے رہو۔ “ ایک مقام پر دعایوں مرقوم ہے۔ ” میں اس محافظ کائنات صاحب جاہ و جلال نہایت زور آور اور فاتح کل کائنات کے راجا قادر مطلق اور سب کو قوت عطا کرنے والے پر میشور کو جس کے آگے تمام زبربہادر سراطاعت خم کرتے ہیں اور جو انصاف سے مخلوقات کی حفاظت کرنے والا اندر ہے ہر جنگ میں فتح پانے کے لئے مدعو کرتا ہوں اور پناہ لیتا ہوں۔ “ (یجر وید ادہیائے ٢٠ منتر ٥٠) ایک جگہ پر میشور دعا دیتا ہے۔ ” اے انسانو ! تمہارے ایدہ یعنی توپ بندوق وغیرہ آتشگیر اسلحہ اور تیر و کمان تلوار وغیرہ ہتھیار میری عنایت سے مضبوط اور فتح نصیب ہوں بدکردار دشمنوں کی شکست اور تمہاری فتح ہو تم مضبوط طاقتور اور کار نمایاں کرنے والے ہو تم دشمنوں کی فوج کو ہزیمت دے کر انہیں رو گردان وپسپا کرو۔ تمہاری فوج جرارو کارگزار اور نامی گرامی ہو تاکہ تمہاری عالمگیر حکومت روئے زمین پر قائم ہو اور تمہارا حریف ناہنجار شکست یاب ہو اور نیچا دیکھے (رگویدا سٹک اول ادہیا ٣ وردگ ١٨ منتر ٢) ایک جگہ فرمان ہے۔ اے دشمنوں کے مارنے والے اصول جنگ میں ماہر بے خوف و ہراس پر جاہ و جلال عزیزو اور جوانمردو ! تم ! سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو پر میشر کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو (ہے مہاراج ! اتنی خفگی) شکست دینے کے لئے لڑائی کا سامان کرو تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے تم روئین تن اور فولاد بازو ہو اپنے زور شجاعت سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور و بازو اور ایشور کے لطف و کرم سے تمہاری ہمیشہ فتح ہو۔“ (اتھروید کانڈ ٦۔ اور دگ ٩٧ منتر ٣) مال غنیمت کی تقسیم (جس کا اس آیت میں ذکر ہے) کی نسبت آریوں اور ہندوئوں کے مسلمہ پیشوا منوجی فرماتے ہیں۔ ”(راجہ) اس آئین کو کبھی نہ توڑے کہ لڑائی میں جس جس ملازم یا افسر نے جو جو گاڑی۔ گھوڑا۔ ہاتھی۔ چھتر۔ دولت۔ رسد گائے وغیرہ جانور نیز عورت اور دیگر قسم کا مال و متاع اور گھی و تیل کے کپے فتح کئے ہوں وہی اس کو لیوے لیکن فوج کے آدمی فتح کی ہوئی چیزوں میں سے سولہواں حصہ راجہ کو دیویں۔“ (منوا دھیائے ٧) یہ ہے دونوں قوموں کی مذہبی تعلیم اور اگر ان کا ذاتی عمل دیکھیں تو کوئی حد ہی نہیں۔ کون ہے جو یورپ کی جنگوں سے واقف نہیں کہ گیا رھویں صدی عیسوی میں صرف بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھڑانے پر قریباً ساٹھ لاکھ جانیں ضائع کیں گذشتہ واقعات نہ سہی یورپ کی ١٩١٤ ء و ١٩١٩ ء کی جنگ عظیم تو ابھی کل کی بات ہے کون ہے جس نے آریہ قوم کی لڑائیاں نہ سنی ہوں مگر چونکہ ہمیں ان کے ذاتی عمل سے بحث نہیں بلکہ مذہبی تعلیم سے مقابلہ دکھانا ہے اس لئے ذاتی عمل کا ذکر نہیں۔ اصل یہ ہے کہ دشمن کی مدافعت اور اپنی ترقی انسان کی فطرت میں داخل ہے کوئی ایسا رحیم النفس اور کریم الاخلاق ہے؟ کہ زہریلے سانپ کو آتا دیکھ کر اور اس بات پر یقین ہو کر کہ یہ سانپ یقینا مجھے ضرر پہنچائے گا اس کا دفعیہ نہ کرے گو زبانی کہنے اور جی خوش کرنے کو تو بہت دفعہ آدمی کہا کرتا ہے کہ تو ” ظالم کا مقابلہ نہ کر بلکہ جو تیرے داھنے گال پر تماچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لیجائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا“ (انجیل متی ٦ باب کی ٣٩) مگر عمل کرتے وقت ایسے شیریں کلاموں سے بجز رطب اللسان ہونے کے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ قانون قدرت کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں جب کہ قدرت نے دشمن کی مدافعت انسان کی فطرت میں رکھی ہے تو کون ہے جو اسے بدل سکے۔ اس پر طرہ یہ کہ قرآن شریف پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے زور سے مسلمان بنانے کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ کئی ایک آیتیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ کفار سے باوجود مادہ شرارت ان میں موجود ہونے اور بہ قرائن تو یہ معلوم ہوجانے پر بھی جب تک دوبارہ فساد و شرارت ظاہر نہ ہو ان سے تعرض نہ کرو غور سے پڑھو۔ سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَأْمَنُوْ کُم وَیَامَنُوا قَوْمَہُمْ کُلَّمَا رُدُّوْا اِلَی الفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْھَا فَاِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوْ کُمْ وَیُلْقُوا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْا اَیْدِیَھُمْ فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاُولٰئِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا مُبِیْنًا ایسے لوگ بھی تم کو ملیں گے جن کی خواہش یہ ہوگی کہ تم سے بھی اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں لیکن جب کبھی ان کو لڑائی پر تمہارے خلاف اکسایا جائے گا تو فوراً آمادہ ہوجائیں گے پس اگر وہ تم سے علیحدہ نہ رہیں اور تمہارے ساتھ صلح نہ رکھیں اور اپنے ہاتھ تم سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں پائو ان کو قتل کرو ایسے ہی شریروں پر ہم تم کو غلبہ دیں گے۔ ١٢ منہ گویہ بہتان اس قابل ہی نہیں کہ اس کے دفعیہ کی کوشش کی جائے تاہم آیتہ مرقومہ بالا اس کی بیخ کنی اور اس کے بانیوں کی قلعی کھولنے کو کافی ہے اس لیے اس مضمون کے دوسرے حصے پر ہم آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ عیہی وسلم کے مشہور غزوات (جنگوں) کا کسی قدر بیان کرتے ہیں۔ جنگ بدر :۔ اس لڑائی کا سبب حسب روایت امام بخاری و موافق بیان علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ ہے کہ مکے والوں کا قافلہ جس میں تیس چالیس آدمی تھے شام کے ملک سے اسباب لے کر آرہا تھا جب اس کے آنے کی خبر مدینہ میں پہنچی تو چونکہ حربی تھے اور ہمیشہ برسر فساد رہتے تھے حسب قاعدہ جنگ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو روکنا چاہا چنانچہ تیاری کی تھی کہ قافلہ والوں کو بھی خبر پہنچ گئی انہوں نے ایک طرف تو ایک آدمی مکے والوں سے امداد مانگنے کے لئے بھیجا دوسری طرف سوچ بچار کر ایک مخفی راہ سے خفیہ خفیہ مسلمانوں سے بچ کر نکل گئے مکے والوں کی فوج جو قریب ایک ہزار کے ان کی امداد کو آئی تھی جن کا سپہ سالار خود ابوجہل رئیس مکہ تھا چونکہ جنگ کی تیاریاں کر کے مکہ سے نکلے تھے اس لیے ان کی غیرت اور اللہ تعالیٰ کی حکمت نے ان کو باوجود قافلہ کی سلامتی سے… پہنچ جانے کی خبر سن لینے کے واپس جانے کی اجازت نہ دی چنانچہ ایک مقام بدر پر دونوں (مکی۔ مدنی) فوجوں کا مقابلہ ٹھیر گیا۔ مکی فوج نہ صرف تعداد میں دگنی تگنی تھی بلکہ ساز و سامان میں بھی بڑھی ہوئی تھی۔ مگر مسلمانوں نے بھی بڑے حوصلہ سے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے بھی اس جنگ میں مسلمانوں کی امداد کو اترے آخر کار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کفار پر غالب آئے ستر آدمی ان کے مارے گئے اور ستر قید ہوئے جن میں حضرت عباس آنحضرت کے حقیقی چچا اور ابو العاص آپ کے داماد بھی تھے باقی فوج مشرکوں کی سب فرار ہوگئی ان گرفتاروں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مشورہ لیا عموماً صحابہ کی رائے بدلہ لے کر چھوڑ دینے کی ہوئی سوائے حضرت عمر (رض) کے کہ انہوں نے نہایت زور سے درخواست کی کہ میرے رشتہ دار مجھے دے دیجئے میں ان کو قتل کر دوں۔ ابوبکر (رض) کے ابوبکر کو دے دیجئے علی (رض) کے علی کو۔ ان موذیوں نے ہماری ایذا رسانی میں کون سا دقیقہ اٹھا رکھا ہے کہ آئندہ کو ان سے خیر کی امید ہوسکتی ہے مگر چونکہ مسلمانوں کو روپیہ کی اشد ضرورت تھی اس لئے نقدی عوض بطور جرمانہ لے کر ان کو رہا کردیا گیا۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تقدیر الٰہی کے موافق تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے عوض لینے پر ناراضگی فرمائی (کیونکہ جنگ میں خونریزی کافی ہوئی تھی) چنانچہ اسی سورت کے پانچویں رکوع میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یہ واقعہ ماہ رمضان ٢ ہجری کا ہے ابوجہل بھی مع کئی ایک دوستوں کے اسی جنگ میں کام آیا۔ یہ تو مختصر سا اس کا تاریخی تذکرہ ہے مگر سر سید احمد خاں مرحوم نے اس بیان میں کئی حصوں میں اختلاف کیا ہے اول تو وہ اس جنگ کی یہ وجہ جو ہم نے بحوالہ امام بخاری اور علامہ ابن خلدون وغیرہ لکھی ہے نہیں مانتے دوئم وہ نزول ملائکہ سے بھی منکر ہیں۔ سوم وہ حضرت عمر (رض) کے قصے کو بھی جو اسیران جنگ سے متعلق ہے نہیں مانتے اس لئے ان تینوں مسئلوں پر ہم کسی قدر بحث کرتے ہیں۔ پہلے مسئلے کے متعلق سید صاحب لکھتے ہیں۔ ” تمام مسلمان مؤرخوں کا جن کی عادت میں داخل ہے کہ بلاسند روایتوں اور غلط اور صحیح افواہوں کو بلا تصحیح و تنقید اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور انہیں پر بنا واقعات قائم کرتے ہیں یہ قول ہے کہ آنحضرت اور ان کے صحابہ نے یہ بات خیال کر کے کہ ابی سفیان کے ساتھ قافلہ میں لوگ بہت تھوڑے ہیں اور مال بہت زیادہ ہے لوٹ لینے کا ارادہ کیا تھا اور اسی وجہ سے کوچ کیا اس کی خبر جب قریش مکہ کو پہنچی تو انہوں نے نفیر عام کی اور قافلہ کے بچانے کو نکلے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قریش کے ساتھ لڑنے اور ان کے قافلہ کو لوٹنے کا قصد اول آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیا۔ اور اس کے دفع کرنے کو قریش بقصد لڑائی نکلے۔ ان مسلمان مورخوں کی نادانی اور غلطی سے مخالفین مذہب اسلام کو آنحضرت صلعم اور صحابہ کی نسبت قافلوں کے لوٹنے کا جو پیغمبری کی شان کے شایاں نہیں ہے اور بلاسبب لڑائی کی ابتدا کرنے کے الزام لگانے کا موقعہ ہاتھ آیا اور بہت زور و شور سے ان الزاموں کو قائم کیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ الزام محض غلط اور بے بنیاد ہیں اور وہ حدیثیں اور روایتیں جن کی بنا پر وہ الزام قائم کئے ہیں از سر تا پا غلط اور غیر مستند ہیں۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ تو نہایت صفائی سے مندرج ہے اور اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ کس گروہ کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقابلہ کے قصد سے کوچ فرمایا تھا آیا قافلہ لوٹنے کے ارادہ سے یا اس گروہ کے مقابلہ کے لئے جن کو قریش مکہ نے لڑنے کے ارادہ سے جمع کر کے کوچ کیا تھا اور آنحضرت صلعم کا کوچ فرمانا قریش مکہ کے کوچ کرنے کے بعد ہوا تھا یا اس کے قبل ہوا تھا۔ (تفسیر جلد چہارم ص ٣۔ ٤) سید صاحب کی منقولہ بالا تحریر میں جیسے کل محدثین اور مورخین اسلام سے ان کا اختلاف معلوم ہوتا ہے اس اختلاف کی وجہ بھی صاف مفہوم ہوتی ہے کہ آپ کو مخالفین اسلام کے الزاموں سے بے چینی اور گھبراہٹ ہو رہی ہے جس گھبراہٹ کا علاج انہوں نے اسی میں سمجھا کہ ان واقعات کا سرے سے انکار ہی کیا جائے اس لئے ہمارے نزدیک سید صاحب کی نیت صحیح ہے اور فعل غلط۔ ہم نے اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے۔ چونکہ قریش مکہ حربی تھے یعنی آنحضرت (علیہ السلام) سے ان کی جنگ بدستور قائم تھی اور کوئی باقاعدہ صلح نہ ہوچکی تھی چنانچہ اس جنگ (بدر) سے پہلے کئی ایک چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ان کی ہوچکی تھیں جن کا ذکر سید صاحب نے بھی جلد چہارم ص ٧٠ سے ص ٧٢ تک کیا ہے تو ایسے لوگوں کا مال و اسباب چھین لینا یا ان پر لوٹ ڈالنی کسی شرعی حکم اور قاعدہ جنگ کے خلاف نہیں سید صاحب کے خلاف ہو تو ہو اور تو نہ کسی اہل مذہب کے خلاف ہے اور نہ کسی متمدا نہ قوم کے مخالف۔ کیا یورپ کی جنگ عظیم میں کوئی فریق کسی فریق کے اسباب چھیننے یا لوٹنے سے رکتا اور دریغ کرتا تھا؟ پس اسی قاعدہ پر کفار قریش اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ ہے کوئی گھبراہٹ اور بے چینی کی بات نہیں صرف سید صاحب کی دور اندیشی ہے ہاں اگر دشمنوں کے مال پر کسی طرح بوقت غلبہ بھی تصرف کرنا منع ہے پھر تو فیصلہ ہی آسان ہے مگر اسے تو سید صاحب بھی مانتے نہیں چنانچہ آپ نے بھی صفحہ ٩ پر مال غنیمت کی تقسیم بتلائی ہے اور قرآن شریف کی نص ! وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیئٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلْرَّسُوْلِ۔ الایۃ موجود ہے۔ دوسرے امر (نزول ملائکہ سے انکار) کے متعلق آپ فرماتے ہیں : ” ہمارے نزدیک نہ ان لڑائیوں میں ایسے فرشتے جن کو لوگ ایک مخلوق جداگانہ اور متحیر بالذات مانتے ہیں آئے تھے اور نہ اللہ تعالیٰ نے ایسے فرشتوں کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا اور نہ قرآن مجید سے ایسے فرشتوں کا آنا یا اللہ تعالیٰ کا ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کرنا پایا جاتا ہے اگر ہم حقیقت ملائکہ کی بحث کو الگ رکھیں اور فرشتوں کو ویسا ہی فرض کرلیں جیسا کہ لوگ مانتے ہیں تو بھی قرآن مجید سے ان کا فی الواقع آنا یا لڑائی میں شریک ہونا ثابت نہیں ہے۔ سورۃ آل عمران کی پہلی آیت میں تو صرف استفہام ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا اور دوسری آیت میں ہے کہ اگر تم لڑائی میں صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ مگر ان دونوں آیتوں سے اس کا وقوع یعنی فرشتوں کا آنا کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا۔ سورۃ انفال کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہاری ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا مگر اس سے بھی فرشتوں کا فی الواقع آنا نہیں پایا جاتا اس پر یہ خیال کرنا کہ اگر مدد موعودہ وقوع میں نہ آئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی نسبت خلف وعدہ کا الزام آتا ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے مدد کا وقوع میں نہ آنا خلف وعدہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ کی عنایت سے فتح ہوگئی تھی اور فرشتوں کو تکلیف دینے کی (کیا فرشتے بھی آپ ١ ؎ کی طرح عمر رسیدہ ہیں کہ ان کو حرکت کرنے میں تکلیف ہوتی ہے) حاجت باقی نہیں رہی تھی یہ کہنا کہ وہ فتح فرشتوں کے آنے سبب سے ہوئی تھی اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس کے لئے اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہئے اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ فرشتوں کے آنے سے فتح ہوئی تھی روایتوں کو فرشتوں کے آنے پر سند لانی کافی نہیں ہے اول تو وہ روایتیں ہی معتبر اور قابل استناد نہیں ہیں۔ (گو صحیح بخاری کی روایت بھی ہو جس کو اسی جلد کے ص ٨٣ پر سب سے زیادہ معتبر کہہ چکے ہیں) دوسرے خود ان کے مضمون ایسے بے سر و پا ہیں جن سے کسی امر کا ثبوت حاصل نہیں ہوسکتا خصوصاً اس وجہ سے کہ خود راوی فرشتوں کو دیکھتے نہیں تھے۔“ (تفسیر جلد ٤ ص ١١۔ ١٢) بے شک سید صاحب کا یہ قول صحیح ہے کہ اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہئے کہ پہلے ہم قرآن شریف سے نزول ملائکہ کا ثبوت دیں مگر قرآن شریف سے نزول ملائکہ کا ثبوت دینا ایسا مشکل نہیں ہے جیسے کہ سید صاحب کے اس پر دستخط کرانے مشکل ہیں پس سید صاحب کے دوست اور ہمارے ناظرین اگر دوسرے کام کی ہمیں تکلیف نہ دیں تو پہلے کے لئے ہم حاضر ہیں۔ سورۃ انفال کی آیت کا مضمون ہے کہ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اِنِّی مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِنَ المَلَائِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ جس وقت تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا کو بدیں مضمون قبول فرمایا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے کو ہوں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس جنگ اور گھبراہٹ کے متعلق آنحضرت اور مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی اسی جنگ میں مدد بھیجنے کا وعدہ کیا تھا جو بحکم اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ المِیْعَاد پوری بھی ہوئی ہوگی اس پر سید صاحب کا یہ عذر کرنا کہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے رد کا وقوع میں نہ آنا خلاف وعدہ نہیں ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیونکہ جس جنگ میں آنحضرت نے جناب باری میں بالحاح وزاری (جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہے) دعا کی تھی اس میں بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ پانی تک بھی دشمنوں کے قبضہ میں تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکل گئے تھے کہ اللھم ان شئت لم تعبد (یا اللہ تعالیٰ اگر تیری یہی مرضی ہے کہ مسلمان یہاں اس بے سروسامانی میں ہلاک ہوں تو تیری خالص عبادت دنیا میں نہ کی جائے گی‘ پھر کس ذریعہ اور کس وجہ سے ان کو مدد کی ضرورت نہ ر ہی تھی کہ خلف وعدہ کا الزام نہ ہو حالانکہ برابر فتح کے ظہور پذیر ہونے تک یہی حالت رہی تھی۔ دوسری آیت اس سے بھی واضح تر ہے جس کا مضمون ہے کہ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَااُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّغْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ۔ (انفال ع ٢) اللہ تعالیٰ فرشتوں کو الہام کرتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم مسلمانوں کو لڑائی پر مضبوط رکھو میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا پس تم ان کی گردنوں کو مارنا اور ان کے ہر ایک جوڑ پر ضرب لگانا۔ یہ آیت بھی اپنے مضمون میں صاف ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کی دلجمعی کرو اور کافروں کی گردنیں اڑائو مگر سید صاحب نے اسے بھی دودھ کی کھیر کی طرح ٹیڑھا بنا دیا ہے آپ فرماتے ہیں : فتح کے اتفاقی اسباب سے جو بعض اوقات آفات ارضی و سماوی کے دفعتہ ظہور میں آنے سے ہوتے ہیں قطع نظر کر کے دیکھا جائے کہ ان لوگوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے جو فتح پاتے ہیں ان کے قویٰ اندرونی جوش میں آتے ہیں۔ جرأت‘ ہمت، صبر، شجاعت، استقلال، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہی قویٰ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ فتح مندوں کو فتح دیتا ہے اور اس کے برخلاف حالت یعنی بزدلی اور رعب ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کی شکست ہوتی ہے پس ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا مگر وہ بجز خوشخبری فتح کے اور کچھ نہیں ہے جس کے سبب تم میں ایسے قویٰ برانگیختہ ہوں گے جو فتح کے باعث ہوں گے تمہارے دل قوی ہوجاویں گے لڑائی میں تم ثابت قدم ہو گے۔ جرأت۔ ہمت۔ شجاعت کا جوش تم میں پیدا ہوگا اور دشمنوں پر فتح پائو گے یہ معنی ان آیتوں کے ہم نے پیدا نہیں کئے ہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے یہی تفسیر اپنے کلام کی کی ہے جہاں اسی سورت میں اور اسی واقعہ کی نسبت فرماتا ہے اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَالْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّغْبَ یعنی جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا (یہ وہی فرشتے ہیں جن کے بھیجنے کا مدد کے لئے وعدہ کیا تھا) کہ میں تمہارے (یعنی مسلمانوں کے) ساتھ ہوں (تو ان فرشتوں سے یہ کام لینے چاہے تھے) کہ ثابت قدم رکھو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں میں بہت جلد ان لوگوں کے دلوں میں جو کافر ہیں رعب ڈالوں گا۔ لڑائی میں ثابت قدم رکھنے والی کون چیز تھی وہی ان کی جرأت اور ہمت تھی کوئی اور شخص ان کے پاس کھڑے ہوئے شاباش شاباش نہیں کہہ رہے تھے پس ظاہر ہے کہ فرشتوں سے مراد ہی قویٰ انسانی تھے جنکے پاس وحی بھیجی تھی اور جو لڑنے والوں میں موجود تھے (تفسیر جلد ٤ ص ١٣۔ ١٤) اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ وجود خارجی ملائکہ سے منکر ہیں یعنی ان کو متخیر بالذات نہیں مانتے اس لئے جہاں کہیں کوئی ایسا کام ملائکہ کی طرف منسوب ہوتا ہے وہاں پر وہ بپابندی اصول خود مجبور ہیں پس اصل بحث اس امر پر نہیں کہ فرشتے جنگ بدر میں آئے تھے یا نہ بلکہ اس امر پر ہے کہ فرشتوں کا کوئی وجود خارجی ہے کہ نہیں کیونکہ فرشتوں کا نزول تو سر سید کو قبول ہے لیکن انکے نزدیک فرشتے انسانی قوی کے نام ہیں اور بس۔ پس اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے ہم اپنے ناظرین کو جلد اول تفسیر ثنائی کا حوالہ دیتے ہیں جہاں وجود ملائکہ پر بحث ہوچکی ہے۔ ہاں سورۃ آل عمران کی آیت کے جو معنی سید صاحب نے بتائے ہیں وہ ضرور قابل بیان ہیں آیت کا مضمون ہے کہ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبَّکُمْ بِثَلاَثۃِ اٰلاٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ۔ (ال عمران ع ١٣) کیا تم کو کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا یعنی اللہ تعالیٰ پیغمبر کے کلام کو نقل کرتا ہے کہ جب یہ کہتا تھا جس سے صاف سمجھ آتا ہے کہ فرشتوں کا تقرر ہوچکا تھا جس کا ذکر رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فوج میں کر رہے تھے مگر سید صاحب فرماتے ہیں کہ : ” سورۃ آل عمران میں آیت میں تو صرف استفہام ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا۔“ (جلد چہارم۔ ص ١١) غور کیجئے سید صاحب نے اس میں کیا غضب کیا ایک تو قطعی امداد کو ” اگر“ لگا کر شکی بنا دیا حالانکہ استفہام صرف کفائت سے متعلق تھا نہ کہ امداد سے دوم یہ کیا عذر کہ آیت میں صرف استفہام ہے۔ کیا استفہام تقریری حکم قضیہ تبیہ کا نہیں رکھتا کیا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ اور اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ اور اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی وغیرہ بھی اسی طرح قابل توجہ نہیں کہ ان آیتوں میں یہی صرف استفہام ہے جس سے یہ سمجھ میں نہیں آتا؟ کہ اللہ تعالیٰ واقعی اپنے بندوں کو کافی ہے یا واقعی وہ سب کا رب ہے یا واقعی وہ غالب ذوالانتقام ہے یا واقعی وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے وغیرہ اگر ان آیتوں سے یہ مضمون ثابت نہیں ہوتے تو ہم بھی قائل ہوئے کہ آیت زیر بحث سے فرشتوں کا مسلمانوں کی امداد کے لئے آنا ثابت نہیں ہوتا ہٹ چھوڑئیے بس اب سر انصاف آئے ر انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک سید صاحب نے ضمیر ما جعلہ اللہ تعالیٰ پر بھی بحث کی ہے اور تابمقدور اپنے مفید مطلب بنانا چاہا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔ ” برخلاف اس کے قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرشتہ بھی نہیں آیا تھا (سید صاحب ! فرشتوں کا نزول تو آپ ص ١٢ و ١٤ پر مانتے ہیں صرف کیفیت میں کلام ہے پھر یہاں پر سرے سے جواب کیوں دیتے ہیں) دونوں سورتوں میں اس آیت کے بعد جس میں فرشتوں کے بھیجنے کو کہا ہے یہ آیت ہے وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ یعنی اور نہیں کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے مگر خوشخبری تمہارے لئے تاکہ مطمئن ہوجائیں اس سے تمہارے دل اور فتح نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے پاس سے بیشک اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا۔“ یہ بات غور کے لائق ہے کہ وما جعلہ اللہ تعالیٰ میں جو ضمیر ہے وہ کس کی طرف راجع ہے امام رازی صاحب فرماتے ہیں کہ ضمیر راجع ہے طرف مصدر کے جو صریحاً مذکور نہیں ہے مگر لفظ یمدکم میں ضمنا داخل ہے یعنی ماجعل اللہ تعالیٰ الامداد الا بشری اور زجاج کا قول ہے کہ ما جعلہ اللہ تعالیٰ ای ذکر المدود الا بشری مگر امام رازی صاحب نے جو فرمایا ہے وہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میں فرشتوں سے مدد کروں گا صرف خوشخبری تھی پس علانہا سیاق عبارت سے ظاہر ہے کہ ماجعلہ کی ضمیر قول امداد و ذکر امداد کی طرف راجع ہے جیسا کہ زجاج کا قول ہے نہ بطرف مصدر کے جو مذکور بھی نہیں ہے البتہ اس صریح و صاف مرجع ضمیر کو چھوڑ کر مصدر کی طرف اس صورت میں ضمیر راجع ہوسکتی ہے کہ اول وقوع اس مدد کا یعنی فرشتوں کا آنا ثابت ہوجائے اور وہ ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ (ہم تو کر آئے) اس لئے مصدر کی طرف ضمیر کا راجع کرنا ٹھیک نہیں ہے ” ماجعلہ“ میں ” ما“ نافیہ ہے جو عام طور پر نفی کرتا ہے اس لئے سورۃ آل عمران کی آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے پغمبر کے اس قول کو کہ کیا تمہارے لئے کافی نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار فرشتوں سے مدد کرے کوئی چیز مگر بشارت یعنی صرف بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور سورۃ انفال کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تم نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی اور اس نے تمہارے فریاد کو قبول کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا تو نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے اس قبول کرنے کو جس کے ساتھ فرشتوں سے مدد دینے کو کہا تھا کوئی چیز مگر بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور یہ طرز کلام قطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا فرشتہ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں لڑائی کے میدان میں نہیں آیا تھا“ (جلد چہارم ص ١٢۔ ١٣) گو مطلب بالکل صاف ہے مگر سید صاحب نے ناحق اسے طول دے کر وقت ضائع کیا زجاج کا قول بھی جو آپ کا مسلمہ ہے بجائے خود صحیح ہے اگر اس پر بھی بنا کریں تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا چنانچہ آپ نے بیک اس پر کوئی شبہ نہیں کیا بلکہ تسلیم کیا ہے اور اگر انزال الملائکہ کی طرف بھی جو مُنَزلِیْن سے مستنبط ہوتا ضمیر راجع کی جائے تو کیا حرج ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا بھیجنا یا (بقول آپ کے) بذریعہ ملائکہ تمہاری مدد کرنا محض تمہاری تسکین خاطر کو کیا تھا ورنہ مدد اور نصرت تو اللہ تعالیٰ غالب کے پاس سے ہے جن کو چاہے فتح دے چاہے وہ تھوڑے ہی ہوں بیشک ہم مانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو بغیر فرشتوں کے بھی مسلمانوں کو فتح دیتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہر ایک گائوں میں ایک ایک نبی بھیج دیتا مگر اس سے یہ لازم نہیں کہ محمد رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ عل ہے وسلم جو سب جہان کے لئے نبی ہونے کے مدعی ہیں معاذ اللہ تعالیٰ ان کا دعوی صحیح نہیں اسی پر کیا منحصر ہے جو کلام اللہ تعالیٰ کرتا ہے اگر چاہتا تو اور طرح سے بھی یہ مفاد ہم کو دے سکتا تھا۔ تو کیا اس سے ان طرق مفیدہ سے ہی انکار کردیں۔ فافہم تیسرے امر یعنی اسیران جنگ کی نسبت سید صاحب لکھتے ہیں : ” ان قیدیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے رائے دی کہ سب کو قتل کرنا چاہئے حضرت ابوبکر نے کہا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے چنانچہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ فدیہ لینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی ظاہر کی کیونکہ وہ لوگ بغیر لڑنے کے پکڑے گئے تھے اور اس لئے لڑائی کے قیدی جن سے فدیہ لیا جاسکتا ہے نہیں تھے اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ان کے قتل نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی تھی وہ کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب ان کا قیدی جنگ ہونا ہی نہیں قرار دیا تو ان کے قتل نہ کرنے پر کیونکر ناراضگی ہوسکتی تھی۔“ (جلد چہارم ص ٤١) سید صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پکڑے گئے تھے وہ لڑائی کے قیدی نہ تھے کیونکہ وہ میدان جنگ میں نہ آئے تھے بلکہ بھاگتے ہوئے پکڑے گئے تھے جس کا ثبوت سید صاحب کے ذہن کے سوا کہیں نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مقام پر آئتیں اور روایتیں جن میں اس قصہ کا ذکر ہے (جن کو سید صاحب نے بھی نقل کیا ہے مگر بقول آوہا تیتر آوہا بٹیر اوہوری چھوڑ دی ہیں) پوری نقل کر کے ان کے معنے بیان کردیں ان کے معنے بتلانے ہی سے سید صاحب سے ہمارا تصفیہ ہوجائے گا۔ ایک مقام پر اسیران جنگ کی نسبت ارشاد ہے کہ حَتّٰی اِذَا اثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّ وْالوَثَاقَ فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً جب تم خونریزی کرچکو تو ان کو مضبوطی سے قید کرلو بعد ازاں کیا تو تم احسان کر کے انہیں چھوڑ دو یا ان سے عوض مالی لے لیا کرو۔ غرض جیسا مناسب سمجھو کرو۔ اس آیت میں جس کے متعلق یہاں ذکر ہے۔ یوں ارشاد ہے کہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗ اُسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الاَرْضِ نبی جب تک اچھی طرح خونریزی نہ کرچکے اس کو قیدیوں کا رکھنا جائز نہیں۔ وہ روایت جس کو سید صاحب نے نقل کیا جس میں حضرت عمر کے مشورہ کا ذکر ہے اس میں یہ لفظ بھی ہیں کہ ونزل القران بقول عمر و ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یتخن فی الارض الی اخر الایۃ (ترمذی) یعنی قرآن میں حضرت عمر کی رائے کے موافق یہ آیت اتری جو اوپر لکھی ہے پس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت موصوفہ کے ایسے معنے ہونے چاہئیں جو حضرت عمر کے مشورہ کے موافق ہوں یعنی وہ مستحق قتل تھے جن کو قتل نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی ہاں اس میں شک نہیں کہ ان معنی سے پہلی آیت جس کو ہم نے نقل کیا ہے جس میں اسیران جنگ کی بابت صرف احسان یا فدیہ کا ذکر ہے بظاہر مخالف ہے کیونکہ اس میں قتل کی کوئی صورت نہیں بتلائی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسیران جنگ دو قسم ہوتے ہیں ایک وہ جو لڑتے ہوئے سفید جھنڈا صلح کا کھڑا کردیتے ہیں اور ہتھیار ڈال دیتے ہیں ایسے قیدیوں سے وہی سلوک ہونا چاہئے جو آیت اول میں بیان ہوا ہے قسم دوم وہ قیدی ہوتے ہیں جو صلح کی درخواست نہیں کرتے اور نہ ہی ہتھیار ڈالتے ہیں مگر گھیرے میں آ کر پکڑے جاتے ہیں ان کا حکم دوسری آیت کے مطابق قتل ہے۔ تیسری آیت ان معنی کی تفسیر کرتی ہے جس میں ارشاد ہے کہ وَاِنْ جَنَحُوْ الِلْسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا ” اگر کافر صلح کو جھکیں تو تم بھی جھک جائو۔ “ کیونکہ قسم اول کے قیدی گو بظاہر قیدی ہیں لیکن حقیقت میں ہتھیار ڈالنے سے وہ صلح کے طالب ہیں گو ان کے افسر یا حکومت نے صلح نہیں چاہی مگر خود ان کی صلح خواہی میں تو شک نہیں اس لئے ان کو قتل کرنا گویا مصالحین کو قتل کرنا ہے جو کسی طرح جائز نہیں اور قسم دوم کے قیدی ایسے نہیں بلکہ تا مواخذہ برسر قتال ہیں اس لئے ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو ہتھیار ڈال کر طالب صلح ہوں بدر میں جو لوگ قیدی ہو کر آئے تھے وہ قسم دوم سے تھے یہی وجہ تھی کہ کسی صحابی نے حضرت عمر کے مقابل پر آیت اولیٰ پڑھ کر قائل نہیں کیا۔ پس جو شبہ سید صاحب کو اسیران جنگ کے واجب القتل ہونے پر تھا کہ آیت اولیٰ کے خلاف ہے گویا انہوں نے ظاہر لفظوں میں اس کا اظہار نہیں کیا ہماری تقریر سے دور ہوگیا۔ نیز آیتوں اور روایتوں میں بفضلہ تعالیٰ تطبیق بھی ہوگئی جو بظاہر مشکل تھی۔ فالحمدللہ غزوہ احد :۔ دوسری مشہور جنگ آنحضرت سے شوال ٣ ہجری میں جس کا نام جنگ احد ہے مدینہ سے باہر احد ایک پہاڑی ہے قریش مکہ بدر کی شکست کا عوض لینے کو تین ہزار جرار فوج لے کر بسر کردگی ابوسفیان مدینہ پر حملہ آور ہوئے ادھر سے اسلامی فوج جو ہزار سے بھی کم تھی مدینہ سے باہر احد کے پاس ان سے مقابل ہوئی اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے مسلمانوں کو فتح ہوئی مگر ذرا سی غلطی سے وہ فتح فوراً منقلب ہوگئی۔ مسلمان کفار کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ادھر کفار نے ان کی مصروفیت سے فائدہ اٹھایا کہ فوراً لوٹ کر حملہ کردیا مسلمانوں کو سخت تکلیف ہوئی آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے آپ گڑھے میں گر گئے مگر ثبات قدمی جو قومی شرافت کے علاوہ لازمہ نبوت تھا اس وقت بھی برابر جلوہ گر تھا کہ آپ کو ذرہ لغزش نہ تھی بلکہ بالکل اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا اور یقین تھا کہ ہماری ہی فتح ہوگی اسی جنگ میں آنحضرت کی وفات کی خبر بھی مشہور ہوگئی جس پر صحابہ کو سخت رنج ہوا اور قریب قریب تمام منتشر ہوگئے آخر بعد تحقیق خبر کے پھر جمع ہوگئے اسی اثنا میں مسلمان جمع ہو کر مشورہ کر رہے تھے کہ ابوسفیان نے بلند آواز سے پکارا کہ ابوبکر زندہ ہے؟ عمر ابن الخطاب زندہ ہے؟ جواب میں ذرہ دیر ہوئی تو یہ کہہ کر کہ سب مر گئے کہنے لگا اُعْلُ ھُبَل اُعْلُ ھبل (اے ھُبَلْ (بت کا نام ہے) تو بلند ہو کہ تیرے دشمن مر گئے اس پر آپ کے حکم سے حضرت عمر نے پکارا کہ اللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللّٰہُ اَعْلٰے وَاَجَلُّ (اللہ تعالیٰ ہی بلند اور بزرگ ہے) پھر ابوسفیان نے پکارا اِنَّ العُزّٰی لَنَا وَلاَ عُزّٰی لَکُمْ (عزی بت ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں) اس کا جواب بھی بحکم نبوی اس کو دیا گیا کہ اللّٰہُ مَوْلٰی لَنَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ (اللہ تعالیٰ ہمارا والی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں) غرض اسی طرح کے سوال و جواب ہوتے رہے مگر کسی فریق نے بڑھ کر دوسرے پر حملہ نہ کیا آخر قریش عرب اسی پر قناعت کر کے واپس چلے گئے راہ میں جا کر ایک تجویز سوچی کہ ایک آدمی کو مدینہ بھیج کر یہ مشہور کریں کہ قریش کی فوج بے حد جمع ہو رہی ہے بہتر ہے کہ تم اس دین سے باز آجائو ورنہ وہ تم کو پیس ڈالیں گے مگر مسلمان اس امر سے ذرہ بھی خائف نہ ہوئے بلکہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الوَکِیْلُ پڑھا۔ آنحضرت نے چند آدمی بغرض دریافت حال باہر بھیجے تو کوئی فوج ان کو نہ ملی آخر اسی طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ مسلمان قریباً ستر اس جنگ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوۂ خندق :۔ تیسری مشہور جنگ غزوۂ خندق ہے ماہ شوال ٤ ہجری میں ہوئی تھی جنگ بدر کی شکست اور احد کی ناکامی سے قریش مکہ کے دلوں میں سخت اضطراب تھا اتنے میں یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر وغیرہ کے چند سردار قریش مکہ کے پاس پہنچے اور مدد کا وعدہ دے کر ان کو مسلمانوں سے لڑنے پر اکسایا وہ پہلے ہی غیض و غضب میں بھرے ہوئے تھے پس ان کا اکسانا ” دیوانہ را ہوے بس است“ کا مصداق ہوا۔ چنانچہ قریباً دس ہزار فوج جرار لے کر بسر کردگی ابوسفیان مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ بنی نضیر نے ان کو اکسایا تھا بنی قریظہ یہودیوں کا قبیلہ بھی باوجود معاہدہ صلح کے ان سے مل گئے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حسب مشورہ سلمان فارسی (رض) مدینہ کے گرد خندق کھدوائی (اسی وجہ سے اس کو غزوہ خندق کہتے ہیں) اس خندق کھودنے میں بہت سے خدائی کرشمے ظاہر ہوئے ایک پتھر نہایت سنگین تھا صحابہ سے اس کو جنبش نہ ہوئی تو آپ کو اطلاع کی گئی تو آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس کو توڑا اس کے ٹوٹتے ہوئے حسب دستور ایک چمکارا نکلا آپ نے فرمایا اس کی روشنی سے مجھے قیصر و کسری (روم اور ایران کے بادشاہوں) کے محلات دکھا دئیے گئے ہیں کہ یہ تیری امت کو ملیں گے الحمدللہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی) خندق کھودتے وقت دستور کے مطابق صحابہ رجز کرتے تھے یعنی اشعار شوقیہ حسب حال پڑھتے تھے اور آپ بھی بذات خاص ان کو جواب دیتے تھے ان اشعار میں سے چند اشعار یہ ہیں۔ صحابہ کہتے تھے نحن الذین بایعوا محمدا۔ علی الجہاد ما بقینا ابدا۔ آپ فرماتے تھے اللھم ! لاخیر الاخیر الاخرہ۔ فبارک فی الانصار والمھاجرۃ ہم ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) سے مرتے دم تک جہاد کرنے پر بیعت کی ہوئی ہے۔ ١٢ اے اللہ تعالیٰ خیر و برکت آخرت کی خیر ہے پس تو انصار اور مہاجرین میں برکت دے۔ ١٢ گا ہے آپ یہ اشعار بھی پڑھتے تھے اللھم لو لا انت ما اھتدینا۔ فلا تصدقنا ولا صلینا۔ انزلن ! سکینۃ علینا۔ ثبت الاقدام ان لاقینا۔ ان الاولاقد بغوا علینا۔ اذا ارادوا افتنۃ ابینا۔ اے اللہ تعالیٰ اگر تو مددگار اور راہ نما نہ ہوتا تو ہم نہ تو صدقہ دے سکتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھ سکتے۔ ١٢ تو ہم پر تسلی اور تسکین نازل فرما اگر ہم دشمنوں سے جنگ میں ملیں تو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ ١٢ ان کفار نے ہم پر زیادتی اور ظلم کئے ہیں جب انہوں نے ہم سے ناجائز حرکات چاہیں یعنی کفر و شرک کرانے پر زور دیا تو ہم نے انکار کردیا۔ ١٢ مہینہ بھر کفار کا محاصرہ رہا درمیان میں کبھی کبھی معمولی سی چھیڑ چھاڑ بھی ہوجاتی مگر کفار کے دل میں یہ غرور تھا کہ اب یہ مسلمان جائیں گے کہاں۔ شہر کے اندر گھرے ہوئے ہیں باہر کے دشمنوں کے علاوہ خود شہر میں بھی منافق چھپے دشمن بظاہر مومن خفیہ کافر موجود تھے جو ہر آن ان کو خبر پہنچاتے ہیں اس لئے قریش اس گھمنڈ میں تھے کہ یا تو اسی طرح گھبراہٹ سے بے چین ہو کر مر جائیں گے یا اپنے آبائی مذہب کی طرف رجوع ہوں گے اس واقعہ کی تکالیف شدیدہ کا مختصر سا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتلایا ہے۔ ارشاد ہے۔ اِذْجَآئُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ باللّٰہِ الظُّنُوْنَا ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْرَ الاً شَدِیْدًا وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ الاَّ غُرُوْرًا وَاِذْ قَالَتْ طَآئِفَۃٌ مِنْہُمْ یَا اَھْلَ یَثْرِبَ لاَمُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بَوْوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ الاَّ فِرَارًا (احزاب ع ٢) یعنی جب کفار تم پر اوپر سے اور نیچے سے لوٹ پڑے تھے اور جب تمہاری آنکھیں ڈگنے لگی تھیں اور دل مارے گھبراہٹ کے حلق پر پہنچے ہوئے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت خلف وعدہ اور خوف ہلاکت کی مختلف بدگمانیاں کر رہے تھے اس وقت مسلمان سخت بلا میں مبتلا تھے اور سخت گھبراہٹ کے زلزلوں سے متزلزل ہوئے تھے یعنی جس وقت منافق اور مریض دلوں والے کہتے تھے کہ ہم سے تو اللہ تعالیٰ اور رسول نے محض دھوکہ کے وعدے دئیے تھے (کہ تمہاری ترقی ہوگی) اور جس وقت ایک جماعت ان میں سے یہ کہتی تھی کہ اے مدینہ والو ! تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں پس بہتر ہے کہ تم اپنے آبائی مذہب کی طرف رجوع ہوجائو اور ان میں سے ایک جماعت نبی سے اجازت چاہتی تھی اس بہانہ سے کہ ہمارے گھروں میں کوئی نہیں بالکل خالی ہیں حالانکہ خالی نہ تھے بلکہ وہ صرف بھاگنا ہی چاہتے تھے۔ “ ایسی حالت میں فقر و فاقوں کا کیا شمار ہوگا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے آنحضرت کے چہرۂ مبارک پر بھوک سے فاختہ اڑتے دیکھے تو اجازت لے کر اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی سے ذکر کیا کہ میں نے آنحضرت کے چہرۂ مبارک پر ایسی حالت دیکھی ہے کہ مجھ سے صبر نہ ہوسکا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ اس نے کہا تھوڑا سا آٹا جوئوں کا ہے اور ایک بکری کا بچہ ہے میں نے اسے تو آٹا گوندھنے کو کہا اور آپ بکری کے بچہ کو ذبح کر کے فوراً تیار کیا اور ہنڈیا چولہے پر رکھ دی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آ کر عرض کیا کہ آپ کی اور ایک دو آدمیوں کی آپ کے ساتھ غریب خانہ پر دعوت ہے آپ نے فرمایا کھانا کتنا کچھ ہے جس قدر تھا میں نے عرض کردیا آپ نے فرمایا اپنی بیوی سے کہیو کہ میرے آنے سے پیشتر نہ تو روٹیاں پکائے اور نہ ہنڈیا چولہے سے اتارے۔ ادھر آپ نے تمام فوج میں پکار دیا کہ جابر کے ہاں آج تمہاری دعوت ہے چنانچہ آپ تمام صحابہ مہاجرین اور انصار کو لے کر جابر کے گھر پہنچے جابر اتنی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر گھبرا گئے اور اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ حضرت تو تمام صحابہ کو ساتھ لے آئے ہیں اس دانا عورت نے کہا کہ تجھ سے آپ نے سوال کیا تھا تو تو نے اصل واقعہ کو جس قدر کھانا ہے عرض کردیا تھا؟ جابر نے کہا ہاں بولی کچھ حرج نہیں یعنی جب آپ باوجود علم اصل واقعہ کے اتنے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں تو انتظام بھی خود ہی فرما لیں گے۔ چنانچہ آپ نے سب فوج کو جو ایک ہزار تھی بٹھا دیا اور ہنڈیا اور آٹے میں اپنا لب مبارک ڈال کر روٹیاں پکانے اور سالن برتنوں میں ڈالنے کا حکم دیا جابر قسمیہ کہتے ہیں کہ سب فوج کھانا کھا چکی تو بھی ہماری ہنڈیا اسی طرح ابل رہی تھی سب سے اخیر جابر کی بیوی سے کہا کہ اب تو خود بھی کھا اور لوگوں کو جو شہر میں ہیں تحفہ بھیج کیونکہ آج لوگوں کو بھوک سے تکلیف ہے۔ ناظرین ! سید صاحب اس واقعہ کو نہ مانیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ یہ روایت صحیح بخاری کی ہے جس کو آپ تفسیر جلد چہارم کے صفحہ ٨٣ پر سب سے زیادہ معتبر مانتے ہیں۔ سپر نیچرل (خلاف فطرت) کہیں تو تفسیر ثنائی جلد دوم و سوم ملاحظہ کرا دیں۔ خیر اللہ اللہ کر کے بعد ایک مہینے کے قریش کا محاصرہ اٹھا۔ کس طرح اٹھا؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بتلائی ہے ارشاد ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَآئَ ْتکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا (احزاب ع ٢) مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی مہربانی جو تم پر ہوئی ہے وہ یاد کرو جب قریش کی فوجیں تم پر آئی تھیں تو ہم نے ان پر زور کی ہوا اور ایسی فوج بھیجی جسے تم نے نہ دیکھا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے) راتوں رات اس ہوا اور آسمانی فوج سے ان کے خیمے الٹ گئے گھوڑے بھاگ گئے تمام تکبر و غرور جو دماغ میں لئے بیٹھے تھے الٹے وبال جان ان کے لئے ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر مکہ کو چلتے بنے حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے ان سے فارغ ہو کر حسب مشورہ جبرئیل آپ نے بنی قریظہ کا جنہوں نے باوجود معاہدہ قریش کا ساتھ دیا تھا تعاقب کیا چنانچہ ان کے قلعہ کا محاصرہ ہوا تو انہوں نے خود ہی حضرت سعد بن معاذ (رض) (جو زمانہ جاہلیت میں ان کے حلیف (ہم سو گند یعنی معاہد) تھے) کے فیصلہ کو منظور کرلیا حضرت سعد نے ان پر بغاوت کا جرم سمجھ کر بالغوں کو قتل کرنے اور نابالغوں اور عورتوں کے لونڈی غلام بنا لینے کا حکم دیا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کئی سو بنی قریظہ بغاوت کے جرم میں تہ تیغ ہوئے تو مدینہ میں امن ہوا۔ ایک بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ اسی جنگ خندق میں آپ نے ایک پیشگوئی بایں الفاظ فرمائی تھی جو بالفاظ پوری ہوئی فرمایا نحن نفزوھم ولا یغزوننا (آئندہ کو ہم ان کفار پر چڑھائی کیا کریں گے اور وہ ہم پر نہ چڑہائی کریں گے) یعنی ان میں جس قدر ہمت اور حوصلہ تھا آج کے زور ختم ہوگیا اب ان کو (مشرکین عرب ہوں یا یہودی یا عیسائی) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فالحمدللہ علی ذلک۔ غزوۂ خیبر :۔ یہ لڑائی محرم ٧ ہجری میں ہوئی۔ خیبر ایک بڑا شہر ہے جس میں یہودی بکثرت بستے تھے اور اس کی اطراف میں ان کے بڑے مضبوط قلعے تھے اور وہ مدت سے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے اتنے میں آنحضرت کو ان کی تیاریوں کی خبر پہنچی تو آپ نے ان پر فوج کشی کر کے مہینے بھر کی لڑائی کے بعد خیبر فتح کیا۔ یہودیوں کو جان کی امان دی گئی اور تمام مال و اسباب ان کا غنیمت یا معاوضہ جنگ میں لیا گیا اور زمینوں پر انہی کو بطور مزارع کے قابض رکھا اور پیداوار کا نصف حصہ ان کا اور نصف غنیمت کے لئے مقرر ہوا۔ بعد فتح ایک ! یہودن نے آپ کی دعوت کر کے گوشت میں زہر ملا دیا جونہی آپ نے ایک لقمہ کھایا ہاتھ کھینچ لیا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ اس میں زہر ہے۔ آپ کے بتلانے سے بیشتر جلدی میں جن لوگوں نے گوشت کھایا تھا شہید ہوگئے آپ نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تو نے اس میں زہر کیوں ڈالا؟ تو اس نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ کو کچھ ضرر نہ ہوگا اور اگر جھوٹے ہوں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی یعنی آپ مر جاویں گے۔ شاید اس عورت کو حسب ہدایت توریت استثنائ۔ ١٣ باب کے یہ خیال پیدا ہوا ہوگا جہاں مذکور ہے کہ جھوٹا نبی مارا جائے گا۔ مگر آپ بفضلہ تعالیٰ زندہ سلامت باکرامت رہے مختصر یہ ہے کہ خیبر پر بتمامہ مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ غزوہ فتح مکہ المکرمہ :۔ ماہ رمضان ٨ ہجری میں یہ واقع ہوا اس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ یوم حدیبیہ میں ٦ ہجری میں قریش سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح دس سال تک قرار پائی تھی یہ بات طے ہوچکی تھی کہ بنو خزاعہ گو تمام مسلمان نہ تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب قرار پائے تھے اور بنو بکر قریش مکہ کی ان دونوں (بنو بکر اور بنو خزاعہ) میں سخت عداوت تھی اتفاق سے ان کی آپس میں چل پڑی معاہدہ کے مطابق قریش مکہ کو الگ تھلگ رہنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ بنو بکر کی علانیہ امداد کی اور بنو خزاعہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ جب آپ کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ نے مکہ پر فوج کشی کا ارادہ مصمم کرلیا کیونکہ قریش مکہ نے اپنے معاہدہ کی پرواہ نہ کی تھی۔ آخر کار دس ہزار فوج جرار لے کر آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے مگر مکہ والوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ کوئی مقابلہ پر نہ آیا بلکہ ان کا سردار ابوسفیان جو احد اور خندق کی لڑائیوں میں سپہ سالار تھا مسلمانوں کی فوج کی خبر سن کر ایک شخص بدیل نامی کے ساتھ خود تجسس حال کو نکلا۔ حضرت عباس کے قابو آگیا حضرت عباس اس کو آپ کی خدمت میں لائے آپ نے فرمایا کل صبح اس کو پیش کرنا رات کو حضرت عباس نے ابو سفیان کو اسلام کی تلقین کی تو اس کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا چنانچہ وہ مسلمان ہوگیا حضرت عباس کی سفارش پر آپ نے منادی کرا دی کہ جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں جا گھسے گا اس کو امن مل جائے گا اور وہ جان سے مارا نہ جائے گا مختصر یہ کہ آپ نے بغیر کسی سخت مقابلہ کے مکہ فتح کیا لوگوں کو خطرہ تھا کہ آپ اپنی پہلی تکلیفوں کو جو ہجرت سے پہلے مکہ والوں سے اٹھائی تھیں بدلہ لیں گے مگر آپ نے ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا۔ میں تم سے وہ معاملہ کروں گا جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا جائو سب کو معاف۔ اللّٰہ اکبر سچ ہے شنیدم کہ مردان راہ اللہ دل دشمناں ہم نہ کردند تنگ غزوۂ حنین :۔ طائف اور مکہ شریف کے درمیان حنین ایک مشہور مقام ہے جہاں قوم ہوازن رہتی تھی رمضان ٨ ھ میں آپ نے فتح مکہ کیا ابھی مکہ کے انتظام ہی میں مشغول تھے کہ ہوازن کے حملہ کی خبر پہنچی چنانچہ آپ نے بارہ ہزار جرار لشکر ان کے مقابلہ کے لئے تیار کیا جن میں دس ہزار تو وہ لوگ تھے جو مدینہ سے بغرض فتح مکہ آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار ان لوگوں سے جو فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے تھے انہی میں سے ابو سفیان (رض) بھی تھے جو احد اور خندق میں کفار کے سپہ سالار تھے اور فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے چند ہی روز میں ان کا ایمان اور اخلاص ایسا مضبوط ہوگیا کہ حینے میں ان سے بہت سی خدمات نمایاں صادر ہوئیں بلکہ ایسے موقعہ پر بھی وہ آنحضرت کے ہمرکاب رہے کہ تمام فوج منتشر ہوگئی تھی جس کا بیان آتا ہے خیر آپ بسم اللہ تعالیٰ مجریہا ومرسہا کہہ کر بغرض دفع حملہ ہوازن کے مقام پر پہنچے جونہی پہنچے تھے کہ ابھی کوئی جنگ کی تیاری بھی نہ تھی کہ ناگاہ بے خبری میں قوم ہوازن نے جو بڑے جنگجو تیر انداز تھے مسلمانوں پر بڑے زور سے تیر برسائے جس سے فوج نظام میں خلل آگیا اور صحابہ قریب قریب تمام منتشر ہوگئے مگر حضرت عباس اور ابوسفیان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے ہمرکاب تھے ادھر یہ شہرت ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شہید ہوگئے ایسی بے قراری کے وقت بھی آپ کی قومی شجاعت اور اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کا یہ عالم تھا کہ آپ بجائے گھبراہٹ کے بلند آواز سے یہ پکار رہے تھے انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب یعنی میرے پیچھے نہ ہٹنے کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ میں نبی ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ نصرت کیا ہوا ہے دوم یہ کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ہماری قومی شجاعت بھی اسی امر کی مقتضی ہے کہ میدان جنگ سے پیچھے نہ ہٹیں آخر بہ حکم نبوی حضرت عباس نے بلند آواز سے صحابہ کو پکارا کہ اے مہاجرو ! اے شجرہ کے نیچے بیعت کرنے والو ! اے انصارو ! چلو بھاگو لپکو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہیں۔ چنانچہ پھر مسلمان جمع ہوگئے اور باقاعدہ ایک ہی حملہ میں سب دشمن مغلوب ہوگئے۔ اس جنگ کی مختصر سی کفیت اور ابتدائی شکست کی وجہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہے۔ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَائُ الْکٰفِرِیْنَ۔َ (التوبۃ) اللہ تعالیٰ نے تمہاری کئی ایک مواقع میں مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی مدد کی تھی۔ جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے پھر اس کثرت نے تمہیں کوئی کام نہ دیا اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر لوٹ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور جن فوجوں کو تم نے نہیں دیکھا وہ نازل کیں اور کافروں کو عذاب دیا۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے۔ “ مختصر یہ کہ صحابہ کو اپنی کثرت کی وجہ سے بتقاضائے بشریت توکل علی اللہ تعالیٰ میں فرق آگیا تھا اس پر یہ تکلیف ہوئی سچ ہے ایں سعادت بزور باز و نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ بعد فتح کے یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو ان کے قیدی بھی آنحضرت نے ان کو دے دئیے اور مسلمانوں کی قید سے آزاد کر دئیے گئے۔ غزوۂ تبوک :۔ تبوک شام اور وادی القریٰ کے درمیان ایک جگہ ہے آپ کو رومیوں کے اجتماع کی خبر ملی تو آپ نے باوجود سخت گرمی کے موسم ہونے کے فوراً رجب ٩ ہجری میں تیاری کی یہ جنگ بلحاظ تکالیف سفر جیسی مشکل تھی کوئی نہ تھی۔ مگر صحابہ نے اس کی دشواریوں کی کوئی پروا نہ کی حسب فرمان نبوی فوراً تیار ہوگئے ہرچند منافقوں نے مسلمانوں کی جنگ کی سختی سے ڈرایا مگر حب نبی نے کچھ اثر ہونے نہ دیا آخر آپ مقام جنگ پر پہنچے تو بغیر جنگ و جدال کامیاب واپس آئے عموماً سب سرداران قوم سے معاہدے ہوگئے اور جزیہ مقرر ہوا جو انہوں نے اپنی خوشی سے منظور کیا۔ یہ ہے آپ کے غزوات کی نہایت مختصر تاریخ ان کے علاو چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بھی ان کے درمیان ہوتی رہیں مگر ہم نے ان کو نہیں بیان کیا کیونکہ ان میں آنحضرت کی بذات خود شرکت نہ تھی بلکہ یوں کہئے کہ کوئی جنگ ہی نہ تھی بسا اوقات معمولی دبائو منظور ہوتا تھا۔ والعلم عنداللہ۔ منہ جس طرح تیرے پروردگار نے بدر کی لڑائی کے لئے تجھے سچے وعدے کے ساتھ گھر سے نکالا تھا۔ اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو ناپسند کرتی تھی کیونکہ بظاہر سامان مفقود تھا سوائے بھروسہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بھی نہ تھا باوجود ضرورت جنگ ظاہر ہونے کے اور اللہ تعالیٰ کے سچے احکام اور مواعید سننے کے بعد بھی تجھ سے مفید اور ضروری کام یعنی جنگ کے بارے میں جھگڑتے تھے اور جی میں ایسے خوفزدہ تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جاتے تھے اور وہ گویا موت کو بچشم خود سامنے دیکھ رہے تھے۔ پھر اس وقت جیسا وعدہ الٰہی نے کرشمہ دکھایا اور جیسی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود قلت سامان مسلمانوں کی فتح ہوئی اسی طرح آخرت کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ وعدہ پورا کرے گا۔ سنو ! اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بزبان رسول تم سے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک پر تم کو ضروری ہی غلبہ ہوگا یعنی قافلہ پر یا جنگی جماعت پر جو مکہ سے تمہاری لڑائی کو آئے تھے اور تم چاہتے تھے کہ کمزور جماعت یعنی قافلہ پر تم کو غلبہ ہو اور تمہارے ہاتھ آئے دوسرا صف اور اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ جنگی جماعت کی بیخ کنی سے آئندہ کو تمہاری راہ سے کانٹے اٹھاتے اور اپنے حکم سے دین حق کو مضبوط کرے اور کافروں کی جڑکاٹ دے تاکہ حق کی تقویت کرے اور باطل کی بنیاد اکھاڑے اور ہمیشہ کے لئے کفر مغلوب ہو گو کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے اور اپنی بے سر و سامانی کو دیکھ کر محض اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے دعائوں میں مشغول تھے تو اس نے تمہاری سنی اور وعدہ فرمایا کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے جو پے در پے تمہارے پاس پہنچیں گے مدد دوں گا اور حقیقت میں یہ فرشتوں کی امداد کا تذکرہ صرف تمہاری خوشی اور تسکین خاطر کے لئے تھا ورنہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے ورنہ اصل مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے وہ جس کو چاہے فتح دے اور جسے چاہے شکست تھوڑی جماعت کو بہتوں پر غالب کرے اور بہتوں کو تھوڑوں سے ذلیل کرائے کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے جو کام کرنا چاہتا ہے ایسی حکمت سے اس کے اسباب مہیا کردیتا ہے کہ کسی کو خبر تک بھی نہیں ہوتی کیا تم نے نہیں سنا ہست سلطانی مسلم مرد را نیست کس را زہرہ چون و چرا وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب تمہارے آرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تم پر اونگھ ڈالی تھی اور اوپر کی جانب سے تم پر پانی اتارا تھا کہ تم کو پاک کرے اور شیطانی نجاست جو جنابت وغیرہ سے تم کو لاحق ہو رہی تھی تم سے دور کرے یعنی تم غسل کرو اور پاک و صاف ہوجائو اور گرمی کی گھبراہٹ دور کر کے تمہارے دلوں کو تسکین دے اور تمہارے قدم مضبوط کرے خاص کر وہ وقت قابل ذکر ہے جب تیرا پروردگار یعنی رب العالمین فرشتوں کو الہام اور حکم کر رہا تھا کہ مومنوں کی مدد کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی میری مدد اور نصرت تمہارے ساتھ ہے پس تم مومنوں کو اپنی تاثیر صحبت سے ثابت قدم رکھو میں کافروں کے دلوں پر مومنوں کی دہشت اور رعب ڈالوں گا۔ پس تم مومونوں کو تاثیر صحبت سے مضبوط رکھو اور اگر موقعہ پڑے تو کافروں کی گردنیں اور جوڑ پورا اڑا دو کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول کی مخالفت دانستہ اختیار کر رکھی ہے اور یہ عام قانون ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے وہ اپنا ہی کچھ کھوتا ہے کیونکہ ایسے کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا سخت ہے جب عذاب آئے گا تو ان کو کہا جائے گا پس لو اسے چکھو اور یقین رکھو کہ کافروں کے لئے آگ کا عذاب بروز قیامت تیار ہے۔ مسلمانو ! چونکہ یہ لڑائی بھڑائی کا جھگڑا تم میں ہمیشہ کو جاری ہوگیا ہے کسی نہ کسی ملک میں اس کا ظہور ہوتا رہے گا۔ پس جب تم جنگ کے وقت کافروں سے بھیڑ میں ملو یعنی مٹھ بھیڑ ان سے ہوجائے تو ان سے پیٹھ مت پھیرنا بلکہ خوب مضبوط ہو کر لڑنا۔ کیونکہ تمہارا مرنا جینے سے اچھا ہے پس تم پیٹھ کیوں دینے لگے اور بھاگنے کیوں لگے۔ جو کوئی بغیر ضرورت تدبیر جنگ کے یا بلانیت اپنی جماعت میں ملنے کے میدان جنگ میں پیٹھ دے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا اور ٹھکانہ اس کا جہنم میں ہوگا اور وہ جہنم بہت ہی بری جگہ ہے یعنی اگر بصنعت جنگ کسی تدبیر سے پیٹھ دے کر دشمنوں کو مثلاً قلعوں سے نکال کر میدان میں لانا منظور ہو یا کسی ایسے موقعہ پر کہ اپنی کمک دور ہے اور میدان جنگ سے پھر کر اپنی کمک کے ساتھ مل کر لڑنا منظور ہو تو ایسے لوگ ان پیٹھ دینے والوں میں سے نہیں پس جب کہ سب فتح اور نصرت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے تو سچ سمجھو کہ میدان جنگ میں تم نے ان کو قتل نہیں کیا کیونکہ تم اس روز تھے ہی کیا تمہارے پاس سامان ہی کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا یعنی تمہارا خوف ان کے دلوں میں ایسا ڈالا کہ باوجود ایسے بہادر اور شاہ زور ہونے کے ان کو بغیر بھاگنے کے کچھ نہ سوجھی اور (اے رسول جب تو نے کنکریوں کی مٹھی بھر کر کافروں کی طرف چلائی تھی اور وہ تمام کی آنکھوں میں پڑگئی تھی جس سے وہ آنکھیں بند کر کے میدان سے بھاگتے وہ تو نے نہیں پہنچائی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پہنچائی ہے کیونکہ ان کنکریوں کا ان کی آنکھوں میں پہنچانا تیری قدرت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور تھا۔ کیا تم نے کسی اہل دل کا قول نہیں سنا کار زلف قست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اصل مطلب اس سے یہ تھا کہ کافروں کو شکست ہو تاکہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مہربانی کرے اور فتح نصیب ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کے حالات جانتا ہے مسلمانوں پر کفار کے مظالم بکثرت ہوچکے ہیں اب ان کی انتہا کا وقت آگیا ہے بات تو یہ ہے جو ہوچکی اس پر غور کرو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ کیسا دکھایا اور دل سے جانو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی تدبیریں مومنوں کے مقابل چلنے نہ دے گا بشرطیکہ مومن اپنے ایمان میں پختہ ہوں گے۔ مکہ والو ! اگر تم فتح چاہتے تھے یعنی اپنے جی میں یہ خیال جمائے ہوئے تھے کہ اگر یہ نبی ہم پر غالب آیا تو سچا ہے کیونکہ تم نے سمجھا ہوا تھا کہ ہم کعبہ شریف کے مجاور ہیں کوئی جھوٹا آدمی جس کا دین اور طریق اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوگا ہم پر غالب نہ آئے گا تو لو اب تو فتح بھی تم نے دیکھ لی کہ مسلمان کس بے سر و سامانی میں محض اللہ تعالیٰ کی تائید سے تم پر غالب آئے اور اگر اب بھی تم مخالفت سے باز آئو تو تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور اگر تم نے شرارت سے وہی کام کیا جو پہلے کرچکے ہو تو ہم بھی وہی عذاب کریں گے جو پہلے کرچکے تمہارا سر کچلیں گے اور یاد رکھو تمہاری جمعیت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ہرگز تمہارے کام نہ آوے گی اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد مومنوں کے ساتھ ہے ہاں یہ ضرور یہ ہے کہ مسلمان مسلمان ہوں یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں کے فرمانبردار پس مسلمان ! اگر اللہ تعالیٰ کی مدد کا سہارا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ تم کو حکم دے یا جو کچھ رسول تم کو سکھائے اسی پر جم جائو اور اس سے منہ نہ پھیرو حالانکہ تم سنتے ہو کہ کافروں کی گت اور ذلت صرف اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں سے سرتابی کرتے ہیں پس تم نے اس میں کسی طرح غفلت نہ کرنا اور جو لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے کلام الٰہی سنا حالانکہ وہ دل لگا کر نہیں سنتے تم نے ان جیسے نہ ہونا یعنی صرف زبانی لفاظی بلا عمل کرنے والے جن کے حق میں کسی بزرگ نے کہا ہے ایں مدعیان در طلبش بے خبر انند کا نرانکہ خبر شد خبرش باز آمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ رتبہ نہیں رکھتے بلکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل سے بہرے اور گونگے ہو کر اصل مطلب سے بے سمجھ ہو رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب جانداروں اور حیوانوں سے یعنی کتوں اور سوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوانوں کو جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ اس کو پورا کر رہے ہیں مگر یہ حضرت انسان اپنے فرائض سے غافل ہیں پس اپنی غفلت کا نتیجہ پائیں گے اور اب ان کی یہ حالت ہے کہ فطرت سے جو قابلیت اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کی تھی یہ کم بخت اس کو بھی کھو بیٹھے ہیں یعنی وہ ان میں ایسے مغلوب ہے کہ کان لم یکن اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کچھ قابلیت پاتا تو ضرور ان کو تیرا کلام سناتا یعنی وعظ و نصیحت سے ان کو فائدہ ہوتا اور اگر اس حال میں ان کو سناتا ہے یعنی ان کے کانوں میں آواز پہنچاتا ہے تو فوراً منہ پھیر جاتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے کہ کس کی آواز ہے؟ اور کون سمجھاتا ہے؟ کیونکہ یہ لوگ تکبر اور گردن کشی میں ایسے عادی ہو رہے ہیں کہ گویا وہ طبعاً حق سے منہ پھیرنے والے ہیں مسلمانو ! ایسے لوگوں سے پرہیز کرو اور اللہ تعالیٰ کے حکم مانو اور رسول کی اطاعت کرو جب وہ تم کو تمہاری روحانی زندگی کے لئے پکارے یعنی مذہبی امور اور شرعی احکام میں تم پر رسول کی اطاعت واجب ہے دنیاوی امور میں اگر وہ تم کو بطور مشورہ کچھ کہے تو تمہارا اختیار ہے اور اس بات کو خوب جان رکھو کہ بے فرمانی کرنے پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل پر پردہ ہوجاتا ہے اور اس کو مفید امور کی سمجھ نہیں دیتا یہی وہ پردہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ختم اللہ تعالیٰ علی قلوبھم کہتے ہیں۔ پس تم خود بھی نیک عمل کیا کرو اور لوگوں کو بھی نیکی پر ترغیب دیتے رہو کیونکہ بدکاری پھیلنے پر گناہ کرنے والوں اور خاموش رہنے والوں دونوں پر عذاب آتا ہے پس تم خاموش نہ رہو اور اس عذاب سے جو بالخصوص تم میں سے ظالموں کو نہیں بلکہ سب کو پہنچے گا یعنی خاموشی کرنے والے بھی آلودہ عذاب ہوں گے۔ اس عذاب سے ڈرتے رہو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت ہی سخت ہے کسی کو اس کی برداشت کی ہمت نہیں اور اگر یہ خیال ہو کہ بسا اوقات مجرموں کی کثرت ہوتی ہے تو اس وقت ان کو سمجھانا بالکل ضائع اور بے فائدہ ہے تو اس وقت کو یاد کرو جب تم تمام ملک میں بہت ہی قلیل اور ساتھ ہی اس کے ایسے کمزور تھے کہ تمہیں ہر وقت خوف رہتا تھا کہ لوگ تم کو پیس نہ ڈالیں پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو مدینہ میں جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو قوت عنایت کی اور پاکیزہ اور حلال رزق تم کو دیا۔ پھر تم رفتہ رفتہ اس کثرت پر پہنچے کس طرح پہنچے؟ زبانی سمجھنے سے اس طرح تم بھی لوگوں کو اگر کامل اخلاص سے سمجھاتے رہو گے تو تمہارے سمجھانے میں بھی برکت ہوگی اور کسی نہ کسی وقت مجرم تمام نہیں تو بعض ضرور ہی تمہارے ساتھ ہوجائیں گے یہ اظہار اس لئے ہے کہ تم اس نعمت کا شکر کرو اور وعظ کرتے وقت اس بات کا خیال بھی نہ لائو کہ ہم منع کرنے والے تھوڑے ہیں اور مخالفت زیادہ کیونکہ تمہارا کام صرف کہہ دینا ہے اتنے کام کے لئے تھوڑے اور بہت میں کیا فرق ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ کہتے ہوئے نرم الفاظ اور مخاطب کی شان کے مناسب طریق سے کہو موقع پا کر بھی امر معروف نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول کی بے فرمانی ہے پس تم مسلمانو ! اللہ تعالیٰ اور رسول کی خیانت یعنی بے فرمانی سے بچتے رہنا اور آپس میں ایک دوسرے کے مال و اسباب کی دانستہ خیانت کبھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس کا نتیجہ بد ہے۔ دنیا میں بھی بدنامی اور خواری ہے بہت دفعہ انسان کو ایسے بدارادوں کے کرنے پر اولاد کی محبت اور ان کے لئے مال جمع کرنے کی فکر باعث ہوتی ہے سو تم اس کا خیال تک نہ کرو اور دل سے جان رکھو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے ہدایت سے روک ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنے پر اس کے ہاں بہت بڑا اجر ہے اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور تقویٰ شعاری میں دینی اور دنیاوی فائدے ہیں۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی بے فرمانی سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایک تمیز کا نشان کر دے گا۔ یعنی دنیا کی قومیں جان لیں گی کہ فلاں قوم نے اپنے رسول کی اطاعت میں یہ عزت پائی ہے یہ تم کو دنیاوی فائدہ ہوگا اور دینی فائدہ یہ ہوگا کہ تمہارے گناہ جو بتقضائے بشریت کبھی تم کر گذرو گے تم سے دور کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے اس کے فضل اور مہربانی کا تقاضا ہے کہ تم آج تک باوجود کفار کی ایسی شرارتوں اور اذیتوں کے زندہ سلامت رہے ہو اپنے سابقہ واقعات پر غور کرو اور بالخصوص تو اے رسول اس وقت کو یاد کر جب کافر تیرے حق میں خفیہ خفیہ تدبیریں کر رہے تھے کہ تیرے معاملہ میں کیا کریں تجھے قید کرلیں۔ تاکہ دوسرے ملکوں میں جا کر جمعیت بہم پہنچا کر ان پر تو حملہ آور نہ ہو یا تجھے سرے سے قتل ہی کر ڈالیں کہ ہمیشہ کے خطرات سے پاک ہوجائیں کیونکہ قید کرنے میں بھی تیری تاثیر کلام۔ کا ان کو اندیشہ اور بنی ہاشم کا خوف تھا یا تجھے مکہ سے جلاوطن کردیں مگر اس صورت میں بھی ان کو اندیشہ تھا کہ جہاں تو جائے گا تیرے ساتھ لوگ ہوجائیں گے اور کسی نہ کسی وقت ایک بڑی جمعیت سے تو ان پر حملہ کرے گا غرض بہت سے فکر و غور کے بعد انہوں نے درمیانی صورت اختیار کی چنانچہ انہوں نے تیرے سوتے وقت تیرے مکان کو آگھیرا اور خفیہ تدابیر تیرے پکڑنے کو کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی آنکھوں سے پوشیدہ جیسا اس کا دستور ہے کام کر رہا تھا آخر اللہ تعالیٰ ہی کا حکم غالب آیا ان سب کو نیچا دیکھنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو سب میں سے زندہ سلامت باکرامت بچا کرلے گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور حکم سب پر غالب ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھا تدبیر کرنے والا ہے کیونکہ اس کی تدبیر کچھ سوچنے سے متعلق نہیں ہوتی کہ اس میں غلطی کا احتمال ہو بلکہ اس کی تدبیر کے تو بس یہ معنی ہیں کہ انسان پر جب تک بلا نازل نہیں ہوجاتی اس کو خبر تک نہیں ہوتی چنانچہ مشہور ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی لکڑی میں آواز نہیں“ اس پر بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے اور باور نہیں کرتے بلکہ جب کبھی ہماری آیات ان کو سنائی جاتی ہیں تو منکر بجائے تسلیم کرنے کے الٹے کہتے ہیں میاں ہم نے تمہاری آیات سن لیں۔ اگر ہم چاہتے تو ایسے کلام مدت سے بنا لیتے اس میں رکھا ہی کیا ہے یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ان کی بے وقوفی معلوم کرنی چاہو تو اس وقت کو یاد کرو جب ان شورہ پشت کافروں نے عناد اور ضد میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ! ! اگر یہ قرآن سچ مچ تیرے پاس سے ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دکھ کی مار ڈال دے۔ (شان نزول (واذ قالوا اللھم) مشرکین عرب جب گذشتہ لوگوں کے حالات سنتے کہ انبیاء کی تکذیب پر ان کی کیا کیا گت ہوئی تو ظالم بجائے ڈرنے کے الٹے اکڑتے اور یہ دعا کرتے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ١٢ منہ) کم بختوں نے یہ نہ کہا کہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں ہدایت کر جو قاعدہ کہنے کا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو بھی کیا جلدی تھی کہ ان کو فوراً پکڑ لیتا اور خصوصاً جب کہ اس کی رحمت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جس حال میں تو اے رسول ان میں تھا اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرتا نیز جس حال میں یہ اپنے گناہوں پر بخشش مانگتے ہوتے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرتا اس موجودہ صورت میں گو دوسرا مانع متحقق نہیں کیونکہ بجائے استغفار کے یہ لوگ الٹے اکڑتے ہیں اور جو مانگتے بھی ہیں وہ بھی بحکم ان الذین کفروا واعمالھم کرماد ہیچ ہے اور اگر یہ خود بھی غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے کہ صرف تیری موجودگی کا اثر ہے کہ ان پر عذاب نازل نہیں ہوتا۔ بھلا ان کا کیا عذر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرے حالانکہ وہ ایسے بڑے ظلم کے مرتکب ہوتے تھے کہ کعبہ شریف کی محترم اور بابرکت مسجد سے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ خود اس مسجد کے قابل اور اہل نہیں کیونکہ اس کے بانی حضرت ابراہیم کی وصیت اور ہدایت سے خلاف چل رہے ہیں اور جس کام (توحید) کے لئے حضرت موصوف نے یہ مسجد بنائی تھی وہ ان میں مفقود ہے حقیقت میں اس مسجد کے اہل تو متقی اور شرک و کفر سے بچنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ ابراہیمی ( علیہ السلام) وصیت کے مطابق یہ مسجد انہی لوگوں کے لئے ہے جو صرف اکیلے اللہ تعالیٰ کی اس میں عبادت کریں لیکن بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور ان کا تو یہ حال ہے کہ شرک و کفر بت پرستی کے علاوہ ان کافروں کے عمل ضائع ہیں کی خالص عبادت بھی صرف سیٹیاں اور تالیاں ہی ہوتی ہے جیسے ہندوستان کے ہندوئوں کی عبادت باجے گاجے وغیرہ لواب تو یہ پیغمبر مکہ چھوڑ کر مدینہ میں نکل آئے ہیں پس اپنی بدکرداری اور کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور اپنا سر کھائو۔ مسلمانو ! کافر لوگ جس کوشش میں ہیں ان سے سبق حاصل کرو دیکھو یہ لوگ کس طرح ان تھک کوشش کر رہے ہیں کہاں امریکہ اور کہاں انگلینڈ وغیرہ اتنے دور دراز ملکوں سے پادریوں کو بھیجتے ہیں اور مال صرف اس لئے خرچتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ اسلام اور توحید سے روکیں اور کفر اور تثلیث پرستی میں پھنسا دیں اور اسی دھن میں ہمیشہ خرچتے رہیں گے آخر ناکام ہوں گے اور وہ مال ان پر حسرت کا سبب ہوگا کہ ہائے ہم نے کیوں ضائع کیا پھر آخر کار مغلوب ہوجائیں گے ایسے کہ ان کا نام لیوا بھی عرب میں کوئی نہ ملے گا اور سب سے اخیر یہ فیصلہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ سے انکار کرنے والے کافر جہنم میں جمع کئے جائیں گے جس سے مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں تو نیک و بد کی تمیز نہ ہوئی اس وقت ان کو جہنم میں ڈالے گا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے سے الگ کرے اور ناپاک بدباطن لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ایک جگہ ڈھیر لگا دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے کیونکہ یہی لوگ سخت خسارہ اٹھانے والے ہیں اور ایسے لوگوں کا یہی انجام ہے (اس زمانہ میں آریوں نے جو شدھی کی تحریک جاری کی ہے جس پر ملک میں بڑے بڑے فساد ہوئے جس پر آریوں کو بڑا ناز ہے کہ ہم تو مسلمانوں کو مرتد کرنے میں کامیاب ہوں گے اس آیت میں اس شدھی کی اور اس کے انجام کی بابت بڑی زبردست پیشگوئی ہے جس کی تفصیل یوں ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں کافروں کے مال خرچ کرنے کا ذکر ہے کہ اس غرض سے خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکیں۔ آریوں کی شدھی یقینا نمبر دوم میں داخل ہے اس لئے اس کے نتیجے بھی وہی ہوں گے جو کلام پاک میں مذکور ہیں یعنی خرچ کئے ہوئے اموال پر افسوس اور آخر کار مقابلے میں مغلوبی انشاء اللہ تعالیٰ تعالیٰ۔ سماجی دوستو ! ہم خاک نشینوں کا ستانا نہیں اچھا ہل جائیں گے افلاک جو فریاد کریں گے منہ) اب بھی تو کافروں سے کہہ دے اگر کفر سے باز آجائیں تو ان کے پہلے گناہ سب معاف کئے جائیں گے اور اگر انہوں نے پھر سر اٹھایا اور شرارت کی سوجھی تو پہلے کافروں کے واقعات گذر چکے ہیں۔ ان پر غور کریں جو ان کا انجام ہوا ان کا بھی ہوگا۔ مسلمانو ! تم ان مشرکوں کی ذرہ بھر پروا نہ کرو کیا کہتے ہیں کہتے رہیں تم اپنی کوشش میں لگے رہو اور اگر ان سے لڑائی کی ٹھن جائے تو خوب لڑو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا نام نہ رہے اور جیسا دستور ہے فاتح قوم کا بول بالا ہوتا ہے سب قانون ملکی دیوانی و فوجداری اللہ تعالیٰ کی کتاب کا رائج ہو اور تمام انتظام اسی کے مطابق ہو جو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے پھر دیکھیں کیسی سرسبزی اور شادابی ہوتی ہے پھر بعد مغلوب ہونے اور قانون الٰہی رائج ہونے کے بھی اگر یہ لوگ شرارت اور خباثت سے باز آجائیں تو ان سے ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھتا ہے انہی کے مطابق جزا دے گا تم نے ان کو کچھ نہ کہنا بلکہ اگر وہ کفر و شرک اور اپنی مذہبی رسوم ہی پر رہنا چاہیں لیکن ذمی اور ماتحت رعایا ہو کر رہیں تو رہنے دینا تم کو جائز نہیں کہ ایسے وقت میں ان پر دست درازی کرنے لگو۔ اور اگر وہ سرتابی اور سرکشی کریں گے اور بغاوت پھیلائیں گے تو تم جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے وہ بہت ہی اچھا مولا اور بہت ہی اچھا حمایتی ہے اس کے ہوتے ہوئے تم کو کس کی ضرورت ہے وہ تم کو ہمیشہ فتح و نصرت دے گا اور مال غنیمت سے مالا مال کرے گا۔ پس تم اسی سے توقع کئے رہو الانفال
2 الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 الانفال
6 الانفال
7 الانفال
8 الانفال
9 الانفال
10 الانفال
11 الانفال
12 الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 الانفال
16 الانفال
17 الانفال
18 الانفال
19 الانفال
20 الانفال
21 الانفال
22 الانفال
23 الانفال
24 الانفال
25 الانفال
26 الانفال
27 الانفال
28 الانفال
29 الانفال
30 الانفال
31 الانفال
32 الانفال
33 الانفال
34 الانفال
35 الانفال
36 الانفال
37 الانفال
38 الانفال
39 الانفال
40 الانفال
41 (41۔64) اور جان رکھو کہ جو کچھ تم نے مال غنیمت حاصل کیا ہو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول اور رسول کے قرابت داروں اور عام یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت کا سرکاری خزانہ میں داخل ہوگا۔ جس کو پیغمبر صاحب یا حاکم وقت اس طرح تقسیم کریں گے کہ کچھ حسب ضرورت اپنا حصہ نکالیں گے اور باقی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں اور عام یتیم اور مسکین مسافر دعا گووں کو دیں گے باقی چار حصے لشکریوں میں تقسیم ہوں گے اللہ تعالیٰ کا حصہ الگ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تقسیم کرنا ہی اس کا حصہ ہے اگر تم کو اللہ تعالیٰ پر اور اس کی امداد غیبی پر جو جنگ کے فیصلہ کے دن جس روز دونوں جماعتوں کافروں اور مومنوں کی مٹھ بھیڑ ہوئی تھی اس نے اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تھی کامل ایمان ہے تو ایسا ہی کرو اور اس سے سر مو تفاوت نہ کرو اور دل میں یقینی جان رکھو کہ اگر تم اس کے حکموں کی تعمیل کرو گے تو ہمیشہ تمہاری ایسی ہی مدد کرتا رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے تمہیں اپنی کمزوری کا وہ وقت بھی یاد ہے جب تم میدان جنگ کے ورلے کنارہ پر تھے اور وہ یعنی کفار کی فوج پر لے سرے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور قافلہ جس کے تم دائو پر تھے تم دونوں سے نیچے کی جانب سے ہوتا ہوا بچ کر نکل گیا تھا اللہ تعالیٰ نے تمہاری کیسی مدد کی کہ ایسے قوی ہیکل باسامان دشمن پر تم کو فتح دی اور اگر تم آپس میں معاہدہ کرتے کہ فلاں وقت لڑیں گے تو ضرور وعدہ خلافی کردیتے اور ان کے خوف کے مارے میدان میں نہ پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ناگہان ایک دوسرے کے سامنے لا کر جمع کردیا تاکہ جو کام اس کے علم میں ہوچکا تھا اس کا فیصلہ کر دے یعنی تمہاری ان پر فتح ہو تاکہ جو کوئی دلیل دیکھنے کے بعد گمراہی پر اڑا رہا وہ گمراہی ہی میں تباہ اور برباد ہو تاکہ اپنے کئے کی سزا پائے اور جو دلیل سے زندہ ہوا یعنی جو اس الہام فتح سے ہدایت یاب ہو وہ زندگی پاوے یعنی صحابہ کرام جو اسلامی حجت دیکھ کر صدق دل سے شیدا ہو رہے ہیں ان کا نور ایمانی اور زیادہ ہو اور جو باوجود حجج قاطعہ دیکھنے کے کفر پر اڑے رہے ہیں وہ خستہ حال ہوں اور اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کے احوال جانتا ہے اصل فتح کی امیدجب ہی سے پڑگئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے خواب میں تجھے ان کی فوج تھوڑی دکھائی جس سے تمہاری جرأت ان پر زیادہ ہوئی اور اگر وہ تجھ کو تعداد میں بہت دکھاتا تو تم مسلمان مارے خوف کے پھسل جاتے اور جنگی کام کے متعلق جھگڑتے کہ ان سے لڑیں یا کسی حیلہ بہانہ سے بھاگ جائیں مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو ثابت قدم رکھا کیونکہ وہ دلوں کے حال پر مطلع ہے تمہارا اخلاص اور دلی محبت بیشک اسی امر کے مقتضی تھے کہ تم پر یہ مہربانی ہو اور یہ فتح اس تدبیر الٰہی کا نتیجہ ہے کہ جب تم دونوں گروہ آپس میں ملے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری نگاہ میں ان کو کم کر کے دکھایا اور تم کو ان کی نگاہ میں تھوڑے تاکہ جو کام اس کے علم میں ہوچکا ہے اس کا فیصلہ کر دے اور اگر غور سے دیکھو تو سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف پھرتے ہیں وہی ان سب گاڑیوں کا انجن ہے وہی سب کائنات کی علۃ العلل ہے جس کو جس طرح چاہے رکھے جو چاہے کرے لیکن اس کا چاہنا بے سبب اور بلاوجہ نہیں ہوا کرتا۔ ظاہری اسباب اور تدابیر کو بھی کامیابی میں اسی نے دخل رکھا ہوا ہے پس تم مسلمانو ! اس امر کو خوب یاد رکھو کہ جب کبھی تمہاری کسی مخالف جماعت سے مٹھ بھیڑ ہوجائے تو جم کر لڑا کرو اور فتح و نصرت اللہ تعالیٰ سے سمجھ کر اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کی اطاعت کرتے رہو اور بہت بڑی بات کامیابی کی یہ ہے کہ آپس میں بے جا تنازع نہ کیا کرو جن سے باہمی ناچاقی تک نوبت پہنچے ورنہ تم پھسل جائو گے اور جس کام کرنے کا ارادہ کئے ہو اس میں ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی یعنی تمہارا رعب جاتا رہے گا اور غیروں کی نظروں میں ذلیل ہوجائو گے پس ان نقصانات کو سوچ لو اور تکلیفوں پر صبر کیا کرو ایسی بھی بزدلی کیا ہے کہ ذرہ سی بات پر واویلا کرنے اور چلانے لگ جایا کرتے ہو یقینا سمجھو کہ اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے ہاں یہ بات ضرور ہی قابل لحاظ ہے کہ فتح اور دشمنوں کی شکست کو اپنے قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھنے لگو ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ اور جو لوگ اپنے گھروں سے شیخی بھگارتے ہوئے اور لوگوں کو اپنا جاہ و جلال دکھاتے ہوئے نکلے تھے اور اللہ کی راہ (اسلام) سے لوگوں کو جبراً روکتے تھے تم ان کی طرح کے نہ ہونا نہ اکڑ فون کرنا نہ اپنے اعمال میں رہا اور مخلوق کی واہ واہ کی کبھی نیت کرنا اور نہ نتجہ جیسا انہوں نے مکہ سے نکل کر پایا تم بھی پائو گے کیا تم نے سنا نہیں حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے اور دل سے جان رکھ کہ جو کچھ بھی دنیا کے لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے گھیرے میں ہے کہیں جا نہیں سکتے وہ سب کو جانتا ہے اور سب کو مناسب جزا و سزا دیتا ہے اور دے گا اور سنو ! ہم تمہیں اس وقت کی بھی اطلاع دیتے ہیں جب شیطان نے ان مشرکوں کے بداعمال یعنی بے وجہ تعلی نخوت اور غرور اور لاف زنیاں وغیرہ ان کی نظروں میں عمدہ کر دکھائے اور کہا اور دل میں مضبوطی سے جما دیا کہ آج کوئی آدمی بھی تم پر غالب نہ آئے گا اور عرب کے ایک معزز رئیس کی شکل میں آ کر یہ بھی کہا کہ میں تمہارا حمائتی ہوں جی کھول کر لڑو اگر مدد کی ضرورت ہوئی تو میں دوں گا۔ تم نے کسی طرح سے فکر نہ کرنا پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو الٹے پائوں پھرتا ہوا کہتا گیا کہ میں تم لوگوں سے بیزار ہوں کیونکہ ایسی چیز یعنی آسمانی مدد دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ایسی بے امیدی کے وقت میں اپنے آپ کو عذاب میں پھنسانا نہیں چاہتا اور میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب منافق یعنی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور دورخہ رہنے کے عادی ہیں مسلمانوں کی تحقیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ لوگ مذہب سے ایسے فریب خوردہ ہیں کہ اپنی بے سر و سامانی کو ذرہ بھی نہیں دیکھتے اور نہ سوچتے ہیں کہ ہمارا حشر کیا ہوگا اور ہم کیا کر رہے ہیں اور یہ ان نالائقوں کو خبر نہیں تھی کہ جو کوئی اللہ پر کامل بھروسہ کرے وہ کامیاب ہی ہوا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے یہ تو ایک گذشتہ واقعہ ہے اور اگر تو اس وقت کافروں کو دیکھے (تو عجیب کیفیت دیکھے) جس وقت موت کے فرشتے کافروں کی روحیں آگے پیچھے (لاتیں) مارتے ہوئے قبض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہنم کا عذاب چکھو یہ مت سمجھو کہ یہ تیر ظلم ہے بلکہ یہ عذاب تمہارے ہی کاموں کا عوض ہے اور دل سے جان لو کہ اللہ اپنے بندوں پر ذرہ بھی ظلم نہیں کرتا ان مکہ کے مشرکوں کی حالت بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کی سی ہے وجہ شبہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے احکام سے انکار کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو خوب پکڑا اسی طرح ان سے ہوا اور جو کسر ہے وہ بھی نکل جائے گی بے شک اللہ تعالیٰ بڑا زبردست طاقتور سخت عذاب والا ہے اس کا عذاب برداشت کرنے کی کس کو سکت ہے یہ گت ان کی اس لئے ہوئی کہ اللہ کی جناب میں یہ قاعدہ ہے کہ جو نعمت وہ کسی قوم پر انعام کرتا ہے کبھی نہیں بدلا کرتا جب تک وہ اپنے اعمال اور اخلاق خود نہ بدلیں اور اس نعمت کی قابلیت نہ کھوویں اور اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے کسی کے جتلانے یا رپورٹ کرنے کرانے کی اسے حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مکہ کے مشرکوں پر یہ نعمت انعام کی تھی کہ ان میں رسول پیدا کیا لیکن چونکہ انہوں نے اس کی ناقدری کی اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی گت بنائی کہ کسی کی نہ بنے اور یہ نعمت ان سے چھین کر مدینہ والوں کو عنایت کی اور وہ اس خدمت پر مامور ہوئے جس کو انہوں نے پورا کیا پس ان مشرکوں کی مثال بالکل فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کی سی ہوئی جن کی طرف رسول آئے اور حضرت موسیٰ مثیل محمد ( علیہ السلام) تشریف لائے مگر انہوں نے اپنے پروردگار کے حکموں کی تکذیب کی تو ہم (اللہ) نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو تباہ کر ڈالا اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا اور وہ سارے کے سارے ہی ظالم اور بدمعاش تھے۔ ایسے بدکار ظالم چاہے دنیا میں کیسے ہی معزز اور شریف کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کچھ عزت نہیں کیونکہ جو لوگ کفر پر جمے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے وہ اللہ کے نزدیک درندوں اور جنگلی جانوروں غرض سب حیوانات سے بدتر ہیں ان کی کوئی عزت اور وقعت اللہ تعالیٰ کی جناب میں نہیں کیونکہ وہاں بغیر عملوں کے عزت نہیں اسی لئے تجھ سے کہا جاتا ہے کہ جن کافروں سے تو نے عہد کئے ہیں اور وہ بار بار عہد شکنی کرتے ہیں اور کسی طرح بدعہدی سے پرہیز نہیں کرتے ذرہ ذرہ موقعوں پر فساد مچا دیتے ہیں اور دشمنوں سے مل جاتے ہیں تو ان کو یا ان کے دیگر ہم جنسوں کو لڑائی کے میدان میں پاوے تو ایسی ڈپٹ کیجئیو کہ ان کے ساتھ ہی ان سے پیچھے والوں کو جو بطور کمک ان کی آتے ہیں ان کو بھی متفرق کر دیجیو مارے خوف کے آگے نہ بڑھیں تاکہ آئندہ کو نصیحت پاویں اور عہد شکنی سے بچتے رہیں اور اگر تجھ کو کسی قوم سے خیانت اور بدعہدی معلوم ہو تو ان کو برابری کی صورت میں اطلاع دے دیا کر یعنی ایسے وقت میں ان کو نقص عہد کی خبر کرو کہ وہ اور تم مساوی انتظام کرسکو نہ ایسے وقت کہ خود تو سب انتظام جنگ کرلو پر ان کو خبر نہ ہو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی خیانت اور بزدلی ہے اور خائن اور دغا باز اللہ تعالیٰ کو نہیں بھاتے اور کافر جو عہد شکنی اور بدعہدی کرنے سے ڈرتے نہیں بلکہ اس کو ایک قسم کی پالیسی یا حکمت عملی جانتے ہیں ان کا خیال غلط ہے یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں ایسے کہ ہم ان کو پکڑنا چاہیں تو قابو نہ آئیں گے ہرگز نہیں وہ ہم کو عاجز نہ کرسکیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تم ان سے غافل نہ ہو اور صرف یہ سمجھ کر کہ ہم مسلمان ہیں ہماری مدد اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے تو خود ہی کرے گا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو بلکہ ان کے مقابلے کے لئے جس قدر طاقت رکھتے ہو سامان تیار رکھو تیر اندازی ہو یا گھوڑا سواری غرض جس قسم کی ورزش سپاہیانہ حسب مصالح ملکی کرسکو کرتے رہو کہ اس سے اللہ کے دین کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور ان ظاہری دشمنوں کے سوا اور دشمنوں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ ان کو جانتا ہے ان سب پر رعب ڈالتے رہو جس سے تمہاری ان پر دھاک بیٹھی رہے اور کسی طرح سے سر نہ اٹھائیں ایسی جنگی ضرورتیں چونکہ بدون مبلغات پوری ہونی مشکل ہیں اس لئے خوب جی کھول کر قومی چندہ کی ضرورت بھی پڑے تو خرچو اور سمجھو کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں قومی فائدہ اور اسلامی ترقی کے لئے خرچو گے تم کو پورا دیا جائے گا اور کسی طرح سے تم کو نقصان نہ ہوگا اور اگر عین جنگ کے موقعہ پر وہ مخالف صلح کو جھکیں تو تو بھی اسے قبول کر کے اس کی طرف مائل ہوجایا کر تاکہ ناحق کی خونریزی نہ ہو کیونکہ جنگ و جدل بھی تو اسی لئے ہیں کہ یہ لوگ فساد کرتے ہیں پھر جب یہ فساد سے دست کش ہوں تو کیا ضرورت ہے پس تو صلح اختیار کر اور اصلی فتح یابی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھ کیونکہ وہ سب کی سنتا اور جانتا ہے اور اگر یہ صلح کے بہانے سے تجھ کو دھوکا دینا چاہیں گے تو نہ دے سکیں گے کیونکہ اللہ تجھ کو کافی ہے اسی نے محض اپنی مدد اور مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ قوت دی ہے ایک زمانہ تھا کہ ایک بھی تیرا ساتھی نہ تھا اب یہ وقت ہے کہ سب تیرے تابع دار ہیں اور اپنی ذاتی کدورتوں کو بھی خیرباد کہے بیٹھے ہیں کیونکہ اسی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی ہے جو تیری طاقت سے بالا تھی اس لئے اگر تو زمین کا کل مال بھی اس کوشش میں صرف کردیتا اور ان کو بطمع مال ایک دوسرے سے ملانا چاہتا تو بھی کبھی ان کے دلوں میں الفت پیدا کرسکتا لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں الفت ڈالی ہے بے شک وہ سب پر غالب اور بڑا باحکمت ہے جو کام وہ کرنا چاہے کیا مجال کہ کوئی امر اسے مانع ہوسکے اس لئے تجھ سے پکار کر کہا جاتا ہے کہ اے نبی تجھے اور تیرے تابع دار مومنوں کو اللہ ہی کافی ہے اس کے ہوتے کسی کی کیا حاجت ” وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ سے “ الانفال
42 الانفال
43 الانفال
44 الانفال
45 الانفال
46 الانفال
47 الانفال
48 الانفال
49 الانفال
50 الانفال
51 الانفال
52 الانفال
53 الانفال
54 الانفال
55 الانفال
56 الانفال
57 الانفال
58 الانفال
59 الانفال
60 الانفال
61 الانفال
62 الانفال
63 الانفال
64 الانفال
65 (65۔75) پس تو اے نبی اسی کا ہو رہ اور ہر ایک کام کی انجام دہی اسی سے جان اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دیا کر۔ رسول کا کام صرف کہنا ہے ماننا نہ ماننا تم مسلمانوں کا اختیارہے ہاں رسول کی فرمانبرداری میں اللہ کی مہربانی تم پر یہ ہوگی کہ اگر بیس آدمی تم میں صبر کرنے والے ڈٹ کر لڑنے والے موت کو زیست پر ترجیح سمجھنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آویں گے اور اگر ایک سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غلبہ پاویں گے کیونکہ یہ کافر سمجھتے نہیں کہ ہم کیوں لڑتے ہیں ہمارا انجام اور مقصود اس سے کیا ہے صرف حمیت اور جہالت قومی میں لڑ رہے ہیں مگر چونکہ ایسے حکم کی تعمیل کے لئے تم میں بھی بہت بڑا حوصلہ اور صبر چاہیے جو مشکل ہے اس لئے اب سردست اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی سخت تکلیف نہیں دی بلکہ ہلکا سا حکم دیا ہے کیونکہ یہ شرط تم میں مفقود ہے اور تمہارا ضعف اسے معلوم ہے کہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کرسکتا بس یہ ضرور ہے کہ دگنے کافروں سے نہ بھاگا کرو بشرطیکہ سازو سامان میں بھی تم ان سے مساوی ہو پس اگر تم میں سو آدمی ڈٹ کر لڑنے والے ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پائیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے کیونکہ اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسی مذہبی لڑائیوں میں جہاں تک ہوسکے دشمنوں کی گردنیں اڑائی جائیں تاکہ فتنہ و فساد نہ رہے اسی لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ قانون ہے کہ کسی بنی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابعدار سپاہ سالار کو جائز نہیں کہ میدان جنگ کی زمین پر کافروں کا اچھی طرح خون بہانے سے پہلے دشمنوں کو قیدی بنائے تاکہ ان سے مال بعوض لیا جائے تم نے جو جنگ بدر میں قیدی پکڑے تھے وہ اس حیثیت کے نہ تھے تاہم تم نے ان سے فدیہ وصول کیا کیونکہ تم دنیاوی سامان چاہتے ہو گو تمہاری نیت نیک تھی لیکن اللہ آخرت چاہتا ہے وہ ان کاموں سے راضی ہے جن سے دین اسلام کی ترقی ہو پس دشمن جب تک کمزور ہو کر تمہارے ہاتھ میں نہ آئیں ان کو قتل کرتے رہو تاکہ ملک میں فتنہ و فسادنہ رہے اور دل سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے اسی کے ارادہ کا تم بھی اتباع کرو سچ تو یہ ہے کہ تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے خلاف مرضی ایسا کام کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام طور پر قانون جاری نہ ہوا ہوتا کہ بغیر تبلیغ حکم بے فرمانی کی سزا نہیں تو جو کچھ تم نے ان قیدیان بدر سے عوض اور فدیہ لیا ہے اس کے سبب سے تم کو بڑا عذاب پہنچتا۔ پس چونکہ تم کو معافی دی گئی ہے اس کو بھی مال غنیمت سمجھو اور حلال طیب کو جو تم نے غنیمت میں حاصل کیا ہے خوب مزے سے کھائو اور آئندہ کو ایسی غلطی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے نبی جو ہوا سو ہوا اب تو ان قیدیوں کو جو تمہارے قبضے میں ہیں کہہ دے کہ اگر اللہ کو تمہارے دلوں میں بھلائی معلوم ہوئی یعنی تم میں صلاحیت اسلام کی ہوئی اور تم مسلمان ہو کر اسی طرح کفار کے مقابلہ پر آئے تو جس قدر تم سے اس وقت عوض اور فدیہ لیا گیا ہے اس سے کہیں اچھا تم کو دے دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے جو اس کے ہوجاتے ہیں گو ان کی عمر کا بہت سا حصہ اس کے خلاف ہی گذرا ہوتا ہے تاہم وہ بخش دیتے ہیں اور اگر یہ قیدی تیری جنگی قید سے چھوٹ کر مخالفت کرنے کا خیال کریں گے تو کوئی حرج نہیں پہلے بھی اللہ کے دین سے مخالفت کرچکے ہیں جس کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں کہ اللہ نے تم کو باوجود بے سامانی کے ان پر قابو دیا ایسا کہ تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہوئے اگر سمجھ دار ہوئے تو سمجھ جائیں گے اور اگر ویسی ہی جہالت کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے اس کی تدبیریں ان کی تدبیروں سے کہیں عمدہ اور غالب ہیں پس مسلمانو ! تم اسی کے ہو رہو اور ان ناپاک بدباطن مشرکوں سے میل ملاپ مت رکھو اور اگر تم کو بھائی بندوں کی جدائی کا فراق ہو تو سنو کہ جو لوگ ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں بغرض حفاظت دین اپنے وطن چھوڑ آئے ہیں اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑتے ہیں اور جنہوں نے ان غریب الوطن مسافروں کو اپنے ہاں جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو کافر ہیں ان کا نام ہی کیا لینا بلکہ جو لوگ دین اسلام پر ایمان لائے ہیں لیکن انہوں نے اپنے وطنوں سے ہجرت نہیں کی تمہاری یعنی مسلمانوں کی ان سے بھی ذرہ رفاقت نہ ہونی چاہئے جب تک وہ ہجرت نہ کریں ایسا بھی نہ چاہئے کہ ان کو بالکل ہی چھوڑ دو نہیں بلکہ ان کو جہاں تک ہوسکے دارالکفر سے نکالنے کی کوشش کرو اور اگر دینی امور میں تم سے مدد چاہیں تو تمہیں ان کی مدد کرنی ضروری ہے مگر ایسی قوم کے مقابلہ پر نہیں جن کے ساتھ تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی کا ہو ایسے لوگوں سے ان کی بگڑے اور تم سے مدد چاہیں تو ان کے مقابلے میں ان کی مدد نہ کرنا ہاں ان کی مصالحت و دفع ضرر میں کوشش ضرور کیا کرنا اور سمجھ رکھو کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے جس نیت سے کرو گے اسی کے مطابق اجر پائو گے ایسے لوگوں کی مدد حتی المقدور کرنی چاہئے کیونکہ وہ مومن ہیں گو مہاجر نہیں اور کافر ایک دوسرے کے رفیق ہیں خواہ کسی ملک کا کافر ہو دوسرے ملک کے کافر کی حمایت کرنے کو کھڑا ہوجاتا ہے مسلمانوں کی مدد مسلمان نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا پس یاد رکھو اگر تم ان کی مدد کرو گے تو ملک میں ایک عظیم فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا جہاں کوئی مسلمانوں کی قوم کمزور ہوگی کفار ان کے تباہ کرنے میں ایک دل ہوجائیں گے کیا تم نے یورپ کی صلیبی لڑائیوں کے حالات نہیں سنے پس ان سے نتائج حاصل کرو اور یاد رکھو کہ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت بھی کر آئے اور اللہ کی راہ میں جہاد کئے اور جن کو مدینہ کے لوگوں نے اپنے ہاں جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی سچے مومن ہیں انہی کے واسطے بخشش ہے (جیسے صدیق اکبر اور فاروق اعظم۔ عثمان ذوالنورین۔ علی مرتضیٰ (رض) و ارضاھم وابغض من ابعضہم۔ ١٢ منہ) اور بہشت میں عزت کی روزی یہ تو ان سابق الایمان لوگوں کا ذکر ہے جو ابتدا میں مسلمان ہوئے اور جو اس سے پیچھے یعنی بعد پہنچ جانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ میں ایمان لائے اور ہجرت بھی کر آئے اور تمہارے ہمراہ ہو کر لڑے وہ بھی تم میں سے ہیں ان سے بھی وہی سلوک کرو جو قسم اول یعنی سابقین ایمانداروں سے کرنے کا تم کو حکم ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھو رشتہ دار غیروں کی نسبت ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے میں بہت قریب ہیں اللہ کی شریعت میں یعنی ایک مسلمان پختہ دیندار ہو اور اسی درجہ کا دوسرا ہو جو تمہارا رشتہ دار بھی ہے اور وہ دونوں محتاج ہوں اور تمہیں صرف ایک ہی سے احسان کرنے کی وسعت ہو تو رشتہ دار سے مقدم سلوک کرو بے شک اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے پس جو اس کے قانون میں وہ کامل علم پر مبنی ہیں انہی پر عمل کرو ادھر ادھر نہ بھٹکے پھرو مسلمانو ! جن مشرکوں سے تم نے امن کے وعدے کئے تھے اور وہ اپنے وعدہ پر پختہ تر ہے اللہ تعالیٰ اور رسول ان کی بدعہدی کی وجہ سے ان سے بیزار ہیں پس ان کو کہہ دو کہ چار مہینوں تک مکہ کی سر زمین پر پھر لو بعد اس کے کوچ اور یقینا جان رکھو کہ تم اللہ کو تنفیذ احکام میں عاجز نہیں کرسکتے اور کہ اللہ تعالیٰ کو ان کافروں کا رسوا کرنا منظور ہے اور حج اکبر یعنی عرفہ کے روز جس روز سب لوگ میدان عرفات میں جمع ہوں اللہ اور رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں اور اگر توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر روگدانی کرتے رہو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو تنفیذ احکام اور مواخذہ کرنے میں عاجز نہیں کرسکتے اور تو اے نبی کافروں کو۔ الانفال
66 الانفال
67 الانفال
68 الانفال
69 الانفال
70 الانفال
71 الانفال
72 الانفال
73 الانفال
74 الانفال
75 الانفال
1 (1۔16) (اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے حضرت عثمان (رض) سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس لئے یہاں بسم اللہ نہیں لکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے نہیں سنی تھی۔ ) شان نزول (برآءۃ من اللہ) مشرکین کی بدعہدی کی سزا دینے کو یہ آیت نازل ہوئی ہجرت کے نویں سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اس سورت کی تبلیغ کے لئے امیر الحج کر کے بھیجا تھوڑی دیر بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے بھیج دیا صدیق اکبر نے یہ سمجھ کر کہ شائد مجھے کسی خفگی کی وجہ سے معزول فرمایا ہے اس امر کی دریافت کرنے کو حضور نبوی میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ حضرت ! کیا میرے حق میں کوئی مخالف حکم نازل ہوا ہے (کہ مجھے معزول کردیا ہے) آپ نے فرمایا نہیں لیکن بات یہ ہے کہ ایسے پاغبم کا پہنچانا حسب دستور عرب میرے قریبی رشتہ داروں کا کام ہے آپ نے ابوبکر سے یہ بھی فرمایا کہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں یعنی ہمیشہ کے لئے بے فکر نہیں ہوتا کہ تو ہجرت کی رات غار میں میرا رفیق رہا اور حوض کو ثر پر بھی میرا ساتھی ہوگا ابوبکر (رض) نے عرض کیا ہاں حضرت میں بے شک راضی ہوں پس حضرت ابوبکر صدیق نے لوگوں کو خطبہ سنایا اور حج کے احکام بتلائے معالم۔ (صدیقوں سے عداوت رکھنے والے غور کریں۔ گل است سعدی و در چشم دشمناں خار است) درد ناک عذاب کی خبر سنا دے مگر یہ ساری سختیاں انہی لوگوں پر ہوں جنہوں نے بدعہدیاں کیں لیکن جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا اور انہوں نے اس میں کسی طرح سے کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ان کے وعدوں کو مدت مقررہ تک پورا کرو اور عہد شکنی سے پرہیز کرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے اور جب حرام کے مہینے گذر جائیں تو (مفسد) مشرکوں کو جن سے تمہارے عہد و پیمان نہیں اور چار مہینے کی مہلت بھی ( جن مہینوں میں کفار پر حملہ کرنا منع ہے یعنی ذیقعدہ۔ ذی الحج۔ محرم۔ رجب۔ ١٢) ان کو نہیں دی گئی ان کو جہاں پائو قتل کرو اور پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ان کے پکڑنے کو ہر گھاٹ میں بیٹھو غرض جس طرح قابو چلے ان کو مقہور کرو پھر اگر وہ شرارت سے باز آویں اور صلح کی طرف جھکیں اور امن کی خواہش کریں یا کفر سے توبہ کریں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور آزادی دے دو کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنہار مہربان ہے اور اگر کوئی مشرک یا کافر حالت جنگ میں بھی تم سے امن مانگے اور مسلمانوں کے ملک میں بغرض تجارت یا سیاحت آنا چاہے تو اس کو اس نیت سے پناہ دیا کرو کہ وہ مسلمانوں کے میل و ملاپ سے قرآن سنے پھر جب وہ جانا چاہے تو اس کے امن کی جگہ یعنی اس کے وطن اصلی میں اس کو پہنچا دیا کرو خبردار کوئی اس کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچا دے یہ حکم اس لئے ہے کہ وہ لوگ بے علم ہیں خود تو اس قدر علم نہیں رکھتے نہ شوق ہے کہ تحقیق کریں شائد سنے سنائے مسلمانوں کے میل جول ہی سے ان کو فائدہ ہو اصل پوچھو تو اللہ اور رسول کے نزدیک ان مشرکوں کے وعدوں کا کیونکر اعتبار ہو عہد شکنی میں سب ایک سے ہیں مگر خیر جن لوگوں سے تم نے مسجد الحرام کے پاس یعنی کعبہ کے میدان میں وعدہ کیا تھا جب تک وہ تم سے نباہیں تم بھی ان سے نبا ہو اور عہد شکنی سے پرہیز کرو اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے کیونکر ان مشرکوں کا اعتبار ہو جب کہ ان کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پائیں تو نہ تمہارے رشتہ کا لحاظ کریں اور نہ عہد و پیمان کا فوراً گزند رسانی میں سبقت کرتے ہیں یہ تو صرف منہ کی باتوں سے تم کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور دل میں اس صلح سے انکاری ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے مذہب سے سخت بیزار اور نیز بہت سے ان میں سے بدکار و بد عہد بھی ہیں ان کو پروا نہیں کہ بد عہدی کرنی بری چیز ہے ہر ایک مذہب میں مذموم سمجھی گئی ہے مگر ان کو نہ تو اپنے مذہب سے غرض ہے نہ اسلام سے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو دنیا کے چند پیسوں کی لالچ میں کھو کر لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ بہت ہی برے کام کرتے ہیں کیسے غضب کی بات ہے کہ مسلمان کے حق میں نہ تو ان کو رشتہ کا لحاظ ہے نہ وعدہ کی پابندی بے شک یہی زیادتی کرنے والے ہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں بخل نہیں بلکہ ہر ایک کے لئے در فیض کشادہ ہے پس اگر یہ لوگ بھی توبہ کر جائیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ان سے ویسے ہی ملو جیسے تم مسلمانوں سے ملتے ہو بالکل کسی طرح کا رنج یا کدورت نہ رکھو اور علم داروں کے لئے ہم اپنے احکام تفصیل سے بیان کرتے ہیں انہیں کو ان سے فائدہ ہوتا ہے اور اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنے وعدوں کو توڑ دیں اور ان شرائط کو جن پر مدار صلح ہے پورا نہ کریں مثلاً توہین انبیا یا مذمت اسلام نہ کرنے پر اگر صلح ہے تو اس کا لحاظ نہ کریں اور تمہارے دین اسلام پر لعن طعن شروع کریں نہ بطور تحقیق مذہب بلکہ بطور استہزار سوالات کریں اور ٹھٹھے اڑائیں تو سب سے پہلے کفر کے اماموں اور فساد کے سرغنوں کے لڑیو اب ان کا کوئی عہد قابل لحاظ نہ ہوگا بس اس وقت خوب مارو تاکہ اپنی شرارت سے باز آئیں مسلمانو ! تمہیں وعدہ کی پابندی تو ضروری ہے لیکن کیا تم ان لوگوں سے بھی نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنے وعدوں کو توڑ ڈالا اور اس سے پہلے تمہارے رسول کو وطن مالوف مکہ معظمہ سے نکالنے کا قصد کیا اور تم سے ابتدا بھی انہوں ہی نے کی تھی تم پھر بھی ان کو معاہد سمجھتے ہو یا کیا ان سے ڈرتے ہو اگر ڈرتے ہو تو بڑے بزدل ہو اللہ سے ڈرو تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے قبضہ اختیار میں سب کچھ ہے اگر ایماندار ہو تو ان سے نہ ڈرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان سے بدعہدوں سے خوب لڑو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے ان کو عذاب دے گا اور ان کو ذلیل کرے گا اور تم کو ان پر فتح دے گا اور مسلمانوں کے سینوں کو ان کے جوش سے ٹھنڈا کرے گا اور تم کو ان پر فتح دے گا اور مسلمانوں کے سینوں کو ان کے جوش سے ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں کا جوش جو کافروں کی بدعہدیوں سے بھرا ہوا ہے دور کر دے گا اور علاوہ اس کے جس پر چاہے گا رحم کرے گا یعنی جو توبہ کے قابل ہوگا اس کو توبہ کی توفیق دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کے حال کو جاننے والا بڑا باحکمت ہے التوبہ
2 التوبہ
3 التوبہ
4 التوبہ
5 التوبہ
6 التوبہ
7 التوبہ
8 التوبہ
9 التوبہ
10 التوبہ
11 التوبہ
12 التوبہ
13 التوبہ
14 التوبہ
15 التوبہ
16 التوبہ
17 (17۔24) کیا تم جو جہاد اور اعلاء کلمۃ اللہ سے غافل اور سست ہو کر بٹھگ رہے ہو تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم اسی طرح اور انہی اعمال پر چھوڑے جائو گے ابھی تو اللہ نے تم میں سے مجاہدوں کو اور جنہوں نے اللہ اور رسول کے سوا کسی کو اپنا مخلص دوست نہیں بنایا ممتاز نہیں کیا ایسا کہ لوگ دیکھ لیں کہ یہ مخلص ہیں اور وہ منافق پھر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم اسی حال پر قانع ہو کر اس تمیز سے غافل رہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب کام معلوم ہیں اسے اپنے علم حاصل کرنے کو اس تمیز کی کوئی ضرورت نہیں جیسے تم غلطی سے یہ سمجھے بیٹھے ہو مشرکوں کو بھی ایک غلط خیال جم رہا ہے کہ ہم مسجد الحرام کی تعمیر اور آبادی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہمیں ثواب ملے گا۔ حالانکہ قانون الٰہی میں مشرکوں سے ممکن ہی نہیں کہ جس حالت میں اپنے حق میں کفر کے مقر ہوں اللہ کی مسجدیں آباد کریں کیونکہ مسجدیں خالص توحیدی عبادت کے لئے ہیں اور یہ کام خالص موحدین کا حصہ ہے ان مشرکوں کے تو تمام اعمال ضائع اور بیہودہ ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے حقیقت میں اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور خود نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے کیونکہ مسجد کی آبادی یہ ہے کہ اس میں اللہ کی خالص عبادت ہو پس یہی لوگ ہدایت یا بوں سے ہوجائیں گے کیا تم مشرکوں نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی ظاہری مرمت کرنے کو ان موحد لوگوں کے کاموں کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ پر اور پچھلے دن پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یہ بڑی غلط رائے ہے یہ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے پاس برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ مسجدوں کا بنانا اور آباد کرنا تو اس لئے ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت ان میں کرے خالصہ عبادت مقصود بالذات ہے اور مرمت مساجد بالعرض ہے پس موحد عابد کے برابر کافر مشرک کیسے ہوسکتا ہے اس لحاظ سے کہ بانیان مساجد موحدوں کو ہر طرح سے نور ایمان سے تازگی ہوتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے تعلق دلی لگاتے ہیں کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ یہ دونوں کام برابر کیسے ہوسکتے ہیں وہ ظالم ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو سمجھ نہیں دیتا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لا کر بوقت ضرورت ہجرت کی ہے اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اللہ کے ہاں ان کے لئے بہت بڑے درجے ہیں اور سچ پوچھو تو یہی لوگ کامیاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور خوشنودی اور رہنے کے لئے باغوں کی خوش خبری دیتا ہے ان باغوں میں ان کے لئے دائمی نعمتیں ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے اس سے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کمی نہ ہوگی کیونکہ اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے مسلمانو ! اگر ایسی نعمتوں سے متمتع ہونا چاہتے ہو تو علاوہ نیک اعمال اور ترک کفر کے یہ بھی ضرور ہے کہ تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابلے کفر کو پسند کریں تو ان سے بھی خلوص مودت نہ رکھو یعنی مذہبی امور میں ان کی ناراضگی کا خیال نہ کیا کرو دنیاوی امور میں ان سے بے شک سلوک کئے جائو ان کی خاطر تواضع بجا لائو لیکن دین میں ان کی اطاعت اور دوستی نہ رکھو جو لوگ تم میں سے ایسے لوگوں سے دوستی نہ رکھو جو لوگ تم میں سے ایسے لوگوں سے دوستی محبت رکھیں گے وہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ٹھہریں گے تو اے نبی ان مسلمانوں سے کہہ دے کہ اگر تمہارے ماں باپ اور بیٹے بیٹیاں اور بھائی بند اور بیوئیں اور کنبے اور برادری کے لوگ اور مال و اسباب جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت اور کاروبار جس کے خسارہ سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جن کو رہنے کے لئے تم پسند کرتے ہو یہ سب کچھ تم کو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پسند اور مرغوب ہیں تو خیر صبر کرو جب تک اللہ تعالیٰ تمہاری ہلاکت کے لئے اپنا حکم بھیجے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ایسے بدکاروں کو توفیق خیر نہیں دیا کرتا جو ہمیشہ اسی دنیا کے دھندوں میں رہ کر مر جاتے ہیں ایسے لوگوں کے حق میں مولوی روم فرماتے ہیں اہل دنیا کافر ان مطلق اند روز و شب در زق زق و در بق بق اند التوبہ
18 التوبہ
19 التوبہ
20 التوبہ
21 التوبہ
22 التوبہ
23 التوبہ
24 التوبہ
25 (25۔28) مسلمانو ! تمہیں خوب یاد ہوگا اللہ تعالیٰ نے تم کو کئی ایک مواقع میں مدد دی خاص کر جنگ حنین کے روز مدد پہنچائی جو واقعی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ تھا جب تم اپنی کثرت پر مغرور ہوگئے تھے اور یہ سمجھے تھے کہ آج ضرور ہی ہماری فتح ہے اور کسی قدر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے نیاز ہوئے تو تمہاری وہ کثرت کسی کام نہ آئی تم ایسے مضطرب ہوئے کہ الامان اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہو رہی تھی پھر تم پیٹھ دے کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر تیل نازل کی اور ان کی گھبراہٹوں کو دور کیا اور ایک فوج ملائکہ کی اتاری جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جو لوگ کافر تھے ان کو عذاب دیا اور کافروں کو سزا یہی ہے (شان نزول (لقد نصرکم اللہ) جنگ حنین میں صحابہ بارہ ہزار کی تعداد میں تھے اسی کثرت تعداد نے ان کو طبعی طور پر توکل سے کسی قدر غافل کردیا تو بجائے فتح کے ابتداء شکست ہوگئی آخر کار اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر فتح ہوئی چنانچہ حاشیہ میں بضمن جنگ ہذا بیان ہوا ہے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کو یہ حدیث نازل ہوئی۔ ) اس سے بعد جس کو چاہے گا توبہ نصیب کرے گا اور معاف کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ مسلمانو ! تم ان مشرکوں سے دوستی چاہتے ہو اور باوجود ان کی رسوم کفریہ کے ان سے محبت لگاتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مشرک نرے گندے ہیں ان کے عقائد بد ان کے خیالات فاسد جن کا نتیجہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد پس ان سے کہہ دو کہ وہ اس سال بعد کعبہ شریف کی مسجد الحرام کے پاس بھی نہ آئیں تاکہ اسلامی مرکز کفر شرک کی غلاظت اور ریشہ دوانیوں سے پاک رہے اور اگر تم مسلمان بوجہ قطع ہوجانے تجارتی تعلقات کے تنگی سے ڈرو تو سنو ! سب کچھ اللہ کے قبضے میں ہے وہ اگر چاہے گا تو محض اپنے فضل سے تم کو غنی کر دے گا بے شک اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے اتنے ہی سے کیا ہوتا ہے ابھی تو اس سے زیادہ تم کو کرنا ہے التوبہ
26 التوبہ
27 التوبہ
28 التوبہ
29 (29۔37) سنو ! جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن یعنی دوسری زندگی پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی اللہ اور رسول کی محرمات بتلائی ہوئی اشیاء کو حرام چاہتے ہیں اور نہ دین حق کو تسلیم کرتے ہیں یعنی مشرک اور اہل کتاب ان سے اگر ضرورت پڑے اور صلح اور امن سے اطاعت نہ کریں اور زیر فرمان نہ رہیں تو خوب لڑو جب تک وہ ماتحت ہو کرجزیہ ٹیکس دینا منظور نہ کریں یعنی جب محکوم رعیت بن جائیں تو ان سے جہاد کرنا ترک کر دو تم دیکھتے نہیں یہ لوگ کیسے کیسے ظلم کرتے ہیں اور تو اور اس یہودی قوم کو دیکھو کہ باوجود لکھے پڑھے ہونے کے کیا کہتے ہیں کہ حضرت عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور یہ جنٹلمین اور مہذب عیسائی قوم جو اپنی تحقیقات علمیہ کے زعم میں صفحہ ہستی پر کسی قوم کو نظر میں نہیں لاتی ان کی بودی عقل بھی یہی فتویٰ دیتی ہے جو کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے کیسا بیٹا تھا جب آدمی کا آدمی ہوتا ہے یعنی حقیقی بیٹا نہ کہ مجازی کوئی ان کے پاس ثبوت بھی ہے کچھ نہیں یہ تو صرف ان کے منہ کی باتیں ہیں دلیل لائیں تو اس پر غور بھی کئے جائے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے سے پہلے کافروں کی سی جو اس مسئلہ کے موجد ہیں باتیں کہہ رہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی مار ہو نفس کے پیچھے پڑ کر کہاں کو الٹے جا رہے ہیں بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارے لاٹ پادری اور پوپ صاحب فرماتے ہیں ایسے مسائل میں دستور تو یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کا صریح مفہوم ہونا چاہئے نہ کہ منہ کی باتیں ایسا کرنا تو گویا اس شخص کی عبادت کرنے کے برابر ہے سوا انہوں نے بھی اپنے پادریوں اور درویشوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے علاوہ معبود اور رب بنا رکھا ہے پادریوں اور درویشوں کو تو ان معنے سے کہ ان کی باتیں بلا دلیل مانتے ہیں اور کتاب اللہ سے دلیل ان کے قول پر نہیں پوچھتے جو ان پر واجب ہے اور مسیح ابن مریم کو ان معنے سے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور تثلیث کا ایک جزو مانتے ہیں حالانکہ ان کو حکم صرف یہی تھا کہ اکیلے معبود کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں عبادت کریں اور اس کے سوا اور کسی کی نہ کریں وہ حقیقی معبود ان کے شرک اور بیہودہ گوئی سے پاک ہے مگر یہ لوگ چکنی چپڑی تقریروں اور دولت کے زور سے اللہ کے نور کو صرف مونہوں کی پھونکوں سے مٹانا چاہتے ہیں ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ اللہ کا نور یعنی صحیح خیالات و عقائد حقہ ان کی باطل اور لغو تعلیم کے مقابلہ میں دب جائیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے سوا کوئی بات منظور نہیں کہ اپنے نور کو پورا کرے اگرچہ کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے اسی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کامل اور سچا دین دے کر بھیجا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام دینوں پر اسے غالب کرے گو مشرک ناخوش ہوں مسلمانو ! ان فرشتہ صورت ابلیس سیرت لوگوں سے بچتے رہنا ان اہل کتاب کے بہت سے پادری اور درویش مشائخ صورت ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں کسی کو تعویذوں کے جال میں پھنساتے ہیں کسی کو غلط مسائل بتلا کر لوٹتے ہیں غرض مال بھی ان کا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے بھی روکتے ہیں جس سے مطلب بجز اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ مال و دولت بھی جمع ہو غرض مختصر یہ کہ ان کی کارروائی اسی اصول پر مبنی ہے ایں ہمہ از پئے آنست کہ زرمیخواہد حالانکہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں مناسب موقع پر خرچ نہیں کرتے ان کو ندامت اور حسرت کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا سو تو بھی اے نبی ان کو دردناک عذاب کو خبر سنا وہ کب اور کس روز ہوگا جس روز ان کے اندوختہ سونے چاندی کو جہنم میں گرم کر کے ان کے ماتھے اور پہلو اور کمریں داغے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہی تو ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا پس آج اپنے خزنہ اندوختہ کا مزہ چکھو اور عیش اڑائو۔ مسلمانو ! جہاد کے حکم سے یہ مطلب نہ سمجھنا کہ ہر وقت اور ہر حال میں تم کو لڑنا بھڑنا واجب ہے نہیں سنو ! اللہ کے ہاں سال بھر کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے یہ معاملہ اللہ کی لکھت میں اسی دن سے ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ان بارہ میں سے چار مہینے حرام کے ہیں یعنی ان میں کفار پر حملہ کرنا جائز نہیں یہی طریق شریعت میں مستحکم چلا آیا ہے پس تم ان مہینوں میں خلاف شرع کام کر کے اپنے نفسوں پر ظلم زیادتی نہ کرنا یعنی لڑائی میں ابتدا نہ کرنا اور اگر مشرک ابتدا کریں تو جیسے وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور ہر ایک مسلمان کو صرف بوجہ مسلمان ہونے کے تنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے سب سے لڑنا جو تمہارے سامنے بشرط حربی ہونے کے آئیں ان کی گردنیں اڑانا اور دل سے جان رکھو کہ زیادتی سے بچنے والے پرہیزگاروں کا اللہ ساتھی ہے ہاں مطلب براری کے لئے مہینوں کی تقدیم و تاخیر بھی نہ کرنے لگ جانا جیسا کہ عرب کے مشرکوں میں بدرسم ہے کیونکہ اپنی اغراض کے لئے مہینوں کا ہیر پھیر کردینا ایک قسم کی ان کے کفر میں ترقی ہے جس کے سبب سے کافر لوگ زیادہ گمراہ ہوتے ہیں اور راہ ہدایت سے دور بھٹکتے ہیں ایک سال ایک مہینہ کو حلال سمجھتے ہیں اور وہ سب کام کر گزرتے ہیں جو دوسرے حلال مہینوں میں کیا کرتے ہیں اور دوسرے سال اسی مہینے کو حرام سمجھ لیتے ہیں اور سب احکام حرمت کے اس پر مرتب کرتے ہیں تاکہ جتنے مہینوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کی تعداد پوری کر کے اللہ کی محرمات کو حلال بنائیں اور خوب مزے سے جب کبھی لڑائی کا موقع پاتے ہیں لڑتے ہیں اور اس کے بدلے دوسرے مہینے کو حرام بنا لیتے ہیں یہ سب خود غرضیوں کے برے کام ان کو بھلے لگتے ہوں اس لئے کہ انسانی طبیت کا تقاضا ہی ہے کہ جس کام کو کرنا چاہے کیسا ہی برا کیوں نہ ہو اپنی طرف سے خواہ مخواہ اس میں ایجاد کر کے بھی حسن نکال لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی قاعدہ ہے کہ وہ کافروں اور گردن کشوں کی قوم کو ہدایت نہیں کیا کرتا یعنی ان کو ان کی بھلائی کی تمیز نہیں دیتا یہ کوئی انہی سے مخصوص نہیں جو کوئی اللہ کے حکموں سے سرتابی کرتا رہے ایک وقت اس پر ایسا آتا ہے کہ اس کو ہدایت کی راہ نہیں سوجھتی (شان نزول : (انما النسیء زیادۃ فی الکفر) مشرکین عرب کو پے در پے حرام کی تین مہینوں (ذی قعد۔ ذی الحجہ۔ محرم) کی بندش تکلیف دہ ہوتی کیونکہ ان کی جنگجو طبیعتوں کو نچلا بیٹھنا کب گوارا ہوسکتا تھا اس لئے وہ یہ تاویل کرتے کہ محرم یا کسی درمیانی مہینے کی حرمت کو دوسرے مہینے پر ڈال دیتے اور جو کام بندش وغیرہ سے رکے ہوتے وہ کر گزرتے ان کی مذمت کو یہ آیت نازل ہوئی۔) التوبہ
30 التوبہ
31 التوبہ
32 التوبہ
33 التوبہ
34 التوبہ
35 التوبہ
36 التوبہ
37 التوبہ
38 (38۔66) اس لئے تم سے بار بار کہا جاتا ہے اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کے حکموں کی دل و جان سے اطاعت کیا کرو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے کو نکلو تو تم ایسے بزدل ہوجاتے ہو کہ گویا زمین سے چمٹ جاتے ہو ایسے کہ تمہارا ہلنا ہی قطب از جانمے جنبد اگر جنبد جہاں جنبد کا مصداق ہوجاتا ہے کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو اور اسی پر قانع ہوگئے ہو اگر تمہارا ایسا ہی خیال ہے تو سخت زیاں کار ہو کیونکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے (شان نزول (یایھا الذین آمنوا) اسلام نے جس قسم کی حکومت قائم کی تھی اس کے مطابق یہ ضروری تھا کہ ہر ایک مسلمان ہر وقت شمشیر بکف رہے کیونکہ کوئی باقاعدہ فوج کی تعداد اتنی نہ ہوتی تھی کہ دشمن کے مقابلہ کو کافی ہوسکے بلکہ جس وقت ضرورت ہوتی امیر المومنین کی طرف سے ایک منادی پھر جاتا کہ جنگ کو تیار ہوجائو چونکہ اس قسم کی حکومت کا نباہ اجتماع کے بغیر ممکن نہ تھا اس لئے اس امر کی تائید کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں اسلامی حکومت کی طرز پر اس وقت کوئی سلطنت موجود نہیں بجز حکومت حجاز و نجد کے سپاہ نظام بہت کم باقی رعیت کے بالغ سب فوج۔ ١٢ منہ) جس کا اندازہ لگانا اور کسی قسم کی نسبت ان میں بتلانا ہی فضول ہے سنو ! اگر تم بوقت ضرورت میدان جنگ میں نہ نکلے تو اللہ تعالیٰ تم کو دشمنوں کی ماتحتی سے دکھ کی مار دے گا اور تمہارے بدلے کوئی دوسری قوم اپنے دین کی تائید کے لئے پیدا کرے گا جو تمہاری طرح نالائق نہ ہوگی اور تم اس غفلت اور سستی میں اس کا کچھ نہ بگاڑو گے بلکہ جو کچھ بگاڑو گے اس لئے کہ تم عاجز ہو اور اللہ اپنے سب کاموں پر قدرت تامہ رکھتا ہے اصل پوچھو تو تمہاری مدد اور نصرت سے ہوتا ہی کیا ہے یہ تو تمہاری ہی سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے دین کی کچھ خدمت لے کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمے کنی منت ازوبداں کہ بخدمت گذاشتت ورنہ اگر تم رسول کی اور دین اسلام کی مدد کرو گے تو کیا بگڑ جائے گا اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی بے سروسامانی کے وقت میں مدد کی تھی کہ کوئی کیا کرے گا جب کافروں نے اس کو ایسے حال میں کہ تمام ملک مخالف تھا صرف ایک آدمی کے ساتھ مکہ سے نکال دیا تھا یعنی وہ وقت تھا کہ جب وہ دونوں خادم و مخدوم مکہ سے باہر غار ثور میں چھپے ہوئے تھے جس وقت وہ پیغمبر اپنے ساتھی ابوبکر صدیق اکبر (رض) سے تقاضائے بشریت دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ کچھ فکر مت کر کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے جس نے ہمیں گھروں سے نکلنے کا ارشاد فرمایا وہ ہم کو کافروں کے ہاتھوں ضائع نہ کرے گا پس اتنا کہنے کی دیر تھی کہ اللہ نے اپنی طرف سے اس کے صدیق پر تسلی نازل کی اور ایک ایسی فوج غائبانہ جس کو تم نے نہ دیکھا بھیج کر رسول کی مدد کی اور کافروں کا بول پست کردیا اور اللہ کا بول ہمیشہ بالا ہے کیونکہ اس کے مقابل ہو تو کون ہو سب مخلوق عاجز ہے اور اللہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے گو وہ سب کچھ اکیلا ہی کرسکتا ہے مگر وہ تمہیں سعادت سے بہرہ اندوز کرنے کو حکم دیتا ہے کہ ہلکے پھلکے اور بوجھل بھاری یعنی پورے مسلح ہو تو یا پورے نہ ہو تو بھی۔ غرض بہرحال جہاد کو نکلو اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو یہ تعمیل ارشاد تمہارے لئے سب کاموں سے بہتر ہے اگر تم کو زمانہ کے واقعات کا علم ہے تو سمجھو اور جب موقع مناسب لوہے کا قلم بر تو یعنی تلوار سے کام لو کیونکہ دنیا میں وہی قوم عزت پاتی ہے جو اپنے دشمنوں کی ایذائیں اور تکلیفیں لوہے سے دور کرتے ہیں مگر بعض ضعیف القلب اتنا سن سنا کر ہی تیرے ساتھ نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کو فائدہ جلدی پہنچنا ہوتا اور سفر بھی متوسط یعنی موجب تکلیف نہ ہوتا تو فوراً تیرے پیچھے ہو لیتے لیکن چونکہ اس جنگ حنین کی مسافت ان پر بوجہ دوری کے شاق ہو رہی ہے اسی لئے جی چراتے ہیں اور اگر ان سے پوچھو گے تو صاف اللہ کے نام کی قسمیں کھا جائیں گے کہ اگر ہم سے ہوسکتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے واللہ باللہ ثم تاللہ ہم میں طاقت نہیں نہ اسباب مہیا ہے بلکہ ہم لڑنا بھی نہیں جانتے ان قسموں سے اور اپنے حق میں تباہی لائیں گے کیونکہ اس سے نہ تو مسلمانوں کو یقین ہوتا ہے اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ وہ کذاب اور فریبی ہیں۔ اصل میں یہ لوگ دین کے دشمن ہیں مگر ظاہری وضع داری ان کو ایسی صریح دشمنی سے مانع ہوتی ہے اس لئے اگر کوئی عداوت کا بھی موقع ہوتا ہے تو کسی نہ کسی آڑ میں کرتے ہیں مثلاً موقع جہاد سے پیچھے رہنے کو تجھ سے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رخصت اور اجازت مانگ لیتے ہیں تو کہ چونکہ غیب دان نہیں ان کے دائوں میں آجاتا ہے ایسے سہو اور زلات اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے آئندہ کو ان کے دھوکوں میں نہ پھنسنا کیوں تو نے اذن دیا تھا کیوں خاموش نہ رہا جب تک تک کہ ان میں سے راست گو یعنی جو واقعی معذور تھے تجھے معلوم ہوجاتے اور جھوٹوں کو بھی تو جان لیتا سنو ! جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن کی زندگی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ لوگ اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے ہٹ رہنے میں تجھ سے کبھی اذن نہ مانیں گے جیسی ان منافقوں کی عادت ہے یہ سب کچھ انتظام عالم کے طور پر تیری آگاہی کے لئے ہے تاکہ تو ان کے حال پر مطلع ہو اور اللہ متقیوں اور غیر متقیوں سب کو جانتا ہے ایسا کہ کوئی بھی اس سے پوشیدہ نہیں جب ہی تو وہ تجھ کو بتلاتا ہے کہ جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل متردد ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی اپنے شبہات میں حیران ہیں ایسے ہی لوگ پیچھے رہنے میں تجھ سے اذن چاہتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں کہ ہم نے تیاری نہیں کی تھی کون نہیں جانتا کہ اگر ان کو لڑائی کے لئے نکلنے کا خیال ہوتا تو اس کی تیاری بھی نہ کرتے لیکن ان کی بد اعمالی سے اللہ تعالیٰ نے ان سے توفیق مسدود کردی ہے اور ان کا ایک جگہ سے ہلنا بھی پسند نہیں کیا پس ان کو سست کردیا اور ان کو ایسی سوجھی گویا ان کو کہا گیا کہ پیچھے بیٹھنے والوں یعنی کوڑھی وغیرہ معذوروں سے مل کر بیٹھے رہو حق یہ ہے کہ اگر یہ خبیث تم میں مل کر چلتے تو بھی تم کو نقصان ہی پہنچاتے اور تم میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے کہ کسی طرح ان میں پھوٹ پڑے اور ان کا جتھا ٹوٹے اور ابھی تک بھی ان کے فرستادہ جاسوس تم میں موجود ہیں جو تمہاری مجلس میں صرف انہیں کی خاطر باتیں سنتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے خوب ہی سزا دے گا یہ تو ایسے شریر ہیں کہ پہلے بھی کئی دفعہ فتنہ عظیم اٹھا چکے ہیں اور تیرے سامنے کئی باتیں الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں اور دل میں مخالفت چھپا کر بظاہر دوستی کا دم بھرتے رہے اور لوگوں کو ہیرو پھیر بتلا رہے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے سچا وعدہ آ پہنچا اور مسلمانوں کی فتح ہوئی اور ان کی ناخوشی ہی میں اللہ کا حکم ظاہر ہوگیا بعض ان دورخے لوگوں میں ایسے بھلے مانس بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے پیچھے رہ جانے دیجئے اور مجھ کو جنگ کی مصیت میں نہ ڈالئے مسلمانو ! سنو وہ خود مصیبت میں پڑے ہیں ایسے کہ جنگ کی تکلیف سے رہائی ہو بھی جاتی اور ہوتی بھی تو باعزاز و اکرام ہوتی مگر جس مصیبت میں وہ گرے ہیں اس کا نام جہنم ہے اور جہنم کل کافروں کو ایسے گھیرے ہوئے ہے کہ ایک بھی اس میں سے نکل کر باہر نہیں آسکتا یہ ایسے شریر ہیں کہ تجھ سے ان کو اس درجہ عداوت ہے کہ اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کچھ بھلائی پہنچتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے کہ ہائے ان کو یہ فائدہ کیوں پہنچا اور اگر بمنشائے الٰہی تجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی دانائی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میاں ! کسی بھلے آدمی کی تو سنتے نہیں ہماری مانتے تو یہ تکلیف ہی کیوں ہوتی ہم تو اسی لئے پہلے ہی سے الگ تھلگ ہو بیٹھے تھے شیخی بھگارتے جاتے ہیں اور خوشی خوشی مجلس سے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور جا کر آپس میں خوب بغلیں بجاتے ہیں تو اے نبی ان سے کہہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں مقدر کیا وہی ہم کو پہنچے گا اچھا ہو یا برے ہر چہ رضائے مولیٰ از ہمہ اولیٰ وہ ہمارا مالک ہے جس حال میں چاہے رکھے اور ہمیں اس کا حکم ہے کہ ایماندار اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں ایسا ہی کرتے ہیں اس کرنے پر اگر یہ لوگ تیری تکلیف پر راضی ہوں تو ان سے کہہ کہ جنگ کی صورت میں ہم دونوں طرح سے راضی ہیں فتح ہو تو قومی اعزاز ہے شہادت ہو تو شخصی ماکرام غرض گر لیا مار تو بن آئی اور گئے مارے شہادت پائی پس تم جو ہماری تکلیف اور شہادت کے منتظر ہو سو درحقیقت تم اصل میں ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کی انتظاری کرتے ہو کیونکہ ہم تو مرنے کو اپنے حق میں جینے کے بلکہ جینے سے بھی اچھا جانتے ہیں کیا تم نے عارف اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا ناں اگر تو مید ہی نانت دہند جاں اگر تو مید ہی جانت دہند سو تم اسی انتظار میں رہو ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہاں سے بغیر واسطہ ہمارے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہی ہاتھوں سے تمہاری گت بنوائے غرض جو اس کی مشیت اور تقدیر میں تمہارے لئے مقرر اور مناسب ہو وہ ہو اس میں تو شک نہیں کہ تم ہدایت سے بے نصیب ہو پس تم اپنے مدعا کی انتظاری میں لگے رہو ہم بھی تمہارے ساتھ اپنے مدعا کے منتظر ہیں دیدہ بائد فتح اور کامیابی کس کو ہوتی ہے لیکن یاد رکھو کہ والعاقبۃ للمتقین تو ان سے کہہ کہ تمہاری حالت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے تمہاری بدنیتی کسی سے مخفی نہیں پس تم خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو یا ناخوشی سے ہرگز تم سے قبول نہ ہوگا کیونکہ تم بدکاروں کی منڈلی اور چنڈال چوکڑی ہو تمہاری نیت کی اصلاح جب تک نہ ہوگی قبولیت بھی نہ ہوگی یہی وجہ ہے کہ بےدینوں کی خیرات قبول نہیں ہوتی اور ان کی خیرات قبول نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور رسول سے منکر ہیں اس لئے جو کچھ دیتے ہیں محض دکھاوے کا ہوتا ہے اور نماز جیسا پاک فعل جو دل کی توجہ تام سے ہونا چاہئے (حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری حمد کی ہے جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی ہے اور جب اھدنا کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے جو کچھ میرے بندہ نے طلب کیا ہے میں اس کو دوں گا غرض ہر ہر لفظ پر رب العالمین جواب دیتا ہے صوفیائے کرام رضوان اللہ اجمعین نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے کلمات طیبات کو ایسی توجہ سے پڑھنا چاہئے کہ قائل ہر ایک لفظ پر رب العالمین کے جواب کو گویا سنتا ہے صفائی قلب کے لئے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ اللھم ارزقنی۔ ١٢ منہ) یہ لوگ جب پڑھتے ہیں تو سست اور دل سے غافل ہو کر پڑھتے ہیں نہ کلمات طیبات کے معانی سوچتے ہیں نہ رب العالمین کے جواب پر جو ہر ہر لفظ کی اجابت پر ملتا ہے غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو خرچتے ہیں بددلی سے خرچتے ہیں اس لئے توقیت بھی نہیں پاتا پس جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی یہ عزت اور توقیر ہے کہ ان کے صدقات اور عبادات بھی قبول نہیں ہوتے تو تو ان کے مال اور اولاد کی کثرت سے حیران نہ ہو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کو اس مال اور اولاد کی وجہ سے دنیا میں بھی عذاب کرے ہر وقت مال اور اولاد کی کفر ہی میں ڈوبے رہتے ہیں کبھی کوئی نقصان ہے کبھی کوئی کبھی بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ہیں تو کبھی داماد کی طرف سے یہاں تک کہ ان کی اجل آپہنچے اور ان کی روحیں کفر کی حالت میں ان کے جسموں سے نکلیں ظالم ایسے مکار ہیں کہ تمہاری مخالفت پر گویا تلے بیٹھے ہیں اور اللہ کی قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ دل سے تمہارے ساتھ ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں بلکہ وہ محض اپنی کمزور طبیعت کی وجہ سے ڈرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے ساتھی نہ بنیں گے تو تکلیف پہنچے گی اور مسلمان یا مسلمانوں پر حملہ آور کفار ہی ہم کو پیس ڈالیں گے ورنہ اگر ان کو کوئی پناہ کی جگہ مل جاتی یا کسی پہاڑ میں کوئی غار یا کہیں کسی مکان میں چھپنے کی جگہ پاتے تو فوراً اس کی طرف بھاگے جاتے اب جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں تو صرف اسی لئے کہ ان کو کوئی جگہ اپنی زبان درازی کرنے کی نہیں ملتی اس لئے جلے بلے منہ سے کلمہ پڑھتے ہیں اور کبھی کبھی دل کے بخار بھی نکال لیتے ہیں بعض لوگ ان میں سے ایسے تیرے عیب جو ہیں کہ جب اپنی عیب جوئی میں نامراد رہتے ہیں تو صدقات کی تقسیم کرتے میں تجھ پر طعن کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں تیری تقسیم جو اصل ایمان داری سے ہوتی ہے غلط ہے وہ اس مال کا مستحق اپنے آپ کو زیادہ جانتے ہیں پھر اگر ان کو بھی کچھ مل جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر نہیں ملتا تو فوراً ناراض ہو کر بگڑ بیٹھتے ہیں کیونکہ مال کے غلام عبدالدرہم والدنانیر ہیں (شان نزول (ومنہم من یلمزک) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ کچھ تقسیم کی تو چونکہ اس میں ” رموز مملکت خویش خسرواں و انند“ کی حکمت ملحوظ تھی بعض کم فہم منافقوں کی سمجھ میں نہ آئی تو اعتراض کرنے لگے کہ اعدل یا محمد (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مساوی تقسیم کر) آپ نے فرمایا اگر میں عدل نہیں کرتا تو کون کرتا ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ) اور اگر یہ لوگ اللہ کی تقدیر اور اللہ کے حکم سے رسول کے دئیے ہوئے پر راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہم کو کافی ہے بہت جلد اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول اس کے حکم سے ہم کو دیں گے اور اگر نہ بھی دیا تو بھی بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب اور امیدوار ہیں تو ان کا کہنا اور سمجھنا ان کے حق میں بہتر ہوتا اور اگر غور کریں تو صدقات میں ان کا حق بھی کیا ہے جب کہ صدقات کا مال صرف فقیروں اور محتاجوں کے لئے ہے اور ان کے لئے جو اس کے جمع کرانے پر مقرر ہیں اور اپنا وقت لگاتے ہیں وہ اپنی اجرت اس میں سے…لے سکتے ہیں اور نیز ان کے لئے ہے جن کے دلوں کو اسلام سے مانوس رکھنا ہو یعنی جو لوگ دل سے تو اسلام کو حق جانتے ہیں مگر حاجات دنیاوی سے کفار میں رہنے پر مجبور ہیں ان کی امداد بھی مال زکوٰۃ سے کی جائے اور غلاموں کی آزادی میں۔ غلاموں کی آزادی دو طرح سے ہوتی ہے مکاتب غلام کو مالی امداد دی جائے کہ وہ مالک کو ادا کر کے بری ہو اور دوسرے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جائے اور نیز قرض داروں کے لئے ہے جو جائز قرض کے نیچے دبے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے یعنی سامان جہاد وغیرہ مہیا کرنے بلکہ ہر نیک کام میں اور مسافروں کے لئے جو بوجہ ناداری کے وطن مالوف تک نہ جاسکتے ہوں گو وہ اپنے گھروں میں مال کثرز کے مالک ہوں یہ حقوق اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے جب یہ منافق کسی قسم سے بھی نہیں تو پھر کیوں امید اس کی رکھتے ہیں اور نہ ملنے پر ناخوش ہوتے ہیں لو اور سنو ! بعض ان بےدینوں میں ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے نبی کو ایذا دیتے ہیی اور اپنی مجالس میں ناحق برائی سے یاد کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کو سمجھاتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ کو خبر ہوگئی تو ناراض ہوں گے تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ تو کان ہے جو کچھ اسے کہہ دو چاہے جھوٹ ہی ہو فوراً مان لیتا ہے اگر ہماری شکایت کسی نے پہنچا دی تو ہم اپنی معذرت کر کے اس شکائت کو دھو ڈالیں گے بات ہی کیا ہے تو اے رسول ان سے کہہ کہ بے شک وہ رسول کان تو ہے مگر تمہارے حق میں خیر کا کان ہے بھلے مانس شریفوں کی طرح تمہارے منہ نہیں آتا یہ نہ سمجھو کہ تم جو کچھ کہتے ہو یقین کرلیتا ہے نہیں بلکہ کسی بتلائی ہوئی بات پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کی بات پر یقین کرتا ہے اور جو تم میں سے پکے ایماندار ہیں ان کے لئے رحمت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر کے حصہ وافر پاتے ہیں مطلب یہ کہ بے شک رسول اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارے کام اور گفتگو جو پوشیدہ پردوں میں کیا کرتے ہو خود جانتا ہو البتہ بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے یا نیک بخت مسلمانوں کی خبر دینے سے اسے معلوم ہوسکتے ہیں تاہم جو کچھ وہ سنتا ہے تمہارے حق میں بہتر ہے کہ تم زیادہ شرارتوں پر آمادہ ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے یہ کم بخت لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں اس غرض سے کھاتے ہیں کہ تمہیں راضی کریں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول راضی کئے جانے کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ تمہارے راضی ہونے سے تو ان کو بجز اس کے اور کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا کہ تم ان کے حق میں زبان طعن بند کرلو اور بس اگر ایمان دار ہیں تو اللہ تعالیٰ کو راضی کریں مگر ایمان کہاں کیا یہ جو شرارتیں کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں جو کوئی اللہ اور رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے دوزخ کی آگ تیار ہے اس میں ہمیشہ رہے گا یہی بڑی ذلت اور رسوائی ہے کیا ہوا اگر دنیا میں چند جہلا کے سامنے یہ بے ایمان بھی معزز بنتے میں مگر آخر بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی بدعمل منافق ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کوئی سورت ایسی نازل نہ ہو کہ ان کے دلوں کے خیالات ان پر ظاہر کرے غرض ان کی یہ ہے کہ ہم جو چاہیں سو کریں ہماری خرابی کا اظہار اور مقابلہ نہ کیا جاوے اے نبی تو ان سے کہہ مخول کئے جائو جس امر سے تم خوف کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ہی ظاہر کرے گا اس کے اظہار کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے رسول کو بتا دے گا پھر رسول لوگوں کو مطلع کرے گا اور اگر تو ان سے پوچھے کہ کیا تم واقعی ہنسی مخول کرتے تھے؟ تو فوراً کہہ دیں گے کہ ہم تو یوں ہی باتیں جپتیں اور مذاق کر رہے تھے خدانخواستہ ہماری کوئی بد نتر نہ تھی بلکہ ایسی نیت کرنی ہم بے ایمانی جانتے ہیں تو ان سے کہہ کیا اللہ اور اس کے حکموں اور اس کے رسول سے مسخری کرتے ہو بس اب عذر نہ کرو تم ایمان لائے پیچھے یعنی اظہار ایمان کر کے کافر ہوچکے ہو اگر ہم (خدا) تم میں سے کسی ایک پارٹی کو معاف کریں بھی تو دوسری جماعت کو ضرور ہی عذاب کریں گے جو اس فساد کے سرغنہ ہیں کیونکہ وہی مجرم ہیں۔ (راقم کہتا ہے میرے ساتھ بھی ایک دفعہ بعینہٖ ایسا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر معاملہ ہوا ایام محرم میں خاکسار اپنے مکان کے پاس وعظ کہا کرتا تھا جس کے سننے کو عموماً اہل ایمان دور دور سے بھی آتے تھے مگر تعزیہ داروں کو (جن کی اصلاح وعظ میں مقصود تھی) برا معلوم ہوا آخر انہوں نے ایک تجویز نکالی کہ مجلس وعظ کے مقابل ہی چند آدمیوں کے فاصلہ پر فاحشہ رنڈیوں کو بٹھا کر مرثیہ سننے شروع کر دئیے اور ہمیں پیغام دینے شروع کئے کہ وعظ بند کر دو ورنہ فساد ہوجائے گا لیکن غیرت مند ایمانداروں کو یہ کب گوارا تھا ان پر ان عیاروں کا کوئی اثر نہ ہوا اور وعظ برابر ہوتا رہا جس کا نتیجہ بفضلہ تعالیٰ یہ ہوا کہ شہرکے تمام مسلمان اور کفار ان پر لعنت کر رہے تھے۔ علیہم ما یستحقونۃ۔) التوبہ
39 التوبہ
40 التوبہ
41 التوبہ
42 التوبہ
43 التوبہ
44 التوبہ
45 التوبہ
46 التوبہ
47 التوبہ
48 التوبہ
49 التوبہ
50 التوبہ
51 التوبہ
52 التوبہ
53 التوبہ
54 التوبہ
55 التوبہ
56 التوبہ
57 التوبہ
58 التوبہ
59 التوبہ
60 التوبہ
61 التوبہ
62 التوبہ
63 التوبہ
64 التوبہ
65 التوبہ
66 التوبہ
67 (67۔75) مسلمانو ! منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس اور راز دار ہیں برے کاموں کا حکم کرتے ہیں اور بھلے کاموں سے منع کرتے ہیں نیکی میں خرچ کرنے میں ہاتھوں کو روکتے ہیں اللہ کو بھول گئے ہیں پس اس کی سزا میں اللہ بھی ان کو بھول چکا ہے یعنی اپنی خاص توجہ اور رحمت سے ان کو بے نصیب کر کے نظر انداز کردیا ہے بے شک منافق زن و مرد سب کے سب بے ایمان بدکار ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ میں سزا دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے وہی ان کو بس ہے اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے تم بھی پہلے لوگوں کی طرح کافر ہو جو اللہ تعالیٰ و رسول کے منکر تھے مگر وہ تم سے کہیں بڑھ کر زور آور اور مال اور اولاد میں بھی تم سے زیادہ تھے پھر انہوں نے اپنی قسمت کا فائدہ اٹھایا دنیا میں چند روز عیش کر لئے سو تم نے بھی اپنی قسمت کا فائدہ پایا جیسا تم سے پہلے لوگوں نے اپنی قسمت سے فائدہ اٹھایا تھا اور تم بھی اسی طرح بے ہودہ گوئی میں لگے جیسے وہ لگے تھے ان لوگوں کے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ان بدکاریوں سے پہلے اور پچھلے نیک عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوچکے ہیں نہ دنیا میں وہ حقدار مدح ہیں نہ آخرت مستحق ثواب اور یہی لوگ نقصان والے ہیں کیا یہ جو ایسے مست پھر رہے ہیں اور سرکشی نہیں چھوڑتے ان کو پہلے لوگوں کی ہلاکت اور تباہی کی خبریں نہیں آئیں یعنی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور مدین والوں اور الٹی ہوئی بستیوں یعنی لوط کی قوم کے واقعات کی کس طرح ان کے پاس کھلے نشان لے کر ان کے رسول آئے تھے مگر انہوں نے ایک نہ سنی پس وہ اپنے کئے کی سزا میں بری طرح پھنسے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ان پر ظلم کا ارادہ نہ رکھتا تھا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے مسلمانو ! جس طرح منافق ایک دوسرے کے حمایتی ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد کیا کرو کیونکہ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں یعنی ان کو آپس میں رفاقت کرنی چاہئے ایسی کہ شیخ سعدی مرحوم کے قول کے مطابق چو عضوے بدرد آور دروزگار دگر عضو ہارا نماند قرار لیکن رفاقت کے معنی یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے ہر نیک و بد کام میں شریک ہوجایا کریں اور امر معروف کے موقع پر خاموش رہیں کیونکہ مومنوں کی تو شان ہی یہ ہے کہ بھلے کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اور جھوٹے واعظوں کی طرح نہیں کہ دوسروں کو سنائیں اور خود کچھ نہ کریں بلکہ وہ خود بھی نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں انہی پر اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے کافروں اور منافقوں کا حال تم نے سنا۔ اب نیک لوگوں کا حال سنو۔ ایماندار مرد اور عورتوں سے اللہ نے بہشت دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے تلے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور نیز دائمی بہشتوں میں رہنے کے لئے عمدہ عمدہ مکانوں کا وعدہ ہے اور اللہ کی طرف سے خوشی کا اظہار ہونا بہت بڑی قابل قدر چیز ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جو ان باتوں کو نہ مانیں ان سے مناسب طریق سے مقابلہ کیا کر یعنی کافروں سے لسان اور سنان دونوں سے اور منافقوں سے لسان سے اور ان کے مقابلہ میں مضبوط رہا کر کسی طرح کے ضعف اور بزدلی کے آثار تجھ میں ظاہر نہ ہوں انجام کار تیری ہی فتح ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے یہ تو ایسے کذاب ہیں کہ اللہ کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی حالانکہ کلمہ کفر کہہ چکے ہیں (شان نزول (یحلفون باللہ ما قالوا) منافق‘ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غائبانہ برا بھلا کہہ کر اعمالنامہ سیاہ کرتے اور اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ تم نے یہ لفظ کیوں کہے تو صاف قسم کھا جاتے ہیں کہ ہم نے تو نہیں کہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) اور اسلام لانے کے بعد کافر ہوچکے ہیں اور ایسے کام کا قصد بھی کرچکے ہیں جس میں کامیاب نہیں ہوئے یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ بھی انہوں نے کیا تھا جس میں نامراد رہے اور اگر بغور دیکھا جائے تو صرف اسی پر رنجیدہ ہیں کہ اللہ نے محض اپنی مہربانی سے اور رسول نے اس کے حکم سے ان کو غنی کردیا ان کو منظم قوم بر سرحکومت بنایا مال و دولت سے مالا مال کیا مگر یہ سب ان کے حق میں ویسا ہی ہوا جس کا بیان شیخ سعدی مرحوم کے قول میں ہے نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بدکردن بجائے نیک مرداں پھر بھی اگر توبہ کر جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہو اور اگر نہ مانیں گے اور منہ پھیرے رہیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ کی مار دے گا اور زمین میں اور نہ آسمان پر ان کا کوئی والی اور نہ کوئی مددگار ہوگا التوبہ
68 التوبہ
69 التوبہ
70 التوبہ
71 التوبہ
72 التوبہ
73 التوبہ
74 التوبہ
75 (75۔89) اور سنو ! بعض ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہم کو مال دے گا تو ہم ضرور غربا پر خیرات کریں گے اور نیکوکاروں کے گروہ سے ہوں گے انہی کی طرح اللہ کے دئیے کو خرچ کریں گے اور انہی کی طرح مال کو عطیہ الٰہی سمجھیں گے (شان نزول (ومنھم من عھداللہ) ایک شخص ثعلبہ نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کثرت مال کی دعا چاہی تو آپ نے فرمایا تھوڑا مال جس پر شکر گذاری ہوسکے بہت سے جس پر شکر گذاری پوری نہ ہوسکے اچھا ہے لیکن وہ مصر ہی رہا آخر کار اس کے لئے آپ نے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا مال دیا کہ اس کی بھیڑ بکریوں کے لئے مدینہ میں کافی جگہ نہ ملی تو جنگل میں چلا گیا یہاں تک نوبت پہنچی کہ آپ کی خدمت میں جمعہ کے روز بھی حاضر نہ ہوسکتا موقع زکوٰۃ پر آپنے اپنا تحصیلدار بغرض تحصیل بھیجا تو بجائے ادائے زکوٰۃ کے بے ادبی سے پیش آیا۔ گو بعد میں تائب ہو کر مع زکوٰۃ حاضر خدمت ہوا شائد دل سے مخلص نہ تھا آپنے اس کی زکوٰۃ کو قبول نہ کیا آپ کے انتقال کے بعد صدیق اکبر کے پاس زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا انہوں نے بھی قبول نہ کی بعد ازاں حضرت عمر کے پاس آیا انہوں نے بھی بایں وجہ کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر (رض) نے تیری زکوٰۃ کو قبول نہ فرمایا تھا میں بھی قبول نہیں کرسکتا پھر حضرت عثمان کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر آیا انہوں نے قبول نہ کی حتی کہ خلافت عثمانیہ میں اسی مال کی محبت میں مر گیا۔ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ سچ ہے اگر دنیا نباشد درد مندیم وگر باشد بمہرش پائے بندیم) پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو کچھ دیا تو بخل کر بے ٹھد اور منہ موڑ کر ہٹ گئے پس ان کی بدکاری کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے دن تک ان کے دلوں میں نفاق کی بنیاد لگا دی کیونکہ اللہ سے انہوں نے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے پوشیدہ مخالفت کرتے اور بے ہودہ بکواس کرتے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پوشیدہ اسرار اور سرگوشیاں بھی جانتا ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی تمام باتوں سے آگاہ ہے یہ ظالم وہی تو ہیں جو خیرات دینے والے آسودہ مسلمانوں پر جی کھول کر خیرات دینے میں ریاکاری کا عیب لگاتے ہیں اور جو بے چارے اپنی محنت سے زیادہ مقدور نہیں رکھتے اور اسی محنت میں سے جو کچھ ہوسکتا ہے بچا کر فی سبیل اللہ خرچتے ہیں ان سے بھی یہ ظالم مسخری کرتے ہیں لو جی ! یہ بھی انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں ملنے آیا ہے اسی کی چار کوڑی سے تو یہاں کام چلنا تھا اللہ ان بدذاتوں کی تحقیر اور ہنسی کرے گا اور ان کو دکھ کی مار ہوگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایسے مبغوض ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تیری سفارش بھی ان کے حق میں کام نہ آئے گی (شان نزول (الذین یلمزون) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ صدقہ دینے کی ترغیب دی تو عبدالرحمن بن عوف چار ہزار درہم اور بعض غربا بھی حسب مقدور لے کر حاضر ہوئے اس پر منافقوں نے جنہوں نے دینے دلانے میں بجز باب لا ینصرف کے کچھ پڑھا ہی نہ تھا لگے مخول اڑانے کہ میاں یہ جو اتنے اتنے مال لے کر مجلسوں میں چندہ لے کر حاضر ہوتے ہیں ان کی نیت میں فتور ہے اخلاص سے نہیں آتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) تو ان کے حق میں بخشش مانگیو یا نہ مانگیو (برابر ہے) اگر تو ستر دفعہ بھی ان کے لئے بخشش مانگے گا تو بھی اللہ ہرگز ہرگز ان کو نہ بخشے گا یہ سزا اس لئے کہ اللہ اور رسول سے یہ عناداً انکاری ہوئے ہیں اور اللہ ایسے بدکاروں کی جماعت کو ہدایت نہیں کیا کرتا یعنی توفیق خیران سے مسدود کردیتا ہے جنگ میں رسول اللہ کے پیچھے بیٹھ رہنے والے اپنے گھروں میں عورتوں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر خوش ہیں کہ ہم نے خوب کیا کہ معمولی عذر کر کے جان بچا لی تیرے سامنے آ کر آتے بہانے کر گئے اور اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنا ان کو ناپسند ہوا اور مسلمانوں کو بغرض روکنے کے کہتے رہے میاں ! گرمی میں مت جائو میدان جنگ سے پہلے ہی گرمی کی شدت سے ہلاک ہوجائو گے اے نبی ! تو ان سے کہہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے کاش ان کو سمجھ ہوتی پس ان کو چاہئے کہ ہنسیں کم اور اپنی بداعمالیوں کی سزا پر روئیں بہت اب کے جو ہوا سو ہوا پھر اگر اللہ تعالیٰ تجھے زندہ سلامت باکرامت ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس پہنچا دے یعنی تو صحیح سالم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مدینہ میں پہنچ جائے اور بوقت ضرورت پھر تجھ سے تیرے ساتھ جانے کی یہ بدکار مطلب کے یار درخواست کریں تو تو ان سے کہہ دیجو کہ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں ورنہ تم ہرگز ہرگز میرے ساتھ نہ نکلو گے اور نہ میرے ہمراہ دشمن سے لڑو گے کیونکہ تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر راضی ہوچکے ہو جس سے ہمیں تجربہ ہوچکا ہے ” آزمودہ را آزمودن خطاست“ پس اب کے بھی تم بیماروں اپاہجوں وغیرہ پیچھے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو یہ کہہ کر انہیں چھوڑ دیجو ایسا کہ کسی طرح کا ربط و ضبط ان سے نہ رکھیو اور ان میں سے کسی پر جو مرے تو نماز جنازہ کبھی نہ پڑھیو اور نہ اس کی قبر پر بغرض دعا کھڑا ہونا (شان نزول : (ولا تصل علی احد منہم) عبداللہ بن ابی علیہ ما یستحقہ کے فوت ہونے پر اس کے بیٹے نے جو مخلص مومن تھا‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کے جنازہ پڑھنے کی درخواست کی آپ نے اپنی رحیمانہ عادت سے اس کی درخواست کو قبول فرمایا مگر چونکہ عبداللہ کی شرارتیں اور فساد کچھ ایسے نہ تھے کہ کسی سے مخفی رہے ہوتے منافقوں کا تو وہ سرگردہ ہی تھا ایسے موقع پر غیرت مندوں کو سخت جوش آیا کہ یہ بدبخت تو زندگی میں ہم کو ایذائیں اور تکلیفیں دیتا رہا آخر مر کر آنحضرت کی دعا سے بہرہ ور بھی ہوا چاہتا ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق نے آگے بڑھ کر گذارش کی کہ حضرت ایسے شخص کا آپ جنازہ پڑھتے ہیں جس نے فلاں روز یہ شرارت کی فلاں دن یہ فساد اٹھایا مگر آپ کی طبعی رحم دلی نے فاروق کے سب سوالوں کو نہایت ہی سہل سمجھا لیکن چونکہ اللہ کے نزدیک فاروق کی رائے وزن رکھتی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) اس لئے کہ یہ لوگ اللہ اور رسول سے دانستہ اور عناداً منکر ہوئے ہیں اور بدکاری ہی میں مرے ہیں اور ان کی ظاہری عزت اور آبرو تجھے حیران کرے تو ان کے مال و دولت اور کثرت اولاد سے تعجب نہ کریو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس مال اور اولاد کی وجہ سے ان کو دنیا میں عذاب دے اور ان کی جان بھی نکلے تو کفر کی حالت میں نکلے اور سنو ! ان کی خباثتوں اور شرارتوں کی کوئی حد نہیں جب کوئی صورت ان معنی کی اتاری جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لائو اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں سے آسودہ آدمی جن کی طبیعتوں میں آرام جاگزیں ہے اور روپیہ کی سخت محبت جم رہی ہے تجھ سے اذن چاہنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجئے اور اجازت مرحمت فرمائیے کہ ہم پیچھے بیٹھنے والوں یعنی اپاہج اور مستورات کے ساتھ بیٹھ رہیں ان کم بختوں کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ بہادر قوم ہو کر اس بات پر راضی ہیں کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ رہیں اور ان کے دلوں پر مہر لگائی گئی ہے پس اب وہ نہیں سمجھیں گے لیکن اللہ کا رسول اور اس کے ساتھی ایماندار مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں انہی کے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہیں اور وہی کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں اللہ نے ان کے لئے بہشت کے باغ تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے کہ عذاب الٰہی سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے انعام سے بہرہ ور ہوں گے ان بےدینوں کے سوا جو مدینہ میں رہتے ہیں التوبہ
76 التوبہ
77 التوبہ
78 التوبہ
79 التوبہ
80 التوبہ
81 التوبہ
82 التوبہ
83 التوبہ
84 التوبہ
85 التوبہ
86 التوبہ
87 التوبہ
88 التوبہ
89 التوبہ
90 (90۔106) بعض جنگلی لوگ بھی عذر کرتے ہوئے آئے ہیں کہ ان کو پیچھے بیٹھ رہنے کی رخصت ملے اور اللہ اور رسول سے جھوٹ بولنے والے وعدے توڑنے والے تو مزے سے بیٹھے ہی رہے ہیں۔ (شان نزول (جآء المعذرون) جنگ تبوک میں جو سخت گرمیوں میں ہوئی تھی بہت سے مخلص اور منافقوں کا امتحان ہوگیا تھا۔ شروع ہی سے کمزور لوگوں نے اغدار باردہ کرنے شروع کئے۔ بعض لوگ تو واقعی معذور تھے ہی مگر بعض نے صرف ظاہری بہانہ جوئی سے تخلف کرنا چاہا۔ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) پس اب دور نہیں کہ ان میں سے کافروں کو دکھ کی مار ہوگی۔ ہاں جنگ کے موقعہ پر سب مسلمانوں کا میدان جنگ میں آنا بھی ضروری نہیں بلکہ جو واقعی معذور ہیں ان کا عذر قبول ہے پس اسی اصول کے مطابق کمزوروں پر گناہ نہیں اور نہ بیماروں اور بیماروں کے تیمارداروں پر اور نہ ان لوگوں پر گناہ ہے جن کو خرچہ جنگ میسر نہیں بشرطیکہ ایسے لوگ گھر میں بیٹھے ہوئے بھی اللہ اور رسول کے دین کی خیر خواہی کرتے رہیں ایسے لوگ عذر کریں تو ان کے عذر قبول کریو کیونکہ نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں ہوتا معمولی حاکم بھی ایسے مخلصوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے اور نہ ان لوگوں پر گناہ ہے جو اے رسول تیرے یا تیرے کسی نائب امیر المومنین کے پاس اس غرض سے آتے ہیں کہ تو ان کو سواری دے تو بجائے سواری دینے کے ان سے کہتا ہے کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں رہی جس پر میں تم کو سوار کروں یہ تیرا جواب سن کر وہ بیچارے گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں مگر نہ خوشی خوشی کی جان بچی بلکہ افسوس کرتے ہوئے اور خرچ میسر نہ ہونے کے رنج سے روتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں پیچھے رہنے میں گناہ تو انہی لوگوں پر ہے جو غنی اور آسودہ ہو کر تجھ سے رخصت مانگا کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ پیچھے رہنے والی عورتوں میں مل رہیں چونکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کی بداعمالی کی وجہ سے مہر کردی ہے پس وہ نیک و بد کو نہیں سمجھیں گے ہاں جب تم جنگ سے واپس ان کے پاس جائو گے تو تمہارے پاس عذر کریں گے کہ ہمیں یہ تھا وہ کوئی کہے گا میری ٹانگ میں درد تھا کوئی سردرد کا عذر کرے گا اے نبی تو ان سے کہہ دیجو کہ کوئی عذر نہ کرو ہم تمہارا اعتبار نہ کریں گے اس لئے کہ اللہ نے ہم کو تمہارے حال سے خبر بتلا دی ہے اور ابھی آئندہ کو اللہ اور رسول اور تمام مسلمان تمہارے کاموں کو دیکھیں گے پھر تم بعد موت اللہ عالم الغیب والشہادت کے پاس پھیرے جائو گے پس وہی تم کو تمہارے کاموں کی خبریں دے گا اور اسی سے عوض بھی پائو گے جب تم جنگ سے فارغ ہو کر ان کے پاس لوٹو گے تو تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے نہ کسی نیک غرض سے بلکہ اس غرض سے کہ تم ان سے درگذر کرو اور ملامت نہ کرو پس تم نے بھی ان سے منہ پھیر لینا کیونکہ وہ نجس اور ناپاک باطن ہیں اور جو کچھ وہ دنیا میں کرتے ہیں اس کی جزا میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے تمہارے پاس اس غرض سے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجائو پھر اگر بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو ان کو اس میں کیا فائدہ اللہ تو بدکاروں کی قوم سے راضی نہیں ہوا کرتا دہقانی لوگ جو بےدین ہیں کفر اور نفاق میں بڑے ہی سخت ہیں اور ان کی طبیعتیں جہالت سے زیادہ مناسبت رکھتی ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے رسول پر احکام اتارے ہیں ان کے سمجھنے سے نابلد رہیں گو یہ لوگ اپنی جہالت اور عادت کو کتنا ہی چھپاویں چھپتی نہیں کچھ ان کے مونہوں سے ظاہر ہوچکی ہے اور اللہ بذات خود ہی بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے سارے دہقانی بھی یکساں نہیں بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچتے ہیں اس کو اپنے ذمے چٹی سمجھتے ہیں یعنی دل سے بیزار ہو کر خرچ کرتے ہیں اور بجائے تمہاری خیر اندیشی کے تم پر مصیبتوں کے منتظر رہتے ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو انہی پر مصیبتیں پڑیں گی اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کی سنتا اور ہر ایک کے حال کو جانتا ہے اور ان کے مقابل بعض دیہاتی ایسے نیک بھی ہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن کی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچتے ہیں اس کو اللہ تعالیٰ کے حضور قرب کا موجب اور رسول کی دعائوں کا ذریعہ جانتے ہیں یعنی اس نیک خیال سے دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خبر سن کر خوش ہوں اور ہمارے حق میں نیک دعا دیں تم بھی سن رکھو کہ اصل میں وہ ان کی خیرات واقعی قرب الٰہی کا سبب ہی کیونکہ اخلاص سے خرچ کرتے ہیں اسی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور ان کے علاوہ سب سے اول اسلام کی طرف سبقت کرنے والے یعنی مہاجرین جو محض اسلام کی خاطر اپنے اپنے وطن چھوڑ کر مدینہ میں محمدی جھنڈے کے نیچے آ کر جمع ہوگئے ہیں اور انصار یعنی جن مدینہ والوں نے ان مسافروں کی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا اور جو ان کی نیک روش کے تابع ہوئے کسی قوم یا کسی ملک کے باشندوں سے ہوں آج سے قیامت تک اللہ تعالیٰ ان سے سب سے راضی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ نے ان کے لئے بہشت تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں اور چشمے جاری ہوں گی ان کی بارہ دریوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے اور سنو ! مسلمانو ! تم سے اردگرد یعنی مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والوں میں بھی دورخے منافق لوگ ہیں اور خود مدینہ والوں میں بھی بعض لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں اے نبی تو ان کو نہیں جانتا لیکن ہم ان کو جانتے ہیں ہم ان کو کئی دفعہ دنیا میں عذاب کریں گے پھر بعد موت کے تو بڑے عذاب میں پھیرے جائیں گے اور ان سے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے کہ ہم بلاوجہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے ہمیں معافی دی جاوے آئندہ کو ایسا نہ ہوگا انہوں نے کئی ایک نیک عمل بھی کئے ہیں اور بعض برے بھی ان کے اخلاص اور حسن نیت کی وجہ سے اللہ جلد ان پر رحم کرے گا بے شک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے تو ان لوگوں کو مثل منافقوں کے نہ سمجھ بلکہ ان کے مالوں سے صدقات جو لاویں قبول کیا کر اور فقرا میں بانٹ دیا کر اور ان صدقات کے ذریعہ ان کو گناہوں سے پاک اور صاف کیا کر اور ان کے لئے دعا کیا کر کیونکہ تیری دعا ان کے لئے موجب تسکین قلبی اور برکت عظیم کی باعث ہے اور اللہ خود سب کی سنتا اور جانتا ہے جو لوگ گناہوں کا اقرار کرتے اور خیرات دیتے ہوئے جھجکتے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ بذات خود اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے یعنی قبول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے تو ان کو یہ پیغام سنا اور کہہ کہ اچھا جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے تم عمل کئے جائو پھر اللہ اور اس کا رسول اور تمام مسلمان تمہارے کاموں کو دیکھیں گے اور اس سے پیچھے تم اللہ تعالیٰ مالک الملک عالم الغیب والشہادۃ کی طرف پھیرے جائو گے جس سے تمہارا ہمارا سب کا اصل معاملہ ہے پس وہی تم کو تمہارے نیک و بداعمال سے آگاہ کرے گا نہ صرف آگاہ کرے گا بلکہ جزا و سزا بھی دے گا ایسی کہ اس کی اپیل بھی کسی محکمہ میں نہ کرسکو گے یہ تو ان لوگوں کا ذکر تھا جن میں بعض نفاق کی وجہ سے اور بعض معمولی غفلت کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے اور ان کے سوا اور چند آدمی مخلص اور خاص الخواص بھی ہیں جن کا معاملہ حکم الٰہی کے انتظار میں ملتوی کیا گیا ہے خواہ وہ ان کے اخلاص اور عالی مرتبت ہونے کی وجہ سے ان کو عذاب کرے یا ان کی موجودہ توبہ کے سبب سے ان پر رحم کرے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے خیر یہ تو جو کچھ ہیں سو ہیں آخر اپنے ہیں اگر کبھی قصور بھی کرتے ہیں تو غلط فہمی سے کرتے ہیں نہ عناد سے ان کے سوا اور لوگ ہیں جو خاص توبہ کے قابل ہیں (ان کے نام کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) ہیں آنحضرت کے حکم سے تمام لوگوں نے ان سے کلام سلام بند کردیا تھا کیونکہ جنگ تبوک سے بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے پچاس روز کے بعد ان کی توبہ نازل ہوئی تھی۔ اتنے دنوں تک باوجود تکلیف شدید کے ثابت قدم رہے۔ ١٢ منہ) التوبہ
91 التوبہ
92 التوبہ
93 التوبہ
94 التوبہ
95 التوبہ
96 التوبہ
97 التوبہ
98 التوبہ
99 التوبہ
100 التوبہ
101 التوبہ
102 التوبہ
103 التوبہ
104 التوبہ
105 التوبہ
106 التوبہ
107 (107۔123) جنہوں نے محض مسلمانوں کے دکھ دینے کو اور اللہ سے کفر کرنے کو آڑ بنانے کو اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی غرض سے اور اس شخص کو پناہ دینے کی نیت سے جو اللہ تعالیٰ یعنی اس کے رسول سے پہلے کئی دفعہ لڑ چکا ہے ان ظالموں نے ایک مسجد بنائی ہے (شان نزول (والذین اتخذوا) منافقوں نے مسلمانوں میں تفریق کرنے کی یہ تجویز سوچی کہ ایک گائوں میں ایک مسجد بنائیں اور یہ ظاہر کریں کہ یہاں کے لوگوں کو مدینہ میں جانے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس تجویز کی تکمیل کرنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ ایک دفعہ اپنے قدوم میمنت لزوم سے اس مسجد کو متبرک فرما دیں گویا افتتاحی جلسہ آپ کے نام سے ہو دراصل اس تجویز کا بانی مبانی ایک شخص ابو عامر نصرانی تھا جو تعصب مذہبی کی جلتی آگ سے آنحضرت صلعم کی روز افزوں ترقی دیکھ کر بغرض استمداد شام کے ملک میں عیسائی سلطنت کے زیر حمایت چلا گیا تھا اسی خبطی نے مدینہ کے منافقوں کو یہ تجویز بتلائی تھی کہ ایک مسجد بنائو۔ مسجد کیا گویا فساد کی ایک بنیاد تھی لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دراصل یہ مقابلہ کسی آدمی سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے جو دلوں کے اسرار پر بھی مطلع ہے انہی خبطیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجائے نماز پڑھنے کے اس مسجد کو گرا کر وہاں پائخانہ ڈالنے کا حکم دیا۔ معالم) اور غرض یہ بتلاتے ہیں کہ ہمارے گائوں کے مسلمانوں کو بارش وغیرہ میں دور جانے سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے قریب ہی مسجد بنا لی گئی ہے ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لی جایا کرے گی مگر دل میں ان کے یہ شرارت ہے کہ جو مسلمان اس مسجد میں آویں گے ان کو وقتاً فوقتاً شبہات ڈالا کریں گے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدظن کرنے میں کوشش کریں گے تاکہ ان مسلمانوں کا جتھا ٹوٹ جائے جس سے ان کی ترقی میں فرق آجائے مگر نالائق یہ نہیں سمجھتے کہ اصل معاملہ تو اس جبار قہار اللہ تعالیٰ سے ہے جو ہمارے دلوں کے منصوبوں سے ہمارے دلوں میں آنے سے پہلے مطلع ہے اور اگر ان سے پوچھو تو فوراً حلف اٹھا جائیں گے کہ ہمیں محض بھلائی اور نکوکاری کا خیال ہے اور کوئی بدخیال نہیں اور اللہ خود گواہی دیتا ہے کہ وہ اس بیان میں جھوٹے ہیں پس تو اس مسجد میں کبھی بھی نماز کے لئے کھڑا نہ ہوجائیو جس مسجد کی بنیاد پہلے روز سے قباء کے گائوں میں خالص نیت پر اٹھائی گئی ہے اس میں نماز کے لئے تیرا کھڑا ہونا ہر طرح سے مناسب بلکہ انسب ہے کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں اور اللہ پاکیزگی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے کیا یہ بات کوئی پوشیدہ ہے کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا جوئی پر رکھی ہے وہ اچھا ہے جس نے گرنے والے کفر و شرک ریاکاری کے کنارے پر اپنی نیو رکھی پس نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس کو بھی جہنم میں لے گرے وہ اچھا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ پہلا شخص ہی اچھا ہے مگر یہ لوگ سمجھتے نہیں اور اللہ ایسے ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں کرتاکہ ان کو اپنے برے اعمال کی برائی سمجھ میں آئے گو تم نے ان کی مسجد کو گرا دیا ہے جو بنیاد انہوں نے اٹھائی تھی اس کے گرائے جانے کا رنج ان کے دلوں میں ہمیشہ تک رہے گا اور اپنی ناکامی پر ہمیشہ متاسف رہیں گے مگر جب ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے اور ان کا گوشت جانوروں کو ڈالا جاوے تو اس رنج سے صاف ہوں گے ورنہ نہیں یہ بھی شرارتوں سے باز نہ آویں گے اور اللہ بذات خود بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے وہ ہمیشہ تم کو ان کے بدارادوں سے اطلاع دیتا رہے گا اور اپنی حکمت کاملہ سے ان کی شرارتوں کا دفعیہ کرتا رہے گا اگر ان میں ایمان ہوتا تو اس امر سے ان کو رنج کبھی نہ ہوتا مومن کی شان نہیں کہ خدائی احکام سے ناراض ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جان اور مال سب کے سب جنت کے عوض خریدے ہوئے ہیں دراصل یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ اس نے خریدے ہیں ورنہ وہ ہیں کس کے؟ اسی کے سنو ! لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الآرْضِ جب ہی تو مومن اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور کھلے جی سے اللہ کی راہ میں کافروں سے لڑتے ہیں تو کئی ایک کو مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ایسے نیک کاموں پر انعام دینے کا اس نے توریت انجیل اور قرآن وغیرہ کتب میں وعدہ کیا ہوا ہے اور اللہ سے بڑھ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ وہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا اور مسلمانوں کو جو اس کی رضا جوئی کے لئے کام کرتے ہیں نیک عوض دے گا پس تم مسلمانو ! اپنے سودے سے جو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہیں خوشی منائو کیونکہ اس میں سراسر تم کو فائدہ ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے جن مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کے مال و جان خرید لئے ہیں ان کی پہچان کی نشانی ایک تو یہی ہے جو مذکور ہوئی کہ وہ وقت پر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر اس نشان کا ظہور تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک نشان ہیں جو ہر وقت ان میں دیکھے جاتے ہیں یعنی یہ کہ وہ ہر وقت اپنے گناہوں پر توبہ کرنے والے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے ہوئے اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے دینی کاموں کے لئے سفر کرنے والے رکوع سجود کرنے والے یعنی نماز کے پابند لطف یہ کہ بعض جاہل مدعیوں کی طرح تبلیغ احکام سے خاموش نہیں رہنے والے بلکہ نیکیوں کے کام بتلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ایسے بھی نہیں کہ لوگوں کو تو وعظ و نصیحت کریں اور خود کو فضیحت کر کے چوں بخلوت میر و ندآں کاردیگر میکنند کے مصداق ہوں۔ بلکہ خود بھی عامل اور اللہ کے حکموں کی حفاظت کرنے والے ہیں یہ ہیں وہ مومن جنہوں نے اللہ سے سودا کیا ہے جو اپنے سودے میں بڑے نفع میں ہیں تو بھی ان کی خاطر کیا کر اور ان مومنوں کو خوشخبری سنا کہ تم نے اپنے سودے میں اتنا نفع پایا ہے کہ کسی یورپ اور امریکہ کے سوداگر نے بھی آج تک نہیں پایا چونکہ مومنوں کی جان و مال اللہ تعالیٰ کے ہوچکے ہیں اس لئے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ہٹے ہوئے ہیں ان سے ان کو ہٹ رہنا چاہئے پس نبی اور مومنوں کی شان سے بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے حق میں بخشش مانگیں گو وہ قریبی ہوں جب کہ ان کو معلوم ہوچکے کہ وہ کفر ہی پر مرنے کی وجہ سے جہنمی ہیں قرابت کا حق بھی جب ہی تک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخالف نہ ہو اور اگر یہ خیال ہو کہ ہمارے بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ مشرک کے لئے بخشش کی دعا کی تھی تو سنو ! ابراہیم کی دعا مشرک باپ کے لئے وعدہ کی وجہ سے تھی جو اس سے کرچکا تھا کہ میں تیرے لئے بخشش مانگوں گا یعنی ابراہیم ( علیہ السلام) کی دعا ایفاء عہد کی وجہ سے تھی ابراہیم ( علیہ السلام) نے سمجھا کہ میں اپنا وعدہ ایفا کر دوں ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے بخشش کا اہل بنا دے مگر وہ کفر ہی پر مر گیا پھر جب اس کے مرنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن اور اس کی توحید سے منکر ہے یعنی کفر و شرک کے عقیدے پر مرا ہے تو ابراہیم ( علیہ السلام) اس سے بیزار ہوگیا اور دعا بھی چھوڑ دی لیکن اس کے مرتے دم تک نہیں چھوڑی کیونکہ ابراہیم ( علیہ السلام) بڑا ہی نرم دل اور بردبار تھا یہ اسی کا حوصلہ تھا کہ باپ سے ایسی ایسی سختیاں دیکھ کر بھی اس کی خیر اندیشی اور دعا گوئی میں لگا رہا اور اگر یہ شبہ ہو کہ ان مشرکوں پر ایسی خفگی کیوں ہے ان کو اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کردیتا تو وہ بھی ہدایت یاب ہوجاتے تو سنو ! اللہ کی شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت کے سامان آئے بعد گمراہ قرار دے یعنی ان پر گمراہی کا قطعی حکم لگا دے جب تک ان کو ان امور سے مفصل اطلاع نہ دے جن سے ان کو بچنا ہو یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی کوئی رسول یا ہادی ہدایت کے لئے آتا ہے تو جو لوگ اس کی بے فرمانی کرتے ہیں اور بضد اس سے پیش آتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی کا قطعی حکم لگایا جاتا ہے مگر ایسی جلدی بھی نہیں بلکہ اچھی طرح سے جب احکام الٰہی ان کو واضح طور پر معلوم کرائے جاتے ہیں اور وہ ان کو سمجھ لیتے ہیں پھر جو کوئی جس قابل ہوتا ہے اس سے وہی معاملہ کیا جاتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کی کل حکومت اللہ کے قبضے میں ہے وہی زندگی بخشتا اور مارتا ہے اور اس کے سوا تمہارا کوئی بھی والی وارث اور حامی مددگار نہیں یہ بھی اللہ کی مہربانی کی دلیل ہے کہ اس نے اپنے نبی پر اور مہاجروں اور انصار پر مہربانی سے توجہ کی جو مشکل سے مشکل وقت میں (جب کہ بعض مسلمانوں کے دل نبی کا ساتھ دینے سے ڈگمگا چکے تھے) نبی کے ساتھ رہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے سابق اخلاص کی وجہ سے ان کو توفیق خیر عنایت کی کہ وہ نبی کا ساتھ دینے سے پھسلے نہیں پھر ان پر متوجہ رہا کہ وہ اس توفیق سے اس کام کو انجام دے سکیں کیونکہ وہ اللہ ان کے حال پر بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے اور ان تینوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور توبہ قبول کی جن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی انتظار میں اس وقت تک ملتوی کیا گام تھا جس وقت بوجہ نفرت قوم کے زمین ان پر تنگ ہوگئی باوجودیکہ اور لوگوں پر فراخ تھی اور وہ اپنی جان سے بیزار ہوگئے اور سمجھے کہ اللہ سے بھاگ کر اسی کے پاس پناہ ہے اور کہیں نہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ مبذول کی اور ثابت قدمی بخشی کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے (شان نزول (وعلی الثلثۃ) جنگ تبوک چونکہ سخت گرمی کے موسم میں ہوئی تھی منافقوں اور خود غرضوں نے تو ایسی تکلیف شدید میں پیچھے رہنا ہی تھا بعض مخلص بھی بلاوجہ متخلف رہے جن میں سے بعض کے عذرات سن کر تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معافی دے دی مگر کعب بن مالک۔ مرارہ بن ربیع۔ و ہلال بن امیہ (رض) نے خود حاضر ہو کر عرض کردیا کہ ہمارا کوئی عذر نہیں تھا بلکہ ہم بلاکسی عذر کے محض غفلت سے کہ آج نکلتے ہیں کل نکلتے ہیں شرف ہمرکابی سے بے نصیب رہے اور اگر کوئی شخص آپ کی جگہ ہوتا تو اسے راضی کرلینا ہم پر مشکل نہ تھا مگر آپ کے روبرو ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ آپ اللہ کے رسول ہیں لہٰذا آپ سے معاملہ گویا اللہ تعالیٰ سے ہے اس پر آپ نے بھی ان کو معافی نہ دی بلکہ ان کا مقدمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ حکم دے گا تم سے کیا جاوے گا اور تمام لوگوں کو ان سے گفتگو کرنے سے منع کردیا۔ حتی کہ ان کی عورتیں بھی ان سے نہ بولتی تھیں چنانچہ اس حکم پر پورے پچاس روز تک تعمیل ہوئی مگر ان صاحبوں نے بھی اس تکلیف کو نہایت جوانمردی اور استقلال سے نباہا اس مدت میں کئی ایک واقعات ایسے بھی پیش آئے جن میں معمولی قوت اور ایماندار کا ثابت قدم رہنا مشکل تھا مگر ان کامل ایمانداروں نے سب کو ثابت قدمی سے عبور کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔) وہ اپنے بندوں کی تھوڑی سی توجہ پر متوجہ ہوتا ہے لیکن جو ضد اور ہٹ پر اڑے رہتے ہیں وہ اس کو نہیں بہاتے اسی لئے اس کا عام حکم ہے کہ مسلمانو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں اور راست گوئوں کا ساتھ دیا کرو جو کوئی جتنی کوشش اور جتنے کام میں حق بجانب ہو اسی قدر اس کے ساتھی بن جایا کرو جب کسی دوسرے کام میں وہ کجروی اور ناراستی اختیار کرے تو اس سے علیحدہ ہوجائو اسی بناء پر اہل مدینہ اور ان کے گرد والے دیہاتیوں کو مناسب نہیں کہ جنگ میں جو بالکل راستی اور حفاظت قومی پر مبنی ہے رسول اللہ کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹ رہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ اللہ کا رسول تو میدان جنگ میں ہو اور یہ لوگ اس کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جان کی فکر کریں اور میدان میں جانے سے رک رہیں یہ حکم اس لئے ہے کہ ایک تو وہی وجہ جو اوپر مذکور ہوئی ہے دوم یہ کہ اس میں انہی کا فائدہ ہے کیونکہ جو کچھ بھی بھوک پیاس محنت اور تکان اللہ کی راہ میں ان کو پہنچے گا اور جہاں ان کے قدم جائیں گے جس سے کافروں کو رنج ہو یعنی دارالکفر کو فتح کریں گے اور جو کچھ کافروں سے جنگ و جہاد میں لیں گے ان سب کے بدلے ان کے حق میں نیک عمل لکھے جائیں گے خواہ ان کاموں پر ان کو دنیاوی فائدہ بھی کسی قدر ہو مگر اس سے دینی فائدہ ان کا ضائع نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا اور بھی علی ہذا القیاس جو کچھ تھوڑا بہت جنگی ضرورتوں میں خرچیں گے اور جو میدان اس سفر میں چلتے ہوئے طے کریں گے یہ سب کچھ ان کے اعمالنامہ میں ان کے لئے لکھا جاوے گا تاکہ اللہ ان کو ان کے کاموں سے بہتر بدلہ عنایت کرے یعنی اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اعمال سے بڑھ کر ثواب دے گا پس تم قومی کاموں میں چستی کیا کرو مناسب نہیں کہ متفرق متفرق رہو اور نہ یہ مناسب ہے کہ مسلمان سارے کے سارے ہی اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھوکی فوج کی طرح جمع ہو رہیں۔ نہیں بلکہ ہر ایک کام مناسب اعتدال سے ہونا چاہیے پس ایسا کیوں نہ کریں کہ ہر ایک قوم سے چند آدمی آئیں اور رسول اللہ کی خدمت میں رہیں تاکہ دین کی باتوں اور اسرار شریعت میں سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم میں جائیں تو ان کو سمجھائیں تاکہ وہ بھی برے کاموں سے بچتے رہیں اور نیک کاموں میں راغب ہوں ہاں جب جنگ کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت تعداد میں نکلا کرو اور خوب ہاتھ دکھائو مگر جہاد میں بھی یہ قانون یاد رکھو کہ قرب و جوار میں بغل کا دشمن چھوڑ کر دور نہ جانا چاہئے اسی لئے تم کو تاکیدی حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! جو تمہارے قریب قریب کافر بغل کے سانپ ہیں ان سے پہلے لڑو جب ان سے نمٹ لو پھر آگے بڑھو اور ایسے ڈٹ کر لڑو کہ ان کو بھی تمہاری مضبوطی معلوم ہو اور جان رکھو کہ اللہ کی مدد پرہیزگاروں کے ساتھ ہے جو اس کے ہو رہتے ہیں اور سب کام اسی کی سپرد کردیتے ہیں وہ ان کی پوری مدد کرتا ہے اور جو اس سے ہٹ رہتے ہیں اور غرور اور سرکشی میں زندگی گذارتے ہیں جیسے تیرے زمانہ کے منافق ان کی دونوں جہانوں میں مٹی خراب دونوں سے گئے پانڈے نہ حلوا ملا نہ مانڈے یہ کچھ ایسے ساہ دل ہیں کہ ان کو کوئی بات اور کوئی طریقہ ہدایت نہیں کرسکتا بھلا کرے بھی کیسے جب کہ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے بلکہ توجہ دلانے والوں سے بگڑ جاتے ہیں التوبہ
108 التوبہ
109 التوبہ
110 التوبہ
111 التوبہ
112 التوبہ
113 التوبہ
114 التوبہ
115 التوبہ
116 التوبہ
117 التوبہ
118 التوبہ
119 التوبہ
120 التوبہ
121 التوبہ
122 التوبہ
123 التوبہ
124 (124۔129) اور جب کوئی سورت یا آیت قرآنی نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض منافق ہنسی کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہتے ہیں میاں سنا ہے قرآن سے ایمان بڑھتا اور تازہ ہوتا ہے کہو تو آج اس سورۃ نے کس کا ایمان بڑھایا ہے کہ وہ بالشت سے گز کو پہنچ گیا ہو نادان نہیں جانتے کہ جو ایماندار ہیں انہی کا ایمان سورت بڑھاتی ہے یعنی انہی کو توفیق خیر ملتی ہے اور وہی خوشی کرتے ہیں اور جن کے دلوں میں ناپاک باطنی اور دو روئی کی بیماری ہے ان کو خباثت پر خباثت اور بڑھاتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بدذاتیاں کرتے رہتے ہیں اور کفر ہی میں مرتے ہیں غرض یہ کہ قرآن کی مثال بھی بالکل بارش کی طرح ہے باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست درباغ لالہ روئد در شورہ بوم و خس کیا یہ منافق چالباز اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تحقیر کرنے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہر سال ایک دو دفعہ ان کو تکلیف پہنچ رہتی ہے پھر بھی نہ تو توبہ کرتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں بلکہ بجائے توبہ کے الٹے اکڑتے ہیں اور جب کوئی قرآنی سورت ان کی موجودگی میں اترتی ہے جس میں ان کے بداعمال کا اظہار یا اللہ کی راہ میں خرچنے کا ذکر ہوتا ہے تو ایک دوسرے کی طرف نظر کر کے اشاروں سے کہتے ہیں کہ کوئی تم کو نہیں دیکھتا اٹھو چلو پھر فوراً چل دیتے ہیں ایسے بے پرواہ ہیں گویا کسی حکم کی تعمیل کی ان کو حاجت نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیا ہے کیونکہ یہ لوگ دانستہ اللہ کے احکام کو نہیں سمجھتے اپنی حالت اور آئندہ ضرورت پر فکر نہیں کرتے ان کو کوئی اتنا بھی نہیں سمجھاتا کہ دیکھو تمہارے پاس تم ہی میں سے اللہ کا رسول آیا ہے وہ ایسا شفیق اور مہربان ہے کہ اس پر تمہاری تکلیف شاق گذرتی ہے تمہاری بھلائی کا حریص ہے ہر وقت اس کو یہی فکر ہے کہ تمہارا بھلا ہو اور تم دینی اور دنیاوی ترقی کی معراج پر پہنچو اور ایمانداروں کے حال پر نہایت درجہ شفیق اور مہربان ہے پھر بھی اگر وہ منہ پھیریں تو تو کہہ دیجیو کہ اللہ مجھ کو کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود اور حامی مددگار نہیں اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے یعنی اسی کی حکومت عامہ ہے اور کسی کی نہیں۔ پس لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو ۔۔۔۔۔۔ التوبہ
125 التوبہ
126 التوبہ
127 التوبہ
128 التوبہ
129 التوبہ
0 یونس
1 (1۔14) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا سچ سمجھو کہ یہ سورت باحکمت کتاب یعنی قرآن کے حکم ہیں جو لوگ ان کو نہیں مانتے تو کیا ان لوگوں کو اس امر سے تعجب ہوا ہے کہ ہم (اللہ) نے ان میں سے ایک آدمی پر یہ الہام کیا ہے کہ تو لوگوں کو برے کاموں پر عذاب سے ڈرا اور جو لوگ تیری تعلیم پر ایمان لاویں ان کو خوشخبری سنا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بڑی عزت ہے اتنی ہی بات پر کافر کہنے لگے کہ یہ شخص صریح جادوگر ہے کیونکہ جو اس کی مجلس میں جاتا ہے اسی کا ہوجاتا ہے سنو ! جس تعلیم کی طرف یہ بلاتا ہے وہ تمہارے پروردگار مالک الملک کی عبادت کی تعلیم ہے لوگو ! تمہیں کیا ہوا کہ ایسے مالک الملک سے ہٹے جا رہے ہو سنو ! کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار جس کی طرف تم کو رسول بلاتا ہے وہ ذات پاک ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دنوں میں بنائے ہیں پھر حکومت کے تخت پر بیٹھا اور سب پر مناسب حکمرانی کرتا ہے وہی احکام جس طرح چاہتا ہے جاری کرتا ہے اس کی جناب میں بغیر اذن کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا یہ اللہ جو موصوف بہمہ صفات ہے تمہارا رب ہے پس تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کرو کیا پھر بھی تم سمجھتے نہیں ہو کہ جو خالق نہیں وہ معبود کیسا؟ سنو ! اسی کی طرف تم نے پھرنا ہے تمہاری جزا سزا دینے کے متعلق اللہ کا وعدہ سچا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور عمل اچھے کئے ان کو بعد موت انصاف سے پورا پورا بدلہ دیوے کہ جو انہوں نے نیک کام کرنے میں ظالموں سے تکلیفیں اٹھائی ہیں ان کا عوض ان کو ملے اور جو کافر ہیں ان کو کھولتا ہوا پانی اور ان کے کفر کی پاداش میں دردناک عذاب ہوگا وہ تمہارا پروردگار جانتے ہو کون ہے وہی ہے جس نے آفتاب کو بذاتہ چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو سورج سے مستفیض روشن اور چاند کی منزلیں ٹھہرائیں جن سے اس کی ترقی و تنزل معلوم ہو کبھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے کبھی گھٹتا ہوا تاکہ تم اور فوائد کے علاوہ جو نظام عالم میں اس سے وابستہ ہیں یہ فائدہ بھی لو کہ اس کے ذریعہ سے سالوں کا شمار اور معمولی کاروبار میں تاریخوں کا حساب جان لیا کرو اس قمری حساب سے گو موسموں کا اندازہ نہیں ہوسکتا مگر اس میں شک نہیں کہ قدرتی ہونے کی وجہ سے آسان ہے کیونکہ کسی آدمی کی صنعت کو اس میں دخل نہیں اگر تمام دنیا کی جنتریوں کو اور جنتریاں بنانے والوں کو معدوم فرض کریں تو یہی قمری تاریخ ہے جو اپنا ثبوت دے سکتی ہے شمسی نہیں دے سکتی اسی لئے تم عرب کے لوگوں کو اسی تاریخ کی تعلیم دی گئی ہے۔ سنو ! اللہ نے اس مخلوق کو عبث نہیں بنایا بلکہ ضروری فوائد اور نتائج حقہ کے لئے بنایا ہے جو لوگ کچھ علم رکھتے ہیں ان کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے احکام اور دلائل مفصل بتلاتا ہے کیا آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش جو اپنی ضخامت کی وجہ سے سب سے بڑے ہیں کم ہے؟ نہیں بے شک رات اور دن کے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں میں پیدا کیا ہے اس سب میں پرہیزگاروں کے لئے کئی ایک نشان ہیں مگر جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر خوش اور مسرور ہو بیٹھے ہیں اور اسی دنیا ہی پر مطمئن ہیں اور جو ہمارے نشانوں سے غافل ہیں ان کے بد اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جس سے کبھی بھی مخلصی نہ پاویں گے ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی طرف راہ نمائی کرے گا نعمتوں کے باغوں میں ان کے مکانوں کے تلے نہریں جاری ہوں گی اس نعمت کے شکریہ میں ان باغوں میں ان کی آواز اور پکار سبحانک اللہم ہوگی (اے ہمارے اللہ تعالیٰ تو پاک ہے) اور فرشتوں کی جانب سے ان کا تحفہ ان باغوں میں سلام ہوگا اور مجلس کی برخاستگی کے وقت ان کی آخری بات ہوگی الحمدللہ رب العلمین (سب تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہیں) یہ دنیا ساز کم بخت کرتے کراتے تو کچھ بھی نہیں بھلائی کے بڑے خواہشمند ہیں اور اگر اللہ ان لوگوں کو بداعمالی پر ان کو برائی پہنچانے میں جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی جلدی چاہتے ہیں تو ان کی اجل اور موت کا ابھی فیصلہ ہوجاتا یعنی ایک دم بھی زندہ چھوڑنے کے قابل نہیں ہیں مگر پھر بھی ہم (اللہ) بوجہ اپنے کمال علم اور بردباری کے ایسا نہیں کرتے بلکہ جو لوگ ہمارے ملنے سے بے ڈر ہیں ہم ان کو سرکشی میں چھوڑ دیتے ہیں ایسے کہ حیران و پریشان پھرتے ہیں یہ بھی تو ایک بے ایمانی اور بے امیدی کی بات ہے کہ جب نالائق آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کروٹ پر لیٹا ہوا اور بیٹھا اور کھڑا غرض ہر طرح سے ہم کو پکارتا ہے مختصر یہ کہ ان کا حال بھی وہی ہوتا ہے جو کسی صاحب دل نے کہا ہے عام اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بایزید شوند پھر جب ہم اس سے تکلیف ہٹا دیتے ہیں تو ایسا اکڑکر چلتا ہے گویا ہم کو اس نے کسی تکلیف کے لئے جو اسے لگی تھی کبھی پکارا ہی نہیں تھا وہی شرارتیں وہی بدذاتیاں جو پہلے تھیں پھر کرنے لگ جاتا ہے بدمعاش یہ نہیں جانتا کہ جس شیر کے پنجے میں میں پہلے پھنسا تھا اب بھی اس میں پھنس جانا ممکن ہے جس طرح ایسے لوگوں کو ایسی خود غرضی بیلگ معلوم ہوتی ہے اسی طرح حد عبودیت سے تجاوز کرنے والوں کو ان کے کام بھلے اور سجے ہوئے معلوم ہوتے ہیں پس گھبرائو نہیں ہم تمہاری خوب گت بنائیں گے اور تم سے پہلے کئی ایک جماعتوں کو ہم نے ہلاک کیا جب وہ ظلم پر مصر اور بضد ہوئے اور ان کے پاس ان کے رسول کھلے نشان لے کر آئے اور وہ اپنی شرارت پر ایسے اڑے کہ ایمان لانے اور حقانی تعلیم کے ماننے پر انہوں نے رخ بھی نہ کیا اسی طرح مجرموں کی قوم کو ہم سزا دیا کرتے ہیں کہ جب وہ ظلم کی وجہ سے کفر پر اصرار کرتے ہیں تو ہم ان کو ہدایت سے بے نصیب کردیتے ہیں پھر ان سے پیچھے ہم نے تم موجودہ نسل انسانی کو زمین پر ان کے جانشین بنایا تاکہ تمہارے کام بھی دیکھیں اور تمہاری لیاقت بھی لوگوں پر ظاہر کریں چنانچہ ہو رہی ہے کہ قرآن کے مقابلہ پر جہالت کی باتیں کرتے ہیں یونس
2 یونس
3 یونس
4 یونس
5 یونس
6 یونس
7 یونس
8 یونس
9 یونس
10 یونس
11 یونس
12 یونس
13 یونس
14 یونس
15 (15۔30) اور جب ہمارے کھلے کھلے احکام ان کو سنائے جاتے ہیں تو جو لوگ ہماری ملاقات کا یقین نہیں رکھتے کہتے ہیں اس قرآن میں تو ہمارے معبودوں کی مذمت اور برائی مذکور ہے اس کے سوا اور کوئی کتاب لا۔ یا اس کو تھوڑا سا بدل دے یعنی اتنا حصہ جو ہماری عبادت اور رسوم کی برائیوں پر مشتمل ہے کاٹ ڈال اس کا سننا ہماری طبیعت برداشت نہیں کرتی اے نبی تو ان نادانوں سے کہہ میری طاقت نہیں کہ میں کوئی اور کتاب لائوں یا اپنے پاس سے اسے بدل ڈالوں میں تو صرف اسی امر کی تابعداری کرتا ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے پیغام پہنچتا ہے اس میں میرا ذرہ بھر بھی اختیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بے فرمانی کرنے پر بڑے دن کے عذاب کا مجھے بھی خوف ہے تو یہ بھی ان کو کہہ کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں نہ سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس سے آگاہ کرتا بلکہ اسی جہالت میں تم رہتے اور اسی میں تباہ ہوجاتے یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تم کو علم سکھایا تم میں رسول بھیجا ورنہ اس سے پہلے میں تم میں مدت دراز تک ٹھہرا ہوں کبھی میں نے اس قسم کا کوئی دعوی ٰنہیں کیا جس میں میں جھوٹا ہوں کیا تم سمجھتے نہیں پھر بتلائو جو اللہ پر افترا باندھتے ہیں یا اس کے حکموں کو جھٹلاتے ہیں ان سے بھی بڑھ کر کوئی ظالم ہے؟ کوئی نہیں یقینا یہی لوگ بڑے ظالم اور بدکار ہیں کچھ شک نہیں ایسے بدکار کبھی کامیاب نہ ہوں گے انکی بدکاری اور ظلم یہ ہے کہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو پوجتے اور دعائیں کرتے ہیں جو نہ تو ان کو نفع دیں اور نہ نقصان اور منہ سے جھوٹا عذر کرنے کو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں ہمارے معبود حقیقی نہیں بلکہ اللہ کی جناب میں ہمارے سفارشی ہیں کیسا غلط عذر ہے بھلا اگر یہ صحیح بھی ہو کہ سفارشی ہیں تو کیا سفارشی کی عبادت کرنی جائز ہے؟ سفارشی کے معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے لئے دعا کریں اور تمہاری نجات چاہیں یہ معنی جو سفارشی کے انہوں نے گھڑ لئے ہیں کہ اسی کی عبادت پہلے کی جائے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کو شریک سمجھا جاوے انوکھے شرک آلودہ معنے ہیں تو کہہ اور تو اور کیا تم اللہ کو بھی ان باتوں کی خبر بتلاتے ہو جن کو وہ آسمانوں اور زمینوں میں نہیں جانتا یعنی تمہارا یہ عقیدہ دنیا کے واقعات میں نہیں ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں نہیں کیونکہ اس کا علم واقعات صحیحہ پر محیط ہے غلط پر نہیں مثلاً دو۔ دو نے چار بوجہ صحیح ہونے کے اللہ کے علم میں ہے مگر دو دو نے پانچ جھوٹ ہونے کی وجہ سے اللہ کے علم میں نہیں پس وہ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور بہت بلند ہے ان کی بے ہودہ گوئی کا غبار بھی اس کے دامن قدس تک نہیں پہنچتا اور ان کی نادانی دیکھو کہ ایسی تعلیم سے بھی منکر ہیں جس پر کسی زمانے میں سب لوگ متفق اور ایک ہی گروہ تھے یعنی سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت اور بھگتی کرتے تھے جو عین مذہب اسلام ہے پیچھے مختلف ہوئے بعض مومن رہے اور بعض کافر ہوگئے اور اگر تیرے رب کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا کہ دینی امور میں جبر کرنا جائز نہیں تو جن امور میں ان کو اہل حق سے اختلاف ہے ان میں مدت سے ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا اور دنیا ہی میں ان کو مزہ چکھا دیا جاتا تھا ظالموں کو اور بات تو کوئی ملتی نہیں بہانہ جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کیوں اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی غیبی نشان نہیں اتارا گیا یعنی آئندہ واقعات کے متعلق کوئی پیش گوئی کرے جو وقت پر صادق ہو تو کہہ کہ کل علم الغیب اللہ ہی کے پاس ہے جتنا کچھ وہ کسی بندے کو چاہے دے بندے کا اس میں اختیار نہیں پس تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں جب چاہے گا بتا دے گا اس کی حکمت کو وہی جانتا ہے ان کی تو یہی عادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بہانوں سے ٹلانا چاہتے ہیں یہ اہل مکہ تو کیا عام طور پر لوگوں کی یہی عادت ہے کہ مطلب کے لئے ہمارے بن جاتے ہیں اور جب ہم ان لوگوں کو بعد تکلیف پہنچنے کے کشائش دیتے ہیں تو بس فوراً ہی ہمارے حکموں کی مخالفت میں چال بازیاں اور حیلہ سازیاں کرتے ہیں کہ کسی طرح سے ہم محکوم اور دبیل نہ رہیں اور حکم اللہ کریم ہمارے کانوں تک نہ پہنچیں ان کے روکنے کی عجیب عجیب تدبیریں سوچتے ہیں تو ان سے کہہ اللہ کا دائو بڑا تیز ہے وہ جس وقت تمہیں پکڑنا چاہے گا ایک آن مہلت نہ دے گا نہ کوئی تمہیں اس سے بچاسکے گا جو کچھ بھی تم فریب اور دائو کرتے ہو ہمارے یعنی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ فرشتے لکھ رہے ہیں سنو ! تمہیں ہوا کیا ہے جو تم اسلام سے انکار کر رہے ہو اسلامیوں کا اللہ تعالیٰ تو وہی اللہ تعالیٰ ہے جو جنگلوں اور دریائوں میں تمہیں سیر کراتا ہے اسی کی قدرت سے تم جنگلوں میں اور دریائوں میں پھر آتے ہو اور جب تم جہازوں پر ہوتے ہو اور وہ جہاز اپنے سواروں کو موافق ہوا کے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور وہ اس ہوا کی موافقت سے خوب شاداں و فرحاں ہوتے ہیں تو اتنے میں ان پر سخت تیز ہوا کا جھونکا آلگتا ہے اور ہر طرف سے پانی کی لہریں ان پر چڑھ آتی ہیں اور وہ جان جاتے ہیں کہ ہم بلا میں گھرے تو اللہ سے خالص دعائیں مانگتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ اگر تو ہم کو اس بلا سے نجات دے گا تو ہم شکر گذار بنیں گے پھر جب وہ ان کو اس بلا سے نجات دیتا ہے تو خشکی کے حصہ زمنر پر پہنچتے ہی وہی ناحق کے فساد کرنے لگ جاتے ہیں لوگو ! تمہارے فساد اور بداعمالی تم ہی پر وبال ہوں گے دنیا کی چند روزہ زندگی میں عیش کرلو۔ پھر آخر ہماری طرف ہی تم کو واپس آنا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو ہم تم کو بتلا دیں گے بلکہ مناسب جزا و سزا بھی دیں گے جس دنیا کے عیش و عشرت میں تم پھنسے ہو اس کی کچھ کیفیت اور حقیقت بھی تم کو معلوم ہے؟ سنو دنیا کی زندگی تو بس پانی کی سی ہے جو ہم اوپر سے بارش کے ذریعہ اتارتے ہیں پھر اس کے ساتھ زمین کا سبزہ گہن ہوجاتا ہے جسے آدمی اور چارپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین اپنی خوبصورتی اور زینت میں کمال کو پہنچتی ہے اور اس کے مالک سمجھتے ہیں کہ اب یہ کھیتی ہمارے بس میں ہے اور ہم چند روز تک اسے قبضے میں کرنے کو ہیں تو وہ اس خیال میں ہوتے ہیں کہ ناگاہ ہمارے غضب آلود حکم رات کو یا دن کو اس پر پہنچ جاتا ہے پس ہم اس کا ایسا ستھرائو کردیتے ہیں کہ گویا کل اس کا نام و نشان نہ تھا ٹھیک اسی طرح انسان اپنی جوانی اور مال کی مستی میں ہوتا ہے اور فرعونی دماغ سے کسی تکلیف کا اندیشہ بلکہ وہم تک بھی اسے نہیں ہوتا کہ ناگاہ اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر ایسا ٹوٹ پڑتا ہے کہ الامان ” دیر گیرو سخت گیرد“ اپنا پورا جلویٰ دکھاتا ہے تمام آرزوئیں اور امنگیں دل کی دل ہی میں کفن کے اندر سینہ میں بند کئے ہوئے لے جاتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کسی اہل دل نے کیا اچھا کہا ہے برہ بگور غریبان شہر سیرے کن ببیں کہ نقش املہاچہ باطل افتاد ست اسی طرح سوچ بچار کرنے والوں کے لئے ہم اپنے دلائل قدرت تفصیل سے بتلاتے ہیں تاکہ دانا سمجھیں اور نتیجہ پاویں گو اس تفصیل میں کسی کی خصوصیت نہیں ہوتی مگر بدنصیب لوگ جو اس سے فائدہ نہ اٹھاویں تو کس کا قصور ورنہ ہم میں تو بخل نہیں اور اللہ سب کو دار سلامت یعنی سعادت کے گھر جس کا نام جنت ہے اس کی طرف بلاتا ہے کوئی آئے سب کے لئے دروازہ کھلا ہے در فیض سعادت واہے آئے جس کا جی چاہے نہ آوے آپ کو کافر بنائے جس کا جی چاہے اور اللہ ہی جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی راہ نمائی کردیتا ہے جو اس کے ہو رہتے ہیں ان کو مزید ترقی عنایت کرتا ہے اور جو ہونے کا قصد کرتے ہیں ان کو توفیق خیر دیتا ہے جن لوگوں نے نیکی کی راہ اختیار کی ہے ان کے لئے نیکی اور ان کے اعمال کے اندازہ سے بڑھ کر زیادت بھی ہے اور ان کے چہروں پر سیاہی اور ذلت کا اثر جو مجرموں پر ہوگا ان پر نہ ہوگا یہی جنتی ہوں گے جو اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو بدکاریاں کرتے ہیں ان کی برائی کے برابر ان کی سزا یعنی گناہوں کی سزا میں زیادتی نہ ہوگی اور ان کے چہرے کو ذلت اور تیرگی ڈھانپے ہوئے ہوگی اللہ کے عذاب سے کوئی بھی ان کو بچانے والا نہ ہوگا سیاہی اور تیرگی ان پر ایسی غالب ہوگی کہ گویا سیاہ رات کا ایک حصہ ان کے چہروں پر ملا گیا ہوگا یہی یعنی ایسے بدکار جہنمی ہیں جو اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ان کو اس روز کی خبر سنا جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے خبردار تم اور تمہارے مصنوعی شریک اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو پھر ہم ان میں جدائی کردیں گے یعنی ایک کو دوسرے کے مقابل کھڑا کریں گے ایسے کہ باہمی سوال و جواب کرسکیں مشرک اپنے معبودوں سے امداد طلب کریں گے اور ان کے شریک ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو یونہی ہمارا نام بدنام کر رہے ہوتم ہماری عبادت نہ کرتے تھے کیونکہ ہم نے تو تمہیں کہا نہیں تھا اگر تم ایسے ہی ہمارے فدائی ہوتے تو ہماری تعلیم پر جو ہماری کتابوں میں عمل کرتے اور ہمیں بدنام نہ کرتے پس اللہ ہی ہمارے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے واللہ ہم تو تمہاری عبادت سے بھی بے خبر تھے جب یہ بات ہوگی تو وہاں ہر نفس اپنے اعمال کا اندازہ کرلے گا اور جان لے گا کہ اس نے کیا کانٹے بوئے تھے اور اپنے حقیقی مالک اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرے جائیں گے اور جو کچھ وہ دنیا میں بہتان اور افترا کر رہے ہیں وہ سب بھول جائیں گے یونس
16 یونس
17 یونس
18 یونس
19 یونس
20 یونس
21 یونس
22 یونس
23 یونس
24 یونس
25 یونس
26 یونس
27 یونس
28 یونس
29 یونس
30 یونس
31 (31۔56) گو بعض تیرے مخاطب اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کو کسی کی تنذیر اور تخویف کارگر نہیں ہوسکتی تاہم جہان سننے والوں سے خالی نہیں دوسرے بے ضد لوگوں کی ہدایت اور فائدے کے لئے تو ان سے پوچھ کہ تم کو آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے کون اوپر سے بارش کرتا ہے اور نیچے سے سبزیاں اگاتا ہے اور کون تمہاری قوت سمع اور قوت باصرہ پر قبضہ تام رکھتا ہے اور کون زندوں کو جاندار بنا کر مردوں یعنی بے جان منی کے نطفہ سے نکالتا ہے اور کون مردوں کو زندوں سے موت کے ذریعہ نکال لے جاتا ہے اور کون نظام عالم میں تمام احکام جاری کرتا ہے جس سے ہر ایک چیز اپنی اپنی حد پر آتی اور جاتی ہے ہمیشہ موسم اپنے وقت پر آتے ہیں کھیت اپنے وقت پر پکتے ہیں انگوریاں اپنے وقت پر نکلتی ہیں اگر ان سے یہ سوال ہوں تو فوراً کہہ دیں گے اللہ ہی سب کچھ کرتا ہے پس تو کہہ دیجو کہ پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں جس کے قبضے میں تمام کام ہیں اس کو چھوڑ کر اس کی مخلوق اور اس کے بندوں اور غلاموں سے اپنی حاجات مانگتے ہو سنو ! اللہ تعالیٰ فرما چکا قرآن کے اندر میرے محتاج ہیں پیر و پیمبر نہیں طاقت سوا میرے کسی میں کہ کام آوے تمہارے بے کسی میں بس یہی اللہ تمہارا حقیقی مربی ہے پس حق کو چھوڑنے کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں اسلام چھوڑ کر کسی طرف جائو گمراہی میں رہو گے جیسے وہ دو نے چار سے منکر ہو کر خواہ کوئی عدد اختیار کرو سب غلط ہیں پھر تم کدھر کو بہکے جا رہے ہو سمجھتے نہیں یاد رکھو اللہ تعالیٰ سے ڈرو ورنہ اس کا قانون یہ بھی ہے کہ وہ ایسے بے پرواہوں کو اپنی جناب سے دھتکار دیا کرتا ہے اے نبی اسی طرح تیرے رب کا حکم ان میں سے بدکاروں پر لگ چکا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے یعنی ان کی انتہائی بدکاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر محرومی کا حکم لگ چکا ہے اللہ تعالیٰ پناہ دے تو ان سے پوچھ کہ تمہارے بنائے ہوئے ساجھیوں میں سے بھی کوئی مخلوق کو پیدا کر کے محض اپنے حکم سے فنا کرسکتا ہے تو ان کے حسب منشاء خود ہی جواب میں کہہ کہ اللہ ہی مخلوق کو اول مرتبہ بے نمونہ پیدا کرتا ہے اور پھر اسے فنا بھی کردیتا ہے تو اب بتلائو تم ایسے اللہ مالک الملک کو چھوڑ کر کہاں کو الٹے جا رہے ہو تو یہ بھی ان سے پوچھ کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی حق کی راہ نمائی کرتا ہے یا کسی کو خود توفیق خیر دیتا ہے؟ تو کہہ اللہ تو حق کی راہ دکھاتا ہے پھر بعد اس کے کہیو کہ جو کوئی سچی راہ دکھاوے اس کا اتباع بہت مناسب ہے یا جو راہ نمائی نہ کرسکے بلکہ خود بھی اندھوں کی طرح بغیر دوسرے کی راہ نمائی کے ہدایت یاب نہ ہوسکے اس کا اتباع مناسب ہے؟ پھر ایسے واضح دلائل کے ہوتے ہوئے بھی تم کجروی کرتے ہو تمہیں کیا ہوگیا کیسی غلط رائے لگاتے ہو بدیہی اور یقینی امر کو چھوڑ کر اندھا دھند ایک دوسرے کے پیچھے چلے جا رہے ہیں اور ان میں کے اکثر لوگ صرف اٹکل پچو باتوں پر جن کا کوئی ثبوت نہیں چلتے ہیں محض سنی سنائی گپیں بزرگوں کی نسبت بہتان لگاتے ہوئے کہ فلاں پیر نے بارہ سال بعد ڈوبا ہوا بیڑا سلامت نکال لیا تھا فلاں بزرگ نے اپنی نیاز دینے والی کی درخواست پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف سات بیٹے دئیے تھے معاذ اللہ یہ ایسے من گھڑت قصے ہیں جن کا کچھ ثبوت نہیں بلکہ ان کی نقیض متحقق اور واقع ہے یقینی حالانکہ یقینی امور کے موقع پر محض اٹکل اور وہمی باتیں کچھ بھی سود مند نہیں ہوا کرتیں اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے ) یُعِیْدُہٗ کا ترجمہ میں نے فنا کیا ہے دوبارہ زندہ کرنے کا نہیں کیا اس لئے کہ ایک تو دوسری آیت وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ ان معنوں کی تائید کرتی ہے۔ دوم دلیل کفار کے معلمات پر مبنی ہے حالانکہ مشرکین دوبارہ زندگی کے قائل نہ تھے پھر دلیل کیسی؟ فافہم ( ایسے ایسے مضبوط دلائل سن کر بھی قرآن کو افترا اور مخلوق کی تصنیف کہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ یہ قرآن ایسی کتاب نہیں کہ اللہ کے سوا کسی مخلوق سے بنائی جائے لیکن اپنے سے پہلے واقعات اور پیشگوئیوں کی تصدیق ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ان پیشگوئیوں کا صدق ملتوی رہتا اور کتاب الٰہی یعنی ان الہامی مضامین کی جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وقتاً فوقتاً نازل فرمایا کرتا ہے تفصیل ہے جو مسائل کتب سابقہ میں بالاجمال تھے ان کو اس میں بالتفصیل بیان کردیا گیا ہے مختصر یہ کہ اس میں شک نہیں کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے ہے کیا سن کر بھی مشرک کہتے ہیں کہ اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن بنا لیا اور اپنے پاس سے بنا کر اللہ تعالیٰ کی نسبت لگا دیا ہے ان سے تو کہہ اس جیسی ایک سورت تو بنا لائو اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو اپنی حمایت کے لئے بلا لو اگر اس دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ قرآن بندے کی تصنیف ہے سنو ! افترا نہیں بلکہ وہ حق ہے مگر انہوں نے ناحق جہالت سے ان باتوں کی تکذیب کی ہے جن پر ان کا علم نہیں پہنچا یعنی اس کے اسرار اور غوامض کی تہہ تک تو پہنچے نہیں اور اس کی آئندہ خبروں کی انتہا تو ہنوز آئی نہیں بلا دیکھے انجام کی تکذیب پر مصر ہو بیٹھے ہیں اس طرح جلدی میں ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی پھر تو غور کر کہ ظالموں کا انجام کیا بد ہوا اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو دل سے تو اس قرآن کو مانتے ہیں گو ظاہر نہ کریں اور بعض ایسے بھی ہیں جو ضد میں آئے ہوئے ہیں کسی طرح نہیں مانتے تیرا کچھ حرج نہیں کیونکہ تیرا پروردگار مفسدوں کو خوب جانتا ہے اور اگر تیری نہ مانیں تو تو ان سے کہہ دے کہ جائو پڑے اپنا سر کھائو میرے کام مجھ کو ہیں اور تمہارے کام تم کو ہیں تم میرے کام سے بے تعلق ہو میں تمہارے کام سے الگ ہوں نہ تم کو میرے حال سے سوال نہ مجھ کو تمہارے حال سے پوچھ میرا کام صرف تبلیغ ہے سو میں کرچکا ہوں اور کرتا رہوں گا جب تک تم امن میں خلل انداز نہ ہو گے میں تمہارے دنیاوی احکام سے بھی متعرض نہ ہوں گا ان میں سے بعض لوگ تیری طرف بظاہر کان جھکاتے ہیں جس سے تو سمجھتا ہوگا کہ وہ سنتے ہیں اور تیرے پاکیزہ کلام سے متاثر ہوتے ہیں ) تسمع کے معنی سنانا ہے مگر اس کے ساتھ لا یعقلون کا لفظ بتا رہا ہے کہ اس کے معنی عام ہیں کیونکہ بہرہ اگر عقل مند ہو تو اشاروں سے سمجھ سکتا ہے اور جب عقل کی بھی نفی کی گئی تو معلوم ہوا کہ تسمع سے مراد عام فہم صرف سماع مراد نہیں۔ منہ ( مگر ایسا نہیں بلکہ خاص مطلب کے لئے کسی کے فرستادہ مجلس میں عیب جوئی کی نیت سے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو تیرے وعظ و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا کیا تو بہروں کو سمجھا سکے گا گو وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں بعض ان میں سے تیری طرف نظر پھاڑ پھاڑ کر حیرانی سے دیکھتے ہیں جس سے ان کی نیت صرف اظہار تعجب اور حقارت ہوتی ہے چنانچہ وہ کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہی شخص اس حیثیت کا آدمی ہمارے معبودوں کو کو سا کرتا ہے تو کیا تو اندھوں کو راہ نمائی کرنا چاہتا ہے گو وہ دانستہ نہ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع اور بینائی چھین لی ہے لیکن اس چھیننے میں اس نے ان پر کسی طرح سے ظلم نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر رتی بھر بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کی بتلائی ہوئی دوا سے جی چراتے ہیں مضرات پر جرأت کرتے ہیں تو وبال جان اٹھاتے ہیں اور ابھی تو ان کی اس دن عجیب حالت ہوگی جس روز ان کو اللہ تعالیٰ اپنے حضور جمع کرے گا عذاب کو دیکھ کر یہ ایسے مبہوت ہوں گے کہ دنیا کی ساری خرمستی اور عیش پرستی بھول جائیں گے ایسا سمجھیں کہ دنیا میں گویا ایک گھڑی دن سے زائد نہیں ٹھہرے تکالیف شاقہ کو دیکھ کر دنیا کی اتنی مدت دراز ان کو ایک گھڑی معلوم ہوگی ایک دوسرے کو جو بدکاریوں میں شریک ہوئے تھے پہچانیں گے اور آپس میں ملامت بھی کریں گے کہ تو نے مجھ سے برے کام کرائے وہ کہے گا تو نے مجھے برانگیختہ کیا اگر تو نہ ہوتا تو میں کبھی بھی اس بلا میں شریک نہ ہوتا سن لو ! کوئی بھی ہو جنہوں نے اللہ کی ملاقات سے انکار کیا قولاً ہو یا فعلاً تو یہ کہ صاف کہتے ہیں کہ ہم نے مر کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر نہیں ہونا عملاً یہ دنیا میں ایسے مست پھرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا ان کو خیال ہی نہیں وہی لوگ نقصان والے ہیں جو دنیا کی ہستی پر نازاں ہوئے اور کسی طرح سے ہدایت پر نہ آئے بھلا یہ جو تیرے مقابلہ پر اکڑتے ہوئے عذاب کے خواستگار ہوتے ہیں اور دیر لگنے پر تجھے سخت و سست سناتے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ اگر ہم اپنے موعودہ عذاب میں سے کچھ حصہ ان کو دنیا ہی میں پہنچاویں یا اس سے پہلے تجھے فوت کرلیں تو دونوں صورتوں میں ان کو کچھ فائدہ نہیں کیونکہ معاملہ ان کا تو ہمارے ساتھ ہے تو بھی ہماری ہی طرف یعنی اللہ ہی کی جانب لوٹ کر آنا ہے ) مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئیوں میں حصہ کثیر بلکہ اکثر جب غلط ہوا تو ان کے مریدوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ کسی نبی کی صداقت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی ساری پیشگوئیاں سچی ہوں بلکہ بعض کا سچا ہونا بھی کافی ہے اور اس دعویٰ پر اس آیت سے استدلال کیا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں ” ایک دوسرا اصل پیشگوئیوں کے متعلق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ انذاری پیشگوئیاں بعض وقت ٹل بھی جاتی ہیں ایک نہایت کھلی کھلی مثال یونس نبی کی پیشگوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں بھی فرماتا ہے اِنَّ رَبَّکَ صَادِ قًایُّصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں بظاہر پوری نہیں بھی ہوتیں اس لئے قرآن شریف یہ اصول قائم کرتا ہے کہ مدعی نبوت کے متعلق دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کی اکثر پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں یا نہیں۔“ (رسالہ ریویو قادیاں نمبر ٦۔ ٧ جلد ٧ ص ٢٨٩) جواب :۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی باتوں میں سے ایک بھی غلط نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ مو کدبنوں ثقیلہ خود فرماتا ہے فَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامِ (پ ١٣ ع ١٩) یعنی یہ خیال ہرگز نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے وعدہ کے خلاف کرتا ہے ہرگز نہیں کیونکہ اللہ غالب اور بڑا انتقام لینے والا ہے۔ نیز فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ المِیْعَادَ (پ ٣ ع ٩) اس مضمون کی آیات بکثرت ہیں ہاں آیت زیر بحث کا مطلب قادیانی قائل نے جو سمجھا ہے وہ غلط ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے مخالفوں کو جو وعدے دیئے جاتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ (١) دنیا میں گرفت (٢) اور آخرت میں عذاب۔ چنانچہ فرمایا : وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ العَذَاب الاَدْنٰی دُوْنَ العَذَاب الاَکْبَرِ (پ ٢١ ع ١٥) اس آیت میں عذاب ادنیٰ اور عذاب اکبر دونوں مذکور ہیں عذاب اکبر بعد موت کا عذاب ہے چنانچہ ارشاد ہے ولعذاب الاخرۃ اکبر (پ ع ) پس ان شواہد سے آیت موصوفہ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ مومن شخص کہتا ہے اگر موسیٰ سچے ہیں تو ان کے موعودہ عذاب میں سے بعض (دنیاوی) عذاب تم کو پہنچ جائے گا چونکہ دنیاوی عذاب موعودہ عذاب کا بعض ہے اس لئے اس مومن نے یُصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ یعنی جس جس عذاب سے تم کو ڈرایا ہے اس مجموعہ میں سے بعض حصہ تم کو اسی دنیا میں پہنچ جائے گا۔ جو بالکل سچ ہے۔ اس کا یہ مطلب کہ نبی کی کوئی بتائی ہوئی بات غلط ہوجایا کرتی ہے الی اللہ المشتکی ( اور اللہ تعالیٰ جس سے ان کا اصل معاملہ ہے وہ ان کے کاموں پر مطلع ہے تیرا تو اس امر میں تعلق اس سے زائد نہیں کہ تو پیغام رساں ہے تیری طرح ہر ایک امت کے لئے رسول ہو گذرے ہیں جن کے مفصل قصے اپنے موقع پر مذکور ہیں مجمل یہ ہے کہ ان قوموں نے بھی رسولوں سے وہی معاملے کئے جو تیری قوم تیرے ساتھ کر رہی ہے پھر جب کبھی ان کے پاس رسول آتے اور وہ انکار ہی پر بضد رہتے تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا جس سزا کے وہ قابل ہوتے وہی ان کو دی جاتی اور ان پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوتا کہ ناکردہ گناہ بھی ان کے سر تھوپے جائیں بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہوتا وہی ان کی ہلاکت کو کافی ہوتا مگر یہ ظالم ایسے کہاں کہ پچھلے لوگوں کے قصوں سے نصیحت پاویں یہ تو الٹے اکڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ وعدہ قیامت کا کب ہے اگر اس وعدے میں کہ قیامت آنے والی ہے تم مسلمان سچے ہو تو بتلائو تو سہی کہ کب ہوگی تو کہہ ایسی خبروں کا بتلانا تو علم غیب پر مبنی ہے جو مجھ میں نہیں میں تو اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے وہ پہنچ کر ہی رہتا ہے جب مجھے اتنی بات کا بھی اختیار نہیں تو یہ میں کیسے بتلا سکتا ہوں کہ قیامت کب ہے اور تمہاری ہلاکت کب البتہ اتنا اجمالاً معلوم ہے کہ ہر ایک جماعت کی ہلاکت کے لئے وقت مقرر ہے جب ان کا وقت مقرر آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی بھی نہ آگے ہوسکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اے نبی تو ان سے کہہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات کو یا دن کو آجائے تو مجرم کس چیز کے ذریعہ سے جلدی کر جائیں گے یعنی عذاب الٰہی آنے پر تم کس چیز کے ذریعہ سے بچ سکتے ہو کوئی ذریعہ تمہارے پاس ہے؟ کہ تم عذاب کے آنے پر جلدی سے کہیں چل دو جب کوئی نہیں تو پھر عافیت کیوں نہیں مانگتے کیا جب عذاب آنازل ہوگا اس وقت ایمان لائو گے؟ ایسا کرو گے تو اس وقت تمہیں (کہا جائے گا) کہ اب ایمان لاتے ہو اور اس سے پہلے تو تم اس عذاب کو جلدی جلدی مانگ رہے تھے غرض وہ عذاب کسی طرح دفع نہ ہوگا بلکہ بدکاروں کو تباہ کرے گا پھر بعد موت ظالموں کو کہا جاوے گا کہ ہمیشہ کا عذاب چکھو تم کو اپنے ہی کئے کا بدلہ ملے گا کسی طرح کی ظلم و زیادتی تم پر نہ ہوگی یہ سن کر بڑی حیرانی میں تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ جو تو کہتا ہے سچ ہے؟ تو کہہ ہاں واللہ وہ بے شک سچ ہے یقینا ہو کر رہے گا اور تم اللہ کو اس کے کاموں میں عاجز نہیں کرسکتے جو کام وہ کرنا چاہے تم کو کیسا ہی ناپسند کیوں نہ ہو تمہاری ناپسندیدگی سے رک نہیں سکتا یہ تو ایک معمولی آدمی ہیں وہاں تو کوئی بھی چھوٹ نہیں سکتا خواہ کیسا ہی بلند قدر اور ذی عزت کیوں نہ ہو بلکہ جس کسی نے ظلم اور بدکاری کی ہوگی اس کے پاس اگر تمام زمین کا مال ہوگا تو وہ سارے کا سارا بھی فدیہ میں دے دینے کو تیار اور مستعد ہوجاوے گا مگر قبول نہیں ہوگا اور جب عذاب دیکھیں گے تو پوشیدہ پوشیدہ ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا یہ نہ سمجھو کہ کفار بڑے بڑے رئیس اور بادشاہ یا قوی ہیکل جوان مرد ہیں ایسے لوگوں کا پکڑنا آسان کام نہیں سنو ! جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور حکومت ہے کسی کی مجال نہیں کہ کوئی اس کے سامنے چون و چرا کرے یاد رکھو اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے وہی تو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کی طرف تو تم سارے پھیرے جائو گے۔ یونس
32 یونس
33 یونس
34 یونس
35 یونس
36 یونس
37 یونس
38 یونس
39 یونس
40 یونس
41 یونس
42 یونس
43 یونس
44 یونس
45 یونس
46 یونس
47 یونس
48 یونس
49 یونس
50 یونس
51 یونس
52 یونس
53 یونس
54 یونس
55 یونس
56 یونس
57 (57۔70) لوگو ! سنو ! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعظ اور نصیحت اور سینوں کی بیماریوں۔ کفر۔ شرک۔ ہوائے نفس وغیرہ کی شفا اور ہدایت اور ایمانداروں کے لئے رحمت پہنچ چکی ہے یعنی قرآن شریف آگیا پس اس پر عمل کر کے نجات پا جائو تو یہ بھی ان سے کہہ دے یہ کوئی میری کوشش اور سعی کا نتیجہ نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے پس اسی سے خوشی منائیں وہ قرآن اور حکمت ایمانیہ ان کے مال و اسباب سے جو یہ لوگ جمع کرتے ہیں کہیں بڑھ کر اچھا ہے تو ان سے کہہ تم مجھ سے ایسے بگڑتے کیوں ہو آخر جس جس مسئلہ میں ہمارا تمہارا اختلاف ہے کیا وہ ایسے ہی ہیں کہ ان کا سمجھنا محالات سے ہے؟ نہیں بلکہ دلیل کے ذریعہ آسانی سے تنازع نمٹ سکتا ہے اگر جہالت سے گفتگو نہیں کرتے ہو تو بتلائو اللہ جو تمہارے لئے حلال رزق پیدا کرتا ہے پھر تم اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال تجویز کرلیتے ہو تو کیا اللہ نے تم کو اس بات کا اذن دیا ہے یا تم از خود اللہ پر افترا کرتے ہو اگر کوئی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اذن دیا ہے تو لائو اور اگر اپنی من گھڑت باتوں سے افترا پردازی کرتے ہو تو بتلائو تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ پر افترا کرتے ہیں جزا کے دن کی نسبت ان کا کیا خیال ہے وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ اس بات میں ہمارا انجام کیا ہوگا یہ تو ایسا بڑا گناہ ہے کہ دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کرے مگر ایسا نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے حال پر بڑے فضل کی نگاہ رکھتا ہے لیکن بہت سے لوگ شکر گذاری نہیں کرتے حالانکہ وہ بندوں کے تمام کلی جزئی حالات سے بخوبی آگاہ ہے ایسا کہ کوئی کام ان کا اس سے مخفی نہیں رہ سکتا اور اے انسان تو کسی کام میں ہو یا قرآن کا کوئی حصہ پڑھتا یا ذکر الٰہی کرتا ہو یا تم بنی آدم کوئی ساکام کرو ہم (اللہ) تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں اور اس وقت بھی جب تم اس کام کو ختم کرچکتے ہو اور جب اسے ابھی شروع ہی کرتے ہو سب کچھ جانتے ہیں ذرہ جتنی چیز بھی تیرے رب یعنی ہمارے علم سے گم نہیں ہوسکتی نہ زمین میں نہ آسمان میں نہ اس سے چھوٹی نہ اس سے بڑی سب کی سب کتاب مبین یعنی علم الٰہی میں مندرج ہیں وہ سب کے اعمال و اطوار سے واقف ہے جو اس کے ہو رہتے ہیں ان کو بھی جانتا ہے اور جو اس سے الگ ہیں ان سے بھی ناواقف ہے دونوں فرقوں کے افعال کا نتیجہ بھی مختلف ہے سنو ! اللہ کے دوستوں اور اس سے نیاز مندانہ تعلق رکھنے والوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کسی طرح غمگین ہوں گے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا ہر ایک فریق دعوے دار ہے گو عمل کیسے ہی ہوں بقول شخصے کل یدعی وصلا للیلی ولیلی لا نقر لھم بذاکا اس لئے ہم خود ہی ان کی تعریف اور ماہیت بتلاتے ہیں کہ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان لاتے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتے ہیں یہی اللہ کے ولی ہیں انہیں کے لئے دنیا اور آخرت میں مژدہ اور خوشخبری ہے گو غریب ہوں یا امیر غریبوں سے امیر چھین نہیں سکتے کیونکہ اللہ کے حکموں کی تبدیلی ممکن نہیں اگر ہوش ہو تو جانو کہ یہی بڑی کامیابی ہے جو کچھ ہم نے تجھے بتلایا ہے اس پر جم جا اور کافروں کی باتوں سے غمزدہ نہ ہو کیونکہ عزت اور غلبہ سب اللہ ہی کے قبضے میں ہے وہ سب کی سنتا اور سب کو جانتا ہے سنو ! اس کا غلبہ معمولی سا نہیں بلکہ جو لوگ آسمانوں اور زمنویں میں ہیں سب اللہ کے غلام ہیں کسی کی مجال نہیں کہ اس کی سلطنت اور شاہی اختیارات میں دخل دے یا دینے کا خیال بھی کرے جب ہی تو اسی کا ہو رہنے میں فائدہ ہے اور جو لوگ اس کے سوا اپنی طرف سے بنائے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ محض اپنی من گھڑت باتوں اور وہم پر چلتے ہیں اور ہوا پرستی میں وہ نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں کوئی بھی دلیل ان کے پاس نہیں جس سے ان کا مدعا ثابت ہوسکے سنو ! ہم ان کے رد کی دلیل سناتے ہیں وہی ایک اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے جس نے تمہارے لئے رات پیدا کی تاکہ تم اس میں آرام پائو اور دن کو روشن اور روشنی دینے والا بنایا تاکہ تم اس میں اپنے کاروبار کرو بے شک دل لگا کر سننے والی قوم کے لئے اس واقعہ میں بہت سے نشان اور دلائل ہیں لیکن جو اپنی عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھریں ان کا کیا ٹھیک وہ تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی ہماری طرح اولاد بنائی ہے سبحان اللہ وہ تو ان سب عیوب عبودیت اور عجز و نیاز سے جس کے لئے لوگ اولاد کے خواہش مند ہوتے ہیں پاک ہے وہ سب سے بے نیاز ہے اس کو کسی طرح کی حاجت نہیں سب چیزیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اسی کی ملک ہیں تمہارے پاس کوئی بھی دلیل اس دعویٰ پر نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی نظام عالم میں اختیار رکھتا ہے کیا پھر اللہ کے حق میں ایسی باتیں کہتے ہو جو تم خود بھی پوری طرح نہیں جانتے تو کہہ دے یاد رکھو جو لوگ اللہ پر جھوٹے بہتان باندھتے ہیں کبھی خیر نہ پاویں گے ان کے لئے دنیا میں چند روزہ گذارا ہے جس طرح چاہیں یہ دن پورے کرلیں پھر آخرکار ہماری طرف ان کو لوٹ کر آنا ہے پس ہم ان کو ان کے کفر کی شامت میں سخت عذاب چکھاویں گے یونس
58 یونس
59 یونس
60 یونس
61 یونس
62 یونس
63 یونس
64 یونس
65 یونس
66 یونس
67 یونس
68 یونس
69 یونس
70 یونس
71 (71۔98) عقلی دلائل تو سن چکے ہو اور ایک نقلی دلیل بتلانے کی غرض سے ان کو حضرت نوح کی خبر سنا جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا اے میرے بھائیو ! اگر محض میرا اس جگہ رہنا اور اللہ کے حکموں کا وعظ سنانا تم پر گراں اور ناپسند ہے تو جو کچھ چاہو کرلو میرا بھروسہ اللہ ہی پر ہے پس تم اپنی ساری تدبیر سوچ لو اور اپنے بنائے ہوئے ساجھیوں کو بھی اس مجلس شوریٰ میں شریک کرلو غرض سب مل کر ایک جا کوشش کرو اور کسی طرح اپنے کام کو نہ بھولو پھر جو مجھ پر کرنا چاہو کرلو اور ذرہ بھر مجھے ڈھیل نہ دو میری طرف سے ایک ہی منتر تمہارے مقابلہ پر کافی ہے جو میں تمہیں بتلا بھی دیتا ہوں سنو ! سپردم باد مایہ خویش را او داند حساب کم و بیش را سو اگر تم میری تعلیم سے منہ پھیرتے ہو تو مجھ پر اس کا نقصان نہیں کیونکہ میں تم سے اس کی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور مجھے یہی حکم ہے کہ میں بجائے چوں و چرا کرنے کے سیدھا اس کے فرمانبرداروں سے بنوں پھر ایسے ملائم لفظوں میں سمجھانے پر بھی لوگوں نے اس کی بات نہ مانی پس ہم نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو بیڑی کے ذریعہ بچا لیا اور انہیں کو کافروں کا جانشین بنایا یعنی بعد ہلاکت کفار کے اس علاقہ میں مومن آباد رہے تھے اور جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تھی ان کو غرق آب کردیا پس تو غور کر کہ ان ڈرائے ہوئوں کا کیسا بد انجام ہوا پھر ہم نے اس نوح ( علیہ السلام) سے پیچھے کئی ایک رسول قوموں کی طرف بھیجے پس وہ ان کے پاس دلائل بینہ لائے مگر پھر بھی وہ جس چیز کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان نہ لائے اپنی ہی ضد پر اڑے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دھتکار ہوئی اسی طرح حدود عبودیت سے بڑھنے والوں کے دلوں پر ہم مہر کردیا کرتے ہیں ان سے توفیق خیر بھی چھن جاتی ہے پھر بھی ہم نے لوگوں کو بے ہدایت نہ چھوڑا بلکہ ان سے پیچھے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف بھیجا پس وہ بجائے ماننے اور ہدایت پانے کے الٹے متکبر ہو بیٹھے لگے اپنی امیری کے گیت گانے امیری غریبی پر موقوف نہیں بعض انسان اپنی خو خصلت میں شریر اور بد ذات ہوتے ہیں فرعونیوں میں دونوں عیب تھے متکبر بھی اعلیٰ درجے کے تھے اور بدکار قوم بن گئے جب ہمارے پاس سے ان کو حق پہنچا اور تو کوئی جواب نہ دے سکے کہنے لگے یہ تو صریح جادو کی قسم ہے حضرت موسیٰ نے کہا کہ جب حق بات تمہارے پاس آئی تو اسے جادو کہتے ہو اندھے ہو دیکھتے نہیں کیا یہ جادو ہے جو مقابلہ میں دیکھ چکے ہو میں تو اس بات کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کہہ کر کامیاب ہوگیا ہوں اور جادوگر تو کبھی کامیاب نہیں ہوتے وہ عقل کے پتلے یوں بولے کیا تو اے موسیٰ ہمارے پاس اسی لئے رسول بن کر آیا ہے کہ جس دین پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو عمل کرتے ہوئے پایا ہے اس دین سے ہم کو پھسلا دے اور آپ ہمارا مقتدا بن کر جدھر چاہے چلا دے تاکہ زمین مصر میں تم دونوں بھائیوں کی بڑائی اور حکومت قائم ہو پس تم یاد رکھو کہ ہم تمہاری غرض سمجھ گئے ہیں اس لئے ہم تمہاری بات کبھی نہ مانیں گے اور وہ بڈھا میاں فرعون بولا میرے پاس ہر ماہر فن جادوگر کو وظیفہ اور مال کثیر دے کر ملک کے ہر حصے سے لائو گو ہم ان کو یوں بھی مروا سکتے ہیں مگر ایسی جلدی بھی کیا ہے پہلے ان کے فن کا مقابلہ تو کرائیں حکم کی دیر تھی سب ساحر حاضر ہوگئے میدان مقرر ہوا فریقین کے حمایتی اور تماشبین لوگ سب جمع ہوئے پھر جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے آئے تو ان کے سوال کرنے پر موسیٰ نے محض اللہ تعالیٰ کا بھروسہ کر کے ان سے کہا کہ جو کچھ تم میرے مقابلہ پر ڈالنا چاہتے ہو ڈال دو تمہارے ارمان باقی نہ رہ جائیں پھر جب وہ اپنے ڈالنے کی قابل چیزیں ڈال چکے تو موسیٰ نے کہا بس تمہاری کل کائنات یہی ہے نادانو ! جو کچھ تم لائے ہو نظر بند جادو ہے بے شک اللہ تعالیٰ اس کو برباد اور ملیامیٹ کرے گا کیونکہ یہ اصلاح کے مقابلہ میں فساد ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدوں کے عمل سنوارا نہیں کرتا انجام کار وہی فساد ان کی بربادی کا موجب ہوتا ہے اور ہم تمہیں اعلان کئے دیتے ہیں کہ اللہ اپنے حکم سے دین کو مضبوط کرے گا گو کافروں کو یہ برا لگے اتنا سن سنا کر پھر بھی فرعون کی قوم سے صرف چند آدمی حضرت موسیٰ پر ایمان لائے سو بھی فرعون اور اس کی جماعت اور پولیس مینوں اور سپاہیوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں کسی بلا میں مبتلا نہ کر دے اور اگر بظاہر دیکھا جائے تو ان کا خوف بجا تھا کیونکہ فرعون زمین مصر میں بڑا ہی متکبر اور مغرور تھا اور ساتھ ہی اس کے وہ حد سے بھی بڑھا ہوا تھا جب فرعون نے دیکھا کہ عام رائے حضرت موسیٰ کی طرف ہوتی جاتی ہے تو اس نے موسیٰ کے نام لیوائوں کو سخت شدت سے تکلیف پہچانی شروع کی چنانچہ بنی اسرائیل سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس فریادی اور شاکی ہوئے اور موسیٰ نے ان کے جواب میں کہا بھائیو ! اگر اللہ پر ایمان لائے ہو تو ان تکلیفوں میں اسی پر توکل اور بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو تو ایسا ہی کرو پس یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کو ایسا اثر ہوا کہ وہ سب ایک زبان بولے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا دعا کرتے ہوئے کہنے لگے اے ہمارے مولیٰ ہمیں ظالموں کے لئے امتحان مت بنا کہ وہ ہمارے ساتھ آزمائے جائیں گو یہ ٹھیک ہے کہ ” خانہ ظالم برباد لیکن“ بعد بربادی مظلوم سے ڈر لگتا ہے اور اپنی مہربانی کے ساتھ فرعونی کافروں کے عذاب سے ہمیں نجات بخش ہم نے ان کی یہ دعا قبول کی اور ہم (اللہ) نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو وحی کی کہ فرعونیوں کی تکلیفوں پر چند ایام صبر کرو اور مصر کے گھروں ہی میں اپنی قوم کو مصر میں گھروں کے اندر کو ٹھیرائے رکھو یعنی ہجرت کرنے میں جلدی نہ کرو اور اپنے گھروں کو عبادت گاہیں بنا لو تاکہ فتنہ حکومت سے بچ کر گھروں ہی میں عبادت کرلیا کرو اور انہیں میں نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ فرعون تم کو عبادت کرنے سے مانع ہے اور تکلیف پر صبر کرنے والے ایمانداروں کو خوشخبری سنائو کہ ان کے لئے انجام بہتر اور فتح نمایاں ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم تعمیل حکم کو حاضر ہیں مگر تو نے فرعون کو اور اس کی جماعت کو دنیا میں زینت اور مال کثیر دے رکھا ہے جس کا نتیجہ ان کے حق میں یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے گمراہ کرتے ہیں پس اے ہمارے مولا ! ان کے مالوں پر وبال ڈال اور ان کے دلوں کو سخت کر پس جب تک وہ دکھ کی مار نہ دیکھیں ایمان نہ لائیں جیسی ان کے حال سے توقع ہے حضرت موسٰی ( علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور ہارون ( علیہ السلام) آمین کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے کہا تمہاری دونوں بھائیوں کی دعا قبول ہوئی پس تم دونوں بھائی مضبوط رہنا اور جاہلوں کی راہ پر نہ چلنا کیونکہ ایسی سختی کے موقع پر نادان لوگ عموماً بےدینوں سے مصالحت اور ملاپ کی رائے دیا کرتے ہیں تم نے ان کی بات اور مشورہ نہ سننا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے عبور کرانے کو تھے کہ فرعون اور اس کے لشکر نے ضد اور عداوت سے ان کا پیچھا کیا کہ راہ میں پکڑ کر ہلاک کریں چنانچہ اسی دھن میں دریا میں کود پڑے پس بجائے پکڑنے کے خود پکڑے گئے یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو بولا میں ایمان لایا ہوں کہ اس اللہ کے سوا جس پر بنی اسرائلک کو ایمان ہے کوئی معبود نہیں نہ میں نہ کوئی اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کے فرماں برداروں سے ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ نے جواب دیا کہ اب ایمان لاتا ہے اس سے پہلے تو تو مدت مدید بے فرمانی کرچکا ہے اور تو بڑا مفسد تھا پس آج کے روز ہم (اللہ) تیرا ایمان تو قبول نہ کریں گے البتہ تیرے جسم کو باہر پھینکیں گے تاکہ تو اپنے پچھلے لوگوں کے لئے جو تجھ سے نالائق محتاج کو اللہ تعالیٰ اور معبود سمجھتے تھے عبرت کا نشان ہو اور یہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہماری قدرت کی نشانیوں سے غافل ہیں ہرچند فرعون تگ و دو کرتا رہا تاکہ میری حکومت کمزور نہ ہو مگر ہمارے ارادوں کے مقابلہ پر اس کی ایک نہ چلی آخر وہ ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل کو ہم نے سچے وعدہ گاہ پر پہنچایا یعنی جس زمین (کنعان) کے دینے کا ان سے وعدہ تھا وہ ان کو دی اور ان کو پاکیزہ اور عمدہ عمدہ قسم کے طعام کھانے کو دئیے پھر وہ حسب وعدہ تورات اس امر پر متفق رہے کہ موسٰی ( علیہ السلام) کی مانند ایک نبی ضرور آئے گا اس امر میں وہ کبھی بھی مختلف نہ ہوئے مگر جب ان کو قطعی علم اس کی تصدیق کا ہوگیا یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مانند ہیں تشریف لے آئے بے شک جن جن باتوں میں اہل حق سے یہ اختلاف کر رہے ہیں تیرا رب یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان میں بیّن فیصلہ کرے گا اور فرضاً اگر تجھے بھی ہمارے اتارے ہوئے کلام میں شک اور واہمہ گذرے یعنی اس خیال سے کہ یہ لوگ اہل کتاب جو اہل علم ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تیرے ایسے شدید مخالف ہو رہے ہیں اس کو بتقاضائے بشریت تجھے یہ خیال گذرے کہ مبادا میں ہی غلطی پر نہ ہوں تو جو لوگ تجھ سے پہلی کتاب سمجھ کے ساتھ معانی پر غور و فکر کر کے پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے بے شک وہ تصدیق کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے سچی بات پہنچی ہے پس تو ہرگز شک کرنے والوں سے مت ہوجیو اور نہ ان لوگوں میں ملیو جو اللہ کے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں ورنہ تو بھی خسارہ پانے والوں میں ہوجائے گا یہ خیال مت کر کہ یہ لوگ کیوں نہیں مانتے کیونکہ جن لوگوں پر ان کے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے تیرے رب کے غضب کا حکم لگ چکا ہے جب تک وہ دکھ کی مار نہ دیکھیں گے کبھی ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کو ہر قسم کے نشان بھی پہنچ جائیں ایسے لوگ نشان دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو کیوں نہ کوئی بستی یا قوم ایمان لائی ہوتی جس کو ایمان سے بوجہ صحیح الایمان ہونے کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک نفع بھی ہوتا یعنی کوئی کافر قوم ایسے وقت میں ایمان نہ لائی جو ایمان لانے کے لئے مقرر ہے مگر یونس ( علیہ السلام) کی قوم پر شاباش کہ وہ عذاب دیکھنے سے پہلے ہی صرف اس بات پر خوف کھا کر کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کشفی طور پر عذاب کے آثار دیکھ کر انسے نکل گئے تھے ساری قوم تائب ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکی پھر جب وہ پختہ ایمان لا چکے تو ہم نے بھی ذلت کا عذاب ان سے دنیا میں دور کردیا اور ایک وقت یعنی مدت دراز تک ان کو آسودگی سے متمتع کیا ) مرزا صاحب قادیانی کی متحد یا نہ پیشگوئیاں جب غلط ہوئیں تو انہوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) کے قصے کو اپنی سند بنایا جسے آج تک بھی ان کے اتباع پیش کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) نے قوم کو عذاب کا وعدہ دیا تھا جو ان کے ڈر جانے سے ٹل گیا۔ اسی طرح مرزا صاحب نے جس جس کی موت کی پیشگوئی کی اس کے ڈر جانے سے ٹل گئی تو کیا تعجب ہے۔ جواب :۔ یہ ہے کہ ایسا کہنا سیاق قرآنی کے صریح خلاف ہے قرآن مجید کی اسی آیت میں صاف مذکور ہے کہ حضرت یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ان پر سے کفر کی سزا ہٹ گئی یہ تو بدیہی ہے کہ ایمان لانے کے معنے یہ ہیں کہ اس نبی کو اللہ تعالیٰ کا مرسل سمجھیں اور اس کی مخالفت چھوڑ کر اس کا اتباع کریں۔ ہم مانتے ہیں کہ ایسا ایمان موجب نجات ہوتا ہے لیکن کیا مرزا صاحب کے مخالف جن کے حق میں ان کی پیشگوئیاں تھیں ایسا ایمان لائے تھے کیا عبداللہ آتھم (عیسائی) ایمان لایا تھا۔ کیا منکوحہ آسمانی کا ناکح اپنے فعل سے تائب ہوا تھا؟ وغیرہ ہرگز نہیں۔ پھر حضرت یونس ( علیہ السلام) کے قصے کو کیا تعلق جو کچھ اس قصے میں ہے ہمیں مسلم ہے اور جو ہے وہ ان کو مفید نہیں بلکہ مضر ہے۔ اللہ اعلم ( یونس
72 یونس
73 یونس
74 یونس
75 یونس
76 یونس
77 یونس
78 یونس
79 یونس
80 یونس
81 یونس
82 یونس
83 یونس
84 یونس
85 یونس
86 یونس
87 یونس
88 یونس
89 یونس
90 یونس
91 یونس
92 یونس
93 یونس
94 یونس
95 یونس
96 یونس
97 یونس
98 یونس
99 (99۔109) اور ایک تسلی کی بات سن اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کے سب باشندے ایماندار ہوجاتے کیا کسی کی مجال تھی کہ اس کے چاہے کو پھیر سکتا تو جو اتنا رنجیدہ خاطر ہوتا ہے کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا کہ وہ ایماندار بن جائیں حالانکہ تیرے جبر سے کچھ نہ ہوگا کیونکہ کوئی شخص بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ایمان نہیں لاتا اللہ کی توفیق یہ ہے کہ اپنا نیک و بد سوچیں اور جو سوچیں ہی نہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بے سمجھی کی نجاست ڈالتا ہے جو اس کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے بھلا یہ بھی کوئی عقل سے کام لینا ہے کہ دنیا کے دھندوں میں تو ایسے پھنسے رہیں کہ مغرب سے مشرق کو اور مشرق سے مغرب کو مال تجارت پہنچا رہے ہیں اور روپیہ کمانے کے تمام نشیب و فراز سوچ رہے ہیں جہاز رانی کے لئے طرح طرح کے ہوا اور موسم شناسی کے آلات مہیا کر رکھے ہیں مگر اتنا خیال جی میں نہیں جم سکتا کہ اس کشتی کی طرح ایک روز ہمارا بھی کوچ ہے ہم کس جہاز پر بیٹھیں گے اور حسب حیثیت کس درجہ کا ٹکٹ ہم کو چاہئے ایسے لوگوں سے تو کہہ کہ غور تو کرو کہ آسمانوں اور زمینوں میں کیا کیا عجائب چیزیں ہیں کس نے ایسے مضبوط ڈھانچ پر ان کو چلایا ہے بے شک جس نے ان کو ایسے ڈھانچ پر چلایا ہے بہت ہی بڑی قدرت کا مالک ہے اسی کے ہو رہنے سے سب کچھ مل سکتا ہے اس سے علیحدہ ہونے میں ہر طرح کی ذلت ہے تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا عزیزیکہ ازدر گہش سربتافت بہرو رکہ شد ہیچ عزت نیافت اور یاد رکھو کہ اس کے حکموں سے سرتابی کرتے ہوئے ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ انسان سے توفیق خیر چھن جاتی ہے اور ایسے بے ایمانوں کو نہ تو اللہ کی قدرت کے نشان اور نہ اس کی طرف سے ڈرانے والے کچھ کام دے سکتے ہیں یعنی ان کو نہ تو کسی نشانی سے ہدایت ہوتی ہے اور نہ کسی رسول اور واعظ کی تعلیم سے پس یہ لوگ تیرے مخالف جواب ایمان نہیں لاتے تو گویا صرف اپنے سے پہلے لوگوں کے سے واقعات کے منتظر ہیں کہ جس طرح ان کو عذاب پہنچا انہیں بھی پہنچے گا تو یہ ایمان لاویں گے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان سے کہہ کہ اچھا انتظار کرلو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ کافر جب نبیوں کے مقابلہ پر بضد ہی رہتے ہیں تو ہم ان پر عام عذاب بھیجا کرتے ہیں پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان داروں کو اس عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں بے شک ہم اسی طرح کرتے ہیں کیونکہ ایسے عذابوں سے ایمانداروں کو بچانا ہمارا ذمہ ہے جب تک ایماندار اپنے ایمان پر پختہ رہیں گے ہم بھی اپنے وعدہ پر پختہ ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اور بات بھی ان سے کہہ کہ لوگو ! اگر تم میرے دین کی نسبت شک میں ہو تو خیر مجھے بھی اس کی پرواہ نہیں سنو میں اپنا عقیدہ بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو اور دعائیں مانگتے ہو میں تو ان کی عبادت اور ان سے دعا نہ کروں گا ہاں میں اللہ اکیلے کی عبادت بے شک کرتا ہوں جو تمہارے ظاہر کے علاوہ تمہارے باطنی حواس پر بھی قبضہ تام رکھتا ہے ایسا کہ تمہیں وقت پر مار دیتا ہے اس وقت چاہے تم کیسی تدبیریں کرو ایک بھی پیش نہیں جاتی اور مجھے یہ بھی حکم ہے کہ میں اسبات پر ایمان رکھنے والوں کی جماعت سے بنوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچے دین پر یک طرفہ ہو کر اپنے آپ کو قائم رکھ اور ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہونے سے مشرکوں میں نہ مل جائیو اور اللہ کے سوا کسی چیز کو نہ پکاریو جو نہ تجھے نفع دے سکے اور نہ ضرر پر یاد رکھ کہ اگر یہ کام تو نے کبھی کیا یعنی اللہ کے سوا کسی چیز کو بغرض استمداد یا بطور عبادت پکارا تو فوراً تو بھی ظالموں میں شمار ہوگا اور جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کی عبادت یا دعائیں کرتے ہیں ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ کی طرح سے ہماری تکلیف دفع ہویا کسی قوم کا فائدہ پہنچے سو تو اس خیال کو دل سے نکال رکھ اور یہ بات دل میں جما رکھ کہ اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی بھی اس کو ہٹانے والا نہیں اور اگر وہ تیرے حق میں بہتری چاہے تو اس کے فضل کو تجھ سے کوئی پھر نہیں سکتا اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے اپنے فضل خاص سے حصہ پہنچا دیتا ہے اور وہ باوجود بندوں کی سرکشی اور ہوا پرستی کے بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے بے شک تو بلند آواز سے کہہ دے کہ اے لوگو ! ایسے خدائے رحیم کو چھوڑ کر تم کیوں ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہو اب کس امر کی دیر ہے تمہارے پروردگار سے سچی تعلیم آچکی ہے پس سن رکھو کہ جو کوئی ہدایت پاوے گا وہ اپنے ہی نفس کے لئے ہدایت پاوے گا اور جو گمراہی اختیار کرے گا وہ اپنے ہی پر و بال لے گا اور میں تم پر نگہبان یا افسر نہیں ہوں کہ تمہارے کاموں سے مجھے سوال ہو یہ تو ان کو سنا دے اور خود تو بھی اس تعلیم کی جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے پیروی کر اور اس پیروی کرنے اور لوگوں کو سنانے پر جو تکالیف شاقہ مخلوق کی طرف سے تجھے پہنچیں ان پر صبر کر جب تک اللہ تم میں فیصلہ کر دے کیونکہ اسے سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین یونس
100 یونس
101 یونس
102 یونس
103 یونس
104 یونس
105 یونس
106 یونس
107 یونس
108 یونس
109 یونس
0 ھود
1 (1۔24) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھنے والا سچ سمجھو کہ اس کتاب قرآن شریف کے احکام مضبوط اور محکم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حکیم و خبیر کے ہاں سے مفصل بیان کئے جا چکے ہیں (تو کہہ کہ) سب سے اول حکم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو کچھ شک نہیں کہ میں تم کو اس کی طرف سے بدکاریوں پر ڈرانے والا ہوں اور نیکیوں پر خوش خبری سنانے والا ہوں اور دوم درجہ بعد ایمان اور توحید کے یہ حکم ہے کہ اپنے رب کے سامنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے گناہوں پر بخشش مانگا کرو پھر اسی کی طرف جھکے بھی رہو یہ نہیں کہ مطلب کے وقت تو اس کی منت سماجت کرو اور بعد مطلب براری کے منہ پھیر جائو تم اگر اس کے ہو رہو گے تو وہ تم کو ایک وقت مقرر تک عمدہ گذران دے گا یہ تو عام بخشش ہوگی اور ہر ایک اہل فضل کو جس نے زیادہ محنت کی ہوگی اس کی فضیلت کا عوض بھی دے گا اور اگر تم منہ پھیرو گے اور میری راست تعلیم اور سچی ہمدردی نہ مانوں گے تو مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب آنے کا خوف ہے یعنی اس عذاب کا خوف ہے جس سے کفار کی ہلاکت ہوتی رہی ہے کیونکہ اللہ کی طرف تم سب نے پھرنا ہے اگر اس سے تمہارا معاملہ اور نیاز بندگی کی نسبت درست نہ ہوئی تو پھر تمہاری کسی طرح خیر نہیں کیونکہ ہم بندے تو سب طرح سے عاجز ہیں اور وہ (اللہ) سب چیزوں پر قادر اور توانا ہے باوجود اس نسبت قوت اور ضعف کے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں میں ہے جس سے کوئی دانا انکار نہیں کرسکتا یہ لوگ اس سے ہٹے رہ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں سنو ! یہ لوگ قرآن سننے سے اپنے سینے پھیرتے ہیں اور متمردانہ زندگی میں چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے چھپ جائیں یعنی گناہ کے کام کرتے ہوئے چھپ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو نہ دیکھے کیسی جہالت کی بات ہے آگاہ رہو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح چھپ نہیں سکتے وہ تو مخلوق کے ذرہ ذرہ حال سے واقف ہے عام احوال تو بجائے خود رہے جب یہ رات کو سوتے وقت کپڑے اوڑھتے ہیں اس وقت بھی لحافوں کے اندر جو کچھ دلوں میں چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں یعنی جو حرکات جسمانیہ کرتے ہیں وہ سب کچھ جانتا ہے بلکہ وہ سینوں کے اندر کے حالات سے بھی آگاہ ہے خواہ وہ ان کے سینوں میں ابھی تک آئے بھی نہ ہوں وسعت علم کے علاوہ قدرت اور کمال یہ ہے کہ جو جاندار دنیا میں ہیں سب کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہی ان سب کے رزق کا متکفل ہے ان کے لئے رزق پیدا کرتا ہے اور ان کا مستقل ٹھکانہ اور عارضی مقام دونوں وہ جانتا ہے یہ سب کچھ کتاب مبین یعنی اس کے روشن علم میں آچکا ہے اور سنو ! وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن کی مدت میں پیدا کیا اور ان موجودہ آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پہلے اس کی حکومت پانی پر تھی یعنی آسمانوں اور زمینوں کے صورت پذیر ہونے سے پہلے پانی تھا اس پر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت تھی اور اب بھی ہے پھر تم کو پیدا کیا تاکہ تم میں سے اچھے کام کرنے والوں کو ظاہر کرے اور بعدموت دوسری زندگی میں ان اعمال کا پھل بخشے مگر یہ تیرے مخالف ایسے گمراہ ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں اور اگر تو کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد قبروں سے اٹھائے جائو گے تو کافر لوگ فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح دیوانہ پن ہے گویا کسی نے اس نبی کو (معاذ اللہ) جادو کردیا ہے اسی کے اثر سے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے پھر طرفہ تر یہ کہ ایسی بے ہودہ گوئی کی سزا بھی دنیا ہی میں فوراً چاہتے ہیں اور اگر ہم تھوڑی سی مدت تک عذاب کو ان سے ہٹائے رکھتے ہیں تو بجائے عافیت طلبی اور شکر گذاری کے کہتے ہیں کہ کس چیز نے اس عذاب کو ہم سے روک رکھا ہے کیوں جلد نہیں آتا جس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ اگر یہ نبی سچا ہوتا تو اس کی تکذیب پر اللہ تعالیٰ ہم سے مواخذہ کرتا؟ لیکن سن رکھو ! کہ جس روز وہ عذاب ان پر آ نازل ہوا تو وہ ان سے پھرنے کا نہیں ان کو پیس ڈالے گا اور جس امر کی ہنسی اڑا رہے ہیں وہ ان پر گھیرا ڈال لے گا ایسا کہ کوئی بھی ان سے نہ بچ سکے گا انسان کی طبیعت ہی کچھ ایسی کمزور ہے کہ آرام ہو تو مغرور ہے اور اگر ہم اس نالائق انسان کو اپنی طرف سے مہربانی کا حصہ دے کر پھر اس سے وہ نعمت چھین لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ خیال کرے کہ جس اللہ تعالیٰ نے پہلے مہربانی کی تھی اس سے اب بھی امید رکھنی چاہئے الٹا سخت ناامید ہوجاتا ہے اور گھبراہٹ میں واویلا کرنے لگ جاتا ہے اور اگر بعد تکلیف کے جو اس کو ایسی چمٹ رہی تھی کہ گویا اس کے گلے کا ہار ہو رہی تھی کسی قدر راحت بخشتے ہیں تو زوال نعمت سے بے فکر ہو کر کہتا ہے کہ سابقہ تکلیفات مجھ سے چلی گئیں گویا اب وہ خود مختار ہے کوئی بھی اس کی نعمتوں کو اس سے چھین اور تکلیف پہنچا نہیں سکتا بے شک وہ نالائق تھوڑی سی بات پر بڑا اترانے والا شیخی بھگارنے والا ہے گو یہ بدخصلت اس کی فطرت اور طنتپ میں تو نہیں لیکن بدصحبت کا اثر اس میں ایسا جاگیر ہو رہا ہے کہ مثل طبعی اثر کے ہوچکا ہے مگر جو لوگ تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ مالک الملک کے قبضے میں ہے تنگی گھبراتے نہیں فراخی میں اتراتے نہیں غرض ان کا خیال ہوتا ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے انہیں لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بخشش اور بڑا اجر ہے یہی راہ راست ہے کوئی مانے یا نہ مانے تو کہنے سے مت رکا کر یہ نہ مانیں گے تو تیرا کیا لیں گے تو جو ان سے شائد تو بعض احکام الٰہیہ جو تیری طرف نازل ہوئے ہیں ان کی تبلیغ چھوڑنے کو ہے؟ اور شائد اس وجہ سے تو دل تنگ ہوتا ہے جو تجھ پر طعنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر یہ اللہ کا رسول ہے تو کیوں نہیں اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے خزانہ ملایا اس کے ہمراہ فرشتہ کیوں نہیں آیا جو بازاروں میں اس کے ساتھ چلتا ہوا اس کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو کہتا پھرتا کہ یہ اللہ کا نبی ہے اس کو مان لو کیا تو ایسے ہی واہی تباہی اعتراضوں کے سننے سے ملول خاطر ہوتا ہے اور یہ نہیں جانتا ہے مہ نور مے فشاندو سگ بانگ می زند تجھے اس سے کیا تو تو صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا اختیار ہے جو چاہے کرسکتا ہے خزانہ اور فرشتہ تو کیا ہے وہ اس سے بھی بڑے بڑے کاموں پر قدرت رکھتا ہے کیا اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے پاس سے قرآن بنا لیا ہے تو ان کے جواب میں کہہ چونکہ تم بھی میرے ہم جنس اور ہم زبان ہو دس سورتیں جن میں سے ہر ایک سورت ایک جواب مضمون کے برابر ہو اس قسم کی بنائی ہوئی لے آئو اور اس بنانے میں اللہ کے سوا جس کو بلا سکو مدد کے لئے بلا لو غرض سب مل جل کر بھی کوشش کرلو اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ قرآن آدمی کا بنایا ہوا ہے پھر اگر وہ تمہارا کہا نہ کرسکیں یقین بھی یہی ہے کہ ہرگز نہ کرسکیں گے تو تم جان لو کہ یہ کتاب قرآن شریف اللہ کے علم سے اترا ہے یعنی اس میں اس کی معرفت اور علم مذکور ہے اور یہ بھی جان لو کہ اس اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جو اس کو سمجھ کر پڑھتے ہیں ان کو معرفت اللہ کریم سے وافر حصہ ملتا ہے پس کیا تم مشرکو ! اس قرآن کے تابعدار بنو گے اور کب تک دنیا میں ایک دوسرے کا منہ تاکتے رہو گے کہ فلاں شخص مسلمان ہو تو ہم بھی ہوں ورنہ دنیاوی نقصان کا خطرہ ہی سنو ! جو لوگ اس دنیا کی زندگی اور اسی کی زیب و زینت اور آرائش چاہتے ہیں اور اسی کے لئے تمام وقت صرف کردیتے ہیں ان کے کاموں کا بدلہ ہم ان کو اسی دنیا میں دے دیا کرتے ہیں اور اس میں ان کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہوتا جس قسم کی کوشش کوئی کرتا ہے بی اے بننے کو ہو یا ایم اے کی تجارت کی ہو یا وکالت کی سب کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ مناسب طریق سے کامیاب کردیتا ہے البتہ چونکہ دنیا میں منہمک ہو کر آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں اس لئے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخرت میں ان کو بجز دوزـخ کی آگ کے کچھ نصیب نہ ہوگا اور جو کچھ یہ دنیا میں کرچکے ہیں اور اس وقت کر رہے ہیں سب کا سب اکارت اور ضائع اور باطل ہونے کو ہے کیونکر ضائع نہ ہوگا جب کہ یہ لوگ الٹی چال چلتے ہیں۔ کیا جو کوئی اپنے پروردگار کی اتاری ہوئی ہدایت پر کار بند ہو اور خود اس کے نفس سے اس ہدایت کی تقویت کو ایک شاہد بھی موید ہو یعنی وہ اللہ داد طبیعت سلیم بھی رکھتا ہو اور اس موجودہ ہدایت سے پہلے اتری ہوئی حضرت موسیٰ کی کتاب تورات جو اپنے وقت میں امام اور رحمت تھی یہی اس کی تائید کرتی ہو یعنی وہ بھی یہی مضمون بتلاتی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہوئی سب قسم کے فوائد اور سب نیکیوں کی بنا ہے کیا یہ اور مذکور الصدر دنیا دار ایک سے ہیں ہرگز نہیں جن میں یہ اوصاف مذکور پائے جاتے ہیں حقیقتاً قرآن پر انہی کو ایمان ہے ورنہ بہت سے لا الہ الا اللہ پڑھنے والے اور قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسے بھی ہیں جن کی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے خود قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف لفاظی کام نہیں آتی بلکہ عمل اور جو کوئی ان گروہوں میں سے اس سے انکاری ہوگا آگ اسی کا ٹھکانہ ہے پس تو اس امر سے شک میں نہ ہوجیو بے شک یہ قرآن حقانی تعلیم تیرے رب کے ہاں سے اتری ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں مانتے جہالت سے جھوٹی باتوں اور بہتان بازیوں کے پیچھے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں یعنی الہام یا وحی کے مدعی ہوں یا کوئی ایسی تعلیم اللہ تعالیٰ کے نام سے بتائیں جس کا اس نے ارشاد نہ کیا ہو ان سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے برے حال سے پیش کئے جاویں گے اور اس وقت کے گواہ یعنی انبیاء ان کو پہچان کر کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا اور اس جھوٹ کی بدولت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم بنے تھے پس سنو ! ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے جو جہالت میں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور اس راہ میں محض ضد اور عناد سے کجی سوچتے رہتے تھے اور آخرت یعنی اعمال کی جزا و سزا سے منکر تھے مگر چونکہ یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اجرائِ احکام میں عاجز نہیں کرسکتے بلکہ خود اس کے آگے عاجز تھے اور اللہ کے سوا ان کا کوئی بھی متولی نہ تھا اس لئے کچھ بھی کامیاب نہ ہوئے بلکہ الٹے مصیبت میں مبتلا ہوئے کہ عوام کفار سے ان کو دوہرا عذاب ہوگا کیونکہ وہ ایسے متکبر اور حق گوئوں کے دشمن تھے کہ نہ حق بات سن سکتے تھے اور نہ حق گوئوں کو دیکھ سکتے تھے اپنے ہی حسد میں جلے بھنے جاتے تھے انہیں لوگوں نے اپنا نقصان آپ کیا ہے اور جو کچھ دنیا میں افترا پردازیاں از قسم شرک وغیرہ کرتے ہیں سب کو بھول جائیں گے کچھ شک نہیں یہی لوگ آخرت کی منڈی میں نقصان اٹھائیں گے بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک یعنی ادائے حقوق العباد اللہ کریم کی عبادت اور تادیہ حقوق یعنی مخلوق سے نیک سلوک کرتے رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے ہو رہے ہر بات میں ان کا یہ اصول رہا کہ سپردم بتو مایۂ خویش را تودانی حساب کم و بیش را یہی لوگ جنت والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان دونوں فریقوں یعنی اللہ والوں اور دنیا داروں کی مثال اندھے بہرے اور سوآنکھے اور سننے والے کی سی ہے کہ قسم اول ہر لذت سے جو دیکھنے سننے سے تعلق رکھتی ہے محروم ہیں یعنی زندگی ان پر دوبھر ہے بخلاف قسم ثانی کے کہ ہر طرح کے عیش و عشرت اور لذات سے متمتع ہیں کیا یہ دونوں اندھے اور سوانکھے برابر ہیں ہرگز نہیں پھر تمہیں کیا ہوا کہ تم سمجھتے نہیں ہو کہ جو لوگ اعلیٰ حاکم کے دربار میں مقرر ہوں مجرموں کی ان کے برابر کیونکر عزت ہوسکتی ہے اسی امر کے ذہن نشین کرنے کو ہم نے خاندان نبوت قائم کیا۔ ھود
2 ھود
3 ھود
4 ھود
5 ھود
6 ھود
7 ھود
8 ھود
9 ھود
10 ھود
11 ھود
12 ھود
13 ھود
14 ھود
15 ھود
16 ھود
17 ھود
18 ھود
19 ھود
20 ھود
21 ھود
22 ھود
23 ھود
24 ھود
25 (25۔49) اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف ہم نے اسی غرض سے بھیجا اس نے ان کو کہا کہ میں تم کو صاف صاف گناہوں کے کاموں پر ڈرانے والا ہوں سب سے اول حکم جس کی عدم تعمیل پر سخت گناہ ہے یہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ورنہ مجھے تمہارے حق میں دردناک دن یعنی قیامت کے عذاب کا خوف ہے مبادا تم اس میں گرفتار ہوجائو پس یہ سنتے ہی اس کی قوم میں سے کافروں کی جماعت نے کہا کہ تو جو اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تیرے میں کیا بڑائی ہے ہم تو تجھے اپنے جیسا آدمی جانتے ہیں یہ تو تیری اپنی حیثیت ہے اور اگر تیرے تابعداروں کی عزت کا خیال کریں تو وہ بھی کوئی معزز اور شریف نہیں ہم دیکھتے ہیں کہ جتنے تیرے تابع ہوئے ہیں عموماً سب کے سب ہمارے کمینے اور رذیلے ہیں کاش کہ وہ بھی کسی تحقیق سے تیرے ساتھ ہوئے ہوتے ایسا نہیں بلکہ سرسری سمجھ سے تیرے پیچھے ہو لئے ہیں اور بڑی وجہ ہماری نہ ماننے کی یہ ہے کہ ہم تیرے میں کوئی مزیت اپنے پر نہیں پاتے بلکہ ایسے ہی دعویٰ سے ہم تجھے جھوٹا جانتے ہیں پس مناسب ہے کہ تو اس خیال سے باز آجا ورنہ تیری خیر نہیں نوح ( علیہ السلام) نے یہ نالائق اور غیر معقول جواب سن کر کہا کہ بھائیو ! بھلا بتلائو اگر میں اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہوں اور اس نے اپنے پاس سے مجھے رحمت دی ہوئی ہو اور بوجہ تمہاری باطنی بینائی نہ ہونے کے وہ رحمت تمہیں معلوم نہ ہو اور تم ظاہری فضیلت کے متلاشی بنو کیونکہ اس کے دیکھنے کو ظاہری آنکھیں کام نہیں آتیں بلکہ دل کی بینائی درکار ہے تو کیا ہم اس رحمت کو تمہارے گلے مڑھ سکتے ہیں حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو یعنی نبوت اور نیابت نبوت روحانی فضیلت پر متفرع ہوتی ہے جو ظاہر بینوں کی نظر سے مخفی ہے کیونکہ ان کی نظروں میں بجز درہم و دینار کے کوئی چیز قابل وقعت نہیں ہوتی حافظ شیرازی مرحوم نے کیا ہی ٹھیک کہا ہے در کوئی ماشکستہ دلی میخرندو بس بازار خود فروشی ازاں سوے دیگر ست نوح نے یہ معقول جواب دے کر ان کا ایک مخفی سوال بھی جو ابھی تک انہوں نے ظاہر نہ کیا تھا دور کرنا چاہا اور کہا اے میرے قومی بھائیو ! میں تم سے اس تبلیغ پر مزدوری میں مال نہیں مانگتا میری مزدوری تو اللہ کے ہاں ہے اور نہ میں ایمانداروں کو جنہیں تم حقیر اور ذلیل سمجھتے ہو تمہاری خاطر تمہارے آنے پر اپنی مجلس سے دھتکار سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور واصل ہیں ظاہری زیب و زینت اگر ان میں نہیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو بیخود گشت حافظ کے شمارد بیک جو مملکت کائوس وکے را ہاں میں دیکھتا ہوں جو تم جو میری مجلس میں ان کی موجودگی پر عار اور نخوت کرتے ہو تم اس میں سراسر جہالت کرتے ہو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے ہاں دل سالم منظور ہے نہ لباس فاخر مطلوب بھائیو ! چونکہ یہ اللہ والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حمایت پر ہے اگر میں ان کو دھتکاروں گا تو میری خیر نہیں میری مدد کو کون اٹھے گا اگر میں ایسا کر گزروں کیا تم سمجھتے نہیں کہ معاملہ تو میرے اختیار سے باہر ہے اور سنو ! اگر میری غریبی کی طرف جاتے ہو تو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میرا دعویٰ ہے کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں کہ تمہارے لئے فال گنڈے ڈالا کروں اور من گھڑت باتیں سنا کر تم کو دام تزویر میں لائوں اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر اور ذلیل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ایسے ہی ذلیل ہیں کہ اللہ ان کو خیر سے کچھ حصہ نہ دے گا اللہ ان کے دلوں کا اخلاص جانتا ہے ورنہ میں ایسا کرنے پر فوراً اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالموں میں ہوجائوں گا ایسی صاف اوپر از نور و ہدایت تقریر دلپذیر سن کر ظالم بجائے تسلیم کرنے کے بولے کہ اے نوح ( علیہ السلام) تو تو بڑا ہی بولنے والا اور جھگڑالو ہے تو نے ہم سے جھگڑا شروع کر کے بہت ہی جھگڑا کیا جس کا جواب ہم تجھے دینا نہیں چاہتے کیونکہ تو ہمارا دماغ چاٹ جاتا ہے تیری زبان لوہے کی قینچی ہے کسی وقت اور کسی حال میں رکتی ہی نہیں کسی کی مخالفت اور رعب تجھ پر اثر نہیں کرتا پس بہتر ہے کہ جس عذاب کی دھمکی تو ہم کو سناتا ہے اگر تو سچا ہے تو ہم پر لے آ نوح نے کہا جھگڑے کے متعلق جو تم نے کہا ہے وہ تو جو کچھ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے کہتا ہوں میری کج مج زبان میں بھلا اتنی گویائی کہاں کہ اتنی تقریر کرسکوں عذاب بھی اللہ ہی کے قبضے میں ہے وہی اسے تم پر لائے گا اگر چاہے گا اور تم اس کو کسی طرح ہرا نہیں سکتے اگر میں تمہاری خیر خواہی کروں بھی تو میری خیر خواہی تمہیں کچھ کام نہیں آسکتی جب کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہاری بدعہدیوں اور حق سے ضد و عناد کرنے کی وجہ سے تم کو گمراہ رکھنا چاہے وہی تمہارا ہمارا سب کا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جائو گے یہی حال ان تیرے مخاطبوں کا ہے بات ٹھکانہ کی تو کوئی کہتے نہیں بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں کیا یہ بات بھی کوئی قابل توجہ ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول نے قرآن کو اپنے پاس سے بنا لیا ہے تو کہہ اگر میں نے بنا لیا ہے تو میرا گناہ میرے ذمہ ہے اور میں تمہارے جرموں سے بری الذمہ ہوں تم اپنی بہتری سوچ لو ایسا نہ ہو کہ قرآن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تم جلدی میں بے سوچے سمجھے اس کی تکذیب کرنے لگ جائو تو عذاب الٰہی میں تم کو مبتلا ہونا پڑے جیسا کہ نوح ( علیہ السلام) کی قوم کو ہونا پڑا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کیا اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ جتنے لوگ تیری قوم سے ایمان لا چکے ہیں بس ان کے سوا اب کوئی ایمان نہ لائے گا چونکہ یہ لوگ اپنی پاداش کو پانے والے ہیں پس تو ان کی بدکاریوں پر غمگین مت ہوجیو اور ایک بیڑی ہمارے سامنے اور ہمارے الہام سے بنا جس پر تم نے سوار ہونا ہوگا اور ان کی ہلاکت کے وقت رحم کھا کر ظالموں کے حق میں مجھے مخاطب کر کے دعا نہ کیجیو کیونکہ وہ یقینا غرق ہوں گے ان کی ہلاکت اور تباہی کا وقت آگیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جس حال میں نوح بیڑی بناتا تھا اس کی قوم سے جب کوئی جماعت اس پر گذرتی تو اس سے مسخری کرتے کہ بڑے میاں بارش کا تو نام و نشان نہیں اور اگر ہوئی تو اتنی سی بیٹری میں کون کون بیٹھے گا اچھا بنا لو وقت پر ہمارے ہی کام آوے گی آخر بڈھوں نے تو پہلے ہی مرنا ہے نوح ( علیہ السلام) ان کے جواب میں کہتا اچھا اگر تم ہم سے مسخری کرتے ہو تو ایک وقت آنے والا ہے جیسے تم ہم سے مسخری کرتے ہو ہم بھی تم سے کریں گے مگر ہماری مسخری صرف مسخری نہ ہوگی بلکہ تمہارے حال پر شماتت ہوگی پس تم جان لو گے کہ کس پر عذاب آئے گا جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر دائمی بلا نازل ہوگی غرض اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور صبح روشن ہوئی تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر ایک قسم حیوانات میں سے جو تیرے اردگرد ہیں اور جو تیری ضروریات میں کام آنے والے ہیں ان میں سے جوڑا جوڑا چڑھا لے اور جس پر ہمارا حکم صادر ہوچکا ہے اسے چھوڑ کر باقی اپنے گھر والوں کو بھی اور جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان سب کو اس بیڑی پر سوار کرلے اور اصل بات یہ تھی کہ نوح ( علیہ السلام) پر چند آدمی ایمان لائے تھے باقی عموماً مخالف تھے پس اس نے سب کو اس وقت موجود تھے سوار کرلیا اور کہا سوار ہوجائو لیکن اللہ ہی کے نام سے یہ چلے گی اور اسی کے نام سے ٹھیرے گی جہاں وہ چاہے گا ٹھیرا لے گا بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے اور وہ بیٹری پانی کی لہروں میں جو بلندی میں پہاڑوں کی طرح آتی تھیں ان کو لئے جاتی تھی اور بارش بھی اپنا سماں دکھا رہی تھی اتفاقاً نوح ( علیہ السلام) کو اپنا بیٹا نظر آیا جس کی بابت شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے پسر نوح ( علیہ السلام) بابداں بہ نشست خاندان نبوتش گم شد شفقت پدری کے جوش میں نوح ( علیہ السلام) نے فوراً اپنے بیٹے کو جو الگ ایک کنارہ پر کھڑا تھا بلایا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجاتا کہ تو بچ رہے اور کافروں کے ساتھ نہ رہ اسی پانی سے ان کی ہلاکت ہونے والی ہے وہ بولا کہ پانی کہاں تک برسے گا میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا وہ مجھ کو بارش کے پانی سے بچا لے گا وہاں تو بوجہ بلندی کے پانی نہیں ٹھیرے گا نوح ( علیہ السلام) نے کہا بیٹا آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں جس پر وہ رحم کرے گا وہی بچے گا اسی اثنا میں کہ وہ باتیں کر رہے تھے ان میں پانی کی ایک لہر حائل ہوگئی پس وہ غرق ہوگیا اور زمین کو حکم دیا گیا کہ اے زمین تو اپنا پانی جو اس وقت تجھ پر ہے پی لے اور اے آسمان تو برسنے سے تھم جا اور پانی بھی اتر گیا اور اس قوم کا کام بھی تمام ہوچکا اور بیڑی تیرتی جو دی پہاڑ پر جو دجلہ اور فرات کے درمیان ہے آ ٹھیری اور پکارا گیا کہ ظالموں کی قوم جنہوں نے نوح کی تکذیب کی تھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے دھتکاری گئی نوح کے بیٹے کا ذکر جواد پر مذکور ہوا بالاجمال ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ بیٹے کی روگردانی دیکھ کر نوح ( علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہوئے کہا اے میرے مولا ! میرا بیٹا بھی میرے عیال سے ہے اور تو نے میرے عیال کی بابت نجات کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور اس میں تو شک نہیں کہ تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تجھے اس کے پورا کرنے سے کوئی امر مانع نہیں کیونکہ تو سب حاکموں کا حاکم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں کہا اے نوح ( علیہ السلام) وہ لڑکا تیرے عیال سے جس کی نجات کا تجھ سے وعدہ ہے نہیں ہے کیونکہ تیرے عیال سے ہونے کے یہ معنے نہیں کہ فقط تیرے نطفہ سے ہو بلکہ یہ ضروری ہے کہ جیسا تو ہے وہ بھی نیک عمل ہو سو وہ نیک عمل نہیں اگر نیک عمل ہوتا تو تیرا کہا مانتا اور یہ تو قاعدہ مسلمہ ہے۔ کہ ” میرا پدر خواہی علم پدر آموز“ پس جس چیز کی صحت کا تجھے قطعی علم نہ ہو اس کا مجھ سے سوال نہ کیا کر یعنی ایسی چیز مجھ سے طلب مت کرنا جس کے متعلق خصوصاً یا عموماً ممانعت ہونے سے وہ دعا متیقن القبول نہ ہو اس میں تو میں تجھے کہہ چکا ہوں لا تخاطبنے فی الذین ظلموا اب بچو تجھے سمجھاتا ہوں کہ ایسے موقع پر غلبہ محبت میں نادانوں کی سی حرکت نہ کیا کر نوح ( علیہ السلام) نے یہ کڑا جواب سنا تو ہوش میں آیا اور بولا اے میرے مولا ! میری کیا مجال ہے کہ میں خلاف مرضی سرکار کے کروں جس چیز کی صحت کا مجھے علم نہ ہو اس کے سوال کرنے سے میں تیری پناہ لیتا ہوں مجھے بچا لے کہ میں ایسے سوال نہ کروں میری توبہ ہے اور اگر تو میرا گناہ نہ بخشے گا اور نہ رحم کرے گا تو میں بالکل خسارہ پائوں گا کیونکہ میری زندگی کی تجارت میں تیری رضا ہی نفع بلکہ اصل راس المال ہے اور بس اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح ( علیہ السلام) کو کہا گیا اے نوح تجھے معاف کیا گیا اب تو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور تیرے ساتھ والے لوگوں پر ہیں کنارہ پر اتر آ اور جو تمہارے سوا دنیا میں اور بھی قومیں بس رہی ہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح برتائو ہوگا کہ چند روز ہم ان کو آسودگی دیں گے پھر ان کی شامت اعمال سے ہماری طرف سے ان کو دکھ کی مار ہوگی اے نبی یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تیری طرف بذریعہ وحی بھیجتے ہیں ورنہ اس سے پہلے نہ تو اور نہ تیری قوم ان کو جانتے تھے پس تو ان پر غور کر اور تکلیف پہنچے تو اسی طرح صبر کر کیونکہ انجام کار آخری میدان پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے ) طوفان نوح ( علیہ السلام) میں علماء کا اختلاف ہے کل دنیا پر تھا یا صرف قوم نوح ( علیہ السلام) پر راقم کے خیال ناقص میں پچھلا مذہب صحیح ہے کیونکہ قرآن شریف کے متعدد مواقع سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی قوم نبی کا مقابلہ نہیں کرتی اور سچی تعلیم کی تکذیب پر مصر اور بضد نہیں ہوتی اس کی ہلاکت نہیں ہوتی۔ یہ کہنا کہ حضرت نوح کی تبلیغ سب کو پہنچ گئی اس زمانہ کے رسل و رسائل سے عدم واقفیت پر۔ ( ھود
26 ھود
27 ھود
28 ھود
29 ھود
30 ھود
31 ھود
32 ھود
33 ھود
34 ھود
35 ھود
36 ھود
37 ھود
38 ھود
39 ھود
40 ھود
41 ھود
42 ھود
43 ھود
44 ھود
45 ھود
46 ھود
47 ھود
48 ھود
49 ھود
50 (50۔60) اور بعد قوم نوح ( علیہ السلام) کے عادیوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو نبی کر کے بھیجا اس نے کہا اے بھائیو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یہ جو تم نے ادھر ادھر سے نام نہاد کوئی بت کوئی قبر کوئی تعزیہ معبود بنا رکھے ہیں اس میں تم اللہ تعالیٰ پر محض افترا کر رہے ہو بھائیو ! میں اس تبلیغ پر تم سے عوض نہیں چاہتا میری اجرت تو اللہ ہی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ بے غرض آدمی کی نصیحت مخلصانہ ہوتی ہے اے بھائیو ! گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو پھر اسی کی طرف جھکے رہو وہ تم پر برستے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت کو اور بڑھائے گا اور جو قحط سالی سے تم پر ضعف آرہا ہے اس کو دور کر دے گا پس اس کی تعمیل کرو اور مجرمانہ انحراف اختیار نہ کرو اس سے تمہاری ہی بہتری ہے مگر وہ نالائق بجائے تسلیم اور اطاعت کے یوں بولے اے ہود تو ہمارے پاس کوئی روشن دلیل تو لایا نہیں جس سے ہم اپنی رسوم اور سابقہ مذہب کو چھوڑ دیں تیرے صرف کہنے سے تو ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑنے کے اور نہ ہم صرف تیرے کہنے سے تیری مانیں گے تعجب ہے کہ کل دنیا ایک طرف ہے اور تو اکیلا ایک طرف ہے یہ دیوانہ پن نہیں تو کیا ہے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ تو جو ہمارے معبودوں کو برائی سے یاد کرتا ہے اور ان کی عبادت سے روکتا رہتا ہے ان میں سے کسی سریع الغضب نے تیرے دماغ پر تجھے کچھ تکلیف پہنچائی ہے جب ہی تو تو دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے۔ ہود نے کہا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا جن چیزوں کو تم اس کے شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ پس تم سب عابد و معبود مل کر میرے خلاف جس قسم کا دائو چاہو چلا لو اور تکلیف پہنچانے میں مجھے ڈھیل نہ دو تمہارے مقابلہ پر میرا ایک ہی منتر کافی ہے کہ میں نے اللہ ہی پر جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے بھروسہ کیا ہے میں اور تم کیا ہیں جتنے جاندار ہیں سب پر اسی کا دست تصرف ہے اس نے ہر ایک چیز کو قابو میں رکھا ہوا ہے سنو ! اگر تمہاری نیت خالص اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی ہے تو وہ ایسے بے ہودہ طریقوں سے راضی نہ ہوگا کیونکہ میرا پروردگار تو سیدھی راہ پر ملتا ہے یعنی جو اس کو ملنا اور راضی کرنا چاہے اسے چاہئے کہ اس کے ساتھ شریک نہ کرے اور اسی کا ہو رہے اور اگر تم اس سیدھی اور سچی تعلیم سے روگردان ہی رہے تو میرا کیا حرج ہے جن باتوں سے میں مامور ہوا تھا تو میں تمہیں پہنچا چکا ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے بے فرمانی پر تم ہی ہلاک ہو گے اور میرا پروردگار تمہارے سوا کسی دوسری قوم کو تمہاری جگہ لے آوے گا جو تمہارے مال و اسباب کے تمہاری زندگی میں یا تمہارے مرنے کے بعد مالک ہوجائیں گے اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگران ہے کوئی چیز اس کے قبضے اور نگرانی سے باہر نہیں چند سال تو ان کی ایسی ہی نبھی رہی آخر تباہ ہوئے اور جب ہم ہمارا حکم ان کی ہلاکت کے متعلق آ پہنچا تو ہم نے ہود کو اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو محض اپنی رحمت سے بچا لیا کسی معمولی بات اور تکلیف سے نہیں بلکہ سخت عذاب سے ان کو نجات دی کہ کوئی بھی ایسے عذاب سے بچا نہیں سکتا اور اگر تم نے ان کو دیکھنا ہو تو یہی قوم عاد ہے جن کے مکانات سفر میں تمہاری قطروں سے گذرتے ہیں جو ایک زمانہ میں بڑے شہسوار اور گرانڈیل قوی ہیکل تھے اسی گھمنڈ میں وہ اپنے رب کے حکموں سے انکاری ہوئے اور اس کے رسولوں سے بے فرمان اور حق سے گردن کشوں اور ضدیوں کے جو ان میں رئوسا بنے ہوئے تھے تابع رہے جس کے صلے میں ان پر یہ تباہی آئی اور دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہوئی کیوں ہوئی سنو ! اس لئے ہوئی کہ قوم عاد اپنے رب کی منکر ہوئی۔ سنو ! عاد جو ہود کی قوم تھے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے دھتکارے گئے اب ان کو کہیں باعزاز جگہ نہ ملے گی کیونکہ عزیزکہ ازدر گہش سر بتافت بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت ھود
51 ھود
52 ھود
53 ھود
54 ھود
55 ھود
56 ھود
57 ھود
58 ھود
59 ھود
60 ھود
61 (61۔68) اور سنو ! ہم نے ثمودیوں کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول کر کے بھیجا اسنے بھی یہی کہا کہ بھائیو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسی نے تم کو زمین کی مٹی سے پیدا کر کے اس میں آباد کیا ہے پس تم اپنے گناہوں پر اس سے بخشش مانگو پھر اسی کے ہو رہو وہ تم کو آسودگی عنایت کرے گا کیونکہ میرا پروردگار اپنے بندوں سے قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے وہ نالائق بجائے تسلیم اور شکر گزاری کے بولے صالح ! تجھے کیا ہوگیا تو کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگ گیا ہے اس سے پہلے تو ہمیں تیرے سے بہت کچھ قومی بہبودی کی امید تھی اب تو ایسا ہوا کہ ہماری ہی بیخ کنی کے درپے ہوگیا ہے کیا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے جو تو کہتا ہے کہ جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے اور عبادت کرتے چلے آئے ہیں ان کی عبادت سے تو ہم کو روکتا ہے اس لئے ہم تیری نہیں مانتے اور جس نئی بدعت کی طرف تو ہم کو بلاتا ہے ہمیں اس کے ماننے میں سخت تردد ہے یہ لفظ بھی تیرے لحاظ سے ہے ورنہ اصل یہ ہے کہ ہم تجھ کو اور تیری تعلیم کو بالکل افترا سمجھتے ہیں صالح ( علیہ السلام) نے کہا اے بھائیو ! بتلائو اگر میں اپنے پروردگار کی دی ہوئی ہدایت پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں سے مجھے رحمت مرحمت کی ہو تو اس حال میں بھی اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں کہ تمہارے لحاظ سے یا دبائو سے اس کی تعلیم تم کو نہ سنائوں تو بھلا میری خیر کہاں میں خود بلا میں پھنسوں تو اس کے عذاب سے کون میری مدد کرے گا تم اپنی دوستی میں نقصان کے سوا مجھے کچھ فائدہ نہیں دے سکتے ہو بھائیو ! اگر تم معجزہ اور نشان مانگتے ہو تو یہ اللہ کی اونٹنی جو میری دعا سے پیدا ہوئی ہے تمہارے لئے نشانی ہے پس اس کو چھوڑ دینا کہ اللہ کی زمین پر جہاں چاہے کھاتی پھرے اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچانا ورنہ جلد ہی عذاب دبا لے گا ) اس اونٹنی کی نسبت کسی آیت یا حدیث میں مذکور نہیں کہ کس طرح پیدا ہوئی تھی البتہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس اونٹنی کو حضرت صالح کی نبوت سے کچھ تعلق ہے پس ضرور ہے کہ کسی ایسی طرح سے ہوئی ہو کہ اس سے حضرت صالح کی نبوت کا ثبوت ہوتا ہو اسی امر کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ منہ ( مگر وہ شریر ایسے کہاں تھے کہ اس کی مانتے بلکہ الٹے بگڑے اور مقابلہ پر آمادہ ہوئے پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا تو صالح نے کہا اب تمہاری خیر نہیں تین روز تک اپنے گھروں میں عافیت سے گذار لو بعد ازاں تم پر عذاب نازل ہوگا یہ وعدہ کسی طرح سے خلاف ہونے کا نہیں مگر وہ ایسے بدذات اپنے غرور میں مست اور متکبر تھے کہ کسی بات نے ان پر اثر نہ کیا پس جب ہمارا حکم غضب آلود پہنچا تو ہم نے صالح کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے محض اپنی رحمت کے ساتھ نجات بخشی اور اس دن کی ذلت سے بچایا جس دن کافروں پر ذلت آئی تھی بے شک تیرا پروردگار بڑا ہی زبردست طاقتور اور سب پر غالب ہے کسی کی مخالفت اس کے کاموں میں اثر نہیں کرسکتی خواہ کوئی کتنا ہی کیوں نہ ہو ان کو تو نجات ملی اور ظالموں کو بڑے زور کی کڑک نے آ دبایا یعنی ایک آواز بڑے زور سے ان پر ایسی آئی کہ اس کی دہشت ان کا کام تمام کرگئی پس وہ اتنے ہی سے اپنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے رہ گئے ایسے کہ گویا اس سر زمین پر وہ بسے ہی نہ تھے نادان لوگ جانتے نہیں کہ ہم مقابلہ کس سے کرتے ہیں اس شہنشاہ مالک الملک سے جس کے سپاہیوں کو کہیں بھی روک نہیں ہمارے زنان خانے تو بجائے خود رہے ہمارے رگ و ریشہ میں اس کی پولیس پہرہ دے رہی ہے اسی ہیبت اور حکومت عامہ کو کسی صاحب دل نے یوں ادا کیا ہے ازیں بتاں ہمہ در چشم تو می آئی بہر کہ می نگرم صورت تو می نگرم سنو ! ثمودیوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا آگاہ رہو ثمودی اللہ تعالیٰ کی جناب سے دھتکارے گئے ھود
62 ھود
63 ھود
64 ھود
65 ھود
66 ھود
67 ھود
68 ھود
69 (69۔83) اور سنو ! ایک دلچسپ قصہ تم کو سناتے ہیں جس سے تمہیں بھی ہدایت ہو اور تم جان لو کہ کام اللہ تعالیٰ کرنا چاہے اسے کوئی نہیں روک سکتا وہ یہ ہے کہ تمہارے دادا حضرت ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے بیٹے کی خوشخبری لے کر آئے تو انہوں نے ابراہیم کو سلام کہا ابراہیم نے سلام کا جواب دیا اور دل میں ان کو مہمان سمجھا پس تھوڑی دیر میں وہ یعنی ابراہیم ( علیہ السلام) اپنی معمولی دریا دلی اور مہمان نوازی سے ایک بچھڑا جو سردست اس کے پاس موجود تھا ذبح کر کے اس کا بھنا ہوا گوشت ان کے کھانے کو لے آیا وہ فرشتے تھے بھلا وہ کیسے کھاتے وہ کھانے سے رکے رہے تو جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ بھی کھانے کو نہیں بڑھتے تو چونکہ غیب دان نہ تھا ان کی اس حرکت کو مہمانوں کے خلاف عادت اوپرا سمجھا اور جی میں ان سے خوف زدہ ہوا کہ مبادا یہ کسی دشمنی اور گزند رسانی کی نیت سے آئے ہوں فرشتوں نے قیافہ سے ابراہیم ( علیہ السلام) کا خوف معلوم کر کے کہا کہ ابراہیم خوف نہ کر ہم لوط کی قوم کی ہلاکت کے لئے بھیجے گئے ہیں اس وقت ابراہیم کی بیوی سارہ کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی بد ذات لوطیوں کی خبر سن کر ہنس پڑی اور ہم نے فرشتوں کی معرفت اسے اسحق کے تولد ہونے کی خوشخبری دی اور اسحق کے بعد یعقوب کی وہ چونکہ بہت بوڑھی تھی سنتے ہی تعجب سے ہائے ہائے کرنے لگی کہ میں اس عمر میں کیونکر جنوں گی؟ حالانکہ میں بوڑھی ہونے کے علاوہ بانجھ بھی ہوں اور یہ میرا خاوند بوڑھا پیر فرتوت ہے یوں تو دنیا میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے مگر ایسا جتنا کہ بیوی بانجھ ہونے کے علاوہ منہ میں دانت نہیں اور میاں ایک سو بیس برس کا کمر پر ہاتھ رکھنے بغیر اٹھ نہیں سکتا تو بیشک عجیب امر ہے فرشتوں نے اس کے جواب میں کہا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعجب کرتی ہے۔ اے ابراہیم ( علیہ السلام) کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں تم بھی ایسا مایوسی کا خیال کرو گے تو اور لوگوں کا کیا حال بیشک وہ اللہ تعالیٰ بڑی تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے پس جب ابراہیم کے دل سے خوف دور ہوا اور اولادکی خوشخبری بھی اسے آچکی تو ہمارے فرشتوں کے ساتھ لوطیوں کے حق میں جھگڑنے لگا یعنی بڑی مضبوطی سے چاہتا تھا کہ لوط کی قوم ہلاک نہ ہو کیونکہ ابراہیم ( علیہ السلام) بڑا بردبار بڑا نرم دل اور ہر ایک بات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع تھا اصل میں ابراہیم ( علیہ السلام) کی نیت بھی نیک تھی کہ شاید ان میں کوئی نیک بھی ہو یا آئندہ کو پیدا ہوجائے لنکت چونکہ اللہ تعالیٰ کو سب کے حال سے پوری واقفی ہے اس لئے اسے کہا گیا اے ابراہیم ( علیہ السلام) ! اس خیال کو چھوڑ دے تیرے کہنے سننے سے یہ حکم ٹل نہیں سکتا کیونکہ تیرے رب کا قطعی حکم آچکا ہے یعنی ان پر عذاب اٹل آنے والا ہے ادھر تو یہ حالت تھی جو تم سن چکے اور ادھر لوط کی کیفیت تھی کہ جب ہمارے فرستادہ ملائکہ لوط کے پاس بشکل امرد آئے تو بوجہ عدم علم غیب کے ان کا آنا اسے برا معلوم ہوا اور جی میں گھبرایا کہ اللہ تعالیٰ جانے میری قوم کے بدذات لوگ ان کو کیا تکلیف پہنچا دیں گے اور کس نالائق حرکت کے ساتھ ان سے پیش آویں گے اور کہا کہ یہ بڑی مصیبت کا دن ہے اللہ تعالیٰ خیر کرے ) سر سید نے اس قصے کے متعلق جو تقریر کی ہے اور جہاں تک عرق ریزی کر کے قرآن شریف جیسے واضح کلام کو اندھوں کی کھیر بنایا ہے ہمارے خیال میں ان کے جواب میں خود ہی تقریر ہے اس لئے ہم اس موقعہ پر ان سے متعرض نہیں ہوتے۔ منہ ( ابھی وہ اس پریشانی میں تھا کہ فرشتے اندر آگئے اور اس کی قوم کے آوارہ لوگ ان کو دیکھ کر اس کے گھر کی طرف بھاگتے ہوئے آئے کیونکہ خوش شکل لڑکوں کی صورت میں تھے اور وہ لوگ اس واقعہ سے پہلے لواطت وغیرہ بدکاریاں کیا کرتے تھے یہ دیکھ کر لوط نے ان کے سر کردوں سے کہا اے بھائیو ! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں جو تمہارے لئے بطریق شرعی ہر طرح سے پاک اور صاف ہیں ) ناواقف کہا کرتے ہیں کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) نے اپنی لڑکیوں کو اس طرح کیوں پیش کیا اگر لواطت منع تھی تو زنا بھی تو حرام ہے ہم نے اس لفظ (بطریق شرع) میں اس کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی حضرت لوط ( علیہ السلام) کا یہ مطلب نہ تھا کہ ان کو لے جا کر یونہی بدکاری کرنے لگ جائو نہ ہر ایک سے خطاب تھا بلکہ ان کے خاص ایک دو سرگردہوں سے کہا تھا کہ میری لڑکیاں بیاہ لو مگر ایسی حرکت نہ کرو۔ شرعی اصطلاح میں اطہر کے یہی معنی ہیں۔ ١٢ منہ ( پس تم اللہ سے ڈرو اور مہمانوں کے بارے میں مجھے خفیف نہ کرو آخر وہ کیا کہیں گے کہ ہم لوط کے گھر پر مہمان ہو کر آئے تو ہمارے ساتھ برائی کی گئی لوط بھی اس میں شریک ہے کیا تم میں کوئی سمجھدار بھلا آدمی نہیں مگر وہ شہوت اور لواطت پر تلے ہوئے ایسے کہاں تھے کہ یہ بات ان پر اثر کرتی بیک زبان بولے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی مطلب نہیں اور جو ہمارا ارادہ ہے وہ بھی تجھے معلوم ہے ناحق تو تجاہل عارفانہ کر کے ہمیں ٹلانا چاہتا ہے لوط نے کہا ہائے کاش کہ آج مجھ کو اتنی قوت ہوتی کہ میں تن تنہا تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی زبردست حمائتی کی پناہ میں آیا ہوتا جو تمہارے دفع کرنے پر قادر ہوتا۔ لوط جب سب طرح کے حیلے کرچکا اور کوئی بھی کارگر نہ ہوا تو فرشتوں نے کہا اے لوط تو کس خیال میں ہے ہم تیرے پروردگار کے ایلچی ہیں تو ان کو چھوڑ تو دے یہ ہرگز تیرے پاس تک نہ پہنچ سکیں گے پس تو اپنے کنبے کے لوگوں کو لے کر رات کے وقت اس شہر سے نکل جا اور کوئی تم میں سے پھر کر نہ دیکھے تاکہ کفار کی ہلاکت دیکھ کر مبادا تم کو بھی کوئی صدمہ پہنچ جاوے مگر تیری بیوی ضرور دیکھے گی کیونکہ اس پر بھی وہی مصیبت آنے والی ہے جو ان پر آنے کو ہے ان کے عذاب کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے لوط نے کہا اس سے بھی جلدی ہونی چاہیے تو فرشتوں نے کہا کیا صبح قریب نہیں؟ پس جب ہمارا حکم ان کی ہلاکت کا آ پہنچا تو اس بستی کی اوپر کی جانب کو ہم نے پست کردیا یعنی جتنے مکان بلند تھے سب کو سطح زمین سے ملا دیا جتنے آدمی ان کے نیچے تھے سب کو ہلاک کیا کچھ یوں مرے اور بعض کو جو اس وقت میدان میں پھر رہے تھے یوں ہلاک کیا کہ اس بستی کے بعض حصہ پر ہم نے کنگروں کی پتھریاں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے ہی ظالموں بدکاروں کے لئے مقرر تھیں برسائیں اور وہ پتھریاں ظالموں سے کچھ دور نہیں یعنی یہ پتھروں کی سزا ایسے بدذاتوں کے لئے کوئی مستعد امر اور خلاف انصاف تھا بلکہ وہ اسی کے مستوجب تھے ھود
70 ھود
71 ھود
72 ھود
73 ھود
74 ھود
75 ھود
76 ھود
77 ھود
78 ھود
79 ھود
80 ھود
81 ھود
82 ھود
83 ھود
84 (84۔95) اور سنو ! اسی طرح ہم نے شہر مدین والوں کی طرف ان کے بھائی حضرت شعیب کو رسول کر کے بھیجا سب سے پہلے اس نے یہ کہا بھائیو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یہ حکم تو تم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے متعلق ہے اس کے علاوہ باہمی تمدنی احکام میں سے یہ ضروری ہے کہ تم ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کیا کرو اور ماپ تول میں کمی نہ کیا کرو یعنی بھائو کرنے میں تمہیں اختیار ہے لیکن جو مقرر کرلو اس سے کم نہ دو تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تجارت پیشہ ہو میں تم کو اچھی آسودگی میں دیکھتا ہوں اور اگر ماپ تول کم کرنا نہیں چھوڑو گے تو تمہارے حال پر مجھے عام عذاب کے دن کا خوف ہے جس دن تمہارے جیسے سب مجرموں کو ایک جگہ جمع کر کے سزا دی جائے گی اور اسی مطلب کے واضح کرنے کو اس نے پھر کہا اے میرے بھائیو ! ماپ اور تول انصاف سے پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اللہ کا دیا ہوا نفع ہر حال میں تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سچی بات مانو تو تمہارا بھلا ہوگا اور اگر نہ مانو گے تو میں تم پر نگہبان اور داروغہ نہیں ہوں کہ تمہارے کاموں سے مجھے سوال ہوگا وہ نالائق بجائے تسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مخول کرتے ہوئے کہنے لگے اے شعیب تو جو لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہمیں یہی وعظ کہا کر کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت کرنا ترک کردیں یا اپنے مالوں میں جس طرح سے چاہیں تصرف کرنا چھوڑ دیں واہ صاحب ! آج تک تو کوئی مصلح قوم اور ریفارمر ایسا قوم کا بہی خواہ پیدا ہوا نہیں جیسا تو پیدا ہوا ہے بیشک تو ہی بڑا نرم دل اور نیک بخت رہ گیا ہے اور دنیا تو ساری کی ساری ڈوب گئی جو ایسا نہیں کرتے بہتر ہے جو ہوا سو ہوا اب آئندہ کو باز آجا جس طرح تجارت کے اصول ہیں کہ زیادہ لینا اور کم دینا ہمارے ساتھ اسی طرح کیا کر شعیب (علیہ السلام) نے کہا بھائیو ! بتلائو تو اگر میں اپنے پروردگار کی دی ہوئی ہدایت پر ہوں اور اس نے محض اپنے فضل سے مجھے پاک اور حلال رزق عنایت کیا ہو اور مجھے حکم دیا ہو کہ میں تم کو سنائوں تو بھی میں خاموش رہوں اور تمہارے کہنے پر اپنے کہے کے مخالف چلوں حالانکہ نہ تو میں خاموشی کو پسند کرتا ہوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ان باتوں سے تمہیں منع کرتا ہوں وہ خود کروں اور فرمان اللہ کریم لم تقولون مالا تفعلون کا مصداق بنوں یوں تو کہتا جائوں کہ گا ہکوں کو کم نہ دیا کرو اور آپ کم دینے لگوں اس تمہاری نصیحت کو میں نہیں سن سکتا کیونکہ میرا ارادہ تو حسب طاقت قوم کی اصلاح کرتے اور سچے مصلحوں کا یہ کام نہیں کہ اپنے کہے کا آپ ہی خلاف کریں ایسا کرنے والے ٹھگ ہوتے ہیں ایسوں ہی کے حق میں حافظ شیرازی نے کہا ہے واعظاں کایں جلوے بر محراب و ممبر میکنند چوں بخلوت میروندآں کار دیگر میکنند اور اصل میں مجھے اس تبلیغ کے کام کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی نے دی ہے اسی پر میں نے توکل کیا ہے اور اسی کی طرف میں تیفی کے وقت جھکتا ہوں حضرت شعیب نے یہ بھی کہا اے میرے قومی بھائیو ! تمہیں مجھ سے کیا عداوت ہوگئی ہے اگر ہے تو کچھ میرا نقصان کرلینا لیکن میری عداوت سے ایسے کام تو نہ کرنے لگو جن کی وجہ سے تم پر نوح ہود اور صالح کی قوم جیسا عذاب نازل ہو اور اپنے پروردگار سے گناہوں پر بخشش مانگو پھر اسی کی طرف جھکے رہو نہ یہ کہ بقول شخصے عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بازید شوند مطلب کے وقت اس کے بنو اور بعد مطلب کھسک جائو تمہاری تھوڑی سی توجہ پر اللہ تعالیٰ تم پر مہربانی کرے گا کیونکہ مرلا پروردگار بڑا مہربان بندوں سے بڑی محبت کرنے والا ہے وہ نالائق بیک زبان بولے اے شعیب تو جو کچھ از قسم وعظ کہتا ہے اس میں سے بہت حصہ ہم نہیں سمجھتے بھلا سمجھیں بھی کیا جو بدیہی البطلان ہوں ان باتوں پر فکر ہی کیا کریں ارے میاں یہ تو یہ تو سیدھی بات ہے اور سب تاجروں کا مسلمہ اصول ہے کہ جس طرح سے ہوسکے گاہک کو راضی بھی کریں اور نفع بھی کمائیں وہ بجز اس کے کیونکر ممکن ہے کہ سیر کہہ کر بلا اطلاع پندرہ چھٹانک چیز دی جاوے۔ تو بڈھا میاں جو صریح اصول سے منکر ہے تیری باتوں کو ہم کیا سمجھیں ہاں بعض دفعہ زبردست آدمیوں کے کہنے سے ہم اپنے مفید مطلب کام چھوڑ بھی دیا کرتے ہیں لیکن تجھ میں وہ بھی نہیں نہ تو خود جسمانی طاقت رکھتا ہے اور نہ کوئی فوج تیری تابع ہے بلکہ ہم تجھے اپنی قوم میں بہت کمزور سمجھتے ہیں اور اگر تیرے کنبے کے لوگ نہ ہوتے تو ہم نے مدت کا تجھے پتھروں سے مار دیا ہوتا اور تو کسی طرح ہمارے نزدیک باوقعت و ذی رعب نہیں ہے لحاظ ہے تو تیرے کنبے کا ہے شعیب (علیہ السلام) نے کہا بھائیو ! میرا کنبہ تمہارے نزدیک اللہ سے بڑھ کر معزز ہے؟ جس کے خوف سے تم میرا لحاظ کرتے ہو اور اللہ کو ایسا سمجھ رکھا ہے کہ گویا تم اپنی پیٹھوں کے پیچھے اس کو ڈال چکے ہو یعنی اس سے ایسے لا پرواہ ہو رہے ہو کہ گویا اس سے تمہارا کوئی مطلب ہی نہیں سن رکھو کہ میرا پروردگار تمہارے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے تم چاہے کتنی شوخیاں کرو اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں جاسکتے ہو بھائیو ! ایک فلہو کی بات تم کو سناتا ہوں جائو تم اپنے طریق پر عمل کرتے ہو میں بھی کرتا ہوں جسے عذاب آ کر ذلیل کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کاذب ہوگا چند روز تک تم خود اسے جان لو گے پس اب اسی پر کار بند رہو اور منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ایسا ہی ہوتا رہا اور جب ہمارا غضب آلود حکم پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے محض اپنی مہربانی سے ان کو نجات دی اور بے فرمان ظالموں کو سخت آواز نے آ پکڑا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ایسے ” خس کم جہاں پاک“ کے مصداق بنے گویا اس بستی میں کبھی بسے ہی نہ تھے لوگو ! سن رکھو حضرت شعیب کی تکذیب پر مدین والوں کی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ایسی ہلاکت ہوئی جیسی ثمودیوں کی ہلاکت ہوئی تھی ھود
85 ھود
86 ھود
87 ھود
88 ھود
89 ھود
90 ھود
91 ھود
92 ھود
93 ھود
94 ھود
95 ھود
96 (96۔123) اور سنو ! اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نشانوں اور ظاہر غلبہ کے ساتھ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف بھیجا پھر بھی وہ فرعون ہی کی چال پر چلے حالانکہ فرعون کی چال درست نہ تھی یہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز اپنی قوم کے آگے آگے ہو کر ان کو جہنم میں داخل کرے گا بہت ہی برا گھاٹ ہے اور برے اتارے ہوئے ) المورود سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادرد کے مفعول بہ ہیں اور حرف عطف محذوف ہے ای بئس الورد والمورود بظاہر یہ لفظ الورد کی صفت ہے طبع اول میں اسی کے موافق معنے کئے ہیں لیکن بعد غور یہ معنٰی اصح معلوم ہوئے۔ منہ ( اور اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگائی گئی اور قیامت کے روز بھی اس کا ایسا اثر ہوگا کہ سب لوگ دیکھیں گے بہت ہی برا عطیہ ہے جو ان کو دیا جاوے گا یہ کفار کی بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم تم کو سناتے ہیں ان میں سے بعض کی چھتیں ہنوز استادہ ہیں گویا آبادی ان میں نہیں اور بعض بالکل اجڑ پجڑ کر ایسی ویران ہوئی ہیں کہ کسے اور اندونہ شمار اور بغور دیکھو تو ہم (خدا) نے ان پر ظلم نہ کیا تھا لیکن وہ بے فرمانی سے اپنے اوپر آپ ظلم کر رہے تھے اللہ تعالیٰ کے حکموں سے عدولی اور سرکشی ہی نے ان کو اس نوبت تک پہنچایا تھا پس جب تیرے رب کا حکم ان کو ہلاکت کے لئے آ پہنچا تو ان کے معبودوں نے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوائے وہ پکارا کرتے تھے کچھ بھی کام نہ دیا بلکہ سوائے تباہی کے ان کو کچھ بھی کام نہ دے سکے اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے وہ ظالم قوموں کی بستیوں کو پکڑتا ہے تو بے شک اس کا عذاب نہایت دردناک بڑی شدت کا ہوتا ہے کسی میں اس کی برداشت کی طاقت نہیں بے شک اس سرگذشت میں عبرت کی دلیل ان لوگوں کے لئے ہے جو عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں وہ دن ایسا ہوگا کہ سب لوگ اس دن میں جمع کئے جائیں گے اور نیز اس دن سب لوگ ہمارے حضور حاضر ہوں گے ہم اس دن کو ایک وقت مقرر تک کسی مصلحت سے جس کو ہم ہی جانتے ہیں ملتوی رکھتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جس وقت وہ دن آگیا کوئی نفس بھی بیرح اذن الٰہی کے نہیں بول سکے گا پھر اس دن سب کی قلعی کھل جائے گی کہ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض نیک بخت یعنی انسان دو گروہ ہوں گے ایک گروہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا بدبخت پس جو بدبخت ہوں گے وہ تو دوزخ کی آگ میں پڑیں گے اور چیختے ہوئے گدھے کی سی آوازیں نکالیں گے جب تک آسمان و زمین بعد تبدیل اس موجودہ شکل کے قائم رہیں گے ہمیشہ تک اسی آگ میں ان کو رہنا ہوگا آئندہ تیرے پروردگار کو اختیار ہے جسے چاہے نکال دے کس نے آرد کہ آنجا دم زند اس شرطیہ کلام سے تعجب نہ کر تیرا پروردگار جو چاہتا ہے فوراً کر گذرتا ہے کوئی چیز اسے مانع نہیں ہوسکتی اور ان کے مقابل جو لوگ نیک بخت ثابت ہوں گے وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین موجود رہیں گے یعنی ہمیشہ ہمیشہ جس کی کوئی انتہا نہیں آئندہ تیرے پروردگار کو اختیار ہے کیونکہ اس پر کوئی حاکم نہیں جو اس سے کسی امر کا مطالبہ کرے لیکن وہ اپنے اختیارات کو اہل جنت کے خلاف برتے گا نہیں اس لئے کہ وہ اپنے وعدوں کو جو نیک اعمال پر بندوں سے اس نے کئے ہیں کبھی خلاف نہ کرے گا کیونکہ یہ جنت بھی ایک موعودہ عطا بے انقطاع ہے پس جب کہ دونوں فریقوں کے افعال کا نتیجہ تو سن چکا ہے کہ دینداروں اور موحدوں کا انجام اچھا ہے اور بےدینوں اور مشرکوں کا انجام بد ہے تو جن معبودوں کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت کے غلط اور جھوٹ ہونے میں بالکل شک نہ کیجیو یہ تو ایسے نادانی سے ان کی عبادت کر رہے ہیں جیسے ان کے باپ دادا ان سے پہلے کرتے تھے ان کو بھلا کیا سمجھ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو پکارنے کی کیا دلیل ہے یہ تو لکیر کے فقیر ہیں ہم ان سب کو ان کے عملوں کا پورا پورا بدلہ دیں گے ایسے لوگ ابتدا سے ہوتے چلے آئے ہیں ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تو اس میں بھی ایسے لوگوں سے اختلاف ہوا کہ بعض لوگ اس پر ایمان لائے اور بعض انکاری رہے اور اگر تیرے رب کا حکم نہ گذر چکا ہوتا کہ ان کے نیک و بد اعمال کی سزا بعد الموت ہے تو اس دنیا ہی میں ان کے درمیان فیصلہ کیا جاتا کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ اس فیصلے کے دن سے سخت انکاری ہیں اور تیرا پروردگار سب کے عملوں کا بدلہ دے گا اسے کسی کے جتلانے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ تمہارے کاموں سے بخوبی آگاہ اور خبردار ہے پس جیسا تجھے حکم ہوتا ہے تو اور تیرے تابع دار بالکل سیدھے اور مضبوط رہنا اور کسی طرح سے بایجاد بدعات اس میں کجی نہ کرنا بلکہ دل میں کجی کا خیال تک بھی نہ لانا کیونکہ وہ اللہ جس سے بندوں کا اصل معاملہ ہے تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور ایک ضروری بات بھی سنو ! کہ ظالموں کی طرف ذرہ بھی میلان نہ کرنا ان کی محبت کو دل میں جگہ نہ دینا ورنہ دوزخ کی آگ کے عذاب میں مبتلا ہو گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ تمہیں کسی طرح سے کسی کی مدد پنچے گی ظالموں کی طرف جھکنے کے دو پہلو ہیں ایک تو ان سے دلی محبت اور چاہت رکھنی دوسرا طریق یہ ہے کہ خود ان کی چال اختیار کرلینی اس لئے تجھے کہا جاتا ہے کہ نہ تو تو ان سے دلی چاہت کیجیو اور نہ ان کی طرح بد عملی اختیار کیجیو بلکہ دن کی دونوں طرفوں پر صبح ظہر عصر مغرب کو اور کچھ رات گئی بھی عشا کی نماز پڑھا کر کیونکہ نیکیاں بدیوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دور کردیتی ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کے لئے یہ نصیحت ہے وہ اسی کے مطابق اللہ کی یاد کرتے ہیں اور اگر تکلیف پہنچے تو صبر کیا کر کیونکہ اللہ محسنوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا یہ تعلیم کوئی نئی نہیں وہی پرانی نبیوں کی تعلیم ہے جو ابتدا سے بذریعہ الہام لوگوں کو سنائی جاتی رہی ہے پھر اس پر یہ لوگ تعجب کیوں کیا کرتے ہیں تعجب تو یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایسے دانا کیوں نہ ہوئے کہ فسادیوں کو ملک میں فساد کرنے سے روکتے یعنی لوگوں کو سمجھاتے رہتے کہ اللہ تعالیٰ کی بے فرمانی اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرو نام کو تو آج کل کی طرح ریفارمران قوم اور مصلحان ملت تو بہت سے تھے مگر اصلی مصلح اور حقیقی ریفارمر جو نبوت کی چال پر چلنے والے ہوں تھوڑے سے تھے جن کو اخیر پر ہم نے ان دنیا دار گمراہوں میں سے نجات دی وہی اصل اصلاح جو منظور الٰہی ہے کرتے تھے اور باقی ظالم لوگ جو محض نفس کے بندے تھے وہ تو صرف انہی لذتوں اور نعمتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو ملی تھیں اور وہ انہی بدکاریوں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ٹھہرے ہوئے تھے اسی لئے تو ان کی ہلاکت ہوئی اور تباہ ہوئے ورنہ تیرا پروردگار ناحق ظلم سے کسی بستی کو جب تک وہ صلاحیت اور دیانت پر ہوں ہلاک اور تباہ نہیں کیا کرتا مگر تو ان کی اس بدگوئی اور ھذیان سے خوف نہ کر اور یاد رکھ کہ تیرا پروردگار اگر چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور سب کو مسلمان کردیتا مگر وہ احکام اختیار یہ ہیں کسی پر جبر نہیں کیا کرتا اسی لئے یہ ایسا کیا کرتے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح مختلف رہیں گے اور حق سے ضد کرتے ہوئے ان کی زندگی گذرے گی لیکن جن پر تیرے پروردگار نے محض اپنے فضل سے رحم کیا اور اسی لئے ان کو پیدا کیا ہوگا یعنی توفیق خیر عطا کی اور اپنے علم ازلی میں ان سے ایسے کارخیر کا صدور جانا ہوگا وہ ایسے امور کے مرتکب نہ ہوں گے اور تو سن رکھ کہ تیرے رب کا فرمان قطعی صادر ہوچکا ہوا ہے کہ میں جنوں اور انسانوں سے خواہ کسی قوم کے ہوں اگر وہ حق کی مخالفت کریں گے تو ان سب سے جہنم کو بھروں گا یعنی سب کافروں اور ضدیوں کو دوزخ میں ڈالوں گا تو ان کی پرواہ نہ کر نبیوں اور رسولوں کے قصوں اور خبروں میں سے وہ واقعات ہم تجھ کو سناتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تیرے دل کی ایسی گھبراہٹوں سے مضبوط رکھتے ہیں اور تیرے پاس ان قصوں میں سچی ہدایت اور ایمانداروں کے لئے وعظ اور نصیحت کی بات پہنچ چکی ہے پس تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کیا کر اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں اور وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے ان سے کہہ کر اگر میری بات تم نہیں مانتے تو اچھا تم اپنے طریق پر عمل کئے جائو ہم بھی کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں نہ ہمیں اختیار ان کے ان کے لانے کا یہ ہے نہ تم کو اختیار ان کے ٹلانے کا ہم بندے سب کے سب عاجز ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی ظاہر اور پوشیدہ سب باتیں تو اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور جو کسی قدر ظہور پذیر بھی ہوں ان سب امور کا مرجع بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے وہی سب کا مدار اور سب گاڑیوں کا گارڈ اور سب پرزوں کا انجن ہے پس تو اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی پر بھروسہ رکھ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر نہیں ہر ایک نیک و بدکام کا تم کو بدلہ دے گا ھود
97 ھود
98 ھود
99 ھود
100 ھود
101 ھود
102 ھود
103 ھود
104 ھود
105 ھود
106 ھود
107 ھود
108 ھود
109 ھود
110 ھود
111 ھود
112 ھود
113 ھود
114 ھود
115 ھود
116 ھود
117 ھود
118 ھود
119 ھود
120 ھود
121 ھود
122 ھود
123 ھود
0 یوسف
1 میں ہوں اللہ سب کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ احکام کتاب مبین کے ہیں۔ جو ہمیشہ نبیوں کی معرفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو ہدایت کے لئے آتی رہی ہے چنانچہ اس پر آشوب زمانہ میں ہم نے اس کتاب کو عربی لباس میں اتارا ہے تاکہ تم اہل عرب اس کتاب مبین کو سمجھو غور سے سن ہم اپنی اس وحی کے ساتھ جس کے ذریعہ ہم نے تجھے یہ قرآن الہام کیا ہے ) شان نزول (سورہ یوسف) یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل اپنا وطن مالوف چھوڑ کر مصر میں کیونکر آئے تھے ان کے جواب میں نیز عقل مندوں کو ایک عبرتناک قصہ بتانے کو یہ سورۃ نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے جس نے قرآن شریف معجز نما بیان سننا یا قرآن کے مبلغ فداہ روحی کی پاک تعلیم کا نمونہ معلوم کرنا ہو وہ بائیبل میں بھی حضرت یوسف کا قصہ پڑھتے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ بائیبل کے متکلم کو محض قصہ سے مطلب ہے اور قرآن کے متکلم کو نصیحت اور عبرت دلانے سے دونوں کی طرز تحریر میں بہت فرق پائے گا باقی نفس قصہ میں کسی قدر جزوی اختلاف اگر ہوگا تو بائیبل کے مصنفوں سے جس کی تصحیح کرنے کو قرآن مھیمنا ہو کر نازل ہوا ہے۔ ١٢ منہ ( یوسف
2 (2۔6) ایک عمدہ اور پاک اور بالکل سچا قصہ سناتے ہیں کچھ شک نہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم تجھے بتلاویں تو بے خبر تھا تجھے معلوم نہ تھا کہ یوسف ( علیہ السلام) کون ہے اور زلیخا کون اور ان کے واقعات کیا؟ اس وقت سے اس قصہ کی ابتدا ہے جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے کہا اے میرے باپ ! میں نے گیارہ ستارے اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں یعقوب (علیہ السلام) نے بوجہ فراست اور نور ایمانی کے اس خواب کی تعبیر کو سمجھ لیا تو کہا بیٹا ! یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا ورنہ وہ اس خواب سے تیری ترقی کا نتیجہ پا کر تیرے حق میں فریب بازی کریں گے کیونکہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے وہ ضرور ان کو بھڑکا دے گا اور جس طرح تو نے یہ خواب دیکھا ہے اسی طرح تیرا پروردگار تجھے چن لے گا۔ اور چونکہ تجھے اس نے حکومت پر سرفراز کرنا ہے دینی و دنیاوی باتوں اور واقعات کے انجام کا تجھے علم دے گا یعنی تو ہر ایک بات کی تہ تک خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی رموز مملکت سے ہو یا داد رعیت سے خواب کی ہو یا بیداری کی بلاتکلف پہنچ جایا کرے گا۔ غرض یہ کہ تو بڑا ذہین اور طباع ہوگا اور وہ (اللہ) تیرے پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسی اس نے پہلے سے تیرے دادا پر دادا ابراہیم اور اسحق پر کی تھی بے شک تیرا پروردگار سب کے حال سے واقف اور بڑی حکمت والا ہے ) اس حاشیہ میں ہم خواب کی کیفیت اور تعبیر خواب کے مختصر قواعد بتلاویں گے اور کسی قدر اپنے معزز مخاطب سر سید احمد خاں مرحوم کی طرف بھی توجہ کریں گے۔ خواب کی کیفیت کے متعلق علماء کرام اور صوفیائے عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے بہت کچھ لکھا ہے ہم اس جگہ انہی کے کلام کو نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں۔ علامہ ابن خلدون مقدمہ تاریخ میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے (واما الرؤیا) فحقیقتھا مطالعۃ النفس الناطقۃ فی ذاتھا الروحانیۃ لمحۃ من صور الواقعات فانھا عند ماتکون روحانیۃ تکون صور الواقعات فیھا موجودۃ بالفعل کما ھو شان الذوات الروحانیۃ کلھا و تصیر روحانیۃ بان تتجرد عن المواد الجسمانیۃ والمدارک البدنیۃ وقد یقع لھا ذلک لمحۃ بسبب النوم کما نذکر فتتقبس بھا علم ماتتشوف الیہ من الامور المستقبلۃ وتعود بہ الی مدار کہا فان کان ذلک الاقتباس ضعیفا وغیر جلی بالمحاکاۃ والمثال والخیال نتخلطہ فیحتاج من اجل ھذہ المحاکاۃ الی التعبیر وقد یکون الاقتباس قویا یستغنے فیہ عن المحاکاۃ فلا یحتاج الی تعبیر لخلوصہ من المثال والخیال والسبب فی وقوع ھذہ اللمحۃ للنفس لانھا ذات روحانیۃ بالقوۃ مستکملۃ بالبدن ومدارکہ حتی تصیر ذاتھا تعقلا محصنا و یکمل وجودھا بالفعل فتکون حینئذذات روحانیۃ مدرکۃ بغیر شئی من الالات البدنیۃ الا ان نوعھا فی الروحانیات دون نوع الملئکۃ اھل الافق الاعلی الذین لم یستکملوا ذواتھم بشئی من مدارک البدن ولا غیرہ فھذہ الاستعداد حاصل لھا مادامت فی البدن ومنہ خاص کالذی للاولیاء ومنہ عام للبشر علی العموم وھو امر الرؤیا۔ واما الذی للانبیاء فھو استعداد بالانسلاخ من البشریۃ الی الملکیۃ المحضۃ التی ھی اعلی الروحانیات ویخرج ھذہ الاستعداد فیھم متکر راقی فی حالات الوحی وھو عند ما یعرج علی المدارک البدنیۃ ویقع فیھا مایقع من الادراک شبیھا بحال النوم شبہا بینا وان کان حال النوم ادون منہ بکثیر فلاجل ھذا الشبہ عبر الشارع عن الرؤیا بانھا جزء من ستۃ واربعین جزء من النبوۃ وفی روایۃ ثلاثۃ واربعین وفی روایۃ سبعین لیس العدد فی جمیعھا مقصودا بالذات وانما المواد الکثرۃ فی تفاوت ھذہ المراتب بدلیل ذکر السبعین فی بعض طرقہ وھو للتکثیر عند العرب واذا تبین لک ھذا مما ذکرناہ اولا علمت ان معلے ھذا الجزء نسبۃ الاستعداد الاول الشامل للبشر الی الاستعداد القریب الخاص بصنف الانبیاء الفطری لھم صلوات اللہ علیہم اذ ھو الاستعداد البعید وان کان عاما فی البشر ومعہ عوائق وموانع کثیرۃ من حصولہ بالفعل ومن اعظم تلک الحواس الظاھرۃ ففطر اللہ البشر علی ارتفاع الحواس بالنوم الذی ھو جبلی لھم فتتعرض النفس عند ارتفاعہ الی معرفۃ ماتتشوف الیہ فی عالم الحق فتدرک فی بعض الاحیان منہ لمحۃ یکون فیھا الظفر بالمطلوب ولذلک جعلھا الشارع من المبشرات فقال لم یبق من النبوۃ الا المبشرات قالوا وما المبشرات یا رسول اللہ قال الرؤیا الصالحۃ یراھا الرجل الصالح او تری لہ خواب ایک روحانی مطالعہ ہے نفس کبھی کبھی روحانیات کی خواب میں جھلک دیتا ہے اگر وہ پرتوا ضعیف اور کمزور ہوتا ہے تو (مثل محسوس اشیاء کے) دوسری چیزوں سے مشتبہ رہتا ہے جیسے کوئی ضعیف البصر دور سے کوئی چیز دیکھے تو اس چیز کی اصلی شکل پورے طور سے ممتاز نہیں ہوتی‘ اس سبب سے تعبیر کی حاجت ہوتی ہے کبھی دیکھنے والے کی بینائی قوی ہوتی ہے تو خواب کی روئت واضح ہونے کے سبب سے تعبیر کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے خواب دیکھنے کا سبب یہ ہے کہ نفس ناطقہ چونکہ روحانی ہے بدن میں رہ کر بھی اس میں روحانی قوت موجود ہے وہ قوت مختلف ہے ایک وہ جو اولیائے کرام کو ہوتی ہے ایک وہ جو عام آدمیوں کو انبیاء علیہم السلام (باوجود تعلق جسمانی کے) روحانیات میں اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں اور بسبب وحی کے آتے رہنے کے اس قوت کا ظہور ان میں ہوتا رہتا ہے اسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب کو چھیالیسواں حصہ نبوت کا فرمایا ہے ہمارے بیان سے تجھے معلوم ہوچکا ہے کہ چھیالیسویں حصے کے معنے استعداد عامہ کی نسبت ہے استعداد خاصہ یعنی انبیاء سے جو اللہ نے ان کی فطرت میں پیدا کی ہوئی ہے چونکہ اس تجلی کے لئے حواس ظاہرہ حجاب مانع ہیں تو اللہ نے انسان کی پیدائش ہی ایسی بنائی ہے کہ یہ حجاب اس کے (بوقت نیند) مرتفع ہوسکیں تو کبھی کبھی وہ روحانیات سے روشنی لے سکیں جس میں اس کی اصل مطلب یابی ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے خوابوں کو مبشرات (خوشخبری دینے والے) قرار دیا ہے اور فرمایا کہ میرے بعد نبوت تو نہیں رہی مگر مبشرات باقی ہیں۔ فرمایا مبشرات سچے خواب ہیں جو آدمی اپنے حق میں خود دیکھے یا کوئی اور اس کے حق میں دیکھے۔ (مقدمہ ابن خلدون ص ٨٦) مختصر یہ کہ خواب کی صحت و غلطی بلکہ یادداشت سب قوت مدرکہ کی صفائی اور عدم صفائی پر متفرع ہے چونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی صفائی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس لئے ان کے خواب بھی اعلیٰ درجہ کے بلکہ مثل وحی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب ہی پر بنا کر کے بیٹے کو ذبح کرنے کی تیاری کرلی تھی جس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی اَنْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا چونکہ حضرات اولیاء کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی صفائی اس درجہ کی نہیں ہوتی اس لئے ان کے خواب یا کشف بھی انبیاء کے خوابوں یا کشفوں سے مساوات نہیں رکھتے بلکہ ان کے خوابوں یا مکاشفوں کی صحت اسی پر موقوف ہے کہ وہ انبیاء علہیم السلام کے خوابوں یا مکاشفات سے مطابق ہوں اور سرمو متفاوت یا مخالف نہ ہوں چنانچہ حضرت مجدد صاحب سرہندی قدس سرہ فرماتے ہیں ” علامت درستی علوم لدینہ مطابقت ست باصریح علوم شرعیہ اگر سرمو متجاوز ست از سکرست والحق ماحقق العلماء اھل السنۃ وما سوی ذلک زندقۃ والحاد اوسکر۔ (مکتوبات جلد اول مکتوب ٣٠) اسی جلد کے مکتوب ٣٦ میں لکھتے ہیں : ” شریعت راسہ جزوست علم و عمل و اخلاص تا ایں ہر سہ جزو متحقق زشوند شریعت متحقق نشووچوں شریعت متحقق شد رضائے حق سبحانہ و تعالیٰ حاصل گشت کہ فوق جمیع سعادات دنیویہ واخرویہ است ورضوان من اللہ اکبر پس شریعت متکفل جمیع سعادات دنیویہ واخرویہ آمد و مطلبی نماند کہ ورائے شریعت وراں مطلب احتیاج افتد و طریقت و حقیقت کہ صوفیہ بآں ممتاز گشتہ اندوہر دو خادم شریعت اندور تکمیل جزو ثالث کہ اخلاص ست پس مقصود از تحصیل آں ہر دو تکمیل شریعت ست نہ امرے دیگر و رائے شریعت۔ حضرت مولانا مرزا جانجاناں صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” در عام مثال مراتب قرب الٰہی بصورت قرب مکانی متمثل مے شوند وروئت عالم مثال کہ آنرا صوفیہ بکشف تعبیر میکینند از قبیل رئویا درمنام ست از انجا رسول فرمودہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرؤیا الصالحۃ جزء من ستۃ واربعین جزء من النبوۃ واحیانا در مرتبہ خیال بسبب بعضے عوارض انکدارمے شود لہذا درکشف غلط مے افتددگاہے درفہم و توبیرآں غلط مے افتد لہذا اولیاء اللہ گفتہ اندکہ آنچہ بکشف معلوم شودآں بمعیار شرع باید سنجیدا گر موافق شرعت قبول باید کرد و آنچہ مخالف شرع باشد آنرارد باید کرد وزندقہ بائددانست وآں چہ شرع ازاں ساکت باشد آنرا قبول باید کر باحتمال غلط“ (کلمات طیبات ص ١٤٣) خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہنے کے یہی معنے ہیں کہ نبی کے الہام یا خواب کی نسبت ولی کے خواب میں چھیالیسواں حصہ صفائی ہوتی ہے جس کی مثال محسوس میں ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک ایسا لمپ ہو جس میں چھیالیس بتیوں کے برابر روشنی ہو اس کے مقابلے پر ایک ٹمٹماتے ہوئے دئیے کی روشنی کیا قدر رکھتی ہے جیسی ان دونوں کی روشنی میں فرق ہوگا ویسا ہی نبی اور ولی کے خواب میں تفاوت ہے اس لئے ولی کا الہام یا خواب نبی کے خواب یا الہام کی تابع ہونا چاہئے افسوس کہ بعض خود ساختہ ملہم اپنی مطلب براری کی نرالی چال چلتے ہیں کہ نبی بلکہ سید الانبیاء علیہم السلام کے الہاموں اور خوابوں کو اپنے مصنوعی الہاموں اور خوابوں کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ بقول خود اپنے الہاموں کے معنی بحال رکھتے ہیں مگر سید الانبیاء کے الہام اور حدیث میں تاویل و تحریف کرتے ہیں۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ نبی کے الہام کو مقدم کر کے اپنے الہام کو اس کا تابع سمجھتے جہاں پر اپنا الہام انبیاء علیہم السلام کے الہام سے مخالف پاتے اپنے الہام کی تاویل کرتے نہ کہ نبیوں کے الہام میں تاویل بلکہ تحریف کر کے دمشق سے مراد قادیان لیتے مگر وہ بھی کیا کریں تبعیت تو جب ہوتی کہ اصلی ہوتے مصنوعی میں یہ شرافت کہاں فافہم وللتفصیل مقام اخر (دیکھو ازالہ اوہام مصنفہ مرزا قادیانی ص ٦٦) خواب کی کیفیت معلوم کرنے کے بعد خواب کی اقسام بھی معلوم ہونی ضروری ہیں خواب کی کئی قسمیں ہیں چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : واما الرؤیا فھی علی خمسۃ اقسام بشریٰ من اللہ و تمثیل نورانی للحمائد والرذائل المندرجۃ فی النفس علی وجہ ملکی و تخویف من الشیطان و حدیث نفس من قبل العادۃ التی اعتادھا النفس فی الیقظۃ تحفظھا المتخیلۃ فی الحسر المشترک ما اختزن فیھا وخیالات طبیعۃ لغلبۃ الاخلاط و تنبہ النفس باذاھا فی البدن۔ اما البشری من اللہ فحقیقتھا ان النفس الناطقۃ اذ انتھزت فرصۃ عن غواشی البدن باسباب خفیۃ لا یکاد یتفطن بھا الابعد تامل و اف استعدت لان یفیض علیھا منبع الخیر والجود کمال علیۃ فافیض علیہ شئی علی حسب استعدادہ ومادتہ العلوم المخزونۃ عندہ وھذہ الرؤیا تعلیم الھی کالمعراج المنامی الذی رأی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیہ وبہ فی احسن صورۃ فعلمہ الکفارات والدرجات وکالمعراج المنامی الذی انکشف فیہ علیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احوال الموتی بعد انفکاکھم عن الحیوۃ الدنیا کما رواہ جابر بن سمرۃ (رض) وکعلم ماسیکون من الوقائع الاتیۃ فی الدنیا واما الرؤیا الملکیۃ فحقیقھا ان فی الانسان ملکات حسنۃ وملکات قبیحۃ ولکن لا یعرف حسنہا وقبحھا الا المتجر دالی الصورۃ الملکیۃ فمن تجرد الیہا تظہر لہ حسناتہ وسیاتہ فی صورۃ مثالیۃ فصاحب ھذا یری اللہ تعالیٰ واصلہ الانقیاد للباری ویری الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واصلہ الانقیاد للرسول المرکوز فی صدرہ ویری الانوار واصلھا الطاعات المکتسبۃ فی صدرہ وجوارحہ تظہر فی صورۃ الانوار والطیبات کالعسل والثمن واللبن فمن رای اللہ او الرسول او الملائکۃ فی صورۃ قبیحۃ او فی صورۃ الغضب فلیعرف ان فی اعتقادہ خللا وضعفا وان نفسہ لم تتکمل وکذلک الانوار التی حصلت بسبب الطھارۃ تظہر فی سورۃ الشمس والقمر واما التخویف من الشیطان فوحشۃ وخوف من الحیوانات الملعونۃ کالفرد والفیل والکلاب والسودان من الناس فاذا رای ذلک فلیتعوذ باللہ والیتفل ثلاثا من یسارہ ولیتحول عن جنبہ الذی کان علیہ واما البشری فلھا تعبیر والعمدۃ فیہ معرفۃ الخیال ای شئ مظنۃ لای معنی فقد ینتقل الذھن من المسمے الی الاسم کرویۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ کان فی دار عقبۃ بن رافع فاتی برطب ابن طاب قال علیہ الصلوۃ والسلام فاولت ان الرفعۃ لنا فی الدنیا والعافیۃ فی الاخرۃ وان دیننا قد طاب وقد ینتقل الذھن من الملابس الی مایلابسہ کالسیف للقتال وقد ینتقل الذھن من الوصف الی جوھر مناسب لہ کمن غلب علیہ حب المال راہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی سورۃ سوار من ذھب وبالجملۃ فللانتقال من شئ الی شئ صور شتی وھذہ الرؤیا شعبۃ من النبوۃ لانھا ضرب من افاضۃ غیبۃ وتدل من الحق الی الخلق وھو اصل النبوۃ واما سائر انواع الرؤیا فلا تعبیر لھا۔ (حجۃ اللہ البالہ ص ١٨٠‘ ١٨١ جلد دوم) خواب پانچ قسم پر ہیں اللہ کی طرف سے خوشخبری نیک و بد خصائل کی جو نفس میں مندرج ہیں تمثیل ہوتی ہے شیطانی ڈراوا۔ روزمرہ کاروبار کی باتیں انسان کے خیالات طیّبہ جو اخلاط کے غلبہ سے ہوتے ہیں جو اللہ کی خوشخبری ہوتی ہے اس کی اصلیت یہ ہے کہ نفس ناطقہ جب حجابات بدنیہ سے کسی قدر علیحدہ ہوتا ہے تو اس امر کے لئے اس میں استعداد آتی ہے کہ مبدئِ فیض سے کچھ اس پر فیضان ہو تو حسب استعداد اس کے کچھ اسے دیا جاتا ہے اس قسم کا خواب تعلیم الٰہی ہے (اللہم ارزقنی) جو خواب ملکیہ ہوتے ہیں (جن میں نفس کے نیک و بد خصائل کا تمثل ہوتا ہے) تو اس کی اصل یہ ہے کہ انسان میں نیک و بد خصائل دونوں کی استعداد ہے لیکن ان کا حسن و قبح معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کہ (ظاہری حواس سے) مجرد ہو کر صورت ملکیہ کی طرف واصل نہ ہو۔ پس جو ایسا مجرد ہوگا اس کو کبھی کبھی اپنی نیکیاں اور بدیاں صورت مثالیہ میں معلوم ہوجایا کرتی ہیں اس طرح کہ ایسا آدمی گاہے خواب میں اللہ کو دیکھتا ہے جس سے مراد ہوتی ہے کہ اللہ کا فرمانبردار ہے اور گاہے رسول کو جس سے مراد اتباع سنت ہوتا ہے علی ہذا القیاس نور دیکھتا ہے یا کھانے کی لذیذ چیزیں مثل شہد یا دودھ کے دیکھتا ہے پس جو کوئی اللہ یا رسول کو بد شکل یا ناراض دیکھے تو جانے کہ اس کے اعتقاد میں خلل ہے اور اس کا نفس ناقص ہے شیطانی ڈرائو والا خواب وہ ہوتا ہے جس میں حیوانات موذیہ مثل کتے بندر وغیرہ سے آدمی ڈر جائے ایسے خواب دیکھنے پر بیدار ہو تو بائیں جانب تھوک دیا کرے اور جس پہلو پر لیٹا ہے اس سے پھر جائے۔ لیکن خوشخبری والا خواب سو اسی کی تعبیر ہوتی ہے اور یہ نبوت کے درخت کی گویا ایک شاخ ہے کیونکہ یہ مبدا فیض سے ایک قسم کا فیضان ہے باقی اقسام کی تعبیر نہیں ہوتی (یعنی وہ اخبار مستقبلہ سے نہیں ہیں۔) مختصر یہ کہ صحیح اور قابل تعبیر خواب جس میں اخبار مستقبلہ ہوتے ہیں صرف وہی ہے جو قوت مدرکہ سے حاصل ہو نہ کوئی اور وہی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہونے کا حق رکھتا ہے کیونکہ وہ نبوت کے اتباع سے حاصل ہوتا ہے جس قدر اور جس درجے کسی کی قوت مدرکہ تیز اور نبوت سے قریب ہوگی اسی قدر اس کے خواب سچے اور تعبیر طلب ہوں گے البتہ بعض اوقات کفار اور فساق کے خواب بھی درست اور تعبیر طلب ہوتے ہیں سو یہ شاز و نادر کسی حکمت الٰہیہ سے ایسا ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں شاہ مصر اور قیدیوں کے خواب تھے کہ ان میں یہ حکمت تھی کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی رہائی کے لئے وہی سبب ہوئے فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ سر سید احمد خاں عفی اللہ عنہ اس کوچہ سے مانوس نہ تھے اس لئے جیسے اور امور سے منکر ہیں خواب کی حقیقت اور کیفیت سے بھی انکاری ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں : ” غرضکہ صوفیہ کرام اور علماء اسلام اور فلاسفہ مشائین میں سے شیخ بو علی سینا اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو جن کے نفس کامل ہیں یا زہد و مجاہدہ وریاضات سے ان کے نفوس میں تجرد حاصل ہوا ہے ان کو خواب میں ملاء اعلیٰ سے ایک قسم کے علم کا فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ان کے صور خیالیہ میں سے کسی صورت میں جو اس فیضان علم کے مناسب ہے متمثل ہوتا ہے اور وہ متمثل حس مشترک میں منقش ہوجاتا ہے اور اس کے مطابق ان کو خواب دکھائی دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی ایک خواب اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی تعبیر دی جائے اور اس کے سوا کوئی خواب تعبیر کے لائق نہیں ہوتا۔ ملاء اعلیٰ کے مفہوم کو متعدد لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی تو ایک عالم مثال قرار دیا جاتا ہے جس میں اس عالم کی تمام باتیں ما کان ویکون بطور مثال کے موجود ہیں اور اس کا عکس مجملاً یا تفصیلاً خواب میں انسان کے نفس پر پڑتا ہے اور کبھی نفوس فلکی کو ماکان اور مایکون کا عالم سمجھا جاتا ہے اور اس سے نفس انسانی پر فیض پہنچنا مانا جاتا ہے اور کبھی عقول عشرہ مفروضہ حکماء کو عالم ما کان و ما یکون قرار دے کر اس کے فیضان کو تسلیم کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے ملائکہ مقصود ہوتے ہیں (مقصود سب سے ایک ہی ہے کہ ملاء اعلیٰ وہ مقام ہے جہاں سے انسان بذریعہ حواس خمسہ اور بہ براہین عقلیہ علم حاصل نہ کرسکے بلکہ محض اندرونی صفائی اور فیض باری سے ہو جس پر آپ نے غور سے کام نہیں لیا جیسا آگے آتا ہے۔ محشی) اب ہمارا سوال یہ ہے کہ بلاشبہ عقل انسانی بلکہ مشاہدہ اور تجربہ اس بات کو ضرور ثابت کرتا ہے کہ ایک واجب الوجود یا علۃ العلل خالق جمیع کائنات موجود ہے ولا نعلم ماھیۃ ولا حقیقۃ صفاتہ الا ان نقول عالم حی قادر۔ خالق۔ لاتاخذہ سنۃ ولانوم لہ مافی السموات وما فی الارض وھو علی کل شئ قدیر اور یہ تمام الفاظ صفاتی جو اس واجب الوجود کی نسبت منسوب کرتے ہیں صرف مجاز ہے لان حقیقۃ صفاتہ غیر معلومۃ پس مفہوم ملاء اعلی کا جو صوفیہ کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ عالی مقام نے قرار دیا ہے یہ صرف خیال ہی خیال ہے اس کی صداقت اور واقعیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور جب اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو کسی امر کو گو وہ واقعات خواب ہی کیوں نہ ہوں اس پر مبنی کرنا نقش برآب ہے اما الاحادیث المرویۃ فی ھذا الباب فکلھا غیر ثابت فانما ھی مقالات الصوفیۃ ومن یشابھم ولیس من کلام النبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اس تقریر سے سر سید کا مطلب صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ ہو اس کا وجود ان کے نزدیک مسلم نہیں رہا یہ سوال کہ اللہ بھی تو مشاہدہ میں نہیں تو اس کا جواب سید صاحب دیتے ہیں کہ مشاہدہ ہی اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے مگر ملاء اعلیٰ کا وجود ماننے پر مشاہدہ مجبور نہیں کرتا لیکن جن لوگوں نے ملاء اعلیٰ کا بھی مشاہدہ کیا ہے ان کے جواب میں سید صاحب فرماتے ہیں کہ : ” ہاں کہا جاتا ہے کہ بعد سلوک طریقت اور اختیار کرنے زہد و ریاضت کے (یہی تو مشکل ہے) یہ راز کھلتا ہے اور حجابات اٹھ جاتے ۂیں اور حقیقت نفس و ماہیت ملاء اعلیٰ و مافیہا منکشف ہوجاتی ہے ہم قبول کرتے ہیں کہ کچھ منکشف ہوتا ہوگا (کاش کہ ہوگا کی بجائے ہے کہا ہوتا) مگر ہم کس طرح تمیز کریں کہ جو کچھ منکشف ہوتا ہے وہ حقیقت ہے یا وہی خیالات ہیں جو متمثل ہوگئے ہیں جس طرح کہ اور خیالات متمثل ہوجاتے ہیں۔ “ سید صاحب ! وہ علم آفتاب آمد دلیل آفتاب کا مصداق ہے مگر جو اس کوچہ ہی سے ناآشنا ہو اسے کون سمجھائے جیسا عنین مادر زاد کو جماع کی لذت کا یقین کرنا یا کسی دوسرے کا اس کو باور کرا دینا مشکل ہے ویسا ہی آپ کا اور آپ کے ہمراہیوں کا اس امر کی حقیقت سے آگاہ ہونا یا کسی کا ان کو قائل کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ایکہ آگاہ نئی عالم درویشاں را توچہ دانی کہ چہ سوداے سراست ایشا ترا پھر بطور نتیجہ فرماتے ہیں : ” پس ہمارے نزدیک بجز ان قویٰ کے جو انسان میں مخلوق اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں (بے شک ہم بھی مانتے ہیں کہ جو قویٰ اللہ نے انسان میں مخلوق کئے ہیں ان کے سویٰ کوئی قوت خوابوں میں دیکھنے میں موثر نہیں مگر ہم پہلے کئی دفعہ لکھ آئے ہیں کہ قوانین قدرت اسی میں محدود نہیں جو ہمارے مشاہدہ اور حس میں آچکا ہے بلکہ ایسا کہنا اللہ کی شان میں ایک قسم کی بے ادبی ہے جس پر آپ نے بھی بڑی خوشی سے دستخط کئے ہوئے ہیں۔ جہاں فرماتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے کہ ” تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم پورا نہیں بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجب واقعہ ہو اور اس کے وقوع کے علم کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوعہ معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو اور یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر ہم کو اس کا علم نہیں “ (تفسیر احمدی جلد دوم ص ٣٤) لیکن اس کا کیا علاج ہو کہ آپ اپنے کہے پر خود ہی عمل نہ کر کے حسب مذاق خود حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے خواب کی وجہ بتلاتے ہیں۔ ” اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خوابوں کو دیکھو پہلا خواب ان کا یہ ہے کہ انہوں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے ان کے سوا گیارہ بھائی اور تھے اور ماں اور باپ تھے باپ اور ماں کا تقدس اور عظم و شان اور قدر و منزلت ان کے دل میں منقش تھے بھائیوں کو اپنے باپ کی ذریت مانتے تھے مگر وہ اس سبب سے کہ ان کے باپ ان کو سب سے زیادہ چاہتے تھے اور خود ان کے سبب سے ان کے بھائی ان کی تابعداری بسبب چائوو محبت سے کرتے تھے (بے شک کرتے تھے عیاں راچہ بیاں) اور اس لئے ان کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ماں باپ اور بھائی سب میرے تابع و فرمانبردار اور میری منزلت و قدر کرنے والے ہیں یہ کیفیت جو ان کے دماغ میں منقش تھی اس کو متخیلہ نے سورج اور چاند اور ستاروں کی شکل میں جن کو کہ وہ ہمیشہ دیکھتے تھے اور ان کا تفاوت درجات بھی ان کے خیال میں متمکن تھا متمثل کیا اور انہوں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھ کو سجدہ کرتے ہیں پس ان کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ بھائی ان کے سب ان کے فرمانبردار ہیں (حاشیہ آیت انی رایت) مطلب یہ کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے جو کچھ دیکھا تھا اس کا منشا خارج میں موجود تھا یعنی ماں باپ بھائیوں کی تابعداری نہ کہ کوئی ملاء اعلیٰ سے تعلق تھا ماں باپ کی تابعداری یا دوسرے لفظوں میں شفقت پدری تو بجا ہے مگر بھائیوں کی خاص کر یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں کی (جن کی مہربانیاں معلوم ہیں) اطاعت اور فرمانبرداری کسی نے نہ سنی ہوگی؟ جنہوں نے زندہ کو اندھے کنوئیں میں ڈال دیا گو باپ کی غیبوبت ہی میں ڈالا تاہم یہ قرینہ ان کی چائو و محبت کا ہی جس سے وہ یوسف کی فرمانبرداری کرتے تھے البتہ سید صاحب اگر یوں کہتے کہ ماں باپ کے لحاظ سے منافقانہ فرمانبرداری کرتے تھے تو بھی ایک بات تھی مگر اس صورت میں بھی یہ سوال ہوتا کہ ایسے منافقوں اور لحاظی محبوں کا حال محبوب سے مخفی نہیں رہا کرتا غالباً اگر وہ باپ کے سامنے یوسف ( علیہ السلام) کو چومتے ہوں گے تو پیچھے کاٹتے ہوں گے پس ایسے فرمانبرداروں کو تابعدار جاننا نہ صرف دھوکہ خوری ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی نادانی۔ علاوہ اس کے اس عبارت کے معنی بھی ہماری سمجھ سے باہر ہیں کہ اس کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ بھائی سب ان کے فرمانبردار ہیں ” حالانکہ یوسف (علیہ السلام) نے جو خود اپنے خواب کی تعبیر کی تھی وہ بالکل سید صاحب کی تقریر کے خلاف ہے کیونکہ ایک تو وہ خواب کے وقت کے لحاظ سے مستقبل تھی اور سید صاحب کی تقریر سے ” حال“ معلوم ہوتی ہے کیونکہ سید صاحب اسے ” ہیں“ سے تعبیر کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک یوسفی خواب کی تعبیر بس یہی تھی کہ ان کے بھائی وغیرہ ان کی اس حالت میں تابعداری کرتے تھے مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے جب مصر میں ماں باپ اور بھائیوں کو اپنی تعظیم کرتے دیکھا جس کا بیان آیت مندرجہ آتیہ میں ہے جو یہ ہے ورفع ابویہ علی العرش وخروا لہ سجدا وقال یا ابت ھذا تاویل رؤیای من قبل قد جعلھا ربی حقا (یوسف ١٤) تو اس حالت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ کیفیت میرے خواب کی تعبیر ہے اس کا جواب سید صاحب یہ دیتے ہیں کہ ” اس واقعہ کے ایک مدت بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ماں باپ بھائیوں کا مصر میں جانا اور موافق اب سلطنت کے آداب بجا لانا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا فرمانا کہ ھذا تاویل رؤیای من قبل قد جعلھا ربی حقا ایک امر اتفاقی تھا کیونکہ یہ بات قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو نبی تھے اس خواب سے یہ سمجھے تھے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) ایسی منزلت میں پہنچیں گے کہ ماں باپ اور بھائی جا کر ان کو سجدہ کریں گے اگر قرآن مجید سے اس خواب کی کچھ تعبیر پائی جاتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت یعقوب نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے کہا کہ اللہ تجھ کو حوادث عالم کا مآل تعلیم کرے گا اور اپنی نعمت تجھ پر اور یعقوب کی اولاد پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح کہ اس نے ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی ہے اور تعبیر ایک عام تعبیر ہے جو ایک جو ان صالح کے عمدہ خواب (سید صاحب ! عمدگی کیسی؟ یہی کہ قوت واہمہ سے بھائیوں کی فرمانبرداری سمجھی جس کو قوت متخیلہ نے سورج اور چاند ستارے وغیرہ کر کے دکھائے) کی تعبیر میں بیان ہوسکتی ہے چاند سورج ستاروں کے سجدہ کرنے سے حوادث عالم کے علم کو تعبیر کرنا نہایت پر لطف قیاس تھا “ کون پوچھے کہ لطف کا بیان کیا ہے جس نے یہودیوں کا مقلد بننا ہو وہ پوچھے ہماری تو مجال نہیں مطلب سید صاحب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کا یہ سمجھنا کہ میرے خواب کی یہ تعبیر ہے دلیل نہیں ہوسکتا ہاں حضرت یعقوب نے جو نبی تھے اگر ایسا سمجھا ہوتا تو دلیل ہوسکتا تھا حالانکہ حضرت یعقوب نے اس خواب سے یوسف کی کوئی قدر و منزلت نہیں سمجھی بلکہ جو کچھ کہا وہ بھی عام تعبیر یا نیک فال کے طور پر کہہ دیا کہ یہ ہوگا وہ ہوگا۔ مگر بے ادبی معاف قرآن شریف سے بے خبری جس قدر اس مضمون میں آپ سے ظاہر ہوئی ہے کسی مضمون میں نہیں ہوئی سید صاحب اور ان کے ہمخیال بغور سنیں حضرت یعقوب نے یوسف کا خواب سنتے ہی کہا یا بنی لا تقصص رؤیاک علی اخوتک فیکید والک کیدا ان الشیطان للانسان عدو مبین اس آیت کا ترجمہ ہم سید صاحب ہی کے لفظوں میں بتلاتے ہیں۔ ” یوسف ( علیہ السلام) کے باپ یعنی یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے بچے تو نہ بیان کرنا قصہ اپنے خواب کا اپنے بھائیوں پر پھر وہ مکر کریں گے تیرے لئے کسی طرح کا مکر بے شک شیطان انسان کے لئے دشمن ہے علانیہ۔“ (جلد ٤ ص ٧١) فرمائیے یہ کیوں کہا اس سے کیا سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت یعقوب نے یوسف ( علیہ السلام) کے خواب سے ترقی مدارج سمجھی تھی بلکہ ایسی سمجھی تھی کہ وہ اس سمجھ کو بدیہی اور ہر ایک کے قابل فہم جانتے تھے جب ہی تو انہوں نے اس خوف سے کہ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی بھی یہی تعبیر سمجھ کر کہ یہ یوسف ( علیہ السلام) اعلیٰ مدارج پر پہنچے گا حسد نہ کرنے لگیں یوسف کو خواب بتلانے سے منع کردیا تھا۔ کہئے یہ مضمون صاف ہے یا نہیں اسی فہم و انصاف پر سید صاحب مرحوم ہمیشہ مفسرین کو قرآن سے ناسمجھ اور یہودیوں کے مقلد بنایا کرتے تھے ہاں اس میں شک نہیں کہ مفسرین کا یہ قصور ہے اور واقعی بہت بڑا قصور ہے کہ وہ کم علم اپنی رائے کو قرآن کی تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں افسوس ان کم ہمتوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن کو اپنی رائے کا تابع کرلیں کیا کوئی بڑا کام ہے سچ ہے مجھ میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہوں میں ان میں دو وصف ہیں بدخو بھی ہیں خود کام بھی ہیں علاوہ اس کے اگر حضرت یعقوب کی سمجھ پر مدار اس لئے ہے کہ وہ نبی تھے چنانچہ سید صاحب کی عبارت سے متبادر مفہوم ہے تو حضرت یوسف کی سمجھ جو وہ بھی نبی تھے اپنے خواب کے متعلق کیوں کافی نہیں؟ جب کہ وہ صریح لفظوں میں ھذا تاویل رء یای فرما رہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سید صاحب نے جس بیان کو یوسف کے خواب کی تعبیر بتلایا ہے وہ الگ کلام ہے چنانچہ الفاظ قرآنی یہ ہیں وکذلک یجتبیک ربک و یعلمک من تاویل الاحادیث ویتم نعمتہ علیک وعلی ال یعقوب الایۃ یہ کلام ” واو“ عطف سے پہلے کلام پر معطوف ہے تعبیر کی طرف تو حضرت یعقوب نے پہلے کلام لا تقصص رء یاک علی اخوتک الایۃ میں اشارہ کردیا ہے جس کو سید صاحب نے حرف غلط کی طرح بالکل محو کر کے ذکر تک نہیں کیا اور معطوف کو جو الگ کلام تھا تعبیر سمجھ گئے بالکل سچ ہے گر تو قرآں بریں نمط خوانی بہ بری رونق مسلمانی باقی تین خوابوں کے متعلق بھی سید صاحب نے ہاتھ پائوں مارے ہیں گو وہ اس قابل نہیں کہ ان کا جواب دیا جاوے اور نہ ہی ہم سے ایسی باتوں کا جواب ہوسکتا ہے مگر تاہم قوم کی آگاہی کے لئے سید صاحب کی تقریر کو نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ” دوسرا اور تیسرا خواب ان دو جوانوں کا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے ان میں سے ایک نے دیکھا تھا کہ میں شراب چھان رہا ہوں دوسرے نے دیکھا تھا کہ اس کے سر پر روٹی ہے اور پرند اس کو کھا رہے ہیں یہ دونوں شخص کسی جرم کے متہم ہو کر قید ہوئے تھے پہلا شخص جو غالباً ساقی تھا درحقیقت وہ بے گناہ تھا اور اس کے دل کو یقین تھا کہ بے گناہ قرار پا کر چھوٹ جاوے گا (ایسے انصاف کی امید ایسی حکومت سے جس میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) جیسے بے گناہ کئی سال یونہی کس مپرسی کی حالت میں پڑے رہے ایں خیالست و محالست و جنوں) وہی خیال اس کا سوتے میں شراب تیار کرنے سے جو اس کا کام تھا منتقل ہو کر عین خواب میں دکھائی دیا۔ دوسرا شخص جو غالباً باورچی خانے سے متعلق تھا درحقیقت مجرم تھا اور اس کے دل میں یقین تھا کہ وہ سولی پر چڑھایا جائے گا اور جانور اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے تو یہی خیال اس کے سوتے میں روٹی سر پر رکھ کرلے جانے سے جو اس کا کام تھا اور پرندوں کا روٹی کو کھانے سے متمثل ہو کر خواب میں دکھائی دیا (کیا وجہ کہ پہلے کے ذہن میں رہائی کا تصور متمثل ہوا اور دوسرے کو سولی کا تصور نہ ہوا بلکہ بقول آپ کے اپنے ہی کام کا خیال آیا کہ میں روٹی سر پر رکھے ہوئے جاتا ہوں) حضرت یوسف (علیہ السلام) اس مناسبت طبعی کو جو ان دونوں خوابوں میں تھی سمجھے اور اس کے مطابق دونوں کی تعبیر دی اور مطابق واقع کے ہوئے زیر آیت انی رأیت غرضکہ سید صاحب کے نزدیک علم تعبیر رویا بالکل اس قصے کے مشابہ ہے جو کسی حکیم صاحب اور ان کے شاگرد رشید کا مشہور ہے ” حکیم صاحب ایک دفعہ بہمراہی شاگرد رشید جو ابھی نیم حکیم تھے کسی بیمار کو دیکھنے کے لئے گئے حکیم صاحب نے تو اپنے تجربہ سے معلوم کیا کہ بیمار نے بد پرہیزی کی ہے بلکہ کہہ بھی دیا کہ اس نے تربوز کھایا جو اس کو مضر تھا۔ بیمارداروں نے اس امر کا اقرار کیا۔ اتفاق بیمار کی چارپائی کے نیچے تربوز کے چھلکے اور بیج بھی پڑے تھے نیم حکیم صاحب نے یہ اصول سمجھا کہ جس چیز کا نشان چارپائی کے نیچے ہو اس کے متعلق بد پرہیزی کا الزام بیمار پر لگا دینا چاہئے۔ اتفاق سے دوسرے روز حکیم صاحب مطب پر غیر حاضر تھے نیم حکیم بیمار مذکور کو دیکھنے تشریف لے گئے تو جاتے ہی بیمار کی چارپائی کے نیچے نمدا پڑا ہوا ملاحظہ کر کے جھٹ سے فرما دیا کہ آج تو بیمار نے بڑی سخت بدپرہیزی کی ہے بیمار داروں نے عرض کیا کہ جناب عالی آج تو قسمیہ کسی قسم کی بدپرہیزی نہیں ہوئی۔ مگر نیم حکیم صاحب نے بڑے قوی قرائن سے معلوم کیا ہوا تھا وہ بضد ہوئے کہ نہیں واقعی بیمار نے سخت بدپرہیزی کی ہے آخر بیمارداروں نے التماس کی کہ مہربانی کر کے آپ ہی بتلاویں کہ کیا بدپرہیزی ہوئی ہے آئندہ کو اس کا بھی لحاظ رہے گا۔ نیم حکیم صاحب نے درافشانی کی کہ ” بیمار نے نمدا کھایا ہے۔“ یہ سنتے ہی تیمارداروں نے نیم حکیم صاحب کی علمی فضیلت کا اعتراف کیا۔ ہم بھی سید صاحب کے حق میں تعبیر رویا کے کمال کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس سے آگے بادشاہ مصر کے خواب کے متعلق فرماتے ہیں۔ ” چوتھا خواب وہ ہے جس کو بادشاہ نے دیکھا تھا کہ سات موٹی موٹی تازہ گائیں ہیں ان کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالین ہیں اور سوکھی بھی ملک مصر ایک ایسا ملک ہے جس میں مینہ بہت ہی کم برستا ہے دریائے نیل کے چڑھائو پر کھیتی ہونے یا قحط پڑنے کا مدار ہے چڑھائو کے موسم میں اکثر بائیس فیٹ چڑھ جائے تو فصل اچھی ہوتی ہے اور چوبیس فیٹ چڑھائی ہو تو غرقی ہوجاتی ہے اور اگر صرف اٹھارہ یا ساڑھے اٹھارہ فیٹ چڑھائو ہو تو قحط ہوجاتا ہے۔ قدیم مصریوں نے دریائے نیل کے چڑھائو کے جس پر اچھی فصل کا یا قحط کا ہونا منحصر تھا متعدد جگہ اور متعدد طرح سے پیمانے تیار کئے تھے اور ان کو بہت زیادہ اچھی فصل ہونے یا قحط ہونے کا خیال اور ہمیشہ اسی کا چرچا رہتا تھا مصر میں قحط ہونے کا یہ سبب بھی ہوتا ہے کہ دریائے نیل کی طغیانی کے چڑھائو کے بہائو کا رخ اس طرح پر پڑجائے کہ زراعت کی زمین تو پانی کے رو سے محروم رہ جاویں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں اور اس سے پہلے بھی دریائے نیل بے اعتدالی کے طور تھا یعنی ملک مصر میں اس کے مناسب اور یکساں بہنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا اس زمانہ میں بھی جب کسی طرح سے اس کا رخ بدلتا معلوم ہوتا ہے تو لوگ اندازہ کرتے ہیں اور آپس میں چرچا کرتے ہیں کہ اتنے دنوں میں دریا اس کنارہ سے لگے گا اور فلاں طرف کی زمینیں چھوٹ جاویں گی۔ اسی طرح غالباً اس زمانہ میں مصر کی نسبت اور قحط پڑنے کی نسبت چرچے ہوتے ہوں گے اور بادشاہ مصر کو اس کا خیال ہوتا ہوگا اور وہی خیال پیداوار کے زمانہ کا موٹی گائیوں اور ہری ہری بالوں سے اور قحط کے زمانہ کا دبلی گائیوں اور سوکھی بالون سے متمثل ہو کر فرعون (بادشاہ مصر) کو خواب میں دکھائی دیا (گرانی یا ارزانی کا تصور تو بھلا ہر ایک کو موسم برسات پر ہوتا ہے سات عدد کا تصور بھی ہوتا ہے جو شاہ مصر کو ہوا؟) کما قال الفارابی ان التعبیر ھو حدس من المعبر یستخرج بہ الاصل الخ (تفسیر احمدی جلد پنجم ص ٨٣) ان خوابوں کی تعبیر دینے کے بعد سید صاحب ایک سوال کے جواب دینے پر متوجہ ہوتے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔ ” خوابوں کی نسبت اب صرف ایک بحث باقی ہے کہ اگر وہی چیزیں خواب میں دکھائی دیتی ہیں جو دماغ میں اور خیال میں جمع ہیں تو یہ کیوں ہوتا ہے کہ بعض دفعہ یا اکثر دفعہ وہی امر واقعہ ہوتا ہے جو خواب میں دیکھا گیا ہے مگر اس باب میں خواب کی حالت اور بیداری کی حالت برابر ہے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں آدمی باتیں سوچتا ہے اور اپنے دل میں قرار دیتا ہے کہ یہ ہوگا اور وہی ہوتا ہے یا کسی شخص کو یاد کرتا ہے اور وہ شخص آجاتا ہے اور بہت دفعہ اس کے مطابق نہیں ہوتا پس اس کی بیداری کے خیال کے مطابق واقع کا ہونا ایک امر اتفاقی ہوتا ہے اسی طرح خواب میں بھی جو باتیں وہ دیکھتا ہے اور وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کے دماغ اور خیال میں جمی ہوئی ہوتی ہیں پس کبھی ان کے مطابق بھی کوئی واقع اسی طرح واقع ہوتا ہے جس طرح کہ بیداری کی حالت میں خیالات کے مطابق واقع ہوتا ہے ہاں اس میں شبہ نہیں کہ انبیاء اور صلحا کے خواب بسبب اس کے کہ ان کے نفس کو تجرد فطری و خلقی اور اکتسابی حاصل ہوتا ہے ان کے خواب بالکل سچے اور اصلی (اصلی کے کیا معنے جب کہ خواب کی اصلیت ہی اتنی ہے کہ دن کے جو خیالات رات کو سوجھتے ہیں تو اس میں نبی ولی وغیرہ میں کیا فرق ہے اور اصلی اور غیر اصلی کے کیا معنی مصور اگر کسی خوش شکل کی تصویر اتارے تو وہ اصلی ہوگی اور اگر کسی بدشکل کی اتارے تو غیر اصلی؟ نہیں بلکہ دونوں اصلی ہیں پس نبی ولی یا فاسق فاجر وغیرہ سب کے خواب اصلی ہونے چاہئیں چاہے وہ کچھ ہی دیکھیں) اور مطابق ان کی حالت کے نظر آتے ہیں (یہ ٹھیک ہے لیکن آپ کی اصطلاح میں خاص ان کو اصلی کہنا ٹھیک نہیں) اور ان سے ان کے نفس کا تقدس اور متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے (بہت ٹھیک کل اناء یترشح بمافیہ) جلد پنجم صفحہ ٧٩ تا ٨٥ مختصر یہ کہ سید صاحب کے نزدیک خواب صرف دماغی خیالات سے ہوتا ہے اور بس کوئی تعلق ملاء اعلیٰ سے نہیں اور نہ ہی خواب کوئی ذریعہ علم ہے چاہے کسی کا بھی کیوں نہ ہو پس ہمارے ناظرین اس مسئلہ میں خود سوچ لیں کہ ان کو ہمیشہ وہی خواب آتے ہیں جن کا خیال ان کے دماغوں میں ہوتا ہے یا کبھی ایسے خواب بھی دیکھتے ہیں جن کا سامان و گمان بھی نہ ہو اگر شق اول ہے تو سید صاحب کا مذہب ثابت ہے اور اگر صورت ثانیہ ہے تو علماء اسلام بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کا قول صحیح فتفکر وایا اولی الالباب۔ اسی بحث کا تتمہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مصر سے یوسف کی خوشبو سونگھنے کا ہے جو حقیقتہ کوئی جداگانہ بحث نہیں ہے بلکہ اسی اصل کی فرع ہے جس کی بابت ہم نے ایک شعر لکھا تھا : ایکہ آگاہ نئی عالم درویشاں را توچہ دانی کہ چہ سوداے سرست ایشاں را سید صاحب لکھتے ہیں ” بلاشبہ حضرت یعقوب نے مصر میں بھی تلاش کی ہوگی مگر وہ عزیز مصر کے ہاتھ بیچے گئے تھے اور محلوں میں داخل تھے اور ایک مدت تک قید رہے ان کا پتہ نہیں لگ سکتا ہوگا (کیا مصر میں جاتے ہی قید ہوگئے تھے؟) مگر جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی مصر میں گئے اور حضرت یوسف بھی اس زمانہ میں عروج کی حالت میں تھے اور رعایت اور سلوک انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اپنے حقیقی بھائی کے لانے کی بھی تاکید کی تھی اور کچھ حالات بھی ان کے سنے ہوں گے تو ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے دل میں شبہ پیدا ہوگیا ہوگا کہ کہیں یہ یوسف ہی نہ ہو مگر جس درجہ شاہی پر (سید صاحب ! کیا کہہ رہے ہیں کیا حضرت یوسف مصر کے بادشاہ ہوگئے تھے کیا علماء کو مطعون کرتے کرتے آپ بھی بے ثبوت کہنے لگ گئے) اس وقت حضرت یوسف تھے یہ شبہ پختہ نہ ہوتا ہوگا اور دل سے نکل جاتا ہوگا۔ پس جب کہ حضرت یعقوب کا شبہ اس قدر قوی ہوگیا تھا اور جو مہربانی یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کی تھی اس کو سن کر ان کو گمان ہوگیا تھا کہ وہ بنیامین کا بھائی یوسف ہے تو ان کو یقین کامل ہوا کہ اب کے جو قافلہ واپس آوے گا تو ٹھیک خبر یوسف کی لاوے گا جب کہ تیسری دفعہ یہ لوگ مصر میں گئے تو حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں یوسف ہوں اور حضرت یعقوب کو معہ تمام کنبہ کے بلانے کو کہا تھا اور ان کے لئے بہت سا سامان مہیا کرنے کو حکم دیا (ثبوت کیا؟) جس کے لئے کچھ عرصہ لگا ہوگا اس عرصہ میں حضرت یوسف کے مصر میں موجود ہونے کی خبر افواہاً حضرت یعقوب کو پھر پہنچ گئی ہوگی اور اس افواہ پر ان کو یقین ہوا اور انہوں نے فرمایا کہ انی لاجدریح یوسف لولا ان تفندون یعنی میں پاتا ہوں خبر یوسف کی اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہنے لگو۔“ (جلد ٥ صفحہ ١١٧ و ١١٨) بہکا ہوا کیوں کہتے جس افواہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب کو یقین ہوا تھا وہ افواہ انہوں نے نہ سنی تھی؟ اگر نہیں سنی تھی تو حضرت یعقوب نے اس افواہ کو ان کے سامنے کیوں پیش نہ کیا اگر یعقوب کی روایت کا ان کو اعتبار نہ ہوتا (جو بلحاظ ان کے تقدس کے بعید ہے) تو انہی لوگوں کو جن کے ذریعہ حضرت یعقوب کو افواہ پہنچی تھی ان کے سامنے پیش کردیتے علاوہ اس کے افواہ کے کیا معنی اگر ان دنوں کوئی آدمی مصر سے آیا ہوگا تو اس نے تو یقینی خبر بتلائی ہوگی پھر افواہ سے اس کو کیوں تعبیر کیا گیا ہے اگر سید صاحب علم مسمریزم ہی سے جس کے اکثر حوالے دیا کرتے ہیں عملی طور پر واقف ہوتے تو ان کو یہ دشواری پیش نہ آتی جو آئی۔ علامہ ابن خلدون نے حقیقت نبوت پر ایک طویل بحث لکھی ہے جو ان سب شبہات کے ازالہ کو کافی ہے بہتر ہے کہ اس مقام پر ہم اسی کو مع مختصر ترجمہ نقل کردیں۔ لکھتے ہیں کہ والنفوس البشریۃ علی ثلاثۃ اصناف۔ صنف عاجز بالطبع عن الوصول الی ادراک الروحانی فینقطع بالحرکۃ الی الجھۃ السفلی نحو المدارک الحسیۃ والخیالیۃ و ترکیب المعانی من الحافظۃ والواھمۃ علی قوانین محصورۃ ترتیب خاص یستفیدون بہ العلوم التصوریۃ والتصدیقیۃ التی للفکر فی البدن وکلھا خیالی منحصر نطاقہ اذھو من جھۃ مبدئہ ینتھی الی الاولیات ولا یتجا وزھاوان فسد فسد مابعد ھاو ھذا ھو فی الاغلب فطاق الاردراک البشری الجسمانی والیہ تنتہی مدارک العلماء وفیہ ترسخ اقدامھم وصنف متوجہ بتلک الحرکۃ الفکریۃ نحوالعقل الروحانی والادراک الذی لا یفتقر الی الاٰلات البدنیۃ بما جعل فیہ من الاستعداد لذلک فیتسع نطاق ادراکہ عن الاولیات التی ھی نطاق الادراک الاول البشری و یسرح فی فضاء المشاھدات الباطنیۃ وھی وجدان کلھا لانطاق لھا من مبدئھا ولا من منتھاھا وھذہ مدارک العلماء الاولیاء اھل العلوم الدنیۃ والمعارف الربانیۃ وھی الحاصلۃ بعدالموت لاھل السعادۃ فی البرزخ وصنف مفتور علی الانسلاخ من البشریۃ جملۃ جسمانیتھا وروحانیتھا الی الملائکۃ من الافق الاعلی لیصیر فی لمحہ من اللمحات ملکا بالفعل ویحصل لہ شہود الملا الاعلی افقہم وسماع الکلام النفسانی والخطاب الالھی فی تلک اللمحۃ وھولاء الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم جعل امہ لھم الانسلاخ من البشریۃ فی تلک اللمحۃ وھی حالۃ الوحی فطرۃ فطرھم اللہ علیھا وجبلۃ صورھم فیھا ونزعھم عن موانع البدن وعوائقہ ماداموا ملابسین لھا بالشربۃ بمارکب فی غرائزھم من القصد والاستقامۃ التی یھاذون بھا تلک الرجعۃ وتسیغ نحو ھافھم یتوجھون الی ذلک الافق بذلک النوع من الانسلاخ متی شاؤا بتلک الفطرۃ التی فطروا علیھا لا بالاکتساب ولاصناعۃ فلذاتو جھوا وانسلخوا عن بشریتھم وتلقوا فی ذلک الملا مالا علی ما یتلقونہ عاجوانہ بہ علی المدارک البشریۃ منزلا فی قواھا لحکمۃ التبلیغ للعباد فتارۃ یسمع دویا کانہ رمز من الکلام یاخذ منہ المعنی الذی القی الیہ فلا ینقضی الدوی الاوقد ومحاہ فھو تارۃ یتمثل لہ الملک الذی یلقی الیہ رجلا فیکلمہ ویعی مایقولہ لہ والتلقی من الملک والرجوع الی المدارک البشریۃ وفھم ما القی علیہ کلہ کانہ فی لحظۃ واحدۃ بل اقرب من لمح البصر لانہ لیس فی زمان بل کلھا تقع جمیعا فیظہر کانہا سریعۃ ولذلک سمیت و حیالان الواحی فی اللغۃ الاسراع (ص ٨٦‘ ٨٧) نفوس بشریہ تین قسم پر ہیں ایک قسم تو بالطبع روحانیات تک پہنچنے سے عاجز ہیں وہ صرف قوانین مغلیہ کے مطابق ترکیب اور ترتیب معانی سے علوم تصوریہ اور تصدیقیہ حاصل کرتے ہیں اس قسم کا دائرہ ادراک بہت ہی تنگ ہے کیونکہ یہ اولیات تک پہنچ کر آگے نہیں بڑھ سکتے عموماً ادراکات بشریہ کا یہی طریقہ ہے اور علماء ظاہر کا مدار بھی یہی ہے اور اسی میں ان کے قدم جم جاتے ہیں ایک قسم نفوس بشریہ کی عقل روحانی کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو آلات بدنیہ کی محتاج نہیں پس اس کا دائرہ اولیات سے بڑھ کر مشاہدات باطنیہ تک پہنچ جاتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں علماء علوم لدنیہ اور معارف الٰہیہ والوں کا یہ طریق ہے اور اہل سعادت کو بعد موت حاصل ہوتا ہے ایک قسم نفوس بشریہ ہیں کہ وہ پیدائش ہی سے ظلمات بشریہ سے الگ ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحہ میں ملائکہ سے مل جاتے ہیں اور ملاء اعلیٰ اپنے مقام پر ان کو مشہور اور محسوس ہوتا ہے اور خطاب نفسانی اور خطاب الٰہی ان کو مسموع ہونے لگ جاتا ہے ایسے لوگ انبیاء علیہم السلام ہیں نزول وحی کے وقت اللہ ان کو ظلمات بشریہ سے پاک کرلیا کرتا ہے اسی فطرت پر ان کو پیدا کیا ہوا ہے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں میانہ روی اور استقامت اللہ نے گھڑی ہوتی ہے اور ان کی طبایع میں شوق رکھا ہوتا ہے پس وہ جب چاہیں اسی فطری صفائی سے جو فطرتاً بلا کسب ان کو حاصل ہے ملا اعلیٰ کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں پھر کبھی تو ان کو ایک آواز گہنگناہٹ سی سنائی دیتی ہے جسے وہی سمجھتے ہیں اور بعد ختم ہونے کے اس کا مطلب بخوبی ان کو یاد ہوجاتا ہے اور کبھی ان کے سامنے فرشتہ آ کر کلام کرتا ہے جو ان کو یاد ہوجاتا ہے۔ حضرت امام غزالی نے بھی اس مضمون کے متعلق بہت بڑی طویل تحریر کی ہے جو بعینہٖ مع مختصر ترجمے کے نقل کی جاتی ہے اعلم ان من انکشف لہ شیٔ ولو الشیٔ الیسیر بطریق الالھام والوقوع فی القلب من حیث لا یدری فقد صارعارفا لصحۃ الطریق ومن لم یدرک ذلک من نفسہ قط فینبغی ان یومن بہ فان درجۃ المعرفۃ فیہ غریزۃ جدا ویشھد لذلک شواھد الشرع والتجارب والحکایات اما الشواھد فقولہ تعالیٰ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا فکل حکمۃ تظھر من القلب بالمواظبۃ علی العبادۃ من غیر تعلم فھو بطریق الکشف والالھام وقال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من عمل بما علم ورثہ اللہ علم مالم یعلم ووفقہ فیما یعمل حتی یستوجب الجنۃ ومن لم یعمل بما یعلم تاہ فیما یعلم ولم یوفق فما یعمل حتی یستوجب النار وقال اللہ تعالیٰ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا من الاشکالات والشبہ ویرزقہ من حیث لا یحتسب یعلمہ علما من غیر تعلم ویفظنہ من غیر تجربتہ وقال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا قیل نورا یفرق بہ بین الحق والباطل ویخرج بہ من الشبہات ولذلک کان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکثر فی دعائہ من سوال النور فقال (علیہ السلام) اللہم اعطنی نورا وزدنی نورا واجعل لی فی قلبی نورا وفی قبری نورا وفی سمعی نورا و فی بصری نورا حتی قال فی شعری وفی بشری و فی مخی ودمی وعظامی وسئل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن قول اللہ تعالیٰ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ھذا الشرح فقال ھو التوسعۃ ان النور اذا قذف بہ فی القلب اتسع لہ الصدر وانشرح وقال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لابن عباس اللہم فقہ فی الدین وعلمہ التاویل وقال علی (رض) ماعندنا شئ اسرہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الینا الا ان یوتی اللہ تعالیٰ عبدا فھما فی کتابہ ولیس ھذا بالتعلم وقال فی تفسیر قولہ یوتی الحکمۃ من یشاء انہ الفہم فی کتاب اللہ تعالیٰ وقال اللہ تعالیٰ ففہمناھا سلیمان خص ما انکشف لہ باسم الفہم وکان ابو الدرداء یقول المومن من ینظر بنور اللہ من وراء ستر رقیق واللہ انہ للحق یقذفہ اللہ فی قلوبہم ویجریہ علی السنتہم وقال بعض السلف ظن المؤمن کھانۃ وقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالیٰ والیہ یشیر قولہ تعالیٰ ان فی ذلک لایات للمتوسمین وقولہ تعالیٰ قد بینا الایات لقوم یوقنون وروی الحسن عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم انہ قال العلم علمان فعلم باطن فی القلب فذالک ھو العلم النافع وسئل بعض العلماء عن العلم الباطن ماھو فقال ھو سرمن اسرار اللہ تعالیٰ یقذفہ اللہ تعالیٰ فی قلوب احبابہ لم یطلع علیہ ملکا ولا بشرا وقد قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان من امتی محدثین ومعلمین ومکلمین وان عمر منہم و قرأ ابن عباس (رض) وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث یعنی الصدیقین والمحدث ھو الملہم ھو الذی انکشف لہ فی باطن قلبہ من جھۃ الداخل لامن جحۃ المحسوسات الخارجۃ والقراٰن مصرح ان التقوی مفتاح الھدایۃ والکشف وذلک علم من غیر تعلم وقال اللہ تعالیٰ وماخلق اللہ فی السموت والارض لایات لقوم یتقون خصصھا بھم وقال تعالیٰ ھذا بیان للناس وھدی وموعظۃ للمتقین وکان ابو یزید وغیرہ یقول لیس العالم الذی یحفظ من کتاب فاذا انسی ماحفظہ صارجاھلا انما العالم الذی یاخذ علمہ من ربہ ای وقت شاء بلاحفظ ولادرس وھذا ھوالعلم الربانی والیہ الاشارۃ بقول تعالیٰ وعلمناہ من لدنا علما مع ان کل علم من لدنہ ولکن بعضہا بوسائط تعلیم الخلق فلاسمی ذلک علما لدنیا بل اللدنی الذی ینفتح فی سرالقلب من غیر سبب مالوف من خارج فھذہ شواھد النقل ولوجمع کل ماورد فیہ من الایات والاخبار والاثار یخرج من الحصر (احیاء العلوم جلد ٣ بیان شواہد الشرع) امام موصوف فرماتے ہیں کہ جس کو کوئی چیز بذریعہ الہام منکشف ہو تو وہ عارف ہے اور جس کو نہ ہو وہ اس کے امکان پر ایمان رکھے کیونکہ اس پر شواہد شرعی اور تجربات اور حکایات سب گواہی دے رہے ہیں شواہد شرعی میں سے ایک تو فرمان اللہ تعالیٰ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا الایۃ ہے پس جو حکمت انسان کو بشغل عبادت دل پر حاصل ہو وہ کشف اور الہام سے ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اللہ اس کو ایک ایسا علم سکھائے گا جو وہ نہیں جانتا ہوگا اور اس کو نیک عمل کی توفیق دے گا اور اللہ نے فرمایا ہے یااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ یعنی اے مومنو ! اللہ سے ڈرتے رہو تو تمہارے لئے فیصلہ کر دے گا یعنی نور دے گا کہ اس کے ساتھ حق اور باطل میں فیصلہ کیا جائے گا اور شبہات ظلمانیہ سے نکل جاوے گا اس لئے آنحضرت اکثر اوقات دعا کرتے ہوئے اللہ سے نور مانگا کرتے تھے اور حضور سے اس آیت افمن شرح اللہ الخ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ وسعت صدر ہے نور جب دل میں ڈالا جاتا ہے تو سینہ اس کے لئے فراخ ہوجاتا ہے حضرت نے ابن عباس (رض) کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ اس کو دین کی سمجھ دے اور اس کو تاویل سکھا حضرت علی (رض) نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک کوئی چیز نہیں جو آنحضرت نے ہمیں الگ بتلائی ہو مگر فہم و فراست ہے جو اللہ کسی بندے کو بغیر تعلیم و تعلم کے عنایت کرتا ہے ابوالدرداء کہا کرتے تھے کہ مومن اللہ کے نور سے باریک پردے سے پیچھے دیکھتا ہے اللہ کی قسم اللہ اپنے نیک بندوں کے دلوں پر حقانیت ڈال دیتا ہے اور ان کی زبانوں پر جاری کرا دیتا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اسی طرف اللہ کا قول اشارہ کرتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ حضرت حسن نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ علم دو قسم پر ہے ایک علم دل پر ہے وہی باطیٍ ہے (اور ایک علم زبان پر ہے جو اللہ کی طرف سے اتمام حجت ہے) اور آنحضرت نے فرمایا میری امت میں بعض لوگ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہوں گے اور عمر بن خطاب ان میں سے ہے اور ملہم وہ شخص ہے جس کے باطن میں سوائے محسوسات کے علم روشن ہو اور قرآن میں تصریح اس امر کی ہے کہ تقویٰ ہدایت اور کشف کی کنجی ہے جو بغیر سیکھنے کے (ریاضت سے) حاصل ہوتا ہے۔ ابویزید کہا کرتے تھے عالم تو بس وہی شخص ہے جو بلاواسطہ اپنے رب سے علم حاصل کرے اسی طرف اشارہ ہے وعلمناہ من لدنا علما اگر تمام آیات اور احادیث اس بارے میں جمع کی جائیں تو گنی نہ جائیں۔ انتہی غرض کہ یہ کوئی کام اللہ تعالیٰ کا بے قاعدہ اور خلاف نیچر نہیں مگر سید صاحب کی غلطی ہے کہ نیچر کی تحدید کرتے ہوئے بانی نیچر کی اجازت نہیں لیتے بلکہ اپنے ہی خیال سے نیچر کو تنگ کردیتے پھر جب کوئی مسئلہ ان کے مزعومہ نیچر کے خلاف نظر آتا ہے اسے ناحق نیم جان کرنے کی کوشش کتے ہیں غرضیکہ سید صاحب نصف نیچر کو تو مانتے ہیں نصف سے منکر ہیں انہی معنی کی طرف اللہ نے اشارہ فرمایا ہے یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (مسلمانو ! تمام دینی باتوں کو مانو) نہ کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا کر نصف نیچر کو مانو اور باقی سے انکاری ہوجائو۔ منہ نشان ہیں کہ حاسدوں کے حسد سے محسود کا کچھ بگڑتا نہیں ہر ایک موقع عبرت انگیز ہے خصوصاً وہ وقت جب یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں نے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی یوسف ( علیہ السلام) سے محبت دیکھ کر سب نے بیک زبان کہا کہ یوسف ( علیہ السلام) اور اس کا مادری بھائی بنیامین باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم سب لائق اور ایک کامل جماعت ہیں بے شک ہمارا باپ اس امر میں صریح غلطی پر ہے کہ لائقوں کی قدر نہیں کرتا خرد سالوں سے محبت کرتا ہے چونکہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتا اور اس کے متنبہ ہونے کی امید بھی نہیں اور ہو بھی کیسی اس کی محبت اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ وہ بزبان حال کہتا ہے زدیدنت نتوانم کہ دیدہ بر بندم دگر مقابلہ بینم کہ تیر مے آید یوسف
3 یوسف
4 یوسف
5 یوسف
6 یوسف
7 (7۔21) کچھ شک نہیں کہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائیوں کے قصے میں دریافت کرنے والوں کے لئے بہت سے نشان ہیں اس لئے مناسب ہے کہ باپ سے تو کچھ نہ کہو یوسف کو مار ڈالو یا کسی دور دراز گہن جنگل میں پھنکے دو جب وہ سامنے سے دفع ہوجائے گا تو والد کی توجہ بالکل تمہاری طرف ہی رہے گی اور اگر بے گناہ کے قتل یا ایذا سے تمہیں گناہ کا خوف ہو تو اس سے پیچھے تم توبہ کر کے نیک اور صالح بن جانا۔ ایک بھائی نے ان میں سے رائے دیتے ہوئے یہ کہا کہ بے گناہ مار ڈالنے سے تو کلیجہ کانپتا ہے علاوہ اس کے تمہارا مطلب کچھ اس کے قتل ہی سے وابستہ نہیں وہ تو صرف اس کی غیبوبت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے پس تم یوسف کو قتل نہ کرو اور اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس کو کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ چلتا مسافر اس کو نکال لے گا اور اپنے ساتھ لے جا کر کہیں بیچ دے گا چنانچہ اس تجویز پر سب متفق ہوگئے مگر چونکہ یوسف ( علیہ السلام) کا باہر لے جانا بغیر اطلاع باپ کے ناممکن تھا باپ سے درخواست کرتے ہوئے بولے بابا ! کیا وجہ کہ تم یوسف ( علیہ السلام) کے حق میں ہمارا اعتبار نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ اسے بھی باہر جنگل کو نہیں بھیجتا حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں کل اس کو ہمارے ساتھ ذرا بھیج کہ جنگل میں پھل پھول کھائے پئے اور کھیلے کودے اور اگر درندوں سے خوف ہو تو ہم اس کے محافظ ہیں یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے شاق ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے وہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے بولے کہ بھلا جس حال میں ہم ایک جماعت ہیں اگر ہماری موجودگی میں بھی بھیڑیا اسے کھا جائے تو پھر ہم تو سخت زیاں کار اور نکمے ٹھہرے چنانچہ حضرت یعقوب ان کی باتوں میں آگئے اور جانے کی اجازت دے دی پس جب وہ اسے لے گئے اور اس امر پر متفق ہوگئے کہ اس کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیں تو جو کچھ وہ سوچ رہے تھے وہ کر گذرے یعنی اندھے کنوئیں میں یوسف کو انہوں نے پھینک دیا ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے بچایا اور ہم (اللہ) نے اسے سمجھایا کہ تو ان کو ان کے اس فعل سے اطلاع دے گا اور وہ اس وقت بے خبر ہوں گے تیری زندگی اور اس ترقی کا جس پر تو اس وقت ہوگا اس کو وہم و گمان بھی نہ ہوگا خیر جو کچھ انہوں نے کرنا تھا کر گذرے اور بہانہ جوئی کرنے کو روتے ہوئے رات کو باپ کے پاس آئے کہنے لگے بابا ! ہم کبڈی کھیلنے میں مشغول ہوئے اور یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے اسباب کے پاس بٹھا گئے تو ہماری غیبوبت میں اسے بھیڑیا کھا گیا اور یہ تو ہمیں یقین ہے کہ تو ہماری بات ماننے کا نہیں گو ہم سچے بھی کیوں نہ ہوں اور اپنی بات کو یقین دلانے کو اس کرتے پر جھوٹ موٹ بکری کا خون بھی لگا لائے یعقوب ( علیہ السلام) نے خون کی رنگت دیکھ کر اور فراست سے ان کی چالاکی سمجھ کر کہا کہ بھیڑئیے نے تو کھایا نہیں بلکہ تمہارے شریر اور حاسد نفسوں نے یہ کام تمہاری نظر میں مزین کر دکھایا خیر اب میں یوسف کی جدائی پر صبر شکر کروں گا اور تمہارے بیان پر کہ بھیڑیا اسے کھا گیا اللہ سے مدد مطلوب ہے کہ وہ مجھے صبر عطا کرے اللہ کی قدرت ادھر تو انہوں نے یوسف کو کنوئیں میں ڈالا اور ادھر حکیم مطلق کی حکمت سے سوداگروں کا ایک قافلہ آ نکلا انہوں نے اسی کنوئیں پر اپنا سقا پانی لینے کے لئے بھیجا اس نے ڈول اس کنوئیں میں لٹکایا تو یوسف ( علیہ السلام) نے اول ڈول کو پکڑ لیا اس نے جھک کر بغور دیکھا تو ایک خوش شکل لڑکا اسے نظر آیا تو بولا آہا واہ جی ! یہ تو لڑکا ہے آخر اس نے اپنے ہمراہیوں کو خبر کی تو انہوں نے مل کر اسے کنوئیں سے نکالا اور بڑی قیمتی چیز بنا کر اسے چھپا رکھا اور دل میں اسے بیچنے کا مصمم ارادہ کرچکے لیکن جو کچھ وہ کر رہے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا آخر یہ ہوا کہ وہ اسے مصر میں لائے اور دل میں اس امر سے خائف تھے کہ شائد کوئی شہزادہ نہ ہو اسی ڈر کے مارے انہوں نے اسے بہت کم داموں یعنی چند درہموں آج کل کے حساب سے دو اڑھائی روپیہ پر بچہ دیا اور وہ اس سے بے رغبت تھے کیونکہ اس کی ظاہری شکل و شباہت ان کو شبہ میں ڈال رہی تھی کہ مبادا کوئی امیر زادہ ہو تو بجائے فائدہ کے الٹا ضرر نہ ہو مصر میں جس وزیر مصر نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ یہ لڑکا شریف زادہ ہونہار معلوم ہوتا ہے اس کو اچھی طرح رکھنا امید ہے کہ بے وفا نہ ہوگا بلکہ ہمیں نفع دے گا یا ہم اس کو لے پالک بیٹا بنا لیں گے اسی طرح بتدریج ہم (اللہ) نے یوسف کو ملک مصر میں جگہ دی کہ آزمودہ کار ہو اور چونکہ اس نے حکومت کے صیعد پر پہنچنا تھا ہمیں منظور تھا کہ اسے گہری باتوں کا انجام اور رموز سلطنت کی تہہ تک پہنچنا سکھائیں تاکہ وہ پاس ہو کر اس عہدہ کو عمدہ طور سے نباہ سکے اور اللہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے کیونکہ وہ اپنے کام پر غالب ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے وہ محض جہالت سے اللہ کے ہوتے ہوئے غیروں سے بیم و رجا کرنے لگ جاتے ہیں ایسے ہی نادانوں کے سمجھانے کو کسی اہل دل نے کہا ہے بہت مدت کے سوتے اب تو جاگو اللہ کے ہوتے بندوں سے نہ مانگو جن مفسروں کی راے ہے کہ یہ بیچنے والے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی تھے صحیح نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف بیچنے والوں کا ذکر کیا ہے تو ساتھ ہی خریدنے والوں کا قول نقل کیا ہے اور یہ تو یقینی امر ہے کہ مشتری مصری تھا پس ضرور ہے کہ بیع مصر میں ہوئی ہوگی نیز سیاق کلام میں یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر بھی نہیں۔ فافھم یوسف
8 یوسف
9 یوسف
10 یوسف
11 یوسف
12 یوسف
13 یوسف
14 یوسف
15 یوسف
16 یوسف
17 یوسف
18 یوسف
19 یوسف
20 یوسف
21 یوسف
22 (22۔32) اور ایسا ہوا کہ یوسف جب کمال جوانی کو پہنچا تو ہم (اللہ) نے اسے حکم شریعت یعنی علم نبوت عطا کیا اور اسی طرح ہم نیکوں کو عوض دیا کرتے ہیں۔ (یہی لفظ (اشد) یتامیٰ کے حق میں بھی آیا ہے وہاں اس سے مراد بلوغت جوانی ہے اس لئے یہاں بھی یہی ہونا چاہئے۔ ١٢ منہ گو اب نبوت ختم ہے لیکن آثار نبوت عموماً صلحا پر اب بھی وارد ہوتے رہتے ہیں وہ تو اپنے تزکیہ نفس میں مشغول تھا اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتا تھا یعنی جس کے خاوند نے اسے خریدا تھا اس نے اسے بہکانا شروع کیا ہمیشہ اسے اشاروں کنایوں سے کام لیتی ہوئی آخر ایک روز اسے ایک محفوظ مکان میں بلایا اور دروازے بند کر کے کہنے لگی میری طرف پلنگ پر آ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ کہ میں ایسی ناجائز حرکت کا مرتکب ہوں میرے پروردگار نے مجھے نیک رتبہ بنایا خاندان نبوت میں پیدا کیا اور علم و فضل اور اپنی معرفت سے مالا مال فرمایا کیا اس نعمت کا یہی شکریہ ہے کہ میں ناجائز حرکت کر کے ظالم بنوں کہ کچھ شک نہیں کہ ایسے ظالموں کو کبھی کامیابی نہیں ہوا کرتی مگر وہ عورت اس سے ارادہ بد کرچکی تھی یوسف ( علیہ السلام) کو بھی اگر الٰہی برہان نہ سوجھتا تو وہ بھی اس سے بد ارادہ کرلیتا مگر اللہ نے جو اسے علم اور سمجھ عطا کی ہوئی تھی وہ اس کے سامنے مثل ایک مرئی چیز کے موجود ہو کر مانع ہوئی جس کو اس نے انہ ربی احسن مثوی سے اظہار بھی کردیا اصل حقیقت یہ ہے ہم اسی طرح اسے بچاتے رہے تاکہ برائی اور بے حیائی کو اس سے پھیرے رکھیں کیونکہ وہ ہمارے خالص بندوں میں تھا (ھم بہا) اس آیت کی تفسیر میں چنداں اختلاف ہے جو دراصل ترکیب نحوی پر متفرع ہے بہت سے مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بھی قصد کرلیا تھا مگر بدکاری کا وقوعہ نہیں ہوا برھان ربی نے اسے روک لیا ورنہ وہ تو تیار ہوگیا تھا یہاں تک کہ اس پر بیٹھ بھی گیا مگر کئی ایک مفسرین کی رائے ہے کہ یہ معنے نہیں بلکہ معنے یہ ہیں کہ یوسف ( علیہ السلام) اگر اللہ کا برہان نہ دیکھتا تو قصد بد کرلیتا یعنی اس نے ارادہ بد بھی نہیں کیا پہلے گروہ نے کہا کہ عربی زبان میں لولا کی جزا مقدم نہیں آیا کرتی۔ امام رازی (رح) نے اس کے جواب میں قرآن شریف ہی سے مثال بتائی ہے لولا کی جزا مقدم آتی ہے ان کا دت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا (مفصل در تفسیر کبیر) برھان دیکھنے سے مراد نور ایمان کا جلوہ دیکھنا ہے۔ اللہ اعلم۔ ١٢ منہ) ہماری رحمت خاصہ کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ہم اپنے مخلص بندوں کو جن کا اکثر حال چال اچھا ہو اور کبھی بتقاضائے بشریت غلطی کے مرتکب ہونے کو ہوں تو بچا لیا کرتے ہیں یوسف اپنے انکار پر بضد رہا اور زلیخا اپنے تقاضا پر مصر رہی اور یوسف جان بچاتا ہوا اور زلیخا اسے پکڑتی ہوئی دونوں بھاگتے ہوئے دروازہ پر پہنچے اور اس عورت زلیخا نے یوسف کو کھینچتے ہوئے پیچھے سے اس کا کرتا پھاڑ دیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ دروازے پر زلیخا کا خاوند ان کو ملا زلیخا اسے دیکھتے ہی جھٹ سے بغرض دفع الزام بولی کہ اس نے آپ کے حرم پر بدنظر کی تھی جو کوئی آپ کے حرم پر برائی کا خیال کرے اس کی یہی سزا ہے کہ وہ قید کیا جاوے یا دکھ کی مار دیا جاوے یوسف نے بھی اپنی بریت کرنے کو کہا کہ اسی زلیخا نے مجھ سے بدخواہش کی ہے میں نے اسے کچھ نہیں کہا اور شور و شر ہوتے ہوتے جب تمام خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی تو اس عورت کے کنبے میں سے ایک شخص نے قیافہ سے یہ بات بتائی کہ اگر اس یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو وہ عورت زلیخا اپنے دعوی میں سچی ہے کہ یوسف ( علیہ السلام) نے اسے چھیڑا ہے اور وہ اس کے حملہ کو روکتی ہوگی اسی دھکم دھکا میں اس کا کرتا پھٹ گیا ہوگا اور وہ اس صورت میں جھوٹا ہوگا اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے ضرور اس عورت کی شرارت ہوگی سب خاندان کو مع عزیز مصر یہ بات پسند آئی پس اسی کے مطابق جب اس کا کرتا اس نے ملاحظہ کیا تو وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ دیکھ کر اس کے جی میں یقین ہوگیا کہ زلیخا کی شرارت ہے عزیز مصر بولا تم عورتوں کی چالاکی ہے کچھ شک نہیں تمہارے چرتر بڑے بڑے غضب کے ہوتے ہیں یوسف سے مخاطب ہو کر بولا اے یوسف تو اس بات کو جانے دے اس کی پرواہ نہ کر ہمیں تجھ پر ذرا بھی شبہ نہیں اور زلیخا سے کہا کہ اے عورت تو اپنے گناہ پر اللہ سے بخشش مانگ بے شک تو ہی قصوروار ہے یہاں حرم عزیز میں تو یہ فیصلہ ہو کر بات ٹھنڈی پڑگئی مگر باہر شور مچ گیا اور شہر میں عورتوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو ری عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو پھسلاتی ہے اور اس کی محبت میں بالکل فریفتہ ہوگئی ہے ہمارے نزدیک تو یہ کام اس کا صریح جہالت ہے منہ کالا کرنا ہی ہو تو ایسا کیا کہ غلاموں سے کیا جاوے جو بیچارے دست نگر ماتحت ہوتے ہیں یہ بات شرافت سے بعید ہے زلیخا نے جب ان کی غیبت اور بدگوئی سنی تو ان کی طرف دعوت کا پغاہم بھیجا اور ان کے لئے محفل آراستہ کی اور جب وہ آئیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں چھری گوشت وغیرہ کاٹ کاٹ کر کھانے کو دی اور دستر خوان ان کے سامنے چن کر یوسف سے کہا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ پس جب انہوں نے دیکھا تو اسے بہت بڑا عالی مرتبہ بزرگ سمجھا اور اس کو دیکھتے دیکھتے بجائے گوشت کاٹنے کے انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بولیں سبحان اللہ یہ تو انسان نہیں ایسا نورانی شکل کوئی آدمی نہیں ہوسکتا یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے زلیخا اپنا الزام اور عذر اتارنے کو بولی کہ بس یہی ہے جس کے حق میں تم نے مجھے ملامت کی تھی دیکھا بتلائو ! میں معزز ہوں یا نہیں۔ میں سچ کہتی ہوں میں نے اسے پھسلایا تھا مگر یہ آج تک بچا رہا اور اگر اس نے میرا کہا نہ مانا تو ضرور قید کیا جاوے اور بے عزت ہوگا زلیخا کا یہ کہنا تھا کہ عورتوں نے بھی دعوت کا حق ادا کرنے کو اس کی تائید کی تو یوسف ( علیہ السلام) نے دعا کرتے ہوئے ان کی اس تائید کی طرف اشارہ کر کے کہا اے میرے مولا ! بڑی بات تو یہ ہے کہ بے فرمانی میں مجھے قید کی دھمکی دیتی ہیں سو جس چیز کی مجھ سے یہ خواہش کرتی ہیں اور مجھے اس کی طرف بلاتی ہیں یعنی بدکاری قید اس سے کئی درجہ بڑھ کر مجھے پسند ہے اور اگر تو مجھ سے ان کا فریب جو اس بارے میں مجھ سے کر رہی ہیں نہ پھیرے گا تو میں بھی اپنے نفس کی خواہش میں ان کی طرف جھک جائوں گا اور تیری بے فرمانی کرنے سے جاہل بن جائوں گا اللہ کی شان وہ وقت اجابت کچھ ایسا تھا کہ اللہ نے اس کی یہ آرزو اور دعا قبول کی یعنی ان کا مکر اور فریب اس سے پیری دیا وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں اور آخر کار کچھ مدت یوسف کو قید خانہ میں رہنا پڑا کہ وہ اس امر میں بھی تجربہ کار ہوجائے کیونکہ اللہ سب کی سننے والا ہر ایک شے کو جاننے والا ہے جو کام وہ کرتا ہے وہی حکمت ہوتا ہے اس سے بعد کچھ مدت یوسف انہی کے گھر میں رہتا رہا گو اس کی طرف سے بدستور انکار رہا لیکن زلیخا سے ہمیشہ مضطربانہ حرکات صادر ہوتیں اور حبک الشی یعمی ویصم کا اس پر پورا جلویٰ نما تھا اور وہ ہر حال میں بزبان حال کہتی تھی دیدار می نمائی و پرہیز میکنی بازار خویش آتش ما تیز میکنی پھر اس کی مضطربانہ حرکات کے نشان دیکھنے کے بعد ان خاندان عزیزیہ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ گھر کی بیگم صاحبہ کو سزا دینے میں بدنامی ہوگی اور غلام کو قید کردینے میں کوئی حرج نہیں پس تھوڑے دنوں تک اسے ہی قید رکھیں تاکہ ان کی جدائی ہو کر آتش عشق سرد پڑجاوے مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ دو گونہ رنج و عذابست جان مجنوں را بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ پس وزیر صاحب نے بے قصور کو باختیار خود نظر بند کردیا یوسف
23 یوسف
24 یوسف
25 یوسف
26 یوسف
27 یوسف
28 یوسف
29 یوسف
30 یوسف
31 یوسف
32 یوسف
33 یوسف
34 یوسف
35 یوسف
36 (36۔52) اور اتفاق ایسا ہوا کہ دو جوان آدمی اس کے ساتھ قید خانہ میں بسزائے جرم داخل ہوئے کچھ دنوں میں جب وہ یوسف (علیہ السلام) کی صحبت سے مستفیض ہوئے اور انہوں نے اس کی صلاحیت کا اندازہ کیا تو اتفاقیہ ان دونوں نے ایک رات خواب دیکھا اور حضرت یوسف کی خدمت میں بیان کرنے کو آئے ایک نے کہا میں خواب میں دیکھتا کہ انگوروں سے شراب نچوڑ رہا ہوں دوسرے نے کہا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھائی ہوئی ہیں کہ ان میں سے جانور کھا رہے ہیں تو ہمیں اس کی تعبیر سے خبر دے کیونکہ ہم تجھے نیک اور بھلا آدمی سمجھتے ہیں اور اور خواب کی تعبیر ایسے ہی لوگ اچھی طرح کرتے ہیں جن کی روحانی صفائی اچھی ہو یوسف ( علیہ السلام) نے کہا اب جو کھانا تمہیں ملنے والا ہے اس کے ملنے سے پہلے میں تم کو اس خواب کی تعبیر بتلائوں گا یہ علم بھی ان باتوں میں ہے جو اللہ نے مجھے سکھائی ہیں مگر تعبیر سننے سے پہلے ذرا میری بھی ایک بات سن لو جو اصل میں تمہارے ہی حق میں مفید ہے۔ سنو ! جو لوگ اللہ سے منکر ہیں اور مخلوق سے دعائیں مانگتے ہیں ان کا مذہب اللہ کو پسند نہیں ان کی نجات نہ ہوگی بلکہ ابدی عذاب میں رہیں گے اسی لئے میں نے ایسے لوگوں کے دین کو کبھی پسند نہیں کیا جو اللہ پر جیسا چاہئے ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کی زندگی سے منکر ہیں اور میں اپنے باپ دادا ابراہیم اسحق اور یعقوب علیہم السلام کے دین کا تابع ہوں ہم کو اور نیز تم کو مناسب نہیں کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک بنائیں یہ بات جو ہمارے ذہن میں جم گئی ہے ہم پر اور ہمارے ذریعہ سے تمام لوگوں پر جو اس پر کاربند ہوں اللہ کے فضل سے ہے ورنہ بہتیرے دانایان فرنگ و یورپ اس سے بے نصیب ہیں لیکن بہت سے لوگ اس کا شکر نہیں کرتے بلکہ یوں کہئے کہ اس کو نعمت ہی نہیں جانتے تو شکر کیسا۔ صرف مُلّانا پن سمجھتے ہیں نعمت تو اس علم کو سمجھتے ہیں جس سے دنیا کی کمائی ہو یوسف (علیہ السلام) نے اس تعلیم کو واضح کرنے کی غرض سے یہ بھی کہا اے میرے قید خانہ کے دوستو ! بتلائو تو جدا جدا کئی ایک معبود اچھے ہیں یا اللہ اکیلا جو سب پر زبردست ہے اچھا ہے اگر غور کرو تو تھوڑی سی فکر میں تمہیں یہ بات حل ہوسکتی ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا نرے مصنوعی ناموں ہی کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے تجویز کر رکھا ہے ورنہ دراصل اس طاقت کی کوئی چیز سوائے اللہ کے دنیا میں نہیں ہے جس کی عبادت کی جائے محض تمہارے من گھڑت ڈھکوسلے ہیں۔ اللہ نے اس امر پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور ایسے مسائل میں جو ذات و صفات کے متعلق ہوں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چل سکتا اس نے تو یہی حکم دیا ہے کہ اسی کی عبادت کیا کرو۔ یہی مضبوط اور سیدھا مذہب ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے وہ محض اپنی جہالت سے غیروں کو پکارتے ہیں بندوں سے حاجت مانگتے ہیں اور نفع نقصان کی امیدیں ان سے رکھتے ہیں گو ایسے لوگ بظاہر علم دار ہوں تاہم حقیقت میں جاہل ہیں اے جیل خانہ کے دوستو ! یہ تو میں نے تمہیں حقانی تعلیم سکھائی ہے اب سنو ! تمہارے خواب کی تعبیر بتلاتا ہوں تم دونوں میں سے ایک یعنی جس نے خواب میں انگور نچوڑے ہیں وہ تو قید سے چھوٹ کر اپنے عہدے پر جا کر اپنے آقا کو شراب پلاوے گا جو اس کا کام ہے یعنی بعد تحقیقات وہ بے جرم ثابت ہوگا اور دوسرا یعنی جس نے خواب میں اپنے سر پر ٹوکرا اٹھایا تھا وہ جرم کے ثبوت پر سولی دیا جاوے گا سولی کے تختے پر اسے چھوڑ دیں گے تو جانور اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے جس امر سے تم سوال کرتے ہو یقینا جانو کہ وہ اللہ کے نزدیک ہو ہی چکا ہے یعنی انشاء اللہ اس میں سرمو تفاوت نہ ہوگا۔ یہ سن کر ان میں سے ایک خوش ہوا دوسرا رنجیدہ ہو کر بیٹھ رہا حضرت یوسف نے جسے چھوٹنے والا سمجھا تھا اسے کہا بھائی اگر اللہ تجھ پر رحم کرے اور تو بحال ہوجائے تو اپنے آقا کے پاس جو والی ملک ہے میرا بھی ذکر کیجیو کہ ایک بے گناہ مظلوم جیل خانہ میں پھنسا ہوا ہے سو شیطان نے اسے آقا کو یاد دلانا بھلا دیا یوسف ( علیہ السلام) کا یہ سوال گو شرعاً جائز تھا مگر عرف خاص میں جن کا یہ طریق ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے پسندیدہ نہیں تھا پس اسی وجہ سے وہ قید خانہ میں کئی سال تک کس مپرسی کی حالت میں پڑا رہا آخر اللہ کی جناب میں دعا قبول ہوئی تو اس نے خود ہی اس بلا سے نجات دلائی اور اس کا ظاہری سامان بنایا کہ بادشاہ کو ایک خواب دکھایا جو اس نے اپنی کچہری میں بیان کرتے ہوئے کہا میں نے خواب میں سات موٹی موٹی گائیں دیکھی ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیں سبز دیکھی ہیں اور کئی ایک خشک اس خواب سے میں سخت پریشان ہوں اے درباریو ! اگر تمہیں علم تعبیر ہے تو اس خواب کی تعبیر کرو سب نے بیک زبان کہا کہ یہ تو بے ہودہ اور پریشان خواب و خیال ہیں اور ہم ایسے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے اس لئے کہ ہر ایک خواب قابل تعبیر نہیں ہوتا بلکہ وہی ہوتا ہے جو القاء ربانی سے ہو ورنہ دن کے خیالات ذہن میں بیٹھے ہوئے رات کو قوت متخیلہ میں متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں۔ مگر بادشاہ کو ان کے اس جواب سے تشفی نہ ہوئی وہ اس کی تعبیر کا جو یاں رہا آخر تدبیر الٰہی غالب آئی اور جو ان دو قیدیوں میں سے بری ہوا تھا اور اسے بعد مدت مدید اور عرصہ بعید کے خواب کا قصہ سن کر اپنا خواب یاد آیا تو اس نے وزراء سے کہا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتلا سکتا ہوں پس مجھے بھیجو کہ میں جیل کے ایک قیدی سے جس نے مجھے تعبیر بتلائی تھی پوچھ آئوں۔ چنانچہ اسے اجازت ہوئی اور اس نے یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا اے یوسف ( علیہ السلام) صدیق راست باز میں تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں کرسکتا جو تو نے خواب کی سچی تعبیر بتلا کر میری تسلی کی تھی اب ایک اور اسی قسم کی ضرورت درپیش ہے پس تو ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی موٹی گائیں ہیں جن کو دوسری دبلی پتلی سات گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات بالیں سبز اور کئی ایک خشک ہیں یہ تو مجھے بتا کہ میں درباری لوگوں کے پاس جو اس کے منتظر ہیں جائوں اور ان کو تیری تعبیر سنائوں تاکہ انہیں بھی معلوم ہو جس سے شاید تیری مراد برآئے جس کی بابت تو نے مجھے کہا تھا یوسف ( علیہ السلام) نے کہا تعبیر تو کیا اس بلاء بےدرمان کی تدبیر بھی میں تم کو بتلا دوں گا یہ ایک سخت آفت تم پر آنے والی ہے کہ سات سال تک تو تم پر ہر طرح سے ارزانی اور فارغ البالی رہے گی مگر بعد ازاں سات سال سخت قحط ہوگا سو تم نے ایسا کرنا کہ سات سال تو بدستور پے در پے کاشتکاری کرتے رہنا پھر جس قدر فصل درو کرو (کاٹو) اسے بالوں ہی میں رہنے دینا مگر تھوڑا سا کھانے کے قدر (صاف کرلینا) پھر اس سے پیچھے سات سال سخت قحط کے آویں گے کہ جو کچھ تم نے ان کے لئے بچا رکھا ہوگا سب کا سب چاٹ جائیں گے یعنی تم سب کھا جائو گے لیکن بہت کم تھوڑا سا حصہ جو تم بیج وغیرہ ضرورتوں کے لئے بچا رکھو گے پھر اس کے بعد ایک ایسا خوشحالی کا سال آئے گا کہ اس میں لوگوں کی فریاد سنی جائے گی سب قسم کی تکلیفیں جو پے در پے قحط سالیوں سے ان پر آرہی ہیں دفع ہوجائیں گی اور وہ اس سال میں خوب انگور نچوڑیں گے غرض عیش و عشرت کے سب سامان ان کو مہیا ہوجائیں گے جب ایلچی نے بادشاہ کو یہ ساری تعبیر اور تدبیر سنائی بادشاہ کے دل میں اس تعبیر سے یوسف ( علیہ السلام) کی ایسی عظمت بیٹھ گئی کہ کسی کے ٹلانے سے نہ ٹلی کیونکر ٹل سکتی اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر کون غالب ہوسکتا ہے ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جب کہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا غرض یوسف ( علیہ السلام) کے بھلے دن آئے اور بادشاہ نے کہا جس نے یہ تعبیر اور تدبیر بتلائی ہے اسے میرے پاس لائو وہ اس قابل ہے کہ اس کی عزت و توقیر ہو نہ کہ قید میں رکھا جائے پس اردلی حکم سنتے ہی دوڑے جب یوسف کے پاس ایلچی بلانے کو آیا تو یوسف ( علیہ السلام) نے اسے کہا مناسب ہے کہ تو اپنے آقا کے پاس جس نے تجھے بھیجا ہے لوٹ جا اور اس سے دریافت کر آ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے زلیخا کی دعوت میں ہاتھ کاٹ لئے تھے میں یہ تحقیق صرف اس لئے کرانی چاہتا ہوں کہ آئندہ بدگمانوں کو موقع نہ ملے ورنہ میرا پروردگار تو ان کی چال بازیوں سے آگاہ ہے بہتر ہے کہ شاہ بھی مطلع ہوجائے تاکہ سرکاری طور پر ہمیشہ کے لئے میری بریت ہو بادشاہ نے یہ سوال سن کر کیفیت طلب کی ان عورتوں کو بلا کر کہا کہ جس وقت تم یوسف کو ناجائز کام پر مائل کرتی تھیں تمہیں اس کی بابت کیا کچھ معلوم ہے کہ وہ کیسا آدمی ہے بدنیت ہے یا نیک نیت سب کی سب بیک زبان بولیں سبحان اللہ ہم نے تو یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی وہ ایسا نیک خصال پسندیدہ مقال تھا کہ اس جیسا کوئی آدمی ہم نے نہیں دیکھا غرض اس میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہے وہ عزیز مصر کی عورت زلیخا نے عورتوں کی شہادت سن کر کہا اب تو شاہی مجلس میں بھی سچی بات کا اظہار فاش ہوگیا بے شک میں ہی نے اسے پھسلایا تھا اور وہ راست گو ہے غرض ہر طرح سے خاطر خواہ جب فیصلہ ہوا اور چوبدار نے یوسف ( علیہ السلام) کو تمام قصہ سنایا تو یوسف ( علیہ السلام) نے کہا یہ تحقیق کسی اور غرض کے لئے نہ تھی صرف اس لئے تھی کہ میرا آقا معلوم کرلے اور اسے کسی طرح کا واہمہ نہ رہے کہ میں نے اس کی غیبوبت میں خیانت نہیں کی اور وہ یہ بھی جان لے کہ اللہ تعالیٰ خائنوں کی تدبیریں باور نہیں کیا کرتا گوہ وہ اپنی خیانت کو کیسی ہی اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیر اور حیلہ سازی سے دبانا اور مخفی رکھنا چاہیں آخر ایک نہ ایک روز اس کا ظہور ہو کر ہی رہتا ہے اگر میں نے بھی کوئی خیانت کی ہوتی تو کبھی نہ چھپتی اور اصل پوچھو تو یہ سب کچھ اللہ کی مہربانی سے ہے یوسف
37 یوسف
38 یوسف
39 یوسف
40 یوسف
41 یوسف
42 یوسف
43 یوسف
44 یوسف
45 یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 یوسف
49 یوسف
50 یوسف
51 یوسف
52 یوسف
53 (53۔68) اور میں تو اپنے نفس کو پاک نہیں کہہ سکتا کیونکہ نفس انسانی تو ہر آن برائیوں ہی پر ابھارتا ہے مگر جس قدر اور جتنا وقت اللہ کا رحم شامل حال ہو بے شک میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے جو لوگ اس کے ہو رہتے ہیں وہ ان کو بھولتا نہیں بلکہ اپنی طرف راہ دیتا ہے اتنی گفتگو کرتے کراتے قید خانہ میں دیر لگی اور قاصد واپس نہ پہنچا تو بادشاہ نے کہا جلدی باعزاز و اکرام اسے میرے پاس لائو کہ میں اسے اپنا مخلص مقرب بنائوں پس جب یوسف آیا اور بادشاہ سے اس نے گفتگو کی تو بادشاہ نے اس کی لیاقت و دیانت کا اندازہ کرلیا اور کہا کہ پیچھے جو گذرا سو گذرا اب تو ہمارے نزدیک معزز معتبر ہے مناسب ہے کہ کوئی سرکاری خدمت قبول کرتا کہ تیری ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچے یوسف ( علیہ السلام) نے اس کے جواب میں کہا کہ حضور اگر مجھ پر اعتبار کرتے ہیں تو مجھے زمین کی پیداوار پر فنانشل کمشنر مقرر کر دیجئے کہ میں پیداوار کا مناسب انتظام کرسکوں تاکہ آئندہ کی تکلیف سے مخلوق اللہ کو کسی قدر آرام ملے کیونکہ میں اس کام کی حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں اصل میں تو یہ سب کام ہمارا ہی تھا اور ہم (اللہ) ہی کر رہے تھے۔ اسی طرح جیسا کہ یوسف ( علیہ السلام) کو دربار شاہی میں ہم نے پہنچایا تمام زمین مصر پر اس کو اختیار دیا اور عام طور پر اس کی ہر دلعزیزی لوگوں کے دلوں میں ڈالی جہاں چاہتا ڈیرہ لگا لیتا غرض کل ملک جو بادشاہ کے زیر فرمان تھا یوسف کے زیر قلم ہوگیا ہم اپنی رحمت خاصہ سے جس کو چاہیں حصہ دیتے ہیں کوئی ہمارا مزاحم نہیں ہوسکتا اور ہم بھلے آدمیوں کا بدلہ ضائع نہیں کیا کرتے یہ تو دنیاوی احسان ہے اور آخرت کا عوض مومنوں اور متقیوں کے لئے بہت ہی عمدہ ہے حاصل کلام یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے کام کا پورا انتظام کرلیا اور حسب تعبیر خواب قحط سالی بھی شروع ہوگئی یوسف ( علیہ السلام) نے تمام اطراف و جوانب میں منادی کرا دی کہ سرکاری مودی خانہ سے ارزاں قیمت پر غلہ ملے گا جس نے خریدنا ہو لے جایا کرے چنانچہ دور دراز اطراف سے جوق در جوق لوگ حتی کہ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی بھی قحط زدہ ہو کر اس کے پاس غلہ لینے کو آئے اس نے تو انہیں پہچان لا مگر انہوں نے اسے نہ پہچانا ان کو کیا خبر تھی کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آیا ہوا ہے ما ورچہ خیالیم و فلک ورچہ خیال کاریکہ اللہ کند فلک راچہ مجال خیر یوسف ( علیہ السلام) نے بھی ان کو کچھ نہ جتلایا اجنبی طور پر صرف اتنا دریافت کیا کہ تم کون ہو کس کی اولاد ہو تمہارے باپ کا کیا نام ہے زندہ ہے یا مر گیا ہے تمہارا کوئی بھائی بھی ہے انہوں نے سب باتوں کے جواب دئیے ایک بھائی کے ہونے کا اقرار بھی کیا اور اس کے حصہ کا غلہ بھی طلب کیا مگر اس کا حصہ نہ ملا کیونکہ غائبوں کا حصہ ملنے کا دستور نہ تھا اور جب یوسف ( علیہ السلام) نے ان کا سامان بندھوانے کا حکم دیا تو اتنا ان سے کہا کہ دوسری دفعہ آئو تو اپنے بھائی کو بھی باپ کے پاس سے لیتے آنا تم دیکھتے ہو کہ میں ہر ایک آدمی کو پورا گذارہ ماپ کردیتا ہوں اور میں عمدہ طرح سے مہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہوں مگر شاہی قانون کے خلاف نہیں کرسکتا جب تک تم اپنے بھائی کو نہ لائو اس کا حصہ میں تم کو نہیں دے سکتا بہتر ہے کہ اس کو تم لے آئو تاکہ اس کے گذارہ کی صورت بھی ہوجائے اور اگر تم میرے کہنے پر بھی اس کو نہ لائے تو یاد رکھنا پھر تم کو غلہ نہ ملے گا بلکہ میں تم سے سخت ناراض ہوں گا کیونکہ اس کے نہ آنے سے تمہارا کذب ثابت ہوگا جس سے تم پر دروغ گوئی کا الزام لگایا جاوے گا پھر تم نے میرے نزدیک بھی نہ آنا یوسف کے بھائی بولے کہ ہم جاتے ہی والد کو اس کے بھے جن کے متعلق نرم کریں گے اور ہم ایسے کام کرسکتے ہیں اس گفتگو کے بعد یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے ماتحتوں سے خفیہ کہا کہ ان کی بوریوں میں غلہ ڈالتے ہوئے ان کی قیمت بھی چھپا دو تاکہ وہ گھر پہنچ کر اس قیمت کو پہچانیں تو شائد وہ واپس پھر آویں مبادا قیمت میسر نہ ہونے کی وجہ سے نہ آسکیں اس خیال میں رہیں کہ بغیر قیمت تو غلہ ملتا نہیں خیر اللہ اللہ کر کے وہ مصر سے رخصت ہوئے پس جب اپنے باپ یعقوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو آتے ہی اپنا کل ماجرا بیان کرتے ہوئے بولے؟ بابا ! ہم کیا کریں آئندہ کو ہمیں ایک حکم کی عدم تعمیل پر سرکار سے غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے اس کے حکم کی تعمیل تیرے ہاتھ میں ہے عزیز مصر نے ہمارے بھائی کو طلب کیا ہے پس تو ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ مصر بھیج کہ ہم غلہ لائیں اور ہم اس کے محافظ بھی ہوں گے یعقوب (علیہ السلام) نے کہا جیسا اس سے پہلے میں نے یوسف کے بارے میں تمہارا اعتبار کیا تھا ویسا ہی اس کے حق میں کرتا ہوں تمہاری حفاظت تو معلوم آزمودہ را آزمودن خطاست البتہ اگر اس کا جانا ہی ضروری ہے نہ جانے میں اندیشہ نقصان ہے تو اللہ ہی سب سے اچھا محافظ ہے اور وہ سب سے زیادہ مہربان بھی ہے تمہاری حفاظت پر کیا اعتبار حضرت یعقوب کے اتنے جواب سے وہ کسی قدر مطمئن ہوئے اور اسباب اتارنا اور رکھنا شروع کیا جب اسباب کو انہوں نے کھولا ان کی پونجی جو غلہ کی قیمت میں یوسف کو دے چکے تھے واپس ان کو ملی تو بڑی خوشی خوشی باپ سے کہنے لگے بابا ! ہمیں اور کیا چاہئے دیکھ تو عزیز مصر ایسا رحیم و شفیق اور ہمارے خاندان کا معتقد ہے کہ ہماری کیسی خاطر تواضع کرتا رہا غلہ بھی دیا اور یہ ہماری پونجی بھی ہمیں لوٹا دی گئی جس کے ساتھ ہم اپنی حاجات چلائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لئے غلہ لاویں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور اس کے حصہ میں ایک اونٹ جتنا غلہ زیادہ لاویں گے اور یہ غلہ جو ہم لائے ہیں بہت ہی تھوڑا ہے کنبہ کو تمام سال کافی نہ ہوگا یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اسکو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے اللہ کے نام سے مضبوط عہد نہ دو گے کہ ضرور اسے میرے پاس زندہ اور سلامت لے آئیو مگر جس صورت میں تم کسی بلا میں گھر جائو اور واقعی مجبور ہوجائو تو میرے نزدیک بھی معذور ہو گے ورنہ نہیں چونکہ اس معاملہ میں ان کی نیت بھی صاف تھی اس لئے ان کو اس امر کی تسلیم میں چوں چرا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پس جب وہ باپ کو عہد دے چکے تو اس نے کہا جو ہم اس وقت قول و قرار کے متعلق کہہ رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے دیکھنا اس پر کاربند نہ ہو گے تو اللہ تم سے سوال کرے گا اور پدری شفقت میں یعقوب ( علیہ السلام) نے یہ بھی کہا میرے بیٹو ! مصر میں داخل ہوتے وقت ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا چشم بددور کہیں نظر بد تم کو نہ لگ جائے مختلف دروازوں سے جانا اور یہ یاد رکھنا کہ میں جو تم سے کہہ رہا ہوں محض ایک تدبیر ہے ورنہ میں اللہ کا حکم تم سے ذرا بھی نہیں ٹال سکتا کیونکہ کل کائنات پر حکم تو اللہ ہی کا ہے میرا بھروسہ اللہ ہی پر ہے میری اس میں کیا خصوصیت ہے سب بھروسہ کرنے والوں کو چاہئے کہ اسی پر بھروسہ کریں وہی سب کا مالک ہے مربی ہے داتا ہے غرض ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس را زہرۂ چون و چرا اور جب وہ باپ کے فرمودہ کے مطابق جہاں سے اس نے داخل ہونے کو کہا تھا داخل ہوئے تو بخیر و عافیت پہنچ گئے لیکن یہ داخلہ اللہ کے آئے ہوئے حکم سے اگر وہ تکلیف پہچانی چاہتا کچھ بھی کام نہ دے سکتا تھا۔ البتہ یعقوب کے جی کا خیال تھا جو اس نے پورا کرلیا اور بتلا بھی دیا کہ اصل باگ سب امور کی اللہ کے ہاتھ ہے کیونکہ وہ یعقوب ہماری روحانی تعلیم کی وجہ سے بڑا صاحب علم تھا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ کسی بزرگ کو اگر کوئی بات کسی وقت اللہ کی طرف سے معلوم ہوجائے تو وہ محض خداداد ہے نہ یہ کہ وہ غیب دان ہوگیا ایسے لوگوں کی مثال بالکل ویسی ہے جیسے کوئی تاربابو کو خبر دیتے ہوئے جو اسے دور دراز ملکوں سے پہنچی ہو سن کر جہالت سے اپنے اہل و عیال کا حال دریافت کرنے لگ جائے اور یہ نہ سمجھے کہ اس نے جو خبر بتلائی ہے وہ تو کسی کے بتلانے سے بتلائی ہے ورنہ اسے کیا معلوم کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے شیخ سعدی مرحوم نے اسی کے متعلق کیا ہی اچھا کہا ہے کسے پرسیدزاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند زمصرش بوئ پیراہن شنیدی چرا در چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال مابرق جہانست دمے پیدائو دیگردم نہانست گہے برطارم اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم یوسف
54 یوسف
55 یوسف
56 یوسف
57 یوسف
58 یوسف
59 یوسف
60 یوسف
61 یوسف
62 یوسف
63 یوسف
64 یوسف
65 یوسف
66 یوسف
67 یوسف
68 یوسف
69 (69۔96) خیر یہ تو جو ہوا سو ہوا یوسف کے بھائی جب یوسف ( علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور چپکے سے کہہ دیا کہ میں تیرا بھائی یوسف ہوں۔ پس تو ان کے کاموں سے جو تیرے ساتھ بے التفاتی کرتے آئے ہیں۔ رنجیدہ مت ہو پھر جب حسب دستور ان کی بوریاں بندھوانے کا حکم دیا تو اپنے بھائی کی بوری میں کٹورا رکھ دیا پھر چپکے سے انسپکٹر پولیس کو اس کی تلاش کا حکم دیا تو ایک پکارنے والے نے پولیس کی طرح مقدمہ ١ ؎ بنانے کو پکاردیا کہ اے قافلے والو ! تم چور ہو یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں نے پھر کر پوچھا کہ تمہارا کیا کھویا گیا ہے؟ سپاہیوں نے کہا کہ سرکاری برتن کٹورا پانی پینے کا ہمیں نہیں ملتا اور سرکار کا اشتہار ہوچکا ہے کہ جو کوئی اسے لائے اس کو اونٹ کے بوجھ جتنا غلہ ملے گا اور میں انسپکٹر پولیس اس کا ضامن ہوں کہ دلا دوں گا۔ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی یہ سن کر بولے کہ واللہ تم جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں بلکہ شریف خاندانی ہیں سپاہیوں نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے تو اس (چور) کی کیا سزا ہے بولے جس کے اسباب سے وہ نکلے وہی اس کی سزا ہے یعنی اسے ہی تم نے رکھ لینا وہ تمہارا ہمیشہ کو غلام ہوگا ہم ظالموں چوروں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں یہ بات بھی صرف من گھڑت انہوں نے کہی تھی ورنہ شریعت میں یہ سزا نہ تھی جب یہ قرارداد یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں میں اور سرکاری آدمیوں میں ہوچکی تو یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں اور بوروں کو کھلوایا پھر جب ان سے کچھ نہ نکلا تو تلاش کرتے کرتے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکال لیا۔ اسی طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کو ڈھب سکھایا تھا کہ بھائیوں سے اقرار لے کر بنیامین کو رکھ سکے ورنہ بادشاہ کے قانون متعلقہ چوری کے مطابق وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس نہ رکھ سکتا تھا مگر جو اللہ چاہتا تو اس قانون ہی میں ترمیم ہوجاتی ہم نے جس طرح یوسف ( علیہ السلام) کو عزت دی اسی طرح جس کو چاہتے ہیں علم اور دانش کے ذریعہ سے بلند رتبہ کردیتے ہیں یہ ترقی مراتب کچھ اسی زمانہ سے خاص نہ تھی اب بھی ہر ایک امر میں پائی جاتی ہے کہ ایک سے دوسرا برتر ہے اور ہر ایک علمدار سے بڑھ کر دوسرا علمدار ہے غرض کوئی شخص اپنے علم اور لیاقت پر نازاں ہو کہ مجھ جیسا کوئی تو یہ اس کی فاش غلطی ہے خیر مختصر یہ کہ کٹورا جب بنیامین کے تھیلے سے نکلا اور وہ نادم ہوئے تو بولے کہ اگر اس بنیامین نے سرکاری برتن کی چوری کی ہے تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس سے پہلے اس کے بھائی یوسف ( علیہ السلام) نے بھی ایک دفعہ چوری کی تھی دراصل ان کی ماں کی طرف سے خرابی آئی ہے مگر یہ بھی ان کا محض افترا ہی افترا تھا۔ ورنہ نہ تو یوسف ( علیہ السلام) نے کبھی چوری کی تھی نہ کچھ اور بات تھی یوسف نے اس کلمہ کو بھی چھپا رکھا اور ان کے سامنے اس کو نہ دھرایا ایسا کہ گویا سنا بھی نہیں اتنا کہا کہ تم بڑے نالائق ہو ہرگز اس قابل نہیں کہ تمہاری عزت کی جائے تمہارا بیان کہ اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی اللہ کو خوب معلوم ہے خیر اس سے فارغ ہو کر عرض کرتے ہوئے کہنے لگے اے عزیز اس کا باپ نہایت بوڑھا ہے اور اس سے اسے بہت ہی محبت ہے پس تو ہم میں سے کسی کو اس کے عوض میں رکھ لے ہم تجھے محسن جانتے ہیں مخلوق کے حال پر تجھے بڑا رحم آتا ہے جب ہی تو تو نے اتنا کچھ غلہ وغیرہ کا انتظام کر رکھا ہے اس بوڑھے پر بھی اگر احسان کرے تو طبع فیاض سے بعید نہیں یوسف ( علیہ السلام) نے کہا معاذ اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ اللہ پناہ دے کہ ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس سے ہمیں اپنی چیز ! ملی ہے کسی دوسرے کو لیں فوجداری مقدمات کی سزا بھگتنے میں مجرم کا کوئی وکیل نہیں ہوا کرتا تمہاری ایسی عقل پر پتھر اگر ہم ایسا کریں گے تو فوراً ہم ظالم ٹھہریں گے جس نے جرم کیا ہو اسے چھوڑ دیں (جن لوگوں نے اس چوری کے بتانے میں مصنوعی حکائتیں لکھی ہیں محض تکلف ہیں ایسے غلط گوئوں کی بابت جیسے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی تھے ایسے تکلفات کے مرتکب ہونا بلا ضرورت ہے۔ ١٢) اور غیر مجرم کو پکڑ لیں پھر جب اس سے ناامید ہوئے تو اس بارے میں مشورہ کرنے کو الگ ہو بیٹھے ان میں بڑے بھائی نے کہا تم جو بنیامین کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں تمہارے باپ نے تم سے اللہ کے نام کا مضبوط عہد لیا ہوا ہے اور اس سے پہلے جو یوسف ( علیہ السلام) کے بارے میں تم نے قصور کیا ہوا ہے وہ بھی تم کو معلوم ہے میری غیرت تو اجازت نہیں دیتی کہ میں یہاں سے جائوں پس میں تو ہرگز اس زمین مصر کو نہ چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ میرا فیصلہ نہ کرے کہ بنیامین مجھے مل جائے وہی سب سے اچھا فلہصل کرنے والا ہے تم سب باپ کے پاس جائو اور صحیح صحیح واقعہ بیان کرو اسے کہو کہ بابا ! تیرے بیٹے بنافمین نے چوری کی ہے اور وہ اس جرم میں ماخوذ ہے اصل حقیقت تو اللہ کو معلوم ہے ہم تو اسی بات کی گواہی دیتے ہیں جو ہمیں معلوم ہے الغیب عنداللہ ہم غیب تو جانتے نہیں اللہ معلوم اس امر کی تہہ میں کیا راز ہے کیونکہ بنیامین کی نسبت ہمارا بھی یہ گمان نہیں اور اگر تو ہماری تصدیق چاہتا ہے تو بے شک اس بستی (مصر) کے لوگوں سے پوچھ لے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے دریافت کرلے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور ہم سے پوچھے تو ہم قسمیہ کہتے ہیں کہ ہم سچے ہیں۔ غرض اسی رائے پر سب متفق ہوگئے اور مصر سے چل کر کنعان اپنے وطن میں آئے اور باپ سے اسی طرح عرض کیا جیسا کہ بڑے بھائی نے کہا تھا باپ نے سنتے ہی کہا کہ بنیامین کی چوری کا تو تمہیں بھی اعتبار نہیں اور نہ ہی واقع میں ہوگی البتہ تم دل میں اس کی جدائی سے رنجیدہ نہیں بلکہ خوش ہو۔ کیونکہ یہ بات تمہیں بھلی معلوم ہوئی ہے اور مدت کی تمہاری تمنا بر آئی کہ تمہارا ایک محسود مفقود الخبر ہوا اور دوسرا ملزم ٹھیرا میرا کام تو صبر و شکر ہے میں اللہ سے بے امید نہیں امید ہے کہ اللہ ان سب کو یعنی یوسف ( علیہ السلام) بنیامین اور ان کے بڑے بھائی کو جو مصر میں ندامت کے مارے بیٹھ رہا ہے میرے پاس لاوے گا اور میری ان سے ملاقات ہوگی بے شک وہی سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے یہ جواب دیا اور ان سے روگردانی کر کے کہنے لگا ہائے یوسف ( علیہ السلام) کے حال پر اور اس قدر یوسف کے فراق میں روتا تھا کہ اس کی آنکھیں مارے غم کے سفید بے نور ہوگئی تھیں اور وہ جی ہی جی میں غصہ دبایا کرتا تھا گھر والوں نے جب اتنے سال بعد بھی یوسف کا نام سنا تو بولے کہ اللہ کی قسم تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتا رہے گا حتی کہ قریب الموت ہوجائے بلکہ مر ہی جائے بھلا آج تک اتنے سالہائے سال کے عرصہ میں تیری آہ و بکا کا کیا نتیجہ ہوا ہے جواب ہوگا مانا کہ بیٹے کا صدمہ بڑا ہوتا ہے مگر آخر اس کی کوئی حد بھی ہے یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی تکلیف اور غم کا اظہار اللہ ہی کے سامنے کرتا ہوں تمہیں تو نہیں سناتا کہ تم اس سے تنگ آرہے ہو میں کیا کروں میرے دل سے نکلتی ہے بیا کہ باتو بگوئم غم ملالت دل چرا کہ بے تو ندارم مجال گفت و شنید اور مجھے اللہ کی طرف سے کئی ایک باتیں ایسی بھی معلوم ہیں جو تم کو معلوم نہیں مجھے اس کے خواب سے پختہ یقین ہے کہ وہ سرفراز ہوگا بلکہ ہوچکا ہوگا پس اے میرے بیٹو ! اگر میرے فرمان بردار ہو تو ایک دفعہ میرے کہنے پر پھر جائو اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور پتہ لگائو اور اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہو کیونکہ اللہ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی بے امید نہیں ہوتا یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا شعار کفار ہے خیر اللہ اللہ کر کے وطن سے چلے اور مصر میں پہنچے اور یوسف ( علیہ السلام) نے اطلاع پا کر ان کو بلایا پس جب یوسف کے پاس حاضر ہوئے تو گذشتہ سب باتیں بھول گئے اور اپنی ہی رام کہانی کہنے کو بولے اے عزیز ! ہم کو اور ہمارے اہل و عیال کو سخت مصیبت پہنچی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو اپنی مہربانی سے برما منگر بر کرم خویش نگر پس آپ مثل سابق ہم کو پورا غلہ دلوا دیجئے اور جس قدر قیمت ہماری کم ہے اس قدر اللہ کے نام کی ہمیں خیرات دیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو نیک بدلہ دیا کرتا ہے اللہ کی شان یہی یوسف ہے اور یہی یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی جنہوں نے اس کو کنوئیں میں ڈالا تھا شیخ سعدی مرحوم نے کیا ہی سچ کہا ہے مہا زور مندی مکن بر کہاں کہ بریک نمط می نماند جہاں یوسف ( علیہ السلام) نے بھائیوں کا الحاح اور گھر کی تباہی کا حال جب سنا تو اس سے ضبط نہ ہوسکا تو نہایت نرم لفظوں میں ان سے کہا کہ جو کچھ تم نے یوسف ( علیہ السلام) اور اس کے بھائی سے جہالت میں کیا تھا تمہیں کچھ معلوم ہے ان کو پہلے سے باپ کے کہنے سے کچھ شبہ تو تھا ہی جھٹ سے بولے کیا تو ہی یوسف ( علیہ السلام) ہے اس نے کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر بڑا ہی احسان کیا جو کوئی اس سے ڈرتا اور مصیبت کے وقت صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے بھلے آدمیوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا بولے واللہ اللہ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور ہم قصوروار ہیں تو ہمارے قصور معاف کر یوسف ( علیہ السلام) نے کہا اگر میں تم سے بدلہ لینے کو ہوتا تو اس سے پہلے تم کئی دفعہ آئے اسی وقت لے لیتا آج تم پر کسی طرح کا الزام نہیں کیونکہ جو کچھ تم نے کیا بحکم گرچہ تیر از کماں ہمے گذرد از کماں دار داند اہل خرد میں اس کو اس احکم الحاکمین کی طرف سے جانتا ہوں پس اللہ تمہیں بخشے وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے یہ میرا کرتہ لے جائو اور میرے باپ کے چہرے پر اسے ڈال دو انشاء اللہ تعالیٰ وہ سنواکھا ہوجائے گا اور اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس یہاں لے آئو کیا ضرورت ہے کہ بار بار غلہ ڈھونے کی تکلیف کرو یہاں پر اللہ کے فضل سے سب کچھ میسر ہے خیر صلح صفائی سے فارغ ہو کر حسب الحکم یوسف کے پاس سے چلے اور جب قافلہ ان کا مصر سے چلا تو ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) نے بوجہ صفائی قوت دراکہ کے گھر والوں سے کہا اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہو تو میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے گھر والوں نے کہا اللہ کی قسم تو اسی اپنی قدیمی غلطی میں ہے بھلا اتنے سال یوسف کو مرے ہوئے ہوگئے ایک ایک ہڈی اس کی کا کہیں پتہ نہ ہوگا آج تجھے یوسف کی مہک آتی ہے سبحان اللہ ایں چہ بوالعجبی ست پھر جب حسب الحکم یوسف کے بھائی مصر سے چل کر قریب کنعان پہنچے اور خوشخبری دینے والا ان سے پہلے تھوڑی مدت یعقوب کے پاس آیا اور آتے ہی اس یوسف ( علیہ السلام) کے کرتہ کو اس کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ اسی وقت سوانکھا ہوگیا فوراً اس کے آنسو سوکھ گئے اور آنکھیں روشن ہوگئیں تو اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کے بتلانے سے وہ باتیں بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یوسف
70 یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 یوسف
77 یوسف
78 یوسف
79 یوسف
80 یوسف
81 یوسف
82 یوسف
83 یوسف
84 یوسف
85 یوسف
86 یوسف
87 یوسف
88 یوسف
89 یوسف
90 یوسف
91 یوسف
92 یوسف
93 یوسف
94 یوسف
95 یوسف
96 یوسف
97 (97۔111) وہ بولے اے باباہمارے لئے اللہ سے بخشش مانگ بے شک ہم بڑے گنہگار ہیں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا میں تہجد کے وقت تمہارے لئے اللہ سے بخشش مانگوں گا وہ وقت قبولیت کا ہے امید ہے کہ اللہ قبول کرے گا کیونکہ وہی بڑا بخشنے والا مہربان ہے اس کے بعد یوسف ( علیہ السلام) کا پیغام باپ کو سنایا چونکہ وہ پہلے ہی سے مشتاق تھا اس نے فوراً تیاری کا حکم دیا پس وہ سب کے سب تیار ہو کر چل پڑے اور مصر کے قریب پہنچے تو یوسف (علیہ السلام) نے باپ کے آنے کی خبر سن کر شہر سے باہر بغرض استقبال خیمے لگا دئیے جب یوسف ( علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو اس نے ماں باپ کو تو اپنے پاس جگہ دی اور بھائیوں کو کسی قدر فاصلہ سے اور سب سے مخاطب ہو کر کہا کہ امن و امان سے شہر میں داخل ہو چلو انشاء اللہ تمہیں کسی طرح کی تکلیف نہ ہوگی اور شہر میں پہنچ کر اس نے ایک جلسہ کیا جس میں ماں باپ کو اس نے اونچے سے تخت پر جو خاص اسی غرض سے بنایا تھا بٹھایا اور بھائی اس کے سامنے آداب مجری بجا لائے یعنی عاجزانہ سلام کیا اور یوسف ( علیہ السلام) نے باپ سے کہا بابا جان یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج مجھے سجدہ کرتے ہیں گو اس وقت چاند اور سورج سے مراد آپ دونوں صاحب ہیں اور آپ تخت پر ہیں مگر چونکہ میرے ہی حکم سے آئے ہیں اور یہاں پر بیٹھے ہیں اس لئے گویا آپ بھی بوجہ زیر فرمان ظاہری ہونے کے مجھے سجدہ کر رہے ہیں الحمدللہ کہ میرے پروردگار نے اسے سچا کیا اور مجھ پر بڑا ہی احسان کیا کہ ایسی سخت کسمپرسی کی حالت میں قید خانہ سے مجھے نکالا اور مخلوق کی خیر خواہی کا کام بھی میرے سپرد کیا اور بعد اس سے شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں کدورت ڈال دی تھی وطن سے تم سب کو میرے پاس لایا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ میرے بھائیوں نے ذرہ سی بات پر مجھ سے حسد کیا تو اللہ نے اس عزت اور حشمت پر مجھے پہنچایا کہ ان کو خواب و خیال بھی نہ تھا کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار جو چاہے نہایت آسانی سے کرسکتا ہے بے شک وہ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے یہ کہہ کر اللہ کی طرف جس سے یہ سب کچھ اسے ملا تھا متوجہ ہو کر دعا کرنے لگا کہ اے پروردگار ! تو نے مجھے اپنی مہربانی سے حکومت بخشی حکومت بھی ایسی کہ ہر فرد بشر کی گویا زندگی کا سہارا ہے رزق کا انتظام میرے ہاتھ دے دیا اور مجھ کو اسرار اور رموز کی باتوں کی سمجھ عنایت کی اے میرے مولا ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا متولی اور کارساز ہے دنیا میں تو تو نے بہت کچھ دیا آخرت کے لئے آرزو ہے کہ مجھے اخیر تک اپنا فرمانبردار رکھیو اور فرمانبرداری کی حالت میں ماریو اور اپنے نیک بندوں سے ملائیو اللہ نے یوسف ( علیہ السلام) کی دعا قبول کی۔ یہ ہے مختصر قصہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اور یوسف ( علیہ السلام) کا اس پر غور کریں تو ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی اس میں بہت سا نتیجہ پا سکتا ہے بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ غیب کی باتیں سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور یہ کہ اللہ اگر کسی پر احسان کرنا چاہے تو کوئی مانع نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تکلیف کو کوئی ہٹا نہیں سکتا خواہ کتنا ہی بلند رتبہ اور عالی قدر بھی کیوں نہ ہو یہ قصہ غیبی باتوں سے ہے جو ہم اے رسول تیری طرف الہام کرتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ باپ سے فریب کرتے ہوئے اپنے کام پر متفق ہوئے تھے کہ یوسف ( علیہ السلام) کو ضرور ہی کنوئیں میں ڈال دینا چاہئے مگر اللہ کی بتلائی ہوئی وحی سے تو بتلاتا ہے لیکن یہ جاہل کہاں سنتے ہیں اور اکثر ان لوگوں میں کے کبھی نہ مانیں گے گو تو ان کے ایمان کی خواہش اور حرص بھی کرے اور لطف یہ ہے کہ تو ان سے کوئی بدلہ بھی نہیں مانگتا کہ میری تعلیم پر عمل کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے مجھے کچھ مشاہرہ دیا کریں مگر وہ قرآن جو تو تعلیم دیتا ہے تمام جہان والوں کے لئے نصیحت ہے اسی پر بس نہیں ان کی شرارت اور غفلت کا کیا ٹھکانہ ہے بہت سی نشانیاں آسمانوں اور زمینوں میں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے ہیں اور ان کی پرواہ تک نہیں کرتے اور جو کوئی ان میں اللہ کے قائل بھی ہیں ان میں بھی اکثر ایسے ہیں کہ اللہ کو مان کر شرک بھی اس کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اللہ سے بھی دعائیں مانگتے ہیں اور بزرگوں سے بھی۔ کسی صاحب دل نے کیا اچھا کہا ہے اللہ سے اور بزرگوں سے بھی کہنا یہی ہے شرک یارو اس سے بچنا تو کیا یہ جو ایسے غافل ہیں اور بے پرواہی میں زندگی گزار رہے ہیں یہ اس سے بے خوف ہیں کہ مبادا اللہ کے عذاب سے کوئی آفت ان پر آپڑے یا ان کی بے خبری میں ان کی موت کی گھڑی ان پر آجائے اور سانس لینا بھی نصیب نہ ہو پھر تو مرتے ہی داخل عذاب ہوں گے گو یہ ضد پر ہیں تو بھی محض ان کی بہتری کی غرض سے ان سے کہہ کہ یہ میرا طریق ہے کہ میں اور میرے تابعدار دلیل سے نہ کہ کو را نہ آبائی تقلید سے اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں اور بلند آواز سے اللہ کی پاکی بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ سب عیبوں اور نقصانوں سے پاک ہے اور میں خود اعلان کرتا ہوں کہ میں مشرکوں میں نہیں ہوں اور ان کی جہالت سنو کہ ان کے دل میں یہ بات جم رہی ہے کہ اللہ کا رسول آدمی نہیں ہوسکتا بلکہ فرشتہ ہونا چاہئے حالانکہ ہم نے جتنے رسول تجھ سے پہلے بھیجے ہیں ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں میں سے مرد ہی تھے کوئی فرشتہ نہ تھا ان کو نہ تو زمانہ کی تاریخ سے خبر ہے نہ جغرافیہ سے واقف ہیں یونہی جو جی میں آتا ہے دیوانے کی سی بڑ ہانک دیتے ہیں کیا انہوں نے ملک میں بغور سیر نہیں کی کہ دیکھتے کہ جو مشرک اور اللہ کے حکموں کے مقابلہ پر ضد کرنے والے ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا کہ باوجود اس طاقت اور شاہ زوری کے آج ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت کا گھر سب سے اچھا ہے کیا تم عقل نہیں کرتے کہ اتنی بات بھی سوچ سکو کہ دنیا کا عیش و عشرت خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو کبھی عیش مصفا نہیں ہوسکتا ہمیشہ مکدر رہتا ہے اول تو کوئی نہ کوئی تکلیف خواہ موسمی ہو یا بدنی۔ بیرونی ہو یا اندرونی ضرور ہی لاحق رہتی ہے اور اگر فرض کریں کہ کوئی بھی تکلیف نہیں جو فرض محال ہے تو بھی دنیا کی نعمت کا زوال تو سامنے نظر آتا ہے اور اس بات کا یقین دلاتا ہے عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ غرہ ہنوز اسی طرح پہلے لوگ بھی تکذیب پر بضد رہے یہاں تک کہ رسولوں کو جب ان سے ناامیدی ہوئی اور ایسی تکلیف اور گھبراہٹ میں پڑے کہ اپنے اتباع سے بھی ان کو جھوٹ کا گمان گذرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی جو ہم سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ان تکلیفوں کی وجہ سے کفار سے مل جائیں اور بے ایمان ہو کر ان کی طرح ان کا بھی خاتمہ خراب ہوجائے تو فوراً ہماری مدد آپہنچی پھر جس کو ہم نے چاہا وہ بچایا گیا اور ظالموں کو برباد کیا گیا کیونکہ ہمارا عذاب جب آ پہنچے تو بدکاروں سے ٹلا نہیں کرتا پس ان کو چاہئے کہ اس امر سے نصیحت پاویں اور سمجھیں کیونکہ ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لئے بہت بڑی عبرت ہے یاد رکھو کہ یہ قرآن بناوٹی بات نہیں بلکہ اپنے سے پہلی کتابوں کے سچے واقعات اور صحیح مضمون کی تصدیق ہے اور ہر ایک ضروری مذاہبی امر کی تفصیل اور ایماندار قوم کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ اللہم ارحمنی یوسف
98 یوسف
99 یوسف
100 یوسف
101 یوسف
102 یوسف
103 یوسف
104 یوسف
105 یوسف
106 یوسف
107 یوسف
108 یوسف
109 یوسف
110 یوسف
111 یوسف
0 الرعد
1 (1۔18) میں ہوں اللہ سب کچھ جانتا اور دیکھتا یہ سورت آسمانی کتاب کے احکام ہیں اور یاد رکھ کہ جو کچھ تیری طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے یعنی قرآن وہ بالکل سچ اور حق ہے لیکن بہت سے لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے یعنی اس کتاب کی تعلیم کے مطابق اللہ واحد سے تعلق نہیں کرتے بلکہ عاجز بندوں سے وہ امور چاہتے ہیں جو مالک مختار کے قبضے میں ہیں۔ اس لئے انہیں متنبہ کرنے کو کہہ کہ اللہ یعنی حقیقی معبود تو وہ مالک ہے جس نے آسمانوں کو جو اپنی وسعت کے لحاظ سے جواب نہیں رکھتے بالکل بے ستون بلند کر رکھا ہے جو تم دیکھ رہے ہو اور آج تک کوئی ستون تمہاری نظر سے نہیں گذرا پھر بعد پیدا کرنے آسمان اور زمین کے تخت حکومت پر بیٹھا یعنی سب اشیاء پر مناسب حکمرانی شروع کی اور سورج اور چاند کو اسی نے مخلوق کے کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک سورج۔ چاند سیارہ ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں ممکن نہیں کہ جو وقت ان کے لئے بلحاظ موسم مقرر ہو اس سے آگے پیچھے ہوسکیں نظام عالم میں تمام احکام وہی جاری کرتا ہے اور اپنی قوت کے نشان مفصل بتلاتا ہے تاکہ تم بنی آدم اپنے پروردگار سے ملنے کا یقین کرو اور سنو ! وہی اللہ قابل عبادت و پرستش ہے جس نے زمین کو اتنی وسعت پر پھلاآیا ہے اور اس پر پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور زمین پر ہر قسم کے پھل دو دو قسم کے بنائے ایک تو اعلیٰ درجہ کے جن کو امیر لوگ کھائیں اور گراں ملیں اور ایک ادنیٰ درجہ کے جو عام طور پر سب کو مل سکیں وہی رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی پر ڈھانپ دیتا ہے یعنی رات اور دن بھی اسی کے قبضے میں ہیں بے شک فکر کرنے والوں کے لئے اس بیان میں بہت سے دلائل مل سکتے ہیں اور سنو اس کی قدرت کے نشان دیکھنے کو یہی بیان بس نہیں نظام ارضی پر غور کرو کہ زمین میں مختلف ٹکڑے قریب قریب ہیں کسی میں ایک دانا بونے سے سو بلکہ کئی سو دانے بن جاتے ہیں اور کسی میں وہ بھی ضائع ہوجاتا ہے اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجوروں کے درخت بعض ایک تنہ کے بعض الگ الگ یعنی بعض کھجوریں ایک ہی تنہ سے دو شاخہ پیدا ہوتی ہیں اور بعض ایک ہی شاخ والی حالانکہ ایک ہی پانی سے اس کو سیراب کیا جاتا ہے اور وہ بعد پکنے کے ذائقوں اور حلاوتوں میں مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ہم (اللہ) ایک کو دوسرے پر کھانے اور مزے میں برتری دیتے ہیں اگر مادہ ہی سب کچھ ہوتا جیسا کہ مادیین کا خیال ہے تو پھر اس کا اثر بھی یکساں کیوں نہ ہوتا بے شک اس بیان میں عقل مند قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں جو ہر ایک بات کی تہ تک پہنچا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی فعل اور حادث بغیر فاعل اور محدث کے پیدا نہیں ہوسکتا تو یہ بڑا تفاوت عظیم باوجود اتحاد مادہ کیونکر ہوا اور جو جاہل اور عقل اللہ داد سے کام نہ لینے والے ہیں وہ چاہے کچھ ہی کہیں ان کا کون منہ بند کرسکتا ہے سو اگر تو ان کی باتوں سے متعجب ہے تو تیرا تعجب بھی بے محل نہیں کیونکہ ان کی باتیں ہی عجیب تعجب انگیز ہیں دیکھو تو ان کے کیسے کیسے شبہات ہو رہے ہیں کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو اس سے بعد ہم ایک نئی پیدائش میں ہوں گے؟ ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کی قدرت سے منکر ہیں انہی کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب کوئی حجت ان کی چلنے نہیں پاتی تو بے ہودہ گوئی پر اتر آتے ہیں اور بھلائی سے پہلے تجھ سے برائی کی درخواست کرتے ہیں یعنی آرزو کرتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں ہدایت ہو حالانکہ ان سے پہلے ان جیسی کئی ایک مثالیں گذر چکی ہیں جو انہی کی طرح شوخیاں کیا کرتے تھے اور انبیاء کے ساتھ بضد پیش آتے تھے آخر ان کی جو گت ہوئی وہ سب کو معلوم لیکن اللہ کی پکڑ میں جلدی نہیں اور اس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ کیونکہ تیرا پروردگار خداوند عالم باوجود لوگوں کے ظلم و زیادتی کے لوگوں کے حال پر بڑا ہی بخشنے والا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ خداوند عالم یعنی تیرے پروردگار کا عذاب بھی بہت ہی سخت ہے اس کی برداشت کی طاقت کسی میں نہیں مگر اس کا حلم اور اس کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اس کے رحم ہی کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول بھیجتا ہے تاکہ لوگ ہدایت یاب ہو کر اس کے غضب سے امن پاویں مگر لوگ الٹے مقابلہ پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور کافر تو روزمرہ نشان دیکھ دیکھ کر بھی کہتے ہیں کہ کیوں اس رسول پر اللہ کی طرف سے کوئی نشان نہیں اترا حالانکہ اگر نشان یعنی معجزہ نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ تو تو برے کاموں پر صرف ڈرانے والا ہے اور ہر ایک قوم کے لئے ہادی اور رہنما ہو گذرے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ان کو راہ راست دکھاتے اور سمجھاتے رہے پر یہ نہیں جانتے کہ ہمارا اصلی معاملہ تو اللہ سے ہے جس نے بھلے برے کاموں کا ہم کو اجر دینا ہے جس سے ہماری کوئی بات کوئی حرکت کوئی سکون چھپ نہیں سکتی کیونکہ اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ ظاہری اشیاء کے علم کے علاوہ وہ ہر ایک مادہ خواہ انسان ہو یا عام حیوان کے حمل کو جسے وہ اٹھاتی ہے جانتا ہے اور بعد وضع جس قدر رحم سکڑتے ہیں اور ایام حمل میں جس قدر بڑھتے ہیں سب کو جانتا ہے ہر ایک چیز اس کے نزدیک اندازہ سے ہے مجال نہیں کہ اس کے مقررہ انداز سے بڑھ جائے وہ غائب اور حاضر کو یکساں جاننے والا بڑا ہی عالیشان ہے اس کے علم کی یہ وسعت ہے کہ تم میں سے کوئی کوئی آہستہ بات کرے یا چلا کر کرے اور جو رات کے اندھیروں میں چھپ رہے یا دن دھاڑے راہ چلے اس کے پاس سب برابر ہیں گو انسان اپنی سرکشی میں اس کی نعمتوں اور احسانوں کا قائل نہ ہو لیکن اللہ نے تو آخر اسے پیدا کیا ہے اسے تو اس کی حاجتوں کا پورا علم ہے اسی لئے ہر انسان کے لئے اللہ کی طرف سے آگے پیچھے آنے والے (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اگر اللہ اپنی حفاظت مخلوق سے اٹھا لے تو ایک دم کے لئے بھی زیست محال ہوجائے یہ بھی کیا کم مہربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی نیک حاجت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلیں ان لیاقتوں کو جن پر وہ نعمت مترتب ہوئی تھی ضائع نہ کریں جس کی زندہ مثال ہندوستان کے شاہان مغلیہ ہیں۔ اور جب اللہ کسی قوم کے حق میں برائی چاہتا ہے تو وہ کسی طرح نہیں ٹلتی کیونکہ کوئی اس کو ٹلانے والا نہیں اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی والی وارث ہوتا ہے جو ان کی حمائت کو کھڑا ہو اور سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ وہی ذات پاک ہے جو عذاب کے ڈالنے اور بارش کی امید دلانے کو تمہیں بجلی دکھاتا ہے اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے اس کی ہیبت کی یہ کیفیت ہے کہ آسمان و زمین والے تمام اس کے نام سے تھراتے ہیں اور بادلوں کی گرج اس کی پاکی سے تعریف کرتی ہے یعنی بجلی کی آواز سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک تعریفوں کا مالک ہے اور آسمانوں کے فرشتے بھی اس کے خوف سے تسبیح پڑھتے ہیں یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہیں وہی بجلیاں بھیجتا ہے جس سے چمکارا نکلتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے انہیں گراتا ہے وہ کافر اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں کوئی تو مطلقاً ہی انکاری ہے کوئی اقراری ہے تو اس جیسا اوروں کو بھی مانتا ہے اسی قسم کی کئی ایک کج بحثیاں کرتے ہیں حالانکہ اس کی گرفت کے دائو بڑے مضبوط ہیں شان نزول (وھم یجادلون) عرب کے مشرکوں بےدینوں کی بدذاتی کی بھی کوئی مدد نہ تھی ایک شخص کے سمجھانے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند ایک صحابہ کو بھیجا جب انہوں نے اسے وعظ کہا تو وہ شخص نہایت سرکشی اور تکبر سے بولا کہ جس اللہ کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ کس چیز سے بنا ہوا ہے چاندی سے یا سونے سے صحابہ کو یہ لفظ اس کا نہایت ہی ناگوار گذرا چنانچہ وہاں سے واپس آئے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا آپ نے فرمایا پھر جائو اور اسی طرح اسے سمجھائو وہ بدذات پھر اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سرکشی سے پیش آیا تیسری دفعہ پھر آپ نے بھیجا نالائق نے پھر وہی کلمات بکے اتنے میں ابھی صحابہ کرام اس کے مکان پر ہی بیٹھے تھے کہ بادل آیا اور گرجا بجلی اس پر گری جس سے وہ جل کر خاکستر ہوگیا اور صحابہ جو اس کے مکان پر گئے تھے۔ بڑی خوشی سے ظالم کی ہلاکت کی خوشخبری حضرت کی خدمت میں پہنچانے کو آئے آگے سے ان کو دیگر چند صحابہ ملے اور بتلایا کہ تمہارا دشمن ہلاک ہوگیا انہوں نے جو اس کے مکان پر آرہے تھے پوچھا کہ تم کو کس نے بتلایا انہوں نے کہا کہ حضرت پر یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے ہمیں بتلایا ہے۔ سچ ہے موت نے کردیا لاچار وگرنہ انساں تھا وہ کافر کہ اللہ کا بھی نہ قائل ہوتا وہ اگر کسی بلا میں انہیں پھنسانا چاہے گا تو کچھ نہیں کرسکیں گے اسی کی پکار سچی ہے یعنی جو لوگ اسے پکارتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں ان کا فعل شمر براہ راست ہے اور فائدہ مند اور جو لوگ اس کے سوا اوروں سے دعائیں کرتے ہیں ان کی پکار بالکل رائگاں ہے کیونکہ وہ ان کی دعائوں کو ذرا بھی قبول نہیں کرسکتے ان کی مثال بالکل اس بے عقل آدمی کی طرح ہے جو شدت پیاس کے وقت پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے کہ کسی طرح وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے وہ تو پہنچ چکا اور اس کا کام ہوچکا وہ نہ پہنچے گا اور نہ اس کا کام بنے گا یہی وجہ ہے کہ کافروں کا انجام بخیر نہیں اور کافروں کی دعائیں جو اللہ کے سوا اس کی مخلوق سے مانگتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں سراسر گمراہی اور بے راہی میں ہیں دیکھو تو کیسی گمراہی اور جہالت ہے کہ ایسے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے استمداد کرتے ہیں جس کی فرمانبرداری تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے بعض نیک دل خوشی سے اور بعض بدبخت شقی القلب کراہت اور ناخوشی سے کر رہے ہیں یعنی ایماندار تو اس کی اطاعت بخوشی برداشت کرتے ہیں اور بے ایمان اڑے وقت اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور بالکل اس شعر کے مصداق بنتے ہیں عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی دبا یزید شوند اور اگر بغور دیکھیں تو ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اور سربسجدہ ہیں یعنی ان کے سایہ جو ادھر ادھر سورج کے مقابلہ پر گھومتے رہتے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم اور ہماری اصل کسی دوسری سے متاثر اور منفعل ہیں نہ کہ واجب الوجود اور مستقل بالذات یہی ان کا سجدہ ہے پس تو کھلے لفظوں میں ان سے پوچھ کہ تم جو غیروں سے استمداد اور استعانت کرتے ہو یہ تو بتلائو کہ آسمانوں اور زمینوں اور ان کے باشندوں کا پروردگار کون ہے تو خود ہی کہہ اور یہ لوگ بھی تیرے ساتھ زبانی متفق ہوں گے کہ سب چیزوں کا پروردگار اللہ ہی ہے جب یہ اس جواب کو غلط نہیں جانتے تو تو ان سے ایک اور بات کہہ جو اسی پر متفرع ہے کہ کیا پھر بھی تم نے اللہ کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا تو درکنار اپنے لئے بھی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اے نبی تو یہ بھی ان سے کہہ کہ یہ کام جو تم کر رہے ہو کہ اللہ مالک الملک کارساز کے ہوتے ہوئے عاجز بندوں کو اپنا کارساز سمجھتے ہو صریح اندھا پن ہے تو پوچھ کہ بھلا اندھا اور سوانکھا برابر ہیں یا کہیں اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں اللہ کی توحید اور اس سے نیاز مندگی کا تعلق یہ نور اور بینائی ہے اور اس سے الگ ہو رہنا اور اسی اکیلے کو اپنا کارساز متولی امور جاننا صریح اندھا پن اور ظلمت ہے جن لوگوں کو انہوں نے اللہ کا ساجھی بنا رکھا ہے کیا انہوں نے بھی اللہ جیسی کوئی مخلوق بنائی ہے کہ مخلوقات ان پر مشتبہ ہوگئی ہیں کہ کس کو کس کی کہیں کچھ نہیں صرف ان کے توہمات ہیں پس تو کہہ کہ اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے اور وہی اکیلا سب پر ضابط ہے مجال نہیں کہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہوسکے وہی ہمیشہ بادل سے پانی اتارتا ہے جس سے ندی نالے اپنی اپنی قدر موافق بہتے ہیں پھر بہتا ہوا پانی جھاگ کو اپنے اوپر اٹھا لیتا ہے اور جس چیز پر سونا ہو یا چاندی کٹھالی میں ڈال کر سنار لوگ زیور یا سامان بنانے کے لئے آگ جلاتے ہیں اس میں سے بھی اسی بہنے والے پانی کی طرح جھاگ ہوتا ہے جو خالص سونے پر غالب آتا ہے یہ مثال ہے حق اور باطل کی حق پر باطل جھاگ کی طرح چھا جاتا ہے پھر اللہ سچ اور جھوٹ بیان کرتا ہے یعنی جھوٹ کی برائی اور سچ کی خوبی بتاتا ہے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جھاگ جھوٹ دور ہوجاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے حق میں نافع ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھیر رہتی ہے اسی طرح اللہ لوگوں کے سمجھانے کو مثالیں اور کہاوتیں بتلاتا ہے مطلب اس مثال کا یہ ہے کہ جس طرح صاف شفاف پانی پر جھاگ آجاتا ہے اسی طرح اللہ کی سچی تعلیم پر لوگوں کی جہالت کا سایہ پڑجاتا ہے جس کی وجہ سے اہل حق دب جاتے ہیں اور اہل باطل ان کو ایذائیں اور تکلیفیں پہنچاتے ہیں ایسے حال میں جو لوگ اپنے پروردگار کا کہا مانتے ہیں انہیں کے لئے بہتری اور انجام بخیر ہے اور جو لوگ اس اپنے پروردگار کا کہا نہیں مانتے ان کی ایسی بری گت ہوگی کہ اگر دنیا کا تمام مال اور اسی جتنا اور زر و مال ان کو میسر ہوسکے تو اس تکلیف اور مصیبت سے چھوٹنے کو وہ سارے کا سارا بدلے میں دے دینا منظور کریں گے۔ مگر کیا وہ قبول بھی ہوگا حاشا و کلا ہرگز نہیں انہیں کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے کیونکہ وہ دیدہ دانستہ اندھے بنے الرعد
2 الرعد
3 الرعد
4 الرعد
5 الرعد
6 الرعد
7 الرعد
8 الرعد
9 الرعد
10 الرعد
11 الرعد
12 الرعد
13 الرعد
14 الرعد
15 الرعد
16 الرعد
17 الرعد
18 الرعد
19 (19۔35) تو کیا پھر جو لوگ تیری طرف نازل شدہ کلام یعنی قرآن کو حق جانتے ہیں وہ ان اندھوں کی طرح ہیں جنہوں نے اپنی عمر کو یونہی رائگاں ضائع کیا اور دانستہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اندھوں میں جا ملے پس اس پاکیزہ کلام (قرآن) سے عقلمند لوگ ہی نصیحت پاتے ہیں یوں تو ہر کوئی عقلمندی کا دعویدار ہے شیخ سعدی (رح) نے کیا ہی اچھا کہا ہے گر از بساط زمین عقل منعدم گردد بخود گمان نبرد ہیچ کس کہ نادانم مگر محض کسی کے دعویٰ کرنے سے کوئی دانا ہوسکتا ہے؟ نہیں بلکہ دانا کی تعریف جامع مانع صرف دو حرفہ ہے کہ عچراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔ یعنی آئندہ کی صلاحیت اور ہر کام میں انجام بخیر ہونے کا جن کو خیال ہے وہ عقل مند پس اس کے مطابق دانا وہ لوگ ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں یعنی جو قول و اقرار عبودیت بزبان قال یا بزبان حال اللہ سے انہوں نے کئے ہوئے ہیں ان کا ایفا کرتے ہیں کیونکہ اسی میں انجام بخیر ہے کہ ماتحت اپنے افسر سے اور خادم اپنے آقا سے بگاڑ نہ کرے ورنہ بقول ہر کہ با فولاد بازو پنجہ کرد ساعد سیمین خودرا رنجہ کرد اس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ پس یہی ایک اصول کلیہ سب امور کو جامع ہے مگر تفصیل سے بھی سنو کہ وہ اللہ سے عہد نباہتے ہیں اور مخلوق سے بھی عہد شکنی نہیں کرتے اور اللہ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا اس کو ملاتے ہیں یعنی بنی آدم کے باہمی حقوق اور ایک دوسرے سے قدرتی اور تمدنی تعلقات جو قدرت نے بنا رکھے ہیں جیسا شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے۔ بنی آدم اعضاء یک دیگر اند کہ در آفرینش زیک جوہر اند یہ تو ایک عام تعلقات ہیں اس سے بعد خاص مذہبی اور قومی اور جیرانی (ہمسائیگی) رشتہ وغیرہ کے تعلقات اور ہیں غرض وہ سب کو باحسن وجوہ جیسی شرع میں ان کی بابت ہدایت آئی ہوئی ہے نباہتے ہیں گو ان کے حاسد ان سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوں مگر وہ اپنی طرز معاشرت میں ” مرنج و مرنجاں“ کے اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں اور دانائوں کی نشانی یہ بھی ہے کہ باوجودیکہ وہ احکام الٰہی کے دل سے مطیع ہوتے ہیں تاہم اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں کہ مبادا کسی طرح ہم سے ناراض نہ ہوجائے اور وہ اپنے آخری حساب کی خرابی سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں ان کو ہمیشہ یہی فکر دامنگیر رہتی ہے کہ ” ہم جو دنیا میں اپنے آقا کے فرستادہ ہو کر آئے ہیں اور اس نے ہم کو سب ضروری سامان جسمانی و روحانی صحت و عافیت کے بخشے ہیں مبادا کہیں وقت حساب ہم خسارہ میں نہ رہیں چنانچہ اسی فکر میں اگر ان سے کوئی قصور بھی ہوجاتا ہے تو فوراً اس کی تلافی کرنے کو توبہ کرتے ہیں اور اللہ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں اور دانا وہ لوگ ہیں جو تکلیف پر بے چینی اور گھبراہٹ کرنے کی بجائے اپنے پروردگار کی رضا جوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور اپنی تمام زندگی میں عموماً اور تکلیف کے وقت خصوصاً نماز پڑھتے ہیں اللہ کے آگے دعائیں مانگتے ہیں ناک رگڑتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کسی قدر پوشیدہ اور ظاہر مگر اخلاص سے اللہ کی راہ میں خرچتے رہتے ہیں ان سب تعلقات کی تفصیل اور تعلیم قرآنی ” تقابل ثلاثہ“ میں دیکھو۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ حسب موقع مخلوق کی برائی کے بجائے ان سے نیکی کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا مگر نہ ہر جگہ اور ہر ایک شریف و شریر سے برابر نہیں کیونکہ بعض دفعہ نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بد کردن بجائے نیک مرداں یعنی جہاں ایسے آدمیوں سے برائی پہنچے کہ ان سے اس کے مقابلہ پر نیکی کی جائے تو وہ اپنی شرافت کی وجہ سے خود ہی نادم ہو کر آئندہ کو باز آجائیں تو ایسے لوگوں سے اس اصول کو برتنا چاہئے اور جن شریروں کی شرارت اور کمینہ پن یہاں تک بڑھ رہا ہو کہ وہ مخالف کی نیکی پا کر الٹے اور شرارت پر کمر بستہ ہوں دوسرے طریق کو عمل میں لانا مناسب ہے مطلب قیام امن سے ہے جو آدمی جس قابل ہو اس سے ویسا ہی طریق برتا جائے مختصر یہ کہ دانا وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے خالق سے اور اس کی مخلوق سے کماحقہ نباہ کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے انجام بخیر ہے یعنی ہمیشہ کے باغ میں جن میں وہ داخل ہوں گے اور جو ان کے بزرگوں باپ دادا وغیرہ اور بیوی بچوں میں سے صالح اور نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ ہی وہاں موجود ہوں گے اور فرشتے ان پر ہر دروازہ سے داخل ہوا کریں گے اور کہیں گے کہ آج سے ہمیشہ تک تم پر سلامتی ہے کیونکہ دنیا میں تم نے ہر ایک تکلیف پر صبر کیا پس تمہارا انجام بخیر ہو اور ان لوگوں کے مقابل یعنی جو لوگ اللہ کے ساتھ مضبوط عہد کئے پیچھے بھی وعدہ خلافی کرتے ہیں یعنی عام طور پر بزبان حال اور خاص مصیبت کے وقت بزبان قال عبودیت کے عہد و پیمان اللہ سے کرتے ہیں مگر پھر نباہتے نہیں بلکہ جب مطلب پورا ہوا فرار ہوئے اور جن تعلقات کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد کرتے ہیں بے وجہ لوگوں کو ستاتے ہیں ایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور انہی کا انجام بد ہے یہ بدکار عہد شکن اس گھمنڈ میں ہوں گے کہ ہم مالدار ہیں جو چاہیں سو کریں ہمارے سب کام اللہ کو منظور اور پسند ہیں اسی لئے ہمیں فراخی اور آسائش دے رکھی ہے حاشا و کلا ہرگز یہ بات نہیں بلکہ اللہ جس کے حق میں چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ اس کی حکمتیں ہیں جن کو وہی جانتا ہے یہ کوئی رضا الٰہی کا ثبوت نہیں مگر یہ بددماغ اپنی غلطی سے ایسا سمجھے بیٹھے ہیں اور دنیا کی زندگی کے عیش و عشرت سے بڑے خوش ہو رہے ہیں آخرت اور دوسری زندگی کی وقعت تو ان کے دلوں میں ذرہ بھر نہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ پر محض بے حقیقت شے ہے جس کا ذکر بھی مناسب اور موزوں نہیں کیونکہ دنیا بتما مہادار محن و بلا ہے کوئی کیسا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی نہ کسی مصیبت میں اپنی حیثیت کے مطابق پھنسا ہوتا ہے اور جو کچھ لطف بھی دنیا میں ہے وہ بھی چند روزہ ہے بلکہ ایسا کہ ایک دم آئے دوسرے کا یقین نہیں پھر فانی آسائش اس حقیقی آسائش سے کیونکر مقابل اور راجح ہوسکتی ہے جس میں کسی طرح سے تکلیف نہیں اور ساتھ ہی اس کے دائمی ہے مگر نالائقوں کو کوئی بات اثر نہیں کرتی وہ تو الٹی اپنی متمردانہ چال ہی چلتے ہیں اور بدستور حق سے ہنسی اڑاتے رہتے ہیں چنانچہ یہ کافر عرب والے بار بار معجزات دیکھ داکھ کر بھی یہی کہتے ہیں کہ کیوں اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر کوئی نشانی نہیں اترتی جو ہم چاہتے ہیں وہ کیوں ہم کو نہیں دکھاتا تو ان سے کہہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ حق سے مخالفت کا نتیجہ میرے ہی حق میں برا ہوگا اور جو اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ان کو ہدایت کرتا ہے اور ہمیشہ توفیق خیر دیتا ہے یعنی ان لوگوں کو توفیق خیر ملتی ہے جو اللہ واحد پر ایمان لاتے ہیں نہ صرف زبانی بلکہ ایسے کہ اس کے حکموں پر چلتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے تسلی پاتے ہیں یعنی ذکر الٰہی بڑی تسلی اور چین سے کرتے ہیں نہ گھبراہٹ سے سن رکھو ! کہ جو دل سلیم ہوتے ہیں وہ اللہ کے ذکر سے تسلی پایا ہی کرتے ہیں بیمار دلوں کو البتہ بے چینی ہوتی ہے سو ان کا علاج یہ ہے کہ ابتدا میں وہ کسی قدر اپنے نفس پر بیماروں کی طرح جبر کریں تو بآہستگی درست ہوجائیں گے بقول سعدی مرحوم تحمل چو زہرت نماید نخست ولے شہد باشد چو در طبع رست پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے اصلی وطن یعنی آخرت میں خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ ہے اس لئے ہم نے تجھے اس قوم میں رسول کر کے بھیجا ہے جس سے پہلے کئی پشتیں ان کی بے رسول ہی گذر گئیں تاکہ جو کلام تیری طرف ہم نے وحی اور الہام کیا ہے تو ان کو پڑھ کر سنائے اور وہ لوگ اللہ مالک الملک سے جس کا نام رحمن ہے اس سے انکاری ہیں اس کی توحید خالص نہیں مانتے بلکہ تیرے منہ سے سن کر تو اور بھی نفرت کر جاتے ہیں تو ان سے کہہ وہ رحمن میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف مررا رجوع ہے یہ کہہ کر ان کی پرواہ نہ کر مانیں یا نہ مانیں بھلا یہ کیا مانیں گے جو ہر روز نئی حجت بازی کرتے ہیں اور اگر قرآن کی برکت سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہلا دئیے جائیں یا زمین چیر دی جائے یا مردے بلائے جائیں تو ایسے صاف معجزات اور بین نشانات دیکھ کر بھی یہ لوگ نہ مانیں گے لیکن کیا اس مخالفت سے کوئی نقصان پہنچا سکیں گے؟ ہرگز نہیں ان کا اختیار ہی کیا ہے بلکہ اختیار تو سب کاموں کا اللہ ہی کو ہے تو کیا ابھی مسلمانوں کو بھی یہ معلوم نہیں ہوا اور اس بات پر ان کے دل مطمئن نہیں ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کردیتا کوئی ہے کہ اس کے چاہے کو پھیر سکے؟ مگر اس کی حکمت ہے کہ امور اختیار یہ میں جبر نہیں کیا کرتا۔ اس لئے جو لوگ منکر ہیں ان کی کرتوتوں کے عوض ان کو ہمیشہ تکلیف پہنچتی رہے گی۔ خود ان میں اور ان کی قوم میں یا ان کی بستیوں سے قریب قریب نازل ہوتی رہے گی۔ جس سے وہ بھی ہر وقت سہمگین رہیں گے جب تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے جو اس نے اپنے نیک بندوں سے فتح و نصرت کے متعلق کیا ہوا ہے اللہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرے گا۔ یہ بگاڑ کفار کا کچھ تجھ ہی سے نہیں بلکہ تجھ سے پہلے کئی ایک رسولوں سے ہنسی اڑائی گئی۔ پھر میں (اللہ) نے کافروں کو مہلت دی کہ اتنے وقت میں جو چاہیں کرلیں مگر وہ باز نہ آئے پس میں نے ان کو خوب پکڑا پھر میرا عذاب کیسا ہوا کیا جو اللہ ہر نفس کے اعمال کا بدلہ دینے پر قادر ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اور ہر دم اسی کے فیض جود سے وہ موجود ہیں اسے چھوڑ بیٹھے ہیں؟ اور انہوں نے اللہ کے ساجھی ٹھہرا رکھے ہیں تو کہہ بھلا ان کا نام تو معین کرو ان کی کیفیت تو بتلاؤ کہ معلوم ہو کہ وہ واقع میں کچھ ہیں بھی اگر ان کی کیفیت اور حقیقت نہیں بتلا سکتے تو کیا اللہ کو ایسے امور سے اطلاع دینا چاہتے ہو جن کو وہ زمین کے واقعات میں نہیں جانتا یا ہنسی سے نری بے اصل باتیں بنا رہے ہو اگر سچ پوچھو تو کوئی بات ٹھکانہ کی نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ کافروں کو اپنی چالاکیاں اور حیلہ سازیاں اور بے جا تاویلیں اپنے مذہب کی حمایت میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ حق کی راہ سے رکے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ راہ راست پر نہیں آتے اور آئیں بھی کیسے جن کو اللہ گمراہ کر دے اور اس کی بے پروائی کی سزا میں اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دے تو اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے کیونکہ اس عذاب کے دفعیہ کا ان کے پاس کوئی انتظام نہیں نہ خود طاقت رکھتے ہوں گے اور نہ کوئی اللہ کے عذاب سے ان کا نگہبان ہوگا لیکن جن لوگوں نے یہ بدراہی اختیار نہ کی ہوگی کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کے بندوں سے فریادیں کرتے پھریں اور مخلوق سے خالق کے کام چاہیں بلکہ وہ اللہ کے ہو رہے یہ لوگ جنت میں ہوں گے۔ اس جنت کا نقطہ جس کا اللہ کی طرف سے پرہیزگاروں کو وعدہ دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے درختوں کے تلے نہریں جاری ہیں اس کے پھل اور بہار دائمی ہے۔ یہ انجام تو پرہیزگاروں کا ہوگا۔ اور کافروں کا انجام جہنم کی آگ ہے بس جس گروہ سے کوئی چاہے ہو کسی کا کیا حرج ہے اگر تیری نہیں مانتے تو تیرا کیا نقصان ہے الرعد
20 الرعد
21 الرعد
22 الرعد
23 الرعد
24 الرعد
25 الرعد
26 الرعد
27 الرعد
28 الرعد
29 الرعد
30 الرعد
31 الرعد
32 الرعد
33 الرعد
34 الرعد
35 الرعد
36 (36۔43) اور جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب کی سمجھ دی ہے یعنی اہل کتاب میں سے علماء راسخین وہ تیری طرف اتاری ہوئی کتاب قرآن شریف کے سننے سے خوش ہوتے ہیں اور بعض ان گروہوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس کے بعض حصہ سے جو شرک۔ کفر۔ بت پرستی۔ قبرپرستی وغیرہ بداعمال سے متعلق ہے انکاری ہیں۔ تو ان سے کہہ میں اس تمہارے انکار سے گھبراتا نہیں۔ مجھے تو بس یہی حکم ہے کہ اللہ اکیلے کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائوں۔ اسی کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔ اور اگر غور کرو تو اسی لئے ہم نے اس قرآن کو عربی حکم کی شکل میں اتارا ہے۔ تاکہ یہ عرب کے باشندے اس پر غور کرسکیں۔ اور نتیجہ پاویں۔ مگر یہ نالائق ایسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں بلکہ تجھے بھی اپنا تابع کرنے پر لاحاصل سعی کرتے ہیں اور اے نبی اگر فرضاً بعد حصول علم اور سچے الہام پانے کے بھی تو ان کی خواہشوں پر چلا تو تیری بھی خیر نہ ہوگی ایسے بلا میں تو پھنسے گا کہ اللہ کے سوا نہ تیرا کوئی دوست ہوگا اور نہ بچانے والا جو اس بلا سے تجھے بچا سکے ان کے تو جتنے اغراض ہیں سب فضول اور لایعنی ہیں کبھی کہتے ہیں یہ رسول کھاتا پیتا کیوں ہے کبی کہتے ہیں اس کے بیوی بچے کیوں ہیں کبھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے منہ مانگے معجزے کیوں نہیں لاتا۔ غرض آئے دن ان کے نئی قسم کے اعتراض ہوتے ہیں حالانکہ ہم نے تجھ سے پہلے کئی ایک رسول بھیجے ہیں اور ان کو بیویاں بھی دیں اور اولاد بھی یہ باتیں رسالت سے کچھ منافی نہیں رسالت کی علامت تو صلاحیت اور تبتل الی اللہ ہے اور بس۔ نہ یہ کہ رسول انسانی خصلتوں سے پاک و صاف ہوجایا کرتے ہیں اور انسانیت سے اوپر کسی درجہ پر پہنچ کر جو چاہتے ہیں دکھایا کرتے ہیں ہرگز نہیں کسی رسول اور نبی کی شان اور طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے سوا کوئی نشانی دکھا سکے ہر ایک چیز کا اختیار اسی ذات واحد کو ہے اور ہر ایک کام کے لئے ایک نہ ایک وقت لکھا ہوا ہے اور ہر ایک وقت کی اللہ کے ہاں لکھت ہے۔ ممکن نہیں کہ اس کے پہلے کوئی اس کو ایجاد کرسکے پھر بعد ایجاد اللہ ہی جس چیز کو چاہتا ہے فنا کردیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے مدت دراز تک ثابت اور موجود رکھتا ہے۔ اور وہ اس کرنے میں بھولتا نہیں کیونکہ اصل کتاب جس سے تمام کتابیں حاصل ہوتی ہیں یعنی علم الٰہی جو اس کی صفت خاصہ ہے اسی کے پاس ہے اس پر کوئی مطلع نہیں یہ لوگ جو تجھ سے ہر بات میں جلدی چاہتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ جن باتوں کا تو ہم کو ڈر سناتا ہے ابھی سب کچھ دکھا دے یہ نہیں جانتے کہ اگر ہم بعض امور جن کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں تجھے بھی دکھاویں۔ یعنی تیری زندگی ہی میں ان کا وقوع ہوجیسے عرب کی فتح اور شیوع اسلام یا تجھے ان کے ظہور سے پہلے ہی فوت کرلیں جیسے دیگر ممالک کی فتح تو بہرحال تیری اس میں ذمہ داری نہیں کیونکہ تیرے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ ہم خود ان سے پوچھ لیں گے کہ تم نے کن وجوہ سے حقانی تعلیم کا مقابلہ کیا۔ یہ مکہ والے جو ضد کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں اور دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو جس پر یہ اکڑ بیٹھے ہیں چاروں طرف سے اشاعت اسلام کے ذریعہ دبائے چلے آتے ہیں جس سے ایک روز ان کا قافیہ ایسا تنگ کریں گے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ یہی مکہ ہے جس میں مسلمانوں کو سر چھپانے کی جگہ نہ تھی چنانچہ دن دھاڑے اسلامی لشکر نے بلا مزاحم فتح کرلیا۔ یاد رکھیں اب ان کے شمار کے دن آگئے ہیں اور اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے جس کو چاہے فتح دیتا ہے جس کو چاہے شکست۔ اس کے حکم کی اپیل سننے والا اور رد کرنے والا کوئی نہیں اور وہ بہت جلد بدلہ دے سکتا ہے۔ اور انسے پہلے لوگوں نے بھی پیغمبروں کے مقابلہ پر دائو بازیاں کی تھیں۔ مگر وہ کچھ بھی نہ کرسکے کیونکہ تمام تدبیریں اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہی سب کا مالک ہے جب تک وہ کسی کام کی انجام دہی نہ چاہے ممکن نہیں ہوسکے گو اس نے انسان کو امور اختیار میں اختیار دے رکھا ہے تاہم ان کا اتمام اسی کے قبضہ میں ہے کسی بزرگ نے کیا ہی سچ کہا ہے عرفت ربی بفتح العزآئم وہ اللہ ہر ایک جاندار کے کاموں کو جانتا ہے اس سے کوئی امر پوشیدہ نہیں ظاہر کریں یا چھپ کر کسی کے بتلانے کی اسے حاجت نہیں اور ان کافروں کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ انجام بخیر کس کا ہے اور اس وقت تو کافر کہتے ہیں کہ اے محمد تو اللہ کا رسول نہیں مگر جب رسالت کا ظہور پورے طور پر ہوا تو ان کو معلوم ہوجائے گا تو ان سے کہہ دے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے وہ ایسی طرح میری سچائی کا اظہار کرے گا کہ سب لوگ جان لیں گے کہ یہ کام طاقت انسانی سے بالا ہیں بلکہ ع ” کوئی محبوب ہے اس پردۂ زنگاری میں“ اور جن لوگوں کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے۔ وہ بھی مرنے دعوے کے گواہ ہیں ان سے بھی دریافت کرلو وہ باوجود میری مخالفت کے تم سے صاف صاف کہہ دیں گے اور اگر نہ کہیں گے تو زمانہ کی رفتار ان سے خود کہلوا لے گی ان سے پوچھ لو کہ کتاب استثناء کے ١٨ باب کا مصداق اور یوحنا کے اباب کی ١٩ والا اور نیز ٤ اباب کی ١٥ وغیرہ والا کون ہے الرعد
37 الرعد
38 الرعد
39 الرعد
40 الرعد
41 الرعد
42 الرعد
43 الرعد
0 ابراھیم
1 (1۔15) میں ہوں اللہ سب کو دیکھتا اس کتاب (قرآن) کو ہم (اللہ) نے اس لئے اتارا ہے کہ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم سے لوگوں کو بےدینی کے اندھیروں سے دینداری کے نور کی طرف نکال کرلے چلے یعنی اللہ غالب اور بڑی تعریف کے مستحق کی راہ کی طرف جس کی حکومت آسمان و زمین کی تمام چیزوں پر ہے اسی سے نیاز عبودیت کرنے میں ان کا بھلا ہے اور اس سے منکروں اور کافروں کے لئے سخت عذاب سے افسوس ہے جو دنیا کی زندگی آسائش کو آخرت کی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی باتیں کہہ کر لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس سیدھی راہ میں کجی سوچتے رہتے ہیں خواہ مخواہ بے ہودہ اعتراضات کر کے احمقوں میں عزت اور دانائوں میں ذلت پاتے ہیں سچ پوچھو تو یہی لوگ ہدایت سے دور کی گمراہی میں ہیں اور ان یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ سوال بھی ازاں قبیل ہے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہوتا تو مثل دیگر انبیاء کے اس کی کتاب بھی عبرانی زبان میں ہوتی یا بقول آریہ سماج سنسکرت میں ہوتی۔ عربی میں کیوں آئی اس سے پر میشور پر جانب دار ہونے کا دھبہ آتا ہے حالانکہ ہم نے جو رسول بھیجا اس کی قوم کے محاورہ پر بھیجا ہے تاکہ وہ ان کو واضح بیان کر کے سنائے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا رہا کہ جس کو اللہ چاہتا ہدایت کرتا اور جس کو چاہتا گمراہ کرتا اور اس کرنے میں وہ کسی طرح ظلم نہیں کرتا تھا۔ بلکہ بعض شرارتوں اور بعض کے اخلاص ہی کا نتیجہ تھا غرض وہ اللہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ کوئی کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کی حکمت کو پا نہیں سکتا اور اس کے غلبہ کو مٹا نہیں سکتا اور اگر ان یہودیوں کو تیری رسالت سے تعجب اور انکار ہے تو پہلے نبیوں میں کیا خصوصیت تھی کہ ان کو مانتے ہیں ہم ہی نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو نشان دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نور کی طرف لے چل اور فرعون سے رہائی دلانے کے بعد ان کو اللہ کے ایام یعنی واقعات قدرت کی یاد دلائیو جو گذرے ہیں کیونکہ ان واقعات میں ہر ایک صبار اور شکر گذار کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں وہ ان پر غور کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ مشکل نہ ہوگا کہ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جب کہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا پس تم اس پر غور کرو اور اس وقت کو (یاد کرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بھائیو ! اللہ کی مہربانی کو یاد رکھو جب اس نے تم کو فرعون کی قوم کے عذاب سے نجات دی جو تم کو بری طرح تکلیف اور عذاب دیتے تھے اور تمہاری نرینہ اولاد کو ذبح کر ڈالتے کہ مبادا بنی اسرائیل کی کثرت نہ ہوجائے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ سلامت رکھتے تھے تاکہ ان سے خدمت لیں اور اگر تم غور کرو تو اس نجات دینے میں اللہ کی تم پر بہت بڑی مہربانی ہوئی اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے جتا دیا تھا کہ اگر میری نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر ناشکری کرو گے تو تمہاری خیر نہیں اپنا ہی کچھ کھوئو گے کیونکہ مرما عذاب بہت ہی سخت ہے اللہ کو تمہارے شکر یا ناشکری کی پرواہ نہیں اور حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم اور تمہارے ساتھ دنیا کے لوگ اللہ کی مہربانیوں کی ناشکری کریں تو بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کیا تمہیں ان لوگوں کے واقعات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ یعنی نوح ( علیہ السلام) کی قوم اور عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان سے پیچھے ہوئے ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کا مجمل بیان یہ ہے کہ ان کے رسول جو اللہ کی طرف سے ہدایت کرنے کو ان کے پاس معجزات اور واضح احکام لے کر آئے تو انہوں نے ان کی تعلیم کو نہایت استعجاب سے سنا اور حیرانی سے اپنے ہاتھ منہ میں ڈال لئے اور سخت غصے میں چبانے لگے اور بولے کہ جن حکموں کے ساتھ تم اپنے گمان میں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہو ہم ان سب سے انکاری ہیں اور جس امر کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو ہمیں اس کی صحت میں سخت تردد ہے۔ بلکہ کذب کا یقین ہے رسولوں نے کہا ہم تو تمہیں صرف اتنا کہتے ہیں کہ تم اللہ مالک الملک کے بندے بن جائو اس کے سوا کسی سے نیاز بندگی نہ جانو۔ تو کیا پھر اللہ کے بارے میں تمہیں شک اور تردد ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ محض اپنی مہربانی سے تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ کہ اس اطاعت کی برکت سے تمہارے گناہ معاف کرے اور اجل مقرر تک تم کو بآسائش مہلت دے مگر تم ایسے عقل کے پتلے ہو کہ ناحق اپنے ناصح مشفق سے بگڑتے ہو وہ بولے ہم ایسے چکنی چپڑی باتوں میں تو آنے کے نہیں ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تم صرف ہماری طرح کے آدمی ہو تمہاری غرض صرف یہ ہے کہ تم ہم کو ان معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے تمام بزرگان قوم کرتے آئے ہیں بھلا کیا وہ تم سے دانائی اور سمجھ و لیاقت میں کسی طرح کم تھے؟ ہم تو تمہاری عذاب وغیرہ کی گیدڑ بھبکیوں سے بھی ڈرنے کے نہیں پس تم کوئی صاف اور واضح دلیل بطور معجزہ کے لائو تو ہم مانیں گے ورنہ نہیں۔ رسولوں نے جواب میں ان سے کہا کہ یہ تو تم نے ٹھیک کہا کہ ہم تمہاری ہی طرح کے آدمی ہیں لیکن آدمی ہونا رسالت کے منافی اور مختلف نہیں ہے اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور رسالت کے معزز عہدے پر ممتاز فرماتا ہے۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے کاموں میں اختیار نہیں اور بدون حکم الٰہی ہم کوئی معجزہ یا دلیل نہیں لا سکتے اور اللہ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے پس مسلمانوں اور ایمانداروں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں جس حال میں چاہے رکھے سپردم باد مایہ خویش را او واند حساس کم و بیش را اور ہمارا اس میں عذر ہی کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اس نے ہم کو اپنی راہوں کی ہدایت کی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اسی کے ہو رہیں اور اگر ہمارے اس خیال اور عقیدے پر تم ناراض ہو کر ہمیں ایذا رسانی کرو گے تو ہم تمہاری ایذا رسانی پر صبر کریں گے اور اللہ ہی پر بھروسہ کریں گے کیونکہ وہی اپنے بندوں کا کارساز ہے پس بھروسہ کرنے والوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں مخلوق پر تو کسی حال میں بھروسہ ٹھیک نہیں کیونکہ جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا اور کافروں نے رسولوں سے یہ معقول جواب سن کر کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سخت سے سخت تکلیفیں دے کر اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ یا ہماری تکلیفوں سے آخر تم خود ہی ہمارے مذہب میں لوٹ آئو گے یہ سن کر رسولوں اور ان کے مخلصوں کو بمقتضائے طبیعت انسانی کسی قدر گھبراہٹ ہوئی تو اللہ نے ان کو الہام کیا کہ تم تسلی رکھو ہم ظالموں کو ایسا تباہ کریں گے کہ ان کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہوگا اور ان سے پیچھے اس ملک میں ہم تم کو آباد کریں گے مگر یہ انعام و اکرام انہی لوگوں پر ہوگا جن کو میرے حضور حاضر ہونے کا اور میرے عذاب کا ڈر ہوگا۔ یعنی پختہ مومن ہوں گے یہ سن کر ان کو تسلی ہوئی اور انہوں نے فتح طلب کی تو اللہ نے ان کی دعا کو سنا اور قبول کیا اور ہر ایک ہینکڑی ضدی متعصب ذلیل و خوار ہوا ابراھیم
2 ابراھیم
3 ابراھیم
4 ابراھیم
5 ابراھیم
6 ابراھیم
7 ابراھیم
8 ابراھیم
9 ابراھیم
10 ابراھیم
11 ابراھیم
12 ابراھیم
13 ابراھیم
14 ابراھیم
15 ابراھیم
16 (16۔22) یہ تو ان پر دنیا کا عذاب تھا اور ابھی تو اس سے آگے جہنم کا عذاب ہے جس میں اللہ کی پناہ ان کی کیا کچھ گت ہوگی اور وہاں شدید پیاس پر پیپ جیسا پانی ان کو پلایا جائے گا جس کو چسکیاں اور گھونٹ بھر بھر کر پییں گے اور اس کی تلخی اور بدمزگی کی وجہ سے پی نہ سکیں گے اور ان کو موت کی سی تکلیف ہر طرف سے آئے گی اور وہ مریں گے نہیں بلکہ سخت تکلیف میں گذاریں گے کیونکہ حکم الٰہی ان کی موت کے متعلق نہ ہوگا اور اس سے علاوہ ایک قسم کا سخت عذاب اور بھی ہوگا یہ مت سمجھو کہ بعض کافر نیک کام بھی کرتے ہیں دان پن دیتے ہیں خیرات کرتے ہیں ان کا اجر ان کو نہ ملے گا؟ سنو ! جو لوگ اپنے رب سے منہ پھیر کر اور غیروں سے نیاز عبودیت کر کے اللہ سے انکاری ہیں ان کے نیک اعمال کی مثال اس راکھ کے ڈھیر کی سی ہے جس کو سخت گرمی کے دن میں تیز آندھی لے اڑی ہو جس طرح اس راکھ کا کہیں پتہ نہیں ملتا اسی طرح ان کے نیک عمل ان کے کفر شرک کے مقابلہ پر راکھ کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ پس یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کچھ نہ پاویں گے یہی تو دور کی گمراہی کا نیجہ ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو سچے اور مضبوط نتیجہ خیز قانون سے پیدا کیا ہے پھر جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں سے استمداد کرتے ہیں یا اس سے سرے سے انکاری ہیں وہ گویا اللہ کو ایک عبث کھیلنے والا سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر بعد پیدائش بھی پورا قابو رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو ہلاک کر دے اور تمہاری جگہ نئی ایک مخلوق لا بسائے اور یہ کام اللہ کے نزدیک کچھ مشکل نہیں خیر یہ تو دنیا میں اس کی حکومت ہے اور جس روز اللہ کے روبرو سب آ کھڑے ہوں گے تو اس کی حکومت اور ہبت کا رعب داب دیکھ کر ایک دوسرے کو الزام دیتے ہوئے ضعیف یعنی ماتحت لوگ بڑے متکبر لوگوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے کیا اللہ کا عذاب دفع کرنے میں یہاں تم ہمارے کچھ کام آسکتے ہو وہ کہیں گے دنیا کی اتباع کا جو تم نے ذکر کر کے ہم پر الزام لگایا ہے سو اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تم کو ہدایت کرتے مگر اس بات میں وہ بالکل جھوٹ بولیں گے بدمعاش دنیا میں تو ایسے مست ہو رہے تھے کہ نبیوں کی تعلیم کی طرف دھیان کرنا ان کے خیال میں بھی نہ آتا تھا اور اگر کوئی ان کو یاد دلاتا تو نہایت ہی حقارت سے اسے رد کردیتے اللہ کی ہدایت اور کیا ہوتی ہے یہی کہ وہ اپنی طرف سے پاک تعلیم بھیجتا ہے جس میں سب لوگوں کا حصہ برابر ہوتا ہے جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں وہ نیک نتیجہ پاتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ برائیوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس جواب کے بعد اصل سوال کا جواب وہ یہ دیں گے کہ بھائیو ! یہ عذاب ٹلنے کا نہیں ہم گھبراہٹ کریں تو صبر کریں تو دونوں حالتیں ہم پر برابر ہیں کسی طرح ہم کو چھٹکارا نہیں ہوگا جب ادھر سے فارغ ہوں گے اور مخلوق میں فیصلہ ہوچکے گا جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کئے جائیں گے تو شیطان سے استدعا کریں گے تو وہ کہے گا سنو ! اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اس نے تو پورا کردیا تم کو جہنم میں ڈال دے گا اور میں نے جو تم سے وعدہ کا تھا یعنی تمہارے دل میں برے کاموں کے نتائج نیک ڈالا کرتا تھا وہ میں نے پورا نہ کیا پورا کرتا بھی کیسے جب کہ مجھ میں طاقت ہی نہیں کہ تمہارے آڑے وقت کام آسکوں اور اگر سچ کہلانا چاہو تو میں آج صاف صاف کہتا ہوں کہ قصور سراسر تمہارا ہی ہے میرا تم پر کوئی زور نہ تھا میں تمہیں جبراً پکڑ کر بری مجلسوں میں نہ لے جاتا تھا البتہ اتنا تھا کہ تمہارے دل میں میں نے خیال ڈال کر تم کو بلایا تم نے میری بات کو قبول کرلیا اس میں میرا کیا قصور پس تم مجھ پر الزام نہ لگائو بلکہ اپنے آپ کو ملزم ٹھہرائو میں تمہارا فریاد رس نہیں تم میرے نہیں میں تو اس امر سے بھی منکر ہوں اور ہرگز نہیں مانتا کہ دنیا میں تم میرے سبب سے شرک کرتے تھے بلکہ تم خود شریر اور شریروں کے یار اور ہم نشین تھے نیک مجلسوں میں جانے سے جی چراتے تھے پس آج فرمان خداوندی کان کھول کر سنو ! کہ ظالموں بے فرمانوں کے لئے دکھ کی مار ہے ابراھیم
17 ابراھیم
18 ابراھیم
19 ابراھیم
20 ابراھیم
21 ابراھیم
22 ابراھیم
23 (23۔34) اور دیکھو کہ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان لائے تھے اور نیک عمل بھی انہوں نے کئے تھے وہ بہشتوں میں داخل کئے گئے اور تم تاکتے کے تاکتے رہ گئے حالانکہ تمہیں مال و دولت کا بہت کچھ گھمنڈ تھا دیکھو وہ کیسے مزے میں ہیں ان بہشتوں کے درختوں کے تلے نہریں جاری ہیں وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ان میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ ان سے ہمیشہ راضی رہے گا بلکہ ان باغوں میں اللہ کی طرف سے ان کا تحفہ سلام علیکم ہوگا یہ سب نتیجے اسی عمدہ بیج کے پھل ہیں جو دنیا میں انہوں نے بویا تھا یعنی کلمات صالحات کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ صالحہ کی مثال اس پاکیزہ درخت سے دی ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور چوٹی نہایت بلندی پر پہنچی ہوئی ہے وہ ہمیشہ ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل لاتا ہے اللہ لوگوں کے لئے تمثیلات بتلاتا ہے تاکہ وہ سمجھیں یعنی بالفرض ایسا درخت ہر وقت تا ابد پھل لاتا ہو اور مضبوطی میں ایسا ہو کہ دوسری کوئی چیز اس کا مقابلہ نہ کرسکتی ہو اسی طرح کلمات طیبات سبحان والحمدللہ لا الہ الا اللہ وغیرہ کا پھل ہے جو ہر وقت ان کو حاصل ہوتا ہے خواہ بیمار ہوں خواہ تندرست اور ناپاک کلمات کفریہ شرکیہ گالی گلوچ واہی تباہی وغیرہ بدخصائل کی تمثیل کچلے جیسے گندے اور بدمزہ درخت کی سی ہے جو ایسا کمزور ہے کہ زمین کے اوپر سے گویا اکھڑا ہوا ہے جس کو کچھ بھی قیام نہیں چونکہ ان دونوں قسم کے درختوں کی اصل اور بنیاد میں تفاوت ہے اس لئے ان کے آثار بھی مختلف ہیں اسی مضبوط قول یعنی کلمات طیبات اور نیک خصائل کے سبب سے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور مصیبت کے وقت ان کا دل مضبوط رہتا ہے اور ظالموں اور بدکاروں بدزبانوں بے ہودہ گوئی سے تضیع اوقات کرنے والوں کو اصل مطلب سے بھلا دیتا ہے ان کو کچھ نہیں سوجھتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں آخر بے ہودہ گوئی اور خیالات واہیہ کا نتیجہ انہی کے حق میں برا ہوگا ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے میں اس اللہ پر کسی طرح سے بے انصافی کا الزام نہیں آسکتا کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اس کا چاہنا اس کے قانون کا نام ہے پس جو لوگ اس کے راضی کرنے میں سعی کرتے ہیں اور اسی فکر میں رہتے ہیں ان کو مزید ہدایت دیتا ہے اور جو اس سے الگ ہو کر متکبرانہ زندگی گذارنا چاہتے ہیں ان کو توفیق خیر نہیں ملتی غرض اس کے ہاں جو قانون ہیں ان کے اجرا میں اسے کوئی امر مانع اور مزاحم نہیں ہوسکتا چاہے کوئی ہو سزا پاتا ہے کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت محمد رسول اللہ کی تعیمم اور صحبت کی ناشکری اختیار کی ان کی کیسی گت ہوئی کہ ان کا نام لیوا بھی دنیا میں نہیں رہا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کی جگہ یعنی جہنم میں لے جا اتارا وہ سب اس میں ایک ساتھ داخل ہوں گے اور بہت ہی تکلیف اٹھائیں گے کیونکہ وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے اس لئے کہ وہ رسول ان کو توحید خالص سکھاتا تھا اور انہوں نے اللہ کے شریک اور ساجھی ٹھہرائے تاکہ خود گمراہ ہوں اور لوگوں کو بھی اس اللہ کی راہ سے گمراہ کریں تو ایسے نالائقوں سے کہہ کہ چند روزہ آرام کرلو اور مزے اڑا لو پھر آخر تو تمہارا کوچ دوزخ کی طرف ہے چونکہ اللہ کے حضور کسی کا گھمنڈ نہیں چل سکتا بلکہ ہر ایک کو کئے کی مزدوری ملے گی اس لئے اے نبی تو میرے بندوں سے جو مجھ پر کامل ایمان لائے ہیں کہہ دے کہ نماز پڑھتے رہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کسی قدر پوشیدہ اور ظاہر مگر اخلاص نیت سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے رہیں آج کل کرتے ہوئے وقت نہ کھوئیں کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں پس اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کرلیں جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ کسی کی دوستی کام آوے گی۔ یعنی جن جن ذرائع سے دنیا میں فائدے پہنچ سکتے ہیں وہاں کوئی ذریعہ نہ ہوگا مگر جن لوگوں نے اللہ سے نیاز عبودیت نباہا ہوگا وہی کامیاب ہوں گے کیونکہ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کئے ہیں اور وہی ہمیشہ بادلوں سے بارش اتارتا ہے پھر اس کے ساتھ تمہاری رزق رسانی کو پھل پیدا کرتا ہے اور اسی نے بڑے بڑے بیڑے جہاز اور اگنبوٹ تمہارے کام میں لگا رکھے ہیں کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلتے ہیں اور دریا بھی تمہارے ہی کام میں لگا رکھے ہیں اور سورج اور چاند کو بھی تمہارے تابع کر رکھا ہے کہ دونوں گھومتے ہوئے اپنا اپنا چکر کاٹتے ہیں اور رات اور دن بھی تمہارے ہی کام میں لگائے ہوئے ہیں ان کی پیدائش میں تمہارا ہی فائدہ متصور ہے کئی ایک کام تم رات کو کرتے ہو اور کئی ایک دن کو انجام دیتے ہو اور جس جس چیز کے تم محتاج ہو اس نے تم کو دی ہے غرضکہ ابرو بادو مہ و خورشید فلک درکار اند تاتو نانے بکف آری و بغفلت نخوری ایں ہمہ بہر تو سرگشتہ و فرمانبردار شرط انصاف نبا شد کہ تو فرماں نبری اور ابھی تو کیا اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو کبھی شمار میں نہ لا سکو گے بایں ہمہ جو شخص ایسے مالک الملک سے نیاز عبودیت نہیں نباہتاکچھ شک نہیں کہ ایسا انسان بڑا ہی ظالم ناشکر گذار ہے ابراھیم
24 ابراھیم
25 ابراھیم
26 ابراھیم
27 ابراھیم
28 ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 ابراھیم
32 ابراھیم
33 ابراھیم
34 ابراھیم
35 (35۔52) سنو ! تمام انبیاء کی اسی توحید کی تعلیم تھی خصوصاً تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی۔ اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے مولا ! اس شہر مکہ کو امن والا بنائیو کہ اس کے رہنے والے قتل و غارت سے محفوظ و مصئون ہوں اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی یعنی غیر اللہ کی پرستش سے بچائیو میرے مولا ! یہ ایسی بلا ہیں کہ بہت سے لوگوں کو انہوں نے گمراہ کیا وجہ یہ کہ لوگوں میں بھیڑ چال ہے ایک کے پیچھے دوسرا چپکے سے چلا جاتا ہے پس جو میرے پیچھے چلے گا وہی میری جماعت سے ہوگا اور جو میری بے فرمانی کرے گا تو میں کچھ نہیں کہتا بے شک تو بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے ہمارے مولا ! میں نے اپنی اولاد اسمٰعیل کو مع اس کی والدہ ہاجرہ کے تیرے بیت المحرم کعبہ شریف کے پاس ہے سبزہ ویران جنگل میں لا بسایا ہے ہمارے مولا ! تیرے بیت المحرم کے پاس بسانے سے غرض یہ ہے کہ یہ تمام پڑھتے رہیں یعنی خود بھی تیری عبادت میں لگے رہیں اور لوگوں کو بھی رہنمائی کریں پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کیجیو کہ وہ ان کی صحبت میں مستفید اور ہدایت یاب ہوں اور پھلوں کی پیداوار سے ان کو روزی دیجیو اور ان کو توفیق خیر دیجیو کہ وہ شکر گذاری کریں ہمارے مولا ! جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں تو سب کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے جو حقیقی معبود ہے کوئی بات بھی زمین و آسمان میں پوشیدہ نہیں رہ سکتی پس تو ہمارے دلوں کو درست کر اور کجی سے محفوظ رکھ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے کی عمر میں اسمٰعیل اور اسحق عنایت کئے میں یقین رکھتا ہوں کہ بے شک میرا پروردگار دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے پس میری دعا ہے کہ میرے مولا ! مجھے اور میری اولاد کو نماز پر قائم رکھیو ہمارے مولا ! میری دعا قبول فرمائیواے ہمارے مولا ! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمانداروں کو حساب ہونے کے دن بخش دیجو۔ یہ ہے تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب جو لوگ اس کے خلاف پر ہیں وہ سخت ظالم ہیں اور تو ظالموں کے اعمال سے اللہ کو ہرگز غافل مت جان اور یہ مت سمجھ کہ اللہ کو ان کی خبر نہیں سب خبر ہے وہ ان کو اس دن تک مہلت دیتا ہے جس میں مارے دہشت کے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی خوف کے مارے سر اوپر کو اٹھائے ہوئے بھاگے چلے جائیں گے ایسے کہ ان کی نظر ان کی طرف نہ پھرے گی اور ان کے دل ہر طرف سے خالی خولی ہوں گے کسی چیز کا ان کو خیال نہ ہوگا بجز اس کے کہ اس بلا سے کس طرح نجات حاصل ہو دنیا کی سب طمطراقیاں بھول جائیں گی پس تو لوگوں کو اس دن کے عذاب سے ڈرا جس دن عذاب الٰہی ان پر آئے گا تو ظالم کہیں گے اے ہمارے مولا ! ہم کو تھوڑی سی مہلت دے کہ ہم تیری دعوت قبول کریں اور تیرے رسولوں کی پیروی کریں مگر ایسے وقت میں یہ درخواست کچھ مفید نہ ہوگی اس لئے ان کو جواب ملے گا کہ آج تو تم دنیا کی طرف رجوع چاہتے ہو کیا پہلے دنیا میں جا کر تم قسمیں نہ کھاچکے تھے کہ تم نے دنیا کو چھوڑنا ہی نہیں یعنی جو کام تم کرتے ایسی پختگی سے کرتے تھے کہ گویا تم کو دنیا میں دائمی قیام ہے حضرت علی (رض) نے تمہارے جیسوں کے حق میں کیا ٹھیک فرمایا تھا یظن المرء فی الدنیا خلودا خلود المرء فی الدنیا محال اور اگر تم غور کرتے تو تمہاری ہدایت کے لئے بہت سے اسباب مہیا تھے خود تمہاری ہی اندرونی شہادت تھی اس سے بڑھ کر یہ کہ جن لوگوں نے اللہ کی بے فرمانیاں کر کے اپنی جانوں پر ظلم کئے تھے تم ان کے مکانوں اور ڈیروں میں رہ چکے تھے جس سے اگر تم سمجھتے تو یہ بات باآسانی تم کو سمجھ میں آسکتی تھی کہ جس طرح یہ لوگ گذر گئے اور سب کچھ یہاں ہی چھوڑ گئے ہیں اسی طرح ہم نے بھی گذر جانا ہے جیسا کسی بزرگ نے کہا ہے یکفیک قول الناس فیما ملکتہ قد کان ھذا مرۃ لفلان اور علاوہ اس کے اس بے فرمانی پر جو کچھ ہم نے ان سے کیا تھا وہ بھی تمہیں معلوم ہوچکا تھا اور ہم نے تمہارے سمجھانے کو کئی ایک تمثیلات بھی بتلائی تھیں کبھی دنیا کی ہستی کو کھیتی سے تمثیل دی کبھی شرک اور بت پرستی کو تار عنکبوت سے مثال بتلائی مگر نادانوں کو کسی بات نے اثر نہ کیا اور تم نے یہ ابھی نہ سمجھا کہ جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ سب قسم کی چالیں چل چکے تھے اور ان کی سب چالیں اللہ کی نظر میں تھیں تاہم وہ اپنی چالوں میں ناکام رہے اور ذلیل ہوئے کیونکہ ان کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ جیسے مضبوط دل والے ایماندار اپنی جگہ سے ہل جاتے کیونکہ ان کی مضبوطی اللہ کے وعدوں پر اعتماد اور اعتبار ہونے کی وجہ سے تھی پس تو بھی اللہ کو اپنے رسولوں سے وعدہ خلاف کرنے والا مت سمجھیو وہ کبھی خلاف نہ کرے گا خلاف تو وہ کرے جو ایفا پر قادر نہ ہو اللہ تعالیٰ تو بڑا زبردست اور برائیوں کا بدلہ لینے والا ہے اصل بدلہ تو اس کا اس روز ہوگا جس روز زمین و آسمان بدل کر دوسری طرح کے کئے جائیں گے اور سب لوگ اللہ واحد اور طاقتور کے سامنے آ موجود ہوں گے اور تو مجرموں کو اس دن زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا ایسے حال میں کہ کرتے ان کے بدبو دار گندھک سے بنے ہوں گے اور ان کے چہرے پر آگ پہنچی ہوگی تاکہ اللہ ہر بدکار نفس کو اس کی کمائی کا پورا عوض دے بیشک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے پس اس کو حساب دینے کے لئے ہر وقت مستعد رہو اسی لئے یہ قرآن لوگوں کے لئے تیغے ہے تاکہ وہ اس سے ہدایت پاویں اور اس کے ساتھ برے کاموں پر ڈرائے جاویں اور جان لیں کہ اللہ اکیلے کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ فائدہ بھی ہو کہ عقل والے نصیحت پاویں۔ فاعتبروا یا اولی الالباب ابراھیم
36 ابراھیم
37 ابراھیم
38 ابراھیم
39 ابراھیم
40 ابراھیم
41 ابراھیم
42 ابراھیم
43 ابراھیم
44 ابراھیم
45 ابراھیم
46 ابراھیم
47 ابراھیم
48 ابراھیم
49 ابراھیم
50 ابراھیم
51 ابراھیم
52 ابراھیم
0 الحجر
1 (1۔18) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا یہ باتیں جو اس سورت میں تمہیں سنائی جاتی ہیں آسمانی کتاب اور قرآن مبین یعنی احکام الٰہی کو اظہار کرنے والے کی آیتیں اور احکام ہیں سب سے پہلا حکم اس کتاب کا یہ ہے کہ اللہ پر کامل ایمان رکھو ورنہ پھر خیر نہیں یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد بعض دفعہ کافر چاہیں گے کہ کاش ہم مسلمان اللہ کے فرمانبردار ہوتے لیکن اس وقت دنیا کے عیش و عشرت میں مست ہیں پس ان کو اسی حال پر چھوڑ دے کہ چند روز کھائیں اور مزے اڑائیں اور دنیا کی امیدوں اور خواہشوں میں بھولے رہیں پھر اس کا انجام آخر کار جان لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ ایسے ہو گذرے ہیں آخر ان کا انجام ہلاکت ہوا جس کسی بستی یا قوم کو ہم (اللہ) نے ہلاک اور تباہ کیا اس کے لئے پہلے سے وقت مقرر تھا اس لئے کہ کوئی قوم اپنے وقت سے نہ آگے ہوسکتی ہے نہ پیچھے مگر ان مکہ کے مشرکوں کو اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ تیرے حالات پر غور کریں اور نتیجہ پاویں کہ ایسا ذی عقل اور صاحب اثر ہم سے کیوں مخالف ہے نادان بجائے غور و فکر کرنے کے الٹے کجروی کرتے ہیں اور رسول اللہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے آدمی جس پر قرآن نازل ہوا ہے یعنی جو اپنے گمان میں سمجھتا ہے کہ مجھ پر قرآن نازل ہوا ہے کچھ شک نہیں کہ تو دیوانہ ہے اس سے بڑھ کر دیوانگی کیا ہوگی کہ تمام جہان کا خلاف کرتا ہے اگر اپنے دعوے میں تو سچا ہے تو ہمارے ہلاک کرنے کو فرشتے کیوں نہیں لے آتا حالانکہ ہم (اللہ) فرشتوں کو ضروری فیصلہ کے لئے اتارا کرتے ہیں جن کے نازل ہونے پر کافروں کو مہلت نہیں ملا کرتی تو ابھی ان کا وقت نہیں آیا رہی یہ بات کہ اگر یہ لوگ نہ مانیں گے تو قرآن کی اشاعت اور حفاظت نہ ہوگی بالکل غلط ہے کیونکہ ہم ہی نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں مجال نہیں کہ کوئی ذرہ بھر بھی اس میں ہیر و پھیر کرسکے اور اسی طرح ہم نے تجھ سے پہلے لوگوں کو بھی رسول بھیجے تھے اور وہ ان کو بدستور سمجھاتے رہے مگر ان نالائقوں نے ان کی ایک نہ سنی جب کبھی ان کے پاس رسول آتا اس سے ہنسی مخول کرتے اسی طرح یہ ہنسی مخول کرنے والے بدکار مجرموں کے دلوں میں جب انکار ہی پر اصرار کرتے ہیں انکار ہی داخل کرتے رہتے ہیں اسی لئے ایسے لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ اپنے کئے کا بدلہ نہ پائیں اور ان سے پہلے لوگوں کے واقعات گذر چکے ہیں جس طرح وہ اپنی عادت قبیحہ سے ہلاک ہوئے اسی طرح ان کی بھی گت ہوگی۔ یہ تو فرشتوں کی درخواست کرتے ہیں ہم اگر ان پر آسمان سے دروازہ کھول دیں پھر یہ سب کے سامنے دن دھاڑے اس دروازہ میں سے آسمان پر چڑھ جائیں تو بھی نہ مانیں گے بلکہ یہی کہیں گے کہ صرف ہماری آنکھوں میں کسی طرح کا نشہ آگیا اور ہم بے ہوش ہو رہے ہیں کہ اس نشہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم اوپر چڑھے جاتے ہیں ورنہ حقیقت میں کوئی شے نہیں بلکہ ہمیں جادو کیا گیا ہے کہ ہوش ہی سنبھالنے نہیں دیتا یہ نادان اگر ہماری قدرت پر غور کریں تو ان کو کسی دلیل اور معجزہ کی حاجت نہ ہو دیکھیں کہ ہم نے آسمانوں میں چاند سورج وغیرہ (سیاروں کے لئے) منزلیں بنائی ہیں جن میں دو گھومتے گھومتے انسان کی نظروں میں دور نزدیک نظر آتے ہیں اور ہم نے دیکھنے والوں کے لئے آسمان کو مزین کیا وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسا سجا سجایا ہے کہ گویا رنگین چھپٹ ہے اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان مردود سے محفوظ بنایا کہ وہ اور اس کی جماعت کا وہاں کوئی تصرف نہیں ہوسکتا ہاں دور سے جو شیطان چوری چوری بات سنے تو فوراً چمکتا ہوا شعلہ اسے جا دباتا ہے (وحفظنھا من کل شیطن رجیم) یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے کئی ایک آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ صافات میں فرمایا ہے : انا زینا السمآء الدنیا بزینۃ الکواکب وحفظا من کل شیطن مارد لا یسمعون الی الملاء الاعلی ویقذفون من کل جانب دحورا ولھم عذاب واصب الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب (صافات ع ١) ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ہر شیطان سرکش سے محفوظ کیا وہ شیاطین اعلیٰ جماعت کی بات نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے دھتکارے جاتے ہیں اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے جو کوئی ان سے کوئی بات ادھر ادھر سے کچھ سنے تو چمکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ وزینا السمآء الدنیاء بمصابیح وحفظا ذلک تقدیر العزیز العلم۔ (حم السجدہ ع ٢) سورۃ حم السجدہ میں فرمایا ہے ” ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین اور محفوظ بنایا یہ اندازہ ایک غالب علم والے کا ہے۔ ولقد زینا السمآء الدنیا بمصابیح وجعلنھا رجوما للشیطین واعتدنا لھم عذاب السعیر (ملک ع ١) سورۃ ملک میں فرمایا ” ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا اور ان کو شیاطین کے لئے رجوم بنایا اور ان کے لئے جہنم کا عذاب تیار کیا ہے۔ ان سب آیتوں کا مطلب ایک ہی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ہم نے آسمانوں کو پیدا کیا اور ستاروں سے ان کو سجایا۔ کوئی شیطان اوپر کی باتیں نہیں سن سکتا۔ اگر کوئی زیادہ ہی کوشش سے بعجلت و بسرعت سننا چاہے تو ستاروں سے ان کی سرکوبی کی جاتی ہے جو اسی کام کے لئے بنائے گئے ہیں یہ ہے مختصر مطلب ان آیات کا۔ لیکن اس میں کئی طرح سے بحث ہے۔ اول یہ کہ شیاطین کس طرح آسمانوں کی یا ملاء اعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں۔ دوئم یہ کہ ستاروں کو ان کی سرکوبی کے لئے رجوم بنانے کے کیا معنے ہیں۔ سوم یہ کہ شہاب مبین یا شہاب ثاقب کیا ہے آیا یہ وہی ہے جو رات کو تارا ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے یا کوئی اور چیز ہے۔ امر اول کی بابت ہم مقدمہ ابن خلدون سے کہانت (یعنی جوگی پن) کا مضمون نقل کرتے ہیں جس میں علامہ موصوف نے نبوت اور کہانت اور خواب وغیرہ پر بحث کی ہے نبوت اور خواب کا مضمون تو ہم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب والے حاشیہ میں نقل کر آئے ہیں اس جگہ صرف کہانت سے ہمارا مطلب ہوگا جس سے ہمارے ناظرین کو آیت کے معنے سمجھنے میں بہت سی مدد ملے گی وھو ھذا واما الکھانۃ فھی ایضا من خواص النفس الانسانیۃ وذلک انہ قد تقدم لنا فی جمیع مامر ان للنفس الانسانیۃ استعداد للانسلاخ من البشریۃ الی الروحانی التی فوقھا وانہ یحصل من ذلک لمحۃ للبشر فی صنف الانبیاء بما فطروا علیہ من ذلک وتقرر انہ یحصل لھم من غیر اکتساب ولا استعانۃ بشئ من المدارک ولا من التصورات ولا من الافعال البدنیۃ کلاما او حرکۃ ولا بامر من الامر وانما ھو انسلاخ من البشریۃ الی الملکیۃ بالفطرۃ فی لحظۃ اقرب من لمح البصر واذا کان کذلک وذلک الاستعداد موجود فی الطبیعۃ البشریۃ فیعطی التقسیم العقلی ان ھنا صنفا اخر من البشر ناقصا عن رتبۃ الصنف الاول نقصان الضد عن ضدہ الکامل لان عدم الاستعانۃ فی ذلک الادراک ضد الاستعانۃ فیہ وشتان ما بینھما فاذا اعطے تقسیم الوجود ان ھنا صنفا اخر من البشر مفطوراعلی ان تتحرک قوتہ العقلیۃ حرکتہا الفکریۃ بالارادۃ عند ما یبعثھا النزوع لذلک وھی ناقصۃ عنہ بالجبلۃ فیکون لھا بالجبلۃ عندما یعوقہا العجز عن ذلک تشبث بامور جزئیۃ محسو سۃ او متخلیۃ کالاجسام الشفافۃ وعظام الحیوانات وسجع الکلام وما سخ من طیر او حیوان فیستدیم ذلک الاحساس او التخیل مستعینا بہ فی ذلک الانسلاخ الذی یقصدہ ویکون کالمشیع لہ وھذہ القوۃ التی فیھم مبدا لذلک الادراک ھی الکھانۃ ولکون ھذہ النفوس مقطورۃ علی النقص والقصور عن الکمال کان ادراکھا فی الجزئیات اکثر من الکلیات ولذلک تکون المخیلۃ فیھم فی غایۃ القوۃ لانہا الۃ الجزئیات فتنفذ فیھا نفوذا تاما فی نوم او یقظۃ وتکون عندھا حاضرۃ عقیدۃ تحضرھا المخیلۃ وتکون لھا کالمراۃ تنظر فیھا دائما ولا یقوی الکاھن علی الکمال فی ادراک المعقولات لان وحیہ من وحی الشیطان وارفع احوال ھذا لصنف ان یستعین بالکلام الذی فیہ السجع والموازنۃ یشتغل بہ عن الحواس ویقوی بعض الشے علی ذلک الاتصال الناقص فیھبس فی قلبہ عن تلک الحرکۃ والذی یشیعھا من ذلک الاجنبی مایقذفہ علی لسانہ فربما صدق و وافق الحق وربما کذب لانہ یتمم نقصہ بامر اجنبی عن ذاتہ المدرکۃ ومبائن لھا غیر ملایم فیعرض لہ الصدق والکذب جمیعا ولا یکون موثوقابہ وربما یفزع الی الظنون والتخمینات حرصا علی الظفر بالادراک یزعمہ وتمویھا علی السائلین واصحاب ھذا السجع ھم المخصوصون باسم الکھان لانھم ارفع سائر اصنافھم وقد قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مثلہ ھذا من سجع الکھان مختصابھم بمقتضی الاضافۃ وقد قال لابن صیام حین سالہ کاشفا عن حالہ بالاختیار کیف یا تیک ھذا الامر قال یاتینی صادق و کاذب فقال خلط علیک الامر یعنی ان النبوۃ خاصتہا الصدق فلا یعتریھا الکذب مجال لانھا اتصال من ذات النبی بالملاء الاعلی من غیر مشیع ولا استعانۃ باجنبی والکھانۃ لما احتاج صاحبہا بسبب عجزہ الی الاستعانۃ بالتصورات الاجنبیۃ کانت داخلۃ فی ادراکہ والتبست بالادراک الذی توجہ فصار مختلطابھم وطرقہ الکذب من ھذہ الجھۃ فامتنع ان تکون نبوۃ وانما قلنا ان ارفع مراتب الکھانۃ حالۃ السجع لان معنی السجع اخف من سائر المغیبات من المرئیات والمسموعات وتدل خفۃ المعنی علی قرب ذلک الاتصال والادراک والبعد فیہ عن العجز بعض الشے وقد زعم بعض الناس ان ھذہ الکھانۃ قد انقطعت منذ زمن النبوۃ بما وقع من شان رجم الشیاطین بالشہب بین یدی البعثۃ وان ذلک کان لمنعھم من خبر السمآء کما وقع فی القران والکھان انما یتعرفون اخبار السماء من الشیاطین فبطلت الکھانۃ من یومئذ ولا یقوم من ذلک دلیل لان علوم الکھان کما تکون من الشیاطین تکون من نفوسھم ایضا کما قرر ناہ وایضا فالایۃ انما دلت علی منع الشیاطین من نوع و احد من اخبار السماء وھو مایتعلق بخبر البعثۃ ولم یمنعوا مماسوی ذلک وایضا فانما کان ذلک الانقطاع بین یدی النبوۃ فقط ولعلھا عادت بعد ذلک الی ماکانت علیہ وھذا ھو الظاھر لان ھذہ المدارک کلھا تحمد فی زمن النبوۃ کما تخمد الکواکب والسرج عند وجود الشمس لان النبوۃ ھی النور الاعظم الذی یخفی معہ کل نور ویذھب وقدزعم بعض الحکماء انھا انما توجد بین یدی النبوۃ ثم تنقطع وھکذا مع کل نبوۃ وقعت لان وجود النبوۃ لابدلہ من وضع فلکی یقتضیہ وفی تمام ذلک الوضع تمام تلک النبوۃ التی دل علیھا ونقص ذلک الوضع عن التمام یقتضی وجود طبیعۃ من ذلک النوع الذی یقتضیہ ناقصۃ وھو معنی الکاھن علی ماقررناہ فقبل ان یتم ذلک الوضع الکامل یقع الوضع الناقص ویقتضی وجود الکاھن اما واحدا او متعددا فاذا تم ذلک الوضع تم وجود النبی بکمالہ وانقضت الاوضاع الدالۃ علی مثل تلک الطبیعۃ فلا یوجد منہا شئ بعد وھذا بناء علی ان بعض الوضع الفلکی یقتضی بعض اثرہ وھو غیر مسلم فلعل الوضع انما یقتضی ذلک الاثر بھیئۃ الخاصۃ ولو نقص بعض اجزائھا فلا یقتضی شیئا الا انہ یقتضی ذلک الاثر ناقصا کما قالوہ ثم ان ھولاء الکھان اذا عاصروازمن النبوۃ فانھم عارفون بصدق النبی ودلالۃ معجزتہ لان لھم بعض الوجدان من امر النبوۃ کما لکل انسان من امر الیوم و معقولیۃ تلک النسبۃ موجودۃ للکاھن باشد مما للنائم ولا یصدھم عن ذلک ویوقعھم فی التکذیب الا قوۃ المطامع فی انھا نبوۃ لھم فیقعون فی العناد کما وقع لامیۃ ابن ابی الصلت فانہ کان یطمع ان یتنباء وکذا وقع لان صیاد ولمسیلمۃ وغیرھم فاذا غلب الایمان وانقطعت تلک الامانی امنوا احسن ایمان کما وقع الطلیحۃ الاسدی وسواد بن قارب وکان لھما فی الفتوحات الاسلامیۃ من الاثار الشاھدۃ بحسن الایمان“ (صفحہ ٨٤ تا ٨٦) خلاصہ : تحریر مذکورہ بالا کا یہ ہے کہ انسانی قوی میں بعض قوی خلقی یا کبھی ایسی بھی ہیں کہ امور غیر محسوسہ بالحواس الظاہرہ کو دریافت کرسکتی ہیں۔ یہی وہ قوی ہیں جن کی بابت اللہ فرماتا ہے الامن استرق السمع ای الکلام المسموع ای الذی من شانہ ان یسمع فاتبعہ شہاب مبین یعنی جب ان قوی والے جن یا انسان امور غیر مدرکہ کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دریافت کر کے بضم ضمیمہ لوگوں میں پہلا دین تو آسمان کے ستارے ان کی سرکوبی کو شہاب ثاقب کا کام دیتے ہیں یعنی ان کی تاثیرات شیاطین کو مطلب براری میں مزاحم ہوتی ہیں ان کی قوی ذکیہ اور آلات رصدیہ کچھ کام نہیں آتے اگر کوئی کلمہ یا مضمون ان کے ذہن با مداد قوی ذکیہ اور آلات رصدیہ بھی دریافت کرلیتے ہیں تو ستاروں کی تاثیر سے ان کو اس میں خبط ہوجاتا ہے غرضکہ وہ صحیح حالات اور اصلی واقعات دریافت نہیں کرسکتے۔ اس مضمون کی تصدیق ہم عموماً رمالوں اور جوگیوں میں پاتے ہیں۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ رجوم اور شہاب مبین یا شہاب ثاقب یہ شعلے نہیں ہیں جو آسمان میں بسبب حرارت و بخارات کے جلتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ تو اسباب طبیعیہ سے جل جاتے ہیں اور اگست و ستمبر کے مہینوں میں جو برسات اور متصل برسات کا موسم ہے۔ بہ نسبت دوسرے دنوں کے بکثرت گرتے ہیں ان کی تشبیہ کی وجہ سے اللہ نے آسمانی ستاروں کو جو منجمین اور شیاطین کے مزاحم حال ہوتے ہیں شہاب کہا ہے اس امر کا ثبوت خود قرآن شریف میں موجود ہے کیونکہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے رجوم فرمایا ہے دوسرے موقعہ پر اتبعہ شہاب ثاقب کہا ہے جو صاف دلالت کرتا ہے کہ رجوم اور شہاب ثاقب کا مصداق ایک ہی ہے اور سورت جن میں اس سے بھی صاف مضمون ہے۔ وانا لمسنا السمآء فوجدنہا ملئت حرسا شدیدا وشہبا وانا کنا نقعد منہا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجدلہ شہابا رسدا (جن ع ١) جن کہتے ہیں ہم نے آسمان کو چھوا تو اس کو چوکیداروں اور شعلوں سے سخت مضبوط پایا اور ہم اس سے پہلے اس کے بعض مقامات پر سننے کو بیٹھا کرتے تھے لیکن اب جو سننا چاہے تو دیکھتا ہے کہ ایک آگ کا شعلہ سا اس کی محافظت کر رہا ہے۔ پس صاف مضمون ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب فرمایا ہے وہ آسمان سے قریب بلکہ متصل ہیں اور یہ تو بدیہی ہے کہ جو شعلے جوِّ سما میں پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ تو زمین سے بہت ہی قریب ہیں میل دو میل نہایت تین چار میل کے فاصلہ تک ہوتے ہیں اور یہ وہ ستارے بھی نہیں جن کو آسمان پر مرکوز مانا جاتا ہے بلکہ کوئی شخص اگست اور ستمبر کے مہینوں میں آسمان کی طرف بغور دیکھے تو ایک آتش بازی کا سماں نظر آتا ہے جو ناگہاں ایک جگہ سے فوراً پیدا ہو کر چند گز کے فاصلے تک جا کر بجھ جاتا ہے۔ البتہ عام لوگ ان کو رجوم سمجھتے ہیں مگر قرآن شریف رجوم اور شہاب ان ستاروں کو کہتا ہے جو آسمان میں گڑے ہوئے ہیں ان نیازک (شعلوں) کو نہیں کہتا۔ رہا یہ سوال کہ شیاطین کی روک ہمیشہ سے ہے جیسا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے یا خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے زمانہ سے جیسا کہ سورۃ جن کی آیت مرقومہ سے مفہوم ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیشہ سے بندش ہے مگر ہر نبی کے زمانہ نبوت میں خاص اہتمام بندش کا کیا جاتا ہے چنانچہ سورت جن کی ایک آیت اس مضمون کو بوضاحت بتلاتی ہے جہاں ارشاد ہے۔ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا۔ اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔ لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْ ارِسٰلٰتَ رَبِّھِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ وَ اَحْصٰی کُلَّ شَیْیئٍعَدَدًا۔ (الجن ع ٣) اللہ غیب کی باتیں کسی کو نہیں بتلایا کرتا ہاں رسولوں کو جنہیں اس نے برگزیدہ کیا ہوتا ہے بتلاتا ہے اور ان کے آگے اور پیچھے بطور حفاظت (فرشتوں کو) نگہبان بھیجتا ہے تاکہ یہ قطعی طور پر اس امر کا اظہار کرے کہ رسولوں نے اپنے پروردگار کی رسالت پہنچا دی ہے اور جو کچھ ان رسولوں کے پاس کے واقعات ہیں ان سب کو اللہ نے گھیرا ہوا ہے اور ہر چیز کو گن رکھا ہے۔ اس مضمون کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ریاضت کی ضرورت ہے اگر ریاضت نہ ہوسکے تو احیاء العلوم کا ربع ثالث مطالعہ کرنا چاہئے۔ ہمارے معزز معاصر سر سید احمد خاں مرحوم نے بھی اس آیت پر توجہ فرمائی ہے خلاصہ ان کی توجہ کا یہ ہے کہ ستاروں کو رجوم بنانے سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے ان کو منجموں کے لئے اٹکل پچو باتیں کہنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ یعنی منجمین ستاروں کے نام سے رجما بالغیب پیش گوئیاں کردیتے ہیں۔ جن میں سے کوئی صحیح ہوتی ہے اور کوئی غلط یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیاطین نہ تو کوئی بات سنتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں الا من خطف الخطفۃ یا من استرق السمع جو فرمایا ہے جس سے بظاہر شیاطین کا ملاء اعلیٰ سے کلام کا کسی قدر سننا مفہوم ہے اس کی مثال میں آپ فرماتے ہیں اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ مثلاً کسی کی نسبت لوگ کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتا دیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار تک کب پہنچ سکتا ہے اور بادشاہ کے دربار کی باتیں کب سن سکتا ہے یونہی ادھر ادھر کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص درحقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استرق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے (جلد پنجم ص ١٦٠) اور شھاب مبین کے معنی کرتے ہیں کہ شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لئے اللہ نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے کو اور جس کا مقصود یہ ہے کہ فاتبعھم الشوم والخسران والحرمان فیما املوا (صفحہ ١٦٣) مختصر یہ کہ سید صاحب کے نزدیک ان آیتوں میں اس واقعہ کی اصلیت کا ذکر نہیں بلکہ نجومیوں اور رمالوں کی محض نامرادی اور ناکامی سے استعارہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ استعارہ تو کسی مشہور وصف میں ہوتا ہے۔ جیسے کسی بہادر کو شیر یا نادان کو گدھا اور سخی کو حاتم اور خوبرو کو یوسف کہا جائے کیونکہ شیر بہادری میں اور گدھا حماقت میں اور حاتم سخاوت میں اور یوسف خوبروئی میں شہرہ آفاق ہیں استعارہ کی بنا وصف کی شہرت پر ہے یہ نہ ہوگا کہ بوجھ اٹھانے میں گدھے کے ساتھ اور قحط کا انتظام کرنے میں یوسف کے ساتھ تشبیہ دی جائے کیونکہ یہ دونوں وصف ان دونوں کے ایسے نہیں کہ ذہن ان سے تبادر کر کے اصل مطلب پر پہنچ سکے پس جب یہ اصول صحیح ہے تو شہاب ثاقب کو محض ناکامی سے استعارہ قرار دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ جب تک کہ کوئی شہاب ثاقب کی طرح چمکتا ہوا نور ان کو دریافت کرنے میں مانع نہ ہو۔ کیونکہ شہاب ثاقب میں ناکامی کا وصف اس درجہ مشہور نہیں جیسے شیر کی بہادری اور گدھے کی حماقت باقی ناظرین کی رائے پر چھوڑا جاتا ہے۔ منہ) الحجر
2 الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 الحجر
6 الحجر
7 الحجر
8 الحجر
9 الحجر
10 الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 الحجر
14 الحجر
15 الحجر
16 الحجر
17 الحجر
18 الحجر
19 (18۔50) اور ہم نے زمین کو پانی پر بچھایا ہے اور اس پر بڑے بڑے اٹل پہاڑ گاڑ دئیے ہیں اور اس زمین میں ہر قسم کی موزوں چیزیں کھانے پینے کی پیدا کی ہیں اور دیکھو ہم نے تمہیں پیدا کر کے یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ تمہاری پرورش بھی کرتے ہیں کہ اسی زمین میں تمہارے اور تمہارے ماتحتوں کے جن کے تم حاکم تو ہو مگر رازق نہیں ہو گذارے کے اسباب پیدا کئے ہیں اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری قدرت کی انتہا یہیں تک ہی نہیں بلکہ دنیا میں جو جو چیزیں موجود ہیں ہمارے پاس ان کے کئی کئی خزانے ہیں اور ہم ہمیشہ اندازہ سے پیدا کیا کرتے ہیں اور دیکھو کہ تمہاری زندگی کے سامان کیسے بناتے ہیں کہ ہم ہی پانی سے بھرے ہوئے بوجھل بوجھل بادل بھیجتے ہیں پھر آسمان کی طرف سے بادلوں سے پانی اتار کر تم کو پلاتے ہیں اور تم تو ایسے عاجز ہو کہ اس کو اپنے پاس جمع نہیں رکھ سکتے برسا تو اپنی حاجت روائی کی اور باقی دھوپ سے خشک ہوتا گیا اور سنو ! ہم ہی تم کو زندہ رکھتے ہیں اور ہم ہی تم کو مارتے ہیں اور ہم ہی سب چیزوں کے حقیقی مالک ہیں جس قدر کسی کو کسی چیز کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں وہ برت سکتا ہے اس سے بعد فوراً چھن جاتی ہے جن لوگوں نے یہ گر سمجھا ہے ان کا یہ قول ہے وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار اور سنو ! اس کمال قدرت کے علاوہ ہمارا علم بھی ایسا وسیع ہے کہ ہم تم میں سے پہلے گذرے ہوئوں کو اور پیچھے رہے ہوئوں سب کو جانتے ہیں اور اے محمد تیرا پروردگار ان سب کو جو گذر چکے ہیں یا موجود ہیں ایک دن جمع کرے گا بیشک وہ بڑی حکمت والا بڑے علم والا ہے اور سنو ! ہم (اللہ) ہی نے انسان یعنی آدم کو سڑے کیچڑ کی کھنکھناٹی مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کے باپ کو تیز آگ سے بنایا تھا اور تم (بنی آدم) کو اس وقت کو یاد کر کے فخر کرنا چاہئے جب تمہارے پروردگار نے سب فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی سڑی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں پھر جب اس کو درست بنا چکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم نے تعظیماً اسے جھک کر سلام کرنا پس اس حکم کی تعمیل میں سب فرشتوں نے اسے جھک کر سلام کیا لیکن ابلیس نے تعظیم کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے کہا تجھے کیا مانع پیش آیا کہ آدم کی تعظیم کرنے والوں کی جماعت میں شامل نہیں ہوا شیطان بولا کہ میں تو ایسے شخص کی تعظیم کبھی نہ کروں جس کو تو نے سڑی مٹی سے پیدا کیا بھلا اعلیٰ ادنیٰ کو جھک کر نہایت انکساری سے کیونکر سلام کرے اللہ نے کہا تو اس جماعت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے اور قیامت تک تجھ پر لعنت رہے گی اس نے عرض کیا کہ میرے پروردگار جو ہوا سو ہوا بندوں کے حساب کے لئے اٹھنے کے دن تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ اللہ نے کہا اچھا تجھے وقت معین یعنی قیامت تک مہلت ہے شیطان نے کہا میرے پروردگار ! بوجہ اس کے کہ تو نے مجھے اس آدم کے سبب سے گمراہی کا مجرم ٹھیرایا ہے میں بھی اس کی اولاد سے پورے پورے بدلے لوں گا کہ برے کام ان کی نظروں میں مزین اور خوبصورت کروں گا اور جس طرح سے بن پڑے گی ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا مگر جو تیرے برگزیدہ بندے ہوں گے ان پر میرا کچھ زور نہ چلے گا اللہ نے کہا یہ بات مجھے بھی ملحوظ ہے اور میں ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھوں گا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا زور اور قابو نہ ہوگا مگر انہیں پر ہوگا جو تیرے تابع ہوں گے یا ہونے کو پسند کریں گے اور تجھے اور تیری جماعت کو اطلاع رہے کہ آخرکار ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اس جہنم کے سات دروازے ہوں گے ان میں سے ہر ایک فرقے کے لئے ایک دروازہ مقرر ہوگا مشرکین کے لئے الگ اور متبدعین کے لئے الگ اسی طرح بے نمازوں کے لئے الگ اور حرام خوروں کے لئے الگ مگر متقی لوگ یعنی پرہیزگار اللہ سے خوف رکھنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے ان سے باعزاز و اکرام کہا جائے گا کہ سلامتی سے باامن ان باغوں میں داخل ہو چلو اور ان کو آئندہ کی باہمی رنجش کا بھی خوف نہ ہوگا کیونکہ ہم نے ان کے سینوں سے رنجش اور کدورت کی جڑ نکال دی ہوگی بھائی بھائی ہو کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھا کریں گے اس جنت میں ان کو کسی طرح کوئی تکلیف نہ ہوگی اور نہ ہی وہ ان باغوں سے نکالے جائیں گے یہ سب کچھ محض اللہ کے فضل سے ہوگا پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو میرے بندوں کو اطلاع دے کہ میں بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور یہ بھی بتلا دے کہ میری مہربانی سے بہرہ مند ہونا چاہو تو میرے خوف کو دل میں جگہ دو کیونکہ میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے الحجر
20 الحجر
21 الحجر
22 الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 الحجر
27 الحجر
28 الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 الحجر
42 الحجر
43 الحجر
44 الحجر
45 الحجر
46 الحجر
47 الحجر
48 الحجر
49 الحجر
50 الحجر
51 (51۔84) اور ان کو یہ بھی سنا کہ میرے بندوں سے کوئی بھی اس رتبہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ مخلوق کے نیک و بد کا اختیار اسے ملا ہو اور نہ آئندہ کی خبر سے بن بتلائے اسے اطلاع ہوسکتی ہے اس امر کی تصدیق کے لئے ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا جو دراصل فرشتے تھے اور انسان کی صورت میں بشکل مہمان اس کے پاس پہنچے تھے حال سنا کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے حسب دستور سلام کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو جواب دیا اور بٹھا کر ان کے لئے کھانا منگایا مگر انہوں نے کھانے کو ہاتھ نہ بڑھائے تو ابراہیم نے کہا ہمیں تم سے خوف لگتا ہے کیا تم کسی مخفی عداوت کے لئے تو نہیں آئے کہ کھانا نہیں کھاتے ہو انہوں نے کہا ابراہیم ( علیہ السلام) ! خوف مت کر اور اپنا خیال اور ارادہ ظاہر کیا مگر قبل از اظہار ابراہیم کو کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا کیونکہ وہ غیب دان نہ تھا۔ فرشتوں نے بعد تسلی دینے کے ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ بھی کہا کہ ہم اللہ کی طرف سے تجھے ایک بڑے ذی علم لڑے اسحق کی خوشخبری دیتے ہیں کہ اللہ تجھے ایک بچہ عنایت کرے گا ابراہیم مارے خوشی کے جامہ میں نہ سمایا بولا ہیں ! کیا تم مجھے اس بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری سناتے ہو یہ تو بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے پس تم ذرہ تفصیل سے کہو کہ کس چیز کی مجھے خوشخبری دیتے ہو وہ بولے ابراہیم ! ہم ادائے مطلب میں نہیں بھولے ہم نے تجھے سچی خوشخبری سنائی ہے پس تو اللہ سے بے امید مت ہو اللہ تجھے ضرور لڑکا دے گا اس کے آگے یہ امر محال نہیں یہ سن کر ابراہیم ( علیہ السلام) کے دل پر ایک چوٹ لگی اور اللہ کی قدرت اور عظمت نے اسے دل پر احاطہ کرلیا بولا پروردگار کی رحمت سے بجز گمراہ لوگوں کے کوئی بھی بے امید نہیں ہوتا یعی اللہ کی رحمت سے بے امید ہونا سراسر گمراہی اور جہالت ہے میں اس کی رحمت سے بے امید نہیں وہ چاہے تو ایک نہیں ایک سو دے دے مجھے تو صرف اپنے حال پر نظر ہے کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں کہ ہل سکوں اور میری عورت بھی بانجھ ہے لیکن اگر یہ بشارت اللہ کی طرف سے ہے تو مجھے اس کے کرید سے کیا مطلب جب اس نے خوشخبری دے دی تو اسباب بھی پیدا کر دے گا کیونکہ کار ساز ما بفکر کارما فکر ما درکار ما آزار ما خیر اس گفتگو کے بعد ابراہیم نے کہا اے اللہ کے رسولو ! تمہارا دنیا پر کیا کام ہے کہ تم غیر معمولی طور سے آج جمع ہو کر آئے ہو۔ وہ بولے ہم تو اس بدکار قوم یعنی لوطیوں کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ اسے تباہ کریں مگر لوط کے اتباع جتنے ہوں گے سب کو ہم بچا لیں گے البتہ اس کی عورت رہے گی جسے عذاب میں پیچھے رہنے والوں میں ہم نے تاک رکھا ہے یعنی اللہ کی طرف سے ہمیں اس امر کی اطلاع ملی ہوئی ہے کہ اس کی عورت ضرور اس ہدایت کی جو لوط کو اس بارے میں کی جائے گی مخالفت کرے گی پھر جب اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے جو ان لڑکوں کی صورت میں لوط اور لوط کے خاندان کے پاس پہنچے تو بوجہ عدم تعارف اور لاعلمی کے لوط نے کہا تم تو اجنبی قوم کے ہو میں نے اس سے پہلے تم کو نہیں دیکھا انہوں نے کہا ہم تیرے پاس وہ چیز لائے ہیں جس میں تیری قوم کو شک اور انکار ہے یعنی ہم تیرے پاس سچا حکم جو ٹلنے والا نہیں لے کر آئے ہیں اور ہم اس دعویٰ اور خبر دینے میں بالکل سچے ہیں۔ پس تو رات ہی سے اپنے اہل و عیال اور اتباع کو لے کر نکل جائیو اور تو خود ان کے پیچھے ان کی نگرانی کرتے ہوئے چلیو اور تم میں سے کوئی بھی پھر کر نہ دیکھے کہ کفار سے کیا معاملہ پیش آیا ورنہ دہشت سے تم کو بھی تکلیف ہوگی اور جہاں کا تم کو حکم ہوتا ہے چلے جائیو چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور ہم (اللہ) نے لوط کو اس امر سے اطلاع دی کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ بنیاد کاٹ دی جائے گی یہ ہے خلاصہ اور اجمال لوط کی قوم کے قصے کا۔ مفصل ان کی شرارت اور بدذاتی سننی چاہو تو سنو ! کہ فرشتے تو لوط کے گھر میں امرد لڑکوں کی شکل میں داخل ہوئے اور شہر والے جن کو اس بدکاری (بچہ بازی) کی عادت قبیحہ تھی خوشی کرتے ہوئے لوط کے پاس آموجود ہوئے اور ہنسی مخول اڑانے لگے اور لوط سے درخواست کی کہ یہ لڑکے ہم کو دے دیجئے لوط نے کہا کم بختو ! یہ میرے مہمان ہیں مہمان کی عزت کرنی اللہ کا حکم ہے تمہیں شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسی درخواست کرتے ہو جس میں اللہ کی بے فرمانی کے علاوہ دنیاوی ذلت بھی ہے پس تم ایسی درخواست سے مجھے ذلیل نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو مگر وہ اپنی مستی میں منہمک تھے حضرت لوط کی نصیحت کا ان کو کوئی اثر نہ ہوا بڑی تیزی سے بولے کہ ہم نے تمام دنیا کے لوگوں کی دعوتوں اور مہمانیوں سے تجھے منع نہیں کیا ہوا کہ اس بہانے سے تو ہمارا شکار کھو دیتا ہے اور عموماً مسافر جن کے ساتھ خوش شکل لڑکے ہوتے ہیں تیری پناہ میں آجاتے ہیں اور تو ان کو فوراً اپنے گھر میں جگہ دے دیتا ہے اسی لئے اس سے پہلے بھی کئی دفعہ تجھ کو اس حرکت سے منع کیا تھا مگر چونکہ تو باز نہیں آتا اس کا علاج یہی ہے کہ آج ہم تیرا لحاظ بھی بالائے طاق رکھیں گے اور اپنا شکار لے جائیں گے لوط نے جب ان کا سخت اصرار دیکھا تو عاجزانہ لہجہ میں بدمعاشوں کے لیڈروں اور سرداروں سے کہا کہ اگر تم کو کچھ کرنا ہی ہے یعنی بغیر شہوت نکالنے کے تم نہیں رہ سکتے تو یہ میری لڑکیاں موجود ہیں اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو ان سے باقاعدہ عقد کرلو میں ابھی تمہارے حوالے کردیتا ہوں مگر وہ کہاں مانتے تھے تیری جان کی قسم وہ تو اپنی مستی میں جھوم رہے تھے وہ کسی کی کب سنتے تھے گو وہ اللہ کی پکڑ سے غافل تھے مگر اللہ تو ان کے اعمال سے بے خبر نہ تھا فرشتوں نے جب لوط کو مجبور دیکھا کہ اس کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہوئی تو آخر راز ظاہر کردیا کہ لوط ! ہٹ جا دروازہ چھوڑ دے یہ کبھی بھی تیرے پاس نہ پہنچ سکیں گے پس صبح کی روشنی ہوتے ہی ایک زور دار چیخ نے ان کو ہلاک کردیا کہ اس آواز سے ان کے دماغ اور جگر پھٹ گئے پھر ہم نے اس بیت کی اوپر کی طرف نیچے کردی یعنی جتنے مکان بلند تھے اور ان کے نیچے لوگ سوتے تھے سب گرادئیے اور جو جنگلوں میں سوتے تھے ان پر کھنگروں کی قسم کے پتھر برسائے غرض سب کے سب ہلاک کر دئیے بے شک اس قصے میں سمجھداروں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں کہ وہ اس سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جوز جو اور تحقیق لوطیوں کی بستی ان عربیوں کے سفر شام کی سیدھی راہ میں نظر آتی ہے بے شک اس میں اب بھی ایمانداروں کے لئے کئی ایک ہدایت کے نشان ہیں اور شعیب کی قوم بن والے جن کا گذر اوقات عموماً جنگلوں میں تھا بے شک وہ بھی نبیوں کی تکذیب کرنے سے اللہ کے نزدیک ظالم تھے پس ہم نے ان سے بھی انتقام لیا کہ آخر کار ان کو تباہ کیا اور یہ دونوں قومیں اپنی ان کے کھنڈرات شارع عام پر پڑے ہیں اور ثمود کی قوم حجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ہم نے ان کو کئی ایک احکام دئیے لیکن پھر بھی وہ ان سے روگردان ہی رہے اور دنیا کے کاروبار میں تو ایسے دانا تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر بے خوف ہو کر گھر بنا لیتے تھے یعنی ان کو پہاڑوں کے تراشے میں ذرہ بھی خطرہ نہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم پر گر نہ پڑیں مگر پھر بھی یہ دانائی ان کے کچھ کام نہ آئی پس صبح ہوتے ہی غضب الٰہی کی ایک آواز نے ان کو تباہ کردیا پھر ان کی ایسی حالت میں ان کی کمائی نے ان کو کچھ کام نہ دیا نہ تو پہاڑی مکان اور نہ ان کی شاہ زوری ان کو فائدہ دے سکی اس لئے کہ وہ منشاء الٰہی کے خلاف کام کرتے تھے الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 الحجر
57 الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 الحجر
66 الحجر
67 الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 الحجر
73 الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 الحجر
79 الحجر
80 الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 (85۔99) اور یہ نہیں جانتے تھے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو حق اور نیک و بد کا بدلہ دینے کے سچے نتیجے سے پیدا کیا اور کچھ شک نہیں کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے پس تو ان کی شرارتوں کی پرواہ نہ کر بلکہ عمدگی اور وضعداری سے طرح دے دیا کر کیونکہ تیرا پروردگار بڑا پیدا کرنے والا بہت بڑے وسیع علم والا ہے وہ اپنی کامل قدرت سے تیری ایسی امداد کرے گا کہ لوگ دیکھیں گے یہ ہمارا فضل کیا تجھ پر تھوڑا ہے کہ ہم نے تجھے سات آیتیں مثانی کی جو بار بار پڑھنے کے قابل ہیں یعنی قرآن کا حصہ عظیم رتبہ والا دیا ہے جس کا نام سورت فاتحہ ہے جس میں تمام قرآن کے مضامین کا بالاجمال بیان ہے اس لئے اس کا نام قرآن عظیم ہے پس اس کا اثر اور نتیجہ تجھ پر یہ ہونا چاہئے کہ جس قدر ہم نے دنیا کے لوگوں میں سے مختلف قسموں کو آسودگی اور عیش و عشرت کے سامان سے بہرہ مند کیا ہوا ہے تو ان کی طرف کبھی نظر نہ کیجئیو اور حسرت سے مت دیکھیو کہ ہائے مجھے بھی یہ ملا ہوتا بلکہ یہ سمجھ رکھ کہ رضینا قسمۃ الجبار فینا لنا علم وللجہال مال اور ان کفار بدکردار کے حال پر تاسف نہ کیا کر کہ ہائے یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اس لئے کہ تیرے تاسف سے سے ان کو فائدہ نہ ہوگا پھر ناحق تیرے مغموم ہونے سے کیا فائدہ اور مسلمانوں کے ساتھ گو کسی طبقہ اور قوم کے ہوں خاطر سے ملا کر کیونکہ ہمارے ہاں دل مقبول ہے لباس ظاہری منظور نہیں اور تو کفار کو مخاطب کر کے کہہ دے کہ میں تو صرف واضح کر کے برے کاموں پر تم کو ڈرانے والا ہوں بھلا تیری نبوت اور کتاب کے ملنے سے ان کو تعجب اور انکار کیوں ہے۔ تجھے کتاب کا ملنا بالکل اسی طرح ہے جیسے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر جنہوں نے اللہ کی کتاب کو اپنے خیال کے مطابق بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا جو مضمون اپنی ہوائوں کے مطابق پایا اس پر تو عمل کیا اور جو خلاف سمجھا اسے پس پشت پھینک دیا بلکہ اس کے سنانے والوں سے بگڑ بیٹھے ہیں ہم نے کتابیں اتاری ہیں ٹھیک اسی طرح تجھے بھی اس وقت کے لوگوں کی ہدایت کے لئے کتاب دی ہے جو حسب مقتضائے زمانہ عین وقت پر پہنچی ہے پس تیرے پروردگار یعنی ہمیں اپنی ذات کی قسم ضرور ان کے اعمال سے ہم ان کو سوال کریں گے پس جس کام کا تجھے حکم ہوتا ہے تو اسی کی دھن میں لگا رہ اور مشرکوں سے منہ پھیر ان کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کر ٹھٹھے بازوں مخولیوں کو جو محض حماقت سے اللہ کے ساتھ اور معبود بناتے ہیں ہم تیری طرف سے کافی ہیں پس وہ جان لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ بتقاضائے بشریت ان کی واہیات باتوں سے جو طعنے معنے کے طور پر تجھے کہتے ہیں تو دل میں تنگ ہوتا ہے مگر اس کا علاج یہ تو نہیں کہ تو آزردہ خاطر ہو بلکہ اس کی طرف توجہ کر جس کے قبضے میں سب کچھ ہے پس تو اپنے پروردگار کی حمد و ثنا اور پاکی بیان کیا کر اور اس کے آگے سجدہ کیا کر اور مرنے تک اپنے پروردگار کی عبادت میں لگا رہ۔ غرض اپنا اصول ہی مقرر کر رکھ کہ دست از طلب ندارم تا کام من برآید یا تن رسد بجاناں یا جاں نہ تن برآید الحجر
86 الحجر
87 الحجر
88 الحجر
89 الحجر
90 الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 الحجر
0 النحل
1 (1۔50) اللہ کا حکم تمہارے حق میں آیا چاہتا ہے پس تم اسے جلدی نہ مانگو کیونکہ اس کی جلدی چاہنے میں مجرموں کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے فائدہ ان کا تو نیک اعمال کرنے اور بدافعال کے چھوڑنے میں ہے سو شرک چھوڑ کر توحید اختیار کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بے ہودہ خیالات اور شرک سے پاک اور بلند ہے اس میں بھی ان کی ضد بے جا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ شخص باوجود بے وسعتی کے اللہ کا رسول کس طرح ہوگیا اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا حکم دے کر فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو اطلاع کر دو اور نہ ماننے پر ڈرا دو کہ میرے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں پس تم قدرتی امور میں مجھ ہی سے ڈرو اس میں کسی مخلوق کا کیا اختیار نہ وہ کسی سے مشورہ طلب کرتا ہے نہ کسی سے رائے کا اظہار چاہتا ہے اسی اللہ نے آسمان و زمین سچے نتیجے سے پیدا کئے ہیں کیا اس نے کسی سے امداد یا مشورہ لیا تھا؟ ہرگز نہیں وہ ان کے شرک کرنے اور بے ہودہ گوئی سے پاک ہے کیسی تعجب کی بات ہے کہ اس نے انسان کو منی کے ناچیز قطرہ سے پیدا کیا تو پیدا ہوتے ہی وہ کھلم کھلا اللہ کے بارے میں جھگڑالو بن بیٹھا ہے اسی نے تمہارے لئے چارپائے پیدا کئے ہیں جن میں تمہارے لئے جاڑے کے کپڑے اور کئی ایک قسم کے فوائد ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو اور ان چارپائوں کو قطار کی قطار جب تم دن ڈھلے گھروں کو واپس لاتے ہو اور دوپہر سے پہلے جب تم ان کو باہر لے جاتے ہو ان دونوں وقتوں میں وہ تمہارے لئے باعث سجاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آمد و رفت ایسی بھلی معلوم ہوتی ہے کہ دیکھنے سے متعلق ہے نیز جس گھر سے وہ قطار بن کر نکلتے ہیں ان گھر والوں کی ایک گو نہ عزت لوگوں کے دلوں میں سمجھی جاتی ہے اور وہ چار پائے ایسے مقاموں تک تمہارے بوجھ اٹھا کرلے جاتے ہیں جہاں پر بغیر سخت مشقت کے تم نہ پہنچا سکو پس تم اس سے نتیجہ پائو کہ بیشک تمہارا پروردگار تمہارے حال پر بڑا ہی مہربان ہے ایسے مہربان سے بگاڑ کرنا اپنا ہی کچھ کھونا ہے اسی نے گھوڑے خچریں اور گدھے تمہاری حاجت روائی کو پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو اور نیز وہ تمہاری زینت اور موجب عزت ہیں کیونکہ آسودہ آدمی بلا ضرورت بھی رکھا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ تمہاری سواری کے لئے ایسی چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم اس وقت نہیں جانتے وہ بذریعہ ریل اور اگنبوٹ ہوائی جہاز وغیرہ تم کو سفر کرائے گا پھر ایسے مالک سے بگاڑ کر کیا فائدہ پا سکتے ہو ہاں اس میں شک نہیں کہ سب مذاہب کا رخ اپنے اپنے زعم میں اللہ ہی کی طرف ہے کیونکہ سب اہل مذاہب اسی بات کے مدعی ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے راضی کرنے کو کرتے ہیں مگر چونکہ حقیقت میں بعض ان میں ٹیڑھے بھی ہیں اس لئے کامیاب نہیں ہوتے اور نہ ہوں گے گو راستی کے سب مدعی ہیں مگر نرا دعویٰ بالکل اس کے مشابہ ہے کل یدعی وصلا للیلی و لیلی لاتقر لھم بذاکا اور اگر وہ چاہتا تو سب کو ہدایت کردیتا کسی کو مجال نہ تھی کہ اس کے چاہے کو روک سکے لیکن وہ افعال اختیار یہ میں جبر نہیں کیا کرتا وہی اللہ معبود برحق ہے جو بادلوں سے تمہارے لئے پانی اتارتا ہے اس میں تمہارے پینے کے قابل ہے اور اسی سے تمہارے درخت پرورش پاتے ہیں جنہیں تم اپنے مویشیوں کو چراتے ہو اسی پانی سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل پھول پیدا کرتا ہے بیشک اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت بڑی نشانی ہے اسی نے تمہارے لئے رات اور دن سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے اور تمام ستارے بھی اسی کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں غرض کوئی چیز بھی دنیا کی مستقل بالذات نہیں بیشک عقلمند قوم کے لئے اس میں بہت سے نشان ہیں وہ ادنیٰ توجہ سے سمجھ جاتے ہیں کہ موجود بالغیر بغیر کسی موجود بالذات کے ہو ہی نہیں سکتا اور دنیا میں جن جن مختلف رنگ چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے ان سب میں نصیحت پانے والے لوگوں کے لئے بہت بڑی نشانی ہے یعنی جو لوگ نیک دل ہوں اور جی میں کسی علمی اصول یا سچی تعلیم کے ماننے پر مستعد ہوں ان کے لئے نظام عالم کے واقعات میں بہت سے ہدایت کے دلائل ہیں وہ ادنیٰ توجہ سے جان جاتے ہیں کہ جب کہ کوئی فعل بغیر فاعل کے نہیں تو اس اتنے بڑے ڈھانچ کا بھی کوئی کارساز ہے اور سنو ! وہی حقیقی معبود ہے جس نے سمندر کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے کہ تم اس میں سے تر و تازہ مچھلیوں کا گوشت کھاتے ہو اور زیور موتی جواہرات کے اقسام نکالتے ہو جنہیں تم پہنتے ہو یہ سب اسی کی پیدائش ہے اور تو اے دیکھنے والے بڑے بڑے جہازوں کو دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتے ہوئے اس دریا میں چلے جا رہے ہیں پانی کو یہ قوت دی ہے کہ لکڑی کو اٹھا لے اور لکڑی کو یہ حکم ہے کہ پانی کے نیچے نہ بیٹھے غرض دونوں کو اس تدبیر سے بنایا ہے کہ تمہارا کام چلے اور تاکہ بذریعہ تجارت تم اس کا فضل پائو اور شکر منائو اور سنو ! اس نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ قائم کر دئیے ہیں کہ زمین پانی کی کثرت سے کہیں تمہیں لے نہ گرے اور خود رو دریا اور پہاڑوں اور جنگلوں میں قدرتی راستے بنائے تاکہ تم جنگلوں میں راہ پائو اور اس کے علاوہ کئی ایک ہدایت کے نشان پیدا کئے ہیں اور یہ تو صریح امر ہے کہ یہ لوگ ستاروں کی چال سے دریائوں میں راہ پاتے ہیں اتنے آثار قدرت کاملہ دیکھ کر بھی اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف جھکتے ہیں اور استمداد کرتے ہیں تو کیا پھر یہی بات ہے کہ ان کے نزدیک خالق غیر خالق جیسا ہے افسوس کیا تم اس رائے کی غلطی سمجھتے نہیں ہو ایسی عقل پر پتھر جو اتنی بات بھی نہ بتلا سکے کہ وجود عدم سے ہمیشہ اشرف ہوتا ہے یہ تو بہت تھوڑی سی نعمتیں تم کو بتلائی ہیں اور اگر ساری کی ساری اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو کبھی پوری نہ کرسکو گے کوئی دم اور کوئی آن ایسی نہیں کہ اس کی نعمتوں کا ورود تم پر نہ ہو باوجود اس قدر نعمتوں کے پھر بھی جو تم اس کے بندوں کو اس کے برابر کر کے اسے ناراض کرتے ہو اور وہ تمہیں جلد مواخذہ نہیں کرتا تو یقین جانو کہ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے اور سنو ! تم یہ بات دل سے نکال دو کہ اللہ تمہارے دل کے حالات نہیں جانتا تم جو چاہو کرلو خبردار ! جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور اللہ کے سوا جن لوگوں کو یہ مشرک لوگ پکارتے ہیں ان کی قدرت کی یہ حد ہے کہ وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں محل موت ہیں نہ دائم الحیات اور علم کی یہ قلت ہے کہ ان کو اتنی بھی خبر نہیں کہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے لوگو ! یقین جانو ! کہ تمہارا معبود ایک ہے سو جن لوگوں کو آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں ان کے دل اس خالص توحید سے منکر ہیں اور وہ اس انکار میں متکبر ہیں محض ضد اور ہٹ سے انکاری ہیں ورنہ دلائل ایسے واضح اور صریح ہیں کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے چنانچہ یہی ایک دلیل کافی ہے کہ ام نجعل التقین کالفجار۔ یعنی اللہ فرماتا ہے کہ اگر بعد مرنے کے اعمال کی جزا سزا نہیں تو پھر کیا نیک بخت اور بدبخت دونوں یکساں ہوجائیں گے جو خدائی انصاف سے صریح دور ہے پس یقینی بات ہے کہ لوگ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کراتے ہیں سب اللہ کو معلوم ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ متکبروں سے محبت نہیں کرتا یہی تو تکبر ہے کہ حق بات کو قبول نہ کرنا جو یہ لوگ کر رہے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا کچھ بھیجا ہے یعنی قرآن کی نسبت تمہاری کیا رائے ہے تو کہتے ہیں میاں ! کیا پوچھتے ہو اللہ نے تو کچھ بھیجا نہیں وہ تو محض پہلے لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں ان کے اس قول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے روز اپنے گناہ اور جن ماتحت بے سمجھ لوگوں کو جہالت سے گمراہ کرتے ہیں ان کے گمراہ کرنے کے گناہ پورے کے پورے اٹھائیں گے ذرہ بھر کمی نہ کی جائے گی دیکھو تو کیسا برا اور سخت بوجھ اٹھائیں گے جس سے ان کی کمریں ٹوٹ جائیں گی اس کی برداشت کی ان کو طاقت نہ ہوگی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس دائو بازی میں کامیاب ہوں گے مگر ان کو خبر نہیں کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح حق کے مٹانے میں تدبیریں اور منصوبے کئے تھے سو اللہ نے ان کی جڑ بنیاد اکھاڑ دی ایسی کہ ان کی چھتیں ان پر آپڑیں اور جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا ان پر عذاب آیا پھر قیامت کے دن ابھی اور ان کو اللہ رسوا کرے گا اور کہے گا کہ میرے شریک جن کی بابت تم بضد ہوا کرتے تھے آج کہاں ہیں۔ اس وقت وہ تو خاموش سر جھکائے ہوئے نادم و پریشان ہوں گے مگر علم دار اور سمجھ والے لوگ جو دنیا میں ان اوہام باطلہ سے بچے ہوئے ہوں گے سنتے ہی کہیں گے آج کے روز ذلت اور رسوائی اس سوال کے جواب نہ دینے سے جو کافروں پر پڑی ہے وہ کسی دوسرے پر کیوں پڑنے لگی کون کافر ! وہ لوگ جو مرنے تک یعنی جس وقت فرشتے ان کی جانیں نکالتے تھے اور وہ کفر و شرک کرنے سے اپنے نفسوں پر ظلم و ستم کرتے رہے یعنی مرتے دم تک کافر رہے۔ پس وہ یہ سن کر ان کے حواس باختہ ہوجائیں گے پھر اور تو ان کو کچھ نہ سوجھے گی اطاعت کی التماس کرنے لگیں گے اور نہایت نرمی سے بولیں گے کہ ہم تو برے کام نہ کرتے تھے اس سے غرض ان کی یہ ہوگی کہ جس طرح دنیا میں حکام مجازی کی عدالت میں انکار پر بسا اوقات مجرم کو فائدہ ہوجایا کرتا ہے اسی طرح شاید یہاں بھی ہو اس کے جواب میں ان سے کہا جائے گا کہ ہاں صاحب ٹھیک آپ نے کبھی برا کام کیا ہی نہیں تمہارے انکار و اقرار کی حاجت ہی نہیں اللہ تمہاری کرتوتوں سے جو تم دنیا میں کرتے تھے مطلع ہے پس اب چلئے باتیں نہ بنائیے جہنم کے دروازوں میں گھسئے جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہوگا کیونکہ متکبروں کا بہت ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر بھی ایسا کہ بقول شخصے بازی بازی باریش بابا بازی آپس میں ایک دوسرے سے ضد کرتے کرتے اللہ سے بھی تکبر کرنے لگے تو ایسوں کا برا ٹھکانہ کیوں نہ ہو اور پرہیزگاروں سے جب قرآن کی بابت سوال ہوتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کچھ نازل کیا ہے تو وہ بلا تامل کہتے ہیں کہ بہت عمدہ اور سب سے اچھا بابرکت کلام نازل کیا ہے نہ صرف منہ سے اس کے قابل ہوتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں اصل تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ہے انہی کے لئے آخرت میں بھلائی ہے اور اگر سمجھیں تو آخرت کا گھر ہی سب سے عمدہ ہے اور پرہیزگاروں کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے ایسا کہ دنیا میں کسی شہنشاہ کو بھی نصیب نہیں۔ کیسا گھر ! ہمیشہ کے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جو کچھ وہ چاہیں گے ان کے لئے مہیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح پرہیزگاروں کو بدلہ دے گا کون پرہیزگار جو مرنے کے وقت یعنی جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ شرک کفر بداخلاقیوں نیز خصائل رذیلہ سے پاک و صاف ہوتے ہیں فرشتے ان سے بوقت قبض ارواح بادب السلام علیکم کہتے ہیں کہ تشریف لائے اپنے نیک عملوں کے عوض جنت میں داخل ہوجائیے پس جو نیک دل ہیں ان کو صرف اتنا ہی کافی ہے اور وہ اس پر غور کرنے سے نتیجہ پا سکتے ہیں کہ کرنے والا اور نہ کرنے والا برابر نہیں ہوتے خصوصاً منصف عادل حاکم کے سامنے اور جو بدعادت بدخصلت ہیں جیسے یہ تیرے مخاطب یہ تو اب صرف اس بات کی انتظاری میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا تیرے پروردگار کے عذاب کا حکم آوے یعنی تباہ کئے جائیں اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے کیا تھا چنانچہ وہ تباہ کئے گئے اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے پس انجام ان کے ظلم کا یہ ہوا کہ ان کے اعمال کی برائیاں ان کو پہنچیں اور نبیوں سے سن کر جس عذاب الٰہی کی ہنسی اڑاتے تھے وہی ان پر آ نازل ہوا۔ اسی طرح ان سے ہوگا بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے جو کہتے ہیں سنو ! مشرک کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو نہ تو ہم اور نہ ہمارے بزرگ اس کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو اس کے حکم کے سوا حرام سمجھتے غرض ان کی اس دلیل سے یہ ہے کہ اللہ ہمارے افعال سے خوش ہے تو ہم کرتے ہیں بھلا اگر وہ ناراض ہوتا تو کیا ہم کرسکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ پھر تو کیوں ہم کو ان کاموں پر وعید سناتا ہے مگر حقیقت میں ان کو سمجھ نہیں خدائی مشیت اور رضا میں فرق نہیں جانتے بے شک جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مشیت سے ہو رہا ہے مجال نہیں کہ اس کی مشیت کے سوا کوئی کام ہوسکے کیونکہ مشیت اس کے قانون کا نام ہے جب تک کسی کام کو حسب قانون فطرت نکرو گے کبھی کامیاب نہ ہو گے جب تک گرمی حاصل کرنے کے لئے آگ نہ جلائو گے پانی سے وہ کام نہیں نکل سکے گا جو کام فطرت نے پانی سے متعلق کیا ہے وہ آگ سے نہ ہوگا۔ یہی تلوار جس کا کام سر اتار دینا ہے جہاں اس کو چلائو گے اپنا اثر دکھاوے گی خواہ کسی مظلوم پر ہو یا ظالم پر چنانچہ ہر روز دنیا میں ناحق خون بھی ہوتے ہیں لیکن ان سب کاموں پر رضا الٰہی لازمی نہیں بلکہ رضا اسی صورت میں ہوگی کہ ان سب اشاء کو حسب ہدایت شریعت استعمال کرو گے بس یہ بے سمجھی نہیں تو کیا ہے کہ مشیت اور رضا میں فرق نہیں کرتے اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے کیا تھا بے ہودہ واہی تباہی عذرات رکیکہ گھڑتے تھے تاکہ ان کو گناہ کرتے ہوئے شرم دامنگیر نہ ہو۔ رسولوں پر تو ان کی ایسی بے ہودہ گوئی کا کوئی اثر نہیں کیونکہ رسولوں کے ذمہ صرف یہی فرض ہے کہ اللہ کے احکام واضح لفظوں میں پہنچا دیں اور بس اسی اصول سے ہم نے ہر ایک امت میں رسول بھیجے تھے کہ لوگوں سے کہو اللہ کی عبادت کرو اور ماسوا اللہ کی عبادت سے بچو پھر ان میں سے بعض کو تو اللہ نے ہدایت کی یعنی توفیق خیر عنایت کی کہ وہ تابع فرمان ہوگئے اور بعض کو گمراہی چمٹ گئی کیوں چمٹ گئی‘ اس لئے کہ وہ حق سے بضد پیش آتے تھے پس تم زمین پر پھر کر دیکھو کہ نبیوں کے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا بد ہوا اصل یہ ہے کہ جب آدمی ضد پر ہو بیٹھے تو کوئی بات اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی ہدایت کی خواہش بھی کرے تو بھی ہدایت پر نہ آویں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرچکے یعنی جس کی ضد اور شرارت کی وجہ سے اس کو راندہ درگاہ کر دے اس کو ہدایت نہیں کیا کرتا اور ان کے لیے مددگار بھی نہیں ہوتا اس سے زیادہ شرارت اور ضد کیا ہوگی کہ بلاوجہ بے سوچے سمجھے کلام الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور سخت سخت قسمیں اللہ کے نام کی کھاچکے ہیں کہ اللہ مرے ہوئوں کو کبھی نہ اٹھائے گا اور نہ ہی کسی نیک و بد پر جزا سزا ملے گی کیوں نہیں ضرور اٹھائے گا اس بات کا اس نے سچا وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں نیک و بدکاموں پر جزا و سزا ضرور دوں گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے اور سمجھتے نہیں کہ اللہ کی جناب میں یہ بے انصافی کیونکر ہوسکتی ہے کہ نیک و بد مر کر سب یکساں ہوجائیں پس یقینا جانو کہ وہ ضرور اٹھائے گا تاکہ جن شرعی باتوں میں لوگ مختلف ہیں ان کو بیان کر کے بتلا دے یعنی ایمانداروں کو نیک عوض دے اور کافروں کو سزا تاکہ کافروں کو یقین ہوجائے کہ بیشک وہ جھوٹے تھے کیونکہ زبانی سمجھانے سے تو کچھ نہیں ہوتا عملی ثبوت جب تک نہ ہو علم یقینی حاصل نہیں ہوا کرتا اور ان کو جو یہ شبہات ہو رہے ہیں کہ مر کر کس طرح زندہ ہوں گے یہ تو سب فضول ہیں ہم جب کسی کام کو کرنا چاہیں تو بس ہمارا اتنا ہی کہنا اس کے لیے کافی ہوتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے مجال نہیں کہ تخلف کرے جن لوگوں نے اس امر پر غور کی ہے اور اللہ کی قدرت اور عظمت کا اثر اپنے دل پر جمایا ہے وہ تو فوراً مان جاتے ہیں چاہے مخلوق سے ان کو کتنے ہی صدمات پہنچیں مگر وہ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں ممکن نہیں کہ ٹل جائیں ایسوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ظالموں سے تنگ آ کر مظلوم ہونے کے بعد محض دین کی حفاظت کو اپنے وطن مالوف کو چھوڑ آئے ہیں ہم (اللہ) ان کو دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر اور ثواب تو بہت ہی بڑا ہے۔ کاش کہ ان کو کچھ بھی خبر ہوتی یہ کون لوگ ہیں وہ جو تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار ہی پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی اور پر اسی سے مانگتے ہیں اسی سے لیتے ہیں سچ پوچھو تو یہی لوگ خلاصۃ البریہ ہیں یہی مایہ ناز دنیا ہیں انہی سے دنیا کی بقا ہے ان کے سوا باقی لوگ تو سب کے سب فضول ہیں ایسے فضول لوگوں کی پہچان ہمیشہ فضول گوئی ہے جیسے یہ تیرے مخاطب کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول آدمی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ فرشتے ہونے چاہئیں یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی نہ تو دلیل عقلی مساعدت کرتی ہے نہ واقعات گذشتہ کی تاریخ کیونکہ ہم نے تجھ سے پہلے بنی آدم میں سے مردوں ہی کو رسول کر کے بھیجا ہے جن کو ہم وحی کیا کرتے تھے۔ مکہ والو ! تمہیں اگر یہ واقعات بھول گئے ہوں یا علم نہ ہو تو ان واقعات کو یاد رکھنے والے علمداروں یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ لو جو ہمیشہ پیغمبروں کے حالات جس قدر ان کے پاس ہیں پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں وہ باوجود ہماری مخالفت کے تم سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ بیشک اللہ کے نبی ہمیشہ سے آدمی ہی ہوتے چلے آئے ہیں ہمیشہ رسول کھلے کھلے نشان اور واضح مسائل لے کر آتے رہے جیسا تو آیا ہے اور ہم نے تیری طرف نصیحت کی بات قرآن کی تعلیم بھی اسی لئے اتاری ہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں سے اترا ہے تو اس کو واضح کر کے بیان کر دے کہ وہ بعد بیان ہوجانے کے اس میں فکر کریں اور نتیجہ پاویں کیونکہ تو قرآن کا صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ شارح اور مفسر بھی ہے کیا پھر قرآن سن کر بھی بدکار لوگ اس امر سے بے خوف ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے ان پر عذاب آئے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو یا ان کو چلتے پھرتے صحیح سلامت پکڑ لے یا ان کو ڈرا ڈرا کر پکڑے کہ پہلے کچھ تھوڑی سی تکلیف پہنچائے پھر اور اس سے زیادہ غرض وہ سب کچھ کرسکتا ہے یہ لوگ اس کو کسی امر میں عاجز نہیں کرسکتے اور نہ کسی طرح تھکا سکتے ہیں۔ پھر جو باوجود قدرت کاملہ کے دنیا میں ان سے مواخذہ نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کرتا کہ تمہارا پروردگار بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے اس کے رحم کی کوئی حد نہیں جس پر وہ رحم کرنا چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا اصل میں اس کی مہربانی اور رحم ہی کا نتیجہ ہے کہ بقول ” کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ“ ان کی شرارتیں اور گستاخیاں اسی وجہ سے ہیں کہ وہ ان کو جلدی پکڑتا نہیں ورنہ کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھتے؟ کہ ان کے سائے کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف کو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جھکتے ہیں اور وہ خود بخود فرمان الٰہی کے آگے ذلیل اور فرمانبردار ہوتی ہیں مجال نہیں کہ قہری فرمان الٰہی کو کوئی روک سکے کیسی ہی سخت اور بے جان چیز کیوں نہ ہو جب خدائی حکم اس کو پہنچتا ہے فوراً اس کے لیے مستعد ہوجاتی ہے اور نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں آسمان اور زمین میں ہیں وہ اور فرشتے سب کے سب اللہ کی اطاعت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اس اطاعت کرنے میں وہ کسی طرح کا تکبر نہیں کرتے اپنے رب سے جو ان پر حاکم ہے ڈرتے ہیں اور جس بات کا ان کو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اس لیے تو اللہ ان سے راضی ہے تم بھی اگر اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہو تو اس کی فرمانبرداری کرو۔ النحل
2 النحل
3 النحل
4 النحل
5 النحل
6 النحل
7 النحل
8 النحل
9 النحل
10 النحل
11 النحل
12 النحل
13 النحل
14 النحل
15 النحل
16 النحل
17 النحل
18 النحل
19 النحل
20 النحل
21 النحل
22 النحل
23 النحل
24 النحل
25 النحل
26 النحل
27 النحل
28 النحل
29 النحل
30 النحل
31 النحل
32 النحل
33 النحل
34 النحل
35 النحل
36 النحل
37 النحل
38 النحل
39 النحل
40 النحل
41 النحل
42 النحل
43 النحل
44 النحل
45 النحل
46 النحل
47 النحل
48 النحل
49 النحل
50 النحل
51 (51۔65) پس سنو ! اللہ نے حکم دے رکھا ہے کہ متعدد معبود نہ بنائیو کیونکہ حقیقی معبود بس ایک ہی ہے پس مجھ (اللہ) ہی سے ڈرتے رہو تاکہ تمہارا بھلا ہو اور تم کامیاب ہو۔ تم نہ سمجھو کہ تمہاری اطاعت اور فرمانبرداری سے کچھ اس کا فائدہ ہے۔ نہیں اس لیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ سب اسی کا ہے اسی نے انکو پیدا کیا اور وہی فنا کردیتا ہے اور کر دے گا اور اسی کی بندگی دائمی ہے اس کے سوا جن لوگوں نے خدائی کا ڈنکا بجایا چند ہی روز بعد لوگوں کو بلکہ خود ان کو بھی اپنی غلطی معلوم ہوگئی آخر جب اللہ کی پکڑ میں آئے تو لگے اللہ اللہ پکارنے پس جب آخر کار اسی سے مطلب ہے تو کیا پھر اب صحت اور سلامتی کے وقت تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو کہ ہائے اگر ان کے نام کی نذر و نیاز نہ دیں گے تو وہ نقصان پہنچائیں گے یا کوئی نعمت ہم سے چھین لیں گے۔ سنو ! جتنی کچھ نعمتیں تمہارے پاس ہیں سب کی سب اللہ کے ہاں سے ہیں اور جب تم کو کوئی سخت تکلیف پہنچتی ہے تو پھر بھی اسی کی طرف چلاتے اور بلبلاتے ہوئے آتے ہو اور کہتے ہو ہائے مولا ! ہماری یہ تکلیف دور کر دے پھر جب وہ اپنی مہربانی سے اس تکلیف کو تم سے دور کردیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں سے اسی دم اپنے پروردگار سے شرک کرنے لگ جاتے ہیں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو غیروں کی طرف نسبت کرتے ہیں اللہ اگر اولاد دیتا ہے تو اس کا نام ایسا رکھتے ہیں جس سے شرک مفہوم ہوجیسے دیوی دتا۔ میراں بخش۔ پیر بخش۔ نبی بخش۔ سالار بخش۔ مدار بخش۔ پیراں دتا۔ وغیرہ اس لئے تاکہ کسی طرح ہماری دی ہوئی نعمت کی ناشکری کریں۔ اچھا تو پس چند روزہ زندگی گذار لو آخر جان لو گے بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی اور ان کی جہالت سنو ! کہ جن چیزوں کی ماہیت کو بھی نہیں جانتے انکے لیے ہمارے دئیے میں سے حصے مقرر کرتے ہیں مثلاً کھیتی ہم پیدا کرتے ہیں اور یہ نادان اسی میں سے اپنے باطل معبودوں کے حصے مقرر کرلیتے کہ اتنا حصہ فلاں بت اور اتنا فلاں قبر والے کا سو اللہ کی قسم اس بہتان بندی کا تم سے ضرور سوال ہوگا۔ اور ان کی بے ہودہ گوئی سنو ! کہ اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں وہ ان کی بیہودہ گوئی سے پاک ہے کیا اللہ کی بیٹیاں اور ان کے لیے جو چاہیں؟ من مانے بیٹے حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے تولد ہونے کی خبر ملتی ہے تو رنج سے منہ تو اس کا کالا ہوجاتا ہے اور غصہ سے زہر کے گھونٹ پیتا ہے بیٹی کی خبر کے رنج کے مارے برادری سے چھپا چھپا پھرتا ہے اور دل میں منصوبے بناتا ہے اور سوچا کرتا ہے کہ آیا باوجود اس ذلت اور خواری کے جو اس لڑکی ہونے سے مجھ پر آئی ہے اس کو زندہ رکھ لوں یا زمین میں زندہ درگور کر دوں۔ سنتے ہو ! لڑکی کو ایسا برا جانتے ہیں پھر بھی لڑکیاں اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں دیکھو ! تو ان لوگوں کی کیا ہی بری سمجھ ہے جس سمجھ سے یہ امر تجویز کرتے ہیں پتھر ایسی عقل پر جو آدمی اتنا بھی نہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ جو میرا مالک ہے میں اس کی نسبت کیا عقیدہ اور خیال رکھتا ہوں اس سے تو گدھا بھی اچھا ہے سچ ہے کہ آخرت کے منکروں کی بہت ہی بری کہاوت اور تمثیل ہے واقع میں گدھوں اور کتوں سے بھی بدتر ہیں اور اللہ کی تمثیل تو سب سے بلند اور اعلیٰ ہے اور وہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے سچ جانو اگر اللہ لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے پکڑتا تو دنیا پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا بنی آدم کو تو اس لیے کہ وہ خود بدکار ہیں حیوانات کو اس لیے کہ انکی زندگی انسانوں کی زندگی سے وابستہ ہے لیکن ایسا نہیں کرتا بلکہ باوجود ان کی شرارتوں کے ایک مقرر وقت تک ان کو مہلت دیتا ہے پس جب ان کی اجل آپہنچے گی تو نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے یعنی نہ تو اجل آئے زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ بغیر آئے مر سکتے ہیں۔ اور سنو ! اللہ کے حق میں ایسی چیزیں نسبت کرتے ہیں جن کو اپنے لئے مکروہ جانتے ہیں با ایں ہمہ نجات کی امید رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے جھوٹ کہتے ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے بھلائی ہے کچھ شک نہیں کہ آخرت میں ان کے لئے آگ کا عذاب ہے اور یقینا جانو کہ دوزخ میں ان کو اوروں سے زیادہ عذاب کیا جاوے گا کیونکہ انہوں نے سیدالانبیاء علیہم السلام کو پایا تاہم انکاری رہے واللہ یعنی ہم (اللہ) کو اپنی ذات ستودہ صفات کی قسم ہے ہم نے تجھ سے پہلے کئی ایک قوموں کی طرف رسول بھیجے کہ لوگوں کو راہ راست پر لائیں اور بھولے ہوئے بندوں کو مالک کے دروازہ پر لا جھکائیں مگر پھر بھی شیطاننے ان کے بداعمال جو وہ رسولوں کے آنے سے پہلے کرتے تھے وہی ان کی نظروں میں اچھے کر دکھائے یہ نہ سمجھو کہ شیطان اللہ کی تدبیر اور خواہش پر غالب آگیا کہ اللہ نے تو ان کی ہدایت چاہی مگر شیطان نے ان کو گمراہ ہی رکھا ایسا نہیں اللہ کا چاہنا کئی طرح سے ہے اختیاری اور قہری۔ قہری یعنی جس کام کے متعلق اس کا یہ ارادہ ہو کہ ہونا ہی چاہئے وہ تو ضرور ہو کر رہے گا مجال نہیں کہ اس میں تخلف ہو اور جو کام اختیاری اور بندوں کے اختیار پر چھوڑے ایسے کاموں کو بندے اگر کریں تو اجر پاتے ہیں اور اگر نہ کریں تو مستوجب سزا ہوتے ہیں جیسے قتل و غارت‘ چوری‘ زنا‘ جھوٹ وغیرہ بدکاری کرنے سے اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے لیکن ایسا منع نہیں جیسا افعال قہریہ پر منع ہوتا ہے بلکہ اختیاری طور سے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اکثر ایسے افعال شنیعہ لوگ کر رہے ہیں ٹھیک اسی طرح شیطان نے ان پر غلبہ پایا تھا پس وہی اس دن یعنی قیامت کے روز ان کا قریبی ہوگا اور ان کو دکھ کی مار ہوگی ہم نے تجھ پر یہ کتاب اس لئے اتاری ہے کہ مذہبی امور میں تو لوگوں کے اختلافی امور کا بیان واضح طور سے کر دے یعنی دنیا کی قومیں جو نجات کے مسئلہ میں باہمی مختلف ہیں ان کو ایک سیدھی شاہ راہ پر لا اور بتلا دے کہ بغیر لا الہ الا اللہ یعنی سچی توحید اور نیک اعمال کے نجات نہ ہوگی نہ کوئی کسی کا کفارہ ہوگا نہ بغیر مواخذہ کوئی چھوٹ سکے گا اور یہ کتاب ایمانداروں کے لئے جو اس کی ہدائت کے مطابق نیک اخلاق و نیک اعمال کرتے ہیں رحمت اور ہدایت ہے اس کتاب کے نزول سے اہل عرب حیران کیوں ہوتے ہیں اور تعجب کیوں کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بادلوں سے پانی اتارتا ہے پھر اس سے زمین کو بعد خشک ہوجانے کے تازہ کردیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کا تقاضا ہے کہ جب روحانیت لوگوں میں کمزور ہوجاتی ہے تو اس کے تازہ کرنے کو اللہ کسی اپنے کامل بندے کو پیدا کردیتا ہے پھر جس درجے کمزور ہوتی ہے اسی درجہ وہ مامور بندہ قوت پا کر آتا ہے اس زمانہ (نزول قرآن کے وقت) چونکہ حد سے زیادہ خشکی اور کمزوری ہو رہی ہے ایسی کہ جن لوگوں میں پہلے الہام کی تازگی تھی وہ خود ہی نیم مردہ بلکہ مردم پرستی اور تثلیثی ایمان سے بالکل مردہ ہوچکے ہیں اس لئے تیرے جیسا شاہ زور رسول بلکہ سید الرسل علیہم السلام کا اور قرآن جیسی پاک کتاب کا جو تمام مذاہب کے بیہودہ خیالات کی اصلاح پر شامل ہے اس کام کے لئے آنا ضروری تھا جو لوگ دل کے کان لگا کر سنتے ہیں ان کے لئے اس مذکور میں دلیل مل جاتی ہے کہ وہ ظاہری نظام عالم پر غور کر کے نصیحت پا جاتے ہیں اور سنو ! اگر تم نصیحت چاہو تو ہر چیز سے تم کو نصیحت مل سکتی ہے۔ النحل
52 النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 النحل
57 النحل
58 النحل
59 النحل
60 النحل
61 النحل
62 النحل
63 النحل
64 النحل
65 النحل
66 (66۔77) دیکھو چارپائوں میں تمہارے لئے کیسی نصیحت ہے کہ ہم ان کے پیٹ کی چیزوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جس کو پینے والے نہایت آسانی سے پی جاتے ہیں کسی طرح کی تکلیف یا بدمزگی نہیں ہوتی اور کھجوروں اور انگوروں سے تم شراب بناتے ہو گو اس کے بنانے پر اللہ راضی نہیں۔ خصوصاً اس کے پینے کی تو تم کو کسی حال میں بھی اجازت نہیں تاہم اس میں تو شک نہیں کہ یہ بھی اسی کی دی ہوئی نعمت ہے جس کو تم لوگ بگاڑ کر اس کی مرضی کے خلاف برتتے ہو اور اس کے علاوہ عمدہ قسم کی غذا بنا کر بھی اسے کھاتے ہو جو لوگ عقل رکھتے ہیں نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں ایک بہت بڑی ہدایت کی دلیل ہے قدرت کا ایک نظام اور سنو ! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو الہام کیا ہوا ہے یعنی اس کی فطرت میں ڈال رکھا ہے کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگوں کے مکانوں کی چھتوں پر رہنے کو گھر بنا لیا کر۔ پھر تجھے اجازت ہے کہ ہر قسم کے پھلوں سے اپنا حصہ کھایا کر اور اپنے پروردگار کے راستوں پر جو تیرے لئے ایسے آسان کئے گئے ہیں کہ نہ کوئی پہاڑ تجھے روک سکتا ہے نہ سمندر پس ان راستوں پر بلا مزاحم چلا کر چنانچہ وہ اس پر عمل کرتی ہے تو اس کے پیٹ سے پینے کے قابل شہد نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں کوئی نہایت سرخ کوئی نہایت سفید اس میں لوگوں کی کئی ایک بیماریوں کے لئے شفا ہے کچھ شک نہیں کہ فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس مذکور میں بہت بڑی ہدایت کی دلیل ہے اور سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے پھر وہی تم کو فوت کرتا ہے بعض تم میں سے نکمی عمر یعنی انتہا بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں ایسے کہ جاننے کے بعد کچھ نہیں جانتے ایک زمانہ ان پر وہ ہوتا ہے کہ قسم قسم کے علوم اور باریک سے باریک مسائل ان کو نوک زبان ہوتے ہیں پھر ایک وقت وہ ہوتا ہے کہ ادھر سے سنی ادھر بھولے حالانکہ وہی ان کا دماغ وہی ان کی روح بلکہ اس سے بھی عمدہ ان کی غذا ہو تو بھی یہ حالت ہوجاتی ہے تو بتلائو کیوں ہوتی ہے اسی لئے کہ وہ مخلوق ہے جس کو دائم بقا نہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی دائم علم والا بڑا صاحب قدرت ہے اور سنو ! اللہ ہی نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے ایک آقا ہے تو دوسرا نوکر ہے ایک مالک ہے تو دوسرا غلام ہے پھر جن کو برتری ملی ہے وہ اپنے غلاموں کو اپنا مال دے کر اختیار میں ان سے برابر نہیں ہوجاتے جب مخلوق کا یہ حال ہے کہ ماتحت کو اپنے مساوی دیکھنا اس کی غیرت تقاضا نہیں کرتی تو کیا پھر اللہ کے بندوں کو اس کے مساوی اختیار جان کر اس کی نعمت کی جو اس نے مخلوق کے کل اختاغرات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور کسی مخلوق کے سپرد نہیں کئے ہیں کہ بات بات پر بگڑ کر ان کو تنگ کرتا بے قدری کرتے ہیں بجائے شکر کے ناشکر ہوتے ہیں کہ اس کے بندوں سے وہ حاجات مانگتے ہیں جو اس سے مانگنی چاہئے تھیں اور سنو ! اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تم کو پاکیزہ اور لذیذ طعاموں سے رزق دیا پھر جو لوگ ایسے مالک الملک سب کچھ دینے والے کو چھوڑ کر اس کے عاجز بندوں کی طرف جھکتے ہیں تو کیا بے ثبوت بات کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں ان کی جہالت صرف یہی تو نہیں اور سنو ! اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کو ان کے لئے اوپر سے بذریعہ بارش اور زمین سے بذریعہ پیدائش رزق دینے کی کچھ ہی قدرت نہیں اور نہ ہی قدرت پا سکتے ہیں یعنی ممکن نہیں اور دائرہ امکان سے خارج ہے کہ مخلوق کو خالق کے سے اختیارات حاصل ہوجائیں پس تم اللہ کے حق میں تمثیلات نہ گھڑا کرو کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں نے اپنا کاروبار اپنے ماتحتوں میں بانٹا ہوتا ہے اسی طرح اللہ نے بھی اپنے بندوں کو تھوڑا تھوڑا سا اختیار دنیا کے انتظام کا دے رکھا ہے حقتاً ائ یہ خیال کرنا اللہ کی عدم معرفت پر مبنی ہے اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق جو کچھ تمہیں بتلایا جاوے وہی خیال رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم ہے اور تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں پھر اس جہالت سے اللہ کی جہالت اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق کچھ غلط خیال جما بیٹو گے تو اس کا وبال اٹھائو گے۔ اگر ٹھیک اور سچی مثال سننا چاہو تو سنو ! اللہ خود تمہارے سمجھانے کو ایک غلام مملوک کی مثال بتلاتا ہے جس کو کسی امر پر قدرت نہیں اور ایک ایسا ہے جس کو ہم (اللہ) نے محض اپنے فضل سے عمدہ بافراغت روزی دے رکھی ہے پس وہ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے کیا یہ دونوں قسم (غلام اور باختیارمالک) حیثیت میں برابر ہیں؟ کبھی نہیں پس یقینا جانو کہ سب تعریفیں اللہ ہی سے مخصوص ہیں اس کے سوا اس کی مخلوق میں سے کسی کو نیک و بد کا اختیار نہیں ہے اصل بات یہ ہے لیکن بہت سے لوگ جہالت کرتے ہیں سمجھتے نہیں بلکہ سمجھانے والوں سے بگڑ بیٹھتے ہیں اور سنو ! جس طرح یہ مثال اللہ کی کمال قدرت اور بندوں کی کمال عجز کی تم نے سنی ہے اسی طرح اللہ تمہارے سمجھانے کو اور نیک و بد کی تمیز بتانے کو دو آدمیوں کی تمثل سناتا ہے ایک تو ان میں سے گونگا ہے کسی بات کے انجام دینے کی اسے قدرت نہیں اور وہ ایسا نالایق ہے کہ اپنے مالک کے حق میں بار خاطر ہو رہا ہے جہاں کہیں بھی اسے بھیجتا ہے خیر اور فائدے سے واپس نہیں آتا تو کیا یہ نالائق اور جو شخص لوگوں کو عدل و انصاف کی راہ بتلاتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر ہے یعنی اپنے کہے پر کاربند ہے یہ دونوں عزت اور شرف میں برابر ہیں؟ پس یہ مثال اللہ کے نیک بندوں موحدوں کی اور بدکار مشرکوں فاسق فجار کی ہے لیکن جس طرح ان دونوں کی قدر و منزلت مالک کے نزدیک یکساں نہیں اسی طرح اللہ کے نزدیک نیک اور بد بندوں کی ایک سی عزت نہیں مگر دنیا کے لوگ تو صرف ظاہر بین ہوتے ہیں جس کی ظاہری سج سجاوٹ دیکھتے ہیں اسی کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تو پوشیدہ اسرار اور دلی اخلاص پر مطلع ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کی چھپی ہوئی باتیں سب اللہ ہی کے قبضے میں ہیں وہی ان کو جانتا ہے جس قدر مخلوق کو وہ بتلاتا ہے اسی قدر وہ جان سکتے ہیں اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں قیامت یعنی حشر اجساد جس کا تصور کرنے ہی سے یہ لوگ گھبراتے اور سٹپٹاتے ہیں اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ صرف ایک آنکھ کی جھمک جیس ہے بلکہ اس سے بھی کم تر کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے جو کام کرنا چاہے کوئی امر اسے مانع نہیں ہوسکتا النحل
67 النحل
68 النحل
69 النحل
70 النحل
71 النحل
72 النحل
73 النحل
74 النحل
75 النحل
76 النحل
77 النحل
78 (78۔89) اس کی قدرت کا ایک کرشمہ اور سنو ! اللہ ہی نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے ایسے حال میں نکالا ہے کہ تم اس حال میں کچھ نہ جانتے تھے اور اسی نے تم میں کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم ان ذرائع سے اللہ کی نعمتوں کو پائو اور شکر کرو کیا یہ نالائق نظام عالم پر غور نہیں کرتے اور پرندوں کو آسمانوں کی فضا میں گھرے ہوئے نہیں دیکھتے جو اس نتیجہ پر پہنچیں کہ بغیر اللہ کے اس طرح ان کو کوئی نہیں روک سکتا کچھ شک نہیں کہ ایمانداروں کے لئے اس مذکور میں کئی ایک نشان مل سکتے ہیں وہ اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی محبوب ہے اس پردۂ زنگاری میں اور سنو ! تمہارے گھروں کو آرام کی جگہ بنایا کیونکہ اس کے پیدا کردہ اسباب سے بناتے ہو بلکہ غور کرو تو ڈھب بھی تم کو اسی نے سکھایا ہے جب کہ تمہاری پیدائش بے علمی کی حالت میں ہوتی ہے تو آخر یہ علم تم کو یا تمہارے بڑوں کو کہاں سے آیا اور چارپائوں کے چمڑوں سے تمہارے لئے ایسے گھر یعنی خیمے بنائے ہیں جو سفر میں کوچ اور اقامت کے وقت تم کو ہلکے معلوم ہوتے ہیں اور تم نہایت آسانی سے ان کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرلے جاتے ہو اور چار پائوں کی اون اور روئوں اور لمبے لمبے بالوں سے تمہارے لئے بہت سے سامان اور بذریعہ تجارت ایک وقت یعنی دنیا کی انتہا تک تمہارے گذارہ کی صورت بنا دی ہے اور سنو ! اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی مخلوق سے سایہ دار چیزیں بنائی ہیں جن کے سایہ کے تلے تم بوقت ضرورت آرام پاتے ہو اور اسی نے تمہارے لئے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ یعنی غاریں بنائی ہیں اور اسی نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تم کو گرمی اور سردی کی تکلیف سے بچاتا ہے اور ایک دوسری قسم کا لباس یعنی لوہے کی زرہیں اور خود وغیرہ جو تم کو لڑائی میں ضربات سے محفوظ رکھتا ہے جیسے یہ ظاہری انعام و اکرام تم پر اسی نے کئے ہوئے ہیں اسی طرح باطنی طور پر بھی وہ اپنی باطنی نعمت تم پر پوری کرے گا کہ تم اس کے پورے پورے فرمانبردار بنے رہو یہ تعیمز اور احسان اللہ تعالیٰ کا ذکر انکو صاف صاف اور کھلے لفظوں میں سنا دے پھر اگر وہ اس سے منہ پھیریں تو تیرا کوئی حرج نہیں کیونکہ تیرے ذمہ صرف واضح کر کے پہنچا دینا ہے اور بس یہ تو ایسے نالائق ہیں کہ اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اقرار بھی کرتے ہیں پھر باوجود اقرار کے انکار کر جاتے ہیں یعنی انہی نعمتوں کو غیر اللہ کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور اکثر تو ان میں صریح کافر ہیں ایسے کہ اپنے کفر اور انکار کا خم ٹھوک کر اقرار کرتے ہیں اس انکار کا وبال اس دنیا میں بھی اٹھائیں گے اور جس دن ہم ہر ایک جماعت سے ایک ایک گواہ یعنی اس امت کا نبی اور ہر زمانہ اور شہر یا محلے کے علما و صلحاء جو لوگوں کا حال بچشم خود ملاحظہ کرتے ہوں گے قائم کریں گے پھر کافروں کو معذرت کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور نہ ان کی تکلیف رفع کی جائے گی مختصر یہ کہ ان میں حق حق فیصلہ کیا جاوے گا اور ظالم جب عذاب کو سامنے دیکھیں گے تو سخت گھبرائیں گے مگر ان کی گھبراہٹ سے ان کے عذاب میں تخفیف نہ ہوگی اور نہ ان کو مہلت ملے گی بلکہ فوراً پکڑے جاویں گے اور مشرک جب اپنے مصنوعی شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے مولا ! یہ ہمارے بنائے ہوئے شریک ہیں جن کو ہم حاجت براری کے لئے تیرے سوا پکارا کرتے تھے جو کچھ تجھ سے مانگنا چاہئے تھا ان سے ہم مانگتے تھے کہ تیری الوہیت کے بھی قائل تھے مگر ان کو بھی حاجت روا جانتے تھے ان کے نام کی دہائی دیتے تھے ان کے نام پر خیرات کرتے تھے اپنی اولاد کو ان سے منسوب کرتے تھے گویا انہوں نے دی تھی جیسے پیراں دتا۔ دیوی دتا وغیرہ غرض یہ کہ معمولی روز مرہ کی حاجتیں ہم انہی سے طلب کرتے تھے تو وہ لوگ جن کی طرف مشرک اشارہ کریں گے چونکہ ان بزرگوں نے ان مشرکوں کو یہ تعلیم نہیں کی ہوئی فوراً ان کو جواب دیں گے کہ کچھ شک نہیں تم اس امر میں سراسر جھوٹے تھے کیوں مخلوق کو خالق سے برابر کرتے تھے مشرک یہ معقول جواب سن کر فوراً اللہ کے آگے اس دن اظہار اخلاص کریں گے کہ ہم تو تیرے ہی بندے ہیں تو جو چاہے ہم سے کہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں جس سے ہم فریاد کریں اور جو کچھ دنیا میں بہتان باندھتے تھے وہ ان کو سب بھول جائیں گے پس نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکا ہوگا جیسے آج کل ہمارے زمانہ کے پادری اور پنڈت ان کے فساد اور بدکاریوں کی وجہ سے ہم ان کو عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے پس تو ان کو یہ خبر سنا اور اس روز کے واقعات بھی سنا جس روز ہم ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک گواہ ان کے حالات ظاہر کرنے کے لئے کھڑا کریں گے اور تجھ کو بھی ان مشرکوں پر گواہ بنا کر لاویں گے جس قسم کی گواہی تو ان کے حق میں دے گا وہ معتبر ہوگی کیونکہ تو اللہ کا رسول ہے اور ہم (اللہ) نے تجھ پر اپنی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر ضروری چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے کیونکہ جو کوئی اس کی ہدایتوں پر عمل کرے گا وہ مسلمان ہوگا وہی فلاح پاوے گا اور جو اس سے انکار کرے گا اپنا ہی کچھ کھوئے گا۔ النحل
79 النحل
80 النحل
81 النحل
82 النحل
83 النحل
84 النحل
85 النحل
86 النحل
87 النحل
88 النحل
89 النحل
90 (90۔111) اللہ تم کو ہر ایک امر میں انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اپنا معاملہ ہو یا بیگانہ۔ اللہ کی نسبت کوئی خیال یا عقیدہ ہو یا مخلوق کے ساتھ کاروبار غرض ہر ایک امر میں عدل کرو عدل کے معنے بھی سن لو کہ وضع الشی فی محلہ یعنی ہر ایک شئے کو اصلی ٹھکانے پر رکھنے کا نام عدل ہے جو کچھ کسی کے حق حقوق میں ان کو پورا پورا ادا کرنا عدل ہے پس وہ عدل کا اور ہر ایک کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیتا ہے اور قرابت داروں کو حسب مقدور دینے کا یعنی اگر کسی کے قریبی رشتہ دار تنگ ہوں اور وہ آسودہ ہو تو ان سے حسب حیثیت سلوک کرے اور بے حیائی یعنی زنا اور متعلقات زنا اور ناجائز حرکات سے اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے اس امر کا تم کو ایسی نیک باتیں سنا کر نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور اگر صاف لفظوں میں سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ کے نام سے جب تم عہد و پیمان کرو تو پورے کیا کرو اور قسموں کو کسی حال میں خصوصاً بعد تاکید مزید کرنے کے تو بالکل نہ توڑا کرو کیسی شرم کی بات ہے کہ مضبوط عہد باندھ کر بھی توڑ دیتے ہو حالانکہ اللہ کو تم نے اپنا ضامن ٹھہرایا ہوتا ہے کہ ہم ہرگز ہرگز اس کے خلاف نہ کریں گے اس عہد شکنی میں گو تم تو ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہو گے اور ہر ایک اپنے آپکو اس الزام سے بری کرتا ہے مگر اللہ کے نزدیک کوئی امر مخفی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے اس سے کوئی امر پوشیدہ نہیں پس اس امر کا لحاظ رکھو اور اس دیوانی عورت کی طرح نہ بنو جو بڑی محنت سے تمام دن سوت کات کر شام کو کا تے پیچھے اپنا سوت ٹکڑے کردیتی ہے یعنی ذرا سی بات پر مدتوں کی دوستی اور عہد و پیمان نہ بھول جایا کرو بقول ” کدو کی دوستی یکدم میں توری“ تم اس مطلب کے لئے اپنی قسموں کو آپس میں فریب بازی کا ذریعہ بناتے ہو اس لئے کہ کوئی قوم دوسروں سے مال و دولت میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو تم اس سے عہد و پیمان کر کے ان کے حلیف بن جاتے ہو اور جب گردش زمانہ سے ان کے عروج میں فرق آجاتا ہے تو جھٹ سے تم دوسروں سے خواہ ان کے دشمن ہی ہوں دوستی کے عہد و پیمان کرلیتے ہو سنو ! اور دل لگا کر سنو ! اللہ تم کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ اپنے معاہدوں کو پورا کرو اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو قیامت کے دن تم کو بتلا دے گا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان کی اس جہالت سے مضطرب نہ ہو اور سن کہ اگر اللہ چاہتا تو تم سب لوگوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا کیا ممکن تھا کہ اس کے چاہے کو کوئی روک سکتا لیکن وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے مگر اس کا چاہنا ظالمانہ نہیں بلکہ اس کا چاہنا اس کے قانون کا نام ہے پس جو لوگ اس کے انتظام اور قانون فطرت کے مطابق نیک راہ کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو ہدایت میسر ہوجاتی ہے اور جو بدراہی پر جاتے ہیں۔ ان کو گمراہی نصیب ہوتی ہے چنانچہ پہلے بھی کئی دفعہ بتلایا جا چکا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے تم کو سوال ہوگا کہ کیوں ایسا کام کیا پس بہتر ہے کہ تم بدکاریوں کو ابھی سے چھوڑ دو اور اپنی قسموں کو آپس میں فریب کرنے کا بہانہ نہ بنایا کرو ورنہ مضبوط ہونے کے بعد قدم اکھڑ جائیں گے یعنی جن لوگوں سے تم نے عہد مضبوط کیا ہوگا جب وہ تمہاری اس قسم کی بددیانتی سنیں گے تو وہ بھی پھسل جائیں گے اور بوجہ اس کے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا تم کو دنیا ہی میں تکلیف پہنچے گی کہ تمہارا کوئی حمائتی نہ رہے گا اور آخرت میں بھی تم کو بڑا عذاب ہوگا۔ یعنی تم جو مسلمان ہو کر کوئی برا کام بددیانتی یا شرارت کا کر گذرو گے تو جن لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیم اور مسلمانوں کے ذاتی افعال میں تمیز نہیں تمہارے برے کاموں کو دین ہی سمجھیں گے اور ایسی بدعہدی کی وجہ سے اسلام سے نفرت کر جائیں گے اس کا وبال بھی تم پر ہوگا پس تم ایسے کاموں سے جن سے عوام میں اسلام سے نفرت پھیلے یا پھیلنے کا احتمال ہو پرہیز کیا کرو اور دنیا کے تھوڑے سے مال کے بدلے اللہ کے نام سے وعدہ کیا ہوا نہ بدلا کرو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس تمہارا نیک اجر ہے وہ سب سے بہتر اور اچھا ہے ( راقم کہتا ہے ایام محرم میں تعزیہ بنانا بھی اسی قسم سے ہے کفار کے ذہن نشین ہو رہا ہے کہ اسلام کی تعلیم ایسی ہی ہے جس کا یہ نمونہ ہے۔ تعزیوں کو تو ایسی شان و شوکت سے لے جانا کہ باجے گاجے آتشبازی روشنی وغیرہ کے سب سامان موجود ہیں ذوالجناح (دلدل) امام حسین (علیہ السلام) کے آگے آگے ایسی طرز اور انداز سے رونا اور اپنے آپ کو زنجیروں اور مہلک چیزوں سے مارنا کہ اللہ کی پناہ ہر ایک شخص ان حرکات سے یہ سمجھتا ہے کہ اسلام یہی ہے تو ایسے اسلام میں داخل ہو کر کیا فائدہ۔ اسی لئے جن علماء نے اس نکتہ کو سمجھا ہے ان کو چین نہیں آتی جب تک وہ تعزیہ کا ردنہ کرلیں اللہ رحم کرے اس شخص پر جو ایسے مفاسد کی بیخ کنی میں کوشش کرے یا مخالفت کرنے والوں کی امداد کرے۔ راقم کہتا ہے کہ آج کل کے بادشاہ خصوصاً مہذب یورپ کی متمدن سلطنتیں اس قسم کا نمونہ ہیں۔) اگر تم کو کچھ علم ہے تو اس پر غور کرو کیونکہ جو کچھ تمہارے پاس حلال یا حرام ہے وہ تو ضائع ہونے کو ہے اور جو نیک کاموں کا بدلہ اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے کبھی فنا نہ ہوگا پس فانی کے پیچھے پڑ کر باقی کو ترک کردینا کیا عقل کی بات ہے پس تم عقل سے کام لو اور دل سے جان رکھو کہ ہم ثابت قدمی سے صبر کرنے والوں کو ان کے کاموں کا بہت اچھا بدلہ دیں گے کیونکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی ایماندار ہو کر نیک عمل کرے محض دنیاوی لحاظ و ملاحظہ سے نہیں بلکہ خالص ایمانداری سے نیک عمل کرے پھر خواہ وہ مرد ہو یا عورت کسی قوم کا ہو تو ہم ان کو پاکیزہ زندگی دیں گے جس میں وہ کسی کدورت سے مکدر اور کسی تکلیف اور بلا میں مبتلا نہ ہوں گے غرض بہمہ وجوہ عافیت سے رہیں گے اور ہم ان کو محض اپنے فضل سے ان کے کاموں سے بھی اچھا بدلہ دیں گے باوجود اس انعام اور اکرام کے دنیا کے لوگ جو اس طرف نہیں جھکتے ظاہری سبب اس کا تو یہ ہے کہ کم عقل لوگ غائب از آنکھ کی قدر نہیں کرتے مگر باطنی وجہ اس کی یہ ہے کہ شیطان کا ان لوگوں پر غلبہ ہے جب تک اس کا دفعیہ نہ ہو اصلاح مشکل ہے اس کے دفعیہ کی ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب برا خیال آئے تو اعوذ باللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے پس تو بھی جب قرآن پڑھنا چاہے تو شیطان مردود کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ لیا کر کیونکہ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ اور توکل کرتے ہیں ان پر اس کا کسی طرح سے زور نہیں چل سکتا اس کا زور تو بس انہی لوگوں پر ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس کی تعلیم کے سبب سے شرک کرتے ہیں شیطانی غلبہ کے کئی ایک آثار ہیں۔ جہالت سے اہل حق کے ساتھ مباحثہ کرنا سچی تعلیم پا کر عناد سے اس کا مقابلہ کرنا چنانچہ یہ لوگ کرتے ہیں کیسی جہالت کی بات ہے کہ بغیر کسی دلیل کے قرآن کا مقابلہ کرتے ہیں اور جب ہم کوئی حکم کسی حکم کے قائم مقام نازل کرتے ہیں یعنی جس حکم کی برداشت لوگ بوجہ موانع نہ کرسکتے ہوں تو اس کا عارضی قائم مقام ان کو بتلا دیا جاتا ہے جیسے بیماری کی وجہ سے وضو نہ کرنے والوں کو تیمم کا حکم دیا جاتا ہے اور اللہ جو کچھ نازل کرتا ہے اسے تو خوب معلوم ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے اور بندوں کی حاجتیں بھی اسے معلوم ہیں انہی کے مطابق وہ حکم بھیجتا ہے مگر یہ لوگ نادانی یا عناد سے کہنے لگتے ہیں کہ بس تو مفتری ہے من گھڑت جو چاہتا ہے کہہ دیتا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سے ان میں سے اسرار شریعت اور رموز طریقت کو جانتے نہیں تو ان سے کہہ اس قرآن کو تو جبرائلن جیسے شاہ زور اور پاک باطن فرشتے نے اللہ کے حکم سے سچی تعلیم کے ساتھ بھرپور اتارا ہے تاکہ ایمانداروں کو ایمان پر ثابت قدم کرے اور مسلمانوں کے لئے جو اس کی تعلیم پر عمل کریں ہدایت اور بشارت ہے ہم (اللہ) جانتے ہیں جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول کو ایک آدمی قرآن سکھاتا ہے جھک مارتے ہیں اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جس شخص کی نسبت ان کو بدگمانی ہے اس کی زبان تو عجمی ہے اور عربی اسے صاف آتی نہیں اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان ہے اصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکموں پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اپنی ہوائو ہوس کے تابع ہو رہتے ہیں اللہ بھی ان کو کسی نیک کام کی ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے دکھ کی مار ہے کفار تجھے مفتری کہتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ جھوٹ کا افترا تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ کے حکموں پر ایمان نہیں رکھتے لیکن جن کو اللہ مالک الملک پر ایمان ہے ان سے کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ پر افترا کریں کیونکہ ان کا ایمان ان کو اس جرأت کی اجازت نہیں دیتا لیکن جو بے ایمان ہیں اللہ پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ محض اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں وہی اللہ پر افترا کرتے ہیں اور وہی جھوٹے ہیں پس یاد رکھو جو لوگ ایمان کی بات پہنچنے سے پیچھے اللہ کے حکموں سے جی کھول کر کفر کریں گے ان پر اللہ کا غضب ہے۔ ( اس آیت نے بین طور پر فیصلہ کردیا ہے کہ جس شخص کی اخبار غیبیہ جھوٹی ہوں یعنی ان کی پیشگوئیاں غلط نکلیں تو سمجھا جائے گا کہ اسے اللہ پر ایمان نہیں اس لئے ہم مرزا صاحب قادیانی کی پیشگوئیوں کی پڑتال چاہتے ہیں چنانچہ اس موضوع پر ہمارا ایک رسالہ موسوم بہ ” الہامات مرزا“ بھی ہے غرض یہ ہے کہ ہمارے ناظرین اس آیت کے حکم کے مطابق مرزا کے بارے میں صرف اس کی پیشگوئیوں کی پڑتال کیا کریں۔ مگر ہمارا رسالہ ” الہامات مرزا“ پیش نظر رکھ کر دیگر جزئیات سے فیصلہ نہ ہوگا فیصلہ صرف اسی پہلو سے ہوگا اگر اس کی پیشگوئیاں صادق ہوں تو وہ بھی صادق مصدوق اگر کاذب تو وہ بھی علیٰ ہذا یہ اصول آیت قرآنی کے ثبوت کے علاوہ خود اسے بھی مسلم ہے دیکھو ازالہ ص ٥٥٣۔ ١٢ منہ ایک رومی عیسائی غلام کی طرف بدگمانی کر کے کہتے تھے کہ یہ غلام حضرت کو سکھاتا ہے۔ ١٢) اور نیز ان کو بہت بڑا عذاب ہوگا ہاں جو کسی زبردست طاقتور کے ہاتھ سے کفر بکنے پر مجبور کیا جائے مگر دل اس کا ایمان پر مضبوط ہو اس میں بالکل کفر کی ہوا نہ پہنچی ہو تو اس شخص سے مواخذہ نہ ہوگا لیکن جو دانستہ اپنے اختیار سے جی کھول کر کفر اختیار کریں انہی پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کو دکھ کی مار ہوگی۔ یہ عذاب اس لئے ہوگا کہ دنیا کو آخرت سے زیادہ پسند کرتے ہیں اگر زیادہ پسند نہ کرتے ہوتے اور اللہ کا خوف ان کے دل میں ہوتا تو کیوں ایسی بے ہودہ گوئی اور لغو حرکات کے مرتکب ہوتے کیوں صرف چند روپے ماہوار کی تنخواہ پر اسلام کو خیرباد کہتے جیسے آج کل کے مرتد آریہ اور پادری اور یہ اس لئے عذاب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایسی کافروں کی قوم کو ہدائت نہیں کیا کرتا جو لوگ دانستہ اللہ کے حکموں سے بے پروائی اور استغنا کرتے ہیں اللہ بھی ان سے مستغنی ہوجاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہی لوگوں کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر اللہ نے مہر کردی ہے ان کے ان ذرائع کو خیر سے بالکل مسدود کردیا ہے اور یہی لوگ آخرت کی بھلائی سے غافل ہیں کچھ شک نہیں یہی لوگ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں اور جن لوگوں نے کافروں سے دکھ اٹھانے کے بعد اپنے وطن چھوڑے اور اللہ کی راہ میں بوقت مناسب جہاد کئے اور تکلیفوں پر بڑی متانت سے صبر کرتے رہے کچھ شک نہیں کہ تیرا پروردگار ایسے واقعات کے بعد ان کو بالکل معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے کس روز بخشے گا؟ جس روز ہر ذی نفس کو اپنے ہی لالے پڑے ہوں گے اپنے ہی لئے جھگڑے گا دوسرے کی اسے کوئی فکر نہ ہوگی اور جو کچھ کسی نے کمایا ہوگا اس کو پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اور کسی طرح سے ان پر ظلم نہ ہوگا کہ ان کے نیک کاموں کو کم کیا جاوے اور بدیوں کو زیادہ ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی شان اور الوہیت کے خلاف ہے النحل
91 النحل
92 النحل
93 النحل
94 النحل
95 النحل
96 النحل
97 النحل
98 النحل
99 النحل
100 النحل
101 النحل
102 النحل
103 النحل
104 النحل
105 النحل
106 النحل
107 النحل
108 النحل
109 النحل
110 النحل
111 النحل
112 (112۔119) اور سنو ! اللہ ایک شہر یعنی مکہ شریف کا حال لوگوں کی ہدائت کے لئے بطور مثال بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ اللہ کے احسانوں اور انعاموں پر شکر نہ کرنے سے کیا کیا تباہیاں آیا کرتی ہیں وہ شہر یعنی مکہ تم کو معلوم ہے کیسا امن چین میں گذر اوقات کر رہا تھا کہ ہر ایک دور دراز مقام سے اس کو رزق پہنچتا تھا پھر جب اس شہر والوں نے اللہ کی نعمتوں کی بے قدری کی اور بجائے شکر ان کے کفران کرنے لگے تو اللہ نے ان کے برے اعمال پر ان کو بھوک اور خوف اعدا کا مزہ چکھایا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری تو کرتے ہی تھے اللہ کے احکام پہنچانے والے سے بھی بگڑ بیٹھے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ شریف سے ہجرت کر گئے تو مکہ والوں پر بلائوں اور آفتوں کی ایسی بھرمار ہوئی کہ الامان۔ ان کی بری حالت کا ذکر بطور تمثیل اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ١٢) اور جب اللہ کی طرف سے انہیں کی برادری اور قوم میں سے ایک رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس خاص انہیں کی ہدایت کو آیا تو بجائے تسلیم اور اطاعت کرنے کے انہوں نے اسے بھی جھٹلایا لگے بیہودہ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے پھر تو کیا تھا آخر ایک مدت بعد جو اللہ کے نزدیک ان کو مہلت دینے کے لیے مقرر تھی عذاب الٰہی نے ایسے حال میں انکو آ پکڑا کہ وہ انہی بدکاریوں کی وجہ سے ظالم تھے آخر بکری کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن تو قانونی شکنجہ میں انہوں نے پھنسنا ہی تھا پس اس قصے سے تم سب حاضرین اور سامعین عبرت پائو اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اس میں سے خوب مزے سے کھائو اور اللہ کی دی ہوئی نعمت کا شکریہ کرتے رہو اگر تم اسی کے پرستار ہو تو یہی کام کرو اور بس اپنی اپنی ایجاد اور خیال سے نئی نئی چیزیں حرام نہ کرلیا کرو بلکہ جس چیز کی اس نے اجازت دی ہو اسے کھالیا کرو اور جو حرام کی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اس اللہ نے تم پر صرف خود مردہ مردار اور ذبح کے وقت بہتا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ان کے علاوہ جو چیز اللہ کے سواکسی کے نام پر نامزد کی جائے۔ بکری ہو تو۔ روٹی ہو تو۔ جاندار ہو تو۔ بے جان ہو تو۔ غرض کسی مخلوق کو قبول کر کے نفع دینے اور نقصان سے بچانے والا جان کر کوئی چیز اس کے نام نذر کی جائے وہ حرام ہے کیونکہ یہ بنیاد شرک ہے پھر جو بھی جو شخص بھوک کی وجہ سے مجبور ہو اور اسے حلال چیز کھانے کو نہ ملے لیکن ایسے حال میں کہ اللہ کے حکموں سے سرکش اور زیادہ کھا کر حد سے متجاوز نہ ہو اور بقدر سدرمق کھا لے تو اسے گناہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اس کی بخشش دو طرح سے ہے کبھی تو گناہ کے ظہور پذیر ہونے پر معافی سے کبھی کسی فعل پر سرے سے گناہ کا وصف سلب کردینے سے اس صورت میں یہ آخری شق ہے کہ اللہ نے اس فعل کو جو اور وقتوں میں گناہ تھا مجبوری کے وقت میں گناہ قرار نہیں دیا پس تم اللہ ہی کے فرمانبردار بنے رہو اور بے سوچے سمجھے اپنی زبانوں کے جھوٹے بیان کی پچ سے کسی چیز کی نسبت نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام (مشرکین عرب کے پاس شریعت تو تھی نہیں مگر تاہم وہ کئی ایک چیزوں کو حلال اور کئی ایک کو قومی طریق سے حرام سمجھتے تھے اور مسلمانوں سے ان مسائل میں جھگڑا کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ ١٢ منہ) جس کا نتیجہ تمہارے حق میں یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ کے بہتان باندھنے لگو جو چیز اللہ نے حرام نہیں کی اسے حرام کیوں کہو۔ سنو ! جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا کرتے ہیں ہرگز بامراد نہ ہوں گے بلکہ ہمیشہ نامراد رہیں گے دنیا میں ان کے لئے تھوڑا سا گذارہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے دکھ والا عذاب ہے تم پر تو یہ چیزیں حرام ہیں اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کی تھیں جو پہلے ہم سورت انعام رکوع ١٨ میں بیان کر آئے ہیں وعلی الذین ھادو احر منا کل ذی ظفر الآیۃ دراصل یہ ان کی سرکشی کی سزا تھی اور ہم نے ان پر کسی طرح سے ظلم نہ کیا تھا۔ لیکن وہ خود اپنی جانوں پر بدکاریوں کی وجہ سے ظلم کرتے تھے پھر بھی باوجود ان شرارتوں کے جو لوگ غلطی سے برے کام کر کے اس سے پیچھے توبہ کرلیں اور صالح بن جائیں تو تیرا پروردگار اس توبہ کے بعد ان کے حق میں بڑا بخشنہار مہربان ہے النحل
113 النحل
114 النحل
115 النحل
116 النحل
117 النحل
118 النحل
119 النحل
120 (120۔128) تعجب ہے کہ تم عرب کے لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے تو ایسے معتقد ہو کہ ہر ایک کام میں ان کی سند پیش کرتے ہو مگر صرف زبانی جیسے ہند پنجاب اور کشمیر کے لوگ حضرت پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کی صرف زبانی تعظیم و تکریم کرتے ہیں ورنہ اگر ان کی کتاب سے ان کو کچھ بتا کر کہا جائے کہ ان کی تعلیم پر عمل کرو تو منہ بسور لیتے ہیں اسی طرح تم ہو۔ سنو ! اس میں شک نہیں کہ حضرت ابراہیم بے شک مستند آدمی تھا مگر کیوں تھا؟ اس لئے کہ وہ ایمانداروں کا پیشوا اور اللہ کا یکسو فرمانبردار بندہ تھا اور بڑی بات یہ ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کسی طرح کا شرک ہو جلی ہو یا خفی اس کے پاس تک نہ آسکتا تھا اللہ کی نعمتوں کا شکر گذار تھا اللہ ہی نے اس کو برگزیدہ کیا تھا اور سیدھی راہ دکھائی تھی اور ہم (اللہ) نے دنیا میں بھی اسے عزت اور آبرودی تھی اور آخرت میں بھی وہ نیکوکاروں میں سے ہوگا جو کچھ ہم نے اس سے برتائو کیا اس کی دیانتداری کی وجہ سے کیا اور تیری طرف بھی باوجودیکہ تو سیدالانبیاء ہے ہم (اللہ) نے یہی حکم بھیجا ہے کہ تو ابراہیم کے طریق پر چل جو اللہ کا یکسو فرمانبردار بندہ تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا مگر افسوس ہے کہ تیرے مخالف دیانتداری کے پاس بھی نہیں پھٹکتے اور بیہودہ باتیں اور سوال و جواب کر کے ناحق وقت ضائع کرتے ہیں دیکھو تو یہودی جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں کیسا احمقانہ سوال کرتے ہیں کہ تم سبت (ہفتہ) کے روز کی تعظیم کیوں نہیں کرتے حالانکہ سبت کی تعظیم اور اس میں بالکل عبادت ہی میں لگے رہنا صرف انہی لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو اس وقت اس میں مختلف ہو رہے تھے یعنی یہودی اور عیسائی۔ عیسائیوں نے بجائے ہفتہ کے اتوار بنا لیا۔ تورات سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ سبت تمام قوموں کے لئے ہے اور تیرا پروردگار قیامت کے روز ان کے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا مگر تو اپنی دھن میں لگا رہ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دانائی اور عمدہ عمدہ نصائح سے لوگوں کو بلاتا رہ اور حسب ضرورت مباحثہ کی نوبت آئے تو نہایت ہی عمدہ طریق سے جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو مخاطب کر کے بزرگوں اور معبودوں کی بے ادبی نہ ہو ان کے ساتھ مباحثہ کیا کر بے شک تیرا پروردگار ان لوگوں کو بھی جانتا ہے۔ جو اس کی راہ سے بہکے ہوئے ہیں اور وہ ہدایت والوں سے بھی خوب واقف ہے اور اگر مباحثہ میں فریق مخالف کی زیادتی کا جو دوران مباحثہ یا میدان جنگ میں ان سے سرزد ہوئی ہو بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر لیا کرو جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی مگر اس میں بھی یہ اصول مدنظر رہا کرے کہ ان کے بزرگوں اور معبودوں کی ہتک نہ ہو ورنہ پھر معاملہ بڑھ جائے گا اور اگر صبر کرو اور اصل مضمون ہی کی طرف توجہ کر کے ان کی بیہودہ گوئی کی پرواہ نہ کرو اور اصل مطلب ہی کا جواب دیتے رہو تو صبر کرنا صابروں کے حق میں سب سے بہتر ہے پس تو یہی خصلت اختیار کر اور صبر ہی کیا کر واقعی بات یہ ہے کہ جیسی تجھ کو تکلیف مخالفین کی طرف سے ہو رہی ہے ایسی تکلیف پر صبر کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور دراصل تیرا صبر بھی محض اللہ ہی کی مدد سے ہے ورنہ کسی انسان کا کام نہیں کہ ایسی مصیبت اور تکلیف میں صبر کرے یا تو وہ کام چھوڑ دے گا یا طبیعت کو بے چین کر کے بدحواس ہوجائے گا مگر تو ایسی باتوں کا خیال بھی نہ لا اور ان بےدینوں کے حال پر غم نہ کر اور نہ ان کی فریب بازیوں سے دل تنگ ہو بے شک اللہ تعالیٰ کی مدد پرہیزگاروں کے ساتھ ہے انجام کار انہی کا ہے یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے چنانچہ سب نے دیکھ لیا۔ فالحمدللہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِمُؤَلِّفِہٖ وَلِکَاتِبِہٖ وَلِمَنْ سَعی فِیْہِ بِرَحْمَتِکَ یا اللّٰہُ النحل
121 النحل
122 النحل
123 النحل
124 النحل
125 النحل
126 النحل
127 النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 اللہ تعالیٰ سب عیوب سے پاک ہے جس نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راتوں رات کعبہ شریف سے بیت المقدس تک جس کے ارد گرد ہم (اللہ) نے روحانی اور جسمانی برکتیں کر رکھی ہیں سیر کرائی تاکہ ہم یعنی اللہ اسکو اپنی قدرت کاملہ کے بعض نشان دکھائیں ایسے کہ مخالف دیکھ کر اور سن کر دنگ رہ جائیں اور عاجز آجاویں۔ بیشک وہ اللہ بڑا ہی سننے والا اور بڑا دیکھنے والا ہے ہر ایک سے وہی واقف ہے کوئی اور نہیں یہ ترقی اور مہربانی گو بہت بڑی ہے مگر ہمای مہر بانیاں مختلف انواع کی ہیں معراج کی تفصیل اور کیفیت میں جس قدر اختلاف ہے شاید ہی کسی واقعہ اور کسی مسئلہ کے متعلق ہو اختلاف کی مختصر فہرست یہ ہے (١) اسراء اور معراج ایک ہیں یا دو ہیں۔ (٢) دونوں جاگتے ہوئے ہیں یا دونوں سوتے ہیں۔ (٣) ایک جاگتے میں ہوا ایک سوتے میں (٤) بیت المقدس تک جاگتے میں ہوا اس سے آگے آسمانی سیر سوتے وغیرہ ان سب مذاہب کا بیان اور ان کے دلائل کا ذکر شروح حدیث فتح الباری وغیرہ میں ملتا ہے علیٰ ھذا القیاس اور بھی جزئی جزئی اختلاف کئی ایک ہیں مگر ہم ان میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اسراء اور معراج دو الگ الگ ہیں اور دونوں بیداری میں بجسدہ الشریف ہوئے ہیں یہ دعویٰ کوئی ہم نے ایجاد نہیں کیا بلکہ بعض متاخرین علماء بلکہ بقول ابن دحیہ امام بخاری کا بھی یہی خیال ہے (دیکھو فتح الباری چھاپہ دہلی پارہ ١٥ ص ٤٥١) بعض احادیث سے بھی اس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں آیا کہ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لما کان لیلۃ اسری بی واصبحت بمکۃ مربی عدواللہ ابوجھل فقال ھل کان من شئی قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انی اسری بی اللیلۃ الی بیت المقدس قال ثم اصبحت بین اظہرنا قال نعم الحدیث (فتح الباری بروایۃ احمد و بزار) پیغمبر اللہ نے فرمایا جس رات مجھ کو اسراء کرایا گیا یعنی میں بیت المقدس تک گیا اور صبح کے وقت مکہ میں تھا تو ابوجہل میرے پاس سے گذرا اور بطور طنز کے کہنے لگا۔ کیا آج کوئی نیا واقعہ بھی ہوا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا ہاں آج رات میں بیت المقدس تک گیا۔ اس نے کہا صبح پھر ہم میں تھا؟ آنحضرت نے فرمایا ہاں۔ (فتح الباری) عن ابی سلمۃ قال افتتن ناس کثیر یعنی عقب الاسراء فجاء ناس الی ابی بکر فذکر والہ فقال اشھد انہ صادق فقالوا او تصدقہ بانہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ قال نعم انی اصدقہ بابعد من ذلک اصدقہ بخبر السماء قال مسمی بذلک الصدیق (فتح الباری بروایۃ بیہقی پارہ ١٥ باب حدیث الاسرائ) حضرت ابو سلمہ کہتے ہیں کہ آنحضرت کے اسراء کے بعد بہت لوگ پریشان ہو کر حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور ان کے پاس یہ ذکر کیا (کہ تیرا نبی کہتا ہے کہ میں آج شب کو بیت المقدس تک گیا ہوں) حضرت ابوبکر نے کہا میں تصدیق کرتا ہوں کہ وہ سچا ہے وہ بولے میں تو اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ وہ ایک ہی شب میں ملک شام تک جا کر پھر مکہ شریف میں آگیا ابوبکر نے کہا میں اس سے بھی زیادہ دور کی بات میں اس کی تصدیق کرتا ہوں میں آسمانوں کی خبروں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں راوی نے کہا اسی لئے ابوبکر کا نام صدیق ہوا۔ ان دونوں حدیثوں میں صرف بیت المقدس تک جانے کا ذکر ہے۔ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کے سامنے اور کفار مکہ نے ابوبکر کے روبرو صرف بیت المقدس کا نام لیا اس سے زیادہ نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس رات کا یہ واقعہ ہے اس رات صرف بیت المقدس تک سیر ہوئی تھی۔ قرآن شریف میں بھی اسی لئے مسجد اقصیٰ تک آیا ہے اس سے آگے نہیں۔ حالانکہ اگر ہوتا تو موقع بیان کا یہی تھا۔ مگر نہیں ہاں احادیث صحیحہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر جانا بھی آیا ہے اسی لئے باتباع علماء متاخرین ہم نے بھی ان واقعات کو متعدد مانا ہے واضح ہو کہ اسراء سے مراد وہ سیر ہے جو مکہ شریف سے بیت المقدس تک ہوئی تھی اور معراج سے وہ سیر مراد ہے جو مکہ شریف سے فلک الافلاک تک ہوئی۔ دعویٰ اول یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسراء مکہ شریف سے بیت المقدس تک جسمانی ہوا ہے اس کا نقلی ثبوت نقلی ثبوت سے ہماری مراد قرآن و حدیث ہے۔ پہلے ہم قرآن و حدیث سے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔ قرآن شریف کی آیت صاف ہے۔ سُبْحٰاَن الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی۔ کہ اللہ پاک ہے جو اپنے بندے کو رات کے وقت مکہ شریف سے بیت المقدس تک لے گیا۔ اس آیت سے علماء نے کئی ایک طرح سے اس دعویٰ پر کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء جسدی ہوا تھا استدلال کیا ہے۔ (1) عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مرکب پر بولا جاتا ہے نہ صرف روح پر چنانچہ آیت تحدی میں ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمًّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ یہاں پر عبدنا جس ذات والاصفات کو کہا گیا ہے وہی اس آیت (اسری بعبدہ میں مراد ہے۔ (٢) دوم یہ کہ سبحان موقع تعجب پر بولا جاتا ہے۔ اگر اسراء روحانی ہو تو کیا تعجب تھا یہ تو اب بھی ہوتا ہے پس ثابت ہوا کہ اسراء جسدی ہوا ہے اور یہی محل تعجب تھا۔ (٣) تیسری دلیل اسی آیت میں اسری کا لفظ ہے جس کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ السری سیر عامۃ اللیل واسری و استری وسری بہ واسراہ وبہ واسری بعبدہ لیلا و تاکیدا ومعناہ سیرہ (قاموس لفظ سری) السری سیر اللیل یقال سری واسری قال فاسر باھلک اسری بعبدہ (مفردات راغب لفظ سری) قاموس میں ہے کہ سریٰ رات کے عام حصہ کی سیر کو کہتے ہیں۔ چونکہ رات خود اس کے معنی میں داخل ہے اس لئے اسری بعبدہ میں لیلا کی قید تاکید کے لئے ہے۔ ایسا ہی مشہور لغات قرآن ” مفردات راغب“ اصفہانی میں ہے کہ سری رات کی سیر کو کہتے ہیں اور اسری بعبدہ اسی سے ہے۔ علاوہ ان لغوی شہادتوں کے خود قرآن مجید میں یہ لفظ کئی ایک جگہ آیا ہے لطف یہ ہے کہ جہاں کہیں آیا ہے اسی محاورہ میں آیا ہے بالکل فرق نہیں ہوا مقامات ذیل بغور ملاحظہ ہوں۔ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّلْیِلِ پ ١٢ ع ١ و پ ١٤ ع ٥ ترجمہ (فارسی) پس ببرکساں خود را بپا رہ از شب (ترجمہ اردو) سولے نکل اپنے گھر والوں کو کچھ رات سے وَلَقَدْ اَوْ حَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ پ ١٦ ع ١٣ (ترجمہ فارسی) وحی فرستادیم بسوئے موسیٰ کہ وقت شب ببربندگان مرا (اردو) اور ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کو کہ لے نکل میرے بندوں کو رات سے ” وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ پ ١٩ ع ٨ (فارسی) وحی فرستادیم بسوئے موسیٰ کو بوقت شب روان کن بندگان مرا ہرا آئینہ شما تعاقب کردہ شوید (اردو) حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ رات کو لے نکل میرے بندوں کو البتہ تمہارے پیچھے لگیں گے۔ “ ان جوابات میں سے پچھلے حوالوں میں اسر بعبادی کے ساتھ لیلا کا لفظ نہیں آیا اور اس کے سوا اوروں میں آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو صاحب قاموس نے کہا کہ لیلا کا لفظ اسر کی تاکید ہے یہ ٹھیک ہے۔ پس ان حوالجات سے جو ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط۔ حضرت موسیٰ وغیرہ علیہم السلام کو اپنے اتباع کے لے جانے کا حکم دیا ہے جس سے مراد ان کو بیداری میں لے جانا ہے اس طرح اس آیت (اسری بعبدہ) میں مراد ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ کا حالت بیداری میں جانا کیونکہ یہ دونوں لفظ ایک ہی ہیں۔ حوالجات میں صیغہ امر کا ہے اور آیت اسراء میں صیغہ ماضی کا مگر مصدر دونوں کا ایک ہی (اسرائ) ہے پھر معنے کے اتحاد میں کیا شک ہے (٤) چوتھی دلیل اسراء جسمانی کی یہ ہے کہ مشرکین عرب نے اسراء کا حال سن کر تعجب کیا اور منکرانہ سوالات پیش کئے چنانچہ حدیث بخاری (باب المعراج) میں ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں جب قریش نے میری تکذیب کی اور بیت المقدس کے مقامات ممتازہ سے سوالات کئے تو میں بہت حیران ہوا کیونکہ اس طرح کی تفصیل جو ان کی مراد تھی۔ مجھے یاد نہ تھی آخر کار اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا یعنی روحانی تجلی ہوگئی۔ پس میں اس کو دیکھ کر بتلاتا گیا۔ اس حدیث اور اس جیسی اور کئی ایک حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین عرب نے آنحضرت کے اسراء سے انکار کیا اور سخت معترض ہوئے۔ پس آپ کا اسراء اگر جسمانی نہ ہوتا بلکہ خواب ہوتا تو یہ انکار کیوں ہوتا۔ کیا مشرکین عرب خود کبھی خواب میں کہیں کے کہیں نہ چلے جاتے تھے کہ ان کو حیرانی پیش آئی۔ ان کی حیرانی کو اگر ان کی غلط گمانی کہا جائے تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کیوں نہ سمجھا دیا کہ میرا اسراء تو خواب کی قسم ہے جو سب لوگوں کو حسب مراتب ہوتے رہتے ہیں پھر تمہارا انکار کیوں ہے؟ یہ ہیں بالاختصار چار دلیلیں جو اسراء کے جسمانی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اب منکرین کی طرف سے ان کے جو جواب دئیے گئے ہیں ان کا نقل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بات محقق ہو کر ذہن نشین ہوجائے۔ سر سید احمد خان کا انکار اور انکا جواب : سر سید احمد خان مرحوم علی گڈھی جو اسراء اور معراج دونوں کے جسمانی ہونے سے منکر ہیں اپنی تفسیر جلد ششم میں لکھتے ہیں کہ پہلی دلیل کے لفظ عبد میں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لئے اسراء و معراج بجسدہ ہوئی تھی ایسی بے معنی ہے کہ اس پر نہایت تعجب ہوتا ہے اگر اللہ یوں فرماتا کہ اسریت بعبدی فی المنام من الکعبۃ الی المدینۃ یا اویت عبدی فی المنام کذا و کذا تو کیا اس وقت بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ عبد میں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لئے خواب میں مع جسم جانا ثابت ہوتا ہے۔ جو شخص خواب دیکھتا ہے وہ ہمیشہ متکلم کا صیغہ استعمال کرتا ہے اور اگر کوئی شخص اس بات پر قادر ہو کہ دوسرے کو بھی خواب دکھا سکے تو وہ ہمیشہ اس کو مخاطب کرے گا۔ خواہ نام لے کر یا اس کی کسی صفت کو بجائے نام قرار دے کر اور اس پر اس طرح سے استدلال نہیں ہوسکتا جیسا کہ ان صاحبوں نے عبد کے لفظ سے استدلال چاہا ہے۔ قرآن شریف میں یوسف نے اپنے خواب کی نسبت کہا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا اور قیدیوں نے اپنا خواب اس طرح بیان کیا ایک نے کہا انی ارانی اعصر خمرا دوسرے نے کہا انی ارانی احمل فوق راسی خبزاً حالانکہ یہ سب خواب تھے پھر لفظ انی پر یہ بحث کہ اس میں جسم و روح دونوں داخل ہیں اور خواب میں جو فعل کیا فی الواقع وہ جسمانی فعل ہی تھا کیسی لغو و بیہودہ بات ہے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خواب بیان کئے ہیں اور دوسروں نے بھی اپنے خواب آنحضرت کے سامنے بیان کئے جن میں متکلم کے صیغے رایت وغیرہ استعمال ہوئے ہیں اور ان اشیاء اور اشخاص کا ذکر آیا ہے جن کو خواب میں دیکھا پس کیا اس پر خواب میں ان اشیاء اور اشخاص کے فی الواقع بجسدہا موجود ہونے پر استدلال ہوسکتا ہے؟ اور یہ قول کہ اگر معراج کا واقعہ خواب ہوتا تو اللہ فرماتا اسری بروح عبدہ ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ عبد کے لفظ سے جسمانی معراج پر استدلال کرنا اس قول کے لئے ضروری تھا کہ کوئی سند کلام عرب کی پیش کی جاتی کہ خواب کے واقع پر فعل بروحہ کذا وکذا بولنا عرب کا محاورہ ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو دلیل پیش کی ہے وہ محض لغو و بیہودہ ہے اور اس سے مطلب ثابت نہیں ہوتا (تفسیر احمدی سورۃ بنی اسرائیل ص ٨٠) جواب : اگر اسریت بعبدی فی المنام ہوتا تو ہم بے شک خواب سمجھتے کیونکہ اس کلام کا ترجمہ صاف ہوتا کہ ” میں اپنے بندے کو نیند کی حالت میں لے گیا“ نیند کا لفظ اس مجاز کے لیے قرینہ ہوتا کہ یہاں عبد سے مراد روح العبد ہے نہ کہ کامل عبد۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی لڑکے کو ھذا ابنی (یہ میرا بیٹا ہے) کہے تو کچھ شک نہیں کہ اس کلام سے اس لڑکے کی ابنیت پر استدلال ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر یوں کہے ھذا ابنی فی التلمذ (یہ میرا بیٹا شاگردی کا ہے یعنی شاگرد ہے) تو اس سے اس لڑکے کی ابنیت پر استدلال نہ ہوگا۔ لیکن اس سے یہ لازم نہ آئے گا کہ پہلا استدلال بھی غلط ہے بلکہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح کیونکہ وہ بلا قرینہ حقیقت پر محمول ہے بحکم علامۃ الحقیقۃ التبادر اور دوسری مثال میں قرینہ مجاز موجود ہے۔ حیرانی ہے سید صاحب جیسا محقق اور ایسی حرکت مذبوحی؟ اینچہ بوالعجبی است سید صاحب ! قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا ایسا ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گفتگو میں بھی رویت عین ہی مراد ہوتی مگر ان کے باپ نے جب جواب میں کہا لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَی اِخْوَتِکَ (اے میرے بیٹے اپنا خواب بھائیوں کو مت سنائیو) تو قرینہ مجاز پایا گیا چنانچہ آپ نے بھی ص ٩٩ پر اس لفظ کو قرینہ مجاز تسلیم کیا ہے جس کی پوری عبارت آگے ص پر آتی ہے پس رویت عین نہ رہی بلکہ خواب ہوگیا اسی طرح قیدیوں کے بیان میں جب یہ لفظ پایا گیا نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہٖ (اے یوسف ہم کو اس کی تعبیر بتلا) تو معلوم ہوا کہ یہ رویت عین نہیں بلکہ رویا منام (خواب) ہے۔ غرض جہاں کہیں رئیت خواب کے معنی میں آئے گا وہاں پر کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور ہوگا۔ اس سے تعجب یہ کہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں : ’ اور یہ قول کہ معراج کا واقعہ اگر خواب ہوتا تو اللہ فرماتا اسری بروح منہ ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ عبد کے لفظ سے جسمانی معراج پر استدلال کرنا اس قول کے لئے ضرور تھا کہ کوئی سند کلام عرب کی پیش کی جاتی کہ خواب کے واقعہ پر فعل بروحہ کذا و کذا بولنا عرب کا محاورہ ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو دلیل پیش کی ہے وہ لغو اور بیہودہ ہے اور اس سے مطلب ثابت نہیں ہوتا۔ ص ٨١ “ جواب : یہ کون کہتا ہے کہ روح کا لفظ ہونا ضروری ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایسا قرینہ کوئی ضرور ہو جس سے ثابت ہو کہ یہاں خواب مراد ہے ورنہ جب تک کوئی قرینہ ایسا نہ ہوگا عبد کے لفظ سے جسم اور روح کا مرکب ہی سمجھا جائے گا۔ پس آیت زیر بحث میں قرینہ صارفہ بتانا آپ کا کام ہے جب تک نہ بتائیں آپ کا دعویٰ غیر ثابت ہے۔ دوسری دلیل کے متعلق سر سید مرحوم فرماتے ہیں۔ ” دوسری دلیل کی نسبت ہم خوشی سے اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ سبحان کا لفظ تعجب کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ مگر اس کو اسراء سے خواہ وہ خواب میں ہوئی ہو یا حالت بیداری میں اور بجسدہ ہوئی ہو یا بروحہ کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ اس کو اس سے تعلق ہے جو مقصد اعظم اس اسراء سے تھا اور وہ مقصد اعظم خود اللہ نے فرمایا ہے لِنٰرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ اور اسی لئے اللہ نے ابتداء میں فرمایا سُبْحَانَ الَّذِیْ (ص ٨١) “ جواب : اس مقصد میں بھی عظمت اور اعظمیت جب ہی آئے گی کہ اس رویت سے بھی رویت عین ہی مراد لیں یعنی یہ کہیں کہ لِنُرِیَہُ کے معنی ہیں کہ ہم اس (نبی) کو آنکھوں سے اپنے نشان دکھائیں ورنہ اگر وہ رویت بھی خواب ہی میں ہو تو اعظمیت تو کیا نہ کوئی عظمت ہوگی نہ کوئی تعجب ہمیشہ ہر ایک شخص خواب میں کچھ نہ کچھ دیکھا ہی کرتا ہے ہندی میں مثل مشہور ہے ” سپنے اندر راجہ بہئیو جاگت بہئیو کنگال“ پس سبحان کے استعمال کا محل بھی اسی صورت میں موزوں ہوگا کہ اسراء بجسدہ مراد لیا جائے ورنہ کوہ کندن و کاہ برآوردن کی مثل صادق آئے گی تیسری دلیل کا جواب سر سید نے یہ دیا ہے کہ : یہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لئے مستعد نہ ہوتے ان کا جھگڑا صرف اسی لئے تھا کہ آنحضرت کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وجہ سے تھی کہ آنحضرت نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہیں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لئے ضرور تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کو شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ٩١) جواب : کیا ہی منطق ہے؟ افسوس ! سر سید مطلب کے موقع پر اصول کلام بھول جاتے ہیں علماء کا عام اصول ہے تاویل الکلام بما لایرضی بہ قائلہ باطل“ یعنی متکلم کے خلاف منشاء کلام کے معنی کرنے جائز نہیں مشرکین عرب تو صاف اس واقع (اسرائ) سے انکاری ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ شعبہ نبوت تھا اس لئے انکاری تھے شعبہ نبوت کیا تھا خواب ہی تو تھا جس کی نسبت آپ خود سورۃ یوسف میں فرماتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بجز ان قوی کے جو نفس انسانی میں مخلوق ہیں اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں مؤثر نہیں ہے اور یوسف (علیہ السلام) کی خواب جن کا نفس نہایت متبرک اور پاک تھا اور ان دو جوانوں کی خواب جو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے اور کفر و ضلالت میں مبتلا تھے اور ان کے نفوس بسبب آلائش کفر پاک نہ تھے اور اسی طرح فرعون (شاہ مصر) کا خواب جو خود اپنے آپ کو اللہ سمجھتا تھا اور اس کا نفس مبدء فیاض سے کچھ مناسبت نہ رکھتا تھا اور باایں ہمہ سب کے خواب یکساں مطابق واقعہ کے اسی ایک قسم کے تھے اور اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بجز قواے نفس انسانی کے اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں مؤثر نہیں ہے گو کہ وہ خواب کیسے ہی مطابق واقعہ کے ہوں۔“ (جلد ٥ ص ١١) بتلائیے ایسے خواب جو بقول آپ کے قوائے انسانی پر متفرع ہوں شعبہ نبوت ہونے میں کیا مزیت رکھتے ہیں۔ علاوہ اس کے مانا کہ قریش کو اصل انکار نبوت سے تھا مگر یہ کیا معنی کہ جس کسی بات سے بھی انکار کریں تو اس بات کی ماہیت اور کیفیت کی طرف خیال نہ کریں جھٹ سے اصل نبوت ہی کو پیش کردیں حالانکہ وہ صاف لفظوں میں واقع اسراء سے انکار کرتے ہیں بلکہ اس وقت نبوت سے بھی اسی لئے انکار کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا بعید الفہم واقعہ بیان کرتی ہے مگر سید صاحب اس کی توجیہ کرتے ہیں کہ چونکہ وہ سرے سے نبوت کے منکر تھے اس لئے اسراء سے بھی منکر تھے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں تک صحیح ہے؟ یہ تو ویسی ہی بات ہے ” ملا آن باشد کہ چپ نشود“ قریش مکہ تو واقعہ اسراء کو مستبعد جان کر منکر ہوتے ہیں جس سے اسراء کا بجسدہ ہونا مفہوم ہوتا ہے لیکن آپ نہیں مانتے تو اس کا کیا جواب؟ آں کس کہ بقرآں و خبر زوندھی این ست جوابش کہ جوابش ندھی بہت خوب آگے چلئے سر سید فرماتے ہیں اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہوں گی لوگوں سے بیان کی ہوں گی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو راویوں نے فجلی اللہ لی بیت اللہ فرفعہ اللہ لی انظر الیہ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔“ (جلد ٦ ص ٩٢) جواب گو آپنے اس تقریر میں واقعات سے نظر اٹھا کر ہوگی اور ہوگا سے بہت کچھ کام لیا ہے۔ تاہم اس سے یہی ثابت ہوا کہ اگر قریش مکہ کو صرف دریافت کرنا مطلوب ہوتا تو دریافت کرتے نہ کہ شروع ہی سے درپے تکذیب ہوجاتے اور اسراء ہی کو مستعبد جان کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس جاتے کہ دیکھ تیرا دوست آج کیا کہتا ہے؟ کہ میں شب کو وہاں گیا۔ وہاں سے آیا۔ یہ ہوا وہ ہوا جیسے کوئی بڑی گھبراہٹ سے تگ و دو کرتا پھرتا ہے حالانکہ بات کچھ بھی نہ تھی بقول آپ کے صرف خواب تھا۔ جو ہر ایک نیک و بد کو حسب مراتب آیا کرتا ہے پھر لطف یہ کہ حضرت صدیق نے بھی یہ جواب نہ دیا کہ بے وقوفو ! کس بات پر بھنبھنا رہے ہو کیا تمہیں خواب نہیں آیا کرتے اگر ہمارے رسول کو خواب آگیا تو کیا تعجب ہے بلکہ جواب بھی دیا تو یہ کہ فجاء ناس الی ابی بکر فذکر والہ فقال اشھد انہ صادق فقالوا او تصدقہ بانہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ قال نعم انی اصدقہ بابعد من ذلک اصدقہ بخبر السماء قال فسمی بذلک الصدیق (فتح الباری بروایۃ بیہقی پارہ ١٥ باب حدیث الاسرائ) میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ (نبی) سچا ہے قریش نے کہا کہ تو اس بات میں اس کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ایک ہی رات میں ملک شام تک جا کر پھر مکہ تک واپس آگیا ابوبکر نے کہا ہاں میں تو اس سے بھی زیادہ دور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں میں آسمانی خبروں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ راوی کہتا ہے اسی وجہ سے ابوبکر کا نام صدیق ہوگیا۔ فرمائیے اس سوال و جواب سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہ کہ قریش اس واقعہ اسراء کو خواب سمجھتے تھے یا جسمانی سیر؟ پھر یہ کیونکر قابل پذیرائی ہوسکتا ہے کہ قریش اس وجہ سے انکاری تھے کہ اس کو بھی شعبہ نبوت جانتے تھے نہ اس وجہ سے کہ یہ سیر جسمانی ہے ہاں آپ نے خوب فرمایا کہ : یہ قریش خواب کو بھی شعبۂ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کہ ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضگی ان میں پیدا ہوتی تھی اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔ عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا اور اس نے اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خواب کو پوشیدہ رکھیں عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار کو دیکھا جو وادی بطحا میں کھڑا ہے اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نیبی میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھر گئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آئو عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا تم میں یہ پیغمبرنی کہاں سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوتی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگیں۔“ (جلد ٦ ص ٩٢) جواب : عباس خواب کے واقعہ سے اس لئے نہ گھبرائے تھے کہ کسی کی نبوت کا شعبہ تھا بلکہ اس لئے گھبرائے اور انکاری ہوئے تھے کہ ہولناک خواب تھا۔ پس اس خواب پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے بحالیکہ اسراء میں انہوں نے یہ وجہ نہیں بیان کی بلکہ وہ صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں انہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ یعنی ملک شام تک جا کر مکہ میں ایک ہی رات میں واپس آیا؟ یہ امر باعث انکار تھا نہ کہ کوئی ہولناک خبر فانی ھذا من ذاک خیر ! بہرحال ان تینوں دلیلوں کا جواب جو کچھ سر سید مرحوم سے ہوسکا یہی تھا جو ناظرین دیکھ چکے۔ چونکہ یہ تین دلیلیں تفسیر کبیر وغیرہ میں مذکور ہیں اس لئے ان کے جوابات تو سید صاحب نے دئیے جو دئیے مگر چوتھی دلیل چونکہ ہماری ایجاد ہے اس لئے اس کا جواب سر سید نے نہیں دیا اور نہ دے سکتے تھے کیونکہ ان کے کان اس سے آشنا نہ تھے ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کا کوئی معتقد یا ہم خیال توجہ کرے مگر اتنا خیال رکھیں کہ جس طرح ہم بشواہد قرآنیہ اس دلیل کو مکمل کیا ہے جو اب بھی ہو تو ایسا ہی ہو۔ اولئک أبائی فجئنی بمثلھم اذا جمعتنا یا جریر المجامع ان مخالف دلائل کے جوابات سے فارغ ہو کر سر سید مرحوم اپنے خیال کے دلائل لکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ دلالت النص یعنی اللہ کا یہ فرمانا کہ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا یعنی رات کو اللہ اپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امور واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ہے ورنہ لیلا کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی اور ہم اس کی مثالیں بیان کریں گے کہ خواب کے واقعات بلا بیان اس بات کے کہ وہ خواب ہے بیان ہوئے ہیں کیونکہ خود وہ واقعات دلیل اس بات کی ہوتے ہیں کہ خواب کا وہ بیان ہے۔“ (ص ٩٥) اس اجمال کی تفصیل آپ ان لفظوں میں کرتے ہیں : اب ہم پہلی دلیل کی تصریح کرتے ہیں یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن مجید اور نیز احادیث میں جب کوئی امر خواب کا بیان کیا جاتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ بھی بیان کیا جائے کہ یہ خواب ہے کیونکہ قرینہ اور سیاق کلام اور نیز وہ بیان خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ بیان خواب کا تھا مثلاً حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اپنا خواب بیان کرتے وقت بغیر اس بات کے کہنے کے کہ میں نے خواب دیکھا ہے یوں کہا یآ اَ بَتِ انی رایت احد عشر کو کبا والشمس والقمر رایتھم لی ساجدین لیکن قرینہ اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ خواب ہے اس لیے ان کے باپ نے کہا یٰـبُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْالَکَ کَیْدًا پس معراج کے واقعات خود اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ وہ ایک خواب ہے ضرور نہیں تھا۔ بلکہ صرف یہ کہنا کہ رات کو اپنے بندہ کو لے گیا صاف قرینہ ہے کہ وہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔“ (ص ٩٩) جواب : بہت خوب چشم ما روشن دل ماشاد مگر معراج کے واقعات کا خواب پر دلالت کرنا تو پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ آیت سبحان الذی اسری بعبدہ کے الفاظ سے تین دلائل اور ایک بیرونی دلیل مجموعہ اولہ اربعہ ہم بھی لکھ آئے ہیں جن پر آپ نے بھی جو کچھ فرمایا ہے ناظرین کو سنا آئے ہیں۔ پس یہ تو ختم ہے اب آگے چلئے ! دوسری دلیل سید صاحب نے آیت ماجعلنا الرؤیا الایۃ سے لی ہے اس کی تشریح و تصریح آپ ہی کے الفاظ میں یوں ہے۔ سید صاحب فرماتے ہیں : اس دلیل میں جو ہم نے لکھا کہ ماجَعَلْنَا الرّوْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃٍ لِّلنَّاسِ یہ آیت متعلق ہے معراج سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ معراج سے متعلق نہیں ہے۔ مگر ادنیٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیت خاص اسی سورت میں ہے جس میں معراج کا ذکر ہے تو اس کو معراج کے متعلق نہ سمجھنے کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ خود ابن عباس نے اس آیت کو اسراء سے متعلق سمجھا ہے۔ سورت بنی اسرائیل کی پہلی آیت بطور اظہار شکریہ اس نعمت کے ہے جو اللہ تعالیٰ نے معراج کے سبب قلب مبارک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انکشاف فرمائی تھی اس کے بعد بنی اسرائیل کا اور ان قوموں کا ذکر کیا ہے۔ جن کے لیے بطور امتحان و اطاعت فرمان باری تعالیٰ کچھ نشانیاں مقرر کی گئی تھیں اور باوصف اس کے انہوں نے رسولوں سے انکار کیا اور اللہ کی نافرمانی کی۔ اسی موقع پر اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ہم نے جو خواب تجھ کو دکھلایا ہے وہ بھی لوگوں کے امتحان کے لئے ہے کیونکہ وہ بھی نبوت کے شعبہ میں سے ہے تاکہ امتحان ہو کہ کون اس سے انکار کرتا ہے اور کون اس کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اس سے انکار کرنا بمنزلہ انکار رسالت اور تسلیم کرنا بمنزلہ تسلیم رسالت کے ہے۔ پس سیاق قرآن مجید پر نظر کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلی آیت اور وہ دوسری آیت متصل اور پیوستہ ہیں یعنی اللہ نے یوں فرمایا ہے۔ سُبْحٰانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنٰا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰ یَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ۔ پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تاکہ دکھائیں ہم اس کو کچھ اپنی نشانیاں بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔“ (جلد ٦ ص ١٠٠) جواب : سید صاحب نے بڑی کوشش سے آیت موصوفہ کو اسراء سے متعلق کیا ہے ہم اس امر میں آپ سے منازعت نہیں کرتے بلکہ مان لیتے ہیں کہ ابن عباس بھی اس آیت کو معراج کے ساتھ متعلق کہتے ہیں بلکہ مفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیت موصوفہ (وما جعلنا الرویا) اسراء کے ساتھ تعلق رکھتی ہے مگر گذارش ہے کہ رویا کے معنے میں علماء لغت کے متعدد اقوال میں چنانچہ آپ نے بھی کئی ایک نقل کئے ہیں (دیکھو تفسیر احمدی عبارت مندرجہ ذیل) علامہ خفاجی درۃ الغواص کی شرح میں لکھتے ہیں کہ رویا کے معنے میں اہل لغت کے تین قول ہیں وفیہ ثلاثۃ اقوال لاھل اللغۃ احدھا ما ذکرہ المصنف والثانی انھما بمعنی فیکونان یقظۃ ومنا ما والثالث ان الرؤیۃ عامۃ والرویا مختص لما یکون فی اللیل ولو یقظۃ (شرح درۃ الغوا ص ١٤٢) ایک تو وہ جس کا ذکر مصنف نے کیا ہے دوسرا یہ کہ دونوں لفظوں (رویت اور رویا) کے ایک ہی معنی ہیں جاگنے کی حالت میں بولے جائیں یا سونے پر تیسرا یہ کہ رویت عام ہے اور رویا رات کے دیکھنے سے اگرچہ حالت بیداری میں ہو مخصوص ہے۔ ص ١٠٣ پس ابن عباس (رض) کا قول صحیح بخاری میں رویا عین ملتا ہے یعنی آنکھوں سے دیکھنا پس آیت کے معنی یہ ہوئے اللہ فرماتا ہے اے نبی ہم نے جو تجھے آنکھوں سے دکھایا تھا اس سے لوگوں کو فتنہ ہوا۔ ان معنے سے آیت موصوفہ اسراء جسمانی کی مثبت ثابت ہوئی مگر سرسید مرحوم ابن عباس کی تفسیر پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ سلف سے علماء اور صحابہ کو اس میں اختلاف ہے کہ واقعات معراج بحالت بیداری ہوئے تھے یا خواب میں لیکن اگر قید لفظ ” عین“ کی جو ابن عباس کی حدیث ہے ایسی صاف ہوتی جس سے ” رویت فی الیقظ سمجھی جاتی تو علماء میں اختلاف نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قید لفظ ” عین سے“ رویت فی الیقظہ کا سمجھنا ایسا صاف نہیں ہے جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے۔“ (ص ١٠٦) جواب : تعجب ہے سید صاحب کیسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ فرماتے ہیں۔ اگر ابن عباس کا قول صاف ہوتا تو علماء میں اختلاف کیوں ہوتا حالانکہ اس کے متصل ہی صفحہ ١٠٧ پر لکھتے ہیں۔ اگر ہماری یہ رائے صحیح نہ ہو اور ابن عباس نے عین کا لفظ رویا کے ساتھ اسی مقصد سے بولا ہو کہ رویا سے رئویت بالعین فی الیقظہ مراد ہے تو وہ بھی منجملہ اس گروہ کے ہوں گے جو معراج فی الیقظہ کے قائل ہوتے ہیں مگر ہم اس گروہ میں ہیں ہو واقعہ معراج کو حالت خواب میں تسلیم کرتے اور ہمارے نزدیک خواب ہی میں ماننا لازم ہے۔ “ اس عبارت کا مضمون صاف ہے کہ باوجود صحیح منقول ہونے تفسیر ابن عباس کے آپ (بقول خود) ان سے مخالفت کے مجاز ہیں تو کیا وہ علماء جو آپ سے پہلے اور ابن عباس کے ہمعصر و ہم مرتبہ تھے ان کا حق نہ تھا کہ ان کی رائے سے مخالفت کرسکیں یعنی اس آیت کو اسراء سے الگ سمجھیں اور اس سمجھنے میں حق بجانب ہوں۔ دوسرا جواب سید صاحب نے ابن عباس کے قول کے لیے یہ سوچاہے کہ العین عندالعرب حقیقۃ الشے یقال جاء بالامر من عین صافیہ ای من فصہ وحقیقہ وجاء بالحق بعینہ ای خالصا واضحا (لسان العرب جلد ١٧ ص ١٨٠) عین کے معنے لغت میں حقیقۃ الشے کے ہیں لسان العرب میں لکھا ہے اہل عرب کے نزدیک عین کسی چیز کی حقیقت پر بولا جاتا ہے کہتے ہیں کہ وہ اس کام کو عین صافی سے لایا یعنی اس کام کی اصلیت و حقیقت سے اور حق کو بعینہ لایا یعنی خالص اور روشن حق کو لایا۔ پس حضرت ابن عباس کا یہ فرمانا کہ رئویا عین اس کے معنے ہیں۔ رویا حقیقۃ لان رؤیا الانبیا حق و وحی اور اسی لئے ہمارے نزدیک ابن عباس کی حدیث میں رویا کے ساتھ جو عین کے لفظ کی قید لگائی ہے اس سے رویا کے معنوں کو تبدیل کرنا اور لفظ رویا کو جو قرآن مجید میں آیا ہے بلا کسی قرینہ کے جو قرآن مجید میں موجود نہیں ہے مجازی معنوں میں لینا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے رویا کے صحیح اور واقعی حق ہونے کی تاکید مراد ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خواب وہم و خیال یا اضغاث و احلام میں سے نہیں ہے بلکہ درحقیقت خواب میں جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا وہ سچ اور حق ہے کیونکہ انبیاء کے تمام خواب حق اور سچ ہوتے ہیں پس لفظ عین کی قید سے لازم نہیں آتا کہ حالت بیداری میں دیکھا ہو۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ١٠٦) جواب : سید صاحب کے حق میں عربی مثل صادق آئی حبک الشی یعمی ویصم یعنی جب کسی چیز کی محبت غالب آتی ہے تو اس کو ہر چیز سے غافل کردیتی ہے۔ سر سید نے لسان العرب سے تو عین کے معنے تلاش کئے مگر قاموس میں نہ دیکھے العین باصرۃ یعنی عین کے معنی آنکھ ہے حدیث شریف میں آیا ہے العین وکاء السہ آنکھ بند ہونے یعنی نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے قرآن شریف میں دیکھنے عین کن معنوں میں آیا ہے غور سے سنئے لا تعدعیناک عنہم (تیری دو آنکھیں ان سے نہ گذر جائیں عینا تثنیہ ہے عین کا لَوْ نَشَآئُ لَطَمَسْنَا عَلٰٓی اَعْیُنِھِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ (سورہ یس) اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کو بے نور کردیتے پھر راستہ تلاش کرتے مگر کہاں دیکھ سکتے؟ اس آیت میں اعین عین کی جمع ہے اور آنکھ کے معنی میں ہے۔ لسان العرب کی عبارت کے معنی بھی بجائے خود صحیح ہیں مگر اس کے استعمال کا محل اور ہے۔ لفظ عین کے معنے کئی ایک ہیں لیکن جب رویت یا رویا اس کی طرف مضاف ہوں تو اس کے معنے آنکھ ہی کے ہوتے ہیں نہ اور۔ اور اگر خواب یا رویت کی سچائی اور واقعیت بتلانی ہو تو اس وقت اس کا مضاف الیہ حق لایا جاتا ہے چنانچہ ایک صحابی نے اپنا خواب بیان کیا کہ مجھے ایک شخص خواب میں یہ کلمات سکھا گیا (جو اذان میں پڑھے جاتے ہیں) تو حضور نبی (علیہ السلام) نے فرمایا اِنَّھَا لَرُؤْیَا حق (یہ خواب سچا ہے) مشکوٰۃ باب الاذان) یہ کبھی نہ ہوگا کہ رویا یا روئت کی اضافت عین کی طرف ہو تو اس وقت بھی اس سے مراد حق اور سچ ہو۔ نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھنا مراد ہوگا نہ کچھ اور قرآنی دلائل تو سید صاحب کے پاس یہی دو تھے جن کا ذکر مع جواب اوپر ہوچکا۔ ان کے علاوہ دو تین دلائل آپ نے احادیث کے اختلافات سے پیدا کئے ہیں سو چونکہ وہ ان سے بھی پیچھے ہیں اس لئے ناظرین کو اتنی اطلاع کرتے ہیں کہ قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔ جن احادیث میں سر سید مرحوم نے کسی قدر لفظی اختلاف پا کر اپنا مطلب سیدھا کرنا چاہا۔ ان میں علمائے محدثین نے تطبیق دی ہوئی ہے۔ فتح الباری وغیرہ ملاحظہ ہو۔ معراج : ۔ پہلے ہم بتلا آئے ہیں کہ معراج سے مراد وہ سیر ہے جو کہ مکہ شریف سے فلک الافلاک تک ہوئی تھی اس کے متعلق بھی گو بہت بڑا اختلاف ہے مگر اس جگہ ہم دو بزرگوں کا کلام نقل کرتے ہیں جو بمنزلہ دو شاہدین عادلین کے ہیں ان دو بزرگوں سے پہلے بزرگ حافظ ابن قیم (رح) ہیں جو فرماتے ہیں۔ وقد نقل ابن اسحاق عن عائشۃ ومعاویۃ انھما قالا انما کان الاسراء بروحہ ولم یفقد جسدہ ونقل عن الحسن البصری نحو ذلک ولکن ینبغی ان یعلم الفرق بین ان یقال کان الاسراء منا ماوبین ان یقال کان بروحہ دون جسدہ وبینہما فرق عظیم وعائشۃ ومعاویۃ لم یقولا کان منا ما وانما قالا اسری بروحہ ولم یفقد جسدہ وفرق بین الامرین فان مایراہ النائم قد یکون امثالا مضروبۃ للمعلوم فی الصورۃِ المحسوسۃ فیی کانہ قد عرج بہ الی السماء وذھب بہ الی مکۃ واقطار الارض وروحہ لم تصعد ولم تذھب وانما ملک الرویا ضرب لہ لمثال والذین قالوا عرج برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائفتان طائفۃ قالت عرج بروحہ وبذاتہ وطائفۃ قالت عرج بروحہ ولم یفقد بدنہ وھولاء لم یریدوا ان المعراج کان منا ما وانما ارادوا ان الروح ذاتہا اسری بہا وعرج بھا حقیقۃ وباشرت من جنس ما تباشر بعد المفارقۃ وکان حالہا فی ذلک کحالھا بعدالمفارقۃ فی صعودھا الی السموات سماء سماء حیا ینتھی بھا الی السماء السابقۃ فتقف بین یدی اللہ عزوجل فیامر فیھا بمایشاء ثم ینزل الی الارض فالذی کان لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ الاسراء اکمل مما یحصل للروح عند المفارقۃ ومعلوم ان ھذا امر فوق مایراہ النائم لکن لما کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مقامہ خرق العوائد حق شق بطنہ وھو حی لایتا لم بذالک عرج بذات روحہ المقدسۃ حقیقۃ من غیرا ماتۃ ومن سواہ لاینال بذات روحہ الصعود الی السماء الا بعد الموت والمفارقۃ فالانبیاء انما استقرت ارواحھم ھناک بعد مفارقۃ الابدان وروح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صعدت الی ھناک فی حال الحیواۃ ثم عادت وبعد وفاتہ استقرت فی الرفیق الاعلی مع ارواح الانبیاء ومع ھذا فلھا اشراف علی البدن واشراق وتعلق بہ بحیث یرد السلام علی من سلم علیہ وبھذا التعلق رای موسیٰ قائما یصلی فی قبرہ وراہ فی السماء السادستہ ومعلوم انہ لم یعرج بموسی من قبرہ ثم رد علیہ وانما ذلک مقام روحہ واستقرارھا وقبرہ مقام بدنہ واستقرارہ الی یوم مما والروح الی اجسادھا فراہ یصلی فی قبرہ ورائہ فی السماء السادسۃ کما انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ارفع مکان فی الرفیق الاعلی مستقرا ھناک وبدنہ فی ضریحہ غیر مفقود واذا سلم علیہ المسلم رد اللہ علیہ روحہ حتی یرد ولم یفارق الملاء الاعلی ومن کشف ادراکہ وغلظت طباعہ عن ادراک ھذا فلینظر الی الشمس فی علو محلھا وتعلقھا وتاثیر ھافی الارض وحیٰوۃ النبات والحیوان بھا ھذا وشان الروح فوق ھذا فلھا شان وللابدان شان وھذہ النار تکون فی محلھا وحرارتھا توثر فی الجسم البعید عنھا مع ان الارتباط والتعلق الذی بین الروح والبدن اقوی و اکمل من ذلک واتم فشان الروح اعلی من ذلک والطف فقل للعیون الرمد ایاک ان تری سنا الشمس استغشی ظلام اللیالیا (زاد المعاد ابن قیم جلد اول صفحہ ٣٠١ و ٣٠٢) ابن اسحق نے حضرت عائشہ اور معاویہ کا مذہب یہ بتایا ہے کہ معراج میں آنحضرت صلعم کی روح گئی تھی اور جسم غائب نہیں ہوا اور حسن بصری کا مذہب بھی یہی بتایا ہے لیکن اس قول میں کہ اسراء خواب میں ہوئی تھی اور اس قول میں کہ اسراء روح کے ساتھ ہوئی تھی نہ جسم کے ساتھ فرق جاننا چاہئے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت عائشہ اور معاویہ نے یہ نہیں کہا کہ اسراء خواب میں ہوئی تھی بلکہ انہوں نے کہا اسراء روح کے ساتھ ہوئی تھی اور رسول اللہ کا جسم اسراء میں نہیں گیا اور دونوں میں فرق ہے کیونکہ سونے والا جو کچھ خواب میں دیکھتا ہے وہ حقیقت میں ایک معلوم چیز کی مثالیں ہیں جو موسوس شکلوں میں اس کو دکھائی دیتی ہیں وہ دیکھتا ہے کہ گویا آسمان پر چڑھ گیا اور مکہ اور دنیا کے اطراف میں چلا گیا ہے حالانکہ اس کی روح نہ چڑھی نہ کہیں گئی بلکہ خواب کے غلبہ نے اس کی نظر میں ایک صورت بنا دی ہے جو لوگ رسول اللہ کے معراج کے قائل ہیں ان کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح اور بدن دونوں کو معراج ہوئی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ معراج میں ان کی روح گئی تھی۔ بدن نہیں گیا اور اس سے ان کی یہ مراد نہیں کہ معراج خواب میں ہوئی بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ خود آنحضرت کی روح اسراء میں گئی اور حقیقت میں اسی کو معراج ہوئی اور اس نے وہی کام کیا جو بدن سے جدا ہونے کے بعد روح کرتی ہے اور اس واقعہ میں اس کا حال ایسا ہوا جیسا کہ بدن سے جدا ہونے کے بعد بعد روح ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر جاتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی اور اللہ کے سامنے ٹھیر جاتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے اس کو حکم کرتا ہے پھر زمین پر اترتی ہے۔ پس جو حال رسول اللہ کا معراج میں ہوا وہ اس سے زیادہ عامل تھا جو روح کو بدن چھوڑنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حال اس کیفیت سے جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے بالاتر ہے لیکن چونکہ رسول اللہ نے اپنے (بلند) مرتبہ کے سبب بہت سے فطرت کے قاعدوں کو توڑا یہاں تک کہ زندگی میں ان کا پیٹ چاک کیا گیا اور ان کو تکلیف نہ ہوئی اس لئے حقیقت میں بدون مرنے کے خود ان کی روح مقدس کو معراج ہوئی۔ اور جو ان کے سوا ہیں ان میں سے کسی کی روح بدون مرنے اور بدن چھوڑنے کے آسمان پر صعود نہیں کرتی انبیاء کی روحیں اس مقام پر بدن سے جدا ہونے کے بعد پہنچتی ہیں۔ اور رسول اللہ کی روح زندگی ہی میں اس مقام تک گئی اور واپس آگئی اور بعد وفات کے دیگر انبیاء کی روحوں کے ساتھ مقام ” رفیق اعلیٰ“ میں ہے اور باوجود اس کے بدن پر اس کا پرتو اور اس کی اطلاع اور اس کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ رسول اللہ ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور اسی تعلق کے سبب سے رسول اللہ نے موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر ان کو چھٹے آسمان پر بھی دیکھا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نہ موسیٰ نے قبر سے صعود کیا نہ واپس آئے۔ بلکہ وہ ان کی روح کا مقام اور اس کے ٹھیرنے کی جگہ ہے اور قبر ان کے بدن کا مقام اور اس کے ٹھیرنے کی جگہ ہے جب تک کہ روحیں دوبارہ بدنوں میں آئیں گی اسی لئے رسول اللہ نے ان کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر چھٹے آسمان پر دیکھا۔ جیسا کہ خود رسول اللہ (کی روح) ” رفیق اعلیٰ“ میں ایک بلند مقام پر ہے اور ان کا بدن میں واپس بھیجتا ہے تاکہ اس کے سلام کا جواب دیں حالانکہ پھر بھی رسول اللہ (کی روح) ملاء اعلیٰ سے جدا نہیں ہوتی۔ اور جس شخص کی عقل تاریک اور طبیعت اس بات کے سمجھنے سے عاجز ہے وہ دیکھے کے آفتاب بہت بلندی پر ہے اور اس کا تعلق اور تاثیر زمین میں اور نبات اور حیوان کی زندگی میں ہے اور روح کا حال تو اس سے بالاتر ہے۔ کیونکہ روح کا حال اور ہے اور اجسام کا حال اور یہی آگ اپنی جگہ میں ہوتی ہے اور اس کی گرمی اس جسم میں سرایت کرتی ہے جو اس سے دور ہے حالانکہ جو ربط اور تعلق روح اور بدن کے درمیان ہے وہ اس سے زیادہ لطیف اور بالا تر ہے درد بھری آنکھوں سے کہہ دے کہ آفتاب کی روشنی کو دیکھنے سے بچو ورنہ راتوں کا اندھیرا چھا جائے گا گو حافظ ممدوح کا اپنا مذہب یہ نہیں بلکہ قائلین کی طرف سے یہ توجیہ نقل کی ہے مگر اس مذہب کو حافظ موصوف نے رد بھی نہیں کیا۔ بلکہ بڑی حمایت کی ہے۔ دوسرے رکن اس نصاب کے حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ ہیں جو فرماتے ہیں۔ واسری بہ الی المسجد الاقصی ثم الی سدرۃ المنتہی والی ماشاء اللہ وکل ذلک بجسدہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الیقظ ولکن ذلک فی موطن ھو برزخ بین المثال والشھادۃ جامع لاحکامھما فظھر علی الجسد احکام الروح وتمثل الروح والمعانی الروحیۃ اجساد او لذلک بان لکل واقعۃ من تلک الوقائع تعبیر و قد ظھر لحز قیل وموسی وغیر ھما علیھم السلام عن من تلک الوقائع وکذلک لاولیاء الامۃ لیکون علی درجاتھم کحالھم فی الرویا واللہ اعلم (حجۃ اللہ ج ٢ ص ١٩٠ باب الاسرائ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد اقصیٰ تک لے گئے پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور جہاں تک اللہ نے چاہا اور یہ سب واقعات جسمانی تھے بیداری میں لیکن یہ ایک ایسے موقع پر کہ مثال اور شہادت کے درمیان واسطہ اور دونوں کے احکام کو ” اسی طرح ابن قیم نے زادالمعاد میں بیان کیا ہے کہ صرف روح رسول اللہ کی معراج میں گئی تھی اور جسد نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ بھی ہے۔ کہ ابن قیم بھی بجسدہ معراج کا قائل نہیں ہے۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ١٠٧) حالانکہ حافظ ابن قیم (رح) نے ایک ہی صفحہ پہلے اپنے مذہب کی تصریح کردی ہے کہ آنحضرت کو معراج بجسدہ ہوا ہے چنانچہ لکھتے ہیں ثم اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجسدہ علی الصحیح (زاد المعاد جلد اول ص ٢٠٠) یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج بجسدہ ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ابن قیم کو معراج جسدی سے انکار نہیں۔ پس حافظ ممدوح کی طرف انکار کو نسبت کرنا سید صاحب کی غلط فہمی یا مطلب برآوری ہے۔ منہ جامع تھا پس جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے روح اور کیفیات روحانیہ جسم کی شکل میں متشکل ہوئیں۔ اسی لئے ہر ایک واقع کی تعبیر اور بیان ظاہر ہوا حضرت حزقیل اور موسیٰ وغیرہ علیہم السلام کے لئے اسی طرح کے واقعات ظاہر ہوئے تھے۔ اسی طرح اولیاء امت کے لئے واقعات پیش آتے ہیں تاکہ ان کے درجوں کی بلندی اللہ کے نزدیک ظاہری میں ایسی ہوجیسی خواب میں ان کی حالت ہوتی ہے۔ “ پس ان بزرگوں کے کلام سے جو امر ثابت ہوتا ہے خاکسار بھی اسی کو مانتا ہے مختصر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو دفعہ سیر کرائی گئی ایک دفعہ تو مکہ شریف سے بیت المقدس تک جسمانی دوسری دفعہ مکہ شریف سے فلک الافلاک تک اس کیفیت سے جو ان دو بزرگوں کے کلام سے ثابت ہوتی ہے۔ غالباً اس رائے کو اختیار کرنے کی وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ ان بزرگوں کو پیش آئی ہوگی کہ آسمانی سیر کی حدیثوں میں یہ غالباً اس رائے کو اختیار کرنے کی وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ ان بزرگوں کو پیش آئی ہوگی کہ آسمانی سیر کی حدیثوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے آنحضرت صلعم کی ملاقات ہوئی پھر اگر آپ اسی جسم مطہر کے ساتھ تھے تو وہ بھی ایسے ہی ہوں گے حالانکہ ان کا اس جسم خاکی کو چھوڑ دینا شہادت تو اتر کے علاوہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔ فافھم ولا تعجل۔ بیرونی مباحث :۔ اندرونی ثبوت یعنی بعد بیان قرآن و حدیث کے بیرونی حملات کی مدافعت بھی ضروری ہے چونکہ ہم نے اس بحث کے دو حصے کر دئیے ہیں۔ اس لئے اعتراضات میں بھی کمی آگئی۔ بڑا اعتراض تو آسمانی سیر جسمانی پر تھا جس کا حل شاہ ولی اللہ صاحب اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما نے کردیا کیونکہ ان حضرات کی تقریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ عنصری جسم مطہر آنحضرت کا آسمان پر نہیں گیا۔ اب اگر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے تو اس پر ہوسکتا ہے کہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک سیر جسمانی تھوڑے سے عرصہ میں کیونکہ ہوئی بحالیکہ تخمیناً دو ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ اس سوال کا جواب گو پہلے بھی علماء کرام نے دیا ہے مگر آج کل تو اور بھی سہل ہوگیا ہے۔ غور سے سنئے ! ایک زمانہ تھا کہ امرتسر سے دہلی تک اوسط ایک ماہ یا کم و بیش وقت لگتا تھا اب دس گھنٹوں میں ڈاک جاتی ہے لیکن ٹھیرتی ہوئی اگر راستہ میں نہ ٹھرے تو اسی رفتار سے چھ سات گھنٹوں میں پہنچ سکتی ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ گاڑیوں کے پتیوں پر بجلی لگا دی جائے گی تو امرت سر سے دہلی تک چار گھنٹوں میں سفر طے ہوا کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ترقی کی اب حد ہوچکی ہے یا آئندہ کو ابھی اسراء قدرت اور بھی ظاہر ہونے کی توقع ہے؟ کچھ شک نہیں کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہوگا یعنی بے شک آئندہ کو ابھی اسرارء قدرت کا اظہار اور بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ سائنسدان اور موجد بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہم کسی چیز میں اثر پیدا نہیں کرسکتے بلکہ اثر وہی ہے جو قدرت نے پیدا کر رکھا ہے۔ سائنسدان صرف اس کا ادراک کرتے ہیں مثلاً جن دوائوں سے آج کل برف سازی ہوتی ہے ان دوائوں یا ان کی تاثیرات کو ان موجدوں نے پیدا نہیں کیا بلکہ ان دوائوں کی تاثیرات معلوم کی ہیں جن کو بعد معلوم کرنے کے استعمال میں لا رہے ہیں علی ہذا القیاس نت نئی ایجادات جو ہو رہی ہیں ان سب میں یہی قانون ہے کہ کوئی موجد ان میں تاثیر پیدا نہیں کرسکتا بلکہ عطیہ الٰہی کو معلوم کر کے استعمال کرتا ہے پس ممکن ہے کہ جس سواری پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ شریف سے بیت المقدس تک سفر کیا تھا اس میں کوئی ایسی قدرتی تاثیر ہو کہ چند گھڑیوں میں بیت المقدس تک پہنچ گئے ہوں پھر وہاں سے واپس مکہ شریف میں صبح ہونے سے پہلے ہی تشریف لے آئے ہوں۔ سائنس کی کون سی دلیل اس سرعت حرکت سے مانع ہے بحالیکہ حرکت کی سرعت یوماً فیوماً ترقی پر ہے۔ یورپ اور امریکہ کے فلاسفر اور موجد سخت بیتاب ہیں کہ حرکت کی انتہا معلوم کر کے اس کو کمال سرعت کے درجہ پر پہنچایا جاوے۔ ہمارے خیال میں جب تک مدعیان کی طرف سے کوئی قطعی دلیل اس امر پر قائم نہ ہولے کہ سرعت حرکت کی حد بس یہی ہے جو آج تک دریافت ہوئی ہے تب تک ان کا حق نہیں کہ ہم سے کوئی دلیل اسراء جسمانی پر طلب کریں۔ کیا وہ کوئی دلیل لا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ علاوہ اس کے واضح دلیل واقعہ معراج کی صحت پر یہ ہے کہ سائنس مانتی ہے کہ جو حرکت ایک قوت سے گھنٹے میں ہوتی ہے وہی حرکت اس سے مضاعف (دگنی) قوت کے ساتھ نصف گھنٹے میں حاصل ہوسکتی ہے علی ہذا القیاس اس سے دگنی قوت سے اس سے نصف وقت میں۔ ایسا ہی اس سے دگنی قوت سے اس سے نصف وقت میں غرض جس قدر قوت محرکہ قوی ہوگی اسی قدر حرکت کم وقت میں ہوگی جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ وند تعالیٰ کی قوت سب سے اقویٰ ہے تو کچھ شک نہیں رہتا کہ اللہ کے کام اور حرکات سب حرکتوں کے وقت سے کم وقت میں ہوسکتے ہیں۔ فافھم وتدبر۔ (منہ) الإسراء
2 (2۔3) ہم نے بنی اسرائیل پر جو عربوں کے بھائی بند ہیں کئی ایک قسم کے ان گنت احسان کئے تھے اور حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی اور اسکو بنی اسرائیل کے لئے ہم نے ہدائت نامہ بنایا پہلا حکم اس میں یہ تھا کہ اسے نوح کے ساتھیوں کی اولاد اسرائیلیوں جن کو ہمنے نوح کے ساتھ بیڑی پر سوار کیا تھا اور غرق ہونے سے بچایا تھا میرے یعنی اللہ کے سوا کسی کو اپنا متولی اور کا رساز نہ بنائیو تمہیں معلوم نہیں کہ تم کس کے ساتھی ہو تم نوح کے ساتھی ہو بیشک وہ بڑا شکر گذرار بندہ تھا الإسراء
3 الإسراء
4 (4۔8) اور ہم نے اسی کتاب میں بنی اسرائیل کو اطلاع کردی تھی کہ تم دو دفعہ شریعت کی مخالفت سے ملک میں فساد کرو گے اور بہت ہی سر اٹھائو گے پھر جب پہلی دفعہ تمہاری گت ہونے کو آویگی تو ہم اپنے بندوں میں سے ایک قوم کو جو سخت لڑاکے ہونگے تم پر بھیجیں گے پھر وہ تمہارے ملک میں پھیل جائینگے اور سمجھ رکھو کہ یہ وعدہ کیا جا چکا ہے اس میں ذرا بھی تخلف اور قصور نہ ہوگا ایک دفعہ پھر ہم تم کو ان پر فتح دینگے اور تمکو مال اور اولاد سے مدد کریں گے اور بہت بڑے جتھے والے بنائیں گے کہ تمہاری تعداد گنی نہ جائے گی۔ غرض تمہارے دن بھلے آئیں گے اور تم بھی دنیا میں ایک زندہ قوم سمجھے جائو گے لیکن یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے نیک کام کئے تو اپنے لئے کرو گے اور اگر برائی کرو گے تو اس کا بھی تم ہی پر وبال ہوگا پھر جب دوسری دفعہ کا وقت آویگا یعنی جب تم بدستور خرمستی کرنے لگو گے تو ہم پھر تمہارے دشمنوں کو تم پر غلبہ دینگے تاکہ وہ مار مار کر تمہارا منہ بگاڑ دیں اور مسجدبیت المقدس میں برباد کرنے کو گھس آوینگے جیسے وہ پہلی مرتبہ اس میں گھس آئے تھے اور جس چیز پر قابو پاوینگے توڑ پھوڑ دینگے غرض جہاں تک ان سے ہوسکے گا عام بربادی کرینگے۔ اس پر بھی امید ہے کہ اگر تم شرارت سے باز آئے تو تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے پھر وہی کام کئے تو ہم بھی تم کو وہی سزا دینگے جو پہلی مرتبہ دی تھی اور ابھی اس دنیاوی سزا کے علاوہ ہم نے کافروں کے لئے جہنم گھیر نے والی بنائی ہے جو کوئی اس میں داخل ہوا بس اس کی خیر نہیں پھر وہ اس سے باہر نہیں جا سکے گا الإسراء
5 الإسراء
6 الإسراء
7 الإسراء
8 الإسراء
9 (9۔22) یہ احکام تو ہم نے بنی اسرائیل کو بتائے تھے اب تم مکہ والوں سے خطاب ہے سنو ! کچھ شک نہیں کہ یہ قرآن شریف وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے عمدہ اور مضبوط ہے کسی دلیل عقلی یا نقلی سے غلط نہیں ہوسکتا بلکہ براہیں عقلیہ سے مدلل ہے اور ایمانداروں کو جو ایمان لا کر اخلاص کامل سے نیک عمل بھی کرتے ہیں قرآن سریف ان کو خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر اور ثواب ہے اور یہ خبر بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ دوسری زندگی یعنی قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کیلئے ہم نے دکھ کی مار تیار کی ہے لیکن یہ سب کچھ سن سنا کر بھی نالائق لوگ پروا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ سرکشی کرتے ہیں اصل یہ ہے کہ انسان کی خو خصلت ہی ایسی ہے دیکھو تو اسکی جہالت کہ یہ نالائق انسان بسا اوقات اپنے حق میں برائی کی دعا ایسی کرتا ہے جیسی بھلائی کی کیا کرتا ہے غصے میں جلدی سے اپنی اولاد کے حق میں بھی بد دعا کرنے لگ جاتا ہے کہ اللہ تم کو ہلاک کرے تمکو یہ کرے وہ کرے میں ہلاک ہوجائوں وغیرہ وغیرہ چونکہ اس وقت جہالت کا اس پر غلبہ ہوتا ہے اس لئے اپنے نفع نقصان نہیں سمجھتا اور اصل میں انسان جلد باز بھی ہے ہر بات میں جلدی چاہتا ہے یہاں تک کہ قدرتی افعال ہیں ردو بدل چاہتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ ہم نے دنیا میں مختلف قسم کی پیدائش بنائی ہوئی ہے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی فائدہ متصور ہے دیکھو تو ہم نے دن اور رات کو اپنی قدرت کے دو نشان بنائے ہیں کہ ایک میں اعلی درجہ کی روشنی ہے ایسی کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی دوسری میں سخت اندھیرا ہے ایسا کہ بعض اوقات آدمی کو اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہیں دیتا پھر ہم رات کا نشان مٹا کر دن کو واضح اور روشن کرتے ہیں تاکہ تم بذریعہ کسب اور ہنر دن کے وقت میں اپنے پروردگار کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔ اور مہینوں اور برسوں کی گنتی اور روزانہ حساب بھی معلوم کرسکو اور اس سے علاوہ اور کئی قسم کے فوائد ہیں جن کو تم نہیں سمجھ سکتے مگر ہم نے ہر ایک چیز کو مفصل جانا ہوا ہے کیا مجال کہ کوئی چیز ہمارے علم سے باہر ہوسکے مگر نالائق انسان ہر طرح سے شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ ہم نے ہر ایک انسان کے اعمال نیک ہوں یا بد اس کے گلے کے ہار بنا دئیے ہیں مجال نہیں کہ کوئی کام خواہ کتنے ہی پردوں میں کیا ہو ضائع یا گم ہوسکے اور قیامت کے روز ہم اس کی کتاب اعمال کی نکالیں گے وہ اس کو اپنے سامنے کھلا پاوے گا ایسا کہ کوئی کام اس کا ایسا نہ ہوگا جو اس کتاب میں نہ ہوا اس کو حکم ہوگا کہ اپنی کتاب اعمال پڑھ لے تو آج اپنا حساب کرنے کو آپ خود کافی ہے پس سنو کہ جو کوئی اس روز کے ڈر سے ہدائت پاتا ہے اور عمل نیک کرتا ہے وہ صرف اپنے ہی لئے ہدائت پاتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور کسی کو نہیں اور جو گمراہ ہے داس کا وبال بھی اسی پر ہوگا اور کسی پر کیا ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو قاعدہ مقرر ہے کہ کوئی نفس کسی نفس کا بوجھ نہیں اٹھائیگا اور اگر یہ خیال ہو کہ اللہ یوں ہی کسی کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے تو سنو ! ہم کسی قوم کو عذاب اور مواخذہ نہیں کیا کرتے جب تک ان کی طرف رسول نہ بھیجیں پھر وہ لوگ اس رسول کے ساتھ مخالفت اور عناد و شقاق سے پیش آتے ہیں تو غضب الٰہی کا حکم ان پر لگ جاتا ہے اور سنو ! جب کسی بستی کی بد عملیوں اور شامت اعمال پر ان کو تباہ اور ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس بستی کے امیروں اور آسودہ لوگوں کو اور زیادہ بڑھاتے ہیں ایسے کہ پھر وہ اس بستی میں جی کھول کر بدکاریاں کرتے ہیں پس ان پر عذاب کا حکم لگ جاتا ہے پھر ایک ہی دفعہ ہم سب کو تباہ کردیتے ہیں ایسے کہ ان کا نام لیوا بھی کسی کو نہیں چھوڑتے۔ اس کی نظیر سنو ! حضرت نوح (علیہ السلام) سے پیچھے کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کی ہیں یہ نہیں کہ بے گناہ ہی تباہ کردیں بلکہ ان کی شرارتوں کی وجہ سے کیں گو لوگ بوجہ نادانی اور بے خبری کے ان کو بے گناہ جانیں مگر تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے پورا خبردار اور دیکھنے والا ہے اسے کسی کے بتانے کی حاجت نہیں ہمارے یعنی اللہ کے ہاں یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو کوئی اپنے کردار و اعمال سے دنیا میں جلدہی بدلہ کا طالب ہوتا ہے یعنی صرف وہی کام کرتا ہے جو اسکو دنیا ہی میں نافع اور مفید ہوں اور دین کی طرف اس کو ذرہ بھی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ وہ چاہتا ہے بلکہ ایسی باتوں کو ملائوں کی سی باتیں کہکر نہایت حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے تو ہم بھی ایسے نالائقوں کو اسی دنیا میں جلدی بدلہ دیدیتے ہیں جس کو ہم چاہتے ہیں کئی ایک دنیاوی کوشش میں بھی ناکام رہتے ہیں چنانچہ یہ امر مشاہدہ میں بھی اسی طرح ثابت ہے لیکن ایسے کو تہ اندیش کو جو صرف دنیا ہی کا طالب ہو اور دین اور آخرت کا راغب نہ ہو تھوڑا سا اس دنیا میں ہم دے دلا کر آخرت کی دائمی نعمتوں سے اس کو محروم کردیتے ہیں پھر اس کے لئے جہنم مقرر کردیتے ہیں جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوگا وہاں چیخے چلائے گا کچھ مفید نہ ہوگا اور جو آخرت کا ارادہ کرے مگر نہ صرف ارادہ ہی ارادہ ہو کہ ابھی جنت میں چلا جائوں اور نیک کام کرے کرائے کچھ بھی نہیں بقول شخصے ؎ جی عبادت سے چرانا اور جنت کی ہوس تو ایسے بوالہوس کو کہا جا ویگا ؎ کام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی ہوس بلکہ اسی دھن میں رہے اور اسکے مناسب کوشش کرے اور ایماندار بھی ہو یعنی جو کچھ کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے کرے نہ کہ کسی کے دکھاوے کو پس ان لوگوں کی محنت اور سعی اللہ کے ہاں مقبول ہوگی یوں تو ہم اپنی عامہ عطاء اور ربوبیت کے صیغے سے ان میں سے ہر ایک کو دنیا کا طالب ہو یا آخرت کا اپنی مہربانی سے مدد دیتے ہیں یہ ہوں یا وہ ہوں کسے باشد ربوبیت کے صیغے میں سب برابر ہیں انہی معنے سے تو تیرے پروردگار کی عطا اور تربیت کسی سے بند نہیں کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا چناں پہن خوان کرم گسترد کہ سمیرغ اور قاف قسمت خورد دیکھو تو ہم نے ایک کو دوسرے پر کیسی فضیلت دی ہے مگر افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر جو اس دنیاوی فضیلت اور ظاہری اعزاز اور وجاہت پر غرہ ہوجاتے ہیں اور فرعون بے سامان بنکر اہل دین پر غراتے ہیں اور مسخریاں کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ آخرت اپنے درجوں اور فضیلتوں میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہے دنیا کا اس سے مقابلہ ہی کیا؟ مقابلہ کے نام سے شرم چاہئے پس اسے مخاطب اگر تو آخرت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مت بنائیو ورنہ تو ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں بیٹھے گا الإسراء
10 الإسراء
11 الإسراء
12 الإسراء
13 الإسراء
14 الإسراء
15 الإسراء
16 الإسراء
17 الإسراء
18 الإسراء
19 الإسراء
20 الإسراء
21 الإسراء
22 الإسراء
23 (23۔40) سنو ! یہ کوئی معمولی حکم نہیں بلکہ ایسا یینی اور قطعی ہے کہ تیرے پروردگار نے یقینی حکم دے رکھا ہے کہ میرے سوا کسی کی عبادت مت کریو اور اسی سے دوسرے درجہ پر یہ حکم ہے کہ اپنے ماں باپ سے سلوک کریو اگر ان میں کا ایک یا دونوں تیری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچیں اور تجھ سے خدمت کے خواستگار ہوں تو ان کی خدمت کرتا ہو اف ہائے تک بھی نہ کہیو اور نہ ان کو جھڑکیو اور ان کو عزت سے مخاطب کیا کریو ورنہ انکی ذرہ سی بھی دل شکنی ہوئی تو تیری خیر نہیں اور محبت سے انکے آگے جھک جایا کریو اور اسی پر بس نہیں کہ دنیا ہی میں انکی خاطر تواضع پر بس کر جایو بلکہ آخرت کے متعلق بھی ان کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ تاکہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے لڑکپن میں پرورش کیا ایسا کہ میری ذرہ سی تکلیف پر اپنا آرام بھول جاتے تھے تمام رات بھی گذر جائے تو مجھے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے میرے آرام پر اپنا آرام قربان کرتے تھے پس اے میرے پروردگار تو بھی ان پر ایسی ہی مہربانی کر بعض لوگ صرف دکھاوے کو لوگوں سے شرماتے ہوئے ماں باپ سے ظاہر داری کیا کرتے ہیں مگر دل سے انکی تعظیم اور محبت نہیں کرتے سو یاد رکھو تمہارا پروردگار تمہارے دلوں کے راز خوب جانتا ہے اگر تم واقعی نیک اور صالح ہو گے اور دل سے ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے پیش آئو گے تو وہ پروردگار تمہارا بھی نیک بختوں کیلئے بخشنہار ہے انکی لغزشوں اور بھول چوک کو معاف کر دے گا تیسرے درجہ پر یہ حکم ہے کہ ناتے والوں اور مسکینوں اور غریب عاجز مسافروں کے حقوق ادا کیا کرو یعنی ان سے بھی حسن سلوک سے پیش آیا کرو اور فضول خرچی میں مال و دولت ضائع مت کیا کرو جس جگہ خرچ کرنے کی شریعت اجازت نہ دے اس جگہ ایک کوڑی بھی خرچ کرو گے تو فضول خرچ بن جائو گے اور جس جگہ شریعت کی اجازت ہو وہاں پر تمام مال کے خرچ کرنے سے بھی فضول خرچی کا الزام عائد نہ ہوگا کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا نہ بے حکم شرع آب خوردن خطاست اگر خون بفتویٰ بریزی رواست کچھ شک نہیں کہ فضول خرچ شیطان جیسے بے زبانوں کے ساتھی ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بالکل نا شکرا ہے پس اس کا ساتھی بننا گویا اللہ کے ناشکروں میں داخل ہوتا ہے پس تم ایسا کام مت کرنا اور اگر کوئی وقت آپڑے کہ تم اپنے قریبیوں اور حقدداروں کے حقوق ادا نہ کرسکو بلکہ اپنے پروردگار کی مہربانی یعنی کسی طرف سے روپیہ وغیرہ کی آمد کے انتظار میں ان کے دینے سے منہ پھیر و یعنی ایسا موقع آپڑے کہ تمہارے پاس کچھ موجود نہ مگر کہیں سے رقم تم کو پہنچنے والی ہو جسکی تم امید رکھتے ہو تو ایسے وقت میں انکو نرم بات کہا کرو اور سمجھا دیا کرو کہ بھائیو آجکل ہمارا ہاتھ تنگ ہے تھوڑے دنوں تک ہم انشاء اللہ تم سے سلوک کر دینگے۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ نہ تو بالکل اپنے ہاتھوں کو گردن سے باندھ رکھا کرو کہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دیا کرو کہ جو کچھ ہاتھ میں آیا گلی میں کھایا بفحوائے قرار در کف آزادگاں نگیر دمال چوں صبر دردل عاشق و آب در غربال سب کچھ اڑا دیا نہیں تو تم شرمندہ اور ضرورت کے وقت عاجز ہو کر بیٹھ رہو گے سنو ! اپنے مال و دولت پر ناز نہ کیا کرو بلکہ اصل بات یہ دل میں جما رکھو کہ تمہارا پروردگار ہی جس کو چاہے رزق فراخ دیتا ہے اور جسکو چاہے تنگ کردیتا ہے سب چیزوں پر اسی کا قبضہ و تصرف ہی ایسے ویسے خیالات اور بیہودہ پخت و پز کرنیوالوں کو وہ دوسری طرح بھی سیدھا کرو یا کرتا ہے اسے کسی کے بتلانے اور سمجھانے کی بھی حاجت نہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب خبردار اور دیکھتا ہے پس اس کے حکموں کی اطاعت کرو اور اسی کے ہو کر رہو اور سنو ! اپنی اولاد یعنی لڑکیوں کو اپنے افلاس کے خوف سے قتل مت کرو کہ ہائے ہم کہاں سے اتنا لائین کہ انکی شادیوں میں داج دہیج دیں گے ہم (اللہ) ہی تو ان کو اور تم کو رزق دیتے ہیں کیا تم اپنے آپ کو ان کا رزاق سمجھتے ہو بڑی غلط رائے ہے یاد رکھو کہ انکا قتل بہت ہی بڑا گناہ ہے (عرب کے لوگ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر سخت کبیدہ خاطر ہوتے تھے یہاں تک کہ اگر موقع ملتا تو قتل بھی کردیتے چنانچہ ان کے حق میں یہ کہنا بہت ٹھیک ہے۔ وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی ان کے سمجھانے کو اور ان کو اس فعل قبیح سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اور سنو ! زنا اور بدکاری یعنی لواطت وغیرہ سے تو ایسے دور رہو کہ اسکے نزدیک بھی نہ جایا کرو کیونکہ یہ بے حیائی ہے اور بہت برا طریق ہے اس زنا کاری سے بہت فساد پھیلتا ہے اولاد حرامزادی ہوتی ہے اور بازاری عورتوں سے اکثر اوباشوں کو آتشک بھی ہوجاتا ہے جس سے تمام عمر بھر تکلیف میں رہتے ہیں بلکہ آئندہ کو ان کا تخم جل کر اولاد کے قابل نہیں رہتا پس تم نے ایسا مت کرنا اور اور کسی جان کو جس کا مارا اللہ نے حرام کیا ہے بے وجہ شرعی کے مت مارا کرو ہاں جس کے مارنے کی شرع اجازت دے اس کو بحکم حاکم مار دینا جائز ہے جیسے بے قصور انسان کا قاتل کیونکہ جو کوئی مظلوم اور بے گناہ مارا جائے ہم اسکے وارثوں کے حق میں ڈگری دیں گے یعنی وہ اس مظلوم کا تین طرح سے عوض رکھتا ہے۔ مال سے خون سے معافی سے چونکہ اسے تین باتوں کا اختیار ہے پس وہ قتل میں جلدی اور زیادتی نہ کرے شاید اس کا جوش کسی وجہ سے اتر جائے اور معاف کر دے یا عوض لیکر چھوڑ دے ایک خون تو ہوا ہے دوسرا بھی کیوں ہو ہاں اس میں شک نہیں کہ سرکار کی طرف سے وہ مدد کا حقدار ہے یہ نہیں کہ اس کی حق تلفی ہوگی یا بغیر اس کی رضا کے کوئی کام ہوسکے گا۔ اور سنو ! قتل انسان بجائے خود بڑا گناہ مگر اس کے لگ بھگ اور بھی ہیں مثلا یتیموں کا مال کھا جانا سودے میں دغا کرنا وغیرہ پس تم لوگ یتیم کی ہر طرح خیر خواہی کیا کرو ایسی کہ اس کے مال کو کھا جانا تو بجائے خود اسکے پاس بھی نہ جائو یعنی کسی ایسی ویسی دعوت میں بھی شریک نہ ہوا کرو جس میں شبہ ہو کہ یتیم کے مال سے کچھ خرچ ہوا ہوگا لیکن جو طریق یتیم کے حق میں بہتر اور مفید ہو یعنی اس کے مال کو تجارت پر لگا کر بڑھائو جس سے اس کو فائدہ ہو اور تم بھی اگر غریب ہو تو اس میں سے اپنا حق الخدمت لے لیا کرو زیادہ نہیں یہ روک جب تک ہے کہ وہ یتیم اپنی قوت اور جوانی کو پہنچ جائے یعنی ہوش سنبھال کر بالغ ہوجائے تو پھر اسکے ساتھ دوستانہ برادرانہ برتائو سے تحفہ تحائف دو اور لو تو جائز ہے مگر اس سے پہلے نہیں اسکے علاوہ ایک اور ضروری اور اعلیٰ اخلاقی حکم سنو ! وہ یہ ہے کہ وعدے پورے کیا کرو جس کسی سے عہد کرو پورا کرو مگر جو عہد خلاف شرع ہو اس کی پرواہ نہ کرو مثلا کسی بدمعاش سے تم نے وعدہ کرلیا کہ آج ملکر شراب پئیں گے اب وہ ایفائے عہد تم سے چاہتا ہے تو ایسے وعدوں کی پروا نہ کرو اور شراب خوری سے اپنی خواری مت کرائو کچھ شک نہیں کہ اللہ کے ہاں وعدے سے تم کو سوال ہوگا کہ پورا کیوں نہ کیا مگر جو وعدہ جائز ہوگا اسی سے سوال ہوگا ناجائز سے نہیں اور سنو تمدن میں بڑا ضروری کام یہ ہے کہ جب تم ماپ کر کوئی چیز دینے لگو تو پورا دیا کرو اور جب وزن کر کے دینے لگو تو سیدھی ترازو سے وزن کیا کرو یہ طریق تمہارے حق میں بہت خوب ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے کہ دکان کی نیک نامی سے دنیا میں بھی نفع ہے اور عقبیٰ میں تو بہت بڑا فائدہ ہوگا اور سنو معمولی بازاریوں کی طرح اناپ شناپ کرتے ہوئے ایسی باتوں کے پیچھے مت پڑا کرو جن کا تم کو یقینی علم نہ ہو مثلا یوں ہی سن لیا کہ فلاں شخص تم سے عداوت رکھتا ہے بس اسی پر جم گئے۔ یہ بالکل فضول باتیں ہیں ایسی باتوں کو بالکل کانوں میں مت ڈالا کرو سنو ! کان آنکھ اور دل وغیرہ ہر ایک عضو سے سوال ہوگا کہ اس کو کہاں کہاں تم نے استعمال کیا تھا؟ بس اس بات کا خیال رکھا کرو اور سنو ! زمین پر اکڑ اکڑ کر متکبرانہ وضع سے نہ چلا کرو ایسے کہ دوسروں کو تم حقیر سمجھو اور وہ تم کو بے وقوف اور مغرور جانیں بھلا غور تو کرو ایسی متکبرانہ روش سے تم کہیں زمین کو تو نہ پھاڑ سکو گے اور طول میں پہاڑ کے برابر نہ ہوجائو گے آخر کرو گے کیا؟ گردن بلند کر کے چلو گے تو کیا کرو گے کئی ایک درخت ایسے ہیں جو تم سے ہر طرح قدوقامت میں سر بلند ہیں کئی ایک حیوان تم سے اونچے ملیں گے بہت سی دیواریں تم سے لمبائی میں بڑی ہونگی پہاڑ تو خیر بہت ہی بلندی پر ہیں پھر ایسا کرنے سے فائدہ کاہ سنو ! ایسے نا شائستہ کام چھوڑ دو ان سب کی برائی تمہارے پروردگار کو ناپسند ہے اے رسول ! یہ باتیں عقل و حکمت کی ہیں جو تیرا پروردگار تیری طرف بذریعہ وحی اور الہام کے بھیجتا ہے پس تو بھی ان پر عمل کیا کر اور اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہ بنائیو ورنہ شرمندہ اور ذلیل ہو کر تم جہنم میں ڈالے جائو گے یاد رکھو صرف یہی ایک شرک نہیں کہ اللہ جیسا اوروں کو سمجھا جائے بلکہ یہ بھی شرک ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دی جائے بیٹے اور بیٹیاں اس کیلئے بنائے جائیں جیسے تم (عرب کے) لوگ کہتے ہو کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا تمہارے پروردگار نے تم کو بیٹوں کے لئے منتخب کیا ہے اور خود اپنے لئے فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لی ہیں یہ ہوسکتا ہے؟ کہ اعلیٰ قسم تم کو دے اور ادنیٰ درجہ خود لے سنو ! یہ بالکل واہیات بات ہے اور اس میں ذرہ شک نہیں کہ تم ایک بہت ہی بڑی بیہودہ بات کہتے ہو ایسی کہ اس پر اللہ کا غضب نازل ہو آسمان و زمین گر پڑیں اور سب لوگ تباہ ہوجائیں تو بجا ہے الإسراء
24 الإسراء
25 الإسراء
26 الإسراء
27 الإسراء
28 الإسراء
29 الإسراء
30 الإسراء
31 الإسراء
32 الإسراء
33 الإسراء
34 الإسراء
35 الإسراء
36 الإسراء
37 الإسراء
38 الإسراء
39 الإسراء
40 الإسراء
41 (41۔60) ہر چندان بیوقوفوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی اور قرآن شریف میں ہر ایک ہدایت کی بات کو کھول کھول کر ہم (اللہ) نے بتلایا تاکہ یہ کسی طرح سمجھیں مگر انکو کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ انکو دین حق سے نفرت ہی زیادہ ہوئی ہے کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ ان کے دلوں میں کفرو شرک کی بنیاد مضبوط جگہ پکڑ چکی ہے اور قرآن شریف ان واہیات خیالات کا رد کرتا ہے پس یہی وجہ نفرت کی ہے اے نبی بطور نصیحت تو ان سے کہہ کہ اگر اللہ کے ساتھ یعنی اس کے ہوتے ہوئے اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ مشرک کہتے ہیں تو فورا اللہ مالک الملک نے ذوالجلال والاکرام کی طرف چڑھنے کی راہ نکالتے کہ کسی طرح اس پر غالب ہوں کیونکہ الہ یا اللہ کی ذات کو اس سے عار ہوتی ہے کہ کسی کی ماتحت رہ سکے اللہ اور معبود کیا اور ماتحی کیا؟ کیونکہ ماتحتی عجز کی علامت ہے اور عجز الوہیت کی صریح نقیض ہے بس اگر کوئی شخص معبود کہلا کر کسی کا ماتحت ہے تو عاجز ہے اور عاجز معبود نہیں پس اگر چند معبود دنیا میں ہوتے تو ضرور فساد ہوجاتا آپس میں کٹ مرتے اور مخلوق تباہ ہوچکتی سنو ! وہ اللہ ایسے حالات سے پاک ہے اور انکی بیہودہ گوئی سے جو یہ کہتے ہیں بہت بلند ہے اسکے دامن قدس تک اسکا غبار بھی نہیں پہنچ سکتا وہ تو ایسی ذات ستو دہ صفات ہے کہ تمام ساتوں آسمان اور زمینیں اور جو ان میں رہتے ہیں اسکو پاکی سے یاد کرتے ہیں بنی آدم ہی پر حصر نہیں دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب اسکی تعریف کے گیت گاتی ہیں مگر تم بوجہ اسکے کہ انکے محاوروں سے واقف نہیں ہو انکی تسبیح نہیں سمجھ سکتے ہاں اس امر پر یقین رکھو کہ وہ اللہ بڑاہی بردبار اور بخشنے والا ہے جو کوئی اسکا ہو رہے وہ اسپر مہربان بھی ہے اور جو اس سے ہٹے اسکی اسے بھی پروا نہیں یہی وجہ ہے کہ کافر فاسق بدمعاش اور آوارہ گرد قرآن سے مستفید نہیں ہوسکتے اور جب تو اے رسول قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے درمیان اور آخرت کے منکروں کے درمیان ایک مخفی پردہ کردیتے ہیں جو لوگوں کی آنکھوں سے مستور ہوتا ہے یعنی ان کی عبادت اور جہالت اور حق سے عناد سب مل کر انکو فہم مطالب سے مانع ہوتے ہیں اور ہم (اللہ) انکے دلوں پر غلاف اور کانوں میں ایک قسم کا بوجھ ڈال دیتے ہیں مگر وہی جو دیکھنے میں نہیں آتا تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھیں لیکن یاد رہے کہ یہ سب کچھ جو ان نالائقوں سے کیا جاتا ہے اپنے اپنے سبب سے وجود پذیر ہوتا ہے یعنی بے پرواہی سے جہالت اور جہالت سے حق کی عداوت اور عداوت سے دل کی غفلت مگر چونکہ ان سب اسباب کا مسبب اور علۃ العلل ذات باری جل شانہ ہے اسلئے وہ ان سب حوادثات کو اپنی طرف نسبت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں ورنہ ان لوگوں کی بے ایمانی خود ان کی اس سزا کی متقاضی ہے کیا تو نہیں جانتا کہ یہ لوگ کیسے کیسے افعال شنیعہ کرتے ہیں اللہ کے سوا اسکی مخلوق کو پوجتے ہیں۔ بڑی بھاری وجہ ان کی اس گمراہی کی یہ ہے کہ اللہ کی پاک توحید سے منکر ہیں اور جب تو قرآن میں اپنے واحد پروردگار کو بغیر کسی ساجھی اور شریک کے یاد کرتا ہے تو نفرت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں جو کچھ یہ کرتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں جس نیت سے تیرے پاس آکر کلام سنتے ہیں جس وقت یہ تیری طرف کان لگاتے ہیں اور جس وقت یہ مشورے اور سر گوشیاں کرتے ہیں۔ یعنی جس وقت ظالم اور بدمعاش بے ادب گستاخ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ میاں تم تو معاذ اللہ ایک مخبوط الحواس آدمی ( محمد علیہ السلام) کے پیچھے چل رہے ہو ان سب واقعات اور ان کی ہر ایک قسم کی باتوں کو ہم خوب جانتے ہیں اسی کے موافق ان کو نتیجہ ملے گا دیکھ تو کس طرح کی تیرے حق میں بیہودہ مثالیں دیتے ہیں چونکہ ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے پس یہ ایسے گمراہ ہوئے ہیں کہ راہ حق نہیں پاسکیں گے۔ تیرے حق میں تو یہ بکواس کرتے ہی تھے اللہ کی قدرت میں یوں شک کرتے ہیں کہ اس کے جزا و سزا کے وعدوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کیا جب مر کر ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے تو اس کے بعد ہم پھر کسی نئی پیدائش میں اٹھائے جائیں گے؟ بھلا ایسا کبھی ہوسکتا ہے؟ تو ان نادانوں کو کہہ اللہ ضرور ایسا ہی کریگا تم چاہے پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور چیز جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہو تب بھی وہ تم کو دوبارہ زندہ کر ہی لے گا پس یہ جواب سن کر کہیں گے بھلا کون ہم کو دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو کہیو وہی اللہ مالک الملک جس کے قبضہ قدرت میں تمام جہان کی حکومت ہے اور جس نے تم کو پہلی دفعہ ماں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے پھر یہ سن کر جواب تو کچھ دے نہ سکیں گے مگر تیری طرف سر جھکا کر کہیں گے بھلا وہ دن کب ہوگا جو تو کہتا ہے تو کہئیو کیا عجب کہ قریب ہی ہو مجھے اس کی تاریخ تو معلوم نہیں البتہ اتنا بتلاتا ہوں جس دن وہ (اللہ) تمہیں زندہ کرنے کو بلاوے گا تو تم اسکی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور تم اس وقت سمجھو گے کہ دنیا میں بہت تھوڑی مدت ٹھہرے تھے پس اے نبی ان سے تو اتنی ہی بات پر بس کر اور میرے (یعی اللہ کے) نیک بندوں کو کہہ کہ مخالفوں سے بات چیت اور بحث و مباحثہ کرتے ہوئے بہت ہی نیک اور درست بات کہا کریں ) مسحور سے مراد مخبوط الحواس ہے نہ کہ جادو شدہ کیونکہ دوسری آیت میں أُم بہ جنۃ کفار کا قول ہے یعنی آنحضرت کی طرف جنون کو منسوب کیا ہے ان دونوں آیتوں کے ملانے سے ثابت ہوا کہ مسحور سے مراد مخبوط الحواس ہے۔ پس جس حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت پر جادو کیا گیا تھا وہ اس آیت کے برخلاف نہیں فافہم (منہ) ( کیونکہ ایسی ویسی سخت گوئی کرنے سے شیطان ان میں فساد ڈلوا دے گا پھر جو فائدہ مباحثات اور مناظرات سے مد نظر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اس لئے کہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔ سخت گوئی سے تمہارے مخاطبوں کو طیش آئے گا جس کے باعث وہ ہدائت سے رک جاویں گے اور تم بھی اس گناہ میں مبتلا ہو گے کہ تمہاری وجہ سے لوگ ہدائت سے رکے پس تم ہرگز ہرگز سخت کلامی نہ کیا کرو تمہارا پروردگار تم کو خوب جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم سب پر رحم فرمادے اور اگر چاہے تو تم کو عذاب میں مبتلا کرے مگر وہ زور سے کسی پر ناحق ظلم نہیں کیا کرتا بلکہ جو جس لائق اور قابل ہوتا ہے اس کو دیتا ہے اور ہم نے تجھ کو (اے رسول) ان پر ذمہ دار افسر کرکے تو نہیں بھیجا کہ ان کو زبردستی مسلمان ہی بنا بلکہ صرف پہنچا دینا تیرا کام ہے پڑے جھک ماریں اپنا سر کھائیں نہ مانیں تیرا کیا لیں گے؟ تمہارا پروردگار تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو خوب جانتا ہے گو ہم نے بہت سے نبی بھیجے اور ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر بزرگی اور فضیلت بھی دی ہے اور حضرت دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی مگر ان میں بھی کوئی اس درجہ پر نہ تھا کہ بندوں کی حاجت میں دخیل ہوسکتا تو ان سے کہہ کہ اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم اختیار والے جانتے ہو ان کو پکارو اور ان سے دعائیں مانگو پھر دیکھیں کہ وہ تمہیں کیا دیتے ہیں یاد رکھو پکار نا تو کیا چلائو بھی تو پھر بھی وہ تم سے تکلیف دور نہ کرسکیں گے اور نہ پھیر سکیں گے چاہے ان میں کتنے کتنے اعلیٰ درجے والے بزرگ لوگ بھی ہیں حضرت مسیح اور عزیر اور شیخ عبد القادر جیلانی جیسے صالح لوگ بھی تو یہ نہیں کرسکتے بلکہ جن لوگوں کو یہ لوگ ( مشرکین اور یہود و نصاریٰ) اپنی اپنی حاجات کے لئے پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی عبادت کرنے سے ان کے پاس قرب چاہتے تھے اور اسی فکر میں رہتے تھے کہ کون بہت نیک کام کر کے اپنے پروردگار کا زیادہ مقرب ہے اور اسی پروردگار کی رحمت کی امید کھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے تھے۔ کیونکہ تیرے پروردگار کا عذاب واقعی ڈرنے کی چیز ہے اور اگر یہ لوگ اسی شرارت اور بد معاشی پر جمے رہے تو ایک نہ ایک دن تباہ کئے جاویں گے کیونکہ دنیا میں جو کوئی بستی یا قوم ہے ان کو ہم ضرور بالضرور قیامت سے پہلے پہلے تباہ یا سخت عذاب میں مبتلا کرنیوالے ہیں جیسے جیسے ان کے اعمال ہونگے ویسا ان سے برتائو کیا جا وے گا یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے اور اس کے علم میں ایسا ہی آچکا ہے پس ان کو چاہئے کہ ہوش سنبھالیں اور بار بار شرارت کے سوال نہ کیا کریں۔ یہ جو بار بار اور باوجود معجزات دیکھنے کے بھی معجزے مانگتے ہیں اور طرح طرح کے سوال کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ تو آسمان پر چڑھ جا کبھی کہتے ہیں تو صفا مروہ دو پہاڑوں کو سونے کے بنا دے ہمیں اس قسم کے معجزات بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں بجز اس کے کہ پہلے لوگوں نے ان جیسے فرمائشی معجزات کو نہ مانا تھا۔ جس پر ان کی ہلاکت ہوئی مگر چونکہ ان موجودہ لوگوں سے یا ان کی نسل سے ہم نے اسلام کی خدمت بھی لینی ہے اس لیے ہم ایسے فرمائشی معجزے اور نشان نہیں بھیجتے ورنہ پہلے نبیوں کو تو ہم نے کئی ایک معجزے دئیے اور ہم نے ثمود کی قوم کو حضرت صالح کی معرفت ایک اونٹنی کا کھلا نشان دیا جو کسی خاص صورت میں اس کی دعا سے پیدا٭ ہوئی تھی مگر پھر بھی انہوں نے اس سے انکار ہی کیا پس ہلاک ہوگئے اور ہم ہلاکت سے پہلے ایسے واضح نشان صرف ڈرانے ہی کو بھیجا کرتے ہیں جیسے فرعون کی ہلاکت سے پہلے حضرت موسیٰ سے کئی ایک معجزات ظاہر ہوئے تھے جن پر وہ ڈر کر وعدہ کرتا تھا کہ اگر یہ تکلیف ہٹا دیگا تو ہم تیری بات مان لیں گے لیکن جب ہٹ جاتی تو سب کچھ بھول جاتا مگر ابھی تک انکو تو صرف واقعات ہی سے ڈرایا جاتا ہے ) حضرت صالح کی اونٹنی کو کھلا نشان تو کہا گیا ہے مگر یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی پیدائش کس طریق سے ہوئی تھی جن لوگوں نے کہا ہے کہ پتھر سے سے نکلی تھی یہ ان کا محض اپنا خیال ہے۔ کوئی آیت یا حدیث اس دعویٰ کی سند نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس اونٹنی کی پد ائش کسی ایسے طریق سے تھی جو نبوت کے لئے واضح دلیل ہوسکے۔ (منہ) ( کیونکہ ان سے یا ان کی نسل سے اسلام کی خدمت اور دین کی اشاعت کا کام لینا ہے تجھے یاد نہیں؟ جب ہم نے تجھ سے کہا تھا کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے تمام لوگوں کو گھیر رکھا ہے ایک بھی ہمارے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہوسکتا تو تسلی رکھ آخر کار تیری ہی جے ہوگی اور تیرے چشم دید واقعہ کو جو شب معراج تجھے دکھایا گیا ان لوگوں کے حق میں ہم نے موجب ضلالت بنایا دراصل تھا وہ موجب ہدائت مگر یہ لوگ چونکہ اس سے معاندانہ پیش آئے اس لئے گمراہ ہوئے اور وہ ناپسندیدہ اور کریہہ تھوہر کا درخت جو جو قرآن میں مذکور ہے وہ بھی انکے حق میں موجب لغزش ہی ثابت ہوا قرآن میں تو اسکا ذکر عبرت کیلئے تھا مگر یہ لوگ اس پر ہنسی اور مخول کرنے لگے کہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جہنم کی آگ میں درخت بھی ہوں بجائے اس کے کہ اس سے عبرت حاصل کرتے اور ڈرتے الٹے اس پر مخول کرنے لگے اس لئے وہ بھی انکے حق میں مو جب مزید ضلالت ہی ثابت ہوا ہرچند تو بھی انکی ہدائت دل سے چاہتا ہے اور ہم بھی انکو کبھی عذاب سے کبھی واقعات کے سنانے سے ڈراتے ہیں مگر وہ ہمارا ڈرانا ان کو گمراہی اور سرکشی ہی زیادہ کرتا ہے سو یہ انکی بد بختی ہے بقول ہر چہ ہست از قامت نا ساز و بد انجام ماست ورنہ تشریف تو بر بالا سے کس کوتاہ نیست تیرا کچھ بگاڑنہیں سکیں گے اگر عداوت کریں گے تو کچھ نہیں کرسکتے حسد کریں گے تو کچھ نہیں۔ الإسراء
42 الإسراء
43 الإسراء
44 الإسراء
45 الإسراء
46 الإسراء
47 الإسراء
48 الإسراء
49 الإسراء
50 الإسراء
51 الإسراء
52 الإسراء
53 الإسراء
54 الإسراء
55 الإسراء
56 الإسراء
57 الإسراء
58 الإسراء
59 الإسراء
60 الإسراء
61 (61۔77) سنو ! تمہیں حاسد اور محسود کا ایک قصہ سناتے ہیں۔ جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو تعظیمی سجدہ یعنی سلام کرو بس ان سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس شیطان نے تکبر سے انکار کیا جو کچھ اس نے کیا محض حسد سے کیا کیا آدم کا بھی کچھ بگاڑا؟ ہرگز نہیں کمبخت نے بہانہ کیا کیا۔ بولا کیا میں ایسے کو سجدہ تعظیم کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟ حالانکہ میری پیدائش آگ سے ہے اور اگر بوجہ روشن ہونے کے مٹی سے ہر طرح اچھی اور افضل ہے یہ بھی اس نے کہا دیکھئے یہی آدم جس کو آپ نے مجھ پر فضیلت اور برتری دی ہے اللہ اگر مجھے قیامت تک زندگی دو تو میں باستشناء چند اس کی تمام اولاد کو برباد کردوں یعنی گمراہ کر دوں کیونکہ میں ان کی نبض سے واقف ہوں ان میں قوائے شہوانیہ اور اغراض نفسانیہ ہونے کی وجہ سے ایک سے ایک الگ ہونگے ہر ایک کی خواہش جدا ہوگی ایک سے ایک الگ ہوں گے ہر ایک کی خواہش جدا ہوگی ایک سے ایک کا میل نہ ہوگا پس ایسے بے پڑ ہر وں کو قابو کرنا کیا مشکل ہے اللہ نے فرمایا بھلا جا تو اپنا تمام زور لگا لے پس میں انہیں اطلاع کردوں گا کہ جو ان میں سے تیرا تابع ہو گہا تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو تمہاری کافی وافی سزا ہوگی جو تیرا زور ہے لگا لے اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے چلا لے اپنی آواز سے بہکالے اور اپنے سوار اور پیادے ان پر دوڑا لے اور ان کے مالوں اور اولاد میں بھی شریک ہولے یعنی مال و جان کی بھلائی برائی میں دوسروں کی طرف نسبت کرالے اور یہ کہلوالے کہ یہ فائدہ ہم کو فلاں بزرگ نے دیا ہے اور یہ لڑکا فلاں شخص نے بخشا ہے اور ایسے برے کاموں پر ان کو بڑے بڑے فراخی رزق اور صحت جسمانی کے وعدے سنائیو ہم بھی نبیوں کی معرفت ان کو اطلاع کردیں گے کہ شیطان جو لوگوں کو وعدے دیتا ہے سراسر دھوکہ ہے یعنی یہ جو کہتا ہے کہ فلاں بت قبر یا تعزیہ وغیرہ پر نذر چڑہائو گے تو تمہارے اڑے کام سنور جائیں گے حقیقت میں سب غلط ہے اڑے کاموں کے سنوارنے میں ان لوگوں کو کوئی دخل نہیں یہ بھی سن رکھ کہ گو عام طور پر لوگ اپنی جہالت اور کو تہ اندیشی سے تیرے دام میں پھنس جائیں گے مگر میرے نیک بندوں پر جو اپنے دلوں پر میری جبروت اور عظمت کا سکہ جمائے ہونگے تیرا زور ہرگز نہ چل سکے گا لوگو ! سنو ! اس مردود کی باتوں میں ہرگز نہ آنا اس کے دائوسے بچنے کی تدبیر یہ ایک ہی کافی ہے کہ تم دل میں یہ خیال بڑی پختگی سے جما رکھو کہ تمہارا پروردگار بندوں کی حاجات کو کارساز کافی ہے سنو ! عبادت کے لائق تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے فائدے کے لئے دریا اور سمندر میں بیڑے اور جہازات چلاتا ہے تاکہ تم بذریعہ تجارت اس کا فضل تلاش کرو یعنی بذریعہ بحری سفر کے تجارت میں منافع حاصل کرور زندگی آسودہ حالت میں گذاردو۔ دیکھو تو اس کی قدرت کہ اس نے دنیا کی پیداوار ہی ایسی بنائی ہے کہ جو اس ملک میں ہے اس ملک میں نہیں جو اس میں ہے اس میں نہیں تاکہ ادھر والے ادھر لے جاکر کمائیں اور ادھر والے ادھر لا کر فوائد حاصل کریں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ یعنی تمہارا پروردگار تمہارے حال پر بڑا ہی مہربان ہے باوجود یکہ وہ تمہاری شرارتوں سے واقف ہے تاہم تم کو رزق‘ عافیت‘ صحت اور تندرستی دیتا ہے اور جب تم کو دریا یا سمندر میں کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو اللہ کے سوا جن مصنوعی معبودوں کو تم پکارتے ہو سب کو بھول جاتے ہو پھر جب وہ تم کو خشکی پر لے آتا ہے تو تم منہ پھیر کر رو گردان ہوجاتے ہو اور ناشکری کرنے لگ جاتے ہو۔ اگر سچ پوچھو تو انسان بڑا ہی نا شکرا ہے گو اسی نوع انسان میں صلحا بھی ہیں نیک بھی ہیں نبی بھی ہیں۔ ولی بھی ہیں مگر بعض بلکہ اکثر ان میں شریر بھی ہیں۔ تم مکہ کے رہنے والے آج کل عموما پچھلی قسم سے ہو کیا تم خشکی پر پہنچ کر اس بات سے بے خوف ہوجاتے ہو کہ تم کو اس خشکی کے کسی کنارہ پر زمین میں دھسا دے یا مچل آندھی کے تیز ہوا تم پر چلا دے پھر تم اپنے لئے کوئی مددگار نہ پائو گے یا کیا تم اس بات سے بھی خاطر جمع اور بے خوف ہوتے ہو کہ ایک دفعہ تمکو پھر اسی دریا میں لیجاوے یعنی مثل سابق کسی ضرورت کو پھر کبھی تم اسی دریا میں جائو تو تم پر ایک تیز ہوا جھکڑکی سی بھیج کر تمہاری نا شکری اور کفر ان نعمت کے بدلے میں تمکو غرق کر دے پھر تم اپنے لئے ہم پر کوئی پیچھا کرنے والا نہ پائو گے مگر جس قدر نرمی اور حلم کیا کرتا ہے اسی قدر بقول ؎ ” کرمہاے تو مارا کرو گستاخ “۔ لوگ شرارت کرتے ہیں اور اپنی عزت قدر ومنزلت کھوتے ہیں ہم (اللہ) نے تو آدم زاد انسان کو بڑی عزت دی ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں پر انکو حکومت بخشی ہر ایک جاندار بے جان کے استعمال کا ان کو اختیار ہے اور ہم ان کو برو بحر یعنی خشکی اور تری میں اٹھا لے جاتے ہیں خشکی میں بذریعہ اونٹ‘ گھوڑے‘ ہاتھی‘ خچر اور ریل وغیرہ کے اور دریا اور سمندر میں بذریعہ کشتی‘ جہاز اور لگنبوٹ وغیرہ کے اور ہم ان کو لذیز اور پاکیزہ نعمتوں سے رزق دیتے ہیں ایسی ایسی نعمتیں کہ دیگر حیوانات ان کا فضلہ بھی بصد خوشی کھاتے ہیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہم نے ان کو فضیلت بخشی کہ جس کو چاہیں اپنے استعمال میں لائیں اور جو کام جس سے چاہیں لیں یہ سب کچھ کریں مگر اپنے تئیں ہمارا فرمانبردار بنائیں تاکہ ان کی بنی بنائی عزت دنیا میں بھی محفوظ رہے اور جس دن ہم تمام انسانوں کو ان کے پیشوائوں کے نام کے ساتھ بلائیں گے اس دن بھی عزت پاویں۔ کیونکہ اس روز یعنی قیامت کے دن ہر ایک قوم اپنے اپنے پیشوا کے نام پر بلائی جاوے گی مثلاً یہودیوں عیسائیوں محمدیوں کو یوں کہا جاویگا۔ کہ اے موسائیو ! عیسائیو ! مسلمان محمدیو ! اسی طرح کافروں کو بھی ان کے پیشوائوں کے ناموں پر پکارا جائے گا مثلا آریوں اور سکھوں کو کہا جاویگا اے دیانندیو ! اے نانک کے سکھو ! پس یہ لوگ سنتے ہی خود بخود جمع ہوجائیں گے اور آپ اقرار و اعتراف کرلیں گے کہ ہم فلاں شخص کے تابعدار تھے ) بعض مسلمان جو اس آیت سے تقلید ائمہ کا ثبوت نکالا کرتے ہیں ان کی یہ کوشش ناکام ہے کیونکہ اس آیت میں تو ہر ایک انسان کو بلائے جانے کا ذکر ہے پھر اگر وہ امام برحق ہے یعنی ایسا ہے کہ اللہ نے اس کو واجب الاتباع بنایا ہے جیسے حضرات انبیاء علیہم السلام تو اس کے ساتھ والوں کی نجات اور رستگاری ہوگی اور اگر وہ امام خود ساختہ ہے تو الٹا یہ سوال ہوگا کہ کیوں اس کو واجب الاتباع بنایا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ آیت موصوفہ کو تقلید ائمہ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ١٢ منہ ( پھر اگر وہ شخص ان کا واقعی متبوع اور سچا پیشوا ہوا تو انکو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا نہیں تو بائیں میں نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا وہ خوشی خوشی اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور آپ سے آپ ہی خوش و خرم ہوں گے اور ان پر کسی طرح سے ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہوگا اور جو کوئی اس دنیا میں بد اعمالی کی وجہ سے اندھا رہا ہوگا ایسا کہ بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے کا مستحق ہو پس وہ آخرت میں بھی اندھا ہو اور بہت دور راہ بھٹکا ہوا بس ان کو یہ صاف صاف باتین سنا دے اور سمجھا دے کہ ابھی سے اپنا نفع نقصان سوچ لو ایسا نہ ہو وقت پر تم کو تکلیف ہو گو انکی شرارت اور ضدیت کی یہ حد ہے کہ اپنی ہٹ پر ایسے جمے ہیں کہ خود تو ان واہیات خیالات کو کیا ہی چھوڑیں گے الٹے تجھ سے الجھتے ہیں کہ تو ہی ہم کو یہ تعلیم دینی چھوڑ دے یہاں تک کہ تجھے ہمارے اتارے ہوئے اس حکم سے جو ہم نے بذریعہ وحی تیری طرف بھیجا ہے بچلانے لگے تھے اور کامل کوشش سے تیرے دل کو اپنی طرف پھیر لیتے اور اپنے مطلب کی کہلا لیتے تاکہ تو ہم پر کسی اور حکم کا جو ہم نے نہیں بھیجا افترا کرے بجائے توحید کے شرک سکھائے گویہ خیال تجھ جیسے عالیشان نبی سے بہت ہی دور ہے مگر ان کی کوشش میں تو شک نہیں پھر یہ فورا تجھ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ہم (اللہ) تجھ کو تیرے نور نبوت سے مضبوط اور قابو نہ رکھتے تو عجب نہ تھا کہ بتقاضائے بشریت تو کسی قدر تھوڑا بہت ان کی طرف جھک جاتا جس سے تمہاری صلح اور دوستی ہوجاتی مگر کیا انکی دوستی تیرے کچھ کام آتی ہرگز نہیں ہم اسی وقت تجھ کو زندگی اور موت کا دگنا عذاب کرتے پھر تو ہمارے سامنے کسی کو مددگار نہ پاتا کسی کو جرات نہہ ہوتی کہ ہمارے سامنے بات بھی کرسکے انکی کوشش کی تو یہانتک نوبت پہنچی ہے کہ یہ لوگ اس تگ و دو میں ہیں کہ جس طرح ہو تجھے اس مکہ کی سرزمین سے اوچاٹ کر کے اس سے نکالدیں پھر من مانی گپیں ہانکتے پھریں مگر یاد رکھیں کہ مکہ سے تیرے نکلنے کی دیر ہے کہ پھر فورا ہی یہ لوگ بھی تیرے بعد بہت ہی تھوڑی مدت ٹھیریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد ساتویں سال مکہ فتح ہوا جو لوگ اسلام لائے وہ تو سعادت پا گئے اور جو انکار ہی پر مصر رہے وہ ادھر ادھر منتشر ہوگئے جن رسولوں کو ہم (اللہ) نے تجھ سے پہلے بھیجا ہے انکا دستور یاد کر کہ ان کے نکلنے پر قوم کی خیر نہ ہوتی تھی اور تو یاد رکھ کہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے برتائو کا ردو بدل کبھی نہ پاوے گا لیکن ایسی تائید ایزدی پانے کیلئے ضرور ہے کہ تو اے نبی اللہ کے احکام کی پوری پوری اطاعت کیا کر جیسا کہ ہمیشہ سے کرتا رہا ہے الإسراء
62 الإسراء
63 الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 الإسراء
67 الإسراء
68 الإسراء
69 الإسراء
70 الإسراء
71 الإسراء
72 الإسراء
73 الإسراء
74 الإسراء
75 الإسراء
76 الإسراء
77 الإسراء
78 (78۔104) پس تو سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک چند نمازیں پڑھا کر یعنی ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور صبح کو بھی نماز میں قرآن پڑھا کر کیونکہ صبح کے قرآن پڑھنے پر دلجمعی ہوتی ہے اگر کوئی دل لگا کر مطلب سمجھ کر صبح کے وقت قرآن شریف پڑھے تو نہائت ہی حظ اٹھائے اور رات ایک حصے میں نیند سے اٹھ کر قرآن کے ساتھ نماز تہجد پڑھا کر یعنی نماز تہجد میں بھی قرآن ہی پڑھا کر چونکہ تو امت کیلئے نیک نمونہ ہے تیری اطاعت ان پر واجب ہے اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تہجد کی نماز کا حکم تجھ کو جو ہوا تو سب امت پر تہجد کی نماز فرض ہوگئی نہیں بلکہ یہ حکم تیرے حق میں اوروں سے زیادہ ہے تیرے پر فرض ہے اوروں پر فرض نہیں امید ہے اس کی برکت سے تیرا رب تجھ کو پسندیدہ اور قابل تعریف مقام پر امت کی شفاعت کے لئے قائم کرے گا جس پر تو امت کے حق میں شفاعت کرے گا چونکہ اب تیرے حق میں کفار کی شرارت حد کو پہنچ چکی ہے اور علم الٰہی میں جو وقت مکہ سے نکلنے کا تیرے لئے مقرر ہے وہ بھی قریب ہے پس تو ان حکموں پر عمل کیا کر اور دعا کیا کر کے اے میرے پروردگار مجھے اچھی جگہ پہنچا اور اچھی طرح حفاظت کے ساتھ نکال کرلے چل اور مجھے فتحیابی کا غلبہ دیجئیو اور تو ان سے کہہ کہ یاد رکھو تمہاری شرارت کسی کام نہ آئے گی اللہ کی طرف سے حق آچکا ہے اور جھوٹ اور فریب نیست و نابود ہوچکا کیونکہ باطل اور فریب نابود ہونے والا ہے پس تم یہ ایک بات سن رکھو اور یاد رکھو کہ ایک نہ ایک روز قرآن کی سلطنت ہوجائیگی کیونکہ ہم (اللہ) قرآن کو ایمانداروں اور مسلمانوں کی قلبی بیماریوں کی شفا اور رحمت نازل کرتے ہیں اس لیے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہیں اور اپنی بیماریوں سے نجات پاتے ہیں اور ظالم جو اسکی ہدایتوں پر عمل نہیں کرتے اس کے ارشاد کے مطابق برائیوں سے پرہیز نہیں کرتے وہ اس سے سراسر نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ اس کی ہدایت کا خلاف کرتے ہیں اس کے لانے والے کو برا بھلا کہتے ہیں اس کے بھیجنے والے کی بے ادبی کرتے ہیں پھر ان کے نقصان اور خسارے میں کیا شک ہے۔ اصل پوچھو تو اسکا بھی ایک سبب ہے وہ یہ ہے کہ ہم جب کسی مغرور انسان کو کوئی نعمت دیتے ہیں تو وہ ہم سے منہ پھیر جاتا ہے اور پہلو اکڑاتا ہوا چلتا ہے اور اللہ کے حکموں کو ٹلاتا ہے بلکہ تحقیر کرتا ہے اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو بالکل ناامید ہوجاتا ہے ایسا گھبراتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی طرح اس کو امید نہیں رہتی تو ان سے کہہ کہ دنیا میں انسانوں کی طبایع مختلف ہیں کوئی نیکی میں مستغرق ہے تو کوئی برائی میں منہمک کوئی توحید الٰہی کا عاشق ہے تو کوئی شرک و کفر کا شیدا ہر ایک اپنے اپنے طریق پر عمل کرتا ہے پس اسکی جزا سزا بھی پاوے گا نیک اپنی نیکی کا بدلہ پاوینگے بدکار اپنی بدی کا مزہ چکھیں گے ممکن نہیں کہ کسی کی نیکی یا بدی مخلوط ہوجاوے کیونکہ تیرا پروردگار سیدھی راہ والوں کو خوب جانتا ہے یہ بھی بھلا کوئی ہدایت کی بات ہے جو انکا طریق ہے کہ سی اور حقانی تعلیم کو تو قبول نہیں کرتے الٹے مقابلہ میں اکڑتے ہیں اور روح یعنی قرآن کی بابت پر سوال کرتے ہیں (عن الروح) اس آیت میں روح سے مراد ہم نے قرآن لیا ہے یہ قول کوئی نیا نہیں۔ تفسیر معالم وغیرہ میں سلف سے بھی مروی ہے۔ غالباً صحیح بھی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی قرآن شریف کا ذکر ہے (وننزل من القران ماھو شفآئ) اور اس کے ساتھ بھی یہی مذکور ہے (ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک) ان قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں الروح سے مراد قرآن شریف ہے کیونکہ نظم قرآنی کا سیاق اسی مضمون میں ہے اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ روح کے معنی قرآن کے بھی ہیں؟ قرآن مجید میں کئی ایک جگہ آیا ہے (کذلک اوحینا الیک روحا من امرنا) شوری یلقی الروح من امرہ علی من یشآء (سورہ مومن) اسی قسم کی کئی ایک آیات سے سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا الہام اور قرآن مجید بھی روح ہے کیونکہ روح بدنی باعث حیات جسمانی ہے تو یہ روح بھی باعث حیات روحانی ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ روح کیا ہے؟ تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ہماری تفسیر اس روایت کے خلاف نہیں کیونکہ یہودیوں کا مطلب بھی یہی تھا کہ وحی کی کیفیت کیا ہے اس لئے یہی ایک سوال ہے جو مذہبی رنگ میں ہوسکتا ہے جسمانی روح کا سوال مذہبی رنگ نہیں رکھتا۔ فافہم۔ (ترجمہ) ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) وحی کیا ہے۔ اللہ اپنے حکم سے جس پر چاہتا ہے روح القاء (الہام) کرتا ہے (منہ) کہ اسکی ماہیت کیا ہے اور اس کے نزول کی کیفیت کیا ہے یعنی کس طرح تیرے دل پر اس کا نزول ہوتا ہے؟ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے یہ اس کو کیا سمجھ سکتے ہیں جیسا مادر زاد عنین جماع کی لذت معلوم نہیں کرسکتا اسی طرح یہ لوگ بھی اس کیفیت کے ادراک سے معذور ہیں ان کو کیا معلوم؟ پس تو ان کے مبلغ علم کے مطابق ان سے کہہ کہ روح یعنی قرآن جو انسانوں کی روحانی زندگی کا سبب ہے میرے پروردگار کے حکم سے ہے جس پر اس کی خاص نظر عنائت ہوتی ہے اس پر وحی اور الہام نازل کرتا ہے رہی اس الہام کی کیفیت اور ماہیت اس کے سوا بیان میں نہیں آسکتی اور تمہیں تو بالخصوص بہت ہی تھوڑا علم ملا ہے تم اس ادراک کی کیفیت سے بالکل عاجز ہو ہم (اللہ) ہی نے تو وہ روح یعنی قرآن تیری طرف بھیجا ہے اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تیری طرف وحی بھیجی ہے اسکو تیرے دل سے محو کرکے اٹھالیں پھر تو ہمارے مقابلہ پر اپنے لئے کسی کو حمائتی اور وکیل نہ پاسکے اس لئے کہ کسی بندے کا اس پر زور اور حق نہیں مگر تیرے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کچھ شک نہیں کہ تجھ پر اس کا فضل بہت بڑا ہے کہ ایسی بے مثل کتاب اس نے تجھے عنایت کی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ہوسکتی ان بے اعتباروں کو تو کہہ لوگو ! سنو ! تمام جن اور انسان بھی جمع ہوجائیں کہ اس قرآن کی مثل کوئی کلام لاویں تو اسکی مثل کبھی نہ لا سکیں گے گو ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوجائیں ہم نے تو ہر طریق سے ان کی ہدائت کے سامان مہیا کئے اور ہم نے قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں کہیں گذشتہ لوگوں کے حالات بتلائے ہیں کہیں آئندہ کے واقعات سنائے ہیں کہیں مصنوعی معبودوں کی کمزوری بتلانے کو ان کو مکڑی اور مکھیوں سے تشبیہ دی ہے تو بھی اکثر لوگ انکار ہی پر مصر رہے کسی طرح ہدایت پر نہ آئے بلکہ طرح طرح کی بوہندہ گوئی کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ تیری بات تو ہم کبھی نہ مانیں گے جب تک تو ہمارے لئے زمین سے چشمے نہ جاری کر دے یا کھجوروں اور انگوروں کے تیرے باغ ہوں یعنی ہمارے سامنے ابھی بنا دے پھر تو ان کے درمیان نہریں چیر چیر کر جاری کر دے یا جیسا تو کہتا ہے (کہ کفر و شرک کرنے سے اللہ ایسا ناراض ہوتا ہے کہ آسمان تم پر گر پڑے) آسمان ہم پر گرا دے یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کر دے یا تو ایسا امیر اور دولتمند ہو کہ تیرا رہنے کا گھر سونے کا بن جائے یا تو ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جائے مگر صرف تیرے چڑھنے سے ہم تیرے اوپر چڑھنے کو باور نہ کرینگے جب تک تو اوپر سے نبی بنائی ایک کتاب ہمارے پاس نہ لاوے جس کو ہم بچشم خود پڑھیں اس میں تیری رسالت کی تصدیق ہو ( اے رسول !) تو ان کے جواب میں کہہ کہ میرا پروردگار پاک ہے وہ تو سب کچھ کرسکتا ہے باغ بھی بنا سکتا ہے مجھے اوپر بھی لیجا سکتا ہے آسمان بھی گرا سکتا ہے مگر میں تو صرف بندہ اور رسول ہوں رسالت کے عہدے سے بڑھ کر میرا دعوی نہیں پس اگر وہ چاہے گا تو تمہارے سوال پورے کر دے گا مگر عموما لوگ رسول کی پہچان میں بے راہ چلتے ہیں۔ ان کو یہی شبہ ہوتا ہے کہ آدمی ہو کر اللہ کا رسول کیونکر ہوسکتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہدایت پہنچنے کے بعد ایمان سے روک ہوتی ہے تو یہی کہتے ہیں کیا اللہ نے آدمی کو رسول بنایا کیا وہ فرشتوں کو رسول بنا کر نہیں بھیجتا تو ان کو ہماری طرف سے جواب دے کہ اگر زمین پر فرشتے آرام سے چلتے پھرتے تو ہم (اللہ) ان پر آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے مگر چونکہ آدمی آباد ہیں اس لئے تجھ آدمی کو رسول کر کے بھیجا ہے تو کہہ اگر تم کو میری رسالت میں شک ہے تو میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے وہ اپنے بندوں کے حالات سے خبردار ہے اور سب کو دیکھتا ہے وہ ایسا مالک الملک شہنشاہ ہے کہ جس کو ہدائت کرے وہی ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ہرگز اس کے سوا اس کا کوئی حمائتی نہ پاویگا۔ اور ہم (اللہ) ان گمراہوں کو جو عنادا نبوت سے منکر ہیں قیامت کے روز اندھے گونگے اور بہرے کر کے منہ کے بل اٹھائیں گے یہ ان کی ابتدائی حالت ہوگی بعد ازاں حسب موقع ان کو بینائی وغیرہ مل جائے گی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا وہ ایسی بلا کی آگ ہے کہ جب کبھی سرد ہونے کو ہوگی ہم ان پر اور تیزی کردیں گے اصل بات تو یہ ہے کہ یہ سخت سزا ان کو اس لئے ملے گی کہ انہوں نے دنیا میں ہمارے حکموں سے انکار کیا تھا بلکہ ہماری قدرت سے بھی انکاری تھے اور کہتے تھے کہ کیا جب مر کر ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا ہونگے؟ یہ تو عجیب بات ہے ایسی پیدائش تو بڑی مشکل ہے یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ کہ مردے کی ہڈیاں بھی سڑ گل جائیں ریزے ریزے ہو کر زمین میں مل جاویں تاہم وہ نئی صورت اور شکل میں نمودار ہوجائے کیا بھلا اور نہیں تو انہوں نے اتنا بھی نہیں سوچا اور غور نہیں کیا کہ جس اللہ مالک الملک نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں وہ اس بات پر قادر ہے کہ بعد فنا ان جیسے اجسام دوبارہ پیدا کر دے ضرور کرے گا اسی نے ان کو پہلے پیدا کیا اور اسی نے ان کے لئے ایک معیاد اور اجل (موت) مقرر کی ہے جس میں کوئی شک نہیں کیونکہ سب دیکھتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے چل دیتے ہیں اتنی قدرت کاملہ اور حکومت تامّہ دیکھ کر پھر بھی ظالم انکار ہی پر مصر ہیں ایسے کہ مرتے دم تک ہٹنے کے نہیں تو ان سے کہہ یہ تو تمہارا معمولی اور غیر صحیح عذر ہے کہ آدمی رسول نہیں ہوا کرتے بلکہ دراصل تم میں بخل اس درجہ ہے کہ گویا تمہاری جبلّت میں داخل ہوگیا ہے اسی لئے تم میری رسالت کو محض حسد کے مارے نہیں مانتے۔ تم سے یہاں تک توقع ہے کہ اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے یعنی تمکو اختیار مل جاتا کہ جس کو چاہو دو اور جسے چاہو نہ دو تو خرچ ہونے کے خوف سے تم ان کو روک رکھتے اور کسی کو ایک حبہ بھی نہ دیتے کیونکہ انسان عموما بخیل اور تنگدل ہے باقی رہا مسئلہ رسالت سو یہ بالکل واضح اور بدیہی ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کئی ایک رسول بھیجے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے کھلے نو نشان یعنی معجزے دئیے جو پارہ ٩ کے رکوع ٦ میں مذکور ہیں پس تم بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ اصل واقع اور ماجرا کیا ہے جب حضرت موسیٰ انکے پاس آئے اور فرعون کے دربار میں جاکر انہوں نے وعظ کلام کہا تو فرعون نے اور تو کوئی جواب معقول نہ دیا البتہ یہ کہا کہ اے موسیٰ میں تجھکو دیوانہ سمجھتا ہوں کہ تو مجھ حاضر اور موجود اللہ کو چھوڑ کر ایک غائب اور دوراز روئت اللہ کا پتہ دیتا ہے حضرت موسیٰ نے کہا یہ تو آپکی معمولی ظاہر داری کی باتیں ہیں ورنہ آپ دل سے جان چکے ہیں کہ یہ معجزات پروردگار عالم یعنی آسمانوں اور زمین کے پروردگار ہی نے بندوں کی ہدائت کے دلائل بنا کر اتارے ہیں مگر چونکہ آپ بادشاہ ہیں حکومت کا زعم دماغ میں جاگزیں ہے اس لئے ان کو خیال میں نہیں لاتے لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ آپ کا یہ وطیرہ اچھا نتیجہ نہیں دیگا میں سمجھتا ہوں کہ آپ بہت جلد ہلاک ہونگے پھر بھی فرعون کو کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اس نے یہی چاہا کہ ان بنی اسرائیل کو اپنے ملک میں کمزور کردیتا کہ کسی طرح وہ شر نہ اٹھا سکیں مگر نادان جانتا تھا کہ اس کی سلطنت صرف اس کی تدبیر سے بچی رہے گی مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ میرے پر بلکہ دنیا پر کوئی سب سے بڑا طاقت ور بھی ہے جو میری ان تمام غلط تدبیروں کو ملیامیٹ کر دے گا پس ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے تمام ساتھ والوں کو جو بنی اسرائیل کے تعاقب میں اس کے ساتھ نکلے تھے دریا میں غرق کردیا اور اس سے بعد بنی اسرائیل سے ہم نے کہا کہ لو اب آرام چین سے اپنے ملک میں رہو مگر یہ خیال نہ کرنا کہ بس تم اب دنیا کے مالک بن گئے جیسا کہ اس نالائق فرعون نے خیال خام ذہن میں جمایا تھا بلکہ اس بات کا خیال رکھنا کہ اللہ نے ایک روز بندوں کی جزا و سزا کیلئے مقرر کر رکھا ہے جس میں تمام بندگان جمع ہو کر عام فیصلہ سنیں گے جس کا نام روز آخرت ہے پس جب آخرت کا دن آئے گا تو ہم تم سب کو ایک جگہ لا کر میدان میں جمع کردیں گے (بنی اسرائیل فرعون کے غرق ہوتے ہی مصر کے بادشاہ نہیں ہوئے تھے بلکہ ہوئے ہی نہیں کیونکہ میدان تیہ وغیرہ میں چالیس سال تک رہنا پھر اس سے کنعان وغیرہ میں جانا تو قرآن اور تواریخ سے ثابت ہے پس اس کے بعد معنے یہ سمجھنے چاہئے کہ اتنی مدت درمیان میں تھی اور الارض سے مراد زمین مصر انہیں بلکہ وہ ملک ہے جہاں بنی اسرائیل کی حکومت تھی۔) الإسراء
79 الإسراء
80 الإسراء
81 الإسراء
82 الإسراء
83 الإسراء
84 الإسراء
85 الإسراء
86 الإسراء
87 الإسراء
88 الإسراء
89 الإسراء
90 الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 الإسراء
94 الإسراء
95 الإسراء
96 الإسراء
97 الإسراء
98 الإسراء
99 الإسراء
100 الإسراء
101 الإسراء
102 الإسراء
103 الإسراء
104 الإسراء
105 (105۔111) تمام نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ کو واحد لا شریک سمجھو اور روز جزا کو مانو چنانچہ قرآن بھی اسی تعلیم کو ان عرب کے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو اس سے انکار کرتے ہیں حالانکہ ہم نے اس (قرآن) کو سچی تعلیم کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ سچ ہی کے ساتھ اترا ہے اور تجھ کو بھی (اے رسول) ہم نے بس خوشخبری دینے والا اور برائیوں پر عذاب الٰہی سے ڈرانے والا رسول بنا کر بھیجا ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں نازل ہوا سنو ! قرآن کو ہم (اللہ) نے اس لیے تھوڑا تھوڑا متفرق متفرق کر کے نازل کیا ہے کہ حسب موقع تو لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر سنا دے اور وہ اس کو سنیں اور سمجھیں اور اس میں تو شک نہیں کہ ہم (اللہ) ہی نے اس کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ اور مبلغ ہیں پس تو کہدے کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم اس پر ایمان لائو یا نہ لائو اس کی رفعت شان میں کوئی اضافہ یا نقص نہیں ہوسکتا اگر کچھ ہے تو تمہارے ہی حق میں ہے اسی لئے تو جن لوگوں کو اس سے پہلے آسمانی کتابوں کا علم ہے جب جب یہ قرآن ان پر پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں یعنی گردنیں جھکا کر فرمانبرداری اور اطاعت کا اقرار کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار شرک اور شرک کے وہم سے بھی پاک ہے کچھ شک نہیں کہ ہمارے پروردگار کا وعدہ جو وہ قرآن میں بتلاتا ہے کہ نیک کاموں پر جنت اور برے کاموں پر جہنم ہے ہو کر ہی رہے گا اور روتے ہوئے ٹھوریوں پر گرتے ہیں اور قرآن پڑھنے اور سننے سے ان کو خوف الٰہی زیادہ ہوتا ہے یہ تو ہیں ایمانداروں کی باتیں اب ان کے مقابلہ پر ذرہ ان عرب کے مشرکوں کی جہالت کا اندازہ بھی لگائیے کہ جب کبھی کسی مسلمان کو سنتے ہیں کہ یا اللہ یا رحمن یا رحیم وغیرہ اسماء الہیہ سے اللہ کو یاد کرتا ہے تو جھٹ سے بول اٹھتے ہیں کہ دیکھو جی ہم کو تو کہتے ہیں اکیلے اللہ کو پکارو اور آپ دو تین کو پکارتے ہیں تو ایسے نادانوں سے کہہ کہ یہ تعدد تو صرف اسماء میں ہے مسمی میں نہیں یہ تمہاری نادانی ہے کہ کثرت اسماء سے کثرت مسمٰی سمجھتے ہو حالانکہ یہ صحیح نہیں پس تم خواہ اللہ کو پکارو یا رحمٰن کو دونوں برابر ہیں اس کے کسی نام سے اس کو پکارو سب طرح جائز ہے کیونکہ تمام دنیا میں جتنے نیک اوصاف کے نام ہیں سب کے سب کسی ذات و صفات کے لئے ہیں اور اسی پر صادق ہیں خواہ کسی ملک کے محاورے میں ہوں یا کسی زبان میں کیونکہ اللہ نے ہر ایک ملک میں جو رسول بھیجے تھے آخر اسی ملک کی زبان اور محاورے میں ان سے گفتگو کرتے تھے۔ مگر ہاں دعا کرنے اور پکارنے کے آداب میں اس بات کا خیال رکھا کر کہ دعا نہ تو چلا کر کیا کر نہ بہت ہی آہستہ ایسی کہ اپنے کان بھی نہ سنیں بلکہ بحکم خیر الامور اوسطہا درمیانہ حال اچھا ہوتا ہے) اس کے درمیان درمیان روش اختیار کیا کر اور دعا کرنے سے پہلے اللہ کی حمدو ثنا کرنے کو کہہ کہ سب تعریفیں اللہ پاک کو ہیں جس نے اپنے لئے نہ اولاد بنائی اور نہ ملک میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ تکلیف اور مصیبت کی وجہ سے اس کا کوئی دوست ہے کیونکہ اس کو مصیبت نہیں آتی بلکہ وہ سب کی مصیبتیں دور کرنے والا سب کا دوست متولی اور حاجت روا ہے پس تو اسی کا ہو رہ اور اسی کے نام کی بڑائی کیا کر۔ الإسراء
106 الإسراء
107 الإسراء
108 الإسراء
109 الإسراء
110 الإسراء
111 الإسراء
0 الكهف
1 (1۔22) سب تعریفیں اللہ پاک کو ہیں جس نے اپنے بندے (حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کامل کتاب جس کا نام قرآن ہے نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کمی نہیں رکھی یعنی اس کے مضامین کی تکذیب کسی طرح نہیں ہوسکتی نہ واقعات گذشتہ اسکے مکالف ہیں نہ آئندہ کے سچے علوم اسکو جھٹلا سکتے ہیں۔ بالکل سیدھی اور صاف ہے اس لئے اتاری ہے تاکہ بندوں کو سخت عذاب سے جو اس پروردگار کیطرف سے بدکاروں پر آنے والا ہے پہلے ہی سے ڈرا دے اور خبردار کر دے کہ اگر تم ایسی ہی بد اعمالیاں کرتے رہے تو تمہاری خیر نہیں اور ایمانداروں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوش خبری دے کہ ان کے لئے نیک کاموں پر نیک بدلہ ہے وہ بدلہ ایسا نہیں ہوگا کہ چند روزہ اس میں رہیں پھر نکالے جائیں نہیں بلکہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور خوب مزے سے مہذبانہ عیش اڑائینگے اور اس کتاب کے اتارنے سے یہ بھی غرض ہے کہ بالخصوص ان لوگوں کو ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لئے اولاد بنائی ہے حضرت عیسیٰ اس کا بیٹا اور فرشتے اسکی بیٹیاں ہیں یہ بات انکی محض جہالت سے ہے ان کو اور ان کے باپ دادا کو جن کے اثر صحبت سے یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں اس بات کا کچھ علم نہیں حقیقت میں بہت ہی بڑا بول انکے منہ سے نکلتا ہے ایسا جو سراسر جھوٹ ہے اور یہ محض جھوٹ کہتے ہیں مگر تو اے رسول ! ایسا تو ان پر شیفتہ ہے کہ ہر وقت تجھ کو انہی کی فکر پڑی ہے اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں گے تو شاید تو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالے گا۔ ایسی بھی کیا بات ہے ہر ایک شخص اپنے کام میں خود مختار ہے تجھے معلوم نہیں کہ جو کچھ زمین پر تر و خشک نظر آتا ہے ہم نے اسکو زمین کی سجاوٹ بنایا ہے اور بندوں کے لئے گذارہ تاکہ بندوں کو پرورش کریں اور ان کو احکام دیکر جانچیں کہ کون ان میں اچھے عمل کرتا ہے لیکن یہ جانچ صرف بغرض اظہار ہے نہ بغرض تحصیل علم پس جب ہم ان کے مالک اور حقیقی مربی ہو کر ان پر جبر نہیں کرتے تو تجھے کیا ایسی پڑی ہے کہ ان کے رنج میں ناحق ملول خاطر ہو رہا ہے آنحضرت کو کفار کے ایمان نہ لانے کا سخت حال و غم رہتا تھا اس پر یہ آیت اتری تھی (اسباب النزول) اور اس بات پر بھی دھیان نہیں دیتا کہ ایک نہ ایک روز ہم نے زمین کی تمام چیزیں فنا کر کے زمین کو چٹیل میدان کرنا ہے پس اس روز ہر ایک اپنے اعمال کا بدلہ پاوے گا باوجود یکہ دنیا کی ہر ایک چیز اللہ کی قدرت کی مظہر ہے تاہم یہ لوگ جب کبھی نیا قصہ سنتے ہیں تو اسی کو عجیب سمجھتے ہیں کاش کہ اصل مطلب (ہدایت) پر آویں دیکھو تو اصحاب کہف کا قصہ سن کر تجھ سے ان کی بابت دریافت کرتے ہیں تو بھی حیران ہے کہ کیا جواب دے کیا تو نے بھی یہی سمجھا ہے کہ غار والے یعنی اصحاب کہف اور کتبے یعنی تختیوں والے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہماری قدرت کے کاموں میں سے بہت ہی عجیب تر تھے گو انکی کیفیت اور زندگی بے شک قدرت الٰہی کا ایک کرشمہ تھی لیکن ایسی نہیں کہ بس اسی کی طرف توجہ لگ جائے سنو ! ہم تم کو انکا ماجریٰ سناتے ہیں مفصل تو آگے آتا ہے مجمل واقعہ وہ قابل ذکر ہے جب انہوں نے اپنے بھائی بندوں کو چھوڑ کر غار میں پناہ لی اور دعا کی تھی کہ اے ! ہمارے پروردگار تو ہم پر اپنی جناب سے رحمت نازل فرما اور ہم کو ہمارے ارادے میں کامیابی کی سہل اور آسان راہ بتلا اور سامان مہیا فرما پس یہ کہہ کر وہ داخل غار ہوگئے تو ہم نے ان کو کئی سال غار میں سلائے رکھا پھر ہم نے ان کو جگایا کہ ہم دیکھ لیں یعنی ظاہر کردیں کہ دو گروہوں میں کس گروہ کو غار میں ان کے ٹھیرنے کی مدت خوب یاد ہے یعنی اہالی شہر خوب واقف ہیں یا وہ خود۔ (اصحاب الکہف : اس واقع کے متعلق مزید تفصیل کی نہ تو حاجت ہے نہ کہیں سے صحیح طور پر مل سکتی ہے کیونکہ جو بات قرآن و حدیث میں نہ ہو وہ کون بتلائے اور کون سمجھائے اس لئے جس قدر قرآن شریف میں آیا ہے اس سے زیادہ کہ نہ تو ہم کو ضرورت ہے نہ پتہ لگ سکتا مختصر بیان اس قصے کا یہ ہے کہ گذشتہ زمانہ میں چند ایک نوجوان تھے جن کو آج کل کے محاورے میں لبرل پارٹی کہنا چاہئے وہ اپنے جوش مذہبی کو تھام نہ سکے اور اپنے ملک اور برادری کو چھوڑ کر کہیں پہاڑوں میں جا چھپے یہاں وہ بہت مدت تک پڑے رہے مدت مدید کے بعد انہوں نے اپنے میں سے ایک کو شہر کی طرف بھیجا تو وہاں کیا تھا۔ رنگت ہی بالکل تبدیل تھی ؎ آں قدح بشکت واں ساقی نماند آخر کار وہ کسی قرینہ سے پہچانا گیا۔ مگر پھر بھی وہ ان سے کسی طرح حیلہ و حوالہ سے بچ کر اپنے ساتھیوں میں جا ملا جہاں پر متلاشی نہ پہنچ سکے۔ بس یہ ہے اختصار اس قصے کا۔ مطلب اس سے اس امر پر اطلاع دینا ہے کہ اللہ کے نیک بندے ہر زمانہ میں ہوتے رہے ہیں جو سوا اللہ کے کسی کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں تم کو بھی ایسا ہونا چاہئے۔ شان نزول اس کا یہ ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علہی وسلم سے یہ قصہ اور اس سے آئندہ ذوالقرنین کا قصہ دریافت کیا تھا۔ کیونکہ ان میں قوی روایت سے یہ قصے مشہور چلے آتے تھے۔ رہا یہ سوال کہ اصحاب کہف اب کہاں ہیں؟ زندہ ہیں یا مردہ؟ تو اس سوال کا جواب دینے سے پہلے قرآن مجید پر غور کرنا ضروری ہے…کہ کیا قرآن میں ان کی دائمی زندگی کا ثبوت ہے؟ مجھے تو ان کی دائمی زندگی کا ثبوت قرآن شریف سے نہیں ملتا۔ صرف ایک آیت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں وَتَحْسَبُہُمْ اَیْقَاظًا وَّ ھْم رَقُوْدُ اس سے بھی دائمی زندگی کا ثبوت نہیں ہوتا۔ غائت سے غائت آنحضرت کے زمانہ تک ان کی زندگی کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال کے وقت فرمایا کہ جو لوگ اس وقت زمین پر زندہ ہیں سو سال تک ان میں سے کوئی زندہ نہ رہے گا اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ اصحاب کہف اگر اس وقت زندہ بھی تھے تو دوسری صدی ہجری میں ضرور ہی فوت ہوگئے ہوں گے۔ دوسری آیت اصحاب کہف کی دائمی زندگی پر شاید کوئی صاحب یہ پیش کریں کہ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا مگر اس کا ترجمہ حسب قاعدہ علم نحویہ ہے کہ ” اگر تو دیکھتا ان کو تو مارے خوف کے بھاگ جاتا اور تجھ میں خوف بھر جاتا‘ میرے نزدیک یہ دلیل بھی صحیح نہیں کیونکہ حرف لو ماضی کے لئے ہوتا ہے حال اور استقبال اس کے مفہوم میں نہیں اگر کسی مقام پر ہوتا ہے تو قرینہ خارجہ سے ہوتا ہے پس آیت موصوفہ سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ ہوا کہ قرآن شریف سے پہلے زمانہ ماضی ان کی زندگی تھی نہ زمانہ نزول قرآن میں نہ جب کہ اب تیرہ سو سال گزر چکے ہیں مختصر یہ کہ اصحاب کہف کسی پہاڑ کی غار میں چھپے تھے جہاں وہ ایک مدت تک بحکم الٰہی زندہ رہے لیکن آخر تابکے؟ اپنے وقت پر مر کر جاودانی زندگی میں جا پہنچے۔ (رض) ہاں یہ سوال قابل تحقیق ہے کہ اصحاب کہف کس زمانہ میں ہوئے ہیں اور کس نبی کے پیرو تھے اس کے متعلق بھی گو قطعی فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کیونکہ ایک زمانہ گذشتہ کا واقعہ ہے جس کا ثبوت نہ چشم دید ہے نہ صاحب وحی سے کوئی روائت آئی ہے البتہ مؤرخین کی بعض رائیں اور قیاسات ہیں پس مؤرخین کے صحیح قول کے مطابق اصحاب کہف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں تھے اور اصل تعلیم عیسوی کے مطابق توحید خالص ان کا دین تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تخمینا دو سو پچاس برس بعد دقینوس یادیسس بادشاہ کے عہد میں ہوئے ہیں جو بت پرست تھا اور ان کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنا تھا جس سے تنگ آکر وہ ہجرت کر گئے۔ والعلم عنداللہ) یہ تو ہے مجمل بیان انکے قصے کا اب ذرہ تفصیل سے سنو ! ہم تجھے ان کا ٹھیک ٹھیک حال سناتے ہیں وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے بھی ان کو ہدایت زیادہ دی تھی جیسے ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اس کو توفیق خیر مزید ملتی ہے اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا تھا کہ معمولی اناپ شناپ اعتراضوں سے وہ کانپتے نہ تھے جب ان کو بادشاہ نے اپنے حضور میں طلب کیا اور اپنے لئے سجدہ کرنے کو حکم دیا تو وہ مجلس سے اٹھ گئے اور بولے کہ ہم تو اس فعل مذموم کے ہر گزمرتکب نہ ہوں گے کیونکہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو تمام آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے اس لئے ہم اللہ کے سوا کسی معبود کو نہ پکاریں گے ورنہ ہم بھی اس بیہودہ گوئی کے جو یہ لوگ اللہ کی نسبت کر رہے ہیں مرتکب ہوں گے ان ہمارے قومی بھائیوں نے جو اس اللہ حقیقی معبود کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں کیوں ان پر کوئی کھلی دلیل پیش نہیں کرتے جس سے ثابت ہوسکے کہ اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہیں پھر جو بےدلیل اور من گھڑت اللہ پر جھوٹا افترا کرے اور ایسے مسائل اور عقائد بتلا دے جو اللہ نے نہیں بتلائے تو اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جیسے یہ مشرک جو اللہ پر افترا کرتے ہیں اور غلط گوئی کرتے ہیں۔ یہ تقریر مجلس میں کر کے چلے گئے اور جا کر آپس میں انہوں نے قرار داد کی کہ جب تم ان مشرکوں سے اور اللہ کے سوا‘ ان کے مصنوعی معبودوں سے علیحدہ ہوچکے ہو تو پس اب کیا دیر ہے چلو غار میں بیٹھ رہو۔ اللہ پر بھروسہ کرو تمہارا پروردگار تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارا مشکل کام آسان کر دے گا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ غار میں جو ان کے شہر سے قریب تھی جا چھپے ایسی جگہ چھپے کہ سورج کو چڑھتے ہوئے تو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ انکی غار سے دائیں طرف کو ہوتا ہے اور جب غروب ہونے کو ہوتا ہے تو بائیں جانب کو کترا جاتا ہے اور وہ اسی غار کے اندر ایک کشادہ جگہ میں ہیں یہ اللہ کی قدرت کے نشان ہیں کہ ایسی گمراہ قوم میں بھی ایسے پاکیزہ خیال نیک طینت پیدا کردیتا ہے اصل بات پوچھو تو یہ ہے کہ جس کو اللہ ہدایت کرے۔ اور توفیق خیر بخشے وہی راہ یاب ہوتا ہے اور جس کو اس کی شامت اعمال سے گمراہ کر دے پس تو ہرگز اس کے لئے کوئی کارساز اور راہ نما نہ پائے گا کہ اس کی راہ نمائی کرے بلکہ وہی مضمون ہوگا جو شیخ سعدی مرحوم کے شعر کا مطلب ہے عزیز یکہ ازد گہش سر بتاخت بہدر کہ شد ہیچ عزت نیافت اور اللہ کی قدرت دیکھ کہ اگر تو ان کو دیکھتا تو گمان کرتا کہ یہ جاگتے ہیں حالانکہ وہ سوتے تھے آنکھیں انکی کھلی تھیں جیسے جاگنے والوں کی ہوتی ہیں اور ہم انکے پہلو دائیں اور بائیں کو پھیرتے تھے اور انکا کتا جو شہر سے چلتے وقت انکے ساتھ ہولیا تھا اس غار کی چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا جیسی عموما کتوں کی عادت ہے ان کی ہئیت ایسی ہیبت ناک تھی کہ اگر تو ان کو دیکھ لیتا تو بھاگتا ہوا واپس پھر آتا اور تجھ میں انکی دہشت بھر جاتی غرض وہ اسی طرح سالہا سال سوتے رہے پھر وہ اٹھے اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں چنانچہ ان میں سے ایک نے دوسروں سے کہا کیوں صاحب ! کتنی دیر تم غار میں رہے وہ بولے کہ شاید ایک آدھ روز رہے ہیں مگر بعد غور و فکر جب ان کو اس میں تردد ہوا کہ اتنا تغیر حال جو ہم میں ہوا ہے اتنی جلدی نہیں ہوسکتا آخر سب نے کہا کہ میاں اس بات کو تو اللہ کی سپرد کرو تمہارا پروردگار تمہارے ٹھیرنے کی مدت کو خوب جانتا ہے پس تم اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی کا ٹکرا جو ہماے پاس ہے دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ غور کرے کہ ان شہر والوں میں سے کس کا کھانا ستھرا ہے پس اس سے کچھ کھانے کی چیز تمہارے پاس لے آوے اور اتنی بات اسے سمجھا دو کہ کسی سے تکرار نہ کرے بلکہ گفتگو میں بڑی نرمی کرے اور تمہارے حال پر کسی کو اطلاع نہ دے کیونکہ اگر وہ شہر والے تمہارے حال پر مطلع ہوگئے تو چونکہ تم ان سے بھاگ کر آئے ہو بادشاہ تم پر سخت ناراض ہے ضرور تمکو پتھرائو کر ڈالیں گے یا زور آور دھمکی سے تم کو اپنے باطل مذہب شرک و کفر میں واپس لے جاویں گے جو موت سے بھی زیادہ ہم ناگوار ہے اور تم ناحق ہمیشہ کے عذاب میں پھنسو گے اور کبھی بھی رہا نہ ہو گے یہ پیش بندیاں ان کی اس خیال پر تھیں کہ انہوں نے سمجھا تھا۔ کہ ہنوز وہ بادشاہ اور رعایا بدستور زندہ ہیں مگر انکو کیا معلوم تھا کہ آن قدح بشکست واں ساقی نماند اس لئے جیسا ہم نے کسی حکمت سے ان کو سلایا تھا۔ اسی طرح ہم نے شہر والوں کو ان پر کسی طرح مطلع کرا دیا کیونکہ اب وہ ظالمانہ زمانہ نہ تھا بلکہ عموما لوگ ان کے مداح تھے یہ اس لئے کیا کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی حمایت اور حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ بھی یقینا جان جائیں کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں یہ اطلاع ان کو اس وقت کرائی گئی تھی جب وہ لوگ شہر والے اپنے کام میں آپس میں جھگڑتے تھے کہتے تھے کہ ان پر ایک دیوار بنا دو تاکہ انکی غار کیطرف کوئی نہ جائے نہ انکو دیکھے حالانکہ انکا پروردگار ان کے حال سے خوب واقف تھا کہ آئندہ کو ان کے ساتھ کیا ہوگا جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے یعنی جو حکومت پر قابو یا فتہ تھے انہوں نے کہا ہم تو ان پر یعنی ان کی نماز پر ایک مسجد بنادیں گے تاکہ لوگ انکے مذہب کے مطابق اللہ کی عبادت اس میں کریں پھر یہ کام انہوں نے کیا یا نہیں اللہ کو معلوم ہے یہ لوگ یہودی یا عیسائی اگر دعویٰ کریں تو غلط ہے ان کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ انکی گنتی کیا تھی بعض اہل کتاب کہیں گے کہ تین کس تھے چوتھا ان میں ان کا کتا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہ پانچ کس تھے چھٹا ان کا کتا تھا مگر یہ ساری گفتگو اور خیال ان کا بالکل رجما بالغیب اور اٹکل پچو ہے اس بات پر ان کو کوئی واقعی علم نہیں بعض کہتے ہیں وہ سات کس تھے آٹھواں ان کا کتا تھا تو ان سے کہہ کہ تمہیں کیا پڑی ہے؟ کتنے بھی ہوں اس قصے کو چھوڑو میرا پروردگار انکے شمار کو خوب جانتا ہے ان کے شمار کو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں پس چونکہ اصل مطلب اس مضمون سے یہ ہے کہ لوگ ان کی روش اختیار کریں گنتی انکی دو ہو یا چار پانچ ہو یا سات اس پر کیا امر موقوف ہے پس تو اے رسول انکی شان میں کسی سے تکرار نہ کرنا مگر جو کبھی ذکر آجاوے تو سرسری طور پر گفتگو سے بڑھ کر کرنا اور بوجہ ایک دو راز کار بات ہونے کے اس امر کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی بابت کسی سے دریافت بھی نہ کرنا الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 الكهف
5 الكهف
6 الكهف
7 الكهف
8 الكهف
9 الكهف
10 الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 الكهف
17 الكهف
18 الكهف
19 الكهف
20 الكهف
21 الكهف
22 الكهف
23 (23۔31) اور اگر کوئی شخص تجھ سے کوئی ایسی بات دریافت کرے اور تجھے معلوم نہ ہو تو کسی امر کی بابت تو یوں نہ کہا کر کہ میں یہ بات کل بتلائوں گا یا یہ کام ضرور کروں گا لیکن یوں کہا کر جو اللہ چاہے ہوجاوے گا اور جب تو انشاء اللہ بروقت کہنا بھول جائے تو بعد اس کے اپنے پروردگار کو یاد کیا کرو اور انشاء اللہ کہہ لیا کر (مخالفوں نے جب اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کل بتلائوں گا۔ مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے اس لحاظ سے اس کا تعلق شروع قصہ سے ہے۔ مگر حکم عام ہے۔ (منہ) اس لئے کہ دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں سب کے سب اس کی مشیت اور ارادے ہی سے ہوتے ہیں پس مناسب ہے کہ تو اپنے تمام ارادوں پر اللہ کے ارادے کو غالب کیا کر اور کہا کر امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی راہ بتلا دے گا اگر میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو خیر آئندہ کو انشاء اللہ بہتری کی امید ہے کیونکہ میں نے انشاء اللہ کا ترک قصدا وعناداً نہیں کیا۔ اب اصل قصہ پھر سنو ! ہم تمکو بتلاتے ہیں کہ وہ غار میں داخل ہوگئے اور وہ اپنی غار میں کل مدت تین سو نو سال قمری رہے (قمری کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عرب میں قمری حساب ہی تھا۔ قرآن شریف میں دوسری جگہ یہی ارشاد ہے یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج یعنی اے رسول تو ان لوگوں سے کہہ چاند لوگوں کے حساب کے لئے کم و بیش ہوتا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو اور قمری حساب سے نوزائید۔ یہ قول غلط ہے۔ قرآن شریف تو خود بتلاتا ہے اور عرب میں رواج بھی یہی تھا کہ سالوں کا حساب قمری مہینوں سے تھا۔ پھر قرآن میں اس کے برخلاف حساب کیوں آنا تھا۔ علاوہ اس کے اس تفصیل کے لئے (کہ تین سو شمسی اور تین سو نو قمری) کوئی اشارہ بھی نہیں۔ فافہم (منہ) اگر یہ لوگ اس بارے میں جھگڑیں کہ نہیں اتنی مدت تک ٹھیرے کوئی کہے اتنی تو تو ان سے کہہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ٹھیرنے کی مدت کو خوب جانتا ہے اسی نے ہم کو یہ بتلایا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کے غیب کی باتوں کا علم اسی کے پاس ہے پھر اس کا بتلایا ہوا اندازہ کیونکر غلط ہوسکتا ہے حالانکہ وہ بہت بڑا دیکھنے والا اور سننے والا ہے یہ تو اس کے علم کا ذکر ہے حکومت کی یہ شان ہے کہ ان سب دنیا کے رہنے والے لوگوں کے لئے اس کے سوا کوئی کار ساز نہیں وہ ایسا مالک الملک شہنشاہ ہے کہ سب کچھ اکیلا ہی کرتا ہے اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا وہ اکیلا ہی تمام دنیا کا بادشاہ بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے پس یہ کہکر انکی طرف کان بھی نہ لگا کہ کیا کہتے ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی کتاب کے احکام تیری طرف بھیجے جاتے ہیں وہ پڑھ دیاکر اور اسی پر بھروسہ رکھ جو کچھ اس نے تجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے ممکن نہیں کہ پورا نہ ہو کو نکہ اس کے حکموں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور اس کے سوا تو کہیں پناہ کی جگہ نہ پاوے گا بس اسی کا ہو رہ اور ان دنیا داروں سے الگ رہا کر اور جو لوگ اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں کسی کے دکھاوے اور ریا سے نہیں بلکہ محض اسکی رضا جوئی چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ وابستگی رکھا کر اور ان کو چھوڑ کر دنیا کی زینت کا ارادہ کرتا ہوا کسی دوسرے کی طرف التفات نہ کرنا (عرب کے مشرک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے کہ جب ہم آویں تو ان غریب مسکین مسلمانوں کو مجلس سے ہٹا دیا کرو تو ہم آپ کی سنیں گے۔ آنحضرت کا خیال بھی اس طرف اس نیت سے ہونے کو تھا کہ چند روز بعد یہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ سردست ان کے اس بے جا غرور کو مان لیں مگر اللہ کے ہاں ان فرعونی دماغوں کی خاک بھی قدر نہ تھی۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کی کارروائی حد سے متجاوز ہے ایسے آدمی کی بات کبھی نہ مانیو۔ تو نہیں جانتا کہ اللہ کی یاد اور خوف سے جو غافل ہو وہ مردہ ہے چاہے وہ کیسے ہی بن تھن کر رہے تو بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مردہ ہے زندگی حق کی پیروی کرنے کا نام ہے ظاہری جسمانی حرکت اور سجاوٹ کا نام نہیں پس تو اے نبی ان کو سمجھا اور تو کہہ کہ یہ سچی تعلیم تمہارے پروردگار کے ہاں سے آپہونچی ہے پس جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کافر بنے مگر اتنا یاد رکھے کہ ہم (اللہ) نے ایسے ظالموں کے لئے جو باوجود واضح ہوجانے حق کے نہ مانیں آگ تیار کر رکھی ہے جو ایک محاط مکان کے اندر ہوگی جس کی قناتوں یعنی چار دیواری نے ان پر گھیرا ڈالا ہوگا اگر تکلیفوں پر فریاد کریں گے اور پیاس پر پانی مانگیں گے تو تانبے کے رنگ جیسے گرم پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو منہ اور ہونٹوں کو بوجہ گرمی اور شدت غلیان کے جلا دے گا پس اسی سے تم سمجھ لو کہ کیسا برا پانی ہوگا اور وہ کیسی بری جگہ ہوگی اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہیں ہم ان کے اعمال کا ان کو بدلہ دیں گے کیونکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہم نیک اعمال کرنے والوں کے عمل ضائع نہیں کیا کرتے انہی نیک لوگوں کیلئے ہمیشہ کے باغ ہیں جن میں ان رہنے والوں کے مکانوں کے نیچے نیچے نہریں جارہی ہونگی جن میں وہ جنتی حسب مراتب سونے اور چاندی کے کنگن پہنائے جائینگے اور سبز لباس باریک اور دبیز وہ ان باغوں میں تختوں پر بیٹھے ہوں گے یہ بہت ہی اچھا بدلہ ہے اور بہت ہی عمدہ جگہ مگر یہ ایسے عقلمند کہاں ہیں کہ ایسی سچی اور یقینی بات کو مان لیں جنہوں نے دنیا ہی کو مدار کار سمجھا ہوا ہے الكهف
24 الكهف
25 الكهف
26 الكهف
27 الكهف
28 الكهف
29 الكهف
30 الكهف
31 الكهف
32 (32۔59) پس ان کے دماغ سے دنیا کی محبت اور مدار کار ہونا نکالنے کو تو ان کو دو آدمیوں کی ایک مثال یعنی حکائت سنا جو گذشتہ زمانہ میں ایک باپ کے دو بیٹے تھے بعد تقسیم جائیداد الگ الگ ہوگئے ایک تو دنیا کے کمانے میں لگ گیا اور ایک علم اور زہد میں مشغول ہوا۔ ان میں سے ایک کو جو دنیا کمانے میں لگا تھا۔ ہم نے انگوروں کے دو باغ دئیے تھے اور ان کے ارد گرد کھجوروں کے درختوں سے روک کردی تھی اور انکے درمیان کھیتی باڑی سبزی بقولات وغیرہ پیدا کی تھی یعنی وہ باغ اس ڈھب کے تھے کہ درمیان ان کے کھیتی اور بقولات (سبزیاں) تھیں ان کے ارد گرد درخت سب سے اخیر چار دیواری کے طور پر کھجوریں لگائی گئی تھیں پس وہ دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے اور معمولی پھل سے انہوں نے کبھی کچھ کم نہ کیا اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس مالک کے پاس ان باغوں کی وجہ سے ہر قسم کے پھل پھول مہیا تھے پس اس نے ایک روز دولت اور مال کے گھمنڈ میں اپنے ساتھی یعنی غریب بھائی سے باتیں کرتے کرتے کہا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار اور بڑے زبردست معزز جتھے والا ہوں یعنی دنیاوی خدم حشم میرے بہت ہیں یہ کہہ کر اترایا اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے ہال میں کہ وہ بوجہ سر کشی اور تکبر کے اپنے نفس پر ظلم کر رہا تھا بولا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی بھی ویران ہوگا اور میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں فرضا اپنے پروردگار کی طرف گیا بھی یعنی قیامت ہوئی بھی تو چونکہ میں یہاں معزز اور مالدار ہوں اس لئے یقین ہے کہ وہاں بھی اچھا رہوں گا بلکہ اس سے بھی عمدہ جگہ پائوں گا اس پر اس کے ساتھی نے جو غریب اور کم وسعت مگر دیندار تھا اس کی متکبرانہ گفتگو سن کر باتیں کرتے ہوئے اس سے کہا کہ تو جو قیامت سے انکاری ہے کیا تو اپنے پروردگار سے منکر ہے جس نے تجھ کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی تیرے بابا آدم کو مٹی سے بنا کر انسان کی پیدائش کا سلسلہ چلایا پھر بنی آدم کو نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھ کو درست اندام پورا آدمی بنایا تو بھی ایسے کلمات اللہ کی شان میں کہتا ہے اور اس دنیائے دنی پر مغرور ہے اتنا نہیں جانتا کہ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے لیکن میں تو اس خیال پر ہوں کہ اللہ ہی میرا پروردگار رہے اور بس اس سے زائد کیا کہوں اللہ بس باقی ہوس اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ ہرگز کسی چیز کو شریک اور ساجھی نہیں بناتا ایسے متکبرانہ کلمات اور غرور سے کیا فائدہ بھلا تیرا اس میں کیا حرج تھا کہ جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تھا تو بجائے مغرورانہ گفتگو کے تو یہ کہتا کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا ہے یہ باغ بھی محض اللہ کی مشیت اور ارادے سے ہے ورنہ میں اس لائق کہاں تھا کہ مجھے یہ نعمت ملے مجھ میں تو بے مدد اللہ کے نہ طاقت ہے نہ قوت تو نہیں جانتا کہ ؎ ایں شجاعت بزور بازو نیست تانہ بخشد اللہ بخشندہ باقی رہا یہ کہ میں غریب ہوں تو امیر ہے سو ان باتونکی مجھے پرواہ نہیں میں نے پہلے ہی سے سبق پڑھا ہوا ہے۔ ع بود نابود جہاں یکساں شمر میں نے یہ بھی سنا ہوا ہے ھی الدنیا تقول بملا فیھا حذار حذار من بطشی وفتکی میں یہ بھی جانتا ہوں گو سلیمان زماں بھی ہوگیا تو بھی اے سلطان آخر موت ہے پس اگر تو مجھ کو باعتبار مال اور اولاد کے کم درجہ جانتا ہے تو اس بات کا مجھے کچھ خیال نہیں کیونکہ میرا یقین ہے کہ عنقریب میرا پروردگار تیرے باغ سے اچھا باغ مجھے عنایت کریگا اور تیری شرارت اور سرکشی کیوجہ سے اس تیرے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی بلا نازل کریگا جس سے وہ دم کے دم میں ویران سنسان اور چٹیل میدان ہوجائے گا یا اسکا پانی خشک ہوجائے گا تو تو اس کو تلاش اور طلب بھی نہ کرسکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ راتوں رات سب کچھ اس کا کرا کرایا ضائع ہوگیا اور اس کے تمام پھلوں پر تباہی کا گھیراڈالا گیا پھر تو وہ اپنے مال پر جو اس نے اس باغ کی آبادی اور عمارت پر خرچ کیا تھا دونوں ہاتھ ملنے لگا اور آہ و بکا کئے کہ ہائے میں مارا گیا میرا ستیاناس ہوگیا میں برباد ہوگیا میں جانتا تو اتنا روپیہ اس کی آبادی پر نہ خرچ کرتا آج وہی روپیہ میرے کام آتا۔ ادھر تو اس کے آہ و بکا کا یہ حال ہے اگر باغ کو دیکھتا تھا تو وہ اپنی ٹٹیوں پر گر پڑا تھا یعنی اس کی بیل اور بوٹے سب اوپر نیچے گرے پڑے تھے دیکھ دیکھ کر افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے میری کم بختی میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا مگر اب کیا ہوتا جب چڑیا چگ گئیں کھتے جب وقت ہی ہاتھ سے نکل گیا تو اب کیا ہوتا۔ چلاتا رہا اور کوئی جماعت بھی اس کی حمایتی نہ ہوئی جو اللہ کے سوا اس کی حمائت کرتی بھلا کون کرسکتا ہے کسی میں طاقت ہی کیا ہے جو کرسکے نہ وہ خود بدلہ لے سکا کہ اللہ سے لڑنے مرنے پر تیار ہوتا یا عوض لیتا ایسے ہی موقع پر معلوم اور ثابت ہوتا ہے کہ اللہ برحق ہی کی حکومت ہے جو تمام دنیا کا مالک اور سب پر قابض ہے اسی کا بدلہ اچھا ہے۔ اور اسی کا انجام بہتر ہے یعنی اسی کے ہورہنے میں سب کچھ مل سکتا ہے مگر یہ لوگ تو دنیا میں آکر ایسے کچھ فریفتہ اور فریب خوردہ ہو رہے ہیں کہ ان کو کچھ نیک وبد سوجھتا ہی نہیں پس تو ان کو سمجھا اور ان کو دنیا کی زندگی اور اس کے حباب ہونے کی مثال بتلا کہ وہ پانی کی طرح ہے جو ہم اوپر سے اتارتے ہیں پھر اس کے ساتھ زمین کی انگوریاں خوب پھل پھول جاتی ہیں ایسی کہ تمام زمین ہری بھری نظر آتی ہے جدھر نظر اٹھائو سبزہ زار فرش زمردین ہورہا ہے اتنے میں پھر وہ دیکھتے کے دیکھتے دم کے دم میں سخت لو لگنے سے چورا چور ہوجاتی ہے کہ ہوائین اس کو اڑاتی ہیں تمام سر سبزی جو نظروں میں تھی ایک دم میں برباد ہوجاتی ہے یہی حال ہے دنیا کی زندگی کا یہی کیفیت ہے انسان کی جو انی کی یہی حال دنیا کی عزت اور آبرو کا چند روز میں جب یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں تو انسان جو کہ فرعون بے سامان بن رہا ہے کوئی شخص اعلیٰ ادنیٰ اس کی نظر میں سما نہیں سکتا کوئی حکم شرعی اس کی نظر میں نہیں جچتا۔ کسی ناصح کی نصیحت اس کو اثر نہیں کرسکتی اور اپنی مستی میں ایسا غراتا ہے کہ سمجھانے والوں سے الٹا بگڑ بھتاوت ہے اور دو چار سنا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ ؎ نہ کریں میرے لئے حضرت ناصح تکلیف خود طبیعت دل بیتاب کو سمجھا لے گی تھوڑے ہی دنوں میں سب آن بان ٹوٹ کر عزت میں فرق آجا تا ہے جو انی چلی جاتی ہے مال و اسباب برباد ہوجاتا ہے غرض چاروں طرف سے آواز آنے لگتی ہے کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم؟ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم یہ تو بتدریج تنزل کا نقشہ ہے اور فوری تنزل اور بربادی ہو تو پھر تو کچھ پوچھ نہیں بس یہ سمجھو کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا جس کا پور نقشہ وباء طاعون میں ہم نے بلکہ کل ملک نے دیکھ لیا۔ مگر نادان لوگ نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے گو نشئہ سرور اور جوانی میں نہیں جانتے مگر آخر جب نازک گھڑی سر پر آتی ہے تو خود بخود بے ساختہ منہ سے آہ و بکا نکلتا ہے سچ ہے ؎ موت نے کردیا لاچار وگر نہ انساں تھا وہ کافر کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا کیونکہ مال اور اولاد خصوصا بیٹے دنیا کی سج سجاوٹ ہیں بھلا جس کو یہ حاصل ہوں کہ مال بھی ہو اور اولاد بھی تو اس کی نظروں میں کون سما سکتا ہے لیکن دانا جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب و خیال ہے اور کچھ بھی نہیں مگر نیک اعمال جو زندگی کے بعد بھی باقی رہنے والے ہیں مثلاً کسی سے نیک سلوک کیا ہو یا کوئی رفاہ عام کے کام جن کا اثر فاعل سے مرنے کے بعد رہتا ہو یا کوئی نیکی کا کام نماز روزہ وغیرہ ان کا بدلہ اور بدلہ کی امید تیرے پروردگار کے نزدیک سب سے بہتر ہے لیکن لوگ نیک اعمال سے تہی دست رہ کر بھی اللہ سے امیدیں باندھتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ دھوکہ خوری ہے پس تم مستعد ہوجائو اور اس دن سے خوف کرو جس روز ہم تمام موجودہ چیزوں کو فنا کردیں گے اور پہاڑوں کو مثل بادلوں کے چلائیں گے اور تو زمین کو چٹیل میدان دیکھے گا ایسی کہ لا تری فیھا عوجا ولا امتا (اونچائی نیچائی اس میں نہ ہوگی) اور ہم ان سب کو اپنے حضور لا جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے سب کے سب ایک وسیع میدان میں جمع ہوجائیں گے اور تیرے پروردگار کے سامنے صفیں باندھ کر پیش کئے جائیں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دیکھا تمہارا خیال کیسا غلط نکلا کہ تم سمجھتے تھے کہ تمہارے معبود اور مصنوعی دوست اہالی مجلس تمہارے غمگسار ہوں گے آج تم تن تنہا ہمارے پاس ایسے آئے ہوجیسے ہم نے تم کو پہلی مرتبہ تنہا پیدا کیا تھا کہ اکیلے بےیارو مددگار دنیا میں تم گئے ویسے ہی یہاں آئے ہو لیکن تمہارے ہال پر افسوس ہے کہ تم نے دنیاوی حادثات سے ہدایت نہ پائی بلکہ تم نے یہ سمجھا کہ ہم تمہارے لئے کوئی وقت نہ ٹھیرائیں گے جس میں تم کو نیک و بد کی جزا و سزا مل سکے کیا تم نے یہ نہ سمجھا کہ کہ نیک و بد میں اگر تمیز نہ کی جاوے۔ تو ظلم پھر کس کا نام ہے اس روز ان کو اس جہالت کی کیفیت معلوم ہوگی جس روز تمام کائنات ان کے سامنے آجاوے گی اور ان کی اعمال کی کتاب ان کے سامنے رکھی جاوے گی پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اپنی شامت اعمال دیکھ کر اس کتاب کے اندر والی باتوں سے ڈرتے ہونگے کہ آئی موت اور کہیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹا گناہ چھوڑتی ہے نہ بڑا جو کچھ ہم نے کیا ہے یہ سب پر حاوی ہے کیونکہ ان کو بھولے بسرے واقعات سب یاد آجائیں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا سب اس میں موجود پائے گا اور ساتھ ہی اس کی سزا بھی بھگتیں گے مگر نہ کم نہ زیادہ کیونکہ تیرا پروردگار کسی پر ظلم زیادتی نہیں کیا کرتا یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ بے وجہ کسی کو مجرم بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان کو بھی جب تک اس سے شوخی اور گستاخی سرزد نہیں ہوئی مجرم نہیں ٹھیرا یا تجھے معلوم ہے جب ہم نے فرشتوں سے مع ابلیس کے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو ان سب نے ویسا ہی مگر ابلیس نے انکار کیا کیونکہ وہ جنوں سے تھا اس کی طبیعت کو شرارت ہی سوجھی پس وہ اپنے پروردگار کے حکم سے بیفرمان ہوا الٹا آدم سے ایسا بگڑا کہ اس کا اور اس کی اولاد کا صریح دشمن بن گیا اور للکار کر مخالفت کا دم بھرنے لگا یہانتک کہ حلفیہ کہہ چکا ہے کہ میں اس کی تمام اولاد کو گمراہ کروں گا اور مجھ سے جہاں تک ہوسکے گا میں ان کو تباہی میں ڈالونگا تو کیا پھر تم اس موذی کو اور اسکی ذریت اور اتباع کو اپنا دوست بناتے ہو اور ان کی باتیں مانتے ہو حالانکہ وہ تمہارے سب بنی آدم کے دشمن ہیں سچ پوچھو تو ایسے ظالموں کو جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے یارانہ گانٹھیں یہ بہت ہی برا بدلہ ہے کہ اللہ خالق کون و مکان کو چھوڑ کر اس کی مخلوق سے جو ایک ذرہ بھر بھی قدرت نہیں رکھتے ملتجی ہوتے ہیں اور التماس کرتے ہیں حالانکہ ان کو کسی مخلوق کے بنانے میں شرکت تو کیا اتنا بھی نہیں کہ خبر بھی ہو نہیں (اللہ) نے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا تھا کہ آئو دیکھتے رہو نہ خود ان کی پیدائش پر ان کو خبر تک ہوئی اور نہ میں ایسے گمراہ کنندوں اور نہ نیک بندوں سے امداد چاہنے والا نہ میں ان کو قوت بازو بنانے والا ہوں چونکہ یہ گمراہ اور گمراہ کنندہ سب اسی (اللہ) کے بندے اور نمک خوار ہیں اس لئے ابھی سے انہیں مطلع کرنے کو خبر دیتا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس روز اللہ کہے گا کہ جن کو تم نے میرے شریک سمجھا تھا ان کو بلائو تو وہ احمق جانیں گے کہ شاید اس میں ہماری کچھ بھلائی ہو پس وہ ان کو بلائیں گے مگر الٹے پھنس جائیں گے ادھر تو گویا اپنے شرک کا اقرار ہوا ادھر یہ حالت ہوگی کہ وہ بزرگ انبیاء اور اولیاء جن سے دنیا میں مددیں مانگتے رہے تھے ان کی بات کا جواب بھی نہ دیں گے اور ہم ان میں ایک بڑی مضبوط آڑ حائل کردیں گے پس ایک طرف وہ اور ایک طرف یہ ایک دوسرے سے الگ نہ وہ ان کو دیکھیں گے نہ یہ ان کو اور مجرم اپنے سامنے جہنم کی آگ دیکھیں گے تو سمجھے گے کہ ہم اس میں گرے کہ گرے چنانچہ ایسا ہی ہوگا کہ اس میں اوندھے کر کے ڈالے جائیں گے اور اس سے بھاگنے کی راہ ان کو نہ ملے گی کیونکر بھاگ سکتے ہیں جب کہ اللہ کی کتاب اور اس کے احکام سے روگردان تھے اور ہم (اللہ) نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہر طرح کی مثالیں اور دلیلیں بیان کی ہیں تاکہ ان کو ہدایت ہو مگر بقول شخصے ؎ گفتہ گفتہ من شدم بسیار گو از شمایک تن نہ شد اسرار جو بہت ہی کم لوگ ہدایت پر آئے ہیں کیونکہ ایک تو انسان سب مخلوقات سے زیادہ جھگڑنے والا ہے گویا اس کی خلقت اور پیدائش ہی میں جھگڑا داخل ہے علاوہ اس کے بدصحبت کا اثر ان میں سخت سرایت کر رہا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسی بین اور واضح ہدایت پا کر بھی گمراہی نہیں چھوڑتے مگر بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو ہدایت آنے کے بعد ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے گناہوں کی بخشش مانگنے سے کسی امر کی روک اور انتظاری اس کے سوا نہیں کہ پہلے لوگوں کی سی حالت ان پر بھی آوے یعنی بالکل تباہ ہوجائیں یا سامنے سے ہمارا عذاب ان پر آوے جیسا فرعون پر قحط بیماری وغیرہ کا عذاب آیا تھا یعنی ان کی حالت یہ کہہ رہی ہے کہ جب تک تباہ نہ ہوں گے ایمان نہ لاویں گے اصل یہ ہے کہ یہ لوگ نبوت کی ماہیت اور غرض و غائت سے بے خبر ہیں اسی لئے بسا اوقات نبیوں سے ایسے ایسے سوال کرتے ہیں جو ان کی قدرت میں نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہمارے مامور بندے ہوتے ہیں اور ہم (اللہ) بھی رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور گناہوں پر عذاب سے ڈرانے کو بھیجا کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنا یہ فرض منصبی بڑی جانفشانی سے ادا کرتے رہتے ہیں اور کافر لوگ جھوٹ کے ساتھ یعنی باطل امید پیش کر کے نبیوں سے جھگڑے کیا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح اس جھوٹ کے ساتھ سچ کو دبا دیں اور میرے (اللہ) کے احکام کو جو انبیاء کے ذریعہ سے ان کو پہنچایا کرتے ہیں اور برے کاموں پر ڈرائے جانے کو محض ایک ہنسی مخول سمجھتے ہیں بھلا اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اپنے پروردگار کے حکموں سے نصیحت کیا جاوے یعنی اس کو کوئی شخص اس کے مالک خالق رازق اور پروردگار کے حکم سنا دے پھر بھی وہ نالائق ان احکام اللہ تعالیٰ سے رو گردان ہوا اور اپنے اعمال کو جو کر گذرا ہے بھول جائے ایسے نالائق جاہل کا انجام بجز اس کے کیا ہونا چاہئے کہ الٹا کر کے جہنم میں ڈالا جائے چنانچہ ہم نے بھی ان کیلئے وہی تمہید کر رکھی ہے کہ ان کے دلوں پر سمجھنے سے پردے ڈال رکھے ہیں اور ان کے کانوں میں ایک قسم کی بندش پیدا کردی ہے جو سب کچھ انکی شامت اعمال کا نتیجہ ہے اور اسی کا اثر ہے کہ اگر تو ان شریروں کو جو محض عناد سے مقابلہ کرتے ہیں ہدایت کی طرف بلاوے تو کبھی بھی ہدایت نہیں پاویں گے لیکن باوجود ان شرارتوں اور گستاخیوں کے ان کو ہر طرح سے امن و آسائش کیوں دی جاتی ہے؟ اس لئے کہ تیرا پروردگار بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک نیک و بد کو پالتا پوستا ہے ورنہ بھلا اگر وہ انکے اعمال قبیحہ پر مواخذہ کرتا تو کون اس کو روک سکتا؟ فوراً ان پر عذاب نازل کردیتا بلکہ بات یہ ہے کہ ان کیلئے ایک میعاد مقرر ہے اس وقت ان کی ہلاکت کے اسباب آپ سے آپ پیدا ہو کر ان کو تباہ کردیں گے اس کے آنے سے پہلے بھی ان کو کہیں پناہ کی جگہ ہرگز نہ ملے گی تو آنے پر کہاں پھر تو سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر پکڑے جائیں گے ان عادیوں اور ثمودیوں وغیرہ کی بستیوں یعنی ان میں رہنے والوں نے جب ظلم و ستم کئے اور الٰہی احکام کی ہتک حرمت کی تو ہم (اللہ) نے ان سب کو تباہ کردیا اور اس ہلاکت سے پہلے ہم نے ان کے لئے بھی ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ کی وحدانیت میں اگر کسی مخلوق کو کچھ دخل ہوتا تو حضرات انبیاء علیہم السلام کو ہوتا مگر وہ بھی وہاں ایسے تن بتقدیر ہیں کہ ” العظمۃ للہ“ ہی کی آواز آتی ہے الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 الكهف
37 الكهف
38 الكهف
39 الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 الكهف
46 الكهف
47 الكهف
48 الكهف
49 الكهف
50 الكهف
51 الكهف
52 الكهف
53 الكهف
54 الكهف
55 الكهف
56 الكهف
57 الكهف
58 الكهف
59 الكهف
60 (60۔82) تمہیں یاد نہیں ؟ موسیٰ جیسے اولو العزم رسول سے کیا کچھ پیش آیا تھا اس وقت کا قصہ بھی یاد ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تم ہمارے ایک بندے خصر کی ملاقات کو جائو اور اس سے عرفان سیکھو تو اس نے اپنے خادم سے کہا کہ چلو میاں مجھے تو حکم ہوا ہے کہ ایک مرد صالح کی تلاش کروں (صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ سے ایک مجلس میں سوال ہوا کہ بڑا عالم کون ہے حضرت ممدوح نے فرمایا کہ میں کیونکہ حضرت موصوف کے خیال میں اس وقت یہی تھا کہ چونکہ میں سب لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی ہوں اس لئے میں سب سے زیادہ علمدار ہوں مگر اللہ کے علم میں کچھ اور تھا اس لئے ان کو حکم ہوا کہ تم فلاں جنگل میں جائو اور ہمارے فلاں بندے کی صحبت میں رہ کر مزید علم حاصل کرو۔ اس قصے کا یہاں ذکر ہے۔ (منہ) اور یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ مجمع البحرین یعنی دو دریائوں کے ملنے کی جگہ پر رہتا ہے پس میں نے بھی ٹھان لی ہے کہ جب تک مجمع البحرین پر نہ پہنچوں گا نہ ٹھہروں گا یا در صورت پتہ نہ ملنے کے سالہا سال چلتا رہوں گا حتیٰ کہ اسی میں جان دے دوں گا پس وہ دونوں بمقتضائے دست از طلب ندارم تاکام من براید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن براید چل پڑے چلتے چلتے جب مجمع البحرین پر پہنچے تو وہاں سے چلتے ہوئے اپنی مچھلی بھول گئے جو بحکم اللہ تعالیٰ کا ساتھ لے چلے تھے جس کی بابت ان کو حکم تھا کہ جہاں پر یہ تم سے گم ہوگی وہیں وہ مرد اللہ ہوگا تو اس نے سرنگ کی طرح دریا میں اپنا راستہ بنا لیا پس جب وہ دونوں اس مقام سے آگے بڑھے تو حضرت موسیٰ نے اپنے خادم یوشع سے کہا کہ ہمارا ناشتہ تو لائو پہلے ہمیں تو اس سفر میں سخت تکلیف پہنچی ہے لائو کچھ کھا کر آرام کریں وہ بولا آپ نے یہ بھی دیکھا کہ جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھیرے تھے تو میں اس مقام پر وہ مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان نے اپ سے اس واقعہ کا یاد دلانا بھلا دیا اور اس مچھلی نے دریا میں اپنی راہ عجب طریق سے بنائی کہ فورا گھس گئی موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ وہی مقام تو ہے جس کو ہم تلاش کر رہے ہیں سو وہ اتنا کہہ کر اپنے قدموں کی کھوج لگاتے ہوئے الٹے پائوں چلے پس جب وہاں مقام موعود پر پہونچے تو انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک صالح بندہ جس کا نام خضر تھا پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت کا ملہ عنایت کی تھی۔ اور بغیر ذریعہ ظاہری استاد کے اس کو محض اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا یعنی معرفت کا ملہ سے حصہ دیا تھا حضرت موسیٰ نے اسے ؎ لیٹا ہوا دیکھ کر سلام علیک کہا اس نے کہا تو کون ہے؟ موسیٰ نے کہا میرا نام موسیٰ ہے کہا بنی اسرائیل کا موسیٰ؟ کہاں ہاں کہا کیوں آیا؟ کہا مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم ہوا ہے پس کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس شرط پر کہ جو کچھ اللہ نے آپ کو علم و فضل دیا ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ سکھائیے؟ اس نے کہا میاں تم کہا؟ تمہارے دماغ میں نبوت کی شان سمائی ہوئی ہے یہاں خاکساری ہی خاکساری ہے شروع شروع میں تو کام آسان معلوم ہوتا ہے مگر انجام کار رقت اور تکلیف ہوتی ہے ؎ کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا ان وجوہ سے مجھے یقین ہے کہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہیں کرسکے گا۔ اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ تو جس چیز کی اصلیت کو نہیں جانتا اس کے متعلق ظاہر احوال پر کیونکر صبر کرسکے گا بلکہ اسی حکومت شرعیہ کے خیال سے بات بات پر مجھے تنگ کرے گا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جناب کا ارشاد بجا ہے بے شک میری نبوت اسی بات کی متقضی ہے کہ میں ہر ایک کام پر جسے ناجائز جانوں ٹوک دوں اور اس کے متعلق حکم اللہ بتائوں مگر جس اللہ نے مجھے منصب نبوت عطا کیا ہے اسی نے آپ کی نسبت بتلایا ہے کہ ؎ بمئے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نیود زراہ و رسم منزلہا (اس شعر کو عموماً جہلا بھنگڑ اپنے مریدوں اور دام افتادوں کو سنا کر اپنے ناجائز کاموں پر اعتراضات کرنے سے روک دیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا یہ حق نہیں بلکہ یہ شعر ان مرشدوں کے لئے ہے جو مستقل مرشد ہوں یہ تو خود تابع شریعت ہیں ان کو یہ استقلال کہاں بلکہ خلاف شریعت بھی حکم ان کا جاری ہوسکے۔ بلکہ شعر مذکور کا مطلب یہ ہے کہ جو کام اللہ اور اس کے رسول بحکم اللہ فرما دیں خود ہماری طبیعوں کے برخلاف بھی ہو اس کی تعمیل کرنی چاہیے کیونکہ اسرار شریعت کی ہمیں خبر نہیں جیسی کہ ان کو ہے۔ (منہ) یہ حکم آپ ہی جیسے کامل مرشد کے لئے تو ہے پس آپ مجھ کو انشاء اللہ صبر کرنے والا پاویں گے اور میں ہرگز کسی کام میں آپ کی بے فرمانی نہ کروں گا خضر نے کہا پس سن میاں اگر تو طلب صادق سے میرا اتباع کرتا ہے تو کسی بات سے مجھے سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں خود ہی تجھ کو اس کا راز بتائوں پس اس کے بعد دونوں (پیر و مرید) چلے یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی پر سوار ہوئے تو خصر نے کشتی کو توڑ دیا موسیٰ سے رہا نہ گیا اس نے کہا کیا آپ نے اس کشتی کو اس لئے توڑا ہے کہ اس کے سواروں کو پانی میں غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑا خطرناک اور مکروہ کام کیا ہے خضر نے کہا فقیروں کی بات تم بھول گئے کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کرسکے گا دیکھا نہ سائیں لوگوں کی بات کیسی سچی ہوئی؟ موسیٰ نے بڑی منت سماجت سے عرض کیا کہ حضرت بندہ نواز میری بھول پر مجھے مؤاخذہ نہ فرمائے اور میرے ساتھ اس کام میں سخت گیری نہ کیجئے اس عذر پر خضر نے معافی دی اور از سر نو تنبیہ کردی کہ دیکھنا خبردار رہنا آئندہ کو ایسی بھول چوک نہ ہونے پائے یہ کہہ کر پھر دونوں پیرو مرید یوشع کے جو موسیٰ کا خادم تھا اپنی چلے چلتے چلتے ایک لڑکے سے ملے تو حضرت خصر نے بسم اللہ کر کے اس کو قتل کردیا بس پھر کیا تھا حرارت موسویہ جوش میں آئی موسیٰ نے کہا صاحب ! یہ کیا ماجریٰ ہے مانا کہ آپ بزرگ ہیں پیر صاحب ہیں مگر ایسے بھی کیا ہم نے بھی تو شریعت میں سبق پڑھا ہے کہ ناجائز کام پر خاموش رہنا گونگے شیطان کا کام ہے کیا آپ نے ایک بیگناہ معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے کے قتل کردیا ہے آخر اس کی بھی کوئی وجہ ہے کچھ شک نہیں کہ یہ کام تو آپ نے بہت ہی بے جا کیا ہے خضر نے کہا بیٹا ! میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا؟ کہ تو میرے ساتھ کسی طرح صبر کرنے کی طاقت نہ رکھے گا موسیٰ بھی عجب کشمکش میں تھے ادھر شریعت کا ادب ہے دماغ میں نبوت کی شان ہے سینہ میں رسالت کا علم ہے ادھر پیر طریقت کا پاس خاطر ہے لیکن آخر اس خیال سے کہ جب اللہ ہی نے مجھے اس کے پاس بھیجا ہے تو اس کی تابعداری بھی حقیقتاً اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے آخر بمنت و سماجت اس نے عرض کیا کہ حضرت واقعی مجھ سے بڑی ہی بے ادبی صادر ہوئی مگر چونکہ حضرت کے خدام سے بھی مخفی نہیں کہ میری یہ حرکت محض اخلاص سے ہے اس لئے قابل معافی ہوں پس آپ معاف فرمائیے ہاں اگر آئندہ کسی چیز کا آپ سے سوال کروں تو پھر مجھے اپنی صحبت میں نہ رکھئے گا بے شک میری طرف سے آپ ایک معقول عذر تک پہونچ چکے ہیں۔ خیر یہ نوبت بھی معاف ہوئی پھر چلے یہاں تک کہ ایک بستی پر گذرے تو بوجہ بھوک شدید کے اور اس لحاظ سے کہ ہم ان کے مہمان ہیں اس بستی کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا طلب کیا تو انہوں نے بوجہ بخل کے مہمانی دینے سے انکار کیا اس پر انہوں نے بھی اصرار نہ کیا جس طرح ہوسکا گذارہ کرلیا تھوڑی دیر گذری تو اس بستی میں انہوں نے ایک دیوار پائی جو گرنے کو تھی حضرت خضر نے اس کو ہاتھ سے سیدھا کردیا حضرت موسیٰ کو خیال ہوا کہ یہ عجیب بات ہے کہ مزاج کا انداز ہی نہیں ملتا خشک کو تر اور ترکو خشک کرنا انہی کا کام ہے ادھر پاس ادب بھی مانع کہ سوال ہو تو کیونکر آخر عنوان بدل کر کہا کہ حضرت میں اعتراض یا سوال تو نہیں کرتاکہ حضور نے ایسا کام کیوں کیا ہاں یہ ضرور عرض کرتاہوں کہ ان لوگوں کی بے مروتی حضور سے مخفی نہیں کہ کس طرح انہوں نے ہماری ضیافت اور مہمانی سے جو شرعا و عرفا ان پر واجب تھی انکار کیا پس اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کہ حضور نے ان کی دیوار مفت میں سیدھی کردی ہے ان سے کچھ اجرت لے لیتے جو ہمارے زادہ راہ کے لئے کام آتی خضر تو یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے کہا لے بیٹا بس اب تو تیری میری جدائی ہے مجھ سے ایسے آدمی کے ساتھ نباہ مشکل ہے جو بار بار سمجھائے بھی نہیں سمجھتا۔ اب میں تجھے ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا حقیقت بتلائوں گا تاکہ تیرا اتنا دور دراز کا سفر رائیگاں نہ جائے پس غور سے سن جن کاموں پر تو نے اعتراض کئے تھے میں بھی مانتا ہوں کہ بظاہر وہ محل اعتراض ہی ہیں لیکن ان میں ایک راز بھی مخفی تھا جس پر تجھے اطلاع نہیں تیری میری مثال بالکل ایک جراح کی سی ہے کہ ایک ظاہر ہیں حقیقت حال سے بے خبر جراح کو دیکھو کہ فورا اعتراض کریگا کہ کیوں اتنا ظلم کرتا ہے کہ ناحق اس مظلوم کا اس قدر خون نکال دیا ہے مگر حقیقت حال سے خبردار اس راز کو سمجھ سکتا ہے کہ جراح کا یہ کام کسی اور غرض سے ہے جو اس خون کے نکلنے سے کہیں زیادہ مفید ہے پس سنو ! کہ وہ کشتی جس کو میں نے کسی قدر توڑ دیا تھا وہ غریبوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کا کام کرتے تھے پس میں نے چاہا کہ اس کو کسی قدر عیب دار کردوں کیونکہ ان سے آگے سامنے کنارہ پر ایک بادشاہ کا آدمی کھڑا تھا اس کو ملکی ضرورت کیلئے کشتیوں کی ضرورت تھی وہ زبردستی سے ہر ایک کار آمد کشتی کو پکڑ لیتا تھا اس میں محض انہی کا فائدہ تھا کہ اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر نہ پکڑے گا اور یہ باچررے اسی سے اپنی روزی کماتے رہیں گے اب اس لڑکے کا حال بھی سن جس کو میں نے تیرے سامنے قتل کیا تھا اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ مجھے مکاشفہ میں معلوم ہوا تھا کہ وہ بڑا شریر ہوگا اور اس کے ماں باپ مؤمن ہیں پس ہمیں خوف ہوا کہ ان دونوں (ماں باپ) پر اپنی سر کشی اور کفر سے غالب نہ آجائے اور وہ بے چارے اس کی محبت میں پھنس کر اپنا حال تباہ نہ کرلیں پس ہم نے چاہا یعنی دعا کی کہ ان کا پروردگار یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اس بچے کے عوض میں ایک ایسا بچہ عنایت کرے جو سب سے زیادہ پاک طینت اور پاک قرابت رکھنے والا ہو اور جو دیوار تم نے دیکھی تھی وہ اس شہر میں دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا خزانہ تھا اور ان کا باپ بڑا نیک صالح تھا پس تیرے پروردگار نے ارادہ کیا اور مجھے مکاشفہ میں اپنے ارادہ پر مطلع کیا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں ایسا نہ ہو کہ دیوار گر پڑے اور لوگ ان کی بے خبری میں سب کچھ لوٹ کرلے جائیں یہ ماجریٰ محض تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے ورنہ میں نے یہ کام اپنی رائے سے نہیں کئے بلکہ اللہ کے بتلانے سے کئے ہیں یہ اصل حقیقت ان کاموں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔ چونکہ اللہ نے ایک کام کے لئے الگ الگ آدمی پیدا کئے ہیں جیسا کہ مشہور ہے لکل فن رجال تم کو اللہ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے جو بقول شیخ سعدی ؎ دیں جہد میکند کہ بگیرد غرید یق را متعدی ہے تم کو جو علم اللہ نے سکھایا اس میں عامہ مصلحت منظور ہے باقی جو میری کیفیت ہے یہ تو بقول شخصے گفت او گلیبم خویش بروں مے بروز موج صرف لازمی اثر ہے ہاں اگر آپ چند روز اور ٹھیرتے تو صحبت کے اثر سے ایک قوت تم میں پیدا ہوجاتی کہ ایسے مخفی رازوں کی بذریعہ مکاشفات تم کو بھی اطلاع ہوا کرتی مگر جو کام اللہ نے تم سے لینا ہے وہ اور ہے جو اس سے بدرجہا ضروری ہے اس لئے مناسب ہے کہ تم جا کر لوگوں کو احکام نبوت سکھائو اسی میں ان کی بھلائی ہے یہاں دیوانوں کے ساتھ رہ کر کیا کرو گے مصلحت نیست کہ از پردہ پروں افتد راز ورنہ در مجلس نداں خبرے نیست کہ نستو حضرت خضر نے اس باب میں ایک اصول مقرر کردیا کہ جو کچھ کسی نبی یا رسول کو یا کسی ولی یا بزرگ کو امور غیبیہ پر اطلاع ہوتی ہے وہ از خود نہیں ہوتی ہے بلکہ محض اللہ کے بتلانے سے ہوتی پھر جس قدر اللہ بتلا دے اسی قدر ہوتی ہے اس سے زائد نہیں ہوسکتی الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 الكهف
75 الكهف
76 الكهف
77 الكهف
78 الكهف
79 الكهف
80 الكهف
81 الكهف
82 الكهف
83 (83۔110) پس یہ لوگ جو تجھ سے ( اے نبی) ذوالقرنین کا قصہ پوچھتے ہیں تو ان کو کہہ کہ میں اللہ کے بتلانے سے تم کو اس کا تھوڑا سا قصہ سناتا ہوں سنو ! اللہ فرماتا ہے ہم نے اس کو ملک میں قدرت دی تھی اور ہر چیز کے سامان اور حصول کے ذریعے ہم نے اس کو دئیے تھے پس وہ ملک میں دورہ کرتا ہوا ایک راہ پر چلا گیا جہاں تک کہ جب وہ اپنے ملک کے مغربی سمندر کے کنارہ پر سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچا تو اس نے اپنے خیال میں سورج کو پانی کی دلدل میں سمندر کے اندر ڈوبتا پایا جیسا کہ عموما کنارہ سمندر پر کھڑے ہو کر گمان ہوتا ہے گو یہ خیال صرف واہمہ ہوتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ نظر میں ایسا ہی آتا ہے اور اس نے اس کے پاس ایک قوم بھی آباد پائی جو سمندر کے کنارے کنارے بس رہی تھی جن کے حق میں ہم (اللہ) نے اس سے کہا یعنی اس کے دل میں القا کیا کہ اے ذوالقرنین بادشاہ مناسب مصلحت ان کو سزا دو۔ یا انکے حق میں حسن سلوک اختیار کرو جیسا کوئی ہو اس سے ویسا ہی برتو اس نے سوچکر ایک عام اعلان کیا اور کہا کہ جو کوئی ظلم یعنی خون خرابے ! کریگاہم سرکار اس کو دنیا میں عذاب کی سزا دینگے پھر وہ مر کر اپنے پروردگار کے پاس جائے گا تو وہ بھی اس کو سخت سزا دیگا غرض دونوں جہانوں میں اس کی بری گت ہوگی (اس مقام پر مخالفین اسلام نے بہت بہت موشگافیاں کی ہیں اور ناحق اپنی معمولی بے سمجھی سے قرآن شریف پر اعتراضات کئے ہیں کہ سورج تو تمام کرہ زمین سے بدرجہا بڑا ہے پھر وہ سمندر میں ڈوبا کیسا ہوگا لیکن یہ ان کا خیال خام ہے وجد کے معنے ہیں اس نے خیال کیا پس مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین نے سمندر کے کنارہ پر مغرب کے وقت خیال کیا کہ سورج سمندر کے اندر ڈوبتا ہے سمندر کے کنارہ پر تو کیا کسی بڑے تالاب پر بھی ایسا ہی خیال ہوتا ہے اس کی حکایت قرآن شریف میں ہے۔ بعض بلکہ اکثر علماء نے یہاں پر جو ظلم اور ایمان کے معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ظلم سے مراد شرک کفر ہے اور ایمان سے مراد اسلام ہے ذوالقرنین نے اپنی رعیت میں اعلان کیا کہ جو کوئی شرک کرے گا اس کو سزا دوں گا اور جو ایمان لائے گا اس کو نواز دوں گا چونکہ یہ معنے اصول شریعت کے برخلاف ہیں کیونکہ شریعت کا قانون ہے کہ رعایا خواہ مشرک ہو اس کی بھی حفاظت کی جاتی ہے نہ یہ کہ ان کو شرک کرنے پر سزا ملتی ہے اس لئے میں نے یہ معنے نہیں کئے۔ (منہ) اور جو امن سے رہیگا دوسروں کو امن دیگا لوٹ کھسوٹ نہ کریگا اور اپنے آپ میں نیک عمل کریگا تو اس کو اچھا بدلہ ملیگا اور ہم بھی اس کو اپنے کاموں میں آسانی کریں گے یعنی خراج وغیرہ میں اس کو تخفیف کریں گے یہ ایک عام اعلان بطور ایک سرکلر سرکاری کے ذوالقرنین نے جاری کیا جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ ملک میں امن ہو کوئی کسی پر لوٹ کھسوٹ نہ مارے چنانچہ اس کے اس سرکلر (اعلان شاہی) نے خوب اثر کیا کہ غارت گر قومیں ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے برتائو کرنے لگ گئیں پھر وہ ایک اور راہ چلا یہاں تک کہ جب وہ اپنے ملک میں سورج کے چڑھنے کی جگہ پر پہنچا تو سورج کو ایک ایسی قوم پر چڑھتے ہوئے اس نے پایا کہ ان کے لئے سورج سے ورے ہم (اللہ) نے کوئی روک نہ بنائی تھی بالکل وہ سمندر سے نکلتا ہوا ان کے سامنے طلوع کرتا تھا کوئی پہاڑ وغیرہ اس میں حائل نہ تھا اسی طرح ذوالقرنین سکندر اپنے ملک میں دورہ کرتا تھا اور اس کے پاس جو کچھ تھا ہمیں اس کی پوری اطلاع اور خبر تھی پھر وہ ایک اور راستہ چلا یہاں تک کہ پہاڑی سلسلسہ میں جب وہ دو گھاٹیوں کے بیچ پہنچا یعنی ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں پہاڑی سلسلہ میں ایک درہ تھا جیسا ہمارے ملک کی سرحد پر درہ خیبر یا درہ بولان ہے وہاں پہنچ کر اس نے ان پہاڑوں سے ورے ایک قوم پائی جو بوجہ اپنے وحشیانہ پن اور غیر زبان ہونے کے ذوالقرنین کی کوئی بات نہ سمجھ سکتے تھے آخر انہوں نے کسی ترجمان وغیرہ کے ذریعہ ایک درخواست گذاری اور کہا اے ذوالقرنین ! یاجوج ماجوج کی قوم جو اس درے سے پار رہتے ہیں ہمارے ملک میں فساد کرتے ہیں کیا ہم حضور کے لئے کچھ ٹیکس ادا کردیں کہ حضور ہمارے اور ان کے درمیان کوئی مضبوط سی روک کردیں ذوالقر نین کا چونکہ فرض منصبی تھا کہ اپنی رعیت کو مفسدوں سے امن دلائے اس لئے اس نے اس معمولی کام کیلئے نیا ٹیکس لگانا تو پسند نہ کیا اور کہا جو کچھ اللہ نے مجھے قدرت اور طاقت بخشی ہے وہی کافی اور بہت اچھی ہے پس تم ٹیکس تو نہ دو البتہ اپنی قوت سے میری مدد کرو یعنی میری مزدوری کرو اور سد سکندری اور یاجوج ماجوج : سد سکندری نے بھی لوگوں کو حیران کر رکھا ہے حالانکہ یہ واقعہ ایک معمولی ہے کہ ذوالقرنین بادشاہ ملک کا دورہ کرتا ہوا جب ایک پہاڑی قوم کے پاس پہنچا تو اس قوم نے درخواست کی کہ ہمارے ملک پر مفسدوں کا گروہ لوٹ کھسوٹ کرتا ہے حضور اس کا کوئی انتظام فرما دیں بادشاہ نے ان کی درخواست منظور کرلی اور دو پہاڑوں کے ورے کو بند کردیا اور بس اب قرآن شریف کے الفاظ قابل غور ہیں کہ اس دیوار کی لمبائی بین الصدفین بتائی ہے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ میں جو درہ تھا اس کو بند کردیا اتنے سے وہ مفسد لوگ اس طرف آنے سے رک گئے اور رعایا سلطانی کو امن امان نصیب ہوا۔ تعجب ہے ایسی چھوٹی سی دیوار کی تلاش میں سید احمد خاں مرحوم چین کے ملک میں جا پہنچے اور تلاش کرتے کرتے ان کو دیوار عظیم (گریٹ وال) پر نظر جا پڑی جو لمبائی میں آٹھ سو کوس کے قریب ہے اور جوڑائی میں اتنی ہے کہ چھ گھوڑے سواری کے ساتھ اس پر سے گذر سکتے ہیں۔ اونچائی اس کی اوسطاً نصف میل کے برابر ہے جو پانچ سال میں بنائی گئی تھی۔ مگر قرآن شریف پر غور کرنے سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے پہاڑ کے دو طرفوں (صدفین) کے مابین کو بند کردیا اور کیا بھی ایسی عجلت میں کہ دورہ پر پھر رہا تھا اور بادشاہوں کا دورہ میں پانسال تک ایک جگہ ٹھیرے رہنا مستبعد امر ہے حالانکہ قرآن شریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے بعد تیاری کے اس دیوار کو خود ملاحظہ کیا بلکہ اس کے بننے کے زمانہ میں خود بنفس نفیس حاضر رہا اس لئے سرسید مرحوم کی تلاش افسوس کہ ” کوہ کندن و کاہ برآور دن“ سے زیادہ نہیں مختصر یہ کہ یہ دیوار ایک پہاڑی درہ کی بندش تھی جو پہاڑی سلسلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ ممکن ہے کہ مرور زمانہ سے گر کر تباہ ہوگئی ہو۔ باقاعدہ مجھ سے اجرت پائو میں تم میں اور ان مفسدوں میں ایک روک کردوں گا یہ کہہ کر اس نے حکم دیا کہ میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لائو میں اس درے میں ان کو تہ بتہ لگا دوں چنانچہ انہوں نے تمام لوہا جمع کیا اور کاٹ کاٹ کر تہ بتہ لگاتے گئے ایک تہ لوہے کی اور ایک تہ کوئلوں یا لکڑی وغیرہ کی جگہ آگ لگ سکے حتی کہ جب اس نے درے کو پاٹ دیا ایسا کہ لوہے کی دیوار اس درے کے اوپر کے کناروں تک پہونچ گئی تو اس نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگا دو پس آگ لگائی گئی یہانتک کہ جب اس کو جلا جلاکر بالکل آگ کردیا تو اس نے کہا کہ لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں یعنی اس دیوار پر گلا ہوا تانبا ڈالدوں تاکہ یہ مضبوط ہو کر قابل سوراخ نہ رہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پس وہ یاجوج ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے اور نہ اس میں سوراخ ہی کرسکے کیونکہ آخر وہ بھی آدمی ہی تھے معمولی ڈاکوؤں کی طرح ان کا طریق تھا یینس لوٹ گھسوٹ پر ان کا گذارہ تھا اور بس اس کا مل انتظام کو دیکھ کر ذوالقرینین نے بطور شکریہ اور انکسار کے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے گو یہ دیوار کیسی بڑی اور مستحکم ہے تاہم کچھ ایسی نہیں کہ قدرتی حملوں کو روک سکے پس جب میرے پروردگار کا حکم آئے گا ایک دم میں اس کو چکنا چور کر دے گا اور میرے پروردگار کا حکم بیشک ہو کر رہے گا چونکہ کسی چیز کو دوام نہیں تو پھر اس ناچیز دیوار کی کیا ہستی؟ (یاجوج ماجوج کی ماہیت کا بیان تو قرآن شریف میں نہیں آیا۔ البتہ اتنا آیا ہے کہ وہ مفسد قوم ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ یقول اللہ تعالیٰ یا ادم فیقول لبیک و سعدیک والخیر کلہ فی یدیک قال اخرج بعث النار قال وما بعث النار قال من کل الف تسعمائۃ وتسعاً و تسعین فعندہ یشیب الصغیر… قالوا یا رسول اللہ راینا ذلک الواحد قال ابشروا فان منکم رجلا ومن یاجوج وماجوج الف (الحدیث متفق علیہ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا اے آدم تو جہنم کے لائق جماعت تیار کر آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اے اللہ کتنے لوگ جہنم کے لائق ہیں ارشاد ہوگا ایک ہزار میں سے نو سو ننانویں وہ وقت بہت ہی سخت ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے صحابہ کرام نے عرض کیا حضرت ! بھلا وہ ایک ہم میں سے کون ہوگا؟ آنحضرت نے فرمایا تم خوش ہو کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک ہوگا۔ “ اس حدیث کے معنے قابل غور ہیں کہ مخاطبین میں سے ایک آدمی ناجی کے مقابلہ پر ایک ہزار یاجوج ماجوج فرمایا ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ ایک آدمی کون ہے مسلمان نیکو کار یا عام بنی آدم خواہ مومن ہو یا کافر؟ کچھ شک نہیں کہ اس جگہ صورت اولیٰ مراد ہے۔ یعنی ناجی صرف مسلمان نیکوکار ہوں گے اس زمانہ کے مسلمان ہوں یا گذشتہ زمانہ کے صالحین لوگ مراد ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان نجات یافتوں کے مقابل یاجوج ماجوج اگر کوئی اور قوم ہے جو ان دیکھی اور ان سنی ہے تو موجودہ گذشتہ کفار کس شمار میں ہوئے کیونکہ فی ہزار ایک ایماندار ناجی ہے اور باقی تعداد یاجوج ماجوج نے پوری کرنی ہے تو کفار۔ بت پرست۔ یہود و نصاریٰ کس شمار میں ہوئے۔ کیا ناجی گروہ میں ہیں؟ ہرگز نہیں (ان اللہ لا یغفر ان یشرک) اللہ شرک کبھی نہیں بخشے گا ناجی گروہ میں نہیں تو یاجوج ماجوج میں ہوں گے بے شک یہ صورت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج کل کے شمار سے کیا پہلے حساب سے بھی یہی ثابت ہوتا کہ ہے قلیل من عبادی الشکور (شکر گذار بندے بہت کم ہیں) کا ارشاد صحیح ہے چنانچہ اسی حدیث کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ ما انتم فی الناس الا کالشعرۃ السوداء فی جلد ثورا بیض او کشعرۃ بیضاء فی جلد ثورا سود (متفق علیہ) یعنی تم مسلمانوں کا شمار باقی لوگوں کے مقابلہ پر ایسا ہے جیسے ایک سیاہ بال سفید بیل کی پیٹھ پر یا سفید بال سیاہ بیل کی پیٹھ پر اس سے بھی نیکوکاروں کی کمی بتلانی مقصود ہے جو واقعی فی ہزار ایک کی تعداد کا حساب پورا بتلاتی ہے پس جب ایک کے مقابل پر یاجوج ماجوج ایک ہزار کے قریب یا پورے ایک ہزار ہوئے تو جہنم کی تعداد تو انہی سے پوری ہوگئی پھر اور کسی کیا حاجت ہوگی؟ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج سے مراد وہی لوگ ہیں جو مفسد ہیں جو حضرات انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا خلاف کرتے ہیں چنانچہ سورۃ بقرہ کے شروع ہی میں مخالفین اسلام کو مفسد فرمایا ہے بلکہ مفسد کا بدوصف انہی میں حصر کردیا ہے ارشاد ہے الا انھم ھم المفسدون سنو ! وہی مفسد ہیں المفسدون معرف باللام ہے جو خبر متبدأ کی ہے علم معانی کا قاعدہ ہے کہ خبر معرف باللام سے حصر حاصل ہوتا ہے پس معنے اس جملے کے یہ ہوئے کہ فساد کے بد وصف کو مخالفنج اور معاندین اسلام میں حصر کردیا ہے اور یاجوج ماجوج کی تعریف بھی مفسدون کے لفظ ہی سے فرمائی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یاجوج ماجوج مخالفین اسلام ہی کا نام ہے خواہ کسی ملک کے باشندے اور کسی قوم کے ممبر ہوں۔ اب یہ سوال باقی ہے کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ اذا فتحت یاجوج وما جوج وھم من کل حدب ینسلون یعنی قریب قیامت یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے تو وہ ہر ایک بلندی سے نیچے کو آویں گے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج قریب قیامت کے آویں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان مخالفوں مفسدوں کی اس حالت کا بیان ہے جب ان کا نہایت غلبہ اور زور شور ہوگا جس زمانہ کی بابت حدیثوں میں آیا ہے لا یقال اللہ اللہ یعنی دنیا پر اللہ اللہ کہنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ کچھ شک نہیں کہ ایسے برے وقت میں یاجوج ماجوج یعنی مفسدوں کا بہت زور ہوگا اور وہی ہر ایک بلندی اور پستی پر متصرف اور قابض ہوں گے پس اس وقت قیامت قائم ہوجائے گی۔ رہا یہ سوال کہ یاجوج ماجوج اسم غیر منصرف ہے جس میں عجمیت اور علمیت ہے۔ سو واضح ہو کہ علمیت کبھی شخصی ہوتی ہے جیسے ابراہیم۔ اسماعیل وغیرہ اسماء میں ہے اور کبھی جنسی ہوتی ہے وہ بھی معتبر ہے جیسے ابوہریرہ کی ہریرہ میں۔ اگر علمی جنسی معتبر نہ ہو تو ابوہریرہ میں ہریرہ غیر منصرف نہ ہوتا حالانکہ اکثر اہل علم اس کو غیر منصرف پڑھتے ہیں۔ اسی طرح یاجوج ماجوج میں علم شخصی تو کوئی بھی نہ کہے گا البتہ علم جنسی ہے جو افساد کے وصف سے ان کو حاصل ہے اور علم جنسی یہی ہوتا ہے کہ مفہوم جنس کو ذہن میں متعین کر کے اس کے مقابلہ پر ایک نام تجویز کیا جاتا ہے گو اس کے افراد متغیر متبدل ہوں مگر جنس اس کی یعنی نوع عام قائم رہتی ہے علمیت کے لئے وہی کافی ہوتی ہے اسی طرح یاجوج ماجوج میں وصف افساد کو ملحوظ اور متعین کیا گیا ہے اسی لئے یہ اسماء غیر منصرف ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ یاجوج ماجوج دیوار کو چاٹ رہے ہیں بلکہ کسی قدر سوراخ اس میں انہوں نے کر بھی لیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قریب قیامت کے نکلیں گے اور اب وہ دیوار سے مسدود ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سابق میں چونکہ مفصل آچکا ہے کہ ایک آدمی ناجی اور نو سو ننانوے غیر ناجی ہوں گے پھر ان کی تقسیم بھی یوں کی ہے کہ ایک مومن اور ایک کم ہزار یاجوج ماجوج ہوں گے اس حدیث کو اس حدیث کے ساتھ ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں جو ان کے دیوار کو چاٹنے کا ذکر اور قریب قیامت کے نکلنے کا مذکور ہے اس سے مراد ان کی کثرت اور غلبہ ہے یعنی عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ شریر لوگ دنیا کے ہر حصے پر متصرف اور قابض ہوجائیں گے چنانچہ اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں کہ ویل للعرب من شرقد اقترب یعنی عرب کے لئے افسوس ہے کہ شر قریب آگیا ہے عرب کی خصوصیت ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ دین کے اعتبار سے ہے یعنی عربی دین (اسلام) پر افسوس کا وقت آنے والا ہے شریر لوگ اس پر بھی غلبہ پاویں گے یہ وہی وقت ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں فرمایا کہ لا یقال اللہ اللہ یعنی دناھ میں کوئی شخص اللہ اللہ کہنے والا بھی نہ رہے گا۔ مختصر یہ کہ سد سکندری ایک معمولی دو تین گز پہاڑی درہ کی بندش تھی جو اس وقت کے مفسدوں کے بند کرنے کو کافی تھی اور یاجوج ماجوج مفسد قوموں کا نام ہے جو قریب قیامت کے اللہ پرستوں پر غالب آن کر سب دنیا میں خرابی بپا کریں گی۔ اللھم احفظنا منہم اٰمین) اس دن یعنی جب یاجوج ماجوج پھر دنیا میں آئیں گے اس کی کثرت سے آئیں گے کہ ایک پر ایک ایسے گڈ مڈ ہوں گے کہ دریا کی موج کی طرح گھمسان ہوں گے اور دنیا پر از سر نو فساد برپا کریں گے قریب ہی اس دن سے صور میں پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوجائے گی پھر ہم (اللہ) سب کو ایک جگہ جمع کریں گے اور جہنم کافروں کے سامنے لاکھڑی کریں گے۔ کون کافر یا جن کی آنکھیں میری یاد دلانے والی چیزوں کے دیکھنے سے پردے میں ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ نہ آیات قدرت کو دیکھتے ہیں اور نہ آیات قرآنیہ کو سن سکتے ہیں صرف دنیاوی عیش و آرام میں منہمک ہیں جو کام کرتے ہیں صرف دنیا کی غرض سے کرتے ہیں اگر کوئی مذھبی کام کرتے ہیں تو بس یہ کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا ساجھی بناتے ہیں تو کیا ان کافروں نے یہی سمجھ رکھا ہے کہ میرے سوا میرے بندوں کو کارساز بنانا ان کے حق میں کوئی نیک کام اور بہتر ہے؟ ہرگز نہیں ہم نے ایسے نالائقوں اور کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے خواہ یہ دنیا میں کیسے ہی عزت کے مرتبہ پر ہوں اور مومنوں کو کیسا ہی ذلیل اور خسارہ میں جانیں تاہم یہ اسی لائق ہیں تو اے رسول ! ان سے کہہ کہ تم تو ہم مسلمانوں کو ایک ہی اللہ کی طرف ہو رہنے سے دنیاوی نقصانات میں جانتے ہو میں تم کو بتلائوں کہ بڑے ٹوٹے والے کون ہیں کن کی تجارت میں خسارہ ہے اور اس دنیا کی منڈی میں اپنا مال و اسباب ضائع کر کے خالی ہاتھ کون جائیں گے سنو وہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش ساری کی ساری دنیا ہی میں وہس گئی یعنی جو کام کرتے ہیں محض دنیا ہی کے فوائد کیلئے کرتے ہیں پھر طرفہ تر یہ کہ اسی میں منہمک ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے کام کرتے ہیں اتنا نہیں سوچتے کہ جس دنیا کے لئے ہم اتنی تگ و دو کررہے ہیں اس میں کتنی مدت ہمیں رہنے کی اجازت ہے آہ یہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ کسی کا کندہ نگینہ پہ نام ہوتا ہے کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے عجب سرا ہے یہ دنیا کہ جس میں شام و سحر کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے چونکہ یہ لوگ اپنے اصل مقصد کو بھول چکے ہیں پس سچ سمجھو کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے حکموں اور اس کی ملاقات سے منکر ہیں بس ان کو اس کی پاداش یہ ملی ہے کہ ان کے نیک اعمال جو کچھ بھی انہوں نے کبھی کئے ہونگے سب کے سب ضائع اور اکارت جائیں گے پھر قیامت کے روز انکے لئے ہم کوئی وزن نہ کریں گے بالکل اس قابل ہی نہ ہوں گے کہ ان کو کسی شمار و قطار میں لیا جائے انکے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے ان کی سزا بس یہی جہنم ہوگی کیونکہ انہوں نے میرے (یعنی اللہ کے) حکموں سے انکار کیا اور میری آیتوں اور احکام اور رسولوں کو محض مخول ٹھٹھا سمجھے تھے بس یہی ان کی سزا ہوگی ہاں کچھ شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کے لئے اعلیٰ درجے کی جنت الفردوس کی نعمتیں اور آسائش مہمانی ہوگی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ایسی خوشی میں ہوں گے کہ اس جنت سے الگ ہونا نہیں چاہیں گے اگر ان کو یہ شبہ ہو کہ ہمیشہ ہمیشہ تک وہ کیا کھائیں گے اتنا رزق ان کو کہاں سے ملے گا تو تو کہہ کہ اگر سمندر بلکہ سات سمندر میرے پروردگار کے معلومات اور مقدورات کیلئے سیاہی بن جائیں اور تمام دنیا کے درخت قلم ہوجائیں اور ان سے اللہ کے کلمے یعنی اس کے معلومات اور مقدورات یعنی جن کاموں اور چیزوں پر وہ قادر ہے رکھے جائیں تو یہ سمندر ختم ہوجائے پہلے اس سے کہ میرے پوردگار کے معلومات اور مقدورات ختم ہوسکیں اگرچہ ہم اس جیسی اور مدد بھی لائیں چاہے سات سمندر بھی ملا دیں تو بس پھر کیا اندیشہ ہے جس پروردگار کی اتنی قدرت ہے اس سے کیا یہ بعید ہے کہ اہالی جنت کو دائمی رزق دے ہاں تو کہہ کسی بشر میں یہ طاقت نہیں پہلے میری ہی سنو ! کہ میں بھی تمہاری طرح ایک آدمی ہوں یعنی آدمیت کے وصف میں تم اور میں برابر ہیں رسالت کا درجہ الگ رہا جو صرف اتنا ہے کہ میری طرف الہام اور وحی پہونچتی ہے کہ تمہارا سب کا معبود برحق ایک ہی ہے اور کوئی نہیں پس جو کوئی اپنے پروردگار کی ملاقات کا امیدوار اور خواہشمند ہے وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنا دے یعنی ریاکاری نہ کرے اور شرک سے دور رہے۔ اللھم جنبنی وذریتی الشرک۔ الكهف
84 الكهف
85 الكهف
86 الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 الكهف
90 الكهف
91 الكهف
92 الكهف
93 الكهف
94 الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 الكهف
98 الكهف
99 الكهف
100 الكهف
101 الكهف
102 الكهف
103 الكهف
104 الكهف
105 الكهف
106 الكهف
107 الكهف
108 الكهف
109 الكهف
110 الكهف
0 مريم
1 میں اللہ ہی سب کو کافی سب کا ہادی سب کو امن دینے والا سب پر غالب صادق القول ہوں (یہ ترجمہ حضرت ابن عباس نے کیا ہے۔ (دیکھو اتقان) مريم
2 یہ سورت اس رحمت اور مہربانی کا تذکرہ ہے جو تیرے پروردگار یعنی رب العالمین نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔ مريم
3 (3۔40) جب اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ آہستہ پکارا اور دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں سست ہوگئیں اور میرا سر بڑھاپے سے سفید ہوگیا مگر اولاد سے آج تک بے نصیب ہوں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس ناچیز بندے کو محروم نہ رکھ اور میرے پروردگار میں قوی امید رکھتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبول کرے گا کیونکہ میں آج تک تیرے حضور میں دعا کر کے کبھی نامراد نہیں رہا بلکہ ہمیشہ تو اپنی مہربانی اس ناچیز بندے کے حال پر کیا کرتا ہے پس میں اب بھی تیری ہی جناب میں دست دراز ہوں اور میں اپنے بعد اپنی برادری اور کنبے کے لوگوں سے ڈرتا ہوں کہ دین میں فتنہ ڈالیں گے اور خدمت دینی کو چھوڑ دیں گے کیونکہ مجھے ان کے چال چلن پر اعتماد نہیں ادھر میں دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو بالکل کمزور پاتا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو ہی محض اپنے فضل سے اپنے پاس سے مجھے ایک فرزند عطا کر جو میرا اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو یعنی اسرائیلی علم کی حفاظت اور خدمت کرے اور اے میرے پروردگار تو اس کو نیک اعمال کی توفیق بخشیو ایسی کہ اس کو اپنی جناب میں پسندیدہ کیجئیو اور وہ تیری رضا کو حاصل کرنیوالا ہو ہم (اللہ) نے اس کی دعا قبول کی اور پکارا کہ اے زکریا ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا اور یہ بھی بتلاتے ہیں کہ اس سے پہلے اس نام کا ہم نے کوئی آدمی پیدا نہیں کیا یہ پکار سن کر حضرت زکریا کو طبعاً ایک سوال پیدا ہوا اس لئے اس نے کہا کہ اے میرے پروردگار میرے ہاں تو ہر قسم کے اسباب مفقود ہیں پھر اس صورت میں میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا میری عورت بھی بانجھ ہے اور میں بھی انتہائی بڑھاپے کو پہونچ چکا ہوں میں تیری قدرت میں تو شک نہیں کرتا تو جو چاہے پیدا کر دے مگر گذارش صرف یہ ہے کہ اس پیش گوئی اور خوشخبری کے معنے حقیقی مراد ہیں؟ جیسے کہ ظاہر اور متبادر ہیں یا کوئی تاویلی اور مجازی کہ شائد کسی امتی کے ہاں اس وصف کا لڑکا عنایت ہو اور دین کی خدمت میں میرا کہلائے کیونکہ میں بحیثیت نبی اور رسول ہونے کے امت کا باپ ہوں اس لئے مزید تشفی چاہتا ہوں فرشتہ جو خوشخبری لے کر اس کے پاس آیا تھا اس نے کہا بات اسی طرح ہے لیکن تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میں تیری صلب سے بیٹا پیدا کروں گا اور یہ کام مجھ پر آسان ہے کچھ مشکل نہیں گو اسباب سب مفقود ہیں تاہم میں کرسکتا ہوں اس کے اسباب بھی پیدا کردوں گا میرے ہاں پر ایک بات قاعدے سے ہے مگر مخلوق کو اس قاعدے پر اطلاع نہیں ہوسکتی دیکھ تو میں نے اس سے پہلے تجھے پیدا کیا حالانکہ تو کچھ بھی نہ تھا یہ معقول جواب سن کر زکر یا کے شبہات رفع ہوگئے اس لئے اس نے کہا اے میرے پروردگار میرے لئے اس پر کوئی نشان مقرر فرما جس سے مجھے مزید تسلی ہوجائے اللہ نے فرمایا تیری نشانی بس یہ ہے کہ جس روز تیرے گھر میں حمل ٹھہرے گا اس روز سے تین روز تک تو باوجود صحیح سالم ہونے کے لوگوں سے کلام نہ کرے گا پھر یہ سن کر ہشاش بشاش خوش و خرم گھر میں گیا پھر حسب معمول اپنے حجرے سے قوم کی طرف آیا تو واقعی کلام نہ کرسکا پس ان کو اشارہ سے سمجھا یا کہ صبح شام اللہ کی تسبیحات پڑھا کرو خیر یہ مدت بھی گذری اور یحییٰ کے حمل کے دن بھی گذر گئے چنانچہ یحییٰ پیدا ہوا تو ہم نے اسے کہا کے اے یحییٰ! تو کتاب آسمانی کو قوت سے پکڑیو چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ہم نے اسے لڑکپن ہی میں محکم بات کی لیاقت اور فہم و فراست دیدی اور نرم دلی اور پاک طینتی اپنے فضل سے عطا کی اور وہ بڑا ہی پرہیز گار تھا اور ماں باپ سے بڑا سلوک کرنے والا تھا اور سرکش بے زبان نہ تھا یہی تو اس کی پسندیدگی کے نشان تھے اور اسی لئے تو اس پر اس کی پیدائش کے روز اور موت کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھایا جائے گا تینوں موقعوں میں اس پر سلامتی نازل ہوئی اور وہ ان تینوں موقعوں میں سلامتی کے ساتھ نکل گیا اس قصے کے اجمال ہی پر قناعت کر اور کتاب اللہ قرآن مجید میں مریم علیہا السلام کا ذکر کر اور لوگوں کو سنا تاکہ دونوں فریقوں کے گمان غلط ثابت ہوں یعنی یہود جو اس کی نسبت زنا اور بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں اور عیسائیوں کا ایک فرقہ اس کو معبود بنائے بیٹھا ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تو کھلم کھلا اللہ اور اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس لئے ان کی غلط گمانی اور غلط فہمی دور کرنے کو مریم اور مسیح کی ولادت کا اصل قصہ سنا جب وہ اپنے گھر والوں سے اپنے گھر کی مشرقی جانب میں الگ ہو بیٹھی اور لوگوں سے پردہ کی اوٹ کرلی تو ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ جبرئیل بھیجاتو وہ ہو بہو آدمی کی شکل بن کر اس کے سامنے آگیا۔ مریم نے بھی اسے آدمی ہی سمجھ کر کہا کہ اللہ تجھ سے پنا دے اگر تو بھلا مانس اور پرہیز گار ہے تو الگ ہوجا شریفوں کا کام نہیں کہ الگ اماکن میں غیرمحرم عورتوں کے سامنے اس طرح آکھڑے ہوں فرشتہ نے کہا تو کیا سمجھی ہے میں تو تیرے پروردگا کا ایلچی ہوں اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاک طینت لڑکا دوں یعنی اللہ کی داد کی خبر تجھے بتلائوں کیونکہ میں تو صرف ایلچی ہوں بیٹوں کا دینا دلانا تو اس مالک کا کام ہے یہ نہ سمجھنا کہ میں دوں گا نہیں بلکہ اس کے دینے کی تجھے خوش خبری دیتا ہوں مریم حیران ہوئی کیونکہ ہنوز باکرہ تھی بولی بھلا مجھے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے مجھے تو کسی مرد نے جائز طریق سے نہیں چھوا اور نہ میں بدکار ہوں اولاد ہونے کے تو یہی دو طریق ہیں کہ یا تو حلال زادی ہو یا حرامزادی حالانکہ یہاں دونوں باتیں نہیں فرشتہ نے کہا بات بھی ایسی ہی ہے کہ نہ تو تو بدکار ہے نہ تیری کسی سے شادی ہوئی ہے بلکہ اصل راز اور ہے تیرے پروردگار نے کہا ہے کہ وہ کام مجھ پر آسان ہے فرماتا ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے تاکہ اس کو لوگوں کیلئے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی بنادیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ سلسلہ کائنات جو اللہ نے بنایا ہے اللہ اس کے خلاف پر بھی قادر ہے اور اس خلاف کیلئے بھی اس کے ہاں قانون اور قواعد ہیں جو متروک نہیں ہوتے۔ گو لوگوں کی نظروں میں وہ خلاف قانون یا سپر نیچرل ہوں لیکن حقیقت میں وہ سپر نیچرل نہیں بلکہ عین نیچرل ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نیچر اور قانون قدرت بس یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہمارے مشاہدہ کے خلاف بھی بسا اوقات ہوجاتا ہے اور ہم اس کو دنیا کے لوگوں کے لئے اپنی طرف سے رحمت بنا دیں گے اور یہ بات ازل سے فیصلہ شدہ ہے یہ کہہ کر فرشتہ تو چلا گیا پس مریم کو حمل ہوا اور وہ قریب وضع کے اس حمل کو لے کر الگ مکان میں چلی گئی پھر وہ درد زہ کی وجہ سے ایک کھجور کے درخت کے پاس پہنچی تو درد کی تکلیف سے چلاتی ہوئی بولی ہائے میری کمبختی میں اس سے پہلے ہی مری ہوتی اور دنیا کے لوگوں میں معدوم ہو کر بھولی بسری ہوگئی ہوتی آج میرا نام بھی کوئی نہ جانتا پس یہ درد ناک آواز سن کر اللہ کا فرشتہ آیا تو اس نے اسے اس کھجور کے درخت سے نیچے کی جانب سے پکارا کہ مریم ہوش کر اللہ کو یاد کر غم نہ کر اللہ تیرے ساتھ ہے اس نے تیرے نیچے پانی کا چشمہ جاری کر رکھا ہے پس تو خوش ہو اور کھجور کے درخت کو اپنی طرف ہلا وہ تجھ پر ترو تازہ کھجوریں گرائے گا پس تو اسے کھائیو اور پانی پیجئیو اور بچے سے آنکھیں ٹھنڈی کیجئیو۔ غم کی کیا بات ہے پھر اگر کسی آدمی کو تو دیکھے تو اس کے بولنے بلانے پر اشارے سے کہدیجو کہ میں نے تو اللہ کیلئے چپ رہنے کی نذر مانی ہے پس میں تو ہرگز اج کسی آدمی سے نہ بولونگی پھر وہ اس بچے کو اپنی قوم کے پاس اٹھا لائی انہوں نے یہ ماجرہ دیکھ کر کہ اس باکرہ لڑکی کو لڑکا کیسے پیدا ہوا کہا اے مریم تو نے یہ بہت ہی نالائق حرکت کی ہے اے ہارون کی بہن تیرا نام تو مریم ہے جو ہارون نبی کی بہن کا نام تھا تجھے اس نام کی بھی شرم نہ آئی کہ ایسی بد کاری کی مرتکب ہوئی تیرا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا تیری ماں بدکار نہ تھی پھر تو کیوں ایسی بدکار ہوئی جو یہ لڑکا بے نکاحی حالت میں اٹھا لائی ہے پس مریم نے چونکہ بحکم اللہ خاموشی کی نذر مان رکھی تھی اس لئے اس نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو وہ بولے کہ یہ اور شوخی ہے بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے بولیں اور سوال کیسے کریں جو ابھی گہوارے میں کھیل رہا ہے ایسا کبھی ہوا ہے۔ بات سنتے ہی اس بچے نے کہا تم بھی عجب آدمی ہو کہ میری والدہ مکرمہ پر بہتان لگاتے ہو حالانکہ میں اللہ کا ایک مقبول بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب انجیل دی ہے اور مجھے نبی کیا ہے اور تمہاری تو کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حرامی بچہ دس پشت تک اللہ کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا پھر یہ کیونکر ممکن ہے اگر میں حرامی ہوتا تو اللہ مجھے نبی کیوں کرتا میرا نبی ہونا ہی میری والدہ ماجدہ کی برات کی دلیل ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اس نے مجھے نبی کیا ہے اور میں جہاں ہوں مجھے برکت دی ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اور مجھے میری ماں کا فرمانبردار تابعدار بنایا ہے اور مجھ کو سرکش نافرمان نہیں کیا جس روز میں پیدا ہوا اس دن اور جس دن مروں گا اس دن اور جس دن زندہ اٹھایا جائوں گا اس دن ان تینوں سخت کٹھن مواقع میں مجھ پر سلامتی اور اللہ کا فضل شامل حال ہے یہ ہے عیسیٰ ابن مریم جس کے دشمنوں نے توبہ زبانی کی ہی تھی نادان دوستوں نے بھی اسے ناحق بدنام کیا کہ اللہ کا بیٹا اور اللہ اسے کہتے ہیں نہ تو وہ اللہ ہے اور نہ اللہ کا بیٹا بلکہ محض اللہ کا بندہ ہے یہی سچی بات ہے جس میں یہ لوگ محض جہالت سے جھگڑا کرتے ہیں ورنہ کیا یہ بات کوئی قابل خفا ہے کہ اللہ کو شایان نہیں کہ کسی کو اولاد بنانے دے وہ تو اس قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے اسے بھلا اپنے لئے اولاد بنانے کی کیا حاجت ہے وہ تو جب کسی کام کو چاہتا ہے تو صرف ” ہوجا“ کہتا ہے پس وہ ہوجاتا ہے پھر ایسے قادر مطلق اللہ کو اولاد (بیٹے اور بیٹیاں) بنانے کی کیا حاجت ہے ذوی العقول کو اولاد کی خواہش تو اس لئے ہوتی ہے کہ ہماری تکلیف کے وقت ہم کو آرام دیں گے بڑھاپے میں کام آئیں گے مرنے کے بعد جائداد پر قابض ہو کر ہمارا نام قائم رکھیں گے مگر اللہ کو تو ان میں سے کسی چیز کی حاجت نہیں وہ تو دائم الحیات ہے بڑھاپے اور ذلت سے پاک ہے پھر وہ اولاد چاہے تو کیوں؟ بیٹآ بنائے تو کس لئے؟ اسی لئے حضرت مسیح نے توحید کی تعلیم دی اور کہا کہ اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی تم عبادت کرو جس کی میں کرتا ہوں یہی سیدھی اور مضبوط اللہ کی راہ ہے باوجود اس صاف اور سیدھی تعلیم کے جو آج تک بھی اناجیل ! مروجہ میں ملتی ہے کہ سوائے واحد اللہ قادر مطلق کے کسی کی عبادت نہ کرو پھر بھی عیسائیوں کے فرقے باہمی مختلف ہوگئے بہت سے عیسائی تو یہاں تک بڑھ گئے کہ مسیح کو اللہ کا بیٹا تو کیا خود اللہ بلکہ انہوں نے لکھ مارا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر انا ربک پکارنے والا بھی مسیح ہی تھا یعنی اللہ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں بلکہ وہ خود اللہ ہی ہے بعض اس کی ماں صدیقہ مریم کی بھی عبادت کرنے لگ گئے چنانچہ آج تک بھی بیت المقدس میں عیسائیوں کے گرجوں کے اندر صدیقہ مریم کا بت نصب کیا ہوا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے البتہ بعض عیسائی ایسے بھی ہیں جو اس تعلیم توحید پر آج تک ثابت قدم ہیں جن کو یونی ٹیرین یعنی توحیدی عیسائی کہا جاتا ہے گو یہ لوگ مسلمان نہیں لیکن حضرت عیسیٰ کو مسلمانونکی طرح صرف آدمی اور رسول جانتے ہیں مگر ایک تو ان کی کی تعداد بہت ہی قلیل ہے دوم عام عیسائی ان کو کافر کہتے ہیں پس اس بڑے دن کی حاضری سے ان کافروں کیلئے افسوس ہے جس روز وہ ہمارے پاس آویں گے کیسے کچھ سنتے اور دیکھتے ہوں گے کہ تمام عمر کے کئے ہوئے کام ان کو یاد آجائیں گے اپنی بد عملی کی سزا اپنے سامنے دیکھے گے ایسی کہ کسی طرح کا شک ان کو نہ رہے گا لیکن اس دنیا میں طالم صریح گمراہی میں ہیں تو بھی ان کو سمجھا اور حسرت اور افسوس کے دن سے ان کو ڈرا جس وقت تمام کاموں اور اختلافوں کا فیصلہ کیا جاوے گا اور اس وقت تو یہ لوگ بے خبری اور غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے لیکن جب ان کے سر پر پڑے گی تو جائیں گے اور پتہ لگ جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یاد رکھو کہ ہم (اللہ) ہی تمام زمین اور زمین کے باشندوں کے مالک ہیں اور ہماری ہی طرف یہ سب پھر کر آئیں گے پھر ان کو اپنے نیک و بد کا پتہ لگ جائے گا تاہم تو اے نبی ان کو سمجھتا رہ مريم
4 مريم
5 مريم
6 مريم
7 مريم
8 مريم
9 مريم
10 مريم
11 مريم
12 مريم
13 مريم
14 مريم
15 مريم
16 مريم
17 مريم
18 مريم
19 مريم
20 مريم
21 مريم
22 مريم
23 مريم
24 مريم
25 مريم
26 مريم
27 مريم
28 مريم
29 مريم
30 مريم
31 مريم
32 مريم
33 مريم
34 مريم
35 مريم
36 مريم
37 مريم
38 مريم
39 مريم
40 مريم
41 (41۔50) اور بغرض تفہیم ان کے جدامجد حضرت ابراہیم کا قصہ ان کو سنا کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا ہی راست باز اور اللہ کا نبی تھا دیکھو تو اس کی راست بازی کہ تمام قوم کے سامنے ایک سچی بات پر جم گیا ایسا کہ سب مخالف مگر وہ اللہ کا بندہ اکیلا ہی تھا جو سب کا مقابلہ کرتا رہا سنو ! جب اس نے اپنے باپ سے کہا اور کیسا نرمی سے کہا اور ادب کو ملحوظ رکھ کر کہاے بابا تو کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتا ہے جو نہ تو تیری پکار کو سنتی ہیں اور نہ تیری حاجت کو دیکھتی ہیں اور نہ تجھ سے کچھ بلا دفعہ کرسکتی ہیں پھر ایسے معبودوں کی عبادت سے کیا حاصل؟ اے بابا مجھے اللہ کی طرف سے علم پہنچا ہے جو تجھے نہیں پہنچا پس تو میری تابع داری کر میں تجھے سیدھی راہ کی ہدایت کروں گا۔ اے میرے بابا تو شیطان کی عبادت نہ کر یعنی اس کے بہکانے میں نہ آکہ اس کے سوا اوروں کی عبادت کرنے لگ جائے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ بے شک شیطان اس اللہ تعالیٰ کا جو تمام دنیا سے بڑا رحمن اور مہربان ہے اس کا بھی نا شکرا اور بے فرمان ہے اے میرے بابا مجھے خوف ہے کہ تجھے اللہ رحمن سے کوئی عذاب نہ پہنچ جائے گو وہ بڑا ہی مہربان ہے مگر شرک تو ایسی بری بلا اور آفت ہے کہ رحمٰن کو بھی غضب آجاتا ہے اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ تجھے کوئی آفت نہ پہنچ جائے پھر تو بھی شیطان مردود کا قریبی تعلق دار ہوجائے گا پھر تو جو اس کا حال ہوگا وہی تیرا اس معقول تقریر کا جواب تو ابراہیم کے باپ سے ہونہ سکا البتہ بقول ؎ چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے را تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کرنے کو اس نے کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے روگردان ہے؟ یاد رکھ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور پتھروں سے ماردوں گا اور اپنی خیر چاہتا ہے تو اس خیال سے باز آجا یا مجھ سے دور ہوجا حضرت ابراہیم نے سمجھا کہ یہاں معاملہ دگر گوں ہے ان تلوں میں تیل نہیں کہا کیجئے سلام مگر میں آپ کی خیر خواہی میں کبھی پہلو تہی اور غفلت نہ کروں گا بلکہ ہمیشہ تیرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگتا رہوں گا بلکہ شاید کسی وقت قبول ہوجائے اور اللہ تجھے ہدایت کرے کیونکہ میرا پروردگار میرے حال پر بڑا ہی مہربان ہے مجھے امید ہے کہ اگر تیری شقاوت ہی تیرے سر نہ چڑھی ہوگی تو ضرور وہ تجھے قابل بخشش بنادے گا اور میں تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو الگ ہوتا ہوں میں نے ان سے کیا لینا ہے اور تم سے کیا میں تو اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتا ہوں جس کے قبضے میں میرا سب کچھ ہے پھر جب ابراہیم ان سے اور ان کے معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے الگ ہوگیا اور کنارہ کشی اختیار کی تو ہم نے اس کو اس صبر اور استقلال پر بیٹا اسحٰق اور پوتا یعقوب دیا اور سب کو نبی بنایا اور اپنی رحمت سے ان کو حصہ وافر دیا اور ان کی سچی تعریف بلند کی تمام ملک میں ان کا ذکر خیر بڑی سچائی اور راست گوئی سے ہو رہا ہے نہ کہ اور بزرگوں کی طرح کہ کوئی تو ان کو اللہ کا بیٹا بنا رہا ہے تو کوئی خود اللہ ہی سمجھ بیٹھا ہے لیکن ابراہیم اور یعقوب کی نسبت جو کچھ ان کی صلاحیت کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ بالکل بجا ہے پس اس قصے کو تو بالاختصار یہاں تک پہنچا کر رہنے دے مريم
42 مريم
43 مريم
44 مريم
45 مريم
46 مريم
47 مريم
48 مريم
49 مريم
50 مريم
51 (51۔53) اور کتاب قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر کر تحقیق وہ بڑا ہی صاف اور خالص بندہ اللہ کا رسول اور نبی تھا بڑا اولو العزم اور مضبوط ارادے والا کام کر گذرنے والا ہم نے اسکو کوہ طور کی دائیں جانب سے بلایا اور اس کو مناجات اور دعا کی حالت میں اپنا مقرب بنایا اور محض اپنی رحمت سے ہم نے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اس کے ساتھ کردیا جیسا کہ اس کی درخواست تھی مريم
52 مريم
53 مريم
54 (54۔55) اور اس کے علاوہ کتاب قرآن میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو یاد کر بے شک وہ بھی ایک جواں مرد وعدے کا سچا اور رسول اور نبی تھا بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ اپنے مالک کے ارشادات کی پوری تعمیل کرتا تھا اور اپنے اہل اور متعلقین کو احکام اللہ کا عموما اور نماز اور زکوٰۃ کا خصوصا حکم کرتا تھا۔ اور اپنے پروردگار کے نزدیک بڑا ہی پسندیدہ اور مقبول تھا مريم
55 مريم
56 اور اسی کتاب میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کر تحقیق وہ بڑا راست باز اور نبی تھا مريم
57 (57۔98) ہم نے اس کو ایک بڑے عالی مرتبہ پر بلند کیا تھا جو نبوت کا درجہ ہے جس سے اور بنی آدم کے لئے کوئی مرتبہ نہیں ہوسکتا۔ اگر تم معلوم کرنا چاہو کہ یہ انبیاء کون لوگ ہیں تو سنو ! یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام اکرام دئیے یہ آدم کی اولاد میں سے نبی ہیں اور ان میں سے ہیں جن کو ہم نے حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور یہ لوگ ابراہیم اور اسرائیل یعنی یعقوب کی اولاد میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم (اللہ) نے ہدایت کی تھی اور برگزیدہ بنایا تھا ان میں کیا کمال تھا کیا کچھ وحدانیت میں ان کو حصہ تھا۔ یا کسی کی بلا دفع کرنے یا جلب نفع میں انکو اختیار تھا؟ نہیں بلکہ کمال ان میں یہ تھا کہ جب انکو اللہ رحمن کی آیتیں سنائی جاتیں تو روتے روتے سجدے میں گر پڑتے یعنی اللہ کی قدرت کا سماں ان کی آنکھوں کے سامنے ایسا آجاتا اور دل پر ایسا اثر کرتا کہ گویا اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر یہ کیفیت اور کمال ان کی زندگی ہی تک رہا پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ہوئے جن میں پہلی برائی تو یہ تھی۔ کہ انہوں نے احکام شرعیہ سے رو گردانی کی اور نماز جیسے ضروری حکم کو ضائع کیا اور نفسانی شہوات کے پیچھے پڑگئے پس اس کی پاداش اٹھائیں گے لیکن چونکہ اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑی محبت ہے ایسی کہ باپ کو بیٹے سے بھی ہو اس لئے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے گو پہلی زندگی میں ان سے غلطیاں بھی ہوچکی ہوں وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ بھر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا وہ جنت معمولی چند روزہ نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ کے رہنے کے باغ ہیں جن کا اللہ نے رحمن نے غائبانہ اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے بے شک اس کے وعدے پورے ہوں گے وہ لوگ ان جنتوں میں کوئی لغو بات نہ سنیں گے مگر آپس میں ایک دوسرے کا سلام سنیں گے اور ان باغوں میں ان کو صبح شام اور جس وقت چاہیں گے بڑی عزت سے رزق ملے گا ایسی جنت اور آرام گاہ کی خبر سن کر ہر ایک شخص کو خواہش ہوتی ہے کہ میں بھی اس میں جائوں مگر ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہم اس جنت کے وارث اپنے بندوں میں سے انہی لوگوں کو کریں گے جو پرہیز گار یعنی متقی ہوں گے یہ ضرور نہیں کہ سب کے سب اعلیٰ درجے کے متقی اور زاہد تارک دنیا ہوں۔ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں۔ فرائض اللہ تعالیٰ کی تعمیل کرتے ہوں غرض مختصر یہ کہ نیک چلن اور خوش وضع ہوں تو اللہ کے فضل سے جنت میں جائیں گے باقی اصل پوچھو تو یہ سب کچھ اللہ کے فضل ہی سے ہوتا ہے اس کے آگے کسی کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرسکے ہم فرشتے جن کو یہ مشرک لوگ نادانی سے اللہ کی اولاد کے درجے پر جانتے ہیں ہماری تو اتنی بھی مجال نہیں کہ نقل و حرکت بھی اس کے اذن کے بغیر کرسکیں تمہارے پروردگار کے حکم کے بغیر ہم آسمان سے نہیں اترتے (ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل سے کہا تھا کہ تم ہمارے پاس جلد جلد آیا کرو تمہاری ملاقات سے ہمیں سرور حاصل ہوتا ہے اس لئے اللہ نے یہ آیت جبرئیل کی زبان پر نازل کر کے سمجھایا کہ ہمارا آناجانا اپنی مرضی سے نہیں۔ (منہ) وہ ایسا باہیبت بادشاہ ہے کہ جو کچھ ہمارے آگے پیچھے اور اس کے درمیان میں ہے سب کا وہی مالک ہے یہ سب چیزیں اور ملک اسی کی ملک ہیں باایں ہمہ وہ سب کا محافظ ہے اور تمہارا پروردگار کسی چیز کو بھولتا نہیں وہ تمام آسمانوں اور زمینوں اور زمین و آسمان کے باشندوں اور ان کے درمیان والی مخلوق کا پروردگار ہے پس تم اس کی عبادت کیا کرو اور اسی کی عبادت پر جم جائو کیونکہ اس جیسا کوئی اور نہیں کیا تم اس جیسا کسی کو جانتے ہو تمہارے علم میں کوئی ہے جو اللہ یا معبود برحق کہلانے کا حق رکھتا ہو۔ ہاں یوں جہالت سے کوئی کہے تو اور بات ہے دنیا میں بہت سے عقل کے مدعی ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے نشانات ظاہرہ دیکھ دیکھ کر بھی اکڑتے ہیں اور ناشائستہ حرکات کرتے ہیں اور انسان تو ایک عجیب کرشمہ قدرت ہے تم نے اس نالائق انسان کو بھی سنا جو کہتا ہے کہ کیا میں مر کر زندہ اٹھوں گا یہ امر اس کی چھوٹی سی عقل میں نہیں آتا کیا اسے یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے جب وہ کچھ بھی نہ تھا ایک دفعہ پیدا کیا پھر یہ پتلا جاندار اور بے عقل اتنا نہیں سمجھتا کہ جس اللہ نے اسے عدم محض سے وجود بخشا وہ بعد وجود کے وجود نہ دے سکے گا؟ واللہ ہم (اللہ) ان کو اور ان کے بہکانے والے شیاطین کو بھی جمع کریں گے پھر ان کو جہنم کے ارد گرد دوزانو بیٹھے ہوئے حاضر کریں گے پھر ہم ہر ایک گروہ میں سے ان شریروں کو جو اللہ رحمان کے سامنے بڑی گردن کشی کرتے تھے الگ کریں گے تاکہ لوگ ان کی حالت اور کیفیت کا اندازہ کریں پھر جن لوگوں کو ہم جہنم کے زیادہ لائق جانتے ہوں گے ان کو داخل جہنم کریں گے اور یوں تو یہ یقینی امر ہے کہ تم میں کاہر ایک اس جہنم پر عبور کرے گا یہ کام تیرے پروردگار کا قطعی وعدہ ہے پھر بعد اس عبور کے جو لوگ متقی اور پرہیز گار ہوں گے ان کو تو ہم دوزخ سے نجات دیں گے اور اس کے پار جنت میں انکا اتار کرائیں گے اور طالموں بدکرداروں کو جو واقعی جہنم کے قابل ہوں گے اس جہنم میں اوندھا گرائیں گے یہ سن کر بھی ان کو اثر نہیں ہوتا بلکہ الٹے غراتے ہیں اور جب ہمارے کھلے کھلے احکام ان کو سناتے جاتے ہیں تو جو لوگ کافر اور شقی ازلی ہیں وہ ایمانداروں کو کہتے ہیں کہ تم اس جنت کا دعویٰ کرتے ہوئے شرماتے نہیں اے کم عقلو ! اتنا بھی نہیں سوچتے ہو کہ ہم اس جہان میں کیسے آسودہ اور خوش گذران ہیں اور تم کیسے فاقوں مر رہے ہو پس بتلائو ہم اور تم دونوں فریقوں میں سے کس کا مرتبہ اچھا ہے اور کن کی مجلس زینت دار ہے مگر نالائق یہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ ان سے پہلے ہم نے بہت سی قومیں تباہ کردیں جو ان سے اچھے ساز و سامان اور خوبصورتی والے تھے یہ ان کو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں قاعدہ ہی اور ہے ہم کسی کے رونگ و روغن پر فریفتہ نہیں ہوتے یہ تو ہمارا ہی پیدا کردہ ہے بلکہ ہم تو دلوں کے حال پر اطلاع رکھتے ہیں جو کوئی دل سلیم رکھتا ہے وہ ہمیں اچھا اور بھلا معلوم ہوتا ہے چاہے غریب ہو یا امیر خوش شکل ہو۔ یا بد وضع مختصر یہ کہ ہمارے ہاں قاعدہ ہی یہ ہے کالے گورے یہ کچھ نہیں موقوف دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے چونکہ ان کی بنا ہی غلط ہے پس تو ان سے کہدے کہ اپنی دولت اور صحت پر نازاں نہ ہو اللہ کے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی گمراہی میں ہوتا ہے اللہ بھی اس کو چند روز تک ڈھیل دئیے جاتا ہے ایسا ہی ان سے ہوگا یہاں تک کہ جب یہ لوگ اپنے موعودہ عذاب کو دنیا میں یا آخری گھڑی کو قیامت میں دیکھیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ کس کا مرتبہ برا تھا اور جتھا کمزور اپنی حالت دیکھ کر اپنی اور اپنے حمائیتوں کی کمزوری محسوس کر کے چلائیں گے روئینگے سر پیٹیں گے مگر کچھ بن نہ پڑے گا لیکن جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ ان کی ہدایت اور زیادہ کرتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ نیک اعمال جو بعد موت پیچھے رہنے والے ہیں وہی تمہارے پروردگار اللہ ذوالجلال کے نزدیک اچھے بدلے اور عمدہ انجام والے ہیں مگر اس کو سوچنے والے بہت کم ہیں اب تو یہ حال ہے کہ جس کو یہاں کچھ جاہ و مال ملتا ہے بس وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں ہی سب سے اچھا ہوں اس دنیا میں بھی اور اس جہان میں بھی کیا تو نے اس نادان اور نا سمجھ آدمی کو بھی دیکھا جس میں دو عیب ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے حکموں سے منکر ہے اور انکی تکذیب کرتا ہے دوم یہ کہتا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں مجھے مال و دولت ملا ہے اسی طرح دوسری زندگی میں بھی مجھے مال واولاد ملیں گے بھلا اسے کیونکر یہ معلوم ہوا کیا یہ اللہ کے غیب پر اطلاع پا چکا ہے کہ اس سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی عہد لیا ہے ہرگز نہیں نہ تو اسے غیب کی خبر ہے نہ اللہ نے اس سے وعدہ کیا ہے بلکہ صرف منہ سے بکواس کرتا ہے جس کا بدلہ بہت برا پاوے گا ہم (اللہ) بھی اس کی باتوں کو لکھ لیں گے اور وقت پر اس کو سمجھا دیں گے اور اس کے لئے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور جو کچھ یہ مال و اسباب کے گھمنڈ میں کہتا ہے ہم ہی اس کے مالک ہوں گے گو اب بھی ہم ہی مالک ہیں لیکن اس کی چند روزہ مجازی حکومت جو اس دنیا میں ہماری دی ہوئی ہے سب چھین لیں گے اور ہمارے حضور تن تنہا ہو کر آئے گا اور ان کی حماقت دیکھو کہ اللہ کے سو اور لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے تاکہ آڑے کام میں ان کے مددگار اور حامی ہوں ہرگز وہ حامی نہ ہوں گے بلکہ قیامت کے روز ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور الٹے ان کے دشمن ہوجائیں گے اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہی قاعدہ ہے کہ ہم ایسے شریروں اور ضدیوں کو ڈھیل دیا کرتے ہیں تاکہ یہ اور بھی جی کھول کر شرارتیں کرلیں کیا تو دیکھتا نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر مسلط کر رکھا ہے کہ وہ ان کو برائیوں پر اکساتے رہیں لیکن سچ پوچھو اور تجزیہ کرو تو اس کو ایک قدرتی قانون پائو گے کہ جو کوئی برائی پر مصر رہتا ہے اس کی یہی حالت ہوجاتی ہے پس تو اے رسول ان کی ہلاکت پر جلدی نہ کر ہم تو ان کے لئے دن گن رہے ہیں عنقریب ان کی ہلاکت ہونے کو ہے دنیاوی ذلت کے علاوہ جس روز یعنی قیامت کے دن ہم سے اللہ رحمن اپنے حضور میں تمام پرہیز گاروں اور متقیوں کو بڑی عزت سے مہمانوں کی طرح جمع کریں گے اور مجرموں بدکاروں حرامکاروں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں گے اس وقت ان کی ایسی گت ہوگی کہ اللہ دشمن کی نکرے جن کو یہ لوگ معبود اور متولی امور بنائے بیٹھے ہیں کسی بلا کے دفع کرنے کا خود تو انہیں کیا ہی اختیار ہوگا سفارش کرنے کا بھی ان کو اختیار نہ ہوگا اور واقعی بات یہ کرے کون ہاں وہ کرے جس نے اللہ کے ہاں سے اس امر کا کوئی وعدہ لیا ہو سو ایسا تو کوئی نہیں انبیاء علیہم السلام مدت مدید سربسجود ہو کر بصد منت و سماجت اذن لیکر کچھ عرض کریں گے پھر بھی یہ نہ ہوگا کہ کسی بےدین مشرک کافر یا سرکش کی سفارش کرسکیں بلکہ انہی لوگوں کی کریں گے جو اللہ سے اخلاص رکھتے ہونگے مگر نفس کی غلطی سے گناہ میں آلودہ ہوگئے ہیں یہ نہیں کہ دانستہ ہوش و حواس میں اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہوں جیسے یہ مکہ کے مشرک اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ رحمن نے اولاد بنائی ہے فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں اور مسیح اس کا بیٹا ہے او نادانو ! تم نے بڑی بے ڈھب بات کہی ہے اور بہت ہی بدعملی کی راہ اختیار کی ایسی کہ ساتوں آسمان اس کی برائی سے پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو کر گرپڑیں تو تعجب نہیں کیونکہ اللہ رحمن کیلئے اولاد تجویر کرتے ہیں حالانکہ اللہ مالک الملک ہے۔ قدوس ہے رحمان ہے۔ رحیم ہے کسی طرح اس کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنی اولاد بتائے تمام آسمانوں اور زمینوں والے تو اللہ رحمان کے سامنے دست بستہ غلامانہ حاضر ہونگے جس کے رحم کی یہ کیفیت ہے کہ تمام دنیا کے ذرے ذرے کو شامل ہے اس کی قدرت اور علم کی یہ کیفیت ہے کہ اس نے ان میں سے ایک ایک کو اپنی قدرت کے احاطہ میں گھیر رکھا ہے اور ایک ایک کو گنا ہوا ہے مجال نہیں کہ کوئی اس کے احاطہ قدرت یا علم سے باہر جا سکے سب کے سب اس کے سامنے مقہور اور مغلوب ہیں دنیا میں اور قیامت کے روز بھی ہر ایک ان میں سے اس کے پاس اکیلا اکیلا تن تنہا حاضر ہوگا کوئی کسی کا حمائیتی نہ ہوگا کوئی کسی کا غمگسار نہ ہوگا غرض یہ نقشہ ہوگا بھائی کو بھائی چھوڑ دے بیٹے کو مائی چھوڑ دے خاوند کو کائی چھوڑ دے ایسی پڑے کھل بل بہم ہاں اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور عمل بھی نیک کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جو بڑا رحمان ہے محض اپنے رحم اور فضل سے ان کی آپس میں محبت پیدا کر دے گا وہ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے باقی سب دوست دنیا کے ایک دوسرے کے بد خواہ بن جاویں گے پس تو انکو اس دن کی مختصر کیفیت سنا دے اسی لئے تو ہم (اللہ) نے قرآن کو تیری زبان عربی کے محاورے پر آسان کیا ہے تاکہ تو اس کے ساتھ نیک بختوں کو خوشخبری دے اور حق اور راستی کے سخت دشمنوں کو بھی جیسے یہ عرب کے لوگ ہیں عذاب الٰہی سے ڈرا دے گو ہم جانتے ہیں کہ انکو اپنی شاہ زوری اور دنیاوی عزو جاہ کا بہت کچھ گھمنڈ ہے تاہم ان کو سنا اور بتلا کہ ہم (اللہ) نے ان سے پہلے کئی ایک جماعتوں اور جتھوں کو ہلاک اور تباہ کیا۔ کیا تم ان میں سے کسی کو معلوم کرتے ہو یا کسی کے پائوں کی آہٹ بھی سنتے ہو؟ ہرگز نہیں بس اسی طرح وقت پر ان کی بھی گت ہوگی آغاز کسی شے کا نہ انجام رہے گا آخر اسی اللہ کا اک نام رہے گا مريم
58 مريم
59 مريم
60 مريم
61 مريم
62 مريم
63 مريم
64 مريم
65 مريم
66 مريم
67 مريم
68 مريم
69 مريم
70 مريم
71 مريم
72 مريم
73 مريم
74 مريم
75 مريم
76 مريم
77 مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 مريم
82 مريم
83 مريم
84 مريم
85 مريم
86 مريم
87 مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 مريم
92 مريم
93 مريم
94 مريم
95 مريم
96 مريم
97 مريم
98 مريم
0 طه
1 اے بندہ اللہ محمد مصطفی (علیہ السلام) (مجاہد۔ حسن۔ ضحاک اور عطا۔ (رض) نے یہ معنے کئے ہیں (معالم) طه
2 (2۔8) ہم نے تیرے پر قرآن اس لئے تو نہیں اتارا کہ تو ایک مصیبت میں پڑجائے ناحق اپنی زندگی کو تلخ کرتا ہے خواہ مخواہ ان مشرکوں اور بےدینوں کی فکر میں ہر وقت جان کو گلاتا نہ رہ لیکن ڈرنے والے لوگوں کے لئے نصیحت اور سمجھانے کو (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ایمان نہ لانے کا بہت خیال اور غم رہتا تھا کیونکہ نبی کو طبعاً امت کی محبت مثل ماں باپ کے ہوتی ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی تھی یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرت فداہ ابی و امی تہجد کی نماز بہت لمبی پڑھا کرتے تھے ایسے کہ آپ کے پائوں مبارک پر دیر تک نماز میں کھڑا رہنے سے ورم ہوگیا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ (منہ) قرآن آیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس نے زمین اور بلند آسمان پیدا کئے ہیں اس قرآن کا نزول ہے تم جانتے ہو کہ وہ کون ہے؟ جو بڑا رحمان اور بندوں پر بڑا مہربان ہے وہی تمام دنیا کی حکومت پر تخت نشین اور مالک ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور ان کے درمیان اور کرہ خاک بلکہ اس سے بھی نیچے جو کچھ ہے وہ سب اسی کا ہے اسی نے سب کو پیدا کیا ہے اور وہی سب کا رکھوالا ہے یہ تو اس کی قدرت اور حکومت کا بیان ہے اس کے علم کی کیفیت یہ ہے کہ ہر ایک کے دل کی بات جانتا ہے اگر تو بلند آواز سے بات کرے تو اور آہستہ سے کرے تو اس کے نزدیک کچھ فرق نہیں کیونکہ وہ آہستہ اور آہستہ سے بھی پوشیدہ کو جانتا ہے مختصر یہ کہ وہ اللہ مخلوق کا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہوسکتا تمام دنیا کی زبانوں اور محاورات میں جتنے نیک اور مظہر صفات کا کاملہ نام ہیں وہ اسی ذات ستودہ صفات کے لئے ہیں دنیا میں کوئی اس درجہ کا رحمان نہیں خالق نہیں ستار نہیں۔ غفار نہیں۔ پر میشور نہیں گاڈ نہیں غرض کوئی بھی اس کے مرتبہ اور مقام کا نہیں۔ ہو بھی کیسے ” چہ نسبت خاک را باعالم پاک “؟ کی مثل اسی لئے تو بنائی گئی ہے تمام دنیا میں اسی کی بادشاہی اور حکومت ہے سب نیک بندے اسی کی حکومت کی تبلیغ کرنے کو آئے اور اسی کی اطاعت سکھاتے رہے طه
3 طه
4 طه
5 طه
6 طه
7 طه
8 طه
9 (9۔40) کیا تجھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر نہیں پہنچی ہے کہ کس طرح وہ نبی ہوا اور کس طرح اس نے تبلیغ احکام کی اور اس وقت کا حال بھی کچھ تم نے سنا جب اس نے مدین سے واپسی کے وقت آتے ہوئے پہاڑ پر آگ سی دیکھی تو اپنے اہل و عیال سے کہا اس جگہ ٹھیرو کہ میں نے آگ دیکھی ہے اور تم کو موسم کی سردی نے بہت ستایا ہے شاید میں اس میں سے ایک جلتی چواتی لائوں یا اس آگ کے پاس سے کوئی راستہ پائوں اللہ کی شان اسے کیا معلوم تھا کہ ؎ آگ لینے طور پر موسیٰ گئے نور حق دیکھا پیغمبر ہوگئے۔ پس جب وہ اس آگ کے پاس آیا تو اسے ایک آواز آئی اے موسیٰ تو کیا دیکھ رہا ہے اور تو کیا تلاش کرتا ہے کس خیال میں ہے دیکھ میں (اللہ) تیرا پروردگار ہوں یہ آواز کیسی تھی؟ وہی جانتا ہے جس نے سنی ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ آواز تھی خواہ سر کے کانوں سے سنی یا دل کے کانوں سے سنی بہر حال سنی آہ ! ؎ برگ و رختان سبز در نظر ہوشیار ہر درتے دفتر لیت معرفت پس اے موسیٰ تو اپنی دونوں جوتیاں اتار ددے کیونکہ تو اس وقت ایک پاک جنگل طویٰ میں ہے جو تیرے حق میں اس وقت دربار شاہی کا حکم رکھتا ہے سن میں نے تجھ کو مخلوق کی ہدایت کے لئے برگزیدہ بنایا ہے پس جو کچھ تجھے اس وقت اور اس کے بعد الہام اور وحی کیا جائے اسے سنتے جائیو پہلا حکم قطعی یہ ہے کہ میں (اللہ) ہی سب کا سچا معبود برحق ہوں میرے سوا کوئی بھی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کیا کرنا اور عبادت کا طریق یہ ہے کہ عموما ہر وقت میرا ذکر کیا کرنا اور خاص خاص وقتوں میں میرا ذکر کرنے کو نماز قائم کرنا غرض ہر وقت میری طرف دھیان رکھا کرنا کیونکہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے جسے عنقریب میں ظاہر کروں گا تاکہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جاوے پس بے ایمان لوگ جو اس گھڑی کو نہیں مانتے اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تجھے بھی اس قیامت کے ماننے سے نہ روکیں ورنہ تو بھی گمراہ ہو کر ہلاک ہوجائے گا خیر یہ بات تو طے ہوئی اے موسیٰ اب تو یہ بتلا کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ گو ہم (اللہ) جانتے ہیں تاہم تیرے منہ سے کہلوانا مقصود ہے حضرت موسیٰ نے کہا یہ میرا اعصا (لکڑی) ہے جس پر میں تکان کے وقت تکیہ کرتا تھا اور اپنی بھیڑ بکریوں کیلئے درختوں کے پتے جھاڑ لیا کرتا تھا اس کے علاوہ میرے لئے اس میں اور بھی کئی ایک فوائد ہیں اتنی لمبی تقریر کرنے سے حضرت موسیٰ کی تو غرض یہ تھی کہ میں اپنی حاجت کا اظہار کروں مبادا کہیں اسے پھینک دینے کا حکم نہ ہو اخفا کے دونوں معنی (چھپانے اور ظاہر کرنے کے) آتے ہیں پچھلے معنے یہاں پر مناسب ہیں۔ (منہ) آخر وہی ہوا اللہ نے کہا اے موسیٰ اسے پھینک دے تاکہ تجھے ایک قدرت کا کرشمہ دکھا دیں پس موسیٰ نے سنتے ہی اس کو پھینک دیا تو ناگاہ وہ اسی وقت بھاگتا ہوا سانپ نظر آتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) یہ کیفیت دیکھ کر ڈر گیا اللہ نے فرمایا اے موسیٰ اسے پکڑ لے اور خوف مت کر یہ مت سمجھ کہ یہ تجھے کوئی تکلیف پہونچائے گا ہم اسکی پہلی سی شکل اور کیفیت واپس لے آویں گے یعنی جب تیرے ہاتھ میں آویگا تو لکڑی کی لکڑی رہ جائے گا اور دیکھ اپنا ہاتھ سکیڑ کر اپنی بغل کے اندر رکھ تو وہ بغیر بیماری کے چٹہ سفید ہو کر نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے جو فرعون کے دربار میں تو دکھا سکے گا (بائبل کی دوسری کتاب ” خروج باب ٤ آیت ٧ میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ کا ہاتھ ” برف کی مانند سفید مبروص تھا“ مبروص اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں خون کی خرابی سے چمڑہ سفید ہوجاتا ہے قرآن میں من غیر سوٓء کا لفظ بڑھا کر بائبل کے اس لفظ کی تردید یا تصحیح کردی گئی ہے۔ (منہ) اس جگہ ہم نے تجھ کو انکا معائنہ اس لئے کرا یا ہے کہ تجھے اپنی قدرت کے بڑے بڑے نشان دکھا دیں پس تو بسم اللہ کہہ کر فرعون بے سامان مدعی اللہ کی طرف جا بے شک وہ سر کش ہو رہا ہے بندگی سے وحدانیت کا مدعی بن بیٹھا ہے کیسی نالائق حرکت ہے موسیٰ نے عرض کیا الٰہی ! مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے تو اپنی عنایت سے میرا سینہ کھول دے یعنی مجھ کو فراخ حوصلہ بنا ایسا کہ ہر ایک کہ ومہ اعلیٰ ادنیٰ کی بد زبانی سنوں مگر کسی طرح کا طیش یا غیض و غضب مجھے نہ آئے اور میرا کام آسان کر دے تیری ہی مدد سے بیڑا پارہے اور میری زبان کی گرہ کھول دے یعنی میری لکنت اچھی کر دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں کیونکہ حالت موجودہ میں میری تقریر کچھ الجھی سی ہوگی اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو میرا وزیر بنا دے ان کے ساتھ میری ڈہارس بندھا اور میرے کام تبلیغ میں اسے شریک کر دے تاکہ ہم تیرے نام کی بہت بہت تسبیحیں پڑھیں اور تیرا ذکر بہت کریں عرض یہ کہ خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے پیارے دو تیرے عشق کے متوالے تیرے نام کے شیدائی تیری محبت کے دیوانے ساتھ مل کر گذاریں گے ورنہ تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے تو ہی سب کا موں میں ہم کو کافی ہے اللہ نے فرمایا بہت خوب اے موسیٰ تیرا سوال اور مطلوب تجھے دیا گیا اور یہ کوئی پہلا احسان تجھ پر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے ایک اور دفعہ بھی ہم (اللہ) نے تجھ پر احسان کیا تھا جب ہم نے تیری ماں کو وحی کی تھی یعنی بذریعہ القاء الہام سوجھایا تھا کہ اس کو فرعونی ظلم اور قتل سے بچانے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے دریا کا پانی اس کو کہیں لیجا کر کنارہ پر ڈال دے گا (بائبل کی دوسری کتاب ” خموج کے باب ٢ آیت ٥ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو دریا میں سے پکڑنے والی فرعون کی بیٹی تھی۔ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پکڑنے والے حضرت موسیٰ اور اللہ کے دین کے دشمن تھے پس جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کو فرعون کی بیوی نے پکڑا تھا یہ ٹھیک نہیں کیونکہ فرعون کی بیوی حضرت موسیٰ پر ایمان لائی تھیں جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے پس فرعون کی بیوی کو پکڑنے والا کہنا غلط ہے بلکہ بموجب تصریح بائبل پکڑنے والی فرعون کی بیٹی تھی۔ (منہ) وہاں پر یہ صورت پیش آئے گی کہ میرا اور اس کا دشمن اس کو پکڑے گا جس کا نتیجہ اسی کے حق میں برا ہوگا اور ایک عجیب قدرت کا نظارہ سن کہ جب فرعونیوں نے تجھ کو اٹھایا اور شاہی مکان میں لے گئے تو میں نے اپنی طرف سے سب حاضرین کے دل میں تیری محبت ڈال دی تاکہ تجھ پر سب لوگ شفقت کریں اور تو میرے سامنے میرے جوار رحمت میں پالا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا تجھے معلوم ہے جب تیری بہن تیرے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی شاہی مکان میں پہونچی تو کیا دیکھتی کہ تو رو رہا ہے اور کسی دایہ کا پستان اپنے منہ میں نہیں لیتا کیونکہ ہم (اللہ) نے ہر ایک دایہ کا دودھ اس پر حرام کردیا تھا پس یہ ماجریٰ دیکھ کر اس ہوشیار لڑکی نے شاہی محل کے متعلقین سے کہا میں تم کو ایک ایسی دایہ بتلائوں جو اس کی نگہبانی کرے؟ وہ اور کیا چاہتے تھے یہ سن کر باغ باغ ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ لائو سب کی یہی خواہش تھی کسی طرح یہ لڑکا بچ رہے دراصل یہ سب میری قدرت کے کرشمے تھے اسی لئے تو کسی اہل دل نے کہا ہے ؎ کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے برا ہوئے چین بستہ اند پس ہم نے اس ادنی کرشمے سے تجھے تیری ماں کے پاس پہونچا دیا تاکہ اس کی آنکھیں تیرے دیکھنے سے ٹھنڈی ہوں اور غمگین نہ ہو اور بھی تجھے کچھ خبر ہے کہ ہم نے تجھ پر کیا کیا احسان کئے جب تو نے ایک شخص قبطی کو مار ڈالا تھا جس پر تمام دربار فرعون تجھ سے انتقام لینے کی فکر میں ہوا تو ہم نے تجھے اس غم سے نجات دی کہ مدین کی راہ سمجھائی اور اتنے میں تجھ کو کئی طرح کے تجربات کرائے اور جانچا اور پاس کرایا پھر تو مدین والوں میں کئی سال رہا پھر اے موسیٰ تو ایک حد تک پہونچا جہاں سے تیری نبوت کی ابتدا شروع ہوتی ہے پس اس حد پر تو اب آیا ہے چنانچہ خلعت نبوت تجھ کو دیا گیا طه
10 طه
11 طه
12 طه
13 طه
14 طه
15 طه
16 طه
17 طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 طه
22 طه
23 طه
24 طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 طه
36 طه
37 طه
38 طه
39 طه
40 طه
41 (41۔97) اور میں نے تجھے اپنے کام تبلیغ احکام کے لئے ممتاز کیا ہے پس تو اور تیرا بھائی میرے احکام اور نشانوں کے ساتھ جائو اور دیکھنا دشمنوں کے جھنبیلے میں پھنس کر میری یاد میں سستی نہ کرنا بسم اللہ کہہ کر فرعون کی طرف جائو وہ نالائق سر کش ہوگیا ہے پس جا کر اس سے نرم بات کرنا اور ملائم طریق سے سمجھانا اس نیت سے کہ شائد وہ سمجھ جائے یا ڈر جائے گو اس کی اندرونی حالت سے میں (اللہ) آگاہ ہوں کہ وہ کبھی نہ مانے گا تاہم بطور اتمام حجت کے تو اپنی رسالت کا حق ادا کیجئیو۔ خیر بہر حال خلعت نبوت سے آراستہ پیراستہ ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں پہنچے اور اپنے بھائی حضرت ہارون کو جو حضرت موسیٰ سے بڑے اور مصر میں بنی اسرائیل کے ساتھ مقیم تھے آملے اور نبوت کی خوشخبری سنائی تو اس کٹھن کام کا اندازہ کر کے فرعونی دربار سے ڈرتے ہوئے دونوں نے کہا اے ہمارے مولا ! ہمیں خوف ہے کہ فرعون ہم پر ظلم زیادتی کرے گا یا جوش میں آکر حد سے گذر جائے گا اور حضور اللہ تعالیٰ میں کچھ گستاخی کرے گا اللہ نے کہا تم اس بات سے مت ڈرنا میں تمہارے ساتھ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں پس تم دونوں اس کے پاس جا کر کہیو کہ ہم تیرے پروردگار کے رسول ہیں پس تو ہماری بات مان لے پہلے تو یہ کہ تو ربوبیت کا دعویٰ چھوڑ کر بندگی کا رتبہ اختیار کر دوم یہ کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ہم اپنے وطن کنعان میں چلے جائیں اور ان کو ناحق تو عذاب نہ کر جیسا تو نے آج تک کیا اور کر رہا ہے۔ دیکھ ہم تیرے پروردگار کے ہاں سے تیرے پاس نشان لائے اگر تو چاہے تو ہم دکھا سکتے ہیں پس تو دل کی آنکھ سے دیکھ اور سن رکھ کہ سلامتی ہمیشہ اسی پر ہوگی جو ہدایت کا تابع ہوگا اور یہ بھی سن رکھ کہ ہماری طرف یہ وحی الٰہی پہنچ چکی ہے کہ عذاب اسی پر ہوگا جو سچی بات کی تکذیب کرے گا اور راست بازی سے روگردان ہوگا یہ سن کر فرعون نے معقول جواب تو کچھ نہ دیا صرف اتنا کہا اے موسیٰ تم دونوں بھائیوں کا پروردگار کون ہے آج تک تو میں ہی اپنی کل رعیت کا پروردگار بنا رہا آج یہ تو نے کیا نئی سنائی ہے کہ اور بھی کوئی پروردگار ہے حضرت موسیٰ چونکہ اس الٰہی کمیشن کے ہیڈ یعنی دونوں ممبروں میں سے معزز اور سینئرممبر تھے اس لئے انہوں نے کہا ہمارا پروردگار وہ ذات پاک ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کو نیک و بد سمجھایا یہ سن کر بھی وہ نادانوں کی سی باتیں کرنے لگا اور بولا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر پہلی سنگتوں اور قوموں کا کیا حال ہے جو میری عبادت کرتے کرتے مر گئے اس سوال سے فرعون کی غرض یہ تھی کہ حضڑت موسیٰ ان کے حق میں کوئی سخت سست الفاظ کہیں گے تو میرے حوالی موالی اس پر لپکیں گے جس سے اس کی عام مخالفت میری رعایا کے دلوں میں پیدا ہوجائے گی مگر حضرت موسیٰ آج کل کے علماء کی طرح جلد باز نہ تھے کہ جھٹ کفر کا فتویٰ دے دیتے اس لئے حضرت موسیٰ نے نہایت ہی دور اندیشی سے کہا کہ ادن گذشتہ زمانے والوں کا علم اللہ کے پاس کتاب میں مرقوم ہے میرا پروردگار نہ بہکتا ہے نہ بھولتا ہے بھلا وہ کیسے بھولے کیا وہ محدود علم اور محدود قدرت والا ہے؟ نہیں وہی تو ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور تمہارے لئے اس میں مختلف قسم کے قدرتی راستے بنائے جو جنگلوں اور پہاڑوں میں تمہارے کار آمد ہوتے ہیں اور بادلوں سے تمہارے لئے پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ ہم (اللہ) تمہارے لئے مختلف قسم کی سبزیاں نکالتے ہیں عقل مندو ! دیکھتے ہو سب کام کیسے باقاعدہ ہماری (اللہ کی) قدرت سے ہو رہے ہیں پس تم ایسا کرو کہ خود بھی کھائو اور اپنے مویشیوں کو بھی چرائو یاد رکھو ! اس میں عقل مندوں کے لئے ہماری قدرت کے کئی نشان ہیں وہ غور کر کے اس نتیجے پر پہونچ سکتے ہیں کہ جس اللہ ذوالجلال نے اتنا بڑا دنیا کا ڈہانچہ ایسے انتظام سے چلایا ہے وہ اس کام پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ قیامت کے روز مردوں کو زندہ کرے سنو ! یہ کچھ مشکل ہی نہیں اسی میں سے ہم نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تم کو بعد موت لوٹا دیتے ہیں اور اسی زمین ہی سے تم کو ایک دفعہ پھر یعنی قیامت کے روز زندہ کر کے نکالیں گے خیر یہ تو تم مکہ والوں سے ضمنی کلام بطور جملہ معترضہ کے تھا اب باقی قصہ سنو ! کہ فرعون سے موسیٰ کا معاملہ کیا ہوا حضرت موسیٰ اس کے پاس آئے اور ہم (اللہ) نے اس (فرعون) کو اپنے کل نشان دکھلائے معجزات عصا اور ید بیضا وغیرہ اس کے سامنے ہوئے مگر اس کمبخت نے پھر بھی ان سب کو جھٹلایا اور منکر ہی رہا نادان بجائے تسلیم اور انقیاد کے کیسا بیہودہ طریق سے پیش آیا بولا کہ اے موسیٰ تو اس لئے آیا ہے کہ اپنے جادو کے ساتھ ہمارے ملک سے ہمیں نکال دے مخلوق کو اپنی مریدی کے جال میں پھنسا کر ہم سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے اور سرکار کی تو مخالفت کرتا یہ تیرے حق میں اچھا نہیں ہوگا ہم سرکار تیرے جادو کے برابر کا جادو لاویں گے پس تو ہم میں اور اپنے میں ایک وعدہ گاہ برابر کا مکان مقرر کر جسے نہ ہم ٹلاویں نہ تو ٹلائیو بلکہ برابر وقت پر پہونچیں اس میدان میں تیرا اور ہمارا مقابلہ ہوگا پھر دیکھیں گے تو کوئی بڑا کرتب دکھاتا ہے یا ہمارے جادو گر بڑا کھیل دکھاتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تمہارا ہمارا وعدہ گاہ اور میدان جنگ زینت کا دن یعنی عید کے جشن کا روز ہوگا اور لوگ چاشت کے وقت سوا پہر دن چڑھے جمع کئے جائیں کھلے بندوں جھوٹ سچ کی تحقیق ہوگی اور سب کے سامنے ڈیبیٹنگ کلب (مجلس مباحثہ) لگے گی دونوں طرفوں کے جوہر ہر ایک کو نظر آویں گے پس فرعون کو بھی یہ تجویز پسند آئی اور اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ہٹ کر اپنے ہتھکنڈوں کو جمع کیا یعنی جادوگروں کو بلایا پھر وقت مقررہ پر ان کو لے کر میدان میں آیا حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ ایک جم غفیر جادوگروں اور قبطیوں کا بے انتہا ٹڈی دل کی طرح امڈا چلا آرہا ہے اور فرعون کی ربوبیت اور الوہیت کا شیدا اور دلداوہ ہے مناسب ہے کہ پہلے ان کو بطور وعظ و نصیحت کے کچھ کلمات سنائے جائیں پس سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا تمہارے حال پر افسوس ہے کہ تم اللہ کی ادنیٰ مخلوق کو اللہ بنائے بیٹھے ہو اور اس کی الوہیت کی حمائت کرنے کو جمع ہوئے ہو۔ کیا امیر کیا غریب لکھے پڑھے اور جاہل سب کے سب اسی بلا میں مبتلا ہونادانو ! حقیقی اللہ پر جھوٹا بہتان مت لگائو یعنی فرعون کی الوہیت نہ مانو اور اس کی امداد نہ کرو کیونکہ یہ اللہ کی نسبت ایک گونہ بہتان ہے ورنہ اللہ تم کو کسی نہ کسی عذاب سے ضرور تباہ کر دے گا اور یاد رکھو جو اللہ پر افترا کر کے ظلم کا ارتکاب کرتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے پس اتنا ہی حضرت موسیٰ کا وعظ سننا تھا کہ سب کے دل ہل گئے اس لئے انہوں نے اس امر باہمی نزاع کیا بعض تو کہیں کہ موسیٰ سے مقابلہ کرو بعض کہیں نہ کرو یہ کوئی اللہ والا معلوم ہوتا ہے آخر ان سب نے اس کام کے متعلق باہمی کانا پھوسیاں کیں اور انہوں نے پوشیدہ مشورے کئے آخر کار فرعون کے حاشیہ نشین جن کو فرعون کی وجہ سے عزت اور حکومت حاصل تھی فرعون کی رائے کا اندازہ کر کے حاضرین کی ڈھارس بندھانے کو بولے کہ یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون) جادوگر ہیں ان کا ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک مصر سے نکال دیں اور تمہارا سچا افضل اور پسندیدہ دین جس کی پیروی تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں برباد کرنا چاہتے ہیں پس تم اپنے تمام دائو گھات جمع کرلو پھر صفیں باندھ کر میدان جنگ میں آئو اور یاد رکھو کہ آج کے دن جو غالب رہے گا وہی ہمیشہ کیلئے کامیاب ہوگا آخر جادوگر اس تقریر فرعونی سے متاثر ہو کر حضرت موسیٰ کی طرف مخاطب ہو کر بولے کہ اے موسیٰ کیا منشآ ہے تو پہلے وار کرنا چاہتا ہے یا ہم پہلے کریں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ کیا بہادری ہے کہ دشمن کو حوصلہ نکالنے کا موقع نہ دیا جائے اس لئے میں پہلے وار کرنا نہیں چاہتا بلکہ تم ہی پہلے وار کرو پس ان کے وار کرنے کی دیر تھی کہ فورا انکی رسیوں اور لکڑیوں پر انکے جادو (مسمریزم) کے اثر سے موسیٰ کو خیال ہونے لگا کہ وہ حرکت کرتی ہیں پھر تو موسیٰ کو بھی جی میں ان سے کسی قدر خوف ہوا کہ الٰہی یہ کیا بات ہے ادھر ہم (اللہ) نے کہا اے موسیٰ! ڈر نہیں بے شک تو ہی غالب ہے یہ تو صرف رسیاں اور لکڑیاں ہیں جو مسمریزم کے اثر سے صرف تمہاری نگاہ میں متحرک معلوم ہو رہی ہے ورنہ اصل کچھ بھی نہیں پس تو مستقل رہ اور جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے یعنی عصا جس کا نظارہ تو پہاڑ پر ایک دفعہ دیکھ چکا ہے ایک دم اپنے سامنے ڈال دے پھر دیکھئیو وہ ان کی تمام کارستانیوں کو کیسے نگل جائے گا کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے یہ صرف جادو (مسمریزم) کا کرشمہ ہے اور نبی اور رسول کے مقابلہ پر جادوگر کہیں بھی آوے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ڈالنا تھا کہ وہ جادوگروں کے سانپ سنپولی سب نگل گیا پس جادوگر عاجزی سے سجدے میں گر پڑے بولے کہ ہم ہارون موسیٰ کے بھیجنے والے پروردگار عالمین پر ایمان لائے ہیں کیونکہ بفحوائے ولی راولی میشنا سد دزد رادزد میشناند ہم سمجھ گئے کہ موسیٰ کے ہاتھ سے جو ظاہر ہوا ہے جادو یا مسمریزم کے اثر سے ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ ؎ کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں فرعون تو ندامت کا مرا ڈوبتا جاتا تھا بھاگنے کو راہ نہ ملتی تھی آخر غصے میں بولا کہ ہیں ! ارے میرے اذن سے پہلے ہی تم ایمان لے آئے میں جانتا ہوں یہ موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تم کو جادوسکھایا ہے اسی لئے اس کے مقابلہ سے تم عاجز ہوگئے ہو یا تم دونوں (استاد شاگردوں) نے سمجھوتہ کرلیا ہے پس میں بھی تم سے وہ کروں گا کہ تم یاد ہی کرو گے دیکھو میں تمہارے ہاتھ پائوں الٹے سیدھے (دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں) کٹوا دوں گا اور تم سب جادوگروں کو کٹی ہوئی کھجوروں کے تنوں پر سولی دونگا اور تم جان لوگے کہ ہم (فرعون اور موسیٰ کے اللہ میں سے کس کا عذاب سخت اور زیادہ دیر پا ہے وہی بات ہوئی کہ ” نزلہ بر عضو ضعیف میر یزد“ ان بیچاروں کو تو دھمکاتا رہا مگر موسیٰ سامنے کوئی پیش نہ چل سکی کہ اسے بھی کچھ کہہ سکتا وہاں تو اژدھے کا خوف تھا وہ جادوگر بولے جناب عالی ! بے ادبی معاف ! ہمارے پروردگار کی طرف سے جو نشانات بینہ موسیٰ کی معرفت ہمارے پاس آئے ہیں ان پر اور جس اللہ نے ہم کو پیدا کیا ہے اس پر ہم آپ کو کسی طرح ترجیح نہیں دے سکتے ممکن نہیں کہ یک غلام اپنے حقیقی مالک کو چھوڑ کر اپنے ہی مالک کے ایک نافرمان بندے کو مالک تصور کرلے اور اسی کی اطاعت کا جو اپنی گردن میں ڈال لے اور پھر وہ بھلائی کی توقع رکھ سکے ایسا ہر گززیبا نہیں یہ ایک عام مثل ہے کہ جس کا کھائیں اسی کا گائیں پس جو کچھ آپ کرسکتے ہیں کرلیجئے ہماری تو اب یہ حالت ہے۔ کہ دست از طلب ندارم تاکام من برائید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید آپ تو صرف اسی دنیا میں حکم کرسکتے ہیں بعد مرنے کے آپ کا اختیار نہیں بلکہ اس ملک کی حدود سے باہر والے بھی آپ کے حکم سے باہر ہیں مگر ہمارا پروردگار تو ایسا ہے کہ تمام زمین و آسمان کا ملک اسی کا ہے زندگی کے علاوہ بعد مرنے کے بھی اسی کا قبضہ ہے اسی لئے تو ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمارے سابقہ گناہ معاف کرے اور خاص کر اس جادو کا گناہ بھی معاف کرے جس پر آپ نے ہمیں مجبور کیا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معزز رسول کا مقابلہ کرایا اور یاد رکھئے کہ آپ کا گھمنڈ بالکل فضول ہے کہ ہم بڑی حکومت والے اور عذاب کرنیوالے ہیں اللہ سب سے اچھا اور ہمیشہ بقا والا ہے یاد رکھئے ! اس کے ہاں مقرر ہے کہ جو کوئی اپنے پروردگار کے پاس مجرمانہ وضع میں آوے گا خواہ غریب ہو یا امیر رعایا ہو یا بادشاہ اس کے لئے ضرور جہنم مقرر ہے جس میں نہ وہ مریگا کہ جان نکل کر چھوٹ جائے نہ جئے گا کہ آرام سے گذارے بلکہ دائمی عذاب میں پھنسا رہے گا اور جو لوگ اس پروردگار کے پاس ایمان دار ہو آئیں گے اور عمل نیک بھی کئے ہوں گے ان کے لئے بلند درجے ہوں گے یعنی باغ ہمیشہ رہنے کے ان کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بدلہ اس شخص کا ہے جو شرک کفر اور بد اخلاقی سے پاک ہوا ہوگا مختصر یہ کہ فرعون نے ان کو مروایا اور قتل کروا دیا ہم (اللہ) نے ان کو مضبوط رکھا اور وہ اسی مضبوطی میں دم برابر کر گئے رحمہم اللہ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی سے خبر بھیجی کہ تو میرے بندوں بنی اسرائیل کو رات کے وقت فرعون کی بے خبری میں لے نکل اور سمندر پر پہنچ کر اس میں ہمارے حکم سے عصا کے ساتھ ان کے لئے خشک راستہ بنائیو ! جس سے بنی اسرائیل تمام امن و امان سے گذر جائیں دیکھنا پکڑے جانے کا خوف نہ کرنا اور نہ ڈوبنے سے ڈرنا چنانچہ حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے رات کو چل پڑے پس فرعون اپنی فوج سمیت پکڑنے کی غرص سے ان کے پیچھے ہو لیا لیکن وہ اپنی شومئی قسمت سے اس سے غافل تھا کہ یہ سلسلہ اللہ کے ہاتھوں نے بنایا ہے وہی اس کا محافظ ہے گو اس نے بارہا کرشمۂ قدرت دیکھا مگر جہالت اس کے سر پر سوار تھی پس کچھ نہ پوچھو کہ پانی نے ان کو کیسا گھیرا ایسا گھیرا کہ غرق ہوگئے اللہ کو پکارنے واویلا کرنے مگر کون سنتا ہے فغان درویش قہر درویش بجان درویش آخر انجام یہ ہوا کہ فرعون اور اس کی فوج جن کو بنی اسرائیل کے تعاقب میں ساتھ لے کر گیا تھا تمام ڈوب گئے اور سچ تو یہ ہے کہ کمبخت فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ کی اپنا الّو تو سیدھا کیا مگر ان کے فائدے کی راہ ان کو نہ بتائی کیوں اس نے ایسا کیا؟ اس لئے کہ مصنوعی اللہ تھا حقیقی اللہ کی نشان یہ ہے کہ مخلوق کو نکگ ہدایت کرے اسی لیے ہم حقیقی اللہ تم کو سمجھاتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل سنو اللہ کی شان یہ ہے کہ مخلوق کو نیک ہدایت کرے اسی لئے ہم (اللہ) نے تم کو تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی تھی اور کوہ طور کی دائیں جانب کتاب دینے کا تم سے وعدہ کیا تھا اور تم پر یہ احسان کیا تھا کہ میدان تیہ میں تم پر من جو ایک قسم نباتات سے ہے اور سلویٰ جو ایک قسم کے پرند جانور ہیں بھیجے تھے جن کو کھا کر تم گذارہ کرتے تھے اور ہم نے تم کو اجازت دی تھی کہ ہمارا دیا ہوا پاکیزہ رزق کھائو اور اس رزق میں سر کشی ہرگز نہ کرنا بلکہ اللہ کا شکر کرو کہ اس نے اس جنگل بیابان میں بھی تم کو بے آب و نان نہیں چھوڑا پس تم ناشکری نہ کرو ورنہ میرا غضب تم پر ٹوٹ پڑے گا اور یاد رکھو کہ جس پر میرا غضب ٹوٹا پس وہ ہلاک ہوا اس کی کسی طرح خیر نہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں توبہ کرنے والوں اور ایمان داروں اور نیکوکاروں اور ہدایت پر چلنے والوں کیلئے بڑاہی بخشنہار ہوں خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو تم موجودہ بنی اسرائیل کو بطور وعظ کے سنایا گیا۔ اب اصل قصہ پھر سنو ! موسیٰ (علیہ السلام) تمام بنی اسرائیل کو لے کر میدان تیہ میں گئے جہاں چالیس سال تک انہوں نے ڈیرہ ڈال رکھا پھر حسب فرمان اللہ کوہ طور پر پہنچے تو اللہ کو سجدہ شکر کیا اور اللہ نے فرمایا اے موسیٰ تو اپنی قوم سے پہلے جلدی کیوں آگیا ہے غرض یہ تھی کہ موسیٰ اپنا مافی الضمیر خود بتلا دے چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ جناب عالی وہ بھی تو یہ میرے پیچھے آرہے ہیں اور اے میرے مولا ! میں تیرے پاس اس لئے جلدی آیا ہوں کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے اللہ نے کہا دیکھ ہم تجھے ایک نئی خبر سناتے ہیں کہ ہم نے تیرے پیچھے تیری قوم کو بچایا ہے یعنی ان کو سامری نے گوسالہ بنا کر گمراہ کردیا کہ ایک بچھڑا بنا کر ان سے اس کی عبادت کروارہا ہے ان کی بھی عقل ماری گئی کہ اسی بچھڑے کو اللہ سمجھ بیٹھے پس موسیٰ (علیہ السلام) تو یہ سنتے ہی غصے اور رنج میں بھرا ہوا واپس آیا کہا میرے بھائیو ! تمہیں کیا ہوگیا کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک نیک وعدہ نہ کیا تھا کہ میں تم کو کتاب دوں گا تم کو بڑی قوم بنائوں گا تمہیں عزت دوں گا پھر یہ کیا تمہاری عقل پر پتھر پڑگئے کہ تم مالک حقیقی کو چھوڑ کر ایک مصنوعی معبود کی طرف جس کو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے جھک پڑے کیا میری غیبوبت کا زمانہ تم پر دراز ہوگیا تھا یا تم نے چاہا کہ تمہارے پروردگار کا غضب تم پر ٹوٹ پڑے اسی لئے تم نے میرے حکم اور وعدے کے خلاف کام کئے میں تو تم کو توحید کا سبق دے گیا تھا میرے پیچھے تم نے یہ کیا گل کھلائے انہوں نے کہا حضرت ہم نے آپ کی حکم عدولی اور خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہم کو ایک غلطی لگی ہے جس کی یہ صورت ہوئی کہ قوم بنی اسرائیل کے زیورات بطور چندہ جمع کر کے ہم پر لادے گئے وہ ہم نے سامری کی ترغیب پر آگ میں ڈال دئیے پھر اسی طرح سامری نے بھی اپنا حصہ یا چندہ آگ میں ڈال کر ایک بچھڑا ان کو نکال دیا جو صرف ایک ڈھیر ہی ڈھیر تھا جس میں سے بوجہ سوراخوں کے فقط ایک آواز سی نکلتی تھی پس یہ آواز سن کر سامری اور اس کے ساتھوں نے اس کو سجدہ کیا اور انہوں نے کہا کہ یہ موسیٰ کا اللہ ہے موسیٰ تو بھول گیا کہ کوہ طور پر اللہ سے ملنے اور احکام لینے گیا دیکھو تو یہ موسیٰ کی کیسی صریح غلطی ہے افسوس کہ وہ ایسے جاہل تھے کہ اپنے ہاتھ سے تو اس کو بنایا اور اسی کو اللہ سمجھ بیٹھے کیا انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ چاندی کا ڈھلا ہوا بچھڑا تو ان کو کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا (اس قوم سے مراد بہت سے علماء نے فرعون کی قوم بتائی ہے مگر یہ تفسیر کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے القوم کا الف لام خارجی سمجھا ہے مگر خارجی کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کے مدخول کا علم سامع کو پہلے سے حاصل ہو جس کی صورت یہ ہے کہ اس کا مدخول اس کلام میں پہلے آچکا ہوجیسے اس آیت میں کما ارسلنا الی فرعون رسولا فعصی فرعون الرسول اس میں الرسول پر الف لام رخارجی ہے کیونکہ اس سے پہلے رسول کا ذکر آچکا ہے یا کسی اور صورت سے اس کا علم مخاطب کو ہو غرض علم ضرور ہو۔ لیکن جب آیت زیر بحث کو دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی لفظ ایسا نہیں پاتے جس سے مخاطب کو قوم کا علم حاصل ہوا ہو بلکہ قرینہ اس بات کا ہے کہ قوم سے مراد بنی اسرائیل ہے کیونکہ اس سے پہلے بنی اسرائیل ہی کا ذکر ہے پس بنی اسرائیل اس سے مراد ہیں۔) اور نہ ان کے لئے کسی قسم کے ضرر یا نفع کا اختیار رکھتا تھا اس کے علاوہ حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے ہارون نے بھی ان کو کہا تھا کہ بھائیو ! تم اس مصنوعی بچھڑے کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہو دیکھو باز آئو یہ شرارت تمہارے حق میں اچھی نہ ہوگی کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہے جو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے پس تم میری تابعداری کرو اور میرا کہا مانو مگر افسوس ان اوباشوں نے ہارون کی ایک نہ سنی بولے ہم تو ہمیشہ اسی بچھڑے پر جمے رہیں گے جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس آوے تیری تو ہم سننے کے نہیں نالائق ایسے بگڑے کہ اللہ کے نبی حضرت ہارون کی ایسی گستاخی کی کہ کوئی نہ کرے وجہ کیا؟ یہ کہ ہارون کی طبیعت حلیم سلیم تھی سیاست کو ذرہ سا کڑوہ پن چاہیے وہ ایسا نہ تھا اس نے بحکم ؎ کرمہائے تو مرا کرو گستاخ۔ ان پر دلیر ہوگئے آخر حضرت موسیٰ جب واپس آئے اور نبی اسرائیل سے یہ جواب سنا تو حضرت ہارون کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا اے ہارون جب تو نے دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہوگئے ہیں تو سیاست کے متعلق میری تابعداری کرنے سے کس چیز نے تجھے روکا تھا کیوں ان ناکاروں کو تازیانوں سے سیدھا نہ کیا ایسی غفلت تونہ کرتا تو یہ مادہ فساد کیوں اتنی ترقی کرجاتا کیا تو نے بھی میری حکم عدولی کی یہ کہہ کر دینی جوش سے حضرت ہارون کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے ہارون نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی ! اس جوش اور غصے کو ذرا سرد کر اور میری داڑھی اور سرکے بالوں کو چھوڑ دے میرا عذر تو سن لے اگر معقول ہو تو قبول کیجئیو اور نامعقول ہو تو اختیار باقی ہے میں اس بات سے ڈرا تھا کہ اگر میں سیاست سے کام لوں تو لامحالہ قوم میں تفریق ہوجائے گی کوئی سزا دے گا کوئی سزا پائے گا تو تو کہے گا بنی اسرائیل میں تو نے پھوٹ ڈال دی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا قوم کی اصلاح سے پہلے ان کی مجموعی طاقت کو بحال رکھنا مقدم فرض ہے کیونکہ یہ متفقہ فقہ کہ ؎ دولت ہمہ زاتفاق خیزد۔ مشہور ومعروف ہے۔ ہارون (علیہ السلام) کا معقول عذر سن کر حضرت موسیٰ نے ان کو تو چھوڑ دیا پھر اصل مجرم کی طرف متوجہ ہو کر بولے کہو رے ! او سامری نالائق تیرا کیا حال اور کیا عذر ہے تو نے یہ فساد کی جڑ کیوں قائم کی اس نے کہا صاحب اصل بات تو یہ ہے کہ جو کچھ میں نے کیا محض ایک دل لگی اور خوش طبعی سے کیا ہے چونکہ آپ اس کی وجہ مجھ سے پوچھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ میں نے وہ چیز دیکھی جو انہوں نے نہ دیکھی میں نے دیکھا کہ بے کار سے بیگار بھلی چلو کوئی مشغلہ کریں پس میں نے رسول یعنی آپ کے اثر قدم سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی اور اس کو ان زیورات میں ڈال دیا اصل میں تو میں جانتا تھا کہ کچھ نہیں صرف ان احمقوں کو اس جال میں پھانسنے کے لئ میں نے ایسا کیا ہے اور میری نفسانی خواہش سے مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوئی تو میں نے بھی بقول شخصے بیکار نہ بیٹھ کچھ کیا کر ٹانکے ہی ادھیڑ کر سیا کر ایک مشغلہ نکالا اور میرا خیال تو یہ ہے کہ سب لوگ اسی طرح دنیا میں بڑے بن جاتے ہیں کہ چند لوگ عقل کے دشمن ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں پس ان کا کام بن جاتا ہے یہ نامعقول تقریر سن کر حضرت موسیٰ نے کہا او نادان بازی بازی باریش بابا بازی کیا تجھے اور کوئی مشغلہ نہ رہا تھا؟ دین ہی میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی سوجھی۔ ہائے کمبخت تیری بے نور عقل نے تجھے گمراہ کیا پس جا دفعہ ہوجا اسی دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہوگی کہ تو لوگوں کے ملنے سے تکلیف اٹھائے گا تو کہے گا کہ مجھے مت چھونا آبادی میں تنگ ہو کر جنگلوں بیابانوں میں بھٹکتا پھرے گا آخر کو ایک روز کتے کی موت مرے گا اور یاد رکھ تیرے لئے ایک اور وعدہ ہے جو اس دنیا کی زندگی سے بعد ہوگا جو تجھ پر سے کسی طرح نہ ٹلے گا اب میں تجھ پر سزا کا حکم کرتا ہوں پس تو ہوشیار رہ اور اپنے اس مصنوعی معبود کی طرف دیکھ جس پر تو جمارہا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف بھگا کر گمراہ کرتا رہا نالائق دیکھ ہم اسے جلائیں گے اور راکھ کر کے اس کو ایک دم پانی میں بہا دیں گے چاہے وہ چاندی سونے کا ہے مگر اس کی معنوی نجاست اور باطنی خبث کی وجہ سے کسی کو اس کے استعمال کی بھی اجازت نہ دیں گے چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا (بہت سے مفسرین نے الرسول کی تفسیر جبرئیل سے کی ہے مگر اس تفسیر پر وہی اعتراض ہے جو ہم ص ٩٤ پر القوم کے حاشیہ میں لکھ آئے ہیں یعنی جبرئیل مراد ہونا اسی امر پر مبنی ہے کہ الرسول پر الف لام خارجی ہو خارجی الف لام کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کے مدخول کا علم قبل ازیں حاصل ہو حالانکہ یہاں پر جبرئیل کی رسالت کا کوئی ذکر نہیں البتہ حضرت موسیٰ کی رسالت کا علم سب کو تھا۔ اس لئے یہ تفسیر ہم نے کی ہے۔ ) طه
42 طه
43 طه
44 طه
45 طه
46 طه
47 طه
48 طه
49 طه
50 طه
51 طه
52 طه
53 طه
54 طه
55 طه
56 طه
57 طه
58 طه
59 طه
60 طه
61 طه
62 طه
63 طه
64 طه
65 طه
66 طه
67 طه
68 طه
69 طه
70 طه
71 طه
72 طه
73 طه
74 طه
75 طه
76 طه
77 طه
78 طه
79 طه
80 طه
81 طه
82 طه
83 طه
84 طه
85 طه
86 طه
87 طه
88 طه
89 طه
90 طه
91 طه
92 طه
93 طه
94 طه
95 طه
96 طه
97 طه
98 (98۔135) لوگو اس سارے بیان کا نتیجہ سنو کہ تمہارا سب کا حقیقی معبود اور سچا مالک صرف اللہ پاک ہے جس کے سوا کوئی دوسرا معبود زمین پر نہ آسمان پر کہیں بھی نہیں یہ اس کے استحقاق الوہیت کی کیفیت ہے اسی لئے تو اس کا علم اتنا بڑا وسیع ہے کہ تمام دنیا کی چیزوں گذشتہ اور آئندہ سب پر حاوی ہے اس سے نتیجہ پائو کہ معبود برحق کیلئے عالم الغیب ہونا خاصہ ہے کسی مخلوق میں علم غیب کا خیال کرنا گویا اس کو معبود ماننا ہے اسی طرح یعنی جیسا کہ تجھ کو موسیٰ ہارون اور بنی اسرائیل کا قصہ سنایا ہے ہم واقعات گذشتہ حسب موقع تجھ کو اے رسول سناتے رہیں گے کیونکہ گمراہوں کو ہدایت پر لانے کیلئے واقعات گذشتہ کا سنانا بھی ضروری ہے اور چونکہ ہم (اللہ) نے تجھ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت کی کتاب قرآن عطا کی ہے اس لئے اس کو ذہن نشین کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کے قصے جو دین اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سنائے جائیں تاکہ ان کو غور اور فکر کرنے کا موقع ملے چونکہ قرآن شریف جو تیرے پر اے نبی الہام ہوا ہے ایک جامع اور کامل کتاب ہے اسی لئے جو لوگ اس سے روگردان ہوں گے وہ قیامت کے دن گناہوں کا بوجھ اٹھاویں گے ایسے کہ کسی طرح اس سے ان کی رہائی نہ ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ اسی بوجھ کے نیچے دبے رہیں گے وہ بوجھ بھی کوئی معمولی بوجھ نہ ہوگا بلکہ قیامت کے روز وہ بوجھ ان کا بہت ہی برا ہوگا ایسا کہ یاد کریں گے یہ واقعہ اس روز ہوگا جس دن صور پھونکا جائے گا یعنی سب لوگ جمع کئے جاویں گے اور ہم مجرموں بدکاروں شریروں بدبختوں کو اس روز نیلی آنکھوں والے بنا کر اٹھائیں گے ایسے بد شکل ہونگے کہ دیکھنے والے کو دہشت آوے گی۔ اسی ہال میں آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم شاید کوئی ہفتہ عشرہ ٹھیرے ہوں گے پھر یہ کمبختی ہماری کیوں آئی گویا ان کا اس وقت یہ خیال ہوگا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا اسی قسم کی بہکی بہکی باتیں کریں گے جو کچھ کہیں گے ہم (اللہ) خوب جانتے ہیں جب ان میں سے بڑا صاف گو اور راست رو یوں کہے گا کہ نادانو ! تم ہفتہ عشرہ کہتے ہو تم تو ایک ہی دن دنیا میں رہے ہو ارے یہ بھی کوئی عشرہ ہے کہ آج ہیں تو کل کا یقین نہیں کل ہوں گے تو پرسوں کی خبر نہیں۔ اے کاش ہم اس وقت اس بات پر مطلع ہوئے ہوتے۔ اور اس وہشت ناک حالت کو دل پر لگاتے اور یہ جانتے کہ دنیا روز چند عاقبت با اللہ تعالیٰ ورنہ کہنے کو تو سب کہا کرتے تھے جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے مگر افسوس کہ یہ بات ہمارے دل پر اثر نہ کرتی تھی اسی لئے یہ لوگ اس وقت تو سب کے سب مان جائں۔ گے مگر اب جو ایمان بالغیب کا موقع ہے اپنا وقت ہاتھ سے دیتے ہیں اور قیامت کا ذکر سن کر اور یہ سن کر کہ ایک روز ایسا آئے گا کہ دنیا تمام فنا ہوجائے گی نہ کوئی جاندار رہے گا نہ بے جان از راہ مخول اور ہنسی کے تجھے پہاڑوں کی بابت سوال کرتے ہیں کہ یہ اتنے بڑے قد و قامت والے کہاں جائیں گے کیا یہ سب ایک دم فنا ہوجائیں گے ؟ تو انکو کہہ کہ میرا پروردگار ان سب کو ایک دم اڑا کر زمین چٹیل میدان کر دے گا ایسی کہ تم اس میں کسی قسم کی کجی دیکھو گے اور نہ بلندی پستی بالکل صاف میدان ہوجائے گا اس روز قیامت قائم ہوگی اور اللہ کی طرف سے پکارنے والا سب کو پکارے گا تو سب لوگ اس پکارنے والے کی آواز کے پیچھے چلے گے جس سے ذرہ بھر ادھر ادھر نہ ہوں گے بلکہ سیدھے جدھر سے آواز آوے گی اسی طرف جائیں گے اور باوجود اتنے ازدحام اور کثرت مخلوق کے یہ کیفیت ہوگی کہ کوئی چوں بھی نہیں کرسکے گا تمام آوازیں اللہ رحمان کے خوف سے دب گئے ہوں گے باوجود اس کی صفت رحمانیت کے اس قدر خوف اور دہشت دلوں پر طاری ہوگی کہ آواز بھی نہ نکال سکیں گے پس تو بغیر آہٹ پائوں کے کوئی آواز نہ سنے گا بلکہ ایک سناٹے کا عالم ہوگا اس روز کسی کی سفارش یا منت سماجت کچھ نفع نہ دے گی ہر ایک کو اپنی ہی جان کے لالے پڑے ہوں گے ہاں جس کے حق میں اللہ رحمن اپنی رحمت کاملہ سے اجازت دے گا اور اس کی بات اسے پسند بھی آئی ہوگی یعنی توحید کا قائل اور شرک سے متنفر رہا ہوگا۔ اس کو بحکم الٰہی سفارش سے فائدہ ہوگا یہ بھی نہیں کہ اللہ کو کسی کے کہنے سننے سے دھوکہ لگ جائے ایسا کہ لائقوں کو نالائق اور نالائقوں کو لائق بنادے۔ ہرگز نہیں کیونکہ وہ ان انسانوں کے آگے پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور لوگ سارے کے سارے اس آئندہ اور گذشتہ بات کو کسی طرح نہیں جان سکتے اور سنو ! یہاں تو یہ اکڑفوں دکھا رہے ہیں اس لئے کہ اللہ کی طرف سے بھی ان کی رسی دراز ہے مگر اس روز ساری مخلوق زندہ اللہ اور دنیا کے مالک اور منتظم حقیقی کے آگے منہ کے بل گرے ہوں گے گڑگڑاتے عاجزی کرتے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوں گے مگر وہاں کا تو قانون ہی اور ہے جس کی اطلاع پہلے ہی سے تم کو کی گئی ہے سنو ! خلاصہ اس کا یہ کہ نیک بخت اپنے عملوں کا بدلہ پاویں گے اور جنہوں نے بدکاریاں اور اللہ کی بے فرمانیاں کر کے اپنی گردنوں پر ظلم اٹھائے ہوں گے وہ ذلیل و خوار ہوں گے اور اللہ کے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ پر ایمان لا کر نیک کام کرے گا وہ کسی طرح کے ظلم اور نقصان سے نہ ڈرے گا کیونکہ جو کچھ کسی نے کیا ہوگا اس کو پورا پورا ملے گا۔ اس لئے کہ ہماری (اللہ کی) جناب میں اگر انصاف نہ ہوگا تو کہاں ہوگا اسی طرح ہم نے تم کو یہ باتیں بتلائی ہیں اور ہم نے قرآن شریف عربی زبان میں نازل کیا اور اس میں بدکاریوں پر ہر طرح کے ڈرائو بیان کئے ہیں تاکہ یہ لوگ کامل پرہیز گار بنیں یا اس قرآن سے ان کو کچھ نصیحت آوے بقول سعدی مرحوم گر عالم نباشی کم از مستمع کچھ نہ کچھ تو نہیں پس اس قرآن کی تعلیم کا یہ نتیجہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ جو سچا بادشاہ ہے نہ دنیا کے بادشاہوں کی طرح ہے جس کو رعیت معزول کردے بلکہ ایسا کہ چاہے تو تمام رعیت کو ایک دم میں فنا کر دے اور بہت بلند ہے ہر طرح کے عیوب سے پاک ہے مجال نہیں کہ اس کے دامن قدس تک کسی عیب کا غبار بھی پہنچ سکے پس تو اسی کا ہو رہ اور اسی سے مدد چاہا کر اور کسی کام میں جلدی نہ کیا کر بلکہ بقول سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے سب کچھ اسی کے سپرد کر کے یہاں تک کہ قرآن جو تیری طرف وحی اور الہام کیا جاتا ہے اس کی وحی تیری طرف ختم ہونے سے پہلے اس کے لینے میں بھی جلدی نہ کیا کر (جبرئیل جس وقت آیت قرآنی لاتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تو آپ جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے مبادا کہ بعد میں بھول جائوں اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی سمجھایا گیا کہ ایسی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں یہ کام ہمارے سپرد کرو۔ ) ہاں اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش کا منتظر رہا کر اور دعا کرنے کو کہا کر کہ میرے پروردگار ! مجھے علم زیادہ دے یعنی اور بھی اسی طرح احکام قرآنی نازل فرما اور اپنے الہام اور القاء خاص سے مجھے مسرور اور محفوظ کر ہمیشہ احکام اللہ کی تعمیل کیا کر اور اگر غلطی یا بھول چوک سے کوئی بات رہ جائے تو اس کا علاج توبہ اور استغفار ہے کیونکہ بھول چوک تو بنی آدم کی جبلت میں ہے تمہیں یاد نہیں ہم نے تم سے پہلے تمہارے باپ آدم کی طرف ایک حکم بھیجا تھا پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس کو مضبوط نہ پایا تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ چونکہ آدم ہمارا بندہ علم وفضل میں تم سب سے بڑھ کر ہے اس لئے تم اس کو سجدہ کرو یعنی سلام و نیاز اس کے سامنے بجا لائو جیسے عموماً ما تحت افسروں سے کیا کرتے ہیں۔ پس اتنا سنتے ہی سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس یعنی شیطان سرکش نے انکار کیا اور انکار کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اس سے اچھا ہوں بھلا اعلیٰ ادنیٰ کو کیونکر سلام و نیاز کرے ایسی الٹی گنگا کبھی چلی ہے پھر تو یہاں تک اس کی نوبت پہنچی کہ ہم نے یہ ابلیس کو تو لعنتی کیا اور آدم کو تنبیہ کرنے کو کہا کہ اے آدم سن رکھ کچھ شک نہیں کہ یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی بچوں سب کا صریح دشمن ہے پس ایسا نہ ہو کہ تجھے کسی جال میں پھنسا کر کہیں جنت سے نکلوا دے پھر تو بد نصیب ہوجاوے گا اس وقت تو تیرے لئے جنت میں ہر طرح کی آسائش اور راحت ہے … نہ تو اس جنت میں تو بھوکا ہوگا کہ تکلیف اٹھاوے اور نہ ننگا ہوگا کہ لوگ تیرے شرمگاہ کو دیکھیں نہ تجھے اس میں پیاس کی تکلیف ہوگی اور نہ دھوپ کی سختی غرض ہر طرح کا آرام ہر طرح کی آسائش جہاں کسی طرح کی تکلیف کا نام و نشان بھی نہ ہوگا پھر بھی باوجود اس تنبیہ اور اعلان کے شیطان نے اس کو اس طرح پھسلایا کہ آدم سے کہا اے آدم کیا میں تجھ کو ایک سدا بہار درخت اور دائمی ملک کا پتہ نہ دوں کہ اس کے کھانے سے اسی جگہ ہمیشہ رہنے لگ جائے اور سچ پوچھو تو اللہ نے تم کو منع بھی اس لئے کیا تھا کہ تم اس کے کھانے سے کہیں اسی جہان کے دائمی مقیم یا فرشتے نہ بن جائو۔ یہی اس کے منع کرنے کا بھید ہے ورنہ دراصل اس کا کھانا کوئی ایسا قبیح امر نہیں ہے پس ان دونوں آدم اور حوا نے اس درخت میں سے کچھ کھالیا۔ کیوں کھایا؟ صرف ایک تاویل سے کھایا کہ اس ممانعت کی علت وہی سمجھے جو شیطان نے ان کو سمجھائی مگر یہ ان کو خیال نہ رہا کہ دشمنان کہن دوستاں نو کردن بدست دیو بود عقل را گروکردن پس ان کے کھانے کی دیر تھی کہ فورا عتاب الٰہی ان پر نمودار ہوا کہ ان کی شرمگاہیں ننگی ہوگئیں کیونکہ جنت کا لباس فاخرہ ان سے چھینا گیا تھا پس وہ ننگے نہنگے حیران ہوگئے اور اس باغ کے درختوں کے پتے لے کر اپنے بدن پر لپیٹنے لگے اور آدم نے چونکہ اپنے پروردگار کی بے فرمانی کی گو غلط فہمی سے کی تاہم چونکہ اس کا اثر ظاہر ہونا تھا پس وہ اسی وجہ سے بھٹک گیا حیران سرگردان پھرنے لگا دشت وبیابان میں ہاتھ لمبے کر کے دعائیں کرتا رہا پھر اس کے پروردگار نے اخلاص کے مطابق اس کو برگزیدہ کیا اور اس پر رحم فرمایا اور اس کو ہدایت کی یعنی اس کی توبہ قبول کرلی پس آدم نے قبولیت توبہ کی اطلاع پا کر درخواست کی کہ ہم کو اسی جنت میں پھر داخل کیا جاوے جس سے ہم کو بد اعمال کے سبب تنزل ہوا ہے چونکہ ہمارا قصور معاف ہوگیا ہے اس لئے ہم پر مہربانی ہو کہ ہم پھر اپنے اصلی مقام پر پہونچیں اللہ نے کہا نہیں اب تم دونوں میاں بیوی اس جنت سے اترے رہو کیونکہ مقصود الہی ہے کہ تم سے دنیا کو آباد کرے تم یعنی تمہاری اولاد کو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے یہاں باہمی بعض و عناد رکھنے والوں کی جگہ نہیں بقول بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے رابا کسے کارے نبا شد پس اس کے حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ میں دنیا میں تمہاری اولاد کی ہدایت کیلئے رسول اور کتابیں بھیجوں گا پھر اگر تم کو میری طرف سے ہدایت پہنچے پس جو کوئی میری ہدایت کا پیرو ہوگا وہ نہ گمراہ ہوگا نہ بد نصیب اور جو کوئی میری نصیحت سے اعراض کرے گا اور منہ پھیرے گا پس اس کی خیر نہیں اس کی تمام زندگی بد نصیبی ہوگی جتنا جلے گا اتنا ہی جان پر وبال لے گا جس کا انجام یہ ہوگا کہ آخرکار دنیا سے کوچ کرتے وقت سیاد دل ہو کر چلے گا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا بے نور کر کے اٹھائیں گے گو بعد کچھ مدت کے دیکھنے لگ جائے گا اس وقت کہے گا اے میرے پروردگار مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں سو انکھا تھا اللہ بذریعہ فرشتوں کے کہے گا اسی طرح تیرے پاس ہمارے احکام پہنچے تھے ہماری قدرت کے نشان تو نہ دیکھے تھے۔ پھر بھی تو ان کو بھول گیا۔ اسی طرح آج تیری بھی خبر نہ لی جائے گی جو کوئی اپنی حد عبودیت سے تجاوز کرے اور اپنے پروردگار کے احکام پر ایمان نہ لاوے اس کو ہم (اللہ) اسی طرح بدلہ دیں گے اور ایسے کریں گے کہ یاد کرے گا۔ کیونکہ آخرت کا عذاب بہت ہی سخت اور دائمی ہے افسوس ہے کہ ان نالائقوں کو کوئی بات بھی ہدایت نہیں کرسکتی کیا اور نہیں تو یہ بھی ان کو ہدایت نہیں کرتا کہ اس امر پر غور کریں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا کہ اب یہ ان کی جگہوں اور بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں ان کے کھنڈرات کو دیکھ رہے ہیں کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں عقلمندوں کے لئے بہت سے ہماری قدرت کے نشان ہیں واللہ یہ ایسی جہالت اور ضلالت میں ہیں کہ اگر تیرے پروردگار کا حکم تاخیری اور اجل مقرر نہ ہوتی تو اسی دنیا میں ان کو عذاب الٰہی چمٹ جاتا پس یہ لوگ کفاروعرب جو کچھ بھی تیرے حق میں کہتے ہیں کہ جادوگر ہے ساحر ہے جنونی ہے اس پر صبر کر اور مضبوط رہ آخر تیرے ہی نام کی فتح ہے اور سورج کے نکلنے اور غروب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیا کر اور رات کے وقتوں میں اور دن کی طرفوں میں بھی اس کی پاکی بیان کیا کر یعنی سبحان اللہ والحمد للہ پڑھا کر تاکہ تو اللہ کے انعامات سے مالا مال ہوجائے اور اس تعبدی حکم کے علاوہ یہ حکم بھی ضرور ہے کہ تو دنیا کے مال و متاع سے ایسا زہد اختیار کر کہ جو کچھ ہم نے ان لوگوں میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو متاع و اسباب دنیا سے بہرہ ور کیا ہے اس کی طرف اپنی آنکھیں دراز نہ کیجئیو یعنی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیو ہم نے ان کو اس لئے دیا ہے تاکہ ہم ان کو اس مال کی وجہ سے مصیبت میں مبتلائے فتنہ کریں دنیا میں یا آخرت میں غرض ہر طرح واللہ یہ بالکل سچ ہے ؎ آنانکہ غنی ترند محتاج ترند تیرے پروردگار کا رزق جتنا وہ اپنی مہربانی سے عنایت کرے سب سے اچھا اور باقی رہنے والا ہے جتنا وہ دے اسی پر قناعت ہو اور زیادہ طلبی کیلئے بے صبری نہ ہو تو بس سمجھو کہ تمام دنیا کو لے لیا کیا تم نے نہیں سنا کہ شیخ سعدی مرحوم نے کیا کہا ہے مطلب گر توانگری خواہی جز قناعت کہ دولت سنت نتی پس تو ایسا ہی کیا کر اور اپنے اہل و عیال کو بھی اخلاق فاضلہ بتلایا کر خصوصا نماز کا حکم کیا کر اور خود بھی اس پر مضبوط رہیو ایسا کہ کبھی نہ ٹلے ہم (اللہ) تجھ سے رزق تو نہیں مانگتے بلکہ ہم تجھ کو رزق دیتے ہیں اور خوب یاد رکھ کہ انجام کار تقویٰ اور پرہیز گاری ہی کا غلبہ ہے اللہ کے ہاں ہمیشہ سے یہی قانون ہے کہ اہل تقویٰ ہی آخر کار کامیاب ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ہر وقت ضد پر کمر بستہ ہیں اور باوجود متعدد اور مختلف نشانات دیکھنے کے کہتے ہیں کہ کیوں نہیں یہ نبی اپنے پروردگار کے ہاں سے کوئی ایسی نشانی لاتا جو ہم چاہتے ہیں کہ آسمان کے ٹکڑے کر دے یا زمین کو پھاڑ دے یا اوپر چڑھ کر کوئی لکھی لکھائی کتاب آسمان کے اوپر سے لے آ پھر ہم تم کو مانیں گے بھلا یہ بھی کوئی بات کرنے کی ہے کیا ان کے پاس پہلی کتابوں کے صاف صاف مضمون نہیں پہنچے کہ راست گو کی راستی سب سے بڑی دلیل ہے پھر کیوں غور نہیں کرتے اور اللہ کی اس نعمت کی بے قدری کرتے ہیں جو اس نے رسول بھیج کر ان پر احسان کیا ہے اور اگر ہم اس رسول کے آنے سے پہلے ان کی بد اعمالیوں پر ان کو ہلاک کردیتے تو یہ لوگ عذر کرتے ہوئے کہتے کہ اللہ تعالیٰ تو نے ہماری طرف کیوں نہ رسول بھیجا کہ ذلیل اور خوار ہونے سے پہلے تیرے حکموں کی تعمیل کرتے اب جب کہ رسول آگیا تو اس کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں تو کہہ کہ ہم تم سب انتظار میں ہیں ہم اپنی ترقی کے اور تم اپنی فتح کے پس انتظار کرو۔ عنقریب جان لوگے کہ کون سیدھی راہ پر ہیں اور کون ہدایت والے ہیں۔ طه
99 طه
100 طه
101 طه
102 طه
103 طه
104 طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 طه
109 طه
110 طه
111 طه
112 طه
113 طه
114 طه
115 طه
116 طه
117 طه
118 طه
119 طه
120 طه
121 طه
122 طه
123 طه
124 طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 طه
129 طه
130 طه
131 طه
132 طه
133 طه
134 طه
135 طه
0 الأنبياء
1 (1۔3) افسوس لوگوں کا حساب قریب آگیا ہے یعنی موت سر پر کھڑی ہے اور وہ غفلت میں آخرت کی زندگی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں حالانکہ چاروں طرف سے ایک زور دار آواز آرہی ہے کہ لوگوں ہوشیار ہوجائو ؎ یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے مگر یہ عرب کے لوگ تو بالخصوص ایسے کچھ سرشار ہیں کہ جونسی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس آتی ہے جس میں سرا سرا انہی کی بہتری اور بھلائی منظور ہوتی ہے اس ہنسی کھیل میں سنتے ہیں کیونکہ دل ان کے لہو و لعب میں لگے ہوئے ہیں مطلق توجہ نہیں دیتے کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے اور ظالم چپکے چپکے آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ مدعی نبوت صرف تمہاری طرح کا ایک آدمی ہے نہ اس کو لڑکے لڑکیاں دینے کی قدرت ہے نہ دکھ درد ہٹانے کی ہمت کیا تم دیدہ دانستہ ایک مسحور یعنی مجنون کے پاس جاتے ہو؟ جو کہ دماغی طور پر ہوشیار مگر تعلیمی حیثیت سے گویا مسحور ہے اس سے کیا لوگے وہ ایسا جنونی ہے کہ تم بھی جنونی کر دے گا بلکہ کر ہی دیا ہے بقول بسان سرمہ سیاہ کردہ خانہ مردم دو چشم تو کہ سیاہند سرمہ نا کردہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلام کے جواب میں کہا میرا پروردگار آسمانوں اور زمینوں کے بیچ کی باتیں سب جانتا ہے اس سے کوئی بات چھپی نہیں اور وہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے ہر ایک قول و کردار کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یہ ظالم ایسی صاف تعلیم کو مانتے نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو پریشان خیالات کا مجموعہ ہے بلکہ سراسر افترا ہے افترا بھی کیا بلکہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے یعنی شاعروں کی طرح نت نئے خیالات سناتا ہے کلام تو اس کا نظم نہیں مگر خیالات شاعرانہ ہیں ہوائی قلعے بناتا ہے کبھی جنت کا نقشہ دکھاتا ہے کبھی دوزخ سے ڈراتا ہے پس ہمارے پاس کوئی نشان لاوے جیسے پہلے لوگ موسیٰ عیسیٰ وغیرہ سلام اللہ علیہم نشانوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے یہ لوگ پہلوں کی مثال تو دیتے ہیں اور بس کرتے ہیں مگر یہ تو بتلا دیں کہ ان سے پہلے جس بستی کو ہم نے تباہ کیا وہ بھی اسی طرح نشان مانگا کرتے تھے پھر بعد دیکھنے کے بھی ایمان نہ لائے؟ تو کیا یہ لوگ ایمان لے آویں گے کون سا امر یقین دلا سکتا ہے کہ یہ مان جائیں گے جس قسم کے شبہات یہ لوگ کر رہے ہیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حق جوئی سے غرض نہیں بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے کہ اللہ کے رسول آدم زاد نہیں ہونے چاہئیں حالانکہ ہم نے جتنے رسول بھیجے ہیں سب سب کے سب آدم زاد مرد ہی بھیجے ہیں ان کی طرف ہم وحی اور الہام کرتے رہے ہیں پس اگر تم کو معلوم نہیں تو تم ان کتاب والوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ لو یہ لوگ یہودی اور عیسائی تو ہمارے مخالف ہیں تاہم ان سے پوچھ کر معلوم کرلو کہ یہ کیا کہتے ہیں پھر ہمارے کلام کی صداقت مانو علیٰ ہذا لقیاس یہ ان کا خیال جو اللہ کا رسول ہو وہ کھانا نہ کھائے پانی نہ پئے آپ سے آپ زندہ رہے غلط ہے حالانکہ ہم نے ان رسولوں کو جن کو ہم نے پہلے زمانے میں بغرض تبلیغ احکام بھیجا تھا ایسے جسم نہ بنایا تھا کہ کھانانہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے پھر ان میں جو باتیں منافی رسالت نہ تھیں اس رسول میں کیونکر ہوئیں منافی رسالت تو نہیں البتہ منافی الوہیت ہیں سو وہ بندے مخلوق تھے نہ خالق معبود ہمارے تابع فرمان تھے ہم نے رسولوں کو آدم زاد صفات کے ساتھ وعدے دے کر دنیا میں بھیجا تھا پھر ہم نے ان سے اپنے وعدے سچے کئے کہ ان کو اور جن کو ہم نے موافق اپنے قانون شریعت کے چاہا بچا لیا اور بیہودہ گوئوں یعنی حد سے تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کردیا اسی طرح یہ رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں آیا اور ہم نے اس کے ساتھ تمہاری طرف ایک جامع اور صاف کتاب بھیجی جس میں تمہاری نصیحت کی بات ہے کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے اور سنو ! اگر اگڑ تگڑ کرو گے اور نہ مانو گے تو ہمارے پاس دوسرا طریق بھی ہے جس سے ہم آخری علاج کیا کرتے ہیں اسی سے ہم نے کئی ایک ظالم بستیوں کو تباہ کیا اور ان سے بعد دوسری کئی ایک اور قومیں پیدا کیں جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا یعنی ان کی بستیوں میں کوئی آسمانی بلا مثل طاعون وغیرہ کے آئی تو لگے ان بستیوں سے بھاگنے مگر کہاں جاسکتے تھے ان سے کہا گیا مت بھاگو اور انہی نعمتوں کی طرف جن میں تم تھے اور اپنے مکانات کی طرف لوٹ جائو تاکہ تم سے سوال ہو مثل سابق غریب لوگ تم سے سوال کریں یہ بات ان کو کسی ناصح مشفق کی طرف سے کہی گئی جو ان کو ہمیشہ اللہ ترسی اور نیک کاموں کی طرف بلاتے تھے مگر وہ باز نہ آتے تھے بلکہ اپنے تمول اور ریاست کا دبائو ان پر ڈالتے آخر جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا اور سخت بلا میں مبتلا ہوئے تو ان ناصحوں نے بھی ان کو چلتے چلتے یہ بات کہہ دی مگر وہ ایسے وقت میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے تھے جو انہوں نے کہا کہ ہائے ہماری کمبختی ہم تو بڑے ہی ظالم تھے کہ اللہ کے حکموں کی ذرہ بھر پروانہ کرتے تھے پھر ایسے تنگ اور تکلیف دہ وقت میں اور کیا کرسکتے تھے پس یہی پکار ان کی آخر تک رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو بالکل برباد کردیا ایسا کہ سب کے سب مر مٹ گئے مگر افسوس وہ مرنے والے تو مر مٹ گئے ان کی طرف دیکھ کر ان عرب کے زندوں کو کوئی عبرت حاصل نہیں ہوئی اور ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں کھیلتے ہوئے نہیں پیدا کیں کہ ان کا نتیجہ کچھ نہ نہ ہو۔ محض بچوں کے کھیل کی طرح یعنی بنایا اور گرایا فقط معمولی چند منٹوں کا شغل ہی مقصود ہو نہیں نہیں ہرگز نہیں اگر ہم کو کھیل بنانے کا خیال ہوتا تو ہم اپنے پاس سے کوئی کھیل بنا لیتے مگر ہم ایسا فضول اور لغو کام کرنے والے نہیں ہیں ہماری حکمت بالغہ ایسی فضول اور بے مطلب کھیل کے کرنے سے ہمیں مانع ہے بلکہ ہم تو سچ کو پتھر کی طرح جھوٹ پر ڈالتے ہیں پھر اس کو کچل ڈالتا ہے پس وہ جھوٹ اسی دم ملیا میٹ اور تباہ ہوجاتا ہے تم اے مشرکو ! ہاتھ ہی ملتے رہ جائو گے اور تمہارے لئے تمہارے ہی بیان سے جو تم زبانی کر رہے ہو افسوس ہے تم دیکھو گے کیا کچھ تمہارے لئے گل کھلیں گے تم یہ نہیں سمجھتے کہ کس احکم الحاکمین سے تم بگاڑ کر رہے ہو اور کس سے الجھتے ہو سنو ! جو آسمانوں میں فرشتے وغیرہ ہیں اور جو زمین میں حیوانات نباتات اجسام اور اعراض وغیرہ ہے وہ سب کے سب اسی اللہ کی ملک ہے وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو رکھتا ہے جتنی مدت چاہتا ہے موجود رکھتا ہے جب چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور جو لوگ اس کے حضور میں ہیں یعنی انبیاء صلحا اور ملائکہ غرض جو اس کے ہو رہے ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں اور شب و روز اسکی تسبیحیں پڑھتے ہیں کبی سستی نہیں کرتے ان کے دلوں پر توحید نے ایسا اثر کر رکھا ہے کہ ممکن نہیں اس کے مقابلہ پر وہ کسی مخلوق کی طرف گردن جھکائیں کیا ان لوگوں کو بھی ان بزرگوں کی محبت کا دعویٰ ہے حالانکہ انہوں نے جو تیرے ارد گرد رہتے ہیں اور تجھ سے بوجہ تعلیم توحید کے سخت مخالف ہو رہے ہیں باوجود دعویٰ کرنے اتباع صلحا کے زمین کی چیزوں میں سے معبود بنا رکھے ہیں آدمی ہوں یا بت درخت ہوں یا پہاڑ ایسی چیزوں کو معبود رکھا ہے بڑی شرم کی بات ہے کیا وہ ان کو دنیا میں موجود کر کے پھیلاتے ہیں یعنی ان کی پیدائش ان کے حکم سے ہے ہرگز نہیں سنو ! اگر ان دونوں آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بسبب بد انتظامی کے مدت سے برباد ہوچکے ہوتے کیونکہ ایک ملک میں دو مستقل بادشاہوں کا راج ممکن نہیں اگر یہ خیال ہو کہ باہمی صلح سے رہتے تو یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ صلح دو حال سے خالی نہیں ہوتی یا تو دونوں میں سے ایک زور آور اور دوسرا کمزور ہوتا ہے جیسے سرکار انگریزی اور ہندوستان کے والیان ریاست نوابان و راجگان یا دونوں پر کسی اور تیسرے کا دبائو ہوتا ہے یا اپنے فوائد کا خیال ہوتا ہے جیسے یورپ کی سلطنتیں پہلی صورت میں تو صاف بات ہے کہ جو کمزور ہو کر زور آور کا دبیل اور ہیٹی ہوگا وہ معبود بننے کے قابل نہیں ہوگا۔ کیونکہ معبود کی ذات اس کے مخالف ہے کہ کسی دوسرے کی ماتحت ہو۔ دوسری صورت میں بھی وہ اپنی حاجات میں محتاج الی الخیر ہونے یا کسی تیسرے کے دبائو سے دبنے کی وجہ سے معبود نہ ہوں گے حالانکہ معبود وہی ہے جو کسی کا دبیل نہ ہو پس اگر سچے اور واقعی لائق عبادت معبود بر حق دنیا میں متعدد ہوتے تو آج تک دنیا کا خاتمہ ہوچکا ہوتا بلکہ یوں کہئے کہ وجود پذیری ہی نہ ہوتی اللہ تعالیٰ جو دنیا کے تخت حکومت کا واحد مالک ہے ان کی بیہود گی سے پاک ہے اس کی شان ایسی وراء الوراء ہے کہ اپنے افعال میں وہ پوچھا نہیں جاسکتا کیونکہ اس پر کوئی حکمران نہیں اس کا کوئی وزیر یا اس سے کوئی علم و عقل میں بڑھ کر نہیں اور مخلوق سب کو باز پرس ہوگی کہ تم نے یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا پھر اس وقت ان کو بجز اظہار اطاعت کے کوئی راہ نہیں سوجھے گی مگر اس دنیا میں مشرک نہیں سمجھتے کیا اتنے برائین قاطعہ اور دلائل ساطعہ منکر بھی انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تو کہہ کہ اگر ہماری دلیلیں تم پر کچھ اثر نہیں کرتیں تو اچھا اپنی ہی کوئی دلیل لائو جس سے ثابت ہو کہ تمہارا دعویٰ شرک اور بت پرستی کرنے کا سچا ہے تو یہ بھی کہہ کہ حیرانی کی بات ہے جب میں سنتا ہوں کہ تم اس توحید کی تعلیم کونئی سمجھتے ہو حالانکہ یہی نصیحت میرے ساتھ والوں کی ہے اور مجھ سے پہلے لوگوں کی بھی یہی نصیحت ابتدا آفرینشن سے جتنے اللہ کے بندے گذرے ہیں سب کی یہی پکار رہی ہے مگر ان میں کے اکثر لوگ سچی بات کو نہیں جانتے تو منہ پھیر جاتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ نئی بات ہے ہم نے تو اس سے پہلے کبھی نہیں سنی حالانکہ جتنے رسول ہم نے بھیجے ہیں ان سب کی طرف یہی پیغام ہم بھیجا کرتے تھے کہ بس میرے سوائے کوئی معبود برحق نہیں پس میری ہی عبادت کرو ایک مزیدار بات سنو ! بت پرستی اور مردم پرستی بھی تو ایک قبیح فعل تھا ہی لطیفہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ حماقت اور جہالت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں اللہ جو رحمن ہے یعنی سب سے بڑا رحم کرنے والا اس نے بھی ہماری طرح اولاد بنائی ہے ان کا خیال ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کا مذہب ہی یہ ہے کہ یسوع مسیح اللہ کا بیٹا ہے نعوذ باللہ وہ ایسی ناجائز نسبتوں سے پاک ہے بلکہ یہ تو اس کے معزز بندے ہیں مگر ایسے مرعوب اور سہمگین ہیں کہ اس اللہ کے سامنے بڑھ کر بات بھی نہیں کرسکتے اور وہ اسی کے فرمودہ پر عمل کرتے ہیں ممکن نہیں کہ سرمو تجاوز کرسکیں وہ اللہ ان سے پہلے اور پچھلے واقعات بھی جانتا ہے اس کی حکومت کا خوف ان کے دلوں میں ایسا جاگزیں ہے کہ مجال نہیں کچھ عرض معروض کرسکیں اور وہ کسی کے حق میں سفارش بھی نہیں کرتے مگر جس کے حق اللہ پسند فرمادے یعنی جو مجرم ایک حد تک اخلاص مند ہوگا۔ مگر غلطی سے بری باتوں میں مبتلا ہوگیا ہو۔ اس کی اخلاص مندی سے اللہ اس کو بخشنا چاہے گا تو کسی مقرب بندے کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائے گا ایسے مجرموں کے حق میں مقرب بندگان سفارش کریں گے اور وہ اس کے خوف اور جلال سے کانپتے ہیں اور اگر کسی ایسے ویسے کی کہیں تو کیا مجال کہ سنی جائے جب سفارش تک ان کو اختیار نہیں تو وحدانیت میں ان کو کیا حصہ پہنچ سکتا ہے۔ سنو ! جو کوئی ان میں کا فرضا کہیں کہہ دے کہ میں بھی اللہ سے ورے ایک معبود ہوں تو اس نالائق کو ہم ایسی جہنم کی سزا دیں کہ یاد کرے اسی طرح ہم ظالموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں خیر یہ تو بھلا نفلی اور سمعی دلائل ہیں ممکن ہے کسی معاند کو ان میں گفتگو کی مجال ہو لیجئے ہم چند عقلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں پس غور سے سنیں کیا ان منکروں نے کبھی غور وکر کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان یعنی بادل اور زمین کیسے بند ہوتے ہیں بادلوں سے پانی کی بوند نہیں گرنے پاتی زمین سے انگوری نہیں اگتی پھر ہم (اللہ) ان دونوں کو کھول دیتے ہیں کہ فورا آسمان سے پانی گرنے لگ جاتا ہے اور زمین سے پیداوار ہوتی ہے سچ ہے نبارد ہوا تانگوئی بیار زمین نآدرد تانگوئی بیار اور سب زندہ چیزیں ہم نے پانی سے پیدا کی ہیں یعنی تمام زندہ چیزوں کی اصل پانی ہے اور پانی ہی سے ان کا نشونما ہے کیا پھر بھی یہ ایمان نہیں لاتے الأنبياء
2 الأنبياء
3 الأنبياء
4 الأنبياء
5 الأنبياء
6 الأنبياء
7 الأنبياء
8 الأنبياء
9 الأنبياء
10 الأنبياء
11 الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 الأنبياء
17 الأنبياء
18 الأنبياء
19 الأنبياء
20 الأنبياء
21 الأنبياء
22 الأنبياء
23 الأنبياء
24 الأنبياء
25 الأنبياء
26 الأنبياء
27 الأنبياء
28 الأنبياء
29 الأنبياء
30 الأنبياء
31 (31۔50) اور سنو ہم نے زمین پر بڑے بڑے اٹل پہاڑ پیدا کئے ہیں تاکہ وہ زمین اپنے ہلکے پن سے ان کو کہیں لے نہ گرے جیسے بیڑی کے ہلکے پن کے مقابلہ کیلئے لوہا لگا دیتے ہیں اسی طرح اللہ نے زمین کا ہلکا پن دور کرنے کو پہاڑ پیدا کردئیے اور زمین میں ہم نے کھلے کھلے راستے بنائے ہیں میدانوں اور پہاڑی جنگلوں بیابانوں میں قدرتی راستے بنے ہوئے ملتے ہیں کیوں؟ تاکہ یہ لوگ اپنے مطلب پر راہ پاسکیں اور دیکھو ہم نے اس نیلگون آسمان کو کیا محفوظ چھت کی طرح لوگوں کے سروں پر بنایا اور یہ لوگ پھر بھی اس کے نشانوں سے روگردان ہیں یہ نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی تبدیلی رات و دن کا ہیر و پھیر کیوں ہے اور کس لئے ہے؟ آہ ان کو علم نہیں کہ کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں اور سنو ! وہی پاک ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات دن سورج اور چاند وغیرہ سیارے بنائے تاکہ تمہاری حاجات میں معین ہوں دیکھو قدرت کا نظارہ کہ ہر ایک ان میں کا اپنے اپنے محور میں گھوم رہا ہے مجال نہیں کوئی کسی سے ٹکرائے یا کوئی کسی کی سیر اور گردش میں خلل ڈالے ایسے ایسے قدرت کے نشان دیکھ کر بھی مالک الملک کے حکم سے رو گردان ہوتے ہیں اور فضول اور لغو اعتراضات اور ہوسیں لیے بیٹھے ہیں دیکھو تو یہ ان کی کیسی بیہودہ ہوس ہے کہ چلو میاں اس مدعی نبوت کا ایک نہ ایک روز خاتمہ ہوجائے گا۔ چند روز کی بات ہے۔ مر جائے گا تو کوئی اس کا نام بھی نہیں لے گا لیکن نادان اتنا نہیں جانتے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کیلئے نہیں رکھا پھر تو اے رسول مر گیا تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہرگز نہیں پھر کسی کے مرنے سے کیا ہوتا ہے اسی لئے تو کسی دانا نے کیا اچھا کہا ہے ؎ مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جادو فی نیست کچھ شک نہیں کہ ہر ایک جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے کسی نہ کسی روز اس پر فنا ضرور آئے گی جن لوگوں کے دلوں پر اس کا نقشہ پورے طور سے جم چکا ہے وہ اس پر دل نہیں لگاتے پس تم ہوشیار ہوجائو ہم (اللہ) تم کو بری بھلی باتوں سے جانچتے ہیں کبھی تم کو آرام پہنچاتے ہیں کبھی تکلیف کبھی گرانی کبھی ارزانی تاکہ تمہاری لیاقت کا اظہار ہو کہ تم ان حالات میں کیا سبیل اختیار کرتے ہوسنو ! اس بات کو ذہن نشین کر رکھو کہ تم ہمارے قبضے سے نکل نہیں سکتے اور بعد مرنے کے ہماری ہی طرف تم پھیر کر آئو گے اور نیک و بد کا بدلہ سب لوگ پاویں گے مگر افسوس ہے ان کے حال پر کہ بجائے ہدائت پانے کے الٹے اکڑتے ہیں اور کافر لوگ اے رسول جب تجھ کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں پس تو آپس میں تیری ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کو برائی سے یاد کیا کرتا ہے اور وہ خود اللہ رحمان کی یاد اور نصتحک سے منکر ہیں جانتے ہی نہیں کہ اللہ کون ہے جب اللہ ہی کو جواب دے بیٹھے ہیں تو رسول کو کیا جانیں۔ ہاں یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم کو پیش آنا ہے ابھی آجائے کیونکہ انسان کی پیدائش یہی گویا جلدی سے ہے گو اس کا مادہ پیدائش تو عناصر اربع ہیں مگر اس کی طبیعت ہیں ہر کام کی جلدی ایسی کچھ مضر ہے کہ یہ کہنا کچھ بیجا نہیں کہ گویا اس کی پیدائش کا خمیر ہی جلدی سے بنا ہوا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جلدی بھی تم اس لئے کرتے ہو کہ تم کو یقین ہے کہ عذاب وغیرہ کچھ نہیں صرف منہ کی باتیں ہیں اس لئے میں (اللہ) بہت جلد تم کو اپنی قدرت کے نشان دکھلائوں گا پس تم مجھ سے جلدی نہ چاہو اس میں تمہارا ہی بھلا ہے اور سنو ! یہ دھمکی سن کر اور اکڑ کر کہتے ہیں کہ یہ وعدہ جس کا تم ہمیں ڈر سناتے ہو کب ہوگا اگر تم مسلمان سچے ہو تو پتہ بتلائو اے کاش ! یہ کافر اس وقت کی اصلیت کو جانیں جس وقت نہ اپنے منہ سے نہ اپنی پیٹھوں سے آگ کے عذاب کو روک سکیں گے اور نہ کسی طرف سے مدد کئے جائیں گے بلکہ ناگاہ وہ گھڑی ان پر آکر ان کو حیران کردے گی پس وہ اس کو کسی طرح رد نہ کرسکیں گے اور نہ ان کو کسی طرح کی کچھ مہلت ملے گی کیا ہوا اس وقت یہ تیرے ساتھ ہنسی مخول کر رہے ہیں تجھ سے پہلے بھی کئی ایک رسولوں سے ہنسی کی گئی پس جو لوگ اون رسولوں سے مسخری کرتے تھے انہی پر وہ عذاب نازل ہوا جس کی وہ ہنسی کرتے تھے یعنی جس عذاب کی خبر سن کر وہ مخول کیا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا پھر آخر کچھ نہ بن سکا اسی طرح ان کا حال ہوگا۔ اگر یہ اعتبار نہ کریں اور اللہ کی پکڑ سے نہ ڈریں تو تو ان سے پوچھ کہ تم جو اتنے سرمست ہوئے پھرتے ہو بتلائو تو رات دن میں تم کو اللہ مہربان کے عذاب سے کون بچا سکتا ہے؟ یعنی اگر وہ تم کو کسی وقت پکڑنا چاہے رات ہو یا دن کون تم کو اس کی پکڑ سے بچا سکتا ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ ہی کی حفاظت سے بچائو ہوتا ہے سچ ہے نہ چپ وراست سے گر ہووے تری نصرت دیاری نہ ترا عرش سے تا فرش اگر فیض ہوجاری تو کہے کیونکہ الٰہی یہ الٰہی تجھے ساری تو اللہ یمینی تو اللہ یساری تو اللہ زمینی تو اللہ سمائی اللہ کے سوا کوئی ان کا محافظ نہیں لیکن یہ لوگ خود ہی اپنے پروردگار کے ذکر سے روگردان ہیں کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کو نہ پکڑ سکیں گے کیا ان کے اور معبود ہیں جو ان کی ہم سے الگ الگ ہی حفاظت کرسکتے ہیں ہرگز نہیں وہ تو خود اپنے نفسوں کی مدد بھی نہیں کرسکتے اور نہ وہ ہماری طرف سے ساتھ دئے جائیں گے بات یہ ہے کہ ہم (اللہ) نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا میں آسودہ کیا ہے پس بحکم کر مہائے تو مارا کرد گستاخ خوب بگڑے یہاں تک کہ ان کی عمریں دراز ہوئیں اور مال و دولت سے خوب آسودہ ہوئے تو اللہ مالک الملک سے مستغنی ہوگئے اور گمراہی میں گر پڑے پھر لگے اللہ تک پہونچنے اور بڑہانکنے کہ ہمارے برابر کوئی نہیں کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ چاروں طرف اسلام کی اشاعت ہونے سے ہم ان کی کفر کی زمین کو گھٹاتے چلے آتے ہیں جس سے ان کا قافیہ تنگ ہورہا ہے کیا پھر بھی یہ غالب آئیں گے اے رسول (علیہ السلام) تو ان سے کہہ دے کہ سنو یا نہ سنو میں تو تم کو صرف حکم الہی کے ساتھ ڈراتا ہوں مگر بات یہ ہے کہ تم دنیا میں ایسے منہمک ہوگئے ہو کہ گویا بہرے ہورہے ہو اور بہروں کو جب سمجھایا جاتا ہے تو وہ کسی کی پکار سنتے نہیں سو یہی حال ان کا ہے ایسے دیوانہ وار جاتے ہیں کہ بس کچھ دیکھتے ہی نہیں اور اگر ان کو اللہ کے عذاب کی ذرہ سی ہوا بھی لگ جائے تو بس فورا کہنے لگ جائیں گے کہ ہم ہی ظالم تھے جو کچھ ہم کو پہونچا ہے ہماری ہی بداعمالی کا نتیجہ ہے یعنی اس وقت اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے مگر اب نہیں کرتے اچھا کیا ہوا بکری کی ماں کب تک خیر منائیں گی اور کب تک یہ لوگ مستانہ حالت میں اکڑتے پھریں گے آخر ایک روز ہم (اللہ) سب کے سامنے قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے جس سے نیک و بد اعمال نمایاں ہوجائیں گے پھر تو سب کے راز نہاں کھل جائیں گے اور کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا یہاں تک کہ کوئی کام اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو بھی اس عامل کے سامنے لے آئیں گے اور ہم خود اپنے علم کے زور سے حساب کرنے کو کافی ہیں کسی کی رپورٹ یا خبر رسانی کے ہم محتاج نہیں دیکھو انہی باتوں کے ذہن نشین کرنے اور مخلوق کو راہ راست پر لانے کیلئے ہم (اللہ) نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو حق و باطل میں تمیز اور فرق کرنے والی (کتاب) یعنی توریت اور ہدایت کی روشنی اور پر ہزا گاروں کا دستوالعمل دیا یعنی ان لوگوں کا وہ دستورالعمل تھا جو اپنے پروردگار سے بن دیکھے خوف کرتے ہیں اور وہ قیامت کی گھڑی سے بھی کانپتے ہیں اسی طرح یہ قرآن بابرکت نصیحت کی کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے جس کا اترنا کوئی نیا نہیں کیا تم اس سے منکر ہو ! ہائے افسوس ! تم اتنا نہیں سوچتے کہ اس انکار کا نتیجہ تمہارے حق میں کیا ہوگا اور اس کی پاداش تمہارے عوض کون اٹھائے گا یہ بھی ایک تمہاری ڈبل غلطی ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ قرآن اور یہ رسول نیا آیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہم ابتدائے دنیا سے لوگوں کی ہدایت کیلئے ہمیشہ سے رسول بھیجتے رہے ہیں اور مختلف لوگوں کو اس خدمت پر مامور کیا الأنبياء
32 الأنبياء
33 الأنبياء
34 الأنبياء
35 الأنبياء
36 الأنبياء
37 الأنبياء
38 الأنبياء
39 الأنبياء
40 الأنبياء
41 الأنبياء
42 الأنبياء
43 الأنبياء
44 الأنبياء
45 الأنبياء
46 الأنبياء
47 الأنبياء
48 الأنبياء
49 الأنبياء
50 الأنبياء
51 (51۔77) ہم نے اس سے پہلے تمہارے جد امجد اور عرب کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہدایت دی اور ہم اس کو جانتے تھے کہ وہ اس لائق ہے جو اس کے سپرد ہوگا۔ وہ اس کو خوب نبا ہے گا تم لوگ اس وقت کے واقعات یاد کرو جب اس (ابراہیم) نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تھا کہ یہ کیا صورتیں ہیں جن پر تم ڈیرے ڈالے رہتے ہو اور جن کی پوجاپاٹ میں ایسے مست اور سرگرداں ہو کہ کسی کی سنتے ہی نہیں کہاں تک ان کو اللہ میں حصہ اور حق حاصل ہے وہ بولے ہم نے اور تو کوئی بات ان میں دیکھی نہیں البتہ ایک ہی بات ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے بس یہی تقلید آبائی ہماری دلیل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں مگر ان نادانوں کو اتنی بات کی سمجھ نہ آئی کہ ابراہیم جیسے ہیں اور مناظر کے سامنے ہم ایسی خام دلیل تقلید آبائی کی پیش کرتے ہیں جو کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی کیونکہ یہی سوال جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم سے اور اپنے بزرگ باپ سے کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اپنے باپ دادا کی تقلید کی آڑ لی۔ اگر ان کے باپ دادا زندہ ہوتے تو ان پر بھی یہی سوال وارد ہوسکتا تھا پھر وہ کیا جواب دیتے اس لئے حضرت ابراہیم نے کہا کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پھنس رہے ہو انہوں نے جب ابراہیم کی ایسی جرات دیکھی تو وہ بولے تو جو اتنی ہماری مخالفت کرتا ہے اچھا یہ طریقہ اگر غلط ہے تو تو بھی کوئی سچی بات لایا ہے یا یونہی معمولی دل لگی کرنیوالوں میں سے ہے اگر لایا ہے تو بتلا ہمارا سچا معبود کون ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بلکہ تمہارا حقیقی معبود اور پروردگاروہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور اس بدیہی دعویٰ کی گو شہادت ضروری نہیں تاہم دنیا کی کل کائنات اس دعویٰ کی شہادت دے رہی ہیں اور میں خود بھی اس دعویٰ پر انہی شہادت دینے والوں میں سے ایک ہوں جب وہ اتنی بات سن کر ششدر ہوگئے اور جیسا کہ قاعدہ ہے پرانے مدت کے جمے ہوئے خیالات بمشکل نکلا کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ ایسے صاف اور سیدھے بیان سے ہدائت یاب نہ ہونے ابراہیم نے کہا واللہ میں تمہیں راہ راست پر لانے کو تمہارے ان بتوں یعنی معبودوں سے تمہارے جانے کے بعد ایک دائو کرونگا جس سے تم ان کی ناتوانی اور عدم استحقاق الوہیت خوب سمجھ سکو پس جب وہ اس بت خانہ سے چلے گئے تو اس نے ان سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن ان میں سے بڑے بت کو بچا رکھا تاکہ وہ ابراہیم کے کہنے پر اس کی طرف متوجہ ہوں یا اس کی سلامتی دیکھ کر دل میں غور کریں کہ یہ کسی نے کیا کیا۔ کہ تمام کو توڑ دیا لیکن اس سے کیا اسے دوستی تھی جو اس کو ثابت رکھا چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے کہا جس نے یہ کام ہمارے معبودوں سے کیا ہے بے شک وہ بڑا ظالم ہے پھر آپس میں انہوں نے بعد غور و فکر ایک دوسرے سے کہا کہ کل ہم نے ایک جوان لڑکے کو ان ٹھاکروں کا ذکر کرتے ہوئے سنا اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے یعنی اس کا نام ابراہیم ہے اسی نے کیا ہوگا کیونکہ وہ ان کے نام سے بھی چڑتا ہے یہ سن کر رئیسوں اور سرداروں نے کہا تو اس کو لوگوں کے سامنے لائو تاکہ اگر وہ اقرار کرے تو لوگ اس پر گواہ ہوں ایسا نہ ہو کہ ہم اسے سزا دیں تو عوام میں ہماری بدنامی ہو کہ بے ثبوت ایک لڑکے کو مارا۔ خیر ابراہیم کو جب بلالائے تو انہوں نے اس سے کہا کہ ابراہیم ! ہمارے معبودوں سے یہ بے جا کام تو نے کیا ہے کہ ان کو تکڑے ٹکڑے کردیا ؟ ابراہیم نے کہا میں نے کیا کیا؟ تم نے اس بڑے بت کو ایسا بنایا کہ اس کے دیکھنے سے مجھے سخت رنج ہوا اس لئے میں نے نہیں کیا بلکہ ان میں سے بڑے بت نے کیا ہے اگر بول سکتے ہیں تو ان کو پوچھ لو پس حضرت ابراہیم کے اس معقول جواب سے وہ ایسے رکے کہ کوئی جواب نہ بن پڑا (یہاں پر سوال ہوا کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بت کو فاعل کیوں بنایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو فاعل بنانا نسبت کی حیثیت سے مجاز ہے جیسا کہ استاد داغ نے کہا ہے مجھے کھٹکا ہوا تھا جب بنائے کعبہ پڑتی تھی کہ یہ جھگڑے میں ڈالے گا بہت گبرو مسلماں کو یعنی جھگڑے کا سبب بنے گا۔ منہ) کچھ مدت تک اپنے جی میں سوچا کئے پھر بولے یعنی باہم ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ بے شک تم ہی ظالم ہو کہ ایسے نوجوان لڑکے کو تم نے خوامخواہ چھیڑ کر ایسی بڑی مجلس میں اپنی ہتک کرائی حضرت ابراہیم بڑی متانت سے الگ بیٹھے ان کی یہ باتیں سنتے رہے اور دل میں آئندہ جواب سوچتے رہے پھر وہ کفار کچھ مدت تک اوندھے گر کر کہنے لگے ابراہیم ! تو نے یہ کیسا سوال کیا ہے کہ ان سے پوچھو تو جانتا ہے کہ یہ تو بولتے نہیں پھر ہم پوچھیں کس سے اور بتلائے کون؟ ایسا ہوشیار ہونہار ہو کر تو ہم سے ایسے سوال کرتا ہے۔ وہ نادان ابراہیم کی اس معقول تمہید کو نہ سمجھ کہ ابراہیم کا مطلب ہم سے یہی کہلوانا ہے چنانچہ ابراہیم نے یہ سنتے ہی بلند آواز سے کہا گیا پھر تم اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو عبادت کرنے پر تم کو نہ نفع دے سکیں اور نہ ترک کرنے پر نقصان حیف ہے تم کو اور ان چیزوں کو جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو کیا تم اب بھی عقل نہیں کرتے کہ کس بیوقوفی کے جال میں پھنسے ہو بس یہ کلام ہیبت قطام جب کاذبوں نے سنا تو ان کے چھکے چھوٹ گئے آخر انہوں نے بحکم چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے را کہا اس ابراہیم کو آگ سے جلا دو اور اپنے معبودوں کی حمایت کرو اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو یہ کرو کیسے عقل سے خالی تھے کہ اپنے معبودوں کی امداد کرنا چاہتے تھے انہوں نے تو اپنے خیال میں یہ تجویز کامیابی کی سوچی مگر وہ ہماری (اللہ کی) تجویزوں سے بے خبر تھے ادھر ہم نے آگ کو مناسب الفاظ میں حکم دیا جن الفاظ سے (اللہ) ہمیشہ اپنی مخلوقات کو حکم دیا کرتے ہیں کہ اے آگ بس خبردار تو ابراہیم کے حق میں بالکل سرد اور سلامتی والی بن جا یعنی ایسی بھی نہ ہوجانا کہ تیری سردی سے ابراہیم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے چنانچہ وہ ہوگئی اور انہوں نے تو اس سے تکلیف رسائی کا دائو کیا تھا پر ہم نے انہی کو ناکام اور ذلیل کیا (اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ ابراہیمی آگ سرد نہ ہوئی تھی۔ بلکہ ابراہیم سلام اللہ علیہ کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا تھا یہ خیال ان کا غلط ہے کیونکہ قرآن شریف میں علوم اصول بتلایا گیا ہے کہ اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون یعنی یہ عام قانون ہے کہ اللہ کے کن (ہو جا) کہنے سے شئی مطلوب ہوجاتی ہے۔ آیت زیر بحث میں رب العالمین کے کلام میں کن کا لفظ موجود ہے جس کے ذریعہ سے آگ کو سرد ہوجانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس الٰہی قاعدہ مذکور سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ آگ ضرور سرد ہوتی تھی ورنہ لازم آئے گا کہ معلول کو علت سے تخلف ہوگیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے پس نتیجہ صاف ہے کہ کن کہنے سے ضرور آگ سرد ہوئی ہوگی ہے۔ بیرونی مباحث کو ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں۔ سو ان مباحث کا تصفیہ ہم اس سے پہلے کئی ایک مواقع پر کر آئے ہیں کہ مفردات اور مرکبات سب کے سب مشیت ایزدی کے ماتحت ہیں۔ فافہم۔ منہ) اور ہم نے اس ابراہیم کو اور لوط علیہم السلام کو جو ابراہیم کے رشتہ میں تھا اس بابرکت زمین کی طرف بخیرعافیت پہونچا دیا جس میں ہم نے جہان کے سب لوگوں کیلئے برکات پیدا کر رکھی ہیں اور ہم نے اس کو ایک بیٹا اسحٰق اور بیٹے کا بیٹا یعقوب پوتا انعام بخشا اور سب کو ہم نے نیک اور صالح بنایا ایسے کہ تمام لوگوں نے ان سے ہدایت پائی اور ہم نے ان کو دین کے امام بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا پس وہ ان تمام احکامات کی پابندی کرتے تھے اور بڑی بات ان میں یہ تھی کہ وہ خاص ہماری ہی عبادت میں لگے ہوئے تھے اس لئے وہ اپنے مطلب میں کامیاب ہوئے اور ہم نے لوط نبی کو دینی حکم اور علم دیا اور نبی بنا کر اس کی قوم کی طرف بھیجا جو دنیا بھر سے زیادہ بدمعاشی کے کاموں میں لگی ہوئی تھی یعنی خلاف وضع فطری لونڈوں سے بدکاری کرتے تھے ایسی بدطینت قوم سے اس کو پالا پڑا تو تم سوچ لو کہ اس کو کیسی کچھ تکلیف ہوئی ہوگی مگر ہم نے اس کی حفاظت کی اور اس بستی سے جہاں کے رہنے والے سخت بدکاری لواطت کرتے تھے ہم نے اس کو بچایا کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بہت بڑے بدکار تھے۔ ان کو تو ہم نے تباہ اور ہلاک کیا اور لوط کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بے شک وہ ہمارے نیک بندوں سے تھا اور لوط سے پہلے نوح کو ہم نے نجات دی تھی جب اس نے ہم کو پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی پس ہم نے اس کو اور اس کے اتباع کو بڑی گھبراہٹ کے عذاب سے بچا لیا یعنی اس عذاب سے جس کے ساتھ اس کی قوم کو تباہ کیا اور جن لوگوں نے ہمارے حکموں کی تکذیب کی تھی ان کے مقابلہ پر ہم نے اس (نوح) کی مدد کی کیونکہ وہ بدمعاش اور برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو پانی میں غرق کردیا الأنبياء
52 الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 الأنبياء
62 الأنبياء
63 الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 الأنبياء
72 الأنبياء
73 الأنبياء
74 الأنبياء
75 الأنبياء
76 الأنبياء
77 الأنبياء
78 (78۔104) اور حضرت دائود اور سلیمان کا واقعہ بھی ان کو سنا جس وقت وہ دونوں کسی کی کھیتی کے بارے میں فیصلہ کرتے تھے جب کسی قوم کی بھیڑ بکریاں اس کھیتی میں رات کے وقت کود پڑیں اور سب کھیت کو کھا گئیں دونوں باپ بیٹا اس مقدمہ کو سوچ رہے تھے اور ہم ان کے فیصلے کے وقت وہاں حاضر تھے یعنی ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سے فیصلہ کرتے ہیں چونکہ ایسی نزاع کے متعلق احکام شرعیہ میں کوئی صریح حکم نہ تھا بلکہ اجتہادی مسئلہ تھا اس لئے بحکم المجتہد قد یصیب وقد یخطی حضرت دائود سے غلطی ہوگئی پھر ہم (اللہ) نے یہ مقدمہ سلیمان کو جو اس وقت شاہزادہ تھا سمجھا دیا چناچہ سلیمان نے اپنے والد حضرت دائود (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ میری رائے میں حضور کا فیصلہ قابل نظر ثانی ہے (اس قصے کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے یوں روایت آئی ہے کہ دو آدمی حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس آئے ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس کی بکریوں نے رات کے وقت میرا تمام کھیت کھالیا حضرت دائود نے تمام بکریاں کھیت والے کو دلوا دیں جب وہ دونوں باہر آئے تو حضرت سلیمان سے ملے۔ انہوں نے پوچھا کیا فیصلہ ہوا۔ انہوں نے سنایا تو حضرت سلیمان نے (جو ان دنوں شہزادگی میں تھے) کہا اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو میں اس کو ایسے آسان طریق سے طے کرتا کہ فریقین کے حق میں مفید ہوتا۔ اس کی خبر حضرت دائود کو بھی ہوگئی انہوں نے صاحبزادہ کو بلا کر وہ آسان طریق دریافت کیا تو صاحبزادہ نے کہا کہ کھیت کی زمین بکریاں والے کو دی جائے کہ وہ اس میں زراعت کرے اور بکریاں کھیت والے کو دی جائیں کہ وہ کھیت کے تیار ہونے تک ان کا دودھ پئے۔ پھر جب کھیت تیار ہوجائے تو کھیت والے کو کھیت اور بکریاں والے کو بکریاں دی جائیں حضرت دائود نے بھی اس فیصلے کو پسند کیا اور یہی نافذ فرمایا۔ بموجب روایات حدیثیہ اسلام کا مسئلہ ہے کہ دن کو کھیت کی حفاظت کرنی مالک کے ذمہ ہے اور گلہ کی حفاظت رات کے وقت گلہ کے مالک پر ہے پس اگر کسی کے مویشی دن کو کسی کا کھیت چر جائیں تو مالک مویشی پر کچھ نہیں کیونکہ دن کو حفاظت کرنا مالک زراعت کا فرض ہے اور اگر رات کو کھیت چر جائیں تو مالک مویشی پر اس کھیت کی قیمت واجب الادا ہوگی کیونکہ رات کے وقت مویشیوں کی حفاظت کرنی مالک مویشی کا فرض ہے۔ (منہ) والد بزرگوار نے کمال انصاف سے اس پر غور کیا تو صاحبزادہ کو حق بجانب پا کر اس سے موافقت کی۔ اس سے تم دو نتیجے حاصل کرو ایک تو یہ کہ بڑوں کی ہر بات میں پیروی نہیں ہوتی جس بات کی غلطی واضح ہوجائے اس میں بڑوں کو بھی مطلع کردینا چاہئے نہ کہ ہر بات میں ان کی اقتداء دویم یہ کہ بڑوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بڑائی حق پسندی سے ظاہر کریں نہ بے جا حکم سے چھوٹوں کی بات کو حقارت سے رد کردیں کہ اس بات کا قائل خورد سال ہے۔ دانائوں کا مقولہ ہے بزرگی بعقل است نہ بسال تونگری بدل است نہ بمال افسوس ہے آجکل دنیا میں عموما اور تم عربیوں میں خصوصا یہ دونوں وصف معدوم ہیں کہیں تو تم دین اسلام کی تعیمی کے مقابلہ پر بڑوں کی لکیر کو پیٹتے ہوئے ما وجد نا علیہ ابائنا کہا کرتے ہو کہیں بڑی عمر کے بڈھے پیغمبر اللہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے سے خورد سال جان کر اس کی تعلیم ناک بھون چڑھاتے ہو کہ کل کا لڑکا ہے کیا ہم اس کی پیروی کریں؟ بعض اس خیال سے کہ پیغمبر اللہ کے پاس مال و دولت کی کمی ہے اتباع کرنے سے غرور کرتے ہیں اس قسم کے خیالات سب واہیات ہیں اور ہم نے ہر ایک یعنی دائود اور سلیمان کو حکم اور نبوت کا علم دیا تھا مگر آخر (ع) اللہ پنچ انگشت یکساں نکرد ہم نے دائود پر خاص مہربانی یہ کی تھی کہ اس کے ساتھ پہاڑوں اور جانوروں کو مسخر کیا تھا ایسے کہ وہ پہاڑ اور جانور اس کی تسبیح کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے اور ذکر کے ساتھ ذکر کرتے تھے اس بات سے تم تعجب نہ کرو بے شک ہم (اللہ) ایسے کام کرسکتے ہیں ہم قادر مطلق ہیں کوئی کام ہمارے پر مشکل نہیں اس کی مثال سننا چاہتے ہو تو شیخ سعدی مرحوم کا کلام سنو تو ہم گردن از حکم داور مپیچ کہ گردن نہ پیچدز حکم تو ہیچ اور سنو ! ہم نے اس پر یہی احسان نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک قسم کے احسان کئے خصوصا ایسے احسان جو سلطنت سے تعلق رکھتے تھے مثلا ہم نے اس کو تمہارے لئے جنگی لباس بنانا سکھایا لوہے کو نرم کردیا۔ دائود سلام اللہ علیہ لوہے کی ذرہ بناتے تھے تاکہ تم اس وقت کے لوگوں کو جنگ کے ضرر سے بچائے۔ کیا تم ایسی نعمتوں کا بھی شکر نہ کرو گے؟ اور سنو ! ہم نے تیز ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا وہ اس کے حکم اور تدبیر سے اس زمین کی طرف جاتی تھی جس میں ہم نے ہر قسم کی برکتیں پیدا کی ہیں یعنی ملک شام کا علاقہ اور ہم ہر ایک چیز کو جانتے ہیں کوئی چیز ہمارے حکم اور علم کے احاطہ سے باہر نہیں ہوسکتی اور شیطانوں یعنی شریر جنوں میں سے جو سمندر میں غوطہ لگاتے تھے اور اس کے سوا کئی ایک اور کام بھی کرتے تھے ہم نے اس کے تابع کر دئیے تھے اور ہم ان کے نگران تھے کہ سرکشی نہ کریں یہ سب کرشمات قدرت ظاہر بینوں کی نگاہ میں گونا قابل وقوع ہیں لیکن دور بینوں کی نظروں میں اللہ کی قدرت کے سب ماتحت ہیں یہی وجہ ہے کہ سلسلہ رسالت میں ایسے امور کا وقوع عموما مانا گیا ہے پس ان کو حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر بھی سنا جب اس نے اپنے پروردگار رب العالمین سے دعا کی کہ الٰہی ! میں سخت مصیبت میں ہوں مجھے از حد تکلیف پہنچی ہے کہ تمام بدن پر بیماری غلبہ کرگئی ہے اور تو سب رحم کرنیوالوں سے بڑا رحم کرنے والا ہے پس اس دعا کا یہ آثر ہوا کہ اس مخلص بندہ کی پکار کو ہم نے قبول کیا اور جو اس کو تکلیف تھی سب دور کردی اور اس کو اس کا عیال جو بوجہ جدائی کے یا مر جانے کے جدا ہوگیا تھا دیا اور محض اپنی مہربانی سے اور عابد زاہد متوکل لوگوں کی نصیحت کے لئے ان کے ساتھ اور بھی دئیے یعنی ان کی نسل میں برکت کی تاکہ متوکل سمجھیں کہ اللہ کسی کی محنت اور دعا کو ضائع نہیں کیا کرتا اور حضرت اسمعیل ادریس اور ذوالکفل نبی کا ذکر بھی ان کو سنا کہ وہ تمام صابروں کی جماعت سے تھے مصیبت کے وقت چلاتے نہ تھے خوشی پر اتراتے نہ تھے ہم (اللہ) نے ان کو برگذیدہ بنایا اور اپنی رحمت میں داخل کیا تحقیق وہ نیکوں کی جماعت سے تھے اسی لئے ان کا حال بھی تم کو سنا یا جاتا ہے کہ تم بھی ان کی پیروی کرو اسی طرح حضرت یونس مچھلی والے کا ذکر ان کو سنا جب وہ قوم کی سرکشی پر خفا ہو کر وطن سے چلا گیا اور سمجھا تھا کہ ہم اس کے اس نکلنے پر سخت گیری نہ کریں گے کیونکہ بروں کی صحبت میں رہنے سے عموما ممانعت ہے اس عام حکم سے اس نے از خود یہ نتیجہ نکالا کہ بغیر صریح اجازت کے چلا جانا موجب عتاب نہ ہوگا مگر چونکہ نبی کیلئے جب تک بالخصوص حکم نہ پہنچے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کرنا ٹھیک نہیں ہوتا اس لئے وہ مچھلی کے پیٹ میں پھنس گیا تو پھر اس نے مچھلی کے پیٹ اور پانی اور بادلوں کے ان گنت اندھیروں میں ہم کو پکارا کہ اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی سب کا معبود مطلق ہے جو کچھ میرے پیش آیا ہے سب میری ہی شامت اعمال ہے ورنہ اللہ ! تو کسی بندے پر ناحق ظلم کرنے سے پاک ہے بے شک میں ہی ظالم اور ظالموں میں سے بڑا فرد قابل سزا ہوں کچھ تو یہ دعا ہی پر مضمون تھی جو سب مطالب کو شامل تھی اس پر حضرت یونس کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص نے اور ہی اثر کیا پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو اس غم وہم سے جو مچھلی کے پیٹ میں پھنس جانے سے اس پر وارد ہوا تھا نجات بخشی اور اسی طرح ہم اس دعا کی برکت اور تاثیر سے ہمیشہ ایمانداروں کو ایسے غموں سے نجات دیتے ہیں اور حضرت زکریا کا ذکر بھی ان کو سنا جب اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے میرے روردگار تو مجھے اکیلا بے اولاد نہ چھوڑ بلکہ کوئی لائق بیٹا مرحمت کر جو دین کا خادم ہو اور یوں تو میں جانتا ہوں کہ تو سب وارثوں سے اچھا وارث دین کا وارث بھی تو ہی ہے اور دنیا کا بھی تو ہی لیکن آخر دنیا میں تو اپنے بندوں ہی سے کام لیا کرتا ہے میرے حال پر مہربانی کر کے ایک لڑکا عنایت فرما پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو یحییٰ نام کا ایک بیٹا بخشا اور اس کی عورت کو جو بانجھ تھی درست کردیا یعنی قابل اولاد بنا دیا۔ ان بڑے لوگوں میں یہ تو کوئی بات نہ تھی جیسا بعض بیوقوفوں کا خیال ہے کہ ان کو کسی الٰہی کام میں بھی دخل تھا ہرگز نہیں ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور آڑے کاموں میں توقع اور خوف سے ہم ہی کو پکارتے تھے اور ہم (اللہ) ہی سے ڈرتے تھے ان کے علاوہ اور بھی کئی ایک اللہ کے بندے نیک دل گذرے ہیں جن سے مخلوق کو ہدایت ہوتی تھی مردوں کے علاوہ اس عورت (صدیقہ مریم) کا ذکر بھی ان کو سنا جس کو ناپاک لوگ (یہودی) مطعون کرتے ہیں حالانکہ اس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تھا پھر ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے ایک روح پھونکی تھی (عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) اللہ تھا۔ کیونکہ اس کو روح اللہ کہا گیا ہے مگر قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے۔ سورۃ سجدہ میں عام انسانوں کے لئے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے بدع خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سلا لۃ من مآء مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کے سلسلہ کو نطفہ سے جاری کیا۔ پھر اس کو درست اندام بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلہ کا ذکر ہے پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح کی الوہیت ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کو اُلُوہیت ثابت ہوگی پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی اللہ اور الہ ہیں۔ جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے کو کلام میں کسی نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں۔ فافہم (منہ) جس سے اس کا بیٹا مسیح سلام اللہ علیہ پیدا ہوا اور ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے بیٹے مسیح کو اس دنیا کے تمام لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان بنایا تھا کیونکہ اس کی ولادت بغرا باپ کے ہوئی تھی جو عموما سلسلہ تناسل ہی آدم کے خلاف تھی مگر خیر اصل بات جس کے لئے یہ سب واقعات تم لوگوں کو بتلائے گئے ہیں یہ ہے کہ یہ انبیاء کا گروہ تمہارا ایک ہی گروہ ہے ایک ہی ان کی بات تھی یعنی تم تمام لوگ میرے (اللہ کے) بندے ہو اور میں (اللہ) تمہارا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کیا کرو اور مراد پاجائو مگر افسوس ہے کہ تمہاری نسبت تو کیا کہنا ہے خود انہی کو دیکھو جن میں یہ نبی آئے تھے انہوں نے کیا کیا انبیاء کی بے فرمانی کی اور آپس کے تعلقات بھی توڑ دئیے۔ پس جو لوگ ایمان لاتے خواہ ان کے کیسے ہی عزیز و اقارب کیوں نہ ہوتے وہ ان کے بھی دشمن جان ہوجاتے خیر سب نے ہماری ہی طرف پھر کر آنا ہے بس وہاں تو صاف ہی فصلہ ہوگا کہ جس کسی نے ایمانداری کے ساتھ نیک کام کئے ہوں گے ان کی کوشش کی بے قدری نہ ہوگی اور ہم (اللہ) خود اس کے اعمال کو لکھنے والے ہیں یعنی محفوظ رکھ کر نیک جزا دیں گے مگر ان نادانوں کے دل و دماغ میں عجب خبط سمایا ہوا ہے کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مر گئے سو گئے یہ نہیں جانتے کہ جس بستی کے لوگوں کو ہم (اللہ) ہلاک کرتے ہیں یعنی مار دیتے ہیں ممکن نہیں کہ وہ ہماری طرف پھر کر نہ آئیں پھر جب یاجوج ماجوج کی روک کھول دی جائے گی اور وہ ہر ایک بلندی سے ڈھلکتے ہوئے چلے آئیں گے اس وقت آثار قیامت ظاہر ہوں گے اور سچا وعدہ قیام قیامت قریب آجائے گا تو اس کے آجانے پر کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہتے ہوں گے ہائے ہماری کمبختی ہم اس تکلیف شدید سے بالکل بے خبر تھے۔ بلکہ سراسر ظلم کرتے رہے آج یہ کیا ماجریٰ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کلام کی سچائی دیکھ رہے ہیں جو ہم کو دنیا میں سنایا گیا تھا جس پر ہم کو سخت طیش آتا تھا جب مسلمان کہتے تھے کہ تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہو یہ بھی کہتے تھے کہ تم لوگ اس میں داخل ہو گے یہ بھی ہم ان سے سنتے تھے کہ اگر یہ لوگ تمہارے معبود جن کو تم آج جہنم میں داخل دیکھتے ہو سچے معبود ہوتے تو دوزخ میں نہ جاتے حالانکہ عابد اور معبود سب کے سب اس میں نہ صرف داخل ہوں گے بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اس میں ان کو کسی طرح کا آرام نہ ہوگا۔ کیونکہ وہاں کا عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ اس میں داخل ہونگے وہ تکلیف کے مارے سخت چلائیں گے اور اس چلاہٹ میں کسی کی نہ سنیں گے بلکہ اپنا ہی دکھڑاروئیں گے کہ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ ان مصنوعی معبودوں میں نیک کرادار ہیں یعنی جن کے حق میں ان کے اعمال صالحہ کی وجہ ہماری طرف سے نیک وعدہ گذر چکا ہے کیونکہ وہ نہ تو خود ہی شرک کی تعلیم دے گئے نہ اپنی عبادت کرانے پر وہ راضی تھے بلکہ لوگوں نے خواہ مخواہ ان کو یہ رتبہ دے رکھا ہے جیسے حضرت مسح (علیہ السلام) اور شیخ عبدالقادر جیلانی اس آیت کو مرزا صاحب قادیانی نے اپنے معمولی زور اور لفاظی سے حضرت مسیح کے عدم رجوع پر دلیل سمجھا ہے کہتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو موت آگئی دنیا کی طرف ان کا رجوع حرام ہے۔ حالانکہ ان معنے سے آیت میں لا کے معنے کچھ نہیں بنتے۔ ہم نے جو معنے کئے ہیں وہ لفظی اور صرفی نحوی قاعدے سے ٹھیک ہیں حرام کے معنے ناممکن کے ہیں لایرجعون کے معنے نہ پھریں گے پس ہمارے معنے صحیح ہیں اور مرزا صاحب کے معنے غلط۔ (منہ) رحمہ اللہ وغیرہ یہ لوگ اس دوزخ اور دوزخ کی جملہ تکالیف سے دور ہٹے رہیں گے ایسے کہ اس کی بھنک بھی ان کے کانوں میں نہ پڑے گی بلکہ وہ اپنی من بھاتی خواہشوں اور لذتوں میں ہمیشہ رہیں گے ان کو قیامت کی بڑی گھبراہٹ پریشان نہ کرے گی اور ان کی ملاقات کو فرشتے یہ کہتے ہوئے آویں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا آپ لوگوں کو وعدہ دیا جاتا تھا یہ کب ہوگا؟ جس روز ہم (اللہ) تمام آسمانوں کو لپیٹ لیں گے ایسا کہ جس طرح مکتوبات جمع کر کے لپیٹے جاتے ہیں یعنی تمام دنیا پر اس روز حکومت الٰہی ایسی ہوگی کہ کوئی ایک فرد بھی دعویدار حکومت نہ ہوگا جیسا ہم نے پہلے مخلوق کو پیدا کیا تھا اسی طرح ان کو دوبارہ وجود میں لوٹائیں گے یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے بے شک ہم کرنے والے ہیں اس لئے ہم نے اس بات کی اطلاع بندوں کو دے رکھی ہے الأنبياء
79 الأنبياء
80 الأنبياء
81 الأنبياء
82 الأنبياء
83 الأنبياء
84 الأنبياء
85 الأنبياء
86 الأنبياء
87 الأنبياء
88 الأنبياء
89 الأنبياء
90 الأنبياء
91 الأنبياء
92 الأنبياء
93 الأنبياء
94 الأنبياء
95 الأنبياء
96 الأنبياء
97 الأنبياء
98 الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 الأنبياء
105 (105۔112) اور زبور میں جو حضرت دائود پر کتاب اتری تھی بعد ضروری نصیحت کے ہم نے لکھ دیا تھا کہ جنت کی زمین کے وارث میرے پرہیز گار بندے ہوں گے اب بھی اس کلام پاک قرآن شریف میں بلا شبہ عبادت کرنے والوں کے لئے تبلیغ ہے جو اللہ کے بندے ہو کر رہتے ہیں وہ عوض پائیں گے اسی لئے تو ہم نے تجھ کو اے رسول (علیہ السلام) تمام لوگوں کو ہدایت اور رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے پس تو ان سے کہہ کہ میری تعلیم کا خلاصہ دو لفظی ہے میری طرف بس یہی الہام ہوتا ہے کہ تم سب لوگوں کا معبود ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے تو کیا تم اس کے تابع فرمان نہ ہو گے پھر یہ سن کر اگر وہ اس سے روگردانی کریں اور تیری نہ سنیں تو تو ان کو کہدے کہ تم سب کو یکساں طور پر بلا رو رعائت ڈرا چکا ہوں اور سب کو بے لگی لپٹی سنا چکا ہوں لیکن اگر تم یہ پوچھو کہ شرک کفر دیگر بد اطواریوں پر آنے والی آفت کب آئے گی تو اس کی مجھے بھی خبر نہیں کہ جس عذاب کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا بعید کچھ شک نہیں کہ وہ اللہ بلند آواز کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے اور اس کے سوا کوئی بھی نہیں جو اس جاننے میں اس کا شریک ہوسکے مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ مہلت اور چند روزہ آسانی تمہارے حق میں کس حکمت پر مبنی ہے شاید کچھ ابتلاہے اور ایک خاص وقت تک یعنی تمہاری زندگی کی انتہا تک تم کو فائدہ پہنچانا منظور الٰہی ہے یہ کہہ کر رسول نے دعا میں کہا کہ اے میرے پروردگار ! تو حق فیصلہ فرما اور یہ بھی کہہ کہ ہمارا پروردگار بڑا رحم کرنے والا ہے اور تمہاری فضول باتوں پر جو تم کہتے ہو اسی سے مدد چاہی جاتی ہے پس اسی کی مدد سے بیڑاپار ہے جو کچھ ہوا ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا وہ تیرے ہی کرم سے ہوگا الأنبياء
106 الأنبياء
107 الأنبياء
108 الأنبياء
109 الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 الحج
1 لوگو ! سنو ! ایک کام تم کو ایسا بتلاتے ہیں جس پر کاربند ہونے سے تم فلاح دارین پاجائو وہ یہ ہے کہ تم اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو ایسے ڈرو کہ ہر وقت تمہاری رفتار و گفتار سے یہی معلوم ہوا کرے کہ تم اس مالک الملک کی رضاجوئی میں ہو کوئی کام حوصلہ سے ایسا نہ کر گذرو جس سے وہ ناراض ہو کیونکہ اس کی ناراضگی کا اثر گو تم اس دنیا میں محسوس کرنے سے انکاری ہو لیکن ایک وقت یعنی قیامت کی گھڑی آنے والی ہے جس میں تم انکاری نہ ہوسکو گے کچھ شک نہیں کہ اس گھڑی کی ہلچل ایک عظیم الشان چیز ہے الحج
2 (2۔25) جس روز تم اس کو دیکھو گے تو دودھ پلانے والی مائیں اپنی اولاد کو جسے انہوں نے دودھ پلایا ہوگا بھول جائیں گی بس یہی ایک نشان اس کی عظمت شان بتلانے کو کافی ہے اور بھی سننا چاہو تو سنو ! ہر حاملہ مادہ انسان ہو یا حیوان اپنا حمل گرا دے گی مارے دہشت کے تم سب لوگوں کو متوالے دیکھو گے حالانکہ وہ متوالے نہ ہوں گے بلکہ للہ کا عذاب سخت ہوگا جس نے ان کی عقلوں پر ایسا اثر پہونچایا ہوگا کہ مارے اندوہ و غم کے وہ متوالے نظر آئیں گے جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ہوں گے اور اللہ سے ان کو خاص قسم کا بندگانہ نیاز ہوگا وہ اس روز فلاح پائیں گے مگر بعض لوگ جو اس روحانی راز سے ناواقف ہیں وہ بجائے تعمیل ارشاد کے محض جہالت سے اللہ کی شان میں کج ادائی سے جھگڑتے ہیں اور خواہ مخواہ کے سوالات کبھی تو اللہ کی ذات کی نسبت کبھی اس کی صفات کی نسبت اٹھاتے ہیں بلکہ یہاں تک بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ اگر اللہ نے سب کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ایسے ایسے بے ہودہ خرافات اعتراضات کرنے میں سرکش شیطانوں کی پیروی کرتے ہیں جس طرح وہ ان کو القا کرتے ہیں ان کے کہنے پر چلتے ہیں جس کی نسبت اللہ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ جو کوئی اس سے دوستی لگائے گا یا اس کی پیروی کرے گا وہ ضرور اس کو گمراہ کرے گا اور دوزخ کے عذاب کی طرف اس کو لے جائے گا عذاب کا ذکر سن کر عموما عرب کے مشرک سر اٹھا اٹھا کر سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مر کر پھر زندہ ہوں سو ایسے لوگوں کے سمجھانے کو تو اے رسول کہہ دے کہ اگر تم دوبارہ جی اٹھنے میں شک کرتے ہو اور تم کو یہ سوالات کھٹکتے ہیں کہ کیونکر پھر زندہ ہوں گے تو تم غور کرو کہ ہم نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے بنایا پھر تمہارا سلسلہ نطفہ سے چلایا اس طرح کہ نطفہ کو رحم میں ٹھہراتے ہیں پھر اس کو خون بناتے ہیں پھر خون کو جما ہوا لوتھڑا بناتے ہیں پھر لوتھڑے سے ترقی دے کر خام اور پختہ گوشت کی شکل بناتے ہیں پھر اس کو ترقی دے کر اکثر تو پختہ اور مضبوط گوشت کے ٹکڑے سے اور بعض اوقات خام گوشت سے پیدا کرتے ہیں یہ تم کو اس لئے سناتے ہیں تاکہ تم پر اپنی قدرت کے کرشمے واضح کردیں اور تم کو یقین ہوجائے کہ جس قادر قیوم اللہ نے اتنے اتنے بڑے بڑے کام کئے ہیں اس کی کمال قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ تم کو مرنے کے بعد زندہ کردے بے شک وہ قدرت رکھتا ہے اور سنو ! ہم تم کو مائوں کے رحموں میں ایک مقررہ وقت تک ٹھیرارکھتے ہیں پھر تم کو تمہاری مائوں کے رحموں سے نکالتے ہیں ایسے حال میں کہ تم بالکل ایک بے سمجھ طفل ہوتے ہو کچھ بھی تو نہیں جانتے اس بے خبری اور بے سمجھی کے علاوہ طاقت اور زور کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو کوئی چیونٹی بھی میاں کو کاٹ لے تو اسے بھی ہٹا نہ سکے اس ناتوانی کو دیکھو پھر اس شاہ زوری کو بھی ملاحظہ کرو جو ہم تم کو جوانی کے عالم میں طاقت دیتے ہیں تاکہ تم اپنی کمال جوانی کو پہنچ جائو اور جو کام اس وقت میں تم کو کرنے ہوتے ہیں کرسکو بعض تم میں سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اور بعض انتہا نکمی عمر تک پہنچتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بعد حصول علم اور واقفی کے ان کو خبر نہیں رہتی اور وہ کچھ بھی نہیں جانتے بلکہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمیں کیا ہوگیا ناطاقتی کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ گویا یہ شعر ان کے حق میں مبالغہ نہیں ہائے اس ضعف نے یہ شکل بنائی میری نبض چلتی ہے تو پستی ہے کلائی میری اس بیان سے تم اس مطلب پر (کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے) نہ پہنچ سکو تو اور سنو ! بارش سے پہلے تم زمین کو خشک بنجر پڑی دیکھتے ہو پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تولہلہاتی ہے اور بڑھتی پھولتی ہے اور ہر قسم کی خوش نما انگوریاں نکالتی ہے یہ سب واقعات اس نتجہ پر پہنچانے والے ہیں کہ بے شک اللہ ہی معبود برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا اور یہ بھی کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ بھی اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں کیونکہ دنیا کی بے ثباتی اور عدم استقلالی اس بات کی کافی شہادت ہے کہ اخیر ایک روز اس کا ایسا زوال ہوگا کہ کوئی چیز بھی نہ رہے گی اور یہ بھی اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو جو قبروں میں پڑے ہیں یا پانی میں ڈوبے ہیں یا ہوا میں مل گئے ہیں سب کو اٹھایا جائے گا اتنے دلائل سن کر بھی بعض لوگ محض جہالت سے بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے اللہ کی شان میں محض متکبرانہ طور سے پہلو پھیر کر جھگڑا کرتے ہیں الہیات کے باریک مسائل اور روحانیات کے نکات غامضہ کو اپنی موٹی عقل سے حل کرنا چاہتے ہیں منہ پھاڑ پھاڑ کر اللہ کی پاک کتاب پر معترض ہوتے ہیں تاکہ عوام لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور شیطانی دام میں پھنسا دیں پس یاد رکھیں ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے روز ہم ان کو عذاب دوزخ کا مزہ چکھادیں گے اس وقت ان کو کہا جاوے گا کہ یہ روز بد تم کو تمہارے ہاتھوں کی کرتوتوں سے ملا ہے اور جانو کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم روا نہیں رکھتا یہ سن کر بھی بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت گویا ایک کنارہ پر ہو کر کرتے ہیں یعنی خود مطلبی سے پھر اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ جائے چند روزہ نماز پڑھنے اور دعا کرنے سے معقول روزگار مل جائے تو بس پھر تو تسلی پاجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ بھی کوئی زندہ طاقت ہے اور اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچے جو مقدر سے پہنچنی تھی تو جھٹ دین سے برگشتہ ہوجاتے ہیں سچ پوچھو تو ان لوگوں نے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اٹھایا دنیا میں جس عزت سے ان کو رہنا چاہئے تھا وہ عزت انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کھو دی آخرت کو تو بالکل ہی برباد کردیا۔ اسی واسطے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ یہی صریح اور بدیہی نقصان ہے بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی نقصان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو آڑے وقت میں پکارتے ہیں جو نہ ان کو ضرر دے سکیں نہ نفع پہنچا سکیں اللہ کے سوا جتنی مخلوق ہے سب کی یہی کیفیت ہے کہ کوئی بھی کسی کو نفع یا نقصان پہنچا نے پر قادر نہیں ہے یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے اس سے زیادہ گمراہی کیا ہوگی؟ کہ ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جن کے پکارنے کا ضرر نفع سے قریب تر ہے یعنی پکارنے سے ان کے خیال میں جو فائدہ ہوتا ہے وہ تو جب ہوگا تب ہوگا۔ سر دست تو معدوم ہے مگر چونکہ ان کا پکارنا سرے سے ناجائز ہے اس لئے اس موہومی فائدے سے پہلے اس فعل بد کا گناہ تو ان پر لعنت کے طوق کی طرح چمٹ گیا۔ اسی لئے ایسے دوست بھی برے اور ایسا کنبہ بھی برا جو ایسے برے کاموں کی طرف محرک ہوں مگر جو لوگ اللہ کے نیک بندے ہیں یعنی اللہ کے حکموں پر ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کئے ہیں اللہ ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں بے شک اللہ تعالیٰ جو ارادہ کرے کردیتا ہے اس کے ارادے کو کوئی مانع نہیں ہوسکتا نہ وہاں دولت مندوں کی دولت کی وجہ عزت ہے نہ غریبوں کی غربت کے سبب سے ذلت ہے وہ تو سب کا مالک ہے سب کا نگران حال ہے جو کوئی اپنے خیال میں یہ گمان کئے بیٹھا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہ کرے گا بلکہ یونہی نسیا منسیا کر دے گا یہ درست نہیں بلکہ اللہ اپنی کسی مخلوق کو نہیں بھولتا تاہم اتنا سمجھانے سے کسی کی تسلی نہ ہو اور وہ اللہ کی نسبت بدگمان ہی ہو تو اسے چاہئے کہ اوپر چھت کی طرف ایک رسی تانے جس کے ساتھ اپنی پھانسی لگائے پھر اس رسی کو کاٹ دے جس کے کٹنے سے وہ زمین پر گر کر مرجائے گا پھر وہ دیکھے کہ اس کی اس تدبیر سے اس کا رنج و غم جو اللہ کی نسبت کر رہا تھا رفع دفع ہوجائے گا؟ مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص اللہ کی نسبت ایسا بدگمان ہے کہ اللہ اس کی فریاد رسی نہیں کرتا اس کی حاجات براری سے بے پرواہ ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی فکر کرے کیونکہ اس کی ایسی زندگی جو اللہ سے اسے بدگمان کرتی ہو۔ موت اس سے بہتر ہے تاکہ اس کو پوری حقیقت معلوم ہوسکے اور جان لے کہ میں غلطی پر تھا اسی طرح ہم (اللہ) نے اس قرآن میں کھلے کھلے احکام نازل کئے ہیں پس تم ان پر عمل کرو اور دل سے جانو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے جو اس کی ہدایت سے فائدہ لینا چاہیں انہیں چاہیے کہ صاف دل سے اس کی فرمانبرداری پر کمر بستہ ہوجائیں ہاں بنی آدم میں جو مذہبی اختلاف ہے ایماندار مسلمان یہودی صابی یعنی بےدین خود رائے عیسائی مجوسی آتش پرست اور بت پرست مشرک بے شک اللہ قیامت کے روز ان میں بین فیصلہ کرے گا ایسا کہ کسی کو اس فے صلو میں چوں و چرا کی گنجائش نہ رہے گی اس اللہ کو کسی کے بتلانے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہر ایک چیز پر خود حاضر ہے اس کی قدرت کا کرشمہ تمام دنیا میں نظر آرہا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو مخلوق آسمان میں ہے یعنی فرشتے وغیرہ اور جو مخلوق زمین میں ہے اور سورج اور چاند ستارے پہاڑ درخت چوپائے اور بہت سے انسان بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اسی کی فرمانبرداری کرتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں اسی کو اپنا معبود جانتے ہیں جس طرح تم انسانوں کو دیکھتے ہو کہ نیک بندے جس طرح نماز روزہ میں مشغول ہیں اور حیوانات اور جمادات بھی اسی طرح اللہ کی عبادت اور فرمانبرداری میں اپنے اپنے وقت پر مشغول ہیں مثال کیلئے مرغ کو دیکھو کیسا وقت پر بلند آواز سے اللہ کو پکارتا ہے سچ ہے مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کنند باصطلاحے ہاں یہ صحیح ہے کہ انسانوں میں بعض ایسے بھی ہیں کہ پورے فرمانبردار ہیں اور بہت سے لوگوں کی بد اعمالی کفر شرک اور دیگر بد اخلاقیوں کی وجہ سے ان پر دائمی عذاب واجب ہوچکا ہے اور قانون الہی کے مطابق ذلت اور خواری ان کے حصے میں آچکی ہے یا آجائیں گی اور جس کو اللہ ہی ذلیل کرے یعنی اس کی بد اعمالی کی سزا میں اس کو داخل جہنم کرے تو اس کو کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا کچھ شک نہیں کہ اللہ ایسا توانا اور قادر قیوم ہے کہ جو کچھ چاہتا ہے کردیتا ہے یعنی جو اس کا قانون بین المخلوق ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا اصل پوچھو تو یہ لوگ مومن اور کافر دو مخالف گروہ ہیں جن کی مخالفت کسی دنیاوی مطلب کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی شان میں جھگڑتے ہیں ایک لوگ یعنی موحد تو کہتے ہیں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں اور وہ اپنی تمام حاجات اپنے پروردگار ہی سے طلب کرتے ہیں دوسرے ان کے مخالف وہ لوگ ہیں یعنی مشرکانہ خیالات والے جو اللہ کی اس تعلیم توحید سے منکر ہیں وہ لوگ اپنی حاجات کو اللہ کی مخلوق سے طلب کرتے ہیں اپنی ذات اپنی اولاد کو اللہ کے بندوں کی طرف منسوب کرتے ہیں دیوی دیوتا اور پیراں دتا ان کے نام تجویر کرتے ہیں پس جو لوگ کافر ہیں یعنی الٰہی تعلیم توحید سے منکر ہیں وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے ان کیلئے اگ کا لباس تیار کرایا جائے گا جس سے ان کا تمام تن من جلے گا ان کے سروں کے اوپر سے سخت گرم پانی کھولتا ہوا ڈالا جائے گا جس کے ساتھ ان کے پیٹوں کے اندر کی انتڑیاں اور بیرونی چمڑے گل جائیں گے اور ان کے مارنے کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے جن سے ان کی ہڈیاں چور کی جائیں گی جب کبھی اس جہنم سے مارے غم کے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلانے والا عذاب چکھتے رہو کبھی بھی اس عذاب سے نہ نکلو گے چاہے تم کسی طرح روؤچلائو ان کے مقابل جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی ان باغوں میں ان کے سونے چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے اصل ساخت تو ان کی حسب مراتب سونے یا چاندی کی ہوگی مگر موتی ان میں جڑے ہوں گے اور لباس ان کا ریشمی ہوگا اس لئے کہ دنیا میں وہ نیک کام کرتے رہے اور پاک کلام بولنے کی ان کو ہدایت کی گئی تھی یعنی اللہ کی توحید وصفات اور نیک اخلاق کے گن گاتے تھے اور اللہ حمید یعنی سب صفات سے موصوف کی راہ دنیا میں ان کو سمجھائی گئی تھی اسی لئے وہ ان انعامات کے مستحق ہوئے یہ تو ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ہو رہے لیکن جو لوگ خود بھی کافر ہیں اور اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور مسجد الحرام کعبہ شریف سے منع کرتے ہیں جن کو ہم نے لوگوں کیلئے بنایا ہے یعنی کسی ملک کا باشندہ ہو اللہ کی عبادت اس میں کرسکتا ہے جس میں مقیم اور مسافر برابر کے حق دار ہیں پس کچھ شک نہیں کہ ایسی مسجد سے ان کا مسلمانوں کو منع کرنا اور غریب لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنا سراسر ظلم اور بےدینی ہے اور یہ تو ہمارے (اللہ کے) ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی اس مسجد میں بےدینی اور ظلم کا طریق اختیار کرے گا ہم اس کو دکھ کی مار کریں گے افسوس ہے کہ یہ لوگ مسجد احرام کے مالک بن کر اصل مستحقوں کو روکتے ہیں حالانکہ یہ خود روکے جانے کے لائق ہیں کیونکہ بانی مسجد الحرام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منشاء کے بر خلاف ہیں اس لئے مشرک ہیں اللہ کے ساجھی بناتے ہیں الحج
3 الحج
4 الحج
5 الحج
6 الحج
7 الحج
8 الحج
9 الحج
10 الحج
11 الحج
12 الحج
13 الحج
14 الحج
15 الحج
16 الحج
17 الحج
18 الحج
19 الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 الحج
24 الحج
25 الحج
26 (26۔38) اور ہم (اللہ) نے جب اس کے بانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس مکان مسجد الحرام میں جگہ دی تھی تو یہ حکم دیا تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیو اور میرے گھر یعنی عبادت خانہ کو طواف کرنے والوں یعنی باہر سے ائے ہوؤں اور اسی میں قیام کرنے والوں رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے صاف اور ستھرا رکھیو مبادا کوئی ظاہری ناپاکی (پائخانہ پیشاب) یا باطنی (شرک کفر بےدینی کے اسباب بت وغیرہ) کبھی اس میں راہ پاوے۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیو اور لوگوں میں حج کی منادی کر دیجو یعنی ان کو بتلا دو کہ جسے توفیق ہو وہ عمر بھر میں ایک دفعہ اس عبادت خانہ کو دیکھ جائے اور اس میں نماز پڑھ جائے تیرے پکارنے اور کہہ دینے کا یہ اثر ہوگا کہ پاپیادہ اور پتلی ڈبلی اونٹنیوں پر جو دور دراز راستوں سے آویں گی سوار ہو کر تیری زندگی میں تیرے پاس اور تیرے بعد تیرے بنائے ہوئے کعبہ میں یہ لوگ آئیں گے تاکہ اپنے دینی اور دنیاوی منافع پر پہنچیں اور اللہ نے جو مویشی یعنی چار پائے ان کو دئیے ہیں ان پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کریں یعنی ایام حج میں قربانیاں کیا کریں پھر تم سب لوگ ان قربانیوں میں سے خود بھی کھائیو اور محتاج فقیروں کو بھی کھلائیو پھر حج کے بعداپنا میل کچیل دور کریں اور اپنے فرائض نذر نیاز للہ کو پورا کریں اور پرانے معبد کا طواف کریں۔ یعنی کعبہ شریف کے ارد گرد گھومتے ہوئے ذکر الٰہی کریں حکم تو یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمات یعنی قابل تعظیم چیزوں کی عزت کرے گا یہ ایسا کرنا اس کے پروردگار کے نزدیک اس کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ مالک کے حکم کی فرماں برداری کرنا ماتحت اور مملوک کے حق میں ہمیشہ بہتر ہوتا ہے خصوصا ایسا مالک جو تمام طرح سے بااختیار ہو جس کے قبضہ اختیار سے کوئی چیز بھی باہر نہ ہوسکے اسی نے تم کو پیدا کیا اور تم کو قسم قسم کی نعمتیں عطا کیں تمہارے لئے ان معدودے چند جانوروں کے سوا جن کی حرمت سورۃ مائدہ کے رکوع اول میں تم کو سنائی جاتی ہے اور تم ہر روز اس کو پڑھتے ہو باقی چار پائے حلال کئے گئے ہیں پس تم اللہ کا شکر یہ ادا کرو اور شرک اور بت پرستی کی ناپاکی سے بچتے رہو یہ تم کو مذھبی حکم ہے اخلاقی طور پر یہ ہے کہ تم ہمیشہ راست بازی کو اختیار کرو اور جھوٹی بات کہنے سے بالکل دور ہٹے رہو صرف اللہ کے بندے ایک طرف ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائو اور یاد رکھو شرک ایسی بری بلا ہے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ یہ سمجھے کہ گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر یا تو آتے آتے راستہ میں اسے جانور نوچ لیں گے یا ہوا اس کو کسی دور دراز مکان میں پھینک دے گی غرض اس کی زندگی بہر حال محال یہ ایک ضروری حکم ہے ایسا کہ اس کے سوا کسی بندے کی نجات ہی ممکن نہیں اور اس کے سوا جو کوئی احکامات اور نشانات الہیہ کی تعظیم کرے گا تو بس وہ متقی ہے اور یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے کیونکہ جب تک کسی کے دل میں ایمان کامل نہ ہوگا وہ الٰہی احکام کی عزت ہی کیا کرے گا سنو ! ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے ان چارپائوں میں کئی کئی قسم کے فوائد ہیں پھر اگر تم نے قربانی کے لئے ان کو نامزد کردیا ہے اور حج میں ساتھ لے جانے کی نیت کی ہے تو پرانے معبد کعبہ شریف کے پاس ایام حج میں بغرض قربانی ان کو جانا ہوگا یہ حکم کوئی تمہارے ہی لئے مخصوص نہیں ہم نے ہر ایک قوم کیلئے قربانی کا طریقہ مقرر کیا تھا تاکہ اللہ کے دئیے ہوئے چار پائوں پر اللہ کا نام ذکر کریں مگر صرف اللہ کا نام لیں یہ نہ کریں کہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کردیں (قرآن مجید کے اس دعویٰ کا ہر ایک قوم میں قربانی کا حکم ہے ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں تعجب تو یہ ہے کہ ہندوئوں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ہندوئوں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی فرماتے ہیں۔ ” یگیہ و قربانی کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے چھے ہرن اور پرند مارنا چاہئے۔ اگلے زمانے میں کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کردیں سو تم دل میں اس بات کا یقین رکھو کہ تمہارا حقیقی معبود ایک ہی ہے پس تم اسی کی فرمانبرداری رشیوں نے یگیہ کے لئے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے شری برہما جی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کاو اس سے یگیہ میں جو قتل ہوتا ہے وہ بدہ نہیں کہلاتا۔ ان۔ حیوان پرند۔ کچھو وغیرہ یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔“ (ادھیارے شلوک ٢٢۔ ٢٣۔ ٣٩۔ ٤٠) گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے ہم کو یہ دکھانا منظور ہے کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ اپنا ثبوت رکھتا ہے باقی قربانی کی علت اور وجہ اس کے لئے ہماری کتب مباحثہ حق پرکاش ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ منہ) سو تم دل میں اس بات کا یقین رکھو کہ تمہارا حقیقی معبود ایک ہی ہے پس تم اسی کی فرمانبرداری کرتے رہو اور تو اے رسول اللہ کی طرف جھکنے والے بندوں کو خوشخبری سنا جو ایسے نیک دل ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاوے تو اس کی جلالت اور عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی ہے کہ ان کے دل کانپ جاتے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی عظمت جلالت کا خیال کرتے ہیں دوسری طرف اپنی ناچیز ہستی کو دیکھتے ہیں تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے چار چیز آور دہ ام شاہا کہ درگنج تو نیست نیستی وحاجت و عذر دگناہ آوردہ ام اور ان لوگوں کو خوشخبری اور بشارت سنا جو مصیبت پر صبر کرتے ہیں اور نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں یہ ہیں اللہ کی طرف جھکنے والے اور یہی ہیں المخبتین اصل میں کمال بندگی تو یہی ہے کہ اللہ کی رضا جوئی ہر کام میں پیش نظر رہے خواہ کوئی کام ہو۔ باقی رہے امور ظاہر یہ مثلا قربانی کے بدنہ سوان اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے جو قدرت الٰہیہ کے نشانوں سے ہیں یعنی ہر ایک نبی کے زمانہ میں ان کی قربانیاں ہوتی چلی آئی ہیں ان میں تمہارے لئے کئی طرح کی بھلائی ہے بوجھ ان پر لادتے ہو ان کے بالوں سے کپڑے بناتے ہو۔ سواری ان پر کرتے ہو۔ غرض ان گنت فوائد ان سے تم لیتے ہو پس ذبح کرتے وقت ان کو کھڑا کر کے اللہ کا نام یاد کیا کرو پھر جب وہ ذبح ہو کر زمین پر گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھایا کرو اور بھائی بندوں نہ مانگنے والے قناعت پیشہ اور گداگری سے آنے والوں کو بھی کھلایا کرو ہم (اللہ) نے اسی طرح ان کو تمہارے بس میں کردیا ہے تاکہ تم ہماری اس نعمت کا شکر کرو یہ نہ سمجھو کہ قربانی کا حکم تم کو اس لئے دیا ہے کہ ان کا گوشت اللہ کھاتا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں اللہ کو ان کے گوشت پوست تو ہرگز نہیں پہنچتے نہ ان کے خون پہنچتے ہیں لیکن تمہارا دلی اخلاص اور تقویٰ پہنچتا ہے پس اگر تم اس نیت سے کرو گے کہ یہ مالک نے دیا ہے اسی کے نام پر اس کی رضا جوئی کے لئے خرچ کی جائے تو اس کا نیک اجر پائو گے اور اگر کسی دنیاوی ننگ و نمود کیلئے قربانی کرو گے تو بس الٹے مجرم بنو گے اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان کو تمہارے قابو میں دیا ہے تاکہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے طریق سے اس کی بڑائی کرو اور تکبیریں پڑھو اور اے رسول ! تو نیک آدمیوں اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری سنا کہ اللہ کے ہاں تمہارے لئے بہت کچھ کامیابی کے سامان ہیں بے شک اللہ ان کو یونہی کسمپرسی میں چھوڑے گا بلکہ ایمانداروں سے مدافعت کرے گا چند روزہ ڈھیل پڑنے سے یہ نہ سمجھو کہ یہ مشرک کافر بدکار اللہ کو بھلے معلوم ہوتے ہیں نہیں نہیں ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ کبھی کسی دغاباز خائن اور ناشکرے کافر سے محبت نہیں کیا کرتا یہ تو اس کی حکمت ہے اس سے تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ مومنوں سے ناراض ہے کہ ان کی خبر گیری نہیں کرتا ان کو کافروں سے پٹوا رہا ہے چاروں طرف سے کافروں کے ان پر حملے ہوتے ہیں اور ان کو ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا الحج
27 الحج
28 الحج
29 الحج
30 الحج
31 الحج
32 الحج
33 الحج
34 الحج
35 الحج
36 الحج
37 الحج
38 الحج
39 (39۔72) لو سنو ! جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی ہے کفار ان سے لڑتے ہیں مارتے ہیں ستاتے ہیں تنگ کرتے ہیں ان کو بھی آج سے اجازت دی گئی ہے کہ بسم اللہ کر کے ہاتھ اٹھائیں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے (صحابہ کرام کفار سے تنگ آگئے تھے اور بحکم تنگ آمد بجنگ لڑائی کے متمنی تھے ان کی تسلی کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ جہاد کے متعلق مفصل حاشیہ جلد ١ ص ١٣٦ پر ملاحظہ ہو۔ منہ) اب تو ان کی مظلومی کی کوئی حد نہیں رہی یہ لوگ وہی تو ہیں جو صرف اتنا کہنے پر کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اپنے گھروں سے بال بچوں سے دوست آشنائوں سے نکالے گئے اور ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم توڑے گئے اب بھی اگر ان کو اجازت نہ ملے تو کب ملے بحالے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جب ظلم اپنی حد سے متجاوز ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی بیخ کنی کیا کرتا ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے دوسرے بعض انسانوں کے ذریعہ سے دفع نہ کرے تو عیسائیوں کی مظلومی کے وقت ان کے عبادت خانے گرج اور یہودیوں کی مظلومی کے وقت ان کے معبد‘ درویش خانے اور مسلمانوں کی مظلومی کے وقت ان کی مسجدیں جن میں اللہ کو بہت بہت یاد کیا جاتا ہے سب ویران ہوجاتیں مگر نہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں بے شک اللہ کی مدد ہی سے بیڑا پارہے کیونکہ اللہ سب سے بڑا قوت والا غالب ہے جن لوگوں کو ہم نے ہاتھ اٹھانے کا اختیار دیا ہے یہ کوئی ایسے ویسے ظالم یا کج خلق نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک پر حکومت دیں گے تو نماز قائم کریں گے اور کرائیں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور دلوائیں گے اور نیک کاموں کا حکم کریں گے اور برے کاموں سے روکیں گے اور اس بات پر ایمان رکھیں گے کہ سب چیزوں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے یہ تو گویا ان کا وظیفہ ہوگا ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد اللہ بخشندہ یہ پیشگوئی تو ان کو سنادے اور گر یہ لوگ تیری تکذیب کریں تو کوئی نئی بات نہیں تجھ سے پہلے نوح کی قوم نے نوح کو اور قوم عاد نے اپنے پیغمبر ہود کو اور قوم ثمود نے اپنے پیغمبر صالح کو اور قوم ابراہیم نے ابراہیم کو اور قوم لوط نے لوط کو اور مدین والوں نے حضرت شعیب کو جھٹلایا تھا اور حضرت موسیٰ کی تکذیب کی گئی تو آخرکار پھر کیا ہوا؟ یہی کہ میں نے کافروں کو چند روزہ مہلت دی لگے وہ اسی پر اترانے اور غرور کرنے پس میں نے ان سب کو ایک دم پکڑ لیا اور خوب پچھاڑا پھر میرا غصہ کیسا ظاہر ہوا سو کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے ان کو تباہ اور برباد کیا پس وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک کنوئیں بیکار اور کتنے پکے محل ویران ہیں کیا انہوں نے زمین میں کبھی سیر نہیں کی اگر کرتے زرہ نظارہ عالم دیکھتے تو عبرت پاتے اور ان کے دل ایسے ہوتے کہ ان کے ساتھ سمجھتے اور کان ہوتے کہ ان کے ساتھ ہدایت کی باتیں سنتے کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کے کان نہیں؟ ہیں کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی آنکھیں نہیں ہاں سب کچھ ہے کیونکہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ تو برابر دیکھتی رہتی ہیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں چھپے رہتے ہیں دیکھو تو یہ کیا اندھاپن ہے؟ کہ بجائے عافیت طلبی کے تجھ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں کہتے ہیں ہم پر عذاب لے آ یہ نہیں کرتے کہ اللہ سے عافیت مانگیں حالانکہ اللہ ہرگز اپنا وعدہ خلاف نہ کرے گا جو وقت کسی کام کے لئے مقرر ہے اسی وقت پر وہ کام ہوتا ہے مگر اس کے ڈھیل دینے سے یہ لوگ فائدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ الٹے الجھتے ہیں اور جلدی جلدی عذاب چاہتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تیرے پروردگار کے ہاں ایک ایک دن تمہاری گنتی سے ہزار ہزار سال کے برابر ہے یعنی تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو وہ اللہ کے نزدیک ایک روز ہے کیونکہ جو جتنا حوصلہ مند اور طاقتور ہوتا ہے اسی قدر اسی کی بلند نظری اور وسیع الخیالی ہوتی ہے پس جو کام تمہاے نزدیک ایک ہزار سال کو ہونے والا ہو وہ سمجھو کہ اللہ کے نزدیک ایسا ہے جیسا کل کو پیش آنیوالا واقعہ ہے اسی لئے تو ان احمقوں کی جلد بازی سے میرے (یعنی اللہ کے) علم میں کوئی فرق نہیں آتا لیکن یہ مطلب نہیں کہ ان باغیوں کو میں یونہی چھوڑ دوں گا ہرگز نہیں ضرور پکڑوں گا اور خوب سزا دوں گا اسی طرح میں نے کئی ایک بستیوں کی قوموں کو باوجود یہ کہ وہ ظالم تھیں چند روز مہلت دی تھی جس سے وہ بہت اترائے تھے پھر میں نے ان کو خوب پکڑا ایسا کہ سب کو ہلاک کردیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ میری طرف ہی سب نے پھرنا ہے پس اے رسول ! تو ان سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہہ دے کے اے لوگو ! میں تو تم کو کھلم کھلا عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں پس جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور عزت کا رزق ہوگا اور جو لوگ ہمارے حکموں کی مخالفت میں ہم کو جیتنے کی غرض سے کوشش کرتے ہیں وہی جہنم کے لائق ہوں گے باقی رہی یہ بات کہ رسول چاہتا ہے کہ دنیا کے لوگ سب مسلمان ہوجائیں مگر یہ آرزو اس کی پوری نہیں ہوتی سو یہ کوئی نئی بات نہیں اے رسول ! ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے ہیں سب کو یہی واقعہ پش آتا رہا کہ جب کبھی انہوں نے کوئی آرزو دل میں جمائی تو شیطان نے ان کی آرزو میں وسوسہ ڈالا یعنی انہوں نے اگر کسی کام کی انجام دہی کی تمنا کی تو شیطان نے اس خواہش کو بڑھا کر اور بھی ترقی دی یہاں تک کہ عوام کے ذہن نشین ہوا کہ فلاں کام جس کے انجام کو پہنچنا پیغمبر صاحب نے چاہا تھا وہ بس ابھی ہوجائے گا حالانکہ مشیت الٰہی میں ایسا نہ ہوتا تھا پھر آخر کار جو ہوتا وہ منشا ایزدی کے موافق ہی ہوتا چنانچہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے خیالات اور خواہشات کو مٹا دیتا ہے اور اپنے ارشادات کو جو وحی کے ذریعہ سے بتلائے ہوئے ہیں محکم اور مضبوط کردیتا ہے یعنی ان کا وقوع اپنے حسب موقع ہوجاتا ہے گو پیغمبر کے منشا کے بر خلاف بھی کیوں نہ ہو مگر اللہ کے علم اور حکمت کے خلاف نہیں ہوتا کیونکہ اللہ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے کوئی چیز اس کے علمی اور حکمی احاطہ سے باہر نہیں ہوسکتی انجام یہ ہوتا ہے کہ شیطان کا القاء کیا ہوا خیال مریض القلب اور سخت دلوں کے لئے موجب لغزش ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ امر پیغمبر کے حسب منشا نہیں ہوا تو اس پغمبر کی صداقت اور اللہ کے نزدیک قربت کیسی ہوگی؟ اس آیت کے متعلق ایک روایت آئی ہے کہ : ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کفار میں سورۃ النجم کی ایک آیت پڑھی جس میں ایک لفظ بتوں کی تعریف کا بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکل گیا جس پر مخالفین بھی خوش ہوئے مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی چونکہ آپ کے قصد اور ارادہ سے یہ لفظ نہ نکلا تھا بلکہ بالکل بے خبری میں نکل گیا تھا۔ اس لئے آپ کو سخت رنج ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ لفظ جو بتوں کی تعریف کا نکلا تھا وہ شیطان کی حرکت سے تھا۔ تیرے ہی ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر ایک نبی کے ساتھ ایسا ہوتا رہا۔ “ مگر یہ روایت صحیح نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور عقل کے بالکل برخلاف ہے قرآن شریف میں صاف ارشاد ہے ان عبادی لیس لک علیھم سلطن یعنی اللہ کے نیک بندوں پر شیطان کا اثر نہ ہوگا جب عام نیکوں پر اثر نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے تو نبی خصوصاً سید الانبیاء علیہم السلام پر کیوں اثر ہونے لگا تھا۔ صحیح حدیث شریف میں آیا ہے لکن اللہ اعاننی علیہ فاسلم یعنی نبی اللہ نے شیطان پر مجھے فتح دی ہے میں اس کے شر سے محفوظ رہتا ہوں‘ عقل بھی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ جس شخص کو اللہ اتنے بڑے منصب نبوت پر قائم کرے اس کو ایسے دشمن دین (شیطان) کے بس میں ایسا کیونکر چھوڑ دے کہ وہ اس پر ایسا قبضہ پاوے کہ اس کی مرضی کے خلاف بھی اس سے کوئی حرکت کرائے بلکہ تعلیم کرائے تو پھر اس کی باقی تعلیم کا اعتبار کیا رہے گا۔ مفصل بحث اس حدیث اور اس کی تکذیب کے متعلق تفسیر کبیر وغیرہ میں مذکور ہے۔ میرے خیال میں اس قصہ کی مثال میں حدیبیہ کا قصہ پیش ہوسکتا ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ آنحضرت کو خواب آیا کہ ہم کعبہ شریف میں طواف کرنے کو داخل ہوئے ہیں اس خواب کا آنا تھا کہ حضور (علیہ السلام) مع مسلمانوں کے مکہ شریف کو روانہ ہوگئے جب قریب مکہ معظمہ کے پہنچے تو کفار مکہ نے داخل ہونے سے روک دیا اس پر صحابہ کرام اور خود حضور (علیہ السلام) کو بھی سخت ملال ہوا۔ بعض صحابہ نے طیش میں آن کر سختی سے اعتراضات بھی کئے مگر منشاء الٰہی ایسا ہی تھا کہ اس سال خواب کا ظہور نہ ہوگا۔ آخر کار صلح ہوئی اور وعدہ ہوا کہ آئندہ سال آئو اور تین روز بغیر ہتھیاروں کے مکہ میں داخل ہو کر اپنا کام کر جائو۔ جو تاریخ علم الٰہی میں مقرر تھی وہ صحیح رہی اور جو خواہش نبوی یعنی تمنی تھی وہ پوری نہ ہوئی۔ یہ قصہ اس آیت کی تفسیر میں ایک مثال ہے اسی قسم کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں منشا نبوی کا منشا الٰہی کے ماتحت ہونا ثابت ہوتا ہے مگر جو لوگ عجائب پرست ہیں ان کی ایسی بے ثبوت باتوں سے دلچسپی ہے جو محققین کے ہاں پسند نہیں۔ والعلم عنداللہ (منہ) وہ اس سے الٹا نتیجہ نکالتے ہیں حالانکہ نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ سمجھتے جس طرح اور انسان اور مخلوق اللہ ذوالجلال والاکرام کے زیر فرمان ہیں حضرات انبیاء بھی اسی طرح فرمانبردار ہیں یہ پیغمبر ہیں تو وہ اللہ ہے یہ مقرب بندے ہیں تو وہ مالک برتر ہے کچھ شک نہیں کہ ظالم اسی لئے تو پرلے درجہ کی گمراہی میں ہیں ان کو اس بات کی تمیز نہیں کہ اللہ کون ہے اور رسول کون وہ جانتے ہیں اللہ بھی رسول کی مرضی کا تابع ہوتا ہے اور جو علم والے ہیں وہ جان جاتے ہیں کہ یہ طریق اصل وحی بالکل سچ ہے تیرے پروردگار کی طرف سے کیونکہ رسول ہو یا نبی ولی ہو یا غوث اللہ پر کسی کو جبر نہیں کہ جو کچھ وہ کہیں اللہ بھی وہی کرے بلکہ یہ تو کمال صفائی اور رسولوں کی سچائی کی دلیل ہے کہ وہ اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کردیتے ہیں کسی قسم کا تکلف یا تصنع نہیں کرتے پس وہ علم والے یہ صفائی ان کی دیکھ کر اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ان کے دل اللہ کا مالکانہ تصرف دیکھ کر اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ بھی ایسے ایمانداروں کو سیدھی راہ کی طرف راہ نمائی فرماتا ہے یعنی توفیق خیر بخشتا ہے باقی رہے کافر سو وہ تو ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر موت کی گھڑی ناگہاں آپہنچے یا قیامت کے منحوس دن کا عذاب ان پر آجائے جو ان کے حق میں واقعی منحوس ہوگا گو باقی لوگوں کے لئے باعث فلاح و آسائش ہوگا اس روز اختیار سارا اللہ ہی کو ہوگا ظاہری اور مجازی حکومت بھی کسی مخلوق کو نہ ہوگی اللہ ان میں آپ فیصلہ کرے گا پس جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں گے وہ نعمتوں کے باغات میں ہوں گے اور جو لوگ منکر ہیں اور ہمارے (یعنی اللہ کے) احکام اور آیات کی تکذیب کرتے ہیں انہی کو ذلت کا عذاب پہنچے گا پس سوچ لو کہ کونسی جانب بہتر ہے اور ایمانداروں میں بالخصوص جو لوگ اللہ کی راہ میں کفار سے تنگ آکر اپنے وطن چھوڑ آئے پھر وہ اسی پر نازاں نہیں رہے۔ کہ ہم نے ہجرت کی ہے بس یہی کام ہمارا کافی ہے بلکہ اللہ کی راہ میں لڑکر مارے بھی گئے یا خود ہی اپنی طبعی موت سے مرے تو ضرور اللہ ان کو جنت میں عمدہ رزق دے گا اور اللہ ہی سب سے اچھا رزق دینے والا ہے بے شک ان کو ایک ایسی جگہ میں داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کو جانتا اور بڑے حوصلہ والا ہے یہی تو وجہ ہے کہ لوگوں کی ایسی نامعقول حرکات پر بھی عذاب نہیں بھیجتا بات یہ ہے جو ذکر ہوئی کہ اللہ نیک بندوں کو رزق جنت دے گا اور جو دشمن کو اسی قدر ستائے جتنا کہ اس کو ستا یا گیا ہے یعنی اس سے زیادہ ظلم نہ کرے بلکہ اسی ظلم کی مدافعت کرے یا اسی جتنا بدلہ لے مگر ظالم کی طرف سے پھر اس پر بغاوت کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا خواہ اس کی عزت افزائی سے کرے یا دشمن کی روسیاہی سے غرض جس طرح متصور ہو اس کی مدد کرے گا کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑاہی معاف کرنے والا ہے بخشنے والا ہے پس تم کو بھی چاہئے کہ آپس میں معافی سے کام لیا کرو یہ مظلوموں کی حمائت اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں یعنی کل دنیا کا انتظام اسی کے قبضہ قدرت میں ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے مظلوم بندوں کی خبر گیری نہ کرے اور یہ کہ اللہ سب کی سننے والا دیکھنے والا ہے یہ اس درجہ قوت بصارت اس لئے ہے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے وہی حقیقی معبود ہے اور اس کے سوا جن چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں یا استمداد کرتے ہیں وہ بالکل باطل اور بے بنیاد غیر مستقل بالوجود ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا عالیشان اور سب سے بڑا ہے اس کی بڑائی کے نبوت پر تمام کائنات گواہ ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اوپر کی طرف سے پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ زمین سرسبز ہوجاتی ہے ایسی کہ وہی زمین ہے کہ اس پر نظر کرنے سے جی گھبراتا ہے آخر وہی ہے کہ آنکھوں کو تازگی بخشتی ہے یہ تفاوت کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان سب کے حال سے خبردار ہے اس کی مہربانی کا یہ مقتضا ہے کہ مخلوق کی پرورش کرتا ہے اسکی حکومت کا کیا حساب ہے جو کچھ آسمانوں یعنی اوپر کی جانب میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ سب اسی ذات ستودہ صفات کا ہے جس کا نام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں یہ بڑی صفت ہے کہ وہ بذات خود مخلوق سے بے پرواہ یعنی بے حاجت اور ستودہ صفات ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ زمین پر ہے اللہ نے تمہارے لئے بلا اجرت کس طرح کام میں لگا رکھا ہے اور بڑے بڑے جہاز بھی تمہارے فائدے کیلئے سمندر میں اس اللہ کے حکم اور اذن کیساتھ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چلتے ہیں بھلا اگر اللہ لکڑی اور لوہا نہ بناتا تو کس کی مجال تھی کہ یہ چیزیں بنا سکتا اور سنو ! وہی اللہ تعالیٰ آسمان کو زمین پر بغیر حکم گرنے سے روکے ہوئے ہے ایسے قابو ہیں کیا مجال کہ اس کے حکم بغیر اپنی جگہ سے ہل بھی جائیں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حال پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے وہی اللہ ہے جس نے تم کو جاندار بنایا پھر تم کو جس کی موت آچکی ہے مار دیتا ہے پھر تم کو زندہ کرے گا غرض ہر وقت وہ تم پر کامل اختیار رکھتا ہے تاہم لوگ اس کے شکر گذار نہیں ہوتے بلکہ الٹے نافرمانی کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ایک ناشکری ان کی کفران نعمت ہے دوسری ناشکری یہ بھی ہے کہ خود تو کچھ کرتے کراتے نہیں الٹا کام کرنے والوں پر منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کرتے ہیں چنانچہ یہ تمہارے مخالف تمہاری ہر نقل و حرکت پر اعتراض کرتے ہیں کبھی نماز پر ہے تو کبھی زکوٰۃ پر کبھی حج پر ہے تو کبھی قربانی پر حالانکہ ہر ایک قوم کے لئے ہم نے قربانی کے طریق مقرر کر دئیے ہیں جس پر وہ اپنے اپنے وقتوں میں کاربند بھی رہے پس اب ان لوگوں کو چاہئے کہ دین کے بارے میں تجھ سے نزاع نہ کریں اور تو بھی ان کی پرواہ نہ کیا کر کہنے والے کہتے ہیں کرنے والے کرتے ہیں پس تو اللہ کی طرف لگا رہ اور مستعد ہو کر اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ بے شک تو سیدھی ہدایت پر ہے اگر تجھ سے بے ہودہ جھگڑا کریں تو تو کہہ دیا کر اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے جس نیت اور جس اراد سے تم جھگڑتے اور مجادلات کرتے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے وہی قیامت کے روز تمہارے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا گو دنیا میں بھی بعض اوقات وہ مجرموں کو سزا دے کر فیصلہ کردیتا ہے مگر دنیا کی سزا کو بہت سے لوگ ایک معمولی جانتے ہیں اور گردش زمانہ تصور کرتے ہیں لیکن قیامت کے روز ایسا نہ ہوگا اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ اللہ کو ہمارے پوشیدہ امور سے کیا خبر تو یہ تمہاری جہالت ہے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی چھپی چیزوں کو بھی جانتا ہے کچھ شک نہیں یہ سب کچھ کتاب الٰہی یعنی اس کے کامل علم میں موجود ہے بے شک یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے مگر ان لوگوں کے حال پر کیسا افسوس ہے کہ ایسے ملک الملک کو تو چھوڑتے ہیں اور اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی بابت نہ تو اللہ نے کوئی دلیل اتاری ہے نہ خود ان کو ان چیزوں کا یقینی علم ہے مگر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کئے جاتے ہیں اسی لئے تو اپنی عاقبت تباہ کرتے ہیں اور اپنے لئے کانٹے بو رہے ہیں کیونکہ ایسے ظالموں کے لئے کوئی حمائتی اور مددگار نہ ہوگا اس سے بڑھ کر کیا کہ نہ تو خود عمل کرتے ہیں اور نہ عمل کرنے والوں کو چین لینے دیتے ہیں اور جب ان کو ہمارے کھلے کھلے احکام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں جن میں توحید کا ثبوت اور شرک کا رد ہوتا ہے تو تم کافروں اور منکروں کے چہروں میں ناراضگی سی معلوم کرتے ہو ایسے بگڑجاتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے احکام متعلقہ توحید و رسالت ان کو پڑھ کر سناتے ہیں ان پر ٹوٹ پڑیں اس قدر ان کو جوش آجاتا ہے کہ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں حالانکہ بے جا جوش ہوتا ہے بھلا جوش دکھانے سے کیا حقانیت ثابت ہوسکتی ہے۔ تو اے نبی ان سے کہہ اگر تم ان مسلمان قرآن پڑھنے والوں پر بسبب ان کی کسی برائی کے حملہ آور ہوتے ہو تو کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز بتائوں جو سچ پوچھو تو سب بری چیزوں سے بری ہے وہ آگ ہے جس کا اللہ نے کافروں اور توحید کے منکروں سے وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ بری جگہ ہے ایسی بری جگہ ہے کہ گویا سب برائیوں کا مجموعہ ہے اس میں داخل بھی ایسے ہی لوگ ہوں گے جن میں سب برائیوں کا مجموعہ یعنی شرک کے مرتکب ہوں گے الحج
40 الحج
41 الحج
42 الحج
43 الحج
44 الحج
45 الحج
46 الحج
47 الحج
48 الحج
49 الحج
50 الحج
51 الحج
52 الحج
53 الحج
54 الحج
55 الحج
56 الحج
57 الحج
58 الحج
59 الحج
60 الحج
61 الحج
62 الحج
63 الحج
64 الحج
65 الحج
66 الحج
67 الحج
68 الحج
69 الحج
70 الحج
71 الحج
72 الحج
73 (73۔78) پس لوگو ! شرک سے بچو۔ شرک ہی سے روکنے اور اس پر متنبہ کرنے کو ایک مثال بتائی جاتی ہے پس تم اسے کان لگا کر سنو ! وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن لوگوں سے تم دعائیں کرتے ہو کسے باشد نبی ہو یا ولی مسیح ہو یا عزیر‘ پیر ہو یا فقیر‘ وہ لوگ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ وہ سب کے سب اس کے لئے جمع ہوجائیں بلکہ اور سنو ! اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے مثلا وہ کچھ کھا رہے ہو اور مکھی اس میں سے کچھ منہ میں لے کر اڑ جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے تو نتیجہ کیا ہوا یہی کہ ان کے طالب یعنی ان سے دعائیں مانگنے والے اور یہ مطلوب یعنی معبود جن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں طالب عقل کے بودے ہیں تو مطلوب قدرت میں ضعیف سچ جانو تو ان مشرکوں نے اللہ کی قدر جیسی چاہئے تھی نہیں کی کیونکہ اپنی حاجات پیغمبروں سے طلب کرنے لگ گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زبردست سب پر غالب ہے باوجود غلبہ قدرت کے وہ بندوں کے حال پر بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کیلئے فرشتوں سے رسول منتخب کرتا ہے جو بنی آدم کے انبیاء کی طرف آتے ہیں اور بنی آدم کے لوگوں میں سے رسول کر کے انسانوں کی ہدایت کیلئے مامور فرماتا ہے تاکہ لوگ ہدایت پاویں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی سننے والا دیکھنے والا ہے یہ تو اس کی قدرت سمع اور بصر کا بیان ہے علم اس کا اتنا وسیع ہے کہ جو چیزیں ان لوگوں کے آگے کی اور پیچھے کی یعنی جو واقعات ان کے وجود میں آنے سے پہلے کے ہیں یا ان سے پیچھے کے وہ سب کو جانتا ہے اور حکومت کی یہ کیفیت ہے کہ سب امور اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں گویا ان سب گاڑیوں کا انجن وہی ہے دنیا کی تمام کائنات کیا جوہر کیا عرض سب کے سب اسی مبدء فیض سے وابستہ ہیں بالکل سچ ہے اوچو جان است وجہاں چوں کا لبد کالبد ازدے پذیر وآلبد اسی لئے وہ ماننے والے بندوں کو فرماتا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ کے آگے رکوع سجود کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیک کاموں میں لگے رہو تاکہ تمہارا بھلا ہو اور تم مراد کو پہونچو اور اللہ کی راہ اور اس کے دین میں ایسی کوشش کرو جو اس کا حق ہے جان سے مال سے اور یہ سمجھو کہ ناں اگر تو مید ہی نانت دہند جان اگر توجید ہی جانت دہند دیکھو اسی نے تم کو برگزیدہ کیا کہ عرب جیسے وحشی ملک کے باشندے ہو کر تم بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک بنو گے مگر بپا بندی دین اس نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا اور دین کے احکام میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی تکلیف ہو تو حکم ملتوی کردیا جاتا ہے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھ لو بیٹھ کر نہ پڑھ سکو تو لیٹ کر پڑھ لو۔ بیماری اور مسافری میں تکلیف ہو تو روزہ ملتوی ہے پس تم اپنے باپ یعنی عرب کے مورث اعلیٰ ابراہیم کا دین اختیار کرو جو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ تھا اسی اللہ نے اس کتاب سے پہلے اور اس کتاب قرآن میں تمہارا نام مسلمان رکھا ہے پس تم مسلمان یعنی اللہ کے فرماں بردار بنے رہو تاکہ تم عزت پائو اور جو وعدے فتح و نصرت کے تم سے کئے گئے ان کا ظہور ہو اور رسول تم پر اور تم عام لوگوں پر حکمران ہوجائو اور قیامت کے روز کافروں کے انکار پر انبیاء کی تبلیغ کی شہادت دے سکو اور تمہاری شہادت معتبر مانی جائے پس تم نماز قائم رکھو اور مال کی زکوٰۃ دیتے رہو اور بڑی بات یہ ہے کہ تم اللہ ہی سے چنگل مارو اور اسی کا سہارا ڈھونڈو اور اسی کے ہو رہو لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو وہی تمہارا مولا ہے وہی سب سے اچھا مولا ہے اور سب سے اچھا مددگار یا مولا فکر حساب ہمارے گناہ بے حد کا الٰہی تجھ کو غفور و رحیم کہتے ہیں عدو کہیں نہ کہیں دیکھ کر ہمیں محتاج یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں الحج
74 الحج
75 الحج
76 الحج
77 الحج
78 الحج
0 المؤمنون
1 (1۔22) نجات کے طالبو ! سنو ! ادھر ادھر کے فضول جھگڑوں کو چھوڑ کر ہمرے فرمودہ پر عمل کرو کچھ شک نہیں کہ آج کل نجات کے مسئلہ میں سخت اختلاف ہو رہا ہے دنیا میں ہر ایک مذہب خواہ کیسے ہی بے ہودہ خیالات کا حامل ہو یہی دعویٰ کرتا ہے کہ میرے ہی اندر نجات ہے مگر اللہ کے ہاں نجات یاب وہ ایماندار ہیں جو اللہ کو واحد لاشریک مان کر نماز پڑھتے ہیں اس طرح کہ اپنی نمازوں میں عاجزی کرتے ہیں ایسے کہ گویا اللہ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور وہ لوگ نجات کے حق دار ہیں جو بے مطلب اور بے فائدہ باتوں سے جو نہ دین میں نہ دنیا میں ان کو مفید ہوں روگردان رہتے ہیں اور اپنے عزیز وقت کو کسی اچھے مفید کام میں صرف کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی فرجوں شرمگاہوں کی زنا لواطت وغیرہ سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی عورتوں یا باندیوں کے سوا غرض جن سے ملاپ کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے ان سے حاجت بشری پوری کرنے کے علاوہ کسی سے نہیں ملتے ان پر اللہ کی طرف سے کوئی ملامت نہیں ہاں جو لوگ اس کے سوا اور طریق اختیار کرتے ہیں یعنی بیگانی عورتوں سے زنا یا لڑکوں سے لواطت کرتے ہیں وہی حدود الٰہی سے بڑھنے والے ہیں اور وہ لوگ نجات یاب ہیں جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا پاس کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اس طرح کہ ٹھیک وقت پر ان کو ادا کرنے کا خیال لگارہتا ہے ان صفات مذکورہ کو الگ الگ شمار کرنے سے یہ نہ سمجھو کہ ایک ایک صفت والے بھی خواہ وہ باقی باتوں میں غافل ہوں نجات کے حق دار ہیں نہیں بلکہ مجموعی طور پر سب صفات کا ہونا ضروری ہے پس یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے وارث یعنی مجازی مالک ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے تعجب ہے کہ یہ نا بکار انسان ہماری قدرت اور جلالت سے انکار کرتا ہے حالانکہ ہم نے انسان کو یعنی اس کے باپ آدم کو صاف مٹی سے بنایا پھر ہم نے اس کو ایک مضبوط مکان میں نطفہ بنا کر رکھا یعنی انسان کا سلسلہ سلسلہ رحم کے اندر نطفہ سے چلایا نطفہ ٹھیرانے سے کچھ دنوں بعد پھر اس نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے کو کچی سی گوشت کی بوٹی بنایا پھر اس کچی گوشت کی بوٹی کو ہڈیوں کی شکل میں لائے پھر ہم نے ان ہڈیوں پر چمڑا پہنایا اس کے بعد پھر اس کو ایک اور قسم کی پیدائش میں لائے یعنی مرد و عورت کی تمیز اس میں کردی اس قدرت اور حکمت کو دیکھ کر بڑے بڑے دانا اور فلاسفر بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ اللہ کی ذات بڑی برکت والی ہے جو سب پیدا کرنے والوں اور صنّاعوں سے اچھا پیدا کرنیوالا ہے کون ایسا خالق ہے جو اپنی مصنوعات میں تاثیر پیدا کرسکے بڑا کمال کسی صناع کا یہ ہوگا کہ قدرتی اشیاء کو یکجا کر کے ایک چیز بنالے جس میں بعد ترکیب بھی وہی تاثیر ہوتی ہے جو ان قدرتی اشیاء میں قدرتی طور پر ہوتی ہے اتنے مراتب کے بعد پھر تم لوگوں کو مرنا ہے اس کے بعد قیامت کے روز تم کو اٹھنا ہوگا یہ ہے تمہارے حالات کا مجمل بیان تم یہ نہ جانو کہ بس تم ہی ایک ہماری مخلوق ہو نہیں بلکہ تم تو ہماری مخلوق میں چھوٹی سی ایک نوع ہو دیکھو ہم (اللہ) نے تمہارے سروں پر سات آسمان بنائے جن میں بے شمار اور ان گنت حکمتیں اور اسرار ہیں جن کا مجمل بیان یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے ان سب کیلئے حکم احکام آسمان ہی سے آتے ہیں ان سب کا تعلق عالم بالا سے ایسا ہے جیسا کہ ملک کو صدر مقام سے ہوتا ہے اسی طرح تمام دنیا کا انتظام ہے اور ہم اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہیں اسی لئے تو ہم نے ایسے ایسے قانون بنا رکھے ہیں جن کو کسی کی مجال نہیں کہ توڑ سکے وقت پر ہر ایک چیز پیدا ہوتی ہے زمین سے پیداوار کا وقت آتا ہے تو اس کے مناسب آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم اوپر سے بادلوں کے ذریعے اندازہ کے ساتھ پانی اتارتے ہیں پھر اس کو زمین میں ٹھہراتے ہیں یہاں تک کہ زمین تروتازہ ہو کر سبزی کے قابل ہوجاتی ہے مگر لوگ ایسے بے عقل ہیں کہ بارش وغیرہ نعمتوں کے ملنے پر وہ ہم سے بالکل مستغنی ہوجاتے ہیں گویا کسی چیز کی انہیں ہمارے تک حاجت نہیں حالانکہ ہم ہر وقت اور ہر آن ان کی تباہی اور بربادی پر قادر ہیں بلکہ اس پانی کو (جس کے سبب وہ ایسے غراں ہورہے ہیں) لے جانے اور قبل از فائدہ دینے کے خشک کردینے پر بھی قادر ہیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنی مخلوق کے لئے گذارہ کے سامان پیدا کرتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغ اگاتے ہیں ان میں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے ہو اور سنو ! ہم ہی نے تمہارے لئے زیتون کا درخت پیدا کیا ہے جو کوہ سینا سے نکلتا ہے کیا ہی مزیدار ہوتا ہے تم عرب کے لوگوں کے لئے تو وہ جامع صفات کامل ہے یوں سمجھے کہ کمانے والوں کے لیے وہ گھی اور سالن لے کر اگتا ہے گھی کی جگہ بھی اس کو استعمال کرتے ہیں اور روٹی کے ساتھ سالن کی طرح بھی اس کو کھاتے ہیں اور سنو ! چارپائوں میں تمہارے لئے عبرت اور نصیحت ہے ان کے پیٹوں میں سے ہم تم کو دودھ پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں کئی ایک منافع ہیں اور تم انہیں میں سے کھاتے بھی ہو اور ان چارپائوں پر اور بیڑیوں پر سوار کئے جاتے ہو یہ اللہ کی مہربانی تمہارے حال پر کیا کم ہے پس جس مالک نے یہ نعمتیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں بہت ضروری ہے کہ تم اسی کے ہو رہو اور اسی سے اڑے وقتوں میں استمداد کیا کرو اسی کی عبادت کرو یہی حکم ہم نے تم کو دیا ہے المؤمنون
2 المؤمنون
3 المؤمنون
4 المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 المؤمنون
8 المؤمنون
9 المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 المؤمنون
13 المؤمنون
14 المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 المؤمنون
18 المؤمنون
19 المؤمنون
20 المؤمنون
21 المؤمنون
22 المؤمنون
23 (23۔31) اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا اسی حکم کی تبلیغ کرنے کیلئے ہم نے حضڑت نوح سلام اللہ علیہ کو اس کی قوم کی طرف نبی کر کے بھیجا تو اس نے بھی یہی کہا کہ بھائیو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم اس سے ڈرتے نہیں پس یہ سن کر اس کی قوم کے سرداروں نے جو اس کی تعلیم سے منکر ہوچکے تھے جواب میں کہا کہ لوگو ! یہ نوح ! تو تمہاری ہی طرح ایک آدمی ہے پھر یہ نبی اور رسول کیسے بنا مزیت اس میں کیا ہے؟ کچھ نہیں ہاں یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تم پر اپنی بزرگی ثابت کرے اور برتر بنے بھلا ہم کیا ایسے ہی عقل سے خالی ہیں کہ ایسے سیدھے سادھے خالی خولی آدمی کو رسول مان لیں اگر اللہ چاہتا اور اسے منظور ہوتا کہ لوگ اس کے توحید کے قائل بنیں تو وہ آسمان سے فرشتے اتارتا نہ کہ ہمارے جیسا ایک آدمی بھیجتا اسی لئے تو ہم نے اپنے پہلے بزرگوں میں یہ بات نہیں سنی کہ کسی نے بھی یہ کہا ہو کہ آدم زاد اللہ کے رسول ہو کر آیا کرتے ہیں یہ تو محض ایک مجنون آدمی ہے جس کے دماغ کو کچھ صدمہ ضرور پہنچا ہے عجب نہیں کہ ہمارے معبودوں کو برا کہنے کی رجعت اس پر پڑی ہو پس تم اس کے متعلق شورا شوری سے گھبرائو نہیں بلکہ ایک وقت تک صبر کرو جب تک یہ خود ہی ہلاک ہوجائے مخالفوں کی یہ باتیں کئی ایک دفعہ سن سن کر حضرت نوح ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوا۔ تو آخر کار اس نے کہا اے میرے پروردگار جس بات میں انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو اس پر میری مدد کر پس نوح کے دعا کرنے کی دیر تھی کہ ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہمارے سامنے اور ہمارے الہام سے ایک بیڑی بنا پھر جب ہمارا حکم ان کی ہلاکت کے متعلق پہنچے اور زمین پانی سے پھٹ کر جوش میں آئے اس کی تحقیق سورۃ ہود میں گذر چکی ہے۔ حضرت علی (رض) نے یہی معنے کئے ہیں۔ قاموس میں تنور کے معنے وجہ الارض بھی ہیں۔ ١٢ منہ تو تو ہر ایک جاندار کی قسم میں سے جو تیرے کارآمد ہوسکیں وہ دو صنف (نرمادہ) اور اپنے متعلقین کو اس بیڑی پر چڑھا لینا لیکن ان میں سے جس پر بوجہ اس کی بد عملی اور بے ایمانی کے غضب الٰہی کا حکم لگ چکاہو اسے نہ چڑہائیو اور ظالموں کے حق میں مجھے مخاطب نہ کیجئیو کہ اللہ ! فلاں کو بخش دے خبردار ! یہ سن رکھیو کہ انہوں نے ضرور بالضرور غرق ہونا ہے ایسا نہ کہ تیری دعا یوں ہی بیکار جائے یہ مناسب نہیں پھر جب تو اور تیرے ساتھ والے بیڑی پر سوار ہوجائیں تو دعا کرتے ہوئے کہئیو کہ سب تعریفیں اللہ ہی کو ہیں جس نے ہم کو ظالموں کی قوم سے نجات دی اور محض اپنی رحمت سے ہم کو ظالموں کی قوم سے نجات دی اور محض اپنی رحمت سے ہم کو اس عام عذاب سے رہائی بخشی اور تو یہ بھی کہئیو اے میرے پروردگار ! مجھ کو کسی بابرکت جگہ پر اتاریو کیونکہ تو ہمارا متولی اور سب سے بہتر اتارنیوالا ہے چنانچہ ہم (اللہ) نے ان کو نہایت عمدہ بابرکت جگہ پر اتارا جہاں پر ان کی تمام محتاج چیزیں ان کو مل سکتی تھیں بے شک اس بیان میں قدرت الٰہی کے کئی ایک نشان ہیں اور ہم ان لوگوں کو جانچنے والے تھے کہ ان کا نیک و بد ظاہر کردیں جیسے جیسے عمل کریں ویسا ان کو بدلہ دیں چنانچہ اسی غرض سے ان کے بعد ہم نے اور لوگ پیدا کئے المؤمنون
24 المؤمنون
25 المؤمنون
26 المؤمنون
27 المؤمنون
28 المؤمنون
29 المؤمنون
30 المؤمنون
31 المؤمنون
32 (32۔67) پھر انہی میں سے رسول بنا کر ان میں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ بھائیو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود برحق نہیں ہے یہ سن کر ان لوگوں نے نہ مانا خصوصا اس رسول کی قوم میں سے سرداروں نے جو بڑے کافرتھے اور آخرت کی ملاقات یعنی دوسری زندگی سے منکر تھے اور ہم نے ان کو دنیا کی زندگی میں آسودگی دی تھی انہوں نے کہا کہ یہ رسول تو بس محض تمہاری طرح کا آدمی ہے جو تم کھاتے ہو یہ بھی وہی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو یہ بھی وہی پیتا ہے پس سن رکھو اگر تم اپنے جیسے آدمی کے پیرو ہوئے اور بلا وجہ اسی کو اپنا پیشوا اور سردار بنائو گے تو یقینا تم نقصان اٹھائو گے کیا یہ تم کو ڈراتا ہے کہ تم جب مر جائو گے تو مٹی اور ہڈیاں ہو کر پھر زندہ کر کے نکالے جائو گے ہائے افسوس ! کیسی دور از عقل بات ہے جس سے تم ڈرائے جاتے ہو ارے بھائیو ! یہی دنیا تو ہماری زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی عذاب نہیں ہے بس آئے اور رہے اور چلے گئے تم دیکھتے نہیں اج کل تمام یورپ کا یہی خیال ہے کیا وہ احمق ہیں نہیں بڑے دانا یان فرنگ ہیں اسی لئے تو انہوں نے اس قسم کے مذھبی جھگڑون کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے یہ شخص جو تم کو ڈراتا اور دھمکاتا ہے یہ تو ایک ایسا آدمی ہے جس نے اللہ پر محض جھوٹ باندھ رکھا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں مجھے وحی آتی ہے الہام ہوتا ہے حالانکہ نہ کوئی الہام ہے نہ وحی ہے محض گپ اور بے بنیاد باتیں کرتا ہے اسی لئے ہم اس کو ماننے کے نہیں کفار کی یہ نامعقول باتیں سن کر اس رسول نے کہا اے میرے پروردگار ! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر اللہ نے جواب میں کہا ذرہ صبر کرو تھوڑی دیر میں یہ لوگ اپنے کئے پر نادم ہوجائیں گے ایسے عذاب میں پھینکے کہ یاد کریں گے پھر ان پر واقعی عذاب آیا نہ کہ وہمی اور فرضی پس ہم نے ان کو خس و خاشاک کی طرح کردیا یعنی ہم نے ان کو ایسا بے کار کردیا کہ کسی شمار میں نہ رہے پس ظالموں کی قوم پر لعنت ہو جو اللہ کے حکموں کو نہیں سنتے سنتے ہیں تو عمل نہیں کرتے پھر ہم (اللہ) نے ان کے بعد اور لوگ پیدا کئے جن کا مرنا جینا سب ہمارے (یعنی اللہ کے) اختیار میں تھا کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے یعنی نہ تو یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یا قوم اپنی اجل مقررہ زندگی یا ترقی تنزل سے کچھ وقت آگے بڑھ سکیں نہ پیچھے رہ سکتے ہیں یہ عام قانون الٰہی ہے یہ بات اور اس جیسی اور حقانی تعلیم پھیلانے کو پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے جو لوگوں کو سچی تعلیم دیتے تھے مگر لوگوں کا یہی حال رہا کہ جب کبھی کسی قوم کے پاس کوئی رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتے اور نہ مانتے یہ ان کی جہالت تھی اس لئے ہم نے ایک کے پیچھے ایک کو ملایا اور سب کو تباہ کردیا اور ہم نے ان کو ایسا نیست و نابود کیا کہ کہیں تو دنیا میں ان کا نام بلند تھا سکہ جاری تھا مگر آخر یہ ہوا کہ ہم نے ان کو صرف افسانہ بنا دیا یعنی لوگ فرصت کے وقت دل بہلانے کو ان کی حکایات سنا کرتے کہ فلاں ملک میں ایک بادشاہ تھا اس نے کہا کہ میں اللہ ہوں اس کے سمجھانے کو ایک رسول آیا جس کا نام ابراہیم تھا مگر اس نے اس رسول سے مباحثہ کیا اور اس کا کہا نہ مانا آخر اللہ نے اس کو مچھر سے ہلاک کرایا تو بسا اوقات لوگ ان کی حکایات سن کر بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے ایسی قوم کو اللہ کی رحمت سے دوری ہو پھر بھی ہم مخلوق کو نہیں بھولے اور ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتے رہے چنانچہ موسیٰ اور ہارون کو ہم نے اپنے احکام اور کھلی دلیل معجزہ دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی اور تمام قوم کی طرف بھیجا تو وہ فرعونی شیخی میں آئے اور متکبر ہوگئے کیونکہ وہ پہلے ہی سے بڑے بدکردار اور سرکش قوم تھے بولے کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں موسیٰ اور ہارون پر ایمان لے آویں اور ان کی تابعدار کریں حالانکہ ان کی قوم بنی اسرائیل ہماری غلام خدمت گار ہے پس ایسے بے جا غرور اور تکبر میں انہوں نے ان دونوں موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہوگئے اور ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی تھی تاکہ وہ لوگ بنی اسرائیل وغیرہ اللہ کی راہ کی ہدایت پاویں اسی طرح سب نبیوں کے ذریعہ سے لوگوں کو پیغام حق پہنچاتے رہے اور حضڑت عیسیٰ بن مریم اور اس کی والدہ ماجدہ صدیقہ مریم علیہما السلام کو بھی ہم نے دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کی نشانی بنایا اور ہم نے ان کو ایک اونچی جگہ پر جو بڑی مضبوط اور چشمے دار پہاڑی تھی جگہ دی تھی اس لئے کہ وہ دونوں ماں بیٹا ہمارے فرمانبردار تھے اور ہم ان سے خوش تھے ایس اہی سب رسول ہمارے فرمانبردا ہوتے رہے ہیں اسی لئے تو ہم ان کو حکم دیا کرتے تھے کے اے رسولو ! پاکیزہ حلال طیب غذا کھایا کرو اور نیک عمل کیا کرو بے شک میں (اللہ) تمہارے کاموں پر مطلع ہوں جب رسولوں کو یہ حکم ہے تو ان کی امتوں کو بھی یہی حکم ہے کیونکہ امت رسول کی تابع فرمان ہوتی ہے اور یہ نبیوں کی جماعت تمہاری ہی پارٹی کے ہیں گو مختلف وقتوں میں آئے مگر دراصل ایک ہی پارٹی ہے تم سب ایک ہی مطلب اور مشن (توحید الٰہی) کو لے کر دنیا میں پھیلانے کلئے آئے ہو اس لیے تم ایک ہی گروہ ہو اور میں (اللہ) تمہارا پروردگار ہوں پس تم مجھ سے ڈرتے رہو اور کسی کا خوف دل میں نہ لائو لوگوں نے رسولوں کی تعلیم کی کوئی قدر نہ کی بعض لوگ تو ان سے صریح مخالف ہوگئے جو ان کی تعلیم کو مان بھی چکے تھے انہوں نے بھی ایک بڑے ضروری حکم (اتفاق) کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں پھوٹ ڈال دی اور ٹولی ٹولی اور گروہ بن گئے اسیر بھی جو کچھ کسی فریق کے پاس تھا اور ہے اسی کے ساتھ خوش و خرم ہیں اس کا ان کو ذرہ بھی خیال نہیں کہ ہم ایک ہی نبی کی امت ہیں اور ایک ہی کتاب کے پیرو پھر اس قدر تشدد کیوں ہے کہ ایک دوسرے کو دین سے خارج کرتا ہے اتنا نہیں سوچتے کہ ہمارے نبی نے ہم کو یہی سکھایا ہے؟ افسوس ہے ان کے حال پر پس تو ایک وقت تک ان کی غفلت میں ان کو چھوڑ دے اپنے کئے کی سزا خود ہی پائیں گے کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد سے مدد دے رہے ہیں (جو قدرتی طریق پر بحکم کلا نمد ھولاء وھو لاء اس کو پہنچتی رہتی ہے) ان کو فائدہ رسانی میں ہم جلدی کرتے ہیں؟ نہیں نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ان کو معلوم نہیں یا دانستہ تجاہل کرتے ہیں ان کی تو کوئی بات بھی ٹھکانہ کی نہیں نہ ہوسکتی ہے کیونکہ کسی اصول پر ان کی کوئی بات نہیں ہاں جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں ہر ایک کام میں اس کی رضا اور عدم رضا کی پرواہ کرتے ہیں مجال نہیں کسی وقت کسی کام میں بھی وہ اللہ سے بے خوف ہوسکیں ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پوراجاگزین ہوتا ہے اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیات متلوہ اور غیر متلوہ پر ایمان رکھتے ہیں آیات متلوہ تو قرآن کے الفاظ کو کہتے ہیں اور آیات غیر متلوہ اللہ کی قدرت کے نشان ہیں جن کی بابت رب العالمین کا ارشاد ہے فکاین من آیۃ فی السموات والارض یمرون علیھا وھم عنہا معرضون یعنی کئی ایک آیات (نشان قدرت) رب العالمین کے آسمان اور زمین پر ہیں کہ یہ لوگ آنکھیں بند کر کے ان سے گزر جاتے ہیں پس ایمان جب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ دونوں قسم کی آیتوں پر یقین ہو آیات قرآنیہ کو تو زبان سے پڑھے آیات قدرت پر دل سے غور کرے انہی آیات کی طرف ایک اہل دل نے اشارہ کر کے کہا ہے برگ ورختان سبز در نظر ہوشیا ہر درۃ دختریست معرفت کردگار پس جو لوگ اس طرح سے ان آیات کو دیکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے خواہ وہ چیز اعلیٰ درجہ کی ہو یا ادنیٰ کی ہو اور جو لوگ حسب توفیق بن پڑتا فی سبیل اللہ دیتے ہیں اور دل میں ڈرتے ہیں کہ پروردگار کے پاس جانا ہے یعنی وہ اس نت سے نہیں دیتے کہ وہ اللہ پر یا اس محتاج پر یا اس مدرسہ کے کسی ملازم پر جس میں چندہ دیتے ہیں کوئی احسان کرتے ہیں نہیں بلکہ خاص اللہ کی رضا جوئی کیلئے دیتے ہیں اور دل ان کے اس خوف سے لرزتے ہیں کہ حقیر تحفہ اس عالی جناب کے شایان شان نہیں مبادا ہماری نیت میں فتور ہو تو الٹا مواخذہ ہو ان کو یہی ڈر لگا رہتا ہے اور اس خوف میں وہ ہمیشہ دست بدعا رہتے ہیں کہ ؎ من نگویم کہ طاعتم بپذیر قلم عفوبرگناہم کش ایسے لوگوں کے لئے ہم شہادت دیتے ہیں کہ یہی لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور ان نیکیوں کی طرف لپکتے ہیں ہاں یہ خیال مت کرو کہ نیک کام دنیا میں کوئی کر ہی نہیں سکتا انسان کسی وقت برے برے خیالات سے خالی نہیں رہ سکتا کبھی کوئی دنیاوی امور کے متعلق خیالات ہیں تو کبھی اپنی حاجات کی فکر ہے جیسا شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے ؎ شب چو عقد نماز بربندم چہ خورد بامداد فرزندم پس سنو ! خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو اختیاری دوسرے بے اختیاری اختیاری خیالات اگر برے ہوں تو ان پر پکڑ ہوگی بشرطیکہ ان کو دل میں اچھی طرح مضبوط کر رکھو گے اور بے اختیاری خیالات پر پکڑ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیا کرتے اس لئے کہ طاقت سے زیادہ حکم دینا صریح ظلم ہے مثلاً انسان کو ہم یہ تو حکم دیں گے کہ تو روزہ رکھ جس کو وہ تھوڑے سے وقت تک کرسکتا ہے مگر یہ حکم نہیں دیں گے کہ دیکھنا تجھے بھوک نہ لگنے پائے اگر تجھے بھوک لگی تو تیری خیر نہ ہوگی تجھے سزا ملے گی کیونکہ بھوک لگنے پر تھوڑے سے وقت تک کھانا نہ کھانا اس کے اختیار میں ہے لیکن بھوک نہ لگنے دینا اس کے اقتدار میں نہیں پس یہ ایک مثال اس عام قاعدہ کی سمجھو جو اوپر کی آیت میں بتلایا گیا ہے اور اسی پر اپنے خیالات کو قیاس کرلو کہ اگر وہ ایسے بے اختیاری ہیں تو خیر معاف ہیں اور اگر اختیاری ہیں تو تمہارے نام لکھے جائیں گے اور ہمارے پاس ایک کتاب بندوں کا اعمال نامہ ہے جو وقت پر قیام کے روز سچائی کا اظہار کردے گی جس کو مجرم دیکھ کر آہ وبکا کریں گے مگر جو کچھ ہوگا وہ انصاف ہی سے ہوگا اور وہ کسی طرح سے ظلم نہیں کئے جائیں گے لیکن یہ لوگ عرب کے مشرک اور تیرے مخالف جو اس راست بات کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل اس سے پردے میں ہیں یعنی قرآن جس عذاب کی دھمکی ان کو سناتا ہے وہ ہنوز انہوں نے دیکھا نہیں اور اس کے سوا ان کے اعمال اور بھی ہیں جو یہ کرتے ہیں ان کا بھی ان پر اثر ہے بس یہ اسی طرح سرکشی اور تمرد میں رہیں گے یہاں تک کہ جب ہم ان میں سے خوشحال اور آسودہ لوگوں کو عذاب میں مبتلا کریں گے جن کا یہ سارا فساد ہے تو پھر یہ سب کے سب چیخ اٹھیں گے مگر اس روز کا چیخنا ان کو سود مند نہ ہوگا۔ اس لئے ان سے کہا جائے گا کہ آج مت چیخو ہماری طرف سے کسی امداد کی توقع مت رکھو کیونکہ تم کو ہماری طرف سے کوئی مدد نہ پہنچے گی اس لئے کہ امداد لینے کا استحقاق تم خود کھو چکے ہو ہمارے احکام قرآنی تم کو سنائے جاتے تو تم لوگ تکبر سے کچھ کچھ بیہودہ بکتے ہوئے پیچھے کو ہٹجاتے تھے افسوس ہے ان کے حال پر اس وقت تو پچھتاویں گے مگر اب نہیں سوچتے المؤمنون
33 المؤمنون
34 المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 المؤمنون
39 المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 المؤمنون
43 المؤمنون
44 المؤمنون
45 المؤمنون
46 المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 المؤمنون
50 المؤمنون
51 المؤمنون
52 المؤمنون
53 المؤمنون
54 المؤمنون
55 المؤمنون
56 المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 المؤمنون
62 المؤمنون
63 المؤمنون
64 المؤمنون
65 المؤمنون
66 المؤمنون
67 المؤمنون
68 کیا انہوں نے اس بات یعنی قرآنی احکام پر کبھی غور نہیں کیا کہ کس طرح کا کلام با نظام ہے جو مردہ دلوں کلئے ا حکیمانہ صحت کا پیام ہے آہ افسوس یہ لوگ غور اور فکر سے کام نہیں لیتے یا ان کے پاس رسول کے ذریعہ سے کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے باپ دادوں حضرت اسماعیل اور اانکی قریب کی نسل کے پاس نہ آئی تھی (یہ لفظ اس لئے بڑھایا گیا ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لوگ خود یہ کہتے تھے ماسمعنا بھذا فی الملۃ الاخرۃ یعنی ہم نے یہ بات جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے پہلے لوگوں میں نہیں سنی نیز یہ بھی ارشاد ہے لتنذر قوما ماانذر ابآء ھم فھم غفلون یعنی اے نبی تم ان لوگوں کو سمجھائو جس کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اس لئے وہ غافل ہیں اور ان جیسی کئی ایک اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ عربیوں کے باپ دادا کو واقعی اس قسم کی ہدایت نہیں آئی تھی پھر اس آیت میں جو تعجب سے یہ کہا گیا کہ ان کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے باپ دادا کو نہیں آئی تھی حالانکہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ان کے باپ دادا کے پاس یہ تعلیم نہ آئی تھی اس لئے یہ قید لگائی گئی ہے اور یہ قید قرآن مجید کے لفظ الاولین سے بھی مستنبط ہوسکتی ہے۔ ١٢ منہ) المؤمنون
69 کیا انہوں نے ہنوز اپنے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانا نہیں اس کی سچی تعلیم اور حقانی تلقین اور روحانی فیض صحبت نے ان پر ابی اثر نہیں کیا کیا اس کے معجزات کرامات کو انہوں نے نہیں دیکھا کہ اس سے منکر ہو رہے ہیں المؤمنون
70 کیا باوجود دیکھنے معجزات کرامات اور پانے تاثیر صحبت کے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے جب ہی تو تمام لوگوں کی مخالفت کر رہا ہے نہیں بلکہ وہ رسول سچی تعلیم ان کے پاس لایا ہے اور ان میں سے اکثر لوگ سچائی کو ناپسند کرتے ہیں المؤمنون
71 (71۔78) یہی وجہ ہے کہ رسول کی پیروی نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ سچائی خود ان کی خواہشات کے مطابق ہو حالانکہ اگر سچ ان کی خواہش کے مطابق ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمام دنیا کے برے کام جائز کئے جائیں کیونکہ یہ لوگ تو سب کچھ کر گذرتے ہیں شرک ہے تو ان میں ہے کفر ہے تو ان میں ہے شراب خواری قمار بازی زنا کاری غرض دنیا کی تمام خرابیوں کا مجمع بلکہ منبع یہ لوگ ہیں اور ان کی دلی خواہش یہی ہے کہ نبی کی تعلیم سے یہ کام بند نہ ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والے …آدمی اور فرشتے سب کے سب تباہ وبربادہوجائیں کیونکہ قانون الٰہی ہے کہ سب کے سب لوگ بےدین اور بدمعاش ہوجائیں گے تو دنیا کا قیام نہ رہے گا جب یہ حال ہے تو سچ اور سچی تعلیم بھلا انکی خواہشات کے مطابق کیونکر ہوجائے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کی سچی نصیحت لائے ہیں تاکہ ہدایت پاویں مگر یہ لوگ اپنی شرارتوں میں ایسے منہمک ہیں کہ کان بھی نہیں لگاتے پس یہ لوگ اپنی ہدایت اور نصیحت سے روگردان ہیں کیا تو ان سے اس وعظ و نصیحت کرنے پر کچھ اجرت مانگتا ہے نہیں کیونکہ تیرے پروردگار کا اجر ان کی اجرت سے کہیں اچھا ہے اور وہ سب سے اچھا رزق دینے والا ہے پھر بھلا اسے چھوڑ کر ان سے توکیوں مانگنے لگا اور ان کی کیوں پرواہ کرنے لگا تو تو ان کو سیدھی راہ کی طرف بلاتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھی راہ سے ٹیڑھے جاتے ہیں ہمیشہ سے ان کی عادت کجروی کی ہورہی مگر جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر رحم کی درخواست کرتے ہیں اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو کچھ ان پر تکلیف آرہی ہے دور کردیں تو یہ ہرگز نہ ہوگا کہ اپنی شرارتوں سے باز آویں بلکہ اپنی سر کشی اور گمراہی میں بھٹکتے ہوئے دھستے جائیں اس لئے کہ اس سے پہلے ہم نے ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا تھا قحط سالی اور وبا کا تسلط ان پر ہوا تاہم یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کی پھر جب ہم حسب قاعدہ ان پر عذاب کا دروازہ کھول دیں گے یعنی ایک تکلیف کے بعد دوسری تکلیف ان پر آئے گی تو بجائے اس کے اللہ کی طرف جھکیں گے اور اپنے گناہوں پر معافی مانگ کر رحمت کے امید وار بنیں فورا اس سے ناامید ہوجائیں گے اللہ ذوالجلال کی رحمت سے ناامید ہونا ہر طرح کی حرمان اور بد نصیبی ہے کیونکہ وہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے پھر اس کی رحمت سے ناامید ہونا کون دانا جائز کہے گا مگر تم بہت ہی کم شکریہ کرتے ہو المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 المؤمنون
75 المؤمنون
76 المؤمنون
77 المؤمنون
78 المؤمنون
79 وہی ذات پاک ہے جس نے تم کو زمین پر پیدا کیا اور اسی کے پاس بعد الموت تم جمع کئے جائو گے المؤمنون
80 وہی ذات پاک ہے جو مخلوق کو زندگی بخشتا اور مارتا ہے اور رات دن کا اختلاف اسی کے قبضہ قدرت میں ہے سورج کے طلوع اور غروب کا وقت بلحاظ موسم اسی نے مقرر کاش ہے کیا تم لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کے کاروبارکا اصل مدار کس پر ہے اور محض ظاہر بینی سے ان اسباب پر دل لگائے بیٹھے ہو حالانکہ ان اسباب کی کچھ بھی ہستی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے جس کی طرف کسی اہل دل نے اشارہ کیا ؎ کار زلف نست مشک افشانی اما عشقاں بد مصلحت را تہمتے برآہونے چیں بستہ اند المؤمنون
81 ان کو چاہئے تھا کہ اپنے بھلے کی سوچیں وہ کرتے نہیں بلکہ الٹے اکڑتے ہیں اور اسی طرح کی بولی بولتے ہیں اور کہتے ہیں جو ان سے پہلے لوگ کہہ گئے ہیں المؤمنون
82 (82۔83) یعنی یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مر جائیں گے مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے کیا ہم پھر اٹھائے جائیں گے نہیں نہیں یہ کیونکر ہوسکتا ہے یہ تو یونہی بناوٹی باتیں ہیں اس سے پہلے ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو بھی ڈرائو سنایا گیا اور وعدہ دیا گیا مگر ہم تو اس کو اس سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتے کہ یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے میں اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ کسی حقانی تعلیم کو یہ کہہ کر ٹال دینا کہ پہلے لوگوں کے قصے ہیں قرین دانشمندی نہیں پہلے لوگوں کے قصے اگر ہیں تو بطور تمثیل اصل مضمون سمجھانے کو ہیں۔ اصل مضمون تو بالکل مختصر لفظوں میں ہے کہ ؎ وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار المؤمنون
83 المؤمنون
84 (84۔96) پس اگر تم کو اس اصل مضمون میں بھی شک ہے تو ہم تم کو ایک اور طرح سے بھی یہ مضمون ذہن نشین کرا سکتے ہیں پس بتلائو کہ زمین اور زمین کے لوگ جو اس پر بستے ہیں کس کی ملک اور ماتحت ہیں اگر تم جانتے ہو تو بتلائو امید ہے یہ سوال سن کر یہ لوگ خود ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کی ہے جب یہ کہیں اور مان لیں اور ضرور مانیں گے کیونکہ بقول شیخ سعدی مرحوم جہاں متفق بر الہتیش ان کے دل مانتے ہیں کہ ہمارا خالق ہمارا مالک وہی ایک ذات پاک ہے تو پھر ان سے کہئیو کہ کیا تم نصیحت نہیں پاتے اور اپنے اعمال کا نجام بد نہیں سوچتے اے نبی ! تو ان سے کہئیو کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار اور عرش عظیم کا مالک کون ہے کس نے ان سب کو پیدا کیا ہے کون ان کی حفاظت کرتا ہے امید ہے یہ خود ہی کہہ دیں گے کہ اللہ ہی کی یہ شان ہے پھر تم کہئیو کہ تم جو اس کے ساتھ دوسری چیزوں کو اس کی مخلوق میں سے اس کا شریک کرتے ہو کیا تم ڈرتے نہیں کہ اس جرم کی پاداش میں کیا کچھ مصیبت تم کو جھیلنی ہوگی پھر ان سے کہہ کہ بتلائو تمام چیزوں کی حکومت کس کے قبضے میں ہے اور کون ہے جو بھاگے ہوئے کو پناہ دیتا ہے اور اس سے بھاگے ہوئے کو کہیں پناہ نہیں مل سکتی اگر جانتے ہو تو بتلائو امید ہے یہ خود ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کی یہ شان ہے تو کہہ کہ پھر تم کہاں کو بہکائے جاتے ہو کیا تمہیں کوئی جادو کرجاتا ہے کہ اللہ کے ہوتے ہوئے اس کی موجودگی میں تم اس کے بندوں سے حاجات چاہتے ہو گو تم اللہ سے بھی مانگتے ہو مگر اتنا کرنے سے تم شرک کی بیماری سے بچ نہیں سکتے کیا تم نے کسی بزرگ اہل دل کا قول نہیں سنا کہ ؎ اللہ سے اور بزرگوں سے بھی کہنا یہی ہے شرک یارو اس سے بچنا جب تک کل اغراض اور مطالب اللہ ہی سے نہ چاہو گے بلکہ بقول ؎ لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اپنے آپ کو اسی کی ذات ستودہ صفات سے پیوستہ نہ کر دو گے کسی طرح توحید کا دعویٰ صحیح نہ ہوگا اسی توحید کے پھیلانے کیلئے ہم نے سلسلہ انبیاء دنیا میں قائم کیا یہی سچی بات ہم ان کے پاس لائے ہیں اور یہ لوگ جو نہیں مانتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ اس انکار میں بالکل جھوٹے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ کیا ہوگا کہ اللہ کی اولاد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں کوئی کہتا ہے فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کوئی کہتا ہے مسیح اللہ کا لڑکا ہے حالانکہ اللہ نے کسی کو اولاد نہیں بنایا اور نہ ان کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ہوتا تو ہر ایک معبود اپنی اپنی مخلوق کو الگ الگ لے جاتا اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا کیونکہ جو ذات الٰہ یعنی معبود برحق ہو اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ کسی کا ماتحت ہو اس لئے کہ ماتحتی اور صلح دو حال سے خالی نہیں یا تو ان دونوں میں سے ایک زیادہ طاقتور ہوگا یا دونوں مساوی طاقت ہوں گے مگر کسی تیسری زبردست طاقت کے ماتحت ہوں گے جیسے ہندوستان کی دیسی ریاستیں حالانکہ یہ دونوں صورتیں اللہ کی شان کے بر خلاف ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں پاک ہے وہ تمام غیب اور حاضر چیزوں کو جاننے والا ہے پس وہ لوگوں کے شرک کی باتیں کرنے سے پاک ہے ان کی فضول گوئیوں کی پرواہ نہ کر ہاں چونکہ ان پر عذاب الٰہی آنے کو ہے اس لئے تو دعا کرتا ہوا یوں کہہ اے میرے پروردگار جو کچھ ان کو عذاب وغیرہ کی دھمکی دی جاتی ہے اگر تو مجھے بھی وہ وقت دکھادے تو میرے پروردگار مجھے ان ظالموں کی قوم میں مت کیجئیوبلکہ محض اپنے فضل وکرم سے مجھے محفوظ رکھیو اور ہم اس پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کو وعدے دے رہے ہیں تجھے دکھادیں یعنی اگر ہم چاہیں تو تیری زندگی ہی میں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں لیکن چونکہ ہم جیسے توانا اور قدیر ہیں ویسے علیم اور حلیم بھی ہیں اس لئے جب ہم ان کے حال پر حلم سے کام لیتے ہیں تو تو بھی اچھے بدلے سے برائی کو دفع کیا کر یعنی اگر کوئی تیرے ساتھ برائی سے پیش آئے تو تو اس کے ساتھ نیکی سے پیش آیا کر۔ یہ کیا تو نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا ؎ بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا مگر یہ قانون بھی وہیں تک ہے کہ مخالف شریف النفس ہو اور کسی غلط فہمی کی وجہ سے مخالفت کرتا ہو لیکن اگر شریر النفس معاند اور ضدی ہے جو نیکی اور احسان کرنے کو الٹا کمزوری پر محمول کرتا ہے تو ایسے شریروں کی سزا وہی جو دوسری جگہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ جزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا برائی کا بدلہ اس کے برابر کی برائی کرنا ہے چنانچہ شیخ سعدی مرحوم بھی باوجود یہ کہ اوپر کے شعر میں اعلیٰ درجہ کے تحمل کی تعلیم دیتا ہے مگر اس کا وسیع تجربہ یہاں تک بھی پہنچا ہے کہ ؎ نکوئی بابداں کردن چنان است کہ بدکردن بجائے نیک مرداں اس لئے تو بھی موقع شناسی سے کام لیا کر ہم ان کی گفتگو کو جو یہ لوگ کہتے ہیں خوب جانتے ہیں اس لئے تو ان سے اور ان کی بیہودہ گوئی سے کشیدہ خاطر نہ ہوا کر بلکہ اگر کسی وقت جوش آجائے تو تو دعا کیا کر المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 المؤمنون
89 المؤمنون
90 المؤمنون
91 المؤمنون
92 المؤمنون
93 المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 المؤمنون
97 (97۔98) اور کہا کر اے میرے پروردگا ! میں شیاطین کی چھیڑ چھاڑ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ یہ میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں ساتھ ہی اس کے ان کی بیہودہ گوئی کا بھی خیال مت کیجئیو ان کی حالت تو یہی رہے گی المؤمنون
98 المؤمنون
99 یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے دنیا کی طرف واپس کر المؤمنون
100 تاکہ میں پچھلی زندگی میں جس کو میں چھوڑآیا ہوں نیک عمل کروں لیکن ان کی حالت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کی یہ بات بھی بالکل غلط ہے ہرگز ہرگز اس کی نیت نیک اور تابع دار کی نہیں بلکہ یہ لفظ صرف اس کے منہ کا بول ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان سے آگے ابھی ان کے قبروں سے اٹھنے کے دن تک درمیانی ٹھکانہ قبر میں ہے المؤمنون
101 پھر جب قیامت کے روز نفخ صور ہوگا یعنی قیامت قائم ہوجائے گی تو اس روز جو ان کی گت ہوگی کچھ نہ پوچھو کیا ہوگی نہ تو اس روزان میں نسبی تعلقات مفید ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے المؤمنون
102 ہاں جو کچھ ہوگا اعمال پر ہوگا پس جن لوگوں کے نیک اعمال وزن میں بھاری ہوں گے وہی لوگ بامراد پاس اور کامیاب ہوں گے المؤمنون
103 اور جن کے نیک اعمال کا وزن کم ہوگا یا تو یہ صورت کہ گناہوں کے مقابلے پر ان کے نیک اعمال کم ہوں گے یا بعض کبائر گناہ کی وجہ سے نیک اعمال حبط ہوچکے ہوں گے تو یہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے تئیں خسارہ میں ڈالا ہوگا اسی خسارہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے المؤمنون
104 آتش دوزخ کی لپٹ ان کے بدنوں کو جھلستی ہوگی اور وہ بسبب اس تکلیف کے اس دوزخ میں منہ بنائے ہوں گے ظلمت کی تیرگی چھائی ہوگی المؤمنون
105 میں (اللہ) ان کو ذلیل کرنے کیلئے بذریعہ ملائکہ کے ان سے پوچھوں گا کیا میرے احکام قرآنی تم کو سنائے نہ گئے تھے سنائے تو گئے تھے پھر کیا تم ان کی تکذیب کرتے تھے المؤمنون
106 اس کا جواب بجز اقرار اور اعتراف کے اور کیا ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے تو چہروں سے بداعمالی ٹپکتی ہوگی اس لئے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہماری کمبختی ہم پر غالب آئی کیونکہ ہم دنیا میں سمجھے بیٹھے تھے کہ یہی ہمارا گھر ہے مگر آخر کار معلوم ہوا کہ خواب تھا و کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا اس لئے ہم اسی دنیا کے لہو لعب میں لگے رہے اور واقعی اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ہم گمراہ لوگ تھے اسی کی پاداش میں آج پھنسے ہیں المؤمنون
107 مگر اے ہمارے مہربان پروردگار ! تیری رحمت سے تو کوئی بھی مایوس نہیں پھر ہم کیوں ناامید ہوں اے ہمارے مولا ! گوہم گہنگار ہیں مگر ہم نے یہ بھی سنا ہوا ہے کہ ؎ مستحق کرامات گنہگا رائد اے ہمارے پروردگار ! تو ہم کو اس دوزخ کے عذاب سے ایک دفعہ نکال پھر اگر ہم نے دوبارہ یہ کام کئے تو جو تیرا جی چاہے کیجئیو بے شک ہم ظالم ہوں گے المؤمنون
108 اللہ بذریعہ ملائکہ کہے گا کہ اسی جہنم میں درکائے رہو اور مجھ سے مت بولو المؤمنون
109 کیونکہ میرے بندوں میں سے ایک چھوٹا سا گروہ تھا جو کہا کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم تیرے کلام پر ایمان لائے پس تو ہم کو بخش اور ہم پر رحم فرما کیونکہ توں ہمارا مولا ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے المؤمنون
110 وہ تو یہ دعا کرتے اور تم انکو مخول کرتے تھے یہاں تک تم ان کے ساتھ مخول میں مشغول ہوئے کہ ان کی وجہ سے تم میری یاد بھول گئے اور تم ان سے ہنسی کرتے رہے المؤمنون
111 تو میں نے ان کے صبر کی وجہ سے آج ان کو بدلہ دیدیا کہ آج اس محشر کے میدان میں وہی کامیاب ہیں المؤمنون
112 یہ کہہ کر پھر کہے گا کہ بتلائو تم کتنے سال زمین پر رہے تھے کیا میں نے تم کو اتنی عمر دی تھی یا نہیں جس میں تم کو نصیحت پانے کا اچھا خاصہ موقع تھا المؤمنون
113 وہ اپنی موجودہ تکلیف کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم تو ایک آدھ روز رہے ہیں پس آپ حساب دان گننے والوں سے دریافت فرمالیجئے المؤمنون
114 اللہ فرمائے گا گو یہ تو تم نے جھوٹ کہا ہے کہ ایک آدھ روز ٹھیرے ہو مگر ہاں اس میں شک نہیں کہ اگر تم دنیا کی حقیقت اور اصلیت کو جانتے تو بے شک بہت ہی تھوڑی مدت رہے تھے کیا تم نے کسی دانا کا کلام نہ سنا تھا ؎ فکر معاش ذکر اللہ یاد رفتگاں دو دن کی زندگی میں بھلا کوئی کیا کرے کیا تم نے یہ بھی نہ سنا تھا کہ ؎ جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے مگر افسوس کے تم نے دنیا کو اپنا دارالقرار جانا اور آخرت کو بھول گئے المؤمنون
115 کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تم کو عبث اور فضول پیدا کیا ہے اور کہ تم ہماری طرف مر کر اعمال کی جزا وسزا کیلئے نہیں لوٹو گے بڑی سخت غلطی تمہاری یہی تھی کہ تم نے یہ سمجھا تھا کہ یہ سلسلہ کائنات محض ایک افسانہ اور دل بہلاوا ہے المؤمنون
116 (116۔118) پس اللہ مالک الملک بادشاہ برحق ایسے بیہودہ خیال سے بلند تر ہے وہ اپنی ذات میں یگانہ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی بڑے عزت دار تخت کا مالک ہے جس کی عزت کو کوئی نہیں پہنچ سکتا اسی لئے تو اس کی طرف سے عام اعلان ہے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے اس دعویٰ پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض بےدلیل لڑتا ہے پس یہ شعر ان مشرکوں کے حق میں لگتا ہے ؎ نہ رکھ اشرا کی کچھ بھی سند پھر اس پہ اڑتے ہیں عجب جاہل ہیں یہ مشرک کہ بے ہتھیار لڑتے ہیں جب یہ ان کی محض ہٹ دھرمی اور بےدلیل بات ہے تو ان کا حساب بھی ان کے پروردگار ہی کے ہاں ہوگا جہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ کافر اور مشرک کبھی نہیں چھوٹیں گے یہ ان کو سنا دے اور دعا کرتے ہوئے تو کہا کر اے میرے پروردگار مجھے بخش اور مجھ پر رحم فرما تو ہی میرا مولا ہے اور تو ہی سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے المؤمنون
117 المؤمنون
118 المؤمنون
0 النور
1 اس سورت نور کو ہم (اللہ) نے اتارا ہے اور اس کے احکام کی تعمیل کو ہم نے سب لوگوں پر فرض کیا ہے کیونکہ اس میں ان کی بھلائی ہے اور ہم نے اس میں کھلے کھلے احکام نازل کئے ہیں تاکہ تم نصیحت پائو النور
2 ایک ضروری حکم سب سے پہلے سنو ! جس کی تیل سے دنیا میں راحت پیدا ہوتی ہے اور اخلاق میں تہذیب آتی ہے وہ یہ ہے کہ زنا کاری کو بند کرو کیونکہ اس سے کئی ایک فسادات برپا ہوتے ہیں کئی ایک جانیں ضائع ہوتی ہے پس تم کو اس کی بندش کی تجویز یہ بتلائی جاتی ہے کہ زانی اور زانیہ یعنی مردو عورت ہر ایک کو حاکم کے حکم سے سو درے سے بید رسید کرو اور خوب مارو اور اللہ کا حکم جاری کرنے تم ان پر کسی طرح کا ترس نہ کرو اگر تم کو اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان ہے تو ایسا ہی کرنا اور سنو ! ان بدمعاشوں کی سزا صرف یہی نہیں کہ ان کو اندر گھس کر عزت سے بید رسید کرو نہیں بلکہ میدان میں علی الاعلان لگائو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضروں کو سنائیں النور
3 (2۔4) زنا کاری بری عادت ہے کہ نیک خصلت سادہ مزاج آدمی کو زنا کار کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہئے خصوصا پاکدامن نیک لڑکی کو اس کے حبالہ عقد میں نہیں دینا چاہئے اس لئے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زانی جب تک زنا سے تائب نہیں ہوتا صرف زانیہ یا بےدین مشرکہ عورت ہی سے نکاح کرے تاکہ کوئی بھلی عورت اس کی صحبت میں خراب نہ ہو اسی طرح عورت زانیہ بحالت اجرا زنا اگر نکاح کرنا چاہے تو اس سے کوئی بھلا مرد نکاح نہ کرے بلکہ زانی یا بدکار مشرک ہی اس سے نکاح کرے تاکہ ؎ کند ہم جنس باہم جنس پرواز صادق آئے کوئی شریف مرد زانیہ عورت کے اثر صحبت سے اور کوئی عفیفہ عورت بدکار زانی کے ماتحت خراب نہ ہو اس لئے کامل مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے تاکہ وہ فاحشات سے باوجود فحش جاری رکھنے کے زن و شوئی کا تعلق کریں ہاں اگر کوئی فریق ان میں سے توبہ کرے اور دل سے احکام اللہ کریم کے ماتحت رہنے کا وعدہ کرے تو بے شک معاف ہوگا اور اس حکم کے ذیل میں نہ آئے گا کیونکہ باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر دگبرد بت پرستی باز آ ایں در گئہ مادرگئہ نومیدی نیست صدبار اگر توبہ شکستی باز آ چونکہ زنا کاری اللہ کے ہاں سخت ناپسند اور معیوب ہے اس لئے حکم دیتا ہے کہ جو کوئی پاک دامن عورتوں کو یا پاک صاف مردوں کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائیں یعنی پولیس میں رپورٹ کریں کہ فلاں شخص نے زنا کیا ہے یا عام طور پر کسی مجلس میں مشہور کریں کہ فلاں شخص نے ایسا کام کیا ہے جس سے اس کی ہتک متصور ہو پھر اس دعویٰ پر چار گواہ نہ لائیں تو ان مفسدوں کو اسی اسی درے (بید) رسید کرو اور آئندہ کو کبھی بھی کسی معاملہ میں ان کی شہادت قبول نہ کرنا کیونکہ یہ لوگ بدکار ہیں جو پاک دامنوں کو ایسے فعل شنیع کی تہمت لگاتے ہیں ان کا بھی کوئی اعتبار ہے ہرگز اس لائق نہیں کہ کسی معاملہ میں بھی ان کا اعتبار کیا جائے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے اس لئے جو لوگ اس کے حضور توبہ کرتے ہیں خواہ وہ کیسے ہی بدکار ہوں فورا ان پر رحمت نازل ہوتی ہے اس لئے یہاں بھی وہی قانون ہے کہ جو لوگ اس کے بعد کہ انہوں نے ناحق پا کدامنوں پر اتہام لگائے توبہ کریں اور نیکوکاری اختیار کریں تو ایسے لوگوں پر سے یہ الزام اٹھایا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے پس ان کی شہادت اب قبول ہوگی کیونکہ قرآن و ہدیث اس پر متفق ہیں کہ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا نہ کرنیوالا النور
4 ( النور
5 النور
6 (6۔10) سنو ! ابھی ایک قسم کی تہمت باقی ہے بعض لوگ غصے میں بے خود ہو کر اپنی بیویوں کو زنا کی تہمت لگادیا کرتے ہیں حالانکہ ثبوت اس کا کچھ نہیں ہوتا تو پس ان کا حکم یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور بجز اپنے ان کے پاس چار گواہ موجود نہ ہوں جن سے مقدمہ کا ثبوت ہوسکے تو قاضی کے روبرو کھڑے کرکے ان میں ہر ایک سے یعنی جس نے تہمت لگائی ہے چار دفعہ اللہ کے نام کی حلفیہ شہادت لی جائے کہ بے شک وہ اس دعویٰ میں راست بازوں سے ہے یعنی یوں کہے کہ اللہ کی قسم میں سچ کہتا ہوں کہ واقعی میں نے اس اپنی بیوی کو زنا کرتے پایا میں اس بیان میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں یعنی پانچویں دفعہ ان لفظوں سے شہادت دے کہ اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ان پانچوں شہادتوں یا اقراروں کے بعد عورت کی نوبت ہے پس اگر اس نے اقرار کرلیا کہ واقعی مجھے یہ بدکاری ہوئی ہے تو زنا کی سزا ملے گی اور اگر اقرار نہ کیا تو اس عورت سے اس طرح سزا ٹل سکتی ہے کہ وہ بھی چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ وہ میرا خاوند یعنی مدعی جھوٹا ہے میں نے ہرگز یہ قصور نہیں کیا اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر یہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو پھر قاضی ان میں ہمیشہ کیلئے تفریق کرادے اور دونوں کو حکم دے کہ جائو اپنے اپنے گھروں میں رہو تمہارا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم مسلمانوں پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال پر بڑا ہی مہربان اور نہایت حکمت والا ہے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو تمہیں ایسی راستی اور دانائی کی مفید مفید باتیں اور قوانین کون سکھلاتا النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 النور
11 (11۔20) سنو ! اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے تقاضا سے تم کو اس قصہ کی اصلیت پر اطلاع دیتا ہے جو آج کل تم میں مشہور ہو رہا ہے کہ ایک پاکدامن بلکہ پاکدامنوں کی سردار پر بہتان لگایا جاتا ہے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حرم محترم حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر منافقوں نے معاذ اللہ تہمت زنا کاری کی لگائی تھی ان کے رد کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) پس جن لوگوں نے اس طوفان اور سراسر بہتان کو اٹھایا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ تم مسلمانوں میں سے ہیں بظاہر کلمہ اسلام پڑھتے نمازوں میں شریک ہوتے ہیں تم اس بہتان کو اپنے حق میں برانہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں اچھا ہے کیونکہ اس کے ضمن میں کئی ایک مسائل تم کو بتلائے جائیں گے ان میں جس جس نے اس امر میں زبان کھول کر جتنا جتنا گناہ کیا ہے وہ ان کو ملے گا اور ان میں سے جس شخص نے اس طوفان کا بڑا حصہ لایا ہے یعنی عبد اللہ بن ابی منافق وغیرہ جو ہر ایک مجلس میں اس کو مشہور کررہا ہے۔ اس کو تو بہت ہی بڑا عذاب پہونچے گا سنو ! تم مسلمان جنہوں نے اس طوفان بے تمیزی کو پیدا نہیں کیا اور نہ پھیلا یا ہے تم بھی کسی قدر غلطی سے خالی نہیں تم نے جب یہ بہتان سنا تھا تو کیوں ایماندار مردوں اور عورتوں نے اس کو اپنے حق میں اچھا نہ جانا اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح بہتان ہے پس خبردار آئندہ کو جب کبھی کسی مومن صالح کی نسبت زنا لواطت وغیرہ بد اخلاقوں کی خبر سنو تو فورا یہ کلمہ کہدیا کرو ان مفتریوں کو چاہئے تھا کہ حسب قاعدہ مذکورہ بالا اس بہتان کی تصدیق کے لئے چارگواہ لاتے جو اپنا مشاہدہ بیان کرتے پھر گر یہ سچے تھے تو کیوں یہ لوگ چار گواہ اس دعویٰ پر نہ لائے پس جب یہ گواہ نہ لاسکے تو سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں جن لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ہے یا خاموشی سے ان کی بہتان بازی سنی ہے ان کو بھی حصہ رسدی برابر گناہ ہوگا اور سچ پوچھو تو اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت دنیا اور آخرت میں تم مسلمانوں پر نہ ہوتی تو تم نے جس نامناسب بات تہمت میں کرید کی تھی اور ناحق سن سنا کر اس کو بعضوں نے تو تسلیم کرلیا تھا اور بعضے خاموش ہو رہے تھے اس میں تم پر کوئی بڑا عذاب نازل ہوتا کیونکہ تم اس حکایت کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرتے تھے خواہ تمہارے دل میں اس کی تصدیق نہ تھی تاہم تم اس کو نقل کرتے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے تھے جن کا تم کو یقینی علم نہ تھا اور تم اپنے خیال میں اس کو حکایت کو آسان سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بہت بڑی بات تھی کہ رسول بلکہ سید الانبیاء علیہم السلام کی حرم محترم پر بہتان لگایا جائے اور تم چپ رہو؟ جب تم نے اس بہتان کو سنا تھا تو کیوں نہ اپنے مونہوں کو بند رکھا اور کیوں نہ تم نے کہا کہ ہم کو لائق نہیں کہ ہم اس بات کو منہ سے نکالیں اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ توبہ تو اللہ پاک ہے یہ بڑا بہتان ہے سنو ! اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے اگر ایماندار ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا اور اللہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہونا دیکھو اللہ تعالیٰ تمہارے نے اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے پس اس کے احکام کو بھی علم اور حکمت پر مبنی سمجھو اور یاد رکھو جو لوگ یعنی منافق جو چاہتے ہیں کہ بے گناہ مسلمانوں کے حق میں زنا کاری کی خبر مشہور ہو دنیا و آخرت میں ان کو دکھ کی مار ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے حال کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال پر بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے تو تم دیکھتے کہ ایسے کام کی سزا تم کو کیا ملتی النور
12 النور
13 النور
14 النور
15 النور
16 النور
17 النور
18 النور
19 النور
20 النور
21 (21۔26) مسلمانو ! خبردار ! ایسی بیہودہ گوئی اور دیگر افعال قبیحہ کے کرنے میں تم شیطان کے نقش قدم پر مت چلنا وہ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے پیرو ہوجائو مگر یاد رکھو جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلے گا پس اس کی خیر نہیں کیونکہ وہ تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کا حکم دیتا ہے پھر اس کی پیروی کرنے میں کیا امید خیر ہوسکتی ہے پس اس سے بچتے رہیو اور سنو اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو کوئی بھی تم میں کا کبھی اس گناہ سے پاک صاف نہ ہوتا کیونکہ یہ گناہ کوئی معمولی گناہ نہیں لیکن اللہ جس کو چاہے پاک کرتا ہے یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تم کو ایسے سخت گناہ سے بذریعہ توبہ کے پاک کیا اور اپنی رحمت خاصہ سے بہرہ ور کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کی سننے والا جاننے والا ہے جو کوئی اس کا ہو کر رہے وہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے چونکہ اس بہتان بازی سے تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوا اس لئے تم اس رنجش کو خیر باد کہو اور تم میں بزرگ منش اور فراخی والے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنیوالوں کو نہ دینگے کیوں نہ دینگے؟ اس لئے کہ انہوں نے ان کو صدمہ پہنچایا پس ان کو چاہئے کہ ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ کے مطابق شیخ سعدی کے قول (اگر مردی احس الی من اسا) پر عمل کریں اور ان کا قصور معاف کریں اور در گذ کریں سنو کیا تم مسلمان نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو بخش دے بے شک چاہتے ہو گے پھر تم مخلوق کے ساتھ کیوں بخشش سے پیش نہیں آتے کیا تم نے سنا نہیں کرو مہربانی تم اہل زمین پر اللہ مہرباں ہوگا عرش بریں پر پس تم بھی اللہ کے خلق سے بہرہ ور ہو اور یاد رکھو کہ اللہ کے خلقوں میں سے بڑا خلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ایک رشتہ دار مسطح نامی بھی اس چوکڑی میں شریک تھا۔ حضرت صدیق اس سے سلوک کیا کرتے تھے۔ اس قصے کے پیش آنے پر انہوں نے عہد کرلیا کہ آئندہ کو اس سے بدستور سابق سلوک نہ کروں گا۔ کیونکہ بقول نکوئی بابداں کردن چنان است کہ بدکردن بجائے نیک رواں یہ سلوک کا مستحق نہیں مگر چونکہ اللہ کے ہاں یہ بات پسند نہ تھی اس لئے صدیق اکبر کو اس قصہ سے روکا گیا چنانچہ صدیق اکبرنے بھی فوراً بدستور سابق سلوک اور احسان جاری کردیا۔ (منہ) پس تم بھی مخلوق کے قصور حتی المقدور بخشدیا کرو اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم جو چاہیں کریں نہیں سنو ! جیسا وہ بخشنہار ہے عادل منصف اور حاکم بھی ہے اس کی ہر ایک صفت اپنے متعلق بہ کو چاہتی ہے کچھ شک نہیں کہ اسکے عدل وانصاف اور حکومت کا تقاضا ہے کہ جو لوگ پاک دامن بے خبر اور ایماندار عورتوں اور مردوں کو کسی قسم کی تہمت لگاتے ہیں خواہ وہ زنا کی ہو یا کسی اور عیب کی دنیا اور آخرت میں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کو بہت بڑا عذاب ہوگا کب ہوگا؟ جس روز خود انکی زبانیں اور انکے ہاتھ اور ان کے پائوں ان کے کئے ہوئے برے کاموں کی خبر دینگے گو وہ مجرم خود انکاری ہونگے مگر ان کے اعضا اپنے کئے ہوئے کاموں کی خبر بتلا دیں گے اس روز اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بدلہ ان کو پورا دیگا اور وہ جان لیں گے کہ بے شک اللہ ہی کا حکم بلا خفا حق تھا اور اس شعر کا مضمون بالکل ٹھیک تھا کہ ؎ وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار مگر ہم اپنی نادانی سے اس کو نہ سمجھتے تھے جس کا نتیجہ آخر کار ہم کو بھگتنا پڑا افسوس کہ ان مفتریوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ یہ تو عام قاعدہ ہے کہ گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہوتے ہیں پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہوتے ہیں یعنی بقول ؎ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز باباز ہر ایک اپنی جنس کی طرف جھکتا ہے اس سے بھی صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ یعنی عائشہ صدیقہ وغیرہ چونکہ نبی کی ازواج ہیں ان لوگوں کی بیہودہ گوئی سے پاک ہیں جو کچھ کہتے ہیں بکتے ہیں جو کوئی ان میں سی پھر بھی کہے گا بکے گا ان ازواج مطہرات کے لئے اللہ کے ہاں بخشش اور عزت کی روزی ہے اور ان کے دشمنوں کے لئے ذلت رسوائی۔ خواہ کسے باشد النور
22 النور
23 النور
24 النور
25 النور
26 النور
27 (27۔29) مسلمان ایماندارو ! یہ ایک واقعہ تم میں ایسا ہوا ہے کہ آئندہ کو تمہاری عبرت کیلئے کافی ہے پس تم اس سے عبرت حاصل کرو اور اس کی روک تھام کا خیال رکھنے کو تمہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں بغیر معلوم کرائے اور اس میں رہنے والوں کو سلام کئے بدوں داخل نہ ہوا کرو یعنی جب تم کسی دوست یا رشتہ دار کے ہاں ملنے کو جائو تو پہلے آواز دیا کر تاکہ وہ متنبہ ہوجائیں پھر سلام کہا کرو پھر اندر جانے کیا جازت مانگا کرو اگر اجازت ملے تو داخل ورنہ واپس یہ طریق تمہارے لئے اچھا اور تمہیں اس لئے بتلایا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور عمل کرو اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پائو یعنی کوئی شخص وہاں موجود نہ ہو یا آواز نہ آئے تو پھر تم ان میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ تمہیں اذن نہ ملے ممکن ہے وہ گھر والے کسی اپنے ضروری کام میں مشغول ہوں جس پر کسی غیر کو مطلع کرنا نہ چاہتے ہوں اس لئے تم بغیر اجازت کے اندر نہ جایا کرو اگر تمہیں کہا جائے کہ اس وقت ملنے کا موقع نہیں یا فرصت نہیں آپ لوٹ جائیں یا تشریف لے جائیں تو واپس لوٹ آئویہ تمہارے لئے زیادہ صفائی کی تجویز ہے اور یاد رکھو اگر تم اس کا خلاف کرو گے یا کسی کے گھر میں بری نیت لے کر جائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے ہاں یہ حکم ان مسافر خانوں کے لئے نہیں ہے جن میں ہر ایک شخص داخل ہونے کا مجاز ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی خاص شخص کے مملوکہ یا مقبوضہ نہیں ہوتے پس ایسے گھروں میں جو کسی خاص شخص کے سکونتی نہ ہوں داخل ہونے میں تم پر گناہ نہیں کیونکہ ان گھروں میں تمہارا اسباب رہتا ہے یعنی سرائے وغیرہ مسافر خانے میں اگر چند کس رہتے ہوں اور باہر سے کوئی اور شخص آجائے تو بغیر اجازت اس کو داخل ہونے میں گناہ نہیں تاہم یہ شرط ضروری ہے کہ کسی بدنیتی سے داخل نہ ہو بد نیتی ہر حال میں بری ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو اور اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے النور
28 النور
29 النور
30 (30۔31) اس لئے اے نبی ! تو ایمانداروں کو کہہ کہ چلتے پھرتے وقت اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو غیر جگہ سے بچاتے رہیں کسی طرح سے بھی کوئی ناجائز حرکت نہ کیا کریں یہ نظر کی بندش ان کے حق میں زیادہ صفائی کی موجب ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کاموں کی خبر ہے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نیچی نگاہوں سے جو برے ارادے اپنے اندر رکھیں گے ان کی اسے خبر نہ ہوگی سنو ! وہ سب کچھ جانتا ہے اسے کسی کے بتلانے کی حاجت نہیں وہ تو دلوں کے اندر کے حالات سے بھی آگاہ ہے پس اے نبی تو اس کے احکام کی تبلیغ میں لگا رہ اور اسی طرح ایماندار عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی غیر مردوں سے حفاظت کریں یعنی اپنے خاوندوں کے سوا کسی غیر مرد سے ملاپ نہ کریں اور اپنی سج دھج کو بھی ظاہر نہ کیا کریں لیکن جو چیز خود بخود کھلی رہے جس کا چھپنا کسی طرح نہیں ہوسکتا جیسے اوپر کی چادریا نقاب اور چلتے وقت اپنے سینوں پر دوپٹوں کی بکل مارا کریں اور اپنی زینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کیا کریں لیکن اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں باپ دادا۔ پر دادا نانا۔ پرنانا کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے باپوں کے سامنے یا اپنے بیٹوں کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے سامنے جو دوسری بیویوں سے ہوں یا اپنے بھائیوں کے سامنے یا بھائیوں کے بیٹوں بھتیجوں کے یا بہنوں کے بیٹوں بھانجوں کے سامنے یا اپنی نوع انسان کی عورتوں یا اپنے مملوکہ غلاموں یا بسبب کبرسنی یا کسی دوسرے سبب سے بے حاجت خدمتگار مردوں یا بچوں کے سامنے جو عورتوں کے پردہ سے واقف نہیں ہوئے۔ یعنی ان کو ابھی یہ معلوم نہ ہو کہ عورت مرد کا کیا تعلق ہوتا ہے اس قسم کے لوگوں کے سامنے کسی عورت کا زیب و زینت ظاہر کرنا گناہ نہیں غرض جس طریق سے کسی قسم کی خرابی نہ پیدا ہو وہی کریں اسی لئے ان کو حکم ہوتا ہے کہ وہ پردہ کریں اور پردہ میں رہ کر بازار میں یا اپنے گھروں میں ایسے زور سے پائوں نہ مارا کریں کہ جھانجروں کی آواز سے ان کی چھپائی ہوئی زینت معلوم ہونے لگے اور بازار میں اس طرح نہ چلیں کہ دیکھنے والوں کی ٹکٹکی بندھ جائے اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلے انگلیاں سرد اٹھاتے کہ وہ آتے ہیں شوق سے گل کھلے جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں پس تم ایسا مت کرو اور تم سب مسلمان اللہ کی طرف لگے رہو تاکہ تم اپنی مراد پائو یعنی جس غرض و غائت (آخری سعادت) کیلئے تم پیدا کئے گئے ہو اور جس مطلب کیلئے دنیا میں آئے ہو وہ تمہیں معلوم ہے یہ کہ ؎ عدم سے جانب ہستی تلاش یار میں آئے اس مراد کو اسی طرح پائو گے کہ ہر آن اللہ کی طرف دھیان رکھو پس یہی تمام بھلائیوں کی جڑ ہے اسے ہی مضبوط ہاتھ سے پکڑے رہو (بعض علما جو اس لفظ ماظہر سے ہاتھ اور منہ مراد لیتے ہیں ان کے معنے کی صحت ناظرین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زن و مرد کی فریفتگی کا ہے سے ہوتی ہے صرف منہ سے بقول یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں محبت آہی جاتی ہے جب یہ کیفیت ہے تو منہ کے کھلا رکھنے کی اجازت کیونکر موزوں ہوسکتی ہے علاوہ اس کے علم نحو کے قواعد سے ماظھر مستثنیٰ متصل ہے جس کا مستثنیٰ منہ زینت ہے اگر ہاتھ اور منہ مراد ہو تو مستثنیٰ متصل نہ رہے گا کیونکہ ہاتھ اور منہ زینت نہیں بلکہ محل زینت ہیں پس آیت میں دو لفظ زیر غور ہیں مستثنیٰ متصل اور ظھر فعل لازمی معنی یہ ہیں کہ جو زینت بلا اختیار ظاہر ہوجاوے وہ معاف ہے منہ زینت میں نہ خودبخود ظاہر ہوتا ہے بلکہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ مراد نہیں۔ منہ) بعض مفسر کہتے ہیں کہ اپنی عورتوں سے مراد مسلمان عورتیں ہیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسلمان عورت کو غیر مسلمہ عورت سے پردہ کرنا چاہئے خواہ وہ عیسائن ہو یا یہودن مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ پیغمبر اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم محترم کے پاس یہودیہ عورتیں آیا کرتی تھیں اور پردہ نہ ہوتا تھا علاوہ اس کے پردہ کی غرض و غائت تو فحش اور زناکاری کا روکنا ہے بس اسی فرض کو ملحوظ رکھ کر عورت کا عورت سے خواہ کسی ہی مذہب کی ہو پردہ کرنا ضروری بات معلوم ہوتی ہے اس لئے میں نے نوع انسان کی عورتیں مراد لی ہیں۔ (منہ) النور
31 النور
32 (32۔34) اور دنیاوی ننگ ونمود جاہلانہ کا خیال ترک کر کے ٖ… اپنے میں سے بیوگان کی اور اپنے نیک چلن غلاموں اور لونڈیوں کی شادیاں کردیا کرو کیا تم بھی ان لوگوں کی طرح نیچرل سائینس نیچرل سائینس زبانی ہی ورد کرو گے اور یہ نہ سمجھو گے کہ عورت کو مرد کی اور مرد کو عورت کی ضرورت قدرتی ہے تم بھی ان نادانوں کی طرح اگر پانی کو روکنے کی فضول کوشش کرو گے تو پانی اپنا راستہ آپ کرلے گا پس تم اس بیہودہ خیال کو دل ودماغ سے نکال دو سنو ! اگر وہ محتاج بھی ہوں گے یعنی تمہارے غلام یا وہ لوگ جو تمہاری بیوگان اور لونڈیوں کے نکاح کے لئے پیغام دیں تنگ دست ہوں مگر ساتھ اس کے شریف اور بھلے مانس بھی ہوں تو اس خیال سے نکاح مت روکو امید رکھو کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا تم نہیں جانتے ؎ بننا بگڑنا ساتھ زمانے کے ہے بنا دوچار گھر بگڑ گئے دوچار بن گئے پس اس خیال سے اس کام کو مت روکا کرو اور یاد رکھو کہ اللہ بڑا فراخی والا اور جاننے والا ہے (اس لفظ میں آج کل کے آریوں کی طرف اشارہ ہے جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو مذہب دلیل اور عقل سے ثابت نہ ہو وہ غلط ہے مگر بیوگان کی شادی کے متعلق ان کا خیال بھی نفی میں ہے ان کے گرو سوامی دیانند اپنی مشہور کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں کہ ” جن عورتوں اور مردوں کی مجامعت ہوچکی ہو ان کی مکرر شادی نہ ہونی چاہئے۔“ (اردو طبع اول ص ١٤٦) یعنی جس مرد نے اپنی عورت سے جماع کرلیا ہو اگر وہ رنڈوہ ہوجاوے تو وہ دوبارہ شادی نہ کرے اور جس عورت سے جماع ہوچکا ہو وہ بیوہ ہوجائے تو اس کی بھی مکرر شادی نہ ہونی چاہئے۔ حالانکہ شادی اور نکاح کی ضرورت ایک قدرتی امر ہے کون نہیں جانتا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت قدرتی ہے یعنی مرد کو جو عورت کی خواہش ہے اور عورت کو مرد کی یہ سب اللہ کی قدرت سے ہے قدرت ہی نے ان میں یہ ضرورت اور حاجت پیدا کی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ایک جوان لڑکا پچیس تیس سال کا رنڈوہ ہو یا ایک جوان لڑکی بیس پچیس برس کی عمر میں بیوہ ہو تو کیا ان میں یہ خواہش نہ ہوگی کیا ان کی یہ خواہش قدرتی نہیں ہے پھر کیا باعث ہے کہ ان کو ان کی جائز خواہش کے پورا کرنے سے روکا جائے اسی لئے قرآن مجید میں حکم دیا گیا کہ انکحوا الایامی منکم (اپنی بیوگان کی شادی کردیا کرو) بیچاری بیوگان پر جو ظلم ہوتا تھا وہ منتظر تھیں کہ آریہ سماج نکلے گی تو ہماری مصیبتوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر جب آریہ سماج نے بھی ان مظلومات پر وہی ظلم توڑے جو پہلے ہندو قوم توڑ رہی تھی تو مظلومات نے سماج کو مخاطب کر کے بزبان حال یہ شعر پڑھا : ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا سخت افسوس ہے ان مسلمانوں پر جنہوں نے ہندوئوں کی اس بد رسم کو اپنے میں جاری رکھا ہے پھر باوجود سمجھانے کے نہیں مانتے پھر اس کے نقصانات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اللہ ان کو ہدایت کرے۔ آمین (منہ) ہاں یہ اور بات ہے کہ جو لوگ نکاح کے اخراجات کا مقدور نہیں رکھتے وہ خود ہی اس کام (نکاح) کا حوصلہ نہ کریں اور یہ خیال کریں کہ اکیلی جان کا بوجھ تو اٹھایا نہیں جاتا خوا مخواہ دوسرے کا گٹھ کیوں گردن پر رکھیں تو خیر وہ لوگ پرہیز گاری سے رہیں زنا کاری وغیرہ سے بچتے رہیں یہاں تک کہ ان کی نیک نیتی کا نتیجہ ظاہر ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے کم سے کم اتنا غنی کر دے کہ نکاح کے اخراجات کے علاوہ نان ونفقہ کا تحمل بھی کرسکیں مگر اس رکنے کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اس تجرد میں ان کو پریشان خیالات پیدا نہ ہوں اس کے علاوہ ایک بات اور سنو ! کہ تمہارے مملوکہ غلاموں میں سے جو مکاتبت چاہیں اگر تم بھی ان میں کچھ بھلائی جانو تو مکاتبت کرو یا کرو یعنی تم ان کے برتائو سے یہ جانتے ہو کہ اگر ان کو کھلا چھوڑا جائے گا تو کما کر بچائیں گے اور وعدہ وفائی کرئیں گے تو ایسے غلاموں سے بے شک مکاتبت کرلیا کرو تاکہ ان کی آزادی کی کوئی صورت نکل آوے بلکہ ان سے اور سلوک کرنے کو اللہ کے مال میں سے جو اس نے تم کو دیا ہے بطور راس المال بضاعت کے ان کو بھی دیا کرو وہ اس سے کچھ کاروبار کریں اور کمائیں کیا تم نے نہیں سنا ؎ چو حق بر تو پاشد تو برخلق پاش اور سنو ! یہ بھی کیسا ایک واہیات اور قابل نفرت کام ہے جو عرب کے بعض لوگ کرتے ہیں ہ لونڈیوں سے جبرا زنا کاری کرواتے ہیں اور اس کمائی سے پیٹ پالتے ہیں حالانکہ لونڈیاں خود اس سے متنفر ہوتی ہیں مگر وہ جبرا ان سے ایسا کراتے ہیں پس تم اپنی لونڈیوں کو زناکاری پر مجبور نہ کرنا اگر وہ زنا سے بچنا چاہیں تم کو شرم نہیں آتی کہ تم ان پر جبر کرتے ہو شرم چاہئے کہ وہ عورتیں ہو کر اس بدکاری سے بچیں اور تم مرد ہو کر اتنا نہ سمجھو کہ تم کو ان سے زیادہ پرہیز کرنا چاہئے کیا تم اس لئے ایسا کرتے ہو کہ دنیا کی زندگی کا مال و متاع حاصل کرو پس اس شرارت سے باز آئو اور ایسے روپیہ پر لعنت بھیجو اور یاد رکھو کہ جو کوئی ان کو زنا کاری اور دیگر ناجائز حرکات پر مجبور کرے گا وہ لونڈیاں تو بری رہیں گی کیونکہ ان کی مجبوری کے بعد اللہ ان کے حق میں بخشنہار مہربان ہے مگر ان مردوں کی خیر نہ ہوگی جو ان کو مجبور کریں گے یہ مت سمجھو کہ اگر وہ لونڈیاں بھی اس بدکاری پر راضی ہوجائیں تو پھر یہ جائز ہوگا نہیں کیا تم نے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر نہیں سنا کہ (ینھی عن الفحشاء والمنکر) اللہ تعالیٰ مطلق زنا اور بدکاریوں سے منع فرماتا ہے پس تم ایسا خیال دل میں کبھی نہ لائو کیونکہ ہم نے تمہاری طرف کھلے کھلے اور واضح احکام بھیجے ہیں اور تم سے پہلے گذشتگان کی حکایات بھی تم کو سنائی ہیں اور پرہیز گاروں کئے بد وعظ اور نصیحت اتاری ہے پس اس سے فائدہ حاصل کرو اور اسی کی طرف دل لگائو چونکہ اس کلام منزل میں افہام وتفہیم کے کئی ایک طریقے ہیں کبھی دلائل عقلیہ سے ہے تو کبھی نقلیہ سے کبھی گذشتگان کے واقعات سے ہے تو کبھی آئندہ کے حالات سے کبھی کسی معقول کو محسوس کی تشبیہ سے تو کبھی محسوس کو معقول سے چنانچہ یہاں بھی ایک مثال بطور تشبیہ کے تم کو سنائی جاتی ہے کہ تم کو جو بار بار کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا اصل مقصود اور مدعا سمجھو اور اسی کے رنگ میں رنگے جائو النور
33 النور
34 النور
35 (35۔40) اس کی ایک مثال تم کو سناتے ہیں کان لگا کر سنو ! اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک چراغ ہے مگر وہ چراغ ایسے ہی نہیں بلکہ شیشے میں ہے وہ شیشہ بھی کیسا سبحان اللہ ایسا شفاف و صاف ہے کہ گویا وہ چمکیلا ستارہ ہے جو زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے جلتا ہے جو پہاڑ سے نہ پورب کی جانب ہے نہ پچھم کی بلکہ عین بیچ و بیچ ہے اس کا تیل ایسا صاف شفاف ہے کہ خود بخود جلنے کو ہوتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے اسی کے حق میں صحیح ہے کہ کہا جائے کہ نور علی نور ہے یعنی ایک تو اس تیل کی ذاتی صفائی اور دوسرے اس کی شفاف روشنی تیسرے شیشے کی چمک یہ سب باتیں مل جل کر ایک دوسرے کی ایسی معاون ہوئی ہیں کہ نور علی نور بن گیا ہے پس یہی مثال ہے اللہ کے نور یعنی عشق کی جس طرح یہ روشنی تمام ظلمات پر غالب آتی ہے اسی طرح اللہ کے عشق کی آگ تمام مظلمات ہیولانیہ اور خواہش نفسانیہ کو دور کردیتی ہے یہی معنی‘ میں صوفیائے کرام اس قول کے جو کہا کرتے ہیں العشق نار عشق الٰہی ایک ایسی آگ ہے جو اللہ کے سوا سب کچھ خاکستر کردیتی ہے۔ (منہ) تحرق ما سوی اللہ جو لوگ عشق الٰہی کے نور سے منور ہوگئے ہیں وہ تمام چیزوں سے روگردان ہوچکے ہیں حتیٰ کہ ان کو حسب ونسب کا بھی خیال نہیں کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ کیا کہتے ہیں ؎ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست وہ تو اس قدر عشق الٰہی میں مست الست ہوتے ہیں کہ بجز ذات محبوب حقیقی کے کسی چیز پر ان کی نظر نہیں ٹکتی بلکہ اجسام مادیہ کو بھی وہ اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ ازیں بتاں ہمہ درچشم من تو مے آئی بہر کے مے نگرم صورت قومے نگرم اللہ تعالیٰ اپنے نور یعنی حقیقی عشق کی طرف جسے چاہے راہ نمائی کرتا ہے پھر اس کی اعلیٰ منزل پر پہونچ کر دائمی راحت میں ہوجاتے ہیں جہاں پر یہ انعام میں روح وریحان و جنت نعیم مت سمجھو کہ یہ آگ تو جسمانی ہے جسمانیات کو ڈہانپ لیتی ہے کیا اللہ بھی جسم ہے؟ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بتلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا علم ہے اسی لئے تو اسکی کتاب جامع ہے اور اس مثال واضح تر مثال مذکور کا تتمہ ہنوز باقی ہے کہ وہ قندیل ایسے گھروں میں رکھی ہے جن کے حق میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اس اللہ کا نام ذکر کیا جائے اور وہ گھر ایسے ہیں کہ ان میں صبح شام اللہ کے نیک بندے تسبیحیں پڑھتے ہیں وہ ایسے بندے ہیں جن کو خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرسکتی دنیاوی کوئی کام بھی کریں ان کاموں کو نہیں بھولتے کیونکہ وہ جو کام کرتے ہیں مالک کی اجازت سے کرتے ہیں اس لئے جس وقت اور جس گھڑی مالک کی اجازت ان کو حاصل ہوتی ہے کام کرتے ہیں اور جس وقت نہیں ہوتی نہیں کرتے گویا ان کا اصول یہ ہے ؎ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہے اسی لئے وہ کر کرا کر بھی اپنی نیک کرداری پر نازاں نہیں ہوتے بلکہ اس قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں مارے خوف کے دگر گوں ہوجائیں گی مگر ان کے خوف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ان کے عملوں کا بہتر سے بہتر بدلہ دے گا اور ان کو اپنے فضل سے ان کے استحقاق سے زیادہ دے گا اور یہ تو عام طور پر سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے تاہم یہ قاعدہ بھی اپنے لئے محل رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس فضل کے اہل ہیں انہی کو دیتا ہے مگر اہل نااہل کا جاننا بھی اسی کا کام ہے تمہارا نہیں اور سنو ! جو لوگ اللہ اور اللہ کے حکموں سے منکر ہیں ان کے اعمال جو تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑا کام کیا فلاں تعلیمی صیغہ میں اتنا چندہ دیا۔ فلاں ہسپتال بنانے میں اتنی امداد دی جس کا نام وہ قومی کام رکھتے ہیں چونکہ وہ صرف محض ننگ و نمود اور فخر و ریا کیلئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ایسے دھوکہ کی ٹٹی ہے جیسے چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا اس کو پانی سمجھتا ہے اور اس کی طرف دوڑتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے مفید مطلب کچھ نہیں پاتا اور مارے پیاس کے تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے تو بعد الموت اللہ ہی کو اپنے پاس پاتا ہے پھر اللہ اس کو پورا حساب دیتا ہے جس لائق ہوتا ہے وہی معاملہ اس سے کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے آن کی آن میں تمام دنیا کو جزا و سزا دے سکتا ہے یا ان کے اعمال ایک ایسی چیز کی طرح ہیں جو گہرے دریا میں اندھیروں کے اندر ہے جس کے اوپر پانی کی موج ہے اس پر پھر ایک موج ہے اور اس موج سے اوپر بادل ہیں غرض ایک دوسرے کے اوپر اندھیرے اس کثرت سے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے دیکھ نہیں سکتا یہ مثال ان کے نیک اعمال کی ہے یعنی جس طرح ایسے اندھیروں میں کوئی چیز پڑی ہو تو وہ محض باکیر ہے اسی طرح ان کے اعمال کفر شرک بد اعتقادی میں ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا اور نہ کچھ سود مند ہوسکتے ہیں گویا وہ اپنی ہستی میں معدوم ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ ہی نور نہ دے اس کو کہیں سے بھی نور کا سہارا نہیں مل سکتا جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں کہ دنیا کا کل نظام اور ترقی اور تنزل کا کل مدار اسی اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ اسی کے ہو رہتے ہیں النور
36 النور
37 النور
38 النور
39 النور
40 النور
41 (41۔44) کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات پاک ہے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب اسی کے نام کی تسبحیں ش پڑھتی ہیں اور جانور بھی صفیں باندھے ہوئے تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کو یاد کرتے ہیں یہ مت سمجھو کہ ان کو کیا معلوم کہ تسبیح کیوں کر پڑھا کرتے ہیں یاد رکھو ہر ایک ان میں کا اپنی عبادت اور تسبیح کو جانے ہوئے ہے کیا تم نے نہیں سنا مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کنا ترا اصطلاحے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کاموں کا علم ہے وہ کسی نماز اور تسبیح سے غافل نہیں اور سنو ! یہ تمام دبدبہ اور تسبیح خوائی یونہی تو نہیں بلکہ اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی اصل بادشاہی اللہ ہی کے قبضے میں ہے اور سب چیزوں کی بازگشت اور رجوع بھی اللہ ہی کی طرف ہے ممکن نہیں کہ دنیا میں کوئی کام بغیر اس کے سہارے اور حکم کے از خود ہوسکے جن کاموں کو تم دیکھتے ہو کہ بظاہر اپنے اپنے اسباب سے ہوتے ہیں ان میں چھپا ہاتھ اللہ ہی کا ہے بھلا تم نے دیکھا نہیں کہ بادلوں کو ہوائیں کس طرح اڑاتی ہیں جو ظاہر بینوں کی نظروں میں ہوائوں کا کام دکھائی دیتا ہے مگر دراصل اللہ ہی بادلوں کو ہانکتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑ کر تہ بتہ کردیتا ہے ہوائیں بھی تو اسی کے حکم سے چلتی ہیں پس جب وہ ٹھیک اپنے اندازہ پر آجاتے ہیں جس کا علم اللہ ہی کو ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان بادلوں کے مسامات میں سے مینہ نکلتا ہے یہ سب کام اسی ذات ستودہ صفات وحدہ لا شریک کے ہیں جس کی بابت یہ کہنا بالکل صحیح ہے ؎ کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اور وہی اللہ اوپر کی طرف سے برف کے گالے پہاڑ کے ٹکڑے جیسے اتارتا ہے ان میں سخت ٹھنڈک ہوتی ہے پھر جس پر چاہتا ہے وہ برف پہونچا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے یعنی جس زمین پر برف باری مناسب ہوتی ہے وہاں تو برف پڑجاتی ہے اور جہاں مناسب نہ ہو وہاں سے ہٹائی جاتی ہے یہ سب اسی کی قدرت کے مظاہر ہیں اس بادل میں بجلی کا چمکا رہ ایسا تیز ہوتا ہے کہ آنکھوں کے نور کو اچک لے ان کمالات قدرت کے علاوہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے یہ سب چکر اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اس لئے کچھ شک نہیں کہ اس میں عقل مندوں کے لئے بہت بڑی ہدایت اور عبرت ہے کیونکہ وہ ان امور پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ فلک کو کب یہ سلیقہ ہے ستمگاری میں کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں النور
42 النور
43 النور
44 النور
45 اور سنو ! اللہ ہی نے ہر ایک جاندار کو پانی سے پیدا کیا یعنی چونکہ ہر ایک جاندار کی پیدائش میں پانی کو بہت دخل ہے اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ پانی سے پیدا کیا پھر بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ اپنے پیٹ پر چلتے ہیں جیسے سانپ گوہ وغیرہ اور بعض ایسے ہیں کہ اپنے دونوں پیروں پر چلتے ہیں جیسے کبوتر مرغا خود حضرت انسان بھی اور بعض ایسے ہیں کہ چاپیروں پر چلتے ہیں جیسے گائے بھینس وغیرہ دو پائے اور چار پائے تو تمہارے سمجھانے کو بنائے ہیں ورنہ دنیا میں ایسے جانور بھی ہیں جن کی کئی کئی ٹانگیں ہیں اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے یہ بالکل ٹھیک ہے ؎ وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار النور
46 (46۔54) بلکہ بعض نادان پھر بھی نہیں سمجھتے بلکہ سمجھانے والوں سے الٹے الجھتے ہیں مثلاً انہی کفار عرب دیکھو تو باوجودے کہ ہم (اللہ) کھلے کھلے احکام اتارتے ہیں تاہم ناحق بگڑتے ہیں اور بیہودہ سوالات کئے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اللہ ہی جسے چاہے سیدھی راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے مناسب ہے کہ اس کی رضا جوئی کریں تاکہ اس کی مہربانی سے حصہ لیں مگر ان کو اس بات کا مطلق خیال نہیں الٹی شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور دیکھو کہ سامنے آن کر تو کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے ہیں اور فرماں بردار ہیں زبانی یہ بات کہہ کر پھر بھی اس کے بعد ایک جماعت ان میں سے روگردان ہوجاتی ہے اور سچ پوچھو تو وہ دل سے ایمان دار ہی نہیں ہوتے بلکہ یونہی زبانی زبانی تم مسلمانوں کو فریب دیتے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ وہ دل سے پابند شریعت نہیں ہوتے اور جب کبھی ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے کہ رسول حسب فرمان الٰہی ان میں فیصلہ کرے تو اسی وقت ایک جماعت ان میں سے روگردان ہوجاتی ہے صاف اور کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں شریعت منظور نہیں جیسے کہ ہندوستان کے مسلمان عدالتوں میں لڑکیوں کو حضہ دینے کے وقت کہدیا کرتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ رواج پر ہونا چاہئے اور اگر ان کو حق پہونچتا ہو تو اس رسول اور رسول کے فرمودہ کی طرف دوڑتے چلے آتے ہیں یہ جو ایسا کرتے ہیں کیا ان کے دلوں میں کفر کا مرض ہے یا یہ رسول کی سچائی سے شک میں ہیں یا ان کو خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے چونکہ زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اس لئے ان تینوں باتوں میں سے کچھ نہیں کہہ سکتے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں نہ ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت ہے نہ رسول کی تعظیم ہے بلکہ محض اپنے نفس کے پابند ہیں ہاں جو پکے ایمان دار ہیں ان کی کیا بات ہے ایسے ایمان داروں کو جب کسی جھگڑے میں کسی نزاع میں اللہ اور رسول اور ان کے فرمودہ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان میں فیصلہ کرے تو چونکہ اپنی تمام کامیابی اور ساری عزت صرف رضاء الٰہی اور خوشنودی رسالت پناہی میں جانتے ہیں اس لئے ان کا جواب بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور دل سے تابع ہیں جو کچھ شریعت فیصلہ کردے گی ہمیں منظور ہے اگر ہم اپنے خیال ناقص میں کسی چیز پر اپنا حق سمجھتے ہوں مگر شریعت ہمارے خیال کے برخلاف فیصلہ کردے تو علی الراس والعین ہوگا اور اگر سچ پوچھو تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک کامیاب اور بامراد ہیں کون نہیں جانتا کہ غلام کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اپنے مالک کا پورا مزاج شناس ہو کر دل سے فرماں بردار ہو جو غلام ایسا ہوگا وہی عزت پاوے گا اس لئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے اور اللہ سے ڈرتے رہیں گے اور اس کی نافرمانی سے بچیں گے پس وہی لوگ اللہ کے نزدیک کامیاب ہوں گے ایسے لوگوں کو پہنچاننا چاہو تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے اور یہ جو لوگ جو تمہارے ارد گرد منافق ہیں اور زبانی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ بڑی مضبوطی سے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تو اے نبی ان کو جہاد وغیرہ دینی کاموں کیلئے سفر کرنے کا حکم دے تو ضرور نکلیں گے تو اے نبی ! ان سے کہہ کہ ہم نے تم کو کئی ایک بار دیکھ لیا آزمالیا ہے پس تم قسمیں نہ کھائو محض قسموں سے تو فائدہ نہیں مطلب تو اچھی تابع داری سے ہے سو اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اسے تمہارا تمام حال من وعن سب معلوم ہے پس تو ان سے کہہ کہ اللہ کی تابعداری کرو اور اس کے رسول کی جو الٰہی کے احکام تم کو سنائے فرمانبرداری کرو پھر یہ سن کر اگر وہ روگردان ہوں تو نبی کا اس میں کوئی حرج نہیں اس کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کے ذمہ ہے اور تم لوگوں کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ تم پر ہے نبی کو تبلیغ احکام کا حکم ہے وہ نہ کرے گا تو اس کو اس سے سوال ہوگا تم کو اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم ہے تم نہ کرو گے تو تم سے سوال ہوگا اور اگر تم فرمانبرداری اختیار کرو گے تو ہدایت پائو گے اور رسول کے ذمے صاف صاف پہچانا ہے النور
47 النور
48 النور
49 النور
50 النور
51 النور
52 النور
53 النور
54 النور
55 (55۔57) ہاں اگر تم یہ خیال کرو کہ ہم جو فرمانبرداری کریں گے تو علاوہ جنت اور اخروی ثواب کے دنیا میں ہم کو کیا ملے گا تو سنو ! گو دنیا دار جزا نہیں ہے تاہم جو لوگ تم مخاطبوں میں سے ایمان لا کر نیک عمل بھی کریں گے اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ ان کو زمین پر حاکم بنادے گا جیسا اس نے ان سے پہلے لوگوں بنی اسرائیلیوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جو خود اللہ نے ان کے لئے پسند کیا ہے مضبوط کردے گا یعنی اس کو کسی مخالف کی مخالفت سے صدمہ نہ پہنچے گا اور ان کے خوف زدہ ہونے کے بعد جو اس وقت دشمنوں کی طرف سے ان کو ہورہا ہے ان کو امن دے گا بس اس کے بعد وہ آرام اور اطمینان سے میری (اللہ کی) بندگی کریں گے اور کسی مشرک کافر کے دبائو یا خوف سے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے یہ انعام ایمان داروں کو دنیا میں ملے گا اور جو اس کے بعد بھی ان احسانات اور انعامات کی نا شکری کرینگے پس ثابت ہوجائیگا کہ وہی لوگ اللہ کے نزدیک بدکار ہیں پس تم لوگ ایسے نہ بنو بلکہ ابھی سے ایمان لائو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول (علیہ السلام) کی پیروی کیا کرو تاکہ اللہ کی طرف سے تم پر رحم کیا جائے اور یہ تو خیال ہی نہ کرو کہ کافر لوگ اتنے ہیں اتنی ان کی جماعت اور سامان ہے یہ کیونکر ہوگا یہ سب مغلوب ہوجائیں اور مسلمان ان پر غلبہ حکومت پا جائیں یہ واہمہ دل سے نکال دو یہ مت خیال کرو کہ کافر لوگ زمین میں اللہ کو کوئی حکم جاری کرنے سے عاجز کرسکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں بھلا جو کام اللہ کرنا چاہے اسے کوئی روک سکتا ہے؟ کیا تم نے نہیں سنا کہ ؎ اوست سلطاں ہرچہ خواہدآں کند عالمے را دردمے ویراں کند ان کافروں کی تو ہستی ہی کیا ہے اگر تم لوگ زندہ رہے تو دیکھ لو گے کہ یہ لوگ دنیا میں بھی تمہارے سامنے ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ آگ ہوگا جو بہت بری جگہ ہے (یہ آیت سیوھوں اور شیعوں کے مشہور متنازعہ مسئلہ خلافت کا فیصلہ کرتی ہے بشرطیکہ کوئی شخص اس آیت کریمہ کو غور سے دیکھے اور جانبداری اور اپنے سابقہ خیالات کو دل و دماغ سے نکال دے آیت کے الفاظ یہ ہیں وعداللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت منکم کے لفظ کو اگر بیانیہ کہا جائے تو بہت موزوں ہے لیکن اگر نہ بیانیہ نہ بھی کہیں تو کچھ حرج نہیں بہرحال یہ آیت قرآن مجید کے اول المخاطبین سے اول تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس میں صیغہ خطاب کا ہے جو منکم سے مفہوم ہوتا ہے پس آیت کا ترجمہ صاف یہ ہوا کہ مخاطبوں میں سے ایمانداروں اور نیک کرداروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ تم کو خلیفہ بنا دے گا پھر اس خلافت کے آثار اور علامات بھی فرما دیتے ہیں (١) دین ان کا مضبوط کرے گا (٢) اور اسے بے خوف کر دے گا (٣) اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا ساجھی نہ بنائیں گے اب اگر کوئی شخص ان علامات کو مدنظر رکھ کر غور سے تلاش کرے کہ اس قسم کی خلافت مسلمانوں کو کب ملی تو اس کو کوئی شک نہ رہے گا کہ اس قسم کی حکومت خلفاء راشدین کے زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل تھی خلفاء امیہ اور عباسیہ کے وقت بھی اسلام کو فتوحات ہوئیں مگر وہ اس پیش گوئی کی مصداق نہیں ہوسکتیں کیونکہ ایک تو وہ خلفا نزول قرآن مجید کے اول مخاطب نہ تھے بلکہ بعد کی نسلیں تھیں۔ دوم ان کی خلافتوں کی فتوحات بھی اونہی فتوحات پر مبنی تھیں جو خلفائے راشدین کر گئے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ آنحضرت کے بعد عرب میں جب بغاوت پھیلی۔ ایک طرف مسلمہو کذاب نے زور پکڑا۔ دوسری طرف مانعین زکوٰۃ مسلمان باغیوں نے تہلکہ مچایا مگر صدیق اکبر (رض) کے استقلال نے ان سب بغاوتوں کا آسانی سے خاتمہ کردیا اور تمام عرب پر اسلامی سکہ جما کر فتوحات کے لئے عرب خاص سے آگے کا راستہ صاف کردیا۔ ان کے بعد حضرت فاروق اعظم نے اس راستہ کو شاہ راہ بنایا۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں فتوحات گو اس زور کی نہ ہوئیں تاہم ہوئیں کوئی ملک یا حصہ خلافت سے نہ نکلا تھا بلکہ داخل ہوا بعد میں جو کچھ ہوا وہ انہی کی طفیل سے ہوا اعداد سے بخوبی تو ایسی تمہیں کہ اعدا خود ڈرتے تھے کہ کہیں مسلمان ہم پر حملہ آور نہ ہوں توحید کی منادی جیسی اس زمانہ میں ہوئی کبھی نہیں ہوئی۔ اس موقع پر ہمیں یہ بتانا ضروری نہیں کہ فتوحات اسلامیہ جیسی حضرات خلفاء ثلاثہ کے زمانہ میں ہوئیں حضرت علی کے زمانہ میں نہ ہوئیں۔ جیسا رعب اور انتظام خلفاء ثلاثہ کے وقت میں تھا خلیفہ رابع کے وقت میں نہ رہا۔ جیسا اتفاق خلفا ثلاثہ کے وقت میں تھا خلیفہ رابع کے وقت میں نہ رہا۔ اس تفصیل کی نہ ہم کو ضرورت ہے نہ ہم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو الفاظ وعدہ کے آئے ہیں ان پر نظر انصاف کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ وعدہ خلفاء ثلاثہ راشدین کے زمانہ میں پورا ہوگیا حضرت علی کا زمانہ گو ایک قسم کی بدمزگی نااتفاقی اور خانہ جنگی کا تھا تاہم خیر و برکت سے خالی نہ تھا ہر طرح سے دین کی عزت اور دینی علم کا اعزاز تھا جب کہ یہ عام قاعدہ ہے کہ اللہ پنج انگشت یکساں نہ کرو تو پھر کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ خلفاء راشدین بھی ایک ہی طرز پر ترقی کرتے ہاں مجموعی حالت کے لحاظ سے سب آیت کریمہ کے وعدے کے مصداق تھے۔ افسوس کہ آیت کریمہ کے صاف الفاظ کے مقابلہ پر شیعہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے من کنت مولاہ فعلی مولاہ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے اور مولا کے معنے والی امور اور حاکم کے بتاتے ہیں حالانکہ مولا کے معنے دوست اور محبوب کے بھی آتے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں ارشاد ہے یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئا یہاں مولیٰ سے مراد یقینا دوست ہے اسی طرح حدیث مذکور میں ہے اسی لئے ان الفاظ کے ساتھ یہ مذکور ہے اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ یعنی آنحضرت نے بعد فرمانے سابق ارشاد کے فرمایا اے اللہ جو کوئی علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھیو اور جو علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھیو یعنی اس کو مبغوض کیجئیو ہماری پیش کردہ آیت اور حدیث کے اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی کے مولا ہونے سے مراد دوست اور محبوب ہونا ہے نہ کہ والی امور۔ پس اس سے یہ ثابت نہ ہوا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق وغیرہ کی خلافت آیت کریمہ کی مصداق نہ تھی بلکہ علی کی تھی۔ افسوس صد افسوس ہے کہ ایک تو آیت قرآنیہ سے غفلت کی جاتی ہے دوم روایت پیش کردہ کے معنے بھی حسب منشا کرنے کی کوشش کر کے ناحق صاف اور صحیح واقعات کو مکدر کرنے میں وقت ضائع کیا جاتا ہے الی اللہ المشتکی (منہ) النور
56 النور
57 النور
58 (58۔60) چونکہ اللہ کو منظور ہے کہ مسلمانوں کو ہر ایک طرح کی برائیوں سے دور رکھے اور اخلاق فاضلہ کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دے تاکہ یہ کسی طرح سے بھی اس بری جگہ میں جہاں کفار ناہنجار نے داخل ہونا ہے داخل نہ ہوں اس لئے وہ حکم دیتا ہے اے ایمان والو ! جو تمہارے غلام ہیں گو وہ تمہارے گھر کے کہلاتے ہیں مگر تو بھی وہ اور تمہارے نابالغ لڑکے تین اوقات میں ضرور ہی تم سے اجازت لیا کریں اگر تم اجازت دو تو تمہارے پاس گھر میں آویں ورنہ واپس جائیں وہ اوقات یہ ہیں صبح کی نماز سے پہلے اور جب تم دوپہر کو کپڑے اتارا کرتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد سوتے وقت صبح کی نماز سے پہلے بھی ممکن ہے کوئی سوتا ہوا ننگا ہو یا میاں بیوی کا ملاپ ہو۔ دوپہر کو بھی قیلولہ کے وقت علی ہذا القیاس عشاء کے بعد بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے غرض یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں بعد ان اوقات کے بے اجازت اگر وہ آئیں تو نہ تم پر گناہ ہے نہ ان پر کیونکہ تمہاری حاجات ایک دوسرے سے ایسی وابستہ ہیں کہ بعض کو بعض کے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے مالک غلام سے اور غلام مالک سے الگ نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے فائدہ کے لئے احکام بیان کرتا ہے اور اللہ کے حکم سب کے سب بڑے علم اور حکمت پر مبنی ہیں کیونکہ وہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے۔ پس ان پر عمل کرو اور سنو ! جب یہ تمہارے نابالغ بچے بلوغت کو پہونچیں یعنی ان میں وہ خواہش پیدا ہوجائے جو مرد کو عورت سے ہوتی ہے جس کی ابتدا عموما پندرہ سال کی عمر سے ہے تو پھر وہ اجازت لیا کریں جس طرح ان سے پہلے بالغ لوگ اجازت لیتے رہے ہیں کیونکہ یہ بھی تو اب بالغ ہیں جن لڑکیوں کے ساتھ ان کے نکاح درست ہیں گو وہ لڑکپن میں ان کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں اور گو وہ چچا اور ماموں ہی کی لڑکیاں ہوں تاہم ان کو ان سے پردہ چاہئے کیونکہ اب دونوں فریقوں میں ایک دوسرے کی خواہش اور چاہت پیدا ہوگئی ہے اس لئے خطرہ ہے کہ چار چشم ہونے سے کوئی برا نتیجہ نہ پیدا ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے اور حسب ضرورت کرتا رہے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے اس لئے اس کے احکام بھی سراسر پر از علم و حکمت والا ہے اس لئے اس کے احکام بھی سراسر پر از علم و حکمت ہوتے ہیں اور سنو ! بڑی بوڑھی عورتیں جو اپنے بڑہاپے کی وجہ سے مرد سے ملاپ کی خواہش نہیں رکھتیں اگر کپڑے سے نقاب وغیرہ اتار دیں تو ان پر گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور اصل بات تو یہ ہے کہ اس سے بھی احتیاط رکھنا ان کے لئے بہتر ہے کیونکہ عربی میں ایک مثال ہے کل ساقطۃ لا قطۃ (ہرگری) ہوئی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے) ایسی بوڑھی عورتوں کو گو خود خواہش نہ ہو ممکن ہے کوئی ایسا بھی ہو جو محض اپنی خواہش سے ان پر دبائو ڈالے اور چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑے علم والا ہے النور
59 النور
60 النور
61 (61۔62) اس لئے تم لوگ اس کی مرضی کے برخلاف باتیں کرنے اور دل میں اس کے مخالف خیالات لانے سے پرہیز کیا کرو دیکھو جس طرح یہ اخلاقی احکام تم کو سکھائے جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی تم کو بتلایا جاتا ہے کہ کسی کے گھر پر جا کر کوئی چیز رکھی رکھائی بے اجازت نہ اٹھا لیا کرو بلکہ جب تک صاف اجازت نہ ہو مت اٹھایا کرو مگر چند ایک صورتیں ایسی ہیں کہ وہاں اجازت کی ضرورت نہیں ہے وہ سنو ! نہ کسی اندھے کو گناہ ہے نہ کسی لنگڑے کو نہ کسی مریض کو نہ خود تم تندرستوں کو اس میں گناہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھر سے یا اپنی مائوں کے گھر سے کھائو یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی ماسیوں کے گھروں سے کھائو یا جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یعنی تم ان کے مکانات کے منتظم یا مہتمم ہو ان کے گھروں سے کھائو یا اپنے مخلص دوستوں کے گھروں سے کھاؤ غرض جہاں سے تم چاہو اجازت سے کھائو کوئی حرج نہیں نہ کوئی گناہ ہے کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ ہندو کی طرح جس محلہ یا گائوں میں لڑکی بیاہ دی ہے اس محلہ اور گائوں کے کنوئیں کا پانی بھی مت پئیو جو ایک قسم کا مالیخولیا ہے نہیں چونکہ ایک دوسرے کے گھر میں کھانے سے محبت اور الفت بڑھتی ہے اس لئے تم کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر یہ رشتہ دار خود کھلائیں تو بھی تم کو کھانے میں حرج نہیں یا تم خود ان کے گھروں سے بغیر ان کی اطلاع کے کھالو تو بھی حرج نہیں بشرطیکہ یہ تم کو معلوم ہو کہ وہ رنجیدہ نہ ہوں گے اور تمہیں اس میں بھی گناہ نہیں کہ تم چند آدمی ساتھ مل کر کھائو یا الگ الگ کھائو چونکہ تم اخلاقی باتوں کی تعلیم پاچکے ہو پس تم کو لازم ہے کہ جب تم اپنے یا احباب کے گھروں میں جائو تو اپنے لوگوں کو جو وہاں پر موجود ہوں مرد ہوں یا عورتیں سلام دیا کرو جو اللہ کی طرف سے پاکیزہ بابرکت تحفہ ہوگا اس کی وجہ سے اللہ تم پر برکت کرے گا اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو اور عمل کرو کیونکہ شریعت نازل کرنے اور رسول بھیجنے سے مقصود تو یہی ہے کہ لوگ تابع داری کریں نہ کہ زبانی باتیں بنائیں جو کسی کام نہ آئیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمان تو بس وہی لوگ ہیں جو اللہ کی الوہیت پر اور رسول کی رسالت پر ایمان لاویں اور جب کسی جمع ہونے کے کام میں جس میں جمعیت کی ضرورت ہو مثلا جنگ جہاد وغیرہ میں اس رسول کے ساتھ ہوں تو اذن لئے بغیر نہ جائیں غرض یہ کہ رسول کے احکام کو جان سے مانیں اور دل سے عزت کریں بس یہی لوگ ایماندار ہیں یہ مت سمجھو کہ ضرورت کے وقت اذن لے کر جانا بھی ایمانداری کے خلاف ہے نہیں جو لوگ ضرورت کے وقت اے نبی تجھے اذن لیتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہی لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں بھلا اگر وہ ایسے نہ ہوں تو چپکے سے نہ چلے جائیں ہاں جو لوگ بے وجہ اور بلا ضرورت اذن مانگا کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں پس جب یہ دیندار ایمان دار مخلص لوگ اپنی ضرورت کے موافق کسی کام کو جانے کی اے نبی ! تجھ سے اجازت چاہیں تو حسب مصلحت جس کو تو چاہے اجازت دیا کر یعنی جو آدمی ایسا ہو کہ اس کی غیر حاضری میں ضروریات نہیں رکھتیں اور انتظام میں فرق نہیں آتا تو اجازت دے دیا کر اور جو ایسا نہ ہو بلکہ اس کی غیر حاضری سے خلل انتظام کا خطرہ ہو تو اس کو اجازت مت دیا کر خواہ وہ اپنی ضرورت خانگی کیسی ہی بتلا دے کیونکہ یہاں کی قومی ضرورت شخصی ضرورت سے ہر طرح مقدم ہے اسی لئے یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی اجازت چاہے ضرور ہی اسے اجازت دی جائے نہیں بلکہ اپنی مصلحت کا خیال رکھ کر اجازت دیا کر اور اللہ سے ان کے لئے بخشش مانگا کر گو انہوں نے حسب ضرورت ہی اجازت لی ہے تاہم نقص سے خالی نہیں پس یہ نقص اعمال تیرے استغفار سے ان کے حق میں پورا ہوجائے گا اور اس میں شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے النور
62 النور
63 (63۔64) مسلمانو ! سنو ! تمہیں بھی چاہئے کہ تم رسول یا نائب رسول کی آواز کو جب وہ تم کو بلائے تو آپس میں ایک دوسرے کی سی آواز نہ سمجھا کرو کہ جی چاہا تو مان لیا نہ چاہا تو نہ مانا نہیں بلکہ رسول کی آواز کو ماننا تمہارا فرض مقدم ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے چھپ چھپ کر کھسک جاتے ہیں وہ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں پس جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں سے ان پر کوئی آفت آن پہونچے یا کوئی درد ناک عذاب ان پر آنازل ہو جس سے کوئی بھی نہ بچ سکے یہ خیال مت کرو کہ ایسا عذاب کہاں سے آئے گا ہم تو امن امان سے بیٹھے ہیں پس یقینا سن رکھو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب اللہ ہی کے قبضے میں ہے ہوا ہے تو اس کی ہے پانی ہے تو اس کا ہے آسمان ہے تو اس کا ہے زمین ہے تو اس کی ہے وہ جس چیز سے چاہے تمہارے برخلاف کام لے سکتا ہے تم نے کئی ایک دفعہ دیکھا ہوگا کہ یہی زمین جس پر تم لوگ فرش فروش لگ کر بیٹھتے ہو جب زلزلہ آتا ہے تو اسی زمین پر سے تم ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہو اسی طرح سب چیزیں اسی زیر فرمان ہیں تم جس خیال پر ہو اسے سب معلوم ہے اور جس روز یہ لوگ بعد موت اس کی طرف پھر کر جائیں گے تو وہ ان کو ان کے کاموں سے خبریں دے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اسے کسی کے بتلانے کی ضرورت نہیں النور
64 النور
0 الفرقان
1 (1۔4) اللہ کی ذات بڑی برکت والی ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ دنیا کے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا دے جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمینوں کی ساری حکومت ہے اور اس نے اپنے لئے کوئی اولاد نہیں بنائی پھر کمال یہ ہے کہ اتنی بڑی حکومت اور سلطنت کے باوجود بھی وہ اکیلا ہی سب کچھ کرتا ہے اور ملک میں اس کا کوئی شریک نہیں جو امور سلطنت میں اس کا ہاتھ بٹائے وہ خود مختارہے اسی نے سب چیزوں کو پیدا کیا ہے اور ہر ایک چیز کیلئے مناسب اندازہ لگایا ہر ایک نوع کیلئے اس نے جو اندازہ مقرر کیا ہے ممکن نہیں کہ کبھی اس میں تخلف ہو یہی تو کمال ثبوت اس کے قادر مطلق اور خالق برحق ہونے کا ہے مگر ان مشرکوں کو دیکھو کہ ان کی عقل کیسی خبط ہو رہی ہے کہ انہوں نے اس اللہ کے سوا کئی ایک اور معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود پیدا کئے گئے ہیں طاقت اور قدرت ان کی کا یہ حال ہے کہ اپنے لئے بھی برے بھلے کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت کا ان کو اختیار ہے نہ حیات کا نہ قبروں سے اٹھنے کا غرض کسی قسم کا ان لوگوں کو اختیار نہیں جن کو انہوں نے اپنا معبود اور حاجت روا بنا رکھا ہے اور اگر بغور دیکھا جائے تو تمام مخلوق کی یہی کیفیت ہے کہ کسی کو بھی ان کاموں میں دخل نہیں کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ نے اپنے نبی بلکہ سید الانبیاء علیہم السلام کی ذات ستودہ صفات کی نسبت کیا ارشاد فرمایا ہے کہ قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشآء اللہ پس جب سید الانبیاء کی یہ شان ہے تو ان سے ورے کے لوگوں کی تو تم خود سمجھ لو جب یہ صاف صاف باتیں سنتے ہیں تو ان کے حواس باختہ ہوجاتے ہیں الفرقان
2 الفرقان
3 الفرقان
4 الفرقان
5 (5۔9) اور جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تو محض ایک بناوٹی بات ہے اس نبی نے اپنے دل سے اس کو گھڑ لیا ہے اس کے دل میں ایک منصوبہ از خود اٹھتا ہے اور آپ ہی اس پر کاربند ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں نے جو حقیقت میں حقیقت شناس نہیں اس پر ان کی مدد کی ہے ہاں میں ہاں ملا کرنا حق اس کو آسمان تک پہونچا رکھا ہے حقیقت میں یہ ان کی بدگمانی ہے پس یہ لوگ اس جھوٹ کی وجہ سے سراپا ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور سنو ! کہتے ہیں کہ یہ قرآن پہلے لوگوں کی حکایات ہیں جن کو اس نبی نے کسی سے لکھوا لیا ہے پس وہ صبح شام اس کو سنائی جاتی ہیں اور یہ ان کا نام الہام اور وحی رکھ لیتا ہے اے نبی تو کہہ کہ اس قرآن کو اس ذات پاک نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کے مخفی بھید جانتا ہے چنانچہ اسی کے بتلائے ہوئے بھید اس قرآن میں ملتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے یہ بھی اس کی مہربانی کا مقتضیٰ ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایسا عظیم الشان رسول بھیجا ہے مگر لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ بلکہ بے قدری سے الٹے پلٹے سیدھے ٹیڑھے اعتراضات جماتے ہیں اور کچھ نہیں ملتا تو آپ کی بشریت ہی پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے غلط خیال میں یہ جما رکھا ہے کہ رسول چونکہ اللہ کا نائب ہوتا ہے اس لئے اللہ کی طرح اس کو بھی کھانے پینے سے پاک ہونا چاہئے حالانکہ یہ غلط ہے۔ رسول اللہ کا نائب ہوتا ہے مگر کا ہے میں صرف احکام الٰہی کے پہنچانے میں نہ کہ اللہ کے ذاتی اوصاف میں جیسے یہ ان کی بیوقوفی ہے ویسے ہی یہ بھی غلطی ہے جو کہتے ہیں کیوں اس کے پاس کوئی ایسا فرشتہ نازل نہیں ہوتا جو اس کے ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراتا پھرے کہ لوگو ! یہ رسول ہے اس کی سنو ! یا اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو اسے کوئی خزانہ ہی ملا ہوتا یا اگر یہ بھی نہیں اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس کے پھلوں سے یہ کھاتا یہ کیا ماجریٰ ہے کہ کہلاتا تو ہے اللہ کا رسول مگر فاقوں کا شمار نہیں گذارہ کی صورت نہیں۔ یہ لوگ چونکہ الٰہی راز سے آشنا نہیں اس لئے جو کہتے ہیں اپنے اس غلط اصول پر کہتے ہیں جو ان کے دل و دماغ میں سما رہا ہے کہ اللہ کا رسول اللہ کی ذات اور صفات میں قائم مقام ہونا چاہئے مگر یہ نہیں جانتے کہ یہاں کا قانون ہی الگ ہے کہ دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانۂ تو ہر دو جہاں راچہ کند یہ لوگ اصل اصول سے بے خبر ہیں اس لئے جو جی میں آتا ہے بے ٹھکانہ کہتے جاتے ہیں ظالم خود غرض‘ ضدی اور معاند تو اس قرآن کی تعلیم کو ایک ایسی اوپری اور ناقابل قبول جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے جیسے کوئی مجنون کرتا ہے (اس آیت کا ترجمہ طبع اول کے وقت ” جادو کیا گیا“ لکھا تھا اس کے بعد لغت کی کتاب منتہی الارب پر نظر پڑی تو اس میں دیکھا کہ مسحور کے معنے ” برگردانیدہ شدہ از حق“ بھی لکھے ہیں۔ چونکہ قرینہ اور شہادت قرآنیہ (فانی تسحرون) سے یہ معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اس لئے طبع ثانی میں یہی پسند کئے گئے۔ منہ) دیکھو تو بھلا یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے کوئی دانا اس بات کو پسند کرے گا اور اس کے قائل کو دانا اور ہدایت یاب کہے گا جو یہ کہتا ہے کہ لوگ مر کر پھر جیئے گے یہ نہیں کہ واقعی اس کو جادو ہے اس کا کلام ہی ایسا ہے کہ سننے والا یہی سمجھے کہ سخت ترین گمراہ ہے اے نبی ! تو دیکھ تیرے حق میں کیسی بری بری مثالیں دیتے ہیں کبھی تجھ کو مسحور کبھی ساحر کبھی مجنون کبھی شاعر کہتے ہیں پس یہ گمراہ ہوگئے اگر اپنی اسی ضد پر رہے تو آپ یہ کسی طرح ہدایت کی راہ نہ پائیں گے الفرقان
6 الفرقان
7 الفرقان
8 الفرقان
9 الفرقان
10 (10۔16) یہ جو کچھ بھی کہتے ہیں محض عناد سے کہتے ہیں ورنہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی برکت والا ہے اگر چاہے تو تیرے لئے اس باغ سے جس کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں بہتر کئی ایک باغ بنا دے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور تیرے لئے بڑے بڑے محل بنوا دے جو بادشاہوں کے ہاں بھی نہ ہوں مگر ان کو کیا معلوم کہ قدرت اور ہے حکمت اور ہے اس لئے گو اللہ قادر ہے مگر اس کے ہاں قانون حکمت اور ہے بس یہ لوگ اس قانون ہی کو نہیں بلکہ قیامت کی گھڑی کو جھوٹ جانتے ہیں اور قیامت کی گھڑی یعنی جزا سزا کو جھٹلانے والوں کیلئے ہم نے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جب یہ اس کو دور سے دیکھیں گے تو اس کا جوش و خروش اور ہیبت ناک آواز سنیں گے اور جب ہاتھ پیر جکڑے ہوئے اس میں کسی تنگ مکان کے اندر ڈالے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے کہ ہائے موت تو کسی طرح آجائے تو ہم چھوٹ جائیں جواب ملے گا کہ آج تم ایک موت نہ مانگو ایک سے تو تمہاری جان کیا نکلے گی ایسی دکھی جانوں کیلئے بہت موتیں مانگو تاکہ بہت سی موتیں مل کر شاید تمہارا کام پورا کرسکیں یہ بات بھی تو ان کو ایک حسرت دلانے کیلئے ہوگی ورنہ وہاں نہ ایک موت کام آئے گی نہ متعدد موتیں مار سکیں گی اے نبی ! تو ان سے کہہ کیا یہ دوزخ کی مصیبت بہتر ہے یا ہمیشہ کے باغ جو متقیوں کو وعدہ دئیے گئے ہیں جو ان کی نیکیوں کی جزا اور آخری ٹھکانہ ہوگا جو چاہیں گے ان کو وہاں ملے گا ہمیشہ ان نعمتوں میں رہیں گے یہ وعدہ کچھ ایسا ویسا نہیں بلکہ تیرے پروردگار کے ذمہ مانگے جانے کے لائق ہے بندوں کو چاہئے کہ اپنی دعائوں میں کہا کریں اے اللہ جو وعدہ تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے کیا ہے وہ ہم کو مرحمت فرما الفرقان
11 الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 الفرقان
16 الفرقان
17 (17۔20) اور ایک بات سنو ! کہ جس روز اللہ ان کو درجن بندگان اللہ کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں جمع کر کے کہے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوئے تھے وہ کہیں کہ تو پاک ہے ہماری کیا مجال تھی کہ ہم تیرے بندوں سے اپنی عبادت کرا کر گمراہ کرتے جس حال میں کہ ہمیں خود لائق نہیں کہ تیرے سوا کسی کو اپنا کار ساز بنائیں لیکن ان کی گمراہی کا باعث یہ ہے کہ تو نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو ان کی گردن کشی اور تکبر پر مواخزہ نہ کیا بلکہ آسودہ کیا یہاں تک کہ ہدایت کی بات کو بھول گئے انہوں نے سمجھا کہ ہمارے یہ کام اللہ کو یا تو پسندیدہ ہیں یا کم ازکم موجب عتاب نہیں پس وہ اپنے افعال قبیحہ پر مصر رہے اور تباہ ہونے والی قوم بن گئے اس گفتگو کے بعد ان مشرکوں کو کہا جائے گا کہ لو انہوں نے تو تمہاری ساری باتوں میں تکذیب کردی اب تم اپنے سے عذاب کو ٹال نہیں سکو گے اور نہ اپنی مدد کرسکو گے اور سنو ! جو تم میں سے ظالم ہوگا ہم اس کو آخرت میں بڑا عذاب چکھائیں گے بھلا یہ ظلم نہیں تو کیا ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچا ہوتا تو کھانا کیوں کھاتا پانی کیوں پیتا بازاروں میں کیوں چلتا حالانکہ ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور حسب ضرورت بازاروں میں چلنے پھرتے تھے ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے قدرتی طور پر تم میں سے ایک کو دوسرے کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے یعنی قدرتی طور پر ایک دوسرے کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے مگر اللہ کے بندے صبر ہی کیا کرتے ہیں کیا تم بھی ان نیک لوگوں کی طرح جو تم لوگوں سے پہلے گزر چکے ہیں صبر کرو گے؟ یا نہیں تم سے امید ہے کہ تم اپنے پروردگار پر پورا بھروسہ کرو گے کیونکہ اس کا تم سے وعدہ ہے اور تمہارا پروردگار سب کچھ دیکھتا ہے جو جس لائق ہوتا ہے اسے دیتا ہے مگر جو لوگ نادان ہیں وہ الٰہی راز کو نہیں پا سکتے اور معترض ہوتے ہیں الفرقان
18 الفرقان
19 الفرقان
20 الفرقان
21 دیکھو تو جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے یعنی قیامت کے منکر ہیں رسول کے کافر ہیں وہ کہتے ہیں یہ شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے آتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نہیں آئے ہم تو تب مانیں گے کہ ہم پر بھی فرشتے آئیں یا ہم بچشم خود اپنے پروردگار کو دیکھیں اس شخص میں کیا برتری اور فضیلت ہے کہ اس پر فرشتے آتے ہیں اور ہم نہیں دیکھتے حقیقت میں یہ لوگ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھے بیٹھے ہیں اور مقررہ حدود انسانیت سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں انہیں اتنی بھی خبر نہیں کہ کلاہ خسردی دتاج شاہی بہرکل کے رسد حاشا وکلا الفرقان
22 یہ جانتے نہیں کہ فرشتوں کا نزول اور دکھائی دینا دو طرح سے ہوتا ہے یا تو مرتبہ نبوت ہوتا ہے یا بمرثیہ ہلاکت جو بوقت موت نظر آتے ہیں نبوت کا درجہ تو ان کو ملنے سے رہا البتہ موت کا وقت باقی ہے سو جس روز یعنی موت کے وقت یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس روز ان مجرموں کیلئے مژدہ نہ ہوگا بلکہ سخت روئیں گے اور کہیں گے کہ دور دور دفع فرشتوں کی ڈرائونی صورتیں دیکھ کر چاہیں گے کہ کسی طرح یہ بدوضع صورتیں ہمارے سامنے سے ہٹجائیں الفرقان
23 ادھر انکی بد حالت ہوگی ادھر ہم (اللہ) ان کے اعمال کیطرف متوجہ ہونگے تو انکو غبار کی طرح بیکار کردینگے کیونکہ اعمال کی قبولیت کیلئے کفر وشرک سے خالی ہونا بھی ضروری شرط ہے اسی لئے تو جو لوگ ان دونوں عادات قبیحہ سے دور ہونگے وہی نجات کے حقدار ہونگے جن کا نام اصحاب الجنت ہے الفرقان
24 بس اصحاب الجنت اس روز اچھے ٹھکانے والے اور عمدہ بستروں اور خوابگاہوں میں ہونگے الفرقان
25 اور سنو ! جس دن آسمان مع بادلوں کے پھٹ جائیگا اور فرشتے ہر طرف سے دنیا کو تباہ کرنے کیلئے اتارے جائیں گے الفرقان
26 اس روز ظاہر باطن کی اصلی حکومت صرف اللہ مہربان کی ہوگی مگر باوجود اس کے کہ اللہ اللہ کی صفت رحمانیت کا ظہور ہوگا تاہم کافروں پر وہ دن بڑا ہی سخت ہوگا کیونکہ دنیا میں ان کی شرارت حد سے متجاوز ہوچکی ہوگی الفرقان
27 اس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور افسوس سے کہے گا کاش کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دین کاراستہ اختیار کرتا تو آج میری یہ بری گت نہ ہوتی الفرقان
28 ہائے میری کمبختی ! میں فلاں شریر کو دوست نہ بناتا الفرقان
29 (29۔35) اس نے مجھے ہدایت پہنچنے کے بعد ہدایت سے گمراہ کردیا کمبخت نے مجھے قرآن کی ہدایات پر عمل نہ کرنے دیا اور شیطان تو انسان کی خواری میں لگا ہی ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے دام افتادوں کے ذریعہ سے مجھے گمراہ کیا یہ تو ادھر چیختا ہوگا۔ ادھر رسول اللہ ﷺ کہیں گے اللہ تعالیٰ ! میری قوم نے جن میں تو نے مجھے بھیجا تھا اس قرآن کو غلط جان کر چھوڑ دیا تھا بتلائو ایسے وقت میں ان مجرموں کی کیسی گت ہوگی۔ ایک تو رسول اللہ کی نالش دوئم خود مجرموں کا اعتراف سوئم اللہ تعالیٰ کا علیم کل ہونا یہ سب امور ایسے ہیں کہ ان مجرموں کی خیر نہ ہو اور دنیا میں جو یہ لوگ شرارت اور فساد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے فطرۃ ہر ایک نبی کے دشمن مجرموں کو بنایا ہے جو عادتا اور خصلتاً اس شرارت پر مجبور ہیں اور تیرا پروردگار خود اپنے بندوں کو ہدایت کرنے اور مدد کرنے کو کافی ہے جس میں جتنی استعداد ہوتی ہے اتنا مستفیض ہوتا ہے مگر جو لوگ شرارت ہی میں روز و شب لگے رہتے ہیں وہ اور جو لوگ کافر ہیں خواہ مخواہ کے فضول اعتراضات کرتے رہتے ہیں انہیں نالائقوں کو دیکھو ان کے کیسے خیال ہیں کہتے ہیں کہ یہ نبی جو آیت آیت اور سورت سورت سناتا ہے ایک ہی دفعہ تمام کا تمام قرآن اس پر کیوں نازل نہیں ہوتا دیکھو تو یہ کیسا سوال ہے؟ اگرچہ ایسا سوال کرنا ان کا حق نہیں تاہم ہم جواب دیتے ہیں کہ بات اسی طرح ہے کہ ہم اس قرآن کو متفرق متفرق نازل کرتے ہیں تاکہ تیرے دل کو ثابت رکھیں کو منکہ وحی الٰہی کا تحمل ایک دم مشکل ہے ظاہری استادوں کے شاگرد بھی ساری کتاب ایک دم میں نہیں پڑھ سکتے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تو اتنے بڑے بوجھ کی برداشت ایک دم میں کرسکے اسی لئے ہم اس کو تھوڑا تھوڑا اتارتے ہیں اور آہستہ آہستہ پڑہاتے ہیں اور یہ لوگ یادر کھیں کہ جب کبھی وہ کوئی مثال ابطال نبوت کی تیرے پاس لائیں گے ہم اس کا درست جواب اور عمدہ اور واضح بیان بھی تجھے دیتے رہیں گے کبھی یہ نہ ہوگا کہ ان کا کوئی معقول اعتراض لاجواب چھوڑا جائے ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ کہو کچھ سمجھیں کچھ ہر بات میں الٹے چلیں گے اسی لئے تو قیامت کے روز بھی ان کو الٹا ہی چلایا جائے گا یعنی منہ کے بل سر نیچے کو اور پائوں اوپر کو پس یاد رکھیں کہ جو لوگ مونہوں پر جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے وہی سب سے برے مرتبہ والے اور سب سے زیادہ گمراہ ہوں گے اس لئے اپنے کئے کی سزا پائیں گے الفرقان
30 الفرقان
31 الفرقان
32 الفرقان
33 الفرقان
34 الفرقان
35 اور ان کی جہالت سنو ! کہتے ہیں کہ یہ رسول کیسے آگیا اس سے پہلے تو ہم نے کبھی کوئی رسول نہ دیکھا نہ سنا حالانکہ ہم (اللہ) نے تجھ سے پہلے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بھائی ہارون کو اس کا وزیر اور مددگار بنایا الفرقان
36 پھر ہم نے دونوں کو کہا جائو اس قوم کی طرف جنہوں نے ہمارے حکموں کو نہیں مانا یعنی فرعون اور اس کی قوم کی طرف چنانچہ وہ گئے جن کا مختصر قصہ یہ ہے کہ وہ آخر تک تکذیب ہی پر اڑے رہے پس ہم نے ان سب کو تباہ کردیا الفرقان
37 اور سنو ! نوح کی قوم نے بھی جب ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو پانی میں غرق کردیا اور ہم نے ان کے ساتھ ایسی کی کہ ان کو تمام لوگوں کیلئے نشانی بنایا اور ظالموں کیلئے ہم نے بڑا درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے الفرقان
38 ان کے سوا عادیوں ثمودیوں خندق والوں کو جو ایمانداروں کو آگ کی خندق میں گرا دیتے تھے) اور ان کے درمیان بہت سی قوموں کو ہلاک کیا الفرقان
39 اور ہر ایک کیلئے مثالیں بتلائیں اور طرح طرح سے سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانے آخر کار ہمارا غضب بھڑکا اور ہم نے سب کا ستیاناس کردیا الفرقان
40 اس واقعہ کو تو یہ بھی جانتے ہیں اور اس بستی پر بھی آتے جاتے ہیں چند پتھروں کی بری بارش ہوئی تھی پھر کیا یہ اس کو دیکھتے نہیں کہ کیسا ان کا کھلیان ہوا اور کیسے وہ تباہ ہوئے مگر ان کی یہ حالت اس لئے ہے کہ یہ لوگ دنیا میں سر شار ہیں بلکہ دوبارہ جی اٹھنے کا ان کو خیال ہی نہیں الفرقان
41 اور ان کی بے وقوفی سنو ! اے نبی جب تجھے دیکھتے ہیں تو یہ نہیں کہ ہدایت حاصل کریں بلکہ تجھ سے ٹھٹھا مخول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ نے رسول کر کے بھیجا ہے الفرقان
42 توبہ توبہ یہ تو ایسا شخص ہے کہ اس نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم اپنی ہٹ سے ان پر ثابت قدم نہ رہتے تو اللہ جانے یہ کیا کر گزرتا بھیّے ایسے کو تو دور ہی سے سلام خیر جانے دو جو چاہیں کہتے پھریں آخر کار جب عذاب دیکھیں گے تو جان جائیں گے کہ کون سب سے زیادہ گمراہ تھا اصل میں نہ کسی دین کے ہیں نہ کسی مذہب کے بلکہ اپنی ہوا اور ہوس کے بندے ہیں الفرقان
43 کیا تو نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہوں نے اپنا معبود اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہو جو جی میں آیا کرلیا خواہ شریعت اور عقل اجازت دے یا نہ دے محض اپنی مرضی کے بندے ہیں نہ کسی نبی کے نہ کسی ولی کے تابع اے نبی تو نے ایسے لوگ اگر نہ دیکھے ہوں تو ان کو دیکھ لے تو کیا ایسے لوگوں کا تو ذمہ دار ہوگا ہرگز نہیں تجھے ان سے کیا مطلب جو چاہیں کریں اپنا سر کھائیں جھک ماریں الفرقان
44 کیا تو سمجھتا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ تیری باتوں کو سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں تو بہ توبہ ان کو سمجھنے سے کیا مطلب یہ تو بس چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے اور گمراہ تروہ تو اپنے مالک کے فرماں بردار ہوتے ہیں مگر یہ ایسے نمک حرام ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو کھائیں بپئیں لیکن بے فرمانی بھی کئے جائیں پس ان سے تو سب کو ناامیدی ہے ان کا تو ذکر نہ کر الفرقان
45 ہاں قدرت کا ایک کرشمہ تجھے بتلاتے ہیں کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرا پروردگار شب کے وقت سایہ کو کیسے دراز کرتا ہے تمام سیاہی سیاہی ہوجاتی ہے یہاں تک کہ حکماء نے تحقیق کیا ہے کہ شب کے وقت زمین کا سایہ زہرہ سیارہ تک پہونچتا ہے اور اس کی شکل مخروطی مثل گاجر کے ہوتی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ اس کو ٹھیرا رکھتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ روشنی دنیا سے بالکل مفقود ہوجاتی مگر ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ جو کچھ کیا حسب مقتضائے حکمت کیا اور ہم نے سورج کو اس پر راہ نمابنایا ہے یعنی سورج سے سایہ کی پیمائش ہوسکتی ہے کہ کتنا ہے الفرقان
46 پھر ہم (اللہ) اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچتے جاتے ہیں یعنی سورج نکلنے سے رات کا سایہ معدوم ہوتا جاتا ہے کیا یہ قدرت کا انتظام قابل غور نہیں ہے الفرقان
47 اور سنو ! اللہ وہ ذات بابرکات ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش لباس اور نیند کو تمہارے لئے آرام اور دن کو چلنے پھرنے اور کام کاج کے لئے بنایا تاکہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو الفرقان
48 اور سنو ! وہی ذات بابرکات ہے جو اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے جن سے تم سمجھ جاتے ہو کہ باران رحمت ہوگا اور ہم (اللہ) اوپر کی طرف سے پاک پانی اتارتے ہیں الفرقان
49 تاکہ اس کے ساتھ مردہ یعنی خشک زمین کو تروتازہ کریں اور وہ پانی اپنی مخلوقات میں سے چارپائوں اور بہت سے لوگوں کو پلائیں غرض یہ کہ تمام انتظام کائنات اسی سے ہے اسی لئے تو شیخ سعدی مرحوم نے دو شعروں میں دریا کو کو زہ میں بند کردیا ہے ؎ ابروباد دمہ وخورشید وفلک درکار ند تاتونانے بکف آری وبغفلت نخوری ایں ہمہ از بہر تو سرگشتہ وفرمانبردار شرط انصاف نبا شد کہ تو فرمان نبری الفرقان
50 ہم نے تو یہ مضمون ان لوگوں میں مختلف پیرائوں میں بیان کیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پاویں مگر پھر بھی بہت سے لوگوں نے بجز ناشکری اور کفران کے کچھ اختیار نہ کیا الفرقان
51 ایسی گمراہی سے ہٹانے کیلئے ہم نے تجھ کو رسول کر کے بھیجا ہے اب یہ اسی پر معترض ہیں کہ فلاں بستی سے فلاں شخص رسول کیوں نہ ہوا بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے اور اگر ہم (اللہ) چاہتے تو ہر بستی میں عذاب سے ڈرانیوالا نبی بھیجتے جو اللہ کے احکام بندوں کو سناتا مگر تیری موجودگی میں اے نبی حاجت نہیں تیری ہی روشنی سب اطراف میں پہنچ جائے گی الفرقان
52 پس تو مستقل مزاج رہ اور ان کافروں سرکشوں کی کسی ناجائز کام میں تابع داری مت کیجئیو بلکہ خوب مضبوطی سے ڈٹارہیو اور اس قرآن کے حکموں کے مطابق ان سے بڑے زور کا جہاد کیا کریو تقریر کے وقت تقریر سے تحریر کے وقت تحریر سے تلوار کے وقت تلوار سے غرض جیسا موقع ویسا برتائو کرو نہ پیچھے ہٹو نہ ہٹنے کا خیال دل میں لائو تم جانتے نہیں کہ کس مالک الملک اللہ نے تم کو یہ حکم دیا ہے الفرقان
53 سنو ! وہ اللہ مالک الملک وہ ہے جس نے دو دریائوں کو آپس میں ملادیا تہ زمین میں دونوں قسم کے پانی موجود ہیں ایک میٹھا مزیدار ہے اور ایک کڑوا کھاری ہے اور ان دونوں کے بیچ میں ایک پردہ اور مضبوط آڑ بنادی ہے مجال نہیں کوئی ان میں سے دوسرے پر غلبہ پا سکے اسی طرح جب تم بوقت ضرورت جہاد کرو گے تو کفار دب جائیں گے گو وہ اپنے کفر پر جمے رہیں مگر اہل اسلام کے ساتھ شرارت سے پیش نہ آئیں گے بلکہ شیر بکری کی طرح ایک گھاٹ پانی پئیں گے الفرقان
54 اور سنو ! وہ ذات پاک جس نے تم کو یہ حکم دیا وہ ہے جس نے پانی سے آدمی کو اول پیدا کیا پھر اس کے لئے رشتہ ولادت اور رشتہ دامادی بنایا یعنی آدم کے بعد بنی آدم میں میں یہ سلسلہ قائم کیا کہ کوئی کسی کا بیٹا ہے تو کوئی کسی کا باپ علی ہذا القیاس کوئی کسی کا سسر ہے تو کوئی کسی کا داماد اس طرح ان کے تعلقات بعیدہ کو قریب کیا جاتا ہے کیونکہ انسان ان باتوں کا محتاج ہے اور پروردگار تمہارا ہر کام پر قادر ہے الفرقان
55 (55۔56) پر یہ کیونکر ممکن تھا کہ بندوں کو ایک بات کی حاجت ہو اور پروردگار تمہارا ہر کام پر قادر ہے پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ بندوں کو ایک بات کی حاجت ہو اور اللہ اس کے پورا کرنے پر قادر ہے تو ان کی حاجت براری نہ کرے مگر ان مشرکوں کی حالت بھی بالکل اس مثال کے مشابہ ہے جو کہی گئی ہے ؎ کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔ جیسی جیسی اللہ کی مہربانیاں ہوتی ہیں ویسی ویسی انکی سرکشی حد سے بڑھتی جاتی ہے اللہ کے احسانوں اور نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انکو نفع دیں نہ ضرر یہی دو وصف معبود میں ہونے ضروری ہیں کہ اس کی عبادت کرنے سے فائدہ ہو اور نہ کرنے سے ضرر سو جب ان کے معبودوں میں دونوں چیزیں نہیں تو پھر انکی عبادت کیسی اور وہ معبود کیسے اسی لئے تو ان کا یہ فعل عند اللہ قبیح ہے اور سچ پوچھو تو کافر اپنے پروردگار کی طرف گویا پیٹھ دئیے ہوئے ہیں یعنی اس کی تعظیم جیسی چاہئے نہیں کرتے بلکہ اس مالک الملک کو بھی دنیاوی بادشاہوں کی مثل سمجھ رکھا ہے کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں کے ایلچی اور نائب سلطنت کچھ نہ کچھ اختیارات رکھا کرتے ہیں جن اختیارات سے وہ کچھ نہ کچھ نفع یا ضرر رعایا کو پہونچا سکتے ہیں اسی طرح اللہ کے رسولوں اور نائبوں میں یہ بھی وصف ہوتا ہوگا حالانکہ یہ مثال غلط ہے اور نا مطابق کیونکہ ہم (اللہ) نے تجھ کو یا تجھے پہلے جس رسول کو بھیجا ہے محض خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا کر کے بھیجا ہے نہ یہ کہ انتظامی امور میں کچھ دخل دے کر دنیا کا نائب السلطنت بنایا ہے نائب تو بے شک ہیں صرف نیک کاموں پر خوشخبری اور برے کاموں پر ڈر سنانے میں الفرقان
56 الفرقان
57 (57۔62) پس تو ان سے کہہ کہ میں تم سے اس تبلیغ کے کام پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ہاں یہ میری مزدوری ہے کہ جو کوئی چاہے اپنے پروردگار کی راہ اختیار کرلے اور بس گویا کسی شاعر کا شعر میرے ہی حق میں زیبا ہے کہ ؎ سرمہ مفت نذر ہوں مری قیمت یہ ہے کہ رہے چشم خریدار پہ احسان میرا یہ ان کو سنا اور اگر کوئی تکلیف پہونچے تو تمام مخلوق کو ممکنات مالک بالذات سمجھ کر اسی دائمی زندہ اللہ پر بھروسہ کیجئے جو کبھی نہ مرے گا اور اسی کی تعریف کے ساتھ تسبیح تہلیل پڑھتا رہیو یعنی جب کوئی تکلیف کا وقت آئے تو اللہ حی القیوم کو پاکی کے ساتھ یاد کیا کر اور یاد رکھ کہ وہ اپنے بندوں اور بندوں کے گناہوں سے پورا خبردار ہے کیونکہ وہ وہی تو ہے جس نے آسمان اور زمین اور ان دونوں کی درمیانی چیزیں چھ دنوں میں پیدا کیں پھر تخت پر بیٹھا یعنی زمام سلطنت اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی باوجود اس وسعت سلطنت کے وہ ظلم زیادتی کا روادار نہیں بلکہ نہایت ہی رحم کرنیوالا مہربان ہے پس تو اسی سے اپنے جمیع مطالب کا سوال کیا کر جو سب کے حال سے خبردار ہے مگر ان بدکرداروں اور متکبروں سے الگ رہنا جن کے تکبر کی کیفیت ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ رحمان کی جو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے اطاعت کرو اور اسکی ناراضگی سے بچو تو کم بخت ایسے صاف اور سیدھے حکم کا جواب کیسا ٹیڑھا دیتے ہیں کہتے ہیں رحمان کون ہے؟ کیا ہم اس کی اطاعت کریں اور اسکی بندگی کریں جس کا تو حکم دیتا ہے؟ تیرے کہنے سے تو ہم کبھی نہ کریں گے گویا ان کا اصول ہے جو نکلے جہاز ان کا بچ کر بھنور سے تو تم ڈالدو نائو اندر بھنور کے بھلا ایسی بے عقلی پر جو کچھ یہ کریں کیا تعجب ہے اسی لئے تو یہ اتنا اتراتے ہیں اور ان کو نفرت زیادہ بڑھتی ہے حالانکہ رحمان کو خوب جانتے ہیں کہ وہ تمام دنیا پر رحم کرنیوالا ہے اگر کسی ایسے ہم کم عقل کو معلوم نہ ہو تو وہ سن رکھے کہ وہ رحمان بڑی برکت والی ذات والی صفات ہے جس نے آسمانوں کو بنایا اور آسمانوں میں سیاروں کی منزلیں بنائیں جن میں بارہ مہینوں کے حساب سے وہ چلتے ہیں اور ان آسمانوں میں ایک روشن چراغ سورج اور چمکتا ہوا نورانی چاند بنایا سچ پوچھو تو تمام دنیا کے ضروری سامان انہی دو سیاروں کی منزلیں بنائیں جن میں بارہ مہینوں کے حساب سے وہ چلتے ہیں اور ان آسمانوں میں ایک روشن چراغ سورج اور چمکتا نورانی چاند بنایا سچ پوچھو تو تمام دنیا کے ضروری سامان انہی دو سیاروں سے مہیا ہوتے ہیں اور سنو ! رحمان وہ ذات بابرکات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے آگے پیچھے آنے والا بنایا گو یہ نعمتیں تو سب لوگوں کے لئے ہیں مگر یہ ذکر اور بیان خاص کر ان لوگوں کے لئے ہے جو قدرتی نظام پر توجہ کر کے نصیحت حاصل کریں یا اللہ کی مہربانیوں کو دیکھ کر اس کا شکر کرنا چاہیں الفرقان
58 الفرقان
59 الفرقان
60 الفرقان
61 الفرقان
62 الفرقان
63 یہ تو ہوا رحمان کی صفات کا بیان اب رحمان کے بندوں اور ان کے اعمال کا بیان (تاکہ تم ان کی چال چلو) غور سے سنو ! اللہ رحمان کے نیک بندے اور سچے تابعدار وہ لوگ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں غرور اور تکبر کا تو نام بھی نہیں جانتے ان کے ہر ایک کام میں حکم اور بردباری ہوتی ہے اور ہر ایک کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتے ہیں اور جاہل لوگ جب ان کا سامنا کرتے ہیں تو وہ رحمان کے بندے بجائے ان سے مقابلہ کرنے کے سلام کہتے ہیں اور راستہ سے گزر جاتے ہیں اسی لئے تو شیخ سعدی مرحوم نے لکھا ہے ؎ زجاہل گریز ندہ چوں تیر باش نیا میختہ چوں شکر شیر باش الفرقان
64 اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو رات کو بوقت تہجد یا کم سے کم بوقت عشاء اپنے پروردگار کے سامنے سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں شب کو مناسب وقت تک آرام کر کے باقی وقت عبادت میں لگاتے ہیں الفرقان
65 اور وہ لوگ رحمان کے بندے ہیں جو دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم سے جہنم کا عذاب ہٹا رکھیو کیونکہ اس کا عذاب بڑی بھاری مصیبت ہے الفرقان
66 اللہ کی پناہ وہ تو بہت ہی برا ٹھکانہ اور بہت ہی برا مقام ہے اللہ ہم کو اس سے بچائیو ! الفرقان
67 اس وصف کے علاوہ اور اوصاف بھی ان میں ہوتے ہیں یعنی وہ لوگ اللہ کے بندے ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی میں اڑاتے ہیں نہ بخل کرتے ہیں یعنی نہ تو ان کا وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ ؎ گر مرد ہے عاشق کوڑی نہ رکھ کفن کو اور نہ وہ پیسے کے ایسے مرید ہوتے ہیں کہ ؎ گرجاں طلبی مضائقہ نیست گرزرطلبی سخن درین است بلکہ ان کی روش اس کے درمیان درمیان مضبوط ہوتی ہے الفرقان
68 اور سنو ! رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں یعنی ان میں یہ وصف بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے بس یہی ان میں اعلیٰ درجہ کا وصف ہے اسی پر ان کی نجات کا مدار کار ہے ان کا مذہب کیا ہے؟ جس کا خلاصہ پند نامہ میں لکھا ہے در بلا یاری مخواہ از ہیچکس زانکہ تبود جز اللہ فریاد رس اور جس جان کے مارنے سے اللہ نے منع کیا ہے اس کو ناحق وہ قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کام برے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا الفرقان
69 قیامت کے روز بسبب شرک کفر کے ہر ایک گناہ پر مومن گناہ گاروں کی نسبت سے اس کو دگنا عذاب ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ کیلئے ذلل و خوار رہے گا الفرقان
70 لیکن جن لوگوں نے ایسے گناہوں سے توبہ کر کے نیک عمل کئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دے گا کیونکہ اللہ کو بندوں کی توبہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے الفرقان
71 وہ کیوں نہ اپنے بندوں کے گناہ معاف کرے جب کہ دنیا میں کمینہ سے کمینہ اور رذیل سے رذیل لوگ بھی اپنے نوکروں اور ماتحتوں کو توبہ کرنے پر معاف کردیتے ہیں اللہ تو چشمہ رحمت ہے مگر ہاں یہ ضروری ہے کہ توبہ صرف زبان سے نہ ہو بلکہ توبہ کے بعد اعمال صالح بھی ہوں اس لئے کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے جو کوئی توبہ کر کے نیک عمل کرتے ہیں حقیقت میں وہی اللہ کی طرف جھکتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ حکم ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ یعنی گناہوں سے توبہ کرنیوالے ایسے ہیں گویا انہوں نے گناہ کئے ہی نہیں کہ وہ جن کا یہ قول ہو کہ شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کرلی رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہے ترا توبہ زیں تو بہ ادنی ترست الفرقان
72 اور سنو ! رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں جو فضول بات اور بے ہودہ امور پر حاضر نہیں ہوتے اور جب کسی بے ہودگی کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے تو باعزازو اکرام طرح دے کر گزر جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی فضولیوں کا دیکھنا بھی برا ہے اور شریک ہونا تو اس سے برا الفرقان
73 اور رحمان کے نیک بندے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو پروردگار کے احکام سے ہدایت کی جائے تو بہرے اور اندھے ہو کر ان پر نہیں گرتے یعنی ایسی طرح سے نہیں سنتے کہ گویا سنا ہی نہیں بلکہ ایسی طرح سے سنتے ہیں کہ ان پر عمل بھی کریں الفرقان
74 اور اللہ کے نیک بندے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمارے حال پر بھی رحم فرما مگر ہماری درخواست یہ بھی ہے کہ ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عنایت کر یعنی وہ ایسے نیک بختی کے کام کریں کہ ہمیں راحت جان ہو اور ہم سب گھرانے کو نیک بختی میں ایسا درجہ مرحمت فرما کہ ہم کو متقیوں کا امام بنا یعنی اعلیٰ درجہ الفرقان
75 یعنی ہم کو نصیب ہو بس یہ جملہ اوصاف جن لوگوں میں ہوں گے وہی اللہ کے نیک بندے ہیں انہی لوگوں کو ان کے صبر کی وجہ سے بستیوں میں بالا خانے ملیں گے اور وہاں دعا اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا الفرقان
76 ان بہشتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے جو بہت ہی اچھا ٹھکانہ اور بہت ہی موزوں جگہ ہے لیکن یہ سب انہی لوگوں کیلئے ہے جو اللہ واحد کی عبادت کرتے ہیں اسی سے حاجات چاہتے ہیں کیونکہ وہ مالک ہے اور وہ بندے ہیں بندے اپنے مالک کے ہو کر رہیں گے تو عزت پاویں گے نہیں تو ذلیل ہوں گے اسی لئے کسی اہل دل نے کہا ہے اپنے بندوں سے جو چاہو بیداد کرو پر کہیں دل میں نہ آجائے کہ آزاد کرو الفرقان
77 چونکہ اصل عزت بندوں کی یہی ہے کہ اللہ کے ہو کر رہیں اس لئے اے نبی ! تو ان سے کہہ دے کہ اگر تم اللہ کی عبادت نہ کرو اللہ کو بھی تمہاری پرواہ نہیں اور نہ تمہاری کچھ عزت اس کے ہاں ہوگی پس اللہ کے ہاں عزت چاہتے تو اس کے ہو کر رہو نہیں تو یاد رکھو ؎ عزیز یکہ ازد گہش سر بتافت بہردر کہ شد امیج عزت نیافت سو تم نے بجائے ماننے کے اس کے حکموں کو جھٹلایا یعنی اس کا عذاب تم کو چمٹ جائے گا ذرا ہوش سے اعاذنا اللہ منہ ازمکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو زجو الفرقان
0 الشعراء
1 میں ہوں اللہ بڑی پاکی والا سلامتی والا مالک الملک الشعراء
2 یہ احکام روشن کتاب کے ہیں جو میری طرف سے بندوں کی ہدایت کیلئے آئی ہے الشعراء
3 (3۔9) پس تو ان کی تعمیل میں سر گرم رہ اور جو نہ مانے اس کی طرف التفات نہ کر شاید تو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے خودکشی کرلے گا تجھے ان کی فکر کیا پڑی ہے ان کو اللہ کے سپرد کر اور یہ جان رکھ کہ اگر ہم چاہیں تو آسمان سے کوئی ایسا نشان ان پر اتاریں کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھک جائیں۔ ایسی کوئی آفت بھیج دیں کہ کوئی بات نہ بن پڑے اور اب تو ان کی یہ حالت ہے کہ جو کچھ بھئی نئی نصیحت اللہ مہربان کی طرف سے بذریعہ قرآن ان کو پہونچتی ہے اس سے روگردانی کر جاتے ہیں سو اب تو انہوں نے صاف صاف ہماری فرستادہ کتاب کو جھٹلایا ہے پس جن باتوں پر یہ ہنستے ہیں ان کی صحیح صحیح خبریں ان کے پاس عنقریب آجائیں گی اس وقت جانیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ جو اللہ کے آثار قدرت سے انکار کرتے ہیں یا انہوں نے زمین کی طرف کبھی نظر نہیں کی کہ کیا کیا عمدہ عمدہ اقسام کی چیزیں ہم نے اس میں پیدا کی ہیں کچھ شک نہیں کہ اس میں اللہ کی قدرت کی ایک بڑی دلیل ہے لیکن ان میں کے بہت سے لوگ ایمان نہیں لائے محض ضد پر اڑے بیٹھے ہیں اور بے شک تیرا پروردگار چونکہ بڑا غالب اور بڑا رحم کرنیوالا ہے اس لئے وہ جلدی نہیں پکڑتا الشعراء
4 الشعراء
5 الشعراء
6 الشعراء
7 الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 (10۔68) یہ تو ابھی کے آمدی وکے پیر شدی کے مصداق ہیں کیا ان سے پہلے بڑے بڑے بادشاہ جو ہزاروں لاکھوں آدمیوں پر حکومت رکھتے تھے جب ان کی شرارت حد کو پہنچ گئی تو آخر الٰہی قہر نے ان کو بھی نہ چھوڑا کیا تجھے حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ معلوم نہیں جب تیرے پروردگار نے موسیٰ کو پکار کر کہا کہ ظالم قوم فرعونیوں کے پاس جا کیا وہ ڈرتے نہیں؟ حضرت موسیٰ نے کہا میرے پروردگار ! مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ چونکہ بڑے متکبر اور دنیاوی تنعم میں سرشار ہیں میری تکذیب کریں گے اور طبعی طور پر میرا سینہ بھچتا ہے اور میری زبان بھی بولنے سے کچھ رکتی ہے پس تو میرے بھائی ہارون کو رسول بنا کہ وہ بھی میرا ساتھ دے تاکہ ہم دونوں مل کر سرکاری خدمت بجا لائیں اور تسکین خاطر رہیں اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے جو موجب خطرہ ہے کہ ان کا میرے ذمے ایک گناہ ہے ان کا ایک آدمی غلطی سے مارا گیا تھا لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ اس کے عوض مجھے قتل نہ کردیں اللہ نے فرمایا ہرگز تمہیں نہیں مار سکیں گے پس تم ہمارے نشانوں کے ساتھ جائو ہم بھی وہاں تمہارے ساتھ سنتے ہوں گے غرض تم دونوں فرعون کے پاس جا کر اس سے کہو کہ ہم رب العلمین کے رسول ہیں تیری طرف حکم لے کر آئے ہیں کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور ناحق ان کو تنگ نہ کر ان کی تکلیف کے خاتمے کے دن آگئے ہیں اور تیرے ظلم کی انتہا ہونے کو ہے جب یہ پیغام فرعون نے سنا تو کہا واہ یہ بھی وہی بات ہوئی کہ ” مینڈکی کو بھی زکام ہوا“ واہ رے کل کا بچہ اور آج لگا ہمیں ہی تبلیغ کرنے کیا تجھے ہم نے اپنے میں بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تو ہم میں اپنی عمر کے بہت سے سال رہ چکا ہے اور تو نے وہ کام (قتل) بھی کیا ہوا ہے جسے تو بھی جانتا ہے اور اگر سچ پوچھے تو تو بڑا ہی ناشکرا ہے حضرت موسیٰ نے اس کی پرورش کا تو انکار نہ کیا کیونکہ وہ واقعہ تھا نہ ان میں رہنے سے انکار کیا کیونکہ وہ بھی ٹھیک تھا بلکہ تیسری بات کا بھی انکار نہ کیا مگر توجیہ کرنے کو کہا میں نے وہ کام قتل والا بے شک کیا تھا مگر جب میں خود بھی گمراہوں میں تھا یعنی میں اس حال میں نہ نبی تھا نہ مامور اور سچ تو یہ ہے کہ وہ کام ہوا بھی مجھ سے سہوا تھا پھر بھی جب میں تم سے ڈرا تو میں مدین کی طرف بھاگ گیا چونکہ میں یقینا بے قصور تھا کیونکہ وہ خون میرے ارادہ سے نہ ہوا تھا اس لئے اللہ نے مجھے بخش دیا اور میرے پروردگار نے مجھے نبوت کا حکم دیا اور محض اپنی مہربانی سے مجھے رسولوں کی پاک جماعت سے کیا اور جو آپ نے میری پرورش کا ذکر کیا ہے یہ بھی کوئی احسان ہے جو تو مجھ پر جتلاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو تو نے غلام بنا رکھا ہے مجھے پرورش کیا تو کیا ہوا؟ اول تو میری پرورش ہی اس نیت سے کی تھی کہ خاندان شاہی کا ارادہ مجھے متبنیٰ بنانے کا تھا دوم کسی شخص پر احسان کر کے اس کی تمام قوم پر ظلم کرنا کون دانا اس کو احسان شمار کرے گا جس کو ذرہ بھی قومی درد ہوگا وہ اس کو سراسر ظلم سمجھے گا موسیٰ کی یہ تقریر سن کر فرعون نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ جس رب العالمین کی طرف سے تم دونوں رسول ہونے کے مدعی ہو وہ رب العالمین کون ہے یعنی اس کی ماہیت کیا ہے؟ موسیٰ نے کہا اللہ کی ماہیت اور ذات کو تو کوئی پا نہیں سکتا البتہ اس کی صفات کا علم ہوسکتا ہے پس سنو کہ وہ تمام آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم لوگ کسی سچی بات پر یقین کرنے والے ہو تو اس پر یقین کرو یعنی تمام کائنات ہماری اور ارضی اس کے پروردہ ہیں اور ہر ایک چیز اس کی ہستی کا ثبوت دے رہی ہے پس تم بھی اس بات پر غور کرو فرعون نے اس کا تو کوئی معقول جواب نہ دیا البتہ بطور تمسخر اور طرح دینے کو اپنے ارد گردوالوں سے جو کہ خوشامدی اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے تھے کہا کیا تم نہیں سنتے؟ یہ کیا کہتا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے کہ رب العلمین وہ ہے یہ ہے ارے میں تو موجود ہوں مجھے تو دیکھتا نہیں جو تم سب کی پرورش کر رہا ہوں مجھے چھوڑ کر دوسرے کے پیچھے پڑا پھرتا ہے حضرت موسیٰ نے سمجھا کہ معاندان حاضرین پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا ہے اس لئے انہوں نے کہا اے حاضرین ! تم لوگ اس وقت جو بادشاہ کی خاطر ہاں میں ہاں ملا رہے ہو سنو ! وہ رب العالمین تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے اسی نے تم سب کو اور تمہارے سابقہ باپ دادا کو پرورش کیا اگر تم عقل رکھتے ہو تو سوچو کہ اس فرعون کی عمر جتنی کہ اس وقت ہے اگر یہ رب ہے تو اس سے پہلے تمہارا کون پروردگار تھا؟ یہ سن کر فرعون کو بڑی تشویش ہوئی کہ مبادا تمام عمائد اور ارکان سلطنت اس کی طرف مائل ہوجائیں اسلئے بطور تمسخر کے بولا اے حاضرین ! تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے دیکھو تو کیسی دوراز عقل باتیں کرتا ہے کہ موجود حاضر کو چھوڑ کر غیر موجود غیر حاضر کی طرف جاتا ہے موسیٰ سلام اللہ علیہ نے کہا واہ ! اگر اللہ کو ماننا دیوانہ پن ہے تو پھر عقل تمام جہان سے مفقود۔ کیونکہ ؎ جہاں متفق برالٰہی تش وہ اللہ تو مشرق مغرب اور ان دونوں کی درمیانی چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم عقل رکھتے ہو تو سمجھو فرعون سے جب کچھ نہ بن پڑا تو آخر کار اس نے وہی کیا جو ایسے موقع پر ظالم کیا کرتے ہیں چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے پس اس نے کہا بس مت بولو میں تمہیں ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اگر تو نے میرے سوا اور معبود بنایا تو میں تجھے جیل خانہ کے قیدیوں میں بھیج دوں گا پھر تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس فرعونی دھمکی نے حضرت موسیٰ پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ کمال دلیری سے اس نے کہا اگرچہ میں اپنے دعوے پر کوئی بین ثبوت لائوں؟ تو بھی تم مجھے قید کر دو گے؟ یہ سن کر کون دانا تھا جو یہ جواب دیتا کہ ہاں باوجود بین ثبوت ہونے کے بھی ہم تجھ کو قید کردیں گے اگر کوئی کہتا بھی تو کون اس جواب کو معقول تسلیم کرتا اس لئے فرعون نے یہ جواب تو نہ دیا بلکہ یہ کہا کہ اگر تو سچا ہے تو وہ بین ثبوت پیش کر اور سامنے لا پس فرعون کا یہ کہنا تھا کہ موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا وہ اسی وقت ظاہر اژدھا ہوگیا موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ دیکھنے والوں کی نظر میں سفید چمکیلا تھا جب یہ کیفیت فرعون نے دیکھی تو حیران ہوگیا کہ یہ کیا ماجریٰ ہے مگر چونکہ بڑا مدبر تھا اس لئے اس نے اپنے ارد گرد کے سرداروں کے دل بڑھانے کو کہا کہ یہ شخص بڑا ہی علم دار جادوگر ہے تم جانتے ہو اس کی غرض و غایت کیا ہے یہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے تم کو نکال دے اور خود بادشاہ بن بیٹھے پس تم اس کے بارے میں کیا رائے دیتے ہو ارکان سلطنت بھلا ایسے کہاں تھے کہ آزادی سے کلام کرتے جب کہ ان کا اصول ہی یہ تھا کہ اگر شہ روز راگو ید شب است ایں بباید گفت اینک ماہ وپردیں اس لئے انہوں نے بھی بیک زبان ہو کر کہا کہ مناسب ہے حضور اس کو اور اس کے بھائی دونوں کچھ دنوں تک مہلت دیجئے اور ملک کے تمام شہروں میں جادوگروں کو جمع کرنیوالے بھیج دیجئے جو حضور کے پاس ہر ایک علم دار جادوگر کو لے آئیں وہی اس کا مقابلہ کریں گے گو ہم اس وقت بھی اسے یکدم مروا سکتے ہیں مگر اس سے عام بدگمانی پھیلے گی کہ لو جی موسیٰ نے تو سب کے سامنے ایک کمال دکھایا جب سرکار اس کے سامنے کوئی کمال دکھانے سے عاجز آگئی تو اس غریب کو مروادیا اس لئے مناسب ہے کہ بحکم آہن را باہن باید کوفت اسی قسم کے لوگوں کو بلائیے حضور کے اقبال سے اس وقت ملک میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے چنانچہ فرعون نے یہ سن کر فرمان جاری کردیا کہ ہاں جائو سب جادوگروں کو ایک دم حاضر کرو جو کہ اس جادوگر سے مقابلہ کریں پس حکم کی دیر تھی کہ معین روز میں وقت مقررہ پر سب جادوگر جمع ہوگئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ فلاں وقت تم سب جمع ہوجائو تاکہ ہم موسیٰ اور ہارون کو مغلوب کر کے ہڑے ہڑے کا نعرہ مارتے ہوئے ان جادوگروں کے پیچھے آئیں اگر وہ غالب ہوں سو حسب اعلان شاہی جب میدان مقرر ہوا اور سب جادوگر آگئے تو انہوں نے فرعون کو کہا کہ حضور اگر ہم غالب ہوئے تو ہم کو اس خدمت کا عوض بھی کچھ ملے گا یا یونہی مفت بیگار میں محنت رائیگاں جائے گی؟ فرعون نے کہا ہاں کیوں نہیں عوض کے علاوہ تم درباری مقربوں سے ہوجائو گے اور خان بہادروں کی طرح کرسی نشیں کئے جائو گے موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کے دریافت کرنے پر کہ پہلے ہم وار کریں یا تم کرو گے؟ ان سے کہا کہ جو کچھ تم ڈالنا چاہتے ہو ڈالو پس انہوں نے اپنی رسیاں اور پتلی پتلی لکڑیاں ڈال دیں اور بولے فرعون کی عزت اور اقبال سے ہم ہی غالب ہوں گی پھر موسیٰ نے بھی اپنی لکڑی پھینک دی پس وہ تو عجیب قدرت کا نظارہ تھا کہ جو کچھ جادوگر جھوٹ موٹ کا جال بناتے تھے وہ موسیٰ کا عصا سب کو چٹ کرتا جاتا تھا ان بیچاروں کو کیا خبر تھی کہ ہم کس سے مقابلہ کر رہے ہیں انہوں نے یہی سمجھا تھا کہ ہمارا مقابلہ موسیٰ سے ہے مگر جب ان کو اپنی غلطی کا اظہارہوا اور بحکم ” ولی راولی میثناسد“ جادوگروں نے جان لیا کہ یہ کام جو موسیٰ نے کیا ہے جادوگری کا نہیں بلکہ ع کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں تو وہ جادوگر سجدے میں گرائے گئے یعنی انہوں نے سجدہ کرنے میں ایسی جلدی کی کہ گویا سجدے کے لئے ان کو کسی نے مجبور کیا تھا اور بولے کہ ہم رب العالمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا بتایا ہوا پروردگار ہے ایمان لائے ہم نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اللہ ہمارے گناہ معاف فرمائے فرعون نے جب دیکھا کہ اوہو ! یہ کیا ماجرا ہے جن لوگوں کو ہم نے ان کے مقابلہ کیلئے اس کروفرد سے لائے تھے اور یقین تھا کہ ہم ان دونوں بھائیوں پر غالب آئیں گے اور فتح پائیں گے یہ تو الٹی پڑی یہ لوگ بھی انہی کا کلمہ پڑھنے لگے اس لئے اس نے ان کو دھمکانے کے لئے کہا کیا تم میرے اذن سے پہلے ہی اس پر ایمان لے آئے ارے ! ً میں نے تم کو بلایا میں ہی نے تم کو اعزاز دیا میں ہی نے تم کو مقابل کیا مگر میری اجازت کے بغیر ہی تم اس کا کلمہ پڑھنے لگ گئے واہ تمہاری اس چالاکی کے کیا کہنے ہیں یقینی بات ہے کہ یہ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے پس تم اس کا بد انجام جان لوگے دیکھو باز آجائو ورنہ میں تمہارے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا وہ بولے واہ کیا غم ہے جب ہم اللہ کو مان چکے اور جان چکے ہیں کہ در مسلخ عشق جن نکورا نکشند لاغر صفتان وزشت خورانکشند گر عاشق صادقی رکشتن مگر یز مردار بود ہر انچہ اور انکشند اس لئے کچھ حرج کی بات نہیں آخر ہم نے اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے کل نہیں آج ہی سہی اپنی طبعی موت مرنے سے کسی کے سر چڑھ کر مریں تو بہتر ہے کیونکہ ہم اس امید پر ہیں کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ بخش دے گا اس بنا پر کہ ہم غیر قوموں میں سب سے پہلے ایمان لائے ہیں ہم تو اس خیال میں ہیں حضور کچھ اپنا ہی راگ الاپتے ہیں مختصر یہ کہ جادوگر فرعون کی گیدڑ بھبکی میں نہ آئے فرعون اپنی کام میں تھا اور ہم (اللہ) اپنے کام میں کچھ مدت بعد ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہمارے بندوں کو شب کے وقت لے چل مگر اتنا یاد رکھنا کہ فرعون کی طرف سے تمہارا پیچھا کیا جائے گا یہ اطلاع اس لئے دی گئی ہے کہ وقت پر تم اس آفت سے گھبرانہ جائو بلکہ ثابت قدم رہو پس فرعون نے بھی اپنی ساری طاقت کے موافق تمام شہروں میں فوج کو جمع کرنے والے بھیجے یہ کہہ کر کہ یہ لوگ بنی اسرائیل تھوڑی سی جماعت ہیں۔ اور اپنی نا شائستہ حرکات سے ہم کو خواہ مخواہ غصہ دلا رہے ہیں اگرچہ یہ ہمارے مقابلہ پر ہیچ ہیں اور ہمیں ان سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں مگر چونکہ ہم یعنی حکمران گروہ اور ارکان سلطنت سب دور اندیش ہیں اس لئے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح سے ان کو باہر نہ جانے دیں تاکہ باہر جا کر اپنی قوت کو یکجا کر کے ہم پر پل نہ پڑیں وہ اس خیال میں یہ نہ جانتے تھے کہ ان سے بھی کوئی زبردست طاقت والاہے۔ سنوہم (اللہ) نے ان کو باغوں چشموں خزانوں اور عزت دار مقامون سے باہر نکال دیا۔ (تاریخ بنی اسرائیل میں ثبوت نہیں ملتا کہ بنی اسرائیل کی حکومت مصر پر ہوئی تھی پھر قرآن مجید نے ان باغات وغیرہ کی توریث بنی اسرائیل کے لئے کیوں بتائی۔ جواب یہ ہے کہ علم بلاغت میں ایک صنعت استخدام ہی جس میں ضمیر ھو ماقبل مذکور کی طرف نہیں پھرتی بلکہ اس کی مثل کی طرف پھرا کرتی ہے یہ مقام صنعت استخدام کی قسم ہے یعنی جناب عیون اور کنور وغیرہ جو فرعونی لوگ چھوڑ گئے تھے۔ اسی قسم کے باغات ہم نے بنی اسرائیل کو دئیے لہ الحمد (منہ) یعنی وہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلے۔ اور غرق کر دئیے گئے واقعہ تو ایسا ہی ہے اور ہم نے ان بنی اسرائیل کو دوسرے ممالک میں ان جیسے باغات خزانوں اور عزت کے مقامات کا مالک بنایا ہے یہ ہے ان کا مجمل قصہ جس کی تفصیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب بحکم اللہ مصر سے شب کے وقت نکلے تو فرعونی بھی صبح ہوتے ہی ان کے پیچھے ہو لئے یہاں تک کہ بہت ہی قریب آگئے اور جیسا کہ بنی اسرائیل کو پہلے ہی بتلایا گیا تھا ایسا ہی ہوا کہ ایک جماعت دوسری کے بالکل قریب آگئی پس جب دونوں جماعتوں (فرعونیوں اور اسرائیلیوں) میں سے ایک نے دوسری کو دیکھا تو حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا کہ صاحب ! ہم تو پھنسے۔ یہ دیکھو فرعون اور اس کی فوج ہمارے قریب آگئی ہے اور ہم بالکل بے ہتھیار چٹیل میدان میں ہیں حضرت موسیٰ کو چونکہ اللہ کے وعدے پر بھروسہ تھا اس لئے انہوں نے کہا ہرگز ایسا نہ ہوگا کہ تم پھنسو بلکہ تم ضرور نکل جائو گے کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے خود سیدھی راہ دکھائے گا۔ ممکن نہیں کہ اللہ کے وعدے غلط ہوجائیں بس اتنی ہی دیر تھی کہ ہم نے موسیٰ کو الہام کیا کہ اپنی لکڑی اس دریا پر جو تیرے آگے ہے مار چنانچہ اس نے ماری پس وہ دریا ایسا پھٹ گیا کہ ہر ایک حصہ اس دریا کا پانی رک جانے سے ایک ایک ٹہلا سا بن گیا بارہ راستے خشک دریا میں بن گئے اور بنی اسرائیل آرام کے ساتھ دریا میں سے گذر گئے اور ہم اوروں کو یعنی فرعونیوں کو اسی جگہ لے آئے یعنی جن رستوں سے اسرائیلی گذرنے تھے انہی راستوں سے فرعونی گذرنے لگے اس خیال سے کہ یہ راستے ہمارے ہی لئے بنے ہیں اور ہم نے موسیٰ اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق ہونے سے بچا لیا پھر ہم نے دوسروں کو یعنی فرعونیوں کو جو بنی اسرائیل کو پکڑنے آئے تھے وہاں غرق کردیا بے شک اس واقعہ میں بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے بہت سے لوگ بے ایمان ہیں ان کو کسی زبردست طاقت پر ایمان ہی نہیں اور یہ کہ تیرا پروردگار بے شک بڑا ہی غالب اور باوجود غلبہ قدرت کے بڑا ہی رحم کرنے والا ہے اسی کے رحم کا تقاضا ہے کہ غافل لوگوں کی ہدایت کیلئے سمجھانے والے بھیجتا ہے اور ان کو متنبہ کرتا ہے الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 الشعراء
15 الشعراء
16 الشعراء
17 الشعراء
18 الشعراء
19 الشعراء
20 الشعراء
21 الشعراء
22 الشعراء
23 الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 الشعراء
29 الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 الشعراء
33 الشعراء
34 الشعراء
35 الشعراء
36 الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 الشعراء
44 الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 الشعراء
50 الشعراء
51 الشعراء
52 الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 الشعراء
57 الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 (69۔104) چونکہ یہ لوگ حضرت ابراہیم سے واقف ہیں نہ صرف واقف بلکہ معتقد بھی ہیں اس لئے ان کی ہدایت کی غرض سے ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک واقعہ کی خبر ان کو سنا جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے سوا کن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو ان پتھروں کی یا ان بے جان چیزوں کی وہ بولے ہم تو ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں یہی ہمارا دھرم ہے یہی ہمارا دین ہے پس ہم ان ہی کی پوجا پاٹ پر جمع رہیں گے ہرگز ان سے نہیں ہٹیں گے اور یہی ہمارا کرم حضرت ابراہیم نے کہا بھلا تم جو ان پر ایسے فدا ہورہے ہو جب تم ان کو اڑے کام میں پکارتے ہو تو تمہاری کچھ سنتے ہیں؟ یا تمہیں کچھ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ یہی تو دواصول ہیں جن پر عبادت کا مدار ہے پھر جب یہ بھی نہیں تو تم کیوں ان کے سامنے جبہ سائی کرتے ہو وہ بولے ہم اس تیری منطق کا تو جواب نہیں دے سکتے ہمارا تو ایک ہی جواب ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا پس ہم بھی ایسا ہی کریں گے یہ ہم سے نہیں ہوسکتا کہ ہم باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر کپوت کہلائیں بلکہ ہم تو سپوت بنیں گے ایسے پاگلانہ کلام کا کیا جواب تھا آخر حضرت ابراہیم نے کہا کہ سنو بھیں ! جن چیزوں کی تم لوگ اور تمہارے پہلے باپ دادا عبادت کرتے آئے ہیں ان سب کی عبادت سے مجھے دلی کدورت ہے میں ان کی ذات سے نہیں ان کی عبادت سے ایسا متنفر ہوں کہ مر جائوں مگر ان کی طرف سر نہ جھکائوں لیکن رب العالمین میرا محبوب حقیقی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے بس وہی محبوب ہے اور وہی مرغوب ہے وہی ہر کام میں میری رہنمائی کرے گا جو مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا ہے یعنی جس نے میرے لئے یہ نعمتیں پیدا کی ہیں اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ہی مجھے شفا بخشتا ہے اور جو وقت آنے پر مجھے ماردے گا پھر زندہ کرے گا جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ انصاف کے دن یعنی قیامت کے روز میرے قصور معاف کرے گا یہ کہہ کر ابراہیم اللہ کی طرف متوجہ ہوا اے میرے پروردگار مجھے محکم بات کرنے کی لیاقت عطا فرمائیو اور بعد موت مجھے نیک لوگوں سے ملا دیجیو اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر خیر سچائی سے رکھیو ایسا نہ ہو کہ میری تعریف کرتے کرتے مجھے کہیں سے کہیں پہنچا دیں جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو آدمی سے اللہ بنا دیا ہے اور یہ بھی دعا کی کہ اللہ مجھے نعمتوں کی جنت کے وارثوں میں سے بنائیو یعنی میں اللہ بعد مرنے کے جنت کا مستحق بنوں اور میرے باپ کو بھی بخش دیجئو گو وہ بظاہر بخشش کا مستحق نہیں کیونکہ وہ بے گمراہوں میں سے تھا (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا باپ کے مرنے سے پہلے کی ہے بعد مرنے کے تبرا منہ یعنی اس سے بیزار ہوگیا۔ ١٢ (پ ١١ ع ٢) اور مجھے اس روز ذلیل و خوار نہ کیجئیو جس روز سب لوگ حساب کے لئے اٹھائے جائیں گے جس دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد لیکن اسی شخص کو نفع ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں سلامتی والا دل لائے گا یعنی جس کا دل شرک و کفر حب دنیا کے امراض سے پاک وصاف ہوگا اسے تو سب چیزیں فائدہ دیں گی کیونکہ ایسے لوگ ہر چیز کو عموما اچھے طریق پر لگایا کرتے ہیں اس لئے اس کا اجرا ان کو ضرور ملے گا اور اس روز کیا ہوگا یہ ہوگا کہ جنت پرہیز گاروں کے قریب کی جائے گی اور جہنم بھی گمراہوں کے سامنے کی جائے گی تاکہ وہ اسے بچشم خود دیکھ لیں اور جس چیز کی نسبت جادو یا دیوانہ پن کہتے تھے اس کی خود تصدیق کرلیں تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ہم جو بداعمالیوں کی سزا سن کر کشیدہ خاطر اور رنجیدہ دل ہوتے تھے وہ رنجیدگی ہماری اپنی ہی غلطی سے تھی پس اس روز وہ عذاب کو دیکھ کر اپنی بد اعمالی کا خود ہی اعتراف کریں گے اور اللہ کی طرف سے انہیں کہا جائے گا کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی تم عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں کیا وہ تمہاری یا اپنی کچھ مدد کرسکتے ہیں؟ کچھ نہیں پھر وہ اور تمام گمراہ لوگ اور شیطانی لشکر سب کے سب اس جہنم میں اوندھے کر کے گرائے جائیں گے وہاں وہ آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ہوئے کہیں گے یعنی پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کو خطاب کر کے اس طرح گویا ہوں گے کہ واللہ ہم تو سخت غلطی میں تھے کہ تم کو رب العالمین کے ساتھ برابر کرتے تھے گویا کہ تم کو ہم اللہ کی طرح زمین و آسمان کا خالق نہ کہتے تھے مگر آڑے کاموں میں تم سے جو فریاد کرتے اور دعائیں مانگتے تھے بس یہی تو ہمارا شرک تھا جس کی پاداش میں آج ہم پھنسے ہیں پھر آپس میں کہیں گے کہ سچ تو یہ ہے کہ ہم کو ان مجرموں ہی نے گمراہ کیا تھا جو ہمارے پر چڑھ چڑھ کر آتے تھے اور پیروں فقیروں کی جھوٹی اور پر ازافترا حکایتیں سنا سنا کر ہم کو گمراہ کرتے تھے ہم بھی ایسے عقل کے اندھے تھے کہ جو کچھ ان سے سنتے بس دماغ میں محفوظ کرلیتے اتنا بھی نہ پوچھتے کہ اس حکایت کا ثبوت کیا ہے۔ پس اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ آج نہ تو کوئی ہمارا سفارشی ہے نہ کوئی مخلص حمایتی۔ یہ کیسا دردناک عذاب ہے اور یہ ننھی سی جان۔ یک جان و صد روگ کا سا معاملہ ہے۔ اگر ہم کو ایک دفعہ دنیا میں لوٹ کر جانے کی اجازت ہو تو ہم ضرور ایمان دار بن جائیں۔ اللہ کے فرستادوں اور حکموں پر ایمان لائیں۔ کبھی بھی ان سے انکاری نہ ہوں بے شک اس مذکور میں بہت بڑی نشانی ہے اور ان میں سے بہت لوگ ایمان نہیں لائے کسی سچائی کے قبول کرنے کو یہ لوگ کسی طرح اور کسی وقت تیار نہیں بلکہ ہمیشہ ان کا یہی اصول مقرر ہے کہ جو کچھ سنتے آئے ہیں وہی کریں گے چنانچہ کئے جاتے ہیں اور تیرا پروردگار بھی بڑا ہی غالب اور بڑا ہی مہربان ہے کہ باوجود غلبہ قدرت کے جلدی سے ان کو نہیں پکڑتا۔ الشعراء
70 الشعراء
71 الشعراء
72 الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 الشعراء
78 الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 الشعراء
88 الشعراء
89 الشعراء
90 الشعراء
91 الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 الشعراء
103 الشعراء
104 الشعراء
105 (105۔122) ان کی نظیر سابق میں بھی گذر چکی ہے تمہیں معلوم ہے کہ نوح نبی کی قوم نے بھی ان کی طرح رسولوں کو جھٹلایا تھا جب ان کے بھائی یعنی انہی میں کے ایک جوان صالح نوح نے ان سے کہا کیا تم اللہ کی بے فرمانی کرنے سے ڈرتے نہیں ہو۔ بھائیو سنو ! بیشک میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے رسول امین ہوں جو کچھ اللہ کی طرف سے مجھ پر الہام ہوتا ہے ہی وہی بتلاتا ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری تابعداری کرو جو کچھ میں اللہ کا نام لے کر تم سے کہوں اس کو قبول کرو میں تم سے اس تعلیم و تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو اللہ رب العالمین کے پاس ہے وہی مجھے اپنی مہربانی سے جو چاہے گا عنایت کرے گا۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو انہوں نے اور کوئی معقول جواب نہ دیا صرف اتنا کہا وہبھی ایسا کہ بالکل کچھ نہ کہتے تو اس کہنے سے اچھا تھا بولے کیا ہم تیری بات تسلیم کریں؟ حالانکہ یہ بات ہماری شان کے خلاف ہے کیونکہ ہم آسودہ اور شریف ہیں اور تیری تابع داری میں سب ذلیل لوگ آئے ہیں جو ہمارے کمین ہیں۔ پھر یہ کیونکر ہم گوارا کرسکتے ہیں کہ ہم باوجود اس شان و شرافت کے ایک ایسے مذہب کو اختیار کریں جس میں یہ ہمارے کمینے لوگ ہم سے برابر ہوں ایک ہی مجلس میں ایک ہی فرش پر برابر بیٹھیں بلکہ مسجد میں اگر پہلے آجائیں اور بڑھ کر بیٹھیں تو ہمارا حق نہ ہو کہ ہم ان کو اٹھا کر ان کی جگہ بیٹھ سکیں۔ بھئی ! ایسے مذہب کو تو دور سے سلام۔ حضرت نوح نے سوچا کہ یہ لوگ تو بڑے خر دماغ ہیں کون ان سے دماغ پچی کرے یہ خر دماغ تو کبھی سمجھنے کے نہیں اس لئے انہوں نے ان کو مختصر سا جواب دیا جو اپنے اصلی معنے میں راست بھی تھا اور ان کا جواب بھی تھا گو مختصر تھا مگر معقول۔ کہا مجھے ان کے دنیاوی کاموں کا علم نہیں کہ کیا کرتے ہیں یہ تمہارے کارندے ہیں یا تم ان کے۔ یہ تمہارے ماتحت ہیں یا تم ان کے ماتحت ہو۔ ان کے نیک و بد اعمال کا حساب میرے پروردگار پر ہے وہی سب کے حال سے واقف ہے وہی خوب جانتا ہے کہ کون بہتر ہے اور کون کہتر ہے۔ کون نیک ہے اور کون بد۔ کاش تم کو شعور ہو اور سمجھو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ دنیاوی کاروبار کے اعتبار سے کوئی آقا ہو کوئی نوکر اس کو اللہ کے قرب میں کچھ بھی اثر نہیں وہاں تو اثر تقویٰ اور عدم تقویٰ کا ہے اگر تقویٰ ہے تو عزت ہے اگر تقویٰ نہیں تو ذلت۔ اور اگر یہ کہو کہ میں تمہارے کہنے سے ان غربا کو اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ ہرگز نہیں ہونے کا۔ میں ان ایمانداروں کو کبھی نہیں دھتکاسکتا میں تو صاف طور پر ڈرانے والا ہوں جس کا جی چاہے قبول کرے جو نہ چاہے نہ کرے۔ جب اس معقول کلام کا جواب ان سے نہ ہوسکا تو بقول چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار کردن کشد روئے را بولے اے نوح ! ہم تیری اس لمبی چوڑی منطقی تقریر کا جواب نہیں دے سکتے ہاں اتنا ایک الٹی میٹم (اعلان جنگ) سن رکھ کہ اگر تو اس بے ہودہ گوئی سے باز نہ آیا تو تو پتھروں سے سنگسار کیا جائے گا نوح نے جب قوم کی یہ سختی دیکھی کہ کسی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو اللہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرتے ہوئے کہا اے میرے پروردگار ! میری قوم نے مجھے جھٹلایا ہے اور یہ کسی طرح راہ راست پر نہیں آتے پس تو مجھ میں اور میری قوم میں صاف صاف فیصلہ فرما۔ اور مجھ کو اور میرے ساتھ والے ایمانداروں کو ان تکلیفات سے ہمیشہ کے لئے نجات بخش پس اس کے دعا کرنے میں دیر تھی کہ ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو بھری کشتی میں طوفان سے بچا لیا اور ان کو بچا کر باقی لوگوں کو غرق کردیا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے اللہ کی عظمت اور جلالت کی کہ کس طرح اللہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور کس طرح ان کو دشمنوں سے بچایا جاتا ہے مگر تاہم ان میں بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے اور مقابلہ کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ تیرا پروردگار بڑا غالب بڑا مہربان ہے اپنی غلبہ کی صفت سے مخالفوں کی مخالفت ہٹاتا اور مہربانی کی صفت سے ان کو ڈھیل دیتا ہے الشعراء
106 الشعراء
107 الشعراء
108 الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 الشعراء
115 الشعراء
116 الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 (123۔140) اسی طرح عاد کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا تھا جب ان کے بھائی ھود نے ان سے کہا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں بے شک میں تمہارے لئے معتبر امانت دار رسول ہوں پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرماں برداری کرو اللہ تم سے خوش ہوگا اور میں تم سے اس پر کوئی عوض نہیں مانگتا میری مزدوری تو اللہ رب العالمین کے پاس ہی ہے وہی مجھ کو اجر دے گا تم سے تو میرا تعلق نہیں جیسے تم اللہ کے بندے اور تابع فرمان ہو میں بھی ویسا ہی اس کا تابع دار ہوں سوائے رتبہ نبوت کے اور کوئی مزیت مجھ میں تم سے زیادہ نہیں ہے اسی لئے میں تم کو سمجھاتا ہوں کہ کیا تم دنیا میں ایسے مبہوت اور عیش پسند ہورہے ہو کہ ہر ایک اونچی جگہ پہاڑیوں اور ٹیلوں پر نشانیاں عبث اور فضول کھیلنے کو بناتے ہو جن سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ حاصل نہیں مگر اصل مطلب کی بات بھولتے ہو اور بڑے بڑے مکان ایسے مضبوط بناتے ہو گویا تم ہمیشہ دنیا میں رہو گے کیا تمہیں کسی اہل دل کا قول یاد نہیں لہ ملک ینادی کل یوم لد واللموت وابنواللخراب (یہ شعر ابوالعتاہیہ کا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ : اللہ کا فرشتہ ہر روز پکار رہا ہے کہ تمہاری زندگی کا انجام موت ہے اور تمہاری عمارتوں کا انجام ویرانی ہے۔ (منہ) اور تمہاری قوت و شجاعت کا حال یہ ہے کہ جب تم کسی پر حملہ آور ہوتے ہو تو بڑی سختی سے حملہ کرتے خواہ تم اس معاملہ میں غلطی پر بھی ہو یا صحت پر اس سے تم کو کوئی سرکار نہیں ہوتا یہ تمہاری عادت بری ہے پس تم اللہ سے ڈرو اور میں جو احکام اللہ تم لوگوں کو بتلائوں ان میں میری پیروی کرو جو حکم میں اللہ کی طرف سے تم کو سنائوں اس کی تعمیل کرو اور مخالفت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے تم کو ان چیزوں سے مدد دی جو تم جانتے ہو یعنی چوپائیوں صلبی بٹوں باغوں اور چشموں سے تم کو مدد دی پھر باوجود اس کے تم سمجھتے نہیں کہ کیا کر رہے ہو مجھ کو تمہاری اس غفلت اور سیاہ کاری کی وجہ سے تمہارے حال پر بڑے دن یعنی روز قیامت کے عذاب سے ڈر لگتا ہے یہ صاف اور شستہ مخلصانہ تقریر سن کر بھی وہ بولے اور کیسے بیہودہ بولے کے اے ہود ! ہم تیری ان چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آنے کے برابر ہے تو ہم کو وعظ سنایا وعظ کی تکلیف نہ اٹھا ہم تو تیری کسی بات کو تسلیم نہ کریں گے یہ دین اور مذہب جس پر ہم ہیں یہی پہلے لوگوں کا برتائو اور طریقہ رہا ہے اس لئے یہ درست معلوم ہوتا ہے اور ہم پر کسی طرح سے کوئی آفت یا عذاب نہیں آنے کا پس اس غلط گھمنڈ میں انہوں نے اس (ہود علیہ السلام) کو جھٹلایا پھر ہم (اللہ) نے ان کو ہلاک کردیا بے شک اس مذکور میں بہت بڑی نشانی ہے اگر کوئی اس سے فائدہ حاصل کرے تو واقعی بڑی عبرت کا نشان ہے مگر ان میں سے بہت سے بے ایمان ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ تیرا پروردگار بڑا ہی غالب اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے کہ باوجود غلبہ قدرت کے معاندین کو جلدی سے نہیں پکڑتا الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 الشعراء
137 الشعراء
138 الشعراء
139 الشعراء
140 الشعراء
141 (141۔159) اسی طرح ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ جب ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو کھلم کھلا اس کی اور اس کے رسولوں کی مخالفت کرتے ہو کچھ شک نہیں کہ میں تمہارے لئے معتبر رسول امین ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری تابع داری کرو میں اس تبلیغ پر کوئی عوض نہیں مانگتا میری مزدوری تو صرف اللہ رب العالمین کے پاس ہے بھلا تم عیش و عشرت میں روز و شب ایسے سرشار رہتے ہو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس جگہ تم اس طرح ہمیشہ آرام میں چھوڑے جائو گے یعنی باغوں چشموں پسندیدہ کھیتوں اور کھجوروں میں جن کے شگوفے نازک نازک ہیں اور تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوشی خوشی سے خوبصورت گھر بناتے ہو کیا تم جانتے نہیں ہو کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ نہ تم رہو گے نہ تمہارے گھر کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائینگے پس تم اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو میں تم کو سیدھی راہ پر لے چلونگا اور تم ان اپنے حد سے گزرجانے والے رؤساء کی بات نہ مانو جو ملک میں فساد کرتے ہیں یعنی خلاف حکم اور مرضی اللہ تعالیٰ کے لوگوں میں غلط کاریاں پھیلاتے ہیں اور برائیوں کی اصلاح نہیں کرتے حضرت صالح کی یہ مشفقانہ نصیحت سن کر کمبخت الٹے اکڑے اور بولے ہمارے خیال میں تو یہی ہے کہ تجھ پر جادو کیا گیا ہے۔ تو رسول کہاں سے بن بیٹھا ہے تو تو صرف ہماری طرح کا آدمی ہے کھاتا ہے پیتا ہے جورورکھتا ہے بس یہی تینوں لوازمات بشری ہیں جو ہم میں اور تم میں برابر ہیں پھر تجھ میں کیا بڑائی ہے جو تو رسول ہونے کا دعوے دار ہے پس اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو کوئی نشانی لے آ یعنی کوئی ایسا معجزہ دکھا کہ تیری نبوت کا اسی سے ثبوت ہو۔ حضرت صالح نے دعا کی ان کی دعا سے ایک اونٹنی جنی تو کہا دیکھو یہ ایک اونٹنی تمہارے لئے میری نبوت کی نشانی ہے پانی میں ایک دن حصہ اس کا اور ایک دن مقرر تمہارا حصہ ہے پس اس کو جہاں چاہے چرنے پھرنے دو اور برائی سے اس کو تکلیف نہ پہنچانا ورنہ بڑے روز یعنی قیامت کا سا عذاب تم کو آلے گا مگر وہ کہاں ایسے تھے کہ خاموش رہتے انہوں نے اس کی ایک نہ سنی فورا اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پس عذاب الٰہی کے سبب سے وہ صبح ہوتے ہی اپنے گھروں میں ندامت کے مارے پشیمان پڑے تھے کیونکہ عذاب کے آثار نمایاں ہو رہے تھے پس تھوڑی دیر میں عذاب نے ان کو آدبایا اور ہلاک کردیا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں بڑی نشانی ہے اور جو مانیں ان کیلئے ہدایت ہے مگر ان میں سے بہت سے لوگ نہیں مانتے کیی سچائی کے قائل نہیں ہوتے اور تیرا پروردگار بڑا غآلب بڑا مہربان ہے کہ باوجود غلبہ قدرت کے ان کو جلدی نہیں پکڑتا لیکن آخر بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی یہ لفظ اس لئے بڑھایا ہے کہ آج کل کے نیچری مذاق کہتے ہیں کہ ہر ایک چیز قدرت کی نشانی ہے جن میں اونٹنی بھی ایک بڑی نشانی ہے حضرت صالح نے ان کو اسی قدرتی نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے اور کوئی خلاف عادت معجزہ نہیں دکھایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ پر کفار جو نشان مانگا کرتے تھے وہ نشان قدرت نہ مانگتے تھے جس سے ثابت ہو کہ اس مدعی کی نبوت صحیح ہے نہ یہ کہ صانع کی کسی صنعت کا ثبوت چاہتے تھے۔ نشانی قدرت منکرین قدرت کے سامنے پیش ہوا کرتے ہیں۔ جیسے دہرئیے‘ نشان نبوت منکرین رسالت و نبوت کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے نشانوں کو ایک کہنا دانشمندی نہیں۔ بھلا یہ کیسا کلام ہے کہ مخالف رسالت تو کہے کہ کوئی ایسا نشان دکھا جس سے نبوت کا ثبوت ہو مگر نبی اس کو کہے یہ مصنوع قدرت دیکھ وہ صنعت اللہ دیکھ۔ علاوہ غلط راہ اور خلاف طریق مناظرہ کے یہ کلام نہ تو کسی دانش مند کے منہ سے نکل سکتا ہے نہ کوئی دانش مند سن سکتا ہے۔ (منہ) الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 الشعراء
152 الشعراء
153 الشعراء
154 الشعراء
155 الشعراء
156 الشعراء
157 الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 (160۔175) اسی طرح لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا تھا جب ان کے بھائی لوط نے ان کو کہا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں؟ بے شک میں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے معتبر رسول ہوں کیا مجال کہ ذرہ بھی خیانت کروں پس تم اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو اور میں تم سے اس کام پر مزدوری نہیں مانگتا۔ میری مزدوری تو اللہ رب العالمین ہی کے پاس ہے وہی میرا مالک ہے وہی میرا خالق ہے اس لئے میں تمہاری ان باتوں کی مخالفت کرتا ہوں دیکھو تو کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے کہ تم دنیا کے لوگوں میں سے لڑکوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے ہیں ان کو چھوڑتے ہو حالانکہ لڑکوں سے بدکاری کرنا خلاف وضع فطری ہے جو کسی طرح ٹھیک نہیں اسی لئے تمہاری رائے غلط ہے کہ ہم ٹھیک راہ پر ہیں بلکہ تم مقررہ حدود انسانیت سے آگے بڑھنے والے ہو وہ بولے اے لوط ! ہم تیری اس فضول تقریر کا تو جواب نہیں دے سکتے اور نہ دینا چاہتے ہیں البتہ اتنی بات کہہ دیتے ہیں کہ اگر تو باز نہ آیا تو تو ایک دن یہاں سے نکالا جائے گا حضرت لوط نے کہا یہ تو تمہاری فضول باتیں ہیں مجھے نکال دو گے تو کیا ہوگا میں خود تمہارے کاموں سے بیزار ہوں یہ کہہ کر لوط نے اللہ سے دعا کہ کہ اے میرے پروردگار مجھے اور گف میرے متعلقین دینی اور دنیاوی رشتہ والوں کو ان کے کاموں کی سزا سے نجات دیجئیو پس ہم نے اس کو اور اس کے متعلقین سب کو بچایا سوائے ایک بڑھیا عورت کے جو عذاب میں پیچھے رہنے والوں میں تھی یعنی حضرت لوط کی بیوی جو ایمان سے محروم اور لوط کی مخبری کرتی رہتی تھی وہ کفا کے ساتھ رہی پھر ہم نے دوسرے لوگوں کو جو لوط کے مخالف تھے ہلاک کردیا یعنی ہم نے ان پر پتھرائو کی سخت بارش کی بارش کیا تھی صرف پتھرائو تھا۔ پس ان ڈرائے گئے لوگوں پر بہت بری بارش تھی بے شک اس میں ایک بڑی نشانی ہے اور بہت سے لوگ ان میں سے بے ایمان ہیں اور تیرا پروردگار بڑا ہی غالب بڑے رحم والا ہے الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 الشعراء
167 الشعراء
168 الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 (176۔191) اسی طرح ایکہ کے بن والوں یینہ قوم شعیب نے رسولوں کو جھٹلایا تھا جب ان کو شعیب ٖنے کہا کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے بے شک میں تمہارے لئے رسول امین ہوں اللہ کے احکام سناتا ہوں اس کے حکموں میں پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ کا خوف دل میں رکھو پس اللہ سے ڈرو اور میری تابع داری کرو دیکھو میں تم سے اس پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو صرف اللہ رب العالمین کے پاس ہے تم اتنا نہیں سوچتے کہ میں تمہارا بے لاگ خیر خواہ ہوں اور کسی طرح کی تم سے مجھ کو طمع نہیں پھر بھی منہ چڑائے جاتے ہو غور نہیں کرتے اس مذہبی حکم کے بعد اخلاقی حکموں میں پہلا حکم یہ ہے کہ ماپ تول وغیرہ پورا کیا کرو اور کم دینے والے نہ بنو سیدھی ترازو سے وزن کیا کرو اور لوگوں کے مال کم نہ دیا کرو اور خلاف شریعت الہیہ عمل کر کے ملک میں فساد نہ پھیلائو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس نے تم کو اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا کیا تمہیں اصل نفع کافی نہیں ! وہ بولے ہمارے خیال میں تو یہ آتا ہے کہ کسی نے تجھ پر جادو کردیا ہے ورنہ اس سے پہلے تو ایسی بہکی بہکی باتیں نہ کرتا تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ تو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے پھر بھلا کونسی بات تجھ میں زیادہ ہے جو تو نبوت کا دعوے دار بنتا ہے اور ہم کو ماتحت بنانا چاہتا ہے اس لئے ہم تو تجھے جھوٹا جانتے ہیں پس اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے یا جو کچھ تجھ سے ہوسکتا ہے کر گذر شعیب نے کہا میرا پروردگار تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے وہ جو کچھ مناسب جانے گا تم سے کرے گا غرض وہ شعیب کو جھٹلاتے ہی رہے پس آخر انکو سایہ دار دن میں عذاب نے آدبایا یعنی ایک روز بادل کثرت سے ان پر آئے وہ سمجھے کہ بارش ہوگی مگر آخر ثابت ہوا کہ وہ بڑے دن یعنی قیامت کا سا عذاب تھا جس سے سب لوگ تباہ ہوئے بے شک اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے مگر بہت سے لوگ ان میں سے ایمان نہیں لاتے نہ سچائی کو قبول کرتے ہیں اور تیرا پروردگار بہت غالب بڑا رحم کرنے والا ہے الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 (192۔212) اس لئے اور سنو ! جس طرح یہ رسول اپنے اپنے وقت پر احکام الٰہی لائے اور امتیوں کو سناتے رہے بے شک اسی طرح یہ قران بھی رب العالمین کا اتارا ہوا ہے روح الامین یعنی جبرئیل فرشتہ نے اسکو تیرے دل پر اتارا ہے یعنی تجھ کو سنایا ہے کانوں میں ڈالا ہے تاکہ تو اے نبی ! ان ڈرانیوالوں یعنی نبیوں کی جماعت میں سے ہوجائے اسی لئے واضح عربی زبان میں ہے تاکہ تو پڑھے اور یہ لوگ سن کر سمجھیں اور اس میں شک نہیں کہ گو اس کی صورت کذائی حادث ہے مگر یعنی اس کا اصل مضمون پہلے لوگوں کی کتابوں میں ملتا ہے گو پچھلوں نے اس اصلی مضمون کو بہت کچھ بگاڑآ ہے تاہم اصلیت کا پتہ لگتا ہے کیا ان منکروں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء بھی اس مضمون کو جانتے ہیں ان سے پوچھو تو گو وہ اسلام اور قرآن کے مخالف ہیں مگر علیحدگی میں اتنی تصدیق وہ بھی کردیں گے کہ ؎ اللہ ایک ہے کوئی اس سا نہیں کسی کام میں ساجھی اس کا نہیں رہی یہ بات کہ وہ اس مضمون کو عبرانی یا کسی اور زبان میں بیان کریں گے اور قرآن عربی میں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس مضمون کو کسی عجمی پر اتارتے یعنی عربی کی بجائے عجمی میں نازل کرتے اور وہ ان کو پڑھ کر سناتا تو وہ کبھی اس پر ایمان نہ لاتے ان کا عذر یہ ہوتا کہ واہ صاحب ! ہم تو عربی اور یہ عجیم کون اسے سمجھے اور کون اس کا ترجمہ کرے لیکن اب جو باوجود اس وضاحت کے ایمان نہیں لاتے تو اب ان کا کوئی عذر نہیں پڑے سر کھائیں اسی طرح بالا کراہ ان کی بادل ناخواستہ ہم نے اس قرآن کو مجرموں کے دلوں میں داخل کردیا ہے یعنی ان کے کانوں میں ڈال کر دل تک اس کا مضمون پہنچا دیا ہے وہ ہرگز اس کو نہ مانیں گے جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھیں گے پس یاد رکھیں کہ عذاب ان پر ایسا ناگہاں آجائے گا کہ نہیں جانتے ہوں گے پھر کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ہے کیا اس وقت مہلت مانگیں گے اور اس وقت ہمارا عذاب جلدی مانگتے ہیں یہ ان کی سراسر کج فہمی اور حماقت ہے بھلا یہ بتلائو اگر ہم ان کو سالہا سال تک بھی مہلت دیدیں پھر جو کچھ برے کاموں پر عذاب کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان پر آجائے تو جن چیزوں سے ان کو دنیاوی فوائد اور منافع حاصل ہورہے ہیں وہ انہیں کیا کام آئیں گی ہرگز کچھ کام نہ آئے گا اور یونہی تباہ ہوجائیں گے ہم ان کو اس لئے سمجھاتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام دستور اور قانون ہے کہ ہم کسی بستی کو بغیر اس کے تباہ و برباد نہیں کرتے کہ ان کے پاس برے کاموں پر عذاب کا ڈر سنانے والے نصیحت کرنے کو نبی نہ آئے ہوں کیونکہ ہم ہر حال میں منصف اور رحیم ہیں اور ہم کسی طرح ظالم نہیں ہیں بلکہ جب بندوں کی طرف سے شرارت حد کو پہنچ جاتی ہے تو ان کی سرکوبی کے لئے مناسب وقت پر عذاب نازل ہوتا ہے ان مشرکین عرب کے عذاب کے دن بھی اب قریب آگئے ہیں کیونکہ ان کی شرارت اور فساد بھی حد سے بڑھ گیا ہے دیکھو تو اس سے بھی زیادہ فساد کیا ہوگا کہ قرآن شریف کی نسبت یہ کیسے کیسے غلط خیالات رکھتے ہیں کہ اس (محمد علیہ السلام) نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے بعض تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اس کو شیاطین نازل کرتے ہیں یعنی ان کے خیالات کا اثر ہے حالانکہ یہ قران حضرت محمد (علیہ السلام) نے نہ از خود بنایا ہے اور نہ شیاطین نے اس کو اتارا ہے نہ ان شیاطین کو لایق ہے اور نہ ان سے ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اترسکیں بلکہ ان کے اس سے تو پر جلتے ہیں اور مارے خوف کے کانپتے ہیں وہ تو اس قرآن کے سننے سے بھی الگ کئے جا چکے ہیں اور اس سے ان کی طبیعت کو کوئی مناسبت ہی نہیں کیونکہ قرآن کا اثر انکے شرارتی مادہ کو مضر ہے الشعراء
193 الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 الشعراء
197 الشعراء
198 الشعراء
199 الشعراء
200 الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 الشعراء
209 الشعراء
210 الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 (213۔227) چونکہ یہ قرآن مجید ایسی ایک باعظمت کہ آپ تجھ کو ملی ہے جس کا پہلا سبق خالص توحید ہے پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکاریو یعنی اللہ کے سوا کسی چیز کو مت پکاریو خواہ اس کو مخلوق جان کر بھی پکاروگے تو وہ معبود بن جائے گا پس تم ایسا ہرگز نہ کیجئیو ورنہ تو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا کیونکہ جس طرح سنکھیا ہر کسی کو مضر ہے خواہ کوئی کھائے اسی طرح شرک ہر کسی کو مضر ہے خواہ کوئی کرے جو اس کا مرتکب ہوگا ہلاک ہوگا پس تو ایسا کوئی فعل نہ کیا کر اور اپنے قریبی کنبہ والوں کو بالخصوص سمجھایا کر اور جو ایماندار تیرے تابع ہوئے ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کر ایسا کہ اپنے بازو ان کے سامنے جھکا دیا کر یعنی ان سے بتواضع و بتکریم برتائو کیا کر غرض تو ہر ایک خاص و عام سے وسیع الاخلاقی سے برتائو کیا کر باوجود حسن خلق کے پھر بھی اگر یہ لوگ تیری بے فرمانی کریں یعنی کفار عرب تجھ کو نہ مانیں تو تو کہہ کہ میں تمہارے کاموں اور کرتوتوں سے بیزار ہوں یہ کہہ اور اللہ عزیز غالب اور مہربان پر بھروسہ کر جو تجھ کو دیکھتا ہے جب تو نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنیوالوں یعنی نمازیوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھتا ہے کہ کس عاجزی اور خشوع سے تو اور تیرے ساتھ والے نماز ادا کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہی سب کی سنتا اور سب کی جانتا ہے بس وہ تیری بھی سنتا ہے اور تیرے مخالفوں کو بھی جانتا ہے جو کہتے ہیں کہ اس نبی پر قرآن کو شیاطین لاتے ہیں میں (اللہ) تمہیں بتلائوں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں کن کے دلوں میں خیالات واہیات ڈالتے ہیں وہ شیاطین ہر ایک دروغ گو بد کردار پر اترا کرتے ہیں یعنی جھوٹے اور برے لوگوں کو وہ اپنا مورد نزول بناتے ہیں انہی سے تعلقات پیدا کرتے ہیں اور ان تک سنی سنائی باتیں پہنچاتے ہیں اور بہت سے ان میں سے جھوٹے ہیں ایک تو بات بھی ان کی سنی سنائی ہوتی ہے دوئم وہ خود بھی جھوٹے ہوتے ہیں پس تم اس خبر کی صحت کا اندازہ خود ہی لگا لو اور سنو ! انہی جھوٹوں کے پیرو شاعر ہیں جن کے حق میں ایک قومی شاعر نے کیا اچھا کہا ہے برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے تو وہ محکمہ جس کا قاضی اللہ ہے مقرر جہاں نیک وبد کی جزا ہے گنہگارواں چھوٹ جائیں گے سارے جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے یہی وجہ ہے کہ شاعروں کے پیچھے گمراہ لوگ ہی چلتے ہیں آجکل کے رؤسا اور دولتمندوں کا حال ہی کہ کسی شآعر نے ذرہ سی مدح کردی تو آسمان پر چڑھ گئے اگر ذرہ سے مذمت کی تو تحت الثریٰ تک جاپہنچے حالانکہ یہ بالکل فضول خیال ہے کیا تو نے دیکھا نہیں کہ وہ شعرا لوگ ہر ایک جنگل میں گھوم جاتے ہیں یعنی ہر ایک قسم کے مضامین نباہ دیتے ہیں ان کو کسی کی مدح سے غرض نہیں ہوتی نہ کسی کی مذمت سے مطلب بلکہ اصل غرض ان کی مضمون باندھنے یا روپیہ بٹورنے سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک قسم کا مضمون باندھ لیتے ہیں ہر ایک کی مدح اور ہر ایک کی مذمت کرتے رہتے ہیں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا کر دکھا دینا شاعروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے بقول شخصے ؎ جو شاعر کمر جھوٹ پر باندھتے ہیں رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں اور ایک عیب ان میں سخت یہ ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں کرتے نہیں کہنے کو تو توحید وسنت زہد و تقویٰ وغیرہ سب مضامین لکھ دیتی ہیں پر خود ان پر عامل نہیں ہوئے لیکن یہ بدعادات عموما ان شاعروں میں ہوتی ہیں جو دین مذہب سے گئے گذرے ہیں مگر جو لوگ ایمان دار ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں وہ ایسے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں راست بیانی ہوتی ہے نہوہ از خود کسی شخص کی ناجائز مدح یا مذمت کرتے ہیں اور اگر کسی پر حملہ آور ہوتے ہیں تو بعد مظلوم ہونے کے بدلہ لیتے ہیں ورنہ ابتداء کسی پر ظلم نہیں کرتے پس ایسے ایماندار نیکوکار اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور جو ظالم ہیں مخلوق کو ناحق ستاتے ہیں بلاوجہ کو ستے ہیں ہاتھ اور زبان سے ایذائیں دیتے ہیں وہ خو ہی جان جائیں گے کہ کس چکر میں گھوم رہے ہیں جس وقت ان کے اعمال کا نظارہ سامنے آجائے گا تو جان جائیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؎ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بردید جوز جو الشعراء
214 الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 الشعراء
223 الشعراء
224 الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 الشعراء
0 النمل
1 (1۔6) سنو ! میں اللہ بڑا وسعت والاسب عیبوں سے پاک ہوں میری پاکی اور صفات کا علم حاصل کرنا چاہو تو بس یہی اس کا ذریعہ ہے کہ تم قرآن شریف پڑھو یہ آیتیں بھی جو اس سورت میں تم کو سنائی جائیں گی قران شریف یعنی ! روشن کتاب کی ہیں جو کتاب مومنوں کیلئے ہدایت اور بشارت ہے مگر ایمان دار بھی وہ نہیں جو اپنے منہ میاں مٹھو ہوں کریں کرائیں کچھ بھی نہیں صرف منہ سے مؤمن کہلائیں ایسے لوگوں کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں قدر توا نہی لوگوں کی ہے جو اللہ کو مان کر اس کی حکم کے مطابق نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں یعنی جسمانی اور مالی عبادات میں برابر مصروف رہتے ہیں اور آخرت پر ان کو ایسا پختہ اور مضبوط اعتقاد ہے کہ یہ کہنا بالکل بلا مبالغہ ہے کہ آخرت پر ہی یقین رکھتے ہیں کیونکہ ہمہ اوقات ان کو یہی دھن رہتی ہے کہ جو کام کریں آخرت ہی کے لیے کریں اگر کسی سے پیار کرتے ہیں تو اس خیال سے کرتے ہیں کہ اس سے پیار کرنا ان کو آخرت میں کارآمد ہوتا ہے اگر بغض رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں ہی سے رکھتے ہیں جن سے بغض رکھنا آخرت میں کارآمد ہوتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کے لئے قرآن ہدایت ہے یعنی ایسے لوگ جب قران سنتے ہیں تو ان کے دلوں پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور وہ اثران کو اللہ طرف کھینچ لے جاتا ہے گو پہلے بھی وہ کھنچے ہوتے ہیں لیکن قرآن ان کو مزید ہدایت اور تسکین کا باعث ہوتا ہے اور رحمت کی خوشخبری سناتا ہے اور جو لوگ آخرت یعنی روز جزا سے منکر ہیں وہ جو کچھ کرتے ہیں محض اپنے نفس کی خوشی کے لئے کرتے ہیں ان کو اللہ کی خوشی یا نا خوشی کا کوئی خیال نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ ان کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ہم (اللہ) بھی ان کے اعمال ان کی نظروں میں مزین اور خوبصورت کردیتے ہیں پس ان کی کچھ نہ پوچھو جب کسی آدمی کو اپنی برائی بری معلوم ہو تو چھوڑنے کی توقع بھی ہوسکتی ہے لیکن جب اس برائی کو خوبی خیال کیا جائے تو اس کے چھوٹنے کی کیا امید؟ اسی لئے وہ لوگ بھٹکتے پھرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے بہت برا عذاب تیار ہے اور یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں النمل
2 النمل
3 النمل
4 النمل
5 النمل
6 النمل
7 (7۔14) اور یہ لوگ صرف اس لئے تیرے مخالف ہو رہے ہیں کہ قرآن مجید میں ان کے خیالات کی تردید یا اصلاح مذکور ہوتی ہے جس سے یہ لوگ سخت مضطرب اور پریشان ہوتے ہیں حالانکہ قرآن شریف تجھے حکیم علیم اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے جو بندوں کی ضرورتیں جانتا ہے اور حکمت سے پوری کرتا ہے اگر یہ کہیں کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہے ؟ کہ کسی آدمی کو اللہ کی طرف سے کتاب ملے یا وہ رسول ہو کر بندوں کو اللہ کی طرف بلائے تو ان کو سمجھا نے کیلئے حضرت موسیٰ کا قصہ سنا جب موسیٰ اپنے شہر مدین سے اپنی عیال کو لے کر واپس مصر کی طرف آنے لگے اور راستے میں پہاڑ پر آگ دیکھی تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں تمہارے پاس اس سے کوئی خبر یا سلگتا ہوا انگارا لاتا ہوں تاکہ تم لوگ تا پو پس وہ اس خیال سے عیال کو چھوڑ کر نکلے لیکن جب اس آگ کے قریب آیا تو اس کو پکار ہوئی کہ مبارک ہے جو آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد تمام دنیا میں ہے یعنی اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی کہ اے موسیٰ! کس آگ کی تلاش میں ہو ! آئو ہم تمہیں وہ آگ بتلا دیں کہ تمام دنیا کی آگ اس کے آگے ہیچ ہے یعنی العشق نار تحرق ماسوا اللہ یہ آگ اللہ کے عشق کی ہے جس کو کسی درخت سے یا مکان سے کچھ حلول یا نزول کا تعلق نہیں وہ سب جہان میں ہے پھر سب سے الگ بھی ہے اور سن یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان حوادث کا محل ہے نہیں اللہ رب العالمین اس قسم کی نسبتوں سے پاک ہے اے موسیٰ بات اصل یہ ہے کہ میں ہوں وہ ذات جس کا نام اللہ ہے جو سب پر غالب بڑی حکمت والا ہے اور سن یہ لکڑی جسے اٹھائے ہوئے ہے ہماری جناب میں پہنچ کر کسی غیر کو ساتھ رکھنا ٹھیک نہیں پس تو اپنی اس لکڑی کو پھینک دے بس اس کا پھینکنا تھا کہ قدرت الٰہیہ کا جلال ظاہر ہوا کہ وہ سانپ بن کر ہلنے لگا پھر جب اس نے دیکھا کہ وہ لکڑی ایسی پھرتی سے حرت کرتی ہے گویا کہ وہ پتلاسا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے لوٹ کر نہ دیکھا ہم نے اسے آواز دی اے موسیٰ ! یہ کیا حرکت ہے کیا کیفیت ہے ڈرو نہیں ایسے موقع پر تو عام لوگوں کا خوف بھی دور ہوجاتا ہے پھر تیرے جیسا مقرب بندہ کیوں ڈرے سن خصوصا میرے نزیدیک پہنچ کر رسول نہیں ڈرا کرتے تو اگرچہ ابھی تک خلعت رسالت سے مفتخر نہیں ہوا لیکن آخر ہونے والا ہے تیرا زمانہ رسالت بھی قریب ہے پس تجھے بھی انہی کی خصلت اختیار کرنی چاہئے ہاں جو بدعملی سے ظلم کرے یعنی اس سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اسے تو ڈرنا چاہئے لیکن پھر بھی وہ اس جرم کے بعد اگر توبہ کرے اور برائی کے بعد نیکی کا طریق اختیار کرے تو ایسے شخص کے حق میں بھی میں بخشنہار مہربان ہوں اور سن ہم تجھ کو ایک اور کرشمہ قدرت دکھاتے ہیں تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں داخل کر دیکھ وہ بغیر بیماری برص کے سفید چمکتا ہوا نکلے گا موجودہ تورات کی دوسری کتاب خروج باب ٤ کی ٦ آیت میں حضرت موسیٰ کے ہاتھ کو مبروص لکھا ہے قرآن مجید چونکہ کتب سابقہ پر مہیمن (نگہبان) جو کر آیا ہے جہاں پر ان کی کوئی غلطی ہو اس کی اصلاح کرتا ہے اس لئے اس جگہ فرمایا من غیر سوء یعنی مبروص نہ تھا۔ اسی لئے ہم نے برص کا لفظ بڑھایا ہے تاکہ موجودہ تورات کی غلط بیانی کی اصلاح ہو (منہ) یہ دو اور اور باقی سات کل نو نشانوں کے ساتھ تم فرعون اور اس کی قوم کی طرف جائو بے شک وہ بدکاروں کی قوم ہے بدکاری کی جڑ اللہ سے بے خوفی ہے لیکن جو شخص اللہ ہی سے منکر ہو تو اس کی بے خوفی کی بھی کوئی حد ہوگی پھر اس کی بدکاری میں کیا شبہ ہے چنانچہ حضرت موسیٰ مع ہارون سلام اللہ تعالیٰ علیہما فرعون کے پاس آئے اور معجزات دکھائے پھر جب ان کے پاس ہمارے کھلے اور واضح نشان آئے تو انہوں نے بجائے ماننے کے یہ کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے لوگوں میں اس بہتان کو انہوں نے پھیلایا اور ظلم اور تکبر کی وجہ سے جن کے وہ خوگر ہورہے تھے انہوں نے ان نشانات کو نہ مانا گو وہ ظاہر امنکر ہوئے مگر دل ان کے ان کو تسلیم کرچکے تھے پھر تم دیکھ لوکہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا جس طرح وہ دنیا کی نظروں میں ذللم ہوئے اسی طرح یہ لوگ یہی جو اس وقت تمہارے مخالف ہو رہے ہیں اور خواہ مخواہ کی فضول چھیڑ خانیاں کرتے رہتے ہیں ایک روز برباد ہوجائیں گے النمل
8 النمل
9 النمل
10 النمل
11 النمل
12 النمل
13 النمل
14 النمل
15 (15۔44) سلسلہ نبوت کی یہ تو ایک فقیرانہ مثال تم نے سنی ہے اب ایک شاہانہ مثال تم کو بتلاتے ہیں سنو ! ہم نے دائود اور سلیمان سلام اللہ علیہما کو علم دیا تھا یعنی ان کو معرفت الٰہی اور جہابانی کی قابلیت عطا کی ان دونوں باپ بیٹے نے کہا سب تعریف اللہ کو ہے جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر برتری بخشی ایمانداروں کا ذکر اس لئے کیا کہ بے ایمانوں پر فضیلت اور برتری تو کوئی چیز ہی نہیں جب کہ بے ایمان لوگ اللہ کے نزدیک حیوانات سے ہی بدتریں تو ان پر برتری اور بڑائی کیا چیز ہے خیر یہ تو ان کی پہلی پکار تھی جس سے ان کی اندرونی کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ باپ بیٹا اپنی تمام شان و شوکت عزت و حشمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانتے تھے اور سلیمان جب اپنے باپ دائود کا وارث ہوا یعنی باپ کی طرح خدمت دینی اس کے سپرد ہوئی اور ملک پر حکمران ہوا تو سب پہلے اس نے اللہ کا شکر کیا اور کہا اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی بھی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک ضروری چیز اللہ کے ہاں سے ملی ہے بے شک یہ صریح الٰہی فضل ہے ورنہ ہمارا اس میں کوئی حق نہیں اسی طرح حضرت سلیمان نیک نیتی سے حکومت چلاتے رہے ہمیشہ ان کو دین کا خیال مقدم ہوتا اور دنیا کا اس کے تابع ایک واقعہ نظیرا تم کو سناتے ہیں ایک دفعہ حضرت سلیمان کے سامنے جنوں‘ انسانوں اور جانوروں میں سے اس کی فوج جمع کی گئی تو وہ سب ان کے سامنے اکٹھے کئے گئے جمع ہو کر ایک جگہ سے کسی دوسری جگہ کو جانے کا حکم ہوا تو وہ سب چلے یہاں تک کہ وہ چیونٹیوں کے ایک میدان میں پہنچے تو ان چیونٹیوں میں سے ایک نے کہا اے چیونٹیو ! تم اپنے بلوں میں گھس جائو ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کی فوج ناواقفی میں تم کو روند ڈالیں چیونٹی کا یہ کلام بذریعہ الہام یا کشف الٰہی سلیمان تک بھی پہنچا پس وہ اس کی کہنے ہنس پڑا کہ الحمدللہ ان کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ہم اور ہماری فوج جان بوجھ کر ان پر ظلم نہیں کریں گے ممکن ہے کسی صاحب کو اس موقعہ پر یہ اعتراض سوجھے کہ چیونٹی نے کلام کیسے کیا اور حضرت سلیمان نے کیسے سنا اور کیسے سمجھا اس لئے ہم ایسے متوہم آدمی کو چیونٹیوں کے خواص اور حرکات کی طرف توجہ دلانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کی اردو کی آٹھویں کتاب سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں۔ لکھا ہے : ” چیونٹیاں اپنے پرائے کی شناخت بہت اچھی طرح کرتی ہیں باوجودیکہ زندگی تھوڑی ہوتی ہے لیکن اپنا ٹھکانہ کبھی نہیں بھولتیں یگانے اور بیگانے میں تمیز کرسکتی ہیں اگر بھٹک کر ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو جب کبھی ملنے کا اتفاق ہوگا تو فوراً ایک دوسری کو جان جائیں گی۔ ان کی ایک اور بات نہایت ہی عجیب ہے کہ مردوں کو دفن کرتی ہیں اور حضرت انسان کی طرح جنازہ بھی نکالتی ہیں۔ سڈنی واقع نیوسوتھ ویلز کی ایک میم صاحبہ کا بیان ہے کہ اس کا چار برس کا بچہ ایک مکان میں سویا پڑا تھا وہ یکایک چونک پڑا اور وہ جھٹ دوڑ کر اس کے پاس گئی کیا دیکھتی ہے کہ بچہ بلبلا رہا ہے اور اس کے جسم پر چیونٹیوں کا ایک جتھا جما ہوا ہے اسے یقین ہوا کہ چیونٹیوں نے بچہ کو کاٹ کھایا۔ اس نے بیس کے قریب تو مار ڈالیں اور باقی اتار کر مردوں سے دور ہٹائیں پھر وہ بچے کو گود میں لے کر نہلانے لے گئی چونکہ اسے شوق تھا کہ ان کا کچھ حال معلوم کرے واپس آکر کیا دیکھتی ہے کہ کچھ چونٹیاں اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف جا رہی ہیں۔ یہ ان کے پیچھے پیچھے ہو لی۔ وہ اپنے خانوں میں گئیں چار پانچ کے قریب ہوں گی جو اپنے گھروں سے لوٹ کر کچھ دو چل کر ٹھیر گئیں کہ اور آلیں تو مل کر چلیں۔ تھوڑی دیر بعد اپنے گھروں سے بہت سی چیونٹیاں آ کر اکٹھی ہوئیں اور سب چل کر لاشوں کے پاس آئیں اور یہ انتظام کیا کہ دو چیونٹیوں نے ایک لاش کو اٹھایا اور ان کے پیچھے ہو لیں۔ اس طرح سب کے واسطے اہتمام کیا گیا اور باقی دو سو کے قریب ہوں گی جو سب کے پیچھے ماتم کرتی ہوئی چلیں اسی ترتیب سے چل کر وہ سب کی سب ایک چھوٹے ٹیلے پر پہنچیں راستے میں اگر ایک جوڑی تھک جاتی تھی تو پچھلی جوڑی اس کو سبکدوش کرتی تھی۔ وہاں دو سو میں سے آدھیوں نے کچھ گڑھے کھودے اور لاشوں کو ان میں ڈال دیا اور باقی آدھیوں نے ان کے اوپر مٹی ڈال کر ڈھانک دیا۔ چھ کے قریب ایسی رہ گئیں جنہوں نے اس کام میں کچھ امداد نہ دی اس لئے انہیں قتل کیا گیا اور ان کے پہلو ہی میں دفن کردیا گیا جب فارغ ہوئیں تو سب کی سب مقتل پر آئیں وہاں ذرا سا ٹھیر کر ہر ایک نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ میم صاحبہ لکھی ہیں کہ یہ تماشہ ہم نے اپنی آنکھ سے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔“ (اردو کی آٹھویں کتاب) اس کے علاوہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ ایک چیونٹی ادھر سے جاتی ہے ایک ادھر سے آتی ہے دونوں راستے میں منہ جوڑ کر کھڑی ہوجاتی ہیں تھوڑی دیر کے بعد اپنی اپنی راہ کو چلی جاتی ہیں اس سے ان کی باہمی گفتگو تو صاف ثابت ہوتی ہے ہاں یہ سوال کہ حضرت سلیمان نے اس کو کیسے سن لیا اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کو بذریعہ القاء اور الہام الٰہی کے خبر کی گئی تھی اس کا ثبوت عام طور پر ملتا ہے کہ حضرات انبیاء علہیم السلام کو اس قسم کے واقعات کا علم بالہام الٰہی ہوجایا کرتا ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قافلہ نکلنے اور حضرت یوسف کی زندگی کی خبر ہوگئی جس کو انہوں نے الہام الٰہی کی طرف منسوب کیا ہے علی ہذا القیاس اور بھی۔ پس اسی طرح حضرت سلیمان کو علم ہوا ہوگا اور بس (منہ) اس لئے وہ اس کلام سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ اے میرے پروردگا مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر ارزانی کی کہ خاندان نبوت میں پیدا کیا اپنی معرفت سے حصہ وافر بخشآ اور مخلوق پر بے جا ظلم کرنے سے احتراز دیا اور یہ بھی توفیق دے کہ میں نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل فرما جو ہمیشہ تیرا احسان مانتے ہیں اور تیرے شکر گزار رہتے ہیں اسی سفر میں حضرت سلیمان نے پرندوں کی تلاش کی تو کہا کیا وجہ ہے کہ میں ہد ہد یعنی کھٹ بڑھئی پرند کو یہاں نہیں دیکھتا کا وہ مر گیا ہے یا غائب ہے اگر وہ زندہ ہے تو میں اس کی غیر حاضری اس کو سخت عذاب کروں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے پاس کوئی واضح دلیل اپنی غیر حاضری پر لائے پس وہ ہد ہد تھوڑی سی دیر بعد آموجود ہوا جب اس سے سوال ہوا تو اس نے کہا کہ حضور میری غیرحاضری معاف فرمائی جائے میں ایک سرکاری خدمت میں تھا میں نے ایک ایسے امر پر اطلاع پائی ہے جس کی حضور کو ہنوز خبر نہیں اور میں حضور کے پاس قوم سبا سے جو یمن میں رہتے ہیں ایک محقق خبر لایا ہوں میری یہ خدمت سرکاری حلقہ میں بہت کچھ اثر رکھتی ہے اور مدبران ملک اس کی قدر کریں گے حضور ! میں نے یہ ایک عجیب بات دیکھی ہے جو آج تک کہیں دنیا میں نہ ہوئی ہوگی کہ میں نے ایک عورت کو ان قوم سبا پر حکومت کرتے پایا حالانکہ عورت خواہ کتنی ہی لائق کیوں نہ ہو مگر مردوں کی ذہانت قوت اور شجاعت کے سامنے اس کی کیا ہستی لیکن اس ہد ہد کو یہ معلوم نہ تھا کہ نہ ہرزن ہرزن است نہ ہر مرد مرد اللہ پنچ انگشت یکساں نہ کرد اس لئے اس نے حیران ہو کر یہ خبر سنائی حضور ! اور سنئیے ! اسے دنیا کی سب ضروری چیزیں میسر ہیں سلطنت کے متعلق سامان جنگ اور سامان آرائش وزینت سب کچھ اس کے پاس ہے اور اس کا تخت بھی بہت ہی بڑا ہے حضور ! اور ایک بڑے مزے کی بات سنئے ! کہ باوجود اس شان وشوکت۔ حکومت اور ہوشیاری کے ان کی حماقت کا یہ حال ہے کہ میں نے اس ملکہ کو اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ اللہ کے سوا سورج کی عبادت ہی کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے بد اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت دکھا کر ان کو راہ راست سے روک رکھا ہے پس وہ سیدھی راہ کی طرف راہ نہیں پاتے کہ اللہ ہی کو سجدہ کریں جو آسمان و زمین کی چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا ہے اوپر سے بارش لاتا ہے نیچے سے انگوریاں پیدا کرتا ہے اور جو مخفی راز تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو سب کو جانتا ہے سنو ! وہ اللہ ہے یعنی اس کا نام اللہ ہے جس کے معنے ہیں جامع جمیع صفات کمالیہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بڑے تخت کا مالک ہے یعنی تمام دنیا کی سلطنت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اسی کی یہ تعریف ہے ؎ تو جسے چاہے امیری دے جسے چاہے فقیری جسے تو چاہے بزرگی دے جسے چاہے حقیری کرم و عفو سے کیونکر نہ کرے عذر پذیری تو کریمی تو رحیمی تو سمیعی تو بصیری تو معزی تو مذلی ملک العرش بجائی یہ رپورٹ سن کر حضرت سلیمان نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے یعنی جیسے جھوٹے جاسوس خبریں اڑایا کرتے ہیں تو بھی انہی کی طرح تو نہیں اچھایہ لے میری چٹھی اس کو لے جا پس یہ ان کے پاس پہنچا کر ان سے ذرہ ہٹ جائیو پھر دییو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں خیر یہ سن کر ہد ہد سرکاری مراسلہ لے کر چل دیا اور کسی طرح ملکہ کے پاس پہنچا دیا ملکہ نے مراسلہ بہ نشان شاہی دیکھ کر کہاے میرے درباریو ! وزیرو ! امیرو ! میرے پاس ایک معزز مراسلہ آیا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ سلیمان بادشاہ کی طرف سے ہے جس کی شان شوکت کو تم نے بھی سنا اور جانا ہے گو وہ ہم سے بوجہ اپنی عالی مکانی کے واقف نہ ہو مگر ہم تو اسے جانتے ہیں اور تحقیق وہ مراسلہ اللہ رحمن رحیم کے نام سے شروع ہے یعنی ! ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم مرقوم ہے اس نے لکھا ہے کہ ہم سے سرکشی مت کرو اور ہمارے حضور میں فرمانبردار ہو کر چلے آئو کیسا زور دارکلام ہے جو بحکم کلام الملوک ملوک الکلام (بادشاہوں کا کلام بھی کلاموں کا بادشاہ کلام ہوتا ہے) دل پر خاص اثر کرتا ہے اسی اثنا میں اس نے کہا اے میرے مشیر درباریو ! تم میرے اس کام میں مجھے رائے بتلائو کہ میں اس الجھن کو کیسے سلجھائوں تم جانتے ہو آج ہی نہیں ہمیشہ سے میرا دستور ہے کہ جب تک تم لوگ میرے پاس نہ آئو میں کسی ضروری کام متعلقہ سلطنت کو فیصل نہیں کرتی یعنی جب تک کونسل مکمل نہ ہولے میں نے کبھی فیصلہ نہیں کیا گو میں کونسل کی رائے کی بر خلاف بھی گاہے بگاہے کرتی ہوں مرک تمہاری رائے سن کر بے سنے نہیں تم جانتے ہوہندوستان وائیسرائے کی کونسل میں بھی یہی دستور ہے کہ کونسل کی رائے کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا مگر وائسرائے سب کے برخلاف کرنے کا مجاز ہے۔ یہ ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت سلیمان کو تو ملکہ بلقیس کی خبر نہ تھی مگر ملکہ کو کیسے معلوم تھا کہ سلیمان بھی کوئی ایسا بادشاہ ہے جس کا خط قابل عزت ہے۔ (منہ) و لوگ کہتے ہیں کہ انہ من سلیمان سے مراسلہ شروع ہوتا تھا غلط ہے کو بنکہ حضرت انبیاء علیہم السلام کا طریق خط نویسی کا یہی تھا کہ مضمون اور اپنے نام سے پہلے بسم اللہ لکھا کرتے تھے حضرت سلیمان نے نے بھی ایسا ہی کیا تھا ملکہ بلقیس نے مراسلہ کی نویسندہ کا نام از خود پہلے بتلایا تھا ورنہ وہ اس میں بسم اللہ سے پیچھے تھا (منہ) انہوں نے اپنے زعم باطل میں آکر بیک زبان کہا کہ ہم بڑی طاقت والے ہیں اور بڑے لڑاکے ہیں پھر ہم سلیمان سے دبیں تو کیوں؟ ہماری رائے تو یہی ہے کہ اگر وہ اپنی حد سے بڑھے تو اس کا مقابلہ ضرور ہونا چاہئے یہ تو ہماری ناقص رائے اور اختیار سب حضور کو ہے پس سرکار عالیہ جو حکم دینا چاہیں غور فرمالیں۔ ہم تو نمک خوار فرمانبردار ہیں تعملی کرنے کو حاضر۔ ملکہ نے کہا تم سچ کہتے ہو بے شک ہم طاقتور ہیں مگر جس بات سے میں ڈرتی ہوں وہ یہ ہے کہ بادشاہ جب فتح کر کے کسی شہر میں آتے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں کیا تم نے ہندوستان کی جنگوں کا حال نہیں سنا جن کو دہلی کا غدر کہتے ہیں کس طرح انگریزوں نے دہلی کے معززین کو پھانسی پر لٹکایا تھا اور کس طرح ان کو ذلیل کیا تھا تم واقعی جانو کہ ایسا ہی کرتے ہیں چونکہ لڑائی کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں عرب کے لوگ کہا کرتے ہیں الحرب سجال یعنی لڑائی مثل ڈول کے ہے کبھی کسی ہاتھ میں ہے کبھی کسی کے ممکن کیا اغلب ہی کہ ہم مغلوب ہوں گے کیونکہ سلیمان ایک بڑی زبردست سلطنت کا مالک ہے اور ہماری اس کے مقابلہ میں وہی نسبت ہے جو افریقہ کی بوٹروں کی انگریزوں کے مقابلہ میں تھی گو بوٹر اپنی شجاعت اور جوانمردی سے بہت دیر تک انگریزوں سے لڑتے رہے لیکن تابہ کے ” بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی“ آخر مغلوب ہوئی پس میں اسی شش وپنج میں ہوں کہ کہیں فتح کی عزت لیتے لیتے اتنے سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اس لئے میں ان کی یعنی سلیمان اور انکے وزراء کی طرف یہ بھیج کر دیکھتی ہو کہ میرے ایلچی کیا جواب لائیں گے یہ کہہ کر اس نے اپنے سفیر کو حضرت سلیمان کی خدمت میں بھیجا بس جب وہ حضرت سلیمان کے حضور میں پہنچاتو سلیمان نے تحفہ تحائف دیکھ کر بظاہر ترشروئی سے اسے کہا کہ تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ سنو ! جو کچھ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ اس سے اچھا ہے جو تم کو دیا ہے تم ہی اپنے ہدیوں پر خوش ہوا کرتے ہو ذرہ کسی نے تحفہ دیا تو بس پھولے نہ سمانے لگے فخر کرنے ہم انباسء کی جماعت روپے پیسے کے لالچ میں نہیں آیا کرتے پس تو ان کی طرف واپس جا ہم ان پر ایسی فوج لائیں گے کہ اس کے مقابلہ کی سکت ان میں نہ ہوگی اور ہم ان کو ان کے ملک سے ذلیل و خوار کر کے نکال دیں گے یہ کہہ کر اس نے ایلچی کو تو واپس کیا (اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سلام اللہ علیہ نے سفیر بلقیس سے کیوں ایسی سختی کی بحالیکہ شریعت الٰہیہ میں حکم ہے کہ ایلچیوں کے ساتھ حسن سلوک سے برتائو کرو اور اگر کوئی قوم صلح چاہے تو صلح سے رہو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے ایلچی کی توہین نہیں کی تھی بلکہ عزت کے ساتھ اتارا تھا اور جو کچھ سختی ان کے کلام میں معلوم ہوتی ہے یہ صرف لفظوں میں ہے نیز ایلچی مذکور کوئی پیغام صلح یا ماتختی کا اقرار لے کر نہ آیا تھا بلکہ معمولی طور پر تحائف لے کر پہنچا۔ اس لئے حضرت سلیمان نے اس کو متنبہ کیا کہ جب تک باقاعدہ مصالحت یا ماتحتی کا اقرار نہ ہو ہم اتنے پر راضی نہ ہوں گے۔ (منہ) ادھر حضرت سلیمان نے اپنے مشیروں سے کہا اے میرے سردارو اور مشیرو ! کون تم میں سے اس ملکہ بلقیس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے پہلے اس سے کہ وہ لوگ میرے پاس تابع دار ہو کر آئیں جنوں میں سے ایک شورہ پشت دیو بول اٹھا کہ حضور میں اس کو لا سکتا ہوں پہلے اس سے کہ حضور اپنے اس مقام سے اٹھیں اور میں اس کام پر قدرت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں یہ خیال نہ فرمائیے کہ میں اس تخت کے جواہرات وغیرہ سے کچھ نکال لوں گا ایک شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا یعنی وہ کتابی تعلیمات کا عالم تھا جس کی وجہ سے اس کو ایسے امور پر قدرت تھی وہ بولاکہ حضور کی آنکھ جھپکنے سے پہلے میں اس تخت کو حضور کے سامنے لا سکتا ہوں یعنی بہت جلد۔ حضرت سلیمان نے اس کو اس کام پر مامور فرمایا پس جب سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے سامنے اس کو موجود دیکھا تو کہا یہ میرے پروردگار کا فضل ہے کہ ایسے ایسے لائق آدمی میرے ماتحت ہیں تاکہ مجھ کو آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا نا شکری اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو کوئی اللہ کے احسانات کا شکر کرتا ہے وہ صرف اپنے نفس کے لئے شکر کرتا ہے اس کے شکر کا فائدہ اسی کو ہے اور کسی کو نہیں اور جو ناشکری کرتا ہے تو اس کی ناشکری سے بھی کسی کا کچھ حرج نہیں اللہ بھی اسی سے بے نیاز اور کریم ہے نہ بندوں کے شکر کرنے سے اس کا کچھ سنورتا ہے نہ ناشکری سے کچھ بگڑتا ہے یہ اظہار نعمت کر کے حضرت سلیمان نے کہا میں جانتا ہوں کہ ملکہ بلقیس گو بڑی دانا عورت ہے مگر آخر عورت ہے دل و دماغ مردوں کا سا نہیں رکھتی ہوگی اس لئے میں یقینا جانتا ہوں کہ وہ میرے دبائو میں دب کر ضرور خود میرے حضور میں آئے گی پس تم اس کے آزمانے کو اس کا یہ تخت ذرہ متبدل کر دو ہم دیکھیں کہ وہ باوجود تغیر کے اس کے پہچاننے میں راہ پاتی ہے یا ان لوگوں میں ہوتی ہے جو موٹی عقل سے ایسے باریک امور میں راہ نہیں پایا کرتے پس آخر کار جب وہ ملکہ بلقین آئی تو اس کا امتحان لینے کو اسے کہا گیا کہ کیا تیرا تخت اسی طرح کا ہے؟ اس سوال سے ایک غرض تو اس کی عقل اور تمیز کا امتحان کرنا تھا دوسری غرض یہ بھی تھی کہ اپنے تخت کو دیکھ کر یہ دل میں خوفزدہ اور مرعوب ہو کہ سلیمان ایسا زور والا بادشاہ ہے کہ میرا تخت اس قدر جلدی منگا لیا کہ میں ابھی پہنچی نہیں مگر وہ مجھ سے پہلے موجود ہے چنانچہ اس امتحان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی عقل کا اندازہ بھی ہوگیا کیونکہ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے گو تم لوگوں نے اس میں کہیں کہیں رد و بدل کرنے سے تغیر و تبدل کردیا ہے مگر میں بھی تو آخر ملکہ بلقیس ہوں یہ تو اس کی عقل کا امتحان تھا اس میں تو وہ بری خوبی سے پاس ہوگئی اور اس بلقیس نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ سے پہلے بھی سلیمانی زور اور جبروت کا ہم کو علم تھا اور ہم حضور کے فرمانبردار تھے پس اصلی غرض جو اس امتحان سے تھی وہ بھی پوری ہوگئی کہ ملکہ بلقیس کے دل پر سلیمانی رعب خوب اثر کر گیا اس کے انداز گفتگو سے ہی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت سلیمان کے رعب کا سکہ اس کے دل میں پہلے ہی سے تھا مگر اختلاف مذہبی اور تعصب کے باعث وہ آج تک نہ پہونچی تھی اور اس کو شاہی حضور میں حاضر ہونے سے ان چیزوں نے روک رکھا تھا جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی اس لئے وہ اس تعصب مذہبی اور مخالفت کی وجہ سے آج تک الگ تھلگ رہی جس طرح ہندوستان کے مشرک ہندو صبح صبح مسلمانوں کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتے اسی طرح ملکہ بلقیس بھی دربار شاہی سے متنفر رہی کیونکہ وہ کافروں کی قوم سے تھی جو اللہ کے سوا اور چیزوں کی بھی عبادت کیا کرتے ہیں خیر اس ابتدائی ملاقات اور معمولی گفتگو کے بعد اسے کہا گیا کہ شاہی محل میں داخل ہوجائے وہ محل خاص اسی تقریب کیلئے تیار کرا کر آراستہ کیا گیا تھا اس کا فرش سفید شفاف بلور کا تھا اور اس کے نیچے پانی ہلتا تھا پس جب اس نے اس محل کو دیکھا تو اس کے فرش کو گہرا پانی سمجھا اور کپڑوں کو پانی سے بچانے کیلئے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا حضرت سلیمان نے یا ان کے کسی معتمد (سرکاری ایڈی کانگ) نے کہا یہ محل شیشوں جڑائو ہے پانی نہیں ہے یہ سن کر اس نے کپڑا چھوڑ دیا پھر ملکہ بلقیس وہاں فروکش ہوئی اسی طرح کئی دن تک جب مصاحبت حاصل کی اور اس کے خیالات میں تبدیلی ہوئی تو آخر ایک روز اس نے کہا اے میرے پروردگار ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ آج تک تیرے ساتھ میں ان چیزوں کو شریک کرتی رہی جو حقیقت میں تیری شریک نہ تھیں اور آج سے میں حضرت سلیمان کے ساتھ خاص اللہ رب العالمین کی فرمانبردار بنتی ہوں پس میرے پچھلے گناہوں کی معافی ہو آئندہ کو میری توبہ ! دیکھو کہ اتنی بڑی تاج دار اور سلطنت کی مالک مگر جب ہدایت اور سچی راہ اس کو سمجھائی گئی تو فورا اس نے گردن جھکا دی النمل
16 النمل
17 النمل
18 النمل
19 النمل
20 النمل
21 النمل
22 النمل
23 النمل
24 النمل
25 النمل
26 النمل
27 النمل
28 النمل
29 النمل
30 النمل
31 النمل
32 النمل
33 النمل
34 النمل
35 النمل
36 النمل
37 النمل
38 النمل
39 النمل
40 النمل
41 النمل
42 النمل
43 النمل
44 النمل
45 (45۔58) حقیقت میں انسان کا یہ کمال شرافت ہے کہ اللہ کے حکموں کے آگے چوں نہ کرے اسی امر کی ہدایت کرنے کو دنیا میں ہزار ہا انبیاء اور نیک بندے آئے اور اسی غرض کیلئے ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی حضرت صالح نبی کو بایں پیغام بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو پس وہ سنتے ہی دو مختلف گروہ ہو کر باہمی جھگڑنے لگے ایک فریق تو الٰہی ہدایت کے مطابق کاربند ہوا ایک گروہ بدستور ان کا مخالف رہا اس گروہ کے لوگ حضرت صالح اور ان کے معتقدین کے ساتھ بگڑ کر کہتے کہ ہم تو تمہاری بات کبھی نہ مانیں گے تم اگر سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آئو تب ہم تمہاری کرامت مانیں گے یہ قصہ وقضیہ سن کر حضرت صالح نے کہا میرے بھائیو ! اللہ سے عافیت اور نیکی چاہو بھلائی سے پہلے برائی کو جلدی جلدی کیوں چاہتے ہو بھائیو ! کیوں اللہ تعالیٰ سے تم بخشش نہیں مانگتے تاکہ اللہ تمہارے گناہ بخشدے اس کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں پس تم بخشش مانگو تاکہ تم پر رحم کیا جائے وہ بھلا کہاں مانتے جاہل بگڑے ہوئے اللہ کی پناہ ! بولے بخشش مانگنے نہ مانگنے کی بات تورہی الگ تیرے کہنے سے تو ہم مانگنے کے نہیں کیونکہ ہم نے تجھ کو اور تیرے ساتھ والوں کو جو یہ لمبی لمبی ڈاڑھی لٹکائے پھرتے ہیں اور دن میں پانچ پانچ سات سات دفعہ نمازیں پڑھتے ہیں ان کو بڑاہی منحوس پایا ہے واللہ جب سے تم اس نئے خیال کے لوگ پیدا ہوئے ہو کئی ایک قسم کی بلائیں ملک پر آئی ہیں اور کئی ایک طرح کی آفات ارضی و سماوی بیماری ہمارے ملک کو کھا گئی ہیں حضرت صالح نے کہا بھائیو ! تم تو ضد میں باتیں کرتے ہو بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ کریں ہم مگر پڑے تم پر اسی سے تم سمجھو کہ تمہاری نحوست کا اصل سبب اللہ کے ہاں سے تمہاری بدکرداری ہے یہ نہیں کہ ہمارے برے اعمال سے تم ہلاک ہوجائو نہیں بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو جو اپنے ہی گناہوں کے باعث عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہو تمہاری بدکرداری کوئی ایسی چیز ہے جو کسی سے مخفی ہو ہرگز نہیں خیر یہ تھی عام لوگوں کی گفتگو ان کے علاوہ خاص شہر میں نو شخص ایسے تھے جو ملک میں فساد کرتے تھے اور کسی طرح سے اصلاح نہ کرتے تھے انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا آئو بھئی عہد کرو اور اللہ کے نام کی قسم کھائو کہ جس طرح سے بن پڑے ہم اس صالح کو اور اس کے ساتھ والوں کو قتل کر ڈالیں گے پھر اس کے والی یعنی قریبی رشتہ دار کو کہہ دیں گے کہ ہم اس کی ہلاکت کے وقت حاضر نہ تھے نہ ہمیں کوئی خبر ہے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ معاملہ کس سے ہے اس لئے انہوں نے یہ چالاکی سوچی اور ہر طرح کے خفیہ دائو کئے کہ کسی طرح کامیاب ہوسکیں ہم (اللہ) نے بھی خفیہ حکم دیا) ایسا کہ ان کو نیست و نابود کردیا اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی پس تو دیکھ کہ ان کے دائو کا انجام کیسا ہوا کہ ہم نے ان نو اشخاص کو اور ان کی ساری قوم کو ہلاک کردیا پس ان کے مظالم کی وجہ سے یہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں تم سوچتے نہیں کہ بدی کا انجام ہمیشہ بد ہوتا ہے بے شک اس مذکور میں علم دار قوم کیلئے بہت بڑی ہدایت کی نشانی ہے وہ جان سکتے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ برے اعمال ثمرہ نیک نہیں دیا کرتے دیکھو ان کو ہم نے یوں تباہ کیا اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیز گار تھے ان کو ہم نے نجات بخشی گویہ کارروائی ساری کفار کے منشاء کے بر خلاف ہوئی مگر ہمارے حکم کے بر خلاف نہیں ہوئی کیونکہ ہم نے اس کو بھیجا تھا اور حضرت لوط کو بھی ہم نے بھیجا تھا جس کا قصہ بھی عجائبات زمانہ سے ایک اعجوبہ ہے اس کی ابتدا اس وقت سے ہی جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم دیدہ دانستہ بے حیائی کرتے ہو کیا تمہیں شرم نہیں آئی کہ تم عورتوں کے سوا شہوت پوری کرنے کیلئے لڑکوں پر گرتے ہو بس بات یہ ہے کہ تم بالکل جہالت کے کام کرتے ہو پس یہ سن کر اس کی قوم کا جواب یہی ہوا کہ انہوں نے آپس میں کہا لوگو ! سنو ! ان بھلے مانسوں یعنی لوط کے ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال دو کیونکہ یہ لوگ تمہارے جیسے کام کرنے سے پاک رہتے ہیں اور بڑے نیک بخت بننے کے مدعی ہیں اس لئے مناسب نہیں کہ ہم بدکاروں میں ایسے نیکوکار رہیں ورنہ خطرہ ہے ؎ کسی دن یہ پگڑی اچھل جائے گی پس بہت جلدی ان کو الگ کرو پس جب وہ ان کھوٹے ہتھیاروں پر آئے تو ہمارا غضب بھی موجزن ہوا ہم نے اس لوط کو اور اس کے ساتھ والوں کو عذاب سے بچا لیا سوائے اس کی عورت کے اس کی بے فرمانی کی وجہ سے ہم نے اس کو عذاب میں پیچھے رہنے والوں میں مقدر کر رکھا تھا ان کو تو بچایا اور ان مخالفوں پر پتھروں کی بارش کی پس کچھ نہ پوچھو کہ ان ڈرائے ہوئے لوگوں پر کیسی بارش تھی بہت ہی بری طرح سے وہ کچلے گئے اور ان پر تباہی آئی النمل
46 النمل
47 النمل
48 النمل
49 النمل
50 النمل
51 النمل
52 النمل
53 النمل
54 النمل
55 النمل
56 النمل
57 النمل
58 النمل
59 (59۔60) لہٰذا اے نبی ! تو بھی اپنے مخالفوں سے کہہ کہ اس تباہی کے آنے سے پہلے سمجھ جائو اور میری بات کو کان لگا کر سنو ! کہ میں کیا کہتا ہوں میرا سبق یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی سب چیزیں اس مالک الملک کے تابع فرمان ہیں جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہی ان کا خالق ہے وہی ان کا حقیقخ مالک ہے اس لئے میری تعلیم کا پہلا سبق یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ سب تعریفیں اللہ اکیلے ہی کے لئے ہیں یعنی خالقیت ما لکیت‘ راز قیت‘ عالمیت وغیرہ سب کی سب اسی ذات ستودہ صفات کے حق میں ہیں ان میں کسی بندے کا ساجھا نہیں اور سلام اور بزرگانہ تعظیم اس کے نیک بندوں پر ہے جن کو اس نے برگزیدہ فرمایا اتنے ہی سے اللہ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کا مرتبہ بخوبی پہچانا جاسکتا ہے کہ وہ مالک ہے اور وہ بندے پس بتلائو کیا اللہ سب سے بہتر ہے یا جن کو یہ مشرک لوگ اللہ کے شریک بناتے ہیں وہ اچھے ہیں اگر ان کو اچھے کہو تو بھلا اتنا تو بتلائو کہ کون ہے جس نے آسمان بنائے اور زمین پیدا کی اور ہمیشہ تمہارے لئے اوپر سے پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ خوشنما گھنے گھنے ایسے باغ اگاتا ہے جن کی درخت پیدا کرنے کی تم میں طاقت نہیں تمام درخت بنانے کی طاقت تو کیا ہی ہوتی ایک پتہ کی بھی نہیں کیا اتنی بڑی مخلوق بنانے میں کوئی اور معبود بھی اللہ کے ساتھ ہے؟ نہیں نہیں بلکہ یہ لوگ کجرو ہیں مجال نہیں کہ سیدھی اور ستھری تعلیم کو قبول کریں النمل
60 النمل
61 بھلا یہ بھی تو بتلائو کہ کس نے زمین کو تمہارے ٹھیرنے کی جگہ بنایا اور اس کے بیچ میں قدرتی طور پر دریا جاری کئے اور اس پر بڑے بڑے اٹل پہاڑ پیدا کئے اور درمیان دو (میٹھے اور کھارے) سمندروں کے روک کردی کہ میٹھا کڑوا پانی الگ رہتا ہے کیا اس صفت میں کوئی اور معبود بھی اللہ کے ساتھ ہے کوئی نہیں بلکہ بہت سے ان مشرکوں میں سے جانتے نہیں یونہی بے علمی اور جہالت سے باپ دادا کی تقلید پر چلے جاتے ہیں النمل
62 بھلا ایک بات اور بتلاؤ کون ہے جو عاجزوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جب وہ اس کو پکارتے ہیں اور اپنے بندوں سے تکلیف دور کردیتا ہے اور تم کو زمین پر ایک دوسرے کے خلیفے بناتا ہے باپ کے مرنے پر بیٹا قائم مقام ہوجاتا ہے بتلاؤ کوئی معبود اللہ کے ساتھ ہے؟ کوئی نہیں مگر افسوس ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پاتے ہو بلکہ یوں کہئے کہ پاتے ہی نہیں النمل
63 بھلا ایک بات اور بتلاؤ کون تم کو برو بحر کے اندھیروں میں مطالب کی طرف راہ نمائی کرتا ہے یعنی کس نے وہ علامات پیدا کر رکھی ہیں جن سے تم راہ یاب ہوسکتے ہو اور کون اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دیتے کیلئے بھیجتا ہے جن کے آنے سے لوگ جان جاتے ہیں کہ باران رحمت کا نزول ہوا چاہتا ہے کیا ایسے کام کرنے میں کوئی اور معبود بھی اللہ کے ساتھ ہے ! کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بلند ہے النمل
64 بھلا کون ہے جو مخلوق کی پیدائش شروع کرتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے اوپر سے بارش کرتا ہے زمین سے نباتات اگاتا ہے کیا کوئی اور معبود بھی اللہ کے ساتھ ہے؟ اے نبی ! تو کہہ کہ ہماری طرف سے تم اتمام حجت ہوچکا اور دلائل کے ساتھ ثابت کردیا گیا کہ اللہ کا کوئی ساجھی نہیں ہے اگر ہماری اس تقریر کو تم نہیں مانتے تو اچھ احسب قاعدہ علم مناظرہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ جس سے تمہارا مدعا ثابت ہوسکے کہ اللہ کے ساجھی ہیں ہم بھی اس دلیل پر غور کریں گے اگر صحیح اور قابل قبول ہوگی تو قبول کریں گے نہیں تو جواب دیں گے۔ النمل
65 (65۔82) اے نبی ! یہ تو کیا ہی دلیل لائیں گے تو ہی ان کو کہہ اور ایک دلیل اور سنا کہ سنو ! معبود برحق کیلئے اپنے عابدوں کے حالات سے اطلاع پانا اور ان کے غیوب سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے لیکن جب ہم دنیا کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتانہ آسمانوں کے فرشتے نہ زمین کے باشندے یہاں تک کہ ان لوگوں کو اپنے حال سے بھی خبر نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ قبروں سے یا نیند سے کب اٹھائے جائیں گے حالانکہ یہ واقعات ان کی ذات پر روزانہ آتے رہتے ہیں یا آنے والے ہیں مگر ان کو خبر تک نہیں بلکہ ان مشرکوں کا علم آخرت یعنی دوسری زندگی کے متعلق ختم ہوچکا ہے موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا وجود ان کی سمجھ میں نہیں آتا بلکہ ان کو ابھی تک اس قیامت میں شک ہے بلکہ گمراہی کے گڑھے میں ایسے گرے ہیں کہ گویا اس آخرت کے وجود سے اندھے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ کافر لوگ جب قیامت کے دن اٹھناسنتے ہیں اور جواب معقول نہیں بنتا تو یہ کہتے ہیں کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مر کر مٹی ہوجائیں گے تو اس سے بعد پھر ہم زمین سے نکالے جائیں گے نہیں نہیں ہرگز نہیں آج سے پہلے بھی ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو اس قسم کے وعدے دئیے گئے تھے عرب کے عیسائی پادری اور یہودی علماء سے سننے میں آتا تھا جس کا وقوعہ آج تک نہ ہوسکا پس نتیجہ صاف یہ ہے کہ یہ باتیں محض پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں پہلوں سے پچھلوں نے سن لیں اور پچھلوں نے اور پچھلوں کو سنا دیں پس تو اے نبی ! ایسے جلد بازوں کو کہہ کہ زمین میں جا کر سیر کرو پھر دیکھو کہ مجرموں بدکاروں اور نافرمانوں کا انجام کیسا ہوا ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور ہدایت پاؤ اور سمجھو کہ ؎ تو مشو مغرور بر علم اللہ دیر گیرد سخت گیرد مرترا پس ان کو یہ پیغام سنا دے اور ان کی ہال پر کسی قسم کا غم فکر نہ کر کہ کیوں نہیں ایمان لاتے۔ نہیں لاتے نہ لائیں پڑے اپنا سر کھائیں تیرا کیا لیں گے اور میرا کیا بگاڑیں گے تو ان کی خفیہ سازشوں اور فریبوں سے دل تنگ نہ ہو بلکہ ان سب کا معاملہ اللہ کی سپرد کر اور جو کچھ کہتے ہیں چپکا سا سنتا جا دیکھو تو کیسے عقل مند ہیں کہ بجائے ڈرنے کے کہتے ہیں یہ قیامت کا وعدہ کب ہوگا اگر سچے ہو کر ضرور آئے گی تو بتلاؤ تو ان کو کہہ اصل روز قیامت کی خبر تو کسی مخلوق کو نہیں ہاں ہم یہ بتلا سکتے ہیں کہ عنقریب تمہارے جلدی مانگے ہوئے بعض عذاب تم پر آجائیں گے لیکن علم الٰہی کے مطابق جب ان کا وقت آئے گا تب آئے گا کیونکہ تیرا پروردگار لوگوں کے حال پر بڑا فضل رکھتا ہے وہ ہمیشہ ان کو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے لیکن بہت سے لوگ شکر نہیں کرتے مگر یاد رکھیں اس ناشکری کا بدلہ خود ہی بھگتیں گے اور جو جو کچھ یہ لوگ سینوں کے اندر چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں تیرا پروردگار اس کو خوب جانتا ہے اس کے علاوہ اور بھی جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں کہیں چھپی ہوئی چیز ہے وہ کتاب مبین یعنی علم الٰہی میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم سب علموں کی اصل ہے دنیا کے سچے علوم سب اسی سے نکلتے ہیں بے شک اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ قرآن مجید بنی اسرائیل کو بہت سی ایسی باتیں بتلاتا ہے جن میں وہ باہمی مختلف ہیں کیونہ یہ قرآن اللہ عالم الغیب کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا ہے جس کے علم میں سب کچھ ہے پس جو حق ہے وہ بتلا دیتا ہے مثلا بنی اسرائیل کا اس مسئلہ میں سخت اختلاف ہے کہ حضرت مسیح کون تھے یہودی تو ان کو آدمی کہتے اور عیسائی ان کو اللہ جانتے اس میں قرآن مجید نے یہ فیصلہ دیا کہ مسیح بھی اور آدمیوں کی طرح ایک آدمی ہے آدمیت اور انسانیت جیسی اور لوگوں میں ہے ان میں بھی ہے اس مسئلہ میں تو یہودیوں کے حق تک فیصلہ ہوا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ آدمی ہے تو کس درجہ کا ہے یہودی ان کو معاذ اللہ ناجائز مولود کہتے ہیں اور برے برے الفاظ سے یاد کرتے تھے عیسائی ان کو بڑا مقدس جانتے تھے اس مسئلہ میں قرآن مجید نے یہودیوں کو قائل کیا کہ تمہارا خیال محض غلط ہے حضرت مسیح اللہ کے مقرب بندے تھے غرض اسی طرح کے کئی ایک بے لاگ فیصلے قرآن میدم نے کئے کیونکہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور کچھ شک نہیں کہ وہ ہدایت ہے اور ماننے والوں کے لئے رحمت پس تو ان کو سنادے اور اللہ کی سپرد کر بے شک ایک روز تیرا پروردگار اپنے حکم کے ساتھ ان میں فیصلہ کرے گا اور وہ سب پر غالب اور بڑا علم والا ہے نہ اس کو کسی کے جتلانے کی حاجت ہے نہ اس کے حکم کو کوئی روک سکتا ہے پس تو اسی مالک الملک اللہ برحق پر بھروسہ کر اور ان کی فضول اور لا یعنی باتوں کا خیال نہ کر کچھ شک نہیں کہ تو واضح حق پر ہے جس کے حق ہونے میں داناؤں کی نظروں میں کوئی خفا نہیں ہاں اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ معاند لوگ ہر ایک راستی کو جو ان کے منشا کے خلاف ہو ناپسند کیا کرتے ہیں ان کو نہ کبھی فائدہ ہوا نہ ہوگا کیونکہ وہ تو زندوں سے نکل کر مردوں میں جا چکے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تو زندوں کی ہدایت کیلئے آیا ہے مردوں کو ہدایت نہیں کرسکتا اور نہ بہروں کو سنا سکتا ہے خصوصا جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جاتے ہوں سو یہی کیفیت ان کی ہے کہ گمراہی اور ضد میں ایسے منہمک ہیں کہ بہروں اور اندھوں سے بدترین رہے ہیں اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی میں راہ نہیں دکھا سکتا کیونکہ سوتے کو جگانا تو ممکن ہے مگر جاگتا آدمی جو دانستہ سوتا ہے اسے کون جگائے پس تو یاد رکھ کہ تو صرف انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو ہمارے حکموں کو مانتے ہیں یعنی انہی لوگوں کے دلوں میں تیری تعلیم اثر کرے گی جن کے دلوں میں یہ بات مضبوطی سے جم گئی ہو کہ اگر یہ باتیں اللہ کی طرف سے ثات ہوئیں تو ہم ان کو ضرور مان لیں گے یہ نہ ہو کہ خواہ کچھ ہی ہو کبھی نہ مانیں گے یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ خواہ کتنے ہی مخالف ہوں آخر کار ایک وقت آتا ہے کہ سنتے سنتے وہ تابع فرمان بھی ہوجاتے ہیں شریر اور بد ذات جو ذاتی عداوت رکھتے ہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں اور جب ان کی کثرت ضلالت کی وجہ سے ان پر گمراہی کا حکم لگ جائے گا ان کے لئے ایک باکمال انسان زمین میں پیدا کریں گے جو ان کی بے ایمانی کا اظہار ان لفظوں میں کرے گا کہ لوگ ایسے خراب ہوگئے ہیں کہ ہماری یعنی اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے تھے اس دابہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں جن میں سے اکثر تو عجائب پرستی سے پر ہیں۔ قرین قیاس وہ قول ہے جو حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ یہ دابہ دم دار نہ ہوگا بلکہ ڈاڑھی والا ہوگا یعنی انسان ہوگا (معالم التنزیل) پس اس روایت کے موافق معنے یہ ہوں گے کہ جب دنیا میں گمراہی بہت زیادہ ہوجائے گی تو اللہ کوئی مرد صالح (مہدی یا مسیح) پیدا کرے گا جو لوگوں کی بے ایمانی پر ملامت کر کے ان کو ہدایت کرے گا اس کے بعد لوگ پھر خراب ہوں گے تو قیامت قائم ہوجائے گی اس کا ذکر و یوم نحشرھم الآیہ میں آیا ہے۔ منہ النمل
66 النمل
67 النمل
68 النمل
69 النمل
70 النمل
71 النمل
72 النمل
73 النمل
74 النمل
75 النمل
76 النمل
77 النمل
78 النمل
79 النمل
80 النمل
81 النمل
82 النمل
83 (83۔93) اس روز دنیا میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہوگا اور جس روز ہم ہر ایک قوم میں سے ایک جماعت ان لوگوں کی جمع کریں گے جو ہمارے حکموں کو جھٹلاتے تھے پھر وہ ایک وسیع میدان میں جمع کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ آئیں گے تو اللہ فرشتوں کی معرفت انکو کہے گا کیا تم نے میرے حکموں کی تکذیب کی تھی اور ان کا علم حاصل نہ کیا تھا نہ پڑھے تھے نہ بغور سنے تھے پھر کیا بلا سوچے سمجھے انکاری ہو بیٹھے تھے یا کیا کرتے تھے ان باتوں کا وہ کیا جواب دے سکیں گے بجز خاموشی اور سکوت کے کیونکہ یہ واقعات ہی ایسے ہوں گے کہ بجز تسلیم چون و چرا نہ کرسکیں اس لئے فیصلہ کیا جائے گا اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب کا حکم لگ جائے گا پھر وہ اپنا فرد جرم دیکھ کر بول نہ سکیں گے پس ان لوگوں کو چاہئے کہ اس فیصلہ عظیمہ سے پہلے ہی نیک کام کی طرف لگ جائیں کیا انہوں نے اس امر پر کبھی غور نہیں کیا کہ ہم (اللہ) نے رات کے وقت کو اس لئے بنایا کہ لوگ اس میں نیند کے ساتھ آرام حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں معاش کے ذرائع پر عمل کریں کیا یہ لوگ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ جس قدر سورج کی روشنی ہے مصنوعی طریق سے اتنی روشنی حاصل کرنے میں کتنا کچھ خرچ اٹھے گا تاہم کس کو توقع ہوسکتی ہے کہ ایسی روشنی ہوسکے پھر جب یہ مفت ملتی ہے تو کیا اس نعمت کا شکریہ یہی ہے کہ اللہ خالق برتر کی حکم پرداری نہ کی جائے؟ بے شک اس صنعت الٰہی میں ماننے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں یعنی جو لوگ کسی حقانی اور سچی بات کو ماننے کے لئے دل سے تیار رہتے ہیں ان کے لئے اس بیان میں ہدایت کے بہت سے نشان ہیں جو لوگ ان دلائل سے ہدایت پاتے ہیں ان کو فائدہ ہوتا ہے اور جس دن صور پھونکا جائے گا یعنی قیامت کا دن ہوگا تو سب لوگ آسمان اور زمین والے گھبرا اٹھیں گے مگر جس کو اللہ چاہے گا اس گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا انہی لوگوں کو اس روز امن و امان ہوگا جو پروردگار کے احکام کو دل سے سنتے اور عمل کرتے ہیں اور یوں تو اس روز یہ عام حالت ہوگی کہ سب کے سب اگلے اور پچھلے تمام لوگ اللہ کے پاس عاجزانہ صورت میں حاضر ہوں گے جہاں پر ان کے اعمال کا ان پورا بدلہ ملے گا اگر نیک اعمال کئے ہوں گے تو عزت پا جائیں گے اگر بد اعمال ہوں گے تو پھنسے رہیں گے اور قیامت کے اول حصے میں یعنی فنا کے وقت تم پہاڑوں کو دیکھ کر سمجھو گے ایک جگہ پر جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح اڑتے ہوں گے (اس آیت میں تری کا لفظ ہے جو مصارع کا صیغہ ہے عری زبان میں فارسی کی طرح مضارع دونوں معنے (حال و استقبال) کے لئے آتا ہے پس اس قاعدہ سے اس آیت کے یہی دو معنے ہوں گے ایک استقبال کے جو ہم نے کئے ہیں دوسرے حال کے۔ حال کے معنے پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ پہاڑوں کو ایک جگہ قائم دیکھ کر ان کو جمے ہوئے سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح تیز چل رہے ہیں یعنی زمین کی حرکت کی طرف اشارہ ہے جو آج کل حکماء یورپ کی تحقیق ہے قرآن مجید نے صدیوں پیشتر اس کی خبر دے رکھی ہے ایسا کیوں نہ ہو قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض ممکن ہے یہ معنی کسی عالم کی رائے کے خلاف ہوں۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ کے برخلاف نہیں (منہ) جو اللہ کی صفت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے یعنی جس قانون اور قاعدہ پر اس کو چلایا ہے برابر چلتی ہے ممکن نہیں کہ ذرہ بھر ادھر یا ادھر ہوجائے کیونکہ اس کا علم بڑا وسیع ہے کچھ شک نہیں کہ وہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اسی لئے اس کا عام قانون ہے جو لوگ نیک کام لے کر اس کے پاس حاضر ہوں گے ان کو اس سے اچھا بدلہ ملے گا اور وہ اس قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے بے خوف ہوں گے گو ہیبت الٰہی کی وجہ سے وہ بھی دم بخود ہوں گے مگر انجام کے لحاظ سے ان کو بے خوف سمجھنا چاہئے اور جو لوگ برے کام لے کر حاضر ہوں گے ان کو آگ میں اوندھا کر کے ڈالا جائے گا یہ مت سمجھو کہ ان پر ظلم ہوگا نہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے برے عمل کئے ہوں گے وہی ان کو بدلہ ملے گا یہ سن کر شاید ان کو خیال ہو کہ اچھا تم تو ہم کو ہمارے دستورات اور عبادات سے روکتے ہو تو تم نے کون سا دستور ہمارے لئے بنایا ہے تو اے نبی ! تو ان کہہ کہ میں تم کو وہی دستور بتاتا ہوں جس کا میں مامور ہوں مجھے صرف یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ معظمہ) کے پروردگار حقیقی کی عبادت کروں جس نے اس شہر کو محترم اور معزز بنایا ہے نہ کے ان مصنوعی معبودوں کو تمہاری طرح پوجوں میں ہی کیا تمام چیزیں اسی کی زیر فرمان ہیں اسی لئے مجھے یہی حکم ہے کہ میں یہی اللہ کے فرمانبرداروں میں شامل ہوجاؤں سب سے بڑی عزت جو مخلوق کیلئے حاصل ہوسکتی ہے وہ اللہ کی فرماں برداری ہے کیا تم نے حضرت شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا ؎ مہتری درقبول فرمان است ترک فرماں دلیل حرمان است اس لئے بس مجھ کو اور تم کو یہی حکم ہے کہ اسی کے ہو رہو اس کی فرمانبرداری کے مدعی تو بہت لوگ ہیں مگر میں تم کو اس کی ایک علامت بتلاتا ہوں کہ تابع دار کون ہے؟ تابع دار وہ ہے جو اپنی زندگی اور موت سب کو اللہ کے حوالہ کر دے یعنی ہرقسم کی حرکات اور سکنات اپنے مالک کے زیر فرمان کرے جہاں پر مالک ٹھیرنے کا حکم دے وہاں ٹھیرے جہاں چلنے کا حکم دے وہاں سے چلدے یہی معنی ہیں بزرگوں کے اس کلام کے ؎ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے کے تدبیر ہے تو یہ ہے چونکہ اسی گر کے بتلانے کو اللہ کی طرف سے قرآن مجید نازل ہوا ہے اسی کے پڑھنے سے انسان کے دل پر نقش ہوسکتا ہے کہ میں کس کا بندہ ہوں اور کون میرا مالک ہے اس لئے مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ میں قرآن مجید پڑھوں اور تم لوگوں کو پڑھاؤں اور مطلب کی تشریح کر کے سناؤں پھر جو کوئی ہدایت پائے وہ اپنے لئے ہدایت پائے گا اور جو گمراہ ہوگا یعنی قرآن مجید کی تعلیم کی طرف دھیان نہ دے گا تو تو کہہ دے میرا کیا بگاڑے گا میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ایک ہوں مجھ سے پہلے کئی ایک ڈرانے والے ہو گزرے ہیں کوئی مانے نہ مانے مجھے اس سے کیا جس نے مجھے بھیجا ہے وہ خود سمجھ لے گا اور خوب سزا دے گا اس لئے اس نے مجھے فرمایا ہے کہ اے نبی ! تو کہہ کہ سب تعریفات اللہ کیلئے ہیں وہ تم کو اپنے نشان دکھلائے گا پھر تم انکو پہچانو گے ایسے پہچانو گے کہ صاف صاف مان جاؤ گے کہ واقعی ہمارا قصور تھا اور سن رکھو کہ تمہارا پروردگار تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے جو کچھ تم کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ پاؤ گے۔ النمل
84 النمل
85 النمل
86 النمل
87 النمل
88 النمل
89 النمل
90 النمل
91 النمل
92 النمل
93 النمل
0 القصص
1 (1۔14) لوگو ! سنو میں ہوں اللہ بڑی تونگری والا سب عیبوں سے پاک سلامتی والا یہ احکام جو تم کو اس سورت میں سنائے جاتے ہیں واضح کتاب قرآن مجید کے ہیں پس تم ان کو سنو ! ان حکموں سمجھانے کے لئے حضرت موسیٰ اور فرعون کا سچا سچا قصہ ہم ایمانداروں کے لئے تجھ کو سناتے ہیں کچھ شک نہیں کہ فرعون ایک بڑا مفسد آدمی تھا اس نے زمین پر ناحق تکبر کیا تھا اپنا رتبہ عبودیت چھوڑ کر الوہیت کے درجہ کا مدعی بنا تھا اور اس نے اپنی چال بازی سے ملک کے رہنے والوں کو الگ الگ گروہ گروہ بنا دیا تھا جن میں اختلاف ڈال کر سلطنت کرتا تھا جیسا کہ عموما بادشاہوں کا دستور ہوتا ہے ان میں سے ایک جماعت یعنی بنی اسرائیل کو کمزور کرتا تھا ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا اس سے غرض اس کی یہ تھی کہ ان میں فوجی قوت پیدا نہ ہوسکے بے شک وہ فرعون بڑا ہی پولیٹیشن (ملکی منتظم) اور مفسدوں سے تھا کہ خواہ مخواہ مسکینوں کو ستاتا تھا اور ہمارے منشاء کے خلاف چلتا تھا جن لوگوں کو زمین میں کمزور کیا جاتا تھا ہم چاہتے تھے کہ ان پر احسان کریں اور ان کو دین کے امام بنائیں اور ان کو ملک کے وارث بنائیں اور زمین پر انہی کو حکومت دیں اور ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ فرعون ہامان اور ان کی فوجوں کو ان بنی اسرائیلیوں سے جس بات کا خوف تھا وہی ان کو دکھا دیں یعنی زوال حکومت فرعونی آخر کار انہی کے ہاتھوں سے ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کیونکہ ہست سلطانی مسلم مردار نیست کس راز ہر ۂ چون چرا مگر چونکہ اتنا بڑا انقلاب اس بات پر موقوف تھا کہ مردے از غیب بروں آید دکارے مکند اس لئے ہم نے موسیٰ کو دنیا میں بھیجا اور موسیٰ کی ماں کو جو فرعون کے ظلم سے ڈرتی اور سہمگین ہو رہی تھی ہم نے الہام کیا یعنی اس کے دل میں القا کیا کہ اس بچے (موسیٰ) کو دودھ پلاتی رہ پھر جب تجھے اس پر کسی بات کا خوف ہو کہ فرعون کے آدمی حسب قانون فرعونی اس کو مار نہ ڈالیں تو اس کو دریا کے پانی میں ڈال دیجئیو اور کسی قسم کا نہ اندیشہ کیجئیو نہ کسی قسم کا غم کہ کہاں جائے گا اور اس پر کیا کیا وارداتیں ہوں گی کیونکہ ہم ضرور اس کو تیرے پاس واپس لائیں گے اور اس کو اپنے رسولوں میں سے کریں گے پس موسیٰ کی ماں نے ؎ مے روی دمے رود جانم بتو‘ کوش برو فاللہ خیر حافظا۔ کہہ کر بچے کو دریا میں ڈال دیا تو فرعون کے گھر والوں نے اس کو پکڑ لیا قدرت الٰہی نے ان سے یہ کام کرایا کہ آخر کار وہ ان کا دشمن اور باعث غم ہو کچھ شک نہیں کہ فرعون اور اس کا وزیر ہامان اور ان کی فوج سخت خطاکار تھے کہ ایک ایسے لڑکے کو انہوں نے پرورش کیا جس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوا مگر وہ کیا کرسکتے تھے جب کہ قدرت نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا پھر ان کی کیا مجال تھی کہ ایسا نہ کرتے مگر چونکہ یہ کام ان کی ملکی پالسی کے بر خلاف تھا اس لئے وہ خطاکار تھے خیر یہ قصہ تو رہا الگ اب سنیے ادھر کیا ماجریٰ پیش آیا فرعون کے گھر والوں نے اس کو پکڑا اور فرعون کی بیوی کو بچہ ایسا پیارا معلوم ہوا کہ اس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ میری اور تیری (فرعون) کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے دیکھو یہ کیسا خوبصورت لڑکا ہے اور بچوں کی طرح اس کو قتل مت کرناہم اس کی پرورش کریں گے یہ لڑکا ہونہار معلوم ہوتا ہے امید ہے اپنی لیاقت سے بہت جلد ہم کو نفع دے گا یا ہم اس کو اپنا متبنے بنا لیں گے یہ باتیں وہ کرتے تھے اور وہ جانتے نہ تھے کہ پیش کیا آئے گا ادھر اس موسیٰ کی ماں کی کیفیت یہ ہوئی کہ اس کا دل بیٹے کے غم میں سب چیزوں سے خالی ہوگیا اور صرف موسیٰ کی طرف لگ گیا کہ ہائے میری ننھے سے بچے پر کیا کیا تکلیف آئی ہوگی ایسی گھبرائی کہ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ رکھتے تو وہ سارا راز ظاہر کردیتی کہ یہ میرا بچہ ہے پس پھر تو کیا تھا جونہی فرعون سنتا کہ یہ بچہ اسرائیل ہے تو وہ اپنے سابقہ حکم کے مطابق فورا اس کو مروا دیتا مگر ہم نے اس والدہ موسیٰ کو مضبوط رکھا تاکہ وہ انجام کار کامیاب ہو تو ہمارے وعدے پر پختہ ایمان لانے والوں میں سے ہوجائے خیر یہ تو ہوا جو ہونا تھا اب اس قصہ کی ابتدا سنیئے ! موسیٰ کی ماں نے بچے کو پانی میں ڈال دیا اور اس کی ہمشیرہ سے کہا کہ اس کے پیچھے پے چھ جا اری میں تو نہیں تو تو ہی جا دیکھ تو سہی یہ میرا ننھا سا لاڈلا کہاں کو جاتا ہے گو میں جانتی ہوں کہ جس اللہ نے مجھے یہ ڈھب بتایا اور دریا میں ڈلوایا ہے وہ اس کی ضرور حفاظت کرے گا مگر تو تو اس کی کوئی خبر لا کہ میری جان کہاں کو جاتی ہے پس اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری سے یہ فرض ادا کیا اور دور سے فرعونیوں کی بے خبری میں اس موسیٰ کو دیکھا کہ فرعون کے گھر والوں نے اس صندوق کو پکڑا ہے اور حرم سرا میں لے گئے ہیں ادھر قدرت کا یہ کرشمہ ہوا کہ ہم نے فرعونیوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی اور اس موسیٰ پر پہلے ہی سے سب دودھ حرام کر دئیے تھے تاکہ دونوں مقصد جن کے پورا کرنے کا وعدہ ہم نے موسیٰ کی ماں سے کیا تھا پورے ہوجائیں یعنی بچہ پرورش بھی پا جائے اور ماں کے پاس بھی آجائے پس اس لڑکی نے بڑی متانت اور لیاقت سے ان کو کہا میں تم کو ایک گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس بچے کو پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں انہوں نے بحکم اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کہا بتا نہیں بلکہ لے آ چنانچہ وہ گئی اور اپنی ماں کو خوشخبری سنائی کہ خواستی آنچہ تو فراز آب از جوئے رفتہ باز آمد لیجئے میری اماں ! آپ کا صبر پھل لایا نتیجہ اچھا ہوا چلئے اپنے بچے کو سنبھالئے اور مشاہرہ بھی لیجئے اور حرم شاہی میں عزت سے رہئے پس ہم نے ایک ذرہ سی تدبیر سے اس بچے کو اس کی ماں کی طرف واپس پہنچا دیا تاکہ اس کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غم نہ کرے اور دل سے جانے کہ اللہ کا ہر ایک وعدہ سچا ہے لیکن بہت سے لوگ جانتے نہیں مگر جو دور اندیش ہیں وہ واقعات سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کارزلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت راتہمتے برا ہوئی چلیں بستہ اند خیر اسی طرح بچہ پرورش پاتا رہا اور بڑا ہوا یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی اور قوت کو پہنچا اور خوب تنو مند ہوا تو ہم نے اسے محکم بات کرنے کا ملکہ اور اور دینی و ملکی امور کا علم دیا جس سے وہ پولٹیکل امور پر اکثر غور کرتا رہتا اور اپنی قوم بنی اسرائیل کے حال پر کڑھتا کہ کیسے ویران حال پریشان ہورہے ہیں اور وہ ان کی بہتری کی تدابیر سوچتا اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی نیکی کی وجہ سے اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق سے ہمدردی کریں بلکہ ان کی عام پکار یہی ہوتی ہے کہ کرو مہربانی تم اہل زمین پر اللہ مہرباں ہوگا عرش بریں پر القصص
2 القصص
3 القصص
4 القصص
5 القصص
6 القصص
7 القصص
8 القصص
9 القصص
10 القصص
11 القصص
12 القصص
13 القصص
14 القصص
15 (15۔21) چنانچہ ایک روز ایک ایسا واقعہ پشی آیا جس میں مخلوق سے حصرت موسیٰ کی ہمدردی کا اور طالموں کے ظلم کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت موسیٰ شہر کے اندر ایسے وقت میں آیا کہ وہاں کے لوگ دوپہر کے قیلولہ کی وجہ سے عام طور پر کاروبار سے بے خبر تھے جب موسیٰ آیا تو اس نے اس شہر میں دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا ایک ان میں کا اس کے گروہ یعنی بنی اسرائیل سے تھا اور اس کے مخالفوں یعنی فرعون کی قوم قبطیوں سے تھا پس جونہی کہ انہوں نے موسیٰ کو دیکھا تو جو اس کی قوم سے تھا یعنی اسرائیلی اس نے موسیٰ سے اس کے دشمن کے گروہ والے یعنی فرعونی کے بر خلاف مدد چاہی کیونکہ فرعونی‘ اسرائیلی کو مار رہا تھا حضرت موسیٰ نے بھی دیکھا کہ واقعی اس کی زیادتی ہے تو اس نے اسے ایک مکا مارا گو مکا تو ایک معمولی تھا مگر اتفاقا اس کو ٹھکانے لگا جس نے اس کا کام تمام کردیا یعنی وہ مر گیا حصرت موسیٰ (علیہ السلام) اسی وقت وہاں سے بھاگ نکلے اور خیریت سے ڈیرہ پر پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اسے سخت ندامت ہوئی کہ یہ کیسی بری حرکت مجھ سے ہوئی ہے کہ ناحق معمولی سی بات پر خون ہوگیا اس لئے اس نے کہا یہ تو شیطانی حرکت ہے بے شک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے اس لئے دعا کرتے ہوئے اس نے کہا اے میرے پروردگار ! تحقیق میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ ناحق مجھ سے خون ہوگیا تو مجھے بخش دے پس اللہ نے اسے بخش دیا کیونکہ موسیٰ کا اخلاص کمال کو پہنچا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ بھی بڑا بخشنہار مہربان ہے موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار چونکہ تو نے مجھ پر بڑا انعام فرمایا کہ مجھ کو خاندان نبوت میں پیدا کیا اور مجھ کو ایمان سے مشرف فرمایا اپنی معرفت سے تو نے مجھے بہت بڑا حصہ دیا اس لئے میں ائندہ کو کبھی کسی مجرم کا مددگار نہ بنوں گا حضرت موسیٰ کو اس سے معلوم ہوا ہوگا کہ اسرائیلی قصور وارے اس لئے اس نے ایسا کہا پھر بعد اس کے جب شہر میں اس خون کی شہرت ہوئی تو حضرت موسیٰ صبح کو ڈرتے ڈرتے شہر میں گیا انتظار ہی میں تھا کہ کوئی سرکاری آدمی آیا کہ آیا اتنے میں اس کی نظر پڑی تو ناگاہ وہی شخص جس نے کل ہی اس سے مدد چاہی تھی آج پھر اس کو پکار رہا ہے کہ ہائے موسیٰ دیکھنا یہ دشمن مجھے مار رہا ہے حضرت موسیٰ تو کل ہی اس کی حرکت کو سمجھ گئے تھے کہ نالائق ہے اور قسم بھی کھاچکا تھا پھر وہ بھلا کیوں اس کی مدد کرتا اس لئے اس نے اسے کہا کچھ شک نہیں کہ تو ہی صریح بدمعاش ہے پھر جب غورو فکر کے بعد معلوم ہوا کہ نہیں اس معاملہ میں یہ اسرائیلی مظلوم ہے اس لئے موسیٰ نے اس فرعونی کو پکڑنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس فرعونی اس سے پہلے کہیں سے سن پایا تھا کہ کل جو خون ہوا ہے وہ موسیٰ نے کیا ہے جیسا کہ عام دستور ہے افواہ ہوجاتی ہے گو یہ افواہ عدالت میں جرم ثبوت ہونے کو کافی نہ ہو مگر عام طور پر اس کی شہرت ہوتی ہے اس لئے اس نے خوفزدہ ہو کر کہا اے موسیٰ کیا تو مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے جیسا تو نے کل ایک آدمی کو بلا وجہ مکا مار کر مار ڈالا اے موسیٰ! کیا تیرا یہی ارادہ کہ تو ملک میں سرکشی کرے اور تو نہیں چاہتا کہ بھلے آدمی میں سے ہو کر رہے جو سب ملکی بھائیوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں موجودہ بائیبل میں قرآن مجید سے جہاں اور بعض مقامات میں اختلاف ہے یہاں بھی ہے۔ بائیبل میں اس قصے کو یوں بیان کیا ہے :۔ جب وہ (موسیٰ) دوسرے دن باہر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو عبرانی آپس میں جھگڑ رہے ہیں تب اس نے اس کو جو ناحق پر تھا کہا کہ تو اپنے یار کو کیوں مارتا ہے وہ بولا کہ کس نے تجھے ہم پر حاکم یا منصف مقرر کیا۔ تو چاہتا ہے کہ جس طرح تو نے اس مصری کو مار ڈالا ہے مجھے بھی مار ڈالے۔ تب موسیٰ ڈرا اور کہا کہ یقینا یہ بھید فاش ہوا۔“ (خروج ٢ باب کی ١٣) عبرانی بنی اسرائیل کو کہتے تھے بائیبل کے بیان سے معلوم ہوا کہ دونو اسرائیلی تھے مگر قرآن مجید میں دوسرے دن کے لڑنے والوں میں سے ایک کو ان دونو (موسیٰ اور اسرائیلی) کا مشترک دشمن کہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسرائیلی نہ تھا بلکہ فرعونی یعنی قبطی تھا چونکہ بمقابلہ (قرآن مجید کے بائیبل کی تحریر عام طور پر مشتبہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کا راقم معلوم نہیں کون ہے چنانچہ تورات کی پانچویں کتاب استثناء ٢٣ باب میں موسیٰ کے مرنے اور مرتے وقت تک اس کی عمر ایک سو بیس سال تک ہونے اور صحیح تندرست ہونے کا ذکر ہے پھر اس سے مدت دراز بعد یہ فقرات تورات میں درج ہوئی چنانچہ لکھا ہے کہ اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند نہیں اٹھا (٣٤ باب کی ١٠) اس ” ابتک) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کو انتقال ہوئے مدت مدید گذر چکی ہے تاہم یہ فقرات توریت میں درج ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ موجودہ تورات لکھنے والوں نے اس بات کا التزام نہیں کیا تھا کہ خاص الہامی عبارات یا واقعات موسوی بھی لکھے جائیں بلکہ انہوں نے ہر قسم کے واقعات لکھ دئیے ہیں ابھی یہ تحقیق باقی ہے کہ لکھنے والا کون تھا یہی کیفیت انجیل کی ہے پھر یہ کیونکر باور ہوسکتا ہے کہ تورات اور قرآن کے اختلاف کی صورت میں تورات کا بیان مقدم سمجھا جائے پس جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ مقدم ہے وللتفصیل مقام اخر۔ بس اس کے کہنے کی دیر تھی کہ تمام شہر میں بجلی کی طرح خبر پھیل گئی پولیس تو پہلے ہی تلاش میں تھی فورا اس نے دربار فرعونی تک خبر پہنچائی دربار مذکور اس سے پہلے بھی بوجہ پہنچنے مختلف رپورٹوں کے حضرت موسیٰ سے بدظن تھا۔ اس لئے بعد مشورہ قرار پایا کہ موسیٰ سے چونکہ کئی ایک ناشائستہ حرکات ہوئی ہیں یہاں تک کہ اس نے ایک شخص کا خون بھی کردیا ہے اس لئے موقع اچھا ہے جو انصاف کے بھی خلاف نہیں پس اس کو قتل کردینا چاہئے چنانچہ دربار کی طرف سے احکام جاری کئے گئے ادھر قدرت نے اس کے بچانے کے احکام جاری کر دئیے چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے خبر پا کر دوڑتا ہوا آیا اس نے موسیٰ کو دربار فرعونی کے مشورے کی اطلاع دی اور کہا اے موسیٰ فرعونی رئیس تیرے حق میں باہمی صلاح و مشورہ کررہے ہیں کہ جس طرح بن پڑے تجھے قتل کردیں پس تو اس شہر سے نکل جا کچھ شک نہیں کہ میں تیرے حق میں خیر خواہ ہوں موسیٰ سلام اللہ علیہ تو پہلے ہی خائف بیٹھا تھا پس وہ ڈرتا ہو شہر سے نکلا اس تاک میں تھا کہ کہیں کوئی جاسوس نہ آپہنچے اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اے میرے پروردگار ! تو مجھے ان ظالموں کی قوم فرعونیوں سے نجات بخش گو موسیٰ نے خون کیا تھا مگر چونکہ وہ خون بلا قصد تھا ایسے خون میں قاتل کو قتل کرنا ظلم ہے اس لئے حضرت موسیٰ نے ان کو ظالم کہا القصص
16 القصص
17 القصص
18 القصص
19 القصص
20 القصص
21 القصص
22 (22۔35) ور جب بالقاء الٰہی قصبہ مدین کی طرف جو فرعونی حدود سے باہر تھا اس نے رخ کیا تو اللہ پر بھروسہ کر کے کہا کہ بہت جلد میرا پروردگار مجھ کو سیدھا راستہ دکھا دے گا جس پر چل کر میں کامیاب ہوجاؤں گا اور کسی ایسی جگہ پر جا پہنچوں گا جہاں پر ان ظالموں کی دستبرد سے محفوظ ہوجاؤں گا اللہ کے بھروسہ پر یکتہ و تنہا چلتے چلتے جب مدین کے پانی پر پہنچا جو آبادی سے فاصلے پر جوہڑوں میں تھا جیسا بنگالہ میں ہوتا ہے تو اس نے اس پانی پر آدمیوں کی بھیڑ پائی جو اپنے مویشیوں کو پانی پلاتے تھے اور ان سے ورے دو عورتیں پائیں جو اپنی بکریوں کو روکے ہوئے تھیں حضرت موسیٰ نے ان دو عورتوں سے کہا تم یہاں کس مطلب کو کھڑی ہو آخر تمہارا کام کیا ہے انہوں نے کہا ہم اپنی بکریوں کو پانی پلانے آئی ہیں مگر ہمارا دستور ہے کہ جب تک یہ مرد چرواہے پانی پلا کر نہ ہٹیں ہم اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلایا کرتیں تاکہ ان مردوں کے دھکا پیل میں نہ آجائیں ہمارے اس کام کو کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بھائی کوئی نہیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے اس لئے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے تاکہ کام بھی ہو اور آبرو بھی رہے پس موسیٰ نے یہ جواب ان کا جب سنا تو ازراہ ہمدردی خود ان کے مویشیوں کو پانی پلا دیا پھر درخت کے سایہ کی طرف چلا گیا وہاں بیٹھ کر بارگاہ الہی میں دعا کرتے ہوئے اس نے کہا اے میرے پروردگار ! تو میری حاجتوں کو جانتا ہے اور ان کے پورا کرنے پر بھی قادر ہے پس تو میری حالت کو ملاحطہ فرمالے اور جس چیز کی مجھے حاجت ہے خصوصا کھانے کی اس کو پورا کر دے کیونکہ جس قسم کی کوئی نعمت تو مجھے عطا کرے میں اس کے لئے حاجت مند ہوں اللہ وندا ! تیری شان یہ ہے کہ تو اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور حسب حکمت ان کے سوالات پورے کردیتا ہے ادھر حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی ادھر اللہ نے اس کا سبب یہ بنایا کہ دونوں لڑکیاں جب اپنے باپ کے پاس گئیں اور انہوں نے سارا قصہ اس کو کہہ سنایا تو حضرت شعیب کے دل میں یہ بات آئی کہ ایسے محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے انہوں نے اپنی انہی لڑکیوں کو حکم دیا کہ اس کو بلا لاؤ ان میں سے ایک بڑی متانت اور حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس موسیٰ کے پاس آئی جیسی شریف لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے بڑے وقار اور تمکنت سے چلا کرتی ہیں آکر اس نے کہا اے صاحب اپ نے جو ہم سے سلوک کیا کہ ہمارے مویشیوں کو پانی پلا دیا میرا باپ آپ کو بلاتا ہے کہ جو آپ نے ہم کو پانی پلا دیا ہے اس کا عوض آپ کو دے کیونکہ ہمارے خاندان نبوت کی تعلیم ہے ھل جزاء الاحسان الا الاحسان نیکی کے بدلہ میں تم نیک سلوک ضرور کرنا چاہئے بس آپ چلئے اور بے فکر چلئے پس جب وہ موسیٰ اس شعیب (علیہ السلام) کے پاس آیا اور سارا قصہ اور ماجریٰ مصری اس کو سنایا تو اس نے کہا اللہ کا شکر بجا لا کہ تو ان ظالموں کی قوم سے چھوٹ آیا گو موسیٰ سے خون ہوا تھا مگر شعیب نے انہی کو ظالم کہا اس لئے کہ ایسے بلا قصد خون میں قتل کرنا کسی گورنمنٹ کا قانون نہیں فرعونی جو موسیٰ کے مارنے کے درپے ہوئے تو سمجھو کہ وہ بڑے ظالم تھے یہ باتیں ہنوز ہورہی تھیں کہ حضرت شعیب کی ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے کہا بابا جان ! اس کو نوکر رکھ لیجئے اس لئے کہ آپ ضعیف ہیں اور ہم فطرتا کمزور خانگی امور کی انجام دہی کیلئے کوئی نہ کوئی مرد چاہئے اور بہتر سے بہتر جو آپ نوکر رکھیں مضبوط اور دیانتدار ہونا چاہئے اور اس میں یہ دونو وصف ہم نے پائے ہیں حصرت شعیب نے جب موسیٰ کا ماجریٰ سنا تو اس کے دل میں اس کی عظمت خاندانی گھر کرگئی تھی نیز لڑکیاں جوان تھیں داماد کی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر حضرت شعیب نے کہا کہ معمولی اجنبی نوکروں کی طرح رکھنا تو مصلحت اور تیری خاندانی عظمت کے خلاف ہے ہاں میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں اس شرط پر کہ تو اس کے مہر کے عوض آٹھ سال میرا کام کرے اور اگر تو دس سال پورے کر دے گا تو یہ تیری طرف سے احسان ہوگا اور میں اس کا شاکر ہوں گا مگر میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں انشاء اللہ مجھے تو خوش معاملہ اور نیکو کار پائے گا موسیٰ نے کہا یہ بات تو میرے اور آپ کے درمیان مقرر ہوچکی مگر اتنی گذارش ہے کہ ان دونوں میعادوں میں سے جو معیاد میں پوری کروں تو وہ کافی سمجھی جائے اور زیادہ کے لئے مجھ پر کسی قسم کا جبر نہ ہو اور اللہ تعالیٰ ہمارے کلام پر گواہ اور ذمہ دار پس حضرت موسیٰ نے جب میعاد مقررہ پوری کی اور اپنے اہل کو ساتھ لے چلے تو کوہ طورکی طرف سے ان کو ایک آگ سی نظر پڑی اپنے اہل سے کہا یہاں ٹھیرو میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں تاکہ میں اس پر سے کوئی خبر حاصل کروں یا کوئی انگار آگ کا لاؤں تاکہ تم تاپو اور سردی کی تکلیف سے بچو پس جب موسیٰ اس آگ کے پاس آیا تو میدان کے دائیں کنارے کی طرف سے پاک جگہ میں اس کو ایک میں سے آواز آئی کہ اے موسیٰ بے شک میں اللہ رب العالمین ہوں پس تو میری عبادت کیا کر اور یہ کہ اپنی لکڑی کو جو تیرے ہاتھ میں اس وقت ہے پھینک دے پس موسیٰ نے اس کو پھینک دیا مگر جب اس کو ہلتے دیکھا اس طرح کہ گویا وہ پتلا سا سانپ تھا یعنی ایسا پھرتی سے ہلتا تھا جیسا پتلا سانپ سریع الحرکت ہوتا ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور مڑ کر اس نے نہ دیکھا اللہ نے فرمایا اے موسیٰ ! آگے آ اور ڈر نہیں بے شک تو امن میں ہے اور تجھے کسی قسم کا خوف نہیں تو اپنا ہاتھ اپنی گریبان میں داخل کر اور قدرت کا تماشا دیکھ کہ بغیر کسی قسم کی بیماری کے سفید نکلے گا یہ دوسرا معجزہ تیرا ظاہر ہوگا اور جو تو خوف زدہ ہو رہا ہے یہ اس سبب سے ہے کہ تو نے آج تک یہ کیفیت نہ دیکھی تھی سو اس کا علاج یہ ہے کہ اس خوف کے رفع کرنے کے لئے اپنے بازو کو سکیڑ کر مضبوط پکڑ پس یہ دو معجزے فیصلہ کن تیرے پروردگار کے ہاں سے تجھ کو ملے ہیں فرعون اور اس کے امرا شرفا کی طرف جا کچھ شک نہیں کہ وہ بدکار لوگ ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے پس تو ان کو سمجھا موسیٰ نے یہ حکم سن کر باور تو کیا کہ واقعی میرے پروردگار کا حکم ہے مگر اسے پہنچانے کے متعلق اس کو ایک رکاوٹ جو معلوم ہوئی سو عرض کرنے کو کہا اے میرے پروردگار ! میں نے ان میں سے ایک جان کو قتل کیا ہوا ہے اسی خوف سے میں نکل آیا تھا پس اب بھی میں ڈرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں مجھے قتل نہ کردیں میرا بھائی ہارون جو مجھ سے زیادہ فصیح اور شستہ گو ہے اس کو میرے ساتھ میرا مددگار بنا کر بھیج جو میری تصدیق کرے میری کچھ تو ڈھارس بندھے مجھے ڈر ہے کہ فرعونی لوگ میری تکذیب کریں گے اور میری طبیعت پر ناگوار اثر ہوگا اللہ نے کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تجھے قوت بازو عطا کریں گے اور تم کو غلبہ دیں گے پس وہ ہماری آیات معجزات کی وجہ سے تم تک پہنچ بھی نہ سکیں گے کہ تم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچائیں یاد رکھو تم اور تمہارے تابع دار ہی غالب ہوں گے القصص
23 القصص
24 القصص
25 القصص
26 القصص
27 القصص
28 القصص
29 القصص
30 القصص
31 القصص
32 القصص
33 القصص
34 القصص
35 القصص
36 (36۔43) پس خوشخبری اور تسلی آمیز مژدہ سن کر جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے کھلے کھلے احکام لے کر ان کے پاس آیا اور ان کو سب کچھ دکھایا تو انہوں نے اور تو کوئی معقول جواب نہ دیا یہی کہا کہ یہ جو موسیٰ نے دکھایا ہے جادو ہے اللہ پر بہتان لگایا ہوا کہ یہ اس کا نام معجزہ اور نشان پیغمبری رکھتا ہے حالانکہ دراصل ایک جادو کا کرشمہ ہے ہم نے یہ بات اپنے پہلے باپ دادا سے نہیں سنی پھر ہم کیونکر اس کو باور کرلیں۔ حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ نے یہ سن کر کہا کہ کوئی اللہ کے ہاں سے ہدایت لایا ہے اور جس کی عاقبت بخیر ہے اللہ اس کو خوب جانتا ہے اس کو سب کچھ معلوم ہے پس تم یاد رکھو کہ ظالم لوگ جو اللہ پر بہتان لگائیں یا اس کے احکام کی تکذیب کریں کبھی کامیاب نہ ہوں گے نہ فلاح پاویں گے اور فرعون نے کہا اے درباریو ! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا اور یہ موسیٰ تمہارے لئے اور معبود کے ہونے کی خبر دیتا ہے پس اے ہامان ! تو مٹی کے برادے پکا کر میرے لئے ایک محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں گو اس میں شک نہیں کہ وہ جو کچھ کہتا غلط کہتا ہے اور میں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اسی گھمنڈ میں اس نے موسیٰ کی سچی تعلیم کو نہ مانا اور اس نے اور اس کی فوج نے زمین پر ناحق فخرہ تکبر کیا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے پس ان کے اس تکبر کی شامت سے ہم نے اس فرعون کو اور اسکی فوج کو پکڑ کر نیل دریا میں غرق کردیا سو دیکھو ان ظالموں کا انجام کیسا برا ہوا کہ جس ترکیب سے وہ بنی اسرائیل کو پکڑنے گئے تھے اس میں ناکام رہے بلکہ خود پکڑے گئے ہلاک اور تباہ ہوئے ہم نے ان کو دنیا کے کاموں میں پیشوا بنایا تھا حکومت دی تھی ہر قسم کی آسودگی بخشی تھی انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ ناشکری کی بلکہ وہ لوگوں کو بھی جہنم کے لائق کاموں کی طرف بلاتے تھے فرعون کی الوہیت منواتے اور بنی اسرائیل اور دیگر ما تحت اقوام پر ظلم و ستم ڈھاتے تھے پس اسی حال میں ہم نے ان کو تباہ کردیا اور قیامت کے روز ان کو کسی طرح کی مدد نہ پہنچے گی ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگائی اور قیامت کے روز یہی وہ نہایت ہی ذلیل وخوار ہوں گے یاد رکھو یہی فرعونی قوم نہ تھی جو ہمارے غضب میں آئی بلکہ ان سے پہلے بھی کئی ایک قومیں ایسی ہو گذری تھیں اور کئی ایک قومیں عاد ثمود وغیرہ ہلاک اور تباہ کرنے کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی تھی جو لوگوں کے لئے باطنی بینائی ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ جو اس کے زمانہ میں تھے نصیحت پاویں اور اللہ کے احکام سے واقف ہو کر عمل کریں (یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت موسیٰ کو جو کتاب ملی تھی وہ انہی احکام کا نام ہے جو آج تک بھی بائیبل میں ملتے ہیں استثنا وہ باب میں بعد چند احکام بتانے کے لکھا ہے کہ یہی باتیں اللہ نے یہاں پر میرے سپرد کیں اور اس سے زیادہ نہ فرمایا پس تورات صرف انہی کا نام ہے نہ کہ مجموعہ کتب خمسۂ بائیبل (منہ) القصص
37 القصص
38 القصص
39 القصص
40 القصص
41 القصص
42 القصص
43 القصص
44 (44۔50) اے نبی تو اس وقت پہاڑ کی مغربی جانب پر موجود نہ تھا جب ہم نے حضرت موسیٰ کو حکم شرعی سپرد کیا یعنی اس کو نبی بنا کر بھیجا تھا اور نہ تو اس واقعہ پر حاضر تھا اور نہ تو مدین والوں میں ان کو ہمارے احکام پڑھ پڑھ کر سناتا تھا اور نہ تو کوہ طور کی کسی طرف موجود تھا جب ہم نے حضرت موسیٰ کو پکارا (اس آیت کا ترجمہ بہت مشکل معلوم ہوا تین دفعہ تو لیکن سے استدراک ہے پھر اس کا مستثنیٰ منہ سب مفرغ ہے اس لئے میں نے جو ترجمہ کیا ہے اصل کلام یوں سمجھ کر کیا ہے ما کنت من الشاھدین وما کنت ثاویا فی اھل مدین تتلوا علیھم ایاتنا وماکنت بجانب الطور اذنا دینا لکنا انشانا قرونا فتطاول علیہم العمر‘ فارسلناک رحمۃ منا لتنذر قوما الخ اس پر اگر کوئی اعتراض ہو تو میں سن کر غور کروں گا انشاء اللہ اللھم فھمنی القران (منہ) لیکن اصل یہ ہے کہ ہم نے بہت سی قومیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز غفلت کا گذر گیا تو ہم نے محض رحمت سے تجھ کو رسول کر کے بھیجا یعنی تیرا یہ دعویٰ القائی ہے اختراعی نہیں اس لئے کہ نہ تو نے کوئی کتاب ایسی پڑھی ہے جس کو دیکھ کر تو انبیاء خصوصا حضرت موسیٰ کے صحیح صحیح قصے بیان کرتا لیکن یہ سب کچھ تیرے پروردگار کی رحمت سے تجھ کو ملا ہے کہ تو اس قوم کو عذاب سے ڈراوے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ تیرے آنے سے وہ نصیحت پاویں مگر یہ لوگ اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے الجھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس الجھنے کا نتیجہ کیا ہوگا اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ ان کو ان کے بد اعمال کی وجہ سے جو آج سے پہلے یہ کرچکے ہیں ان کوئی مصیبت پہنچے تو کہنے لگیں اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے حکموں کی پیروی کرتے اور ایمان لاتے تو ہم بھی نہ یہ قرآن بھیجتے نہ رسول چونکہ ان کا عذر درصورت نہ آنے ہدایت کے معقول تھا اس لئے ہم نے ان کے پاس سچا رسول محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا پس جب ہمارے ہاں سے ان کے پاس سچ آچکا تو اب جو کوئی عذر نہیں رہا تو کہتے ہیں کیوں نہیں اس کو ایسے معجزات ملے جیسے موسیٰ کو ملے تھے مگر یہ بات بھی ان کی محض دفع الوقتی ہے ورنہ یہ لوگ موسیٰ کو مانتے ہیں اور اس کتاب سے جو موسیٰ کو ملی تھی منکر نہیں ہیں؟ پھر یہ کیسی لغو بات ہے کہ موسیٰ کا نام لے کر قرآن کی تعلیم کو رد کرتے ہیں موسیٰ اور ہارون کی شان میں تو کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادو گر تھے ایک دوسرے کے مددگار بن کر کام چلاتے تھے اور کہتے ہیں کہ ہم ان سب سے منکر ہیں نہ تورات کو مانتے ہیں نہ قران کو ہم ان دونوں سے الگ ہیں نہ ہم اس کو کافی مانتے ہیں نہ اس کو ہدایت سمجھتے ہیں اے نبی ! تو کہہ اگر یہ دونوں کتابیں غلط ہیں تو تم ہی کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے آئی ہوئی لاؤ جو ان دونوں سے ہدایت والی ہو میں اسی کا پیرو ہوں گا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اس کا فیصلہ کرو پس اگر اس صاف سوال کا یہی تجھ کو معقول جواب نہ دیں تو یاد رکھ کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے چلتے ہیں اور جو کوئی بغیر الٰہی ہدایت کے محض اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے چلے اس سے زیادہ کون گمراہ ہے؟ کوئی نہیں کیونکہ نفسانی خواہشات سے تو انسان کو ہمیشہ تباہ کرتی ہیں پھر جو انہی کا غلام ہوجائے اس کی خیر کہاں؟ کچھ شک نہیں کہ اسی لئے اللہ ہی ایسے ظالموں کو ہدایت یعنی توفیق خیر نہیں دیا کرتا جب تک اپنی بد اعمالی سے رجوع نہ کریں ہم نے ان کی خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی رسول بھیجا اور کلام قرآن مجید کو ان کے لئے مفصل بیان کیا تاکہ یہ لوگ نصیحت پاویں خیر نہیں مانتے تو نہ مانیں جھک ماریں کئے کی سزا پائیں گے القصص
45 القصص
46 القصص
47 القصص
48 القصص
49 القصص
50 القصص
51 (51۔61) جن لوگوں کو ہم نے اس قرآن سے پہلی کتاب کی سمجھ دی ہے وہ اس قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول اور قرآن ان کی کتابوں کا مصدق ہے اگر یہ نہ ہوتے تو جن پیش گوئیوں کا ان میں ذکر ہے وہ معلق اور بیکار رہتیں چونکہ ان لوگوں کی غرض رضائے الٰہی ہے اس لئے وہ اس قسم کے فضول اعتراض نہیں کرتے اور جب قرآن پڑھ کر ان کو سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارے پروردگار کے ہاں سے آیا ہے اور ہم اس سے پہلے ہی فرماں بردار تھے ہمیں تو رضائے مولا سے غرض ہے یہ مطلب نہیں کہ کس رنگ میں ہے کوئی بھی حکم ہو ہم اس کو قبول کریں گے اور دل سے مانیں گے ان لوگوں کے اخلاص اور مخالفوں کی تکالیف پر صبر کرنے کی وجہ سے ان کے اعمال کا بدلہ ان کو دگنا ملے گا کیونکہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں کمال اخلاص سے کرتے ہیں اور بڑی بات ان میں یہ ہے کہ برائی کو نیکی کے ساتھ دور کرتے ہیں کوئی ان سے برائی کرے تو یہ اس کے عوض میں اس سے نیکی کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے ہماری رضا جوئی میں خرچ کرتے ہیں اور بڑی خوبی ان میں یہ ہے کہ کب کبھی کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں جو نہ دین میں نہ دنیا میں فائدہ مند ہو تو اس سے روگردا ہوجاتے ہیں اور ان بیہودہ گوؤں سے کہتے ہیں ہمارے کام ہم کو تمہارے کام تم کو لو ہمارا اسلام اور آہستہ سے دل میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے جاہلوں سے ملنا نہیں چاہتے یہ ہے مختصر بیان ان لوگوں کی زندگی کا جو اللہ کے نیک بندے ہیں (دل میں کہنے کی قید اس لئے ہے کہ جاہل کو سامنے جاہل کہنے سے فساد ہوتا ہے جو ان کی روش کے خلاف ہے نیز دوسری آیت میں ارشاد ہے واذا خاطبہم الجاھلون قالوا سلاما یعنی نیک بندوں کا جاہلوں سے جب سامنا ہوتا ہے تو ان کو سلام کہہ کر چلا لیتے ہیں وہاں سلام کے سوا دوسرا کوئی لفظ بھی ان کا نقل نہیں کیا۔ (منہ) لیکن یہ خصلت اور عادت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ تو بھی اے نبی جس کو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا مگر اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت پر لائے یہ ہی نہیں کہ وہ جس کو ہدایت پر لاتا ہے بے وجہ لاتا ہے اور جن کو محروم کرتا ہے بے وجہ کرتا ہے نہیں بلکہ وہ ہدایت پانیوالوں کو بہت خوب جانتا ہے بھلا یہ لوگ بھی ہدایت یاب ہوسکتے ہیں جو صرف دنیاوی نقصانات کی وجہ سے سچی تعلیم کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم اے نبی تیرے ساتھ ہو کر ہدایت کے پیرو ہوں تو مخالفوں کے ظلم اور دباؤ سے ہم اپنی زمین یعنی ملک سے نکالے جائیں یہ لوگ کفارعرب ہم کو کبھی نہ چھوڑیں سخت تکلیفیں پہنچائیں یہ ان کی ضعیف الاعتقادی ہے کیا ہم نے ان کو امن امان کے حرم مکہ میں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہمارے دینے سے ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آرہے ہیں ورنہ خاص مکہ معظمہ اور اور اس کے ارد گرد میں تو کچھ بھی نہیں لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ اس احسان کا شکریہ کریں بلکہ الٹے ناشکرے بنتے ہیں پس وہ یاد رکھیں کہ ان کی طرح پہلے بھی گمراہ اور آوارہ لوگ ہوئے ہیں اور ہم نے کئی ایک بستیاں ہلاک کردیں جنہوں نے بدکاریوں سے اپنی زندگی خراب کرلی تھی پس یہ تمہارے قریب ہی ان کی بستیاں ہیں جو ایسی اجڑی ہیں کہ ان لوگوں کے بعد بہت کم آباد ہوئی ہیں کیونکہ ہمارے غضب سے ان پر تباہی آئی تھی اور ہم ہی سب دنیا کے مالک ہیں جو کچھ ہم کرتے ہیں عدل و انصاف کرتے ہیں اور یاد رکھ کہ ہم کسی بستی کو تباہ نہیں کیا کرتے جب تک کہ اس کے بڑے مقام ضلع میں رسول نہ بھیجیں جو ان کو ہمارے احکام سنا دے اور کسی بستی کو تباہ نہیں کیا کرتے مگر جس حال میں وہ حد سے متجاوز ہو کر ظالم ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں‘ چند روزہ گذارہ پر مست ہو کر اللہ ذوالجلال سے مستغنی ہوجاتے ہیں حالانکہ جو کچھ تم کو ملا ہے وہ دنیا کی زندگی کا گذارہ اور زینت ہے تاکہ تم اس دنیا کی چند روزہ زندگی گذار سکو اور نیک عمل کر کے اخروی مدارج کو پاؤ اور رضائے الٰہی حاصل کرو کیونکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس دنیا کی زندگی اور فوائد سے کہیں بڑھ چڑھ کر بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے کیا تم جو اس دنیا کی چند روزہ زندگی پر غراں ہو سمجھتے نہیں ہو کہ جس قلیل عیش و عشرت کا انجام دائمی ذلت اور خواری ہو اس عیش میں پھنسنا دانائی نہیں کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس شخص کو ہم نے نیک اعمال پر اچھا وعدہ دیا ہو پھر وہ اس وعدہ کے موافق بدلہ بھی پانے والا ہو کیا یہ اس شخص کی طرح ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی میں چند روزہ گذارہ دیا پھر وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے قیامت کے روز عذاب میں حاضر کیا جائے گا کیا تمہاری عقل فتوی دیتی ہے کہ یہ دونوں برابر ہیں؟ ہرگز نہیں القصص
52 القصص
53 القصص
54 القصص
55 القصص
56 القصص
57 القصص
58 القصص
59 القصص
60 القصص
61 القصص
62 (62۔75) اور سنو ! بدکار مشرکوں کی اس روز کیسی گت ہوگی جس روز اللہ تعالیٰ بذریعہ منادی کے ان کو پکار کر کہے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم گمان کرتے تھے اور تم کہتے تھے کہ یہ ہمارے سفارشی بلکہ فریاد رس ہیں جن لوگوں پر ان کی بد اعمالی کی وجہ سے فرد جرم لگ چکا ہوگا اور وہ دنیا میں پیشواء ضلالت بنے ہونگے جیسے بتوں کے پجاری اور قبروں کے مجاور وہ کہیں گے ہمارے مولا ! یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا جیسے ہم بہکے تھے ہم نے ان کو بہکایا تھا آخر پیر نے مرید کو اور گرونے چیلے کو اپنے ہی رنگ میں رنگنا تھا اب ہم تیرے حضور میں بیزاری ظاہر کرتے ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہم کو نہ پوجتے تھے بلکہ اپنے ہواوہوس کے غلام تھے خیر یہ ان لوگوں کا مکالمہ ہے جو شرک کی طرف بلاتے ہیں اس گفتگو کے بعد مشرکوں سے کہا جائے گا تم اپنے شریکوں کو بلاؤ جن کو تم لوگ ہمارا شریک جانتے تھے پس وہ یہ جان کر کہ شاید یہ حکم ہمارے فائدے کے لئے ہے ان کو اسی طرح پکاریں گے جس طرح دنیا میں استمداد کے وقت ان کو بلایا کرتے تھے مثلا اے اللہ کریم یسوع مسیح یا حضرت شیخ المدد وغیرہ وغیرہ مگر وہ ان کو جواب تک نہ دیں گے بلکہ بالکل خاموش رہیں گے اور مشرک عذاب دیکھیں گے تو افسوس کریں گے کہ کاش ہم ہدایت یاب ہوتے مگر وہاں کا افسوس کرنا ان کو کچھ مفید نہ ہوگا اور سنو ! جس دن یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کافروں کو بلا کر کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا کہاں تک ان کی تعلیمات کو قبول کیا تھا اور کہاں تک انکار کیا تھا پس وہ یہ سوال سن کر ایسے حیران ہونگے کہ اس روز سب کچھ بھول جائیں گے ایسے کہ کوئی واقعہ سچا یا جھوٹا بھی ان کو یاد نہ رہے گا پھر لطف یہ کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے بھی نہیں سو اس روز کے فیصلے کا خلاصہ یہ ہوگا کہ جس نے توبہ کی ہوگی اور ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں گی پس وہ شخص بہت جلد نجات یافتوں میں ہوجائیگا ان لوگوں کو راہ حق اختیار کرنے میں یہ رکاوٹ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں رسالت کے عہدہ پر ایسا شخص کیوں مامور ہوا جو ان کے خیال میں ذی وجاہت نہیں یعنی اللہ کو چاہئے تھا کہ ان سے پوچھ کر رسول بناتا حالانکہ اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہے چن لیتا ہے ان کو کسی طرح کا اختیار نہیں مخلوق کو ایسا اختیار ہوتا تو شریک نہ ہوجاتے؟ حالانکہ اللہ پاک اور بلند ہے ان کے شرک کرنے سے ابھی تو ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ دل انکے تیری مخالفت سے اٹے پڑے ہیں اور جو کچھ انکے دلوں میں مخفی ہے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہی اللہ یعنی معبود برحق ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اسی کی تعریفیں ہیں اور سب چیزوں پر اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم رجوع ہو۔ ہر ایک امر اس کی قدرت اور اذن سے پیدا ہوتا ہے اور اسی کے اذن سے قائم ہے تمام دنیا کی حرکتیں اسی ایک سے ہیں ان کے سمجھانے کو تو ان سے کہہ کہ بتلاؤ تو اگر اللہ تم پر اس رات کو جس میں مناسب وقت تک آرام پاتے ہو قیامت تک دائمی کر دے یعنی دن کی روشنی ظاہر ہی نہ ہو بلکہ رات کی تاریکی ہی رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تم کو ایسی روشنی لا دے؟ کیا تم ایسی واضح دلیل بھی سنتے نہیں تو یہ بھی کہہ کہ بتاؤ اگر قیامت تک تم پر دن ہی رکھے رات آئے ہی نہی تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس رات لادے جس میں تم تسکین پاؤ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ایسی ایسی نعمتیں کون پیدا کرتا ہے اور تم اس کی کیا قدر کرتے ہو؟ اور سنو ! اس نے اپنی رحمت کاملہ سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم اس رات میں آرام پاؤ اور دن میں اس کا فضل روزگار کے ذریعے تلاش کرو اور یہ تم کو اس لئے سنایا جاتا ہے تاکہ تم ان نعمتوں کے شکر گذار بنو اور سنو ! جس روز اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو بلا کر کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم میرے شریک خیال کیا کرتے تھے اور اسی روز یہ واقعہ بھی ہوگا کہ ہم ہر ایک قوم میں سے ایک ایک گواہ یعنی اس امت کا پیغمبر الگ کرینگے پھر وہ سچی اور واقعی گواہی دیں گے جس سے ان مشرکوں پر فرد جرم لگ جائے گی تو ہم ان کو کہیں گے اب تم اپنی صفائی کی دلیل لاؤ جس سے تمہاری صفائی ہوسکے یا تم ان واقعات کی تکذیب کرو یا ان کی وجہ بتاؤ مگر وہ کچھ نہ کرسکیں گے پس وہ جان جائینگے کہ تمام سچی عبادتوں کا حق اللہ ہی کا ہے اور جو کچھ وہ دنیا میں اللہ پر افتراء کرتے تھے کہ فلاں شخص ہم کو چھڑا لے گا فلاں بزرگ ہماری سفارش کریگا وہ سب بھول جائیں گے اور مصیبت کے وقت کوئی بھی یاد نہ رہیگا جیسا کہ دستور ہے القصص
63 القصص
64 القصص
65 القصص
66 القصص
67 القصص
68 القصص
69 القصص
70 القصص
71 القصص
72 القصص
73 القصص
74 القصص
75 القصص
76 (76۔83) چنانچہ قارون کے ساتھ دنیا ہی میں یہ معاملہ پیش آیا تم جانتے ہو گے کہ قارون حضرت موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان پر ظلم کرنے لگا جیسا کہ دستور ہے کہ قر ابتدار عموما موذی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص کمینہ اخلاق تھا اور ہم نے اس کو اتنا مال دیا تھا کہ اس کے خزانوں کو یعنی جن صندوقوں میں وہ اس مال کو بند کیا کرتا تھا طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی قارون کا ذکر بائیبل کی کتاب گنتی ١٦: ٨ میں بنام قرح ملتا ہے۔ (منہ) (مفاتح جمع مفتح بفتح المیم ہم نے مراد لی ہے اور کنوز جمع ہے کنز کی۔ کنز اس مال کو کہتے ہیں جو جمع کیا گیا ہو لیکن شریعت کے محاورہ میں اس مال کو کہتے ہیں جس کو زکوٰۃ ادا نہ کی جائے چونکہ قارون مال کی زکوٰۃ نہ دیتا تھا اس لئے اس کے مال کو کنوز کہا گیا حضرت ابن عباس اور حسن بصری (رض) نے مفاتح سے مال ہی مراد لیا ہے۔ (تفسیر کبیر) جس کا مطلب غالباً یہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ قارون کا نام بائیبل میں قرح ہے اور اس کا قصہ کتاب استثنا میں ہے۔ (منہ) اس کے واقعات سے وہ وقت قابل غور ہے جب اس کی قوم بنی اسرائیل میں سے نیک لوگوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس مال اور عزت پر اترا نہیں یقینا جان کہ اللہ اترانے والوں سے محبت نہیں کرتا کیونکہ اترانا اور تکبر کرنا اللہ کو کسی طرح پسند نہیں پس تو اس بد عادت کو چھوڑ دے اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس کے ذریعے سے آخرت کی تلاش کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول جو چند گز کپڑا اور چند بالشت زمین ہے آخر کار یہی تو دنیا کی کائنات ہے پس تو اس فرعونیت کو دماغ سے نکال دے اور مخلوق سے احسان کیا کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کیا کیا تو نے بزرگوں کا کلام نہیں سنا چو حق بر تو پاشد تو بر خلق پاش پس تو اس احسان اللہ تعالیٰ کی قدر کر اور غرور اور تکبر کی وجہ سے ملک میں فساد نہ کر کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں سے محبت نہیں کرتا بلکہ سخت برا جانتا ہے اس کمبخت نے اس بزرگانہ وعظ و نصیحت کا نہایت ہی برے لہجے میں جواب دیا‘ کہا کہ تمہاری تقریر کی بنا ہی غلط ہے تم نے جو اس مال کو احسان الٰہی میں شمار کیا ہے یہی غلط ہے بلکہ اصل بات یہ کہ جو کچھ مجھ کو ملا ہے میری لیاقت اور علم سے حاصل ہوا ہے جب کہ میں اتنے مال اور اتنے زور والا ہوں تو مجھے کس بات کا اندیشہ ہے کیا اسے معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے ان لوگوں کو ہلاک کیا جو اس سے زیادہ قوت والے اور بہت سی جمعیت مال و اسباب والے تھے اور اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جب عذاب آتا ہے تو مجرموں کو گناہوں سے سوال نہیں ہوتا کہ یہ کام تم نے کئے یا نہیں کئے؟ کیونکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے پس اس ناگہانی بلا سے اس کو ڈرنا چاہئے تھا مگر وہ ایسا شریر تھا کہ اور اکڑ کر خوب زیب و زینت کر کے اپنی قوم کے سامنے نکلا تو جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے یعنی جن کی کو تہ نظری اس بات کا فیصلہ کرچکی تھی کہ جو کچھ ملا ہے وہ اس دنیا ہی میں ہے اس سے علاوہ کچھ نہیں انہوں نے کہا اے کاش جو کچھ قارون کو ملا ہے ہم کو بھی ملا ہوتا کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا صاحب نصیب ہے یہ تو ان لوگوں کا کلام تھا جو ہر ایک قسم کی عزت کو دنیاوی فوائد سے وابستہ جانتے ہیں جن کا خیال تھا کہ جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں اور جن لوگوں کو علم اور معرفت الٰہی سے کچھ حصہ ملا تھا انہوں نے ان دنیاداروں کا کلام سن کر بڑا افسوس کیا۔ کہا افسوس ہے تم پر تم سمجھے ہو کہ دنیا ہی دنیا ہے اور کچھ نہیں حالانکہ اللہ کے ہاں کا بدلہ بہت ہی بہتر ہے ان کے لئے جنہوں نے ایمان لا کر اعمال صالحہ کئے ہیں اور یہ نیک خصلت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو تکالیف پر صبر کرنے والے ہیں چاہے وہ تکالیف جسمانی ہوں یا مالی‘ ملکی ہوں یا مذہبی کیا تم جانتے ہو کہ نیک اعمال کا نیک اور بد اعمالی کا بد کوئی بدلہ نہیں اگر تمہارا یہ خیال ہے تو سخت افسوس ہے پس وہ اسی جھگڑے میں تھے کہ ہم نے اس قارون کو اور اس کے گھر کو تہ زمین میں دھنسا دیا زمین کو ایسی کچھ حرکت ہوئی کہ قارون مع اپنے عالی شان محلوں کے زمین کے اندر دھنس گیا جیسے ٤ اپریل ١٩٠٥ ء کو پنجاب میں زلزلہ عظیم سے ضلع کانگڑہ وغیرہ میں اور ٥ اجنوری ١٩٣٤ کو صوبہ بہار میں واقع ہوا تھا پھر تو اللہ کے سوا کوئی جماعت بھی ایسی نہ ہوئی جو اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود مدد کرنے والوں سے ہوا۔ ادھر یہ تباہ ہوا ادھر شطرنج کی چال ہی بدل گئی اور کچھ کا کچھ ہوگیا جن لوگوں نے ابھی کل ہی اس کے رتبہ کی تمنا کی تھی وہ بھی کہنے لگے ہائے غضب ! اب معلوم ہوا کہ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے اللہ اکبر ! اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمارا برے خیال کی پاداش میں ہم کو بھی زمین میں دھنسا دیتاکچھ شک نہیں کہ نا شکرے کافر کبھی فلاح نہیں پائینگے بلکہ اپنی نا شکری کی پاداش ضرور بھگتیں گے اسی لئے ہماری طرف سے عام اعلان کہ ہم (اللہ) اس آخرت کا گھر اور اس کی عزت انہی لوگوں کے لئے مخصوص کرینگے جو زمین پر اپنے رتبہ سے بلندی اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ بندگی کے رتبہ سے لعلّی کرنا تو علو اور تکبر ہے اور احکام تمدنی کا خلاف کرنا فساد ہے مگر متقی لوگ ان دونوں بد خصلتوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے انجام بخیر پر ہیز گاروں ہی کا ہے القصص
77 القصص
78 القصص
79 القصص
80 القصص
81 القصص
82 القصص
83 القصص
84 (84۔88) پس سنو ! جو کوئی نیک کام اللہ کے حضور لائیگا اس کو اس سے بہتر ملے گا اور جو کوئی برائی کر کے لائے گا تو برائی کرنے والوں کو اتنی ہی سزا ملے گی جتنی برائی وہ کرچکے ہونگے یہ نہ ہوگا کہ جس طرح نیک کام کرنے والوں کو اجر زیادہ ملے گا برے کام کرنے والوں کو سزا بھی زیادہ ملے نہیں یہ اللہ کے انصاف کے خلاف ہے پس اے نبی ! تو یقینا جان رکھ کہ جس اللہ نے تجھ پر احکام قرآن کو فرض کیا ہے وہ تجھے باعزت و وقار تیری باز گشت دار آخرت کی طرف پھیرنے والا ہے تجھے بھی ان تکالیف کا عوض بوجہ احسن وہاں ملے گا کیونکہ یہ تیری سب تکلیفات اللہ کی راہ میں ہیں پس وہ ان کو خوب جانتا ہے تو ان کو یہی سنانے کیلئے کہہ کہ جو کوئی ہدایت والا ہے اور جو صریح گمراہی میں ہے اللہ ان کو خوب جانتا ہے پس دونوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا انکو اتنی بھی خبر نہیں کہ تو تو اس بات کی کسی طرح توقع نہ رکھتا تھا کہ تیری طرف کوئی کتاب اتاری جائے مگر تیرے پروردگار کی رحمت سے اس کا نزول ہوا ہے پس اس کا نتیجہ اور اثر تجھ پر یہ ہونا چاہئے کہ تو کافروں بےدینوں اور مجرموں کا کبھی حمایتی اور مدد گانہ ہوجائیو اور یہ بھی خیال رکھیو کہ کبھی کسی طرح یہ بےدین لوگ تجھ کو اللہ کے احکام سے نہ روکیں‘ بعد اس سے کہ وہ تیری طرف اتارے گئے پس تو ان احکام کی تبلیغ کرتا رہ اور اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ اور مشرکوں میں سے کبھی نہ ہوجیو اور یہ بھی سن رکھ کہ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکاریو کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں معبود کیسے ہوسکے جب کہ وہ اپنے وجود اور ہستی میں بھی ازلی اور ابدی نہیں کیونکہ اللہ کے سوا ایسی کوئی چیز نہیں جس پر فنا طاری نہ ہو اسی کا سب اختیار اور حکم ہے مجال نہیں کہ اس کے حکم کو کوئی توڑ سکے اور اسی کی طرف تم سب رجوع ہو ہر بات میں اسی کے محتاج ہو گو تمہیں اس محتاجی کا علم نہ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ محتاج ضرور ہو پس تم اپنی محتاجی کو ملحوظ رکھو اور ایسے مالک صاحب اختیار حاکم سے مت بگاڑو۔ القصص
85 القصص
86 القصص
87 القصص
88 القصص
0 العنكبوت
1 (1۔9) میں ہوں اللہ سب سے زیادہ علم والا میرے علم کا تقاضا ہے کہ میں مخلوق کی ہدایت کے لئے احکام نازل کیا کرتا ہوں مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے کیا مسلمان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ بے شک آزمائش ہوگی کیونکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو جانچا تھا اسی طرح ان کو جانچیں گے مگر کیوں؟ اس لئے نہیں کہ ان کے حال کا علم حاصل کرنے کیلئے بلکہ ان کے عجر بجر ظاہر کرنے کو پھر نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ہم ان لوگوں کو جدا کردیں گے جو اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور ان لوگوں کو جو اپنے بیان میں جھوٹے ہیں ان دو نوں کا ہم امتیاز کریں گے کیا برے کام کرنے والے سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم سے آگے بڑھ جائیں گے ہم ان کو پکڑنا چاہیں گے تو پکڑ نہ سکیں گے؟ بہت برا خیال کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اس رائے میں تبدیلی کریں اور اصل بات جب ہم سے سنیں کہ جو کوئی اللہ سے بدلہ ملنے کی توقع رکھے پس وہ سمجھے کہ اللہ کا مقرر وقت ضرور آنیوالا ہے اس کو ضرور بدلہ ملے گا اور وہ اللہ سب کی سننے والا سب کو جاننے والا ہے اور جو کوئی اللہ کو راضی کرنے کے لئے دل سے کوشش کرے وہ سمھجے کہ اپنے نفس ہی کے لئے کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا عوض اسی کو ملے گا اور کسی کو نہیں بے شک اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں ہاں وہ اپنے بندوں کے حال پر مہربان اور انصاف والا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان کو خوش خبری اور بشارت دیتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل بھی کئے ہم (اللہ) ضرور انکے گناہ دور کردیں گے جو نیکیوں کے ماتحت ہوں گے تمہارے سمجھانے کو ایک مثال سناتے ہیں جس طرح دواؤں میں بعض اشیاء سرد اور بعض گرم ہوتی ہیں پھر جیسے سرد کے مراتب مختلف ہیں گرم کے بھی متعدد مراتب ہیں بعض سرد چیزوں کے استعمال کرنے سے گرمی دور ہوجاتی ہے ایسے ہی بعض گرم چیزوں کے استعمال کرنے سے سردی دور ہوجاتی ہے مگر بعض گرم اشیاء ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی گرمی کوئی دوائی دور نہیں کرسکتی یہی قاعدہ گناہوں کا ہے کہ بعض گناہ نیکیوں سے دور ہوجاتے ہیں جو ان نیکیوں سے کم درجہ ہوتے ہیں ایسے ہی بعض نیکیاں بعض گناہوں سے حبط ہوجاتی ہیں مثلا شرک سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں پس اس قاعدے کو یاد رکھو ! اور سنو ! ہم ایسے صلحا لوگوں کے گناہ مٹا دینگے اور ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال سے بہتر بدلہ دیں گے بعض لوگ نیک کام یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی دل شکنی نہ کی جائے چاہے وہ کچھ کہے اس کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کو خوش کیا جائے اور بس حالانکہ یہ اصول ایک حد تک غلط ہے کیونکہ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے حق میں نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ایسا نہیں کہ جو کچھ وہ کہیں سب کو تسلیم کرنا اس کافرض ہو اور جو کچھ وہ کہیں سب میں اطاعت کرنا لازم نہیں بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ دو نوں تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک مقرر کرے جس کے شریک ہونے کا تجھے خود بھی علم نہیں تو تو اس بات میں ان کا کہا نہ مانیو بلکہ دل میں سمجھیو کہ میری (اللہ کی) طرف تم نے لوٹ کر آنا ہے پس اس وقت میں تم کو تمہارے کئے کی خبریں بتاؤ نگا اس تمثیل سے تم سمجھ گئے ہوگے کہ نیک اعمال صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا نام ہے جس کام کا ہم (اللہ) حکم کریں اس کو کرنا اور جس سے منع کریں اس سے ہٹنا یہی نیکی ہے اور بس یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل بھی کرتے ہیں یعنی ہماری رضا جوئی میں لگے رہتے ہیں ہم ان کو گذشتہ صالحین کی جماعت میں داخل جنت کریں گے مگر اس بھید کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں العنكبوت
2 العنكبوت
3 العنكبوت
4 العنكبوت
5 العنكبوت
6 العنكبوت
7 العنكبوت
8 العنكبوت
9 العنكبوت
10 (10۔13) اور بعض لوگ بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہم نے مانا کہ ہمارا مالک ہمارا خالق ہمارا والی متولی سب کچھ اللہ ہی ہے پھر جب ایسا کہنے پر اللہ کے معاملے میں مخالفوں کی طرف سے ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوں کی تکلیف کو اللہ کے عذاب کی طرح قابل خوف بنا لیتے ہیں یعنی لوگوں کی تکلیف سے بھی ایسا ڈرتے ہیں جیسے عذاب الٰہی سے ڈرنا چاہئے ہر ایک بات میں لوگوں کی رضا مقدم جانتے ہیں اور کہتے ہیں میاں ! خالق سے بگاڑ کر ہم گذارہ کرسکتے ہیں مگر مخلوق سے بگاڑ کر گذارہ مشکل ہے اور اگر اللہ کی طرف سے کوئی مدد پہنچے فتوحات ہوں یا مال عنیمت آئے تو فورا کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ تھے دیکھا تھا ہم نے فلاں موقع پر فلاں کافر کو کیسے پچھاڑا تھا فلاں موقع پر ہم نے یہ کام کیا تھا ہمیں بھی کچھ عنایت ہو ہم بھی امید وار دعا گو ہیں کیا یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان والوں کے دلی رازوں سے خوب واقف نہیں بے شک اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بھی جانتا ہے اور بے ایمان منافق بھی اسے خوب معلوم ہیں مگر یہ لوگ ایسے کچھ اللہ سے کشیدہ ہیں کہ ان کی ہر بات میں ادا نرالی اور جہالت سے لبریز ہے دیکھو تو جو لوگ کافر ہیں وہ ایمانداروں سے کہتے ہیں کہ آؤ تم ہمارے راستے کی پیروی کرو خیر یہ تو ایسی بات ہے کہ ہر ایک مذہب والا دوسرے کو کہتا ہے لطف یہ ہے کہ اور بھی ایک بات کہتے ہیں کہ اگر تم کسی مواخذہ سے ڈرتے ہو تو ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے کیا تم ہمارا اعتبار نہیں کرتے دیکھو ہم اتنے بڑے رئیس ہیں تمام لوگ ہمارا کہا مانتے ہیں ہم پر بھروسہ کرتے ہیں پھر تم کیوں نہیں ہم پر بھروسہ کرتے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمہارے گناہ اٹھائینگے حالانکہ وہ ان کے گناہوں سے کچھ نہ اٹھائیں گے یقینا وہ جھوٹے ہیں اور اس جھوٹ کی سزا میں وہ اپنے گناہ اٹھائیں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ اور گناہ بھی اٹھائیں گے جو لوگوں کو گمراہ کرنے سے ان کی گردنوں میں لٹکائے جائیں گے اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں کہ اللہ کی نسبت بدگمانی پھیلاتے ہیں اور اللہ کو بھی مثل دنیاوی بادشاہوں کے جان کر اس کے وسیلے اور اردلی تلاش کرتے ہیں قیامت کے روز اس سے پوچھے جائے گے اور اپنی کئے کی سزا پائیں گے العنكبوت
11 العنكبوت
12 العنكبوت
13 العنكبوت
14 (14۔35) ہم نے حضرت نوح کو بھی یہی پیغام اور اطلاع دے کر اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا پھر وہ ان میں پچاس کم ہزار سال یعنی ساڑھے نو سو سال پوری وعظ کہتا رہا مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی برابر مخالفت ہی پر تلے رہے پس آخرکار جب ان کا جام لبریز ہوگیا تو حکم الٰہی سے ان کو طوفان نے آلیا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے پھر ہم نے اس نوح کو اور ساتھ بیڑی میں بیٹھنے والوں کو نجات دی اور اس بیڑی کو بوجہ ان کی نجات کے تمام جہان والوں کے لئے نشانی بنای اور اسی طرح ابراہیم کو رسول کر کے بھیجا اس کی زندگی کے واقعات بہت عجیب و غریب ہیں خصوصا وہ وقت جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کی بے فرمانی کرنے سے ڈرو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو تو سمجھو تم اتنا نہیں سوچتے کہ اللہ کے سوا صرف بتوں اور مصنوعی معبودوں کی عبادت کرتے ہو اور اپنی طفل تسلی کے لئے محض جھوٹ موٹ کی حکایات اور زٹلیات گھڑتے ہو سنو ! میں تم کو ایک قابل قدر بات بتاؤں معبود وہ ہونا چاہئے جو ہمارا خالق ہو اور ہم کو رزق دیتا ہو مگر جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تو تمہارے خالق نہیں اس لئے تمہارے لئے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں پس تم ان سے کیا امید وبیم رکھتے ہو اللہ کے ہاں سے رزق مانگو جو تم کو دینے پر قادر ہے اور اس کی عبادت کرو اور شکر اس کا بجالاؤ اور دل میں اس بات کو جما رکھو کہ اسی کی طرف تم کو پھرنا ہے بس اس حاضری کی تیاری کرو اور اگر تم تکذیب کرو گے اور نہ ماننے ہی پر بضد مصر رہو گے تو یاد رکھو کہ اس کا وبال تم ہی پر ہوگا تم سے پہلے بھی کئی ایک جماعتوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی جس کا بد انجام انہی کے حق میں برا ہوا اور رسولوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا کیونکہ ہر ایک رسول کے ذمے بس واضح کرکے پہنچانا ہوتا ہے اسی لئے امتوں کے انکار پر رسولوں کو کوئی مواخذہ نہیں مانیں یا مانیں اپنا سر کھائیں کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خلقت کو پیدا کرتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے یعنی فنا کردیتا ہے بے شک یہ بات اللہ کے نزدیک آسان ہے‘ بنا کر توڑ دینا اسے کچھ بھی مشکل نہیں سمجھانے کے لئے اے نبی ! تو ان سے یہ بھی کہہ کہ ذرہ ملک میں تم سیر کرو پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کس کس طرح مخلوق کو پیدا کیا ہے صحرائی مخلوق کو دیکھو پھر دریائی پر نظر کرو بغور دیکھو تو اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد ایک نئی خلقت پیدا کرے گا جو دار آخرت میں ہوگی جس سے عرب کے لوگ منکر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے یہاں تک کہ جسے چاہے عذاب کرسکتا ہے اور جسے چاہے رحم فرما سکتا ہے یعنی وہ کسی امیر وزیر کی رائے کا پابند نہیں اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہاں نیک و بد کا بدلہ تم کو ملے گا پس تم اپنا نفع نقصان سوچ لو اور بھلائی برائی کے لئے تیار ہو کر چلو خوب جان رکھو کہ تم زمین و آسمان میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے کہ وہ تم کو پکڑنا چاہے اور تم نہ پکڑے جاؤ اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی والی اور کوئی مددگار نہیں ہے اور نہ ہوگا اس لئے کہ جو لوگ اللہ کے حکموں اور اس کی ملاقات سے منکر ہیں یا مان کر تیاری نہیں کرتے وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہیں اور انہی کو درد ناک عذاب ہوگا یہ تو تھا ضمنی مکالمہ جو بوجہ مناسبت کے ذکر میں آگیا پس اب سنئے اصل قصہ کہ ابراہیم کی قوم سے آخر یہی جواب بن سکا کہ انہوں نے کہا اس ابراہیم کو قتل کر دو‘ یا آگ میں جلا دو پھر بعد غوروفکر انہوں نے آگ میں جلانا زیادہ مفید جان کر ابراہیم سلام اللہ علیہ کو آگ میں تو ڈلا پر اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچایا بے شک اس مذکور میں ایمان دار لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہے ابراہیم سلام اللہ علیہ آگ سے نکلا تو بدستور وعظ و نصیحت میں سرگرم رہا اور اس نے کہا کہ تم نے صرف آپس کی دنیاوی محبت سے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے ایک دوسرے کی لاگ لپیٹ سے چلے جارہے ہو اس کی سزا تم کو ضرور ملے گی پھر قیامت کے روز تم میں کا ایک دوسرے سے انکاری ہوگا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور تمہارا وہاں پر کوئی مددگار نہ ہوگا پس یہ تقریر ابراہیم کی سن کر لوط جو اس کا حقیقی بھتیجا تھا اس پر ایمان لایا اور ابراہیم جب کافروں سے بہت تنگ آیا تو اس نے کہا میں اپنا وطن چھوڑ کر اپنے پروردگار کی طرف جاتاہوں یعنی کسی ایسی جگہ جاتا ہوں کہ بافراغت اس کی عبادت اور تبلیغ کرسکوں بے شک وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے وہ اپنی حکمت کاملہ سے میرے لئے کوئی ایسی صورت پیدا کر دیگا کہ میں بآسائیش عمر گذار سکوں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہم نے اس کو کافروں کی تکلیف سے بچایا اور جب وہ وطن چھوڑ کر ہجرت کر گیا تو ہم نے اس کو اسمعیل اور اسحاق بیٹے اور یعقوب پوتا دئیے اس خاندان رسالت اور دوران نبوت کا مورث اعلیٰ یہی ابراہیم سلام اللہ علیہ تھا کیونکہ ہم نے اس کو برگزیدہ کیا تھا اور ہم نے اس کی نسل میں نبوت اور کتاب کی ہدایت جاری کی تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ حصرت ابراہیم کی نسل سے کئی ایک نبی پیدا ہوئے تھے اور ہم نے اس کو دنیا میں بڑا اجر دیا تھا اور یہ اعلان کردیا تھا کہ آخرت میں بھی وہ ہمارے نیک بندوں کی جماعت میں ہوگا اور لوط کو جو ابراہیم پر ایمان لایا تھا ہم نے رسول کر کے بھیجا اس کی زندگی کے واقعات بھی تمہارے لئے عجیب سبق آموز ہیں کیونکہ اس کے مخاطبین نہایت ہی بد اخلاقی میں منہمک تھے یعنی علاوہ شرک وکفر و بت پرستی کے وہ خلاف وضع فطری (لونڈوں سے لواطت) کرتے تھے اس لئے حضرت لوط کو ان کے سمجھانے میں بڑی دقت ہوئی خصوصا جب اسنے اپنی قوم سے کہا کہ تم بڑی بے حیائی کا کام کرتے ہو ایسا بے حیائی کا کام ہے کہ تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا تم مردوں یعنی لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو اور قدرتی راستہ جو عورت مرد کے ملاپ کا ہے قطع کرتے ہو اور تم اپنی مجالس میں ناجائز حرکات کرتے ہو مخول ٹھٹھا ہتک ایک دوسرے کی آبرو ریزی تم میں ایک معمولی بات ہے پس یہ نصیحت سن کر اس کی قوم کا بس یہی جواب ہوا کہ انہوں نے کہا کہ بڑے میاں ! ہم تو تیری ایسی ویسی باتیں سننے کے نہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ اور ہمیں ہلاک اور تباہ کر دے بس تیری سچائی کا ثبوت خود ہی ہوجائے گا اور تمام دنیا کے لوگ جان جائیں گے کہ فلاں نبی نے اپنی قوم کو تباہ کروادیاجاؤ آئیندہ کو نہ ہمارا دماغ پچی کیجئیو نہ اپنا سر کھپائیو حضرت لوط اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے یہ سن کر کہا کہ اے میرے پروردگار ! مفسدوں کی قوم پر میری مدد کر حسب درخواست کفار کے صاف لفظوں میں عذاب کی درخواست نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ پر کسی کا جبر نہیں وہ جس طریق سے چاہے گا مدد کریگا مفسدوں کو تباہ کرنے سے یا ہدایت کرنے سے اس لئے اپنا مطلب عرض کردیا اس کے اسباب کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کیا مگر چونکہ اللہ کے علم میں بھی یہی تھا کہ اس قوم کی ہلاکت ہو اور وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں اس لیے فرشتے ہلاکت کے آن پہنچے مگر جب ہمارے فرستادہ فرشتے پہنچے تو پہلے ابراہیم کے پاس بیٹے کی خوش خبری لے کر آئے کہ تیرے گھر بیٹا پیدا ہوگا تو انہوں نے ابراہیم سلام اللہ علیہ کے پوچھنے پر کہا کہ ہم اس لوط کی بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں اسی غرض سے ہم آئے ہیں کیونکہ اس بستی کے رہنے والے ظالم ہیں ابراہیم کی طبیعت میں چونکہ اعلیٰ درجہ کا رحم تھا جھٹ سے اس نے کہا ہیں اس میں تو لوط بھی ہے غرض اس کی یہ تھی کہ چونکہ اس بستی میں لوط ہے اس لئے وہ بستی ہنوز قابل ہلاکت نہیں کیونکہ ہلاکت میں نبی کی شرکت نہیں ہوتی فرشتوں نے کہا جو جو اس میں ہے ہم اس کو خوب جانتے ہیں ہم بحکم الٰہی اس لوط کو اور اس کے تعلقداروں کو بچا لیں گے کیونکہ بحکم الٰہی ان کو بتلادیں گے کہ تم یہاں سے نکل جاؤ بس نکلنے کی وجہ سے وہ بچ جائیں گے مگر اس لوط کی عورت پیچھے رہنے والوں میں رہے گی کیونکہ وہ لوط پر ایمان نہیں لائی بلکہ وہ بدستور اپنی برادری میں کافروں کے ساتھ رہے گی خیر یہاں سے چل کر ہمارے فرستادہ فرشتے جب لوط کے پاس آئے تو چونکہ وہ سادہ رو بچوں کی شکل میں تھے حکمت الٰہی اسی کی مقتضی ہوئی کہ ان کو اسی شکل میں بھیجا جائے اور وہ لوگ لواطت کے عادی تھے اس لئے لوط ان کی وجہ سے ناخوش اور دل تنگ ہوا اسے یہ تو معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں کیونکہ اس کو غیب کا علم نہ تھا اسلئے اس نے جو بظاہر ان کی شکل و ہیئت دیکھی تو یہی سمجھا کہ میرے مہمان ہیں ان کی ہتک سے میری ہتک ہے مگر وہاں رنگ ہی کچھ اور تھا آخر کار وہ راز کھل گیا اور لوط کو تسکین ہوئی کیونکہ انہوں نے یعنی فرشتوں نے کہا اے لوط تو خوف نہ کر اور آزردہ خاطر نہ ہو ہم تو اللہ کے فرستادہ فرشتے ہیں اس لئے آئے ہیں کہ تجھے اور تیرے تعلق والوں کو بچائیں لیکن عورت تیری یقینا پیچھے رہنے والوں میں ہے تم لوگوں کو نکال کر ہم اس بستی کے رہنے والوں پر ان کی بدکرداری کی وجہ سے آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سب قوم ہلاک ہوگئی اور عقل مندوں کے لئے ہم (اللہ) نے اس بستی میں ایک کھلی نشانی چھوڑی جس سے دیکھنے والے عبرت پائیں العنكبوت
15 العنكبوت
16 العنكبوت
17 العنكبوت
18 العنكبوت
19 العنكبوت
20 العنكبوت
21 العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 العنكبوت
25 العنكبوت
26 العنكبوت
27 العنكبوت
28 العنكبوت
29 العنكبوت
30 العنكبوت
31 العنكبوت
32 العنكبوت
33 العنكبوت
34 العنكبوت
35 العنكبوت
36 (36۔40) اور مدین والوں کی طرف ان کے بھائی حضرت شعیب خسر موسیٰ علیہم الالسلام کو بھیجا پھر اس نے بھی یہی کہا کہ بھائیو ! اللہ واحد کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کی بہتری کی توقع رکھو یعنی ایسے کام کرو کہ اس روز تم کو خیرکی توقع ہوسکے اور ملک میں فساد کرنے کی کوشش نہ کرو کہ احکام شریعت متعلقہ اعتقادات و تمدن کا خلاف کرتے ہو یہ سن کر پھر بھی انہوں نے نہ مانا بلکہ اس کی تکذیب کی پس سخت بھونچال نے ان کو آلیا جس کے ساتھ ایک سخت آواز بھی تھی سو وہ اس بھونچال کے ساتھ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے یہ انکا انجام ہوا بتلاؤ کون اس انجام کو اچھا کہیگا اور سنو ! ہم نے قوم عاد اور ثمود کو اسی طرح ہلاک کیا اور تم کو ان کے اجڑے دیار سے انکا اصل حال معلوم ہوچکا ہے کہ وہ کسطرح بدمعاشی کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور سیطان نے ان کے اعمال انکو مزین کر کے دکھائے تھے پس اسی وجہ سے انکو راہ راست سے روکا تھا ورنہ وہ بڑے ہوشیار اور بڑی سوجھ سمجھ والے تھے اور اسی طرح قارون فرعون اور ہامان وغیرہ معاندین کو ہم نے ہلاک کیا حضرت موسیٰ ان فرعونیوں کے پاس کھلے احکام لایا تاہم انہوں نے ملک میں تکبر کیا بندے سے اللہ بنے اور اللہ کو چھوڑ کر بندے کو معبود بنا لیا مگر وہ ہم سے آگے نہ بڑھ سکتے تھے یعنی جس وقت ہم ان کو پکڑنا چاہتے ممکن نہ تھا کہیں چھپ جاتے پس ہم نے ان مذکورہ قوموں کے سب لوگوں کو گناہوں پر مواخذہ کیا ان میں سے بعض پر ہم نے پتھراؤ کیا اور بعض کو سخت آواز نے زلزلہ کے ساتھ دبایا اور بعض کو ہم نے زمین میں دھنسایا اور بعض کو ہم نے پانی میں غرق کیا اور سچ پوچھو تو اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا تھا کہ ناحق عذاب دئیے گئے بلکہ وہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے بڑا ظلم تو ان کا یہ تھا کہ اللہ کے سوا اوروں کو اپنا متولی اور کارساز جانتے تھے العنكبوت
37 العنكبوت
38 العنكبوت
39 العنكبوت
40 العنكبوت
41 (41۔44) حالانکہ جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو کار ساز بناتے ہیں انکی مثال ایک مکڑی کی سی ہے جس نے دیوار پر ایک گھر بنایا اور بخیال خود سمجھا کہ بس اب میں ایک مضبوط قلعے میں ہوں کوئی دشمن مجھ پر حملہ آور ہو کر نقصان نہیں پہنچا سکتا حالانکہ تمام گھروں سے بودا اور کمزور مکڑی کا گھر ہے ایسا کہ چڑی کی چونچ سے فنا ہوسکتا ہے اسی طرح ان مشرکوں کے معبود اور مصنوعی کارساز ایسے کمزور اور ضعیف ہیں کہ کوئی چیز نہ تو پیدا کرسکتے ہیں نہ دے سکتے ہیں کاش کہ یہ لوگ کچھ علم اور معرفت رکھتے تو ان کو معلوم ہوسکتا کہ یہ کیسی صریح غلطی میں ہیں سنو ! معبود اور حقیقی حاجت روا کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عابدوں اور سائلوں کے حال سے واقف بھی ہو سو یہ تو صرف اللہ کی شان ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے خصوصا جن جن چیزوں کو اللہ سے ورے یہ لوگ پکارتے ہیں اس کو سب معلوم ہے اور وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اس کو روک سکے اور یہ مثالیں تو ہم لوگوں کے سمجھانے کو بتلاتے ہیں اور دراصل ان مثالوں کو سمجھدار لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں بے سمجھ آدمی تو اللہ سے بھی منکر ہیں حالانکہ اللہ کی الٰہی سب پر نمایاں ہے اسی نے آسمان و زمین میں ایک پختہ قانون کے ساتھ پیدا کئے تمام دنیا کے بادشاہ مع اپنی فوجی طاقت کے جمع ہو کر چاہیں تو ایک بال کے برابر بھی فرق نہیں ڈال سکتے یہی قانون قدرت کی مضبوطی ہے بے شک اس بیان میں ایمانداروں کے لئے بہت بڑی نشانی ہے یعنی جو لوگ راست بازی سے ہر ایک سچی بات کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں ان کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے العنكبوت
42 العنكبوت
43 العنكبوت
44 العنكبوت
45 (45۔55) پس اے نبی ! جو کتاب تیری طرف الہام کی گئی ہے تو لوگوں کو پڑھ کر سنا اور خود بھی اس پر عمل کر اس کی تعیم میں عملی طور پر سب سے مقدم نماز ہے پس تو نماز ہمیشہ پڑھا کر کیونکہ نماز کے بیشمار فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ بیحیائی اور ناشائستہ حرکات سے روکتی ہے اس لئے کہ نماز اللہ سے ایک گہرے تعلق کا نام ہے اللہ کے سامنے عاجزانہ عبودیت کا اقرار اپنی فرماں برداری اور اللہ کی برتری کا اعتراف ہے تمام اپنی املاک مال و دولت عزت اور آبرو کو عطیہ الٰہی ہونے کا اقرار کر کے عاجزانہ لہجے میں اپنی تمام آئدنتہ کی حاجات کا سوال ہے پھر کون دل سے جو پانچ دفعہ اس طریق سے نماز پڑھے پھر بھی گناہ اور ناشائستہ حرکات کی طرف مائل ہو ایسے نمازی سے اگر کوئی بے جا حرکات ہو بھی جائے تو چونکہ نور نماز دل میں ہوتا ہے اس لئے فورا اس کی تلافی کرتا ہے اللہ کے سامنے گڑگڑاتا ہے روتا ہے معافی کراتا ہے اور اس کی وجہ معلوم کرنی چاہو تو وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے پس جو لوگ اللہ کا ذکر ہر وقت کرتے ہیں اور نماز کو خصوصیت سے ادا کرتے ہیں ان کے دلوں میں ایک قسم کا نور پیدا ہوتا ہے کہ ) اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں یہ مذکور ہے ان الذین اتقوا اذا مسہم طائف من الشیطان تذکروا فاذا ھم مبصرون یعنی متقیوں سے جب کوئی شیطانی حرکت ہوجاتی ہے تو وہ متنبہ ہو کر سمجھ جاتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ متقیوں سے بھی گناہو جاتے ہیں مگر ان میں اور دوسروں میں فرق ہوتا ہے کہ متقی اس گناہ کی فوراً تلافی کرلیتے ہیں اور غیر متقی پرواہ نہیں کرتے۔ (منہ ( وہ ان کو عموماً بدکاریوں سے روکتا ہے اور یہ مت سمجھو کہ تم اللہ کو کسی طرح فریب میں لا سکو گے کہ کرو تو برے کام مگر ظاہر کرو کہ ہم اچھے کرتے ہیں اور نہ یہ خیال کرو کہ تمہارے نیک کاموں کی خبر اللہ تعالیٰ کو نہیں ہوگی کیونکہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے پھر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ تم اللہ کو فریب یا دھوکہ دے سکو یا وہ تمہارے کاموں سے بے خبر ہو اور سنو اس قسم کی سچی تعلیم پھیلانے پر اگر تم کو کہیں مباحثہ کی بھی ضرورت آن پڑے تو تم کتاب والوں یہود ونصاریٰ یا ہندوؤں اور آریوں سے جب مباحثہ کرو تو نہایت ہی عمدہ اور شائستہ طریقے سے کیا کرو۔ مگر جو لوگ ان میں ظالم یعنی معاند اور کجرو ہیں ان سے مباحثہ کی حاجت ہی نہیں نہ وہ کسی دلیل سے سمجھنے کے قابل ہیں پس ان سے تو روئے سخن نہ کرو کرو تو پھر جس طرح سے ان کا بد اثر مٹا سکو مٹاؤ اور تم اپنے اعتقادات ظاہر کرنے کو کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو ہماری طرف اور تمہاری طرف اتاری گئی ہے اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور اگر پوچھو کہ ہم میں پھر زیادتی کیا ہے تو زیادتی یہ ہے کہ ہم اسی معبود حقیقی کے فرمانبردا رہیں اور تم ایسے نہیں بلکہ تم اوروں کو بھی اس کے ساتھ شریک بناتے ہو اور سنو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح پہلے نبیوں کو کتابیں ملی تھیں اسی طرح ہم نے تیری طرف اے نبی یہ کامل کتاب اتاری ہے پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب کی سمجھ دی ہے وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور ان عرب کے مشرکوں میں سے بھی بعض لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور ہمارے احکام سے سخت دل شقی ازلی کافر ہی انکار کرتے ہیں یعنی جو لوگ ہر ایک سچی بات کی تسلیم سے انکار کرنے کے عادی ہیں وہی اس کتاب سے انکار کرتے ہیں ورنہ اس کتاب کی سچائی کی دلیل ایک یہی کافی ہے کہ تیری زندگی کے حالات پر غور کریں اور خوب فکر کریں کہ تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا نہ دائیں ہاتھ سے کچھ لکھتا تھا بلکہ امی محض تھا ورنہ بیدین اور جھوٹے لوگ فورا شک کرتے بلکہ جن لوگوں کو علم اور معرفت الٰہی ہے ان کے دلوں میں یہ کتاب کھلے اور واضحہ احکام میں جن کے ماننے میں ان کو ذرہ سی بھی دقت پیش نہیں آتی اور جو اپنی بدکرداری کی وجہ سے ظالم ہیں وہی ہمارے حکموں سے انکار کرتے ہیں اور سب کچھ دیکھ بھال کر بھی نہیں مانتے ان کے ظلم کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ معجزات دیکھتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کیوں نہیں اس نبی پر اس کے پروردگار کے ہاں سے نشانیاں اتاری گئیں جو ہم کہتے ہیں وہ اس کو ملنا چاہئے تھا ہم کہتے ہیں کہ پہاڑ چاندی سونے کے ہوجائیں وغیرہ اے بنی تو کہہ کہ نشانیاں سب کی سب صرف اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح کر کے ڈرانے والا ہوں اور بس کیا یہ جو ایسے ویسے بیہودہ اور لغو سوال کرتے ہیں ان کو یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر ایک جامع کتاب اتاری ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے اگر غور کریں تو بے شک اس میں بہت بڑی بڑی رحمت اور سچی بات پر ایمان لانے والوں کے لئے نصیحت ہے گو اس کی ہدایت سب کے لئے ہے مگر جو لوگ اپنی ضد اور جہالت میں کسی کی نہ سنیں ان کو کون چیز فائدہ دے سکے تو اے نبی ان سے کہہ میرے دعویٰ نبوت پر میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے وہ خود ایسی گواہی دے گا کہ اس سرے سے اس سرے تک میری آواز پہنچا دے گا کیونکہ وہ آسمانوں اور زمینوں کے سب واقعات جانتا ہے لکنک جو لوگ بیہودہ باتوں کو مانتے ہیں یعنی ایسے معبودوں پر ایمان لاتے ہیں جو دراصل ممکنات ہالک بالذات ہیں نہ واجب بالذات مگر یہ لوگ انہی کو مانتے ہیں اور اللہ معبود برحق سے انکاری ہیں یہی لوگ قیامت کے روز نقصان اٹھائیں گے دیکھو تو بجائے ماننے کے الٹے الجھتے ہیں اور تجھ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں کہ ابھی عذاب لے آ جس طرح سے ہوسکے ہم کو ہلاک کر دے کسی طرح سے مہلت نہ دے اور اگر ان کی ہلاکت کا وقت مقرر نہ ہوتا تو ضرور ان پر عذاب آجاتا تم یاد رکھو ان پر ناگہاں بے خبری میں عذاب آئے گا کہ یہ جانتے نہ ہوں گے کہ کیسے آیا دیکھو کیسے تجھ سے جلدی جلدی عذاب چاہتے ہیں حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے ہوئے ہے صرف مرنے کی دیر ہے مرے اور جہنم میں پڑے یہ واقعہ اس روز ہوگا جس روز ان پر اوپر سے اور نیچے سے ان کو عذاب ڈھانپ لے گا اور اللہ کا فرشتہ کہے گا اپنے اعمال کا بدلہ چکھو العنكبوت
46 العنكبوت
47 العنكبوت
48 العنكبوت
49 العنكبوت
50 العنكبوت
51 العنكبوت
52 العنكبوت
53 العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 (56۔60) اے میرے نیک بندو ! جو میرے حکموں پر ایمان لائے ہو تکلیفات پر صبر کرو اور اگر صبر تم سے نہ ہوسکے تو سنو ! میری زمین بہت وسیع ہے پس تم یہ ملک چھوڑ کر کہیں کو نکل جاؤ اور خاص میری بندگی کرو موت سے نہ ڈرو کیونکہ ہر ایک جان موت کا مزا چکھنے والی ہے مر کر پھر تم ہماری (یعنی اللہ) کی ( طرف واپس آئو گے وہاں پر ہم ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیں گے اور جن لوگوں نے تمہاری طرح ایمان لا کر نیک اعمال کئے ہوں گے ان کو ہم (اللہ) جنت کے بالا خانوں میں بڑی عزت سے جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ہمیشہ ان میں رہیں گے بہت اچھا بدلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا جو تکلیفات پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اسی کو اپنا حاجت روا جانتے ہیں اسی سے اپنی ہاجات طلب کرتے ہیں غرض جو کچھ کہتے ہیں اسی کو کہتے ہیں جو مانگتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی یہی سبق پڑھاتے ہیں کہ ؎ لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ جھکاؤ تو سر اسکے آگے جھکاؤ اور اگر غور کریں تو کیوں نہ اللہ پر توکل کریں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایک جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی آپ نہیں اٹھاتے نہ کماتے ہیں نہ کسی منڈی سے خرید کر لاتے ہیں نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں تو یہی اللہ تعالیٰ ہی ان کو اور تم کو رزق دیتا ہے اور وہ بڑا سننے والا سب کی حاجت کو جاننے والا ہے تعجب تر تو یہ ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اصولا یہ لوگ بھی اس سے متفق ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ سب کا خالق مالک اللہ ہے العنكبوت
57 العنكبوت
58 العنكبوت
59 العنكبوت
60 العنكبوت
61 (61۔69) اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمان و زمین کس نے پیدا کئے ہیں کس نے سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے تو اس سوال کے جواب میں فورا کہیں گے کہ اللہ نے پھر کدھر کو بہکائے جاتے ہیں اور سنو ! اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رزق فراخ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یہ نہ سمجھو کہ وہ بے خبری میں ایسا کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو جانتا ہے جو جس لائق ہوتا ہے اس کو دیتا ہے اس کے علم ہی کا مقتضا ہے کہ اس نے دنیا کا انتطام ایسا باقاعدہ کر رکھا ہے کہ اس سے اچھا ممکن نہیں بارش ہے تو باقاعدہ ہے دھوپ ہے تو باقاعدہ اسی لئے تو یہ لوگ بھی قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر ایک کام بانظام ہے اگر تو ان کو پوچھے کہ کون اوپر کی طرف سے پانی اتار کر زمین کو خشک ہونے کے بعد تروتازہ کردیتا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ ہی کرتا ہے اے نبی ! تو یہ سن کر کہیو الحمد للہ سب تعریفیں اللہ ہی کو ہیں کہ باوجود شرک و کفر کے تم لوگ بھی اس بات کے قائل ہو کہ سب انتظام اللہ کے ہاتھ میں اس سے زیادہ ثبوت اور کیا چاہئے لیکن ان میں کے بہت سے نہیں سمجھتے کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا؟ تعجب ہے کہ اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ یہ دنیا کی زندگی صرف چند روزہ کھیل و کود ہے جس کا نتیجہ اخر کار یہ ہوتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا اسی لئے جو لوگ اس دنیا کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہیں وہ اس نتہج پر پہنچ جاتے ہیں ؎ لہ ملک ینادی کل یوم لدوا للموت وابنوا لخراب فرشتہ روز کرتا ہے منادی چار طرفوں پر محلاں اونچیاں والے ترا گوریں ٹھکانہ ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے کاش کہ یہ لوگ یہی اس کو جانیں اگر یہ لوگ اس بات کو دل سے جانیں تو ایک دم میں سیدھے ہوجائیں ان کو معلوم ہوجائے کہ ؎ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے مگر صحت وعافیت میں ان کی بلا کو بھی یہ خبر نہیں البتہ جب کسی تکلیف میں پھنستے ہیں تو پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں دیکھو جب یہ لوگ بیڑیوں پر سوار ہوتے ہیں اور بیڑے بھنور میں پھنس جاتے ہیں تو اللہ کی فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہوئے اخلاص مندی سے اسی کو پکارتے ہیں گویا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مشکل کشا نہیں ہے یہ تو ان کی اس وقت کی حالت ہے جب وہ دریا میں ڈوبنے کو ہوتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچاتا ہے تو فورا شرک کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ جو نعمتیں ہم (اللہ) نے ان کو دی ہیں ان کی نا شکری کریں اور چند روزہ دنیا میں بے فکر مزے اڑائیں کیونکہ عیش پسندوں کے خیال میں اللہ کی حکومت کا خیال بی عیش میں خلل انداز ہے پس جب ان کا یہ حال ہے تو خود ہی جان جائینگے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور اگر کہو کہ تم اسلام سے ایسے کیوں متنفر ہو تو کہتے ہیں کہ ہم متنفر نہیں مگر ہمیں ڈر ہے کہ مسلمان ہونے سے ہم کو مخالف لوگ تکلیف شدید پہنچائیں گے کیا یہ دیکھتے نہیں کہ ہم (اللہ) نے حرم کو امن والا بنایا ہے کسی کی مجال نہیں کہ باپ کے قاتل کو بھی یہاں پر کچھ کہہ سکے اور ان کے ارد گرد میں لوگ لوٹے جاتے ہیں کیا پھر بھی یہ لوگ بیہودہ اور بے بنیاد چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں پس یاد رکھو کہ یہ بڑا سنگین ناقابل معافی جرم ہے اور اس کے علاوہ بعض لوگ تو یہاں تک ترقی کر گئے ہیں کہ اپنی بے سمجھی سے اللہ کے رسول کو کہتے ہیں کہ اس نے اللہ کی نسبت جھوٹ افترا کر رکھا ہے جو کہتا ہے کہ مجھے وحی ہوتی ہے حالانکہ وحی یا الہام کوئی نہیں کیا یہ جانتے نہیں کہ جو کوئی اللہ پر جھوٹ افترا کرے کہ معمولی آدمی ہو کر نبوت کا مدعی ہو یا اللہ کی طرف سے آئی ہوئی حق بات جب اس کو پہنچے تو اس کو جھٹلائے اس سے بھی کوئی بڑا ظالم ہے؟ کوئی نہیں کیا ایسے بے ایمانوں کا جو اللہ پر افترا کریں یا اس کے حکموں کی تکذیب کریں جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہیبے بیشک ہے یہ تو انجام ان بے ایمانوں کا ہے جو ہمارے حکموں کا خلاف کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں کہ جس طرح بن پڑے ہمیں راضی کریں ہماری نارضامندی کا ہر وقت ان کو غم رہتا ہے ہم بھی ان کو اپنی خوشنودی کی راہیں بتلاتے ہیں یعنی توفیق خیر ان کے ساتھ رفیق حال رہتی ہے انکے دل میں ہر آن یہ خیال مضبوطی کے ساتھ جما رہتا ہے بلکہ دن بدن ترقی کرتا ہے اور یہ سب نتیجہ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم (اللہ) نیک بختوں کے ساتھ ہوتے ہیں ان کو توفیق خیر بخشتے ہیں اللھم وفقنا لما تحب وترضیٰ العنكبوت
62 العنكبوت
63 العنكبوت
64 العنكبوت
65 العنكبوت
66 العنكبوت
67 العنكبوت
68 العنكبوت
69 العنكبوت
0 الروم
1 (1۔19) سورۃ الروم :۔ میں ہوں اللہ سب سے زیادہ علم والا میں اپنے کامل علم سے تم کو اطلاع دیتا ہوں اہالی ١ ؎ روم اپنی ملک کی قریب حدود میں اگرچہ اب مغلوب ہوگئے ہیں مگر یاد رکھو وہ اپنی اس مغلوبی کے بعد چند سال میں جلدی ہی غالب آئیں گے یہ مت سمجھو کہ فارس کی فوجی طاقت روم سے زیادہ ہے اور رومی بچے کھچے اور بھی مغلوب ہوچکے ہیں پھر یہ کیسے غالب ہوں گے کیونکہ اہالی فارس کی اس فتح سے پہلے اور پیچھے سب اختیارات اللہ ہی کو ہیں اس لئے وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے چاہے وہ کیسا ہی ضعیف ہو اور اس کا مقابل کیسا ہی قوی کیونکہ اس کی شان ہے ؎ اوست سلطاں ہر چہ خواہداں کند عالے را درد مے ویراں کند رومی اور فارسی دو قومیں مختلف المذاہب تھیں رومی اہل کتاب عیسائی تھے اور فارسی مشرک الہامی کتابوں سے منکر جنگ میں رومی مغلوب ہوگئے تو عرب کے مشرکوں کو صرف اس خیال سے خوشی ہوئی کہ اہل فارس بھی ہماری طرح لامذہب ہیں اور رومی لوگ مسلمانوں کی طرح اہل کتاب ہیں جیسے جاپان اور روس کی لڑائی میں ہندوستانی جاپانیوں کی فتح پر محض ایشیائی ہونے کی وجہ سے خوشیاں مناتے تھے نیز عرب کے مشرکوں نے بطور تفاول کے کہا کہ جس طرح فارسی رومیوں پر غالب آئے ہیں اسی طرح ہم بھی مسلمانوں پر غالب آئیں گے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس روز جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اسی روز رومیوں کو فارسیوں پر فتح ہوئی (منہ (ایمان دار مسلمان اس روز اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے کیونہ اس روز ان کو بھی مشرکین عرب پر فتح ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ؎ چہ خوش بود کہ بر آید بیک کرشمہ دوکار ایک تو رومیوں کے غلبہ کی خؤشی دوم اپنی فتح کی مسرت اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے پھر جس کی مدد پر وہ ہوجائے اس کو کام کمی ہے کیونکہ ایک زبردست معاون اور مددگار اس کی طرف ہے اور وہ بڑا غالب ہے یہ نہیں کہ غلبہ کی ترنگ میں ایک کو دباتا پھرے نہیں کیونکہ وہ بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی کی صفت متقاضی ہے کہ اس کا حق بھی ہے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور ایسا کروں گا اور یاد رکھو کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن بہت سے لوگ اس راز کو نہیں جانتے اللہ کے وعدوں پر ان کو بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہری اسباب کو جانتے ہیں ان کے نزدیک تمام عزت اور اعزاز بس یہی ہے کہ دنیا کا مال اسباب کافی ہو اسی میں ان کی تگ و دو ہے اور آخرت کی عزت سے غافل ہیں گویا ان کا اصول ہی یہ ہے ؎ عاقبت کی خبر اللہ جانے اب تو آرام سے گذرتی ہے بھلا یہ لوگ جو آخرت سے ایسے غافل ہیں کیا انہوں نے اپنے دل میں کبھی یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو سچے نتیجے سے پیدا کیا اور وقت مقرر کے ساتھ بنایا ہے یہ نہیں کہ بنایا اور بگاڑا اور گیا دنیا میں ایک شخص تمام عمر صلاحیت سے گذارے دوسرا تمام قسم کے گناہوں میں مبتلا رہے مگر مرنے کے بعد دونوں برابر ہوں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے جیسے یہ غلط ہے ایسے یہ بھی غلط ہے کہ اس دنیا کی کبھی انتہا نہیں جیسے دہریوں کا خیال ہے دنیا کی ہر ایک چیز جو محسوس ہو رہی ہے اپنی شکل اور ہیئت میں کہہ رہی ہے کہ میں ایک وقت میں نہ تھی پھر ہوگئی ایک وقت آئیگا کہ میں نہ ہوں گی پس یہی حکم تمام دنیا کی کائنات کا ہے مگر ان باتوں پر تو کوئی سمجھدار ہی غور کرتا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات سے بھی منکر ہیں ان کو یقین نہیں آتا کہ کوئی دن ایسا ہوگا کہ تمام لوگ اپنے پروردگار کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا نیک و بد بدلہ پائیں گے بھلا یہ لوگ جو ایسی غلطی میں ہیں کہ اعمال کا بدلہ بھی نہیں مانتے کیا انہوں نے ملک میں پھر کر کبھی سیر نہیں کی کہ دیکھتے ان سے پہلے کافر لوگوں کا کیا حال ہوا وہ ان سے زیادہ قوت والے تھے اور انہوں نے زمین کو جوتا اور ان سے زیادہ اس کو آباد کیا تھا مگر آخر کار سب کچھ ضائع اور تباہ ہوگیا کیونکہ انہوں نے اللہ کے سامنے تکبر کیا اور ان کے رسول جو ان کے پاس کھلے کھلے احکام لے کر آئے تو انہوں نے کسی کی نہ سنی پس اپنے کیفر کردار کو پہنچے اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا تھا مگر وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کرتے بلکہ الٹے مقابلہ کرتے تھے اس لئے چند روزہ انکی پھوں پھاں رہی پھر آخر بقول ؎ تو مشو مغرور بر حلم اللہ دیر گیرد سخت گیرد مر ترا جن لوگوں نے برا کیا تھا انکا انجام یہی برا ہوا اس لئے کہ وہ اللہ کے احکام کی تکذیب کرتے اور ان کی ہنسی اڑا تے تھے چونکہ تمہارے مقابل یہ لوگ ہی انہی بدکرداروں کی روش پر چلتے ہیں اس لئے ان کو تم سناؤ کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو اول بار بناتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹاتا ہے یہ دو مرتبے تو تم بھی مانتے ہو تیسرے کو انہی پر قیاس کرلو کہ پھر تم دوبارہ زندہ ہو کر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور سنو جس روز قیامت ہوگی مجرم لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں آتے ہر طرح کی بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کے مصنوعی شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور لوگ خود بھی اپنے شریکوں سے منکر ہوجائیں گے کہ ہم تو انکو پوجتے نہ تھے نہ انکو شریک بناتے تھے پھر ہم کو کیوں پھانسا جاتا ہے اور بھی اسی قسم کی بیہودہ بکواس کریں گے مگر انکی شنوائی نہ ہوگی نہ کوئی کسی کا حمایتی ہوگا اس لئے کہ جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن سب لوگ متفرق ہوجائینگے مومن الگ کافر الگ صالح الگ فاسق الگ پھر جن لوگوں نے ایمان لا کر نیک عمل ہی کئے ہونگے وہ تو بہشت میں خاطر تواضع کئے جائینگے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہوگا اور ہمارے حکموں کی اور آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی ہوگی تو وہی لوگ عذاب میں پکڑے جائیں گے پس تم اگر جنت کے یہ مراتب لینا چاہتے ہو تو اس حکم کی تعمیل کرو صبح شام کے وقت اللہ کو پاکی سے یاد کیا کرو کیونکہ وہ سب دنیا کا اصل مالک ہے اور آسمان و زمین میں سب تعریفیں اسی کی ہیں یعنی جس قدر دنیا میں کسی شخص کی کسی کام پر تعریف ہوتی ہے ان سب کا مستحق وہی اللہ تعالیٰ ہے اس لئے تم صبح شام اور دن کے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت اس کی پاکی بیان کیا کرو دیکھو وہ ایسا قادر قیوم ہے کہ بے جان منی سے زندہ بچہ کو نکالتا ہے اور زندوں سے مردے کو نکالتا ہے یہ واقعات تو تمہارے سامنے گذرتے ہیں اور تم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور یہ بھی دیکھتے ہو کہ زمین کو خشک ہونے کے بعد از سر نو تازہ کردیتا ہے اور تم کو سمجھاتا ہے کہ اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے پس تم اس کام کے لئے ابھی سے تیار رہو۔ الروم
2 الروم
3 الروم
4 الروم
5 الروم
6 الروم
7 الروم
8 الروم
9 الروم
10 الروم
11 الروم
12 الروم
13 الروم
14 الروم
15 الروم
16 الروم
17 الروم
18 الروم
19 الروم
20 (20۔27) اور اگر تم کو اس امر میں شک ہو کہ قیامت کا ثبوت کیا ہے تو سنو ! اس کی قدرت کے نشانات تو کئی ایک ہیں ان میں سے ایک نشان یہ بھی ہے کہ اس نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا اس کے بعد اب تم انسان ہو کر ادھر ادھر پھیلے ہوئے ہو کیا اس کی قدرت کا یہ نشان کافی نہیں اور سنو اس کی قدرت کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے ساتھ انس حاصل کرو اور تمہارے تجرد کی وحشت دور ہو اسی لئے اس نے تم (میاں بیوی) میں پیار اور رحم پیدا کیا ہے کہ بیوی کو خاوند سے انس ہے اور خاوند کو بیوی کی محبت غرض وہ اس کا دلدادہ ہے تو یہ اس پر فریفتہ بے شک اس واقعہ میں فکر کرنے والی قوم کیلئے بہت سے نشان ہیں اور سنو ! اس کی قدرت کے نشانوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں یعنی لغات اور شکلوں کی رنگتوں کا اختلاف یہی ہے اس کی کمال قدرت کی دلیل ہے کہ باوجود یہ کہ تم لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان دنیا میں بستے ہو مگر کیا مجال کہ دو آدمی بھی ایک دوسرے سے بالکل ایسے مل جائیں کہ ان میں کسی طرح کا امتیاز نہ رہے بے شک اس امر میں علمو الوں کے لئے بہت سے نشان ہیں الروم
21 الروم
22 الروم
23 الروم
24 الروم
25 الروم
26 الروم
27 الروم
28 (28۔36 اور سنو ! یہ نشان تو تم نے آفاقی سنے ہیں یعنی یہ تو تمہارے اپنے نفسوں سے بیرونی واقعات کا ذکر تھا اب ذرہ اپنے اندر کی کیفیت بھی سنو ! کہ رات میں اور حسب ضرورت دن میں تمہارا سو رہنا اور عام طور پر دن میں اس کے فضل یعنی روزی کی تلاش کرنا بھی اسی کی قدرت کی نشانیوں میں سے بہت بڑی نشانی ہے کیا تم غور نہیں کرتے کہ ایک وقت تم کام کیا کرتے ہو اچھے بھلے تنو مند ہوتے ہو فورا ہی تمہاری طاقت کمزور ہو کر تم کو گرجانے پر مجبور کرتی ہے ایسے کہ نیند کی حالت میں تمہیں خود اپنا بھی شعور نہیں رہتا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں اس قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں جو حق بات کو سنتے ہیں آؤ ہم پھر تمہیں آفاقی سیر کرائیں اور تم کو اپنے نشانوں کی طرف توجہ دلائیں پس تم دیکھو کہ اسی کی قدرت کے نشانوں میں سے ہے کہ وہ تم کو ہلاکت کے خوف اور فائدے کی طمع سے چمکتی بجلی دکھاتا ہے اور اوپر کی جانب سے تم پر پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ زمین کو خشکی کے بعد تازہ کردیتا ہے وہی زمین ہوتی ہے کہ خشک بنجر کی طرح اس کے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا وہی ہے کہ بارش کے بعد اس کا سبزہ ایسا لہلہاتا ہے کہ گویا فرش زمرد بچھ رہا ہے بے شک اس واقعہ میں عقلمند قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں اور سنو ! اسی کی قدرت کے نشانوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں جو کچھ ان میں ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے اس موجودہ ہئیت کے بعد ایک وقت آئے گا کہ یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا پھر جب ایک دفعہ تم کو زمین سے نکلنے کیلئے پکاریگا تو تم فورا نکل آؤ گے اور اس کے حضور میں جمع ہوجاؤ گے سنو ! اور غور کرو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کے مملوک غلام ہیں اور قدرتی احکام میں سب اسی کے فرمانبردار ہیں اور سنو ! وہی قادر قیوم ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے اور وہ لوٹا دینا اس پر پیدا کرنے سے آسان تر ہے اور آسمان و زمین میں اس کی شان بہت ہی بلند ہے اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے دیکھو اس نے تمہارے سمجھانے کو تم ہی میں سے ایک مثال تم کو بتلائی ہے پس غور سے سنو ! کیا تمہاری مملوک غلاموں میں کوئی ہے کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس میں وہ تمہارے ایسے شریک ہوں کہ تم اور وہ اس نعمت میں برابر ہو ان سے تم ایسا خوف کرو جیسے اپنے برابر کے بھائیوں سے تم ڈرتے ہو کہ مبادا کوئی غلطی ہوجائے تو ہم کو مواخذہ کریں بتلاؤ تمہارا کوئی غلام ایسا مختار کار برابر کا شریک ہے یقینا تم کہو گے کہ کوئی نہیں تو کیا تم جانتے نہیں کہ ساری مخلوق اللہ کی مملوک غلام ہے پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ مالک مختار اللہ کے اختیار میں اس کے مملوک غلام شریک ہوسکیں ہرگز نہیں اس لئے تم یقینا سمجھو کہ ؎ ہست سلطانی مسلم مردرا نیست کس راز ہر ۂ چون و چرا اسی طرح ہم عقلمند لوگوں کے لئے دلائل بیان کرتے ہیں گو ان دلائل کا روئے سخن تو سب کی طرف ہوتا ہے مگر فائدہ ایسے عقلمندوں ہی کو ہوتا ہے جو اس بات کی تہ تک پہنچتے ہیں کہ مالک الملک لا شریک کی تابعداری میں سب کچھ ملتا ہے غیروں سے نہیں ملتا لیکن جو لوگ ظالم ہیں یعنی مالک اور غلاموں کو یکساں ہی جانتے ہیں وہ محض اپنی جہالت سے اپنی خواہشات کے پیچھے پھرتے ہیں جدھر طبیعت کا رخ ہوتا ہے چلے جاتے ہیں اس سے مطلب نہیں کہ وہ راستہ کدھر کو جاتا ہے اور کہاں کو لے جاتا ہے پھر جس شخص کو اس کی جہالت کے باعث اللہ ہی گمراہ کرے اس کو کون راہ دکھا سکتا ہے کیونکہ وہ دانستہ ضد میں ہلاک ہوئے ہیں اس لئے ان کو ضد کی سزا ملے گی اور کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا پس جب کہ سب کچھ اللہ کے قبضے میں ہے تو تو اے نبی ! ایک طرفہ ہو کر اپنے آپ کو خالص دین کی طرف لگا رکھ اللہ کی بنائی ہوئی انسانی سرشت جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اختیار کر یعنی ایک ہی مالک کی اطاعت پکڑ باقی مصنوعی الہٰوں کی بندگی اور اطاعت کرنے میں ان کی طرف دھیان بھی نہ دے کہ کیا کہتے ہیں جو سرشت اللہ نے بنائی ہے اسی کا پابند رہ کیونکہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی مناسب نہیں یہی مضبوط طریق ہے جس پر کوئی آفت اور غلطی نہیں آنے کی لیکن بہت سے لوگ اس تعلیم کو نہیں جانتے مگر تم اے مسلمانو ! اسی اللہ کی طرف رجوع ہو کر اس تعلیم کے پابند رہنا اور اس اللہ سے ڈرتے رہنا اور نماز قائم رکھنا اور اس بات کا خیال رکھنا کہ ان مشرکوں میں سے کبھی نہ بننا جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ ہوگئے تم جانتے ہو یہ کون لوگ ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہیں مگر ان میں فرقوں کا شمار آسمان کے تاروں سے متجاوز نہیں تو شاید کم ہی نہیں ) اس آیت میں مسلمانوں کو تفرقہ کرنے سے سخت ممانعت کی گئی ہے ایک اور موقع پر اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے جہاں ارشاد ہے ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا۔ لست منھم فی شیئ۔ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون (پ ٧ ع ٧) یعنی جو لوگ دین میں تفرقے ڈال کر گروہ گروہ بن گئے ہیں اے نبی ! تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کام اللہ کو سپرد ہے وہی ان کے اعمال کا پتہ بتلا دے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک آیات اور احادیث ہیں جن میں تفرقہ کرنے سے سخت منع ہے اور اتفاق اور اتحاد کی بڑی تاکید ہے۔ اسرار شریعت پر غور کرنے سے یہ بات بخوبی ذہن نشین ہوتی ہے کہ تفرقہ پر جس قدر ناراضگی ہے کسی فعل پر نہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اتفاق کے معنے کیا ہیں اور تفرقہ کیا ہے۔ کیا یہ معنے ہیں کہ جو کسی ایک عالم کی کسی مسئلہ میں رائے ہو تو وہی کل جہان کے مسلمانوں کی ہو۔ سر مو اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو۔ یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس زمانہ کو تو جانے دیجئے مسلمانوں کے اول طبقہ میں بھی اس کا ظہور نہیں ہوسکاں ایک صحابی کی تحقیق ایک مسئلہ میں کچھ ہے تو دوسرے کی کچھ اور بلکہ سچ پوچھئے تو آج جن مسائل اختلافیہ میں اختلاف ہے وہ اسی اختلاف پر متفرع ہے جو صحابہ کے مابین تھا گو اس کو مزید جلا دی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ پر عبور کرنے سے یہ امر یقین کے درجے تک پہنچتا ہے کہ گو صحابہ میں بھی اختلاف تھا مگر اس اختلاف نے ان پر یہ اثر نہ کیا تھا کہ تفریق کے درجے تک پہنچتے بلکہ وہ باوجود اختلاف کے سب ایک ہی گروہ ایک ہی قوم اور ایک ہی نیشن تھے اگر ان میں سے کسی عالم کی رائے میں مسئلہ غلط تھا تو ہر حال میں غلط تھا خواہ اس کا قائل کوئی ہو۔ اس طرح کے اختلاف کا اثر حدیث نبوی میں رحمت سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے اختلاف امتی رحمۃ (یعنی مسلمانوں کا اختلاف موجب رحمت ہے) لیکن یہ اختلاف جو آج کل ہم نے پیدا کر رکھا ہے اس کی مثال بعینہ یہ ہے کہ ایک کنبہ کا مورث اعلیٰ اپنا ایک وسیع مکان چھوڑ گیا اور حکم دے گیا کہ میرے وارث خواہ کسی حال میں ہوں اسی مکان کے اندر ہیں سب مل کر گذارہ کریں مکان کا نام ایک ہی ہو۔ رہنے والوں میں کوئی تمیز نہ ہو خواہ وہ کالے ہوں یا گورے۔ غریب ہوں یا امیر۔ مگر وارثوں نے مورث اعلیٰ کی اس وصیت پر عمل نہ کیا بلکہ اس مکان کو کئی ایک حصوں میں بانٹ کر الگ الگ نام تجویز کر لئے جس سے اس مکان کی اصلی ہیئت اور شکل میں یہی نمایاں فرق آگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر ایک گھرانے والوں کو کوئی تکلیف آئی تو دوسرے اس سے بے خبر ہیں بلکہ وہ مشہور کرتے ہیں کہ یہ گھرانا اسی لائق ہے جسے اختلاف سے دانا سمجھ سکتے ہیں کہ اس خاندان کی قدر و منزلت دنیا کی نظروں میں کیا رہے گی۔ اب ہم اس مثال سے واقعات کی تشریح کرتے ہیں کہ پیغمبر اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام کا بڑا عالیشان وسیع مکان چھوڑ گئے تھے اور حکم فرما گئے تھے کہ باہمی پھوٹ نہ ڈالنا۔ ایک دوسرے سے الگ نہ ہونا المسلمون کید واحدۃ (مسلمان سب ایک ہاتھ ہیں) ہمارے سلف نے تو اس وصیت نبوی کی کچھ دیر تک قدر کی جن میں اختلاف مسائل ہوتا تھا مگر اس اختلاف کو وہ ایک خاندان کے باہمی اختلاف رائے کے برابر جانتے تھے۔ نہ اس اختلاف پر کوئی ان میں تفریق تھی نہ علیحدگی اگر مسئلہ میں ایک مجتہد سے موافق ہے تو دوسرے میں ان کی تحقیق اگر دوسری طرف ان کو راہنمائی کرتی تو اسی طرف ہوجاتے۔ جن لوگوں نے امام محمد کی تصنیفات موطا۔ کتاب الحج وغیرہ دیکھی ہوگی وہ ہمارے اس بیان کی کامل تصدیق کرسکتے ہیں۔ ان سے بعد مفسرین کی روش کو دیکھئے کہ ان کو کبھی اس بات سے عار نہیں ہوا کہ ہم امام ابو حنیفہ سے موافقت کیوں کریں یا امام شافعی کی کیوں سنیں بلکہ اگر ایک مقام پر امام شافعی سے متفق ہیں تو دوسرے مقام پر امام ابو حنیفہ سے موافق ہیں مثال کے طور پر مشہور درسی تفسیر جلالین کو دیکھئے کہ ثلاثۃ ایام فی الحج والی آیت کی تفسیر ایسی کی ہے کہ امام شافعی کی تحقیق کے موافق ہے مگر آیت تیمم کی امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں فاضربوا ضربتین مع المرفقین یعنی تیمم میں دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر کہنیوں تک ملو۔ حالانکہ امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ ایک ضربہ (دفعہ) ہوا وہ ہاتھوں کے پہنچوں تک ملا جائے۔ دیکھئے اس جلیل الشان مفسر کو ہرگز اس بات سے عار نہیں ہوئی کہ میں ایک نہیں بہت سی جگہ امام شافعی سے موافقت کی وجہ سے متاخرین اس کو شافعی مذہب کا مقلد کہتے ہیں حالانکہ وہ اس مقام پر امام ابو حنیفہ سے مطابقت کرتا ہے گو دلیل اس قول کی بھی ایسی کچھ قوی نہیں مگر مصنف کی تحققس نے اس کو مجبور کیا اس لئے اس نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہی سلف کے معتبر علماء کرام کا طریق تھا لیکن جب چوتھی صدی ہجری میں ضدیوں اور تفرقہ اندازوں کی کثرت ہوئی تو انہوں نے اس وسیع مکان کو متعدد کوٹھڑیوں میں تقسیم کردیا۔ چنانچہ استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ رسالہ انصاف میں فرماتے ہیں : اعلم ان الناس کانوا فی المائۃ الاولی والثانیۃ غیر مجتمعین علی التقلید لمذھب واحد بعینہ الخ (صفحہ ٥٧) حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں کہ : اعلم ان الناس کانوا فی قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجتمعین علی التقلید لمذھب واحد (مصری جلد اول صفحہ ١٥٢) پہلی اور دوسری صری ہجری میں لوگ کسی ایک مجتہد معین کے مذہب کے مقلد نہ تھے بلکہ جہلا علماء سے پوچھتے اور علماء کتاب و سنت سے لیتے۔ چوتھی صدی سے پہلے کے لوگ مذاہب ائمہ میں سے ایک معین مذہب کے مقلد نہ تھے بلکہ سب کے سب قرآن و حدیث کے نام لیوا تھے۔ علامہ ابن الہمام شارح ہدایہ نے لکھا ہے کانوا یستفتون مرۃ واحد او مرۃ غیرہ غیر ملتزمین مفتیا واحدا (انصاف) یعنی پہلے زانوں کے عام لوگ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیتے کبھی کسی سے ایک ہی کا ان کا التزام نہ تھا۔ یہ تو تھا اس زمانہ کا حال جس کو خیر القرون کہا جاتا ہے باوجودیکہ ان لوگوں میں سیاسی معاملات میں کشت و خون تک نوبت پہنچی تھی مگر یہ تفریق نہ تھی کہ تم کون ہو۔ ” مسلمان“ جواب ملتا ہے ارے مسلمان تو ہوئے یہ تو بتاؤ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟ اللہ اکبر ! ان کے نزدیک اسلام کوئی مذہب ہی نہیں محض ایک بیکار چیز بطور تبرک کے ہے۔ اسلام اگر مذہب نہیں تو پھر مذہب کس چیز کا نام ہے۔ ایک فریق کے سامنے یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ مسئلہ قرآن و حدیث کا ہے تو اس مسئلہ کی تکذیب اور اس پر عمل کرنے والے کی توہین کریں گے مگر جب اس سے یوں کہا جائے کہ میں فلاں مجتہد کا پیرو ہوں اور یہ مسئلہ انہی کا مذہب ہے تو جو خفگی پہلے اس پر کی گئی تھی شمہ بھر نہیں رہتی اور کھلے لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ فلاں مجتہد کے مقلد ہو کر رہو تو اس پر عمل کریو ورنہ نہیں۔ کیسا غضب ہے بھلا اگر وہ مسئلہ سرے سے غلط تھا اور قرآن و حدیث اس کی شہادت نہیں دیتے تھے تو جس صورت میں وہ کسی مجتہد کا مقلد ہوجائے گا۔ اس صورت میں وہ کیونکر صحیح اور غیر قابل مواخذہ ہوگا اسی کا نام ہے تفریق کہ گویا ایک بڑی سلطنت کو جانشینوں سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے اپنے اپنے لئے الگ الگ قانون تجویز کر لئے۔ اللہ اکبر۔ یہ تو حال صرف اہل سنت کا ہے۔ ابھی شیعوں کی تفریق باقی ہے جو سینہ نگار زخم لگانے والی ہے۔ کیوں نہیں یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہوجاتے کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے ہمارا اسی پر عمل ہے اور ہمارا مذہب اسلام ہے۔ آہ ہند کو اس طرح اسلام سے بھر دے اے شاہ کہ نہ آوے کوئی آواز جز اللہ اللہ مختصر یہ کہ اختلاف رائے اور چیز ہے اور تفریق اور چیز۔ تفریق نام ہے فرقہ بندی کا اور اختلاف رائے نام ہے اختلاف تحقیق کا۔ ہم کو چاہئے تھا کہ ہم تمام لوگ پکے مسلمان ہوتے اور اسلام ہمارا مذہب ہوتا کسی قسم کی تفریق مذہبی ہم میں نہ ہوتی۔ اختلاف رائے کو اپنی حد پر رکھتے جیسا پہلے طبقے کے لوگوں میں دستور تھا۔ اللہ رحم کرے اس بندے پر جو اس تفریق کے مٹانے میں کوشش کرے ویرحم اللہ عبدا قال امین (منہ ( اور نہ مانتے ہیں البتہ جب ان لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف جھک جھک کر اس کو پکارتے ہیں دعائیں کرتے ہیں حاجات مانگتے ہیں عاجزی کرتے ہیں گویا یہ شعر انہی کے حق میں ہے ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بایزید شوند ( اختلاف کی یہ کیفیت ہے کہ ایک فریق تو مسیح کو بندہ اور انسان کہتا ہے اور دوسرا فریق اس کو اللہ مانتا ہے گویا آسمان وزمین کا فرق بھی ان کے اختلاف کے سامنے ہیچ ہے پھر لطف یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک فریق کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر خوش ہے عیش و عشرت کی حالت میں تو یہ لوگ کسی کی سنتے نہیں پھر جب وہ پروردگار محض اپنے فضل سے ان کو اپنی رحمت سے کچھ حصہ دے دیتا ہے تو فورا ان لوگوں میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شریک ٹھیراتے ہیں جو نعمت اللہ نے دی ہے اس کو غیروں کی طرف نسبت کرتے ہیں ہمارے دئیے میں غیروں کا تصرف مانتے ہیں یہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہمارے دئیے کی ناشکری کریں پس لوگو ! چند روزہ گذارہ کرلو آئیندہ زمانہ میں اس کی حقیقت جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا ہم نے ان پر کوئی سند اتاری ہے کہ اس سے ان کے شرک کا ثبوت ملتا ہے اور وہ ان کے شرک کو جائز بتلاتی ہے ان کی کیفیت تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو جب ہم رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی بد اعمالی کی وجہ سے ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فورا بے امید ہوجاتے ہیں یہ بھی ایک قسم کی اللہ کے ساتھ بے ادبی جن کی وجہ سے آخر کار ایمان سلب ہوجاتا ہے الروم
29 الروم
30 الروم
31 الروم
32 الروم
33 الروم
34 الروم
35 الروم
36 الروم
37 (37۔41) کیا یہ لوگ اس قدر تلون کرتے ہیں انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ہر آن تو مخلوق اسی کے قبضہ قدرت میں ہے بے شک اس بیان میں ایمان لانے والی قوم کیلئے بہت سے نشان ہیں چونکہ فراخی رزق بھی محض اللہ کے حکم سے ہے اور وہ دے کر چھیننے پر بھی قدرت رکھتا ہے پس تم اپنے قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کو حقوق دیا کرو اگر وہ غریب ہیں اور تم مال دار ہو تو ان کو نقدی سے امداد دو اور وہ امیر ہوں مگر ان کو تمہاری طرف کسی قسم کی حاجت ہے تو ان کی اس حاجت میں مدد کرو جو لوگ اللہ کی رضا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ طریق بہت اچھا ہے اور یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم غرباء کو امداد دینے کی بجائے الٹا ان سے لینے لگو گے تو سنو ! جو مال تم لوگوں کو اس نیت سے بطور قرض کے دو گے کہ لوگوں کے مال بڑھے اور بڑھ کر تمہارے پاس آئے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا یعنی یہ مت سمجھو کہ اس کا تم کو کوئی نیک بدلہ ملے گا کیونکہ اس کا بدلہ تم یہاں لے کے اور جو تم خیرات کے طور پر کچھ دو گے جس کے ساتھ تم اللہ کی خوشنودی کے طالب ہو تو کچھ شک نہیں کہ تم کو اس میں سراسر فائدہ ہی فائد ہے کیونکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے نزدیک مال کو بڑھانے والے ہیں سنو ! اللہ تعالیٰ جو تم کو مال کے خرچنے کا حکم دیتا ہے وہ بے وجہ نہیں یعنی یہ نہیں کہ اس کا تم پر کوئی حق نہیں بلکہ وہی ہے جس نے تم کو اول بار پید کیا پھر تم کو رزق دیا پھر ایک مدت تک پرورش کر کے تم کو ماردے گا پس یہ تو ہوئے زندگی کے اس پار کے واقعات پھر اس کے بعد اس پار کے واقعات یہ ہیں کہ دوبارہ تم کو زندہ کرے گا تاکہ تم کو تمہارے نیک و بد اعمال کا بدلہ دے یہ سب کام اسی خالق کائنات کے حکم سے ہوتے ہیں بھلا تمہارے مصنوعی معبودوں میں بھی کوئی ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرسکے یعنی اول بار مخلوق کو مارسکے یا دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہو ! کوئی نہیں تو تم مسلمانو ! یقینا سمجھو کہ وہ اللہ ان کی اس قسم کی بیہودہ گوئیوں سے پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند ہے یعنی اس کے دامن قدس تک ان کی شرک کا غبار بھی نہیں پہنچ سکتا ہاں اس جہان میں ان کی بداعمالی کا اثر ضرور ہوتا ہے کہ خشکی اور تری میں انسانوں کی بد اعمالی سے فساد ظاہر ہوتا ہے یعنی خشکی پر قحط سالی بیماری وغیرہ آفات کا ظہور بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے اور سمندروں میں طوفان اور غرقابی بھی اسی سبب سے ہوتی ہے کہ لوگوں کے اعمال قبیحہ اپنی حد سے متجاوز ہوجاتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے تازیانہ سزا ان کو لگایا جاتا ہے تاکہ ان کے اعمال قبیحہ کا کسی قدر بدلہ ہم (اللہ) ان کو چکھادیں تاکہ وہ آئیندہ کو ناشائستہ حرکات سے رجوع کریں اور نیک اطوار بن جائیں الروم
38 الروم
39 الروم
40 الروم
41 الروم
42 (42۔53) اے نبی ! تو ان سے کہہ اگر تم اعتبار نہیں کرتے تو ملک میں سیر کرو پھر دیکھو کہ پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا تھا جن میں سے بہت سے مشرک تھے اور شرک پر اڑ کر انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ کرتے اور سخت مخالفت پر کمر بستہ رہتے تھے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آگیا پس وہ ہلاک کئے گئے اس لئے ہم تم کو ایک ضروری حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو مضبوط دین اور خالص توحید پر بہت جلدی قائم کرلو اس سے پہلے کہ وہ دن یعنی روز قیامت آئے جس کو اللہ کی طرف سے ہٹنے کا حکم نہ ہوگا جب اللہ کی طرف سے التوا کا حکم نہ ہوگا تو اور کسی کی کیا مجال کہ اس کو ہٹا سکے پس وہ دن ضرور آئے گا اس روز مومن کافر سب لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ ہوجائیں گے اس روز کے فیصلہ کا عام اصول یہ ہے کہ جس کسی نے کفر کیا ہوگا اس کے کفر کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا اور جس نے نیک عمل کئے وہ اپنے اعمال حسنہ کا پھل پاویں گے کیونکہ وہ دنیا میں اپنے ہی لئے تیاری کرتے ہیں نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو محض اپنے فضل سے اچھا بدلہ دے گا اور یہ تو اس کا عام قانون ہے کہ وہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا لوگ خیال کرتے ہیں کہ کافروں سے اگر محبت نہیں رکھتا تو دنیا میں ان کو اس قدر ثروت کیوں دے رکھی ہے؟ کیوں ایک ہی دم میں سب کو ہلاک نہیں کردیتا حقیقت میں یہ خیال ان کی کم ظرفی سے پیدا ہوتا ہے مخلوق کی پرورش کرنا تو اس کی صفت ربوبیت کا تقاضا ہے اور رحمت اور محبت اس کی صفت رحمانیت کا تقاضا ہے جو اعمال صالحہ سے تعلق رکھتی ہے اس قسم کے لوگوں سے بڑھ کر ایسے لوگ بھی ہیں جو سرے سے اللہ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ دنیا کا مالک (اعلیٰ حکمران) کوئی ہے ایسے لوگوں کو سمجھانے کو بتلاؤ کہ آسمان و زمین سب اسی کی قدرت کے نشانات ہیں اسی کے نشانوں میں سے یہ ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو خوش خبری پہنچائیں کیا قدرت کا نظارہ ہے کہ سخت دھوپ ہوتی ہے فورا ہی سرد ہوا چلنے لگتی ہے جس سے گرمی کی آگ پر گویا پانی پڑجاتا ہے اس کے بعد چھما چھم بارش آجاتی ہے تاکہ تمہاری گرمی ہٹا دے اور تم کو اپنی رحمت چکھاوے بارش کے ساتھ تمہارے لئے رزق پیدا ہوتا ہے جو اللہ کی بڑی نعمت ہے اور سمندروں اور بڑے بڑے دریاؤں میں بیڑے اسکے حکم سے چلیں کیونکہ پانی نہ ہو تو جہاز وغیرہ کیسے چلیں گے اور جہاز اس لئے چلتے ہیں تاکہ تم بذریعہ تجارت بحری کے اس کا فضل تلاش کرو یعنی ادھر کا مال ادھر لے جاؤ اور ادھر کا ادھر لے آؤ اور یہ بیان تم کو اس لئے سنایا جاتا ہے تاکہ تم شکر کرو اور سنو ! یہی سبق سکھانے کیلئے ہم نے تجھ سے پہلے اے نبی ! کئی ایک رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے پھر وہ ان کے پاس کھلے کھلے دلائل اور احکام لائے مگر انہوں نے ان کی تکذیب ہی کی اور مخالفت ہی پر رہے پس ہم نے ان مجرموں سے پورا بدلہ لیا اور ایمانداروں کی مدد کی کیونکہ مومنوں کی مدد کرنا ہم (اللہ) پر لازم ہے اگر ایمانداری میں مضبوط رہیں اور چند روزہ تکالیف پر صبر کریں تو اللہ کی طرف سے ضرور ان کی مدد ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کی تبلیغ کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے اللہ ان کے ہال سے آگاہ ہوتا ہے آخر اللہ وہی تو ہے جس کا قبضہ دنیا کی تمام چیزوں پر بھی ہے جو دنیا کے کسی بادشاہ کے قبضے میں نہیں ہیں دیکھو تو وہی ہواؤں کو وقت مقررہ پر بھیجتا ہے پھر وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں پھر اللہ ان بادلوں کو زمین و آسمان کے درمیانی پولان میں جس طرح سے چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور کبھی ان کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیتا ہے غرض کبھی ان کو ایک سطح پر پھیلا دیتا ہے کبھی متفرق ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان دونوں حالتوں میں ان کے بیج میں سے بارش نکلتی ہے پھر جب اس بارش کو اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو فورا وہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس کے اترنے سے پہلے وہ ناامید ہوتے ہیں آسمان کو تانبے کی صورت میں دیکھ کر آس توڑے ہوتے ہیں مگر جب حکم الٰہی سے بارش ہوجاتی ہے تو باغ باغ ہوجاتے ہیں پس تم اللہ کی رحمت کے نشان دیکھو کہ کس طرح زمین کو خشک ہونے بلکہ مرنے کے بعد تازہ کردیتا ہے وہی زمین ہوتی ہے کہ تنکا بھی اس پر نظر نہیں آتا وہی ہوتی ہے کہ سبزہ زار بن جاتی ہے اس سے تم اس نتیجہ پر پہنچو کہ بے شک یہ اللہ جس نے مردہ زمین کو پانی سے زندہ کردیا ہے انسانی مردوں کو بھی زندہ کردیگا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے انکی کیفیت بھی زمانہ کے عجائبات سے ہے کبھی تو ہمارے ایسے تابع ہوتے ہیں کہ بس جو چاہو کہہ لو فرمانبردار ہیں غلام ہیں کبھی آسایش میں مغرور ہیں تو کبھی تنگی میں سرکش آرام آسایش کرتے ہیں تو اکڑتے ہیں اور اگر کبھی ہم گرم لو ان پر بھیج دیں پھر یہ لوگ اس ہوا کے ساتھ اپنے کھیتوں کو زرد پیلا دیکھیں تو اس کے بعد یہ تو نہیں ہوگا کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے توبہ کریں بلکہ الٹے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کرنے لگ جائیں گے جب ان کی یہ حالت ہے تو داناؤں کے نزدیک یہ لوگ بہرے بلکہ اندھے ہیں پس تو اے نبی ! مردوں کو ہدایت کی باتیں نہیں سنا سکتا اور نہ بہروں کو آواز سنا سکتا ہے خصوصا جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں اور نہ تو اندھوں کو گمراہی سے سیدھی راہ بتلا سکتا ہے تو تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو ہماری آیتوں پر ایمان لانے کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ منکر تابعدار بھی ہوجاتے ہیں الروم
43 الروم
44 الروم
45 الروم
46 الروم
47 الروم
48 الروم
49 الروم
50 الروم
51 الروم
52 الروم
53 الروم
54 (54۔60) ان تیرے مخالف لوگوں کو بڑا شک قیامت کی دوبارہ زندگی میں ہے جس کے لئے ان کو چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات دیکھتے پس انکو کو کہو کہ اللہ وہی ذات پاک ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا جب تم شیر خوار نادان بچے ہوتے ہو تو کیا کچھ تم میں طاقت ہوتی ہے اور کہاں تک تم اپنے آپ سے مدافعت کرسکتے ہو ! اتنی بھی نہیں کہ چیونٹی تم کو کاٹے تو تم اس کو ہٹا سکو پھر بعد اس ضعف کے تم کو قوت دی ایسی کہ جوانی کی عمر میں تم اس طاقت پر پہنچتے ہو کہ آوازہ کستے ہو میں آج وہ ہوں کہ رستم کو بھی گرا ڈالوں پہاڑ ہووے تو اک آن میں ہلا ڈالوں پھر بعد قوت اور طاقت کے تم میں ضعف اور بڑھاپا پیدا کردیتا ہے ایسا کہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہو کبڑے ہو کر چلتے ہو ہائے جوانی ہائے جوانی کے آوازے منہ سے نکالتے ہو اس وقت تم سمجھتے ہو کہ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور پیدا شدہ کو جب چاہتا ہے فنا کردیتا ہے اس لئے سب مخلوق اس کے ماتحت ہے اور وہ سب کے حال کو جاننے والا بڑی قدرت والا ہے پس تم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اسی کی حکومت کا جوا اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور اس قسم کے شکوک کو دل میں نہ آنے دو کہ قیامت کوئی نہیں یاد رکھو جس روز قیامت قائم ہوگی مجرم لوگ اس کا ہول دیکھ کر برزخ کا عذاب بھول جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے کہ قبروں میں ایک گھڑی سے زائد نہیں ٹھیڑے حالانکہ عالم برزخ میں مدت مدید تک مبتلائے عذاب رہے ہونگے مگر آخرت کا عذاب دیکھ کر سب بھول جائیں گے جیسے آخرت میں حق گوئی سے دور ہوئے ہیں اسی طرح یہ لوگ دنیا میں سیدھی راہ سے بہکے ہوئے تھے مگر جن لوگوں کو علم و ایمان دیا گیا ہوگا یعنی علم اور عمل دونوں جن کے حصے میں ہوں گے وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب یعنی اس کے وعدے کے مطابق تم اٹھنے کے دن تک یعنی قیامت کے روز تک یہاں عالم برزخ قبروں وغیرہ میں ٹھیرے رہے اور عذاب سہتے رہے لو بس اب یہ اٹھنے کا دن آگیا ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے بلکہ تمہارے خیال میں اس کا تصور بھی نہ آتا تھا پس روز ظالموں کی معذرت انکو کچھ نفع نہ دے گی اور نہ انکو دنیا کی طرف واپس ہونے کی اجازت دی جائے گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر دنیا میں جانے کی ان کو اجازت مل جائے تو یہ لوگ پھر انہی کاموں میں لگ جائیں گے جن میں پہلے تھے اور وہی کام پسند کریں گے جو پہلے کرتے تھے دیکھو تو یہاں کیا کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کیلئے اس قرآن شریف میں ہر قسم کی مثالیں بتلائیں ہیں عقلی دلائل بتلائے تو کہیں نقلی کہیں قصص سنائے تو کہیں وعظ و نصیحت مگر ان میں سے جو لوگ ضد اور عناد پر ہیں ان میں ذرہ بھی تبدیلی نہ ہوئی بلکہ بعض کے حق میں نتیجہ اور بھی برعکس ہوا یہ اسی کا اثر ہے کہ تجھ سے معجزات مانگتے رہتے ہیں اور اگر تو کوئی نشان معجزہ کا دکھادیوے تو نہ ماننے والے کافر جھٹ سے کہتے ہیں کہ تم مسلمان تو نرے فریبئے اور دغاباز ہو ہتھکنڈوں سے ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہو کیا یہی تمہاری ایمانداری ہے سنو ! جس طرح ان کی حالت خراب ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جاہلوں یعنی حق کے معاندوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتا ہے پس تو انکی تکالیف پر صبر کیا کر اور دل میں یقین رکھ کہ اللہ کا وعدہ بے شک و شبہ حق ہے اور اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں پس تو مضبوط اور مستقل مزاج رہ اور بے ایمان لوگ تجھ کو کسی طرح کا خفیف الحرکۃ اور چھچھورا نہ پائیں یعنی کسی قسم کی خفیف الحرکتی تجھ سے صادر نہ ہونی چاہئے بلکہ بڑی متانت سے رہا کر جس طرح کہ بڑے مصلح اور ریفارمر کی شان ہونی چاہئے۔ الروم
55 الروم
56 الروم
57 الروم
58 الروم
59 الروم
60 الروم
0 لقمان
1 (1۔12) تفسیر سورۃ لقمان :۔ میں ہوں اللہ سب سے بڑا علم والا اپنے علم کے مقتضٰے سے تم کو بتلا تا ہوں کہ یہ آیتیں باحکمت کتاب کی ہیں جو سب لوگوں کیلئے ہدایت اور نوک کاروں کیلئے رحمت ہے چونکہ ہر ایک اپنے خیالات اور مقالات میں نیک ہونے کا مدعی ہے اس لئے نیک بختوں کی تعریف ہم خود ہی بتلاتے ہیں کہ نیکو کار وہ ہیں۔ جو پابندی شریعت نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت کو دل سے مانتے ہیں یعنی ان کے سب کام بااخلاص ہوتے ہیں نہ کہ ریا اور فخر سے وہ اگر کسی سے سلوک کرتے ہیں تو اس نیت سے کرتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے وہ جانتے ہیں کہ اس نیکی کا عوض اللہ سے ہم کو ملے گا اس لئے نہ وہ اپنے سلوک کا احسان جتلاتے ہیں نہ اس کو تکلیف دیتے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں اور ان کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو واہیات خرافات مسخری اور کھیل تماشہ کی باتیں خریدتے ہیں اور لوگوں کو سناتے ہیں تاکہ محض جہالت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور راہ اللہ کی باتوں کو ہنسی مخول سمجھیں انہی اور ان جیسے لوگوں کے لئے ذلت اور خواری والا عذاب ) ایک شخص ایران سے رستم و اسفندیار کے قصے خرید لایا اور مجلس لگا کر لوگوں کو سناتا اور کہتا کہ قرآن کے قصوں سے یہ قصے اچھے ہیں مگر اس بیوقوف کو یہ معلوم نہ تھا کہ شیر قالیں دگر است شیر نیستاں دگر است اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی مگر جتنے لوگ ایسے بیہودہ خرافات قصوں کے پڑھنے میں وقت لگائیں اور قرآن شریف کی طرف خیال نہ کریں ان کے حق میں اس آیت کا حکم شامل ہے۔ (منہ ( صیغہ مفرد کا ہے گر مراد اس سے وحدت شخصی نہیں بلکہ نوعی ہے چنانچہ لھو عذاب مھین میں جمع کی ضمیر اس معنی کی طرف اشارہ ہے (منہ ( ایسے معاند ہیں کہ جب ان کو ہماری آیات با حکمت کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اکڑتے ہوئے منہ پھیر کر چل ! دیتے ہیں ایسے متکبرانہ وضع سے چلتے ہیں گویا انہوں نے ہماری وہ آیتیں سنی ہی نہیں گویا ان کے کان بہرے ہیں اور ان میں ایک قسم کا ٹھونس ہے پس تو اے نبی ! انکو درد ناک عذاب کی خبر سناہاں جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل بھی انہوں نے کئے ہیں بے شک ان کے لئے نعمتوں کے باغ ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے سچا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے کا پورا کرنے پر بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے جو کام کرنا چاہے اس کو ایسی حکمت کاملہ سے کردیتا ہے کہ لوگ خبر تک بھی نہیں رکھتے دیکھو تو اس کی کیسی حکمت ہے کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا ہے جنہیں تم بھی دیکھ رہے ہو کہ اتنی بڑی جسمانی چھت کے لئے کوئی سہارا نہیں اور اس نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر دئیے تاکہ تم لوگوں کو نہ لے گرے یعنی اس کی ڈانواں ڈول حرکت سے تم کو نقصان نہ پہنچے اب اگر ١ ؎ اس میں حرکت ہے تو باقاعدہ ہے ڈانواں ڈول نہیں اس حرکت سے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا اس کی مثال سمجھنی چاہو تو بیڑی کو دیکھو کہ باقاعدہ سیدھی جائے تو کچھ نقصان نہیں اگر دائیں بائیں بے ڈول حرکت کرے تو نقصان ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس حکیم مطلق نے ایسا کیا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جاندار پھیلائے ہیں اور اوپر سے پانی اتارتا ہے پھر اس کے ساتھ زمین پر ہر قسم کی عمدہ عمدہ چیزیں اگاتا ہے یہ تو اللہ کی مخلوق ہے جسے تم بھی دیکھتے ہو پس اب تم لوگ مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں نے کیا کچھ بنایا ہے؟ کچھ نہیں بنایا بلکہ ظالم یونہی صریح گمراہی میں ہیں اسی بات کے سکھانے کو ہم نے دنیا میں کئی ایک ایسے نیک بندے پیدا کئے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے ساتھ ملنے کی تعلیم دیتے اور شب و روز سمجھاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا دلی تعلق پیدا کرو اسی لئے ہم نے حضرت لقمان کو حکمت دی بعض لوگ جن کے دماغ میں حکمت بعنے فلسفہ طبعی اور طب جسمانی نے اثر کیا ہوا ہے سمجھیں گے کہ حضرت لقمان کو یہی حکمت ملی تھی اس لئے خود ہی بتلاتے ہیں کہ ہم نے اس کو ایمانی حکمت دی تھی جس کی بابت کہا جاتا ہے چند چند از حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں ) اس ” اگر“ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حرکت زمین کا ثبوت اگر کسی علمی دلیل سے ہوجائے تو قرآن شریف کے مخالف نہیں نہ قرآن مجید کو اس سے انکار ہے ہاں اگر کچھ ضعیف ہے تو ان دلائل میں ہے جو اس دعوی (حرکت) کے اثبات میں پیش کی جاتی ہیں سو اگر کسی قوی دلیل سے یہ دعوی ثابت ہوجائے تو چشم ما روشن دل ماشاد۔ ہمیں بھی اس کی تسلیم سے انکار نہیں۔ (منہ ( گو یہ صیغہ بھی ماضی کا ہے مگر جو فعل بار بار دنیا میں ہوتا ہے اس کو استمرار سے ترجمہ کیا جائے تو اچھا ہے اس لئے حال سے تعبیر کی گئی۔ نیز متکلم کے صیغے کی بجائے غائب سے ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کا التفات اردو میں نہیں ہے۔ (منہ) حضرت لقمان ایک ولی اللہ گزرے ہیں ان کو حکیم کہنا بمعنی عارف ہے (منہ ( اس حکمت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا شکر کر تم جانتے ہو شکر ہر چیز کا الگ الگ اس کے مناسب حال ہوتا ہے زبان کا شکریہ ہے کہ مالک کا ذکر کرے آنکھوں کا شکریہ ہے کہ مظاہر قدرت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھیں اسی طرح تمام اعضا کا شکر الگ الگ ہے علیٰ ہذا لقیاس دل و دماغ کا شکریہ ہے کہ جو خیالات اپنے اپنے اندر رکھیں وہ اپنے خالق کی مرضی کے خلاف نہ ہوں بلکہ اسی قسم سے ہوں جن سے مالک کی رضا حاصل ہوتی ہو پس حضرت لقمان کو جو شکر کرنے کا حکم ہوا تھا وہ کوئی معمولی شکر نہیں تھا جو زبانی شکر الحمدللہ کہنے سے ادا ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں ظاہری ور باطنی سب کو اللہ کے حکم کے ماتحت کردو جس کا اثرتم پر یہ ہو کہ بیساختہ تمہارے دل اور منہ سے نکلے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کی تدبیر ہے تو یہ ہے پس اس قسم کے شکر کرنے کی تعلیم حضرت لقمان کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی لئے کرتا ہے اس کا عوض اسی کو ملے گا اور کو نہیں اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے یعنی اللہ کے احکام کی پوری پوری تابعداری نہیں کرتا تو وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا نہ کسی مخلوق کا نہ خالق کا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی سب مخلوق سے بے پروا اور تعریف کے لائق ہے یہ ہے مختصر سی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھی لقمان
2 لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 لقمان
7 لقمان
8 لقمان
9 لقمان
10 لقمان
11 لقمان
12 لقمان
13 (13۔19) اور ایک وقت وہ بھی تھا جب حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا ! میں تجھ کو سب سے مقدم بات بتلائوں جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے جس کے نہ کرنے کی صورت میں سب برائیاں تجھ میں آجائیں اس لئے وہ بڑی توجہ سے سننے کے قابل ہے غور سے سن کہ تو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو کبھی شریک نہ ٹھیرائیو اس لئے کہ کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا بڑا ظلم ہے کیونکہ ظلم کی ماہیت یہ ہے کہ حق دار کو حق نہ دینا پس جتنا کسی کا حق زیادہ ہوا اور جتنا کوئی بڑا محسن ہو اس کی حق تلفی اتنا ہی بڑا ظلم ہوگا یہی باعث ہے کہ بہن بھائی کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کرنا بہت برا ہے چونکہ اللہ سے بڑا محسن کوئی نہیں پس اس کی حق تلفی کرنا یعنی اس کا شریک ٹھیرنا سب حق تلفیوں سے بڑی حق تلفی ہے اس لئے یہ کہا گیا کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے اس لقمانی نصیحت کی ضرورت اور تاکید تو خود اس سے ظاہر ہے کہ ہم (اللہ) نے خود انسان کو ماں باپ کے حق میں نیک سلوک کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے کہ میرا (اللہ کا) شکریہ اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کیا کر کیونکہ باپ کا احسان تو ظاہر ہے کہ وہ پرورش کرتا ہے ماں کا احسان یہ ہے کہ اس کی ماں نے اس کو ضعف کی حالت میں پیٹ کے اندر اٹھایا اور بعد وضع حمل کے اس کو اپنا خون دودھ کے ذریعے پلایا یہاں تک کہ دوسال میں اس کا دودھ کہیں جا کر چھوٹتا ہے اتنی مدت گویا ماں کا خون پیتا ہے اس لئے اس کو حکم دیا کہ ماں باپ سے نیک سلوک کیا کر مگر ایسا سلوک کرنے میں بھی مراتب کا لحاظ رکھیو اور دل میں یہ بات جما رکھیو کہ آخر کار میری طرف سب کی واپسی ہے پس اس سفر کیلئے تیار رہیو اور تیرے دل میں کہیں یہ خیال نہ آجائے کہ جب ماں باپ کا یہ حق ہے تو جو کچھ یہ کہیں سب واجب التسلیم ہے نہیں بلکہ ہر نکتہ مکانے دار دو چونکہ میں (اللہ) ماں باپ سے بھی بڑا مربی ہوں اس لیے میرے حقوق کا سب سے مقدم خیال رکھو کہ اگر تیری ماں باپ تجھ پر زور کریں کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھیرا جن کے شریک ہونے کا ان کو اور تجھ کو علم نہیں جیسے وہ محض تقلید آبائی سے لکیر کے فقیر بنے چلے آتے ہیں تجھے بھی اسی طرح چلانا چاہیں تو اس کام میں تو ان کا کہا نہ مانیو اور دنیا کے کاموں میں انکے ساتھ اچھی طرح رہیو اور دین کے کاموں میں تم ان لوگوں کی راہ پر چلیو جو میری (اللہ ١ ؎ کی) طرف رجوع ہوں خواہ کوئی ہوں کسی ملک کے رہنے والے ہوں کسی قوم کے افراد ہوں اس میں کسی شخص یا قوم کی خصوصیت نہیں کیا تم نے شیخ سعدی کا کلام نہیں سنا ؎ مرد باید کہ گبر داندر گوش درنبشت است پند بردیوار پس تم ہمیشہ اس بات پر مستعد رہو کہ اللہ لگتی سچ بات جس کی ہو قبول کرلو اور دل میں یہ خیال رکھو کہ تم سب نے بعد مرنے کے میری طرف پھر کر آنا ہے پھر میں تم لوگوں کو تمہارے اعمال کی خبر بتلائوں گا خیر یہ تو درمیان میں ایک جملہ معترضہ تھا جو اس غرض سے لایا گیا ہے کہ حضرت لقمان کی نصیحت کا تتمہ تم لوگوں کو سنایا جائے کہ شرک ایسی غلط راہ ہے کہ ماں باپ بھی اس طرف لے جائیں تو نہ جانا چاہئے اب سنو ! بقیہ نصیحت حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اے بیٹا ! کسی گناہ کو بھی کم درجہ خیال کر کے مغرور نہ ہوجیو گناہ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ بالفرض کہیں بڑے پتھر کے نیچے یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر کہیں مخفی ہو تو بہر حال اللہ اس کو تیرے سامنے لے آوے گا سن رکھ ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے اے میرے بیٹے ! گناہوں سے بچنے کے علاوہ تو عبادت میں بھی کوشش کیا کر سب سے مقدم یہ ہے کہ تو نماز ہمیشہ پڑھا کریو اور لوگوں کو بھی نیک کام بتلایا کیجئیو اور بری باتوں سے منع کیا کریو اور ایسا کرنے پر جو کچھ تجھے تکلیف پہنچے اس پر صبر کیجئیو یہ کام کہ خود بھی نیک عمل کرنا لوگوں کو بھی نیک کام بتلانا اور تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا بے شک ہمت کے کام ہیں یہ تو ہیں مذہبی احکام یہ نہ سمجھیو کہ بس نماز روزہ ہی تم پر فرض ہیں اور کچھ نہیں ایسا خیال تو ان کوڑ مغز ملانوں کا ہے جو اسرار شریعت سے نا واقفی کے باعث اپنے معمولی نماز روزہ پر نازاں ہو کر اخلاقی حصے سے بے پروا ہوجاتے ہیں حالانکہ تمام حضرات انبیاء اخلاق کو تعلیم میں ساتھ بلکہ مقدم جانتے تھے اس لئے تجھ کو میں (لقمان) نصیحت کرتا ہوں کہ تو مارے تکبر کے لوگوں سے منہ نہ پھیریو۔ کوئی غریب آدمی یا کم درجے کا تجھ سے ملنا چاہے تو تو اس سے بے رغبتی کے ساتھ پیش نہ آیا کر بلکہ خوش اخلاقی کے ساتھ ہر ایک سے برتائو کیا کر اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چلا کریو یعنی متکبرانہ زندگی نہ گذاریو دل کے کان لگا کر سن رکھ کہ اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا یعنی ایسے لوگ اس کی نگاہ میں معزز نہیں ہیں خواہ دنیاوی حیثیت سے کیسے ہی عزت دار ہوں مگر یہ عزت ان کی بالکل خواب و خیال ہے اصل عزت وہ ہے جو اللہ کے ہاں حاصل ہو جس کو دوام ہے اور سن ! اپنی روش میں میانہ روی اختیار کیجئیو ہر بات میں رفتار میں گفتار میں انفاق امساک میں غرض تمام عمر اپنی میانہ روی میں گذاریو اور معمولی گفتگو میں بھی اپنی آواز کو پست کریو نہی خواہ مخواہ چلایا نہ کر کہ دوسرا سن کر تنگ آئے یاد رکھو کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی ہے جو بلندی اور ناپسندیدگی میں نظیر نہیں رکھتی پس تم گدھے کی طرح چلا کردوسرے کا مغز نہ چاٹا کرو تم جانتے نہیں کہ یہ کس مالک الملک کے حکم ہیں یہ اسی اللہ کے احکام ہیں جو تمام دنیا کا منتظم حقیقی ہے لقمان
14 لقمان
15 لقمان
16 لقمان
17 لقمان
18 لقمان
19 لقمان
20 (20۔30) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے کام میں مفت لگا رکھا ہے اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے تمکو مالا مال کیا ہے ظاہری نعمتیں تو وہ ہیں جن کا اثر تمہارے جسموں پر ہے جیسے صحت عافیت رزق لباس خوبصورتی وغیرہ باطنی وہ ہیں جن کا اثر تمہارے اخلاق اور عادات اور روح پر ہے یہ نعمت حضرات انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے تم پر پوری کی ہے کیونکہ نیک عادات کی تعلیم حضرت انبیاء ہی نے دنیا میں پھیلائی ہے اس لئے ایسے مسائل میں جو اللہ اور اللہ کی صفات سے متعلق ہوں ان میں اللہ کی کتاب ہی کا بیان معتبر ہوتا ہے مگر بعض لوگ محض جہالت سے بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے اللہ تعالیٰ کی شان والا شان میں جھگڑتے ہیں کوئی کہتا ہے جس طرح دنیا کے بادشاہوں کی طرف سے نائبان سلطنت ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کی طرف سے مقرر ہیں جس طرح نائبان سلطنت کوفی الجملہ نفع نقصان کا اختیار ہوتا ہے اسی طرح ان نائبان اللہ کو بھی ہے کوئی کہتا ہے جس طرح بادشاہوں کے پاس پہنچنے کے لئے درمیانی وسیلے ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ورے ورے بزرگ وسیلہ ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی حاجات پوری کردیتے ہیں کوئی کہتا ہے ان بزرگوں کو ہمارے تمام حالات معلوم ہیں اللہ نے ان کو تمام واقعات پر اطلاع دے رکھی ہے یاد رکھو کہ یہ سب ان کی منہ کی باتیں ہیں جن کا ثبوت اللہ کی کتاب سے نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سیدھی راہ سے اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے کلام کی پیروی کرو جو بات اللہ نے فرمائی ہے وہی کو وہی لوگوں کو سکھائو تو یہ سن کر کہتے ہیں کہ ہم تو اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے دیکھو تو کیسا غلط جواب ہے کہ اللہ کے کلام کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اس کے برخلاف کرنے پر بضد ہیں کیا یہ لوگ باپ دادا ہی کی چال پر چلیں گے اگرچہ باپ دادا ان کے گمراہی میں ایسے پھنسے ہوں کہ شیطان ان کو جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا ہو؟ اور وہ اس کی پیروی کرتے ہوں؟ پھر یہ کیا عذر ہے کہ ہم اپنے باپ داد اکی چال پر چلیں گے؟ یاد رکھو دین کی باتوں میں صرف اللہ ہی کی بتلائی ہوئی ہدایت پر چلنا چاہئے اور اللہ کے سوا دینی امور میں کسی کی بات کو نہ ماننا چاہئے یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر کے نیکو کاری اختیار کرتے ہیں یعنی اپنے ہر ایک کام کو اللہ کی مرضی کے تابع کرتے ہیں اور یہ نہیں کہ محض زبانی جمع خرچ رکھتے ہیں بلکہ وہ نیکو کار بھی ہوتے ہیں تو ایسے لوگ محکم کڑے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں یعنی جو لوگ اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں وہ ایک بہت بڑی مضبوط پناہ میں آتے ہیں کیونکہ اللہ کے برابر کسی میں قوت نہیں کسی کی پناہ اس سے قوی تر یا برابر نہیں کیا تم نے سنا نہیں ؎ ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس راز ہر ۂ چون وچرا پس تم ایسے ہی بنو اور دل سے جانو کہ سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے طرف ہے یعنی وہی تمام حرکات کا محرک ہے وہی تمام گاڑیوں کا انجن ہے اسی سے سب کچھ ملتا ہے وہی سب کچھ چھین لیتا ہے کیا تم نے نہیں سنا ؎ اوچو جان ست و جہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیرو آلبد اور جو کوئی کفر اور ناشکری کرتا ہے تو اے نبی اس کے کفر سے تجھے غم نہ ہونا چاہئے کیونکہ ہماری طرف ہی انہوں نے پھر کر آنا ہے سو ہم ان کو ان کے کاموں کی خبریں بتلادیں گے ہمیں کسی کے کہنے سنانے کی حاجت نہیں اسلئے کہ ہم دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں ہم ان کو کسی قدر گذارہ دے کر سخت عذاب کی طرف مجبور کر کے لے جاویں گے وہاں پہنچ کر ان کو قدر عافیت معلوم ہوگی اور سمجھیں گے کہ ہم کیا کر رہے تھے غضب اللہ ایسے شریر ہیں کہ اگر تو ان سے پوچھے کہ کسنے آسمان و زمین بنائے ہیں تو فورا کہہ دیں گے اللہ نے یہ جواب سن کر تو کہیو الحمدللہ اللہ کا شکر ہے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ یہ بھی مانتے ہیں مگر چونکہ بہت سے ان میں سے حقیقت الامر کو نہیں جانتے اس لئے آوارگی میں ادھر ادھر بہکے پھرتے ہیں تاہم انہیں سمجھانے کو بتلائو کہ جو کچھ آسمان وزمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے تمام کائنات اسی کی مخلوق ہیں پھر کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بذات خود سب مخلوق سے بے نیاز اور ستودہ صفات تعریفوں والا ہے کیوں نہ ہو جب کہ تمام دنیا کا خالق اور مالک وہی ہے اس کی صفات کاملہ کی کیفیت یہ ہے کہ اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور موجودہ سمندر کے علاوہ سات سمندر اور اس کی مدد کو سیاہی بن جائیں تو بھی اللہ کے کلمات تعریفیہ اور معلومات یقینیہ ختم نہ ہونے پائیں کیونکہ یہ درخت اور سمندر سب متناہی ہیں اور معلومات الٰہی ان کی نسبت غیر متناہی کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا ہی حکمت والا ہے یہی تو باعث ہے کہ اس کے نزدیک تمہارا پہلی دفعہ پیدا کرنا اور دوبارہ اٹھانا صرف ایک جان کے پیدا کرنے جیسا ہے بے شک اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا دیکھنے والا ہے اس کی صفات کاملہ کا اندازہ کرنا ہے تو نظام عالم پر نظر کرو کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اس نے سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ان میں کا ہر ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے اور اپنا اپنا کام خوب دیتا ہے کیا تم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے یہ تمام قدرتی نظام اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی قائم بالذات ہے اس لئے نظام عالم میں فرق نہیں آتا اور اس کی ماسوا جن جن چیزوں کو لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہیں وہ بے بنیاد یعنی ممکنات ہالک الذات ہیں اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی بلند قدر اور بزرگی والا ہے لقمان
21 لقمان
22 لقمان
23 لقمان
24 لقمان
25 لقمان
26 لقمان
27 لقمان
28 لقمان
29 لقمان
30 لقمان
31 (31۔34) کیا تم نے اس کی بزرگی کو نہیں دیکھا کہ دریائوں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز اللہ کی نعمت کے ساتھ چلتے ہیں یعنی ان کا چلنا بندوں کے حق میں حصول نعمت کا سبب ہے یہ کس نے بنایا اسی مالک الملک ذوالجلال والاکرام نے تاکہ تم کو اپنی قدرت کے نشان دکھا دے سمندر میں جب تم جاتے ہو تو تم کو کیا کچھ نظر آتا ہے ایک دم بھر خوشی ہے تو فورا ساتھ ہی غموں کا دریا امڈا چلا آتا ہے غرض سمندروں میں بیٹھ کر دونوں باتیں تم لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں اس لئے یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ اس دریائی سیر میں بہت سے نشان ہیں تکلیفوں پر صبر کرنے والوں اور نعمتوں پر شکر کرنے والوں کے لئے کون نہیں جانتا کہ سمندروں میں ان لوگوں کی یہ کیفیت کیسی مختلف ہوتی ہے کبھی تو شاداں فرحاں ہوتے ہیں اور کبھی نالاں و گریاں خصوصا جب ان مشرکوں کی کشتیوں اور جہازوں پر سائبانوں کی طرح سمندر کے پانی کی موج ڈھانپنے کو ہوتی ہے تو اس وقت خلوص دل سے اللہ کی بندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا اپنے مصنوعی معبودوں کو بھول جاتے ہیں پھر جب اللہ ان کو بچا کر کنارہ تک پہنچا دیتا ہے بعض ان میں سے تو میانہ رو رہتے ہیں مگر اکثر وعدہ شکن ہی ثابت ہوتے ہیں اور یہ تو عام قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرہوتے ہیں اس لئے تم لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ تم ایسے نا شکر گزار نہ بنو ) اس آیت میں جو مضمون ہے وہ تو ظاہر ہے کہ پروردگار عالم اپنی قدرت کے مظاہر بتلا کر دلیل بتلاتا ہے کہ یہ سب کام اس لئے ہیں کہ میں ان صفات کا مالک ہوں اور میرے سوا مصنوعی معبود بیچ ہیں خیر یہ تو ہوا۔ پنجاب میں ایک فرقہ اھل قرآن پیدا ہوا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ سب احکام شرعی قرآن ہی میں ہیں سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب کی حاجت نہیں فقہ کی نہ حدیث کی۔ انہوں نے اپنی نماز کا ایک رسالہ لکھا ہے جس میں تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کی بجائے یہ آیت رکھی ہے یعنی و ان اللہ ھو العلی الکبیر جب ان پر اعتراضات وارد ہوئے کہ اس میں واؤکیسا ہے ان مفتوحہ کیوں ہے ان سب سوالات کے جوابات علم نحو سے تو دے نہ سکے اس لئے انہوں نے یہ ترمیم مناسب سمجھی کہ اس آیت سے پہلے کے چند الفاظ ساتھ ملا دئیے جائیں۔ پس اب جدید رسالہ مفصلہ میں انہوں نے تکبیر تحریمہ یوں لکھی ما یدعون من دونہ الباطل وان اللہ ھو العلی الکبیر اس ترمیم کو دیکھ کر اہل علم عربی کی مثل مشہور کی تصدیق کریں گے فرمن المطر قام تحت المیزاب یعنی مینہ سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑا ہوا جو شخص سہل بلا سے بھاگ کر عظیم بلا میں پھنس جائے اس کے حق میں یہ مثل کہا کرتے ہیں وہی حال ان لوگوں کا ہوا کہ وائو اور انّ مفتوحہ کی اصلاح کرنے کو پیچھے ہٹے تھے مگر ایسے ہٹے کہ خندق میں جا پڑے۔ ناظرین غور سے دیکھیں کہ مایدعون کا ما موصولہ اور ان کا اسم ہے یعنی یعنی اس پر بھی انّ مفتوحہ اور وائو موجود ہے پھر کیا ان دونوں (ان اور وائو) کو چھوڑ دینے سے قرآن میں سے بھی حذف ہوجائیں گے؟ علاوہ اس کے ان الفاظ کو تکبیر تحریمہ سے کیا تعلق۔ کیا اس آیت میں یا کسی اور آیت قرآنی میں یہ حکم یا ذکر ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے تم اس آیت کو پڑھا کرو۔ اگر ہے تو وہ حکم دکھائو۔ نہیں ہے تو جس طرح تم لوگوں نے اس آیت کو اس کام میں استعمال کیا ہے اور کسی کا بھی حق ہے کہ اس کے سوا کسی اور آیت کو اس کام میں استعمال کرسکے بحالیکہ وہ ہو بھی اسی کام کے لئے۔ لیجئے ہم آپ لوگوں کو بتلاتے ہیں۔ غور سے سنئیے ! تکبیر تحریمہ کی بجائے اگر تم اپنے قیاس ہی سے کسی آیت کو رکھنا چاہتے ہو تو اس کو رکھ لو ولذکر اللہ اکبر (اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے) اس آیت پر اعتراضات مذکورہ بالا میں سے کوئی اعتراض ہو بھی نہیں سکتا لیکن ہمیں اس کی بی ضرورت نہیں اس لئے کہ قرآن مجید ہم کو سکھاتا ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا یعنی جو لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا رسول (حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمدہ نمونہ ہیں۔“ ان کو چاہئے کہ اس نمونہ کی پیروی کریں پس ہم تو اس نمونہ کے مطابق نماز روزہ وغیرہ احکام شرعیہ ادا کرتے ہیں اسی اسوۂ حسنہ نے ہم کو بتلایا ہے کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت اللہ اکبر کہا کریں پس ہم تو اسی طرح کہتے ہیں لیکن جو لوگ اس اسوۂ حسنہ کو قبول نہیں کرتے اور تمام احکام شرعیہ قرآن ہی سے سمجھتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے مسلمہ احکام کو تو قرآن مجید سے نکال کر دکھا دیں۔ ان لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ کہتے ہیں۔ جس طرح حکم کے الفاظ قرآن شریف میں ہیں اسی طرح ان احکام کی تعمیل کے لئے بھی الفاظ قرآن ہی میں ہونے چاہئیں حالانکہ یہ اصول ہی غلط ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ حکم کے لئے تو الفاظ ہوں لیکن ان احکام کی تعمیل کے الفاظ کا ہونا ضروری نہیں مثلاً قرآن مجید میں یہ حکم تو ہے کہ کبرہ تکبیرا یعنی اللہ کی تکبیر پڑھو۔ اس حکم کے الفاظ تو قرآن مجید میں ہیں مگر اس حکم کی تعمیل جن لفظوں میں ہونی چاہئے وہ الفاظ قرآن میں نہیں نہ ان کا ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے عربی قاعدہ کے مطابق کبر کا حکم جن الفاظ سے تعمیل ہوتا ہے وہ الفاظ ہم کو عربی کے محاورہ سے ملیں گے جب ہم تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ ملتا ہے کہ کبر کی تعمیل کے لئے اللہ اکبر کا لفظ ہے۔ پس ہم بلا خوف تردید کبر کی تعمیل اللہ اکبر سے کریں گے اور اس کے کرنے میں کسی طرح کا ہم پر سوال یا اعتراض نہ ہوگا اور نہ ہم اس سوال کو سنیں گے لیکن جو لوگ حکم کے علاوہ تعمیل کے الفاظ بھی قرآن مجید میں ہونے کو ضروری کہتے ہیں۔ ان پر یہ سوال ہوگا جس کا وہ جواب نہیں دے سکتے۔ اس فرقہ کے جواب میں ہمارا ایک مفصل رسالہ بھی ہے جس کا نام ہے دلیل الفرقان بجواب اہل القرآن (منہ ( پس اے لوگو ! سنو ! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو دل میں اس کا خوف رکھو اور اس دن سے ڈرو جس میں نہ ماں باپ اپنے بچے کو نہ بچہ اپنے ماں باپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں گے یقین جانو ! اللہ کا وعدہ برحق ہے جو جو خبر اس نے بتلائی ہے اور جو جو وعدے اس نے نیک یا بد اعمال پر کئے ہیں سب پورے ہوں گے پس تم دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش و آرائش سے فریب نہ کھائیو اور اللہ کے بارے اس بڑے فریب دینے والے شیطان اور اس کی جماعت کے فریب بھی مت آئیو خبردار ہوشیار رہنا اس کے دائو کئی ایک طرح کے ہوتے ہیں بیدینوں کو تو کفر و شرک اور فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے لیکن دینداروں کو اس سے بڑھ کر بلا میں پھنساتا ہے جو بظاہر تو دیندار ہی ہوتی ہے مگر در حقیقت وہ فسق و فجور سے بدتر ہے یعنی ان کے خیال میں ڈالتا ہے کہ بزرگان دین انبیاء و اولیاء صلوٰت اللہ علیہم اجمعین ہمارے حالات سے آگاہ ہیں ہماری حاجات کو جانتے ہیں گو وہ مردے ہیں مگر ہماری حاجات کو پورا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں حالانکہ یہ تمام اوصاف اللہ ہی کے خواص میں قیامت کی گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ کب ہوگی اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہی بارش کے اترنے کے وقت کو جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماواوں کے رحموں میں کیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا اس کے سوا کسی نفس کو اپنا حال بھی معلوم نہیں کہ کل کیا کریگا اور نہ کسی متنفس کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین پر مریگا جب لوگوں کو خود اپنے واقعات کا علم نہیں تو اور کسی کا کیا ہوگا اس سے تم اس نتیجہ پر پہنچو کہ بے شک اللہ ہی علم والا اور سب کی خبر رکھنے والا ہے پس تم نے جو کچھ مانگنا ہو اسی سے مانگو وہی تمہارے حال سے آگاہ ہے وہی دینے پر قادر ہے ؎ در بلا یاری مخواہ از ہیچ زانکہ نبود جز اللہ فریاد رس لقمان
32 لقمان
33 لقمان
34 لقمان
0 السجدة
1 (1۔9) تفسیر سورۃ السجدہ :۔ میں ہوں اللہ سب سے بڑا علم والا منکرین آگاہ رہیں کہ اس کتاب کا نزول بیشک رب العالمین کے ہاں سے ہے وہی اس کا ثبوت اور اس کی شہادت خود دیگا کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی نے اپنے پاس سے اس قرآن کو بنایا ہے نہیں نہیں بلکہ وہ تیرے پروردگار کے ہاں سے سچائی کے ساتھ اترا ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانیوالا نہیں ایا یعنی جب سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ان میں گذرے ہیں ان کے بعد کوئی نبی ان میں نہیں ایا اب تجھے رسول کر کے بھیجا ہے تاکہ یہ لوگ راہ حق کی طرف ہدایت پاویں وہ راہ حق کیا ہے؟ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا جوا اپنے کندھوں پر اٹھائیں اللہ کو بھول گئے تو سنو ! اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو چھ دنوں کی مدت میں پیدا کیا ہے یعنی تمام دنیا کی کائنات کی انواع چھ دنوں میں موجود کردیں آج دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے ان سب کی نوع اس وقت موجود تھی ان کو پیدا کر کے پھر تخت نشین ہوا یعنی تمام دنیا کا انتظام حکومت اس نے اپنے ہاتھ میں لیا سنو ! وہ ایسا مالک الملک اور متصرف ہے کہ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی والی ہے جو خود بخود تم کو فائدہ پہنچا سکے نہ کوئی سفارشی ہے جو بلا اجازت سفارش سے تمہاری نفع رسانی کرسکے کیا تم نے نہیں سنا کہ ؎ جسے دے مولا اسے دے شاہ دولا۔ کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے؟ اور سنو ! وہ اللہ ہی آسمانوں سے زمین تک حکومت کا انتظام کرتا ہے پھر وہ حکم اور انتظام مکمل ہو کر اس کی طرف ایک روز میں پہنچتا ہے جس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال کی ہے اس آیت میں رب العالمین اپنی کمال قدرت اور کمال علم بتلاتا ہے علماء مفسرین نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اور خوب لکھا ہے گو بعض نے دو راز کار باتیں بھی لکھی ہیں۔ مختصر طور پر اردو خوان اصحاب کے لئے غالباً یہ کافی ہوگا کہ ان کو ایک مثال سے اس آیت کا مطلب سمجھایا جائے کیونکہ رب العالمین نے بھی اس آیت میں اپنی حکومت کو دنیاوی حکومتوں کی مثال میں سمجھایا ہے۔ دنیاوی سلطنتوں کا کمال ضبط اور بڑا زبردست انتظام یہ ہوتا ہے کہ روزانہ ڈائری افسر کو پہنچے کہ ماتحتوں نے کیا کیا۔ افسر کے احکام اور اصلاحات کو کہاں تک بنایا جو سلطنت اس اصول سے غافل ہو وہ اس کی مصداق ہے۔ اگر ماندشبے ماند شب دیگر نمے ماند۔ اس قانون اور ضابطہ کی طرف اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ جس طرح دنیاوی سلطنتوں میں ڈائری یومیہ باعث تقویت سمجھی جاتی ہے اللہ کے ہاں بھی ڈائری ہے مگر وہ ڈائری ایسی ہے کہ اس کا ایک ایک دن ہزار ہزار سال کا ہے چنانچہ ایک اور مقام پر فرمایا ان یوما عند ربک کَاَلْفِ سنۃ مما تعدون یعنی تمہارے پروردگار کی سلطنت ایسی زبردست ہے کہ اس کے ہاں ایک ایک دن تمہارے حساب سے ہزار ہزار سال جتنا ہے۔ دنیا کی سلطنتوں میں ہزار سال تک ڈائری نہ پہنچے تو سلطنت تباہ ہوجائے مگر الٰہی سلطنت میں ڈائری کے لئے ہزار سال ہے تو بتلائو کہ اللہ کی سلطنت کتنی بڑی زبردست ہوگی۔ یہاں پر ایک سوال ہوسکتا تھا کہ گو الٰہی ڈائری کے لئے ہزار سال ہو۔ تاہم اتنا تو ثابت ہوا کہ اللہ کو آئندہ کے واقعات کی بذات خود خبر نہیں تو اس سوال کے دور کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اسی تمثیل کے ساتھ ہی فرمایا عالم الغیب والشھادۃ العزین الرحیم الذی احسن کل شیء خلقہ یعنی جو چیزیں بندوں کی نظر میں حاضر اور غائب ہیں اللہ ان سب کو بذات خود جانتا ہے وہ اپنی ذات بابرکات میں سب پر غالب اور سب کے حال پر مہربان ہے اس قرینہ سے اس سوال کا جواب مل گیا اور مطلب بھی صاف ہوگیا کہ اللہ کی طرف تدبیر کا چڑھنا یا اس کی طرف سے احکام اور تدبیر کا نازل ہونا ایک تمثیل ہے ورنہ وہ ذات پاک ہر ایک چیز کو خود بخود جانتی سے اور سب پر غالب ہے۔ خیر یہ تو ہوئی اس آیت کے متعلق تقریر۔ ایک دوسرے مقام پر رب العالمین نے اس ڈائری کی مدت اور بھی وسیع فرمائی ہے وہاں ارشاد ہے تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ اللہ کے کارندے فرشتے اور اعلی فرشتہ جبرئیل پچاس پچاس ہزار سال میں اس کی طرف جاتے ہیں یعنی پچاس ہزار سالہ ان کی ڈائری ہے۔ لطف یہ ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اللہ ذوالجلال والاکرام نے اس تمثیل کے بتلانے کے لئے بہت سے قرائن حالیہ اور مقالیہ بھی رکھے ہم ان تینوں آیات کو ایک جگہ جمع کر کے ان کی اصلی صورت ناظرین کو دکھاتے ہیں۔ ) ١) پہلی آیت پارہ سترہ رکوع ١٣ کی ہے۔ یستعجلونک بالعذاب ولن یّخلف اللہ وعدہ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مّما تعدّون وکایّن من قریۃ املیت لھا وھی ظالمۃ ثم اخذتھا والّی المصیر۔ (پ ١٧ ع ١٣) (٢) دوسری آیت یہی جو زیر بحث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ یدبر الامر من السمآء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مّما تعدّون ذلک عالم الغیب والشھادۃ العزیز الرحیم الذی احسن کل شیء خلقہ وبدء خلق الانسان من طین۔ (٣) تیسری آیت سورۃ معارج کی ہے جس کے الفاظ ہیں : سأل سائل بعذاب واقِعٍ للکافرین لیس لہ دافعٌ مّن اللہ ذی المعارج۔ تعرج الملٓئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃٍ فاصبر صبرًا جمیلاً انھم یرونہ بعیدًا ونراہ قریبًا (پ ٢٩ ع ٧) پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے : ” کفار تجھ سے جلدی عذاب مانگتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کو کبھی خلاف نہ کرے گا اور اللہ کے نزدیک ایک دن تمہارے حساب سے ایک ہزار برس کا ہے۔ کئی ایک ظالم بستیوں کو میں (اللہ) نے تھوڑی سی مہلت دی پھر فوراً ان کو پکڑا اور میری طرف ہے سب کاموں کا رجوع۔ “ اس آیت میں پروردگار نے کفار کی درخواست کا ذکر کیا ہے کہ وہ عذاب جلدی چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک ایک دن ہزار برس کا ہے۔ یہ کہہ کر فرمایا کہ میں نے بہت سی قوموں کو مہلت دے کر بھی نہ چھوڑا۔ بظاہر ہزار برس کا دن ہونے کا ذکر یہاں پر بے تعلق ہی نہیں بلکہ مخالف معلوم ہوتا ہے کیونکہ کفار کے جواب میں یہ فرمانا کہ اللہ کے نزدیک ایک ایک دن ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گھبراتے کیوں ہو آخر کبھی تو عذاب پہنچ ہی جائے گا۔ یہاں تو ہزار برس بھی ایک دن کی میعاد ہے جس میں موجودہ کفار کی کئی ایک نسلیں ختم ہوسکیں گی۔ تو پھر عذاب ہی کیا اور کس کو ! حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم نے مہلت دے کر خوب پکڑا۔ پس معلوم ہوا کہ ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ اللہ کی جبروت۔ سلطنت کا اظہار مراد ہے کہ یہ لوگ جلد ہی عذاب مانگتے ہیں اس خیال سے کہ اللہ کے عذاب سے کہیں بچ سکیں گے۔ ہرگز نہیں۔ دوسری آیت کا ترجمہ مع مطلب تو اسی جگہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔ تیسری آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ : ایک سائل عذاب کا بابت پوچھتا ہے جو کافروں پر اللہ کی طرف سے اٹل آنے والا ہے جو اللہ بڑی بلندیوں والا ہے اس کی طرف فرشتے اور روح ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے یہ کہہ کر فرمایا : ” پس تو اچھی طرح سے صبر کر۔ “ اس آیت میں پچاس ہزار برس کی میعاد سے مراد قیامت کا دن لینا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ قیامت کے دن کی انتہا نہیں اور پچاس ہزار برس کی تو آخر انتہا ہے پس آیت موصوفہ کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی جبروت۔ حکومت۔ قدرت اور علم کا اظہار کرتا ہے ان تینوں آیتوں کے ملانے سے جو معنے میری سمجھ میں آئے ہیں میں نے خود لکھے ہیں میں ان کی صحت پر مصر نہیں ممکن ہے کوئی اللہ کا بندہ اس سے بھی اچھی تفسیر کرے۔ فلہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (منہ) یہ اللہ ہے غیب اور ظاہرسب کو جاننے والا یعنی جو تمہاری نظروں میں حاضر اور غائب ہے سب کو جانتا ہے اور سب پر غالب بڑا رحم کرنے والا ہے جس نے اپنی مخلوق کو ہر طرح سے عمدہ بنایا جو جس کے مناسب حال تھا اس کو ویسا بنایا اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی یعنی آدم کو پہلے مٹی سے بنایا پھر اس کا سلسلہ نسل انسانی جسم کے نچوڑ یعنی ذلیل پانی منی سے جاری کیا پھر وہ اللہ اس انسان کو درست اندام بناتا ہے اور اس میں اپنی پیدا کی ہوئی روحوں میں سے مخلوق روح پھونکتا ہے اور تمہارے یعنی بنی آدم کے لئے وہ (اللہ) کان یعنی قوت سامہ آنکھیں یعنی قوت باصرہ اور دل پیدا کرتا ہے مگر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو یہ بھی کوئی شکر ہے کہ اللہ کے ہوتے اس کی مخلوق سے حاجات چاہتے ہیں اور سمجھانے پر الٹے بگڑتے ہیں السجدة
2 السجدة
3 السجدة
4 السجدة
5 السجدة
6 السجدة
7 السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 (10۔22) اور کہتے ہیں کیا جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے یعنی ہمارے ریزے ریزے ہو کر مٹی میں مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر ایک دفعہ نئی پیدائش میں ہوں گے؟ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امور محال ہیں محال نہیں بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں ان کو یقین بلکہ انکار ہے کہ اعمال کا نیک و بد بدلہ کچھ نہ ہوگا اے نبی ! تو ان کو کہہ کہ تم کو موت کے فرشتے فوت کرتے ہیں جو تم پر مقرر کئے گئے ہیں بعد موت پھر تم اپنے پروردگار کے حضور میں واپس کئے جائو گے اس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اے نبی ! اگر تو اس وقت ان کو دیکھے جب مجرم اپنے پروردگار کے حضور میں سروں کو نیچے ڈالے ہوں گے اس وقت کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے تیرا عذاب دیکھا اور تیرا ارشاد سناپس تو ہم کو دنیا کی طرف ایک دفعہ پھیر تاکہ ہم نیک عمل کریں کچھ شک نہیں کہ اب تو ہم کو بالکل یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کی قدرت اور جلالت سب پر غالب ہے اور ہمارے مصنوع معبود بالکل ہیچکارہ ہیں پس اب ہم اس امر کو باور کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اس روز یہ سب لوگ سچی ہدایت کے قائل ہوں گے اور تسلیم کریں گے اگر ہم (اللہ) چاہتے تو اس دنیا میں بھی سب کو ہدایت کردیتے اگرچہ ان کی طبیعتیں نہ چاہتیں تاہم کیا مجال تھی کہ ہمارے چاہے ہوئے کو کوئی روک سکتا ہے ہم اگر چاہتے تو جبرا ان کو سیدھا کردیتے لیکن ہم نے ان کو مجبور کرنا پسند نہیں کیا بلکہ ان کو عقل و ہوش دئیے ہیں ان سے یہ لوگ خود نیک و بد کی تمیز کرسکتے ہیں بات اصل یہ ہے کہ میری (یعنی اللہ) طرف سے یہ اعلان جاری ہوچکا ہے کہ میں تمام قسم کے جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھر دوں گا کیونکہ میرے علم میں تھا کہ یہ لوگ ایسے کام ضرور کریں گے اس لئے اسی علم کی بنا پر میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ جو لوگ برے کام کریں گے جنوں سے ہوں یا انسانوں سے خواہ ان کی کسی قوم سے ہوں میں ان کو ضرور سزدونگا اس آیت سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سے جبراً برے کام کراتا ہے پھر وہ ہم کو سزا کیوں دے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت تو جبر کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر ایک کو سیدھا کردیتے یعنی جبراً مسلمان بنا دیتے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے کیونکہ ہم نے ان کو اختیاری کاموں پر انعام دینا ہے۔ جبری کام پر انعام کے مستحق نہیں ہوسکتے اس لئے جبر نہیں کیا۔ (منہ) وہ سزا یہی دوزخ ہے چونکہ تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے پس اس دن کو بھولنے کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو دیکھو ہم نے تم کو ایسا اس میں مبتلا رکھنا ہے کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ گویا ہم تم کو بھول گئے ہیں اگرچہ ہم کسی چیز کو بھولا نہیں کرتے بھولے تو وہ جس پر ذہول اور نسیان غالب آئے مگر ہم پر کوئی چیز غالب نہیں آسکتی پھر ہم کیوں بھولیں ! پس ہمارے بھولنے کا مطلب یہ ہے کہ کہ تم سے برتائو ایسا کریں گے کہ تم یا کوئی اور ناواقف حال سمجھے گا کہ گویا ہم تم کو بھول گئے پس تم اس جہنم میں رہو اور اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ انجام ان لوگوں کا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ جزا و سزا کو بھول جاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی ہم پر حاکم اعلیٰ ہے وہ ہمارے اعمال نیک و بد کی ہم کو جزا وسزا دے گا گو ہمارے احکام کو ماننے کے دعویداروں کی اتنی کثرت ہے کہ شمار میں نہیں آسکے مگر بغور دیکھا جائے تو ہمارے احکام وہی لوگ مانتے ہیں کہ جب انکو ان احکام کی بابت نصیحت کی جائے یعنی کسی واعظ کے منہ سے وہ ان احکام کو پاتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں یعنی اپنے آپ کو اللہ کی تابعداری کے لئے ایسا آمادہ کرتے ہیں کہ گویا سجدہ میں ہیں اور دل میں اس بات کو جمالیتے ہیں کہ گذشتہ را صلوٰۃ آیندہ را احتیاط اور پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیحیں پڑھتے ہیں اور اس کی تعریف کے گیت گاتے ہیں اور وہ احکام الٰہی سن کر کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے بلکہ ان پر ان آیات کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ راتوں کو اپنے بستروں سے پہلوؤں کو الگ رکھتے ہیں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع میں اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتے ہیں اور حتی المقدور ہمارے دئیے میں سے خرچ کرتے ہیں اس لئے کہ انبیاء اور رسل کا سلسلہ قائم کرنے اور کتابیں بھیجنے سے غرض ہی یہ ہے کہ لوگ اخلاق فاصلہ سیکھیں اور الٰہی احکام کی پابندی کریں نہ کہ صرف منہ سے اللہ اللہ کہنے ہی پر کفایت کریں اور بس جس طرح مٹھائی کا نام صرف زبانی لینے سے منہ میٹھا نہیں ہوسکتا اسی طرح صرف زبانی کلمہ اسلام پڑھنے سے انسان اللہ کے ہاں معتبر مسلمان نہیں ہوسکتا پس ان ہی لوگوں کے لئے جو زبان اور دل سے اللہ کے فرمانبردار ہوں اللہ کے ہاں ایسی راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی مسرت مخفی رکھی گئی ہے جس کو کوئی شخص بھی اس دنیا میں نہیں جان سکتا یہ سب کچھ ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا بدلہ ہوگا کیا تم عرب والوں نے سمجھ رکھا ہے کہ نیک اعمال یونہی ہیں ان کا بدلہ کوئی نہیں؟ تو کیا پھر پکے ایماندار بدکاروں کی طرح ہوجائیں گے؟ ایک شخص جو تمام عمر اللہ کے زیر فرمان رہا ہر ایک بات میں مالک کی اجازت سے کام کرتا رہا دوسرا ہر ایک بات میں مخالفت کرتا رہا اللہ کے حقوق کے علاوہ مخلوق کی حق تلفیاں کرتا رہا ڈاکے مارتار ہا یتیموں اور بیوائوں کا مال کھاتا رہا کیا یہ دونوں بعدمرنے کے برابر ہوں گے؟ ہرگز نہیں برابر نہ ہوں گے۔ سنوجو لوگ مذکورہ طریق سے ایمان لا کر نیک اعمال کرتے ہیں بوجہ ان کے نیک اعمال کے ہمیشہ کے باغوں میں انکی مہمانداری ہوگی اور جو لوگ بدکار ہوں گے انکا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں ہوگا وہ اس میں ایسے محبوس ہونگے کہ جب کبھی اس سے نکلنا چاہیں گے اور کوشش کر کے کہیں اس کے کنارہ تک آئے گے تو واپس اس میں لوٹادئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ لو اب آگ کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے اور سنو ! اس بڑے عذاب سے پہلے ہم ان کو ایک ہلکا سا عذاب چکھا دیں گے تاکہ یہ لوگ ہماری طرف رجوع ہوں چاہے پورے نہ سہی اس تکلیف کے رفع کرانے کیلئے ہی سہی مگر یہ لوگ بجائے اس کے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجوع کریں الٹے اپنی اس بدکرداری پر نازاں ہیں کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے پیارے ہیں ہم اللہ کے مقرب ہیں حالانکہ اس قسم کی باتیں کرنا اس صورت میں زیبا ہے کہ اللہ نے خود ان کو بتلا دیا ہو کہ تم ایسے ہو بغیر بتلائے اللہ کے ایسا دعویٰ کرنے والا مفتری ہے باوجود مرات کرات سمجھانے کے بھی یہ لوگ الٹے بگڑتے ہیں اور ہدایت کی طرف نہیں آتے اور نہیں جانتے کہ جس شخص کو پروردگار کی آیات اور احکام سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیر لے تو اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے پس یہ خوب سمجھ رکھیں کہ ہم (اللہ) ضرور مجرموں بدکاروں سے بدکاریوں کا بدلہ لینے والے ہیں یہ ہمارا آج کا اعلان نہیں بلکہ قدیم سے ہے اور اسی اعلان کے مطابق ہم نے ہمہشا برتائو السجدة
11 السجدة
12 السجدة
13 السجدة
14 السجدة
15 السجدة
16 السجدة
17 السجدة
18 السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 السجدة
22 السجدة
23 (23۔30) کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ کو بھی کتاب (تورات) دی تھی پس تو اس کتاب کے موسیٰ کو ملنے میں ہرگز شک نہ کیجیئو بلکہ تسلیم کیجئیو اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت نامہ بنایا تھا اور جب نبی اسرائیل نے تکلیفات شدیدہ پر صبر کیا تو ہم نے ان پر کئی ایک امام بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور خود بھی ہمارے احکام پر یقین رکھتے تھے اب جو دنیا کے لوگوں کے درمیان دینی امور میں اختلافات شدیدہ ہو رہے ہیں تمہارا پروردگار قیامت کے روز ان کے اختلافی امور میں فلہ کرے گا قیامت کا ذکر سن کر جو یہ لوگ انکار کرتے ہیں کہ یہ بات ان کو کچھ بھی ہدایت نہیں کرتی کہ ان سے پیشتر ہم نے کتنی قوموں کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے ہلاک کردیا یہ لوگ ان ہلاک شدوں کے مکانات اور مقامات میں چلتے پھرتے ہیں ان کے اجڑے دیار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہاں کے در و دیوار سے گویا آواز آتی ہے کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم اگر سوچیں تو اس واقعہ میں بہت سی نشانیاں ہیں تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں کیا انہوں نے اس پر بھی کبھی غور نہیں کیا کہ ہم (اللہ) کس طرح خشک بنجر زمین پر پانی کے بادل لے آتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ کھیت اگاتے ہیں جس میں سے ان کے چوپائے اور وہ خود بھی کھاتے ہیں کا پھر بھی یہ لوگ چشم بصیرت سے نہیں دیکھتے اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ جو تم مسلمان ہم کو سناتے ہو کہ ہم تم میں ہوگا یہ کب ہوگا اگر تم مسلمان سچے ہو تو بتلائو اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ فیصلہ کی تاریخ تو اللہ ہی کو معلوم ہے اس کا تو کسی کو علم نہیں نہ اس نے کسی کو بتلایا ہے البتہ یہ بتلایا کہ فیصلہ کے دن کافروں کا ایمان لانا انکو سود مند نہ ہوگا کیونکہ اس روز سب کچھ چھپا چھپا یا ظاہر ہوجائیگا اور نہ انکو مہلت ملیگی پس اے نبی ! تو ان سے روگردانی کر اور منتظر رہ کہ انکا فیصلہ کیا ہوتا ہے وہ بھی منتظر ہیں پس آئیندہ کو جو فیصلہ ہوگا وہ تم سب کو معلوم ہوجائے گا۔ السجدة
24 السجدة
25 السجدة
26 السجدة
27 السجدة
28 السجدة
29 السجدة
30 السجدة
0 الأحزاب
1 (1۔6) تفسیر سورۃ الاحزاب :۔ اے نبی ! تو ہمیشہ اللہ سے ڈرتا رہ اور دین کے معاملہ میں ظاہری کافروں اور باطنی کافروں یعنی منافقوں کی کبھی تابعداری نہ کیجئیو کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ بری راہ ہی بتلا دیں گے ہاں دین کے علاوہ کسی دنیاوی کام میں یا دین میں بھی کسی اچھے کام کا مشورہ دیں تو اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ برے آدمی یا بری قوم کے کل کام برے نہیں ہوتے بلکہ برے کام اسی قدرہوتے ہیں جو دین کے مخالف ہوں باقی امور جو دین کے مخالف نہیں وہ ضالۃ الحکیم ہیں سنو ! اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے جو کچھ وہ تم کو حکم دیتا ہے وہ علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہیں یہ لفظ ایک حدیث کا ہے جس میں آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کلمۃ الحکمۃ ضالۃ الحکیم حیث وجدھا فھو احق بھا یعنی دانائی اور حکمت کی بات گویا مومن کی اپنی چیز ہے جہاں سے پائے وہ اس کا مستحق ہے پس اس کے لینے میں ایسی جلدی کرے جیسے کوئی اپنی چیز کو لیتا ہے (منہ) اور ان میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اسی لئے تجھ کو اے نبی ! حکم دیا جاتا ہے کہ تو اسی بات کی پیروی کیا کیجئیو جو تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوئی ہے خوا ہدبذریعہ نص قرآن مجید یا بذریعہ وحی خفی کے جیسے حدیث شریف ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے پس تو اے نبی ! اسی کی ہدایت پر چلا کر اور اللہ پر بھروسہ رکھا کر اور دل میں جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز کافی ہے پس تو اسی کو کارساز بنا اور دل میں ٹھان رکھ کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جو بندوں کی حاجات کو پورا کرسکے یا کسی اڑے وقت میں ان کی فریاد کو سن سکے غرض یہ دل میں جمارکھ کہ وہ مالک ہے سب آگے اسکے لاچار کوئی نہیں اس کے گھر کا مختار بعض لوگ جو زبان سے اللہ پر توکل اور اس کی محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر عملی طور پر وہ اس کا ثبوت نہیں دے سکتے اگر ان کے دل میں اللہ کی محبت نے جگہ پکڑی ہوتی تو مجال نہ تھی کہ کسی دوسرے کی جگہ رہتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے لئے دو دل نہیں بنائے کہ ایک میں اللہ کی محبت ہو اور دوسرے میں کسی غیر کی دل تو ایک ہو پس اس میں دو کی گنجائش کہاں؟ کیا تم نے صوفیائے کرام کا یہ مقولہ نہیں سنا کہ العشق نار غرق ما سوی اللہ عشق الٰہی کی آگ اللہ کے سوا سب چیزوں کو بھسم کردیتی ہے غیر اللہ کی محبت رکھ کر اللہ کی محبت کا دعویٰ کرنا ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ تم غصہ کی حالت میں اپنی بیویوں کو مائیں کہہ دیا کرتے ہو اور دوسروں کے بیٹوں کو اپنا کہہ کر پکارا کرتے ہو حالانکہ اللہ نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار ! کرتے ہو تمہاری مائیں اور تمہارے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ باتیں تو صرف تمہارے منہ کی ہیں جن کی اصلیت کچھ بھی نہیں (عرب میں ایک عام دستور تھا کہ خاوند اپنی بیوی کو ماں کی پیٹھ کی طرح کہہ دیا کرتا تھا اس کو ظہار کہتے تھے پھر وہ اس عورت کو بالکل ماں کی طرح حرام سمجھتا تھا۔ ان کی اصلاح کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو ماں کہنے سے ماں نہیں ہوسکتی اس کو ماں کہنا غلط ہے۔ (منہ) بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے نہ جوڑا ہو وہ مخلوق کے جوڑنے سے قدرتی جوڑ کی طرح جڑ جائے اور اس کے جوڑنے والے کو وہی فائدہ دے جو قدرتی جڑے ہوئے کو دیتا ہے سنو ! اللہ تعالیٰ سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت کرتا ہے چونکہ لے پالک بنانے کی رسم قانون قدرت کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم ان لے پالکوں کو ان کے والدوں کے نام سے بلایا کرو یعنی جن کے نطفے سے ان کی پیدائش ہو انہی کے نام سے ان کو بلایا کرو نہ کہ لے پالک بنانے والے کے نام سے جن کا اس کے ساتھ بجز زبانی دعویٰ کے کوئی تعلق نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بڑی انصاف کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو مثلا وہ کسی دور دراز ملک سے یتیمی یا کسمپرسی کی حالت میں آئے ہوئے ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور مذہبی دوست ہیں پس ان کو چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھو اور اسی طرح بلایا کرو ہاں یہ بھی یاد رکھو کہ جن باتوں میں تم خطا کر جائو ان میں تم پر گناہ نہیں مثلاً تم نے جن بچوں کو اس حکم سے پہلے لے پالک بنایا ہوا اور تمہاری عادت ان کو بیٹا بیٹا کہنے کی ہوگئی ہو تو غلطی سے اگر کسی وقت لفظ ” بیٹا“ تمہارے منہ سے نکل جائے جو دانستہ نہ ہو تو اس میں تم کو گناہ نہیں لیکن جو کام دل کے قصد سے کرو گے اس پر مواخذہ کا خوف ہوتا ہے ہم یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم والا ہے اس کے رحم سے حصہ لینا چاہو تو اس کے رسول کی عزت اور تعظیم جیسی کہ تم کو اللہ سکھاتا ہے کرو کیونکہ اللہ کا نبی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے حق میں ان کی جانوں سے بھی قریب تر ہے یعنی جس قدر انکی جانوں کے حقوق ١ ن پر ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ پیغمبر کے حقوق ان پر ہیں اس کی مثال یہ سمجھو کہ کسی موقعہ پر کوئی کام ایسا درپیش آجائے کہ نبی کی عزت قائم رکھنے اور بچانے کے لئے کسی مسلمان کی جان بھی کام آئے تو مسلمان کا فرض ہے کہ ایک جان کیا سوجان کو بھی قربان کردے کیونکہ ؎ دل لیا ہے تو جان بھی لے لو ہم سے بےدل رہا نہیں جاتا چونکہ نبی کا حق مسلمانوں پر سب سے زیادہ ہے گو ماں باپ کے حقوق بھی بہت ہیں ماں باپ کے حقوق کو بھی تو نبی ہی نے بتلایا ہے نیز ماں باپ جسمانی مربی ہیں اور نبی روحانی مربی ہے جس کی تربیت کا اثر دائمی زندگی پر پہنچتا ہے اس لئے نبی کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اور اس کی بیویاں تعظیم و تکریم میں ان مسلمانوں کی مائیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی صلبی رشتے کچھ چیز ہی نہیں اور ان کے حقوق سب سلب ہیں نہیں بلکہ الٰہی شریعت میں اصل رشتے دار بعضے بعض کے ساتھ دیگر ایمانداروں اور مہاجروں سے قریب تر ہیں مثلاً کسی مسلمان میں ایک شخص سے سلوک کرنے کی توفیق ہے مگر اس کے سامنے دو شخص محتاج ہیں جن میں سے ایک اس کا رشتے دار اور قریبی ہے اور دوسرا اجنبی پس اس کو چاہئے کہ وہ سلوک اپنے رشتہ دار سے کرے یہ مطلب ہے اولیٰ ہونے کا واجبی حقوق ادا کرنے میں رشتہ دار سب سے مقدم ہیں لیکن تم حسب مقدور اپنے دوستوں سے کوئی سلوک کرو تو تمہیں کوئی روک نہیں تاہم مقابلہ میں رشتہ دارکا حق مقدم ہوگا الٰہی شریعت میں یہ حکم ابتداء دنیا سے اسی طرح لکھا ہوا ہے (ہماری اس تفسیر سے واضح ہوگا کہ یہ آیت نہ تو کسی آیت یا حکم کی ناسخ ہے نہ منسوخ۔ ایسی آیات کو منسوخ کہنا بعض مفسروں کی جلد بازی کا نتیجہ ہے حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار اور مہاجرین کو باہم بھائی بنا دیا تھا وہ رشتۂ ولا تھا نہ کہ نسب کا۔ بھلا جو قرآن لے پالکوں کو بیٹا کہنے سے منع کرے وہی یہ حکم دے سکتا ہے؟ کہ ایک مہاجر اپنی ولدیت لکھواتے ہوئے انصار کے باپ کا نام لکھا دے یا ایک انصار اپنی ولدیت لکھواتے وقت مہاجر کے باپ کا نام بتلا دے ہرگز نہیں بلکہ اس آیت نے رشتہ ولا کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار اور مہاجرین میں مقرر اور مضبوط کیا تھا اسے اب بھی بحال رکھا ہے الا ان تفعلوآ الی اولیاء کم معروفا میں اسی طرف اشارہ ہے (منہ) الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 الأحزاب
5 الأحزاب
6 الأحزاب
7 (7۔8) اور سنو ! یہ جو تم کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کا خوف دل میں رکھو اور تقویٰ اختیار کرو یہ حکم تمہارے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تم سے پہلے بھی سب لوگوں کو یہی حکم تھا اے نبی ! کیا تجھے معلوم نہیں ہم نے جب نبیوں سے اور تجھ سے اور نوح سے ابراہیم سے موسیٰ سے اور عیسیٰ ابن مریم سے اسی مضمون تقویٰ اور توحید کا ان سب سے پختہ وعدہ لیا تھا تو پھر انہوں نے کیسا عمدہ نباہا اسی طرح مسلمانوں کو حکم ہوا ہے پس وہ بھی مضبوط رہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ راست بازوں اور راست گوؤں کو اللہ راست بازی سے سوال کرے گا یعنی انبیاء اور علماء صلحا کو تبلیغ احکام سے پوچھے گا اور تابعداروں کو نیک بدلہ دے گا اور جو لوگ ان کی تعلیم سے منکر ہیں ان منکروں کو سخت عذاب میں مبتلا کریگا کیونکہ ان کے لئے اس نے دکھ کی مار تیار کر رکھی ہے الأحزاب
8 الأحزاب
9 (9۔27) پس مسلمانو ! تم ابھی سے اس کی فرمانبرداری پر تیار اور مستعد ہوجائو اور اپنے حال پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور احسان کو یاد کرو جب تم پر چاروں طرف سے کفار کی فوجیں چڑھ آئی تھیں تو ہم (اللہ) نے ان پر تیز ہوا اور آسمانی فرشتوں کی فوجیں بھیجیں جن کو تم نے نہ دیکھا تھا کیونکہ وہ بوجہ لطافت تمہارے دیکھنے میں نہیں آسکتے تھے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا تھا جس ارادے سے تم کوئی کام کرتے اور محاصرہ میں جو جو حرکات تم سے سرزد ہوتی تھیں ان سب کی اللہ کو خبر تھی اور اب بھی ہے تمہیں تو یاد ہوگا کہ وہ وقت تم پر کیسا سخت تھا جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی طرف سے یعنی مشرق اور مغرب سے تم پر ٹوٹ پڑے تھے اور جب مارے خوف کے تمہاری آنکھیں پھری کی پھری رہ گئی تھیں اور مرے دہشت کے کلیجے منہ کو آچکے تھے اور تم اس وقت اللہ کی نسبت طرح طرح کی بدگمانی کرتے تھے ہجرت کے چوتھے سال کفار عرب نے مع یہود و نصاریٰ کے عام بلوائے کر کے مدینہ منورہ کو آگھیرا تھا اور پندرہ روز محاصرہ رکھا۔ اپنی کثرت کے گھمنڈ اور فتح کے یقین پر اتراتے ہوئے محاصرہ کئے بیٹھے رہے مگر حملہ نہ کرتے تھے کہ تکلیف اور خوف سے ان (مسلمانوں) کو مار دیں گے۔ اب ان کا مارنا ہی مشکل کیا ہے۔ مسلمان مدینۃ النبی میں محصور تھے۔ اتنی مدت میں الٰہی قدرت کے عجیب عجیب نشان ظاہر ہوئے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کئے جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ رہی یہ بحث کہ فرشتے اترے یا اس سے کچھ اور مراد ہے سو اس کا ذکر پہلے جلد دوم میں بصفحہ گذر چکا ہے۔ آخرکار کفار جب اس لڑائی میں ناکام واپس ہوئے تو حضور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آئندہ ان کو حوصلہ حملہ کرنے کا نہ ہوگا۔ ہم ہی ان پر حملہ آور ہوا کریں گے چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اس لڑائی کا نام جنگ احزاب بھی ہے اور جنگ خندق بھی (منہ) کوئی پاک باز مسلمان تو دل میں یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کرے گا ہم کو جو ہمارے رسولﷺ نے خبر بتلائی ہوئی ہے وہ بے شک سچی ہو کر رہے گی مگر کوئی کمزور اور ضعیف القلب یہ بھی کہتا تھا کہ بس اب مرے سچ پوچھو تو اس وقت پکے مسلمان کی جانچ کی گئی اور وہ خوب ہی زور سے ہلائے گئے پھر جو لوگ پختہ نکلے ان کو تو دائمی وفاداری کی سند مل گئی اور جو بیوفا ثابت ہوئے ان کی بیوفائی کا اظہار ہوگیا یہ وہی وقت تھا جب منافق یعنی بیوفا دو رخے ظاہری مؤمن اور باطنی کافر اور وہ لوگ جن کے دلوں میں ضعف ایمان وغیرہ کا مرض تھا بے اختیارمنہ سے کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو فتح ونصرت کے وعدے ہم سے کئے تھے وہ محض دھوکہ اور ابلہ فریبی تھے بھلا اگر سچے ہوتے تو ہماری یہ گت کیوں ہوتی جو ہم دیکھ رہے ہیں کھانے کو دانہ نہیں پینے کو پانی نہیں اوڑھنے کو کپڑا نہیں گویا یہ مصرع ہمارے اسی حق میں ہے اس قفس کے قیدیوں کو اب و دانہ منع ہے اور کہنے کو ہم جی خوش کررہے ہیں کہ دین و دنیا میں ہماری ہی فتح ہوگی اگر یہی فتح ہے تو اللہ حافظ ! مگر ان نادانوں کو خبر نہ تھی کہ اس تکلیف کا راز کیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے کہ چند روزہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچی منجملہ اور وجوہات کے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کو عام طور پر معلوم ہوجائے کہ نبی اور نبی کے تابعدار بھی الٰہی کاموں میں کوئی دخل نہیں رکھتے یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی کوئی تکلیف دفع نہیں کرسکتے جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے نہ اس کے کئے کو پھیر سکتے ہیں اور واقعی وہ وقت بڑا ہی نازک تھا جب ان منافقوں میں سے کئی ایک گروہ مخلص مسلمانوں کو ڈرانے کی نیت سے کہتے تھے اے مدینہ کے مسلمان باشندو ! تمہارا یہاں اب ٹھکانہ نہیں ذرہ آنکھیں کھول کر تو دیکھو کہ کس طرح سے مخالف فوجوں کا ٹڈی دل آرہا ہے کچھ دیکھتے بھی ہو کیا ہورہا ہے کبوتر کی طرح تم آنکھیں بند کر لوگے تو کیا بلی بھی بند کرلیگی؟ ہرگز نہیں پس تم اپنا ٹھکانہ بنائو اور چلتے بنو بہتر ہے کہ تم اس میدان سے گھروں کو واپس چلے جائو اور یہاں دم بھر کیلئے بھی مت ٹھیرو ایک گروہ تو اس بہکانے میں لگ رہا تھا اور ایک گروہ ان میں کا نبیﷺ سے گھروں کو جانے کی اجازت مانگتا تھا کہتے تھے کہ ہمارے گھر بالکل خالی اور غیر محفوظ ہیں صرف مستورات ہی ہیں اور مخالفوں کا خدشہ ہے کہ کسی وقت حملہ آور ہو کر ہمارا مال و اسباب لوٹ نہ لے جائیں حالانکہ ان کے مکان غیر محفوظ نہیں نہ انکو کسی طرح کا خطرہ ہے بلکہ وہ اس بہانہ سے صرف بھاگنا چاہتے ہیں حال یہ ہے کہ اگر یہی مخالف فوجیں ان پر مدینہ کی طرف سے آجائیں اور ان کو فساد کی جنگ میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو فورا اس میں کود پڑتے پھر تو شہر میں بہت کم ٹھیرتے بلکہ سنتے ہی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے کیونکہ وہ تو ان کے حسب منشا ہے مگر مسلمانوں میں ملکر کام کرنا خلاف منشاء ہے حالانکہ اس سے پہلے اسی زبان کے ساتھ اللہ سے وعدہ کرچکے تھے کہ وقت پڑے پر ہرگز پیٹھ نہ دیں گے لیکن آخر کار ثابت ہوا کہ یہ لوگ قول کے پکے اور بات کے سچے نہیں مگر کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان سے نہیں پوچھے گا؟ بے شک پوچھے گا کیونکہ اللہ کے وعدہ کا سوال ضرور ہوگا ہرگز تخلف نہ ہوگا غور کرنے سے ان کی اس بزدلی کا اصل راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موت سے بچنے کے لئے ایسا کرتے ہیں پس اے نبی ! تو ان سے کہہ دے کہ موت سے یا قتل ہونے سے تم بھاگتے ہو تو یہ بھاگنا تم کو نفع نہ دے گا اور بھاگ کر بھی تم بہت ہی کم فائدہ اٹھائو گے جو قریب قریب نفی کے ہوگا اے نبی ! تو بآہستگی یہ بھی ان سے کہہ اور سوال کر کہ بھلا اگر اللہ تمہارے حق میں کسی قسم کی برائی کرے یا تم کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ سے ورے کون ہے جو اس فائدے کو تم سے روک لے یا اس کی مصیبت سے تمہاری حفاظت کرسکے اور اس کی آئی ہوئی بلا کو ٹلا دے یا رحمت کو روک دے؟ کوئی نہیں کیا تم نے نہیں سنا؟ اوست سلطاں ہر چہ خواہدآں کند عالمے رادردمے ویراں کند اس لئے کوئی بھی ان کو نہ بچا سکے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا والی اور مددگار نہ پائیں گے کیونکہ ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس راز ہرہ چون و چرا پس تم سن رکھو کہ تم میں سے جو خود بھی شریک کار نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور اپنے ملکی اور آبائی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آئو اور لڑائی سے الگ رہو میاں ! دنیا میں آخر انسان کو کبھی کسی سے مطلب ہے کبھی کسی سے کام جب ہے تو کسی دنیا دار تجربہ کار نے کہا ہے بشر کو چاہئے ملتا رہے زمانے میں کسی دن کام یہ صاحب سلامت آہی جاتی ہے یقین جانو اللہ ان سب کو خوب جانتا ہے چونکہ یہ منافق لوگ تم مسلمانوں کے دل سے خیر خواہ نہیں بلکہ بد خواہ ہیں تمہارے قومی کاموں میں نہ مال سے مدد کرتے ہیں نہ جان سے اسی لئے تمہارے معاملہ میں بخل کرتے ہوئے لڑائی میں بہت کم شریک ہوتے ہیں جب کوئی خوف سامنے سے آتا ہے تو تم ان منافقوں کو دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں یوں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت سے غشی آئی ہو یعنی حیران ششدر ہو رہتے ہیں کہ کیا کریں پیچھے ہٹیں؟ آگے بڑھیں؟ پھر جب وہ خوف چلا جاتا ہے اور بجائے تکلیف کے فتحیابی کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو یہ منافق لوگ بدستور سابق خیر اور بہتری کی امید پر اپنے مطلب کے لئے بڑی تیز زبانی سے تمہارے ساتھ باتیں کرتے ہیں چپڑ چپڑ کر کے بولتے ہیں کہ میاں میں نے فلاں آدمی کو ایسا دھکہ دیا کہ بس چاروں شانے چت گرا کوئی کہتا ہے فلاں مشرک فلاں مومن پر چڑھا آرہا تھا میں نے جو دیکھا تو پیچھے سے ایک لگائی بس اس کا تو اسی میں کام تمام ہوگیا غرض اسی قسم کی مطلب کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انکی خوشامدانہ کارروائی ہوتی ہے جو اہل بصیرت کے نزدیک ایک سفیہانہ حرکت ہے مگر یہ کیوں ایسی حرکت کرتے ہیں؟ اس لئے کہ چونکہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے پس اللہ تعالیٰ نے انکے نیک کام بھی ضائع کر دئیے کوئی ثواب انکو نہ ملے گا کیونکہ ان اعمال صالحہ میں جب کفر وشرک کی آمیزش ہے تو کس طرح انکا صلہ انکو مل سکے؟ اسلئے سب کام کئے کرائے اکارت گئے اور یہ بات اللہ کے نزدیک بہت ہی آسان ہے کفار کی ظاہری عظمت اور بزرگی ہی تو مخلوق کے نزدیک ہے نہ کہ اللہ کے نزدیک یہ منافق لوگ بداعمالی کے علاوہ بزدل ایسے ہیں کہ ابھی تک انکو یہی خیال جم رہا ہے کہ مخالف فوجیں ابھی واپس نہیں گئیں اور اگر آج کوئی مخالف لشکر آجائے تو یہ لوگ یہی چاہیں گے کاش ہم شہر سے باہر دیہاتیوں میں بستے ہوتے وہیں سے تمہارے احوال پوچھا کرتے اور خود اس بلا میں مبتلا نہ ہوتے نہ آنکھوں سے دیکھتے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ تم مسلمانوں میں ہوتے بھی تو لڑائی میں بہت ہی کم شریک ہوتے وہ بھی اس لئے کہ ہمیں کوئی بزدل نہ کہے یا بدخواہ نہ سمجھے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بنفس نفیس لڑائی میں شریک ہیں اور رسول اللہ بحیثیت دین کے جو کام کریں اس میں تمہارے لئے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور پچھلے دن قیامت کے روز کی بہتری کی توقع رکھتے ہیں یعنی آخری دن کے ملنے کی تیاری کرتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں رسول اللہ حضرت محمدﷺ ان کے لئے عمدہ نمونہ ہے وہ دین کے کاموں میں جو کچھ کریں اس کی پیروی کرنی تم کو واجب ہے اسی لئے تو جو لوگ پختہ ایماندار ہیں وہ ہر بات میں پیغمبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کو یاد رکھتے ہیں اور اس کے پابند رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب پختہ ایمانداروں نے کفار کی فوجوں کو دیکھا تو کہا یہ تو وہی واقعہ ہے جس کا وعدہ اللہ اور رسول نے ہم سے پہلے ہی سے کیا ہوا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا واقعی جو کچھ فرمایا تھا وہی ہوا اس میں ذرہ بھی تخلف نہ ہوا ہم سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ ؎ در مسلخ عشق جز نکورا انکشند لاغر صفتان وزشت خورا انکشند گر عاشق صادقی زکشتن مگر یز مردار بود ہر آنچہ اور انکشند جب سے ہم کو یہ ارشاد ہوا ہے ہم تن بتقدیر تھے چنانچہ آج ہم نے بچشم خود دیکھ لیا کہ کفار کی فوجیں بے انتہا ہمارے سامنے ہیں مگر ہم اپنے ایمان پر پختہ ہیں ان کو اللہ نے تسلی بخشی اور اس مشکل واقعہ سے بھی ان کے ایمان اور تسلیم میں زیادتی ہوئی کہ الحمدللہ جیسے جیسے خام لوگ مصیبت میں گرتے گئے پختہ ایمان دار ترقی کرتے گئے ذلک فضل اللہ انہی پختہ ایمانداروں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے جان نثاری اور فرمانبرداری کے وعدے کئے تھے اس میں وہ پورے اترے ان میں سے بعض نے اپنی کامیابی حاصل کرلی یعنی شہید ہوگئے کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہی قرار دے رکھا تھا کہ مر کر حیوۃ پائیں اور بعض ان میں کے ابھی اس انتطار میں ہیں کہ کب کوئی موقعہ ملے کہ جان دے کر جان لیویں اور انہوں نے اس وعدے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی کیونکہ وہ جانتے ہیں ناں اگر تو میدہی نانت دہند جان اگر تو مید ہی جانت دہند وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جان کا ہی نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کے سچ کا نیک بدلہ دے گا اور منافقوں یعنی دور خون کو چاہے گا تو عذاب کرے گا یا ان پر رحم فرمادے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ان مومنوں کے استقلال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو فتح دی اور کافروں کو غصے ہی میں بے نیل مرام واپس کیا انہوں (کافروں) نے اس مہم میں کچھ فائدہ نہ پایا اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جنگ سے بچا لیا کہ بغیر لڑائی بھڑائی کے کافر چلتے بنے کیونکہ مسلمان مضبوط رہے اور ان کے مضبوط رہنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا قوی اور غالب ہے اس نے ان کو قوت بخشی اور اہل کتاب یہودیوں میں سے جن لوگوں نے ان مکہ کے مشرکوں کی مدد کی تھی اور ان کا ناجائز ساتھ دیا تھا اللہ نے ان کو قلعوں میں سے باہر نکال مارا۔ اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ باوجود اچھی خاصی اور کافی تعداد ہونے کے بھی وہ کچھ نہ کرسکے حالانکہ ایک فریق کو جو تمہارے مقابلہ میں آیا اس کو تو تم قتل کرتے تھے اور مستورات بچوں اور بوڑھوں کی ایک جماعت کو تم قید کررہے تھے مگر کسی جانب سے صدائے برنخواست کوئی اف تک نہ کرتا تھا ایسے مبہوت اور مرعوب تھے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند۔ اسی لئے اللہ نے تم کو ان پر فتح دی اور ان کی زمینوں مکانوں اور ان کے مالوں کا تم کو مالک کردیا جو غنیمت میں تم کو ملے اس کے علاوہ اور زمین کا بھی تم کو مالک کیا جس پر تم نے ابھی تک قدم بھی نہیں رکھا بلکہ محض اللہ کے فضل سے ایسا ہوا ہے کیونکہ تمہاری مظلومیت کی اب حد ہوگئی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے صرف حکم کی دیر ہے وہ اگر کسی مقرب بندے کو تنگ حال رکھتا ہے تو اسکی بھی کوئی حکمت ہوتی ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو وسعت نہیں دے سکتا بلکہ ان بندگان اللہ کو بھی ایسی ہی حالت مرغوب ہوتی ہے کہ انکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر وسعت روز گار کا اختیار دیا جائے تو وہ کہتے ہیں (مدینہ منورہ میں یہودیوں کی دو قومیں بڑی سخت رہتی تھیں ایک کا نام بنی قریظہ تھا اور دوسری کا نام بنی نضیر تھا۔ دونو قومیں ہمیشہ مسلمانوں کی چلتی گاڑی میں روڑا اٹکاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے چند آدمی (سلام بن ابی الحقیق۔ حیی بن اخطب۔ کنانہ بن ربیع اور ابو عمار وائلی وغیرہ مل کر) مکہ والوں کے پاس آئے اور یہ واقعہ ہجرت سے چوتھے سال کا ہے مکہ والوں کو آن کر یوں بہکایا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں آئو مل کر ان مسلمانوں کا ستیاناس کر ڈالیں۔ مکہ میں بھی بعض سردار تجربہ کار تھے انہوں نے کہا تم لوگ پڑھے لکھے ہو اور ہمارے اور مسلمانوں کے اختلاف پر بھی مطلع ہو۔ بھلا یہ تو بتائو کہ ہم دونو میں سے کس کا مذہب اچھا ہے؟ یعنی بت پرستی اچھی ہے یا اسلام اچھا ہے؟ خود مطلب یہودیوں نے باوجودیکہ ان کے مذہب میں بھی بت پرستی منع تھی صاف کہہ دیا کہ تم لوگ مسلمانوں سے اچھے ہو اور تمہارا دین بھی ان کے دین سے اچھا ہے اس کے بعد یہودیوں نے مکہ والوں کا دیو شیشے میں اتار لیا۔ یہاں تک کہ ان سے پختہ وعدہ بلکہ بیعت اس امر کی لی کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ضرور لڑیں گے قریشیوں سے وعدہ لے کر یہودیوں کا یہ ڈیپوٹیشن (وفد) غطفان۔ قیس اور غیلان کے قبیلوں کے پاس گیا۔ ان کو تو بس اتنا ہی کافی تھا کہ قریشیوں نے وعدہ کرلیا ہے کیونکہ ایسے معاملات میں قریش عموماً سردار تھے غرض کہ سب کو انہوں نے جنگ پر آمادہ کرلیا آخر کار قریش اور دوسری قومیں مل کر مہم عظیم کی شکل میں نکلیں قریش کا جرنیل ابوسفیان والد معاویہ (رضی اللہ عنہما) تھا اور غطفان کا جرنیل عینیہ بن حصن تھا جب ان کی خبر حضور نبوی تک پہنچی تو آپ نے بمشورہ حضرت سلمان فارسی مدینہ کے اردگرد ایک خندق کھودنے کا حکم دیا بلکہ بذات شاہان خود بھی اس خندق کھودنے میں شریک رہے آنحضرت نے ایک خط طویل کھینچ دیا اور مہاجر اور انصار (رض) کو خندق کھودنے پر مامور فرمایا۔ اس موقع پر ایک عجیب واقعہ ظاہر ہوا کہ ایک مقام پر ایک سخت پتھر ایسی طرز سے پیش آیا کہ آنجناب کے خط میں رخنہ انداز تھا اور سخت بھی تھا۔ صحابہ کرام نے اپنی طبعی اطاعت کے لحاظ سے مناسب نہ سمجھا کہ ہم باختیار خود اس خط سے جو خود سرور کائنات نے ہم کو کھینچ دیا ہے خلاف ورزی کریں اس لئے انہوں نے آنجناب کی خدمت میں اطلاع کی حضور نے بعد ملاحظہ خود اپنے ہاتھ سے اس پتھر پر ایک ضرب رسید کی تو اس میں سے ایک چمکارا سا نکلا حضور نے یہ دیکھ کر تکبیر اللہ اکبر پڑھی۔ یہ سن کر سب مسلمانوں نے تکبیر کہی۔ اسی طرح تین دفعہ ہوا آخر اس تکبیر کا سبب حضرت سلمان فارسی کے دریافت کرنے پر حضور نے فرمایا کہ پہلی دفعہ جو چمکارا سا نکلا اس سے مجھ کو مقام حیرہ اور ملک فارس کے محلات دکھائے گئے اور مجھ کو اللہ کی طرف سے بتلایا گیا ہے کہ ان محلات پر میری امت قابض ہوگی پھر جب دوسری دفعہ میں نے مارا تو اس مارنے سے جو روشنی پیدا ہوئی اس سے قیصر روم کے محلات دکھائے گئے اور کہا گیا کہ ان محلات پر تیری امت قابض ہوگی پھر تیسری دفعہ کی روشنی میں ملک صنعا کے محلات دکھائے گئے اور کہا گیا کہ یہ محلات تیری امت کو ملیں گے پس تم مسلمان خوش ہو۔ مسلمانوں نے کہا الحمدللہ اللہ کے وعدے سچے ہیں (چنانچہ ایسا ہی ہوا) یہ پیش گوئی سن کر منافقوں نے بطور طعن کے کہا کہ لو بھئی باہر پائخانہ پھرنے کو تو جا نہیں سکتے اور ملکوں کی فتح کے خواب دیکھتے ہیں مگر ان کو معلوم نہ تھا مادرچہ خیالیم وفلک درچہ خیال کارے کہ اللہ کند فلک راچہ مجال آخری وہی ہوا جو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا تھا۔ خندق کے موقع پر صحابہ کرام کو کفار کی طرف سے بیشمار تکالیف پہنچیں۔ گھبراہٹ جنگ کے علاوہ قحط کی شدید تکلیف یہاں تک ہوئی کہ الامان ! ایک واقعہ اسی کے متعلق صحیح بخاری سے ہم سناتے ہیں :۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ خود حضور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ مبارک پر بھوک سے پتھر بندھا ہوا تھا۔ تین روز تک ہم ایسے ہی بھوکے رہے آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے عرض کیا حضرت ! مجھے اجازت ہو تو اپنے گھر تک ہو آئوں۔ میں نے گھر میں آ کر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے حضور کے چہرے مبارک پر بھوک کی وجہ سے ایسی کچھ حالت دیکھی ہے کہ مجھ سے اس کے دیکھنے پر صبر نہیں ہوسکا۔ تیرے پاس اناج ہے؟ اس نے کہا کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جھٹ سے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور اس نے وہ جو چکی میں پیس لئے۔ ہم نے ایسی پھرتی کی کہ جھٹ سے ہنڈیا چولھے پر دھر دی اور آٹا بھی گوندھ لیا۔ میں نے آ کر حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور تھوڑا سا کھانا موجود ہے حضور خود اور ایک دو آدمی اور ساتھ لے چلئے۔ حضور نے پوچھا۔ کتنا ہے؟ میں نے اس کا اندازہ بتلایا کہ تھوڑا سا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ بہت ہے۔ مجھے حکم دیا کہ جا اپنے گھر میں کہہ دے کہ جب تک میں نہ آئوں چولھے پر سے ہنڈیا مت اتاریو اور تنور میں روٹیاں مت لگائیو یعنی روٹی پکانا شروع بھی نہ کرنا۔ ادھر تو مجھ کو یہ فرمایا۔ ادھر فوج میں سب کو کھانے کے لئے فرما دیا۔ میں نے اپنی بیوی سے خفگی کے لہجے میں کہا۔ کمبخت یہ دیکھ ! آنحضرت تو تمام لشکر کے ساتھ آگئے اب کیا کرے گی؟ میری بیوی نے کہا۔ تجھ سے آنحضرت نے کچھ پوچھا تھا؟ میں نے کہا ہاں ! اس کی غرض یہ تھی کہ جب پوچھ کر لشکر کو ساتھ لائے ہیں تو خود ہی انتظام فرما دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ اندر چلو اور گھبرا کر نہ چلو۔ آپ نے روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور ہنڈیا اور تنور کو اوپر سے ڈھانپ دیا اور روٹیوں کے ٹکڑوں پر گوشت اور شوربا ڈال کردیتے جاتے تھے یہاں تک کہ تمام لشکر نے سیر ہو کر کھالیا۔ پھر میری بیوی کو فرمایا۔ اب تو کھا اور اپنی سہیلیوں اور پڑوسیوں کو تحفہ میں بانٹ۔ غرض اس قسم کی تکلیفات شاقہ آپ کو اور تمام مسلمانوں کو کئی دنوں تک رہیں۔ آخر کار مکہ والوں اور بنی قریظہ اور بنی نضیر میں بھی کچھ بدگمانیاں ہوگئیں ادھر اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کی سخت ہوا اور ملائکہ کی مدد بھیجی جس کا ذکر قرآن شریف کی ان آیات میں ہے بس اس آفت نے تو مکہ کے مشرکوں کے چھکے چھڑا دئیے اور وہ ایک ایک کر کے بھاگتے بنے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی بھڑائی کے بغیر ہی فتح بخشی۔ (منہ) الأحزاب
10 الأحزاب
11 الأحزاب
12 الأحزاب
13 الأحزاب
14 الأحزاب
15 الأحزاب
16 الأحزاب
17 الأحزاب
18 الأحزاب
19 الأحزاب
20 الأحزاب
21 الأحزاب
22 الأحزاب
23 الأحزاب
24 الأحزاب
25 الأحزاب
26 الأحزاب
27 الأحزاب
28 (28۔30) پس اے نبی ! تو اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور زیب و زینت چاہتی ہو اور اس لئے مجھے تنگ کرتی ہو کہ میں تم کو فاخرہ لباس اور زیورات بنا دوں تو بہتر ہے آئو میں تمہیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے چھوڑ دوں کیونکہ مجھ درویش کے گھر میں اس قسم کے جھگڑے غیر موزوں ہیں کیا تم نے نہیں سنا کہ قرار درکف آزادگاں نگیر و مال نہ صبر درد دل عاشق نہ آب در غربال (زیور کی خواہش عورتوں میں طبعی امر ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ازواج مطہرات نے حسب عادت مستورات کے زیب و زینت کے سامان کچھ طلب کئے اور بضد طلب کئے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) (اس طرح ترجمہ کرنے میں اشارہ ہے کہ منکن میں من بیانیہ ہے نہ بیعضیہ۔ اس لئے کہ دوسری آیت میں کل ازواج مطہرات کو طیبات کہا ہے الطیبت للطیبین والطیبون للطیبات۔ پس اس جگہ من تبعیضیہ مراد لینا صیح نہیں (منہ) دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں راچہ کند اور اگر تم میری ہدایت کی تابع ہو کر اللہ اور رسول کی خوشنودی اور دار آخرت کی زندگی کو چاہتی ہو تو سنو ! اللہ تعالیٰ نے تم ! نیکو کاروں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے سنو ! اللہ تعالیٰ خود تم کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرماتا ہے اے پیغمبر کی بیویو ! یہ مت سمجھنا کہ تم ازواج مطہرات ہو کر کسی ایسے رتبے پر پہنچ گئی ہو کہ کسی طرح کا تم سے مواخذہ نہ ہوگا بلکہ یاد رکھو کہ جو کوئی تم میں سے کوئی ناشائستہ حرکت کرے گی اس کو دوسروں کی نسبت دگنا عذاب کیا جائے گا اور اللہ کے نزدیک یہ کام بہت آسان ہے اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تابعدار رہے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو دوسروں سے دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔ الأحزاب
29 الأحزاب
30 الأحزاب
31 (31۔34) اے نبی کی بیویو ! تم کسی اور عورت کے رتبہ کی نہیں ہو تم حرم محترم نبوی ہو تم مہبط نزول وحی ہو تم اہل بیت رسول ہو غرض تم سب کی سردار ہو تمام امت نے تمہارے طریق پر چلنا ہے پس اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہوجیسی کہ تم سے توقع ہے تو تم کسی شخص کے ساتھ جو پس پردہ تم سے بولے دبی زبان سے باتیں مت کرنا ورنہ جن لوگوں کے دلوں میں فسق و فجور یا نفاق کی بیماری ہے وہ اپنے مطلب کی توقعات رکھنے لگیں گے اس لئے جواب دیتے وقت بھی تم کسی قسم کی غیر معمولی نزاکت کا اظہار نہ کیا کرنا یہ مطلب بھی نہیں کہ خواہ مخواہ بدزبانی اختیار کرنا نہیں بلکہ ملائمت سے باتیں کیا کرو اور دستور کے موافق بات کہا کرو جس میں کسی قسم کی نہ غیر معمولی نزاکت آمیز نرمی معلوم ہوجیسی بعض نازک مزاج عورتیں معشوقانہ ادائیں ہر رنگ میں دکھایا کرتی ہیں نہ غیر معمولی سختی ہو کہ سننے والا تمہاری بد اخلاقی کا قائل ہوجائے جس سے حرم نبوی کی بھی بدنامی ہو اسی لئے تم کو حکم ہے کہ تم امن چین سے رہو اور اپنے مکانوں میں قرار و وقار سے رہنا اور پہلے زمانہ کی جاہلیت کی طرح برہنہ نہ پھرنا جیسے ہندوستان کی ہندوانی عورتیں پھرا کرتی ہیں کہ ہر کہ دمہ ان کو دیکھتا ہے اور دل لگی کرتا ہے تم نے ایسا مت کرنا اور نماز پڑھتی رہنا اور زکوٰۃ دیتی رہنا اور بڑی بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہنا یہ تاکیدی حکم تم اہلبیت اور خاندان رسالت کو اسلئے دئیے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بس یہی منظور ہے۔ کہ وہ تم اہل بیت سے بداعتقادیوں اور بداعمالیوں کی نجاست دور رکھ کر تم کو بالکل پاک اور صاف ستھری نتھری کرے اس وقت جو تم بمنشاء اللہ وندی حرم نبی کی عزت سے معززہو تمہاری اس وقت کی پاکیزگی اور صفائی پر کافی دلیل ہے کیونکہ اگر تم ایسی نہ ہوتیں تو پیغمبر اللہ کے ساتھ تمہارا جوڑ نہ ہوتا تمہاری آئندہ کی صفائی کے لئے ہمارا یہ حکم کافی ضمانت ہے پس تمہارے مخالفوں کو چاہئے کہ وہ اپنی بدزبانی اور نیش زنی سے زبان کند رکھیں اس لئے اے اہلبیت ! تم مطمئن رہو اور جو کچھ اللہ کی آیات اور ایمانی حکمت تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں تم ان کو خوب یاد کیا کرو یہی قرآن اور الٰہی حکمت تمہاری حفاظت اور حمایت کریں گے جو لوگ انہی کے پیرو ہو کر دین سیکھیں گے وہ تو سیدھی راہ پاوینگے اور جو دینی امور کی تحقیق کا مدار غلط روایات اور نفسانی خواہشات پر رکھیں گے وہ خود بھی بہکیں گے اور لوگوں کو بھی بہکائیں گے اپنا ہی کچھ کھوئیں گے کسی کا کیا گنوائیں گے بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے جو کوئی جس نیت سے کام کرتا ہے اس کو جانتا ہے تم بھی اس کی خبرداری سے خبردار رہیو (اس آیت جو اَھْلبَیْت کا لفظ آیا ہے اس کے متعلق علماء اسلام کے دو گروہ ہیں ایک تو قرآن مجید کے ساتھ رہے ہیں دوسرے حدیث کی طرف چلے گئے ہیں۔ بظاہر ہمارے ایسا کہنے سے گمان ہوگا کہ قرآن و حدیث آپس میں مخالف ہیں۔ اس لئے ہم ذرہ تفصیل سے اس جگہ لکھیں گے :۔ کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید کی آیات بینات پر جو ادنیٰ سے نظر ڈالے اسے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے اھلبیت کا لفظ فرمایا ہے اس سے یقینا ازواج مطہرات ہی مراد ہیں کیونکہ تمام صیغے مؤنث کے ہیں تو انہیں کے لئے ہیں۔ خطاب ہے تو انہی کو ہے۔ آگے پیچھے جو الفاظ ہیں انہیں کے حق میں ہیں پہلے ان کو نِسَٓاء النّبی کہہ کر خطاب فرمایا ہے اس کے بعد سب صیغے مؤنث کے چلے آرہے ہیں حتی کہ لاتَبَرَّجْنَ بھی بصیغہ مؤنث فرمایا ہے جو ” اہل بیت“ سے پہلا لفظ ہے ” اہل بیت“ کے آگے بھی انہیں کو واذْکُرْنَ سے بصیغہ مؤنث خطاب ہے پس آیت کی نحوی ترکیب کے علاوہ معنوی ترکیب یہ ہے کہ اہل بیت کے لفظ سے پہلے جتنے جملے ہیں بمنزلہ دعویٰ کے ہیں اور یہ بمنزلہ دلیل کے۔ یہ گویا اس سوال کا جواب ہے جو کوئی کہے کہ ازواج نبی کو اس قدر مؤکد بصیغہ خطاب نام لے لے کر کیوں حکم دیئے جاتے ہیں تو اس کا جواب یوں ہوا کہ اللہ کو ان کا پاک کرنا منظور ہے اور اگر اھلیبت سے مراد ازواج مطہرات نہ ہوں بلکہ ان کے سوا چارتن پاک (حضرت علی۔ فاطمہ۔ حسن۔ حسین (رض) مراد ہوں جیسا کہ فریق ثانی کا خیال ہے تو آیت موصوفہ ایک ایسا بے جوڑ کلام بن جائے گی کہ جس کی نظیر دنیا بھر میں نہ ملے گی۔ جس کی تصویر یہ ہوگی کہ ” اے نبی کی بیویو ! تم یہ کرو۔ وہ کرو۔ اندر بیٹھو باہر نہ نکلو۔ اللہ چاہتا ہے کہ حضرت علی۔ فاطمہ۔ حسن اور حسین وغیرہ کو پاک کرے اور تم نبی کی بیویو ! قرآن یاد کیا کرو۔“ وغیرہ غالباً ناظرین اس ترجمہ ہی سے کلام کی خوبی کا اندازہ لگا سکیں گے اور اس کی مثال میں شاید وہ خود ہی اس کلام کو پا جائیں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص (زید) کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تم کھانا کھائو پانی پیو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ عمر (تیسرا شخص) سیر ہوجائے اور اس کی بھوک کی شکایت رفع ہو۔“ کیا ہی لطیف کلام ہے۔ فعل میں کوئی مخاطب ہے اور نتیجے میں کوئی اور۔ اس کے علاوہ قرآن شریف کا محاورہ ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر آدمی کی بیوی اہل بیت ہے۔ حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ کے قصے میں بیان ہے کہ فرشتے نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی تو حضرت ممدوح کی بیوی نے اس پر حیرانی کا اظہار کیا۔ فرشتے نے یہ حیرانی سن کر جواب دیا کہ اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِط اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (پ ١٢ ع ٧) یعنی اے اہل بیت ! اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں۔ تم اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہو؟“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت ” اہل بیت“ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر عربی۔ فارسی بلکہ کل زبانوں کا محاورہ دیکھیں تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عورت مرد کی اہل بیت ہے۔ مرد کی جب تک شادی نہ ہوئی ہو تو عرب کہتے ہیں تجرّد فلان وہ مجرد ہے اور جب شادی ہوجائے تو کہتے ہیں تاھّل فلان یعنی وہ متاہل ہوگیا۔ یہی محاورہ اردو فارسی میں بھی ہے مجرد اور متاہل۔ کچھ شک نہیں کہ انسان کی اولاد بھی اھل ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ ان کی اہلیت بھی بیوی کی اہلیت پر متفرع ہے اور بغور دیکھا جائے تو اولاد کی اہلیت ایک حد تک محدود ہے مگر بیوی کی اہلیت محدود۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد بالغ ہو کر خصوصاً اولاد اناث الگ ہوجاتی ہے مگر بیوی بیوی رہ کر کبھی الگ نہیں ہوتی۔ نہ اس کا الگ ہونا شرعاً و عرفاً صحیح ہوتا ہے۔ نہایت حیرانی ہے کہ لڑکی۔ داماد بلکہ نواسوں تک کو اہل بیت بنایا جائے مگر ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج سمجھا جائے اور قرآن شریف کو اس کے اصلی معنے سے الگ کر کے اپنی رائے کو مضبوط کیا جائے۔ بھلا یہ غفلت کب روا ہوسکتی ہے۔ اسی موقع پر بفرض مزید تحقیق فریق ثانی کے دلائل کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے تاکہ پوری تحقیق ہوسکے۔ فریق ثانی کی ایک دلیل تو اسی آیت کے بعض الفاظ ہیں مگر سروفتر ان کی دلیل ایک حدیث ہے اور کسی قدر خلو محبت بھی شامل ہے۔ آیت کے جس لفظ سے وہ دلیل یا قرینہ بتلاتے ہیں وہ اہل بیت کے ساتھ کُمْ صیغہ جمع مذکر ہے وہ کہتے ہیں اہل بیت کہہ کر جس صیغے سے ان کو خطاب کیا ہے وہ مذکر کا صیغہ ہے تو معلوم ہوا کہ اہل بیت کوئی مذکروں کی جماعت ہے یا کم از کم ان میں مذکروں کی کثرت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کُمْ کی تذکیر بلحاظ اھل کے ہے کیونکہ اھل کا لفظ مذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے قصے میں بھی اہل البیت کے ساتھ بصیغہ مذکر ہی خطاب ہوا ہے غور سے دیکھئے اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ اسی طرح حضرت موسیٰ کے قصے میں ہے قال لِاَھْلِہِ امْکُتُوْا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا حضرت موسیٰ نے اپنے اہل سے کہا کہ ٹھیرو میں نے آگ دیکھی ہے اس جگہ اہل کو بصیغہ مذکر اُمْکُثُوْا خطاب کیا گیا ہے پس اس صورت کی تذکیر سے مخاطبوں کا مذکر ہونا لازم نہیں آتا۔ حدیث جو اس دعوٰے پر لائی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ قالت عائشۃ خرج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غداۃ وعلیہ مرط مرحل من شعرا سود فجاء الحسن بن علی فادخلہ ثم جاء الحسین قد خل معہ ثم جلوت فاطمۃ فادخلھا ثم جاء علی فادخلہ ثم قال اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجّسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَ کُمْ تَطْھِیْرًا (دواہ مسلم) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صبح کو نکلے تو آپ پر ایک سیاہ لوئی تھی اتنے میں حسن بن علی اور حسین بن علی آئے پس اسی لوئی میں داخل ہوگئے زاں بعد حضرت فاطمہ آئیں پس وہ بھی اس میں داخل ہوگئیں پھر حضرت علی آئے وہ بھی اسی میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ یعنی اللہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے ناپاکی کو دور رکھے اور تم کو بالکل پاک رکھے۔ “ فریق ثانی کہتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے خود فرما دیا کہ یہ حضرت (علی۔ فاطمہ۔ حسن اور حسین (رض) اہل بیت ہیں اور آپ نے خود یہ آیت انہیں کے حق میں پڑھی تو پھر کسی دوسرے کے لئے کیا مجال رہی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ پیغمبرﷺ نے اس آیت کو ان حضرات پر پڑھا تو اس سے یہ غرض نہ تھی کہ اس آیت کا مصداق بتلا دیں بلکہ یہ آپ نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ! میں چاہتا ہوں کہ جس طرح تو نے میرے حقیقی اہل بیت کے ساتھ وعدہ طہارت فرمایا ہے اس وعدہ میں ان کو بھی شریک فرما لے کیونکہ یہ بھی گویا میرے اہل بیت ہیں۔ قرینہ اس تاویل کا ایک اور روایت ہے جو اسی قصے میں برروایت ترمذی یوں آئی ہے کہ جس وقت آپ نے اصحاب کسا (بوئی والوں) کو لوئی میں چھپا کر دعا کی تھی اس وقت قالت امّ سلمۃ وانا معھم یا نبی اللّٰہ قال انت علٰی مکانک وانت علیٰ خیر (ترمذی کتاب التفسیر) حضرت ام سلمہ (رض) (زوجۂ رسول اللہﷺ) نے عرض کیا کہ حضرت ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا تو اپنے مرتبہ پر ہے تو سب سے اچھی حالت میں ہے۔ اس روایت میں ام سلمہ کو علیٰ خیر کہہ کر حضور نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید میں جو اہل بیت کا لفظ آیا ہے اس کی حقیقی مصداق آپ کی ازواج مطہرات ہی ہیں اور اصحاب کسا (لوئی والے) العاقی اور معنوی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ اصلی مصداق الحاقی سے خیر اور افضل ہوتا ہے اس کی مثال بھی ایک یہاں لکھتا ہوں :۔ کسی شخص کے دو بیٹے ہیں اور دو یتیم بھتیجے۔ شخص مذکور کی کوشش ہے کہ میرے یتیم بھتیجے بھی میری جائداد سے حصہ لے سکیں تو مرنے کے وقت یا زندگی میں کسی وقت اس نے لوگوں کے سامنے بھتیجوں کو بٹھا کر کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اللہ ان کو لائق و فائق بنا دے یہ سن کر اور یہ حالت دیکھ کر شخص مذکور کا حقیقی بیٹایوں کہے کہ مجھے بھی اس دعا میں شریک کیجئے شخص مذکور یہ سن کر کہے انت علیٰ مکانک انت علیٰ خیر تو تو اپنے درجہ پر ہے اور تو بہت اچھی حالت میں ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شخص اپنے اصلی بیٹے کو تو بیٹا جانتا ہے لیکن اس تجویز سے کوشش اس کی یہ ہے کہ میرے بھتیجے جو حقیقتاً میری نسل سے نہیں ہیں میری دعا ہے کہ ترقی مدارج میں میری نسل کے ساتھ ملحق ہوجائیں یہ غرض نہیں کہ وہ ان کو اپنا اصلی بیٹا ظاہر کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پیغمبر رسول ﷺ نے اصحاب کسا کو اس رحمت الہٰی میں جو اہل بیت کے لئے اللہ کے وعدے میں آچکی تھی۔ اصحاب کسا کو شامل کرنے کی دعا اور تمنا ظاہر فرمائی۔ اس سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ ہوا کہ اصحاب کسا بھی معنوی طور سے اہل بیت کے ساتھ ملحق ہیں یا امید ہے کہ ملحق ہوں۔ چشم ماروشن دل ماشاد۔ اس کی یا اس کی ضد کی ایک اور مثال حدیثوں سے ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید سورۂ کہف میں ارشاد ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ھٰذَا الْقراٰن للنَّاسِ مِن کُلِّ مَثَلٍ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا۔ (اللہ فرماتا ہے کہ) ” ہم نے قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بتلائی ہیں مگر انسان بڑا جھگڑالو ہے۔ “ اس آیت میں انسان کو بڑا جھگڑالو کہا ہے اور اس کے جھگڑے کو ناپسند کیا ہے اس لئے علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ اس جگہ انسان سے مراد کافر انسان ہے۔ اچھا اب ایک حدیث بھی سنیئے ! صحیح بخاری باب التہجد میں ایک حدیث ہے کہ پیغمبر ﷺ حضرت علی اور حضرت فاطمہ (رض) کے گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم دونو تہجد کی نماز پڑھا کرو۔ حضرت علی نے جواب میں کہا ہمارے نفس اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے۔ یہ جواب سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے آئے اور فرمایا کانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر یہ آیت پڑھی تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے حضرت علی کو اس آیت کا مصداق ٹھیرایا؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ آیت تو یقیناً کافر کے حق میں ہے لیکن حضرت علی کے اس جواب کو ناپسند کر کے بلحاظ اس جواب کے کسی قدر (نہ کہ کلیتہً) حضرت علی کو ان مجادلین سے ملحق فرمایا یا ملحق ہوجانے کا خوف دلایا۔ اسی طرح اہل بیت کے وصف طہارت میں اصحاب کسا کو شامل کرنے کی آپ نے دعا اور تمنا ظاہر کی نہ کہ اہل بیت کا حقیقی مصداق بتلایا۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ان آیات کا ترجمہ ہی بغور پڑھے تو اس کو معلوم ہوسکتا ہے کہ جس طرح حضرت محمد ﷺ کی رسالت میں شک نہیں اسی طرح ازواج مطہرات کے حقیقی اہل بیت ہونے میں کلام نہیں فافھم ولاتکن من الممترین ؎ زاہد ! تیری نماز کو میرا سلام ہے بے حب اہل بیت عبادت حرام ہے الأحزاب
32 الأحزاب
33 الأحزاب
34 الأحزاب
35 اگر تم کو خیال گذرے کہ ہمیں جو تابعداری کا ایسا زور دار حکم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ ہم کو کیا ملے گا تو سنو ! تم تو ایک بہت بڑے درجے پر ہو اللہ کے ہاں تو عام قانون ہے کہ پکے مسلمان مردوں اور عورتوں ایمان دار مردوں اور عورتوں فرمانبردار مردوں اور عورتوں سچے یعنی راست گو مردوں اور عورتوں صابر مردوں اور عورتوں اللہ سے ڈرنے والے مردوں اور عورتوں صدقہ خیرات کرنے والے مردوں اور عورتوں روزہ دار مردوں اور عورتوں اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں اور اللہ کا بہت بہت ذکر کرنیوالے مردوں اور عورتوں غرض ان سب کے لئے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا بدلہ تیار کر رکھا ہے ان کے اعمال صالحہ کا عوض ان کو ضرور ملے گا لیکن فرمانبرداری اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے ہاں ہاں کرے اور عمل وغیرہ کچھ نہ کرے بلکہ فرمانبرداری یہ ہے کہ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے الأحزاب
36 اسی لئے کسی مسلمان مرد یا عورت کو لائق نہیں کہ جب کسی دینی کام میں اللہ اور اس کا رسول ان کے متعلق فیصلہ کردیں یعنی حکم دیں تو ان مسلمانوں کو بھی اپنے کام میں اختیار باقی ہو یعنی جب اللہ کی طرف سے کوئی کام میں اختیار باقی ہو یعنی جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم آجائے خواہ ان کی طبائع کے بر خلاف ہی ہو ان کو لائق نہیں کہ چون و چرا کرے اور کیونکہ کر چون و چرا کرسکیں جبکہ عام قانون وہ سن چکے ہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بے فرمانی کرتا ہے وہ صریح گمراہی میں پڑجاتا ہے اس آیت کے متعلق تفسیروں میں شان نزول لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب (رض) کا نکاح زید سے کرنا چاہا تھا مگر چونکہ زید عام نظروں میں ایک غلام تھا اور زینب ایک شریف خاندان کی آزاد عورت تھی اس لئے زینب اور اس کے بھائی دونوں نے یہ رشتہ نامنظور کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مگر بغور دیکھا جائے تو یہ شان نزول صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اصول شریعت کے مطابق دیکھا جائے تو گو نکاح کرنا ایک شرعی حکم ہے مگر یہ بات کہ نبی کسی خاص عورت کو کسی خاص مرد سے یا کسی خاص مرد کو کسی عورت سے نکاح کرنے پر شرعی طور پر مامور کرے صحیح نہیں یعنی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو فلاں مرد سے شادی کر۔ اور اگر وہ عورت نہ مانے تو نافرمان قرار پائے۔ ہمارے اس دعویٰ پر بریرہ (رض) والی حدیث قوی شہادت ہے جس میں مذکور ہے کہ بریرہ نکاح مغیث (رض) سے تھا مگر بریرہ جب آزاد ہوئی تو بحکم شریعت اس کو سابقہ نکاح رکھنے نہ رکھنے میں اختیار تھا۔ بریرہ نے مغیث کے ساتھ نکاح رکھنے سے انکار کردیا۔ مغیث اس کا شیفتہ تھا۔ دیوانہ وار اس کے پیچھے روتا پھرتا۔ یہاں تک کہ حضور نبوی تک بھی خبر پہنچی تو حضور کو رحم آیا۔ آپ نے اپنی مجلس میں ایک دفعہ سرسری طور پر فرمایا کہ مغیث کی محبت اور بریرہ کا بخل بھی قابل دید ہے۔ یہاں تک آپ کو رحم آیا کہ آپ نے بذات خود بریرہ سے کہا کہ تو مغیث کو قبول کرلے۔ اس دانا عورت (رضی اللہ عنہا) نے کیسا آزادانہ جواب دیا کہ حضور آپ مجھ کو حکم فرماتے ہیں یا مشورہ دیتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ حکم نہیں کرتا مگر مشورہ دیتا ہوں۔ بریرہ نے کہا حضور مجھے معاف فرمائیے۔ میں اس پر عمل نہیں کرتی۔ یہ سن کر حضور نے بھی کوئی رنج ظاہر نہ فرمایا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح۔ طلاق وغیرہ گو احکام شرعی ہیں لیکن خصوصیت سے ان میں مسلمان مجبور اور مامور نہیں کہ فلاں عورت سے فلاں مرد سے نکاح کرے خواہ نبی کی طرف سے بھی سفارش ہو۔ تاہم مسلمان اس میں مختار ہے۔ جب ہم اس اصول عامہ کو ملحوظ رکھ کر روایت مذکورہ کو جانچتے ہیں تو وہ ہم کو راوی کا اپنا فہم معلوم ہوتا ہے جو واقعہ نہیں۔ ہمارا یہ کہنا کہ ” راوی نے اپنے فہم سے یہ شان نزول بیان کردیا ہے جو واقعہ نہیں“ کوئی صاحب نیا دعویٰ نہ سمجھیں حضرت استاد الہند شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ اپنے رسالہ فوز الکبیر فی اصول التفسیر میں شان نزول کے متعلق ایک بسیط مضمون لکھتے ہیں اسی میں یہ بھی فرمایا ہے کہ بسا اوقات راوی اپنے فہم سے کسی آیت کو ایک واقعہ کے ساتھ چسپان سمجھتا ہے تو وہ حکم لگا دیتا ہے کہ اسی واقعہ کے متعلق اتری ہے چنانچہ اس کی بہت سی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ شان نزولوں کا تعدد بھی اسی اصول پر مبنی ہے چنانچہ اس آیت کے متعلق بھی متعدد“ شان نزول آئے ہیں۔ غالباً اسی لئے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فھٰذہ الاٰیۃ عامۃ فی جمیع الاَمور وذٰلک انہ اذاحکم اللّٰہ ورسولہ بشیء فلیس لاید مخالفۃ ولا اختیار لاحد (تفسیر ابن کثیر) یعنی یہ آیت سب احکام میں عام ہے جب کبھی اللہ اور رسول کسی کام میں حکم دیں تو کسی مسلمان کو اس کی مخالفت جائز نہیں اس تشریح کے بعد ہم اس آیت کے دوسرے حصے پر آتے ہیں جس میں ہم کو کفار سے روئے سخن ہے۔ عیسائیؔ اور آریہ وغیرہ نے اپنی تصنیفات میں پیغمبر اسلام (علیہ السلام) پر جس قدر مطاعن لکھے ہیں ان میں بہت سا حصہ اسی آیت کی وجہ سے ہے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے معاذ اللہ شہوت سے مغلوب ہو کر اپنے بیٹے (زید) کی بیوی اس سے چھڑوا کر آپ شادی کرلی۔ یہ حرکت ایک شائستہ آدمی کی شان کے بھی مخالف ہے چہ جائیکہ ایک نبی کے شایان شان ہو۔ ہمارے خیال میں ان مخالفین کے اعتراضوں کی بنا زیادہ تر ہمارے ہی نادان دوستوں کی تحریریں ہیں جنہوں نے اپنی کم فہمی سے اس آیت کے متعلق وہ الفاظ تفسیروں میں جمع کردیئے ہیں کہ ایک شریف آدمی کو سننے سے شرم آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ :۔ ” آنحضرت ﷺ ایک دفعہ زید کے گھر میں تشریف لے گئے تو زینب جو ایک خوبصورت عورت تھی دوپٹہ لئے بیٹھی تھی آپ کی نگاہ اس پر پڑگئی بس ایک ہی نگاہ میں دل ایسا بے قابو ہوا کہ حضور کے منہ سے بھی بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ سبحان اللّٰہ مقلب القلوب (اللہ دلوں کے پھیرنے والا ہے) جب زید (اس کا خاوند) آیا تو زینب نے اس سے یہ واقعہ ذکر کیا اور یہ سن کر اس کے دل میں زینب کی طرف سے کچھ کراہت سی پیدا ہوگئی اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر زینب کو طلاق دینے کا منشا ظاہر کیا۔ “ یہ ہے وہ روایت جو بعض کم فہم مفسرین نے بے تنقید نقل کردی ہے۔ اس کی تردید کرنے کی ہمیں حاجت نہیں بلکہ جو کچھ سلف مفسرین نے اس کی تردید کی ہے ہم وہی نقل کرتے ہیں۔ تفسیر خازن میں لکھا ہے :۔ کہ ایسا کہنے والے نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان پر بہت بڑا حملہ کیا ہے بھلا یہ کیونکر کوئی کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اب دیکھا ہو۔ حالانکہ زینب آپ کی پھوپھی زاد تھی۔ لڑکپن ہی سے آپ اس کو دیکھتے رہے اس وقت چونکہ پردہ کا حکم بھی نہ تھا اس لئے عورتیں آپ سے چھپا بھی نہ کرتی تھیں آپ ہی نے اس کی شادی زید سے کرائی تھی۔ پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ کہ آپ بظاہر تو زید کو سمجھادیں کہ اسے مت چھوڑ اور دل میں اس کی طلاق کی خواہش ہو۔ “ اس تردید کے علاوہ بغور دیکھا جائے تو خود اسی روایت میں اس کی تردید کے الفاظ ملتے ہیں۔ اسی روایت میں ہے کہ زید نے جب اس کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور حضور نے فرمایا ارابک منھا شیء کیا تجھے اس کی کوئی بات ناپسند آئی ہے زید نے عرض کیا مارایت منھا الا خرماً ولٰکنھا تتعظم علیٰ بشر فھاوتؤذینی بلسانھا (میں نے اس میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ پایا لیکن وہ اپنی خاندانی شرافت کی وجہ سے مجھ پر علو رکھتی ہے اور مجھے کمینہ جانتی ہے اور زبان کی بدگوئی سے مجھے ایذا دیتی ہے) ان الفاظ میں زید نے زینب کی ناچاقی اور طلاق تک نوبت پہنچنے کے اسباب خود ہی بتلائے ہیں اور حضور کا روک رکھنے کی بابت اس کو حکم دینا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اب ناظرین کا اختیار ہے کہ اس روایت کے مصنف کو سچا سمجھیں اور جناب رسالت مآب اور صحابی زید کو جھوٹا جانیں کہ انہوں نے اس طلاق کی جو وجوہات بتلائیں وہ غلط تھیں بلکہ دراصل کچھ اور تھیں (معاذ اللہ) اس روایت کی تنقید کے بعد اب مخالفین سے تصفیہ بہت آسان ہے اصول گفتگو تو یہ ہے کہ نبی کی شان کے مخالف ہے کہ وہ کسی قسم کی بدکاری یا فسق و فجور کرے مگر گناہ کی تعریف ” حکم کے خلاف کرنا“ ہے یعنی جس کام کا حکم ہو اس کے برخلاف کرنا گناہ ہے۔ ہر ایک شریعت اور قانون میں یہی تعریف ہے۔ یہی باعث ہے کہ جب تک کسی کام کی ممانعت کا قانون پاس نہ ہو وہ جرم میں داخل نہیں سمجھا جاتا ١٩٠٨ئ؁ میں جب تک اخباروں کے متعلق ایڈیشن (فتنہ انگیز تحریروں) کا قانون سخت نہ کیا گیا۔ کسی ایسی تحریر پر کوئی گرفتار نہ ہوتا تھا مگر جونہی قانون جاری ہوا۔ تو بڑے بڑے معزز اس جرم میں جلا وطن کئے گئے۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ ہے اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ یعنی اگر تم ان کاموں کے کرنے سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم معمولی لغزشیں تمہاری معاف کردیں گے۔ اس آیت میں گناہ کی تعریف یہ کی ہے کہ جس کام سے منع کیا گیا ہو اس کا کرنا گناہ ہے پس تعریف کے مطابق مطلع بالکل صاف ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے کیا وہ اسلامی شریعت میں تو کیا کسی دین و مذہب میں بھی منع نہیں۔ متبنے (لے پالک) بنانا فطرت انسانی اور قانون قدرت کے صریح خلاف ہے اس لئے کہ باپ بیٹے کا تعلق یہ ہے کہ بچہ باپ کے نطفے سے وجود پذیر ہوتا ہے اسی سبب سے وہ اس کا باپ اور وہ اس کا بیٹا کہلاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بچہ اپنے باپ کا تو بیٹا کہلاتا ہے مگر چچا کا باٹگ نہیں کہلاتا لیکن جن قوموں میں متبنی بنانے کا دستور ہے وہ متبنی کو اصل والد سے بالکل الگ کر کے مصنوعی باپ سے جوڑ دیتے ہیں اور اس کی نسل کو اس بچہ سے جاری ہونا خیال کرتے ہیں (ملاحظہ ہوستیارتھ پرکاش ص ١٤٦) اس لئے قرآن مجید نے اس رسم کو مٹانے کے لئے متعدد ذریعے اختیار کئے۔ پہلے تو یہ فرمایا ماجَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ جن بچوں کو تم لے پالک بنا لیتے ہو اللہ نے ان کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ تو صرف تمہاری منہ کی باتیں ہیں جن کا اثر قدرتی کارخانہ پر کچھ بھی نہیں پڑتا۔ اتنا کہنے سے اس رسم کے حامیوں کو کسی قدر اس رسم سے نفرت ہوئی تو فرمایا اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ان لے پالک بچوں کو ان کے اصلی باپوں کے ناموں سے پکارا کرو ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ اللہ کے نزدیک یہی انصاف ہے۔ جب یہ حکم سنا کہ ان کی ولدیت اپنے نام سے نہ کہا کرو تو پھر کون تھا کہ ناحق کے جھمیلے میں پڑتا اور خواہ مخواہ کے اخراجات اپنے ذمہ لیتا کیونکہ جو لوگ متبنے بناتے ہیں ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ یہ بچہ ہمارے نام سے پکارا جائے تاکہ دنیا میں ہمارا نام رہے چونکہ یہ ایک جاہلانہ رسم ہے لہٰذا اسلام اگر اس فضول رسم کی طرف خیال نہ کرتا تو اس کا مقصد ناتمام بلکہ بہت کچھ ناقص رہتا۔ چونکہ یہ رسم بھی کوئی معمولی رسم نہ تھی بلکہ تمام ملک کے رگ دریشہ میں سرایت کررہی تھی۔ اس لئے اسلام نے اس بدرسم کی طرف معمولی الفاظ میں توجہ کافی نہ جان کر اپنے نبی کو حکم دیا کہ تم اس بدرسم کی اصلاح یوں کرو کہ ” لے پالک“ بیٹے کی مطلقہ بیوی سے خود شادی کرلو تاکہ تمہاری سنت کے مطابق مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو اور ملک سے یہ بدرسم دور ہوجائے چنانچہ اس علت کی طرف اللہ تعالیٰ نے خود اشارہ فرمایا ہے لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِھِمْ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس رسم سے ہمارے مہربانوں (عیسائیوں اور آریوں وغیرہ) کو کیا محبت اور الفت ہے۔ عیسائیوں پر تو اتنا افسوس نہیں کیونکہ وہ پہلے کون سے قانون قدرت کے پابند ہیں؟ ان کی ابتدائی تعلیم اور مذہب کا بنیادی پتھر (تثلیث) ہی گورکھ دھندا ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک۔ اس لئے وہ تو قابل معافی ہیں البتہ افسوس آریوں پر ہے کیونکہ ان کا رشی دیانند ان کو تعلیم دیتا ہے کہ :۔ ” جو بات قانون قدرت کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے۔“ (ستیارتھ پرکاش ص ٦٧٩) تاہم وہ اس خلاف قدرت رسم کے ایسے مؤید ہیں کہ اس کے مٹانے والوں سے مخالفت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں عیسائیو ! اللہ کے نبیوں کی توہین کرنے سے شرم کرو۔ سماجیو ! اپنے رشی کی تعلیم کی قدر کر کے اس بدرسم کی اصلاح کرنے میں اسلام کا ہاتھ بٹاؤ۔ (منہ) اصلی معنے میں لے پالک وہ ہوتا ہے جس کو بنانے والا اپنا والد کہے اور ولدیت لکھاتے ہوئے وہ لے پالک اسی کی ولدیت لکھائے (منہ) الأحزاب
37 (37۔39) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان عام اجازت کے ماتحت کوئی کام خانگی یا بیرونی ذاتی یا قومی کرنا چاہیں تو اس میں بھی تیزی (نبی کی) اجازت ضروری ہو نہیں ایسے امور میں وہ ماتحت رہ کر مختار ہیں یہی وجہ ہے کہ جب تو (نبی) اس شخص کو جس پر اللہ کے انعام تھے کہ پیدا کرنے کے علاوہ اللہ نے اس کو ہدایت کی تھی اور تو نے بھی انعام کئے تھے کہ ہدایت کے علاوہ تو نے اس کو غلامی سے آزاد کیا تھا اس کے ایک خانگی معاملہ کے متعلق کہہ رہا تھا جس میں وہ خود مختار تھا کہ تو اپنی بیوی کو رہنے دے اور اللہ سے ڈر شاید تیرا ہی قصور ہو تو اس نے اس امر میں تیری فرمانبرداری نہ کی اور اللہ کی طرف سے بھی اس پر کوئی خفگی نہ آئی نہ تو اس پر خفا ہوا کیونکہ اپنے خانگی کاموں میں وہ آزاد تھا اس لئے وہ اس میں معتوب نہ ہوا اور تو (اے نبی) اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھا جسے آخر کار اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے کو تھا تو اس کے اظہار میں لوگوں سے خوف کرتا تھا حالانکہ اللہ سے زیادہ خوف کرنا چاہئے ریفارمروں (مصلحوں) کو لائق ہے کہ جو کام وہ اصلاح کے متعلق کرنا چاہیں بحکمت و آشتی کر گزریں کسی نادان کے اعتراض کی پرواہ نہ کریں لو پس سنو ! ہم اس امر کو ابھی سے ظاہر کئے دیتے ہیں کہ جب شخص مذکور زید نے اس عورت سے جس کو روکنے کا تو حکم دے رہا تھا اپنا تعلق توڑ لیا تو ہم نے اس عورت کا نکاح تجھ سے کردیا یعنی اجازت دیدی کہ بعد عدت پوری ہونے کے تو اس سے نکاح کرلیجئیو اس میں راز یہ ہے تاکہ تیرے اس نکاح کے بعد مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بیویوں سے تعلق قطع کرچکیں تو ان مسلمانوں کو ان عورتوں سے شادی کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو کیونکہ وہ لے پالک نہ انکے بیٹے ہیں نہ وہ ان کے اصلی باپ بلکہ محض ایک منہ کی بات ہے اور کچھ نہیں اسی طرح اس رسم (لے پالک بنانے) کی جڑ کٹ جائے گی اور اللہ کا حکم جب مقرر ہوجائے تو وہ ہو کر ہی رہتا ہے اس لئے نبی کو بھی چاہئے کہ الٰہی احکام متعلقہ نکاح زوجہ لے پالک کی تعمیل میں کسی طرح کی سستی کو راہ نہ دے اللہ نبی پر جو کام فرض کرتا ہے تو نبی کو اس کی ادائیگی میں کبھی مضائقہ (پس وپیش) نہیں ہوتا بلکہ وہ فورا دل وجان سے حاضر ہو کر ادا کیا کرتا ہے یہی دستور الٰہی ان لوگوں میں رہا جو تم سے پہلے الٰہی احکام پہنچاتے تھے اور بات اصل یہ ہے کہ الٰہی حکم انسانی مقدور جتنا ہوتا ہے اسی لئے جو لوگ اللہ کے احکام پہنچاتے اور اسی اللہ سے ڈرتے تھے اور اس امر میں اللہ کے سوا کسی اور سے نہ ڈرتے تھے ان کی حالت بھی تعمیل ارشاد الٰہی میں یہی تھی اسی لئے وہ اللہ کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اللہ کے ہاں ان کا اعزاز ہوا گو لوگ ان کے مخالف تھے مگر اللہ تو ان کا حامی تھا اور اللہ تعالیٰ اکلال خود ہی حساب کرنے کو کافی ہے اسی لئے وہ اپنے بندوں کے اخلاص اور نیک اعمال کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا پس اس زمانہ کے لوگوں کا خیال غلط ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نرینہ اولاد نہیں اس لئے اس کا نام لیوا کوئی دنیا میں نہ ہوگا یہ شور اشوری چند روزہ ہے آخر کار بے نمکینی ہونے والی ہے ایسے لوگوں کو ان کے فضول خیالات سے روکنے کے لئے مطلع کیا جاتا ہے الأحزاب
38 الأحزاب
39 الأحزاب
40 (40۔48) اس میں شک نہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں یعنی آنجناب کی اولاد نرینہ کوئی نہیں لیکن نام اور عزت اولاد پر موقوف نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے چونکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اسلئے اللہ انکی مدد ضرور کریگا کیونکہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے جو جو اعتراضات مخالفت کرتے ہیں اس کے علم میں ہیں اس لئے تم مسلمانو ! ان کی یادہ گوئیوں کی پرواہ نہ کرو بلکہ اصل مقصود کی طرف لگو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بہت بہت یاد کیا کرو اور صبح وشام اس کی تسبیحیں پڑھا کرواس کی نظر عنایت سے تمہارا بیڑا پار ہوگا دیکھو تو اس کی رحمت وہ خود اور اس کے مقرب فرشتے تمہارے ہال پر نظر عنایت رکھتے ہیں مگر انکی نظر عنایت کے معنے مختلف ہیں۔ کیونکہ مخلوق کی نظر عنایت خالق کی نظر عنایت سے نہیں مل سکتی مخلوق کی نظر عنایت یہ ہے کہ وہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے اور بغیر دعا کے بھی مہربانی سے توجہ رکھتا ہے اس کی نظر عنایت سے بیڑا پار ہے اللہ تم پر نظر عنایت اس لئے کرتا ہے تاکہ تم کو شرک و کفر اور دیگر امراض روحانیہ کے اندھیروں سے نکال کر توحید خالص اور پاکیزہ اخلاق کے نور کی طرف لے چلے کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے حال پر بڑا ہی مہربان ہے اس دنیا میں مہربانی کرنے کے علاوہ بعد موت جس روز اس سے ملیں گے اللہ کی طرف سے ان کو سلام کا تحفہ ملے گا عالی سر کار خود ان کو سلام بھیجے گے کہ اے میرے بندو ! تم پر سلام ہو یعنی تم ہمیشہ کیلئے یہ ہوگا کہ اللہ نے ان کے لئے عزت کا بدلہ تیار کیا ہے وہی انکو ملے گا دنیا میں بعض دفعہ مزدور کو مزدوری ذلت سے ملتی ہے مگر آخرت میں نیک بندوں کو اسی طرح نہ ملے گی بلکہ عزت سے ملے گی اے نبی ! یہ عوض تو مسلمانوں کا ہے جو تیری تعلیم پر عمل کر کے اس رتبہ پر پہنچیں گے اس سے تو سمجھ کہ تو کس درجہ والا ہے سنو ! ہم نے تجھ کو حقانی شہادت کا گواہ نیک کاموں پر خوشخبری دینے والا اور برے کاموں پر ڈرانیوالا اور اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانیوالا اور ہدایت کا روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے جو کوئی تیرے ساتھ روشنی حاصل کرنے کی غرض سے ملے گا وہ منور ہو کر دوسروں کے لئے خود روشن چراغ بن جائیگا پس تو ان لوگوں کو ہدایت کر اور انکو ہدایت کی طرف بلا اور ماننے والوں کو خوشخبری سنا کہ ان کیلئے اللہ کے ہاں بہت بڑا فضل ہے اے نبی ! تو خود بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگا رہ اور ان فرائض کے متعلق کسی کافر یا منافق کا کہا نہ مانیو مبادا وہ تجھ کو کسی طرح سست کردیں اور تو ان کے دائو میں آکر تبلیغ احکام میں غفلت کرنے لگ جائے ہاں اگر کوئی تکلیف پہنچائیں تو ان کی ایذا کی پرواہ نہ کریو اور اللہ کی ذات والا صفات پر بھروسہ کریو اللہ ہی کارساز کافی ہے بس تم سب لوگ اسی کو کارساز سمجھا کرو جس طرح وہ تم کو حکم دے اسی طرح کیا کرو الأحزاب
41 الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 الأحزاب
45 الأحزاب
46 الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 مسلمانو سنو ! ایک تمدنی حکم بھی تم کو سناتے ہیں جب تم ایمان دار عورتوں سے نکاح کرو پھر کسی معقول وجہ پر جماع سے پہلے ہی ان کو طلاق دینے کی نوبت آوے اور تم ان کو طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان پر عدت کا کوئی حق نہیں کہ تم اس مدت کو گنتے رہو اور یہ خیال دل میں رکھو کہ جب تک تین مہینے ختم نہ ہوں ہمارا ان پر استحقاق ہے نہیں بلکہ طلاق ہوتے ہی وہ تم سے الگ اور تم ان سے جدا پس تم ان کو کچھ دے دلا کر عزت کے ساتھ خوش اسلوبی سے رخصت کیا کرو یہ نہیں کہ ان کو خواہ مخواہ امید میں رکھو اور اپنے حقوق جتلانے لگو احکام الٰہی کی ماتحتی جیسی مسلمانوں کو ہے نبی کو بھی ہے الأحزاب
50 (50۔51) اے نبی ! دیکھ تیری بیویاں جن کو تو نے حق مہر دیا ہے اور تیری لونڈیاں جو غنیمت میں اللہ نے تجھے رحمت کی تھیں تیرے چچا کی بیٹیاں تیری پھوپھی کی بیٹیاں تیرے ماموں کی بیٹیاں تیری خالائوں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی تھی اور ان کے علاوہ جو ایماندار عورت اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یعنی نکاح میں دنیا چاہے بشرطیکہ نبی اس سے نکاح کرنا چاہے یہ سب کی سب ہم نے تیرے لئے بطریق نکاح حلال کی تھیں یہ بظاہر بے تعداد نکاح کرنے کی اجازت خاص تیرے لئے تھی اور مسلمانوں کے لئے نہیں کیونکہ وہ تیری طرح قدسی نفس نہیں ان کیلئے انکی بیویوں اور انکی لونڈیوں کے متعلق جو ہم نے حکم دے رکھے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں ان حکموں کا خلاصہ یہ ہے کہ حتی المقدور ایک ہی بیوی پر قناعت کریں اور اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو محدود کریں علاوہ ان کے ان میں عدل و انصاف نہ کرسکیں تو متعدد نکاح نہ کریں مگر اے نبیٔ تو ان سب قیود سے بری ہے تاکہ تجھ پر کسی طرح کی تنگی نہ ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم کرنیوالا ہے اس کی بخشش اور رحمت اسی کے متقاضی ہے کہ اپنے فرمانبرداروں پر من وجہ تخفیف کرے اسی تخفیف کا نتیجہ ہے کہ تجھے اجازت تھی کہ ان ازواج میں سے جس کو تو چاہے کچھ مدت تک الگ کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس بلا لے اور جن کو تو نے کسی وقت عتاب سے الگ کیا ہو ان میں سے بھی کسی کو حسب ضرورت طلب کرلے تو تجھ پر کسی قسم کا گناہ نہیں غرض تو اس میں آزاد اور مختار ہے یہ تیری آزادی اس لئے ہے کہ اس سے ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور کسی طرح غمگین نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو ان کو دے اس پر سب راضی رہیں کیونکہ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیا کسی کا گلہ کرے کوئی جب انکو اپنے استحقاق کا گھمنڈ نہ ہوگا تو کم و بیش عطیے پر بھی راضی رہیں گی اور اللہ کو تمہارے دلوں کے خیالات سب معلوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑے علم والا ہے باوجود جاننے کے گنہگار بندوں کو مواخذہ نہیں کرتا الأحزاب
51 الأحزاب
52 اس کے علم کا نتیجہ ہے شروع میں جو ہم نے کہا ہے کہ تیرے (یعنی نبی کے) لئے فلاں فلاں قسم کی عورتیں حلال ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کے بے تعداد بے شمار نکاح کرتا جائے۔ نہیں بلکہ ہمارے علم میں اس کی بھی ایک حد ہے پس ہم بتلاتے ہیں کہ چونکہ تیرے پاس ایک کافی تعداد ازواج کی ہے جنہوں نے تیرے ساتھ وفاداری جان نثاری میں کمال دکھایا ہے اس لئے آج کے بعد ان عورتوں کے سوا کوئی عورت بھی تجھے حلال نہیں نہ کسی اور بیوی کو ان کی قائم مقام کرناجائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر دوسری سے تو نکاح کرے اگرچہ اس دوسری عورت کی خوبصورتی تجھ کو بھلی معلوم ہو اور کیسی ہی اچھی لگے کیونکہ ان کی وفاداری اللہ کے ہاں مقبول ہے پس ان کے سوا کسی اور کو شرف ملازمت میں مساوات نہ ہوگی لیکن اگر کوئی لونڈی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں پس تم اللہ کے حکموں کی تعمیل کرو اور دل سے جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر نگران حال ہے الأحزاب
53 (53۔58) شان نزول :۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولیمہ کی دعوت کی تو بعض لوگ کھانا کھا کر بیٹھے باتیں کرتے رہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (منہ) مسلمانو ! ایک اور ضروری تمدنی حکم سنو ! نبی کے یا کسی مومن بھائی کے گھر میں بے اذن کبھی داخل نہ ہوا کرو ہاں جب تم کو کھانے وغیرہ کے لئے آنے کا اذن دیا جائے تو اس صورت میں داخلہ کے وقت اجازت کی حاجت نہیں بے شک آئو مگر کھانا پکنے سے پہلے نہ آیا کرو ہاں ٹھیک دعوت کے وقت داخل ہوا کرو پھر جب کھا چکو تو چلے جایا کرو اور باتوں میں دل لگاکر بیٹھے نہ رہا کرو اس طرح ایک تو وقت ضائع ہوتا ہے دوسرے اس سے پر غمب یا صاحب دعوت کو تکلیف ہوتی ہے کھانا کھلا کر صاحب دعوت چاہتا ہے استر بستر لپیٹے اور کسی اور کام میں لگے تمہارے بیٹھے رہنے سے وہ تم سے حیا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات کے اظہار نہیں کرتا اس لئے وہ تم کو صاف صاف اخلاقی اور تمدنی احکام بتلاتا ہے پس تم ان احکام کی تعمیل کیا کرو سنو ! جب تم ان نبی کی بیویوں سے کوئی چیز خانگی طلب کرو تو پس پردہ طلب کیا کرو کیونکہ آج سے اسلام میں پردہ کا حکم نازل ہوتا ہے یہ طریقہ تمہارے اور ان کے دلوں کو بہت کچھ صاف رکھ سکتا ہے کیونکہ مردوعورت کی آنکھوں میں جادو کا اثر ہے کیا تم نے کسی حکیم کا کلام نہیں سنا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم انکو چھوڑ بیٹھی ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں محبت آہی جاتی ہے اس لئے تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ کوئی مرد کسی عورت کو برہنہ رو نہ دیکھے پس تم کو چاہئے کہ اللہ کے رسول کی بے فرمانی کرنے سے اس کو کسی نوع کی تکلیف نہ دینا اور نہ اس کے بعد اس کی بیویوں سے کبھی نکاح کرنا ایسا کرنا ہمیشہ کے لئے تم کو ناجائز ہے بے شک یہ کام اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے کرنا تو بجائے خود دل میں خیال بھی نہ لانا سنو ! اگر تم کسی امر کو ظاہر کرو یا اس کو چھپائو تو دونوں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو جانتا ہے عورتوں کو پردہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر ایک مرد سے چھپتی رہیں بلکہ بعض رشتے ان کے ایسے بھی ہیں کہ ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان عورتوں کو اپنے باپ دادا یا حقیقی بیٹوں یا حقیقی بھائیوں یا بھتیجوں بھانجوں یا اپنی ہمسایہ یا اپنی جنس کی عورتوں یا زر خرید غلاموں کے سامنے بے حجاب ہونے میں کوئی گناہ نہیں تم بھی اے عورتوں اس حکم کی فرمانبردار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو بے شک اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر حاظر ناظر ہے جو کچھ کرتے ہو یا کرو گے اسے سب معلوم ہے یہ پہلی آیت ہے جس میں پردہ کا حکم آیا ہے (منہ) اسی لئے تم لوگ کسی امر میں رسول کے برخلاف کام کرنا یا کسی نوع کی اس کو تکلیف دینا کوئی سہل بات نہ جانو کیونکہ اللہ کے نزدیک رسول کی یہ عزت ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں یعنی اس کی شان کے لائق اس کی عزت کرتے ہیں بس اے مسلمانو ! تم کو بھی چاہئے کہ اس نبی پر درود اور سلام بڑی محبت اور اخلاص سے بھیجا کرو یعنی کہا کرو اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اور سنو ! جو لوگ اللہ اور رسول کو ایذا دیتے ہیں یعنی ان کی بے فرمانی کرتے ہیں اللہ نے دنیا میں اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے یعنی نہ وہ دنیا میں کسی عزت کے قابل ہیں نہ آخرت میں اور اللہ ان کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے یہ مت سمجھو کہ بے وجہ ایذا دینا صرف رسول کو منع ہے نہیں بلکہ یہ حکم عام اور سب کے لئے یہی قانون ہے کہ جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں اور ان کے سوا کسی بشرکو بھی بغیر کسی قابل ملامت کام کے ایذا دیت دیتے ہیں یا آئندہ کو دیں گے پس یہ سمجھو کہ وہ بہت بڑا بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھاتے ہیں جس سے انکو کسی طرح سبکدوشی نہ ہوگی مختصر یہ کہ جو عیب کسی میں نہ ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا یہ ہے بہتان عظیم اور اثم مبین۔ الأحزاب
54 الأحزاب
55 الأحزاب
56 الأحزاب
57 الأحزاب
58 الأحزاب
59 (59۔68) اے ہمارے پیارے نبی ! چونکہ ہر کام کی اصلاح پہلے گھر سے ہونی چاہئے اس لئے اس بے پردگی کی بدرسم کو مٹانے کے لئے تو اپنی بیویوں بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ باہر چلتے وقت بڑی بڑی چادریں اوڑہا کریں یعنی بڑی چادر یا نقاب پہن کر باہر نکلا کریں اس سے ان کی پہچان ہوسکے گی کہ شریف زادیاں ہیں تو ان کو کسی نوع کی تکلیف نہ ہوگی بہت لوگ ان کی وضعداری سے انکو شریف جانیں گے اور کسی قسم کی بد گوئی نہ کریں گے اس لئے کہ گویہ صحیح ہے کہ اخذ و بطش (حملہ) مردوں کی طرف سے ہوتا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس کی ابتدا عورتوں ہی کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ ؎ ہیچ عاشق خود نباشد وصل جو تانہ معشوقش بود جویائے او اپنے ظاہری الفاظ سے یہی معنے دیتا ہے اس لئے جو کچھ بھی فحش اور فتہ دنیا میں ہوتا ہے اس کی ابتدا عورتوں سے ہوتی ہے اس لئے ان کو پردہ میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور باوجود اس بندوبست کے بھی اگر بے اختیار کسی کے دل میں کوئی وسوسہ اٹھے گا تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنہار مہربان ہے بے قصد ارادوں پر مواخذہ نہیں کرے گا اتنے نظام سے بھی اگر بے ایمان منافق لوگ اور جن کے دلوں میں بدکاری کا مرض ہے اور شہر میں ادھر ادھر کی بے ثبوت باتیں اڑانے والے باز نہ آئے تو ہم تجھ کو ان پر اکسائینگے یعنی حکم دیں گے کہ تو ان کو ایسی سزا دے کہ یاد کریں پھر وہ تیرے ساتھ اس مدینہ میں بہت کم ٹھیر سکیں گے وہ بھی ایسے حال میں کہ چاروں طرف سے ان پر لعنت ہوگی جہاں کہیں پائے جائیں گے عذاب الٰہی میں پکڑے جائیں گے اور بڑی سختی سے قتل کئے جائیں گے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ آج سے پہلے جتنے لوگ گذر چکے ہیں ان میں الٰہی قانون یہی سمجھو کہ ایک وقت تک انبیاء کے مخالفین کا شور و شغب رہا کرتا تھا لیکن جب انکی شرارت حد سے بڑھ جاتی تھی تو انکی ہلاکت کیلئے الٰہی حکم بھی فورا آپہنچتا تھا اسی طرح انکے ساتھ ہوگا اور تم الٰہی قانون میں کسی طرح ردوبدل نہ پائو گے ہر ایک کام اور واقعہ کیلئے اللہ کے ہاں قانون ہے بے قانون کام کرنا نادانوں کا کام ہے اسی طرح قیامت کی گھڑی کا حال تجھ سے پوچھتے ہیں وہ بھی الٰہی قانون کے مطابق اپنے وقت پر آئے ہے پس اس کا علم بھی اللہ ہی کے پاس ہے اور تجھے کیا معلوم شاید وہ گھڑی قریب ہے آن لگی ہو تم کو چاہئے کہ اس کے آنے کے تصور سے اندیشہ کرونہ کہ اس کے آنے کے متعلق سوال کرو سنو ! اللہ تعالیٰ نے اس کے منکروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتا ہوا عذاب تیار کر رکھا ہے جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا وہاں نہ کوئی ان کا دوست ہوگا نہ کوئی حمایتی یعنی اس روز یہ واقعہ ہوگا جس روز ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے جیسے کباب سیخ پر اس روز یہ لوگ کہیں گے ہائے افسوس ہم نے اللہ تعالیٰ کی تابعداری کی ہوتی اور اس کے رسول کا کہا مانا ہوتا اور اس سے پہلے وہ بھی کہہ چکے ہونگے کہ ہائے ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا پس انہوں نے ہم کو اپنے جیسا اللہ تعالیٰ کے راستے سے گمراہ کردیا اس لئے ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو ہمارے حال سے آگاہ ہے پس تو انکو ہم سے دگنا عذاب پہنچا اور بہت بڑی لعنت کی مار کر الأحزاب
60 الأحزاب
61 الأحزاب
62 الأحزاب
63 الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 (69۔73) چونکہ ان کو یہ نتیجہ انبیا کی مخالفت کا ملے گا اس لئے تم کو سمجھایا جاتا ہے کہ اے مسلمانو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ بننا جنہوں نے حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے رسول سلام اللہ علیہ کو ایذا دی تھی کہ جو عیب اس میں نہ تھے وہ اس پر لگائے کسی نے جادوگر کہا کسی نے مکار کہا کسی نے خصیوں کا بیمار بتایا وغیرہ وغیرہ تو اللہ نے انکی بیہوہ گوئی سے اس کو پاک ثابت کیا اور ان سب پر اسکی بے عیبی کا اظہار کردیا کیونکہ اللہ نے اس کو بھیجا تھا اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والا تھا چونکہ سب قسم کی عزت بندوں کو اسی میں حاصل ہوتی ہے کہ اللہ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہو اس لئے تم کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مسلمانو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ہمیشہ درست بات کہا کرو دنیا میں رہ کر انسان پر مختلف طرح کے حالات اور واقعات گذرتے ہیں کبھی مدعی ہے کبھی مدعا علیہ کبھی گواہ ہے تو کبھی منصف کبھی حاکم ہے تو کبھی محکوم غرض جس حال میں بھی ہو اس اصول کو نہ بھولے کہ صاف اور سیدھی بات کہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا یعنی اللہ کا خوف اور راست بازی کو مد نظر رکھ کر جو کام کرو گے وہ ضرور بار آور ہوگا اور اس میں برکت ہوگی یہ تو دنیا میں تم کو بدلہ ملے گا اور آخرت میں یہ ملے گا کہ اللہ تمہارے گناہ بخشدیگا اور تم کو دارالنجات جنت میں پہنچا دیگا کیونکہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا وہ ضرور مراد پاجائے گا انسان غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کے لئے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں سورج چاند تو اتنے بڑے اجرام سب کی نگاہوں میں ہیں انکے علاوہ بھی جو جو چیزیں تم کو ضروری ہیں وہ تمہارے لئے بنادیں پھر ان سب کو تمہارے کام میں لگا دیا کیا مجال کہ ذرہ بھی اپنے امور مفوضہ میں غلطی کر جائیں سنو ! ہم نے احکام کی امانت کو انسانوں زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس میں کسی طرح کی خیانت نہ کی بلکہ اس کو پورا ادا کیا اور اس کی خیانت سے ڈرتے رہے یعنی احکام ان سے متعلق کئے انہوں نے ان کو پورا کیا اور انسان جب اس امانت کا متحمل بنایا تو اس نے اس میں خیانت کی کیونکہ وہ بڑا ظالم اور بڑا جاہل ہے اپنے آئندہ کی برائی بھلائی نہیں جانتا حالانکہ دانا کی شان یہ ہے کہ ؎ چرا کار ہے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی مگر یہ نادان نادانی سے باز نہیں آتا اس کا نتیجہ ! یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور عورتوں مشرک مردوں اور عورتوں کو انکی بدکاری پر عذاب کرے گا اور ایماندار مردوں اور عورتوں پر نظر رحمت سے توجہ فرمائیگا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (اللھم ارحمنا) الأحزاب
70 الأحزاب
71 الأحزاب
72 الأحزاب
73 الأحزاب
0 سبأ
1 (1۔9) تمام تعریفوں کا مالک اللہ ہے۔ تمام آسمان اور زمین جس کے زیر حکومت ہیں انجام کار آخرت میں بھی تعریف کا وہی مستحق ہے اور وہ بڑا حکمت والا اور بڑا خبردار ہے اس کے علم کی وسعت کا اندازہ خود اسی سے کرلو کہ جو کچھ زمین میں بیج اور پانی وغیرہ گھستا ہے اور جو کچھ اس سے انگوری پانی وغیرہ نکلتا ہے اور جو کچھ اوپر کی طرف سے پانی وغیرہ نکلتا ہے اور جو کچھ اس کی طرف ابخرات کا دھواں وغیرہ چڑھتا ہے۔ اللہ ان سب کو جانتا ہے۔ غرض ایک ذرہ بھی اس کے علم اور ادراک سے باہر نہیں باوجود اس علم۔ قدرت اور حکومت کے یہ نہیں کہ وہ سخت خو اور ظالم ہو۔ نہیں بلکہ وہ بڑا رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے مگر نادان لوگو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحم سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹے بگڑتے ہیں گویا مثل مشہور کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ کی تصدیق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کی گھڑی کبھی نہیں آئے گی۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ گویا ان کو کسی کی باز پرس نہیں جو چاہیں کرتے پھریں۔ اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ تمہارا خیال بالکل غلط ہے واللہ وہ ضرور آئے گی مجھے اپنے پروردگار کی قسم ہے جو مخلوق کے ادراکات سے سب مخفیات کو جاننے والا ہے ایک ذرہ بھر چیز بھی نہ آسمانوں میں پوشیدہ ہے۔ نہ زمینوں میں اس سے مخفی رہ سکتی ہے اور اس سے بھی چھوٹی یا بڑی جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ کے روشن علم میں ہے اس وسیع علم کا نتیجہ ! یہ ہوگا کہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی کا وعدہ ہے اور جو لوگ ہمارے (یعنی اللہ تعالیٰ کے) حکموں کی تکذیب کرنے میں مخالفانہ سعی کرتے ہیں انہی کے لئے قیامت میں سخت عذاب کا حصہ ہے اس سے ثابت ہوا کہ بنی آدم دو قسم پر ہیں ایک فرماں بردار دوسرے نافرمان جیسے کہ عام طور پر انسان دو طرح کے ہیں ایک علم دار دوسرے جاہل کندہ ناتراش ہر ایک ایسے کام میں جو غور وفکر کے لائق ہوتا ہے اس میں اہل علم کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے اس لئے اہل علم یعنی جن لوگوں کو علم سے کچھ حصہ ملا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ ترای طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے وہ بالکل سچ ہے اور اللہ غالب اور حمد و ثنا کے مستحق کی طرف راہ دکھاتا ہے۔ اہل علم کو تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی تعلیم سے ہدایت پاتے ہیں اور جو جاہل یعنی کافر اور منکر ہیں وہ ایکدوسرے سے کہتے ہیں آئو رے ہم تم کو ایک ایسا آدمی بتلائیں جو کہتا ہے کہ بعد مرنے کے بالکل ریزے ریزے ہو کر بھی تم کو ایک نئی پیدائش میں آنا ہوگا بھلا یہ بات عقل تسلیم کرسکتی ہے کسی کی سمجھ میں آتا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر پھر ہم کو نئی صورت اور شکل ملے گی پھر جو یہ مدعی نبوت کہتا ہے ایسی باتیں کہتا ہے تو کیا یہ اللہ پر جھوٹ افترا ر کرتا ہے یا اسکو جنون ہے غور سے دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یعنی ایسا کہنے والے ہی عذاب میں اور ہدایت سے دور گمراہی میں ہیں اس سارے شبہ کی بنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ان کو یقین نہیں کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین پر بھی غور نہیں کیا؟ کہ یہ اتنے بڑے اجرام سماوی اور راضی کس نے بنائے ہیں جس نے اتنی بڑی مخلوق پیدا کی ہے اس سے مستبعد ہے کہ ان کو دوبارہ پیدا کر دے؟ اس آفاقی دلیل کے علاوہ و جدانی دلیل پر غور کریں کہ اگر ہم (اللہ) چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے ٹکڑے ان پر گرادیں غرض کہ ہر طرح سے ان کی ذات اور صفات پر بقا اور فنا کی ہم کو قدرت ہے جو چاہیں ہم کریں ہم کو کوئی روکنے والا نہیں کچھ شک نہیں کہ اس بیان میں ہر ایک بندے کیلئے عبرت کی دلیل ہے جو اللہ کی طرف رجوع ہے سبأ
2 سبأ
3 سبأ
4 سبأ
5 سبأ
6 سبأ
7 سبأ
8 سبأ
9 سبأ
10 (10۔17) دیکھو اس قسم کے (رجوع والے) بندے کی ایک حکایت تم کو سناتے ہیں اور تم کو سمجھاتے ہیں کہ تم بھی رجوع والے بنو پس سنو ! ہم نے حضرت دائود کو جو ہماری درگاہ میں بڑا رجوع کرنیوالا تھا بہت بڑا فضل دیا تھا یہ کہ پہاڑوں کو حکم دیا کہ اے پہاڑو اور جانورو ! تم دائود کے ساتھ رجوع سے تسبیحیں پڑھتے رہو جس وقت حضرت داوئود ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے تو پہاڑوں سے بھی ان کو تسبیحوں کی آوازیں آتی جنگلی جانور بھی ان کی آواز پر مست ہو کر تسبیح پڑھتے کیا سچ ہے ؎ برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار اور ایک احسان ہم نے دائود پر یہ کیا کہ اسیء کیلئے ہم نے لوہے کو نرم کردیا (کیسے نرم کیا ؟ اس کی تفصیل اللہ کو معلوم۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص صورت تھی کیونکہ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَ میں تین چیزیں ہیں فاعل۔ مفعول بہ اور جار مجرور (لَہٗ) قاعدہ عربی کے مطابق فاعل کے بعد مفعول بہ اور اس کے بعد جار مجرور ہوتے ہیں تو کلام یوں چاہیے تھا۔ اَلَنَا الْحَدِیْدَ لَہٗ لیکن علم معانی کا قاعدہ ہے کہ تقدیم ماحقہ التاخیر یفید الحصر یعنی جس لفظ کا حق پیچھے آنے کا ہے اگر وہ کسی کلام میں پہلے لایا جائے تو اس سے حصر کا فایدہ حاصل ہوتا ہے۔ پس آیت موصوفہ میں چونکہ جار مجرور (لہٗ) کو مفعول بہ سے مقدم کیا گیا ہے اس لیے صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ ” ہم نے اسی کے لئے لوہا نرم کردیا۔“ اس ترجمہ سے جو خصوصیت مفہوم ہوتی ہے وہ ارباب دانش پر واضح ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تلیین کسی ایسی طرح سے تھی جو حضرت دائود سے خصوصیت رکیت تھی پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ابن تلیین سے مراد وہی تلیین ہے جو عموماً آج کل لوہے کے کارخانوں میں دیکھی جاتی ہے کہ ہزاروں من لوہا ڈھل کر پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ وہ آپ ہی بتلائیں کہ ان معنے سے وہ خصوصیت جو آیت سے مفہوم ہوتی ہے رہ سکتی ہے؟ (منہ) (حکم دیا) کہ پوری پوری زرہیں بنائیو اور ان کو جوڑنے میں اندازہ رکھیویہ احکام تو تمہارے استحکام سلطنت کے لئے ہیں مگر اصل مطلب جس کیلئے خاندان نبوت دنیا میں قائم کیا گیا ہے یہ ہے کہ وہ نیک اعمال کریں اور لوگوں کو بھی نیک اعمال سکھا دیں پس اے دائود کے گھر والو اور تابعدارو ! خود بھی نیک عمل کیا کرو اور لوگوں کو بھی سکھایا کرو میں یقینا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہوں جو کچھ کرو گے اس کے مطابق بدلہ پائو گے اور سنو ! حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ایک خاص ! قسم کی ہوا کو ہم نے مسخر کردیا تھا جو سلیمان کا تخت لے کر صبح کے وقت ایک مہینے کی سرو کی مسافت چلی جاتی تھی اور شام کو ایک مہینے جتنی مسافت یعنی ملک میں دورہ کرنے کو جو حضرت سلیمان نکلتے تو دو وقت ان کی روانگی ہوتی صبح سے چاشت تک اور سہ پہر سے شام تک جیسا کہ حکام اور بڑے لوگوں کا دستور ہے اتنے میں حصرت سلیمان کا تخت اتنی مسافت طے کرجاتا جتنی کہ پیدل چلنے والے دو مہینوں میں کرسکتے حضرت سلیمان کا تخت آجکل کے محاورے میں ہوائی جہاز تھا (بعض لوگوں نے حضرت سلیمان کے اس واقعہ کو خلاف قدرت جان کر تاویل بعید کی ہے مگر اللہ تعالیٰ دن بدن ایسے لوگوں کو جواب دینے کے لئے دانایان فرنگ کو سوجھا دیتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی ایسی ایجاد کردیتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قدرت کے اسرار ہنوز بہت کچھ مخفی ہیں بلکہ یہ کہنا شاید بیجانہ ہوگا کہ معلوم ہونے اب شروع ہوئے ہیں۔ آج کل یورپ میں ایک ایجاد ہوئی ہے جس کا نام ہے ” ہوائی جہاز “۔ یہ جہاز ہوا میں اڑتا ہے۔ دور دراز ممالک کا کیا ذکر۔ ١٩١٠ئ؁ میں بمقام الہ آباد جو نمایش ہوئی۔ اس میں بھی وہ جہاز اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں بھی وہ لایا گیا۔ اس بیان کے بعد اب تو ہوائی جہاز کو اتنی ترقی ہوئی ہے کہ ولایت انگلستان سے ہندوستان میں ایک ہفتہ میں ڈاک بلکہ انسانوں کو بھی سوار کر کے لاتا ہے آج سے پہلے بھی ہوا میں پرواز کا ایک آلہ تھا جس کا نام غبارہ تھا حضرت سلیمان کا تخت بھی غالباً اسی قسم کی ہوا سے اڑتا ہوگا جس کو خلاف قانون قدرت کہہ کر انکار یا تاویل کرنا ذرہ جلد بازی ہے۔ امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں المسخر لسلیمان کانت ریحا مخصوصۃ لاھٰذ دالریّاح فانھا لمنافع عامۃ فی اوقات الحاجات وبدل انہ لم یقرء الاعلٰی التوحید فما قرء احد للریاح (تفسیر کبیر جلد ٧ ص ٩) یعنی حضرت سلیمان کے تابع یہ ہوا نہ تھی جو ہمارے سامنے چل رہی ہے کیونکہ یہ تو عام لوگوں کے فائدے اور منافع کے لئے ہے“ اسی لئے ہم نے اس کو غبارہ سے تشبیہ دی ہے۔ واللہ اعلم باسرارہ ہاں شاید اس جگہ یہ سوال ہو کہ جب یہ ایجاد وغیرہ نبی نے بھی کر دکھائی تو خلاف عادت کیا ہوا اور معجزہ کیسے بنا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ کی حقیقت صرف یہ ہے کہ نبی سے ایسا کام ظاہر ہو جو اس وقت کسی صنعت یا تعلیم کا نتیجہ نہ ہوتا کہ کہ اس کے مخالفین اس جیسا کرنے سے عاجز رہیں۔ یہ نہیں کہ اس کے بعد بھی وہ کسی طرح صنعت کی ذیل میں نہ آسکے مثلاً معجزہ ” شق القمر“ جو ایک اعلیٰ درجہ کا خلاف قانون قدرت ہے آج اگر کسی کی ایجاد میں آجائے کہ قمر کو دو ٹکڑے کر کے دکھاوے اور اس کو عام تعلیم کے ذریعہ سے عام بھی کر دے تو بھی بلحاظ زمانہ نبوت معجزہ ہی رہے گا کیونکہ معجزہ تو اسی لئے ہوتا ہے کہ اس وقت وہ کسی انسانی صنعت یا تعلیم سے نہیں ہوتا۔ چاہے بعد میں ہوجائے۔ علاوہ اس کے حضرت سلیمان کے اس واقعہ کا قرآن مجید نے معجزہ یا آیت نام نہیں رکھا (فافہم) اور اس کے علاوہ ہم (اللہ) نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا یعنی تانبے کی بہت بڑی کان اس کے ملک میں پیدا کردی جس سے اس کی ملکی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور بعض جنات بھی اس کے تابعدار تھے کہ اس کے پروردگار کے حکم سے اس سلیمان کے سامنے کام کرتے تھے مگر انکی ماتحتی سلیمانی کمال کا اثر نہ تھا بلکہ محض الٰہی حکم کا اثر تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے حکم سے سرتابی نہ کرتے تھے کیونکہ ہم (اللہ) خود ان کے نگران حال تھے اور ہم نے اعلان کردیا تھا کہ جو کوئی ان جنات میں سے ہمارے حکم سے جو سلیمان ان کو دے سرتابی کرے گا کیونکہ ہم نے اس کو وہ حکم دیا ہے تو ہم دنیاوی سزا کے علاوہ اس کو آگ کے عذاب کا مزہ چکھادیں گے جیسا کہ امیر المومنین کے باغیوں کا انجام ہوتا ہے کہ دنیا میں بھی مستوجب سزا ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی معذب ہوں گے پس جنات کی کیا مجال تھی کہ ذرہ بھی سرتابی کرتے بلکہ نہایت ہی تابعداری سے جو کچھ وہ سلیمان چاہتا اس کے حکم سے اس کے لئے قلعے نقشے بڑے بڑے حوضوں کی مانند پیالے اور بھاری بھاری دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھنے کے قابل ہوتیں بناتے (تماثیل جمع ہے تمثال کی۔ تمثال سے مرا اس جگہ نقشے ہیں جو جنگی ضرورتوں کے لحاظ سے کبھی تو اپنے ملک میں جنگی عمارات کے لئے بناتے ہیں کبھی دوسری سلطنتوں کی جنگی عمارات کے ملاحظہ اور جانچنے کے لئے بنائے جاتے ہیں جن لوگوں نے تماثیل کے معنے مورتیں اور تصویریں لے کر کہا ہے کہ اس زمانے میں تصویریں بنانی جائز تھیں مذہب اسلام میں منع ہوگئیں جن کی ممانعت کا ثبوت حدیثوں میں ہے ان کا یہ کہنا سیاق آیت کے برخلاف ہے کیونکہ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سلام اللہ عیہ کی سلطنت کی مضبوطی اور سامان جنگ کا بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ایسے موقع پر محراب یعنی قلعوں کے ساتھ تصویروں کو کیا مناسبت ہوسکتی ہے؟ بلکہ مناسبت تو یہ ہے کہ قلعے اور قلعوں کے نقشے تو جنگی ضرورت کے لئے ہوتے ہیں۔ جنگی ضرورت کسی باخبر سے مخفی نہیں۔ قلکے تو اپنی حفاظت اور مدافعت کے لئے بنائے جاتے ہیں نقشے کبھی اپنے ملک میں عمارات ضروریہ بنانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور کبھی دوسری سلطنت کے قلعوں پر آگاہ ہونے کے لئے بناتے ہیں۔ ایسے ہی دوسری چیزیں کھانے پکانے کے لئے اس زمانے کے دستور کے مطابق ہوں گی۔ غرض جو کچھ اس آیت میں مذکور ہے یہ سب ملک داری کی حیثیت سے ہے۔ تصویروں کی ملک داری میں نہ اس وقت ضرورت تھی نہ اب ہے۔ پس جو لوگ اس آیت سے تصویرسازی اور تصویر داری کا ثبوت نکالتے ہیں ان کا قول بھی چونکہ تماثیل کے مذکورہ ترجمہ اور تفسیر پر مبنی ہے اس لئے صحیح نہیں (منہ) یہ سب ان کی فوجی ضروریات اور فوج کے لئے خوردونوش کا سامان تھا جس سے ان کو اور ان کی فوج کو تقویت ہوتی تھی اس لئے ہم نے ان کو حکم دیا اے دائود کے کنبے والو ! اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اور جان رکھو کہ میرے بندوں میں بہت کم شکر گذار ہیں پس تم اس کی پرواہ نہ کرنا کہ بہت سے لوگ اللہ کے بے فرمان ناشکر ہیں اس لئے اللہ کو ناشکری بھلی معلوم ہوتی ہوگی نہیں بلکہ قانون الٰہی یہی ہے کہ قیمتی چیز کم ہوتی ہے جیسے سونا بمقابلہ پیتل کے اسی طرح اللہ کی یاد والے شکر گذار لوگ بمقابلہ کفار نا ہنجار کے کم ہیں غرض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت تمام کمال کے ساتھ چلتی رہی ملک کے کسی حصے میں شور و شر پیدا نہ ہوا یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آگیا پس جب ہم (اللہ) نے اس (سلیمان) پر موت کا حکم جاری کیا تو وہ اپنے وقت پر مر گیا مگر عام طور پر ملک میں اس کی موت کی خبر شائع نہ ہوئی یہاں تک کہ زمین کے ایک کیڑے (دیمک وغیرہ) نے عام لوگوں کو اس پر آگاہ کیا جو حضرت سلیمان کا عصا کھا رہا تھا پس جب اس عصا کے گرنے سے سلیمان (علیہ السلام) بھی گرا تو جنوں کو معلوم ہوا کہ ہمارا دعویٰ غیب دانی کا غلط ہے اگر ہم غیب کی باتیں جانتے تو اس ذلت کے عذاب سلیمان کی قید میں نہ رہتے اس لئے عربی میں ایک شعر ہے جو مثال کے طور پر کہا جاتا ہے۔ ؎ لو ان صدور الفعل یبدون للفتٰی کا عقابہ لم تلفہ یتندم یعنی اگر کسی شخص کو اپنے اعمال کا علم شروع میں ہوجیسا کہ آخر میں ہوتا ہے تو وہ کبھی ناشائستہ اعمال کر کے نادم نہ ہو سبأ
11 سبأ
12 سبأ
13 سبأ
14 سبأ
15 سبأ
16 سبأ
17 سبأ
18 (18۔21) اسی طرح دنیا میں کئی ایک قومیں ہوئیں قوم سبا کا ذکر بھی ان لوگوں نے سنا ہوگا جو یمن میں رہتی تھی ان کے خود اپنے ہی گھروں میں بہت بڑی الٰہی قدرت کی ایک نشانی تھی کہ ان کی بستیوں میں دائیں بائیں دو باغ تھے اس وقت کے کسی نبی نے ان سے کہا تھا کہ اپنے پروردگار کا دیا ہوا کھائو اور اس کا شکر کرو دیکھو تمہارا ملک کیسا عمدہ پیداوار دینے والا ہے اور پروردگار بخشنہار اس پر بھی انہوں نے تعمیل ارشاد سے روگردانی کی پس ہم (اللہ) نے ان پر بڑے زور کا سیلاب بھیجا جس سے ان کا تمام علاقہ برباد ہوگیا اور ہم نے ان کے دو طرف باغوں کے بدلے میں ان کو دوباغ ایسے دئیے جنہیں سخت بدمزہ پھل جھائو اور کسی قدر بے حقیقت بیر تھے جیسا کہ ویران جنگلوں میں ایسی چیزیں ہوا کرتی ہیں غرض کہ بجائے شاداب باغات کے ان کے ملک کو اجڑا اور ویران کردیا یہ انکی ناشکری کا بدلہ ہم نے ان کو دیا اور اس قسم کا بدلہ ہم ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں یعنی جو لوگ اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے ان کی نعمتیں چند روزہ رہتی ہیں آخر کار تباہ اور ویران ہوجاتے ہیں ہم نے ان پر یہ احسان بھی کیا تھا کہ ان قوم سبا کے دارالحکومت اور باقی ملک کے دیگر بابرکت اور آباد مقامات کے درمیان بھی بڑی بڑی بارونق بستیاں بنائی تھیں اور ان میں سیر وسیاحت کا اندازہ لگایا تھا بڑے بڑے ضلعوں کی سڑکوں پر چلنے والوں کو ہر ایک منزل پر کوئی نہ کوئی آبادی مل سکتی تھی جس سے مسافروں کو راحت اور آرام ملتا تھا ہم نے نبی کی معرفت کہا تھا کہ ان مقامات میں شب وروز اس امن و امان سے سیر کیا کرو کیونکہ آبادی کی وجہ سے کسی قسم کا خطرہ نہیں پھر وہ اس نعمت کے شکر گذار نہ ہوئے بلکہ الٹے یوں بولے کہ اے ہمارے اللہ ہمارے سفر کا راستہ دور کر دے یعنی ان میں سے متکبر مزاج امراء جو تمول اور دولت کے نشہ میں مست تھے ان کی دلی خواہش ہوئی کہ یہ منزلیں جو قریب قریب ہیں ایسا ہو کہ دور دور ہوجائیں جیسے کہ آجکل پسنجر گاڑیوں پر جو عموما ہر ایک سٹیشن پر ٹھیرتی ہیں سفر کرنے سے نازک مزاج سیاحوں کی طبیعت گھبراتی ہے اور چاہتے ہیں کہ ہونہو ڈاک ہی پر سفر کریں جو کئی کئی سٹیشنوں کو چھوڑ جاتی ہے اسی طرح اس زمانے کے تنعم پسندوں کے دل معمولی منزلوں پر ٹھیرنے سے گھبرانے لگے تو انہوں نے بزبان حال یا بزبان قال یہ خواہش ظاہر کی اور اپنی اس سرکشی کی وجہ سے انہوں نے اپنے نفسوں پر سخت سخت ظلم کئے پھر ہم نے بھی ان کو یہ سزا دی کہ بس انکو کہانیاں بنا دیا یعنی ان کا ستیاناس کردیا ایسا کہ ایک پرانی مثال انہی پر صادق آئی ؎ حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سراٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں ہر ایک صبار یعنی تکلیفوں پر صبر کرنے والے اور الٰہی نعمتوں پر شکر کرنے والے کے لئے بہت سے نشان ہیں کہ وہ اس واقعہ سے کم ازکم اس نکتہ کو پا سکتے ہیں کہ دنیا کا نشیب و فراز سب اللہ ذوالجلال کے قبضے میں ہے اگر کسی کو نعمت ملتی ہے تو اسی کے حکم سے اگر زحمت پہنچتی ہے تو اسی کے ارشاد سے اس لئے وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں ؎ پناہ بلندی و پستی توئی ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی مگر ان (قوم سبا) کے لوگوں نے اپنی حرکات سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی نعمتوں کو اللہ کی مہربانی کا نتیجہ نہ جانتے تھے بلکہ اپنی لیاقت پر بھروسہ اور غرور کرتے تھے اسی لئے تباہ ہوئے اور شیطان نے بھی اپنا گمان ان کی نسبت صحیح پایا جو اس نے پہلے ہی سمجھا اور کہا تھا کہ نبی آدم میں سے بہت کم شکر گذار ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا پس بجز چند ایمانداروں کے باقی سب لوگ اس شیطان کے پیرو ہوگئے حالانکہ شیطان کا ان پر کوئی زور اور غلبہ نہ تھا لیکن ہاں اس کا نتیجہ ! یہ ہوا کہ ہم نے آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور بے ایمانوں میں تمیز کردی یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے تھے ان کو شک کرنیوالے لوگوں سے بایں طور ممتاز کیا کہ ایمانداروں کو نجات دی اور بے ایمانوں کو تباہ کیا کیونکہ تیرا پروردگار جو تمام دنیا کا حقیقی پالن ہار ہے ہر چیز پر نگران حال ہے سبأ
19 سبأ
20 سبأ
21 سبأ
22 (22۔30) بغور دیکھا جائے تو جو جھگڑا اور تنازع اس وقت مومنوں اور کافروں میں تھا وہی اب اس زمانے میں بھی ہے تمہارے مخاطب اسی لئے تم سے چڑتے ہیں کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہو اسی سے اپنی تمام حاجات مانگتے ہو اسی کو حاجت روا جانتے ہو اور یہ لوگ متعدد الہٰوؤں کو مانتے ہیں متعدد معبودوں سے دعائیں مانگتے ہیں ہر ایک کہ ذمہ سے التجا کرتے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان کو سمجھانے کے لیے کہہ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا کچھ سمجھے بیٹھے ہو انکو ذرہ پکارو تو سہی دیکھیں وہ تمہاری کچھ مشکل کشائی کرسکتے ہیں وہ بیچارے کیا کریں گے وہ نہ تو آسمانوں میں ذرہ جتنا اختیار رکھتے ہیں نہ زمینوں میں نہ ان دونوں (آسمان و زمین) میں ان کو کسی قسم کا ساجھا ہے اور نہ ان تمہارے معبودوں میں سے جن کو تم لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہو اللہ کا کوئی مددگار اور معین ہے۔ بلکہ یہاں تک بے اختیار ہیں کہ اللہ کے پاس ان کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی مگر اسی کو جس کے لئے وہ حقیقی مالک اللہ ذوالجلال اجازت بخشے جن لوگوں (نبیوں ولیوں اور فرشتوں) کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو اللہ کے سامنے یہاں تک تن بتقدیر اور سر بسجود ہیں کہ اللہ کی ہیبت سے جو ان کے دلوں پر وارد ہوتی ہے بیہوش ہوجاتے ہیں اور جب ان کے دلوں سے ہیبت دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ یعنی بذریعہ کشف والہام کیا ارشاد ہوا ہے؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ جو فرمایا ہے بالکل ٹھیک اور سچ فرمایا ہے اور کیوں نہ وہ حق بات فرمائے وہ تو بڑا بلند بڑی کبریائی والا ہے اس کی بلندی شان اس امر کی مقتضی ہے کہ جو فرمائے وہ ٹھیک فرمائے۔ اللہ کی عظمت شان کے مقابلہ میں ان لوگوں کی یہ کیفیت ہے اور ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ انہی کو نافع اور رضا وجان کر دعائیں مانگتے ہیں اے نبی ! تو ان کو سمجھانے کی غرض سے کہہ کہ بتلائو تو کون تم کو آسمانوں یعنی اوپر کی جانب سے بذریعہ پانی کے اور زمین سے بذریعہ روئیدگی کے رزق دیتا ہے؟ یہ خود ہی مانتے ہیں کہ اللہ ہی دیتا ہے۔ اس لئے تو بھی کہہ کہ ہمارا تمہارا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ ہی رزق دیتا ہے تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ ہم جو صرف اسی رازق کو پوجتے ہیں اور اسی اکیلے سے دعائیں مانگتے ہیں یا تم جو اس کے ساتھ اوروں کو بھی ملاتے ہو ہم اور تم دونوں فریقوں میں سے ایک فریق کے لوگ تو ضرور ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں کیونکہ اجتماع نقیضین تو ہوگا نہیں پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ خالص توحید والے بھی اور تم محض شرک والے بھی اللہ کے ہاں ایک نظر سے دیکھے جائو مختلف اجناس مختلف نتائج دیا کرتی ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں فریق باوجود اختلاف شدید کے نتیجہ میں متفق ہوں؟ ہرگز نہیں اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہماری مخالفت اور قرآن کی تکذیب کرنے میں جلدی نہ کرو شاید تمہارا ہی قصور ہو جس کا نتیجہ تمہارے حق میں برا ہو دانا کو چاہئے کہ آئندہ کی فکر کرے یہ نہیں کہ جو منہ پر آئے کہہ دے اور جو دل میں آئے کر گذرے (عیسائی لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نسبت مختلف خیالات رکھتے ہیں نافع ضار تو سب مانتے ہیں لیکن اس نفع اور ضرر کی وجوہات الگ الگ ہیں کبھی تو کہتے ہیں کہ مسیح خود اللہ ہے۔ پادری فنڈر لکھتا ہے :۔ ” پہاڑ پر حضرت موسیٰ کو پکارنے والا مسیح ہی تھا“ (مفتاح الاسرار صفحہ ٣٨) فہرست بائیبل کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ ” اللہ نے ہمارے لئے جسم اختیار کیا۔“ (کتاب کلام اللہ دیباچہ ص ٤) اس کے علاوہ کبھی یہ بھی اظہار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح ہمارا شفیع اور سفارشی ہے چنانچہ ان کا کلمہ طیبہ ہے اَشْھَدُ اَلَّا شَفِیْعَ اِلَّا الْمَسِیْحُ یعنی ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیح کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے۔ قرآن مجید نے ان دونو خیالوں کی تردید کی ہے پہلے خیال کی تردید تو اس طرح کی کہ مسیح اور ان کے سوا تمام ماسوی اللہ کی ذاتی ملکیت کی نفی کردی کہ لَاَیَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ دوسرے خیال کی نفی کرنے کو فرمایا کہ کسی کی سفارش اس وقت ہی کام دے گی کہ اللہ کے ہاں سے اجازت بھی ملے۔ جب سفارش بھی حقیقتاً اللہ ہی کے اختیار میں ہے تو پھر اس مطلب (شفاعت) کے لئے بھی اللہ ہی کو راضی کرنا چاہیے تاکہ وہ مالک اجازت فرمائے اور شفاعت قبول بھی کرے نہ کہ اسی شفیع سے وہ معاملہ کرنے لگ جائے جو اصل بخشنہار سے کرنا چاہیے۔ پس ثابت ہوا کہ عیسائیوں کا خیال دربارۂ حضرت مسیح ہر دو وجہوں سے غلط ہے۔ تنبیہ : مسلمانوں کو بھی اس آیت پر غور کرنا چاہیے جو بزرگوں سے منتیں مانگتے اور دعائیں کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنا منع ہے تو وہ کہتے ہیں ہم ان سے نہیں مانگتے بلکہ ان کے اللہ کی جناب میں سفارشی بناتے ہیں حالانکہ ان کے الفاظ یہ ہوتے ؎ شیئاللّٰہ چوں گدائے مستمند المدد خواہم زخواجۂ نقشبند خذیدی یاشاہ جیلاں خذیدی شیئاللّٰہ انت نُوْر احمدٖ اس دعا کا مطلب بالکل صاف ہے کہ قائل اپنے مخاطب بزرگ سے کہتا ہے کہ :۔ اے خواجہ نقشبند ! میں آپ سے مدد چاہتا ہوں مجھ کو اللہ کے لئے کچھ دیجئے میں محتاج ہوں نظر عنایت کیجئے۔“ ” اے پیر جیلانی ! میری دستگیری کیجئے اللہ کے لئے کچھ دیجئے۔“ یہ ترجمہ اور الفاظ ہی صاف بتلا رہے ہیں کہ متکلم کے نزدیک مخاطب بزرگ فائدہ رسان ہیں ان کو دفع بلا اور ایصال خیر میں قدرت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کی بابت فرمایا لایَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ۔ اگر ان کو شفیع سمجھ کر پکاریں تو بھی درست نہیں۔ کیونکہ سفارش اور شفاعت کسی انسان کے اختیار میں نہیں۔ پس اس وجہ سے بھی کسی مخلوق کو پکارتا یا اڑے وقت میں اس سے استمداد اور استعانت حاصل کرنا ہرگز جائز نہیں حضرت شیخ فرید الدین عطار مرحوم نے کیا اچھا فرمایا ہے ؎ دربلا یاری مخواہ از ہیچکس زانکہ بنود جز اللہ فریاد رس غیر حق را ہر کہ خواند اے پسر کیست در دنیا ازو مگر اہ تر اسی مضمون کو اردو میں یوں بیان کیا گیا ہے ؎ مسلمانو ! ذرا سوچو تو دل میں پھنسے ہو کس طرح تم آب و گل میں بہت مدت کے سوتے اب تو جاگو اللہ کے ہوتے بندوں سے نہ مانگو) تو اے نبی ! یہ بھی کہہ دے کہ ہم تو تم لوگوں کو محض خیر خواہی سے سمجھاتے ہیں ورنہ تم ہمارے گناہوں سے نہیں پوچھے جائو گے اور نہ ہم کو تمہارے اعمال سے سوال ہوگا پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم تم لوگوں کو اتنا سمجھاتے ہیں اور خود تمہاری تکلیفیں اٹھاتے ہیں صرف ہمدردی سے تو اے نبی ! یہ بھی کہہ کہ تم یہ نہ سمجھو کہ جس طرح تم لوگ دنیا میں ہم سے بدکتے ہو الگ رہتے ہو اسی طرح آخرت میں بھی ہم تم الگ ہی رہیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم کو ایک جاجمع کر کے ہمارے اور تمہارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا جس میں کسی کی رو رعایت نہ ہوگی کیونکہ وہ بڑا ٹھیک فصلہ کرنے والا اور بڑے علم والا ہے اس کو کسی کے کہنے سنانے کی حاجت نہیں پس بہتر ہے کہ تم ابھی سے ایسی ناجائز حرکات سے باز آجائو ورنہ پچھتائو گے اور پچھتانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اے نبی ! تو بغرض تفہیم ایک دفعہ پھر کہہ دے کہ جن لوگوں کو تم نے اس اللہ کے ساتھ شریک بنا کر ملا رکھا ہے ذرہ مجھے بھی تو دکھائو کہ وہ کون ہیں؟ انہوں نے کیا کیا کام کئے ہیں؟ کیا کیا بنایا ہے؟ کیونکہ یہ مثل مشہور کہ ” درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے “۔ ہرگز نہیں دکھا سکو گے کوئی ہو تو دکھائو جب کوئی نہیں تو دکھائو کیا؟ بلکہ وہی اللہ اکیلا ہی سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے اس کے مقابلہ کا کوئی نہیں اس لئے اس کا ہمسر کسی کو بنانا یا سمجھنا سخت درجے کا گناہ یہ اسی گناہ کے سمجھانے کے لئے اے نبی ! ہم نے تجھ کو تمام انسانوں کے لئے نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تیرا یہ منصب ہے کہ نیک کاموں پر لوگوں کو خوشخبری سنا کہ تم کو اچھا بدلہ ملے گا اور برے کاموں پر عذاب کا ڈر سنا کہ انجام برا ہوگا لیکن بہت سے لوگ جانتے نہیں کہ نبی کا منصب کیا ہے وہ نبی کو اللہ کا کوئی مشیر خاص یا (صوبہ کا) بااختیار حاکم سمجھتے ہیں اس لئے اس سے ایسے ایسے سوال اور دعائیں کرتے ہیں جو اس کے منصب سے اعلی ہوتی ہیں کوئی اس کو غیب دان جان کر حاضر و ناظر سمجھتا ہے کوئی اس کو وائیسرائے ہند کی طرح اپنے کام میں بااختیار جان کر اپنی حاجت طلب کرتا ہے چنانچہ ان مشرکوں کا سوال بھی اسی قسم سے ہے جو کہتے ہیں کہ مسلمانو ! اگر سچے ہو تو بتلائو یہ وعدہ جو تم قیامت کا سنا رہے ہو کب ہوگا؟ یہ سوال بیا اسی غلط اصول پر مبنی ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ لوگ نبی کو غیب کلی کا عالم جانتے ہیں اسی لئے ایسے سوالات کرتے ہیں پس تو اے نبی ! ان سے کہہ کہ تمہارے لئے ایک دن کی میعاد مقرر ہے جس سے نہ ایک ساعت تم پیچھے ہٹو گے نہ آگے بڑھ سکوگے تاریخ کا علم کسی کو نہیں دیا گیا لہذا یہ سوال غلط ہے سبأ
23 سبأ
24 سبأ
25 سبأ
26 سبأ
27 سبأ
28 سبأ
29 سبأ
30 سبأ
31 (31۔47) اور سنو ! ایسے سوالات کرنے والے کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے نہ اس سے پہلی کسی کتاب کو جائو ہم دونوں سے الگ ہیں ہم کسی کی نہیں سنیں گے لطف یہ ہے کہ یہاں تو بڑے لوگوں کی سن کر چھوٹے بھی وہی راگ الاپتے ہیں اے کاش تم وہ وقت بھی کہیں سے دیکھ پائو جب یہ ظالم اپنے پروردگار کے سامنے مجرمانہ حالت میں کھڑے کئے جائیں گے اس حال میں ایک دوسرے کی طرف سوال و جواب میں باتیں لوٹائیں گے کوئی کچھ کہیگا کوئی کچھ جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہی ضعیف لوگ جو دنیا میں بڑوں کی تابعداری میں ہر ایک نیک و بدبات بلا تمیز کہہ دیتے ہیں بڑے آدمیوں کو کہیں گے۔ اے ظالمو ! اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایماندار ہوتے اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست بڑے لوگ ان ماتحت ضعیفوں کو جواب میں کہیں گے کیا ہم تم کو ہدایت آنے کے بعد ہدایت سے روکا تھا؟ یعنی ہمارا تم پر کوئی جبر تھا؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے کہ بے سوچے سمجھے ہماری ہاں میں ہاں ملاتے تھے اس کے جواب میں ضعیف لوگ بڑے لوگوں کو کہیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے شبانہ روز دائو گھات نے ہم کو روکا جب تم ہم کو ہر ایک طریق سے حکم کیا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے حکموں سے انکار کردیں اور اس کیلئے شریک بنادیں اس لئے ہم بھی ایسا کرتے تھے ورنہ ہم کو کیا سمجھ تھی اور کیا یارا تھا کہ ہم ایسا کرتے اسی طرح جب وہ لوگ تابع اور متبوع عذاب دیکھیں گے تو چھپے چھپے پچھتاویں گے اور چپکے چپکے ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ہم (اللہ) ان کافروں کی گردنوں میں طوق دلوادیں گے جو انہوں نے کیا ہوگا وہی ان کو بدلہ ملے گا یہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ ہم (اللہ) نے جس بستی میں کبھی رسول بھیجے تو وہاں کے آسودہ لوگوں پر چونکہ احکام کی پابندی ناگوار خاطر تھی اسلئے انہوں نے کہا کہ جو احکام دے کر تم کو بھیجا گیا ہے ہم ان سے منکر ہیں ہم سے ایسی غلامی نہیں ہوسکتی اور بولے کہ ہم ایسے گئے گذرے نہیں کہ باوجود آسودہ ہونے کے تمہارے جیسے ناداروں کے تابع ہوجائیں جبکہ ہم مال اور اولاد میں تم سے کئی ایک درجہ زیادہ ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ جب یہاں ہماری عزت ہے تو آخرت میں بھی ہم کو کسی برے کام پر عذاب نہ ہوگا چونکہ یہی خیال اس زمانے کے لوگوں کا بھی ہے کہ دناہوی آسودگی پر آخرت کی نجات کو قیاس کرتے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے اصل یہ ہے کہ دنیاوی رزق کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے میرا پروردگار جو تمام دنیا کا مالک ہے جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے لیکن اکثر لوگ اس راز حکمت کو جانتے نہیں اور محض اٹکل پچو حکم لگاتے ہیں حالانکہ تمہارے مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تم کو ہمارے (اللہ کے) قرب میں پہنچائیں لیکن جو ایمان لائیں اور عمل نیک کریں انہی کے لئے ان کے اعمال کے مطابق دہرا بدلہ ہوگا اور وہ بڑے بڑے بلند بالا خانوں میں امن سے رہیں گے خواہ وہ دنیا میں امیر ہوں یا غریب خواہ دنیا داروں کی نگاہ میں معزز ہوں یا ذلیل کیونکہ دنیاوی وجاہت اور شے ہے اور اخروی عزت دار ان دونوں میں تعلق اور ملازمت اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص دنیاوی عزت کے نشہ میں مست ہو کر آخرت کو بھول نہ جائے اور جو لوگ دنیاوی عزت کے نشہ میں آخرت کو بھول کر مخالفانہ طور سے ہمارے احکام کو توڑنے میں لگتے ہیں وہ لوگ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے اے نبی ! تو ان کو کہہ کہ تم کس خام خیالی میں ہو؟ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے اس تنگی اور فراخی پر تم ہرگز خیال نہ کرو اور اس کو مدار کار نہ جانو ہاں یہ یقین رکھو کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچو گے اس کا بدلہ وہ تم کو ضرور دے گا اور وہ سب سے اچھا رزق دینے والا ہے ایک اصولی غلطی تو ان کی یہ ہے جو ذکر ہوئی دوسری غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ فرشتے جو ہماری نظر سے غائب ہیں اس لئے ان کا تعلق اللہ کے ساتھ ضرور کچھ ہے اس خیال میں پھنس کر یہ لوگ فرشتوں کو بھی الٰہی کاموں میں کچھ دخیل جانتے اور مانتے ہیں سو جس روز اللہ ان سب کو جمع کریگا یعنی قیامت کے دن تو فرشتوں کو بطور اظہار ناراضگی کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے؟ وہ فرشتے کہیں گے اے اللہ تو پاک ہے ہمارا تو والی ہے ان سے ہمارا تعلق نہیں ہم تو ان کو جانتے بھی نہیں نہ یہ ہم کو جانیں بلکہ یہ لوگ دراصل جنوں یعنی شیاطین کی عبادت کرتے تھے گو اس کا اظہار نہ کرتے ہوں کہ ہم جنوں کی پوجا کرتے ہیں لیکن انکی ایسی حرکات چونکہ انہی کی تحریکات سے ہوتی تھیں اس لئے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دراصل جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اکثران میں کے انہی کو مانتے تھے انہی پر انکا ایمان تھا اللہ کی طرف سے انکو جواب ملے گا اصل بات وہی ہے جو تم نے بتا دی پس اس روز تم میں سے کسی کو نہ تو کسی کے نفع پہنچانے کا اختیار ہوگا نہ نقصان کا بلکہ اصل مالک مختار ہماری (اللہ کی) ذات ہوگی اور جن لوگوں نے تم (فرشتوں اور صالحین) بندوں کو مشکل کشا حاجت رواجانا تھا ان کی غلطی اس روز اظہر من الشمس ہوجائے گی اور ہم (اللہ) ظالموں سے کہیں گے کہ آگ کا عذاب مزے سے چکھو جس کی تم لوگ تکذیب کیا کرتے تھے دیکھئے یہ لوگ تکذیب کرتے ہیں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ نبی کے منہ سے نکلی ہوئی ہر ایک بات کی تکذیب کرتے ہیں اور جب ہمارے کھلے کھلے احکام ان کو سنائے جاتے ہیں تو معقول جواب یا عذر تو کر نہیں سکتے ہاں اتنا کہتے ہیں یہ شخص (حضرت محمدﷺ) تو صرف ایک آدمی ہے جو تم کو تمہارے باپ داد اکے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی یہ تعلیم تو صرف ایک گھڑا ہوا جھوٹ ہے دیکھو ان کافروں کی شومی قسمت کہ ان کے پاس جب خالص سچائی کی تعلیم آئی تو کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے کیونکہ اس تعلیم کی روشنی سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں اس لئے وہ اس کا نام جادو رکھتے ہیں اے نبی ! اصل بات یہ ہے کہ تجھ سے پہلے ہم نے ان کو کوئی کتاب نہیں دی جس کو یہ لوگ پڑھتے ہیں اور نہ تجھ سے پہلے حضرت اسماعیل کے بعد ان کے پاس ڈرانیوالا کوئی رسول آیا اس لئے ان کی غفلت حد سے بڑھ گئی تو اللہ کی رحمت ان کے حال پر متوجہ ہوئی مگر ان لوگوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا کہ نبیوں کی تکذیب کی اور بضد تکذیب کی ایسی کہ تمام عمر ایسی ضد پر اڑے رہے یہ لوگ بھی انہی کی ریس پر چلے حالانکہ جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا تھا یہ لوگ عرب کے رہنے والے اس کے عشر عشیردسویں بیسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے پھر ان لوگوں نے تکذیب کی تو میری ناراضگی ان پر کیسی ہوئی؟ سب کو معلوم ہے کہ انکو نیست و نابود کر کے جڑ سے اکھیڑ دیا تو کیا یہ لوگ اس برائی کا بدلہ نہ پائینگے؟ بے شک پائینگے اے نبی ! تو انکو سمجھانے کیلئے کہہ کہ میں تم کو صرف ایک بات بتلاتا ہوں تم اس پر عمل کرو گے تو میرا مطلب پاجائو گے وہ بات یہ ہے کہ تم لوگ باہمی ملکر اور اکیلے اکیلے ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف لگ جائو یعنی اس کا خیال اور خوف دل میں رکھو پھر فکر کرو تو اس نتیجہ پر پہنچ جائو گے کہ تمہارے ہم نشین (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون نہیں ہے پھر جو یہ تمہاری رسومات اور عادات اور عبادات وغیرہ کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے باطنی نور سے تم کو گناہوں اور بدکاریوں کی ظلمات میں پھنسا ہوا پاتا ہے اس لئے وہ بڑے سخت عذاب سے پیشتر تمہیں برے کاموں سے ڈرانے کو آیا ہے اور کچھ نہیں اے نبی تو یہ بھی کہہ دے یہ مت سمجھو کہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہے میں نے اس کی کوئی مزدوری مانگی ہو تو وہ تم ہی کر رہے میری اجرت اور مزدوری تو اللہ ہی کے ذمہ ہے اور کسی سے میرا مطلب نہیں اس کے سوا نہ میں کسی کا اجیر ہوں نہ کسی سے توقع رکھتا ہوں اور وہ ہر ایک چیز پر ناظر اور حاضر ہے سبأ
32 سبأ
33 سبأ
34 سبأ
35 سبأ
36 سبأ
37 سبأ
38 سبأ
39 سبأ
40 سبأ
41 سبأ
42 سبأ
43 سبأ
44 سبأ
45 سبأ
46 سبأ
47 سبأ
48 (48۔54) تو یہ بھی کہہ میرا پروردگار چونکہ سب پر نگران ہے اس کی نگرانی کا یہ نتیجہ ہے کہ جس وقت تمام دنیا میں باطل پھیل جاتا ہے تو وہی اللہ سچی تعلیم دنیا میں بھیجتا ہے جس میں تمام قسم کی ضروریات شامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے تو اے نبی کہہ کہ اسی قاعدہ مستمرہ کے مطابق اب تمہارے سامنے سچی تعلیم آچکی ہے اور باطل مٹنے کو ہے کیونکہ باطل کسی کام اور فائدہ کی چیز نہیں ہے اے نبی ! تو کہہ کہ اگر میں بھولوں تو اس کا وبال میری جان پر ہے اور اگر میں ہدایت پائوں یعنی کسی امر میں صائب الرائے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سبب سے ہے جو میری طرف میرا پروردگار کرتا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کے قریب ہے اس لئے اس کو سب کے حالات ایسے معلوم ہیں کہ کسی کے کہنے سنانے اور جتلانے کی حاجت نہیں اسی قرب اور علم کے مطابق وہ بندوں میں فیصلہ کرے گا وہ فیصلہ کیا ہوگا ایسا ہوگا کہ اس کا نمونہ دنیا میں نہیں اگر تم اس وقت کو دیکھ پائو تو عجب نظارہ دیکھو جب یہ مخالف لوگ اس فیصلے سے گھبرائیں گے اور پیچ وتاب کھائینگے مگر کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس دن کہیں بھاگ نہ سکیں گے اور پاس پاس ہی کے مکان میں پکڑے جائینگے یعنی جہاں کہیں کوئی ہوگا اسی جگہ اس کو مواخذاہ ہوجائیگا دور لیجانے یا سپاہی بھیجنے کی حاجت نہ ہوگی اس وقت کہیں گے ہم اس واقعہ پر ایمان لائے یہ اس لئے کہیں گے کہ انکو توقع ہوگی کہ اتنا کہنے سے ہم چھوٹ جائیں گے مگر ایسے دور دراز مقام سے ان کو کیسے کامیابی ہوگی؟ جو ایمان لانے کا موقعہ تھا وہ تو ہاتھ سے کھو بیٹھے ؎ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کیونکہ اس سے پہلے تو وہ منکر تھے اور دور دور سے محض اٹکل پچو باتیں کیا کرتے اور بےدیکھے بھالے انکار کیا کرتے تھے اب جو یہ انقیاد اور تسلیم ظاہر کر رہے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اب یہ لوگ پکڑے گئے ہیں اور ان میں اور انکی خواہشات میں روک کردی گئی ہے ان کے ساتھ وہی برتائو کیا گیا ہے جیسے ان سے پہلے انکے ہم جنسوں سے کیا گیا کیونکہ علت فاسدہ میں دونوں شریک ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ اور وہ دونوں الٰہی احکام سے سخت انکار میں تھے۔ سبأ
49 سبأ
50 سبأ
51 سبأ
52 سبأ
53 سبأ
54 سبأ
0 فاطر
1 (1۔26) سب قسم کی تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے پردار فرشتوں کو بنی آدم کی طرف رسول بنایا کرتا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہوتے ہیں اس کے علاوہ اور بھی جس قدر چاہتا ہے پیدائش میں زیادتی کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے مولوی عبداللہ چکڑالوی پنجاب میں گذرے ہیں جو حدیث کو دلیل شرعی نہ مانتے تھے مگر نمازوں کی رکعتیں عام مسلمانوں کی طرح دو۔ تین۔ چار (صبح۔ مغرب اور عشا کے) فرض مانتے تھے ان پر سوال ہوا کہ رکعتوں کا یہ شمار تو حدیثوں میں ہے لیکن حدیث تمہارے نزدیک دلیل شرعی نہیں اس کے جواب میں انہوں نے اس آیت سے رکعات کا ثبوت دیا کہ دو تین چار سے مراد نمازوں کی رکعتیں ہیں کیا مضحکہ خیز جواب ہے ایسے ہی لوگوں کے حق میں کہا گیا ہے منکر مے بودن و ہمرنگ مستاں زیستن یہی وجہ ہے کہ جس قسم کی رحمت کا دروازہ بندوں کے لئے اللہ کھول دے کوئی اس کو بند نہیں کرسکتا اور جس کو بند کردے اس کے بعد کوئی اسے کھولنے والا نہیں کیونکہ وہ بڑی قدرت والا اور بڑا زبردست حکمت والا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اکیلا تمام دنیا کا خالق ہے اور سب کو رزق دیتا ہے اسی لئے وہ منادی کراتا ہے کہ اے لوگو ! اللہ کی مہربانیوں کو یاد کرو جو تمہارے حال پر ہیں بڑی مہربانی تو یہ ہے کہ اس نے تمہارا انتظام کسی دوسرے کے سپرد نہیں کیا کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو اوپر سے بذریعہ پانی کے اور زمین سے بذریعہ نباتات کے رزق دے؟ کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ رزق دینا اور زق پیدا کرنا خالق کا کام ہے جو عدم سے وجود میں لائے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں پھر خالق کیونکر ہوسکے؟ اسی لئے اللہ کے سوا نہ کوئی خالق ہے نہ رازق پھر تم کہاں کو بہکائے جارہے ہو؟ کہ اس کے ہوتے ہوئے اوروں سے مانگتے ہو کیا تم نے ایک اہل دل کی نصیحت نہیں سنی؟ کہ وہ کیا ہے؟ جو نہیں ہو ہوتا اللہ سے جسے تم مانگتے ہو اولیا سے یہ تعلیم سن کر بھی اگر نہ مانیں اور ضد ہی کئے جائیں تو اے نبی ! تو صبر کیجیو اگر تیری تکذیب کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں تجھ سے پہلے کئی رسولوں کی تکذیب ہوئی اور کئی ایک شہید کئے گئے مگر چونکہ آخر کار سب کام اللہ ہی کی طرف پھرتے ہیں اس لئے انکا انجام بھی ان کے حق میں اچھا نہ ہوالوگو ! اس قسم کے واقعات سے سبق حاصل کرو کہ اللہ کا وعدہ بے شک سچا ہے جو کچھ اس نے اپنے رسولوں کی معرفت تم کو بتلایا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا۔ پس تم دنیا کی مختصر سی زندگی سے دھوکہ نہ کھائیو اور نہ اس بڑے دھوکہ باز شیطان کے فریب میں آئیو سنو ! شیطان تمہارا یقینا دشمن ہے تم بھی اس کو دشمن سمجھو وہ اپنے گروہ کو بدکاریوں کی طرف اسی لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بنیں جانتے ہو کون لوگ اس کے گروہ میں سے ہیں ؟ جو لوگ کافر ہیں یعنی اللہ کے حکموں سے انکار کرنیوالے یا بے پروائی سے ٹلانے والے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کے لئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے یہ ہے نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ جس کو بہت سے لوگ نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ تو بھلا جس کو اپنے برے اعمال خوب نظر آئیں اور وہ انہی کو اچھا جانے تو وہ کیونکر انکو چھوڑ سکتا ہے؟ ایسے لوگ ہی گمراہ ہوتے ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت کرے مگر اس کا چاہنا بے وجہ نہیں پس اے نبی ! تو ان کے حال پر افسوس کرتے کرتے اپنی جان کو ہلاک نہ کرلیجئیو ہر وقت تجھ کو یہی فکر اور یہی غم ہے کہ لوگ کیوں اللہ کی سچی تعلیم کو نہیں مانتے تو نہ مانیں جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب کو جانتا ہے کیونکہ وہی علیم کل دنیا کا منتظم حقیقی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی بارش سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادل کو اڑاتی ہیں پھر ہم (اللہ) انہی ہوائوں کے ذریعے اس بادل کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں پھر اس بادل کے پانی سے اس زمین کو خشکی کے بعد تازہ کردیتے ہیں دنیا کے ایسے ہیر پھیر سے تم کو علم حاصل کرنا چاہئے کہ اسی طرح قیامت کے روز بھی جی اٹھنا ہوگا یعنی جس طرح مردگی کے بعد زندگی زمین پر دنیا میں آتی ہے اسی طرح قیامت کے روز مردگان پر دوبارہ حیات آئے گی مگر کو تہ اندیش لوگ دنیاوی عزت کے بھوکے دنیا داروں کی غلط گوئیوں پر ہاں میں ہاں ملا کر عزت حاصل کرنی چاہتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی عزت کا طالب ہو تو اس کو بھی اللہ ہی کی رضا جوئی کرنی چاہئے کیونکہ عزت سب کی سب اللہ ہی کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے وہ ایسا جلیل الشان بادشاہ ہے کہ دنیا میں جس قدر پاک کلمات مدحیہ اور تعریفیہ ہیں سب کے سب اسی کی طرف جاتے ہیں یعنی وہی تمام دنیا کی مدائح اور صفات کا مستحق ہے مثلا کسی کی سخاوت کی تعریف ہے تو اس کا مستحق بھی دراصل اللہ ہی ہے جس نے اس بندے کے دل میں سخاوت کی بنیاد رکھی کسی کے حسن وجمال کی تعریف ہے تو وہ بھی دراصل اللہ ہی کی ہے جس نے اس کو ایسا جمیل اور خوبصورت بنایا علی ہذا لقیاس دنیا میں جس قدر کلمات مدحیہ متضمن کسی خوبی کے ہیں ان سب کا مستحق وہی اللہ تعالیٰ ہے جو تمام دنیا کا خالق ہے اور اسی کی شان ہے کہ نیک اعمال کو اپنی طرف اٹھاتا ہے یعنی قبول کرتا ہے دنیا میں جو کوئی بھی نیک کام کرے اس کی قبولیت اسی اللہ کے ہاتھ میں ہے یعنی نیک عمال کا اصل ثمرہ دینے والا وہی ہے باقی دنیاوی منعم اول تو کچھ دے نہیں سکتے جب تک کہ اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں القا نہ ہو دوئم ان کا بدلہ بہ نسبت بدلہ الٰہی کے بہت کم درجہ اور کم حیتل ہوتا ہے۔ تاہم لوگ اللہ کی بے فرمانی کر کے نامہ اعمال سیاہ کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو لوگ مکاری سے برے کام کرتے ہیں دکھاتے ہیں نیکی اور کرتے ہیں برائی ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی مکاری آخر کار تباہ ہوگی جس کا نتیجہ ان کے حق میں برا ہوگا اللہ کی ماتحتی ایسے بدمعاشوں کو ناگوار ہوتی ہے وہ جانتے اور سمجھتے نہیں کہ اللہ ہی نے تم کو یعنی ابتدا میں تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے تمہارا سلسلہ چلایا پھر تم کو جوڑے خاوند بیوی بنایا یہ تو اس کی صفت خالقیت کا تم پر اثر ہے علم اس کا یہ ہے کہ جس کسی مادہ کو حمل ہوتا اور جو مادہ بچہ جنتی ہے وہ اس کے علم سے جیت ہے اور جو شخص انسانی عمر طبعی سے زیادہ عمر دیا جاتا ہے یعنی آگے بڑھتا ہے اور جو کم کیا جاتا ہے وہ سب اللہ کی کتاب میں مرقوم ہے اور اس کے علم میں موجود ہے کچھ شک نہیں کہ یہ کام اللہ کے نزدیک بالکل آسان ہے کیا اتنے تعلقات کے ہونے پر بھی اللہ کی اطاعت گراں ہے؟ اور سنو ! اللہ کی قدرت کے نشان یہ کیا کم ہیں کہ اس نے پانی کے سمندر اور دریا پیدا کر دئیے پھر ان میں تمیز یہ ہے کہ دو قسم کے دریا مساوی نہیں ایک ایسا ہے کہ اس کا پانی میٹھا بہت خوش ذائقہ ہے اور ایک نہایت کڑوا اور کھاری ہے جو تلخی میں انتہا کو پہنچ چکا ہے گو ان کی کیفیت اور ذائقہ مختلف ہے مگر تم لوگ ان دونوں میں سے ترو تازہ مچھلیوں کا گوشت کھاتے ہو اور موتی وغیرہ جواہرات کے زیور نکال کر بیچتے اور پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اور جہاز اس سمندر میں پانی کو پھاڑتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اس اللہ تعالیٰ کا فضل منافع بذریعہ تجارت تلاش کرو اور یہ واقعات تم لوگوں کو اس لئے سنائے جاتے ہیں تاکہ تم لوگ شکر گذاری کرو۔ سنو ! وہی اللہ تمام دنیا کا منتظم حقیقی ہے یہ نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح اس کا انتظام ہے بلکہ اس کا انتظام سب کے انتظامات سے بالا تر ہے رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے یعنی کبھی دن بڑا ہے تو کبھی رات بڑی ہے ان دونوں کی کمی بیشی سے بھی تم کو اس بات کا پتہ ملتا ہے یا نہیں کہ اللہ دنیا کا علیٰ منتظم ہے پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے میں عار کیوں ہے؟ اور سنو ! سورج اور چاند کو اسی نے مسخر کر رکھا ہے کہ بغیر داموں تمہاری خدمت کر رہے ہیں ایسی کہ ہر ایک ان میں کا وقت مقررہ تک چلتا ہے سنو ! یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کا سب کچھ اختیار ہے اس کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے اور جن سے مرادیں مانگتے ہو ان میں کئی ایک طرح سے کمی ہے اسی لئے وہ ایک دھاگہ کا بھی اختیار نہیں رکھتے اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری دعا نہیں سنتے پھر قبول کریں تو کیسے؟ اور اگر فرضا وہ کسی طرح سن پائیں تو تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے اور سنو ! قیامت کے روز تمہارے اس شرک سے انکار کریں گے اور اللہ خبیر جیسی خبر تم کو کوئی نہیں بتلا سکتا یہ اس کی خبرداری کا نتیجہ ہے کہ ایسے آئندہ واقعات کی خبر تم کو پہلے ہی سے بتلاتا ہے پس تم ان سے کسی اچھے نتیجے پر پہنچو اے لوگو ! تم کیونکر اللہ کی تابعداری سے عار کرسکتے ہو حالانکہ تم سب کے سب اللہ کی جناب کے محتاج ہو ہر طرح سے ذات میں صفات میں غرض سب کاموں میں اسی کے ساتھ تمہارا تعلق احتیاج ہے ذات میں تو اس لئے اس کے محتاج ہو کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو تم کچھ بھی نہ ہوتے صفات میں اس لئے کہ اگر وہ تم کو علم قدرت وغیرہ عطا نہ فرمائے تو تم میں کچھ بھی نہ ہو پھر ساتھ ہی اس کے یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ مخلوق کا خالق سے تعلق اس قسم کا نہیں کہ محض بناوٹ میں حاجت ہے بعد بن جانے کے نہیں جیسے درزی یا معمار سے کپڑے اور مکان کو تعلق ہے بلکہ بعد بننے کے بقا میں بھی اللہ کی محتاج ہے پس تم ہر حال میں اللہ کی جناب کے محتاج ہو اور وہ اللہ تم سے اور تمام مخلوق سے بے نیاز ہے یعنی وہ اپنی ذات اور اپنی صفات میں اپنے غیر کا کسی امر میں محتاج نہیں ذات اس کی قدیم ہے صفات اس کی حادث نہیں اس لئے وہ بذاتہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے پس وہ کیا ہے خرد و فہم سے گر دل نے کوئی بات تراشی کہ ہوا اول و آخر کی حقیقت کا تلاشی میرے نزدیک سوا اس کے ہے سب سمع خراشی نہ بدی خلق تو بود ہی نبود خلق تو باشی نہ تو خیزی نہ نشینی نہ تو کا ہی نہ فزائی سنو ! وہ اللہ اس درجہ مخلوق سے بے نیاز اور با قدرت ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آوے اور یہ مت سمجھو کہ ایسا کرنا اس پر کچھ مشکل ہے ہرگز نہیں یہ کام اللہ پر کچھ بھی دشوار نہیں پھر تم لوگ ایسے اللہ کی تابعداری سے گردن کشی کرتے ہو یہ بات تم کو زیبا ہے؟ اور سنو اس غلطی میں بھی نہ رہنا جو بعض گمراہ لوگ تم کو کہتے ہیں کہ تم دین اسلام کو چھوڑ دو ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے ان کے پھندے میں ہرگز نہ پھنسنا اللہ کے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کریگا سو بھریگا اور دوسرا کوئی کسی کے گناہ نہ اٹھائیگا اگر کوئی گناہوں میں دبا ہوا اپنے بوجھ کی طرف کسی دوسرے کو بلائیگا تو اسی سے کچھ لے کر ہلکا نہ کیا جائیگا چاہے قرابت دار ہی کیوں نہ ہو غرض دونوں صورتوں میں سے ایک بھی نہ ہوگی پس تم ابھی سے اس روز کی تکلیفات سے خائف ہو کر مناسب انتظام کرو مگر ایسا کرنیوالے وہی لوگ ہیں جو اپی زندگی کی ہر ایک بات میں اللہ پر سہارا رکھتے ہیں اس لئے اے نبی ! جو لوگ اپنے پروردگار کو اپنا حقیقی مالک مختار سمجھ کر اس سے بن دیکھے ڈرتے رہتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں انہی کو تو ڈراتا ہے یعنی انہی کو تیرے ڈرانے کا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور یوں تو عام قاعدہ ہے کہ جو شخص سدھر جائے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کا رجوع ہے اس وقت بھی اور انجام کار بھی سب امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں مگر اس راز کو سمجھنے والے بہت کم ہیں دراصل وہی لوگ صاحب بصیرت ہیں اور باقی لوگ جو اس راز سے بے خبر ہیں وہ دراصل نابینا ہیں پس تم خود ہی سوچ لو کہ اندھا اور سوا نکھا جس طرح برابر نہیں نہ اندھیرا اور نور برابر ہیں نہ سایہ اور گرمی برابر ہیں نہ زندے اور مردے برابر ہیں اسی طرح اللہ کے بندے پرہیز گار اور بدکردار برابر نہیں پس نتیجہ صاف ہے کہ یہ لوگ جو الٰہی احکام کی مخالفت کرتے ہیں دراصل مردے ہیں یوں اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے مگر تو اے نبی ! قبروں میں پڑے ہوئے ان مردوں کو نہیں سنا سکتا یعنی تیری قدرت سے باہر ہے کہ تو مردوں کو سنا دے کیونکہ جو حس ان میں سننے والی ہوتی ہے وہ تو موت کے آتے ہی فنا ہوجاتی ہے اس کا تعلق کانوں سے ہوتا ہے جب کان ہی نہیں تو قوت کیسی؟ اس لئے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا کیونکہ مردوں میں سننے کی حس ہی نہیں تو تو صرف ڈرانے والا ہے مگر ڈرنے والوں میں استعداد بھی تو ہونی چاہیے ان لوگوں میں جو مخالفت اسلام پر بضد مصر ہیں استعداد فطری تو ہے مگر ان کی بد اعمالی سے مغلوب اور قریب بمعدوم اس لئے ان کو تو قبروں میں پڑے ہوئے مردوں جیسا سمجھنا چاہئے تیرے وعظ و نصیحت کرنے میں شک نہیں اس لئے کہ ہم نے تجھ کو سچائی کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے پھر تو کیوں نہ اپنا کام کرے گا اسی طرح ہر ایک قوم میں عذاب سے کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گذرا ہے جن کے ڈرانے اور سمجھانے کا اثر کم و بیش اس وقت بھی ان قوموں میں ملتا ہے پھر اگر یہ لوگ بضد ہوں اور تیری تکذیب ہی کرتے رہیں تو بھی تجھ کو غمگین نہ ہونا چاہئے کیونکہ جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی تکذیب کی تھی انکے پاس انکے رسول کھلے معجزے دینی مسائل اور روشن کتاب لائے مگر انہوں نے انکار ہی کردیا لیکن تابہ کے؟ جو لوگ کافر تھے میں (اللہ) نے انکو خوب پکڑا پھر میری خفگی کیسی ہوئی؟ اور کیا رنگ لائی؟ جس درجہ کا کوئی حاکم ہو اسی قدر اس کی خفگی بڑی ہوتی ہے فاطر
2 فاطر
3 فاطر
4 فاطر
5 فاطر
6 فاطر
7 فاطر
8 فاطر
9 فاطر
10 فاطر
11 فاطر
12 فاطر
13 فاطر
14 فاطر
15 فاطر
16 فاطر
17 فاطر
18 فاطر
19 فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 فاطر
23 فاطر
24 فاطر
25 فاطر
26 فاطر
27 (27۔39) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایسابڑا حاکم اور مالک ہے کہ اوپر کی طرف سے پانی اتارتا ہے پھر وہ اس پانی کے ساتھ مختلف رنگوں کے پھل پیدا کرتا ہے اور پہاڑوں میں جو بعض ٹکڑے سفید اور بعض سرخ مختلف رنگ کے ہیں اور بعض بہت سیاہ کالے یہ بھی اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں اسی طرح آدمیوں جانوروں اور چارپائوں میں بعض مختلف رنگ کے ہیں ان واقعات کا جاننا ایک بڑا علم ہے جس کو آج کل کے لوگ سائنس یا فلسفہ کہتے ہیں بہت سے لوگ ایسے واقعات کے جاننے والوں کو عالم کہتے ہیں ان کے نزدیک سوائے سائنس دان کے کوئی عالم نہیں ہوسکتا مگر الہامی نوشتوں کی اصطلاح یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں پس یہی (خوف اللہ) علامت ہے علماء کی ورنہ صرف کتابی علم بجوئے نیرزد مختصر یہ کہ جب تک علم کے مطابق عمل نہ ہو وہ علم نہیں جہل ہے۔ جس علم سے یہ سکہ دل پر بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب بڑا بخشنے والا ہے وہی علم ہے اور نہیں اسی لئے الہامی کتابوں میں یہ عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی الہام کی ہوئی کتاب کو پڑھتے ہیں مگر نہ صرف طوطے کی طرح پڑھتے ہیں بلکہ عمدہ طرح سے تدبر و تفکر کرتے ہیں اور نماز وقت پر ادا کرتے ہیں اور ہمارے (اللہ کے) دئیے میں سے حسب موقعہ پوشیدہ اور ظاہر خرچ بھی کرتے ہیں بے شک یہی لوگ ایک بری تجارت کی توقع رکھتے ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ پائیں گے غرض یہ کہ جو لوگ اللہ کی الہامی کتاب کو ہر حال میں اپنارہبر جانتے ہیں گو سائنس اور فلسفہ میں اعلیٰ لیاقت بھی رکھتے ہوں مگر مذہبی ہدایت الہامی کتاب ہی سے حاصل کرتے ہیں عملی پہلو میں بھی ضعیف نہیں بلکہ جسمانی عبادت (نماز) کے علاوہ مالی عبادت بلکہ صدقہ خیرات بھی حسب حیثیت اور حسب موقعہ کرتے رہتے ہیں پس یہی لوگ الہامی نوشتوں کی اصطلاح میں علماء ہیں اور یہی لوگ بڑے تاجر ہیں جو ایک کے کئی ایک کریں گے۔ نتیجہ ان کی محنت اور تجارت کا یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اعمال کے بدلے پورے دے گا اور محض اپنے فضل سے زیادہ بھی عنایت کرے گا کیونکہ وہ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے اس مضمون میں جو الہامی کتاب پڑھنے کا ذکر آیا ہے تم جانتے ہو یہ کونسی کتاب ہے اور کون سے رسول کا الہام ہے سنو ! ہم ہی بتلاتے ہیں جو کتاب ہم (اللہ) نے اے نبی ! تیری طرف وحی کی ہے پس اس زمانے میں وہی سچی کتاب ہے جو کتاب توریت انجیل کے نام کی اس کے سامنے ہے اس کے مضمون اور الہام کی تصدیق کرتی ہے گو اس میں الہامی احکام کے علاوہ اور بھی بہت کچھ خلط ملط ہورہا ہے مگر چونکہ اصل میں اس کا نزول الہامی ہے اس لئے قرآن مجید ان کی تصدیق کرتا ہے یہ واہمہ لوگوں کو ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ کبھی توریت اتاری کبھی انجیل تو کبھی قرآن سو ان لوگوں کو جاننا چاہئے کہ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے خبردار اور دیکھنے والا ہے جو جس زمانے کی ضرورت اور مصلحت ہوتی ہے اس کے مطابق نئی طاقت کے ساتھ احکام نازل کرتا ہے پہلی کتابوں کے بعد پھر ہم نے آسمانی کتاب کے وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا یعنی مسلمانوں کو جو بعد میں تین حصوں میں منقسم ہوئے بعض ان میں کے اپنے حق میں ظالم اور مضرت رساں ہونگے جن کے نیک اعمال بد اعمال کے مقابلہ میں کم ہونگے بعض ان میں کے میانہ رو ہوں گے جن کے اعمال قریب قریب برابر ہوں گے بعض ان میں اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہونگے جیسے اصحاب رسول اور ان کے پیرو جس زمانے میں ہوں غرض یہ تینوں قسم کے لوگ بلحاظ ایمان اللہ کے ہاں فی الجملہ برگزیدہ ہیں یہی اللہ کا بڑا فضل ہے جس کا عوض ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہونگے۔ ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی ان کو پہنائے جائیں گے اور ان باغوں میں ان کا لباس ریشمی ہوگا اور وہ کہیں گے سب قسم کی تعریفیں اللہ کو ہیں جس نے ہم سے ہر قسم کے تفکرات دور کردئیے لہٰذا اب ہم بے فکر اور بے غم ہیں بے شک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا قدردان ہے جس نے ہماری ناقص پونجی (معمولی عبادت) کو قبول فرما کر محض اپنے فضل سے ہم کو ٹھیرنے کے مقام جنت میں اتارا ہے جس میں ہم کو کسی طرح کی نہ تکلیف ہے نہ تکان اور نہ ضعف اور ان کے مقابلے میں جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ ان پر موت کا حکم ہوگا کہ مرجائیں اور نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اسی طرح ہم ہر ایک ناشکرے کافر کو سزا دیں گے وہ اس دوزخ میں چیخیں مارتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو ہم کو اس دوزخ سے نکال لے تو ہم اپنی بداعمالی چھوڑ کر نیک عمل کرینگے جواب ملیگا کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی؟ جس میں کوئی نصیحت پانا چاہتا تو پاسکتا تھا اور تمہارے پاس سمجھانے والے بھی آئے تھے مگر تم نے کسی کی ایک نہ سنی پس اب تم اپنے کئے کا مزہ چکھو ظالموں نافرمانوں کے لئے کوئی مددگار نہیں تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ نے تمہارے حق میں فیصلہ غلط کیا ہے یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کے مخفیات کو جاننے والا ہے بلکہ وہ سینوں کے بھیدوں سے واقف ہے پھر کیونکر ہوسکتا ہے کہ تمہارے اعمال کی براہ راست اس کو خبر نہ ہو اور مخبروں کی رپورٹ سے غلطی کھا جائے سنو ! اسی نے تو تم لوگوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا دنیا کی چیزوں پر اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے ان چیزوں پر تم کو بھی اختیار استعمال دیا مگر تم لوگوں نے اس خلافت کی قدر نہ کی اور اس مضمون سے بالکل غافل ہوگئے کہ گمہاز درمندی سکن برکہاں کہ بریک نمط مے نماند جہاں تم نے اس خلافت کے عطا کرنے والے ہی سے انکار کیا جس کا لازمی نتیجہ تمہارے حق میں مضر ہونا تھا سو ہوا پس جس نے اللہ اور اللہ کے احکام سے انکار کیا تو اس کے کفر اور انکار کا وبال اسی کی جان پر ہے اور کافروں کے کفر سے انکے پروردگار کے ہاں غضب ہی بڑھتا ہے اور کفر سے انکا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے فاطر
28 فاطر
29 فاطر
30 فاطر
31 فاطر
32 فاطر
33 فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 فاطر
37 فاطر
38 فاطر
39 فاطر
40 (40۔45) یہ تو ایک قسم کی نصیحت ہے جسے شاید نہ مانیں اور ایچ پیچ کریں اس لئے بطور مناظرہ ان سے کہہ کہ آئو تو تمہارا صدق و کذب میں اس طرح بھی جانچوں بتلائو تو جن شریکوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھائو تو سہی انہوں نے بنایا کیا ہے؟ کیا زمین میں انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کچھ شرکت ہے؟ اگر کچھ بھی نہیں تو پھر کیا یا باوجود اس بے قدرتی کے ہم نے انکو کوئی کتاب دی ہے کہ اسکی دلیل پر یہ لوگ قائم ہیں؟ جس میں اس امر کی بابت ان کو اجازت ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا شریک بنائیں مگر ایسا نہیں بلکہ بعض ظالم لوگ بعض کو محض دھوکہ اور فریب کے وعدے دیتے ہیں جو ایسی ناجائز مشرکانہ حرکات کی طرف بلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس استھان سے یہ پھل پایا اس قبر سے فلاں مراد پائی جو کوئی یہاں چند ایام اخلاص اور راستی سے مجاور بنا رہے ہیں اس کو ضرور ہی مراد ملتی ہے حالانکہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے آسمانوں اور زمینوں کو باقاعدہ پیدا کیا ہے اور وہی ان کو گرنے سے تھامے ہوئے ہے کیا مجال کہ کوئی چیز اس کے انتظام سے باہر ہو کر سرتابی کرسکے ہر ایک چیز اپنے قانون کے مطابق پیدا ہوتی ہے بڑھیر ہے فنا ہوتی ہے اور اگر یہ دونوں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو اس اللہ کے سوا کوئی ان کو سنبھال نہیں سکتا کیونکہ سنبھالے تو وہ جس میں خالقیت کا وصف ہو اور خالقیت کا وصف مخلوق میں نہیں ہوسکتا خالق صرف وہی وحدہ لاشریک لہ ہے اس لئے وہ باوجود واحد خالق ہونے کے بڑا حوصلے والا اور بخشنے والا ہے نالائق مشرکوں کی شرارت اور شوخی پر تنک مزاجی سے جلد رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ تھوڑی سی توجہ کرنے پر بخش دیتا ہے مگر ان لوگوں کی بھی عجیب حالت ہے بقول ؎ کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ جہالت پر جہالت کئے جاتے ہیں گستاخی پر گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ انہوں نے بڑی پکی قسمیں اٹھائی تھی کہ اگر ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا آئے تو ہم ضرور ہی دیگر اقوام کتابیہ سے زیادہ ہدایت یاب ہوں گے یہ خواہش ان کی اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) کی بد اطواری دیکھ کر ہوتی تھی پھر جب ڈرانے والا ان کے پاس آپہنچا یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول ہو کر آگئے تو ملک میں تکبر اور بد اطواری کرنے کی وجہ سے ان کو سچی تعلیم اور حقانی تلقین سے نفرت ہی نفرت زیادہ ہوتی گئی کیونکہ ان کو عادت ہے ماتحتوں پر تکبر کرنے کی اور اسلام نے سب بنی آدم کو ایک نظر سے دیکھا ہے چونکہ تکبر اور بد اطواری اللہ کو ناپسند ہے اس لئے بداطواری کا اثر ہمیشہ کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے سو ان سے بھی وہی برتائو ہوگا کیونکہ یہ بھی تو اب بس پہلے لوگوں کے سے برتائو کا سا انتظار کر رہے ہیں کہ جس طرح ان پر عذاب آیا ان پر بھی آئے پس تم اللہ کے قانون کو متغیر نہ پائو گے اور ہرگز الٰہی قاعدہ کو ٹلتا ہوا نہ دیکھو گے ضرور بالضرور ایسا ہی ہوگا جو وقت کسی کام کا اللہ کے نزدیک مقرر ہے وہ کام اس وقت پر اسی طرح ہو کر رہتا ہے کیا انہوں نے ملک میں پھر کر نہیں دیکھا؟ کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو جتھے میں زیادہ اور بل بوتے میں ان سے بڑھ کر تھے لیکن آخر کار ہلاک ہوئے کیونکہ مخلوق تھے اور اللہ تو خالق ہے اس کو تو کوئی چیز نہ آسمانوں میں عاجز کرسکتی ہے نہ زمین میں کہ کسی کام کو وہ کرنا چاہے اور بوجہ کسی مانع کے نہ کرسکے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ یعنی اللہ بڑے علم والا اور بڑی قدرت والا ہے نہ اس کے علم کو کوئی پاسکتا ہے نہ اس کی قدرت کو کوئی پہنچ سکتا ہے باوجود اس علم اور قدرت کے حلم اور حوصلہ بھی اس قدر ہے کہ تمام مخلوق کو باوجود بے فرمانیوں کے مہلت اور ڈھیل دیتا ہے حالانکہ اگر اللہ لوگوں کو ان کے برے کاموں پر مواخذہ کرے تو کسی جاندار کو زمین پر زندہ نہ چھوڑے بالغوں اور شرعی مکلفوں کو تو گناہوں کے بدلے باقی ان کے ساتھ تبعیت میں ہلاک ہوجائیں کیونکہ ان کی پرورش کا انتظام انہی سے وابستہ ہے لیکن ایک مقررہ وقت (موت) تک ان کو ڈھیل دیتا ہے پس جب ان کا وقت آجائیگا تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے مطابق ان کو بدلہ دیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ الٰہی برما منگر بر کرم خویش نگر فاطر
41 فاطر
42 فاطر
43 فاطر
44 فاطر
45 فاطر
0 يس
1 (1۔12) اے کامل انسان محمد رسول اللہ علیک السلام قسم ہے تیری الہامی کتاب باحکمت قرآن کی بے شک تو رسولوں میں سے ہے سیدھی راہ قرآن پر جو بڑے غالب بڑے رحم کرنیوالے اللہ کی طرف سے اترا ہوا ہے اس کے رحم کے تقاضے سے اترا ہوا ہے اسی کے غلبہ کے اثر سے پھیلے گا تجھ کو اسی لئے رسول بنایا ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈراوے اور احکام الٰہی پہنچا دے جن کے قریبی باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اسی لئے وہ غافل ہیں۔ بے شک ان میں سے بہتوں کی شرارت کی وجہ سے ان پر حکم الٰہی ثابت ہوچکا ہے پس وہ ایمان نہ لائیں گے ہم نے ان کی گردنوں میں گویا طوق ڈال رکھے ہیں جو ان کی ٹھوڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جن سے ان کے سر اوپر کو ہیں اس لئے نیچے اور سامنے کی چیزیں انکو نظر نہیں آتیں اور ہم (اللہ) نے ان کے سامنے روک کر رکھی ہے اور ان کے پیچھے بھی روک ہے اور ان کی آنکھوں پر گویا پردہ ڈال رکھا ہے پس وہ نہیں دیکھتے یہ کلام ان کے حال کی ایک تمثیل ہے کہ ان لوگوں کو ہدایت سے مختلف قسم کی رکاوٹیں ہیں کچھ برادری کا لحاظ ہے تو کچھ رسم و رواج کی باپندی کہیں شرک و کفر کی محبت کہیں نفسانی خواہشات کی بندش غرض ہر قسم کی بندشوں میں یہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں اس لئے ان کی تمثیل میں یہ کہا گیا کہ ان کے آگے پیچھے دیوار ہے وغیرہ ورنہ اصل میں وہ دیوار کوئی اینٹ چونے کی نہیں ہے بلکہ ان کی غفلت کا نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ اے نبی ! تیرا سمجھانا نہ سمجھانا ان کو برابر ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی طبیعت ادھر نہیں جھکتی تو تو صرف انہی لوگوں کو سمجھاتا ہے جو تیرے سمجھانے کی پیروی کرتے ہیں اور بن دیکھے اللہ رحمان سے باوجود اس کی صفت رحم کے اس سے ڈرتے رہتے ہیں انہی کو تیرے سمجھانے سے نفع ہوتا ہے کیونکہ وہی لوگ عمل کرتے ہیں یوں سننے کو تو سب سنتے ہیں مگر محض کانوں میں آواز کا پہنچنا کافی نہیں جب تک اس سے متاثر ہو کر عمل نہ کریں پس جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کو اللہ کی بخشش اور باعزت بدلہ کی خوشخبری سنا ان لوگوں کو اللہ کی طرف سے نیک اعمال پر جو بدلہ ملے گا وہ ایسا نہ ہوگا کہ دھتکار کر یا ذلت سے دیا جائے نہیں بلکہ بڑی عزت سے ملیگا جس کے وہ مستحق ہوں گے یہ بدلہ کس روز ملے گا؟ جس روز دوبارہ زندہ ہوں گے کچھ شک نہیں کہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ان لوگوں کے پیش کردہ اعمال جو اپنی زندگی میں یہ کر گذرے ہیں اور آثار جو پیچھے چھوڑجاتے ہیں مثلا کوئی خیرات چھوڑ جائیں جس کا اثر عام ہوجیسے کنواں مسجد وغیرہ یا کوئی بدرسم چھوڑ جائیں جس کا وبال عام ہوجیسے بت پرستی استھان یا قبر پرستی کا مقبرہ وغیرہ یہ سب قسم کے اعمال ہم (اللہ کے فرشتے بحکم اللہ) ان کے نامہ اعمال میں لکھتے رہتے ہیں اس کے مطابق بدلہ پائینگے اور اسی کے موافق پھل بھوگیں گے سچ تو یہ ہے کہ یہ لکھنا لکھانا بھی صرف بندوں کے سمجھانے اور قائل کرنے کو ہے ورنہ ہم (اللہ) نے تو سب کچھ روشن کتاب یعنی اپنے علم میں گھیر رکھا ہے ممکن نہیں کہ کوئی چیز اس کے گھیرے سے باہر ہوجائے کیونکہ اس سے باہر ہونا تو اللہ کے علم میں گویا نقص لاتا ہے يس
2 يس
3 يس
4 يس
5 يس
6 يس
7 يس
8 يس
9 يس
10 يس
11 يس
12 يس
13 (13۔30) پس یہ لوگ جلدی نہ کریں ہمیشہ برائی کا بدلہ برا اور نیکی کا بدلہ نیک ہوتا ہے اس لئے ان کو ایک بستی کی مثال سنا۔ (اس بستی کی نسبت بعض مفسروں کی رائے ہے کہ وہ انطاکیہ تھی جس کی طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے شاگردوں کو بھیجا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے شاگرد بھی بواسطہ حضرت ممدوح اللہ کے رسول تھے اس لئے اللہ نے ان کو اپنا رسول کہا۔ اس سے بعض عیسائیوں نے یہ نتیجہ نکالنا چاہا کہ قرآن مجید بھی حضرت عیسیٰ کی الوہیت کا قائل ہے کیونکہ قرآن میں مسیح کے رسولوں کو اللہ اپنے رسول کہتا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ اور مسیح ایک ہی ہیں۔ یا مسیح بھی الوہیت ہے۔ بغور دیکھا جائے تو عیسائیوں کے اس تمسّک اور دلیل کی بنا ان مفسرین کے قول پر ہے جنہوں نے ایسی تفسیر کی۔ لیکن اگر ہم قرآن کی آیت کو قرآن مجید ہی کی اصطلاح میں دیکھیں تو نہ کوئی اعتراض ہے نہ کسی کے جواب کی حاجت۔ کیونکہ جتنے اور مقامات پر یہ لفظ (اِنَّآ اَرْسَلْنَا) آیا ہے اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ اللہ نے بلاواسطہ اپنے رسول بھیجے بس یہاں بھی وہی مراد ہے۔ رہا یہ کہ وہ بستی کون سی ہے جس کا یہاں ذکر ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کا نام نہیں بتلایا۔ نہ اس کے رسولﷺ نے اس کی تعیین کی ہے نہ تعیین کرنے میں کچھ مزید فائدہ ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ خود ہی اس کا نام لے دیتا۔ پس ہم بھی اس کی تعیین نہیں کرسکتے جس کو اللہ نے مجمل چھوڑا (منہ) جب ہمارے فرستادہ رسول اس میں آئے یعنی جب ہم (اللہ) نے انکی طرف دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کی تکذیب کردی پھر ہم نے تیسرے سے ان دونوں کی مدد کی تو ان تینوں نے ملکر کہا ہم تمہاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں لیکن اس بستی کے لوگ بھی عجیب دل و دماغ کے آدمی تھے کہ کسی بات نے ان پر اثر نہ کیا اس لئے انہوں نے رسولوں کے جواب میں بالاتفاق کہا کہ تم تو فقط ہماری طرح کے آدمی ہو۔ اللہ رحمان نے کوئی حکم نہیں اتارا اس کی صفت رحمانیت ہی متقاضی ہے کہ بندوں کو آسانی میں رکھے اس لئے تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ ہم اللہ کے رسول ہی انہوں یعنی رسولوں نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں اور تمہارے انکار سے ہمارا کوئی نقصان نہیں نہ ہم پر گناہ ہے کیونکہ ہمارے ذمے تو واضح طریق سے تبلیغ کرنا ہے اور بس۔ اس کے جواب میں کوئی معقول بات تو بستی والوں کو سوجھی نہیں ہاں اتنا بولے کہ یہ جو آئے دن ہم پر آفات ارضی و سماوی نازل ہورہی ہیں ان میں ہم تمہاری نحوست سمجھتے ہیں جب سے تم آئے ہو ہمارے ملک اور شہر پر یہ آفات آنے لگی ہیں سو اگر تم اس نئے مذہب سے باز نہ آئے تو ہم تم پر پتھرائو کریں گے اور ضرور بالضرور تم لوگوں کو ہماری طرف سے سخت تکلیف دہ عذاب پہنچے گا بس اس گفتگو کو تم لوگ الٹی میٹم (اعلان جنگ) سمجھو اور اپنے وطیرے سے باز آجائو رسولوں نے اس جواب کو سن کر بڑی دلیری اور جوانمردی سے کہا تم لوگ بھی عجیب عقلمند ہو بقول ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں تمہاری نحوست اور شامت اعمال تو خود تمہارے ساتھ ہے جو رات دن بدکاریوں میں مبتلا ہو۔ کیا یہ بھی کوئی انصاف یا ایمانداری ہے کہ اگر تم کو سمجھایا جائے تو تم سمجھانے والے سے لڑتے ہو۔ ہرگز یہ ایمانداری اور انصاف نہیں بلکہ عقلمندوں کے نزدیک تم بڑے بیہودہ ہو اس لئے تمہیں میٹھی دوا بھی بوجہ صفرا تلخ لگی ہے یہ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ اتنے میں لوگ جمع ہوگئے اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص جلدی جلدی بھاگتا ہوا آیا اس نے بھی اس گفتگو میں دخل دیکر کہا اے میرے بھائیو ! تم ان رسولوں کی تابعداری کرو دیکھو تم ان لوگوں کی تابعداری کیا کرو جو تم سے کسی قسم کا عوض اور بدلہ نہیں مانگتے اور وہ خود بھی ہدایت یاب ہیں ایسے لوگوں کی تعلیم بے لاگ اور خود غرضی سے خالی ہوتی ہے یہ تو اس نے اشارے سے بات کی جس کو خاص خاص لوگ ہی سمجھتے تھے مگر آخر کار وہ کھیل کھیلا جب لوگوں نے اسے دھمکایا اور کہا کیا تو انہی کے دین پر ہے؟ تو اس نے کہا میرا کیا عذر ہے کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف میں کیا تم بھی ہر آن رجوع ہو کیا تم لوگ جانتے نہیں؟ کہ ہماری ہستی اور ہمارا وجود سب اسی کے حکم سے وابستہ ہے پھر یہ کیا انصاف اور شعور ہے کہ میں اس کے سوا اوروں کو کبھی معبود بنائوں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ رحمان باوجود صفت رحمانیت کے اگر مجھ کو کسی قسم کا ضرر پہنچانا چاہے تو ان مصنوعی معبودوں سے یہ تو کیا ہی ہوسکے گا کہ مجھ کو بحکم خود چھڑالیں ان کی تو سفارش بھی میرے کسی کام نہ آئے گی اور نہ وہ عذاب سے مجھ کو چھڑا سکیں گے بھلا جو خود مشکل میں کام آئے نہ اس کی سعی سفارش قبول ہوسکے تو پھر تم ہی بتلائو کہ ایسے لوگوں کی عبادت کرنے سے مجھے کیا فائدہ مل سکتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ میں ایسا کرنے سے فورا ہی صریح گمراہی میں جاپڑوں گا اس لئے چاہے تم خوش ہو یا ناخوش میں صاف کہتا ہوں کہ یقینا میں اپنے اور تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں دیکھو ! کچھ سوچو میں نے کوئی برا کام تو نہیں کیا مانا ہے تو کسی غیر کو نہیں مانا ہاں اپنے اور تمہارے پروردگار کو مانا ہے پھر تم مجھ سے کیوں الجھتے ہو؟ پس تم میری سنو ! دیکھو میں بھی ان رسولوں کی طرح تمہارا خیر خواہ ہوں مگر ان کم بختوں نے اس کی ایک نہ سنی بلکہ اس کو قتل کر ڈالا اللہ کی طرف سے اس کو کہا گیا تو جنت میں داخل ہوجا تیری بخشش ہوگئی مگر قومی شفقت سے اس نے کہا اے کاش میری قوم کو معلوم ہوجو اللہ نے مجھ پر بخشش کی اور مجھے اپنے مقرب بندوں میں کیا اگر میری قوم کو یہ معلوم ہوجائے تو کبھی حق سے سرتابی نہ کریں ہم نے اس کے بعد وہی کیا جو عموماً نبیوں کی مخالفت کا نتیجہ ہوا کرتا ہے کہ ایمانداروں کو نجات دی اور اس کی قوم کو تباہ کیا مگر ان کے تباہ کرنے کے لئے ان پر آسمان سے کوئی فوج نہ بھیجی تھی اور نہ ہم کو بھیجنے کی ضرورت تھی بلکہ انکی ہلاکت تو صرف ایک ہی ہیبت ناک آواز سے ہوئی پس وہ فورا ہی تیز آگ کی طرح ایک دم میں بجھ گئے ان کے حال کو دیکھ کر ہر ایک اہل بصیرت کہتا تھا بندوں کے حال پر افسوس جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس آیا تو یہ اس کے ساتھ ٹھٹھے مخول ہی سے پیش آئے اختلاف ان کو بھی یہی تھا جو اس زمانے کے مشرکوں کو ہے کہ اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے یا نہیں بس اسی ایک بات پر ساری نزاع تھی اور اب بھی ہے يس
14 يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 يس
19 يس
20 يس
21 يس
22 يس
23 يس
24 يس
25 يس
26 يس
27 يس
28 يس
29 يس
30 يس
31 (31۔38) کیا انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ ان سے پہلے کئی ایک قوموں کو جو ہم نے ہلاک اور برباد کیا ہے وہ ان کی طرف واپس نہیں آتے تو کیا ان کو مرنا نہیں ضرور ایک وقت ان کے لئے بھی مقدر ہے یقینا ہر ایک ہمارے حضور میں حاضر ہونے والا ہے تو آخر اس حاضری کا بھی کچھ خیال ہے اور اگر یہ لوگ اب بھی انکار ہی پر مصر رہیں تو ان کے لئے مردہ خشک زمین دلیل ہے جس کو ہم (اللہ) پانی سے زندہ یعنی تازہ کردیتے ہیں اور اس میں دانے اگاتے ہیں پھر اس میں سے یہ لوگ کھاتے ہیں اور ہم نے اس زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے ہیں نیز اس زمین میں چشمے جاری کئے ہیں تاکہ اس مذکور کے پھل کھائیں اور اللہ کا احسان مانیں وہ اتنا تو جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں نے اس پھل کو نہیں بنایا کیا پھر بھی وہ شکر نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک بنا کر کفران نعمت کرتے ہیں۔ پس یاد رکھیں جس (اللہ) نے زمین کی پیداوار کی کل اقسام اور خود ان انسانوں کے کل اقسام ایشائی یورپی وغیرہ اور اس کے سوا اور بھی جس کو یہ لوگ ابھی نہیں جانتے صحرائی اور دریائی جانور پیدا کئے ہیں وہ (اللہ) ان کے شرک و شراکت اور بیہودہ خیالات سے پاک ہے اس کی ذات والا صفات تک ان کے غلط خیالات کا واہمہ بھی نہیں پہنچ سکتا اور اگر سننا چاہیں تو ایک اور دلیل ان کو سنائو یہ رات کا وقت ہے جس میں سے ہم دن کی روشنی نکال لیتے ہیں یعنی روشنی کے بعد جب رات کا وقت آتا ہے تو فورا یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں یہ بھی ان کے لئے ہماری قدرت کی ایک دلیل ہے کہ اتنے بڑے اجرام فلکی آن کی آن میں ادھر سے ادھر کیسے آسانی سے چلے جاتے ہیں پھر ایسا انتظام اور ایسا عمدہ نظام کہ سورج جو اتنا بڑا ہے کہ ساری زمین سے اس کا اندازہ آج کل کے حساب سے چودہ لاکھ اسی ہزار درجے بڑا لگایا گیا ہے ممکن ہے آئندہ کو اس سے بھی بڑا ثابت ہو وہ بھی اللہ کے حکم کا ایسا محکوم کہ رات دن ایسا چکر میں ہے کہ گویا اپنے ٹھیرنے کی جگہ کے لئے چل رہا ہے یعنی وہ ہر وقت قدرت کے ماتحت ایسا متحرک ہے گویا اپنا ٹھکانہ تلاش کر رہا ہے جسامت تو اتنی بڑی اور حرکت اتنی تیز کہ اہل رصد کے حساب سے فی گھنٹہ اڑسٹھ ہزار میل رفتار کا حساب لگایا جاتا ہے باوجود اس جسامت اور اس سرعت کے کبھی اپنی لائن سے گرا نہیں نہ کبھی متخلف ہوا کیونکہ یہ اندازہ اللہ غالب اور علم والے کا ہے دنیا میں ریلوے اوقات بنانے والوں کے اندازے اس لئے غلط ہوجاتے ہیں کہ ایک تو انکو آئندہ کا علم نہیں ہوتا کہ کیا کیا موانعات پیش آئیں گے دوئم پیش آمدہ موانعات کو اٹھانے کی ان میں قدرت نہیں ہوتی مگر اللہ ذوالجلال میں دونوں باتیں ہیں علم اس کا جمیع موانعات گذشتہ اور آئندہ پر محیط ہے غلبہ اس کا تمام عالم پر مسلم ہے اس لئے اس کے اندازہ میں کسی طرح کا نقص نہیں آسکتا يس
32 يس
33 يس
34 يس
35 يس
36 يس
37 يس
38 يس
39 (39۔40) اور سنو ! چاند کی ہم (اللہ) نے کئی ایک منزلیں بنائی ہیں جن میں وہ مہینہ کا چکر کاٹتا ہے یہاں تک کہ جن لوگوں کی آنکھوں میں وہ بدر کامل ہوتا ہے انہی کی نگاہ میں ایک پتلی سی شاخ جیسا ہوجاتا ہے حتٰی کہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے دو روز بالکل گم رہ کر پھر مغرب سے نکلتا ہے اللہ کے نظام کو دیکھو کہ نہ سورج سے بن پڑتا ہے کہ چلتے چلتے چاند کو دبا لے اور نہ رات کا وقت دن کے مقررہ وقت سے پہلے آسکتا ہے ہر ہر موسم کے لحاظ سے جو کسی کا وقت مقرر ہے وہ اسی وقت میں آتا ہے اور چاند سورج زہرا مشتری اور مریخ وغیرہ سب کے سب اپنے اپنے مدار پر پھرتے ہیں یہ ہے نظام شمسی جو نظام ارضی سے بدرجہا بڑا ہے آجکل جو ہر ایک پڑھے ان پڑھے کی جیب میں دو تین اونگل کی گھڑی رہتی ہے اس کو ہر روز چابی لگاتے ہیں بنواتے ہیں تیل ڈلواتے اور صاف کرواتے ہیں تاہم وہ وقت پر نہیں چلتی کبھی دو منٹ آگے تو کبھی چار منٹ پیچھے تو کیا اتنا بڑا نظام شمسی جو ساری زمین سے بھی کئی گنا بڑا ہے یہ بغیر کسی محافظ کے چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان کا بھی ایک زبردست محافظ ہے۔ اسی کی طرف تمام انبیاء اور سید الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام بلاتے اور اسی سے دل بستگی کا سبق دیتے رہے ؎ اوچو جان است و جہاں چوں کا لبد کالبد ازوے پذیر وآلبد ) ماہ اگست ١٨٩٦؁ء میں آریہ لیکچرار کا لیکچر ” اللہ کی ہستی“ پر تھا۔ فاضل لیکچرار نے بڑی خوبی سے اس مضمون کو ثابت کیا۔ اثنائے تقریر میں کہا کہ ایک ذمہ میرا لیکچر بمبئی میں دن کے ٤ بجے تھا۔ میں گیا تو لوگوں نے کہا آپ دیر کر کے آئے ہیں۔ میں نے اپنی گھڑی دکھائی تو چند منٹ ہنوز باقی تھے کسی کی گھڑی میں چار منٹ زیادہ۔ کسی میں پانچ کم۔ یہ کہہ کر لائق لیکچرار نے نتیجہ نکالا کہ جب یہ چھوٹی سی گھڑی جس کی اس قدر حفاظت بھی کی جاتی ہے وقت پر ٹھیک نہیں چل سکتی تو اتنے بڑے سورج چاند وغیرہ بغیر کسی محافظ کے کیونکر چل سکتے ہیں ! جن کی بابت کبھی لیٹ ویٹ کا جھگڑا بھی نہیں سنا“ مجھے اس وقت قرآن مجید کی ان آیات پر توجہ ہوئی کہ سبحان اللہ آج اس علم اور روشنی کے زمانے میں جو بڑی زبردست دلیل دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں تیرہ سو برس پیش تر ہوچکی ہے۔ کیوں نہ ہو نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے ( يس
40 يس
41 (41۔47) اور سنو ! ان منکروں کے لئے ایک نشان یہ ہے کہ ہم (اللہ) ان کی نسل کو بھری کشتیوں اور جہازوں میں سوار کرتے ہیں ہم نے پانی کو ایسا بنایا کہ وہ بوجھ اٹھا سکے لکڑی کو ایسا بنایا کہ پانی پر تیر سکتی ہے اس کے ساتھ لوہا بنایا پھر ساتھ ہی اس کے اس کے بنانے کا لوگوں کو ڈھب بتایا غرض یہ سب ہمارے (اللہ کے کام ہیں کیا تم نے نہیں سنا؟ کار زلف تست مشک افشانی امّا عاشقاں مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اور ہم (اللہ) نے ان کے لئے اس مذکور کی اور مثل سواریاں بھی بنائی ہیں گھوڑا ٹٹو سائیکل موٹر کار اور ریل وغیرہ جن پر یہ لوگ چڑھتے ہیں کیا اللہ کے احسانوں کا یہی شریہ ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں؟ کہ جب تک دریا میں ہوتے ہیں مارے خوف کے ہماری طرف متوجہ رہتے ہیں اور جب کنارے پر پہنچتے ہیں تو شرک کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پھر نہ کوئی انکا فریاد رس ہو نہ مصیبت سے چھڑائے جائیں سواء اس کے کہ ہم ہی ان پر رحمت کریں اور انکو زندگی کے ایک معین وقت تک پہنچانا چاہیں تو پہنچا دیں پس بجز ہماری رحمت اور دستگیری کے کوئی بھی ان کا حامی یا مددگار نہیں اور سنو ! یہ ایسے مغرور اور متکبر ہیں کہ جب انکو کہا جاتا ہے کہ اپنے آگے اور پیچھے کی آفات سے بچو یعنی اللہ کے عذاب سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے ( اور جب کبھی ان کے پاس اس پروردگار کے ہاں سے کوئی نشان آتا ہے کبھی بیماری کبھی قحط کبھی ارزانی کبھی گرانی تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے اس سے روگردانی کر جاتے ہیں یہ تو سے بڑھ کرسنو ! جب کبھی ان کو کہا جائے کہ اللہ کے دئیے ہوئے میں سے اسی کی راہ میں خرچ کرو تو بے ایمان لوگ ایمانداروں کو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے لوگوں کو کھانا کھلائیں جو بحکم اللہ بھوکے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود ان کو کھلا دیتا بلکہ اس سے الٹا نتیجہ نکالتے ہیں کہ تم تو مسلمانو ایسے مسلمانوں کو کھانا کھلانے میں صریح غلطی میں ہو کیونکہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تو اللہ کا مقابلہ ہے کہ جس کو اللہ بھوکارکھے تم اس کو کھانا کھلائو مگر یہ نادان قدرتی امور کو کیا جانیں قدرت کے کام اسی طرح ہیں کہ بندوں کو بندوں سے فائدہ پہنچاتا ہے کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں اسی طرح کھاتے ہیں جس طرح وہ پیدا ہوتی ہیں نہیں بلکہ بنا سنوار کر کھاتے ہیں کئی ایک بنانے پر ہیں کئی ایک بیچنے پر کئی ایک پکوان پر غرض ایک قدرتی چیز میں کئی ایک لوگوں کا رزق وابستہ ہے مثل گیہوں چاول آم خربوزہ وغیرہ یہ سب چیزیں جس حال میں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح کھائی جاتی ہیں؟ کسی بندے کی صنعت کو اس میں دخل نہیں ہوتا؟ بس یہی ان کا جواب سمجھو يس
42 يس
43 يس
44 يس
45 يس
46 يس
47 يس
48 (48۔68) اور سنو یہ لوگ کہتے ہیں یہ قیامت کا وعدہ جو تم لوگ بتلاتے ہو کب ہوگا؟ سچے ہو تو بتلائو یہ سوال بھی ان کا کسی نیک نیتی سے نہیں بلکہ محض ضد سے ہے سنؤ یہ لوگ دراصل ایک ہی آواز کے منتظر ہیں جو قیامت کے وقت انکو پکڑ لیگی اس حال میں کہ یہ لوگ دنیا میں باہمی جھگڑتے ہوں گے پھر یہ ایسے پھنسیں گے کہ نہ اپنے پس ماندگان کو وصیت کریں گے نہ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس ہوسکیں گے بلکہ جہاں پر کوئی ہوگا وہیں پکڑا جائے گا اور سنو صور پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوگی تو یہ سب لوگ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے ان مردگان میں نیک بھی ہوں گے چونکہ وہ اپنی قبروں میں آرام سے گذراتے ہوں گے اس لئے وہ اٹھتے ہوئے کہیں گے ہائے ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھایا؟ بعد غوروفکر خود ہی جواب میں کہیں گے کہ تو وہی دن ہے جس کا اللہ رحمان نے اپنی مہربانی سے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا دراصل ہماری غفلت تھی کہ ہم نے اس طرف توجہ نہیں کی حقیقت میں وہ گھڑی ایک ہی آواز سے پیدا ہوگی جس کو سنتے ہی سب لوگ ہمارے (اللہ کے) حضور حاضر ہوجائیں گے پھر اس روز کیا ہوا؟ یہی کہ کس جان پر ظلم نہ ہوگا اور جو کچھ تم کرتے ہو اسی کا تم کو بدلہ ملے گا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور بدکار جہنم میں اور جنت والے اس روز پسندیدہ مزے میں جی بہلا رہے ہوں گے کیونکہ وہ اور ان کی بیویاں تختوں پر تکیے لگائے ہوں گے ان کے لئے ان بہشتوں میں ہر قسم کے پھل پھول ہونگے اور اس کے سوا جو کچھ وہ چاہیں گے ان کو ملے گا ان سب نعمتوں میں بڑی بات یہ ہوگی کہ پروردگار مہربان کی طرف سے ان کو سلام کہا جائے گا یہ سلام شاہانہ نظر عنایت ہوگا اور بغرض امتیاز کرنے نیک و بد کے کہا جائے گا کہ او بدکارو ! دنیا میں تو تم نیکوں کے ساتھ یکجا رہے ایک ہی زمین پر ایک ہی ہوا میں ایک ہی قسم کا رزق کھاتے اور پانی پیتے رہے مگر آج تم الگ ہوجائو گو مجرموں کی شکل و شباہت اور چہروں کی علامات ہی تمیز کرانے میں کافی ہونگی مگر ظاہری علیحدگی کے لئے بھی ان کو یہ حکم دیا جائے گا کیونکہ وہاں نیکوں کے ساتھ بدوں کا ملے جلے رہنا اللہ کو کسی طرح منظور نہیں ہوگا یہ سخت حکم سن کر مجرم عذر کریں گے کہ ہمارا کیا قصور؟ ہمیں تو خبر نہ ہوئی تھی کہ کیا کرنا چاہئے کیا نہ کرنا چاہئے اس کے جواب میں ان کو کہا جائے گا کیا میں (اللہ) نے انبیاء کے ذریعے سے تم لوگوں کو اطلاع نہ دی تھی؟ کہ اے بنی آدم ! شیطان کی اطاعت مت کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے اور خالص میری اطاعت کرنا یہی سیدھی راہ ہے دیکھو تم لوگوں کو نبیوں کی معرفت اس امر کی اطلاع ہوچکی تھی اور وہ شیطان تم میں سے بہتوں کو گمراہ بھی کرچکا تھا کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے تھے؟ بس اب تمہارا کیا عذر ہے؟ یہ لو جہنم سامنے ہے جس کا تم لوگ وعدہ دئیے جاتے تھے اچھا ! بسبب کفر کرنے کے آج اس میں داخل ہوجائو اس روز ان مجرموں کے بیانات لینے کا طریقہ بھی ایک خاص قسم کا ہوگا کہ (اللہ) ان کے مونہوں پر تو بندش کی مہریں لگادیں گے اور جو کچھ وہ لوگ دنیا میں کر رہے ہونگے اس کی بابت ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور پیر گواہی دیں گے غرض جو کام جس کسی عضو سے ہوا ہوگا وہ اسکی شہادت دیگا پس تم سمجھ لو کہ اس وقت میں مجرم کیا عذر کرسکیں گے؟ اگر یہ لوگ غور کرتے تو دنیا میں کیوں ایسی غفلت میں رہتے کیا ان کو علم نہیں کہ اگر ہم (اللہ) چاہیں تو انکی آنکھوں کو بے نور کردیں چونکہ یہ لوگ اللہ کی طاقت بینائی سے اس کی رضاء کا کام نہیں لیتے اس لئے اللہ کے غضب سے کچھ دور نہیں کہ وہ ان کی قوت بینائی چھین لے پھر یہ راستے کی طرف لپکیں تو کہاں سے دیکھ سکیں اور سنو ! اگر ہم چاہیں تو یہ لوگ جہاں ہیں وہاں ہی ہم ان کو مسخ کردیں یعنی ان کی شکلیں بدل ڈالیں پھر تو راستہ بھی نہ چل سکیں نہ اپنے گھروں کو واپس ہوسکیں بلکہ جہاں ہوں وہاں رہ جائیں اور سنو ! ہم ایک اور دلیل اپنی ہستی کی انکو سناتے ہیں جو انکے حق میں وجدانی ہے غور کریں کہ ہم جس کسی کو زیادہ عمر دیتے ہیں یعنی طبعی عمر (٦٠ سے ٧٠) سال سے اس کو بڑھا دیتے ہیں تو اسکو پیدائش میں الٹا کردیتے ہیں یعنی باوجود طوالت عمر اور کثیر تجربہ کے عقل میں کم اور طاقت میں کمزور ہوتا جاتا ہے تو کیا پھر بھی تم اس راز کو سمجھتے نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ سنو ! ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے اوپر ایک زبردست طاقت ہے تمام دنیا جس کے قانون کے ماتحت ہے اس لئے باوجود عمدہ عمدہ غذائیں کھانے کے کمزوری کی طرف ہی مائل ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ پیوند زمین ہوجاتا ہے یہ تو اللہ کی ہستی پر بین دلیل ہے يس
49 يس
50 يس
51 يس
52 يس
53 يس
54 يس
55 يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 يس
60 يس
61 يس
62 يس
63 يس
64 يس
65 يس
66 يس
67 يس
68 يس
69 (69۔83) اب سنو ! رسالت کا بیان کہ یہ رسول جو تم کو قرآن سناتا ہے یہ کوئی شاعر نہیں اور ہم (اللہ) نے اس کو شعر بنانا نہیں سکھایا شعر گوئی تو درکنار شعر خوانی میں بھی اس کی طبیعت موزوں واقع نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے کا شعر بھی موزوں نہیں پڑھ سکتانہ اس کو ایسی شعر گوئی زیبا ہے ) آنحضرت ﷺ جب کبھی کوئی شعر پڑھتے تو کلام موزوں نہ رہتا جیسے ہمارے ہاں کوئی غیر موزوں طبع والا کبھی کوئی شعر پڑھتا ہے۔ تو خواہ مخواہ کمی بیشی اس سے ہوجاتی ہے (منہ ( وہ کلام جو تمہیں سنایا جاتا ہے یعنی قرآن شریف وہ تو صرف نصیحت کی بات ہے اور قرآن مبین یعنی شستہ عربی کلام تاکہ جو لوگ زندہ دل ہیں انکو برائی سے ڈراوے اور منکروں پر حکم ثابت ہوجائے یعنی جو لوگ اس کی اطاعت کریں وہ تو بچ رہیں اور جو اس سے انکار کریں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے یہ ہے اصل غرض قرآن مجید کے اتارنے کی اور یہ ہے اصل مطلب قرآن کے سنانے کا بھلا ان لوگوں کو علم نہیں؟ یا کیا انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے چارپائے بنائے تو یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں کیا اس سے یہ لوگ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ اللہ کے ساتھ ہمارا کیسا تعلق ہے وہ ہمارا کون ہے اور ہم اس کے کون ہیں؟ اللہ ان کا حقیقی مربی اور اصل مالک ہے اور یہ اس کے اصلی مملوک اور بندے ہیں پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان کی جسمانی تربیت تو کرے مگر روحانی تربیت میں ان کو بے خبر چھوڑ دے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جیسا ان کی جسمانی تربیت کے لئے جسمانی سلسلہ پیدا کیا روحانی ہدایت کیلئے سلسلہ نبوت قائم فرمایا اور سنو ! ان کی تربیت کے لئے ہم (اللہ) نے مویشیوں کو ان کے بس میں کردیا بعض ان میں سے ان بنی آدم کی سواری کا کام دیتے ہیں اور بعض کو یہ لوگ کھاتے ہیں جیسے بھیڑ بکری وغیرہ اور ان لوگوں کیلئے ان مویشیوں میں کئی قسم کے فوائد ہیں اور پینے کو دودھ کیا پھر بھی شکر یہ نہیں کرتے اور اللہ کے سوا مصنوعی معبود بناتے ہیں کہ کسی طرح ان کی طرف سے ان کو مدد پہنچ جائے حالانکہ وہ مصنوعی معبود ان کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ ان کے حضور میں جماعت جماعت حاضر ہوتے ہیں جب یہ ایسے بیوقوف ہیں تو انکی کسی بات سے کیا ملال؟ پس اے نبی ! تو ان کی باتوں سے غمگین نہ ہوا کر بکتے پھریں جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں ہم (اللہ) خوب جانتے ہیں ہمیں کسی مخبر کی ضرورت نہیں ؟ نہ کسی گواہ کی حاجت ہے بھلا کیونکر ہمیں کسی مخبر کی ضرورت ہو کیا انسان جانتا نہیں کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا کس طرح اس پر انقلابات آئے اور کس طرح ہم اس کے نگران رہے باایں ہمہ پھر بھی وہ ہمارا صریح دشمن ہے ہمارے (اللہ کے) حق میں غلط ملط مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی سابقہ پیدائش بھولتا ہے کہ کیسے ہم نے اسکو نطفے سے پیدا کیا بلکہ یہ ظالم کہتا ہے کہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا کاش یہ لفظ بھی بغرض دریافت حال کہتا نہیں بلکہ بطور طنز کے کہتا ہے اس لئے اے نبی ! تو اس کو کہہ کہ وہی ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی دیکھو تو یہی معمولی درخت ہیں جو دراصل سبز ہوتے ہیں لیکن ان میں باوجود تری کے آگ قبول کرنے کی استعداد موجود ہے جو پتھروں میں نہیں ہے اسی لئے تو تم لوگ اس میں سے فورا آگ سلگا لیتے ہو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے کہ جس ذات پاک نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اسے اس بات پر قدرت نہیں کہ وہ ان جیسے لوگ پیدا کردے قیامت میں بھی جو حشر اجساد ہوگا وہ ان جسموں کا نہ ہوگا یہ گل سڑ کر فنا ہوجائیں گے بلکہ ان کی مثل اور اجسام اللہ پیدا کرے گا جو انہی اجسام کے مثل ہوں گے بے شک وہ قادر قیوم ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا بڑے علم والا ہے جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا حکم بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس چیز کو کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے مجال نہیں کہ اس کے حکم کو تخلف ہوسکے پس نتیجہ ساری سورت کا یہ سمجھو کہ جس ذات بابرکات کے قبضہ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے وہ سب عیوب سے پاک ہے اور اسی کی طرف بعد موت تم واپس کئے جائو گے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون يس
70 يس
71 يس
72 يس
73 يس
74 يس
75 يس
76 يس
77 يس
78 يس
79 يس
80 يس
81 يس
82 يس
83 يس
0 الصافات
1 لوگو ! سنو ! قسم ہے صفیں باندھنے والوں فرشتوں اور مجاہدوں کی الصافات
2 قسم ہے حالت جنگ میں دشمنوں پر احکام الٰہی میں مناسب موقع سخت زجر کرنے والوں کی الصافات
3 قسم ہے حالت جنگ میں بھی نصیحت کی کتاب قرآن پڑھنے والوں کی الصافات
4 ، ان قسموں کا جواب یہ ہے کہ بے شک تمہارا پروردگار ایک ہے متعدد نہیں۔ الصافات
5 آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا وہی رب ہے۔ دنیا کی تمام مطالع کا اور مطالع کے پاس رہنے والی مخلوق کا پروردگار بھی وہی ہے الصافات
6 چونکہ نظام شمسی اور ارضی کے مالک ہم (اللہ) ہی ہیں۔ ہم ہی نے اس ورلے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا الصافات
7 اور ہر ایک سرکش شیطان سے اس آسمان کو محفوظ رکھا۔ الصافات
8 ایسا محفوظ کیا کہ وہ شیاطین اعلیٰ جماعت ملائکہ کی باتیں سن نہیں سکتے بلکہ ان کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے ہر طرف سے ان کو دھتکار ہوتی ہے الصافات
9 اور اس کے سوا ان کی گمراہی اور گمراہ کنی پر ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ الصافات
10 ہاں ان میں سے کوئی کسی بات کو اچک لے تو دھکتا ہوا انگار اس کے پیچھے لگ ! جاتا ہے ) اس آیت پر ایک مشہور اعتراض وارد ہوتا ہے جس کا ذکر تفسیر کبیر میں بھی ہے۔ کہ یہ رجوم جو شیاطین کو لگتے ہیں۔ کونسے ستارے ہیں؟ یہی جو دیکھنے میں آرہے ہیں؟ یا جو برسات کے دنوں میں ٹوٹتے نظر آتے ہیں؟ قسم اول ہے تو ان کی تعداد میں کمی آنی چاہئے۔ قسم دوم ہے تو خاص برسات بالخصوص اگست و ستمبر کے مہینوں میں کیوں زیادہ ہوتے ہیں؟ خاکسار کی ناقص تحقیق میں قسم اول مراد ہے کیونکہ جن ستاروں کو آسمان کی زینت فرمایا اونہی کو شیاطین کے لئے رجوم بتلایا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانی ستارے ہی شیاطین کے لئے غرض اس قسم کے انتظامات قدرتی ہیں رجوم (دھتکار) ہیں۔ اللہ نے ان میں تاثیر ایسی رکھی ہے کہ شیاطین کو ملاء اعلیٰ کے قرب سے مانع ہے۔ جیسے آگ میں تاثیر ہے کہ انسان کو اپنے قرب سے مانع ہوتی ہے۔ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان میں بھی یہ توجیہ ملتی ہے۔ اللہ اعلم (منہ) الصافات
11 ایسے انتظامات کو زیر نظر رکھ کر کوئی صاحب عقل سلیمہ کہہ سکتا ہے کہ دوسری دفعہ پیدا کرنا اللہ پر کوئی مشکل امر ہے؟ پس تو اے نبی ! ان سے دریافت کر کہ ان کا دوبارہ پیدا کرنا بہت زیادہ مشکل ہے ؟ یا ان چیزوں کا پیدا کرنا جن کو ہم بنا چکے ہیں ؟ کچھ شک نہیں کہ ہم (اللہ) نے ان کو شروع پیدائش کے وقت لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے تو کیا جس کو ایک دفعہ بنایا ہو دوبارہ اس کا بنانا زیادہ مشکل ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ آسان ہے الصافات
12 اسی لئے تو اہل دانش ان کی باتوں کو حقارت سے سنتے ہیں تو تعجب کرتا ہے اور وہ ہنسی کرتے ہیں بیوقوف سمجھتے نہیں کہ یہ ہنسی دراصل ان کی ہنسی ہے جو دوردرازکاء سوال کرتے ہیں الصافات
13 اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو نصیحت نہیں پاتے الصافات
14 اور جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو مسخری کرتے ہیں الصافات
15 اور کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ الصافات
16 یہ کیسی بہکی بہکی باتیں ہیں کہ ہم مر کر اٹھیں گے یہ بھی کہتے ہیں کہ بھلا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم دوبارہ پھر جئیں گے ؟ الصافات
17 کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی پھر جئیں گے ؟ الصافات
18 اے نبی ! یہ لوگ تو ایسی باتیں بڑی حیرانی سے کرتے ہیں مگر تو ان کو کہہ کہ ہاں واقعی تم جئیو گے اور تمہارے باپ دادا بھی سب کے سب دوبارہ جئیں گے اور اگر اسی غلط خیال پر قائم رہے تو تم اس روز ذلیل وخوار ہو گے۔ الصافات
19 پس سنو ! وہ قیامت کی گھڑی تو بس صرف ایک آواز سے پیدا ہوگی فورا ہی وہ سب لوگ زندہ ہو کر دیکھنے لگ جائیں الصافات
20 اور کہیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی یہ تو انصاف کا دن ہے اوہو ہمارا اعمالنامہ تو ایسے کاموں سے بالکل خالی ہے جن کی وجہ سے نجات مل سکے الصافات
21 ان کو جواب ملے گا کہ یہی دن تو فیصلے کا ہے جس کی تم لوگ تکذیب کرتے تھے اب تو تمہیں یقین بلکہ حق الیقین ہوگیا کہ ہاں واقعی یہ دن ٹھیک ہے۔ الصافات
22 (22۔23) ادھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اول درجہ کے ظالموں یعنی مشرکوں کے گروئوں اور ان کے ساتھیوں یعنی تابعداروں کو اور اللہ کے سوا جن جن کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے بشرطیکہ وہ بھی اس پوجا پر راضی ہوں سب کو ایک جا جمع کر کے جہنم کی طرف لے جائو الصافات
23 الصافات
24 اور چلتے چلتے راستے میں ٹھیرا لیجئیو ان کو پوچھا جائے گا الصافات
25 کہ تم لوگ جو دنیا میں ایک دوسرے کی اطاعت۔ تابعداری اور جان نثاری کیا کرتے تھے اب تمہیں کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ الصافات
26 وہ لوگ بالکل خاموشی سے یہ کلام سنیں گے بلکہ وہ اس وقت اللہ کی فرمانبرداری کا اظہار کریں گے الصافات
27 (27۔28) اور بعض ان میں کے یعنی تابعدار بعض یعنی گرئووں اور پیروں کی طرف متوجہ ہو کر سوال کرتے ہوئے کہیں گے کہ حضرت آپ لوگ تو ہم پر بڑے زور سے آیا کرتے تھے اور بڑے بڑے وعدے دیتے تھے کہ ہمارا مذہب ایسا ہے۔ ہمارا دھرم ایسا۔ ہم تم کو یوں مدد دیں گے۔ ہم تمہاری نجات کرا دیں گے مگر آج تو کچھ بھی ظاہر نہ ہوا۔ جیسے ہم ڈوبے ویسے تم بھی غرق ہوئے الصافات
28 الصافات
29 وہ ان کے گرو اور جھوٹے پیر کہیں گے کہ میاں بلکہ اصل بات تو یہ تھی کہ تم لوگوں کو اللہ پر ایمان نہ تھا۔ ورنہ ہمارے خالی خولی زبانی دعاوی میں کیوں پھنستے۔ تم میں ایمان ہوتا تو تم اتنا ضرور سوچتے کہ ہمارے دعوے کہاں تک سچے ہیں۔ الصافات
30 یہ کیا بات ہے کہ کوئی تم سے کہ دے کہ میں اللہ ہوں تو تم لوگ اس سے نہ پوچھو کہ اللہئی کی کونسی علامت تجھ میں ہے ایسا کرنا تو ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کو نہ جانتے ہوں۔ ورنہ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ بلکہ تم خود سرکش بدمعاش لوگ تھے الصافات
31 پس ہمارے پروردگار کا حکم جس کے ہم سب لوگ مستوجب تھے ہم پر لگ گیا کچھ شک نہیں کہ اب ہم عذاب بھگتیں گے الصافات
32 چونکہ تم خود ہی سرکش تھے اس لئے ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ تھے۔ الصافات
33 پس اس گفتگو سے تم لوگ جو ان کی گفتگو سن چکے ہو سمجھ گئے ہو گے کہ اس کا نتیجہ یقینی یہ ہوگا کہ بے شک وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والے اس روز عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے الصافات
34 اسی طرح ہم مجرموں بدکاروں کے ساتھ برتائو کریں گے۔ الصافات
35 ایسے مجرموں کی علامت یہ ہے کہ جب ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں یعنی لا الہ الا اللہ کی تعلیم دی جاتی ہے تو وہ لوگ بگڑ کر اکڑ بیٹھتے ہیں کہ ہیں ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب دنیا کا معبود ایک ہی ہو ؟ الصافات
36 اس لئے اس کی تردید کرنے کو طرح طرح کے بہانے تراشتے اور کہتے ہیں کہ کیا ایک مجنون شاعر اور ہوائی قلعے بنانے والے کے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ الصافات
37 نبی کو شاعر اس لئے نہ کہتے تھے کہ وہ شعر گو ہے بلکہ وہ اپنے خیال میں نبی کی تعلیم کو شاعروں کے وہمی خیالات جیسے جانتے ہیں حالانکہ وہ ایسا نہیں بلکہ وہ نبی سچی تعلیم لایا اور اس نے بحکم الٰہی سب برگزیدوں اور رسولوں کی تصدیق کی ہے اس لئے ہر طرح سے راست باز اور راست بازوں کا دوست ہے الصافات
38 پس تم اے منکرو ! اس کی سزا میں دردناک عذاب چکھو گے الصافات
39 اور جو کچھ تم کرتے ہو اسی قدر بدلہ پائو گے الصافات
40 ہاں جو لوگ اللہ کے مخلص بندے ہیں الصافات
41 ان کے لئے رزق مقررہے الصافات
42 یعنی ہر طرح کے پھل پھول ان کو ملیں گے الصافات
43 (43۔44) اور وہ آپس کی دوستانہ ملاقات کے وقت نعمتوں کے باغوں میں عزت کے ساتھ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ الصافات
44 الصافات
45 (45۔46) ان کی مجلس میں صاف سفدع اور پینے والوں کو لذت دینے والی شراب کا دور چلایا جائے گا۔ الصافات
46 الصافات
47 جس میں نہ نشہ کا خمار ہوگا۔ نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی کیونکہ سرے سے وہ نشہ آور ہی نہ ہوگی بلکہ محض ایک لذیذ چیز ہوگی الصافات
48 اس کے علاوہ ان کے پاس بڑی خوبصورت باحیا عورتیں موٹی موٹی آنکھوں والی ہوں گی الصافات
49 جو حسن اور دل فریبی میں ایسی ہوں گی گویا وہ شتر مرغ کے انڈے پردے میں مستور ہیں پردے کی وجہ سے ان کی خوبصورتی یعنی سرخی آمیز سفیدی پر غبار وغیرہ کا بالکل اثر نہیں پہنچ سکتا۔ الصافات
50 ایسی نعمتوں میں اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھیں گے الصافات
51 بعض کہیں گے میرا ایک ساتھی تھا الصافات
52 جو مجھے کہا کرتا تھا کہ اسلام کے معتقدات کی تو تصدیق کرتا ہے؟ الصافات
53 بھلا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم اپنے اعمال کا نیک وبد بدلہ پائیں گے الصافات
54 میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس ساتھی کو دیکھوں کہ اس کا انجام کیا ہوا اس کے بعدا پنے ساتھیوں سے کہے گا کار تم اسے دیکھنا چاہتے ہو۔ ) آریوں کو دیکھا گیا ہے کہ عموماً ہر مجلس میں جنت کی خمر ( شراب) پر اعتراض کیا کرتے ہیں حالانکہ بارہا ان کو ( تحریراً اور تقریراً) سمجھایا گیا کہ جنت کی خمر میں نشہ نہ ہوگا۔ بلکہ ( بیضآء لذۃ للشاربین) محض ایک رنگ کا دودھ جیسا لذیذ شیرہ ہوگا۔ جو پینے والوں کو لذت دے گا۔ قرآن مجید میں فرعونیوں کے حق میں ذکر ہے وان یروا سبیل الرشد لا یتخذوہ سبیلا یعنی ہدایت اور رشد کی بات سن کر اس کو اختیار نہ کرتے تھے۔ یہی حال تمام مخالفین اسلام کا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کرے۔ منہ۔ ( الصافات
55 پھر وہ جہنم کی طرف جھانکے گا تو اس ساتھی کو درمیان جہنم کے دیکھے گا الصافات
56 اس کا حال دیکھ کر کہے گا اللہ کی قسم تو تو اپنی ملمع دار باتوں سے مجھے بھی تباہ کرنے کو تھا الصافات
57 اگر مجھ پر اللہ کی مہربانی نہ ہوتی تو میں بھی تیرے ساتھ ہی جہنم کے حاضرین میں ہوتا۔ الصافات
58 کیا (ہم نے اللہ کا وعدہ نہیں پایا) کہ مر کر جی اٹھے ہیں۔ ) اس آیت کا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ نے یوں کیا ہے ” البتہ نیستیم ما مردہ شوندہ مگر بموت نخستیں“ اور حضرت شاہ عبدالقادر صاحب (رح) نے یوں ترجمہ کیا ہے ” کیا اب ہم کو نہیں مرنا مگر جو پہلی بار مر چکے“ مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم نے یوں ترجمہ کیا ہے ” کیا ہم ( جنتیوں کا یہ حال نہیں کہ پہلی بار مرنا تھا ( سو مر چکے) اب آگے کو ہمیں مرنا نہیں ” فارسی ترجمہ میں قرآنی حرف استفہام کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ دوسرے ترجمہ میں استفہام ہے مگر استفہام تقریری معلوم ہوتا ہے تیسرے ترجمہ میں ان دونوں سے زیادہ اغلاق ہے خطوط وحدانی کی عبارت کو اٹھا دیں تو بالکل کچھ بھی مفہوم نہیں ہوتا۔ بہر حال ان بزرگوں کے ترجمہ ناظرین کے سامنے ہیں (جزاہم اللہ) ہمارے خیال میں آیت موصوفہ کا ترجمہ کرنے سے پہلے اس کی نحوی ترکیب پر غور کرنا ضروری ہے کچھ شک نہیں کہ ہمزئہ استفہام کسی حرف پر نہیں آتا۔ بظاہر جو اس کا مدخول ہے وہ حرف (ف) ہے اس لئے ہمزئہ استفہام کا مدخول حقیقتہ یہ نہیں بلکہ جملہ محذوفہ ہے تقدیر کلام یوں ہے السنا بمجزنیین نعم فما نحن بمیتین یعنی استفہام کا تعلق پہلے جملے سے ہے جو مستفہم باستفہام تقریر ہے اور دوسرا جملہ محل استفہام نہیں بلکہ نتیجہ ہے اس ترکیب کے بعد ہمارے ترجمہ پر نظر غائر ڈالینگے تو صحیح پائیں گے۔ منہ ( الصافات
59 بے شک پایا ہے پس پہلی موت کے سوا جو ہم پر آچکی ہے اب ہم نہ مریں گے نہ کسی طرح سے ہمیں عذاب ہوگا۔ الصافات
60 کچھ شک نہیں کہ یہی (نجات) بڑی کامیابی ہے۔ الصافات
61 چاہیے کہ ایسی ہی چیز کے لئے کام کرنے والے کوشش کریں الصافات
62 کیا یہ بہشتوں کی اللہئی مہمانی اچھی ہے یا تھوہر کا درخت اچھا ہے الصافات
63 جس کو ہم (اللہ) نے ظالموں کے لئے عذاب بنایا ہے۔ الصافات
64 اس کی اصلیت یہ ہے کہ وہ ایک ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے الصافات
65 اور بہت بڑا بلند ہے اس کے پھل کیا ہیں ؟ اچھے خاصے گویا شیطانوں کے سر ہیں۔ یعنی نہایت قبیح منظر۔ الصافات
66 پس وہ لوگ اس کو کھا کر پیٹ بھریں گے الصافات
67 پھر کھولتا ہوا گرم پانی ساتھ ساتھ اس کے ان کے پینے کو ہوگا۔ کھانے پنے و کا کمرہ الگ ہوگا الصافات
68 یعنی رفرشمنٹ روم بعد کھا اور پی چکنے کے پھر اس رفرشمنٹ روم سے ان کی واپسی جہنم کی طرف ہوگی۔ الصافات
69 ان کی ایسی سزا کی وجہ کیا ہوگی؟ وجہ یہ کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا الصافات
70 تو خود بھی ان کے نقش قدم پر لپکے لپکے جاتے رہے۔ یعنی بے سوچے سمجھے ان کی تقلید کرتے رہے۔ حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ سوچتے غور کرتے کہ عقل اور دین کی بات کیا ہے الصافات
71 اور سمجھتے کہ ان فاعلین سے قبل اگلے لوگوں میں بہت سے لوگ گمراہ ہوچکے ہیں پھر یہ کیوں اپنے باپ دادا کے تقلید پر قانع ہوئے اور اس کو عقل سے نہ جانچا الصافات
72 حالانکہ ہم (اللہ) نے ان میں ڈرانے والے لوگ یعنی رسول اور رسولوں کے نائب بھیجے مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے الصافات
73 پس دیکھو کہ ان ڈرائے ہوئے لوگوں کا انجام کیسا ہوا۔ الصافات
74 یہ ہوا کہ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے سب کے سب ہلاک ہوئے اور اپنے کیفر کردار کو پہنچے الصافات
75 مثال کے طور پر سنو ! ہم (اللہ) نے نوح کو رسول کر کے بھیجا تو مدت مدید وہ وعظ کہتا رہا مگر آخرکار تنگ آکر اس نے ہم کو بوقت مصیبت پکارا اور کہا اللہ کریم ! اب تو ان شریر کافروں کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے بس تو اب ان کو ہلاک کر پس ہم نے اس کی یہ دعا قبول کی کیونکہ نیک بختوں کی دعائیں ہم بہت اچھی طرح قبول کیا کرتے ہیں اور ہم بہت اچھے قبول کرنے والے ہیں الصافات
76 اور ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے متعلقین کو بڑی گھبراہٹ کے عذاب سے بچایا۔ الصافات
77 اور اس قوم میں سے اس نوح کے اتباع ہی کو باقی رکھا اور اس کے مخالفوں کو نیست ونابود کردیا الصافات
78 اور پچھلے لوگوں میں جاری کیا الصافات
79 کہ سارے عالم میں نوح پر سلام ہواسی لئے حضرت نوح سلام اللہ علہ کی تعظیم کرنے والے سب دنیا میں موجود ہیں۔ الصافات
80 ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ ہم نیک لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ ان کے دشمن ان کو بدنام کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں ہم ان کی نیک شہرت عالم میں پھیلاتے ہیں آخرکار یہ ہوتا ہے کہ ان کے دشمن سب ناکام رہ کر ذللب وخوار ہوجاتے ہیں اور ہمارا ارادہ سب پر غالب آتا ہے۔ الصافات
81 (81۔82) نوح سے ایسا برتائواس لئے کیا گیا کہ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھا انسانی کمالات میں یہ اعلیٰ درجہ ہے کہ اللہ پر ایمان کامل ہو اس لئے ہم نے اس کو بچایا پھر اوروں کو جو اس کے مخالف تھے ہم نے ہلاک کردیا کیونکہ وہ بڑے مفسد تھے۔ ) تمام دنیا پر طوفان نوح آنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں بلکہ برعکس ثابت ہے کہ خاص ان لوگوں پر آیا تھا۔ جنہوں نے حضرت نوح کی تکذیب کی تھی۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ قوم نوح لما کذبوا الرسل اغرقنا ھم نوح کی قوم نے جب تکذیب کی تو ہم نے ان کو غرق کردیا۔ پس جنہوں نے تکذیب کی تھی وہی غرق ہوئے۔ ساری دنیا پر نہ آبادی تہی نہ ساری دنیا نے تکذیب کی تھی نہ غرق ہوئے۔ منہ ( الصافات
82 الصافات
83 (83۔113 اور سنو اسی نوح کے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) تھا۔ اس نیک دل فرشتہ سیرت کا قصہ سارا ہی عجیب وغریب ہے خصوصا جب وہ اپنے پروردگار کی طرف صاف دل کے ساتھ رجوع ہوا یعنی جس وقت اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ کن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو۔ کیا اللہ کے سوا جھوٹے معبود بناتے ہو؟ اگر تم ایسے ہو۔ تو اصل رب العالمین کی نسبت تمہارا کیا گمان ہے ؟ پھر اس نے اتفاقیہ آسمان کے ستاروں میں نگاہ ڈالی تو کہا میں بیمار ہوں۔ ) بعض لوگوں کو خیال ہوا ہے کہ چونکہ لوگ ستارہ پرست تھے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سیاروں کی طرف دیکھ کر کہا تاکہ ان لوگوں کو یقین ہو۔ کیونکہ وہ ستاروں میں ایسی تاثیرات کے قائل تھے۔ مگر دراصل یہ خیال غلط ہے۔ انبیاء اور صلحاء کفار کو غلط خیالات پر قائم نہیں رکھا کرتے نہ صراحتہ نہ اشارۃ بلکہ اصل بات صرف یہ ہے۔ کہ ” ف“ کا حرف اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ماقبل کا تحقق مابعد سے پہلے ہونے کا ثبوت ہو۔ پس کلام کا مطلب اتنا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں بلکہ تینوں کلام یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوئے نہ کہ یہ کہ ان میں سے کوئی دوسرے حصہ کی علت یا سبب ہے اس لئے ہم نے تیری میں ” اتفاقیہ“ کا لفظ بڑایا ہے۔ منہ ( مخالفوں نے جب یہ سنا تو وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے پھر ابراہیم کی بن آئی وہ فورا ان کے معبودوں کی طرف گیا اور ان کے آگے کھانے کی چیزیں دھری پڑی دیکھ کر کہا اے مصنوعی معبودو ! تم کھاتے کیوں نہیں۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ یہ سب باتیں حضرت ابراہیم نے فقط ان کی توہین اور تذلیل کرنے کی نیت سے کی تھیں ورنہ اس کو معلوم تھا کہ یہ محض پتھر ہیں نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ اٹھتے ہیں نہ چلتے ہیں جب وہ نہ بولے تو وہ بڑے زور سے ان بتوں کو توڑنے پھوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ توڑ پھوڑ کر چور چور کردیا۔ پھر تو وہ لوگ ان کے پجاری، ابراہیم کی طرف دوڑے آئے کہ ہیں ہیں ! ابراہیم ! یہ کیا۔ تم نے تو غضب کیا۔ ہمارے معبودوں کو توڑ دیا۔ ابراہیم نے کہا نادانو ! تمہیں سمجھ نہیں کہ ان بیچارے عاجزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو کیا تم ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جن کو تم لوگ اپنے ہاتھوں سے تراش تراش کر بناتے ہو حالانکہ معبود کے لئے خالق ہونا ضروری ہے یہ تمہارے معبود تو مخلوق کے مخلوق ہوئے یعنی تمہارے بنائے ہوئے ہاں میرا معبود اللہ ایسا سچا معبود ہے کہ اسی نے تم کو اور تمہارے کاموں کو پیدا کیا یعنی تم بھی اور تمہارے افعال بھی اسی کے مخلوق اور ماتحت ہیں پھر یہ کیا بے انصافی ہے کہ اللہ خالق کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کی عبادت کرتے ہو۔ ان لوگوں نے باہمی مشورہ کر کے کہا کہ ہم اس نوجوان پر کسی دلیل کے ساتھ تو غالب آنہیں سکتے اور یہ قاعدہ تو مسلمہ ہے چوحجت نماند جفاجوئے را بہ پیکار کر دن کشد روئے را اس لئے بہتر ہے کہ اس کا ایک دم فیصلہ ہی کیا جائے پس اس کے لئے ایک بڑا مکان بنائو اور اس میں بڑی تیز آگ جلائو۔ پھر اس ابراہیم کو اس دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔ ایسا کرنے سے اس کو مزہ آجائے گا یاد کرے گا کہ ساری قوم سے بگاڑ کرنا ایسا ہوتا ہے غرض انہوں نے اس ابراہیم کے حق میں برائی کرنے کا ارادہ کیا کہ آگ میں جل کر مر جائے۔ (کچھ شک نہیں کہ کید سے مراد اس جگہ وہی ان کی تدبیر ہے جو القوہ فی الجحیم میں وہ بتلا چکے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ کے متعلق آج کل موشگافیاں ہو رہی ہیں اس لئے پہلے قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے کہ اصل الفاظ سے آگ کا سرد ہونا ثابت ہے یا نہیں۔ اس تحقیق کے لئے ہمارے خیال میں دو لفظوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اول یہ کہ پروردگار نے فرمایا یا نارکونی بردا۔ اس میں کونی مؤنث مخاطب کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ ہے اے آگ سرد ہوجا۔ آگ کو سرد ہونے کی بابت کن کے لفظ سے حکم دیا ہے ایک اور مقام پر عام قاعدہ کے طور پر ارشاد ہے اذا ارادشیئا ان یقول لہ کن فیکون یعنی اللہ جب کسی کام کو چاہتا ہے تو اس کو کن کہتا ہے پس وہ ہوجاتا ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جس چیز کو کن کے لفظ سے حکم ہو حکم ہوتی ہے وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے اس عام قانون کو ملحوظ رکھ کر جب ہم ابراہیمی نار پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ ابراہیمی آگ ضرور سرد ہوگی ورنہ کن سے مکون کا تخلف لازم آئے گا۔ رہا یہ سوال کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا محال۔ واقعات پر غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسے واقعات محال نہیں۔ اللہ اپنی مخلوق پر ہر طرح سے تصرف تام رکھتا ہے و ھو القاھرفوق عبادہ انہی معنی میں ہے۔ اس اصول پر مفصل حواشی پہلی جلدوں میں لکھے گئے ہیں۔ منہ) مگر ہم نے ان ہی کو مغلوب اور ذلیل کیا یعنی حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ کو سلامت باکرامت بچا لیا وہ آگ سے نکل آیا اور نکل کر اس نے دیکھا کہ قوم کی حالت دگرگون ہے اس لئے اس نے سوچا کہ اب میرا یہاں رہنا اچھا نہیں۔ اپنے ہم خیالوں سے کہا اب میں اپنے پروردگار کی راہ میں کسی طرف چلا جاتا ہوں وہ خود ہی مجھے ہدایت کرے گا کہ مجھے کہاں ٹھہرنا اور کہاں رہنا چاہیے۔ پس ؎ نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی نکل شہر سے راہ جنگل کی لی خیر ابراہیم اپنا وطن چھوڑ کر نکل گیا اور جہاں اس کو امن وامان سے زندگی بسر کرنے کا موقع ملا بسر کرتا رہا۔ آخرکار جب وہ بہت بوڑھا ہوا اس نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے صالح اولاد بخش جو میرے کام میں مدد کرے اور میرے پیچھے اس کے بحال رہنے کا باعث ہو۔ پس ہم (اللہ) نے اس کو ایک بڑے بردبار لڑکے کی خوشخبری دی کیونکہ تبلیغ احکام میں بردباری کی بہت ضرورت ہے اس لئے ہم نے اس کو بردبار لڑکا عطا کیا جس کا نام تھا اسمعیل !۔ جب وہ لڑکا اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا یعنی پانچ چھ سال کا ہوا تو ابراہیم نے ایک خواب دیکھا جس کا بیان اپنے صاحبزادہ سے یوں کیا کہ اے میرے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں چونکہ میرا ضمیر کہتا ہے کہ یہ خواب تاویل طلب نہیں بلکہ صاف صاف ظاہری الفاظ میں مراد ہے اس لئے میں تو اس کو اللہئی حکم جانتا ہوں پس تو بتلا تیری کیا رائے ہے؟ وہ بھی تو آخر ابراہیم زادہ تھا جو بحکم ابن الفقیہ نصف الفقیہ ابراہیمی خصائل رکھتا تھا گو عمر میں ہنوز بچہ تھا۔ مگر ہونہار بردے کے چکنے چکنے پات“ اس لئے اس نے صاف الفاظ میں کہا بابا جان ! میرا خیال ہے کہ آپ کو بذریعہ خواب میرے ذبح کرنے کا حکم ہے پس جو کچھ آپ کو حکم ہوتا ہے کیجئے انشاء اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی کوئی بے صبری یا بے چینی ظہور میں نہ آئے گی بلکہ آپ مجھ کو صابر پائیں گے کیونکہ میرا عقیدہ ہے۔ ؎ درمسلخ عشق جز نکور انکشند لاغر صفتان وزشت خور انکشند گر عاشق صادقی زکشتن مگر یز مردار بود ہرآنچہ اور انکشند ( اس میں اختلاف ہے کہ یہ ذبیح) لڑکا کون تھا۔ اسمعیل یا اسحق فریقین کے اپنے اپنے خیالات ہیں اور اپنے دلائل مگر یہ آیت قرآنی فیصلہ کرتی ہے کہ یہ لڑکا اسمعیل تھا۔ کیونکہ انہی آیات میں اسحق کا ذکر ذبیح لڑکے کے بیان کے بعد آتا ہے۔ جس کا شروع یوں ہے و بشرناہ باسحق نبیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حلیم اور ذبیح لڑکا اسمعیل تھا اور اسحق الگ ہے جس کو اس قصہ پر عطف کے ساتھ بیان فرمایا۔ اللہ اعلم۔ منہ) پس جب وہ دونوں (باپ بیٹا) اللہ کی تابعداری پر مستعد ہوئے اور بہ نیت ذبح کرنے کے ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پیارے بچے کو ماتھے کے بل گرایا تو ہمیں ان کی فرمانبرداری بہت ہی بھلی معلوم ہوئی۔ اور ہم (اللہ) نے اس ابراہیم کو آواز دی کہ اے ابراہیم ! تو نے اپنا خواب اصلی معنی میں سچا کردیا۔ جزاک اللہ بارک اللہ۔ شان عاشقی یہی ہے۔ بس اب یہ کمال عاشقی اپنا رنگ لائے گا کہ تو درجہ محبیت سے درجہ محبوبیت میں پہنچے گا۔ یعنی تیرا نام ابراہیم خلیل اللہ ہوگا ہم (اللہ) اسی طرح نیک بندوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ کہ درجہ محبی سے ترقی دے کر درجہ محبوبیت تک پہنچا دیتے ہیں جس پر پہنچ کر وہ دونوں مراتب (محبی اور محبوبی) کے جامع ہوجاتے ہیں یعنی ان میں دونوں وصف پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ کو چاہتے ہیں اللہ ان کو چاہتا ہے یہی ایک بڑی کھلی نعمت ! ہے اللہ جسے نصیب کرے وہی خوش قسمت ہے اور سنو۔ ابراہیم کے اخلاص کی وجہ سے ہم (اللہ) نے اس کے لڑکے اسمعیل کے بدلہ میں بڑی قربانی دی" یعنی ابراہیم کو حکم دیا کہ اس کے بدلہ میں ایک بہت عمدہ موٹی تازی قربانی ذبح کر دے چنانچہ وہی طریق تم مسلمانوں میں مروج ہوا اور ابراہیم کی شان کو ایسا بڑھایا کہ اس سے پچھلے لوگوں میں ہم (اللہ) نے یہ دستور جاری کیا کہ ابراہیم کا نام لیتے ہوئے یا ذکر خیر کرتے ہوئے یوں کہیں کہ ابراہیم پر سلام یعنی حضرت ابراہیم کا نام عزت سے لیا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں دستور ہے کہ پیغمبروں کے ناموں کے ساتھ (علیہ السلام) وغیرہ کہتے ہیں۔ ہم (اللہ) اپنے نیک بندوں کو اسی طرح نیک بدلہ دیا کرتے ہیں کہ ان کے حاسد تو ان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں مگر ہم ان کے خیر خواہ اور محب ایسے لوگ پیدا کردیتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں ان کے حاسدوں کی آواز بالکل پست ہوجاتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ابراہیم ہمارے پکے ایماندار بندوں سے تھا۔ بڑا وصف اس میں یہی ایک (ایمان کامل) تھا۔ واقعی بات بھی یہ ہے کہ ایمان کامل ہی ایک بڑا بھاری وصف ہے اسی ایک وصف کے ہونے سے تمام کام سیدھے ہوجاتے ہیں اور اسی ایک کے نہ ہونے سے تمام کام بگڑ جاتے ہیں مگر افسوس کہ بہت سے لوگ ایمان کے معنی بھی نہیں جانتے۔ ایمان یہ ہے کہ دینی اور دنیاوی تمام نفع اور نقصانات کا مالک اللہ ہی کو جاننا اور دل سے اعتقاد رکھنا کہ اس کی رضا میں بیڑا پار ہے اور اس کی خفگی میں غرقاب ہے۔ اس خیال کو ہر وقت دل میں جمائے رکھنا۔ بس یہ ہے ایمان۔ ایسا ہی ایمان ہمارے ہاں معتبر اور مثمر ہے اگر ایسا نہیں تو بجوے نارزد (کوڑی کے کام کا نہیں) اور ہماری مہربانی سنو کہ ہم نے اس ابراہیم کو ایک اور بیٹے اسحق کے نبی اور نیکوں کی جماعت میں ہونے کی خوشخبری دی یعنی بشارت تولد کے ساتھ ہی بتلا دیا کہ وہ نبی ہوگا اور صلحا کی جماعت کا ایک کامل فرد ہوگا۔ یہ اس لئے بتلایا کہ نیک باپ کو بیٹے کی خوشی اسی حال میں ہوتی ہے جب بیٹا بھی اس کی روش پر ہو۔ باپ کی روش پر نہیں تو بجائے خوشی کے الٹا صدمہ ہوتا ہے اس لئے ہم نے ابراہیم کو یہ خوشخبری سنائی اور اس ابراہیم پر اور اسحق پر بڑی برکت کی اور ان کو بہت بڑھایا۔ ان کی اولاد دنیا کیی معزز قوموں میں شمار ہوئی۔ مگر یہ بھی سن رکھو کہ شیخ سعدی کا قول بالکل سچ ہے۔ ؎ ہنر بنما اگر داری نہ جوہر گل ازخارست ابراہیم از آوز اس لئے ان دونوں نیک بختوں کی اولاد میں نیک بھی ہوئے اور بداعمالیوں سے اپنے نفسوں کے حق میں صریح ظالم بھی۔ غرض ہر طرح کے لوگ ہوئے یہ اس لئے تم کو بتلایا ہے کہ تم سمجھ لو کہ کسی بزرگ اور صالح کی اولاد سے ہونے کا فخر بے جا ہے اللہ کے ہاں اس کی کوئی قدر نہیں جب تک خردوں کے اعمال بزرگوں جیسے نہ ہوں الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 الصافات
98 الصافات
99 الصافات
100 الصافات
101 الصافات
102 الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 الصافات
113 الصافات
114 (114۔122) اور سنو ! ہم (اللہ) نے انہی کی اولاد میں سے حضرت موسیٰ اور ہارون پر بھی بڑا احسان کیا کہ نبی بنایا اور ان کو اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو سخت گھبراہٹ یعنی فرعونی عذاب سے نجات دی اور ہم (اللہ) نے ان کی مدد کی تو وہی اپنے دشمنوں پر غالب ہوئے اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب تورات دی اور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت کی ایسے کہ وہ خود لوگوں کے ہادی بنے اور ان کے بعد پچھلے لوگوں میں ہم نے یہ دستور جاری کیا کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام یعنی ان کا ذکر اور نام عزت اور دعائے خیر سے لیتے ہیں اسی طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں کہ دنیا میں ان کا نام عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ دونوں حضرات موسیٰ اور ہارون علیہما السلام ہمارے (اللہ کے) ایماندار بندوں میں سے تھے الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 (123۔132) اسی طرح اور بھی کئی ایک لوگ اللہ کے بندوں میں قابل ذکر تھے مثلا حضرت الیاس بھی اللہ کے مرسلوں میں سے تھا اس کی زندگی کے واقعات عموما دلچسپ ہیں خصوصا وہ وقت تو عجیب تھا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بیفرمانی کرنے سے ڈرتے نہیں ؟ کیا تم ” بعل“ جیسے بے جان بت سے دعائیں مانگتے ہو اور سب سے بہتر خالق یعنی اللہ کو چھوڑتے ہو جو تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا پروردگار ہے باوجود یکہ یہ تقریر حضرت الیاس کی بالکل صاف اور مدلل تھی مگر ان جاہلوں کو کوئی اثر نہ ہوا۔ تو انہوں نے اس کی ایک نہ مانی پس نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ وہ سب کے سب دوزخ میں حاضر کئے گئے۔ ہاں جو اللہ کے مخلص بندے ہوں گے وہ بچے رہیں گے اس لئے ہم نے ان سب کو تباہ کیا اور الیاس کے لیے پچھلے لوگوں میں یہ طریق جاری کیا کہ نام کے ساتھ الیاس پر سلام کہیں اور تعظیم کے ساتھ نام لیں یہ بھی ایک قبولیت کی علامت ہے ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں کہ نیک لوگوں میں ان کی عزت اور قبولیت ہوتی ہے تحقیق وہ الیاس (علیہ السلام) ہمارے مومن بندوں میں سے تھا اور بس یہی اس کا کمال تھا الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 (133۔138) اور بھی ایک بزرگ کا قصہ سنو ! کچھ شک نہیں کہ لوط (علیہ السلام) بھی ہمارے رسولوں میں سے تھا اس کی زندگی میں عجیب تر واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم نے اس کا اور اس کے تمام متعلقین کو بچا لیا بجز ایک بوڑھی عورت یعنی اس کی بیوی کے جو بوجہ اپنے کفر کے عذاب میں پیچھے رہنے والوں میں سے تھی باقی سب دینی تعلق رکھنے والوں کو نجات دی۔ اور باقی سب مخالفین کو ہلاک کر ڈالا تم عرب کے لوگ سفر کرتے ہوئے صبح شام کے وقت عموما ان کی بستیوں پر گذرا کرتے ہو۔ کیا پھر بھی تم سمجھتے نہیں کہ برائی کا انجام برا ہے اور بھلائی کا نتیجہ ہمیشہ بھلا ملتا ہے الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 (139۔148) اور سنو ! یونس نبی (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسولوں میں سے تھا اس کی زندگی کے واقعات میں وہ واقعہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے جب وہ کسی کام کے لئے کشتی پر بیٹھنے کو لپکا تو اتفاقیہ کشتی رکی۔ کشتی والوں میں دستور تھا کہ ایسے موقع پر وہ قرعہ اندازی کرتے جس کے نام کا قرعہ نکلتا وہ کشتی سے دریا میں کود پڑتا وہ سمجھتے تھے کہ ایک آدمی کا گر پڑنا اس سے بہتر ہے کہ کشتی کے سارے سوار ڈوبیں اسی اصول کے مطابق انہوں نے قرعہ ڈالا جن میں یونس بھی بیٹھا تھا۔ اسی لئے یہ کہنا بجا ہوا کہ اس نے ان کے ساتھ قرعہ اندازی کی تو وہ اس میں مغلوب ہوگیا۔ یعنی قرعہ اسی کے نام کا نکلا جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ وہ دریا میں کود پڑتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا پس گرتے ہی مچھلی نے اس کو لقمہ بنا لیا اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا کیونکہ اس نے اللہ کی بے اجازت ہجرت کی اور بے حکم قرعہ ڈالا مگر وہ تسبیح تقدیس کرتا رہا اگر وہ اس حالت میں اللہ کے نام کی تسبیح وتقدیس نہ کرتا یعنی اللہ تعالیٰ کو پاک ناموں سے یاد نہ کرتا تو اس مچھلی کے پیٹ ہی میں قیامت تک پڑا رہتا وہیں سڑ جاتا پس اس تسبیح کی برکت سے ہم نے مچھیب کے پیٹ سے نکال کر اس کو کھلے میدان میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ بہت کمزور اور نڈھال تھا ہم نے اس کے قریب کر کے ایک درخت اگارکھا تھا جو کدو کی بیل سے ڈھکا تھا جس کے سایہ میں حضرت یونس کو راحت ملی اور وہ صحت یاب ہوا۔ بعدصحت ہم نے اس کو اسی کی قوم کے لاکھ سے زیادہ آدمیوں کی طرف رسول کر کے بھیجا جس قوم نے پہلے اس کا انکار اور تکذیب کی تھی پھر وہ ایمان لے آئے پس ہم نے ان کو ایک مقررہ وقت تک آسودگی سے گذارہ دیا۔ (حضرت یونس کا دریا میں جانے کا سبب اور دریا میں تکلیف پہنچنے کی وجہ سے کیا پیش آئی اس کی تفصیل سورۃ انبیاء میں آئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ و ذالنون اذ ذھب مغا ضبا فظن ان لن نقدر علیہ فنادی فی الظلمت ان لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظّٰلِمِیْن۔ یعنی حضرت یونس اپنی قوم کی روگردانی اور انکار دیکھ کر نکل گئے وہ سمجھے کہ ہم (اللہ) ایسا کرنے میں ان پر سخت گیری نہ کریں گے یعنی کسی تکلیف میں مبتلا نہ کریں گے مگر چونکہ ہماری اجازت کے بغیر وہ گئے تھے اس لئے ہم نے ان پر سخت گیری کی جس کی صورت یہ ہو رہی کہ ہم نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ وہاں وہ تسبیح پڑھتے رہے جس کی برکت سے نجات یاب ہوئے۔ یہ ہے اصل وجہ یونس کے ابتلا کی اور ابتلا کے بعد نجات کی فالحمد للہ منہ) (اس آیت میں ایک سخت مشکل ہے کہ کدو کی بیل بلند نہیں ہوتی بلکہ زمین پر پھیلتی ہے اس لئے اس کا سایہ نہیں ہوسکتا۔ نیز شجرہ تنہ دار درخت کو کہتے ہیں اور کدو تنہ دار نہیں ہوتا۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ علیہ کے معنی ” اوپر“ ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ درخت حضرت یونس کے جسم پر اگا ہو۔ ان تمام مشکلات کے حل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ منہ) الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 (149۔182) اسی طرح کئی ایک واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ باری تعالیٰ اپنے کاموں میں خود مختار ہے وہ کسی دوسرے کا محتاج نہیں نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ شریک پس تو اے نبی ان سے دریافت تو کر کہ تم جو فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں خیال کرتے ہو۔ حالانکہ صنف نساء تمہارے نزدیک بالکل بے کار چیز ہے تو کیا پروردگار کے لئے لڑکیاں جو بیکار چیز ہیں اور ان کہنے والوں کے لئے لڑکے؟ واہ یہ عجیب تقسیم ہے حالانکہ زبردست کو زبردست اولاد ہوتی ہے اور کمزور کو کمزور مگر یہ لوگ خود تو لڑکیوں کو پسند نہ کریں اور اللہ کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ان سے کوئی پوچھے کیا ان کے سامنے ہم نے فرشتوں کو مؤنث بنایا تھا یعنی یہ لوگ جو فرشتوں کو مؤنث تصور کرتے ہیں تو ان کو اس کا علم کس طرح ہوا؟ کسی سمعی شہادت سے ہوا یا روئت سے۔ سمعی شہادت سے تو ہے نہیں۔ کیونکہ کسی الہامی نوشتہ میں ایسا ملتا نہیں۔ ہاں عینی روئت کی شہادت ہو تو بتلا دیں لیکن وہ بھی نہیں پس مسلمانو ! یاد رکھو یہ لوگ محض اپنی معمولی دروغ گوئی سے ایسا کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد جنی ہے کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ ایسا کہنے میں جھوٹے ہیں کیا اللہ نے اپنے لئے بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دی ہے ؟ حالانکہ دنیا میں سب لوگ بیٹوں کو چاہتے ہیں (عرب جاہلیت میں یہ اعتقاد تھا کہ فرشتے چونکہ نظروں سے مستور ہیں لہٰذا وہ مؤنث ہیں۔ اور مؤنث پر تفریع کرتے تھے کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ان کے اس عقیدہ کی اصلاح قرآن مجید کے متعدد مواقع پر کی گئی ہے منجملہ ایک مقام یہ ہے۔ منہ) اے لوگو ! تمہیں کیا ہوا کیسے بیہودہ حکم لگاتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ہو کیا ایسا کہنے پر تمہارے پاس کوئی روشن دلیل ہے سچے ہو تو اپنی کتاب لائو جس میں ایسی دلیل لکھی ہو۔ اور ان کی بیہودگی سنو ! کہ انہوں نے یعنی ان میں سے بعض نے اللہ میں اور جنات میں ناطہ مقرر کر رکھا ہے جیسے فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے جنوں کو بھی اللہ کے لڑکے کہتے تھے ان کی اصلاح کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ عجب فلسفی دماغ ہیں کہ جو چیزان کی نگاہ میں نہیں آتی انکو اللہ کا ناطہ دار بناتے ہیں حالانکہ جن خود بھی اس سے انکاری ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو اللہ کی مخلوق سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں یعنی ان میں سے ایماندار اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ایک روز وہ بھی اللہ کے حضور پیش کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے ایسے بیانات سے پاک ہے ہاں جو اللہ کے مخلص بندے ہیں وہ ایسے نہیں نہ وہ ایسی بیہودہ گوئی کیا کرتے ہیں نہ ایسے عقیدے رکھتے ہیں بلکہ وہ سیدھے سادھے طور پر اللہ کو مانتے ہیں پس بطور عبرت تم مسلمانو ! ان مشرکوں کو کہو کہ اے مشرکو ! سنو ! تم اور تمہارے معبود یعنی گرو اور پیر جو تم کو شرک کی تعلیم دیتے ہیں اور تم اس تعلیم کو مان کر شرک کرتے ہو گویا تم ان ہی کی عبادت کرتے ہو تم سب مل کر خواہ کتنا ہی زور لگائو ان تھک کوشش کرو سوائے اس بدبخت کے جو بدیہی طور سے جہنم میں جانے والا ہو کسی صاف دل آدمی کو گمراہ نہیں کرسکتے کیونکہ تمہارے خیالات ایسے کچھ کمزور اور واہیات ہیں کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی ان کو نہیں مان سکتا۔ دیکھو ہم فرشتوں کا بیان تم کو سناتے ہیں کہ وہ خود باوجود عظمت اور بزرگی کے اس بات کے قائل ہیں کہ ہم فرشتوں میں سے ہر ایک کا ایک مقام ہے جس سے وہ بڑھ نہیں سکتا اور ہم اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اللہ کے سامنے صف بستہ رہتے ہیں اور ہم سب اللہ کی تسبیحیں پڑھتے ہیں پھر بھی یہ لوگ ہم (فرشتوں) کو اللہ کی اولاد جانتے ہیں اور قرآنی تعلیم سے انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے پاس پہلے لوگوں سے نصیحت پہنچی ہوتی تو ہم پکے اور سچے اللہ کے مخلص بندے ہوجاتے۔ سو اب یہ کتاب ان کے پاس آئی تو اس کے منکر ہوگئے پس آپ ہی جان جائیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اسی دنیا میں ذلیل وخوار ہوں گے اور آخرت میں بھی رسوا۔ کیونکہ ہمارا (اللہ کا) اپنے مرسلین بندوں کے حق میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ آخرکار ان کو مدد پہنچتی ہے اور ہماری فوج (دیندار جماعت) ہی غالب آتی ہے خواہ چند روزہ تکلیف کے بعد ہی ایسا ہو۔ پس تو اے نبی ! ایک وقت تک ان سے روگردانی کر اور صبر سے خاموش رہ کر ان کو دیکھتا رہ وہ بھی اپنا انجام دیکھیں گے کیا ان کو معلوم نہیں کہ مواخذہ اللہ تعالیٰ کی تاب ان میں نہیں پھر کیا ہمارا عذاب جلد جلد چاہتے ہیں، یاد رکھیں جب وہ عذاب ان کے آنکھوں میں یعنی ان کے قرب جوار میں اترا تو جن لوگوں کو عذاب سے ڈرایا گیا ہے ان کا حال برا ہوجائے گا۔ پس تو صبر کر اور ایک قریب وقت تک ان سے روگردانی کر اور دیکھتا رہ پس وہ بھی دیکھ لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ تیرا پروردگار جو بڑی عزت والا ہے ان کی بیہودہ گوئی سے جو یہ لوگ اللہ کی نسبت کہتے ہیں پاک ہے اور اللہ کے رسولوں کو کارخانہ الٰہی میں کوئی حصہ نہیں بجز اس کے کہ ان پر درودوسلام ہے اور تعرفات جملہ کا مالک اللہ ہے جو تمام جہان کا پروردگار ہے۔ فالحمدللہ رب العلمین الصافات
150 الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 الصافات
158 الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 الصافات
164 الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 ص
1 (1۔16) لوگو ! سنو میں اللہ بڑا صادق القول ہوں۔ مجھے قسم ہے اس نصیحت والے قرآن کی بے شک وعدہ الٰہی کی خبر سچ ہے مگر کافر لوگ ناحق کی ہیکڑی (غرور) اور مخالفت میں ہیں سو اس کا بدنتیجہ پائیں گے ہم (اللہ) نے کئی قومیں ان سے پہلے ہلاک کردیں تو اس وقت بڑے زور سے چلائے لیکن مخلصی کا وقت باقی نہ رہا تھا۔ ہر ایک کام کا وقت ہوتا ہے وہ وقت اگر ٹل جائے تو پھر کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ قانون کے مطابق عذاب آنے سے پیشتر اگر توبہ کی جائے تو ٹل جاتا ہے ورنہ نہیں یہ عرب کے لوگ بھی اپنے حق میں یہی چاہتے ہیں کہ عذاب جلدی آئے اور تو کچھ نہیں انکو اس بات سے تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس ان ہی میں کا ایک آدمی (محمد ﷺ) سمجھانے والا آیا اسی لئے اس کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں اور منکر جب دیکھتے ہیں کہ باوجود ہماری مخالفت کے لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہے تو عام لوگوں کو بدگمان کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ شخص جادوگر ہے اور نبوت کے دعوے میں بڑا جھوٹا ہے کیا اس کے جھوٹ کی دلیل ایک ہی کافی نہیں کہ اس نے تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک ہی کو لے لیا ہے بس اسی کا گیت گاتا ہے تو اسی کے راگ الاپتا ہے اور کسی کو جانتا بھی نہیں حالانکہ ہم لوگ مدت سے ایسا سنتے آئے کہ دنیا کا انتظام کئی ایک معبودوں کے ہاتھ میں بٹا ہوا ہے کچھ شک نہیں کہ اس کا یہ خیال عجیب بات ہے جو بات دنیا بھر میں کوئی نہیں کہتا یہ کہتا ہے یہ کہہ کر ان میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہوئی چلی جاتی ہے کہ چلو میاں اپنے قدیمی معبودوں پر جمے رہو۔ یہ اس کا خیال تو محض ایک ہوس ہے۔ ہم نے تو پہلے لوگوں اپنے آباواجداد میں کبھی یہ نہیں سنا۔ جو یہ مدعی نبوۃ کہتا ہے پس بے شک یہ محض من گھڑت بات ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ایک یہی ایسا ممتاز ہو۔ کہ نبوت کے درجہ تک پہنچ جائے کیا ہم میں کوئی رئیس نہیں۔ معزز نہیں جو نبوۃ رسالت پا سکے پھر کیا سبب ہے کہ ہم میں سے اسی پر نصیحت آمیز کلام نازل ہوا ہے۔ کیا ہم نے کوئی چوری کی تھی۔ کیا ہم شریف خاندان کے نہ تھے۔ کیا ہم قریش نہ تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کو میرے (اللہ کے) ذکر اور نصیحت سے انکار ہے یہ مانتے ہی نہیں کہ کوئی کلام ہدایت نظام بفرض رفاہ عام اللہ کے ہاں سے نازل ہوتا ہے بلکہ یہ سرے سے اس کے منکر ہیں کیونکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا۔ بھلا یہ جو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں دخل دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر معترض ہوتے ہیں کہ یہ کیوں نبی ہوا اور ہم کیوں نہ ہوئے۔ کیا تمہارا پروردگار جو بڑا غالب اور بڑا فیاض ہے اس کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں ؟ کہ ان سے اجازت لے کر وہ تقسیم کرے۔ پھر وہ غالب اور فیاض ہی کیا ہوا۔ یہ نادان جانتے نہیں کہ اس کا غلبہ اور فیاضی اسی بات کی مقتضی ہے کہ وہ جس کو چاہے جو چاہے دے دے روکنے والا اور پوچھنے والا کون؟ کیا آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان چیزوں کے اختیارات انہی معترضین کو حاصل ہیں۔ پھر تو آسمان کی طرف سیڑھیوں پر چڑھ جائیں اور آسمانی فیضان کو بند کردیں یہ ہیں کیا؟ بقول ؎ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔۔ گذشتہ زمانے کے تباہ شدہ گروہوں میں سے یہ بھی ایک شکست یافتہ ذلیل ترین گروہ ہے اور بس اس سے زیادہ نہیں۔ چند ہی روز میں ان کی اکڑفون ختم ہونے کو ہے۔ جس طرح ان سے پہلے نوح کی قوم نے۔ عاد کی قوم نے۔ بڑی قوت والے فرعون نے۔ قوم ثمود۔ قوم لوط اور ایکہ والوں نے جھٹلایا تھا یہ بھی جھٹلا رہے ہیں جس طرح ان پر عذاب آیا تھا ان پر بھی آئے گا۔ کیونکہ یہی تو برباد شدہ گروہ ہیں جن کے یہ لوگ آج بقیہ السیف اور تکذیب حق میں تابع ہیں جتنے یہ لوگ ہیں گو ان میں بہت سے امور میں اختلاف بھی تھا۔ مگر اتنے حصے میں سب شریک تھے کہ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کی تکذیب کی تھی پھر میرا عذاب ان پر واجب ہوگیا۔ اب جو یہ لوگ شوروشغب کر رہے ہیں یہ بھی تو صرف ایک آواز کے انتظار میں ہیں جیسے پہلے لوگوں پر آئی تھی اور وہ ہلاک ہوگئے تھے یاد رکھیں اس آواز میں وقفہ نہ ہوگا یعنی جب وہ آئے گی تو ایک دم فنا کر دے گی اور سنو ان کی حماقت کا یہ حال ہے کہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار جو کچھ ہماری قسمت کا لکھا عذاب ہے وہ یوم الحساب سے پہلے اسی دنیا میں جلدی جلدی ہم پر وارد کر دے یہ سن کر تیری طبیعت پر ایک گونہ اثر ہوتا ہے اور تو ان کی مخالفت کو خیال میں لاتا ہے۔ اس لئے ہم تجھے ہدایت کرتے ہیں کہ تو ان باتوں کا ہرگز خیال نہ کیا کر ص
2 ص
3 ص
4 ص
5 ص
6 ص
7 ص
8 ص
9 ص
10 ص
11 ص
12 ص
13 ص
14 ص
15 ص
16 ص
17 (17۔29) جو کچھ بھی یہ لوگ کہتے ہیں ان پر صبر کر اور اگر طبیعت کو کبھی ملال ہو تو ہمارے نیک بندے دائود (علیہ السلام) کو یاد کیا کر جو بڑی قوت اور ہمت کا آدمی تھا عبادت میں بھی چست اور جہاد میں بھی مضبوط بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع تھا کوئی کام ہو وہ اس کی انجام دہی میں اللہ ہی سے امیدوار رہتا تھا۔ ہم (اللہ) نے بڑے بڑے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا کہ اس کے ساتھ صبح شام تسبیحیں پڑھا کریں عجب کیفیت ہوتی تھی حضرت دائود جب اللہ کے نام کی تسبیح پڑھتے۔ تو پہاڑوں سے بھی ان کو تسبیح کی آواز آتی یا کیفیّت محسوس ہوتی۔ جس کیفیّت کو کسی عارف اللہ نے یوں بیان کیا ہے برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار اسی طرح جانور بھی اس کے سامنے تسبیح خوانی کرتے ہوئے جمع ہوتے جیسے کسی عارف اللہ نے کہا ہے۔ ؎ مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کناں باصطلاحے سب کے سب اس کے فرمانبردار تھے اور سنو ہم نے اس کے ملک اور حکومت کو مضبوط کیا اور اس کو عقلمندی یعنی علم سیاست (پالیٹکس) اور مقدمات میں فیصلہ کرنے اور سیاسی معاملات میں گفتگو کرنے کا سلیقہ عطا کیا ایسا کہ نزاعات میں فیصلہ کرتا یا کسی سفیر یا وکیل سلطنت سے یا کیک مجلس میں گفتگو کرتا تو سب پر عجیب اثر ہوتا۔ نہایت معقول اور سلجھی ہوئی تقریر ہوتی۔ بھلا تجھے ایک مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دائود کے مکان کی دیوار کود گئے تھے یعنی جس وقت حضرت دائود اپنے محل خاص میں بیٹھے تھے وہ اہل مقدمہ ان کے پاس جا پہنچے تو وہ ان کی اس جرات اور وحشیانہ حرکت سے گھبرایا اور دل میں ٹھان لیا کہ ان کو اس وحشیانہ حرکت پر سبق دیا جائے وہ حضرت دائو کے تیور بدلے دیکھ کر پا گئے کہ سرکار ہم پر خفا ہوئی ہے۔ بولے کہ حضور ! خوف نہ کیجئے۔ اللہ نخواستہ ہم حضور کے مخالف نہیں بلکہ ہم دونوں اہل مقدمہ ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے پس حضور انصاف کے ساتھ ہمارا فیصلہ فرما دیجئے ہماری پرزور درخواست ہے کہ ہم میں انصاف کیجئے اور کسی طرح کی بے انصافی نہ کیجئے اور ہم کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمائے یہ کہہ کر ان میں سے ایک نے بیان دعویٰ شروع کیا۔ کہ یہ شخص رشتہ یا برادری میں میرا بھائی ہے اس کی ننانویں دنبیاں ہیں اور میری ایک ہے اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک بھی مجھے دیدے میں نے انکار کیا تو سو طرح کی حجتیں اور دلیلیں اس نے بتلائیں اور گفتگو میں مجھ پر غالب آیا کبھی کہتا ہے کہ ایک دنبی اداس رہے گی میرے ریوڑ میں اچھی رہے گی کبھی کہتا ہے اکیلی کو بھیڑیا لے جائے گا۔ میرے ریوڑ میں ملی رہے گی۔ کبھی کہتا ہے تو ایک دنبی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے مجھے دے کر فارغ ہوجا۔ اور کسی مفید کام میں لگ جا۔ غرض ہر طرح سے مجھے قائل کرتا ہے دھمکی سے لالچ سے مجھے مائل کرتا ہے مگر میرا دل نہیں مانتا۔ حضرت دائود نے مدعا علیہ کا جواب سن کر کہا کہ واقعی اس شخص نے تجھ پر ظلم کیا ہے جو دبائو سے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوالی ہے اصل بات تو یہ ہے کہ بہت سے شریک برادر ایک دوسرے پر ظلم کیا کرتے ہیں مگر جو لوگ ایماندار اور صالح اعمال ہیں ان کی یہ عادت نہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں پس جب تک اپنی مرضی سے نہ دے یہ سائل خود بخود نہیں لے سکتا۔ حضرت دائود نے یہ فیصلہ تو اچھا کیا مگر چونکہ شروع شروع میں ان کی اس بے جا حرکت سے حضرت دائود کی طبیعت پر ملال ہوا تھا جو قریب تھا کہ فیصلہ میں مخل ہو اس لئے وہ کبیدہ خاطر ہوا اور اس نے خیال کیا کہ ہم (اللہ) نے اسے اس مقدمہ کی وجہ سے جانچاہے اور اس کی تنک مزاجی کی وجہ سے ہم اس پر خفا ہیں پس اس نے جھٹ سے اپنے پروردگار اللہ تعالیٰ سے اس تنک مزاجی اور غلط ارادہ پر بخشش مانگی اور اللہ کے سامنے جھکا اور رجوع ہوا۔ پھر ہم نے اسے بخش دیا کچھ شک نہیں کہ اس دائود کا ہمارے نزدیک بڑا درجہ اور بہت عزت تھی اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اور یاہ کی عورت کو کہیں دیکھ لیا چونکہ وہ خوبصورت تھی لہذا اس پر طبیعت مائل ہوگئی اس کو نکاح میں لانے کے لئے یہ تجویز نکالی کہ اور یاہ کو جنگ میں بھیج کر مروایا جائے۔ چنانچہ ایک دفعہ وہ جنگ میں گیا اور بچ آیا۔ دوبارہ بھیجا پھر بچ گیا۔ سہ بارہ اعلی افسر کو حکم دیا کہ اس کو کسی سخت جنگ میں بھیجو اور سب سے آگے رکھو چنانچہ تیسری دفعہ سخت معرکہ میں اور یاہ بھیجا گیا جس میں وہ قتل ہوا۔ تو حضرت دائود نے اس کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ (معالم النزیل) کہتے ہیں کہ فرشتے آسمان سے آئے انہوں نے حضرت دائود کو اس فعل پر تنبیہ کرنے کے لئے کہا کہ ہم میں نزاع ہے آپ فیصلہ کیجئے دراصل نہ وہ انسان تھے نہ ان میں کوئی نزاع تھی۔ یہ قصہ دراصل یہودیوں کی بائیبل سے لیا گیا ہے۔ مگر چونکہ بائیبل میں قبل از نکاح حرام کاری کا ذکر ہے اس لئے ان ناقلین نے اتنا حصہ چھوڑ کر باقی کو نقل کردیا۔ بائیبل میں اس قصے کے الفاظ یوں ہیں :۔ ” ایک دن شام کو ایسا ہوا کہ دائود اپنے بچھونے پر سے اٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور وہاں سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی تب دائود نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے انہوں نے کہا وہ العام کی بیٹی بنت سبع حتی اور یاہ کی جورو نہیں؟ اور دائود نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بلا لیا۔ چنانچہ وہ اس کے پاس آئی اور وہ اس سے ہمبستر ہوا کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہوئی تھی۔ اور وہ اپنے گھر کو چلی گئی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی سو اس نے دائود کے پاس خبر بھیجی کہ میں حاملہ ہوں اور دائود نے نواب کو کہلا بھیجا کہ حتی اور یاہ مجھ پر بھیج دے سو نواب نے اور یاہ کو دائود پاس کے بھیجا اور جب اور یاہ آیا دائود نے پوچھا۔ کہ نواب کیسا ہے اور لوگوں کا کیا حال ہے اور جنگ کے کیسے انجام ہوتے ہیں پھر دائود نے اور یاہ کو کہا کہ اپنے گھرجا اور اپنے پائو دھو۔ اور اور یاہ جو بادشاہ کے محل سے نکلا تو بادشاہ کی طرف سے اس کے پیچھے پیچھے ایک جوان بھیجا گیا پر اور یاہ بادشاہ کے گھر کے آستانہ پر اپنے اللہ تعالیٰ کے سب خادموں کے ساتھ سو رہا۔ اور اپنے گھر نہ گیا۔ اور جب انہوں نے دائود کو یہ کہہ کر خبر دی تھی کہ اور یاہ اپنے گھر نہ گیا تو دائود نے اور یاہ کو کہا کیا تو سفر سے نہیں آیا پس تو اپنے گھر کیوں نہیں گیا تب ١ دریاہ نے دائود سے کہا کہ صدوق اور اسرائیل اور یہوداہ خیموں میں رہتے ہیں اور میرا اللہ تعالیٰ یواب اور میرے اللہ کے خادم کھلے میدان میں پڑے ہوئے ہیں پس کیونکر اپنے گھروں میں جائوں اور کھائوں اور پیئوں اور اپنی جورو کے ساتھ سورہوں تیری حیات اور تیری جان کی قسم کہ میں یہ کبھی نہ کروں گا۔ پھر دائود نے اور یاہ کو کہا کہ آج کے دن بھی یہاں رہ جا اور کل میں تجھے روانہ کروں گا۔ سو اور یاہ اس دن اور دوسرے دن بھی یروسلم میں رہ گیا۔ تب دائود نے اسے بلایا اور اس نے اس کے حضور کھایا اور پیا اور اس نے اسے مست کیا اور شام کو باہر جا کر اپنے اللہ تعالیٰ وند کے خادموں کے ساتھ اپنے بستر پر سو رہا پر اپنے گھر میں نہ گیا۔ اور صبح کو دائود نے یواب کے لئے خط لکھا اور اور یاہ کے ہاتھ میں دے کر اسے بھیجا۔ اور اس نے خط میں یہ لکھا کہ اور یاہ کو سخت لڑائی کے وقت اگاڑی کیجئیو اور اس کے پاس سے پھر آئیو تاکہ وہ مارا جائے اور جان بحق ہو اور ایسا ہوا کہ یواب جو اس شہر کے گردا گرد کی حالت دیکھنے گیا تو اس نے اور یاہ کو ایسے مقام پر جہاں اس نے جانا کہ جنگی لوگ وہاں ہیں مقرر کیا اور اس شہر کے لوگ نکلے اور یواب سے لڑے اور وہاں دائود کے خادموں میں سے تھوڑے سے لوگ کام آئے اور حتی اور یاہ بھی مارا گیا تب یواب نے آدمی بھیجا اور جنگ کا سب احوال دائود سے کہا اور قاصد کو ایسا تاکید کرکے کہا کہ جب تو باشادہ سے جنگ کا سارا احوال عرض کرچکے تو اگر ایسا ہو کہ بادشاہ کا غصہ بھڑکے اور وہ تجھے کہے کہ جب تم جنگ پر چڑہے تو شہر سے کیوں ایسے نزدیک گئے کیا تم نہ جانتے تھے کہ دے دیوار پر سے تیر ماریں گے یروبست کے بیٹے ابلیلک کو کس نے مارا ایک عورت نے چکی کا پاٹ دیوار پر سے اس پر نہیں دے مارا کہ وہ تیبض میں مر گیا۔ سو تم کیوں شہر کی دیوار کے تلے گئے تھے تب کہیو کہ تیرا خادم حتی ادریا بھی مارا گیا۔ چنانچہ قاصد روانہ ہوا۔ اور آیا اور جو کچھ کہ یواب نے کہلا بھیجا تھا سو دائود سے کہا سو قاصد نے دائود سے کہا کہ لوگوں نے البتہ ہم پر بڑا غلبہ کیا۔ اور وہ میدان میں ہم پاس نکلے سو ہم انہیں رگیدتے ہوئے پھاٹک کے مدخل تک چلے گئے تب تیر اندازوں نے دیوار پر سے تیرے خادموں کو نشانہ کیا۔ بادشاہ کے بعضے خادم کام آئے اور تیرا خادم حتی اور یاہ بھی مارا گیا سو دائود نے قاصد کو کہا کہ یواب کو جا کے کہہ کر یہ بات تیری نظر میں بری نہ ٹھیرے اس لئے کہ تلوار جیسا اسے کاٹتی ہے اسے بھی کاٹتی ہیں تو شہر کے مقابل بڑی جنگ کر اور اسے ڈھادے اور تو اسے دم دلاسادے اور اور یاہ کی جورو اپنے شوہر اور یاہ کا مرنا سنکے سوگ میں بیٹھی اور جب سوگ کے دن گزر گئے تو دائودنے اسے اپنے گھر میں بلوا لیا اور وہ اس کی جورو ہوئی اور اس کے لئے بیٹا جنی۔ پر وہ کام جو دائود نے کیا تھا اللہ تعالیٰ کی نظر میں برا ہوا “۔ (٢۔ سموئیل باب ١١ فقرہ ٢ سے ٤٧ تک) یہ قصہ بنانے والوں کی کتنی دلیری ہے کہ ایک نبی کی شان میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ معمولی آدمی کے حق میں بھی بولے جائیں تو ناپسند ہوں۔ امام رازی (رح) نے اس قصے کی تکذیب میں سترہ قرائن پیش کئے ہیں سات قبل آیت کے اور دس بعد کے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ والذی ادین بہ واذھب الیہ ان ذلک باطل ویدل علیہ وجوہ (الاول) ان ھذہ الحکایہ لو نسبت الی افسق الناس واشدھم فجورا لا ستنکف منھا والرجل الحشوی الخبیث الذی یقرر تلک القصۃ لو نسب الی مثل ھذا العمل لبالغ فی تنزیہ نفسہ وربما لعن من ینسب الیھا واذا کان الامر کذلک کیف یلیق بالعاقل نسبت المعصوم الیہ (الثانی) ان حاصل القصۃ یرجع الی امرین الی السعی فی قتل رجل مسلم بغیر حق والی الطمع فی زوجتہ (اما الاول) فامر منکم قال من سعی فی دم مسلم ولو بشطر کلمۃ جاء یوم القیامۃ مکتو بابین عینیہ ایٰس من رحمۃ اللہ۔ میں جو عقیدہ رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ قصہ بالکل باطل بے بنیاد ہے۔ اس پر کئی وجوہات ہیں (١) اول یہ ہے کہ یہہ واقعہ جو حضرت دائود کی طرف لگایا گیا ہے کسی بڑے سے بڑے بدمعاش کی طرف بہی نسبت کیا جائے تو وہ بھی اس کو برا جانے بلکہ جو نالائق اس قصے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی طرف بھی منسوب کیا جائے تو وہ بھی اپنے نفس کو اس سے پاک صاف کرنے کی سعی بلیغ کرے اور جو اس کو اس کی طرف منسوب کرے تو یہ اسپر لعنت کرے جب یہ ایک عاقل آدمی کا حال ہے تو بنی معصوم کی طرف نسبت کرنا کیسا ہے (٢) دوسری وجہ یہ ہے کہ اس قصہ سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ مسلمان شخص کے ناحق قتل کی کوشش اور اس کی عورت کے معاملہ میں طمع (١) پہلا تو سخت برا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو کوئی کسی مسلمان کے خون بہانے میں کوشش کرے چاہے ایک لفظ کے ساتھ ہو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئیگا کہ اس کی پیشانی پر ” رحمت سے ناامید“ لکھا ہوگا۔ (واما التانی) فمنکر عظیم قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ وان اور یالم یسلم من داؤد لا فی روحہ ولا فی منکوحہ (والثالث) ان اللہ تعالیٰ وصف داؤد (علیہ السلام) قبل ذکر ھذہ القصۃ بالصفات العشرۃ المذکورۃ ووصفہ ایضا بصفات کثیرۃ بعد ذکر ھذہ القصۃ وکل ھذہ الصفات تنا فی کونہ (علیہ السلام) موصوفا بھذا الفعل المنکر والعمل القبیح ولا باس لا عادۃ ھذہ الصفات لاجل المبالغۃ فی البیان فنقول راما الصفۃ الاولی) فھی انہ تعالیٰ امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بان یقتدی بداؤد فی المصابرۃ مع المکابدۃ ولو قلنا ان داؤد لم یصبر علی مخالفۃ النفس بل سعی فی اراقہ دم امری مسلم لغرض شھوتہ فکیف یلیق باحکم الحاکمین ان یامر محمد افضل الرسل بان یقتدی بداؤد فی الصبر فی طاعۃ اللہ (واما الصفۃ الثانیۃ) فھی انہ وصفہ بکونہ عبداللہ وقد بینا ان المقصود من ھذا الوصف بیان کون ذلک الموصوف کاملا فے موقف العبودیۃ (٢) دوسرا امر بھی بہت بڑا ہے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان امن میں رہے اور یا مذکور (جو یقینا مسلم تھا) اس قصے کی رو سے دائود کے ہاتھ سے محفوظ نہ رہا نہ اپنی جان میں نہ زوجہ منکوحہ میں (٣) تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کو اس سے پہلے دس صفتوں کے ساتھ موصوف کیا ہے اور اس کے بعد بھی بہت سی صفات کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے وہ صفات اس امر کی مخالف ہیں کہ دائود (علیہ السلام) اس مکروہ اور قبیح فعل کا مرتکب ہو۔ ہم ان صفات کو بتاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آں حضرت کو حکم دیا ہے کہ صبر اور اطاعت الٰہی میں حضرت دائود کی پیروی کر۔ اور اگر ہم اس امر کے قائل ہوں کہ حضرت دائود نے اپنے نفس کی مخالفت پر صبر نہیں کیا بلکہ (معاذ اللہ) اپنی شہوت رانی کے لئے ایک مسلمان آدمی کا خون بہانے میں کوشش کی تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین کا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الرسل کو حضرت دائود کی طاعت اور صبر میں اقتداء کرنے کا حکم دینا کیونکر مناسب اور لائق ہے ؟ (٢) دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کو اپنا بندہ کہکر موصوف کیا ہے اور اس وصف سے مقصود یہ ہے کہ حضرت دائود کو عبودیت میں کامل بندہ بنایا جائے۔ تاما فی القیام باداء الطاعات والا حتراز عن المحظورات ولو قلنا ان داؤد (علیہ السلام) اشتغل بتلک الا عمال الباطلۃ فحینئذ ما کان داؤد کا ملا فی عبودیۃ اللہ تعالیٰ بل کان کاملافی طاعۃ الھوی والشھوۃ (الصفۃ الثالثۃ) ھو قولہ ذا الا یدی ذا القوۃ ولا شک ان المرادمنہ القوۃ فی الدین لان القوۃ فی غیر الدین کانت موجودۃ فی ملوک الکفار ولا معنے للقوۃ فی الدین الا القوۃ الکاملۃ علی اداء الواجبات والا جتناب عن المحظورات وای قوۃ لمن یملک نفسہ عن القتل والرغبۃ فی زوجۃ المسلم (الصفۃ الرابعۃ) کونہ اوا با کثیر الرجوع الی اللہ تعالیٰ وکیف یلیق ھذا بمن یکون قلبہ مشغوفا بالقتل والفجور (الصفۃ الخامسۃ) قولہ تعالیٰ انا سخرنا الجبال معہ افتری انہ سخرت لہ الجبال لیتخذہ وسیلۃ الی القتل والفجور (الصفۃ السادسۃ) قولہ والطیر محشورۃ وقیل انہ کان محرما علیہ صید شئی من الطیر وکیف یعقل ان یکون الطیر امنا منہ ولا ینجو منہ الرجل المسلم علی روحہ ومنکوحہ (الصفۃ السابعۃ) قولہ تعالیٰ وشددنا ملکہ ومحال ان یکون المراد انہ تعالیٰ شد ملکہ باسباب الدنیا بل المراد انہ تعالیٰ شد ملکہ بما یقوی الدین واسباب سعادۃ الاخرۃ والمراد تشد یدرملکہ فی الدین والدنیا ومن لا یملک نفسہ عن القتل والفجور کیف یلیق بہ ذلک؟ (الصفۃ الثامنۃ) قولہ تعالیٰ واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب والحکمۃ جامع لکل ما ینبغی علما وعملا فکیف یجوزان یقول اللہ تعالیٰ انا اتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب مع اصرارہ علے ما یستنکف عنہ الخبیث الشیطان من مزاحمۃ اخلص اصحابہ فی الروح والمنکوح فھذہ الصفات المذکورۃ قبل شرح تلک القصۃ دالۃ علی برائۃ ساحتہ عن تلک الا کا ذیب (تفسیر کبیر مصری جلد ٧٨٧) جو طاعات کے ادا کرنے اور ممنوعات سے پرہیز کرنے میں پورا ہو۔ اگر ہم یہ کہیں کہ حضرت دائود نے یہ بیہودہ کام کئے (جن کا ذکر مذکورہ قصے میں آیا ہے) پھر تو وہ عبودیت میں کامل نہ ہوگا۔ بلکہ نفس کی خواھشوں کے پورا کرنے میں کامل ہوگا (٣) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ دائود بڑی قوت والا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ اس قوۃ سے دینی قوۃ مراد ہے کیونکہ غیر دینی قوۃ تو کفار بادشاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور دینی قوۃ سے مراد یہی ہے کہ فرائض کے ادا کرنے پر اور ممنوعات سے رکنے پر قدرت کامل ہو۔ بھلا جو شخص کسی مسلم کے قتل کرانے اور اس کی بیوی کو داخل حرم کرنے سے نہیں رک سکتا اس میں بھی کوئی دینی قوۃ ہوسکتی ہے ؟ (٤) چوتھی صفت یہ ہے کہ حضرت دائود اللہ کی طرف بہت رجوع تھا بھلا جو شخص کسی بے گناہ کو قتل کرنے اور نفس پرستی میں مشغول ہو۔ وہ اللہ کی طرف کیسا بڑا رجوع ہوسکتا ہے۔ (٥) پانچویں صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے پہاڑ اور جانور اس کے لئے مسخر کر دئیے تھے کیا یہ تسخیر اس لئے تھی کہ وہ اس کو قتل نفس اور بدکاری کا ذریعہ بنائے؟ (٦) چھٹی صفت یہ ہے کہ جانور اس کے سامنے جمع ہوتے تھے بھلا ہوسکتا ہے کہ جانور تو اس سے امن میں ہوں اور ایک مسلمان اپنی جان اور بیوی کے حق میں امن میں نہ ہو۔ (٧) ساتویں صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہمنے دائود کا ملک مضبوط کیا تھا مراد یہ ہے کہ اس کا ملک دین اور دنیا کے بارے میں مضبوط کیا تھا۔ پھر جو شخص کسی مسلم کے قتل کرنے اور بدکاری کرنے سے اپنے نفس کو نہیں روک سکتا اس کو یہ کیسے لائق ہے ؟ (٨) آٹھویں صفت یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے دائود کو حکمت اور فصل الخطاب دیا۔ حکمت ایک جامع لفظ ہے علم اور عمل کو۔ پھر جو ایسے مخلص ترین مسلمان کی جان اور بیوی کے حق میں ایسے کام کرنے سے نہ رکے اسکے حق میں یہ کیسا صادق ہوسکتا ہے؟ پس یہ مذکورہ صفات اس قصے کے محل سے پہلے دلالت کرتی ہیں کہ دائود اس فعل قبیح کی نسبت سے پاک ہے۔ اس کے بعد امام رازی نے دس وجوہات وہ لکھی ہیں جو اس آیت کے بعد مذکور ہیں۔ ان سب وجوہات سے امام ممدوح نے اس قصے کا بطلان ثابت کیا ہے۔ غالبا انہی وجوہات سے حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے۔ ” جو کوئی حضرت دائود کا قصہ مذکورہ بیان کریگا میں اسکو ایک سو ساٹھ درے لگائونگا جو انبیاء پر تہمت کی حد ہے“ (تفسیر کبیر مصری جلد ٨٠٧) اس ساری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نسبت عورت کا قصہ ایک لغو بلکہ جھوٹا ہے۔ مفسر ابو سعود لکھتے ہیں۔ افک مبتدع مکروہ ومکر مخترع بئس ما مکرو قبحہ الا سماع وتنفرعنہ الطباع ویل لمن ابتدعہ واشاعہ وتبالمن اخترعہ واذ انہ یعنی یہ قصہ بری ساخت کا گھڑا ہوا ہے اور بہت بڑا فریب ہے۔ جو ان بنانے والوں نے بنایا ہے کان اسکو اپنی اندر نہیں آنے دیتے اور طبعیت اس سے نفرت کرتی ہے افسوس ہے انکے لئے جس نے اس کو بنایا اور تباہی ہو اس کے لئے جو (بغیر تردید) اسکو شائع کرے اور پھیلائے “ اظہار تعجب : باوجودیکہ سلف سے خلف تک محقق مفسرین اس قصہ کی تردید کرتے چلے آئے ہیں تاہم ہمارے زمانہ کی محقق مولوی عبداللہ چکڑا الوی نے اس قصہ کی تردید کر کے تمام سلف صالحین کو اس قصہ کا قائل بنا کر اپنی شیخی بہگاری ہے کہ سلف مفسرین نے حضرت دائود کی عصمت کو بٹہ لگایا ہے (پارہ ٢٣ صفحہ ٣٣) حالانکہ اسکی تردید ابتداء سے مفسرین کرتے چلے آئے ہیں انہی سے ان صاحب نے حاصل کیا پھر انہی کو مورد الزام بنایا۔ سچ ہے کہ نیا موخت علم تیرا دھن کہ مراعاقبت نشانہ نہ کرو۔ (منہ) بعد بخشش ہم نے کہا اے دائود ! دیکھ ہم نے تجھے زمین پر حاکم بنایا ہے۔ حاکم کی شان یہ ہونی چاہیے کہ بوقت حکومت خیال رکھے کہ ایک وقت میں بھی کسی بڑے زبردست حاکم اللہ کریم کے سامنے جائوں گا اور اسی طرح جیسے یہ فریقین میرے سامنے کھڑے ہیں میں بھی وہاں کھڑا ہوں گا۔ ایسا خیال رکھنے سے حاکم کو عدل وانصاف کی توفیق ملتی ہے پس تو اس خیال کو مدنظر رکھ کر لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرنا اور اپنی خواھش نفسانی پر نہ چلنا ورنہ یہ خواہش نفسانی تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ بے شک جو لوگ اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کو شدید عذاب ہوگا۔ کیونکہ وہ اس اصول سے غافل ہوجاتے ہیں جو ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ حاکم حکم کرتے وقت یہ سمجھے کہ میرا مقدمہ بھی ایک روز پیش ہوگا لیکن نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے اس لئے گمراہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے حساب یعنی مقدمہ کے دن کو بھول جاتے ہیں حالانکہ ہم (اللہ) نے آسمان زمین اور ان دونوں کی درمیانی چیزوں کو بے نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ اگر کسی نیک وبد کام کا انجام نیک وبد نہیں ہے پھر تو یہ ایک محض کھیل ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ایسے خیال کے کفر ہونے میں کیا شک ہے یہ تو کافروں کا خیال ہے جس کی پاداش میں یہ آگ کے عذاب میں پھنسیں گے اور آگ کے عذاب کی وجہ سے ایسے کافروں کے حال پر بہت افسوس ہے کیسی مصیبت ان پر آئے گی اور یہ اس کو کسے ھ برداشت کریں گے۔ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ اگر جزا وسزا کوئی چیز نہیں تو کیا ایماندار نیکوکاروں کو ہم ملک میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے ؟ دنیا میں برابر ہیں تو آخرت میں بھی برابر؟ کیا پرہیز گاروں کو ہم بدکاروں کی طرح بنا دیں گے؟ نہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے ؟ کہ ایک شخص تمام عمر اللہ کے خوف میں امن وامان سے زندگی گزار دے اور دوسرا تمام عمر چوری کرے اور ڈاکہ مارے۔ مگر مرنے کے بعد دونوں برابر ہوجائیں ایسا ہونا تو صریح خلاف عقل ونقل ہے اے نبی ! یہ بابرکت کتاب ہم نے تیری طرف اس لئے اتاری ہے کہ لوگ اس کے احکام پر غور کریں اور عقلمند ان میں نصیحت پائیں اور سوچیں کہ بدی کرنے والا نیکی کرنے والے کے برابر کیوں ہونے لگا جبکہ قانون اخلاق اور قانون قدرت یہی ہے کہ ؎ گندم از گندم برومدجوز جو۔ پس جو لوگ عقل وفہم سے کچھ حصہ رکھتے ہوں گے وہ ہماری پیش کردہ دلیلوں سے نتیجہ پائیں گے۔ اور جو ضدی اور معاند ہوں گے وہ سزا پائیں گے ص
18 ص
19 ص
20 ص
21 ص
22 ص
23 ص
24 ص
25 ص
26 ص
27 ص
28 ص
29 ص
30 (30۔40) اور ایک قصہ سنو ! بقول ؎ ایں خانہ ہمہ آفتاب ست۔ خاندان نبوت کے چشم وچراغ حضرت دائود کو ہم (اللہ) نے ہونہار لڑکا سلیمان دیا۔ جو بہت ہی اچھا آدمی تھا بے شک وہ اللہ کی طرف بڑا جھکا ہوا تھا اس کے واقعات میں وہ واقعہ خاص قابل ذکر ہے جب بعد دوپہر خاص اصیل گھوڑے اس کے سامنے بغرض جائزہ پیش کئے گئے تو خوب دیکھتا رہا آخر جب دیکھ چکا تو یہ سمجھ کر کہ لوگ نہ سمجھیں کہ میں بطور دل لگی کے ایسا کرتا رہا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ ایسا خیال کرنے سے یہ لوگ بھی بطور دل لگی ایسا کرنے لگیں اس لئے اس سلیمان نے کہا کہ میں نے ان بہترین گھوڑوں سے محبت کی اور ان کا جائزہ لیا ہے۔ تو اللہ کے ذکر یعنی تعمیل حکم کے لئے کی ہے کیونکہ میری نیت اس میں دو وجہ سے نیک ہے اول یہ کہ میں چونکہ سلطان الملک ہوں میرا منصبی فرض ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں تاکہ میری بے خبری میں قوم کے مال کو نقصان نہ پہنچ جائے دوم اس نیت سے کہ یہ گھوڑے اسباب جہاد سے ہیں جس سے اللہ کے دین اور احکام کی ترقی اور بنیاد مضبوط ہوتی ہے یہاں تک ان کو دیکھتا رہا کہ وہ گھوڑے چلتے چلتے کسی اوٹ میں چھپ کر نظر سے اوجھل ہوگئے تو اس نے کہا ان کو میری طرف واپس لائو جب لائے پہلے تو نظر ہی سے جائزہ لیتا تھا پھر ان کی پنڈلیاں اور گردنیں محبت سے چھونے لگا تاکہ ان کی طاقت اور فربہی کا اندازہ کرسکے غرض یہ کہ حضرت دائود کے صاحبزادہ سلیمان علیہم السلام کے اس واقعہ سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ یہ لوگ جو کام کرتے تھے نیک نیتی سے کرتے تھے ( بعض بلکہ اکثر مفسرین اور مترجمین نے اس آیت میں یہ کہا ہے کہ گھوڑوں کو دیکھتے دیکھتے سورج غروب ہوگیا اور حضرت سلیمان کی نماز عصر فوت ہوگئی تھی اسلئے انہوں نے کہا کہ میں انکی محبت میں اللہ کے ذکر سے غافل ہوگیا۔ دوم یہ کہتے ہیں کہ تَوَارَتْ اور رُدُّوْھَا میں ھا کی ضمیریں شمس (سورج) کی طرف پھرتی ہیں یعنی سورج چھپ گیا۔ حضرت سلیمان نے جب دیکھا کہ میری عصر کی نماز فوت ہوگئی تو حکم دیا کہ سورج کو واپس لائو تاکہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں بعض حضرات نے تو ارت کی ضمیر سورج کی طرف پھیری ہے۔ مگر ھا کی ضمیر خیل (گھوڑوں) کی طرف بتلائی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سب تکلفات ہیں۔ سارے مضمون میں سورج کا نام نہیں تو ضمیر اس کی طرف کیسے پھر سکتی ہے ؟ اسلئے صحیح ترجمہ یہ ہے جو ہم نے کیا ہے اور شان نبوت کے موافق بھی ہے ہاں اگر سوال ہو کہ واسطے کے معنے کے لئے کیا لفظ ہے تو جواب یہ ہے کہ عن کا لفظ واسطے کے معنے میں آیا ہے قرآن شریف میں ہے ما کان استغفار ابراھیم لا بیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ یعنی حضرت ابراہیم کا باپ کے لئے استغفار کرنا محض ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ اسی طرح عن ذکر ربی ای لاجل عبادۃ ربی۔ والعلم عنداللہ۔ منہ) اور ایک واقعہ سنو ! ہم (اللہ) نے سلیمان کو بھی جانچا یعنی ایسے واقعات اس کے پیش آئے کہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت ہوں مثلاً ہم نے اس کو ایک بڑا بادشاہ بنایا اور اس کی کرسی یعنی تخت پر ہم نے ایک جسم بے جان یعنی کچا گرا ہوا بچہ ڈلوا دیا۔ جو اسی کا بچہ تھا۔ سلیمان چونکہ اس حمل سے متوقع تھا کہ بیٹا ہوگا اور دین کا خادم بنے گا اس لئے وہ اس واقعہ سے سمجھ گیا کہ اختیارات کلی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں پس وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا اے میرے پروردگار میری خطا معاف فرما کہ میں نے اپنے دل میں ایسے خیالات باندھے جو تیرے منشاء کے مطابق نہ تھے (یہ مضمون ایک حدیث میں آیا ہے اس کے سوا اور بھی کئی توجیہیں علماء تفسیر نے کی ہیں جو ھمکو پسند نہیں۔ منہ) اور مجھ کو ایک ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو نہ ہو یعنی مجھ کو انتظام مملکت کی اعلیٰ لیاقت بخش تاکہ میرے بعد آنے والوں کے لئے میرے قوانین سلطنت واجب العمل ہوں تاکہ بنی اسرائیل کی سلطنت کو قیام اور (اللہ) نے ہوا کو اس (سلیمان) کا تابع کردیا جہاں پر وہ جانا چاہتا اس کے حکم سے ہوا آسانی کے ساتھ چلتی جیسے آج کل ہوائی جہاز ہوا کے ذریعہ سے چلتے ہیں اور جتنے جن معمار اور سمندر میں غوطہ زن تھے ہم (اللہ) نے اس (سلیمان) کے تابع کر دئیے اور کئی ایک کو قابو کر رکھا تھا جو بوجہ سرکشی کے قیدوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یعنی انسانوں کے سوا جنوں پر بھی اس کو حکومت حاصل تھی جن سے وہ سرکاری اور ذاتی ہر طرح کے کام لیتا تھا۔ یہ بھی ہم نے اسے کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری دین (عطیہ) ہے پس تو بے حساب احسان کر یا روک رکھ غرض حسب موقع جو تو کرے تجھے حق حاصل ہے کیونکہ اس (سلیمان) کا ہمارے پاس بڑا رتبہ تھا اور بہت اچھی شان تھی۔ ان دونوں باپ بیٹے کے خیالات تو تم کو معلوم ہوچکے کہ کس طرح سے ہر ایک کام میں اللہ کریم عظمت کا ادب کرتے تھے۔ اب آئو ایک اور ہمارے بندے ایوب کا حال سنو ! اور آسمانی کتاب میں اس کا ذکر کہ جس نے اللہ کریم کے مصائب پر تمام عمر صبر کیا خصوصا اس وقت کا بھی ذکر کرو جب اس نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ میرے مولا ! مجھ کو شیطان نے بہت کچھ ایذا اور تکلیف پہنچائی ہے بیماری تو تیرے حکم سے ہے مگر وہ میرے دل میں ہر وقت ترتی طرف سے بدگمانی ڈالتا ہے کہ اللہ نے تجھ پر ظلم کیا۔ اللہ نے تجھے چھوڑ دیا۔ یہ مجھ کو سخت تکلیف ہے۔ مولا ! میرے حال پر رحم فرما اور اس تکلیف سے مجھے چھڑا۔ ہم (اللہ) نے حکم دیا کہ اپنا پیر زمین پر مار دیکھ یہ تیرے لئے ٹھنڈا غسلخانہ اور پینے کا پانی موجود ہے بس اس کے پیر مارنے کی دیر تھی کہ ہمارے حکم سے زمین میں سے پانی نکل آیا جس میں وہ نہا کر شفایاب ہوگیا اور اس کے اہل وعیال جو اس عرصہ میں اس سے الگ ہوچکے تھے وہ اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور لڑکے لڑکیاں اپنی رحمت سے ہم نے اسے دئیے تاکہ عقل مندوں کے لئے نصیحت ہو۔ وہ جانیں کہ ہر قسم کی کامیابی اللہ کی ماتحتی میں ہے اور ناکامی اسی سے ہٹ رہنے میں۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے مقصود بھی یہی ہے کہ لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں ص
31 ص
32 ص
33 ص
34 ص
35 ص
36 ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 (41۔48) ایک اور واقعہ ہماری عنایت کا سنو ! ایوب نے باوجود اعلیٰ صابر ہونے کے بقول {اعوذ باللہ من غضب الحلیم} کسی امر میں اپنے کسی متعلق کی نسبت قسم کھالی تھی کہ میں تجھے سو بید رسید کروں گا ہم (اللہ) نے اس میں بھی تخفیف کرنے کو حکم دیا کہ سینکوں کا مٹھا اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے ساتھ اپنے ملزم کو مار دے اور قسم نہ توڑ جیسا کہ آج کل بھی عدالتوں میں خفیف بید (مٹھا باندھ کر اکٹھے) مار دیا کرتے ہیں۔ بس ایسا کرنے سے ہمارے نزدیک تیری قسم پوری ہوجائے گییہ اس لئے کہا کہ ہم (اللہ) نے اس کو صبر کرنے والا پایا۔ وہ بہت ہی اچھا بندہ تھا کیونکہ وہ اللہ کی طرف رجوع تھا۔ تمام خوبیوں کی جڑ یہی ہے کہ انسان اپنے خالق کی طرف جھکا ہو یہ نہیں تو کچھ نہیں ان لوگوں کو نصیحت کرنے کے لئے ایک اور واقعہ سنا ہمارے نیک بندوں حضرت ابراہیم، اسحق اور یعقوب کو بھی کتاب میں ذکر کر جو نیکی کے کاموں میں بڑی قوت والے اور اللہ کریم کے قدرت کے دیکھنے میں بڑی بینائی والے تھے ہم (اللہ) نے ان کو ایک خاص بات یعنی یاد آخرت کے لئے چن لیا تھا۔ وہ اللہ کے ایسے بندے تھے کہ ہر ایک کام میں آخرت کا نفع نقصان ملحوظ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان سے راضی تھے اور وہ ہمارے نزدیک ہمارے برگزیدہ نیک بندوں میں سے تھے اسی طرح خاندان محمدیہ کے بانی حضرت اسمعیل۔ نیز یسع اور ذوالکفل کا بھی ذکر کر ان میں کا ہر ایک نیک بندوں میں سے تھا۔ یہ نہ کوئی سمجھے کہ نیک بندوں کی فہرست بس ختم ہوگئی آئندہ کو کوئی نیک پیدا نہیں ہوسکتا۔ ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 ص
46 ص
47 ص
48 ص
49 (49۔70) نہیں بلکہ یہ قرآن ایک نصتحچ ہے جو کوئی چاہے اس سے ہدایت پا کر متقیوں میں آجائے اور متقیوں کے لئے آخرت میں اچھا ٹھکانہ ہے یعنی ہمیشہ رہنے کے لئے بہشت۔ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے ان بہشتوں میں تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے وہ خادمان بہشت سے کھانے کے لئے بہت سے میوے اور پینے کے لئے بہت قسم کے پانی، خالص پانی، انگوروں کا پانی، برف، لیمن وغیرہ طلب کیا کریں گے۔ غرض جو چاہیں گے وہاں تیار ملے گا۔ یہ ظاہر ہے کہ انسانوں بلکہ جملہ جانداروں کو تین قسم کی حاجات ہوتی ہیں۔ کھانے پینے کی اور کھانے پینے پر جو بطور نتیجہ کے پیدا ہوتی ہے یعنی ضرورت نکاح انسان کی کامل راحت اسی میں ہوسکتی ہے کہ تینوں حاجتوں کا انتظام ہو۔ اس لئے اللہ کریم کی آرامگاہ یعنی جنت میں ان سب کا انتظام ہوگا اور اچھی طرح ہوگا کہ بڑی بڑی خوبصورت نیچی نگاہ رکھنے والی با حیا ہم عمر بیویاں ان کے پاس ہوں گی جن سے وہ تیسری قسم کی حوائج (نفسانیہ) پوری کریں گے اور کامل راحت میں زندگی گذاریں گے حساب کے روز انہی نعمتوں کے ملنے کا تم کو ہماری طرف سے وعدہ دیا جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارا رزق بھی انتہا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ متقیوں کا انعام تو یہ ہے اور بدمعاشوں بے ایمانوں اور سرکشوں کا ٹھکانہ بہت برا یعنی جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوں گے تو معلوم کریں گے کہ وہ بہت بری جگہ ہے حکم ہوگا لو یہ سخت گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ پیئو اور اسی قسم کی کئی ایک اور قسموں کے عذاب وہاں ہوں گے۔ چونکہ اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر اثر پہنچا کر ان کو گمراہ کرتے ہیں اس لئے جہنم میں بھی پہلے وہی ڈالے جائیں گے ان سے بعد ان کے چیلے چانٹے اور یہ کہا جائے گا کہ یہ مجرموں کی جماعت پھٹکار اور لعنت کی حالت میں تمہارے ساتھ داخل جہنم ہوتی ہے بس اب تم دونوں گروہ ایک جگہ رہو گے وہ گمراہ چیلے بعد غوروفکر اپنے گمراہ کنندے گرئووں کو مخاطب کر کے کہیں گے لعنت اور پھٹکار ہم پر نہیں بلکہ تم لوگوں پر پھٹکار ہو۔ تم ہی لوگوں نے تو ہمارے لئے یہ عذاب آگے مہیا کرایا تمہاری گمراہی سے ہم گمراہ ہوئے تم لوگ ایسے نہ ہوتے تو ہماری کیوں ایسی گت ہوتی۔ پس تم دیکھ لو بہت بری جگہ ہے اللہ دشمن کے بھی نصیب نہ کرے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اتباع اللہ کی طرف مخاطب ہو کر کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! جس شخص نے ہمارے لئے یہ عذاب مہیا کرایا یعنی جو ہم کو گمراہ کر کے ہمارے اس عذاب کا باعث ہوا تو اس کو آگ میں دگنا عذاب دے۔ تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ شخص مخلوق کا گمراہ کنندہ ہے یہ کہہ کر وہ ادھر اھر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم جن ایماندار لوگوں کو اپنی بے وقوفی سے بدنصیب اور برے جانتے تھے ان کو ہم یہاں نہیں دیکھتے کیا واقع میں ہم ان کو یونہی مخول ہی کرتے تھے اس لئے وہ یہاں نہیں داخل ہوئے یا ہماری نظریں ان پر نہیں پڑتیں اس میں شک نہیں کہ ان جہنمیوں کی یہ تکرار واقعی ہوگی جن لوگوں کی بابت ان کی نظریں خیرہ ہوں گی وہ واقعی جہنم میں نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ نجات یافتہ ہو کر جنت میں جا پہنچے ہوں گے اختلاف تو ان میں صرف یہی تھا کہ دنیا کا معبود واحد ہے یا متعدد ہیں سو تو اے نبی ! ان کو کہدے کہ میں تم کو صرف برے کاموں پر ڈرانے والا ہوں۔ اور اللہ کے لئے زبردست کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں۔ وہی آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار وہی غالب اور بخشش کرنے والا ہے۔ اے نبی ! تو یہ بھی ان کو کہہ واقعات قیامت کی یہ خبر بہت بڑی۔ دل پر ہیبت ڈالنے والی ہے مگر تم اس سے روگردان ہو۔ یہ مت سمجھو کہ میں از خود جانتا اور بتلاتا ہوں نہیں بلکہ مجھے تو اس وقت بھی اعلیٰ جماعت ملائکہ کی بابت کوئی علم نہیں ہوتا جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں حالانکہ عالم کشف میں ان کی گفتگو سے بہت کچھ چرچا ہوجاتا ہے۔ میری طرف کوئی ایسا سلسلہ تار لگا ہوا نہیں ہے جس میں ہر وقت خبریں پہنچتی ہوں ہاں مجھے یہی پیغام پہنچتا ہے کہ میں صرف تم لوگوں کو صاف صاف الفاظ میں عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور نیک کاموں پر خوشخبری بتلانے والا ہوں اور بس لیکن یہ عرب کے لوگ تیرے حسد میں ایسے جلے بھنے ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ جانتے نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ص
50 ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 ص
56 ص
57 ص
58 ص
59 ص
60 ص
61 ص
62 ص
63 ص
64 ص
65 ص
66 ص
67 ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 (71۔88) تو ان کو ایک عبرت ناک قصہ سنا۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو کہا دیکھو میں مٹی سے ایک آدمی پیدا کرنے کو ہوں سو جب میں اس کو بنا سنوار لوں اور اس میں اپنی مخلوق کردہ روحوں میں سے کوئی روح ڈال دوں تو تم اس کے کمال کا اعتراف کرنے کو اس کے سامنے تعظیم بجا لانا۔ یہ اس قصہ کا اجمال ہے جو دیگر مقامات پر تفصیل سے آیا ہے کہ فرشتوں کے اظہار کمالات پر اللہ کا یہ حکم ہوا تو سب کے سب ملائکہ تعظیم بجا لائے لیکن ایک ابلیس نے ان میں سے تکبر کیا اور کافر ہوگیا اللہ نے فرمایا۔ ابلیس ! جس چیز کو میں نے خود پیدا کیا اور اس کی تعظیم کرنے کا حکم دیا تو اس کی تعظیم کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو متکبر ہے یا واقع میں بڑے لوگوں سے ہے جن پر (بزعم ان کے) میرے حکم بھی نافذ نہیں ؟ اس (ابلیس) نے کہا گو میں تیری مخلوق ہونے کی حیثیت سے فرمانبردار ہوں اس خیال سے تو جو تو فرما دے حاضر ہوں مگر واقعہ یہ ہے کہ میں اس (آدم) سے اچھا ہوں۔ اچھا بھی از خود نہیں بلکہ تیرے بنانے سے کیونکہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اس کو مٹی سے اور یہ ظاہر ہے کہ آگ مٹی سے افضل اور بہتر ہے۔ اللہ نے فرمایا کمبخت ! تو نہیں جانتا کہ نص کے مقابلہ میں قیاس کرنا جائز نہیں۔ میرے حکم کے سامنے تو نامعقول ڈھکوسلے لگاتا ہے پس تو اس جماعت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے اور میری طرف سے قیامت تک تجھ پر لعنت ہے ابلیس نے کہا اچھا حضور نے جو حکم فرمایا مجھے منظور ہے پس اے میرے مولا جس روز مخلوق دوبارہ اٹھائی جائے گی اس روز تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ تو میں حضور کو ان پیارے بنی آدم کا پول دکھا دوں۔ حکم ہوا اچھا مقررہ وقت قیامت تک تجھے مہلت ہے۔ ہم جانتے ہیں جو تیری غرض ہے جو تو کرے گا ہم بھی اس کا انتظام اچھی طرح کردیں گے اس کے بعد ابلیس نے کہا مجھے حضور کی عزت اقبال کی قسم ہے کہ میں ان سب (بنی آدم) کو بہکائوں گا۔ لیکن ان میں سے تیرے خالص بندوں پر میرا اثر نہ ہوگا اللہ نے فرمایا بیشک حق یہی ہے کہ میرے نیک بندوں پر تیرا اثر نہ ہوگا اور میں بھی سچ کہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور ان بنی آدم میں سے جو تیرے تابع ہوں گے ان تمام سے جہنم کو بھر دوں گا اور تیرے شر سے بچانے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ سلسلہ نبوت اور ولایت قائم کر کے مخلوق کو ہدایت پہنچائوں گا جو کوئی سعادت مند ہوگا۔ وہ تیرے شر سے محفوظ رہے گا۔ چنانچہ اسی سلسلہ کا آخری اور اعلیٰ ممبر اے نبی ! تو اس وقت موجود ہے یہ لوگ جو تیری مخالفت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دے کہ میں محض اللہ کے حکم تم کو سناتا ہوں اور اس پر کوئی عوض نہیں چاہتا۔ جو کچھ میں تم سے اس پر کچھ عوض مانگوں وہ تم ہی رکھو میں اس کی طمع نہیں کرتا۔ نہ میں تکلف کرنے والا ہوں کہ جو بات میرے علم میں نہ ہو وہ بھی میں کسی نہ کسی طرح بنا کر کہدوں پس یہ قرآن شریف جہان کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے اور تم اس کی بتلائی ہوئی خبر اور آئندہ واقعات تھوڑے ہی وقت بعد جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟ ص
72 ص
73 ص
74 ص
75 ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 ص
87 ص
88 ص
0 الزمر
1 (1۔9) کچھ شک نہیں کہ یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل ہے بے شک ہم (اللہ) نے اس کتاب قرآن مجید کو سچی تعلیم کے ساتھ نازل کیا تھا جس کی تعلیم کا پہلا باب اللہ کی خالص توحید ہے۔ پس تو اے نبی ! اللہ ہی کی خالص عبادت کیا کر۔ سنو ! خالص عبادت اللہ ہی کے لئے زیبا ہے۔ اور کوئی شخص اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور جو لوگ اس اللہ کے سوا اوروں کو حاجت روا بناتے ہیں وہ اس کے عذر میں کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہم کو درجے میں اللہ کے قریب کردیں۔ یعیں ان کی عبادت کے ذریعہ سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرلیں ان کی عبادت مقصود اصلی نہیں بلکہ مقصود اصلی قرب اللہ ہے۔ ان لوگوں کا گویا یہ اصول ہے۔ بت کو بٹھا کر سامنے یاد اللہ کروں یہ سب خیالات ان کے وسواسی ہیں جن جن امور میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اللہ ہی ان میں صحیح فیصلہ کرے گا یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ کے سوا کسی مخلوق کو اس بہانے سے بھی پوجنا شرک ہے کہ یہ ہم کو اللہ کے ہاں مقرب بنا دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ایسے جھوٹے ناشکروں کو سمجھ نہیں دیا کرتا۔ کہ وہ اتنی بات بھی سمجھ سکیں اسی بے سمجھی کا نتیجہ ہے کہ اللہ کو بھی مثل آدمیوں کے سمجھتے ہیں اسی لئے تو اللہ کی نسبت بھی صاحب اولاد ہونے کا خیال رکھتے ہیں حالانکہ اللہ اگر اولاد بنانے کا ارادہ کرتا تو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اس کے نطفے سے اولاد ہوتی کیونکہ ایسا ہو تو اس کی بیوی بھی چاہیے جو نہیں ہے بلکہ اللہ اگر کسی کو اولاد بناتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا مگر وہ اولاد نہ خالق ہوتی نہ خالق کا جزو جیسے حقیقی اولاد ہوتی ہے بلکہ مخلوقیت کے درجہ میں محبوبیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔ جیسے متبنی ہوتا ہے مگر اللہ اس سے بھی پاک ہے جو لوگ کسی مخلوق کو اللہ کی اولاد کسی معنی سے کہتے ہیں وہ لوگ جھوٹے ہیں وہ اس سے پاک ہے۔ وہ اللہ اکیلا ہی سب پر ضابط اور حکمران ہے اسی نے آسمان اور زمین سچائی کے ساتھ یعنی با ضابطہ پیدا کئے ہیں۔ اسی ضابطہ کا اثر ہے کہ اب تک بھی یہی قانون ہے کہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے کبھی رات بڑی ہے تو دن چھوٹا ہے کبھی رات چھوٹی ہے تو دن بڑا ہے۔ دیکھو سورج اور چاند کو تمہارے کام میں مفت لگا رکھا ہے دیکھو ہر ایک ان میں کا معین زمانے تک چلتا ہے جو جس کا وقت مقرر ہے اسی حساب سے چلتا ہے۔ سنو ! وہی اللہ بڑا زبردست گناہ بخشنے والا ہے اس نے تم سب بنی آدم کو ایک جان آدم سے پیدا کیا اسی ایک جان کی قسم سے اس کی بیوی حوّا پیدا کی اس سے بعد سب بنی آدم کو پیدا کیا جن کا شمار حساب سے باہر ہے اسی نے تمہارے لئے چوپائوں میں سے آٹھ قسم کے حیوان پیدا کئے جن کی تفصیل سورۃ انعام پارہ آٹھ رکوع چار میں کردی گئی ہے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں طور بطور یکے بعد دیگرے تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے ایک اندھیراپیٹ کا‘ ایک اندھیرا رحم کا ایک اندھیرا رحم کے پردہ کا۔ ان سب اندھیروں کے اندر تمہاری پیدائش ہوتی ہے ایسا کرنے والا کوئی اور بھی ہے ؟ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے تمام ملک پر حکومت اسی کی ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں پس تم اسی کی عبادت کرو اور اسی کے ہو کر رہو۔ تم جو اسے چھوڑ کر ادھر ادھر جا رہے ہو۔ کہاں کو پھرے جاتے ہو۔ سنو ! تمہارے ایسا کرنے سے تمہارا ہی نقصان ہے۔ اگر تم اللہ کے منکر ہو گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے کیونکہ اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے حق میں پسند کرے گا۔ اس خیال میں غرہ مت ہو کہ کوئی شخص ہمارے گناہ اٹھا لے کا ہرگز نہیں۔ کوئی کسی دوسرے کا گناہ نہیں اٹھائے گا۔ یاد رکھو اپنے گناہوں کے تم خود ہی ذمہ دار ہو گے اور تم کو اپنے پروردگار کی طرف واپس جانا ہے پس وہ تم کو تمہارے کئے ہوئے کاموں کی خبر دے گا۔ اس وقت تم کو بھی اس بات کا علم ہوجائے گا کہ ہاں واقعی ہم نے برے کام کئے ہیں یہ مت سمجھنا کہ اللہ کو کیسے خبر ہوگئی یا ہم انکار کردیں گے تمہارا انکار نہ چل سکے گا کیونکہ اللہ سینوں کے حالات سے بھی واقف ہے اور انسان ایسا خود غرض بلکہ عقل سے خالی ہے کہ اللہ کے ساتھ بھی خود غرضی سے پیش آتا ہے جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف جھک کر اسی کو پکارتا ہے۔ بقول ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی وبایزید شوند روزوشب یہی کار ہے اے اللہ تو میری مشکل آسان کر۔ اے اللہ تو میرے حال پر رحم فرما خیر ایسا کرنے پر تو اس کو ملامت نہیں ملامت کی بات تو یہ ہے کہ پھر جب اللہ اس کو اپنے ہاں سے کوئی نعمت بخشتا ہے یعنی تکلیف دور کر کے آسائش دیتا ہے تو جس تکلیف کے لئے پہلے اللہ کو پکارتا تھا وہ بالکل بھول جاتا ہے گویا اسے کبھی تکلیف ہوئی نہ تھی اور اگر کبھی یاد بھی کرتا ہے تو نہ کرنے سے بدتر کیونکہ اس تکلیف کے رفع کرنے میں اللہ کے شریک بناتا ہے۔ لوگوں میں اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ میں اس تکلیف سے چھوٹا تاکہ اور لوگوں کو بھی اس اللہ کے راستے سے گمراہ کرے کیونکہ لوگوں میں اتنی تمیز تو نہیں ہے کہ حق وباطل میں فرق کرسکیں اس لئے بھیڑ چال کی طرح ایک کے پیچھے دوسرا لگ جاتا ہے۔ پس اے نبی ! تو کہہ ایسے خیالات کفر کے ہیں پس تم اسی کفر میں چند روزہ زندگی گذار لو کچھ شک نہیں کہ آخر کار تم جہنمی ہو۔ عام لوگوں میں چونکہ تمیز نہیں اس لئے وہ ظاہری حالت پر حکم لگاتے ہیں۔ کہ میاں فلاں شخص کیسا آسودہ حال ہے بھلا اس کے افعال اگر ناپسندیدہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے آسودہ کیوں کرے ان کو سمجھنا چاہیے کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ افعال کے جانچنے کا یہ طریق نہیں بلکہ اس کے لئے معیار قانون شریعت ہے بھلا جو شخص دن کے علاوہ رات کے اوقات میں بھی سجدہ اور اللہ کے سامنے قیام کرتے ہوئے گذارے ایسا کرنے میں وہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو ایسا شخص اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے بندوں کو ستائے اور اللہ سے نہ ڈرے اگر دونوں برابر ہوں تو اللہ کے ہاں انصاف نہ ہوا۔ اندھیر کھاتا ہوا۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کو اے نبی ! تو انہیں کہہ کہ بھلا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ جو کوئی کسی کام کا واقف ہے وہ ناواقف جیسا ہے ؟ نہیں بلکہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اسی طرح جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور معرفت کے ساتھ اعمال حسنہ کی توفیق بھی ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جن میں دونوں وصف نہیں اس میں شک نہیں کہ عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں اور وہی اس فرق کو سمجھتے ہیں الزمر
2 الزمر
3 الزمر
4 الزمر
5 الزمر
6 الزمر
7 الزمر
8 الزمر
9 الزمر
10 (10۔20) پس اے نبی ! تو میرے بندوں کو میری طرف سے کہہ اے میرے ایماندار بندو ! چونکہ تم لوگ عقلمند ہو اور اس عقلمندی سے تم کو بھلے برے کی تمیز ہے اس لئے تم میری اس نصیحت کو غور سے سنو ! کہ اپنے حقیقی پروردگار سے ڈرتے رہا کرو۔ کوئی وقت تم پر ایسا نہ آئے کہ تم اللہ سے بے خوف ہو کر کام کرنے لگ جائو۔ اس کا نتیجہ سننا چاہو تو سنو ! ہمارے ہاں قانون ہے کہ جو لوگ نیک افعال ہیں یعنی شخصی اور قومی زندگی میں ہمیشہ ان کو نیک سلوک ہی مدنظر رہتا ہے گویا ان کا اصول زندگی ہی یہ ہے کہ ؎ خیرے کن اے فلان وغنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ برآمد فلاں نماند اسی دنیا میں ان ایسے نیک لوگوں کے حصے میں ہر طرح کی بھلائی ہے وہ ہر طرح کی عزت کے مستحق‘ اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے خوش اس رضا الٰہی کے علاوہ ملک پر ان کی حکومت ہوگی۔ چونکہ ایسے نیک بندوں کو نااہل لوگ ستایا کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں روڑا اٹکاتے ہیں اس لئے ان کو اس امر کی بھی اطلاع کر دو کہ اللہ کی زمین فراخ ہے وہ جس کو چاہتا ہے زمین کا وارث کردیتا ہے۔ یہ تو ان نیک اعمال بندوں کا دنیاوی انعام ہے آخرت کا انعام باقی ہے چونکہ ان لوگوں کو دین حق کو اختیار کرنے اور پھیلانے میں بڑی بڑی تکلیفیں ہوئی ہیں جن پر انہوں نے بڑی جوانمردی سے صبر کیا ہے ہمارے ہاں یہ عام قانون ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب بدلہ ملے گا جس کا نام جنت ہے۔ پس ہر کام میں صبر کو مدنظر رکھو۔ اپنے وطن میں صبر سے رہ سکو تو بھی اجر سے خالی نہیں تکلیف انسانی طاقت سے بالا ہو تو وطن سے ہجرت کر جائو۔ اس ہجرت میں تکلیف ہو تو اس میں بھی اجر ہے بشرطیکہ صبرواستقلال سے نبا ہو۔ اے نبی ! تو ان کو یہ بھی کہہ کہ مجھے بھی یہی حکم ہے کہ میں اخلاص مندی سے اللہ کی عبادت کروں یعنی اس کی عبادت میں کسی طرح کا ریا یا فخر نہ کروں اور مجھے یہ بھی حکم ہے کہ میں اس وقت کے جملہ فرمانبرداروں میں اللہ کا اول فرمانبردار بنوں۔ یہی میرا فرض ہے اور یہی فخر کہ میں اللہ کا بندہ بن کر رہوں نہ اس کا شریک نہ سہیم۔ تو اے نبی ! یہ بھی کہہ کہ پروردگار کی بے فرمانی کرنے کی صورت میں مجھے بھی بڑے دن قیامت کے عذاب کا ڈر ہے اے نبی ! تو یہ بھی کہہ کہ میں خالص اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں تم اے مشرکو ! اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو میں تو اس میں شریک نہ ہوں گا اے نبی ! تو یہ بھی کہہ اللہ کے ہو رہنے میں تو کوئی نقصان نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے ہاں نقصان والے وہی لوگ ہیں جو بوجہ بدکاریوں کے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین گھر والوں اور تعلق داروں کو خسارہ میں ڈالیں گے غور کرو تو یہی بڑا کھلا خسارہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ وہ لوگ ہر قسم کی نیکیوں کے محتاج ہوں گے ان کی تمام نیکیاں برباد ہو کر تمام برائیاں ان کے ذمہ ڈالی جائیں گی اور ان بدکاروں کے اوپر اور نیچے آگ کا سایہ ہوگا یعنی ہر طرف سے آگ نے ان کو گھیرا ہوگا۔ بس پھر ان کی کیا گت ہوگی۔ قابل غور ہے کچھ نہ پوچھو سنو ! اور ہوشیار ہوجائو۔ اللہ تعالیٰ اس عذاب سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندو ! مجھ سے ڈرو اور بدکاریاں چھوڑ دو اور سنو ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ غیر اللہ کے پوجنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اللہ کی طرف جھکے رہتے ہیں انہی کے لئے خوشخبری ہے وہی لوگ فلاح دارین پانے کے مستحق ہوں گے ایسے لوگوں میں علاوہ توحید خالص اور انابت الی اللہ کے ایک اور وصف خاص ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہر ایک بات کی تحقیق کرتے ہیں کسی بات یا خیال کے سننے سے نفرت نہیں کرتے ہاں اختیار کرتے وقت تحقیق سے کام لیتے ہیں پس تو اے نبی ! میرے (یعنی اللہ کے) ان بندوں کو خوش خبری سنا جو ہر قسم کے اقوال سن کر سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں سب اقوال میں اچھا قول اللہ کا فرمان قرآن مجید ہے اور بس یعنی ان کے دینی کاموں کا مدار قرآن پر ہے یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ عقلمند ہیں ان کے مقابلہ میں دنیا کے بندے اپنی عقل وسمجھ پر کیا ناز کرسکتے ہیں بحالیکہ وہ شرک وکفر اور دیگر اقسام کی بداخلاقیوں سے آلودہ ہیں تو کیا جن لوگوں پر اللہ کی طرف سے بوجہ ان کی بداعمالیوں کے عذاب کا حکم لگا ہو ایسے لوگوں کو جو گویا آگ میں پڑے ہوئے ہیں تو نکال لے گا؟ نہیں۔ ہاں جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بعد موت اللہ کے پاس بہشتوں میں بڑے بڑے بالاخانے ہیں جن کے اوپر اور بالا خانے بنے ہوئے ہیں ان کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ کبھی خلاف نہیں کرے گا۔ اس قسم کی نعمتوں کا ذکر سن کر جو لوگ ناک بہوں چڑہاتے ہیں ان کو کہو کیا تم لوگوں نے نظام عالم پر غور نہیں کیا جبکہ اس نظام کو اللہ نے ظاہری طور پر ایسا منظم بنا رکھا ہے کہ کسی طرح کا خلل اس میں نہیں آتا تو کیا اس کے ساتھ باطنی انتظام اس نے نہ کیا ہوگا۔ باطنی انتظام وہی ہے جس کا نام ہے نیک وبد اعمال کی جزاوسزا جس کی بابت کہا گیا ہے : از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوز جو الزمر
11 الزمر
12 الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 الزمر
17 الزمر
18 الزمر
19 الزمر
20 الزمر
21 (21۔31) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اوپر کی طرف سے بارش کا پانی اتارتا ہے پھر زمین میں اس پانی سے چشمے جاری کردیتا ہے بارش نہ ہو۔ تو پہاڑی چشمے بھی سوکھ جاتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ مختلف رنگ کے کھیت پیدا کرتا ہے۔ پھر وہ کھیت زور سے لہلہاتے ہیں جدھر دیکھو سبزہ ہی سبزہ نگاہ میں آتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ تم اس کھیت کو زرد ہوا دیکھتے ہو پھر ایک وقت آتا ہے کہ اللہ اس کو چوراچورا کردیتا ہے ایسا کہ دانہ تنکے الگ سب الگ الگ وہی میدان جو ابھی سر سبز نظر آتا تھا چٹیل میدان صاف نظر آتا ہے۔ یہ ہے قدرتی انقلاب۔ کیا ایسے انقلابات یونہی ہو رہے ہیں۔ بے شک اس واقعہ میں عقلمندوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں وہی لوگ عزت یاب ہیں بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام یعنی احکام الٰہی کی پابندی کے لئے کھول دیا ہو۔ پھر وہ اس شرح صدر کی وجہ سے اپنے پروردگار کی روشنی میں چل رہا ہو۔ شب وروز اللہ کی مشعل ہدایت اس کے سامنے ہو کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جو بد اعمالیوں کی تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہے۔ ہرگز نہیں افسوس ہے ان لوگوں پر جن کے دل اللہ کے ذکر سے غفلت کرنے کی وجہ سے سخت ہو رہے ہیں۔ وہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔ اس لئے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے منکر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب کلاموں سے اچھا کلام قرآن مجید نازل کیا ہے جو ملتی جلتی کتاب ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کے مشابہ اور بار بار پڑھی جاتی اور دلوں پر اثر کرتی ہے۔ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اس کتاب کے سننے سے ان کے بدن کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے چمڑے اور دل اللہ کے ذکر کی طرف جھکتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت کا اثر ہے اس کے ساتھ جس بندے کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور کامیاب فرماتا ہے اور جس بندے کی بداعمالی کی وجہ سے اس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی اپنی رحمت خاصہ سے دور رکھے تو اس کے لئے کوئی ہادی نہیں جو اس کو راہ ہدایت پر لائے بعض لوگ اپنی جہالت سے ایسا کہا کرتے ہیں کہ ہمیں کیا ہدایت نہیں تو نہ سہی ہمارا کیا نقصان ؟ ایسے لوگ غور کریں کہ بھلا جو شخص اپنے آپ کو قیامت کے روز جہنم کے برے عذاب سے بچا لے گا یعنی اعمال صالحہ کی برکت سے دوزخ سے بچ جائے گا۔ ایسے نازک وقت میں ایسا آدمی اور جو ایسے نہیں بلکہ بدکاریوں کی وجہ سے ظالم ہیں برابر ہوں گے؟ حالانکہ ظالموں کو یہ کہا جائے گا کہ جو کچھ تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کا بدلہ تم یہاں پائو اور عذاب چکھو اے مسلمانو ! سنو ! ان سے پہلے لوگوں نے بھی احکام الٰہی کی تکذیب کی تھی پھر ایسی جگہ سے ان پر عذاب آیا جہاں سے انکو گمان بھی نہ تھا۔ پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی میں عذاب چکھایا اور ابھی آخرت کا عذاب سب سے بڑا ہے کاش وہ اس کو جانتے ہوتے اور سنو ! ہم (اللہ) نے لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بتلائی ہیں تاکہ وہ نصیحت پائیں یہ قرآن صاف عربی زبان میں اتارا ہے تاکہ لوگ اس کی وجہ سے پرہیزگار بنیں مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک مثال سناتا ہے۔ ایک غلام ایسا ہے جس میں بہت سے شریک مساوی حصہ دار ہیں اور اس کے مقابلہ میں ایک شخض صرف ایک ہی کا غلام ہے۔ پہلا غلام بہتوں کا محکوم ہے۔ ہر ایک اس پر حکم چلاتا ہے بعض اوقات آن واحد میں اس پر مختلف احکام جاری ہوتے ہیں اور وہ بے چارہ حیران سرگردان رہ جاتا ہے اور قہردرویش بجان وردیش کی مثال اس پر صادق آتی ہے دوسرا غلام محض ایک ہی کی ملک ہے چاہے اس پر حکم کرے یا نہ کرے کیا یہ دونوں غلام حالت میں ایک سے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ بعینہ یہی کیفیت ہے موحد اور مشرک کی۔ الحمد للہ کہ اسلام ہر طرح صحیح اور مدلل ہے مگر بہت سے لوگ اس کی حققتی نہیں جانتے اسی لئے بڑی بھاری غلطی ان کو لگتی ہے جب سنتے ہیں کہ نبی اللہ کا نائب ہے تو وہ اپنی نادانی سے خیال کر بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی مثل اللہ کے دائم حی القیوم ہوگا حالانکہ یہ خیال سرے سے غلط ہے نبی کی نیابت پیغام رسانی میں ہے ذات وصفات میں نہیں اس لئے ہم اعلام کرتے ہیں کہ اے نبی ! بے شک تو بھی مر جائے گا اور وہ بھی مر جائیں گے پھر تم سب لوگ قیامت کے روز اپنے پروردگار کے حضور باہم جھگڑو گے یعنی تمہارا باہمی مقابلہ ہوگا اس مقابلہ میں کیا ہوگا؟ یہی کہ مشرک موحدوں کو اور موحد مشرکوں کو تھوڑی دیر کے لئے الاہنے دیں گے اور بس ورنہ فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ ہوگا اس فیصلہ کا خلاصہ یہی ہوگا کہ اللہ کی باتوں کو نہ ماننے والے سزا یاب ہوں گے۔ الزمر
22 الزمر
23 الزمر
24 الزمر
25 الزمر
26 الزمر
27 الزمر
28 الزمر
29 الزمر
30 الزمر
31 الزمر
32 (32۔52) پس جو شخص اللہ پر جھوٹ لگائے کہ بغیر اطلاع اللہ کے الہام یا نبوت کا دعوی کرے۔ یا جب اس کو اللہ کے ہاں سے سچ پہنچے تو اس کو نہ مانے ایسے ظالم سے بڑا ظالم کون ہے جو نہیں جانتا کہ میرا حشر کیا ہوگا محض دنیا کے کمانے کے لئے دعوی کرتا ہے اور دنیا ہی کے خوف سے حق بات کو رد کرتا ہے کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہ ہوگا اور ان کے مقابلہ میں جو ایسا شخص ہے کہ اللہ کی طرف سے سچی تعلیم لایا ہے اور سچ کی تصدیق کرتا ہے ایسے لوگ ہی متقی یعنی اللہ خوف ہیں جو چاہیں گے ان کے پروردگار کیہاں سے ان کو ملے گا نیکو کاروں کا یہی بدلہ ہے ان کے ایسے نیک اعمال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ان سے ان کے برے اعمال کو جو انہوں نے کئے ہوں گے دور کر دے گا۔ اور جو نیک کام کئے ہوں گے ان میں سے بہت اچھے کاموں کے اندازہ سے ان کو بدلہ دے گا یعنی سب سے اچھا بھلا یہ لوگ جو اے نبی ! تیری ایسی تعلیم سنانے پر مخالفت کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ اپنی بیہودگی میں غالب آئیں گے۔ کیا اللہ اپنے بندے خاص کر نبی کو کافی نہیں ؟ یہ خیال ان کا کیسے صحیح ہوسکتا ہے مگر یہ لوگ بھی اپنے دھن کے ایسے پکے ہیں کہ جو جی میں آتا ہے کہدیتے ہیں اور ایک مزہ کی بات سنو مشرک اللہ کے سوا اور معبودوں سے تم کو ڈراتے ہیں کہتے ہیں دیکھو تم ایسا کام مت کرو ورنہ ہمارے بڑے پیر یا مہادیو تمہارا ستیاناس کردیں گے بہت خوب۔ بات یہ ہے کہ جس کو اللہ ہی درکادے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں۔ جو ہدایت کرسکے اور جس کو اللہ ہدایت کرے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ یہ لوگ چاہے کتنا ہی زور لگا دیں ان مسلمانوں کو اسلام سے نہیں روک سکتے۔ بلکہ یہ خود مبتلا‘ عذاب ہوں گی۔ کیا اللہ تعالیٰ بڑا غالب بدلہ لینے پر قادر نہیں ہے پھر یہ لوگ کس طرح اس پر اور اس کے بندوں پر غالب آسکتے ہیں وہ اللہ تو وہ ہے کہ خود یہ بھی اس کو ایسا ہی برتر مانتے ہیں اگر تو ان کو پوچھے کہ آسمان وزمین کس نے پیدا کئے تو وہ فورا کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ پس جب اس بات کے قائل ہیں کہ خالق سب کا اللہ ہے تو تو کہہ بتائو تو اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو اگر اللہ مجھ کو کسی قسم کی تکلیف پہچانی چاہے تو کیا یہ لوگ تمہارے بناوٹی معبود اللہ کی طرف سے آئی ہوئی تکلیف کو ہٹا سکتے ہیں یا اللہ میرے حق میں رحمت چاہے تو یہ لوگ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں جب ان کا بھی یہی خیال ہے تو تو اے نبی ! کہہ مجھ کو اللہ ہی کافی ہے میرا اسی پر بھروسہ ہے اور سب متوکلین بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں۔ ان کو اس کے سوا کوئی بھروسہ کے قابل نہیں ملتا۔ یہ صاف اور سیدھی تعلیم سن کر تیری مخالفت کریں تو تو کہہ اے میرے بھائیو ! اچھا تم اپنے طریقہ پر عمل کئے جائو میں بھی کرتا ہوں تم کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا ہی میں سخت رسوا کرنے والی مصیبت کس پر آتی ہے اور آخرت میں دائمی عذاب کس پر نازل ہوگا۔ اس کے بعد ہمارا عام اعلان ہے‘ کہ ہم (اللہ) نے لوگوں کی ہدایت کے لئے تجھ پر اے نبی ! سچی کتاب نازل کی ہے جو کوئی ہدایت پائے گا وہ اپنے لئے پائے گا اور جو گمراہ ہوگا اسی کا نقصان ہوگا۔ پس یہ ہے مختصر اصول ہمارے ہاں کے فیصلے کا اور تیرے بتلانے کے قابل خاص بات یہ ہے کہ تو ان کا ذمہ دار نہیں ہے کہ ان کے نہ ماننے سے تجھے سوال ہو۔ ہرگز نہیں بلکہ جو کرے گا وہی بھرے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام بے جانوں اور جانداروں کا مالک ہے اسی سے ان کا حقیقی تعلق ہے یوں ہی تو وہ ہر حالت میں مالک ہے خاص کر ان جانداروں کی موت کے وقت ان کی ارواح قبض کرلیتا ہے اور جو نہیں مرتے ان کی نیند کے وقت ان کے نفسوں پر وہی قبضہ کرتا ہے پھر نیند ہی میں جس کی موت کا وقت آچکا ہو اس کو تو عدم ستان کے لئے روک لیتا ہے یعنی دنیا میں آنے ہی نہیں دیتا اور دوسرے کو اس کی موت کے مقرر وقت تک چھوڑ دیتا ہے لیکن آخر تابکی بقول گو سلیمان زماں بھی ہوگیا تو بھی اے سلطان آخر موت ہے آخر مرنا ہے اور ضرور مرنا ہے بے شک اس موت کے واقعات میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو واقعات میں فکر کیا کرتے ہیں کیا ایسے مالک الملک حی القیوم کو چھوڑ کر ان مشرک لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو نام نہاد شفیع سمجھ رکھا ہے نام تو شیع رکھتے ہیں مگر دراصل برتائو ان کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو معبود کے ساتھ کیا جاتا ہے مثلا حاجات کا طلب کرنا۔ حاضر‘ غائب ان سے ڈرنا۔ نفع نقصان ان کے ہاتھ میں جاننا وغیرہ اسی لئے تو اے نبی ! ان کو پوچھ کہ کیا تم ان کو شفیع سمجھتے رہو گے چاہے ان کو کچھ بھی اختیار نہ ہو۔ گو شفیع بے اختیار ہی ہوتا ہے اس لئے کہ وہ بااختیار کے سامنے سفارش کرتا ہے۔ مگر ان مشرکوں کے خیالات اس بارے میں بھی الٹے ہیں ان کے خیال میں شفیع بااختیار ہوتے ہیں اسی لئے تو یہ لوگ شفیع کہہ کر بھی ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہذا یہ سوال ان پر معقول ہے اور اس کے سوا یہ بھی پوچھ کہ تم ان کو ایسا ہی سمجھتے رہو گے۔ گو وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں یعنی ان کو سفارش کا مفہوم بھی معلوم نہ ہو ایسے لوگ کیا سفارش کریں گے اور کیا کسی کی حالت بر لائیں گے تو اے نبی کہہ کہ سفارش کے خیال پر غیر معبود کو معبود بنانا بھی سرے سے غلطی ہے کیونکہ سفارش تو ساری اللہ کے قبضے میں ہے وہی جس کی چاہے گا قبول کرے گا۔ سفارش ہی پر کیا منحصر ہے سب کچھ اسی کے قبضے میں ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام حکومت اسی کو حاصل ہے حقیقی مالک اور اصلی بادشاہ وہی ہے اس وقت بھی اسی کا حکم جاری ہے دنیا میں تم اسی کے محتاج ہو پھر مر کر بھی اسی کی طرف تم واپس کئے جائو گے جس نے اس کے ساتھ دلبستگی رکھی ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا اور جس نے روگردانی کی ہوگی اس کا انجام برا ہوگا ساری روگردانی کی جڑ ترک توحید اور اختیار شرک ہے یہی وجہ ہے کہ شرک میں پھنس کر ان لوگوں کی ایسی ناگفتہ بہ حالت ہوگئی ہے کہ جس وقت اللہ اکیلے کا ذکر ہوتا ہے یعنی اس کی توحید کا بیان اور اعتقاد سکھایا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بھچتے ہیں اور منہ سے کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اکیلا اللہ تمام دنیا کا انتظام کرے اور جب اللہ کے سوا اور لوگوں کا جو ان کے معبود ہیں کسی مجلس میں ذکر کیا جاتا ہے تو یہ لوگ فورا خوش ہوجاتے ہیں مارے خوشی کے اچھلنے لگتے ہیں ایسے لوگوں کے سمجھانے کے طریق‘ دو ہیں ایک تو زبان سے ان کو قائل کرنا وہ تو روز ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ دوسرا اللہ سے ان کے لئے دعا کرنا پس تو اے نبی ! کہہ اے اللہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے۔ غائب اور حاضر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں تیرے ہی بس کی بات ہے تو ہی ان بندوں کا مالک ہے تو ہی ان کا والی تو ہی ان کا ہادی تو چاہے تو دنیا میں ان کو ہدایت کرے چاہے تو آخرت کے دن پر ان کا فیصلہ ملتوی رکھے بہر حال تو سب کا مختار ہے۔ یہ بھی تیری مہربانی ہے کہ تو اطلاع دیتا ہے اگر ظالموں اللہ کے بے فرمانوں کو زمین کا تمام مال اور اس کے ساتھ ہی اس جتنا اور ملجائے تو قیامت کے دن کے برے عذاب کا بدلہ دے دیں گے اور چاہیں گے کہ یہ سارا مال دے کر ہمارا چھٹکارا ہوجائے کیونکہ ان کو ایسے احوال معلوم ہوجائیں گے جن کا وہ گمان نہ کرتے تھے اور انہوں نے جو کچھ دنیا میں برے کام کئے تھے وہ ان کے سامنے آجائیں گے اور جس عذاب اور جزا وسزا کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ ان پر نازل ہوگا۔ بس پھر کیا کریں گے روئیں گے چیخیں گے مگر فائدہ کچھ نہ ہوگا دنیا میں عام طور پر لوگ خود غرض ہیں۔ جن کا اصول زندگی یہ ہے ؎ غرض کی تواضع غرض کی مدارا مگر اللہ‘ رسول اور جماعت صلحاء کے نزدیک یہ طریق عمل ٹھیک نہیں۔ بلکہ صلحا کا طریق عمل یہ ہے کہ وہ اپنے محسن کی جس نے اڑے وقت میں ان پر احسان کیا ہو ہمیشہ قدر کرتے ہیں پس خود غرض انسان کا حال سنو ! جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہم (اللہ) سے دعا مانگتا ہے روتا ہے چلاتا ہے۔ پھر جب ہم (اللہ) اس کو اپنے ہاں سے مہربانی کا حصہ دیتے ہیں اس کی حاجت پوری کردیتے ہیں تو بجائے شکر کرنے کے کہتا ہے یہ تو میری لیاقت پر مجھے ملا ہے نہیں بلکہ وہ اس کے لئے مصیبت ہے کیونکہ جس نعمت کا شکر نہ ہو وہ عذاب ہے لیکن بہت سے لوگ جانتے نہیں کہ اس کا انجام کیا ہے یہ مطلب نہیں کہ ان کو علم نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جان کر عمل نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی یہی ناجائز کلمہ کہا تھا جب ان پر عذاب آیا تو جو کچھ وہ دنیاوی کاروبار کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔ ان کی برائیوں کا بدلہ ان کو پہنچ گیا اور جو ان موجودہ لوگوں میں ظالم ہیں ان کو بھی ان کی برائیوں کی سزا پہنچے گی اور وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکیں گے کہ اللہ ان کو پکڑنا چاہے اور وہ نہ پکڑے جائیں۔ ان نادانوں کی نادانی کی بھی کوئی حد ہے؟ جب ان کو کوئی بات نہیں ملتی تو اپنی آسودگی اور مسلمانوں کی تنگی کو اپنے صدق اور مسلمانوں کے کذب پر دلیل بناتے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رزق فراخ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے بے شک اس واقعہ میں ایماندار قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جس حال میں سب لوگ کوشش میں مساوی ہیں تو نتیجے میں مختلف کیوں ؟ اس لئے کہ ان سے اوپر کوئی ہے جس کو چاہتا ہے کامیاب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ناکام فرماتا ہے اس لئے وہ اسی کے ہو رہتے ہیں الزمر
33 الزمر
34 الزمر
35 الزمر
36 الزمر
37 الزمر
38 الزمر
39 الزمر
40 الزمر
41 الزمر
42 الزمر
43 الزمر
44 الزمر
45 الزمر
46 الزمر
47 الزمر
48 الزمر
49 الزمر
50 الزمر
51 الزمر
52 الزمر
53 (53۔66) لہذا تو اے نبی ! میرے بندوں کو میری طرف سے کہہ اے میرے (اللہ کے) بندو ! جنہوں نے مختلف قسم کے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہیں۔ تم اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے گا۔ صرف تمہارے توبہ کرنے کی دیر ہے بے شک اللہ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔ پس تم اسی کے ہو رہو اور اسی اپنے پروردگار کی طرف جھک جائو۔ اور دل سے اسی کے فرمانبردار بنے رہو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آنے پھر تم کو کسی طرح سے مدد نہ پہنچے گی اس لئے ابھی سے ڈرتے رہو اور جو اچھی اچھی باتیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہیں ان کی پیروی کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہاری بے خبری میں تم پر ناگہاں عذاب آجائے۔ عذاب سے پہلے تم کو اس لئے متنبہ کیا جاتا ہے کہ عذاب آنے پر کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے ہائے میں نے اللہ کے معاملے میں قصور کیا اور اس کے حقوق ادا نہ کئے اور مخول کرنے والوں میں رہتا رہا میں ان باتوں کو ملانوں کی باتیں جانتا رہا کبھی یہ نہ سمجھا کہ ان کی کچھ اصلیت بھی ہے سو آج یہ اسی کی پاداش ہے جو میں بھگت رہا ہوں یا کوئی ایسا شخص ہو جو کہنے لگے اگر اللہ مجھ کو ہدایت کرتا تو میں پرہیزگار بن جاتا یا جب وہ عذاب دیکھے تو کہنے لگے اگر مجھ کو دنیا میں واپسی کی اجازت ہو تو میں بھی نیک اور بھلے مانسوں میں ہوجائوں یہ عذرات چونکہ ایک معنی سے صحیح ہیں اس لئے کتاب ہذا اتار کر ان سب شبہات کو دور کرایا گیا اب اگر کہے گا تو جواب ملے گا ہاں تیرے پاس ہمارے احکام آئے تھے تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو منکروں میں ہوگیا۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے لائق سزا ملے گی اور سنو ! قیامت کے روز تم دیکھو گے جن لوگوں نے اللہ کی نسبت جھوٹ باندھا ہوگا ان کے منہ کالے ہوں گے۔ وہ اپنی حالت زار کو دیکھ کر اور اپنی دنیاوی زندگانی کو یاد کر کے روئیں گے کیا انہوں نے سمجھ رکھا تھا کہ متکبروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہ ہوگا ضرور ہوگا اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو کامیابی کے ساتھ اپنے فضل سے نجات دے گا۔ یعنی وہ عذاب سے بامراد رہیں گے نہ ان کو تکلیف پہنچے گی نہ وہ غمگین ہوں گے اس لئے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے لو لگائی تھی جو اکیلا ہے سب چیزوں کا خالق اور ہر چیز کا خبر گیراں حاجت روا اور نگہبان ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کے اختیارات کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں اور جو لوگ ایسے اللہ کے احکام سے منکر ہیں وہی لوگ گھاٹے میں ہیں بات بالکل صاف ہے اللہ کے ہو کر رہنے میں عزت اور فائدہ ہے اس سے ہٹنے میں ذلت اور خسران پس تو اے نبی ! بلند آواز سے کہہ اے عرب کے بے سمجھ نادانو ! کیا تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں ایسے اللہ کو جو حقیقی معبود ہے چھوڑ کر اس کے غیر کی عبادت کروں ؟ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے لوگوں کی طرف بذریعہ وحی حکم بھیجا جا چکا ہے کہ اگر تم اللہ کے غیر کی عبادت کر کے شرک کرو گے تو تمہارے سب اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجائو گے بلکہ تم اللہ ہی کی عبادت کیا کرو۔ اور بجائے نقصان والوں میں ملنے کے تم شکر گذاروں میں ملے رہو مگر اس دنیا کے لوگ بھی ایسے کچھ بیوقوف ہیں کہ اللہ ہی سے بگاڑ کرتے ہیں الزمر
54 الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 الزمر
60 الزمر
61 الزمر
62 الزمر
63 الزمر
64 الزمر
65 الزمر
66 الزمر
67 اور اللہ کی شان کے مطابق اس کی قدر نہیں کرتے حالانکہ قیامت کے روز ساری زمین اس کی ایک مٹھی میں ہوگی بلکہ اب بھی ہے اور سارے آسمان اس کے دہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی مٹھی اور ہاتھ انسانوں کی مٹھی کی طرح ہے بلکہ وہ ایسے جسمانی اوصاف سے پاک ہے اور ان لوگوں کے شرکیہ افعال سے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں بہت بلند اور بے مثال ہے تمام مخلوق اس کے قبضے میں ہے تاہم اس کی نہ مٹھی کہو نہ ہاتھ۔ بلکہ وہ سب کچھ آپ ہی ہے ھو اعلم بذاتہ وصفاتہ۔ الزمر
68 (68۔75) اور سنو ! جس دن صور میں پھونکا جائے گا یعنی دنیا کے فنا کا وقت آئے گا تو آسمان اور زمین والے سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے گویا مرے پڑے ہیں مگر جس کو اللہ محفوظ رکھنا چاہے گا وہ بے ہوش نہ ہوگا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد آخر سب فنا ہوجائیں گے پھر مدت مدید اور عرصہ بعید کے بعد اس صور میں ایک دفعہ اور پھونکا جائے گا تو وہ سب لوگ کھڑے دیکھتے ہوں گے۔ اور اپنے اعمال کی جزا سزا ان کو سامنے نظر آئے گی کیونکہ آج کل جو دنیا میں آخرت سے حجابات آئے ہوئے ہیں اس روز یہ سب اٹھ گئے ہوں گے زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی اور ہر قسم کے پردے اٹھ جائیں گے اور اعمال کا دفتر سب کے سامنے رکھا جائے گا انبیاء اولیاء صلحا اور شہد سب لائے جائیں گے محکمہ قضا قائم ہوگا سب لوگ صالح اور طالح حاضر کئے جائیں گے اور ان میں سچا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا۔ اور ہر ایک نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ پورے اور ادھورے کی فکر مت کریں جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ کو خوب معلوم ہے اور جو لوگ اللہ کی کتاب اور احکام سے منکر ہیں ان کی سزا کا تھوڑا سا شمہ سنو ! وہ جہنم کی طرف مختلف ٹولیوں کی صورت میں لائے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس جہنم کے پاس آئیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور دوزخ کے دربان ان کو کہیں گے کیا تمہارے پاس تم میں سے سمجھانے والے رسول نہ آئے تھے جو تمہارے پروردگار کے حکم تم کو سناتے اور اس دن میں اللہ کی ملاقات سے تم کو ڈراتے تم جو ایسے بداعمال رہے کیا تم نے کسی واعظ کا وعظ بھی کبھی نہ سنا تھا یا کبھی کسی نیک صحبت میں بھی نہ بیٹھے تھے وہ کہیں گے ہاں بے شک ہم کو واعظوں نے سمجھایا مگر ہم منکر ہی رہے واعظوں سے مخول کرتے رہے انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پر ہنسی اڑاتے رہے پس عذاب الٰہی کا حکم جیسا سب منکروں پر لگا ہے ہم پر بھی لگ گیا پس ان کو کہا جائے گا جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجائو ہمیشہ اس جہنم میں تم کو رہنا ہوگا جو متکبروں کے لئے بہت بری جگہ ہے جس میں وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے اور سنو ! جو لوگ پرہیزگار ہیں وہ جنت کی طرف بڑی عزت ووقار کے ساتھ مختلف جماعتوں کی صورت میں لے جائے جائیں گے کوئی علماء کی جماعت ہوگی کوئی صلحاء کی وغیرہ یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے گی اور جنت کے دروازے ان سے پہلے ہی کھلے ہوں گے تاکہ ان کو پکارنے اور دروازہ کھلوانے کی تکلیف نہ ہو۔ اور ان کے آنے پر جنت کے محافظ پیش قدمی کر کے ان کو سلام علیکم مرحبا کہیں گے اور ساتھ ہی عرض کریں گے بس ہمیشہ کے لئے اس میں داخل ہوجایئے۔ پس وہ متقی لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور داخل ہو کر بھی وہ اللہ کی مہربانی اور احسان نہ بھولیں گے بلکہ کہیں گے سب تعریف اللہ کو ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا۔ ہمارے معمولی اعمال پر محض اپنی مہربانی سے جو وعدے کئے پورے کئے اور ہم کو اس پاک زمین جنت کا مالک بنایا۔ ہم اس جنت میں جہاں چاہتے ہیں رہتے ہیں حکم الٰہی کے مطابق کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے قیامت کے روز کسی کا کیا ہو اضائع نہ جائے گا۔ کیونکہ وہ دن تو یوم الجزأ ہے تو اس روز دیکھے گا کہ فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کے گیت گاتے ہوئے عرش الٰہی کے اردگرد گھیرا ڈالے ہوں گے اور ان میں سچا فیصلہ کیا جائے گا اور بالاتفاق کہا جائے گا کہ سب تعریف اللہ رب العالمین کو ہے اور اس کے سوا کوئی بھی حمد وثنا کے لائق نہیں۔ الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ الزمر
69 الزمر
70 الزمر
71 الزمر
72 الزمر
73 الزمر
74 الزمر
75 الزمر
0 غافر
1 (1۔6) اللہ بڑا رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ یہ کتاب قرآن اللہ غالب بڑے علم والے کی طرف سے اتری ہے جو گناہ بخشنے والا توبہ قبول کرنے والا سرکشی پر سخت عذاب والا اور بڑی سکت یعنی فضل والا ہے اہل دانش ان لفظوں کو غور سے سنیں تو اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس لئے دنیا کے سب امور کا رجوع اسی کی طرف ہے کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جس کا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو یا وہ اس کے ارادہ کے بغیر وجود پذیر ہوسکے ایسے الٰہی مالک الملک کی کتاب کی بہت کچھ قدرو منزلت ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ جو بھلے آدمی اور دانشمند ہیں وہ تو اس کتاب کو سراسر صحیح جانتے ہیں اور جو لوگ ہر ایک سچی بات سے منکر ہونے کے عادی ہیں وہی اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں گو وہ اپنے آپ کو بڑی طاقتور قوم جانتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کچھ بھی نہیں پس (اے نبی) تو ان لوگوں کے ادھر ادھر بغرض تجارت یا سیاحت وسیاست ملک میں پھرنے سے دھوکہ نہ کھائیو ! اسی طرح ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد دوسری قوموں نے احکام الٰہی کی تکذیب کی تھی اور ہر ایک قوم نے اپنے رسول کے گرفتار کرنے کا قصد کیا تھا۔ اور بیہودہ طریقے سے رسولوں کے ساتھ مباحثہ کرتے رہے تاکہ اس اپنے بیہودہ طریق سے الٰہی سچائی کو دبا دیں۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے پھر میں (اللہ) نے ان کو پکڑا پس میرا عذاب کیسا ہوا؟ ان کی بہت بری گت بنی۔ اسی طرح تیرے پروردگار کا حکم ان لوگوں پر ثابت ہوچکا ہے جو ان تیرے مخاطبوں میں سے کافر ہیں کہ وہ جہنمی ہیں۔ غافر
2 غافر
3 غافر
4 غافر
5 غافر
6 غافر
7 (7۔13) ہاں جو لوگ (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں اور اس پر دل سے ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ انسانوں میں سے اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں ان کے لئے ان لفظوں میں بخشش مانگتے ہیں۔ اے ہمارے مولا ! سب چیزوں کو تو نے اپنی رحمت اور علم میں گھیر رکھا ہے تیرا علم بھی وسیع ہے اور تیری رحمت بھی عام ہے تو اپنی وسعت علم سے رحمت کے مستحقین کو جانتا ہے پس جو لوگ تیرے علم میں توبہ کر کے تائب ہوئے اور تیری راہ پر چلے ہیں تو ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا ہمارے مولا ! نہ صرف بخش دے بلکہ ان کو ہمیشہ کی جنت میں داخل فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے نہ صرف ان کو کہ بغیر اپنے متعلقین کے پریشان خاطر رہیں بلکہ ان کو اور جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے صالح ہوں ان سب کو بھی بخش دے تاکہ ان کی بہشتی زندگی خوب آرام میں گذرے اللہ تعالیٰ ! ایسا کرنے سے تجھے کون مانع ہوسکتا ہے۔ بے شک تو بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ تیرے غلبہ قدرت کے سامنے کسی کی کیا مجال۔ تیری حکمت کے سامنے کسی کی کیا طاقت۔ اور گذارش ہے کہ قیامت کے روز ان کو ان کے بداعمال کی سزا سے بچائیو تاکہ وہ دائمی بے فکری میں رہیں کیونکہ جس کو تو اس روز برے اعمال کی سزا سے بچائے گا تو تو اس پر بڑا رحم فرمائے گا اور سچ تو یہ ہے کہ یہی بڑی کامیابی ہے اللہ سب کو نصیب کرے (بعض محاورات میں عرش کے معنے حکومت الٰہیہ کے بھی ملتی ہیں اس محاورے کے رو سے یہ معنے ہیں کہ جو لوگ الٰہیہ کے ما تحت ہیں یعنی پورے تایع ہیں اور جو اس حکومت کے قریب قریب کم رتبہ میں انکا ذکر ہے کہ وہ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں‘ اور دنیائے اسلام کی بہتری کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ اللہ اعلم (منہ) ہاں جو لوگ اللہ کے حکموں سے منکر ہیں یعنی ان کی اطاعت نہیں کرتے ان کو اس مضمون کی آواز دی جائے گی کہ جس وقت تم کو ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم لوگ بہت خفا ہوتے اور انکار کیا کرتے تھے تمہاری اس خفگی سے آج اللہ کی خفگی تم لوگوں پر بہت زیادہ ہے وہ اس کے جواب میں کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہم کو دو دفعہ مردہ کیا ایک تو دنیا میں آنے سے پہلے کی حالت ہماری بے جان تھی دوسری دنیا میں آکر ہم پر موت وارد کی اور دو ہی دفعہ ہم کو زندہ کیا ایک دنیا کی زندگی دوسری یہ آخرت کی اس میں تو شک نہیں کہ ہم نے تیرے سب وعدے سچے پائے پس ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا اب اس عذاب الیم اور مصیبت عظیم سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ ہے ؟ جواب ملے گا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم اس عذاب سے نکل جائو کیونکہ یہ عذاب تو تم کو اس لئے ہے کہ جب اللہ واحد لا شریک کو پکارا جاتا تھا یعنی اللہ کے موحد بندے اللہ کی توحید کی تعلیم دیتے تھے۔ یا اذان میں اللہ اکبر پکارتے تو تم لوگ انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ شرک کیا جاتا یعنی ایسی تعلیم دی جاتی جو شرک کفر کی ہو۔ بت پرستی‘ پیر پرستی‘ صلیب پرستی‘ تعزیہ پرستی وغیرہ ہوتی۔ اس کے متعلق کوئی تحریر یا تقریر ہوتی تو تم لوگ بہت خوش ہوتے بلکہ اصل مقصود یہی جانتے بس اس کا بدلہ یہ ہے کہ آج تم اس عذاب میں مبتلا رہو کیونکہ آج صرف عالی شان اللہ بزرگ کا حکم ہے۔ چونکہ تم لوگوں نے اس کی بے فرمانی کی بلکہ فرمانبرداروں کو ستایا اس لئے جیسی اس کی حکمت تقاضا کرے گی وہی ہوگا ہاں آج اس دنیاوی زندگی میں کوئی شخص سمجھنا چاہے تو موقع ہے دیکھو اس کی قدرت کے آثار ہر طرف نظر آرہے ہیں وہی ذات پاک ہے جو تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دن رات دکھاتا ہے روزانہ اس کے نشان ظہور پذیر ہوتے ہیں سورج‘ چاند‘ سیارے وغیرہ جن کو تمام لوگ دیکھتے ہیں۔ یہ تو ہر روز نمایاں ہوتے ہیں اور جو گاہے ما ہے ظہور پذیر ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اوپر بادلوں سے تمہارے لئے رزق کا سامان بارش اتارتا ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور تم اس کو کھا کر زندگی گذارتے ہو اس راز قدرت کو سمجھ کر وہی لوگ نصیحت پاتے ہیں جو اللہ کی طرف جھکتے ہیں انہی کو اس نصیحت کا فائدہ ہوتا ہے انہی کو اس کا اثر پہنچتا ہے غافر
8 غافر
9 غافر
10 غافر
11 غافر
12 غافر
13 غافر
14 (14۔22) پس تم اپنی حاجات میں اللہ ہی سے خالص دعا مانگا کرو کسی اور سے نہیں یعنی اپنی طاعت اور دعا میں خالص رخ اسی کی طرف رکھو اسی کے ہو رہو تمام کاموں کی کنجی اسی کے ہاتھ میں جانو اگرچہ تمہارے ایسا کرنے کو کافر لوگ برا جانیں سنو ! ایسے اللہ کی عبادت کرنا کسی مذہب میں برا ہوسکتا ہے ؟ جو بڑا عالی درجہ یعنی ساری دنیا کی حکومت اور تخت سلطنت کا اصلی مالک ہے تمام دنیا کے بادشاہ اور امراء سب اسیگ کے ماتحت ہیں وہ چاہے تو ایک منٹ بلکہ سیکنڈ میں بڑے سے بڑے بادشاہ کو تخت سے اتار کر تختے پر بٹھا دے۔ کیا تم نے نہیں سنا جو کسی اہل دل نے کہا ہے ؎ حسب قاعدہ عربیہ عبارت یوں چاہئے تھی فادعوا للہ مخلصین لہ الدعاء اس لئے الدین کو الدعاء کے معنے میں لیا گیا ہے (منہ) ہست سلطانی مسلم مرورا طرفۃ العینے جہاں برہم زند نیست کس رازہرۂ چون وچرا کس نمے آرو کہ آنجادم زند وہ اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے تاکہ وہ بندہ اللہ کی ملاقات کے دن یعنی روز قیامت کے عذاب سے لوگوں کو ڈراوے جس روز وہ سب اللہ کے سامنے کھلے میدان میں کھڑے ہوں گے۔ ایسے سامنے ہوں گے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی چھپا نہ ہوگا تمہیں بتلائو اس روز خالص حکومت کس کی ہوگی؟ بجز اس کے کچھ جواب ہے؟ کہ اکیلے زبردست اللہ کی ہوگی۔ اس دنیا میں بھی درحقیقت اسی کی حکومت ہے تاہم یہاں دعویدار ان حکومت مدعی بنے ہوئے ہیں وہاں اتنا بھی کوئی نہ ہوگا۔ اس روز ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا یہ یاد رکھو کہ اس دن ظلم کا نام ونشان نہ ہوگا بلکہ ہر ایک کو پورا پورا بدلہ ملے گا یہ مت سمجھو کہ اتنی مخلوق کا اتنی جلدی فیصلہ کیسے ہوگا؟ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے کیونکہ وہ حساب اللہ اپنے علم حاصل کرنے کو نہیں کرے گا اس کو تو سب حال معلوم ہے اصل حساب تو قبروں سے نکلتے ہی سب کو معلوم ہوجائے گا بلکہ الٰہی حساب بصورت فیصلہ ہوگا اور جرائم کا علم مجرموں کو فطری ہوگا جس سے وہ کسی طرح انکار نہ کرسکیں گے اسی فطری اطلاع کے لئے ہم (اللہ) نے سلسلہ انبیاء قائم کیا اور اسی غرض سے تجھ کو اے نبی ہم حکم دیتے ہیں کہ ان مشرکوں کو اس قریب آنے والی مصیبت کے دن سے ڈرا جب مارے خوف کے مخلوق کے دل منہ کو آئے ہوں گے اور وہ لوگ غم وغصے میں بھرے ہوں گے پیش نہ جائے گی اپنی کمزوری اور سرکار الٰہی کی خفگی اور جوش غضب پر ہوگا۔ اس لئے بحکم عصمتِ بی بی ست از بے چادری بے دست وپاچپ رہیں گے۔ اس روز ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا جو ان کی بلا کو خود ہٹا دے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جو سفارش کر کے ان کی تکلیف کو ہٹوا دے کیسے ہٹوائے جبکہ مالک الملک اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ ان کی آنکھوں کی خیانت جانتا ہے اور جو ان کے سینوں میں مخفی ہے وہ بھی جانتا ہے اسی واسطے تو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اور جن لوگوں کو اس کے سوا یہ مشرک لوگ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا ولی وہ کچھ نہیں کرسکتے پھر ان کو کیا ہوا ہے کہ ان سے ایسی باتوں کی توقع رکھتے ہیں جو ان کی طاقت میں نہیں کچھ کرنا تو بڑی بات ہے وہ تو ان کی فریاد بھی نہیں سنتے اور اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے کیا اب بھی یہ لوگ اللہ کی اتاری ہوئی تعلیم سے انکار ہی کرتے رہیں گے ؟ کیا انہوں نے ملک میں پھر کر سیر نہیں کی دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں ان کا انجام کیسا برا ہوا سب تباہ وبرباد ہوگئے حالانکہ وہ ان سے زیادہ قوت والے اور ملک میں تعمیری نشانات از قسم قلعجات وغیرہ بہت مضبوط رکھتے تھے پس اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑا تو ایسا پکڑا کہ بالکل تباہ کردیا پھر ان کو الٰہی غضب سے بچانے والا کوئی نہ ہوا۔ یہ حالت ان کی اس لئے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے احکام لے کر آئے تھے پھر انہوں نے ان احکام کا انکار ہی کیا نہ صرف انکار بلکہ مخالفت پر اصرار کرتے رہے پس اللہ نے ان کو پکڑا ایسا پکڑا کہ زندہ نہ چھوڑا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا سخت عذاب والا ہے۔ گو ان انبیاء کے مخالفین بڑی قوت والے تھے مگر اللہ کی قوت کے سامنے ان کی پیش نہ گئی ذرا اس کی تفصیل سنو ! اور نصیحت پائو غافر
15 غافر
16 غافر
17 غافر
18 غافر
19 غافر
20 غافر
21 غافر
22 غافر
23 (23۔45) ہم (اللہ) نے فرعون اور اس کے وزیر ہامان اور اسرائیلی قارون کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نشانات اور روشن دلیل کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا فرعون تو حکومت کے نشہ میں تھا۔ ہامان بھی اس کا وزیر ملک تھا اس کو بھی یہی نشہ تھا مگر قارون نہ بادشاہ تھا نہ وزیر لیکن مالداری پر نازاں تھا اس لئے یہ سب حضرت موسیٰ کی مخالفت پر تل گئے تو ان سب نے کہا کہ یہ موسیٰ شعبدہ نمائی میں جادوگر ہے اور دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے اس مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرعون نے اپنے خیال کے مطابق جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ سے مقابلہ کرایا پھر وہ جب ہر طرح سے مغلوب ہوئے اور سچی تعلیم ہمارے پاس سے ان کو پہنچی تو بحکم تنگ آمد بجنگ آمد۔ آپس میں مشورہ کر کے انہوں نے کہا موسیٰ کے ساتھ ایمان لانے والے مردوں کو قتل کر ڈالو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو تاکہ ان کی مردانہ طاقت کمزور ہوجائے اور آئندہ کو مقابلہ نہ کرسکیں مگر اس سے کیا ہوسکتا تھا کچھ نہ ہوا الٰہی ارادہ غالب آیا اور ان کی تدبیر مغلوب رہی کیونکہ ان کافروں کی تدبیر واقعی غلطی میں تھی آخر یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کا اثر بڑھتا گیا اور فرعون کو اس کی فکر ہوئی تو اب دوسرے رنگ میں اس نے اپنے درباریوں سے یہ کہا کہ تم لوگ مجھے مشورہ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور آئے دن کے فساد سے ملک کو نجات دلائوں اس میں اگر کوئی سچائی ہے تو وہ اپنے رب کو بلائے پھر دیکھیں وہ میرا کیا کرسکتا ہے مجھے ایسا کرنے میں اور کوئی غرض نہیں صرف یہ غرض ہے کہ موسیٰ ایسے خیالات ظاہر کرتا ہے کہ تمہارے ہمارے تمام جدی بزرگوں کے مخالف ہیں۔ اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل دے اور اس آبائی عقیدے میں تغیر پیدا نہ کر دے جس پر ہم لوگ بہت مدت سے چلے آئے ہیں یا بوجہ اختلاف ڈالنے کے ملک میں فساد نہ پھیلائے کیونکہ جب اس نے نیا دین ظاہر کیا تو کوئی اس کی طرف ہوگا کوئی ہماری طرف۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ باہمی سر ٹھپول ہوگی۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کا کام ہی تمام کر دوں۔ فرعون یہ کہہ رہا تھا ادھر حضرت موسیٰ کو جب خبر ملی تو انہوں نے بھی اپنے اسی طریقہ پر اس کا انتظام کیا جس طریقے پر اللہ کے صلحاء بندے کیا کرتے ہیں اور وہ طریق سب سے آسان اور عمدہ ہے یعنی حضرت موسیٰ نے کہا میں ایسی ویسی گیڈر بھبکیوں سے نہیں ڈرتا کیونکہ میں ہر ایک متکبر کی شر سے جو حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتا اپنے اور تمہارے مالک پروردگار کی پناہ میں آچکا ہوں اس لئے مجھے اس کا مطلق خیال نہیں کہ تم مجھے کیا کہتے اور کس سے ڈراتے ہو۔ سنو ! میرا مذہب ہے ؎ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا؟ جبکہ وہ بامہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا آخر وہی ہوا جو حضرت موسیٰ نے ظاہر کیا تھا فرعون ان کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکا۔ بلکہ اس کے خاندان کے لوگوں تک حضرت موسیٰ کا اثر پہنچ گیا چنانچہ فرعون کے خاندان کے ایک آدمی نے جو اپنا ایمان فرعونیوں سے چھپاتا تھا خاص خاص لوگوں کو کہا اے بھائیو ! تم ایک آدمی کو اس جرم پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے میرا پروردگار وہ ذات پاک ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ ہے یعنی وہ فرعون کو اپنا رب اور معبود نہیں مانتا بلکہ اس کو مانتا ہے جس نے فرعون اور اس کے باپ دادا اور تمام دنیا کی مخلوقات کو پیدا کیا اور وہ تمہارے پروردگار کے ہاں سے کھلے نشان لایا ہے جو تم لوگ دیکھ چکے ہو اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے تو اس کے کذب کا وبال اسی پر ہوگا۔ تمہیں کیا اور اگر وہ اپنے بیان میں سچا ہے تو جن سزائوں سے وہ تم کو ڈراتا ہے ان میں سے بعض تو اسی دنیا میں تم کو پہنچ جائے گی باقی دار آخرت میں پہنچے گی جہاں ان کا تدراک مشکل بلکہ محال ہوگا ان کے متعلق اگر کچھ کرنا ہے تو یہ وقت ہے مگر یاد رکھو یہ قانون الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والے جھوٹوں کو ہدایت نہیں کیا کرتا یعنی ایسے بدکرداروں کو یہ سوجھ بوجھ نہیں آتی کہ مشکلات سے پہلے ان کا انتظام سوچا کریں۔ بھائیو ! ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں پر بھی یہ قانون جاری ہوجائے پھر بڑی مشکل ہوگی آج ملک پر حکومت تمہاری ہے تم ملک پر قابض ومتصرف ہو پھر اگر اس بے فرمانی پر اللہ کا عذاب آجائے تو اس سے چھڑانے میں کون ہماری مدد کرے گا بھائیو ! ذرا غور تو کرو میں تم کو کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا کر رہے ہو۔ اچھا جو کچھ کرو سوچ سمجھ کر کرو یہ ایماندار شخص خفیہ خفیہ خاص خاص لوگوں کو سنا نا تھا فرعون کو بھی اس مخفی پروپگنڈا کی خبر مل گئی تو اس نے سر دربار شاھی تقریر میں کہا میرے درباریو ! اور سلطنت کے رکنو ! میں تم لوگوں کو وہی راہ دکھاتا اور سمجھاتا ہوں جو خود دیکھتا ہوں یعنی میں تمہارے معاملے میں کسی قسم کی بدنیتی نہیں کرتا۔ بلکہ میں تم لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں بس اسی میں ہدایت ہے کہ مجھے معبود سمجھو اور موسیٰ کی مت سنو ! اس میں ہمارا ملکی اور قومی نظام ہے اس کے برخلاف تباہی کا خطرہ ہے اس شاہی تقریر کا اثر مٹانے کو اس اللہ کے بندہ نے جو دل میں ایمان لا چکا تھا کہا اے میرے بھائیو ! مجھے اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں بلکہ میں تمہارے حق میں ان سابقہ قوموں کے عذاب سے ڈرتا ہوں یعنی قوم نوح‘ عاد‘ ثمود اور جو لوگ ان سے بعد ہوئے یعنی مختلف تباہ شدہ قوموں کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ دیکھو طرح طرح کے عذاب ان پر آئے اور وہ اپنے کئے کی سزا پا گئے۔ یقینا جانو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حق میں ظلم کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ بندے اپنے نفسوں پر خود ظلم کرتے ہیں اس مومن نے یہ بھی کہا اے میرے بھائیو ! میں تمہارے حال پر اس پکار کے دن سے ڈرتا ہوں جس دن تم موسیٰ کے مقابلہ میں پیٹھ دے کر بھاگو گے اس وقت کوئی اللہ کی پکڑ سے تم کو بچانے والا نہ ہوگا۔ یاد رکھو ایک دن ایسا ہو کر رہے گا۔ جونہی تم مقابلہ پر آئے تم پر بلا آئی تمہاری ضد اور ہٹ سے مجھے خوف ہوتا ہے کہ تم اللہ کے عتاب میں نہ آجائو جس میں اللہ ایسے انسانوں کو گمراہ کردیتا ہے یعنی ان کو نفع نقصان کی سوجھ نہیں دیتا۔ اور یہ بھی یاد رکھو جس کو اللہ گمراہ کرے یعنی اس کو نفع نقصان کی سمجھ نہ دے اس کے لئے کوئی سمجھانے والا نہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ تم لوگ جو ایسے نڈر ہو رہے ہو تمہاری حالت کہیں ایسی خطرناک نہ ہوگئی ہو جن پر اللہ کے ہاں سے گمراہی کا حکم لگ جانا ہے پس تم سمجھو اور غور کرو کہ آج سے پہلے تمہارے پاس حضرت یوسف ( علیہ السلام) کھلے کھلے احکام لائے تو تم نے ان کے ساتھ کیا برتائو کیا یہی کہ تم یعنی تمہارے باپ دادا ان کی لائی ہوئی کھلی تعلیم سے ہمیشہ شک اور انکار ہی میں رہے نہ ماننا تھا نہ مانا یہانتک کہ جب وہ یوسف فوت ہوگئے تو تم نے یعنی تمہارے بزرگوں نے یہ خیال کیا کہ آج سے بعد اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہ بھیجے گا یعنی کوئی شخص رسالت کا مدعی بن کر نہیں آئے گا۔ بس ہماری جان چھوٹی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سے احکام الٰہی کا مقابلہ کرتے آئے ہو اسی لئے تم لوگوں کو اپنا نفع نقصان نہیں سوجھتا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گمراہ کردیتا اور درکا دیتا ہے جو حد سے بڑھنے والے سچی تعلیم میں شک کرنے والے ہوتے ہیں یعنی وہ ان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو بغیر سند اور بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس ہو اللہ کے احکام میں جھگڑا کیا کرتے اور لوگوں کو بہکاتے ہیں یہ بڑے غضب کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ایمانداروں کے نزدیک بھی ایسی بے جا حرکتوں سے باز آئو۔ ورنہ یاد رکھو اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیا کرتا ہے پھر ان کو بھلے برے کی سوجھ نہیں رہتی۔ اس مخفی مومن کی یہ لمبی تقریر جب مشہور ہوئی اور فرعون کو بھی پہنچی تو کھسیانے ہو کر اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے بولا اے ہامان ! اس آئے دن کے فساد کا قلع قمع کرنے کا میں نے تہیہ کرلیا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ تو میرے لئے ایک بلند مکان بنا تاکہ میں آسمان کے راستے طے کر کے موسیٰ کے اللہ کو دیکھوں کہ واقع میں وہ کچھ ہے بھی یا یونہی موسیٰ ہمارا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میں تو اس کو بالکل جھوٹا جانتا ہوں تاہم چاہتا ہوں کہ اس کو انجام تک پہنچائوں اگر موسیٰ کا اللہ مجھے مل جائے تو ایک منٹ کا کام ہے دیکھتے ہی میں وہیں اس کو رکھوں کیسا لغو خیال تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسی طرح فرعون کو اس کے برے سے برے کام اچھے دکھائی دیتے تھے اور وہ سیدھے راستے سے روکا گیا تھا گو سلطنت کے کاموں میں بڑا ہوشیار تھا مگر دینی کاموں میں بڑا بے سمجھ یا دانستہ بے سمجھ بن کر ماتحتوں کو گمراہ کرتا تھا اور اصل میں فرعون کی تدبیر جو ملکداری اور رعایا کو قابو رکھنے کے متعلق تہی تباہ کرنے والی تھی کیونکہ وہ رعایا کو بزور قابو رکھنا چاہتا تھا جو بادشاہ رعایا کو بجاء نوازش کے دبائو سے قابو رکھنا چاہے۔ وہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمے ماند اسی لئے فرعون اپنی تدبیر میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت موسیٰ نے ہرچند عرض معروض کئے کہ ان کو تکلیف نہ دیجئے مگر اس نے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ دبائو سے رکھے جائیں ورنہ سر نکالیں گے ادہر اللہ کے علم میں وہ وقت آگیا تھا جس میں بنی اسرائیل کی رہائی مقدر تھی اور فرعون کی تباہی ہونے والی تھی اس لئے اس مخفی مؤمن نے کہا اے میرے بھائیو ! تم لوگ کسی اور کی مت سنو جو خود غرضی سے کہتا ہے بلکہ میری تابعداری کرو میں تم کو ہدایت کی راہ دکھائوں گا اے میرے بھائیو ! سوائے اس کے نہیں کہ یہ دنیا کی زندگی تو بس چند روز کا گذارہ ہے یہاں کسی کو قرار نہ ہوا نہ ہوگا کچھ شک نہیں کہ آخرت کی زندگی ہی جاء قرار ہے جہاں کا قانون یہ ہے کہ جس نے برے کام کئے ہوں گے اس کو انہی جتنا بدلہ ملے گا اور جس نے ایمان کی حالت میں اچھے عمل کئے ہوں گے خواہ مرد ہو یا عورت وہ لوگ اس جائے قرار کے اندر بہشت میں داخل ہوں گے جن میں بغیر حساب کے ان کو رزق ملے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ مقررہ خوراک (آدہ سیر‘ چاول‘ پائو گوشت‘ آدھ پائو گھی‘ چھٹانک شکر وغیرہ) ملے۔ نہیں بلکہ بے حساب جتنا چاہیں گے اور جو چاہیں گے کھائیں گے اور پئیں گے اور انہیں کوئی روک نہ ہوگی میرے بھائیو ! بات کیا ہے کہ میں تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں تاکہ تم لوگ کسی طرح عذاب سے بچ جائو اور تم لوگ مجھ کو آگ کے عذاب کی طرف بلاتے ہو۔ تم خود ہی غور کرو کہ تم لوگ مجھے بلاتے اور ترغیب دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا انکار کروں اور اس کے ساتھ شریک مقرر کروں اس چیز کو جس کے شریک ہونے کا مجھے علم نہیں سچ پوچھو تو تم کو بھی اس کا علم نہیں یونہی سنے سنائے کہہ رہے ہو ورنہ یہ کوئی بات قابل یقین ہے کہ کھانے پینے والے بیمار اور تندرست ہونے والے انسان (فرعون) کو اللہ مانا جائے تم تو مجھے ایسے مکروہ فعل کی طرف بلاتے ہو۔ اور میں تم کو اللہ غالب بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں پھر تم لوگ خود ہی غور کرو کہ کیا یہ ٹھیک نہیں ہے کہ جس چیز کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ نہ دنیا میں پکارے جانے کے لائق ہے نہ آخرت میں یعنی فرعون اور اس کے مصنوعی نائب معبود اور اس میں شک نہیں کہ ہمارا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ جو لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں یعنی حد عبودیت جو مخلوق کے لئے مقرر ہے اس سے نکل کر خود مدعی الوہیت بنتے ہیں جیسے تمہارا بادشاہ فرعون اور اس کو ماننے والے یہی دوزخی ہوں گے۔ بھائیو ! میں جو تم کو کہتا ہوں ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اسے یاد کرو گے اب تم میری نہیں سنتے۔ میں صبر کرتا ہوں اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھ رہا ہے پس اس ایماندار کی باتوں کو سن کر مخالف بھڑک اٹھے اور درپے آزار ہوئے مگر اللہ نے ان کے فریبوں اور دائوبازیوں سے اس کو بچا لیا اور فرعون کی قوم پر ان کی زندگی ہی میں برا عذاب نازل ہوا ا غافر
24 غافر
25 غافر
26 غافر
27 غافر
28 غافر
29 غافر
30 غافر
31 غافر
32 غافر
33 غافر
34 غافر
35 غافر
36 غافر
37 غافر
38 غافر
39 غافر
40 غافر
41 غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 غافر
46 (46۔55) ور بعد موت کے وہ آج تک صبح وشام آگ کے سامنے کھڑے کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو بڑے سخت عذاب میں داخل کرو پس وہ اس میں داخل کئے جائیں گے اور خوب جلیں گے اور ایک واقعہ سنو ! جب دوزخی آگ میں جھگڑیں گے ایک دوسرے کو الاہنے طعنے دیتے ہوئے کمزور یعنی ادنی درجے کے لوگ بڑے لوگوں کو (جن کے لحاظ) شرم میں دب کر وہ ناجائز کام کرتے رہے تھے) کہیں گے حضور ! اس میں شک نہیں کہ ہم آپ لوگوں کے تابع تھے تو کیا آج آپ لوگ ہم سے تھوڑا سا آگ کا عذاب ہٹا سکتے ہیں ارے میاں ! دنیا میں ہم تمہارے لئے سینہ سپر تھے تمہارے بلا اپنے پر لیتے تھے دل سے تمہارے تابعدار تھے پھر ایسی بے وفائی کیا؟ کہ آپ لوگ آج ہمارے ذرا کام نہیں آتے۔ بڑے لوگ اس کا جواب ہاں میں کیسے دیں۔ وہ تو آپ اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے اس لئے وہ جواب میں کہیں گے ارے میاں تم مدد چاہتے ہو۔ یہاں تو واقعہ ہی دگر گون ہے ہم تابع اور متبوع سب اسی دوزخ میں پڑے سڑ رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں جو فیصلہ کرنا تھا اس کا حکم جاری کردیا ہے اب اس کی اپیل ہے نہ نگرانی۔ بس یہی بہتر ہے کہ چپکے رہو اور بس۔ یہ سوال وجواب تو یہاں ہی ختم سمجھئے اور دوسری طرف کی سنئے۔ جو لوگ آگ میں ہوں گے وہ جہنم کے مؤکلوں کو کہیں گے اے جناب ! آپ ہی ہمارے لئے اپنے رب سے دعا مانگیں کہ وہ کسی دن تو ہم سے عذاب کم کرے دیکھئے دنیا کے جیل خانوں میں بھی ایک روز تعطیل کا ہوتا تھا وہ ان کے جواب میں کہیں گے دعا تو ہم جب کریں گے کہ پہلے تم لوگ ہمارے ایک سوال کا جواب دے لو۔ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے تمہارے رسول معجزات اور کھلے احکام لے کر نہ آئے تھے جو تم کو ہدایت کئے ہوتے۔ اگر نہیں آئے تھے تو ہم بھی تم کو معذور سمجھ کر سرکار میں سفارش کریں اور اگر آئے تھے اور تم لوگوں نے انکا مقابلہ کیا تو تم لوگ سرکاری مجرم ہو اس کے جواب میں وہ کہیں گے انکار کا تو موقع نہیں بے شک آئے تھے مگر ہم رحم کی درخواست کرتے ہیں اس پر وہ فرشتے ان کو کہیں گے تو پھر تم خود ہی دعا کرلو ہم تو اس میں دخیل نہیں ہوسکتے۔ ان کی دعا کا کوئی اثر نہ ہوگا کیونکہ کافروں کی دعا ہمیشہ بے کار رائیگاں ہوتی ہے دنیا میں تو اس لئے کہ وہ غیر اللہ سے عرض معروض کرتے رہتے ہیں جو عرض معروض سننے کے اہل نہیں۔ عاقبت میں اس لئے کہ اسی دنیا کی گمراہی کا وہ نتیجہ ہوگا۔ کفار چاہے کتنا ہی انبیاء اور رسل کی مخالفت کریں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ہم (اللہ) دنیا میں بھی اپنے رسولوں اور مؤمنوں کی مدد کیا کرتے ہیں اور جس روز یعنی قیامت کے دن گواہ قائم ہوں گے اور تمام دنیا کا فیصلہ ہوگا اس روز بھی ہم رسولوں کی مدد کریں گے۔ یعنی جس روز ظالموں کو ان کا عذر معذرت کچھ نفع نہ دے گا بلکہ وہ معذب ہوں گے اور ان پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ اور ان کے لئے برا گھر ہوگا۔ ہمارے ہاں یہی قانون ہے اسی قانون کے ساتھ ہم نے انبیاء کو بھیجا اور اسی قانون کے پہنچانے کو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت دی اور ان کے ذریعہ بنی اسرائیل کو کتاب دی جو عقلمندوں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی جس کے نتیجے دنیا پر روشن ہیں کہ کس طرح اس کتاب کے مخالفوں کی تباہی ہوئی اور وہ کتاب کہاں تک ترقی پر پہنچی اسی طرح اس کتاب قرآن کا معاملہ سمجھو کہ اس کے ماننے اور انکار کرنے والوں میں بین امتیاز ہوگا مگر چند روز تک پس تو اے نبی ! اپنے حسن خاتمہ کو ملحوظ رکھ کر صبر کر کچھ شک نہیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ ضرور اسلام کی مدد کرے گا تو اس کی مدد کا منتظر رہ اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ سب نبی گنہگار ہیں سوائے حضرت مسیح کے۔ اس دعوے پر وہ قرآن میں سے یہ آیت اور اس جیسی اور آیات پیش کیا کرتے ہیں کیونکہ اس کے لفظی ترجمہ سے سمجھا جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہگار تھے اس لئے گناہوں کی بخشش مانگنے کا انکو حکم ہے اسکا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید بلکہ دیگر کتب میں بھی یہ محاورہ ملتا ہے کہ نبی کو مخاطب کر کے امت کو حکم ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات میں حکم ہے یایھا النبی اتق اللہ ولا تطع الکفرین والمنفقین (پ ٢١۔ ع ١٧) (اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کسی کافر یا منافق کی تابعداری نہ کریو) اور فرمایا الم ترالی الملاء من بنی اسرائیل۔ وغیرہ ان تمام آیات میں صیغہ مفرد مخاطب کا ہے یعنی ترجمہ انکا یہ ہے کیا تو نے نہیں دیکھا وغیرہ مگر مطلب ان سب آیات کا عام ہے یعنی امت کو حکم ہوتا ہے۔ بائبل میں بھی ہمکو یہ محاورہ ملتا ہے جہاں حکم ہوتا ہے۔ ” اے اسرائیل سن لے اور اس کے کرنے پر دھیان رکھ تاکہ تیرا بھلا ہو۔ سن لے اے اسرائیل اللہ ہمارا اللہ اکیلا اللہ ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنے سارے زور سے اللہ تعالیٰ اپنے اللہ کو دوست رکھ“ (کتاب استثنائ٦ باب ٣۔ آیت) ان سب حوالجات میں اسرائیل بولکر بنی اسرائیل مراد ہیں کیونکہ اسرائیل (حضرت یعقوب علیہ السلام) تو تورات سے بہت پہلے فوت ہوچکے تھے۔ اسی طرح آیت قرآنی میں صیغہ مفرد مخاطب کا بولکر تمام امت مراد ہے۔ بس معنی آیت موصوفہ کے یہ ہیں ” اے مسلمانو ! تم اپنے گناہو نکی معافی مانگا کرو“ اس سے اگر کچھ ثابت ہوا تو یہ کہ مسلمان گناہگار ہیں اس سے ہم کو بہی انکار نہیں۔ اسی مضمون کے ساتھ ساتھ یہ بحث بھی چھیڑی جاسکتی ہے کہ اگر دیگر انبیاء گناہگار تھے تو انجیلی حوالجات سے حضرت مسیح بھی بے گناہ نہ تھے مگر ہماری غرض اس سے وابستہ نہیں۔ اس لئے ہم اس کے درپے نہیں ہوتے اللہ اعلم بعبادہٖ۔ ہمارے اس جواب پر ایک سوال وارد ہوسکتا ہے وہ یہ کہ سورۃ محمد میں اس حکم کے لفظ یوں ہیں۔ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ واستغفرلذنبک وللمئومنین والمومنات واللہ یعلم متقلبکم ومثونکم (پ ٢٦۔ ع ٢) پس تو جان رکھ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کیلئے اور مومن مردوں اور عورتوں کیلئے بخشش مانگا کر اللہ تعالیٰ تمہارے سفر و حضر کی حالات سب کو جانتا ہے (بقول سائل) اب آیت میں نبی کو صاف حکم ہے کہ تو اپنے گناہوں کے لئے اور مومنوں کے لئے بخشش مانگا کر جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ استغفر کے مخاطب مخصوص پیغمبر (علیہ السلام) ہیں نہ امت کے لوگ۔ (جواب) یہ ہے کہ یہ آیت بالکل واضح ہے اس مدعا کے لئے کہ مراد اس سے امت کا ہر فرد ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ (بآئینہ نبی یا بعنوان رسول) امت کے ہر فرد کو حکم ہوتا ہے کہ تم مسلمان اپنے استغفار میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شامل کرلیا کرو۔ چنانچہ اس شمول کے الفاظ خود قرآن مجید میں آچکے ہیں۔ ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان (پ ٢٨۔ ع ٤) یعنی اے اللہ ہم کو بخش اور ہمارے سابقہ برادران اسلام کو بخش ” پس اس آیت کی روشنی میں آیت زیر بحث کے معنی عام ہیں یعنی مراد یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم میں کا ہر فرد اپنی دعا میں دیگر مسلمانان دنیا کو بھی شامل کیا کرے۔ والحمدللہ (منہ) اور اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ شام وصبح تسبیح پڑھا کر غافر
47 غافر
48 غافر
49 غافر
50 غافر
51 غافر
52 غافر
53 غافر
54 غافر
55 غافر
56 (56۔64) دل میں پختہ یقین رکھ کہ جو لوگ بغیر کسی قوی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کے احکام میں جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں سواء تکبر کے کچھ نہیں وہ اپنے زعم باطل میں اپنا رتبہ بہت اونچا جانتے ہیں جس پر وہ پہنچ نہیں سکتے۔ جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی اس پر بڑی سختی سے معترض ہوتے ہیں حالانکہ قصور ان کے فہم کا ہوتا ہے پس تو ان لوگوں کی شرارت سے اللہ کی پناہ مانگا کر پھر ان کا اثر تجھ پر نہ ہوگا۔ بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ جو اس کے ہو رہتے ہیں وہ ان کی سنتا اور مدد کرتا ہے۔ ان کی کم فہمی کی مثال سنئے ! کہتے ہیں مر کر کس طرح زندہ ہوں گے حالانکہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا لوگوں کے دوبارہ پیدا کرنے سے بہت بڑا کام ہے لیکن بہت سے لوگ حقیقت حال کو نہیں جانتے کہ جس اللہ نے اتنے اتنے بڑے بڑے اجسام پیدا کر دئیے ہیں اس کو انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے مگر وہ اس سے زیادہ نہیں جانتے ہیں کہ جو ان کی معمولی سمجھ میں آیا وہ صحیح ہے جو نہ آیا وہ غلط۔ حالانکہ الٰہی کاموں کو دیکھنے کے لئے چشم بینا چاہیے جو ان میں نہیں اور یہ تو عام بات ہے کہ اندھا اور سنوانکھا برابر نہیں۔ ایماندار نیکوکار اور بداعمال برابر نہیں بس یہی ایک اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے تابعدار نیکوکار سنوانکھے ہیں اور ان کے مخالف اندھے۔ جو کچھ اور جن آنکھوں سے حضرات انبیاء اور صلحاء لوگ دیکھتے ہیں ان کے مخالف نہیں دیکھ سکتے۔ مگر تم لوگ بہت کم سمجھتے ہو۔ فورا اعتراض پر کمر باندھ لیتے ہو۔ بڑا اعتراض تمہارا قیامت پر ہے تو یاد رکھو یقینا قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے۔ کسی بات کے سمجھنے کے لئے ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ پہلے علمی زور لگائے پھر دعا مانگئے مگر تم لوگ دونوں میں سے کوئی نہیں کرتے حالانکہ تمہارے رب ( یعنی ہم اللہ تعالیٰ) نے کہا ہے کہ مجھ سے دعامانگا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بلکہ یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ جو لوگ میری عبادت یعنی مجھ سے دعا کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے اس سزا کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس اللہ کو چھوڑایا اس کی کمال قدرت پر اعتقاد نہ کیا جس نے سب کچھ بنایا جانتے نہیں کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ اس میں آرام پائو۔ دن کی محنت کا تکان اتارو اور دن کو روشن بنایا۔ تاکہ تم اس میں کسب معاش کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حال پر بڑا مہربان ہے لیکن بہت سے لوگ اس کی مہربانی کا شکر ادا نہیں کرتے یہی اللہ خالق کائنات تمہارا پروردگار ہے جو ہر ایک چیز کا خالق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم لوگ کہاں کو بہکائے جاتے ہو۔ جو ایسا معبود برحق چھوڑ کر ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہو۔ کہیں پتھروں کے بتوں کو کہیں قبروں کو کہیں تعزیوں کو سجدے کرتے ہو اللہ اللہ کیسی تمہاری حالت ہے اور کیا تمہاری کیفیت۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے وہ اسی طرح بہکائے جاتے تھے ایک اللہ کو چھوڑ کر بہتوں کے پیچھے پھرتے ہیں حالانکہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کو تمہاری ٹھہرنے کے لئے اور آسمان کو بلند چھت کی طرح بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور کیسی اچھی صورتیں بنائیں اور تم کو عمدہ عمدہ کھانے کی چیزیں کھانے کو دیں۔ سنو ! یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے پس سنو ! اللہ جو رب العالمین ہی بڑی برکت والا ہے اس کی برکات کی کوئی انتہا نہیں غافر
57 غافر
58 غافر
59 غافر
60 غافر
61 غافر
62 غافر
63 غافر
64 غافر
65 وہی اکیلا واحد لاشریک زندہ ہے اور کوئی چیز دنیا میں اصل زندہ نہیں بلکہ اس کی طرف سے زندگی ملنے سے زندہ ہیں کیا تم نے کسی صوفی کا شعر نہیں سنا ؎ اوچوجان ست وجہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیر دآلبد اس لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم اخلاص مندی کے ساتھ اسی کو پکارا کرو اور یہ دل میں یقین رکھو کہ سب تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کی ذات کے لئے مخصوص ہیں کیونکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اسی کے حکم سے ہوتا ہے وہی سب کاموں کی علت العلل ہے۔ سب کچھ اسی کے زیر فرمان ہے۔ اسی لئے اے نبی ! تجھ کو حکم ہوتا ہے کہ تو ان لوگوں کو بآواز بلند کہہ دے کہ جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی دلیلیں آچکیں تو آئندہ کے لئے مجھ کو اس سے روکا گیا کہ میں ان لوگوں کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اور مجھ کو اس بات کا حکم ہوا ہے کہ میں اللہ رب العالمین ہی کی فرمانبرداری کروں۔ اس کے سوا میرا کسی سے تعلق عبودیت نہیں میں صرف اسی ایک اللہ کا بندہ ہوں اور وہی میرا مالک ہے سنو ! وہی ذات پاک ہے جس نے تم کو یعنی شروع میں تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر دنیا کا سلسلہ یوں چلایا کہ بچے کو نطفے سے پھر لوتھڑے سے پیدا کیا یعنی نطفہ عورت کے رحم میں جا کر خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں ہڈیاں اور گوشت پوست بنتا ہے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر نکالتا ہے پھر (تمہاری پرورش کرتا ہے) تاکہ تم اپنی پوری طاقت جوانی کو پہنچو۔ پھر (تم کو اور بڑھاتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہوجائو۔ بعض تم میں سے اتنی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور (تم میں سے بعض بڑھتے ہیں) تاکہ تم مقررہ وقت تک پہنچو اور یہ بیان تم کو سنایا جاتا ہے تاکہ تم سمجھو کہ تم دنیا میں کیوں آئے۔ آکر اصل مطلب پر رہے یا ادھر ادھر بھٹک گئے۔ سنو ! اصل مطلب یہ ہے کہ تم اس مالک کے ہو رہو جو تمام دنیاکو زندگی بخشنے والا ہے وہی ذات پاک ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اصل زندگی اور موت کا پیدا کرنا اسی کے ہاتھ ہے پھر جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو سوائے اس کے نہیں اس کو صرف اتنا کہتا ہے کہ ہوجا وہ ہوجاتی ہے اس کے حکم سے روگردانی نہیں کرسکتی۔ باوجود اس قدرت اور حکومت کے لوگ ایسے مالک کو چھوڑ کر ادھر ادھر بہکے پھرتے ہیں۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا۔ جو اللہ کے احکام میں جھگڑتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یوں ہونا چاہیے۔ کوئی کہتا ہے یوں ہونا چاہیے۔ کوئی تکذیب کرتا ہے کوئی انکار۔ کوئی شک کرتا ہے تو کوئی اعتراض یہ لوگ کہاں کو بہکائے جاتے ہیں ؟ ان کی کوئی بات ٹھکانے کی بھی ہے ؟ یہ وہی لوگ یعنی ان لوگوں کی اولاد ہیں جو پہلے بھی الٰہی کتاب کی تکذیب کرچکے ہیں۔ اور ان واقعات (معجزات وغیرہ) کو جھٹلاتے رہے ہیں جن کے ساتھ ہم (اللہ) نے اپنے رسول بھیجے پس یہ لوگ اور ان کے پہلے جن کی روش پر یہ چلتے ہیں اپنا انجام جان لیں گے۔ جس وقت طوق ان کی گردنوں میں اور زنجیر ان کے پیروں میں ہوں گے اور اسی آبرو کے ساتھ وہ گرم‘ پانی میں گھسیٹے جائیں گے وہاں سے پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔ وہاں ان کی حالت جیسی کچھ ہوگی عیاں راچہ بیاں۔ پھر ان کو کہا جائے گا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا شریک بنایا کرتے تھے وہ کہیں گے وہ تو ہم سے کھوئے گئے کیونکہ وہ آج ہم کو نظر نہیں آتے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم تو پہلے ہی سے کسی چیز کو پکارتے نہ تھے۔ معلوم ہوتا ہے کسی غلط فہمی سے ہمارے نام یہ جرم لگایا گیا ورنہ ہم تو ایسے نہ تھے اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو بدحواس کر دے گا۔ ان کو اپنا کیا بھی یاد نہ رہے گا۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا۔ یہ عذاب جو واقعی تمہارے افعال قبیحہ کا نتیجہ ہے بسبب اس کے ہے جو تم زمین پر ناحق خوشیاں مناتے اور چند روزہ نازونعمت پر اتراتے تھے۔ اپنے مقابلہ میں مسلمانوں کو ھیچ سمجھتے اور ناکارہ جانتے تھے۔ اچھا لو اب جہنم میں داخل ہوجائو ہمیشہ اس میں رہو گے پس متکبروں کا ٹھکانہ برا ہے جہاں پہنچ کر اپنے کئے کا پھل پائیں گے۔ پس اے نبی ! تو ان لوگوں کی بیہودہ گوئی پر صبر کر اور یقین رکھ کہ اللہ کا وعدہ بابت فتح ونصرت سچ ہے ضرور ہو کر رہے گا۔ ہاں یہ ضرور نہیں کہ جلدی ہوجائے بلکہ جو وقت اللہ کے علم میں اس کے لئے ہے مقرر ہے اسی میں ہوگا۔ جن جن باتوں کا ہم ان کو وعدہ دیتے ہیں ان میں سے بعض ہم تیری زندگی میں تجھ کو دکھا دیں یا ان کے وقوعہ سے پہلے ہی تجھ کو فوت کرلیں تو برابر ہے۔ کیونکہ ہماری طرف ہی یہ لوگ پھر کر آئیں گے۔ اس وقت ہم ان کو سب کچھ دکھا دیں گے۔ غافر
66 غافر
67 غافر
68 غافر
69 غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 غافر
74 غافر
75 غافر
76 غافر
77 غافر
78 (78۔85) جتنے رسول ہم نے تجھ سے پہلے بھے جی ہیں ان میں سے بعض کا بیان ہم نے تجھے سنایا ہے جو عرب کے اردگرد رہتے اور عرب جن سے آشنا ہیں اور بعض کا نہیں سنایا جو عرب سے دور دراز ممالک چین جاپان اور ہندوستان وغیرہ ملکوں میں ہوئے۔ ان سب کے ساتھ کفار کی طرف سے یہی برتائو ہوتا رہا جو تیرے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی ان کے کھانے پینے پر۔ چلنے اور پھرنے پر اعتراض کرتا۔ کوئی ان سے معجزات طلب کرتا۔ کوئی نشان مانگتا۔ حالانکہ کسی رسول کا یہ کام نہیں کہ بغیر اذن اللہ کے کوئی نشانی لا سکے۔ جو کچھ وہ لائے یا آئندہ لائیں گے یہ سب بحکم الٰہ ہوا اور ہوگا۔ اب آئندہ جب اللہ کا حکم آئے گا۔ تو حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا جو جس سزا کے لائق ہوگا وہ پائے گا۔ ہمارے ملک پنجاب میں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی مسیحیت کا مدعی ہوا۔ اس نے اپنی صداقت کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں کیں۔ جن میں سے بعض اس کی زندگی سے وابستہ تھیں مثلا ایک عورت سے نکاح کا اعلان کیا اور کھلے لفظوں میں شائع کیا کہ وہ میری زندگی میں میرے نکاح میں آئیگی رسالہ ” شہادت القرآن“ مصنفہ مرزا صاحب قادیانی صفحہ ٨٠۔ بلکہ اس سے اولاد بھی پیدا ہوگی رسالہ ” ضمیمہ انجام آتھم“ مصنفہ مرزا صاحب صفحہ ٥٣ وغیرہ۔ اور بھی بعض واقعات کا اپنی زندگی میں وقوع پذیر ہونا بتایا تھا لیکن جب یہ واقعات ان کی زندگی میں نہ ہوئے اور مخالفوں کی طرف سے اعتراضات کی بھرمار ہوئی تو اس کے مریدوں نے جواب دیا کہ انبیاء اور ملہمین کی ساری پیشگوئیاں ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ بعض ان کی زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور بعض ان کے مرنے کے بعد ہوتی ہیں۔ اس دعوی پر یہ آیت اور اسی مضمون کی دوسری آیات انہوں نے پیش کیں۔ کہا دیکھو ان آیات میں صاف ذکر ہے کہ جن باتوں کا اللہ مومنوں سے وعدہ کرتا ہے ان میں سے نبی کی زندگی میں بعض کا پورا ہونا ضروری ہے سب کا نہیں۔ جواب۔ ان لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے یا دھوکہ دیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ حضرات انبیاء کی طرف سے منکروں کو دو قسم کے عذابوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ کچھ تو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے ہوتے ہیں۔ اور کچھ آخرت میں ہونیوالے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الا کبر لعلھم یرجعون یعنی ھم (اللہ) ان کفار کو بڑے عذاب سے پہلے ادنے عذاب پہونچاتے ہیں تاکہ یہ لوگ سچائی کی طرف رجوع کریں۔ (پ ٢١۔ ع ١٥) نیز ارشاد ہے۔ لھم عذاب فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اشق وما لھم من اللہ من واق۔ (پ ٣۔ ع ١١ یعنی ان کافروں کے لئے دنیا میں عذاب ہے اور آخرت میں بھی بڑا سخت عذاب ہے اور ان کے لئے کوئی بچانے والا نہیں۔ آیت زیر بحث میں جو بعض کا ذکر ہے۔ یہ ان مجموعہ عذابوں کا حصہ ہیں جو کفار کو بتائے گئے تھے۔ جن میں سے بعض دنیا سے اور بعض آخرت سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اس لئے ان کی بابت یہ کہنا صحیح ہے جو آیت موصوفہ میں مذکور ہوا کہ بعض تمکو دکھائینگے۔ کیونکہ دوسرے بعض کے دکھانے کا ظرف زمان دار دنیا نہیں بلکہ دار آخرت ہے۔ مگر مرزا صاحب کی جن پیشگوئیوں پر اعتراض ہیں وہ تو خاص دنیا میں ہونیوالی ہیں بلکہ مرزا صاحب مدعی الہام کی ذات ظاہر سے تعلق رکھنے والے ہیں کیونکہ نکاح کا ہونا یا انکی زندگی میں کسی اور کا مرنا وغیرہ یہ ایسے واقعات ہیں کہ خصوصیت سے مدعی کی زندگی چاہتے ہیں اس لئے اس قسم کی پیشگوئیوں کو اس آیت سے کوئی تعلق نہیں اللہ اعلم۔ اس بحث کے متعلق ہمارے کئی ایک مستقل رسالے ہیں جنکے نام یہ ہیں۔ الہامات مرزا۔ نکاح مرزا۔ تاریخ یعنی سورۃ رعد کی آیت اما نرینک الایۃ اور سورۃ مومن کی آیت یصبکم بعض الذی یعدکم وغیرہ ١٢ اور جھوٹ کو اختیار کرنے والے لوگ اس موقع پر سخت نقصان اٹھائیں گے کیونکہ وہ لوگ اللہ برتر سے روگردان ہوتے ہیں حالانکہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے پیدا کئے تاکہ ان میں سے بعض پر تم سوا رہو۔ جیسے گھوڑا‘ اونٹ‘ ہاتھی وغیرہ اور بعض کو تم کھا جائو جیسے بکری بھیڑ‘ گائے‘ بھینس وغیرہ اور تمہارے لئے ان چارپائوں میں کئی ایک قسم کے منافع ہیں اور تم ان پر سوار ہو کر دور دراز مقامات میں اپنے دلی مقاصد کو پہنچتے ہو اور ان چارپائوں اور کشتیوں پر تم سوار ہو کر پھرتے ہو یہ کس کی قدرت کے آثار ہیں ؟ اسی اللہ واحد کی۔ اور سنو ! وہ تم کو روزمرہ اپنے نشان دکھاتا ہے پھر تم اس کے نشانوں میں سے کس نشان کا انکار کرسکتے ہو؟ بھلا یہ لوگ جو اتنے مغرور ہیں کیا انہوں نے ملک میں پھر کر دیکھا نہیں کس طرح انجام ان لوگوں کا ہوا جو ان سے پہلے تھے جو گنتی میں ان سے بہت زیادہ اور قوت اور زمینی آثار آبادی۔ زراعت وغیرہ کے لحاظ سے بھی بہت بڑھے ہوئے تھے پھر ان کی دنیاوی کمائی نے جو وہ کماتے تھے کچھ کام نہ دیا۔ آخرکار غضب الٰہی سے تباہ ہوگئے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ اپنے مال ومتاع پر ناز کرتے رہے پھر جب ان کے پاس ان کے رسول کھلے احکام لے کر آئے تو وہ اپنے علم پر جو ان کے پاس تھا نازاں ہوئے اور اس علم کے مقابلے میں حضرات انبیاء کی توہین کرتے۔ اسی حال میں تھے کہ غضب الٰہی نے ان پر یورش کی اور انبیاء کی خبروں میں سے جن خبروں پر وہ مخول کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑیں یعنی عذاب نے ان کو کھیر لیا پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب اترا ہوا دیکھ لیا تو بولے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن جن چیزوں کو ہم اللہ کی شریک بناتے تھے ان سے ہم منکر ہوئے۔ یعنی ہم کو یقین ہوگیا کہ ان ہمارے مصنوعی معبودوں میں یہ کمال نہیں کہ وہ الوہیت میں شریک ہوسکیں ان کے مراتب کمال زیادہ سے زیادہ ولایت یا نبوۃ ہے اس سے اوپر حدود الوہیت ہیں جن میں ان کو گذر نہیں پس ہماری دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ! ہم کو بخش۔ چونکہ قانون الٰہی ہے کہ عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لانا کام نہیں آتا۔ اس لئے جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا اور دیکھ کر ایمان لائے تو وہ ایمان ان کا اس قانون الٰہی کے مطابق جو اس کے بندوں میں ابتداء سے جاری ہے ان کے حق میں نفع مند نہ ہوا اور اس موقع پر انبیاء کے منکروں نے سخت نقصان اٹھایا اور آئندہ بھی اٹھائیں گے۔ اللّٰھُمَّ احفظنا ! غافر
79 غافر
80 غافر
81 غافر
82 غافر
83 غافر
84 غافر
85 غافر
0 فصلت
1 (1۔9) میں اللہ رحمن رحیم ہوں یہ کتاب قرآن مجید رحمن رحیم کی صفت رحمانیت کے تقاضا اور اس کی طرف سے نازل ہوئی ہے یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے احکام کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں اس کا نام قرآن عربی ہے ان لوگوں کے لئے بیان ہوئی ہیں جو علم رکھتے اور علم سے کام لیتے ہیں یعنی جو لوگ الٰہی کاموں کو جانتے اور احکام الٰہیہ کی پہچان رکھتے ہیں انکو یہ کتاب بہت جلد ہدایت کرتی ہے یہ کتاب نیک کاموں پر خوش خبری دینے والی اور برے کاموں پر ڈرانے والی ہے دونوں باتیں کیسی مفید اور ضروری ہیں مگر پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ اس سے روگردان ہو کر اس کو نہیں سنتے اور اس کے جواب میں کہتے ہیں ہم اس کو نہ سنیں گے کیونکہ جس بات کی طرف تو ہم کو بلاتا ہے ہمارے دل اس سے پردوں میں محفوظ ہیں اور ہمارے کانوں میں ٹھوس سے گرانی ہے اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب پردہ ہے پس تو اپنا کام کئے جا ہم اپنا کریں گے۔ یہ ان کا جواب کیسا نامعقول ہے کہ نصیحت کو بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ مگر بیمار‘ مخلص طبیب کی بات کو سننا نہ چاہے تو کیا طبیب بھی اس کو چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں اس لئے بطور تبلیغ تو اے نبی ! ان لوگوں کو کہہ کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں جیسے تم ماں باپ سے پیدا ہوئے ہو میں بھی ہوں جیسے تم کھاتے پیتے ہو میں بھی کھاتا ہوں۔ ہاں فرق مراتب ضرور ہے سو وہ یہ ہے کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے یعنی مجھ الٰہی حکم پہنچا ہے کہ تمہارا سب کا معبود ایک ہے پس تم اس کی طرف سیدھے ہو کر چلو اور گناہوں پر اس سے بخشش مانگا کرو اور یقین جانو کہ جو مشرک لوگ اپنے آپ کو شرک کی نجاست سے پاک نہیں کرتے اور آخرت کی زندگی سے بھی منکر ہیں ان کے لئے تباہی اور تباہی پر افسوس ہے وہ اس وقت افسوس کریں گے مگر ان کا افسوس کچھ کام نہ آئے گا کیونکہ وہ موقع افسوس کا نہ ہوگا۔ ہاں جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں گے ان کے لئے غیر منقطع اجر ہوگا جو کبھی ختم نہ ہوگا اور وہ دائمی عیش میں رہیں گے پس تم دیکھ لو کہ تم کدھر ہونا پسند کرتے ہو۔ اے نبی ! تو ان کو کہہ تم جو اس سیدھی بات اور سچی تعلیم کو نہیں مانتے کیا تم اس ذات پاک اللہ سے منکر ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا یعنی اڑتالیس گھنٹوں کی مدت میں جتنی دو دن کی ہوتی ہے زمین کو موجود کردیا۔ گو اس وقت سورج نہ تھا جس سے دن رات میں امتیاز اور شمار ہوتا۔ اتنا کام وہ ایک لمحہ میں بھی کرسکتا تھا مگر زمین کے تغیرات اس کے مقتضی تھے کہ اتنی دیر لگے اس کی حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا غرض اسی نے زمین کو پیدا کیا جس پر تم لوگ بستے اور رہتے سہتے ہو اور تم اس کے لئے شریک بناتے ہو۔ یہ اللہ تمام جہان کا پروردگا ہے یہاں تک کہ تمہارے مصنوعی معبودوں کا بھی یہی پروردگار ہے فصلت
2 فصلت
3 فصلت
4 فصلت
5 فصلت
6 فصلت
7 فصلت
8 فصلت
9 فصلت
10 (10۔18) اور سنو ! اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اسی نے زمین کے اوپر بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر دئیے جو میخوں کا کام دیتے ہیں ان کے بغیر زمین میں ڈانوانڈول متحرک رہتی اللہ نے اس پر پہاڑوں کی میخیں لگا دیں علاوہ اس کے پہاڑوں سے بھی جو جو فوائد لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں وہ بجائے خود مستقل نعمت ہیں اور اس کی قدرت کاملہ دیکھو کہ اس نے زمین میں بڑی برکت دی اور ہر ایک جاندار کی غذا پیدا کرنے کی طاقت اس زمین میں رکھی۔ آج تک جو کچھ زمین سے پیدا ہوا ہے اس کا شمار اور حساب نہیں ہوسکتا باوجود اس کے اس کی روزی اور روزی پیدا کرنے والی قوتوں میں کمی نہیں آئی۔ کیونکہ اللہ علیم قدیر کے زیر حکم کام ہو رہا ہے حالانکہ اس نے یہ سب کچھ مع پیدائش زمین چار یوم میں پیدا کردیا۔ گو امیر لوگ اپنی حیثیت کی غذا کھاتے ہیں اور غریب اپنی حیثیت کی مگر یہ دونوں غذائیں زمین کی پیداوار سے ہیں اس لئے زمین کی روزی سب محتاجوں کے لئے برابر ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا۔ کسی بزرگ نے کیا اچھا کہا ہے ادیم زمین سفرۂ عام اوست چہ دشمن بریں خوان نعیماچہ دوست چُناں پہن خوان کرم گسترد کہ سیمرغ درقاف قسمت خورد (اقواتھا میں اضافت اصلی معنی میں نہیں کیونکہ اقوات جمع قوت کی ہے اور قوت گذارہ کی روزی کو کہتے ہیں چونکہ جانداروں کی روزی زمین سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ادنیٰ مناسبت سے اقوات کو اس کی طرف اضافت کردیا۔ ورنہ دراصل مراد ہے اقوات ما سکن علیہا (منہ) وہ اپنی سب مخلوق کی برابر پرورش کرتا ہے اسی لئے اس کا نام رب العالمین ہے اس نے اپنی حکمت اور علم کے تقاضا سے زمین میں طاقتیں ودیعت کیں پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ ابھی پہلی حالت میں دھواں تھا۔ پھر اس دھویں کو اور زمین کو جو ابھی پوری طرح تیار نہ تھی کہا یعنی قدرتی طور پر حکم دیا کہ تیار ہوجائو۔ چاہے خوشی سے چاہے نا خوشی سے یعنی ہر حال میں تم کو تیار ہونا پڑے گا۔ ان دونوں نے بزبان حال عرض کیا حضور ! بھلا ہم کون غلاموں کی کیا مجال کہ دم ماریں ہم برضائو رغبت تیار ہیں یعنی قدرت کے ماتحت ہیں جس صورت میں اللہ چاہے ہم کو بنا لے پس اس دھویں کو دو روز میں تہ بہ تہ سات آسمان بنا دئیے (عربیت کے قاعدہ سے ضمیر مرجع کی موافق ہونی چاہئے اس اصول سے فقضاھا ہونا چاہئے تھا مگر چونکہ جعل مرکب کے دو مفعول دراصل مبتدا خبر ہوتے ہیں اس لئے سبع کے لحاظ سے قضاھن کہا گیا۔ اللہ اعلم (منہ) اور ہر آسمان میں اپنا حکم نافذ کیا جو ہر روز بلکہ ہر ساعت نافذ رہتا ہے اور زمین کو بھی مقہور رکھا۔ غرض دونوں اس کے حکم کے ماتحت ہیں ان میں سے پہلے آسمان کو ستاروں کی قندیلوں کے ساتھ سجا دیا۔ گو بعض سیارے پہلے آسمان سے بہت فاصلہ پر ہیں مگر چونکہ دیکھنے میں پہلے آسمان پر ہیں اس لئے یہی کہا جائے گا کہ پہلے کو سجایا اور شیاطین اور دیگر خلل انداز چیزوں سے اس کو محفوظ کیا۔ کیا مجال کہ اس میں کبھی خلل آیا ہو۔ یا کبھی مرمت طلب ہوا ہو۔ کیونکہ یہ بناوٹ اور اندازہ بڑے غالب اور بڑے علم والے کا ہے جس کے علم اور غلبہ کے مقابلہ میں کوئی مانع ٹھہر نہیں سکتا اتنی قدرت کاملہ دیکھ کر بھی اگر یہ لوگ الٰہی توحید سے روگردانی کریں اور تجھے اس تبلیغ اور وعظ کرنے میں جھوٹا کہیں تو تو کہہ کہ میں تم کو عادیوں اور ثمودیوں جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں وہ عذاب ان پر اس وقت آیا تھا جب ان کے پاس ان کے آگے اور پیچھے سے بکثرت پیغمبران اللہ آئے اور انہوں نے آکر ان کو یہ پیغام سنایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو وہ جواب میں بولے کہ تم کون ہو جو ہم کو ایسی نصیحت کرتے ہو رسولوں نے کہا ہم اللہ کی طرف سے رسول ہیں انہوں نے جواب میں کہا ہمارا پروردگار اگر چاہتا تو فرشتوں کو رسول کر کے بھیجتا پس جبکہ تم فرشتے نہیں ہو ہم بھی تمہاری تعلیم سے جس کو تم اپنے خیال میں اللہ کے پاس سے لے کر آئے ہو منکر ہیں ان کی بے وقوفی دیکھئے کہ تعلیم کو نہیں دیکھا۔ معلم کو اپنا ہم جنس دیکھ کر انکار کر گئے۔ حالانکہ عام قانون ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز مگر ان کے دلوں میں جو رسولوں کا انکار گھر کر گیا تھا انہوں نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہ کی ان تباہ شدوں میں سے عادیوں کا تو یہ حال تھا کہ انہوں نے زمین پر ناحق تکبر کیا گو بہت قوی البحثہ اور طاقتور تھے مگر اصلیت سے زیادہ بڑھے اور بہت بڑے بنے اور بولے کہ بل پوتے میں ہم سے کون بڑا ہے ہم جس طرف توجہ کریں درودیوار ہم سے ڈریں۔ جس قوم پر حملہ کریں۔ پیس دیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا وہ ان سے قوی تر ہے اگر وہ دنیا میں سب سے بگاڑتے تو بگاڑتے مگر اس خالق سے تو نہ بگاڑتے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے لیکن وہ اس طرف نہ آئے کیونکہ وہ بدکار تھے اور ہماری (اللہ کی) آیات نشانات قدرتی اور آیات کتابی دونوں سے انکار کرتے تھے یعنی ان دونوں میں سے کسی سے عبرت حاصل نہ کرتے تھے پس جب ان کا وقت آیا تو ہم نے ان پر نحوست کے دنوں میں جو ان کے حق میں منحوس تھے ان پر بڑے زور کی تیز ہوا بھیجی تاکہ ہم ان کو دنیا کی زندگی میں ذلت کا عذاب چکھا دیں اور آخرت کا عذاب جو بہت خوار کرنے والا ہے۔ ہنوز باقی ہے جس میں وہ بری طرح پکڑے جائیں گے اور ان کو کسی طرح سے مدد نہ پہنچے گی اور ثمود کی قوم کو ہم نے رسولوں کی معرفت راہ نمائی کی مگر انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی وہی بداعمالی وہی بدمستی کرتے رہے جس کا انجام یہ ہوا کہ ان کی بداعمالی کی وجہ سے ذلت کے مہلک عذاب نے ان کو آدبایا پس وہ برباد کئے گئے اور جو لوگ ایماندار اور پرہیزگار تھے ہم نے ان کو بچا لیا باقی سب تباہ کئے گئے فصلت
11 فصلت
12 فصلت
13 فصلت
14 فصلت
15 فصلت
16 فصلت
17 فصلت
18 فصلت
19 (19۔28) دنیا میں جو ایسے لوگوں کو سزا ملتی ہے یہ تو ہے مگر آخرت کی سزا ابھی اور ہے اور وہ اس دن ہوگی جس روز اللہ کے دین کے دشمن آگ کی طرف چلائے جائیں گے پھر وہ بزور جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے جیسے اس دنیا میں دستور ہے کہ پولیس مجرموں کو جیل کی طرف لے جاتی ہے اگر وہ راستے میں اڑیں تو بزور دھکیل کرلے جاتی ہے اسی طرح دوزخیوں کو فرشتے لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس دوزخ میں پہنچیں گے تو اپنے دل میں خیال کریں گے اور ایک دوسرے کو کہیں گے کہ اتنا سخت عذاب ہم کو بے وجہ ہوا ہے ہم نے ایسا کوئی برا کام نہ کیا تھا جس کی سزا اتنی سخت ہو۔ اس خیال کے پیدا ہوتے ہی ان کی آنکھیں ان کے کام اور ان کے چمڑے جو کچھ وہ دنیا میں کرتے رہے تھے اس کی گواہی دے دیں گے ہر ایک جوڑ سے جو اس نے کیا ہوگا اقرار جرم کی آواز نکلے گی کیسے نکلے گی ؟ جیسے فونوگراف سے نکلتی ہے اور وہ لوگ اپنے ان اعضا اور چمڑوں کو کہیں گے بھلا بھئے تم نے کیوں ہمارے برخلاف شہادت دی کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم سب ایک ہی نائو پر سوار ہیں ڈوبیں گے تو سب ایک ساتھ ڈوبیں گے وہ اعضا ان کے جواب میں کہیں گے ہم اس میں مجبور ہیں کیا کریں ہم کو اس اللہ تعالیٰ نے بلوایا ہے جس نے آج سب چیزوں کو بلوایا ہم جانتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں بلکہ ہمارے مجموعے ہی کا نام انسان ہے مگر اس کا کیا علاج کہ ہم مخلوق اور مجبور ہیں اور وہ اللہ ہمارا خالق ہے اسی نے ہم تم سب کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اس اول پیدائش میں تم نے اس کی الوہیت اور رحمت کی قدر نہ کی۔ اب تم اسی کی طرف لائے جا رہے ہو۔ پس اس بے فرمانی کا مزہ چکھو اور کسی غیر کا گلہ نہ کرو۔ بقول ؎ گل وگل چیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث کسی اور کا گلہ اور شکایت بے جا ہے اور تم لوگ جو بعض اوقات چھپ چھپا کر گناہ کرتے تھے لوگوں سے تو چھپ سکتے تھے مگر اس امر سے نہ چھپ سکتے تھے کہ تمہارے کان۔ آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے برخلاف شہادت دیں گے کیونکہ اس کی تمہیں خبر بھی نہ تھی اور ان سے چھپنا تمہارے بس میں بھی نہ تھا ہاں تم جو چھپ چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس خیال سے کرتے تھے کہ تم سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے کاموں کو نہیں جانتا۔ یہی تمہارا خیال تھا۔ جو تم نے اپنے پروردگار کے حق میں گمان کیا اسی نے تم کو تباہ کیا اور تم نے نقصان اٹھایا اور ان پر سزا کا حکم ایسا سخت لگا ہوگا کہ اگر وہ صبر کریں گے یا نہ کریں گے تو بھی ان کا ٹھکانہ آگ ہی میں ہوگا اگر وہ معافی چاہیں گے تو ان کو معاف نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ معافی مانگنے اور دینے کا موقع دنیا میں ہے جو انہوں نے غفلت میں کھو دیا۔ اور اس کی سزا میں ہم نے شیاطین کو انکا ساتھی بنا دیا جنہوں نے ان کے آگے اور پیچھے کی بدکاریوں کو مزین کر دکھایا یعنی جو کچھ وہ زندگی میں کرتے ہیں اور جو رسوم بد وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ان کو بھلی معلوم ہوتی ہیں اسی لئے تو ان کی یہ گت بنی ہے کہ جنوں اور انسانوں کی جو جماعتیں ان سے پہلے گذر چکی ہیں ان کے ساتھ ان پر بھی عذاب الٰہی کا حکم ثابت ہوچکا ہے جس طرح وہ لوگ تباہ ہوئے ہیں یہ بھی ہلاک ہوں گے بے شک یہ لوگ نقصان والے ہیں اور سنو چاہیے تو یہ تھا کہ یہ منکر لوگ گذشتہ واقعات سے سبق حاصل کرتے لیکن ان کی اخلاقی حالت ایسی کمزور ہے کہ چاہے کسی قسم کی ہدایت ہو اس سے مستفید نہیں ہوتے یہی دیکھو اس قرآن میں کون سی بری یا کڑوی بات ہے۔ جو ان لوگوں کو تلخ لگتی ہے کہ لوگوں کو کہتے ہیں ارے بھائی ! اس قرآن کی طرف کان بھی نہ جھکانا خبردار ایسا نہ ہو کہ اس کی تاثیر سے تم بھی خراب ہوجائو اس کی آواز بھی تمہارے کان میں نہ آنے پائے اور زیادہ ہی بچائو کرنے کی ضرورت آن پڑے۔ تو اس کے پڑھے جانے میں شورو شغب کیا کرو تاکہ تم غالب ہو اور وہ تم پر کسی طرح اثر نہ کرسکے بہلا بتلائو تو ایسے لوگ بھی کسی طرح ہدایت پا سکتے ہیں پس ہم بھی ان کے ساتھ وہی برتائو کریں گے جس کے یہ لوگ اہل ہیں جس کا اعلان ابھی سے کئے دیتے ہیں کہ ان منکروں کو سخت عذاب چکھائیں گے اور ان کے بدترین کاموں کا جو یہ کرتے رہے ہیں ان کو بدلہ دیں گے اللہ کے دین کے دشمنوں کا بدلہ یہی دوزخ ہے اسی میں ان کا دائمی گھر ہوگا یہ سزا ان کو اس کام کے بدلہ میں جو یہ لوگ ہماری آیتوں سے انکار کرتے رہے ہیں وہاں ان کی جو گت ہوگی وہ کہنے سننے سے پوری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ بلکہ وہ دیکھنے پر موقوف ہے اس آیت میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اسوا اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مضاف ہے الذی کی طرف تقدیر کلام یہ ہے نجزینھم اسوا اعمالھم اس تقدیر پر اسوا کے معنی حسب اضافت لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوگا کہ ان کے غیر اسوا اعمال کا بدلہ نہ ملا اور اگر موصوف مخدوف ہو یعنی نجزینھم جزاء اسوا تو اعتراض ہوگا کہ اعمال سے جزا بڑھ گئی حالانکہ دوسرے مقام پر صاف ارشاد ہے انما تجزون ما کنتم تعملون یعنی کفار نے جو کچھ کیا ہوگا اسی جتنا بدلہ ان کو ملے گا ہم نے پہلے معنی اختیار کئے ہیں اس لئے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب اسوا کا بدلہ ہی ہمیشہ کا عذاب ہوا تو باقی کی کیا ضرورت ہے کل الصید فی جوف الفرا سب کا پائوں ہاتھی کے پائوں میں۔ ان معنی پر ظلم کا اعتراض نہیں رہتا۔ بعض مفسرین نے اسوا کو تفضیلی معنی میں نہیں لیا۔ تفسیر عربی میں میں نے یہی اخیتار کیا ہے وہ بھی ایک صورت اعتراض بچنے کی ہے (منہ) فصلت
20 فصلت
21 فصلت
22 فصلت
23 فصلت
24 فصلت
25 فصلت
26 فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 اس لئے جو لوگ منکر ہیں (قیامت کے روز) کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا جن ہوں یا انسان وہ ہم کو دکھا دے تاکہ ہم ان کی ایسی گت بنا دیں کہ چھٹی کا دودھ ان کو یاد آجائے یعنی ہم ان کی گردنوں پر چڑھ کر ان کو پیروں کے نیچے روندیں تاکہ وہ یہاں سب سے نیچے اور سب سے ذلیل تر ہوں۔ ان نالائقوں نے محض اپنے فوائد کے لئے ہم کو گمراہ کیا اس ذاتی فائدے میں نہ ہمارا نقصان سوچا نہ اپنا۔ اللہ ان کو غارت کرے ان کی سمجھ میں نہ آیا نہ انہوں نے ہمیں سمجھنے کا موقع دیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم بالکل سیدھی اور مختصر تھی فصلت
30 (30۔36 ( جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اسی نے ہم کو پالا پوسا وہی سب دنیا کا مالک ہے۔ پھر وہ اسی پر جم گئے جم جانے کا مطلب یہ ہیکہ اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور کوئی کام ایسا نہ کیا جو اس قول کے خلاف ہو۔ اللہ کے ہاں ان کی یہ قدر ہوتی ہے کہ موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور جس بہشت کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا آج اس کی خوشی منائو کہ وہ تمہیں ملنے والی ہے فرشتے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے بھی خیر خواہ اور دوست تھے اور اس سے آگے چل کر آخرت میں بھی دوست ہی رہیں گے اور اس بہشت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے تم کو ملے گا اور جو تم مانگو گے پائو گے یہ نہیں کہ قیمت سے بلکہ اللہ بخشنہار مہربان کی طرف سے گویا مہمانی ہوگی سنو ! اور غور سے سنو ! ایمان اور دعوۃ ایمان کا یہ رتبہ ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور لوگوں کو بھی اللہ کی طرف بلائے نہ صرف لوگوں کو بلائے بلکہ خود بھی نیک کام کرے اور علی الاعلان کہے کہ میں مسلمانوں کی جماعت میں کا ایک فرد ہوں اس سے اچھا کون ہے اور اس کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی یعنی جو لوگ اللہ کو مانتے اور اعمال صالحہ کرتے ہیں وہی ہیں جن کی بابت ہم پہلے بتلا آئے ہیں کہ ان پر فرشتے اترتے اور ان کو نجات کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اب سنو ! ایمان لانا اور لوگوں کو ایمان کی طرف بلانا ایک مشکل کام ہے۔ عموما جہلا اس میں مخالفت پر کمربستہ ہوتے ہیں اور ایذا دیتے ہیں اس وقت ہر انسان کی طبیعت انتقام کی طرف متوجہ ہوتی ہے ایسے وقت کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیے کہ نیکی اور بدی برابر نہیں جو تم کو بدی (تکلیف) پہنچائے اس بدی کو بہت ہی اچھے طریق سے دور کیا کرو۔ پھر دیکھنا تمہارا دشمن بھی تمہارا گویا مخلص دوست ہوجائے گا۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ خصلت ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور انہی لوگوں کو ملتی ہے جو بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ اس نعمت کو پا جاتے ہیں کیونکہ شیخ سعدی مرحوم کا قول ان کو یاد ہوگا تحمل چو زہرت نمائد نخست ولے شہد باشد چودر طبع رست اس لئے تم بھی اس خصلت (تحمل اور صبر) کو حاصل کرنے کے خوگر بنو اور اگر کسی وقت شیطان کی طرف سے تمہیں کسی قسم کی چھیڑ پہنچے یعنی کسی بدگو مخالف کی بد گوئی یا ایذا دہی پر طبیعت کو جوش آوے اور بدلہ لینے پر آمادہ ہو۔ تو اللہ کی پناہ لیا کرو یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا کرو۔ اور اس کی ماتحتی کا اظہار کرنے کو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا کرو۔ اس سے تمہارا جوش بہت جلد فرو ہوجائے گا۔ اور تم امن وسکون پا جائو گے۔ کیونکہ وہ اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے وہ اپنے ایسے مخلص بندوں کو بے جا جوش سے بچاتا ہے۔ پہلے جو کہا گیا کہ اللہ کی طرف بلانا بہت اچھا کام ہے اور بلانے والا سب سے اچھا ہے اس کی صورت کیا ہے۔ فصلت
31 فصلت
32 فصلت
33 فصلت
34 فصلت
35 فصلت
36 فصلت
37 (37۔38) سنو ! ہم ہی اس کی صورت بھی بتلاتے ہیں اللہ کی طرف اللہ کے نشانوں سے بلائو یعنی وہ امور پیش کر کے بلائو جو قدرت سے ظہور پذیر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں مثلا یہ کہو اور یوں سمجھا ئو کہ اسی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی رات ہے اور دوسری نشانی دن ہے جو بالکل ایک دوسری کی ضد ہیں مگر دونوں تم کو فائدہ پہنچاتے ہیں رات میں تم لوگ آرام پاتے ہو۔ دن میں کاروبار کرتے ہو اسی طرح سورج اور چاند بھی اس کی قدرت کے نشان اور اثر ہیں اسی کے بنانے سے بنے ہیں اسی کے فنا کرنے سے فنا ہوجائیں گے یہ بھی ان لوگوں کو سمجھا دو کہ سورج اور چاند دنیا کی سب چیزوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں تاہم ان کو میں کوئی دخل نہیں اس لئے تم لوگو ! نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو سجدہ کرو۔ اور نہ کسی اور مخلوق کو کیونکہ جب اتنی بڑی مخلوق بھی سجدہ کے قابل نہ ہوئی تو اور کون ہوگی بلکہ اس اللہ کو سجدہ کیا کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا اگر تم اس اللہ کی عبادت کرتے ہو تو اس کا خیال رکھو کہ اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرو ورنہ وہ عبادت بھی اکارت جائے گی۔ اس قسم کے نرم کلام اور مفید نصیحت سن کر پھر بھی اگر یہ لوگ نہ مانیں اور اس سچی اور بے لاگ تعلیم سے گردن کشی کریں تو نہ تمہارا کوئی حرج ہے نہ اللہ کا کوئی کام بگڑتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہیں فرشتے ہوں یا آدمی وہ شب وروز اس کے نام کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی اکتاتے نہیں گویا ان کی غذا ہی یہ ہے۔ فصلت
38 فصلت
39 اور سنو ! جس اللہ کی توحید سے یہ لوگ منکر ہیں اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تم زمین کو ویران سنسان دیکھتے ہو پھر جب ہم (اللہ) اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ ہلتی اور پھولتی ہے پھر چند روز بعد وہی سنسان جنگل سر سبزشاداب بن جاتا ہے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جو ذات پاک اس زمین خشک کو تروتازہ کردیتا ہے وہ مردہ کو بھی زندہ کر دے گا کیونکہ وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے اس کی قدرت کا نمونہ تم دیکھ چکے ہو کہ خشک بنجر زمین تھوڑی دیر میں تازہ ہوجاتی ہے۔ فصلت
40 باوجود اس کے لوگ اس کے حکموں میں کجروی کرتے ہیں پس سنو جو لوگ اللہ کے احکام میں کجروی کرتے ہیں یعنی بدنیتی سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر غالب آنے کا خیال پکاتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہم ان کو الٹا جہنم میں ڈالیں گے ان کی اس وقت کی حالت کو ملحوظ رکھ کر بتلائو کیا جو شخص قیامت کے روز آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا جو امن وامان سے پروردگار کے پاس آئے گا اور اپنے نیک اعمال کا بدلہ پائے گا کون دانا ہے جو پہلے شخص کو اچھا کہے بے شک دوسرا شخص ہی اچھا ہوگا پس تم سے اے منکرو ! جو چاہو عمل کرو بے شک وہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے فصلت
41 (41۔46) پس سنو ! جن لوگوں کے پاس قرآن کی نصیحت آئی اور وہ اس نصیحت سے منکر بلکہ مخالف ہوئے (وہ اپنا انجام دیکھ لیں گے) کیونکہ وہ گمراہی پر ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ قرآن بڑی غالب کتاب ہے مخالفوں سے نہ دبے گی کیونکہ نہ اس کے آگے سے جھوٹ آسکتا ہے نہ پیچھے سے یعنی نہ کوئی صحیح واقعہ آئندہ کو ایسا پیدا ہوگا جو اس قرآن کی تکذیب کرسکے نہ گذشتہ واقعات سے کوئی واقعہ ایسا ملے گا جو قرآن کے صریح مخالف ہو۔ کیونکہ یہ قرآن اس اللہ کے پاس سے اترا ہوا ہے جو بڑی حکمت والا بری تعریف والا ہے اس لئے ان لوگوں کی مخالفت کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا باقی رہا ان کا زبانی چیخ چیخ کرنا سو اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہمیشہ سے ایسے لوگ ایسا کہتے چلے آئے اے نبی ! کفار کی طرف سے تجھے وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں کو مخالفوں کی طرف سے کہی گئی تھیں۔ باوجود ان لوگوں کی شرارتوں کے ان کی بیخ کنی نہیں ہوتی اس لئے کہ تیرا پروردگار باوجود گناہ بندوں کے بڑی بخشش والا ہے اور جو اس کی بخشش سے مستفیض نہیں ہوتے ایک حد تک پہنچ کر ان کے حق میں سخت عذاب والا بھی ہے ان لوگوں کی شرارت دیکھو کہ اب تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتے کہ ہم میں سے ایک آدمی کیسے رسول ہو کر آیا یعنی اپنی جنس کے آدمی کا رسول بننا ان کو پسند نہیں اور اگر ہم اس قرآن کو عربی کے سوا کسی اور عجمی زبان میں نازل کرتے پھر تو یہ لوگ کہتے اور ایسا کہنے کا ان کو حق حاصل ہوتا کہ اس کے احکام عربی زبان میں کیوں نہیں کھول کھول کر بتلائے گئے بھلا یہ کیا موزوں ہے؟ کہ کلام تو عجمی اور مخاطب عربی؟ درحقیقت یہ عذر ان کا ایک حد تک معقول بھی ہوتا اسی لئے اللہ نے جس کو نبی بنا کر بھیجا ہے اسی ملک کی زبان پر بولتا ہوا بھیجا جس ملک میں وہ قوم رہتی تھی یعنی وہ اپنی قوم کے محاورات بولا کرتا تھا کیونکہ مادری زبان میں تعلیم آسان ہوتی ہے اے نبی ! تو کہہ کہ اس قسم کی کجروی کو چھوڑو اور سیدھے ہو کر اس نعمت کی قدر کرو دیکھو یہ قرآن ماننے والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے ان کو پیش آمدہ امور میں رہنمائی کرتا ہے اور ان کے روحانی امراض‘ کفر‘ شرک‘ حسد‘ کینہ‘ ریا وغیرہ کی شفا ہے۔ آزما کر دیکھ لو۔ سنو ! کسی بیرونی چیز کے حاصل کرنے کے عموما دو ہی ذریعے ہیں۔ سننا اور دیکھنا ان دو ذریعوں سے آدمی نامعلوم چیز کو معلوم کرسکتا ہے۔ سو جو لوگ ایمان نہیں لاتے یعنی اس قران کو محض ضد اور نفسانیت سے نہیں مانتے قرآن کے سننے سے ان کے کانوں میں گویا ٹھوس ہے اس لئے تو وہ اس کو سن نہیں سکتے اور ان کی آنکھوں میں گویا اندھا پن ہے اس لئے وہ قرآن ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے ان کو دیکھتا نہیں یعنی نہ تو قرآن کے نشانات قابل سنے جانے کے سنتے ہیں نہ دیکھے جانے کے لائق نشانوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ان کے دونوں راستے بند ہیں کیوں بند ہیں ؟ انہوں نے قرآن کی مخالفت محض ضد اور نفسانیت سے کی اس لئے اب ان کی یہ حالت ہے کہ قرآن کے وعظ ونصحتیں کو یہ سنتے ہیں گویا یہ لوگ بڑی دور سے بلائے جاتے ہیں ایسے کہ بلانے والے کی آواز تو سنی جاتی ہے مگر مضمون مفہوم نہیں ہوسکتا۔ پھر عمل کریں تو کیسے۔ اسی کا اثر ہے کہ ان لوگوں کے اعتراضات بھی عجیب قسم کے ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ کہتے ہیں بھلا اگر قرآن حق ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں تو اللہ ہم کو تباہ اور ہلاک کیوں نہیں کردیتا۔ اس کے جواب میں ایک تاریخی واقعہ سنو ! ہم نے اس سے پہلے حضرت موسیٰ کو کتاب توریت دی تھی پھر اس میں بھی اختلاف ہوا۔ کسی نے مانا کسی نے انکار کیا تو کیا ہم نے سب منکروں کو یکدم تباہ کردیا تھا؟ نہیں بلکہ چند اشخاص (فرعون اور اس کے مشیر کار لوگوں) کو جو برسر شرارت تھے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے حکم نہ گذرا ہوتا کہ جلدی میں سب کو تباہ نہیں کروں گا تو ان لوگوں میں یکدم فیصلہ کیا جاتا۔ کافروں کو تباہ برباد کر کے ان کی جگہ مؤمنوں کو بسایا جاتا۔ مگر ہمارے ہاں جلد بازی نہیں بلکہ قانون یہ ہے کہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور جو برا کرتا ہے وہ بھی اسی کی جان پر ہوتا ہے اس کا وبال بھی وہی اٹھاتا ہے اور تمہارا پروردگار بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے کہ بے جرم بھی ان کو سزا دے اور جرموں میں سزا کا اضافہ کر دے۔ فصلت
42 فصلت
43 فصلت
44 فصلت
45 فصلت
46 فصلت
47 (47۔51) اس قسم کی تعلیم سن کر ان لوگوں سے اور تو کچھ بنتا نہیں یہ پوچھنے لگتے ہیں کہ جس روز نیک وبد کاموں کا بدلہ ملے گا وہ دن کب ہوگا جس کا نام تم لوگ قیامت رکھتے ہو حالانکہ حقیقت الامر یہ ہے کہ قاہمت کی گھڑی کا علم بھی اسی اللہ کو ہے وہی جانتا ہے کہ اس کا وقت کب ہے اسی پر کیا موقوف ہے جو جو پھل پھول اپنے گابھوں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حاملہ ہوتی اور جنتی ہے یہ سب واقعات اس اللہ کے علم سے ہوتے ہیں اس لئے اس کو نہ کسی کے بتلانے کی ضرورت اور نہ کسی کے سمجھانے کی حاجت۔ جس دن کی بابت یہ سوال کرتے ہیں اس کی تاریخ کا بتانا تو مصلحت الٰہی نہیں۔ مگر اتنا بتانا تو ضروری ہے اس روز ان مشرکوں کو بلا کر پوچھے گا میرے شریک جن کو تم میرے شریک جانا کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں وہ آج تم کو کیوں فائدہ نہیں پہنچاتے؟ وہ جواب میں کہیں گے اے ہمارے مولا؟ ہم آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کا واقف نہیں۔ وہ سمجھیں گے کہ دنیا میں ملزم اپنے جرم سے انکاری ہوجاتا تھا تو بسا اوقات عدم ثبوت کی حالتیں چھوٹ جاتا تھا یہاں بھی ایسا ہی ہوگا اس لئے وہ اپنے صحیح صحیح واقعات سے انکار کر جائیں گے اور جن جن چیزوں کو وہ پہلے پکارا کرتے تھے یعنی جن جن لوگوں سے دعائیں مانگا کرتے تھے ان سب کو وہ بھول جائیں گے اور گمان غالب سمجھیں گے کہ اقرار کرنے میں ہمارے لئے مخلصی نہیں مگر عالم الغیب اللہ کے سامنے ان کی ایک بین نہ چلے گی۔ غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں کئی قسم کے عیوب ہوتے ہیں صریح شرک وکفر تو سب جانتے ہیں ان کے سوا اور بھی ہیں وہ یہ کہ انسان بھلائی مانگنے سے تھکتا نہیں مانگتا جائے اور ملتی جائے لیکن کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصلحت الٰہی اس کے منشاء کے خلاف ہوتی ہے یہ کچھ چاہتا ہے اللہ کچھ۔ پس اگر مصلحت اللہ تعالیٰ سے اس انسان کو کسی قسم کی برائی پہنچتی ہے تو بالکل بے امید ہوجاتا ہے اور اگر بعد تکلیف پہنچنے کے ہم اس کو اپنی طرف سے رحمت‘ آرام اور آسائش پہنچاتے ہیں تو بجائے شکر گذار ہونے کے کہنے لگتا ہے یہ تو میرا حق ہے میں اپنی لیاقت کی وجہ سے اس کا مستحق ہوں اور اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اس غرور میں یہ بھی کہہ اٹھتا ہے کہ میں قیامت کو ہونے والی نہیں جانتا۔ یہ سب ملّاں لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں نہ کوئی قیامت ہے نہ دوزخ نہ بہشت۔ اور اگر فرضا میں مر کر اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر گیا بھی تو وہاں بھی اس کے پاس میرے لئے اچھی جگہ ہوگی۔ یہ ایسے لوگوں کے خیالات جو دراصل اللہ کے احکام سے منکر ہیں پس وہ سن لیں کہ ہم (اللہ) ان کافروں کو ان کے کاموں کی خبریں دیں گے اور ان کو سخت عذاب چکھا دیں گے کیسے نامعقول لوگ ہیں اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کا ہیرو پھیر سب ہمارے اختیار میں ہے کسی کو امیر کرنا امیر کو غریب کردینا ہماری قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے مگر انسان ایسا شریر ہے کہ جب ہم ایسے انسان پر انعام کرتے ہیں یعنی کسی قسم کی آسائش و آرام دیتے ہیں تو ہمارے حکموں سے منہ پھیر لیتا ہے اور اکڑ کر چلتا ہے اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعا کرنے لگ جاتا ہے غرض انسان کی عملی تصویر بالکل اس شعر کی مانند ہے ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی وبایزید شوند فصلت
48 فصلت
49 فصلت
50 فصلت
51 فصلت
52 (52۔54) اے نبی ! تو ان مخالفوں کو کہہ آئو اصل بات پر غور کر وبتلائو تو سہی اگر یہ قرآن جو مجھے الہام ہوتا ہے اللہ کے پاس سے ہو پھر بھی تم اس سے منکر ہی رہو۔ تو تمہاری گمراہی میں کیا شک ہے پس بتلائو کون بڑھ کر گمراہ ہے اس شخص سے جو ہدایت سے بہت دور گمراہی میں پھنسا ہوا ہے الٰہی ہدایت کو چھوڑ کر ادھر ادھر جاتا ہے ہم (اللہ) ان کو اسلام کی سچائی کے لئے ان کے اردگرد اور خود ان کے اندر اپنے نشان دیکھا دیں گے پس یہ لوگ اسلام اور قرآن کے پھیلنے میں رکاوٹیں پیدا کرلیں ہم بھی ان کو کرشمہ قدرت دکھا دیں گے کہ پہلے ان کے اردگرد اسلام شائع کریں گے یعنی مکہ معظمہ کے اردگرد کے لوگ مسلمان ہوں گے ان کے بعد خود مکہ میں بھی کافی اشاعت ہوگی یہاں تک کہ ان کو حق واضح ہوجائے گا اور یہ خود بخود اس کے ماننے پر مجبور ہوں گے۔ مخالفوں کی قوت اور مسلمانوں کے ضعف پر نظر کر کے ان کے دلوں میں خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ یہ ایک خواب خیال ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں تو کیا تمہارا پروردگار ایسے کام کرنے کو اکیلا کافی نہیں ہے اس وجہ سے کہ وہ ہر چیز اور ہر کام پر نگران اور منتظم ہے دنیا کی ہر ایک چیز اس کے قبضے میں ہے جس سے جو چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ اور جو چاہے لے سکتا ہے۔ ہاں سنو لوگو ! یہ منکر لوگ اپنے رب کی ملاقات سے شک میں ہیں یعنی ان کو اللہ پر ایمان نہیں پس سنو ! لاریب وہ پروردگار ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اس کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں۔ سچ ہے ہست سلطانی مسلم مردرا نیست کس راز ھرۂ چون وچرا فصلت
53 فصلت
54 فصلت
0 الشورى
1 (1۔7 ( میں ہوں اللہ رحمن رحیم علیم کل‘ ستار عیوب‘ قادر مطلق۔ اے پیغمبر ! جس طرح یہ سورت اللہ غالب بڑی حکمت والے نے تجھ پر وحی کی ہے اسی طرح آئندہ بھی تیری طرف وحی کرے گا اور تجھ سے پہلے لوگوں کی طرف بھی وحی کرتا رہا یعنی جس طرح پہلے لوگوں کی طرف وحی آتی رہی ہے تمہاری طرف بھی آتی ہے۔ کیونکہ الٰہی فیض برابر جاری ہے اس وحی میں پہلا سبق یہ ہوتا رہا ہے جو اب بھی ہے اور کبھی نہیں بدلے گا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یہ سب اسی اللہ غالب کی ملک اور مخلوق ہے اور وہ سب سے بڑا عالی شان ہے اس کی شان اور عظمت کی تہ کو کون پہنچ سکے دور نہیں کہ اس کی ہیبت کے خوف سے سارے آسمان اوپر کی طرف سے پھٹ جائیں اور فرشتے اپنے پروردگار کی تعریف کے گیت گاتے ہیں اور جو لوگ بنی آدم زمین پر ایماندار ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ہیں ان کو ایمانداروں سے دلی محبت ہے اس لئے وہ دل سے ان کی بھلائی کے خواہشمند ہیں یہی خواہی میں ان کے نزدیک سب سے مقدم درجہ بخشش کا ہے اس لئے وہ بخشش مانگتے ہیں تم باور کرو کہ فرشتوں کے سوال کو جو وہ ایماندار بندوں کے حق میں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ سنو ! یقینا اللہ تعالیٰ ہی بخشنے والا مہربان ہے اس کی صفت بخشش اور رحمت اس امر کی مقتضی ہے کہ جو کوئی اس کا ہورہے وہ اس کو بخشتا ہے اور جو اس کے سوا اور لوگوں کو اپنا کارساز مشکل کشا حاجت روا بناتے اور جانتے ہیں وہ اللہ کی نگاہ میں ہیں اور اللہ ان کا حال دیکھ رہا ہے ان کی حرکات سکنات اس پر کسی طرح مخفی نہیں اور تو اے نبی ! ان پر ذمہ دار نہیں پس تو اس سے بے خوف رہ اور سن رکھ اسی طرح جیسے ہم پہلے انبیاء کو وحی بھیجتے رہے ہم نے تیری طرف یہ عربی قرآن نازل کیا ہے تاکہ تو اس شہر مکہ والوں کو اور اس کے اردگرد کے سب لوگوں کو سمجھا دے اور برے کاموں کا انجام ان کو بتائے اور جمع ہونے کے دن یعنی روز قیامت سے ڈرا دے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اس دن کا مجمل فیصلہ یہ ہوگا ایک جماعت جنت میں جائے گی اور ایک جماعت دوزخ میں ہوگی الشورى
2 الشورى
3 الشورى
4 الشورى
5 الشورى
6 الشورى
7 الشورى
8 (8۔19) اور اصل بات سننا چاہو تو سنو کہ اگر اللہ تعالیٰ بجبر چاہتا۔ تو ان تیرے مخالف اور موافق لوگوں کو ایک گروہ ایماندار بنا دیتا اس کے ارادہ کو کوئی مانع نہیں ہوسکتا لیکن وہ قانون مجریہ سے جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے یعنی اس کی رحمت میں داخل ہونے کا جو قانون ہے اس کے مطابق جو چلتا ہے اس پر رحمت ہوتی ہے اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ ظالم ہے اپنی سزا بھگتے گا اور یاد رکھو ظالموں کا کوئی حامی اور کوئی مددگار نہ ہوگا۔ کیا ان کی بے عقلی میں بھی شبہ ہے؟ کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور لوگوں کو کارساز بنا رکھا ہے حالانکہ اللہ ہی کارساز ہے اس کے سوا نوشتہ تقدیر کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ وہی مردوں کو زندہ کرے گا (اس آیت میں ایک مشکل پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لو شاء ماضی کا صیغہ ہے اور لو جہاں آتا ہے اس کی جزا منفی ہوتی ہے اس کے منفی ہونے سے شرط کا منفی ہونا ثابت ہوتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کا مسلمان ہونا اللہ نے نہیں چاہا۔ بلکہ جن بعض کو رحمت سے حصہ دینا چاہا ان کو ایمان سے بہرہ ور کردیا۔ صوفیا نہ مذاق میں تو اس کا مطلب صحیح ہے جو کہا کرتے ہیں داد حق را قابلیت شرط نیست بلکہ شرط قابلیت داد اوست مگر متکلما نہ نظر میں یہ ترجیح بلا مرجج ہے جو شان عدل و انصاف سے بعید ہے۔ یہ ہے سوال کا خلاصہ۔ ْْجواب : متکلمانہ روش پر یہ ہے کہ مشیت الہی دو قسم پر ہے (١) ایک بالجبر (٢) دوسری قوانین قدرت کے ماتحت۔ قرآن مجید میں ان دونوں معنی کا استعمال آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : اتینا عیسیٰ ابن مریم البینت و ایدنہ بروح القدس ولو شاء اللہ ما اقتتل الذین من بعد ھم من بعد ما جآء تھم البینت و لکن اختلفو فمنھم من امن و منھم من کفر و لو شاء اللہ ما اقتتلوا و لکن اللہ یفعل ما یرید پ ٣ ع ١ ہم (اللہ) نے حضرت عیسیٰ کو کھلے نشان دیئے اور اس کو روح القدس کے ساتھ قوۃ دی اگر اللہ چاہتا تو ان (نبیوں) کے بعد والے لوگ دلائل بینات دیکھنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن وہ آپس میں مختلف الخیال ہوئے (اس لئے لڑے) تاہم اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے مگر اللہ جوارادہ کرتا ہے وہی کرتا ہے اس آیت کا فیہ ہدایت میں پہلے شاء سے ان کے اختلاف کو استدراک کیا ہے۔ دوسرے سے اپنے ارادے کو سابقہ لوگوں کی باہمی جنگ و جدل کو روکنے کے متعلق مشیت الٰہی کا منفی ہونا بتا کر اس جنگ و جدل کا سبب اس کا اختلاف بتایا ہے اس کے بعد مشیت الہی کی نفی کرکے ارادہ الہی کا ثبوت دیا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سابقہ لوگوں کی باہمی جنگ وجدل کا سبب ان کا باہمی اختلاف اور اس اختلاف پر ارادہ الہی علت موجدہ تھا۔ دنیا دارالاسباب ہے جب کسی چیز کی علت اور علت العلل پائی جائے تو معلول کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس لئے ان کی باہمی چپقلشیں ہوئیں باوجود اس کے ارشاد ہے کہ ”’ اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے“ کیوں اس لئے کہ وہ اپنے وسیع اختیارات میں تمام علل اور اسباب کے ہوتے ہوئے بھی معلول کو وجود میں آنے سے جبرا روک سکتا ہے پس ثابت ہوا کہ لو شاء میں مشیت الٰہی منفی بمعنی جبر ہے اسی طرح آیت زیر بحث کا مطلب ہے۔ یعنی ” اگر اللہ بالجبر مؤمن بنانا چاہتا تو سب کو ایک ہی امت مسلمہ بنا دیتا لیکن جس کو چاہتا ہے وہ رحمت میں داخل کرتا ہے۔ “ یہ دوسری مشیت ان معنی میں ہے جن میں پارہ ٣ کی آیت مرقومہ میں یرید آیا ہے یعنی بقانون مجریہ مشیت بلاجبر پس مطلب آیت کا صاف ہے کہ اللہ ایمان اور اسلام کے بارے میں کسی پر جبر نہیں کرتا اگر وہ جبر سے کام لیتا تو ان سب کو ایک دین (اسلام) پر جمع کردیتا۔ مگر اللہ جبر نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے۔ من شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر (یعنی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)۔ پس جو ایمان لانا چاہے گا اللہ اس کو قبول کرے گا اور جو کفر کرے گا اس کو مردود کرے گا۔ اللہ اعلم (منہ) اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ کر اس کے سوا دوسروں سے کسی چیز کی امید رکھنا حماقت نہیں تو کیا ہے ؟ سنو اور یاد رکھو جس جس کام میں تم لوگ اختلاف کر رہے ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کے قبضے میں ہے چونکہ وہ اپنی مخلوق کا خالق ہے اور اپنی قدرت کا عالم اس لئے اس کو معلوم ہے کہ باوجود میری قدرت کے میری مخلوق مجھ سے کس طرح منحرف ہے لہذا وہ مجرموں کو پوری پوری سزا دے گا (اے نبی ! تو کہہ) یہی اللہ میرا پروردگار ہے اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع ہوں میں تو اس کے سوا کسی اور کو اپنا کارساز نہ بنائوں گا کیونکہ وہ میرا پروردگار آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے دیکھو اسی نے تمہارے لئے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں نہ صرف بنائیں بلکہ بیوی کو خاوند کی محتاج اور خاوند کو بیوی کا حاجت مند بنایا اور دونوں میں محبت پیدا کی ہے تاکہ دونوں باہمی محبت اور سلوک سے رہیں یہ نہیں کہ انسان ہی کو جوڑے جوڑے بنایا بلکہ اور چارپایؤں کو بھی جوڑے جوڑے بنایا دیکھو وہی تم کو اس جہاں میں پیدا کر کے ادھر ادھر پھیلاتا ہے اتنا کچھ تو کرتا ہے مگر تعریف یہ ہے کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں پس اس کی صفات کمال کو سن کر یہ خیال مت کرو کہ وہ فلاں کاریگر یا فلاں مشین میں یا مشین میکر کی طرح ہوگا۔ نہیں حق یہ ہے کہ نہ تم اس کی ذات کو پہچان سکتے ہو نہ اس کی صفات کو قیاس کرسکتے ہو کیا تم نے مولانا روم مرحوم کا شعر نہیں سنا؟ ؎ دور بینان بارگاہ است جزازیں پے نبرداہ اندکہ ہست یعنی اللہ کی ذات وصفات کے سمندر میں بڑے بڑے پیراک عارفان اللہ بھی اس سے زیادہ نہیں جان سکے کہ ہے لیکن یہ بات کہ وہ کیسا ہے ان کو بھی پتہ نہیں ملا۔ پس تم بھی اس سے زیادہ نہیں سمجھ سکتے۔ کہ وہ ہے اور اس کی صفات میں سے خاص صفات سمع بصر ہیں جو وہ بھی بے کیف ہیں یعنی ماننے اور کہنے کے قابل صرف اتنی بات ہے کہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے وہ سب کے حالات سنتا اور دیکھتا ہے نہ صرف سنتا اور دیکھتا ہے بلکہ اختیار اس کے اتنے وسیع ہیں کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہوتا ہے سب اس کے قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے رزق فراخ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے (دنیا میں ہم قوانین الٰہیہ دو طرح کے پاتے ہیں ایک وہ ہیں جن میں ہمارا کوئی اختیار نہیں بلکہ ہم ان میں محض محکوم ہیں جن کے ماتحت ہماری حیوۃ موت مرض صحت وغیرہ بلکہ کل دنیا کا نظام ہے اس قسم کا نام ” قانون قدرت“ ہے دوسری قسم وہ قوانین ہیں جن پر عمل کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے جیسے افعال شرعیہ صوم صلوٰۃ اخلاق وغیرہ اس قسم کا نام ” قوانین شرعیہ“ ہے۔ پہلی قسم میں ہم انسان بلکہ جملہ مخلوق تابعدار ہیں تو دوسری میں مختار۔ اسی لئے دوسری قسم کے متعلق ارشاد ہے من شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر (جو چاہے مانے جو چاہے نہ مانے) ان دونو قسموں میں بہت امتیاز ہے ان میں بے امتیازی کرنے سے بہت غلطیاں پیدا ہوجاتی ہیں واللہ اعلم۔ (منہ) یہ مت سمجھو کہ وہ بے وجہ اور بے حکمت ایسا کردیتا ہے نہیں بلکہ باحکمت کرتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اس نے تمہارے جسمانی انتظامات کے علاوہ روحانی انتظام بغرض ہدایت یہ کر رکھا ہے کہ دنیا میں انبیاء کا سلسلہ قائم کیا ان کو بذریعہ وحی اپنے احکام سے اطلاع دیتا رہا گو وہ اپنے اپنے اوقات میں آئے اور مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں میں تعلیم دئیے گئے تاہم ان سب کا مدعا ایک ہی تھا۔ چنانچہ تمہارے لئے وہی دین الٰہی مقرر کیا ہے جس کی بابت نوح نبی کو ہدایت کی تھی اور جو بذریعہ وحی تمہاری طرف حکم بھیجا ہے وہ بھی تمہارا دین ہے اور جس کی ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو ہدایت کی تھی اس کا مختصر مضمون یہ ہے کہ دین الٰہی کو قائم رکھو اور اس میں متفرق نہ ہو۔ یعنی خود بھی اخلاص مندی سے عمل کرتے رہنا اور لوگوں کو بھی اخلاص فی العمل سکھانا ہر وقت اشاعت توحید وسنت میں لگے رہنا۔ کسی وقت غفلت نہ کرنا۔ نہ توحیدی مضامین میں اختلاف پیدا کر کے متفرق گروہ بننا۔ بس یہی تمام حکموں کی جڑ ہے۔ اس کو مضبوط پکڑے رہنا۔ تمہارا کوئی کام اس اصول سے باہر نہ ہو۔ کہ وہ تمہارا مولا ہے اور تم اس کے تابعدار غلام ہو۔ اس لئے ہر وقت دست پستہ حاضری کے سوا چارہ کیا؟ پس تم اسی خیال پر جمے رہو اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائو جس مطلب کی طرف تم لوگوں کو بلاتے ہو یعنی اللہ سے تعلق خاص پیدا کرنے کی طرف اگرچہ وہ تعلیم ان مشرکوں پر ناگوار اور سخت شاق ہے۔ وہ تو ایسی بات کو کام میں ڈالنا بھی نہیں چاہتے بلکہ سخت نفرت کرتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ انہی میں سے جس کو چاہے گا انتخاب کر کے اپنی طرف کھینچ لے گا اور اپنے کام میں لگا لے گا۔ اور جو اس کی طرف جھکیں گے ان کو اپنی طرف راستہ دکھائے گا مطلب یہ کہ جو لوگ ذرہ بھی دل میں اللہ کی محبت یا خوف کو جگہ دیں گے ان کو راہ نمائی کر دے گا اس کے بعد ان میں سے جس کو اپنی مشیت کے مطابق چاہے گا برگزیدہ کرے گا۔ یہی مضمون پہلی کتابوں میں پہلے لوگوں کو بتلایا گیا تھا کہ کل اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے مگر یہ موجودہ لوگ جو بعد آجانے پورے علم کے جدا جدا ہوئے ہیں تو محض آپس کی ضد اور حسد سے ہوئے ہیں اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک فیصلہ کا حکم نہ ہوچکا ہوتا یعنی علم الٰہی میں یہ مقدر نہ ہوتا کہ ان مخالفوں کے فیصلہ کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے۔ تو ان میں مدت کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی سچوں اور جھوٹوں میں امتیازی نشان کیا جاتا۔ مگر ایسا نہ کرنے میں مصلحت الٰہی ہے۔ تعجب اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان پہلے لوگوں کے بعد جو لوگ آسمانی اور الہامی کتاب کے وارث ہوئے وہی اس تعلیم سے جو اوپر مذکور ہوئی ہے سخت شک بلکہ انکار کر جاتے ہیں پس اے نبی تو اس حقانی تعلیم کی طرف لوگوں کو بلاتا رہیو اور جیسا تجھے حکم ہے۔ اس کام پر پختہ اور مضبوط رہیو اور ان مخالف لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریو اور اگر تیرے مخالف تجھ کو اپنی طرف بلائیں تو کہو میں اس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے اتاری ہے اور اس کے سوا میں کسی اور کو نہیں مانتا۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں کے اختلافات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا رب ہے اور ہمارے کام ہم کو اور تمہارے کام تم کو ہوں گے۔ اس لئے ہم میں اور تم میں تکرار کی کوئی وجہ نہیں جب ہم تم اس کے غلام ہیں اور وہ ہمارا مولا ہے تو پھر جھگڑا کیسا؟ اللہ ہم کو اور تم کو ایک جا جمع کرے گا وہیں ہمارے اختلافات کا فیصلہ ہوگا اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ گویا ہم اور تم ایک باپ کے بیٹے اور ایک دادا کی اولاد ہیں جو کچھ ہم میں اختلاف کی وجہ سے علیحدگی پیدا ہوگی ہے۔ وہ عارضی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب اختلافات کا فیصلہ کر دے گا اس فیصلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں اللہ کی الٰہی تسلیم ہونے کے بعد کٹ حجتیں نکالتے ہیں کبھی اس سے انکار کرتے ہیں کبھی اس کے شریک بناتے ہیں ان کی حجتیں اللہ کے پاس بالکل بودی ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے سنو ! تم مسلمانوں کو اس سے مطمئن رہنا چاہیے کہ الٰہی وعدے کس طرح پورے ہوں گے۔ کیونکہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے یہ کتاب سچی تعلیم کے ساتھ اتاری ہے اور اسی نے میزان عدل نازل کی ہے۔ (اس کی مثال آج کل کے مسلمانوں میں بھی ملتی ہے۔ جو قرآن مجید کی اصلی تعلیم توحید و سنت سے متنفر اور شرک و بدعت میں راغب۔ جب ان کو اصلی تعلیم سنائی جاتی ہے تو اعراض کر جاتے ہیں اور سنانے والے کو برے بھلے خطابوں سے یاد کرتے ہیں۔ ہماری اس توجیہ میں منہ کی ضمیر کا مرجع کہیں دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہی الکتاب ہے جو اور ثوا الکتٰب میں مذکور ہے۔ اس توجیہ میں ان کی تحقیر اور تذلیل زیادہ ہے (منہ) میزان عدل ہی ایسی چیز ہے کہ دنیا کو اخلاق حسنہ سے آراستہ پیراستہ کرسکتی ہے وہ کیا ہے سنو !{اِعْدِلُوا ھُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی} ہر کام میں عدل انصاف کیا کرو عدل ہی تم کو بہت جلد تقوی کی منزل کے قریب لے جائے گا پس یہ یقین رکھو کہ جس اللہ نے یہ کتاب اور یہ میزان اتارے ہیں وہی اس کی اشاعت کا ذمہ دار ہے تمہاری فکر سے کیا بنتا ہے اور کیا بنے گا تمہارا کام صرف یہ ہے کہ جو تم کو حکم ہوتا ہے کئے جائو اور اس فکر میں نہ لگو کہ کیا ہوگا اے نبی ! تو تو بالکل اس سے بے فکر رہ کر عبادت الٰہی میں لگا رہا کر تجھے کیا معلوم قیامت کی گھڑی شائد قریب ہو۔ جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے لئے جلدی کرتے ہیں شب وروز ان کا یہی تقاضا ہے۔ کہ کب ہوگی کب ہوگی یہ بھی نہیں کہ اس کے خوف سے بلکہ محض مخول سے ہاں جو لوگ اس کا یقین رکھتے ہیں وہ اس سے ہر حال ڈرتے رہتے ہیں اور دل سے جانتے ہیں کہ وہ ضرور ہوگی۔ سنو ! جو لوگ قیامت کی گھڑی میں شک کرتے ہیں وہ دورازحق گمراہی میں ہیں مگر اللہ بھی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ بہت سی خطائوں سے چشم پوشی کر کے جس کو چاہتا ہے فراخ رزق دیتا ہے اور وہ اپنی ذات خاص میں بڑا زور آور غالب ہے اے نبی ! ہمارا غلبہ قدرت بندوں کو مقہور اور مظلوم بنانے کے لئے نہیں بلکہ باقاعدہ اپنی قدرت کے ماتحت چلانے کو ہے الشورى
9 الشورى
10 الشورى
11 الشورى
12 الشورى
13 الشورى
14 الشورى
15 الشورى
16 الشورى
17 الشورى
18 الشورى
19 الشورى
20 (20۔24) سنو ! ہم اپنے ایک قاعدہ کا اعلان کرتے ہیں جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے یعنی ان کو یہی فکر ہے کہ میری دوسری زندگی درست ہوجائے اسی دھن میں لگا رہتا ہے ہم بھی اس کی کھیتی میں برکت دیتے ہیں یعنی اس کو توفیق دیتے ہیں کہ وہ اعمال صالحہ کرے اور جو کوئی صرف دنیا کی کھیتی یعنی دنیوی فوائد چاہتے ہیں ہم ان کو بھی اپنی مشیت کے مطابق جتنا چاہتے ہیں دے دیتے ہیں مگر آخرت کی زندگی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ غرض اس سخت ضرورت کے وقت وہ بے نصیب رہے گا۔ ان لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ جو کام بوقت ضرورت کام آئے وہ اچھا ہے یا جو اکارت جائے وہ اچھا؟ کون دانا پچھلی بات کہے گا؟ پھر جو یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے شریک اللہ کی سلطنت میں واقعی شریک ہیں ؟ جنہوں نے ان کو دین میں ایسے کاموں کی اجازت دے رکھی ہے جن کی بابت اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اللہ تو فرمائے توحید اختیار کرو۔ یہ اس کے برعکس شرک اختیار کریں اللہ فرمائے نیک اعمال کرو۔ یہ اس کے برعکس بداعمال کریں۔ اگر فیصلہ کا حکم پہلے صادر نہ ہوا ہوتا کہ حقیقی فیصلہ قیامت کے روز ہوگا تو اسی دنیا میں ان کے درمیان فیصلہ کیا جاتا مطیعوں اور مجرموں میں امتیازی نشان لگا یا جاتا۔ گو فیصلہ کا دن ابھی دور ہے۔ لیکن فیصلہ کا طریق ابھی بتلائے دیتے ہیں کہ نیک کار موحد اللہ کے ہاں مقبول ہوں گے اور نااللہ ترس ظالموں کو سخت دکھ کا عذاب ہوگا۔ اے دیکھنے والے تو اس وقت دیکھے گا کہ ظالم لوگ اپنے کئے ہوئے بداعمال کے بدلے کو دیکھ کر دور سے ڈریں گے اور اس سے بچنا چاہیں گے لیکن بچ نہ سکیں گے اور وہ عذاب ان پر ضرور آن پڑے گا۔ نہ کہیں بھاگ سکیں گے نہ چھپ سکیں گے جب تک اللہ کے ہاں سے رہائی کا حکم نہ ہوگا اسی میں مبتلا رہیں گے اور جن لوگوں نے ایمان لا کر نیک کام کئے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کے باغوں میں ہوں گے ان باغوں میں جو وہ چاہیں گے ان کو ان کے رب کی طرف سے ملے گا یہی تو اللہ کا بڑا فضل ہے جسے ملے وہ اپنے آپ کو خوس قسمت جانے یہی نعمت ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار نیکوکار بندوں کو خوش خبری دیتا ہے مگر یہ لوگ ایسے ضدی ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں الٹے مخالفت پر اڑے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان کو کہہ میں تو تم کو محض نیک نیتی اور تمہاری اصلاح کی غرض سے تم کو تبلیغ کرتا ہوں ورنہ میں اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا جو مانگوں وہ اپنے پاس رکھو مگر میرے ساتھ رشتہ داری کے تعلقات اور قرابت کی محبت کا تو لحاظ رکھا کرو بالکل اغیار اعدا نہ بن جائو سنو ! میرا بھیجنے والا فرماتا ہے جو کوئی نیکی کا کام کرے گا۔ ہم (اللہ) اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھائیں گے یعنی اس کی نیکی بعض دفعہ اور نیکی کا سبب بن جاتی ہے اور اس کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا قبول کرنے والا ہے وہ کسی کی نیکی خواہ ذرے جتنی ہو ضائع نہیں کرتا اس کی رحمت کے امیدوار رہنا چاہیے۔ (بعض لوگوں خصوصا شیعہ گروہ نے اس آیت کے معنی سمجھنے میں بہت غلطی کھائی ہے کہتے ہیں مودۃ فی القربی سے مراد ہے آل نبی کی محبت۔ یعنی رسول اللہ کو ارشاد ہے کہ تو ان کافروں کو کہہ دے کہ میں تم سے اور کچھ نہیں مانگتا صرف یہ مانگتا ہوں کہ میری قرابت داروں (اولاد) سے محبت کیا کرو۔ محبت اہل بیت کا مسئلہ الگ رکھا جائے (کیونکہ) اس میں اختلاف نہیں اور اس آیت موصوفہ کو بقاعدہ عربی اور باصطلاح قرآن مجید دیکھا جائے تو مطلب بالکل صاف ہے القربی مصدر ہے بمعنی قرابت اسی لئے اس پر ذو اور ذا مضاف کی صورت میں آتے ہیں چنانچہ ارشاد ہے اٰت ذا القربی حقہ (قرابت داروں کو ان کے حقوق دیا کرو) اس قربی کے استعمال میں مامور کی قرابت کا ضرور لحاظ ہوتا ہے۔ مثلا یہ جو حکم ہے کہ آت ذا القربی حقہ اس میں قرابت سے مراد وہی قرابت ہے جس کا تعلق مخاطب سے ہے۔ ایسی قرابت مراد نہیں ہوسکتی جس سے مخاطب بالکل بے تعلق ہو۔ مثلا ہم اپنی زبان میں بطور و عظ کہیں۔ مسلمانو ! قرابتداروں کے حقوق ادا کیا کرو۔ تو مراد اس سے یہی ہوگی کہ مخاطبو ! اپنے قرابتداروں سے سلوک کیا کرو۔ یہ نہیں کہ واعظ کے قرابتداروں کے حقوق ادا کرو۔ ایسا کہنا قطع نظر خود غرضی کے کچھ موزون بھی نہیں۔ پس معنی آیت موصوفہ کے وہی صحیح ہیں جو ہم نے تفسیر میں کئے ہیں ان معنی کی تائید دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ جس میں کفار کی مذمت ان لفظوں میں کی گئی ہے۔ لا یرقبون فی مؤمن الا و لا ذمۃ (پ۔ ع ٨) یہ کفار مؤمن کے حق میں نہ رشتہ کا لحاظ کرتے ہیں نہ وعدہ کا۔ ایسے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ میں تم کفار سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا۔ ہاں اتنا تو ضرور کہتا ہوں کہ اور کچھ نہیں میرے اور اپنے رشتہ کے تعلق کا لحاظ تو ضرور رکھو۔ ان معنی سے الا المودۃ مستثنیٰ منقطع ہی ہوگا جیسے ان معنی سے یہی منقطع ہے۔ اللہ اعلم (منہ) کیا ان لوگوں کو دیکھ کر بھی کوئی کہہ سکتا ہے؟ کہ یہ بھی اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں جو رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے الٹے کہتے ہیں اس نے نبوت کا دعوی کر کے اللہ پر افترا لگایا ہے جو کہتا ہے میں رسول ہوں حالانکہ رسول نہیں سو ایسی صورت میں اگر اللہ چاہے تو اے نبی ! تیرے دل پر مہر لگا دے اور جو کچھ تو نے از خود بنایا ہو اس باطل کو بالکل مٹا دے ایسا کہ اس کا نام ونشان نہ چھوڑے مگر ایسا تو جب کرے کہ واقعی تو نے افترا کیا ہو اور اللہ کے ذمہ جھوٹ لگا یا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے قدرتی احکام کے زور سے حق کو ثابت رکھا کرتا ہے کوئی شخص کتنا ہی بنے مگر اس سے کسی کی اصلیت مخفی نہیں کیونکہ وہ سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے لہذا اس سے کسی کا کھوٹ اور اخلاص چھپ نہیں سکتا اور وہی ذات پاک ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی برائیاں معاف کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ ازراہ اخلاص توبہ کرتے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو خوب جانتا ہے تمہارے اعمال کا نتیجہ تم کو پورا دے گا الشورى
21 الشورى
22 الشورى
23 الشورى
24 الشورى
25 (25۔38) اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک اعمال کرتے ہیں اللہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے اعمال صالحہ کے اندازہ سے بھی ان کو زیادہ محض اپنے فضل سے دیتا ہے کیونکہ ان میں اخلاص علیٰ وجہ الکمال ہوتا ہے یہ اسی اخلاص کا نتیجہ ہے اور کافروں کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ اللہ سے تعلق نیاز نہیں رکھتے اسی کی ان کو سز املے گی۔ بغور دیکھو تو انسان عجیب خصلت کا بھوت ہے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر رزق کی تنگی ڈالی جائے تو بس گھبراتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی وقت اپنے بندوں پر رزق فراخ کر دے تو زمین میں بغاوت کردیں۔ یقینا جانو کہ اللہ کے پاس تو سب کچھ ہے مگر وہ اندازہ کے ساتھ جس قدر چاہتا ہے نازل کرتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کے حال سے خبردار اور نگران حال ہے اسی لئے تو اس نے اپنے بندوں کے رزق کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ وہی اللہ ہے جو لوگوں کو مایوسی کے بعد بارش اتارتا ہے جب لوگ بے امید ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موسم بارش ختم ہوگیا اب خرات مائیہ معدوم ہوگئے تو اس وقت اللہ اپنی رحمت بشکل پانی پھیلاتا ہے جس سے دنیا آباد اور شاداب ہوجاتی ہے۔ انسانوں اور حیوانوں کی غذا بنتی ہے کیونکہ وہی اللہ اپنی سب مخلوق کا والی کارساز ہے۔ ان کی حاجتوں کو جانتا ہے اس لئے وہ ان کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتا ہے یہ لوگ اگر اس کی ولایت اور مالکیت سے منہ پھیرے ہوئے ہیں تو اس سے اس کا کوئی نقصان نہیں وہ بذاب خود محمود اور تعریفات کا مستحق ہے اور سنو ! گو اس کا اقرار دلوں میں مرکوز ہے اور دنیا میں کوئی بھی اس کا منکر نہیں ہوسکتا۔ جو ہے اس کا بھی دل اقراری ہے۔ جیسا کہ کسی نیک دل شاعر نے کہا ہے مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ چاہا تیرا دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے بر نہ آیا تیرا تاہم بطور مزید تشفی کے اظہار ہے کہ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا ہے اور جو کسی قسم کے جاندار ان میں اس نے پھیلائے ہیں یہ سب اس کی قدرت اور ہستی کے گواہ اور ثبوت ہیں بلکہ زمین کی انگوریاں اور سبز درخت اور درختوں کا ایک ایک پتہ بھی اس کی کمال قدرت کا اظہار کر رہا ہے کیا تم نے ایک بزرگ کا قول نہیں سنا جو کہہ گیا ہے ؎ برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار اس کی قدرت یہیں پر ختم نہیں بلکہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور جب چاہے گا بعد موت بھی ان کو جمع کرلے گا۔ اس کے قبضہ تامہ کا ذکر اور سنو ! جو کچھ تکلیف پہنچتی ہے خواہ از قسم بدنی ہو یا از قسم روحانی یہ سب تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے کبھی تو شرعی اعمال میں تم سے غلطی ہوتی ہے کبھی قدرتی قانون کا تم خلاف کرتے ہو۔ مثلا شراب خواری اور زناکاری دو فعل ہیں دونوں شرعی گناہ ہیں مگر ساتھ ہی اس کے قدرتی قانون کی خلاف ورزی بھی ہے اس لئے اس جرم پر دو قسم کی سزائیں ہوتی ہیں شرعی اور قدرتی۔ شرعی سزا تو وہ ہے جو حاکم وقت کی طرف سے ملے یا آخرت میں ملے گی۔ قدرتی سزا یہ ہے کہ اس بدپرہیزی سے آتشک ہوجاتا ہے یا جگر وغیرہ اعضاء رئیسہ خراب ہوجاتے ہیں۔ یہ تکلیف قدرتی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اس کا دینے والا کوئی دنیاوی قانون یا بادشاہ نہیں جو بے خبری یا عدم ثبوت کی وجہ سے سزا نہ دے سکے بلکہ قانون قدرت ہے جو ہر چیز کے اندر حکمران ہے اس لئے وہ اپنا حکم فورا جاری کرتا ہے اور اللہ کی مہربانی دیکھو کہ وہ تمہارے بہت سے قصور جو تم خلاف شریعت اور قانون قدرت کی خلاف ورزی میں کرتے ہو معاف بھی کردیتا ہے۔ یعنی بعض ایسی بے اعتدالیاں بھی تم سے ہوجاتی ہیں جن کی تلافی کا سامان اس نے محض اپنی قدرت سے مہیا کر رکھا ہے تاہم تم لوگ اس کے ہو کر نہیں رہتے۔ بلکہ اس کے قوانین کی مخالفت کرتے ہو۔ اور اس مخالفت میں سمجھتے ہو کہ اللہ کی مقرر کردہ سزا سے بچے رہو گے ہرگز نہیں کیونکہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو کہ وہ تمہیں پکڑ نا چاہے اور پکڑ نہ سکے اور نہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے اور نہ حمائتی جو تم کو اس کے عذاب سے بچائے پس بہتر ہے کہ تم لوگ اسی کے ہو کر رہو ورنہ پھر خیر نہیں اور سنو ! ٹیلوں جیسے بلند بڑے بڑے جہاز جو باوجود اپنی بلندی کے پانی پر صاف تیرتے ہیں یہ سب اسی اللہ کی قدرت کے نشانات میں سے نشان ہیں دیکھو اللہ ہی نے لکڑی کو ایسا بنایا کہ وہ پانی پر تیر سکے پانی کو ایسا بنایا کہ وہ لکڑی کو اٹھائے لوہے کو ایسا بنایا کہ لکڑی کا وزن ٹھیک رکھے سب سے بالاتر ہوا کو ایسا بنایا کہ تمام کو دھکیل کرلے جائے۔ یہ مت سمجھو کہ یہ چیزیں اپنا فعل کرنے میں خود مختار ہیں۔ نہیں اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا لے پھر وہ جہازات اور کشتیاں سمندر میں کھڑی رہ جائیں بے شک اس واقعہ میں بڑے نشان ہیں صابروں اور شکرگذاروں کے لئے۔ جہازوں پر سیر کرنے والوں کو کبھی تکلیف اور کبھی راحت ہوتی رہتی ہے۔ تکلیف پر صبر کرنا اور راحت پر شکر کرنا ایک مذہبی فرض ہے بے شک ہر صابر وشاکر کے لئے اس واقعہ میں قدرت کے بڑے نشان ہیں وہ اپنی دونوں حالتوں میں اللہ کی طرف جھکتے ہیں اور دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کو سب قدرت ہے ان جہازوں کو پار اتارے یا چاہے تو ان لوگوں کے اعمال بد کی وجہ سے ان کو غرق کر دے وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اور چاہے تو بہت سے گناہوں سے درگذر کرے ایسے حال میں اس کی قدرت کا کرشمہ خوب ظاہر ہو اور جو لوگ ہمارے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ اگر مواخذہ کرے تو ان کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ الٰہی احکام کا مقابلہ انسان اس لئے بھی کرتا ہے کہ اس کے پاس مال ودولت کافی ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ اللہ کا حکم مانوں پس ایسے لوگوں کو سنا دو کہ جو کچھ تم کو ملا ہے جس پر تم اتراتے ہو۔ یہ صرف دنیا کی زندگی کا سامان ہے اس کی مثال ایسی سمجھو کہ سفر میں چند آدمی جا رہے ہیں کوئی ریل پر ہے کوئی گھوڑا گاڑی پر‘ کوئی موٹر پر‘ کوئی بیل گاری پر‘ کوئی پیدل‘ مگر منزل مقصود پر پہنچ کر سب برابر ہوتے ہیں اسی طرح مختلف مراتب کے انسان اس سطح دنیا پر تو امتیاز رکھتے ہیں یہ امتیازات سب موت کے کنارہ تک ہیں اس کے بعد حیثیت انسانیہ میں سب برابر اور اعمال میں مختلف اس وقت جان لیں گے کہ جو نیک کاموں کا بدلہ اللہ کے پاس ہے وہ بہت اچھا اور بہت دیر پا ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ پر ایمان لائے اور اپنے ہر کام میں اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے اچھا بدلہ ہے جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے رہتے ہیں یہ تو ان کا مذہبی پہلو ہوتا ہے اور اخلاقی پہلو اس کا یہ ہے کہ جب وہ کسی ذاتی کام میں کسی شخص پر خفا ہوتے ہیں۔ تو اللہ کے خوف سے فورا بخش دیتے ہیں یہ نہیں کہ سالہا سال تک اس رنج کو لئے جائیں پشتہا پشت ختم ہوجائیں مگر رنج دور نہ ہو اور ان لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں اجر دائمی اور نیک ہے جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم رکھتے یعنی باجماعت پڑھتے ہیں اور ان کی ذاتی خصوصا قومی بالخصوص سیاسی کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انسان عقل کل نہیں اس لئے خود رائی سے کام کرنے میں غلطی کا ہونا بہت اقرب اور آسان ہے بہ نسبت مشورہ کے اسی لئے یہ لوگ مشورہ سے کام کرتے ہیں۔ گو یہ کام ان کا دنیاوی ہوتا ہم چونکہ ماتحت حکم شرعی کے کرتے ہیں اس لئے اجر کے مستحق ہوتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہتے ہیں یعنی وہ دیتے ہوئے اس خیال کو مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ مال جو ہم دیتے ہیں بلکہ وہ بھی جو اس دینے کے بعد ہمارے پاس رہا ہے۔ یہ سب اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس لئے انکو اس کا دینا ناگوار نہیں ہوتا۔ مسئلہ خلافت : مسلمانوں کے دوگروہوں (سنی شیعوں) میں یہ ایک مسئلہ عرصہ سے دیرینہ متنازع چلا آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفاء ثلاثہ راشدین تھے یا غاصبین۔ سنی فرقے کل انکو راشد یعنی مستحق خلافت جانتے ہیں اور شیعہ ان کو غاصب کہتے ہیں۔ بغور دیکھا جائے تو یہ اختلاف در حقیقت ایک اصولی اختلاف پر مبنی ہے یعنی نصب خلیفہ کا طریق کیا ہے شیعہ کہتے ہیں نصب خلیفہ کا طریق نص ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود خلیفہ مقرر کریں اور ان کے بعد ان کا خلیفہ اپنا جانشین مقرر کرے علی ہذا القیاس۔ چونکہ (بقول شیعہ) آنحضرت نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کردیا تھا۔ پس وہ خلیفہ ہوئے۔ اور جنہوں نے ان کو خلافت سے ہٹا کر قبضہ کیا وہ غاصب ٹھیرے اہل سنت کہتے ہیں کہ انتخاب کا طریق وہی ہے جو اس آیت میں مذکور ہے فرمان الٰہی ہے کہ مسلمانوں کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں یعنی مشورے سے ہونے چاہئیں امرھم شوری بینھم مطلب اس آیت کا عام ہے جس کی طرف ہم نے تفسیر میں اشارہ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو سیاسیات میں جمہوریت اور مشورہ سے کام کرنا سکھایا ہے۔ جو مطلب آیت کا اہل سنت بتاتے ہیں خوشی کا موقع ہے کہ یہی مطلب فریقین کے مسلمہ برزگ خود حضرت علی (رض) نے بتایا ہے چنانچہ حضرت ممد وح کے الفاظ ہم پر برویت شیعہ نقل کرتے ہیں۔ ناظرین اس سے اندازہ لگا سکیں گے کہ مسئلہ خلافت عرصہ سے طے شدہ ہے جس کی تفصیل بعد حوالہ مذکور ہم کریں گے۔ حضرت امیر المؤمنین علی (رض) کے خطبے اور خطوط ایک کتاب کی صورت میں جمع کئے ہوئے ہیں جس کا نام نہج البلاغت ہے۔ یہ کتاب شیعہ گروہ کے نزدیک قرآن نہیں تو عزت میں کم بھی نہیں اس کتاب میں ایک خط ممدوح کا ہے جو دراصل نصب خلیفہ کے لئے ایک اصول ہے حضرت موصوف نے اپنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلافت حقہ منوانے کے لئے امیر معاویہ کو ایک خط استدلالی صورت میں لکھا جس کے الفاظ یہ ہیں۔ انہ با یعنی القوم الذین بایعوا ابابکرو عمرو عثمان علی ما بایعو ھم علیہ فلم یکن للشاھدان یختارو لا للغائب ان یردو انما الشوری للمھا جرین و الانصار فان اجتمعوا علی رجل و سمو اماما کان ذلک رضی فان خرج من امرھم خارج بطعن اوبدعۃ ردوہ الی ما خرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیر سبیل المئومنین و دلاہ اللہ ما تولی رنھج البلاغت حصہ (١) ص ٧ تحقیق مجہہ سے ان لوگوں نے بیعت کی ہے جنہوں نے ابوبکر عمر اور عثمان سے بیعت کی تھی اسی شرط پر کی ہے جس شرط پر ان کے ساتھ کی تھی پس نہ حاضر کو اب برخلاف رائے دینے کا حق ہے (غیر حاضر کو رد کرنے کی اجازت ہے سوائے اس کے کوئی بات نہیں کہ شوری و اگزیکٹو کونسل) مہاجرین اور انصار کی ہے پس اگر وہ کسی شخص پر جمع ہو کر اس کا نام امام و خلیفہ) رکھیں تو اللہ کے ہاں وہی پسندیدہ ہوگا۔ اگر کوئی بطورطعن یا بدعت کی وجہ سے ان (ممبران شوری) کے فیصلہ سے نکل جائے تو وہ ممبران شوری (یا اگر کٹو کونسل کے ارکان) اس کو مجبور کرکے اسی حال میں واپس کریں گے جس سے وہ نکلا ہے اگر وہ اس میں آنے سے انکار کرے تو وہ اس سے لڑیں گے کیونکہ اس نے غیر مومنین کا راستہ اختیار کیا اور جدھر گمراہی کی طرف وہ پھرا اللہ اس کو اسی طرف پھیرے گا۔ “ اس خط میں جو شوری مہاجرین کا ذکر ہے وہ اسی آیت کے ماتحت ہے جس میں مسلمانوں کا طریق کار بتایا ہے امر ھم شوری بینھم پس یہ آیت اور یہ روایت مسئلہ خلافت کا صاف لفظوں میں فیصلہ کرتی ہے کہ خلیفہ کا نصب و عزل ممبران شوری کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ اصول یہی ہے کہ جس کسی کو مجلس شوری اپناخلیفہ بنا دے وہی خلیفہ راشد ہے اور خلفائے اربعہ کو شوری نے خلیفہ بنایا۔ لہٰذا وہ خلیفہ راشد تھے۔ الحمد للہ (منہ) قرآن مجید کے پارہ۔ ٤ رکوع ٥ میں ارشاد ہے اعدت للمتقین الذین ینفقون فی السراء و الضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین ” یعنی جنت ان متقیوں کے لئے ہے جو آسانی اور تنگی ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچتے ہیں اور غصہ دبا جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور اللہ ایسے نیک کاروں کو محبت کرتا ہے “ اس آیت میں معاف کرنے والوں کو مقام مدح میں ذکر فرمایا اور متقین کی ذیل میں لا کر ان کو متقین کا فرد قرار دیا۔ اور آیت زیر تفسیر میں بدلہ لینے والوں کو یہی مقام مدح میں درج کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے بدلہ لینا بھی قابل تعریف ہے۔ ان دونوں آیات میں تطبیق یہ ہے کہ بعض مواقع پر بدلہ لینا بھی اچھا ہوتا ہے۔ شیخ سعدی مرحوم جو فلسفہ اخلاق کے اعلی معلم ہیں اعلی اخلاق کی یہ تعلیم دیتے ہیں بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا ”(یعنی برائی کا برا بدلہ لینا آسان کام ہے اگر تو بہادر ہے تو برائی کرنے واے سے نیکی کر) باوجود اس اخلاقی تعلیم کے ان کے وسیع تجربہ نے ان کو اس کہنے پر بھی مجبور کیا ؎ نکوئی با بداں کر دن چنان ست کہ بدکر دن بجائے نیک مرداں ”( یعنی برے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اتنا جرم ہے۔ جتنا نیکوں کے ساتھ برائی کرنا) “ ان دو مختلف تعلیموں کی کیا وجہ؟ یہ کہ دنیا میں مخالفت دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک صحیح واقعہ سے۔ فریقین شریر نہیں مگر ایک فریق سے کوئی کام ایسا ہوگیا ہے جس سے دوسرے فریق کو رنج سے عداوت تک نوبت پہنچی ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی اس کوشش میں ہو کہ میری طرف سے اس کی صفائی ہوجائے جس کی صورت یہ ہے۔ کہ اس کی برائی کے بدلہ میں نیکی کرے تو اس دوسرے فریق کو یہی خیال ہوگا کہ میں غلطی پر ہوں یہ شخص دل سے میرا دشمن نہیں ہے یا کم سے کم اس کی شرافت اس کو اس کے ساتھ شرارت کرنے سے مانع ہوگی۔ یہ تو ہے قسم اول۔ دوسری قسم کی دشمنی ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے جو ذاتی طور پر بد اطوار اور شریر ہوتے ہیں جن کی شان میں یہ اخلاقی شعر موزوں ہے نیش عقرب نہ ازپئے کینست مقتضائے طبیعتش انیست ایسے دشمنوں سے سلوک و مروت کرنے سے ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ مجھ سے دب کر ایسا کرتا ہے اس لئے اس کو اور دبانا چاہیے ایسے لوگوں کے حق میں شیخ مرحوم نے کہا ہے ؎ نکوئی بابداں کردن چناں ست کہ بد کر دن بجائے نیک مرداں ہاں قرآن مجید کی غرض چونکہ اصلاح خلق اور امن و امان قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اس لئے اس نے اتنی سختی نہیں کی جتنی شیخ مرحوم نے کی۔ کہ بدوں کے ساتھ نیکی کرنے کو سخت گناہ قرار دیا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی ایذا رسانی کا بدلہ لینا بھی جائز۔ بلکہ بعض اوقات میں بہتر ہوتا ہے۔ تاہم معافی کو ہاتھ سے نہیں دیا۔ ُبلکہ ساتھ ہی فرمایا۔ فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ :: یہی قرآن مجید کی خوبی ہے کہ میزان عدل اور میزان رحم بلکہ میزان انتظام انسب کی نگہبانی کرتا ہے۔ اور کتابوں کی طرح ایک ہی طرف کو نہیں جہک جاتا۔ جیسا انجیل میں لکھا ہے : ” تم سن چکے ہو کہ کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر تمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔“ (انجیل متی۔ باب ٥۔ کی آیت ٣٩) اس انجیلی حکم میں مقابلہ کرنا یا بدلہ لینا حرام کیا گیا ہے مگر انسانی فطرت اور سیاست مملکت جس امر کی مقتضی ہے وہ یورپ کی جنگ عظیم سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اگر اس پر عمل ہوتا تو جنگ کی نوبت ہی نہ آتی تو جو فریق ایک مقام دوسرے کا لیتا۔ دوسرا اس کا مقابلہ نہ کرتا۔ بلکہ اور ایک مقام اس کے حوالے کردیتا اسی طرح چند روز میں جنگ کا خاتمہ ہوجاتا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا۔ ؟ ظالم اور اس کی فوج ہی دنیا پر حکمران ہوتے : مگر قرآن مجید ایسی تعلیم کا روادار نہیں جو سیاست ملکی اور فطرت انسانی کے خلاف ہو۔ بلکہ انسانی فطرت کے مطابق اور نظام عالم کے موافق حکم دے کر اپنے پیروان کو ظالموں سے حفاظت کراتا اور اپنے اتباع کو معراج ترقی پر پہونچاتا ہے سچ ہے کیا جانے اس میں کیا ہے جو لوٹے ہے اسپہ جی یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسیں نہیں؟ (منہ) الشورى
26 الشورى
27 الشورى
28 الشورى
29 الشورى
30 الشورى
31 الشورى
32 الشورى
33 الشورى
34 الشورى
35 الشورى
36 الشورى
37 الشورى
38 الشورى
39 (39۔48) اور سنو ! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندہ بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو کوئی جتنا چاہے ظلم کرے وہ سر نہ اٹھائے نہ بدلہ لے یہ اس کا خیال غلط ہے اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اللہ کے نیک بندے ہیں کہ جب ان پر کسی کی طرف سے ظلم وستم ہوتا ہے تو بغرض دفع ظلم اور قیام امن بدلہ لے لیتے ہیں مگر نہ اتنا بدلہ کہ ان کی طبیعت ان کو بتلا دے بلکہ شرعی انداز سے جو یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی جتنا ہے زیادہ نہیں۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ معاف کرنا اعلیٰ درجہ ہے اس لئے ہم اس کا اعلان کرتے ہیں کہ جو کوئی باوجود مظلوم ہونے کے معاف کر دے اور معافی کے ذریعہ بگاڑ کی اصلاح کرے تو اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے اس معافی کے عوض وہ اس کو معاف فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔ اور جو لوگ بجائے کسی کو معاف کرنے کے الٹے ظلم کرتے ہیں یقینا جانو کہ وہ اللہ ان ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں پرورش اور بات ہے۔ محبت اور بات۔ ہاں جو اپنی مظلومی کے بعد جائز طور سے بدلہ لیں تو ان لوگوں پر الزام نہیں ہوگا کہ انہوں نے ظلم یا ناجائز کام کیا۔ البتہ الزام ان لوگوں پر ہے جو بے وجہ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کسی کو لوٹ کسی کو مار کسی کو قتل کسی پر جبر کسی کی ہتک کسی کو گالی۔ انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ باوجود اجازت بدلہ کے جو کوئی صبر کرے اور مجرم کو بخش دے تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے مگر جس کو اللہ سمجھ دے وہی اس راز کو پا سکتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی اس حکمت کی سمجھ نہ دے اس کے لئے اس خدا کے سوا کوئی بھی یارو مددگار نہیں جو اس کی مدد کرسکے۔ اے دیکھنے والے یہ ظالم جب عذاب الٰہی دیکھیں گے تو تو ان ظالموں کو دیکھے گا اس وقت کہتے ہوں گے۔ کیا اس عذاب سے نکل کر دنیا کی طرف لوٹنے کی کوئی راہ ہے جواب ملے گا نہیں۔ اور جب دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو تو ان کو ذلت میں خوف زدہ دیکھے گا۔ ایسے سہمیے ہوں گے کہ کسی کی طرف دیکھیں گے تو نیچی نگاہ سے دیکھیں گے جو ان کی کمال ذلت کی علامت ہوگی ان کے مقابلہ میں جو لوگ ایماندار صالح بندے ہوں گے وہ زور سے کہیں گے کہ خسارہ والے بدنصیب وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو آج قیامت کے دن خسارہ میں ڈالا کیونکہ انہوں نے ایسے کام نہ کئے جو آج ان کو کام آتے۔ فرشتے کہیں گے سنو لوگو ! یہ ظالم لوگ ضرور دائمی عذاب میں پھنسے رہیں گے اللہ کے سوا جن لوگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا جانتے تھے اس روز اللہ کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا جو ان کی مدد کرے اور سچ تو یہ ہے کہ جس کو اللہ ہی گمراہ کر دے یعنی اپنی جناب سے درکا دے اس کے لئے بہتری کی کوئی صورت نہیں مگر اللہ رحیم کسی بندے کو یونہی نہیں درکاتا یا گمراہ کرتا بلکہ ایسے لوگوں کی شرارتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ ایسی شرارتوں کی وجہ سے اللہ جسے گمراہ کرے تو اس کی ہدایت کے لئے کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ ہو کہاں سے جبکہ خیروبرکت کے سارے راستے اللہ کے قبضے میں ہیں جو اس کی خفگی کی وجہ سے بند ہوگئے اب خیر آئے تو کہاں سے آئے۔ اس لئے تم کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اپنے رب کی تعلیم (قرآن مجید) کو مانو اس سے پہلے کہ وہ قیامت کا دن آئے جو اللہ کی طرف سے ہٹنے والا نہیں۔ اس روز تمہارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہ ہوگی اور نہ تمہاری حالت کو کوئی برا سمجھنے والا اور حمایت کرنے والا ہوگا۔ غرض اس روز تم سب لوگ بالکل بے چارے اور بےیارومددگار ہو گے۔ تمہاری کوئی بھی حفاظت یا حمایت کرنے والا نہ ہوگا۔ یہ سن کر پھر بھی اگر یہ لوگ روگردان ہوں اور پرواہ نہ کریں تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ ہم نے تجھے ان پر ذمہ دار داروغہ بناکر نہیں بھیجا کہ ان کی بے فرمانیوں کی جواب دہی تجھ پر ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ تیرے ذمہ صرف پہنچانا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا۔ ہم انسان کی طبیعت اور اس کی عادات کو خوب جانتے ہیں اس کی طبعی عادت ہے کہ جب ہم (اللہ) انسان کو اپنی رحمت سے مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتا ہے اور بڑے مزے لیتا ہے اور جب ان کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ انسان پچھلے سارے احسانوں کو ایک دم بھول کر بڑا ناشکرا ہوجاتا ہے کس قدر اس کی ناشکری اور کس قدر احسان فراموشی ہے ایسے انسان کے حال پر افسوس ہے اتنا بھی نہیں سوچتا کہ میں کس سے بگاڑتا ہوں۔ اس مالک شہنشاہ سے جس کی حکومت کی کوئی حد نہیں۔ الشورى
40 الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 الشورى
48 الشورى
49 (49۔53) تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اسی اکیلے اللہ کے قبضے میں ہے وہی رات دن میں تصرف کرتا ہے نہ صرف رات دن بلکہ تمام مخلوقات میں اسی کا تصرف ہے وہی جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں دونوں ہی ملے جلے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد بانجھ کردیتا ہے یہ سب کچھ اس کے علم اور قدرت سے ہوتا ہے بے شک وہ بڑے علم والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ مخلوق چاہے کیسے ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ جائے تاہم وہ اللہ کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتی بلکہ یوں کہئے کہ بالمشافہ خطاب کے بھی لائق نہیں اسی لئے کوئی آدمی اس قابل نہیں کہ اللہ اس کے ساتھ بالمشافہ کلام کرے مگر براہ راست بلا واسطہ القاء اور الہام سے یا پس پردہ کہ وہ انسان کسی کلام کو تو اپنے کانوں سے سنے۔ مگر متکلم کو نہ دیکھ سکے یا تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ کو قاصد بنا کر بھیجے پھر وہ فرشتہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے اس بشر رسول کی طرف وحی پہنچا دے یعنی جبرئیل فرشتہ اللہ کی طرف سے وحی لے کر بحکم اللہ نبیوں تک پہنچاتا رہا ہے عام طریق رسالت یہی ہے۔ بس یہ تین صورتیں ہیں جن سے اللہ کسی انسان کو وحی اور الہام یا القا کرتا ہے۔ خواب میں کسی امر کا کھل جانا پہلی قسم میں داخل ہے۔ اس کے سوا یہ خیال کہ کوئی بشر اللہ سے بالمشافہ ہم کلام ہوسکے محال ہے۔ بے شک وہ اللہ بہت بلند درجہ ہے اس کی کبریائی شان اس سے بے پردہ ہم کلامی سے مانع ہے اور حکیم ہے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے جسے کوئی شخص پورا پورا نہیں پا سکتا۔ اس لئے جو کچھ تمہیں بتایا جاتا ہے اس پر ایمان لائو اور سنے سنے وہمات میں نہ پڑو۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ تیری طرف (اے نبی !) کون سی قسم سے وحی آتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح یعنی اس تقسیم کو ملحوظ رکھ کر ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے روح یعنی روحانی زندگی بخشنے والی کتاب بذریعہ روح الامین جبرئیل کے بھیجی ہے ورنہ اس سے پہلے تو نہ جانتا تھا کتاب کیا ہوتی ہے نہ ایمان کی تفصیل جانتا تھا گو تجھے اللہ پر ایمان تھا اور شرک سے تجھے پیدائشی نفرت تھی مگر اس کی تفصیل کا علم نہ تھا نہ یہ معلوم تھا کہ آسمانی کتاب کس طرح کی ہوتی ہے لیکن ہم نے اس کو تیرے سینے میں نور بنایا جس سے تو دنیا کو نورانی کر رہا ہے اس نور کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں گے ہدایت سے بہرہ یاب کریں گے اور جس کو اس کی بدروش سے چاہیں گے محروم کردیں گے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ تو سب کو سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے یعنی اس اللہ کے قرب کی راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں جس کی ملک ہیں سب اسی کا ہے سنو ! لوگو ! اللہ کی مالکیت صرف یہی نہیں کہ وہ مالک ہے اور دنیا کے مالکوں کی طرح اپنی ملکیت سے غافل اور بے خبر ہے نہیں نہیں بلکہ دنیا کے تمام امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں یعنی سب واقعات کا وہی علت اور علت العلل ہے اس کے حکم اور اذن کے بغیر کوئی چیز وجود پذیر یا وجود میں آکر فنا نہیں ہوسکتی۔ اَللّٰھُمَّ یا مُسَبِّبَ الْاَسْبَابِ سَبِّبْ لَنَا وَھَبِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا الشورى
50 الشورى
51 الشورى
52 الشورى
53 الشورى
0 الزخرف
1 (1۔23) میں رحمن رحیم ہوں مجھے اس واضح آسمانی کتاب کی قسم ہے ہم (اللہ) ہی نے اس کتاب کو عربی قرآن کی صورت میں بنایا ہے جس سے غرض ہماری ذاتی نہیں بلکہ تمہاری غرض ہے تاکہ تم اسے سمجھو اور مطلب پائو اس لئے کہ اگر یہ آسمانی کتاب کسی اور غیرعربی زبان میں ہوتی۔ تو تم عذر کرتے لو جی اچھی کتاب ہے جو مخاطبوں کی زبان میں نہیں۔ پھر ہم سمجھیں کیا اور اس سے پائیں کیا۔ اس لئے اس کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اس کے مخاطبین میں سے اول طبقہ اس کو سمجھ کر دوسروں کو سمجھا سکے دوسروں کو جس زبان میں سمجھائو گے (لو جعلنہ قرانا اعجمیا لقالوا لولا فصلت ایاتہ اعجمی وعربی الایۃ کی طرف اشارہ ہے۔ (منہ) قرآن میں تبدیلی نہ آئے گی کیونکہ قرآن تو ایسی کتاب ہے جو لفظوں اور زبانوں کے تغیرات سے متغیر نہیں ہوتی کیونکہ وہ قرآن ہمارے پاس ام الکتاب کی صفت میں بڑا بلند قدر اور باحکمت کتاب ہے۔ (ام الکتٰب مرکب لفظ ہے الکتب کے معنی تو کتاب کے ہیں اور ام کے معنی اصل یا جڑ جس سے کتاب پیدا ہوئی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں کتابیں اور نوشتے مع لوح محفوظ کے جتنے بھی ہیں ان سب کا ماخذ کچھ ہے یا یہ ازخود ہیں۔ کچھ شک کہ ان سب کا ماخذ علم الٰہی ہے۔ قرآن مجید خود بتلاتا ہے لا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء (لوگ اسی قدر علم حاصل کرسکتے ہیں جس قدر اللہ چاہے) تو سب علوم کا ماخذ یا بالفاظ دیگر ام الکتب علم الٰہی ہے اس کے علاوہ لدی اور عند میں بھی جو فرق ہے قابل غور ہے وہ فرق یہ ہے کہ لدی خاص قرب کے لئے ہوتا ہے اور عند عام ہے الفرق انہ یقال المال عند زید فیما یحضر عندہ و فیما فی خزائنہ وان کان غائبا عنہ و لا یقال المال لدی زید الا فیما یحضر عندہ (شرح جامی بحث ظروف) جب کہ قرآن مجید میں لدی ہے جو عند سے مخصوص قرب کے لئے ہے تو اللہ کے ساتھ سب چیزوں سے قرب اس کی صفات ہیں جن میں ایک صفت علم ہے۔ لہٰذا ام الکتاب سے مراد علم الٰہی ہے۔ اللہ اعلم (منہ) ہماری صفت علم اور حکمت سے بھرپور ہو کر دنیا میں آیا ہے تو پھر ہم ایسی باحکمت نصیحت کو تم لوگوں سے ہٹا لیں اس وجہ سے کہ تم ایک بیہودہ لوگ اس کی باحکمت نصائح سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ہو تمہای اس غفلت سے ہم اپنی رحمت کو نہیں روکیں گے۔ تم اپنا کام کئے جائو ہم اپنا کام کئے جائیں گے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ کئی ایک نبی ہم نے پہلی قوموں میں بھیجے جب کوئی کبھی نبی آیا وہ لوگ اس سے مخول اور استہزا کرتے رہے پھر ہم نے ان میں سے بڑے زور آور اور حملہ کن لوگوں کو پہلے ہلاک کیا ان کے بعد اور لوگوں کا بھی صفایا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو ہلاک ہوئے اور پچھلے لوگوں میں پہلے لوگوں کے افسانے چل پڑے بطور حکایات کے لوگ بیان کیا کرتے کہ فلاں شہر میں فلاں قوم تھی جس کا یہ حال تھا اور ان کا یہ انجام ہوا ان مکہ والوں کو بھی ہم ایسا کردیں مگر ہمارے علم میں ہے کہ ان کی نسلوں سے اسلام کے خادم پیدا ہوں گے کیونکہ ان کے دلوں میں بھی ہنوز کچھ تھوڑی سی چمک باقی ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ اگر تو ان کو پوچھے کہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کئے ہیں ؟ تو فورا کہہ دیں گے کہ اللہ بڑے غالب علم والے نے ان کو پیدا کیا ہے پھر ان سے کہیو کہ جس عزیز علیم کو تم آسمان وزمین کا خالق مانتے ہو وہی ہے جس نے تم لوگوں کیلئے زمین کو گہوارہ کی طرح بنایا جس میں تم لوگ ادھر ادھر جھومتے پھرتے ہو۔ جیسا بچہ گہوارہ میں جھومتا ہے اور تمہارے چلنے پھرنے کے لئے اس زمین میں قدرتی راستے بنائے تاکہ تم منزل مقصود کی طرف ہدایت پائو مگر تم لوگ اس کی کسی مہربانی کا شکر نہیں ادا کرتے وہی اندازہ کے ساتھ اوپر سے پانی اتار رہا ہے پھر اس کے ساتھ وہ خشک مقام کو تازہ کردیتا ہے۔ یہ تو رات دن تمہارے دیکھنے میں آتا ہے بقاعدہ علم برہان اس معلوم سے اس مجہول پر پہنچو جو ہم میں اور تم میں متنازعہ ہے وہ یہ ہے کہ اسی طرح تم لوگ قبروں سے نکالے جائو گے اور سنو ! جس اللہ کی طرف تم لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور جس اللہ کی توحید تم لوگ روگردان ہوتے ہو وہی ہے جس نے ہر قسم کی چیزیں پیدا کیں اور تمہارے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم لوگ سوار ہوتے ہو۔ تم کو چاہیے کہ جب تم ان پر سوار ہونے لگو تو ان کی پیٹھ پر اچھی طرح بیٹھ کر اپنے پروردگار کی اس نعمت کو دل سے یاد کرو اور زبان سے کہو کہ ہمارا اللہ سب عیبوں سے پاک ہے جس نے یہ طاقتور جانور ہمارے قابو میں کر رکھا ہے اور ہم اس پر سوار ہوتے ہیں ورنہ ہم تو اس کے قریب بھی نہ جاسکتے اور اس مہربانی کا شکریہ یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہیں اللہ ہم کو توفیق دے کہ ہم اس رجوع میں پختہ رہیں یہ لوگ اگر ایسا کرتے تو اللہ کی نعمت کے قدردان ہوتے مگر انہوں نے ایسا نہیں بلکہ اسی شرک وکفر میں پھنسے رہے جس میں ان کے بڑے پھنسے ہوئے تھے اور مزید ان لوگوں نے یہ کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے اس کے جزء بنائے یعنی فرشتوں کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی اولاد (لڑکیاں) ہیں چونکہ اولاد والد کا جزء ہوتا ہے اس سے لازم آیا کہ فرشتے ان کے نزدیک اللہ کے جزء ہیں معاذ اللہ بے شک انسان بڑا ہی کھلا ناشکرا ہے دیکھتا نہیں کہ میں کیا کرتا ہوں سنتا نہیں میں کیا کہتا ہوں بھلا اللہ نے اپنے لئے لڑکیاں پسند کیں اور تمہارے لئے لڑکے ؟ افسوس ہے پھر تو اللہ کے حصے میں بڑی کمی رہی حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو اللہ کے حق میں بیان کرتا ہے یعنی جب گھر سے خبر آتی ہے کہ لڑکی پیدا ہوئی تو مارے غصے کے اس کا منہ کالا ہوجاتا ہے اور وہ خود غم اور غصے میں بھر جاتا ہے۔ کیا وہ بیٹی جو زیور میں نشونما پاتی ہے اور مقابلہ کی گفتگو میں بوجہ خلقی کمزوری کے اچھی طرح بیان نہیں کرسکتی وہ تو اللہ کے لئے اور بیٹے تمہارے لئے ہاہا ! کیسی ان کی الٹی عقل ہے کہ فرشتوں کو جو اللہ رحمن کے نیک بندے ہیں لڑکیاں بتاتے ہیں کوئی پوچھے کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت وہاں حاضر تھے ؟ نہیں نہیں۔ پس یاد رکھیں ان کا یہ بیان لکھا جائے گا اور ان کو پوچھا جائے کہ اس دعوی کا ثبوت تمہارے پاس کیا تھا اور سنو ! یہ لوگ اپنی بےدینی کے عذر میں کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان معبودوں کی عبادت نہ کرتے مطلب ان کا یہ ہے کہ ہمارے فعل پر اللہ راضی ہے حالانکہ اس بات کا ان کو کوئی علم نہیں صرف اٹکلیں مارتے ہیں۔ ثبوت کے دو طریق ہیں یا تو خود حاضر ہوں یا کسی کتاب میں صحیح واقعہ پڑہیں کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جس سے یہ لوگ دلیل پکڑتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ نہ کوئی کتاب دی ہے نہ عینی شہادت ہے بلکہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس سے زیادہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ الزخرف
2 الزخرف
3 الزخرف
4 الزخرف
5 الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 الزخرف
10 الزخرف
11 الزخرف
12 الزخرف
13 الزخرف
14 الزخرف
15 الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 الزخرف
20 الزخرف
21 الزخرف
22 الزخرف
23 (23۔25) اے رسول ! اسی طرح ہم (اللہ) نے تجھ سے پہلے جس کسی بستی میں کوئی سمجھانے والا بھیجا تو اس بستی کے آسودہ حال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان کے قدم بقدم چلیں گے سرمو ادہر ادھر نہ ہوں گے۔ اس پر ان کو اس پیغمبر نے کہا کیا تم اپنے باپ دادا کے طریق ہی پر چلو گے اگرچہ میں تم کو اس طریق سے جس طریق پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے بہت اچھا اور سیدھا راستہ تم کو بتلائوں اس کا جواب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم سیدھے راستے کو قبول کریں گے مگر یہ تو وہ کہے جسے سچے مذہب کی ضرورت اور خواہش ہو چونکہ ان کو حق کی تلاش نہ تھی اس لئے انہوں نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ تم نبی جس دین کو لے کر آئے ہو ہم تو سرے سے اس کے منکر ہیں تمہاری کسی بات کو ہم نہیں مانیں گے چاہے تم کتنا ہی سر کھپائو۔ بس پھر کیا تھا ہم نے ان سے منصفانہ بدلہ لیا پس تو دیکھ ان مکذبوں کا انجام کیسا ہوا الزخرف
24 الزخرف
25 الزخرف
26 (26۔30) ان لوگوں کے سمجھانے کو اور تمہاری تسلی کو ہم حضرت ابراہیم علہف السلام کا وہ واقعہ سناتے ہیں جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو کہا تھا کہ میں تمہارے سارے معبودوں سے جن کی تم عبادت کرتے ہو بیزار ہوں سو وہی مجھے ہدایت کرے گا۔ اللہ نے ابراہیم کے استقلال پر اس کی مدد کی اور اس کے اس کلمہ کو جو اس نے مشرکوں کے سامنے کہا تھا اس کے پیچھے پختہ اور مضبوط کیا۔ مضبوطی کی صورت یہ تھی کہ اس کی تائید میں انبیاء اور اولیاء بھیجے جنہوں نے دنیا کو دین ابراہیمی کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ توحید کی تعلیم صحیح ہے اور شرک غلط۔ یہ سب کچھ اس لئے کہا تاکہ وہ لوگ دین حق کی طرف رجوع کریں۔ مگر میں (اللہ) نے جو ان موجودہ مشرکوں کو اور ان کے باپ دادا کو رسایا بسایا۔ یہاں تک کہ بذریعہ قرآن مجید ان کے پاس سچی تعلیم اور صاف صاف سمجھانے والا رسول آگیا اس کے آنے پر چاہیے تھا کہ یہ لوگ ہدایت قبول کرتے مگر انہوں نے ایسانہ کیا اور جب ان کے پاس حق کی تعلیم آئی تو انہوں نے بجائے اس کو قبول کرنے کے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس سے منکر ہیں حالانکہ جادو کا اس میں ایک حرف نہیں تھا مگر اس کی پرزور تاثیر کو یہ لوگ جادو کہنے لگے اور گمراہ ہوگئے الزخرف
27 الزخرف
28 الزخرف
29 الزخرف
30 الزخرف
31 (31۔35) اور سنو ! جب ان لوگوں کی کوئی بات نہیں چلتی تو کہتے ہیں کہ ان دو شہروں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہیں اترا۔ اترا تو ایک غریب آدمی پر۔ کیونکہ ان کے نزدیک بڑائی چھٹائی کثرت دولت مال پر ہے۔ حالانکہ مال ایک بے اعتماد چیز ہے۔ آج یہاں ہے تو کل وہاں باوجود اس کے ان سے پوچھنا چاہیے کیا پروردگار کی رحمت کو یہ لوگ بانٹتے ہیں کیا بارش‘ رزق‘ اولاد‘ مال وغیرہ جو دنیا میں قدرتی طور پر تقسیم ہوتا ہے ان کے حکم یا مشورے سے ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ ہم (اللہ) بذات خود اس دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت زندگی کے سامان ان کے درمیان تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجہ میں بلندی بخشی ہے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کر کام لے اور دنیا کا انتظام چلتا رہے اور حقیقت الامر یہ ہے کہ دنیا کا مال ومتاع کوئی اصل مقصود چیز نہیں بلکہ تمہارے رب کی رحمت بہت اچھی ہے ان سب چیزوں سے جو دنیا کے لوگ جمع کرتے ہیں۔ مال بھی اگر اس رحمت کے حاصل کرنے میں مؤید ہے تو بہتر ہے۔ ورنہ ہیچ۔ علم بھی اگر رحمت الٰہی کے حصول میں کام نہیں دیتا تو لغو ہے غرض جو چیز رحمت الٰہی کے حاصل کرنے میں مدد دے وہی کار آمد ہے۔ وگر ہیچ۔ ان لوگوں کو مال ودولت پر جو گھمنڈ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے (یعنی اللہ کے) ہاں تو اس دنیا کی ذرہ بھی عزت نہیں۔ اور اگر یہ خیال مانع نہ ہوتا کہ سارے لوگ جو سادہ لوح ہیں اور دنیاوی مال ومتاع ہی کو نیکی اور بدی میں مابہ الامتیاز جانتے ہیں جن کے نزدیک یہی اصول ہے کہ جو اس دنیا میں مال ودولت کی وجہ سے راضی ہے وہ دوسری دنیا میں بھی راضی ہوگا۔ ایسے لوگوں کی نسبت یہ خیال نہ ہوتا کہ یہ سب ایک ہی گروہ کے کافر ہوجائیں گے تو جو لوگ اللہ رحمن کی آیات سے منکر ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی سونے کی بنا دیتے اور چھتوں پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی چاندی سونے کی جن پر وہ چڑھا کرتے اور اس کے علاوہ ان کے گھروں کے کواڑ اور بیٹھنے کے تخت بھی جن پر وہ بیٹھتے ہیں چاندی سونے کے بنا دیتے (زخرفا بنزع خافضو عطف ہے۔ فضۃ پر اسی لحاظ سے ترجمہ میں ” سونے“ کا لفظ چاندی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ فافہم۔) کیونکہ ان چیزوں کی اللہ کے نزدیک کچھ بھی حقیقت نہیں یہ تو صرف دنیا کی زندگی کا چند روزہ گذارہ ہے۔ جس طرح ریل گاڑی میں کوئی اول درجہ میں کوئی دوسرے میں بیٹھا ہے تو کوئی تیسرے میں۔ غرض سب کی یہ ہے کہ منزل کی مسافت طے ہوجائے اصل عزت وہ ہے جو منزل مقصود پر پہنچ کر حاصل ہو پس سن رکھو اصل عزت وہی ہے جو آخرت یعنی قیامت میں ہوگی اور آخرت تیرے پروردگار کے پاس خاص پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ کیونکہ وہ دارالجزا ہے وہاں تو کمائی کا بدلہ ملے گا۔ اس میں کسی دوسرے کو دخل شرکت نہیں۔ متقی (پرہیزگار) کون ہوتے ہیں بحکم تعرف الاشیاء باضدادھا متقی کی ضد تم کو بتاتے ہیں اسی سے متقی کی پہچان تم کو ہوجائے گی الزخرف
32 الزخرف
33 الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 (36۔45) پس سنو ! جو کوئی مالک الملک اللہ رحمن رحیم کے ذکر سے غافل ہو کر زندگی گذارتا ہے۔ ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ ہر دم اس کا ساتھی رہتا ہے۔ قانون فطرت ہے کہ جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسری طرف رخ کرتا ہے اس کو صحبتی بھی برے لوگ ملتے ہیں اور وہ شیاطین بتوسط ان کے ہم نشینوں کے ان پر حاوی ہوتے ہیں کہ ان کو سیدھے رستے پر چلنے سے روکتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ سیدھے رستے پر جا رہے ہیں۔ یہ ان کا ملاپ اور ملاقات مرنے تک رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ یعنی بے ذکر اللہ زندگی گزارنے والا بعد موت ہمارے پاس آئے گا تو اس شیطانی ملاپ کا نتیجہ دیکھ کر کہے گا اے کاش مجھ میں اور تجھ شیطان میرے ساتھی میں مشرق‘ مغرب جتنا فاصلہ ہوتا میں تیرا منہ بھی نہ دیکھتا۔ کیونکہ تو بہت برا ساتھی ہے وہ کہے گا کہ اب کہنے سے کیا فائدہ ؟ آئو ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ بفحوائے ہمراہ یاراں دوزخ۔ ہمراہ یاراں بہشت کو‘ جس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے سہتے رہے تھے اس عذاب میں بھی اکٹھے رہیں تاکہ دکھ کا احساس کم ہو جواب ملے گا۔ کیا خواب دیکھ رہے ہو ! سنو تم سخت عذاب میں رہو گے اور چونکہ تم لوگ ظالم ہو اس لئے عذاب میں تمہارا شریک رہنا تم کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ یہ یکجائی تم کو کچھ مفید نہ ہوگی یہ لوگ ہیں متقیوں کے خلاف پس تم سمجھ گئے ہو گے کہ متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ذکر کو اپنی زندگی کا اصلی مقصد جانتے ہیں جنکا اصول زندگی یہ ہے پس از صد سال ایں معنی محقق شد بخاقانی کہ یکدم بااللہ بودن بہ از ملک سلیمانی باوجود ان وعیدوں اور تہدیدوں کے یہ لوگ جو کچھ نہیں سمجھتے تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیا تو ( اے نبی) بہروں کو سنا سکتا ہے یا اندھوں اور کھلی گمراہی میں رہنے والوں کو ہدایت کرسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ان میں تو ان باتوں کی حس ہی نہیں یہ تو اپنے خیالات میں ایسے محو ہیں کہ الامان ان کو کچھ سوجھتا ہی نہیں یہی سوجھتا ہے اور یہی کہتے ہیں کہ یہ محمد (ﷺ) چند روزہ ہے آخر مر جائے گا تو کوئی اسے جانے گا بھی نہیں حالانکہ ان کو اصل حقیقت کا علم نہیں کہ ان کا اصلی تعلق تو ہمارے ساتھ ہے بھلا اگر ہم تجھے بقضاء موت دنیا سے لے جائیں تو ان کو اس سے کچھ فائدہ ہوگا؟ نہیں۔ کیونکہ ہم ان سے ان کی بدکاری کا بدلہ لیں گے۔ دنیا میں تیرے رہنے یا دنیا سے چلے جانے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ برابر ہے تو (اے نبی) زندہ رہے یا دار آخرت کو انتقال کرے اگر تیری زندگی ہی میں موعودہ عذاب ہم ان کو دکھا دیں تو ہم اس پر بھی قادر ہیں۔ غرض یہ کہ اس کام میں براہ راست ان کا تعلق ہم سے ہے تجھ سے نہیں۔ پس تو ان کی باتوں کی طرف کان مت لگا بلکہ جو کلام تیری طرف بذریعہ وحی کے بھیجا گیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہ اس میں شک نہیں کہ تو سیدھی راہ پر ہے اور یہ لوگ گمراہی میں ہیں (ہمارے ملک پنجاب میں مرزا صاحب قادیانی نے جو دعویٰ نبوۃ کے ساتھ الہای پیشگوئیاں کی تھیں جو سب یا اکثر جھوٹی ہوئیں تو انہوں نے اور ان کے اتباع نے ایسی آیات کے استدلال پر یہ کہنا شروع کیا کہ پیشگوئی کا صدق ملہم کی زندگی ہی میں ہونا ضروری نہیں۔ اس کی زندگی کے بعد بھی یہی سچی ہوسکتی ہیں۔ اس کا جواب : یہ دیا گیا کہ جو پیشگوئی عام ہو اس میں تو ملہم کی زندگی سے تعلق نہ سہی مگر جو پیشگوئی ملہم کی زندگی سے تعلق رکھتی ہوں وہ تو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی لازمی ہیں۔ ْثلا مرزا صاحب (ملہم) نے کہا کہ میں وحی الٰہی سے کہتا ہوں کہ فلاں عورت سے میرا نکاح ہوجائے گا۔ اگر یہ نکاح نہ ہو تو ہر عقلمند اس کو غلط کہے گا۔ اسی طرح فلاں شخص میری زندگی میں مرے گا۔ اگر وہ نہ مرا بلکہ خود مر گئے تو اس پیشگوئی کے غلط ہونے میں کون کلام کرے گا۔ ہم تو مزرا صاحب کی اس قسم کی پیشگوئیاں بھی بہت دیکھتے ہیں۔ جن کا ذکر ہمارے رسالہ الہامات مزرا“ میں مفصل ہے۔ منہ) اور وہ کلام جو تیری طرف بذریعہ وحی کے بھیجا گیا ہے تیرے ہی لئے مخصوص نہیں بلکہ وہ تیرے لئے نصیحت ہے اور تیری قوم کے سارے لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے اور تم سب سے اس کی بابت سوال ہوگا اور ان لوگوں کو جو اس تعلیم سے نفرت اور شرک وکفر سے رغبت ہے کیا یہ تعلیم کوئی نئی ہے اس امر کی تحقیق کے لئے تو ان رسولوں سے پوچھ جن کو ہم نے تجھ سے پہلے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا۔ یعنی ان کی کتابوں میں دیکھ اور ان کو دکھا کہ ہم نے ( اپنی ذات) رحمن کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کی بھی اجازت دی تھی؟ ہرگز نہیں۔ جس حال میں کسی رسول مقبول کو بھی عبادت میں حصہ نہیں ہے۔ تو اور کسی کو کیا ہوگا اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کے لئے ایک مشہور قصہ سنو ! اور نصیحت پائو الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 الزخرف
41 الزخرف
42 الزخرف
43 الزخرف
44 الزخرف
45 الزخرف
46 (46۔56) تحقیق ہم (اللہ) نے حضرت موسیٰ کو کھلے کھلے نشان دے کر فرعون اور اس کے درباری امراء کی طرف بھیجا تاکہ ان کو گمراہی میں راہ نجات دکھائے تو اس حضرت موسیٰ نے ان کے پاس پہنچ کر حسب ضابطہ پہلے اپنی حیثیت بتلانے کو کہا کہ میں رب العالمین اللہ کی طرف سے رسول پیغام رساں ہو کر آیا ہوں۔ تم لوگ میری سنو ! تاکہ تم گمراہی سے ہدایت میں آجائو۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اس دعویٰ پر کوئی ثبوت پیش کرو۔ پھر جب وہ موسیٰ ان کے پاس ہمارے (اللہ کے) نشان لایا اور واضح طور سے ان کو دکھائے تو وہ اسی وقت ان نشانوں کی ہنسی اڑانے لگے یوں کہنے لگے لو جی یہ بھی معجزہ ہے کہ لکڑی کا سانپ بن گیا۔ واہ کیا کہتے ہیں ؟ ایسے کرشمے بھی کوئی معجزہ ہیں یہ تو سب جادو گر کرسکتے ہیں غرض یہ کہ وہ ہنستے رہے اور ہم (اللہ) جو نشان ان کو دکھاتے تھے وہ پہلے نشان سے بڑا ہوتا تھا اور ہم نے ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا تاکہ وہ رجوع کریں مگر وہ بجائے رجوع کرنے کے الٹے اکڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ کو بطور تکبر اور مخول کے مخاطب کر کے کہا اے جادوگر جو تیرے پروردگار نے تیرے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے وہ ہمارے لئے اس سے مانگ یعنی اس نے جو کہا ہوا ہے کہ اگر فرعونی توبہ کریں گے تو میں ان سے عذاب ہٹا دوں گا۔ اب ہم توبہ کرتے ہیں تو ہم سے عذاب ہٹوا دے ہم تیری تعلیم کے مطابق ہدایت پائیں گے پھر جب ہم نے ان سے عذاب دور کیا وہ فورا عہد شکنی کرتے رہے۔ یہ حالت تو ان کی عام تھی خاص فرعون کا یہ حال تھا کہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں میں منادی کرا کر سب کو جمع کیا اور کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم جو موسیٰ کی طرف جھکتے جا رہے ہو اور میرے مقابلہ میں اس کی عزت سمجھتے ہو۔ کیا اتنا بڑا ملک مصر میرا مقبوضہ نہیں ہے اور یہ دریا میرے محلوں کے نیچے بادب وتعظیم چل رہے ہیں کیا تم ان باتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اصل حال دیکھتے نہیں کہ میرے مقابلہ پر کسی اور کی وقعت تمہارے دل میں کیوں آتی ہے کیا تم اس بات کو نہیں جان سکتے کہ میں جو ان سب چیزوں کا مالک ہوں اچھا ہوں یا یہ شخص (موسٰی) جو ایک ذلیل آدمی ہے اور بوجہ لکنت زبان کے گفتگو بھی ٹھیک نہیں کرسکتا۔ اس کی بیر کچھ عزت ہوتی تو میری طرح اس کو بھی نازونعمت حاصل ہوتیں۔ بھلا پھر سونے چاندی کے کنگن اس کو کیوں نہیں ملے۔ دیکھو تو ہندوستان کے راجائوں کی طرح میرے ہاتھوں میں ڈبل کنگن ہیں یا اگر وہ ان چیزوں کو اپنی دینداری کے گھمنڈ میں ہم سگان دنیا کا حصہ جانتا ہے تو فرشتوں کی جماعت جمع ہو کر اس کے ساتھ آئی ہوتی جو لوگوں کو اس کی طرف بلاتی یہ کیا بے ڈھب بات ہے کہ کہلائے تو اللہ کا رسول اور حالت یہ ہو کہ نہ اوڑھنے کو نہ بچھونے کو محض ایک فقیر قلاش نہ سواری ہے نہ اردلی۔ نہ فوج ہے نہ پولیس۔ کیا ایسا شخص اللہ کا رسول ہونا چاہیے جو نان شبینہ کا بھی محتاج ہو۔ پس فرعون نے ایسی باتیں کر کے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا پھر وہ سارے اس کے تابع ہوگئے۔ کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے جونہی کوئی ان کو برائی کی طرف رغبت دلاتا وہ اسی طرف راغب ہوجاتے پھر جب انہوں نے اپنی بداعمالی سے ہم کو سخت رنجیدہ ہی کیا تو ہم نے ان سے بدلہ لیا ایسا بدلہ جس کو بدلہ کہا جائے پس ہم نے فرعون اور اس کے خاص الخاص مشیروں اور فوجی افسروں کو جو اس کے ساتھ حضرت موسیٰ کے تعاقب میں دریا تک گئے تھے۔ ان سب کو اسی دریا میں غرق کردیا۔ جس کو وہ اپنا مسخر کہا کرتا تھا۔ پس ہم نے ان کو گیا گزرا کردیا۔ اور پچھلوں کے لئے مثال بنایا کہ وہ ان کی حالت پر غور کر کے ہدایت پائیں چنانچہ آج تک بھی ان فرعونیوں کا قصہ بطور عبرت ونصیحت کے بیان کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے یہ سمجھ کر نصیحت پاتے ہیں کہ ایسے ایسے منکروں کا انجام ایسا برا ہوا مگر مثال اور واقعات سے بھی ہر کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ بعض لوگ الٹے الجھنے لگ جاتے ہیں الزخرف
47 الزخرف
48 الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 الزخرف
52 الزخرف
53 الزخرف
54 الزخرف
55 الزخرف
56 الزخرف
57 (57۔79) چنانچہ یہ تیرے مخاطب شرفاء مکہ کی یہی حالت ہے کہ جب کبھی ان کو کوئی تاریخی واقعہ بھی سنایا جاتا ہے تو روگردانی کر جاتے ہیں اور ان کی ضد اور تعصب یہاں تک ترقی کر گئے ہیں کہ جب کبھی حضرت عیسیٰ ابن مریم ( جو بڑا بزرگ مقبول اللہ‘ نبی اور رسول تھا) کا بطور ہادی اور راہنما کے ذکر کیا جاتا ہے یعنی جب کبھی اس کا ذکر صلحاء کی جماعت میں باعزازواکرام کیا جاتا ہے۔ تو تیری قوم کے لوگ عرب کے بت پرست اس سے روگردانی کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا یہ مسیح اچھا ہے۔ چونکہ یہودیوں سے حضرت مسیح کی بدگوئی سن سنا کر حضرت ممدوح کی شان میں بدظن ہیں اس لئے اپنے معبودوں کو مسیح سے افضل جانتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعا جھگڑالو ہیں اس لئے ان کو کسی حق ناحق بات سے واسطہ نہیں یہ تو محض مذاق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اب ہم اصل حقیقت سناتے ہیں کہ یہودیوں کی بدگوئی بالکل بے بنیاد اور غلط ہے وہ مسیح تو ہمارا (اللہ کا) ایک صالح بندہ تھا۔ جس پر ہم (اللہ) نے بہت سے انعام کئے تھے۔ نبوت دی۔ رسالت بخشی معجزات دئیے بہت سے لوگوں پر فضیلت دی۔ دشمنوں سے بچایا۔ وغیرہ اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے رہنما اور ہادی بنایا۔ مگر بنی اسرائیل میں سے یہودی گروہ نے اپنی شومی قسمت سے اس کو نہ مانا تو مسیح کے فیض تعلیم سے محروم رہے یہ تو گفتگو ہوئی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بعد کی اور ان کی زندگی کا حال بھی سننا چاہو تو ایک واقعہ سنو ! کہ جب حضرت عیسیٰ کھلے احکام لائے اور لوگوں کو سنائے تو انہوں نے کہا میں تم لوگوں کے پاس روحانی حکمت لایا ہوں جس حکمت سے تم اپنے خالق کو پہچان کر اس سے رشتہ تعلق بنا اور نباہ سکو اور میں اس لئے آیا ہوں کہ بعض باتیں جن میں تم لوگ باہمی اختلاف کرتے ہو۔ وہ تم لوگوں کو پوری طرح سمجھا دوں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ تاکہ تم اس روحانی حکمت سے بہرہ ور ہوجائو سنو اور دل سے یقین کرو کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس تم اسی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا اور کسی کی مت کرو یہی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک تم کو پہنچائے گا۔ اس پر چلو اور ادھر ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو یہ تعلیم آج تک انجیل میں ملتی ہے حضرت مسیح کا قول انجیل یوحنا میں یوں نقل ہے۔ ” ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلا سچا اللہ اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ (فقرہ۔ ٣) “ اس عبادت کا مطلب صاف ہے کہ نجات اخروی او نہیں لوگوں کو نصیب ہوگی جو اللہ کی کامل توحید اور مسیح اور دیگر رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھتا ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ناقلین کلام مسیح نے اس فقرے کو مختصر نقل کیا ہے اصل مفصل وہی ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے اللہ اعلم (منہ) باوجود اس کے پھر بھی وہ جماعتیں آپس میں مختلف ہوگئیں۔ بعض تو حضرت مسیح کی تعلیم پر جمے رہے اور بعض نے وہی شرکیہ اعتقادات اور کفریہ رسومات اختیار کرلیں جن کو اصطلاح شرع میں سخت ظلم سے موسوم کیا جاتا ہے پس ایسے ظالموں کے لئے دردناک عذاب کی وجہ سے افسوس ہے کہ وہ ان پر سخت مصیبت ہوگی۔ مگر ان لوگوں کی طبیعت ایسی کچھ اللہ سے ہٹ گئی ہے کہ کسی شرعی امر کو شرعی دلیل سے سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ کسی امر کا انتظار نہیں کرتے مگر اس امر کا کہ قیامت کی گھڑی ناگہاں ان پر آجائے ایسے حال میں کہ یہ لوگ بالکل بے خبر ہوں ان کی گفتگوں کی روش یہی جتلا رہی ہے کہ بس اب یہ قیامت کی گھڑی کے منتظر ہیں اور کوئی بات ان کو اثر نہیں کرتی اصل یہ ہے کہ ان کو ایک غلط گھمنڈ دل میں جاگزین ہے کہ ہم بڑے بڑے تعلقات والے ہیں اس لئے ان کو ابھی سے بتلایا جاتا ہے کہ دنیاوی تعلقدار اور دوست سب کے سب اس قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ کیونکہ ان کو یاد آجائے گا کہ اس نے مجھ سے فلاں برا کام کرایا تھا اس نے مجھے فلاں نیک کام سے روکا تھا۔ اس لئے وہ بجائے محبت کے عداوت کرنے پر تل جائیں گے مگر پرہیزگار صلحا کی جماعت جن کے تعلقات محض رضاء اللہ کے لئے تھے وہ ایسے ہوں گے بلکہ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد اور محب ہوں گے۔ ان لوگوں کو جو متقی ہوں گے اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے آپس میں محبت کئے ہوں گے کہا جائے گا اے اللہ کے بندو ! جس حال میں کہ آج سب لوگ بے چین اور مصیبت میں ہیں تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ تم لوگ کسی طرح غمگین ہو گے یعنی ان بندگان الٰہی سے مرا دوہ لوگ ہیں جو ہمارے حکموں کو مان کر فرمانبردار تھے لو آج تم اور تمہاری بیویاں باقی سب لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہوجائو تم وہاں خوش کئے جائو گے۔ ہر قسم کی نعمتیں وہاں ان کو ملیں گی کھانے پینے کے لئے سونے کی رکابیاں اور گلاس ان کو دئیے جائیں گے جو ان میں ادھر ادھرپھیرے جائیں گے جب ان کی دوستانہ مجلس ہوا کرے گی باہمی محبت کا دور چلا کرے گا غرض جو کچھ انسانی طبائع چاہتی ہیں اور جو آنکھوں کو بھلی معلوم ہوتی ہیں وہ ان کو ان باغوں میں ملے گا اور بڑی بات یہ ہوگی کہ بطور اعلان ان کو کہا جائے گا کہ تم ان باغوں میں ہمیشہ رہو گے اور یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ باغ جو تم کو ملے ہیں یہ تمہارے نیک اعمال کے سبب سے تم کو ملے ہیں جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے دیکھو تمہارے لئے ان باغوں میں بہت کثرت سے پھل ہوں گے اور تم لوگ انہیں میں سے ہمیشہ کھاتے رہو گے ان پرہیز گاروں کے مقابلہ میں جو لوگ بدمعاش یا مجرم ہوں گے ان کا انجام بھی سنو ! بے شک مجرم لوگ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ان کو عذاب سے ناغہ نہ ہوگا نہ کبھی ان کو تخفیف ہوگی اور وہ اس عذاب میں ایسے پھنسے ہوں گے کہ رہائی سے ناامید ہوجائیں گے یہ مت سمجھو کہ ہم نے ان پر کسی طرح سے ظلم کیا ہوگا۔ نہیں ہم نے ان پر کسی طرح سے کوئی ظلم نہ کیا ہوگا لیکن وہ خود آپ ظالم ہوں گے اور عذاب کی تکلیف میں جہنم کے افسر فرشتے کو جس کا نام مالک ہوگا پکاریں گے کہ اے مالک ! ہماری درخواست ہے کہ تیرا پروردگار ہماری جان لے کر ہمارا کام تمام کر دے وہ بھلا ایسا کہاں ؟ کہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی لفظ بولے یا کسی کو بے جا تسکین دے اس لئے وہ کہے گا مت بولو ! تمہاری درخواست بے سود ہے کیونکہ تم لوگ ہمیشہ اسی جگہ رہو گے پس اس جواب سے ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہے گی۔ جرم کی اصل وجہ سنو ! ہم (اللہ) نے تمہارے پاس سچی تعلیم بذریعہ انبیاء کے بھیجی تھی مگر تم میں سے اکثر لوگ حق بات کو ناپسند جانتے رہے بعض جو ماننے پر آمادہ ہوئے تو ان اکثر نے ان کو بھی دبایا اور جھوٹے سچے وعدے دے کر پھسلایا اور اس تدبیر سے سمجھے کہ ہم کامیاب ہوجائیں گے وہ یہ سمجھے کہ ہم مالک الملک سے کیونکر لڑ سکتے ہیں کیا اس دین اور رسالت کے مٹانے کے لئے انہوں نے کوئی تدبیر کر رکھی ہے۔ ضرور کی ہے تو کچھ پرواہ نہیں ہم (اللہ) بھی مضبوطی سے فیصلہ کرچکے ہیں جس کا خلاصہ ابھی سے بتائے دیتے ہیں کہ اسلام کو غلبہ ہوگا اور کفر مٹ جائے گا۔ الزخرف
58 الزخرف
59 الزخرف
60 الزخرف
61 الزخرف
62 الزخرف
63 الزخرف
64 الزخرف
65 الزخرف
66 الزخرف
67 الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 الزخرف
78 الزخرف
79 الزخرف
80 (80۔89) کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم (اللہ) ان کے خفیہ بھید اور پوشیدہ مشورے نہیں جانتے ؟ ہاں ضرور جانتے ہیں اور ہمارے ذاتی علم کے علاوہ ہمارے فرستادہ فرشتے بھی ان کے پاس ان کے نیک وبد اعمال لکھتے رہتے ہیں۔ وقت پر جب یہ لوگ انکار کریں گے تو وہ سب دکھائے جائیں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات کہنے کی ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ بھی ہماری طرح صاحب اولاد ہے عرب کے بت پرست‘ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں اور اہل کتاب حضرت مسیح وغیرہ کو اللہ کے لڑکے کہتے ہیں تو اے نبی ! ان سے کہہ کہ اگر اللہ رحمن کی اولاد ہو تو سب سے پہلے میں اس کی بندگی کروں۔ کیونکہ میرا جو تعلق اللہ کے ساتھ عبودیت کا ہے وہ تم سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ مگر اسی تعلق کی وجہ سے جو مجھے معرفت الٰہی حاصل ہے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو آسمانوں اور زمینوں اور عرش عظیم کا پروردگار ہے اور دنیا کی تمام حکومت کا اصلی مالک ہے وہ ان لوگوں کے غلط بیان سے پاک ہے وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ اس کا کوئی باپ۔ پس تو اے نبی ! ان کو چھوڑ دے۔ بے ہودہ کھیل کود میں لگے رہیں یہاں تک کہ اس دن (روز جزا) جو پالیں جس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے دیکھو تو ان مشرکوں کو کیا کیا خدشے پیدا ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے ایک شہر مکہ میں سینکڑوں معبود ہیں پھر بھی پورا انتظام نہیں رہ سکتا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ساری دنیا کا معبود ایک ہی ہو۔ اس لئے ان کو بتلائو اور سمجھا دو کہ وہ اللہ وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمینوں میں بھی وہی معبود ہے۔ تمام دنیا اسی کی پجاری اور پرستار ہے اور وہ بڑی حکمت والا بڑے علم والا ہے اپنے تمام پرستاروں کے حالات سے واقف ہے ہر ایک کی سنتا ہے ہر ایک کو جانتا ہے صرف علم وحکمت ہی نہیں رکھتا بلکہ حکومت بھی ساری دنیا کی اسی کے قبضے میں ہے۔ حکومت بھی ایسی نہیں کہ اس کی حکومت سے ملک خراب اور برباد ہوجائے نہیں بلکہ بابرکت حکومت ہے اس لئے کہ بڑی برکت والا ہے وہ اللہ جس کی حکومت اتنی وسیع ہے کہ آسمان۔ زمین اور ان کے بیچ کی سب چیزیں اسی کی ملک اور اسی کے قبضے میں ہیں ان سب چیزوں پر اصلی حکومت اس کے سوا کسی کو نہیں۔ دنیا میں جتنے بادشاہ یا حاکم نظر آتے ہیں سب اسی کے بنائے سے بنے ہیں جس کو چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے۔ بس اسی کے ہو رہو۔ اسی میں تمام فلاح اور اسی میں خیروبرکت ہے دوسرا سوال ان لوگوں کا قیامت کی گھڑی پر ہے بار بار بطور سرکشی کے پوچھتے ہیں قیامت کب ہوگی اور اس میں کیا ہوگا۔ تم ان کے جواب میں کہو گے کہ قیامت کی گھڑی کا علم بھی اسی کو ہے اور جب وہ گھڑی آ پہنچے گی تو اسی کی طرف تم لوگ لوٹائے جا ئو گے سنو ! اس روز سب حکومت ظاہری اور باطنی اللہ کے قبضے میں ہوگی اور جن لوگوں نبیوں ولیوں اور فرشتوں سے یہ مشرک لوگ دعائیں مانگتے ہیں وہ حکومت کا اختیار تو کیا سفارش کا بھی اختیار نہیں رکھیں گے یعنی ان کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ بلا اجازت جس کی چاہیں اور جس وقت چاہیں مجرموں کی سفارش کردیں ہاں جن لوگوں نے علم اور بصیرت سے حق بات یعنی توحید الٰہی کی شہادت دی ہوگی ان کو اجازت ملے گی اور وہ کسی قابل معافی مجرم کی سفارش کریں گے تو وہ قبول بھی ہوگی۔ یہاں تک تو درست ہے مگر ان مشرکوں کا یہ خیال درست نہیں کہ یہ لوگ باختیار خود جو چاہیں گے کرلیں گے یا کرا لیں گے بھلا جس صورت میں دنیا ساری اللہ کی مخلوق ہے تو پھر مخلوق کو ایسے اختیار کیونکر ہوسکتے ہیں کہ وہ اللہ کے کاموں میں مستقل طور پر دخیل ہو۔ رہا یہ دعوی کہ تمام دنیا اللہ کی مخلوق ہے۔ ایسا بدیہی ہے کہ یہ لوگ خود بھی مانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں اگر تو اے نبی ! ان سے پوچھے کہ کس نے ان کو اور ان کے مصنوعی معبودوں کو بنایا ہے تو فورا کہہ دیں گے اللہ نے پھر کہاں کو بہکے چلے جا رہے ہیں مگر نبی کو ان کے حال پر ایسی شفقت ہے کہ ہر شام وپگاہ ان کے حق میں یا رَبِّ یَا رَبِّ ان کو ہدایت کر کہہ کہہ کر دعائیں مانگتا ہے ہمیں نبی کی یہ مخلصانہ دعا ایسی پیاری لگتی ہے کہ ہم کو اس کے یارَبِّ یَا رَبِّ کہنے کی قسم ہے اور قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لائیں گے کیونکہ ان کو ایمان کی بابت غلط فہمی نہیں جو رفع ہوسکے بلکہ عناد قلبی ہے جو کسی طرح دور نہیں ہوسکتا پس تو ان کی پرواہ نہ کر اور تیرے سامنے پیش آئیں تو کہہ دیا کر تم کو سلام تم خود ہی اصل حال جان لیں گے۔ کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے الزخرف
81 الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 الزخرف
85 الزخرف
86 الزخرف
87 الزخرف
88 الزخرف
89 الزخرف
0 الدخان
1 میں اللہ رحمن رحیم ہوں میری رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ نبی نوع انسان پر رحم کر کے ان کی ہدایت کے لئے کتاب بھیجی۔ الدخان
2 قسم ہے اس کتاب کی جو بندگان کے لئے احکام شرعیہ بیان کرنے والی ہے یعنی قرآن مجید۔ الدخان
3 (3۔9) تحقیق ہم (اللہ) نے وہ کتاب بابرکت رات یعنی رمضان کی لیلۃ القدر میں اتاری ہے یعنی قرآن مجید کا نزول رمضان کی لیلۃ القدر میں شروع ہوا۔ تاکہ لوگ بدکاریاں چھوڑ دیں اور نیکی اختیار کریں بے شک ہم اس کتاب کے ساتھ لوگوں کو ڈرائیں گے۔ اس بابرکت رات میں قرآن کے ذریعہ تمام باحکمت امور یعنی احکام متعلقہ نجات کی تفصیل کی جائے گی یہ سب کچھ ہمارے حکم سے ہوا ہے کیونکہ ہم ہی اس کتاب کو اے نبی تیری طرف بھیج رہے ہیں اللہ جس سے کوئی خدمت لے اس کا فضل ہے اس لئے یہ نزول قرآن تجھ پر محض تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے ورنہ کسی کا اس پر استحقاق نہیں (لیلۃ مبارکہ : اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے مگر ہم نے جو معنی لکھے ہیں یہ معنی دونوں گروہوں (محدثین اور متکلین) کے نزدیک معتبر ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ : (لیلۃ مبارکۃ) رمضان کی لیلۃ القدر ہے۔ یقول تعالیٰ مخبرا عن القران العظیم انہ انزلہ فی لیلۃ مبارکۃ وھی لیلۃ القدر کما قال عزو جل انا انزلنہ فی لیلۃ القدر وکان ذلک فی شھر رمضان کما قال تبارک و تعالیٰ شھر رمضان الذی انزل فیہ القران (زیر آیت لیلۃ مبارکۃ) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا اور یہ رمضان کے مہینے میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا ہے اس کے خلاف جو روایت آئی ہے وہ ضعیف ہے) وغیرہ تفسیر کبیر میں لیلۃ القدر کے معنی لکھ کر امام فرماتے ہیں۔ اما القائلون بان المراد من اللیلۃ المبارکۃ المذکورۃ فی ھذہ الا یۃ ھی لیلۃ النصف من شعبان فما رایت لھم دلیلا یقول علیہ (زیر آیت لیلۃ مبارکہ) جو لوگ لیلۃ مبارکہ سے شعبان کے وسط کی رات کہتے ہیں میں نے ان کے پاس اس دعوی پر کوئی معقول دلیل نہیں پائی۔ یہ ہے دونوں گروہوں کا اتفاق (فالحمد للہ) فیھا یفرق :۔ اس لفظ کے معنی میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے میں نے جو ترجمہ کیا ہے آیت کا سیاق سباق دیکھنے سے ان معنی کی تصدیق ہوسکتی ہے شروع سورت سے العلیم تک قرآن مجید کی تعریف ہے اس سیاق پر غور کرکے تفسیر میں یفرق کے معنی جو ہم نے کئے ہیں قابل تصدیق ہیں۔ (منہ) چونکہ ابتدا اس تفصیل کی اس مبارک رات سے (جس میں) نزول قرآن شروع ہوا ہے) ہوئی اس لئے تفصیل (یفرق) اسی کی طرف منسوب کی گئی۔ (منہ) کسی عارف نے کیا ہی سچ کہا ہے۔ دادِ حق راقابلیت شرط نے بلکہ شرط قابلیت داد ہست پس تو اس کتاب کی تبلیغ پر دل تنگ نہ ہو۔ مخالفین جو کہتے ہیں تحمل سے سنا کر بے شک وہ اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے وہ تیری ایسی مدد کرے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی سنو جی ! تیرا رب جس نے یہ کتاب اتاری ہے وہ ہے جو آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی کل چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم لوگ کسی سچی بات پر یقین کرتے ہو تو اس بات پر یقین کرو کہ وہی سب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے وہ تمہارا یعنی موجودہ نسل کا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے پس سب لوگوں کو چاہیے کہ اسی کی طرف جھکیں اور اسی کے ہو رہیں۔ لیکن یہ لوگ اس سچی تعلیم کو نہیں مانتے بلکہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں الدخان
4 الدخان
5 الدخان
6 الدخان
7 الدخان
8 الدخان
9 الدخان
10 (10۔16) پس تو اے نبی ! ان کی اس حالت سے رنجیدہ نہ ہو اور اس روز کا انتظار کرو جس روز آسمان سے ایک نمایاں دھواں ظاہر ہوگا یعنی بوجہ قحط اور بھوک کے ان کو آسمان پر دھواں نظر آئے گا اور وہ تمام لوگوں پر چھا جائے گا اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ تو دردناک عذاب ہے۔ پھر اللہ کی طرف توجہ کر کے کہیں گے اے ہمارے اللہ یہ عذاب ہم سے دور کر دے تو ہم ایمان لاویں گے اس خوشامدی بات میں بھی کھوٹ چھپاویں گے کہ ایمان لانے کا وعدہ دفع عذاب پر رکھیں گے حالانکہ ایمان ایسا کام نہیں ہے کہ اس کو کسی طمع یا غرض پر موقوف رکھا جائے پھر بھلا ان کو کیسے نصیحت ہوگی جس صورت میں ان کے پاس بیان کرنے والا اور کھول کھول کر سنانے والا رسول (حضرت محمد ﷺ) آیا۔ لیکن وہ مخالفانہ رنگ میں اس سے روگردان رہے اور کہنے لگے یہ جو کتابی باتیں کرتا ہے کسی کے سکھانے سے کرتا ہے ورنہ دراصل یہ کچھ بھی نہیں جانتا بلکہ اپنی عقل سے بھی خالی ہے خلاصہ یہ کہ یہ مدعی نبوت کسی کا سکھایا ہوا مجنون ہے معاذ اللہ اس کو اپنی تو ذرہ بھی سمجھ نہیں اگر سمجھ ہو تو اتنا بھی نہ سوچے کہ جو رسوم ہمارے بڑے بڑے بزرگ باپ دادا کرتے آئے ہیں جن کے ناموں کا ہمیں فخر ہے ان ہی رسوم کو ہم برا کہیں تو یہ ایک مجنونانہ حرکت نہیں تو کیا ہے ؟ یہ ہے ان کی سمجھ اور یہ ہے ان کی عقل اور بے عقلی کا معیار سنو ! ہم تھوڑی سی مدت یہ عذاب ٹلا دیں گے مگر نہیں ابھی سے ہم اطلاع کئے دیتے ہیں کہ تم لوگ پھر ادھر ہی کو لوٹ جائو گے جدھر سے واپس آنے کا تم وعدہ کرتے ہو۔ یہ لوگ ایسا کریں گے اور ضرور کریں گے تو بعد اس عذاب کے ہم پھر انکو پکڑیں گے خاص کر جس روز ہم ان کو بڑی سختی سے پکڑیں گے اس دن ہم ان سے پورا انتقام لیں گے۔ یعنی بعد قحط سالی اور بھوک کے ایک اور سخت عذاب ان پر آئے گا جو سابق سے زیادہ مہیب ہوگا۔ الدخان
11 الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 (17۔31) ان مشرکین عرب سے پہلے بھی کئی قوموں کا یہی حال رہا ہے ان عربیوں سے پہلے مشہور ترین مصر کی فرعونی قوم ہے ان کو بھی ہم (اللہ) نے جانچا تھا اس جانچنے سے ہمیں تحصیل علم مقصود نہیں تھا بلکہ ان کا اظہار حال مطلوب تھا ان کے پاس ہم نے سچی تعلیم بھیجی اور بڑا معزز رسول (حضرت موسیٰ) ان کے پاس آیا اس نے آکر فرعون اور فرعون کے درباریوں کو کہا کہ اللہ کے بندے بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کر کے میرے سپرد کر دو میں ان کو ان کے اصلی وطن فلسطین لے جائوں اور اگر یہ پوچھو کہ مجھے اس سوال کرنے کا کیا حق ہے تو جواب یہ ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے امانتدار رسول ہو کر آیا ہوں پس تم میری بات کو میرے بھیجنے والے (اللہ) کا حکم سمجھو۔ سب سے پہلے تو میں تم لوگوں کو یہ سناتا ہوں۔ کہ اللہ حقیقی مالک الملک کو مانو اور اسی کے ہو رہو۔ شرک کفر بے ایمانی دغابازی کی باتیں سب چھوڑ دو۔ دوم یہ کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی اجازت دو اور بڑی بات یہ کہ اللہ کے حکم کے آگے سرکشی مت کرو دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیل لایا ہوں جو تم لوگ دیکھنا چاہو تو دکھا دوں اور اگر مجھے قتل یا پتھرائو کی دھمکی دو تو سنو ! میں اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ میں ہوں اس سے کہ تم مجھے مار سکو۔ پس میں تم کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر تم سے ہوسکے تو بے شک مجھے مارنے کے سامان تیار کرو۔ میں اللہ کے فضل سے تمہارے ہاتھ سے کبھی نہ مروں گا۔ ہاں میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ اور اگر میری نہ مانو۔ تو خیر مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ مگر ان بندگان اللہ بنی اسرائیل کو تنگ نہ کرو پھر حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے میرے اللہ یہ فرعونی لوگ بدکار ہیں تو ان سے ہمیں نجات دے پس حضرت موسیٰ کو وحی ہوئی کہ میرے بندوں بنی اسرائیل کو رات کے وقت نکال کرلے جا۔ مگر یہ سن رکھ کہ فرعون کی طرف سے تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ اور اگر راستے میں دریا کا اندیشہ ہو تو دریا کو خشک چھوڑ کر نکل جائیو یعنی وہ تمہارے جاتے وقت وہ خشک ہوجائے گا اور فرعونیوں کے اندر آتے ہی وہ زور پکڑے گا کیونکہ وہ لوگ وہاں غرق کئے جائیں گے ان کی تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعونی لشکر جو اسرائیلیوں کے پیچھے گیا وہ سب غرق ہوا اور وہ لوگ بہت سے باغ‘ میٹھے چشمے‘ لہلہاتی کھیتیاں بڑے شاندار مکان اور بڑی بڑی نعمتیں جن میں وہ مزے کیا کرتے تھے سب کچھ یہاں چھوڑ گئے تم یقین جانو ایسا ہی ہوا اور ہم (اللہ) نے ایک عرصہ کے بعد ان چیزوں کا وارث دوسری قوم (بنی اسرائیل) کو بنایا یہاں تک کہ ان کی ذلت کی نوبت پہنچی کہ بنی اسرائیل کی قوم باوجود کئی تنزلات کے آج تک تختہ دنیا پر خاص امتیاز سے بستی ہے ان کے بزرگوں کی عزت کی جاتی ہے۔ مگر فرعون کی عزت کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ پھر ان کی تباہی پر آسمان اور زمین کے لوگ نہ روئے اور نہ ان کو دنیا میں رہنے کی مہلت ملی بلکہ حکم پہنچتے ہی تباہ کئے گئے اور ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے سخت عذاب سے چھڑایا۔ بے شک وہ بڑا سرکش بیہودہ لوگوں میں سے تھا۔ اسلئے اس کی سرکشی جب انتہا کو پہنچ گئی تو نتیجہ بھی وہی ہوا جو ایسے کاموں کا ہوا کرتا ہے یعنی تباہی جیسا کسی عارف نے کہا ہے از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوزجو (بنی اسرائیل دریا سے سلامت نکل تو گئے۔ مگر بے فرمانی الٰہی کی وجہ سے چالیس سال تک میدان تیہ میں پھرتے رہے عرصہ مدید کے بعد وہ اپنے ملک فلسطین میں گئے وہاں ان کی سلطنت قائم ہوئی پھر انہوں نے جنگی طاقت حاصل کرنے کے بعد دور دراز کے ممالک فتح کئے اس لئے عرصہ کا لفظ بڑہانا ضروری ہے (منہ) الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 الدخان
22 الدخان
23 الدخان
24 الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 الدخان
30 الدخان
31 الدخان
32 (32۔50) اور ہم (اللہ) نے ان ( بنی اسرائیل) کو اپنے ذاتی علم سے اس وقت کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور ہم نے ان کو ایسے ایسے نشان دئیے تھے کہ ان میں ہماری صریح مہربانی تھی۔ یدبیضا دیا۔ عصا دیا۔ آخر سب سے ان کی خاطر دریا کو روکا۔ اور ان کو بچایا۔ ان واقعات سے یہ نتیجہ صاف پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ مگر یہ لوگ عرب کے مشرک ایسے کچھ سڑی ہیں کہ جو کچھ سنتے ہیں اس پر اعتراض کرتے ہیں دیکھو تو جب سنتے ہیں کہ مسلمان کہتے ہیں اعمال کا نیک وبد۔ بدلہ پانے کو قیامت کے روز اٹھنا ہوگا۔ تو یہ کہتے ہیں ارے میاں ! یہی ہماری زندگی ہے اور یہی ہماری ایک ہی دفعہ کی پہلی موت ہوگی اور اس کے سوا ہم قیامت کے روز نہ اٹھائے جائیں گے نہ اٹھیں گے نہ جئیں گے۔ نہ کوئی ہمیں پوچھے گا نہ پاچھے گا یہ تو یار لوگوں کی باتیں ہیں۔ یہ کہہ کر بطور آخری کلام کے یہ کہتے ہیں پس اگر تم مسلمانو ! سچے ہو۔ تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے لے آئو۔ ہم بھی ان کی ملاقات کریں اور آخرت کا حال پوچھیں۔ اگر وہ اپنی سرگذشت بتا دیں گے تو ہم سن کر ایمان لائیں گے۔ یہ ہی ان کی کجروی کہ بات کچھ ہے اور سوال کچھ بات تو یہ ہے کہ بعد فناء دنیا تم سب لوگ بغرض جزاوسزا اٹھو گے سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ بات سچ ہے تو ہمارے فوت شدہ بزرگوں کو ابھی زندہ کر دو۔ سبحان اللہ۔ بیان از آسماں سوال از ریسماں۔ کیا یہ لوگ اپنی ہستی میں اپنی قوت میں اچھے ہیں یا تبع کی قوم اور جو ان سے پہلے تھے وہ اچھے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک اور تباہ کیا۔ بے شک وہ لوگ مجرم تھے۔ اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ برتائو کیا جائے گا اور ان کے جواب کی عقلی دلیل سنو ! کہ ہم (اللہ) نے آسمان زمین اور ان کے درمیان کی کل چیزیں کھیل تماشہ کی نیت سے عبث پیدا نہیں کیں بلکہ ہم نے ان کو حق یعنی سچے نتیجے کے ساتھ پیدا کیا ہے بے نتیجہ کام تو عبث ہوتا ہے اور عبث کام کرنا نادانوں کا کام ہے ہم (اللہ) نادان نہیں لیکن بہت سے لوگ اس راز اور اس مسئلہ کو نہیں جانتے۔ وہ نتیجہ کیا ہے ؟ سنو ! وہ نتیجہ نیک وبداعمال کی جزاوسزا ہے تحقیق فیصلہ کا دن یعنی روز قیامت ان سب کے لئے مقررہ وقت ہے آج تو یہ ایک دوسرے کے مددگار بنتے اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر جس روز فیصلہ ہوگا اس روز کافروں کا کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے مگر جس پر اللہ رحم کرے وہ کون ہوں گے ؟ جو دنیا میں اللہ کے ہو رہے ہوں گے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ اللہ بڑا غالب ہے اس کو اپنے بندوں پر رحم کرنے میں کوئی مانع نہیں ہوسکتا۔ نہ اسے بخل ہے کیونکہ بذات خود بڑا رحیم ہے۔ مگر لوگ اس کے رحم سے حصہ لینے کی طرف رغبت نہیں کرتے بلکہ الٹے عذاب کے مستوجب ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ بدکاری کا نتیجہ کیا ہے۔ سنو ! تھوہر کا درخت جو بہت ہی بدمزہ اور کڑوا اور نہایت ہی ناخوش گوار ہے وہ مجرموں کا کھانا ہوگا جو مثل گلے ہوئے تانبے کے ہوگا اور وہ ان کے پیٹوں میں سخت کھولنے والے پانی کی طرح جوش مارے گا حکم ہوگا اس مجرم کو پکڑو اور گھسیٹ کر جہنم کے بیچوں بیچ لے جائو پھر اس کے سر پر سخت عذاب دینے والا گرم پانی ڈالو جس کا مزہ اس کو محسوس ہو اور کہو کہ لے مزہ چکھ تحقیق تو بڑی قدر و منزلت والا تھا یعنی دنیا میں جب کبھی کوئی شخص حکم الٰہی سناتا تو تو کہا کرتا تھا کہ یہ حکم غریب لوگوں کے لئے ہیں ہم بڑے آدمی ان کے مخاطب نہیں۔ پس یہاں بھی تجھے وہی ملے گا جس کا تو حق دار ہے۔ سنو ! یہ عذاب وہی ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے پس اب دیکھ لو کہ واقعی ہے یا نظر کی غلطی ہے۔ الدخان
33 الدخان
34 الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 الدخان
38 الدخان
39 الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 (51۔59) آئو اب ان لوگوں کا حال بھی سنو اور دیکھو جن کو تم لوگ بنظر حقارت دیکھا کرتے تھے۔ جو تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے فائز المرام ہوگئے پس سنو ! پرہیز گاری تقویٰ شعار بڑے امن کی جگہ میں ہوں گے یعنی باغوں اور چشموں میں رہیں گے ان باغات میں وہ ریشمی الپا کے اور مخملیں یعنی انکا لباس پہنیں گے اور ملاقاتی مجالس میں حسب دستور ملاقات ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ واقعہ اسی طرح ہوگا۔ اور ہم ان کو بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت بیبیوں سے شادی کردیں گے۔ جس سے ان کی زندگی خوش وخرم گذرے گی۔ وہاں وہ متقی بڑے آرام چین سے ہر قسم کے میوے منگا منگا کر کھایا کریں گے اور سوائے پہلی موت کے جو پہلی دفعہ ان پر آچکی ہوگی پھر کسی قسم کی موت نہ چکھیں گے اور بڑی بات ان کے حق میں یہ ہوگی کہ اللہ ان کو جہنم کے عذاب سے بچائے گا کسی حال میں کسی وقت بھی وہ جہنم کی طرف نہ جائیں گے یہ سب کچھ محض اللہ کے فضل سے ہوگا ورنہ اتنی بڑی نعمتیں اور ان کی تھوڑی سی عبادت کیا نسبت رکھتی ہے بس یہی بڑی کامیابی ہے۔ چونکہ ہم کو ان عرب کے لوگوں کا سمجھانا مقدم منظور ہے اسی لئے تو ہم (اللہ) نے اس (کتاب قرآن مجید) کو تیری بولی یعنی عربی محاورے میں آسان صورت میں نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ سمجھیں مگر یہ لوگ ایسے ضدی ہیں کہ سمجھنے پر رخ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ بزبان حال اور بزبان قال یہی کہتے ہیں کہ ہم پر عذاب لے آ۔ پس تو اے نبی ! اللہ کے حکم کا انتظار کر تحقیق وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ نہ عذاب کا لانا تیرے بس میں ہے نہ ہٹانا ان کی قدرت میں۔ جب آیا تو ان سے رکے گا نہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قرآن شریف میں جنتیوں کی ازواج کے متعلق دو لفظ آئے ہیں (ایک) اد خلوھا انتم و ازواجکم تحبرون (دوسری) یہ آیت ہے اس میں حوروں کے ساتھ شادی کرانے کا ذکر ہے ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنوں کو دو قسم کی بیویاں ملیں گئیں ایک اپنی دنیاوی منکوحہ۔ دوسری جنت کی ازواج۔ ان میں حسن اور پاکیزگی اعلی درجہ کی ہوگی۔ چنانچہ فرمایا۔ و لھم فیھا ازواج مطھرۃ ستر حوریں ملنے والی روایت کوئی صحیح نہیں۔ اللہ اعلم (منہ) الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 الدخان
58 الدخان
59 الدخان
0 الجاثية
1 (1۔11) وہ اللہ رحمن رحیم ہے اسی کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے یہ کتاب قرآن بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کی ہے پس تم لوگ یقینا سمجھو کہ اس کتاب کا اتارنا اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔ اس لئے اس کی تعلیم بھی حکمت سے بھرپور ہے اور اس کی اشاعت میں کسی قسم کی روک نہیں ہوگی کیونکہ یہ غالب اللہ کی فرستادہ ہے اس کے غلبہ کے مقابلہ میں کسی کی کیا مجال؟ جو اس کتاب کی تعلیم ہے اس کی شہادت کے لئے آسمانوں اور زمینوں میں ماننے والوں کے لئے کئی ایک نشانیاں ہیں بلکہ خود تمہاری پیدائش میں اور جتنے جاندار اس نے پیدا کر کے دنیا میں پھیلائے ہیں ان میں بھی یقین کرنے والوں کے لئے کئی ایک نشانیاں ہیں اور جو بھی یقینے ضدی شریر طبع لوگ ہیں۔ ان کو تو کوئی چیز بھی مفید نہیں ہوسکتی۔ اس کے سوا رات اور دن کے آنے جانے میں اور جو اوپر سے اللہ رزق کا سبب پانی اتارتا ہے پھر اس کے ساتھ خشک زمین کو بعد خشکی کے تروتازہ کردیتا ہے جس کی پیداوار سے دنیا کی آبادی پلتی ہے اور ہوائوں کو ادھر ادھر پھیرنے میں عقل مندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جن کی خالص عقل تیرگی دنیا اور صحبت بد میں پھنس کر زائل نہیں ہوتی وہی ان نشانیوں پر غور کر کے مستفید ہوسکتے ہیں۔ سنو ! اللہ کی آیات دو قسم کی ہیں ایک تو دیدہ۔ ایک شنیدہ۔ دیدہ تو تمام دنیا کے واقعات ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا شنیدہ یہ احکام قرآنیہ آیات الٰہیہ ہیں جو اے نبی ! ہم بذریعہ فرشتہ کے تجھ کو سچائی کے ساتھ سناتے ہیں یعنی قرآن مجید کے احکام پھر بھی یہ لوگ مشرکین عرب اللہ اور اس کے احکام کے سوا کس بات پر ایمان لائیں گے ہر ایک علم کی اور ہر ایک نزاع کی ایک انتہا ہوتی ہے مگر دنیا ساری اور دنیا کے سارے جھگڑوں کی انتہا اللہ پر ہے۔ پھر جو شخص اللہ کو نہیں مانتا وہ تو پرلے درجے کا جھوٹا اور بدکار ہے افسوس ہے ہر ایک جھوٹے بدکار کے حق میں جس کو اللہ کے احکام سنائے جاتے ہیں تو وہ ان کو سن کر اپنی گمراہی اور غلط کاری پر متکبرانہ روش سے اڑا رہتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس نے سنے ہی نہیں۔ پس تو اس کو دکھ والی مار کی خبر سنادے کہ انجام اس کا بہت برا ہوگا۔ اور اس کی شرارت سنو ! کہ جب ہمارے احکام میں سے کوئی حکم پڑھ کر یا سن کر اسے معلوم ہوتا ہے تو اس پر ہنسی اڑاتا ہے لوجی آج نیا حکم آیا کہ مال میں سے بھی کچھ دیا کرو۔ بس جی انکو لینے ہی سے غرض ہے کسی طرح آجائے پس تم سن رکھو کہ ان لوگوں کے لئے دنیا ہی میں ذلت کا عذاب ہے اور آگے جہنم کا عذاب ہنوز باقی ہے جس میں ان کی بہت سخت گت ہوگی۔ اور نہ ان کی کمائی ان کو کچھ فائدہ دے گی نہ ان کے وہ کارساز ان کو کچھ فائدہ دیں گے جو انہوں نے بنا رکھے ہیں جن کو اڑے وقتوں میں مددگار جانتے ہیں اور ان کو بہت بڑا عذاب ہوگا جس کی تاب ان میں نہیں ہے۔ یہ قران اللہ کی طرف سے ہدایت ہے اور جو لوگ اپنے رب کے احکام اور آیات سے منکر ہیں ان کے لئے بڑے دکھ کی مارہے۔ الجاثية
2 الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 الجاثية
6 الجاثية
7 الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 الجاثية
11 الجاثية
12 (12۔20) سنو ! اللہ یعنی تمہارا معبود وہ ہے جس نے تمہارے لئے دریا اور سمندر کو قابو کر رکھا ہے تاکہ اس کے حکم یعنی قانون سے اس میں جہاز اور کشتیاں چلیں اور تم کو دوسرے کنارہ پر پہنچا دیں اور تاکہ تم لوگ اہل دنیا بذریعہ تجارت اللہ کا فضل حاصل کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ اور سنو ! جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی اللہ نے اپنے حکم سے تمہارے لئے کام میں لگا رکھا ہے کیا تم نے عارف شیرازی مرحوم کا قول نہیں سنا؟ ابروبادومہ وخورشید وفلک ورکارند تا تونا نے بکف آرمی وبغفلت نہ خوری اینہمہ بہر تو سرگشتہ وفرمانبردار شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری اس بیان میں کہ تمام کائنات اللہ کے حکم سے مخلوق ہیں اور اسی کے حکم کے ماتحت ہے فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ایسی بانظام پیدائش جس کے نتائج بھی بانظام ہوں بے شک کسی بڑے مدبر کے بنانے سے بنی ہے جس کی نظیر دوسری نہیں باوجود اس واضح بیان کے یہ لوگ ادھر ادھر بہکے جاتے ہیں اس لئے تو اے نبی ! ہمارے ایماندار نیک بندوں کو کہدے کہ جو لوگ اللہ کے ایام جزاء آخرت کی امید نہیں رکھتے بمقابلہ انبیاء اور صلحا کے ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان کو معاف کیا کریں اور درگذر کریں یعنی ان سے تعرض نہ کریں بلکہ معمولی وعظ ونصیحت کر کے باقی حوالہ اللہ کریں۔ تاکہ اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ اس قوم کو ان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دے۔ جو تمہارے بدلہ اور مواخذے سے زیادہ ہوگا اس دن یہ ہوگا کہ جس نے کوئی اچھا کام کیا ہوگا وہ اس کو ملے گا اور جس نے برا کیا ہوگا۔ وہ اسی کی گردن پر ہوگا پھر تم لوگ سب کے سب اللہ کی طرف پھیرے جائو گے اس مضمون کے سمجھانے کے لئے ہم نے وقتا فوقتا نبی بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو ہم (اللہ) نے کتاب تورات دی۔ حکومت اور نبوت عطا کی اور ان کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں اور جہان کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی اور ان کو دین کے کھلے کھلے احکام دئیے تاکہ راہ راست پر آویں اور دین الٰہی کی تبیغض کریں مگر پھر بھی وہ باہم مختلف ہوئے۔ محض اختلاف رائے معیوب اور مضر نہیں لیکن جب اختلاف رائے سے تجاوز کر کے مخالفت اور مخالفت سے عناد تک نوبت پہنچ جائے تو معیوب اور مضر ہوجاتا ہے ان لوگوں میں یہی بات تھی کہ مذہبی اختلاف رائے میں ایک دوسرے کے بدخواہ ہوگئے تھے پھر طرفہ یہ کہ بعد آجانے علم کے جن سے ایسے اختلاف کی برائی معلوم ہوسکتی تھی وہ لوگ محض آپس کے حسد کی وجہ سے مختلف ہوئی نکمی نکمی باتوں میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے۔ سنو ! تمہارا پروردگار قیامت کے روز ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ بہتر تو یہی تھا کہ اس فیصلے سے پہلے ہی سمجھ لیتے کیونکہ اس روز کے فیصلے کی اپیل یا تدارک نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم (اللہ) نے سابقہ نبیوں کی معرفت دنیا کے لوگوں کو خبر پہنچائی تھی اب پھر ہم نے تجھ کو ( اے محمد ﷺ) دین کی راہ پر لگایا ہے پس تو اس کی پیروی کیا کرو اور جو لوگ احکام اور حقوق الٰہی میں سے کچھ نہیں جانتے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئیو۔ کیونکہ اللہ کی پکڑ پر وہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے اور ان لوگوں کا یہ خیال کہ ہم ایک دوسرے کے حمائیتی ہیں بے شک صحیح ہے ہم بھی تصدیق کرتے ہیں کہ ظالم ایک دوسرے کے حمائیتی ہیں اور اللہ نیک بختوں اور پرہیزگاروں کا والی ہے اس کے سامنے ان کی کیا چلے گی ؟ پس تم خود ہی سوچ لو کہ کونسی جانب تم کو اختیار کرنی چاہیے آیا ظالموں کے ساتھی بننا پسند کرتے ہو یا اللہ کو اپنا ولی بنانا چاہتے ہو۔ محض تمہاری ہدایت کے لئے تم کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تعلیم قرآنی لوگوں کے لئے سمجھ بوجھ اور ہدائت ہے۔ تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔ اور جو لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں ان کے لئے تو سراسر رحمت ہے۔ اس تعلیم کا خلاصہ دو لفظوں میں ہے وہ یہ ہے ؎ از مکافات عمل غافل مشو گندم ازگندم بروئد جو زجو الجاثية
13 الجاثية
14 الجاثية
15 الجاثية
16 الجاثية
17 الجاثية
18 الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 (21۔37) کیا بھلا جو لوگ اس تعلیم سے روگردان ہیں اور جرأت سے بدکاریاں کر رہے ہیں ان کو یہ خیال ہے کہ ہم (اللہ) ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے ؟ جو ایمان دار اور نیکو کار ہیں ایسا کہ ان کا جینا اور مرنا سب برابر ہوگا؟ یعنی جیسے دنیا کی زندگی میں یہ لوگ ان کی طرح بلکہ ان سے اچھے چلتے پھرتے رہے اسی طرح مر کر بھی انہی جیسے رہیں گے ؟ یہ خیال دل میں جمائے بیٹھے ہیں۔ تو بہت برا خیال کرتے ہیں (کیونکہ ایسا خیال کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے حق میں ظلم کا گمان کرنا ہے) اس لئے کسی نیک دل بھلے آدمی کو یہ خیال دل ودماغ میں نہ رکھنا چاہیے۔ حالانکہ زمین و آسمان کی ہر چیز شہادت دیتی ہے کہ جس طرح روشنی اور ظلمت برابر نہیں اسی طرح نیک وبد بھی یکساں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین باقاعدہ اس لئے بنائے ہیں تاکہ دنیا کا انتظام باقاعدہ ہو اور ظلم وعدل میں تمیز ہو کر ہر آدمی کو اس کے کئے کا بدلہ پورا دیا جائے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہو۔ باوجود اس کے بھی جو لوگ ایسے غلط خیالات رکھتے ہیں ان کی بابت یہ یقین کرنا چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات نفسانیہ کے پیرو ہیں۔ کیا تم نے ایسا آدمی کبھی دیکھا ہے۔ جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جدھر کو نفس لے جاتا چلتا ہے۔ اور جو کچھ کہتا ہے کر گذرتا ہے ایسے آدمی کو علم بھی ہو تو باوجود علم کے بھی اللہ نے اس کو گمراہ کردیا ہے اور اس کے کانوں اور دل پر غفلت اور جہالت کی مہر کردی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے پھر کون ہے جو اللہ کے ایسا کرنے کے بعد اس کو ہدایت کرسکے کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ اپنے نفس کی تابعداری کیسی بری بلا ہے اسی نفسانی تابعداری اور اتباع ہوا کا اثر ہے جو یہ لوگ عرب کے مشرک کہتے ہیں ہماری زندگی صرف یہی پہلی زندگی ہے جس میں ہم مرتے جیتے ہیں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہم زمانہ کی گردش سے مر جاتے ہیں ان کے خیال میں دنیا کا فاعل حقیقی کوئی نہیں لیکن جب پوچھا جائے کہ کیا تم یہ بات علم الیقین سے کہہ سکتے ہو تو صاف کہدیتے ہیں‘ یقین سے ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کو اس بات کا کوئی علم نہیں محض خام خیال سے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں بھلا کوئی شخص اس بات کا قائل ہوسکتا ہے ؟ کہ دنیا کا منتظم حقیقی کوئی نہیں کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ ہی کوئی نہیں حالانکہ اللہ کی ہستی کا علم انسان کے ضمیر میں راسخ ہے چنانچہ کسی صاحب دل نے کہا ہے کانٹا ہے ہر ایک دل میں اٹکا تیرا آویزہ ہے ہر گوش میں لٹکا تیرا مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ہے ضرور بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا اس فطری علم کے سوا اللہ کی طرف سے وقتا فوقتا انبیاء کرام آتے رہے جو لوگوں کو اللہ کی ہستی کی تعلیم دیتے تھے اور یقین دلاتے تھے اسی طرح اس میں بھی ہم (اللہ) نے ایک عظیم الشان نبی بھیجا جس کی زندگی کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کے ساتھ جوڑا جائے چنانچہ وہ ایسا کرتا ہے اور ان منکروں کو بھی سمجھاتا ہے لیکن ان کی ضد اور تعصب کا یہ حال ہے کہ جب ان کو ہمارے کھلے کھلے احکام سنائے جاتے ہیں تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اگر تم مسلمان اس دعوی میں سچے ہو کر مر کر پھر عذاب وثواب کے لئے اٹھتا ہے تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے لے آ۔ ہم مان لیں گے اس جواب کے سننے والے خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کہاں تک ان کو تحقیق حق سے مطلب ہے۔ نبی اور مسلمان تو کہتے ہیں اللہ قیامت کے روز سب کو زندہ کر کے ان کے نیک وبد کا محاسبہ کرے گا اور یہ لوگ جواب میں کہتے ہیں ابھی زندہ کر کے دکھا دو۔ بھلا اس سوال کو اس مضمون سے کیا تعلق۔ مگر ان لوگوں کا اصول ہے۔ تعلق ہو یا نہ ہو بات کہہ دیں گے۔ اچھا تو اے نبی ! اپنے اصل مضمون کو مدنظر رکھ کر ان لوگوں کو کہہ کہ غور سے سنو ! میرا مذہب یہ ہے کہ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے یہاں تک تو تمہیں بھی اتفاق ہے اس کے بعد کے واقعہ میں تم کو اختلاف ہے یعنی ہم کہتے ہیں کہ پھر تم کو قیامت کے دن میں اللہ جمع کرے گا۔ اور تم اس سے منکر ہو ہمارے نزدیک اس دن کے ہونے میں ذرہ بھی شک نہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارا خیال صحیح ہے جس کے بہت سے دلائل ہمارے پاس ہیں مگر اکثر لوگ جو ادھر ادھر کے بے ہودہ سوال کرتے ہیں ان کو اصل حقیقت کا علم نہیں اس لئے وہ نہیں جانتے اور نہ سمجھ سکتے ہیں ؎ چوں ندانند حقیقت رہ افسانہ زوند سنو ! تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اللہ کے قبضے میں ہے یعنی وہی ان کا اصل اور حقیقی مالک ہے اس لئے اس نے اپنے بندوں کی نیک وبد کی جزا سزا عام دینے کو ایک دن خاص مقرر کر رکھا ہے جس کا نام قیامت ہے اور جس روز قیامت قائم ہوگی یعنی جب وہ روز حساب آئے گا اس روز جھوٹ کے شیدائی اور جھوٹ کو اختیار کرنے والے بہت گھاٹا پائیں گے کیونکہ ان کو اپنے کئے ہوئے اعمال اس روز سامنے آجائیں گے جس سے ان کو اپنی دنیاوی زندگی کے نفع نقصان کا علم ہوجائے گا۔ اور تم دیکھو گے کہ ہر ایک گروہ یعنی انسانی نسل کا ہر فرد دو زانو اوندھا پڑا ہوگا جیسے کوئی عاجزانہ طریق سے حاکم کے سامنے بیٹھتا ہے ہر قوم اپنے اعمالنامہ کی طرف بلائی جائے گی اس روز ان کو کہا جائے گا لو جی جو کچھ تم دنیا میں کرتے تھے اس کا پورا پورا بدلہ آج تم کو دیا جائے گا۔ دیکھو یہ ہماری کتاب جس میں تمہارے اعمال درج ہیں۔ تمہارے حالات صحیح بتاتی ہے کیونکہ جو کچھ تم لوگ کرتے تھے ہم اس کو بواسطہ ملائکہ لکھا کرتے تھے پس دیکھ لو اس میں کوئی کمی وبیشی تو نہیں ہوئی اس شہادت کا فیصلہ آج یوں ہوگا کہ جو لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائے اور کام بھی اچھے اچھے مطابق فرمودہ اللہ و رسول انہوں نے کئے اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا جو بہت بڑی نعمت ہوگی اور اگر بغور سوچو تو یہی بڑی کا میابی ہے جس کو نصیب ہو۔ اور ان کے برخلاف جو لوگ کافر ہیں ان کو پوچھا جائے گا کیا تم کو میرے احکام نہیں سنائے گئے تھے ؟ ضرور سنائے گئے تھے پھر تم نے ان کو قبول نہ کیا۔ بلکہ تکبر کیا اور تم مجرم ہو اور دیکھو جب تمہیں کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں ذرہ بھی شک نہیں تو تم کہتے ہم نہیں جانتے قیامت کیا بلا ہے ہاں تمہارے مسلمانوں کے بار بار کہنے سے ہم اس کو ایک واہمہ سا جانتے ہیں اور ہم کو اس بات کا یقین نہیں اس بداعتقادی میں جو کچھ وہ کرچکے ہوں گے اس سب کی برائی اس روز ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی اور جو کچھ وہ مسخری مخول کرتے ہیں اس سارے کا وبال ان کو گھیر لے گا۔ اور اللہ کی طرف سے ان کو کہا جائے گا کہ جیسے تم اپنے اس دن کو بھولے رہے تھے ہم اللہ کے فرشتے آج تم کو عذاب میں ڈال کر بھول جائیں گے چیخو گے چلائو گے ہم تمہاری ایک نہ سنیں گے۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اس میں پڑے رہو۔ سزا بھگتو گے اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ حالت تمہاری اس لئے ہوگی کہ تم نے اللہ کی آیات (قرآنی اور آفاقی) کو معمولی ٹھٹھا مخول سمجھا تھا تمہارے دل میں اللہ کے وعدوں اور الٰہی عظمت کا کوئی اثر نہ تھا اور تم دنیا کی زندگی سے دھوکہ کھا گئے تھے۔ یہ عتاب شاہانہ ان کے لئے سوہان روح ہوگا۔ پس وہ اس روز اس عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے۔ نہ ان سے توبہ کرائی جائے گی۔ گو وہ دنیا میں کتنی ہی عزت کے مالک ہوں گے مگر اللہ کے ہاں کسی کی ایری پیری نہیں چل سکتی کیونکہ سب قسم کی تعریفات اللہ ہی کو ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کا بلکہ سب دنیا کا پروردگار ہے آسمانوں اور زمینوں میں اس کی بڑائی ہے اسی کی تعریف کے گیت گائے جاتے ہیں اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے۔ یا عزیر یا غالب۔ لا غالب الا انت الجاثية
22 الجاثية
23 الجاثية
24 الجاثية
25 الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 الجاثية
29 الجاثية
30 الجاثية
31 الجاثية
32 الجاثية
33 الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 الجاثية
37 الجاثية
0 الأحقاف
1 وہ رحمن رحیم ہے الأحقاف
2 اسی کی رحمت کے تقاضے سے یہ کتاب قرآن مجید اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل ہے اس میں جو جو حکم نازل ہیں ان میں سراسر حکمت ہے ان کی تبلیغ میں جو کوئی مانع ہوگا تم دیکھ لو گے اس کو اللہ کے غلبہ کی صفت خود ہٹا دے گی مگر جلدی نہ کرنا گھبراہٹ میں کچھ فائدہ نہیں ہر کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے۔ الأحقاف
3 ہم (اللہ) نے آسمان زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سچے قانون کے ساتھ وقت مقررہ تک رکھنے کو پیدا کئے ہیں ان کے واقعات اپنے اپنے وقت پر قانون قدرت کے ماتحت وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اسی طرح سچی جھوٹی تعلیم کا مقابلہ بھی ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ضدا اور عناد میں تیری سچی تعلم سے منکر ہیں الأحقاف
4 وہ ان باتوں سے جو ان کو بطور نصیحت کے سنائی جاتی ہیں روگردان ہیں جن لوگوں کی اصلاح کے لئے ہم نے تجھ کو بھیجا ہے وہی تیرے برخلاف ہو رہے ہیں۔ تو ان کو پوچھو کہ بتائو تو سہی اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو۔ انہوں نے زمین کا کوئی حصہ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھائو یا آسمانوں کے پیدا کرنے میں ان کی شرکت ہے میں اس دعوی پر قرآن کی شہادت تم سے نہیں مانگتا کیونکہ اسے تو تم مانتے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کی کوئی کتاب لائو یا کوئی علمی دلیل پیش کرو جو کسی فلسفی منطقی اصول پر مبنی ہو۔ اگر تم سچے ہو تو ضرور ایسا کرو مطلب یہ ہے کہ میرے ساتھ بحث کرنے میں کسی سابقہ کتاب کا حوالہ پیش کرو یا عقلی دلائل لائو ورنہ صرف زبانی باتیں کرنا کارخرد مندان نیست الأحقاف
5 اور اگر دلیل نقلی یا عقلی نہیں تو پھر بتائو کہ ایسے لوگوں سے کون زیادہ گمراہ ہے جو ایسے اہم معاملہ میں نفسانیت کریں اور بے ثبوت اللہ کے سوا ایسے لوگوں کو پکاریں اور دعائیں مانگیں جو قیامت تک بھی ان کی نہ سنیں بلکہ ان کی آواز سے بھی بے خبر ہوں ایسے لوگ واقعی سخت گمراہ ہیں اس گمراہی کا نتیجہ اس روز بھگتیں گے جب ان پر مصیبت کا زمانہ آئے گا اور کوئی ان کے حال سے نہ پوچھے گا الأحقاف
6 یعنی جب سب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے معبود جن کو یہ پکارتے اور دعائیں مانگتے ہیں ان کے دشمن ہوجائیں گے اور انکی عبادت سے انکار کردیں گے کیونکہ ایک تو ان کو خبر ہی نہ ہوگی۔ دوم اگر ہوگی تو وہ سمجھیں گے کہ ہاں کرنے میں ہماری خیر نہیں اس لئے وہ صاف صاف انکار کردیں گے جو انکار ان کا صحیح اور بجا ہوگا۔ الأحقاف
7 اور سنو ! تیرے مخالفوں کی حالت کیسی نازک ہے کہ جب انکو ہمارے کھلے کھلے احکام سنائے جاتے ہیں تو یہ منکر لوگ سچی کتاب (قرآن) کے آجانے کے بعد اس کی تعلیم کے حق میں کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے الأحقاف
8 تو کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ قران کو اس نبی نے اپنے پاس سے بنا لیا وحی یا الہام کوئی نہیں صرف اس کے خیالات ہیں جو یہ بطور الہام بیان کر کے لوگوں کو اپنا تابع کرتا ہے۔ تو ان کے جواب میں کہہ کہ میں نے اگر افترا کیا ہے تو تمہیں اس کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ تم میرے معاملہ میں اللہ کے ہاں سے کچھ ذمہ داری نہیں رکھتے۔ پھر تمہیں کیا۔ تم اپنی فکر کرو۔ سنو ! جو باتیں تم بناتے ہو وہ اللہ کو خوب معلوم ہیں۔ مجھ میں اور تم میں یعنی میرے اور تمہارے معاملہ میں وہی گواہ کافی ہے اس کی شہادت تم سن لو گے کیسی ہوگی وہ تمہاری خواہش کے مطابق ابھی فیصلہ کردے مگر وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اس کی یہ دو صفتیں تقاضا کرتی ہیں کہ مجرموں کو گرفتار کرنے میں جلدی نہ کی جائے بلکہ موقع دیا جائے کہ وہ اس کی طرف جھکیں اور اگر باوجود انتہائی مہربانی کے نہ جھکیں تو پھر اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے الأحقاف
9 اے نبی ! تو ان مخالفوں کو کہہ دے کہ تم لوگ جو میرے ساتھ ایسے بے طرح برسر جنگ ہو میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں مجھ سے پہلے کئی رسول گذر گئے جس طرح وہ اللہ کے احکام سناتے تھے میں بھی سناتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے قانون میں نہ ان کو کچھ دخل تھا نہ مجھے دخل ہے بلکہ میں تو یہاں تک اعلان کرتا ہوں کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ کل مجھ سے کیا برتائو ہوگا اور تم سے کیا؟ اللہ جانے کل میں تندرست رہوں گا یا بیمار ہوجائوں گا تم بیمار ہو گے یا اچھے رہو گے میں تو مذہبی امور میں صرف اس کلام کی تابعداری کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے یعنی میں تو حکم کا تابعدار ہوں اور اللہ کے عذاب سے صاف صاف ڈرانے والا۔ الأحقاف
10 باوجود اس کے تم لوگ میری نہ سنو تو بھلا بتلائو تو سہی اگر یہ قرآن مجید اللہ کی طرف سے ہوجیسا کہ میرا دعوٰی ہے اور تم لوگ اس سے منکر ہو اور بنی اسرائیل میں سے معتبر علمدار گواہ اس کی شہادت دے کر ایمان لا چکے اور تم اکڑے رہے تو بتائو تمہارا کیا حال ہوگا۔ یہی کہ تم لوگ اللہ کے ہاں ظالم ٹھہرو گے اور اللہ ظالموں کی قوم کو ہرگز ہدایت نہیں دیا کرتا۔ پھر تم سوچ لو کہ اللہ کے ہاں معتوب ہونا تم کو کیا فائدہ دے گا؟ الأحقاف
11 (11۔12) دیکھو تو بھلا یہ بھی کوئی عذر ہے جو منکر لوگ ماننے والوں کو کہتے ہیں اگر یہ قرآن بہتر ہوتا یعنی اس میں کچھ خوبی ہوتی تو یہ غریب مسلمان لوگ ہم سے پہلے اسے قبول نہ کرتے کیونکہ ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ ہر کار خیر میں ہم امرا کا حصہ مقدم ہوتا ہے۔ پھر یہاں یہ قاعدہ کیوں ٹوٹتا۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ دنیاوی امور میں ان کی سبقت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دینی کاموں میں بھی ان کا حصہ مقدم ہے ہرگز نہیں وہ سڑک دوسری ہے یہ لائن جدا ہے مگر چونکہ ان لوگوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی ہے اس لئے کہہ دیں گے کہ یہ دعوی نبوت بہت پرانا جھوٹ چلا آرہا ہے۔ اسی طرح اس مدعی سے پہلے بھی مدعی گزر چکے ہیں ان کا بھی یہی طریق تھا کہ دعوی نبوت کرتے پھر کچھ کرشمے بھی دکھاتے لوگوں سے وعدے بھی کرتے۔ یہ بھی ایسا ہی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے حالانکہ اس (قرآن) سے پہلے موسیٰ کی کتاب توریت اپنے زمانہ میں امام اور رحمت تھی اور یہ کتاب قران مجید عربی زبان میں اس سابقہ کتاب کے مضامین کی مصدق ہے تاکہ ان لوگوں کو سمجھائے اور ڈرائے جو بوجہ بدکار کے ظالم ہیں اور نیکوکاروں کے لئے خوشخبری ہے جو تعمیل احکام کرنے سے خوش خبری کے مستحق ہیں۔ الأحقاف
12 الأحقاف
13 ہاں ان کی ظاہری پہچان کوئی چاہے تو اس کو بتا دو کہ جو لوگ زبان سے کہتے ہیں ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اسی پر جم جاتے ہیں۔ تمام دنیا میں حرکت پیدا ہو اس امر میں انکو حرکت نہیں ہوتی۔ تمام دنیا اللہ سے ہٹ جائے وہ نہیں ہٹیں گے تمام دنیا اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ نہیں کریں گے۔ نہ تنگی میں اللہ سے ہٹتے ہیں نہ خوشی میں اتراتے ہیں بس ان کا قول یہ ہوتا ہے۔ موحد چہ درپائی ریزی زرش چہ شمشیر ہندی نہی برسرش امید و ہراسش نباشد زکس ہمیں ست بنیاد توحید وبس پس ان کو نہ خوف ہوگا نہ وہ غمناک ہوں گے الأحقاف
14 یہی لوگ جنتی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ انعام ان کے ان کاموں کے بدلہ میں ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ الأحقاف
15 (15۔19) ان محسنین نیکوکاروں کی پہچان ایک اور بھی ہے کہ وہ اللہ کے حقوق ادا کرنے پر بس نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے جتنے مراتب ہیں سب سے اچھا سلوک کرتے ہیں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے محسن لوگ ان کے ساتھ تو بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں کیونکہ ہم (اللہ) نے ہر انسان کو اس کے والدین کے حق میں احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ باپ کے احسان تو بچہ خود دیکھتا ہے کہ کھانے پینے کو وہی دیتا ہے البتہ ماں کے ابتدائی احسانات اس پر مخفی ہیں اس لئے اس کو بتلائے جاتے ہیں کہ اس کی ماں نے اس کو سخت تکلیف میں اٹھایا اور سخت تکلیف میں اس کو جنا۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت کم سے کم تیس ماہ (اڑہائی سال) ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ پونے تین سال۔ یہ تو اس کی ابتدائی حالت کا ذکر ہے جس میں وہ بالکل عاجز وناتواں ہوتا ہے پھر جب وہ اپنی قوت کی عمر کو پہنچتا ہے خاص کر جوانی حیوانی سے گزر کر چالیس سال کی عمر کو تب پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس عمر تک خود بھی عموماً صاحب اولاد ہوجاتا ہے اس لئے اسے ماں باپ کی خدمات جو پہلے سنے سنائے معلوم تھیں اب مشاہد ہوگئیں لہذا اگر وہ نیک خیال نیکو کار ہے تو اپنی اولاد کو دیکھ کر کہ میں کس طرح اس کی دل سے پرورش کرتا ہوں اپنے ماں باپ کے احسانات یاد کر کے کہتا ہے اے اللہ مجھ کو توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی۔ یعنی وہ ماں باپ کا ایسا سچا خادم اور قائم مقام بنتا ہے کہ ان کی طرف سے بھی اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اپنی ذات خاص کے لئے یہ بھی کہتا ہے اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں ایسے نیک کام کروں کہ تو ان کو پسند کرے اور وہ اللہ سے یہ بھی دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ ! میری اولاد کو بھی صالح بناکہ وہ بھی میری روش پر چلیں تاکہ ہم سب تیرے حضور میں سرخ رو ہوں۔ نیک بخت نیکوکار یہ بھی کہتا ہے اے میرے اللہ میں اپنی تمام ضروریات اور تکلیفات میں تیری طرف جھکا ہوا ہوں اور میں تیرے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔ غرض یہ ہے کہ نیک بخت نیکو کار آدمی ہمیشہ اپنی اور اپنے متعلقین کی خیر وعافیت کے خواہاں رہتے ہیں ہر انسان کے متعلقین اصول اور فروع میں یعنی ماں باپ اور اولاد نیک خصلت نیکو شعار وہ ہیں جو اپنی اپنے ماں باپ کی اور اپنی اولاد کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے نیک اعمال ہم قبول کرتے ہیں اور ان کے اخلاص اور حسن نیت کی وجہ سے ان کی برائیوں سے ہم درگزر کریں گے کیونکہ یہ لوگ اہل جنت میں داخل ہیں یہ وعدہ جو ان کو دیا جاتا ہے بالکل سچا ہے اس لئے ضرور پورا ہوگا۔ اور جو نوجوان لڑکا گستاخی میں یہاں تک ترقی کرجاتا ہے کہ اپنے والدین کو جب وہ ان کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں حقارت سے ان کو تف کہتا ہے یعنی مقابلہ کرتا ہے اور ان کی نصیحت کے مقابلہ میں کہتا ہے کیا تم مجھے اس سے ڈراتے ہو کہ میں بعد مرنے کے دوبارہ زندہ ہو کر قبر سے نکالا جائوں گا؟ حالانکہ سینکڑوں اشخاص بلکہ کئی ایک قومیں مجھ سے پہلے گزر چکی ہیں وہ تو دوبارہ زندہ نہ ہوئے اور میں زندہ ہو کر اٹھوں گا اور کئے کی سزا جزا پائوں گا یہ تمہارا دیوانہ پن ہے وہ دونوں اس کے ماں باپ شفقت میں اللہ کی دہائی دیتے ہیں اور اس کی ہدایت طلبی میں اللہ سے مدد چاہتے ہیں اور اسے کہتے ہیں تیرا ناس ہو۔ بدمعاشوں کی صحبت میں بیٹھنا چھوڑ دے اللہ پر اور اللہ کے وعدوں پر ایمان لا بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ نالائق گستاخ ماں باپ کی مشفقانہ نصیحت سن کر کہتا ہے جی یہ تو پہلے لوگوں کے افسانے ہیں ان میں اصلیت اور صداقت نام کو نہیں تم کیا کہہ رہے ہو؟ مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ بعض اولاد ماں باپ کی پوری تابعدار ہوتی ہے اور بعض نوجوان ایسے بے فرمان ہوتے ہیں کہ ان کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے ان کی توہین اور ہتک کرتے ہیں اسی لئے انکو سزا بھی ایسی ہی ملتی ہے کہ ان سے پہلے جن اور انسان جو اس قسم کے بدمعاش گذر چکے ہیں ان ہی میں ان پر فرد جرم لگ چکا ہے کیونکہ یہ سارے لوگ اپنی بداعمالی کی وجہ سے خسارے میں تھے ان کی زندگی ان کے مال ان کے اسباب ان کی حکومت سب کے سب ان کے حق میں موجب نقصان تھے اور ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ان کے کاموں کے مطابق مختلف درجات ہیں جو کچھ کسی نے کیا وہ اس کو ملے گا تاکہ اللہ ان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ ان کو دے اور کسی طرح ان پر ظلم نہ ہوگا بلکہ جو کچھ انہوں نے یا کسی نے کیا ہوگا وہی ان کو ملے گا نہ سزا میں زیادتی ہوگی نہ جزا میں کمی۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 الأحقاف
18 الأحقاف
19 الأحقاف
20 اور سنو ! جس روز کافر لوگ دوزخ کے سامنے کئے جائیں گے تو سب سے پہلے ان کو یہ کہا جائے گا کہ تم دنیا میں لذتیں پا چکے اور اس میں خوب فائدے اٹھا چکے مگر چونکہ تم نے لذتوں اور نعمتوں کے شکرئیے نہ کئے پس آج تم کو ان اعمال بد کے عوض میں ذلت کا عذاب پہنچایا جائے گا کیونکہ تم لوگ ملک میں ناحق تکبر اور بدمعاشی کرتے تھے غریبوں اور زیردستوں کو ستاتے اور ظلم زیادتی کرتے تھے اسی کی سزا تم کو بھگتنی ہوگی کیا تم نے سنا نہیں ؟ شیخ سعدی مرحوم کیا کہہ گئے ہیں۔ ؎ مہازور مندی مکن برکہاں ! کہ بریک نمط مے نماند جہاں الأحقاف
21 (21۔28) یہی مضمون سمجھانے کے لئے حضرات انبیاء علیہم السلام دنیا میں آتے رہے اور سمجھاتے رہے چنانچہ عادیوں کے بھائی حضرت ہود کو ہم نے نبی بنا کر ان کی طرف بھیجا اس نے سمجھایا اور بتایا کہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ بد ہوگا۔ تم اپنی بد کرداری سے توبہ کرو اس کی زندگی کے واقعات میں وہ واقعہ یاد کرو جب اس نے اپنی قوم کو میدان احقاف کی سرزمین میں سمجھایا اور اللہ کا خوف دلایا اور اس سے پہلے اور پیچھے بھی کئی سمجھانے والے دنیا میں آئے جن میں سے ہر ایک نے یہ پیغام لوگوں کو پہنچایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں تمہارے حال پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم اس میں مبتلا نہ ہوجائو محض تمہاری خیر خواہی سے کہتا ہوں ورنہ مجھے اس میں ذاتی فائدہ کیا۔ تم جانو تمہارا کام وہ بولے کیا آپ اس غرض سے ہمارے پاس آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھسلا دیں اور اپنے معبود کی طرف لگا دیں کیا ہم کو ایسا ہی کم عقل سمجھا ہے کہ ہم آپ کے دائو میں آجائیں گے اور اپنا نفع نقصان نہ سمجھیں گے واہ صاحب خوب کہی پس آپ اگر سچے ہیں تو جس عذاب سے ہم کو ڈراتے ہیں وہ لے آیئے بس یہ آخری جواب ہے۔ آئندہ مہربانی کر کے ہمارا دماغ نہ چاٹئیے گا۔ حضرت ہود نے ان کی اس بے ہودہ گوئی کا جواب کس نرمی اور آشتی سے دیا۔ کہا اے بھائیو ! میری تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ برے کاموں کا بدلہ یقینا برا ہے۔ مگر اس کا وقت کون ہے۔ اور کب ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ اس کے سوا کوئی بات صحیح نہیں کہ صحیح علم اللہ کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ عذاب کا وقت کب ہے میں تو تم کو وہ پیغام پہنچاتا ہوں جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے۔ بس ہمارا کام کہہ دینا ہے یارو اب آگے چاہو تم مانو نہ مانو مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ بے سمجھی کی باتیں کرتے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی کی بات ہے ؟ کہ ایک شخص بطور نصیحت کے سمجھائے کہ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جو زجو تو اس ناصح مشفق کو جواب دیا جائے کہ بس ابھی ہاتھوں پر سرسوں اگا دے کیا یہ جواب عقلمندانہ ہے؟ راحت کا وقت ہے تو عذاب کا بھی وقت ہے۔ اس مشفقانہ نصیحت کی قدر انہوں نے یہ کی کہ اپنی ضد پر مصر رہے اور وہی کام کرتے رہے جن سے ان کو حضرت ہود روکتے تھے یہاں تک کہ ان کی ہلاکت کا وقت آگیا پس جب انہوں نے اس عذاب کو بشکل بادل اپنے میدانوں کی طرف آتے ہوئے سامنے دیکھا تو بوجہ خشک سالی مارے خوشی کے بولے کہ یہ سامنے آنے والا بادل ہم پر بر سے گا بزبان حال ان کو جواب دیا گیا۔ برسے گا نہیں بلکہ یہ وہ عذاب ہے جو تم لوگ جلدی مانگ رہے تھے یہ لو وہ آگیا۔ وہ کیا تھا؟ جیسا کہ ہوتا ہے بسا اوقات بادل آتا ہے آکر آندھی کی شکل میں اڑ جاتا ہے۔ وہ بادل بھی درحقیقت تیز ہوا تھی اس میں سخت عذاب تھا۔ وہ ہوا کیا تھی؟ ایک بلا تھی کہ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ اور برباد کرتی تھی جس چیز کو چھو جاتی بس وہ ایسی بھوگی ہوجاتی کہ اس میں جان ہی نہ رہتی۔ پس وہ عادی لوگ ایسے تباہ ہوئے کہ ان کے مکانوں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی بالکل سنسان ہو کا میدان تھا۔ چاروں طرف نظر دوڑائو کسی کو زندہ نہ پائوچاروں طرف کان لگائو کوئی آواز نہ سنو۔ اسی طرح بدکار قوم کو ہم سزا دیا کرتے ہیں جو قوم سرکشی میں اپنی حد سے گذر جاتی ہے ہم بھی اس پر ایسا ہی عذاب بھیجتے ہیں۔ یہ سب قانون قدرت کے ماتحت ہوتا رہتا ہے اس میں کسی قوم کا لحاظ یا کسی کی سفارش نہیں چلتی بلکہ سفارش کرنے والے بھی جس کے لائق ہوتے ہیں وہ پالیتے ہیں اور مجرموں کو کوئی کوشش مفید نہیں ہوتی۔ اے عرب کے لوگو ! سنو ! تم لوگ جو حق کی مخالفت اور اسلام کے مقابلہ میں اتنے تلے بیٹھے ہو تمہیں معلوم ہے ؟ کہ ہم (اللہ) نے ان عادیوں اور دیگر تباہ شدہ اقوام کو وہ وہ مقدوردئیے تھے کہ تم اہل عرب کو نہیں دئیے اور ہم (اللہ) نے ان کو یورپین اقوام کی طرح دور کی باتیں سننے کے لئے کان اور باریک چیزیں دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سوچنے کو دل دئیے تھے یعنی وہ اپنی صنعت کاری میں یورپین اقوام کی طرح ایسے باکمال تھے کہ کسی دور دراز ملک میں بھی کسی صنعت کا ذکر سنتے یا دیکھتے تو اپنے دل میں سوچ سمجھ کر اس کو ایجاد کرلیتے مگر اللہ مالک الملک سے ان کو لگائو نہ تھا پس جب اس بداعمالی کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو ان کے کان‘ آنکھ اور دل ان کے کچھ بھی کام نہ آئے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کی تکذیب کرتے بلکہ سخت مقابلہ کرتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تباہ ہوگئے اور جس عذاب کو سن کر اس کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا اور تباہ کردیا۔ انجام تم دیکھتے ہو کہ آج کوئی ان کا نام لیوا نہیں۔ اے مکہ والو ! سنو ! ہم نے تمہارے اردگرد کی کتنی بستیاں ملک شام تک تباہ کردیں جو تم اپنے سفروں میں بچشم خود دیکھتے ہو اور تباھی سے پہلے ہم نے ان کو اپنے احکام پھیر پھیر کر مختلف طرح سے سنائے تاکہ کسی طرح وہ ہماری طرف رجوع کریں مگر وہ بھی ایسے پختہ تھے کہ کسی طرح وہ نہ جھکے پھر جن لوگوں کو انہوں نے قرب اللہ حاصل کرنے کے لئے معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ کیوں نہ اڑے وقت میں کام آئے۔ وہ تو ان کے سامنے ہمیشہ نذر نیاز کرتے تھے مگر وہ ان کا کچھ نہ کرسکے۔ بلکہ ان سے بالکل غائب غلا ہوگئے۔ ان کی ان کو کوئی خبر نہیں اور ان کو ان کی مطلق اطلاع نہیں یہ ان کی کذب بیانی اور افترا پردازی کا نتیجہ ہے جو ساری عمر وہ کرتے رہے جس کا انجام یہ ہوا کہ دنیا میں ناکام رہے اور آخرت میں بھی ذلیل وخوار ہوئے الأحقاف
22 الأحقاف
23 الأحقاف
24 الأحقاف
25 الأحقاف
26 الأحقاف
27 الأحقاف
28 الأحقاف
29 (29۔35) پس اے پیغمبر ان کو سمجھانے کے لئے وہ واقعہ سنا اور سمجھا جب ہم نے تیری طرف چند جنوں کو بھیجا تھا کہ وہ قرآن مجید سنیں اور متاثر ہو کر ایمان لاویں پھر جب وہ اس موقع پر آئے جہاں تو اے نبی ! قران پڑھ رہا تھا تو ان کو قرآن سننے سے ایسے لذت آئی کہ وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے میاں چپ رہو۔ سنو تو یہ کیا پڑھ رہا ہے آخر ان پر وہی اثر ہوا جو ہونا چاہیے تھا کہ ایک ہی وقت میں سننے سے ایماندار ہوگئے پھر جب قرآن کی تلاوت ختم ہوئی تو وہ جن جو کافرانہ صورت میں آئے تھے اللہ کے عذاب سے ڈرانے والی جماعت بن کر اپنی قوم کی طرف پھرے جا کر ان کو کہا اے بھائیو ! دیکھو ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو اپنے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کے بعد اتری ہے اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرتی اور بڑی خوبی یہ ہے کہ راستی اور سدہھی راہ کی طرف ہدایت کرتی ہے کتاب کی یہ خوبی بیان کر کے کھلے لفظوں میں اپنی قوم کو سمجھاتے ہیں اے بھائیو ! اللہ کی طرف بلانے والے اس نبی کی بات کو قبول کرو اور دل سے اس پر ایمان لائو اللہ تم کو تمہارے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ اور سخت عذاب سے تم کو بچا لے گا اور جو کوئی اللہ کے پکارنے والے کی بات نہ مانے گا۔ وہ کہیں بھاگ کر اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کرسکتا ایسا کہ اللہ اس کو پکڑنا چاہے اور نہ پکڑا جائے بلکہ خود ہی عاجز ہے اور اسکے لئے اللہ کے سوا کوئی والی وارث نہیں ایسے لوگ یقینا صریح گمراہی میں ہیں۔ کیا یہ لوگ جانتے نہیں ؟ کہ جس اللہ نے اتنے بڑے بڑے آسمان اور زمین پیدا کئے اور ان کے پیدا کرنے سے اس کو کسی قسم کا تکان نہ ہوا یہودیوں اور عیسائیوں کی الہامی کتاب توریت کی دوسری کتاب ” خروج“ میں مذکور ہے۔ ” چھ دن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا“ (باب ٣١۔ فقرہ ١٧) تازم دم وہ ہوتا ہے جو تھکے اور تھکنا نقصان قدرت پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں کسی قسم کا نقصان نہیں اس لئے توریت کی اس عبارت کی اصلاح اور یہودیوں عیسائیوں کے عقیدے کی غلطی کا اظہار کرنے کو قرآن مجید کی اس آیت میں فرمایا (لم یعی بخلقھن) اللہ آسمان و زمین کو پیدا کرکے تھکا نہیں یہ تمہارا خیال غلط ہے (منہ) وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ ہاں بے شک وہ ہر کام پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں اس کی طاقت لا انتہا ہے اور اس کی قدرت کہیں ختم نہیں۔ کیا تم لوگوں نے مولانا حالی مرحوم کی رباعی نہیں سنی مٹی سے ہوا سے آتش وآب سے یاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں پر تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہ غیب میں اسی طرح یہاں اور سنو ! آج تو یہ منکرین قرآنی تعلیم سے سکڑا کڑ کر چلتے اور منہ سے بربڑاتے ہیں مگر جس روز کافروں کو جہنم کی آگ کے سامنے کیا اللہ کی قسم یہ واقعی ہے اور برحق ہم جو دنیا میں اس سے انکار کرتے تھے وہ سراسر ہماری ہٹ دہرمی تھی۔ اس اقرار کے بعد اللہ کا فرشتہ ان کو کہے گا پس تم اپنے کفر کی شامت اعمال سے اس عذاب کو چکھو تم کو اس سے مفر نہیں۔ یہ تو ان منکروں اور حق کے مخالفوں کا حشر ہوگا اور ضرور ہوگا۔ سن اے نبی ! تو تبلیغ احکام میں لگارہ اور مخالفوں کی تکلیف دہی پر صبر کیا کر جیسا بڑی ہمت اور استقلال والے پیغمبروں نے صبر کیا۔ بڑی بڑی تکلیفیں ان پر آئیں مگر وہ ان کو بڑی مردانگی سے برداشت کرتے رہے آخر نتیجہ اچھا ہوا اسی طرح تو بھی صبر کیا کر اور ان مخالفوں کے حق میں جلدی عذاب طلب نہ کر کیونکہ ان پر مصیبت کا زمانہ آنے والا ہے جس روز وہ عذاب دیکھیں گے جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے اس روز ان کے ہوش وحواس مفقود ہوں گے وہ سمجھیں گے کہ دنیا میں ہمارا قیام دن کی صرف ایک گھڑی بھر ہوا ہے حیرانی ہے کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم نے ایسے کیا جرم کئے کہ ایسی سختی میں ہماری جان پھنس گئی۔ خیر یہ باتیں تو ان کی ہوتی ہو اتی رہیں گی مطلب کی بات یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کے احکام کی تبلیغ ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ لوگ اس کے تابع ہوں گے اور کچھ اس سے منکر اور بے فرمان۔ سو اس تبلیغ کے بعد بے فرمان لوگ ہی تباہ اور برباد ہوں گے وہی عذاب میں مبتلا ہوں گے اور جو تابعدار ہیں وہ ہر طرح کی آسودگی میں رہیں گے۔ انشاء اللہ۔ الأحقاف
30 الأحقاف
31 الأحقاف
32 الأحقاف
33 الأحقاف
34 الأحقاف
35 الأحقاف
0 محمد
1 (1۔6) اللہ مالک الملک کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ کافر ہیں خود کافر ہونے کے علاوہ اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں یعنی دل سے کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نہ پھیلے لوگ اس کو قبول نہ کریں۔ ان کے اعمال صالحہ جو کبھی کوئی اچھا کام کسی وقت ان سے ہوا ہوگا اللہ وہ سب ضائع کر دے گا ذرہ برابر اس کا اجر ان کو نہ ملے گا۔ کیونکہ کفر اور مقابلہ اسلام دونوں ایسی زہریلی چیزیں ہیں کہ اپنے سے پہلے کے کسی نیک کام کو نہیں چھوڑتے اور جو لوگ ایمان دار ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں خاص کر اس کلام (قرآن) پر ان کا ایمان ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے اور وہ برحق ہے ان کے پروردگار کے ہاں سے آیا ہوا اس لئے وہ دل سے اس کو مانتے ہیں ایسے لوگوں کو انعام یہ ملے گا کہ اللہ ان کے گناہ جو بھول چوک میں ان سے ہوئے ہوں گے ان سے دور کر دے گا اور ان کی حالت سنوار دے گا۔ ان دو فرقوں میں یہ فرق اس لئے ہے کہ جو لوگ کافر ہیں وہ ناراستی کے پیرو ہیں اور جو ایماندار ہیں وہ حق کے پیرو ہیں حق بھی ان کا تراشیدہ یا پسندیدہ نہیں بلکہ وہ حق جو ان کے رب کے ہاں سے ان کے پاس آیا ہے اس لئے ان دو گروہوں سے جو جو معاملہ ہوگا دونوں کی شان کے مطابق ہے اسی طرح اللہ مہربانی سے لوگوں کے سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ہدایت پائیں چونکہ ان دونوں کے اعمال اور ارادے باہمی متخالف اور متضاد ہیں اس لئے لازمی ہے کہ ان دونوں گروہوں کے میل ملاپ پر بھی اس کا اثر ویسا ہی مخالف ہو۔ چنانچہ تم مسلمان دیکھ رہے ہو کہ کفار تم لوگوں سے کیسا معاندانہ برتائو کرتے ہیں پس میدان جنگ میں بغرض جنگ جب تم ان کافروں سے ملو تو ان کی گردنیں مارا کرو یہاں تک کہ جب تم ان دشمنان دین کو خوب قتل کرچکو تو جب ان کی قوت کمزور ہوجائے اور بھاگنے لگیں تو تم ان کو اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ قید کرلیا کرو۔ یہ لوگ تمہارے ہاں اسیران جنگ ہوں گے اس سے بعد ان لوگوں کو یا تو احسان کر کے چھوڑ دیا کرو یا عوض لے کر رہا کردیا کرو مگر اسیران جنگ کو کسی صورت میں قتل نہ کرنا۔ ان لوگوں سے یہی برتائو جاری رکھو جب تک کہ لڑائی ختم ہوجائے اور دشمن لڑنے سے ہتھیار ڈال دے۔ یعنی ہر ایک محاذ جنگ پر اسی طرح لڑتے رہو۔ پہلے شدت سے جنگ۔ بعد جنگ قید۔ قید کے بعد باحسان بریت یا بمعاوضہ نقدی رہائی۔ یہی سلسلہ ختم جنگ تک جاری رہے۔ حکم بھی ہے۔ اس کو یاد رکھو۔ ایک بات اور سنو ! بعض لوگ کہا کرتے ہیں۔ اللہ ہم کو جو حکم دیتا ہے کہ ہم کافروں کو قتل کریں خود ہی کیوں نہیں ان کو مار ڈالتا وہ یاد رکھیں اللہ بذات خود ان کو تباہ کرنا چاہتا تو خود ان سے بدلہ لے لیتا کوئی اس کو روکنے والا نہیں لیکن اس کو منظور ہے کہ تم میں سے بعض کو بعض کے حق میں مامور کر کے جانچے تاکہ تمہارے اعمال کا پبلک میں اظہار ہو اور تم کو اجر عظیم ملے اللہ تعالیٰ اگر سب کام خود اس طرح کرے جیسے یہ کہتے ہیں تو بھوکے کو روٹی کون کھلائے اور پیاسے کو پانی کون پلائے سو یہ ان کی غلطی ہے۔ قدرتی نظام اسی طرح ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہی ایک دوسرے کے کام آتا ہے اس واسطے اللہ تم کو ہدایت کرتا ہے کہ تم اس کی اطاعت میں دشمنان دین سے لڑو اور سنو ! جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہیں کرے گا جیسے کفار کے اعمال ضائع کئے جائیں گے بلکہ ان مؤمنین کو ہدایت کرے گا اور ان کا حال سنوار دے گا یعنی دنال کی کوفت اور مصیبت سے ان کو نجات دے گا۔ اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جو پہلے سے ان کو پچنوا رکھی ہے کہ وہ ایسی ہوگی یوں ہوگی اس میں ایسی ایسی راحتیں ہوں گی اس لئے وہ جاتے ہی اس میں یوں داخل ہوجائیں گے گویا وہ ان کا گھر ہوگا۔ محمد
2 محمد
3 محمد
4 محمد
5 محمد
6 محمد
7 (7۔14) مسلمانو ! سنو ! ہم تم کو ایک اصول بتاتے ہیں جو تم کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ چاہے تم تخت پر ہو یا تختے پر ہر حال میں اس اصول کو مدنظر رکھا کرو۔ وہ یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور بوقت تکلیف اور بموقع جنگ تمہارے قدم مضبوط کرے گا اور تم کو پختہ رکھے گا۔ پھر تم جہاں جائو گے فتح پائو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کیا تم نے ان طبقہ اولیٰ کے مسلمانوں کا حال نہیں سنا؟ فتح اک خادمہ ان کی تھی اور اقبال غلام مختصر یہ ہے کہ پلے پہ اللہ رکھتے تھے یہ حال تو مسلمانوں کا ہے کہ ان کی ثابت قدمی اور نصرت دینی پر ان سے ترقی اور کامیابی کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو لوگ قرآنی تعلیم سے منکر ہیں ان کی تباہی ہوگی اور اللہ ان کے کئے کرائے اعمال سب ضائع کر دے گا۔ کسی اچھے کام کا بدلہ ان کو نہیں ملے گا۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی اتاری ہوئی کتاب (قرآن شریف) کو ناپسند کیا اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کے نیک اعمال ضائع ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے ان کے نیک کام سب ضائع کر دئیے اب ان کا نیک بدلہ ان کو نہ ملے گا۔ کیا یہ لوگ اپنے اردگر دملک میں پھرے نہیں کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا سنو ! ہم بتاتے ہیں یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو تباہ اور بالکل برباد کردیا۔ سنو ! اور کان کھول کر سنو ! کہ ان کافروں کے لئے جو تمہارے سامنے ہیں اس مصیبت سے کئی گنا زیادہ عذاب اللہ کے ہاں مقرر ہے یہ فرق ( کہ مؤمنوں کو کامیابی اور منکروں کی ناکامی) اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی ایمانداری اور راست بازی کی وجہ سے ان کا حامی ہے اور کافروں کی بے ایمانی اور دغابازی کے سبب سے ان کا کوئی حامی مددگار نہیں۔ سنو جی ! اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور نیک عمل کرنے والوں یعنی بھلے لوگوں کو جنتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور جو لوگ کافر یعنی بے ایمان اور بد اعمال ہیں ان کی حالت ان کے برعکس ہوگی۔ دنیا میں ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے بے فکری سے مزے کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے چارپائے کھاتے ہیں جس طرح چارپائے بعد کھانے پینے کے نہ کسی کا شکریہ اپنے پر واجب جانتے ہیں نہ احسان مانتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اللہ کے انعامات کا شکریہ ادا نہیں کرتے اس لئے ان کا انجام برا ہوگا اور آگ میں ان کا ٹھکانہ ہوگا۔ اس قسم کا واقعہ کوئی آج ہی نہیں پیش آیا بلکہ بہت پہلے بھی ایسا ہوتا رہا جس بستی (مکہ) والوں نے تجھ کو ( اے محمد) تیرے گھر (مکہ) سے نکالا تھا یعنی بذریعہ تکلیفات شدیدہ کے نکلنے پر تجھے مجبور کیا اور اللہ نے بخیرو عافیت تجھے مدینہ منورہ میں جا بسایا تھا۔ اس بستی سے بہت زیادہ قوت والی کئی بسیایں دنیا میں پیدا ہوچکی ہیں ان کو ہم (اللہ) نے تباہ کردیا پھر اس کا کوئی مددگار نہ ہو سگا۔ جیسے عاد‘ ثمود‘ لوطی‘ نوحی‘ فرعونی وغیرہ وغیرہ سب تباہ کئے گئے اسی طرح ان تیرے مخالفوں کا حشر ہوگا۔ کیا ان کو اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی؟ بھلا جو شخص اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہے وہ ان بدنصیبوں کی طرح ہے ؟ جن کو اپنے برے کام بھلے معلوم ہوتے ہیں اور وہ اپنے من کی خواہشات کے پیرو بن رہے ہیں اسی وجہ سے وہ کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے برے کاموں کی برائی معلوم نہیں ہوتی بلکہ بجائے برائی کے بھلے معلوم ہوتے ہیں پھر وہ چھوڑیں تو کیونکر؟ کون ان دونوں کو یکساں کہے گاَ ؟ ہرگز نہیں۔ پہلے لوگ اللہ کے مقبول ہیں۔ اور دوسرے مردود۔ پہلی قسم کے لوگوں کا نام اللہ کے نزدیک متقی ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ اللہ کی طرف سے وعدہ جنت ہے محمد
8 محمد
9 محمد
10 محمد
11 محمد
12 محمد
13 محمد
14 محمد
15 (15۔17) سنو ! جس جنت کا ان متقیوں کو وعدہ دیا گیا ہے اس میں کئی قسم کے اسباب عیش و آرام کے ہوں گے کئی ایک ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جو کسی حال میں سڑے گا نہیں اور کئی ایک دودھ کی نہریں ہوگی جن کا مزہ نہ بدلے گا۔ اور کئی ایک انگوروں کے نچوڑ کی نہریں ہوں گی جو پینے والے کو لذت دیں گی اور کئی ایک صاف مصفی شہد کی نہریں ہوں گی جو اپنے رنگ میں بہت مزیدار اور ان جنتی لوگوں کے لئے ان بہشتوں میں کھانے کو ہر قسم کے پھل ہوں گے پروردگار کی طرف سے بخشش اور عام معافی ہوگی۔ جو کچھ دنیا میں ان سے کسی قسم کی غلطی ہوئی ہوگی وہ سب معاف ہوگی بھلا یہ لوگ ان لوگوں کی طرح ہوں گے ؟ جو ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے اور ان کو سخت گرم پانی پلایا جائے گا۔ جو ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا۔ یہ باتیں اس وقت تو ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتیں کیونکہ یہ ان باتوں کو توجہ سے سنتے ہی نہیں اور نہ غور کرتے ہیں بلکہ ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو تیری طرف اے نبی ! کان لگاتے ہیں گویا وہ سنتے ہیں اور جب تیرے پاس سے باہر نکل جاتے ہیں تو مسلمان علمداروں کو بطور مخول کہتے ہیں اس (محمدﷺ) نے ابھی کیا کہا تھا؟ گویا وہ سنے ہی نہیں۔ جب سنے ہی نہیں تو سمجھے کیا ہوں گے یہی بے پرواہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کردی ہے کیونکہ یہ لوگ بڑے غافل اور اپنی خواہشات کے پیرو ہیں اور جو لوگ اللہ سے ڈر کر ہدایت یاب ہیں اللہ ان کو ہدایت زیادہ دیتا ہے اور ان کو تقویٰ پرہیزگاری کی توفیق بخشتا ہے محمد
16 محمد
17 محمد
18 (18۔19) مگر یہ مشرکین عرب جو تیرے برخلاف ایسے جمے ہوئے ہیں کہ کسی طرح راستی ناراستی کی پرواہ نہیں کرتے ان کے ظاہری حال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ فورا ان پر آجائے تو سیدھے ہوجائیں اے لو اس کی علامات تو آگئیں۔ نبی آخر الزمان پیدا ہوچکے۔ نبوۃ ختم ہوگئی۔ جبرئیل کا وحی لے کر آنا بند ہوگیا۔ معجزات ظاہر ہوچکے۔ پھر جب وہ اصل قیامت آ موجود ہوگی تو اس وقت ان کو کیا خاک نصیحت ہوگی ؟ اس وقت تو ان کے حق میں یہ شعر موزوں ہوگا عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مؤمن ! آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہو گے پس تم ان کی بے ہودہ گوئی پر کان نہ لگائو اور دل سے جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم اسی پر اپنا اعتقاد رکھو اور اپنے گناہوں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے گناہوں کے لئے اللہ سے بخشش مانگا کرو۔ یعنی اس طرح دعا مانگا کرو جس طرح ہم نے تم کو سکھائی ہے :۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلَّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا انَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ (پ۔ ٢٨۔ ع ٤) اللہ تمہارے کاموں میں دوڑ دھوپ کرنا‘ کسی جگہ تمہارا آنا جانا اور کسی ایک جگہ مقام کر کے ٹھہرنا سب جانتا ہے جہاں جائو اس کا خیال رکھو کہ ہم اللہ کے حضور میں ہیں محمد
19 محمد
20 (20۔23) جن لوگوں کو اللہ کے احکام پر ایمان ہے وہ جانتے ہیں کہ ہماری نقل وحرکت سب اللہ کو معلوم ہے اور وہ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اس لئے ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہماری زندگی اور موت اللہ ہی کی راہ میں لگے چنانچہ وہ جہاد کی تمنا میں ہمہ تن شوق ہو کر کہتے ہیں کیوں نہیں کوئی ایسی سورت اتری جس میں جہاد کا حکم ہو تاکہ ہماری مراد بھی بر آئے اور ہم بھی دینی خدمت میں جان بحق تسلیم ہوجائیں کیونکہ سب نکل جائیں گے او قاتل ! ہماری حسرتیں جبکہ سر اپنا ترے زیر قدم دے دیں گے ہم ہاں جو لوگ ظاہری طور سے ایماندار ہیں مگر دل میں منافق اور بے ایمان ہیں وہ بھی ان ایمان داروں کے ساتھ اس قسم کی خواہش میں شریک ہوجاتے ہیں اور جہاد کا حکم مانگتے ہیں پھر جب صاف اور بے لاگ سورت نازل ہوتی ہے جس میں جہاد وقتال کا ذکر اور حکم ہوتا ہے۔ تو اے نبی ! تو دیکھتا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ضعف کی بیماری ہے وہ ان ایمانداروں سے ایسے الگ ہوجاتے ہیں جیسے سچے عاشق سے بوالہوس جدا ہوجاتا ہے۔ وہ تجھے یوں تاکتے ہیں جیسے کوئی موت کی بے ہوشی میں پھٹی نظر سے تاکتا ہے۔ ان کی حالت پر یہ رباعی خوب چسپاں ہے۔ ؎ زاہد کہتا تھا جان ہے دین پر قربان پر آیا جب امتحان کی زد پر ایمان کی عرض کسی نے کہئے اب کیا ہے صلاح؟ بولے کہ بھائی جان ! جی ہے تو جہاں پس حکم کی تابعداری کرنی اور بات معقول کہنی ان کے حق میں اچھی ہوتی مگر یہ کو تہ اندیش ہیں کہ دور اندیشی سے کام نہیں لیتے۔ اگر کسی ضروری قومی کام یعنی جہاد وغیرہ کا وقت آجائے اس وقت یہ لوگ اللہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ سچا کریں تو ان کے لئے بہتر ہو۔ یعنی زبانی اطاعت اور تابعداری کا جو اظہار کرتے ہیں کسی کام نہیں اڑے وقت پر کام کرنا کام کی بات ہے پس اب تو تم ایسے لوگوں کا یہ حال ہے۔ کہ اگر تم حکومت پر متمکن ہوجائو تو یقینا ملک میں فساد کرو اور رشتوں کے تعلقات قطع کر ڈالو۔ کیونکہ تم خود غرض ہو اور برسر حکومت قوم کے لئے خود غرضی مہلک ہے یہی خود غرض مفسد لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کو کانوں کی قوت شنوائی سے اللہ نے بہرہ اور ان کی آنکھوں کو بے نور کردیا ہے۔ یہ لوگ نہ واقعات عالم سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں محمد
21 محمد
22 محمد
23 محمد
24 (24۔30) بھلا یہ لوگ جو قرآنی تعلیم سے اتنے بدکتے ہیں کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر غفلت کے تالے لگے ہوئے ہیں در حقیقت دونوں باتیں ہیں مگر پچھلی بات پہلی کا سبب ہے یعنی ان کے دلوں پر غفلت کا پردہ ہے۔ اس لئے یہ لوگ قرآن مجید پر غور نہیں کرتے۔ اس کی تہ کا پردہ بھی ہم بتائے دیتے ہیں کہ جو لوگ ہدایت معلوم ہوجانے کے بعد بھی الٹے پائوں چاہ ضلالت کو جاتے ہیں۔ شیطان نے ان کو دھوکہ دے رکھا ہے اور ان کو بہتری کی امیدیں دلا رکھی ہیں۔ دنیا عالم اسباب ہے ان کی اس گمراہی کا بھی ایک سبب ہے۔ یہ اس لئے اس حد تک پہنچے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے کلام کو ناپسند کرتے ہیں یعنی قرآن شریف کے منکر ہیں یہ لوگ مرتدیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے ان کو کہتے تھے کہ ہم بعض باتوں یعنی ان امور میں جو مسلمانوں کی ترقی کی سدراہ ہوسکتے ہیں ہم تمہاری ہی صلاح مانا کریں گے اور مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا کریں گے یعنی خفیہ طور پر انہوں نے بغاوت کے منصوبے باندھ رکھے تھے اللہ تعالیٰ ان کی سرگوشیوں کو خوب جانتا ہے پس تم مسلمان بے خوف وخطر رہو وہ تم کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے اس وقت تو یہ ادھر ادھر کی لگاتے پھرتے ہیں۔ بھلا اس وقت کیا کریں گے اور کس کو حمایتی تلاش کریں گے جب فرشتے ان کو فوت کرتے ہوئے ان کے مونہوں اور پیٹوں کو ضربیں لگائیں گے ایسی حالت میں ان کی جانیں نکالیں گے یہ اس لئے کہ جو طریق اللہ کو ناپسند ہے یہ لوگ اسی پر چلتے رہے ہیں۔ اور اللہ کی خوشنودی کو ناپسند کرتے رہے تو اللہ نے بھی ان کے کئے کرائے اعمال ضائع کر دئیے اس لئے تم مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے پرہیز کرنا چاہیے کیا جن کے دلوں میں اسلام کی عداوت کا مرض ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی عداوتیں نکال نہیں پھینکے گا یعنی ایسے واقعات ظہور پذیر نہ ہوں گے کہ یہ لوگ یا تو اسلام میں آجائیں گے یا مارے غصے اور موت کے فنا ہوجائیں گے جس پر یہ شعر ان کے حق میں صادق آئے گا۔ ؎ بمیرتا برہی اے حسود ! کیں رنجیست کہ از مشقت آں جز بمرگ نتواں رست اس آیت کے نزول تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقوں کی تشخیص کا علم نہ تھا بعد اس کے کرایا گیا جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت نے حضرت حذیفہ صحابی کو بتا دیا تھا (منہ) اور اگر ہم (اللہ) چاہتے تو تجھ کو وہ دشمنان اسلام دکھا دیتے پچنوا دیتے پھر تو ان کے چہروں کے نشانوں سے ان کو پہچان لیتا۔ ایسا کہ ان کی پہچان اور تشخیص میں تجھے اے نبی ! کوئی شک وشبہ نہ رہتا۔ جب سامنے آتے ان کی شخصیت کے ساتھ ہی ان کی صفت قبیحہ تیری نظر میں آجاتی۔ اب بھی تو ان کے طرز گفتگو میں ان کو پہچان لیتا ہے۔ کیونکہ ان کی گفتگو میں بناوٹ ہوتی ہے اور مخلص مؤمنوں کی گفتگو بناوٹ سے پاک صاف ہوتی ہے۔ اور اللہ کو تمہارے اعمال سب معلوم ہیں اس سے تو کوئی چھپا ہی نہیں محمد
25 محمد
26 محمد
27 محمد
28 محمد
29 محمد
30 محمد
31 (31۔38) ہاں تم مسلمان یہ نہ سمجھنا کہ تم امتحان الٰہی سے مستثنیٰ ہو۔ ہرگز نہیں بلکہ ہم (اللہ) تمہاری ضرور جانچ کریں گے۔ یہاں تک کہ ہم تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جو جہاد جیسی سخت تکلیف میں صبر کرتے رہے۔ پبلک میں تمیز کرا دیں گے اور تمہارے حالات پر لوگوں کو اطلاع کرا دیں گے۔ بھلا مخلص مؤمنوں کے ساتھ منافق کب تک ملے جلے رہیں گے ایسا رہنا ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کے احکام سے منکر ہیں نہ صرف منکر بلکہ ضد کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں اور ہدایت کی راہ ان کو معلوم ہوجانے کے بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت مخالفت کرتے ہیں گو وہ اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کو گرا دیں گے لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے دین اسلام کو ذرہ جتنا بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے نہ پہنچا سکیں گے بلکہ ذلیل وخوار ہوں گے اور ان کے اعمال جتنے انہوں نے کئے ہیں از قسم صالح یا از قسم مخالف اسلام اللہ سب کو ضائع کر دے گا۔ صالح اعمال تو اس طرح کہ انکا بدلہ ان کو نہ ملے گا اور مخالف اس طرح کہ وہ ان کوششوں میں کامیاب نہ ہوں گے۔ یہی ان کا ضائع ہونا ہے۔ پس اے مسلمانو ! تم یقین رکھو کہ ان کفار کے ساتھ اللہ ایسا ہی کرے گا۔ اس لئے تم اللہ کی اور اللہ کے رسول کی تابعداری دل سے کیا کرو۔ اور اپنے اعمال ضائع نہ کیا کرو یعنی نیک اعمال کرتے ہوئے کسی قسم کی ریا نہ کرنا۔ بعد اعمال کرنے کے دل میں غرور نہ لانا۔ کہ ہم نے فلاں نیک کام کیا۔ اسی طرح کسی نیک کام کو شروع کر کے ادھورا نہ چھوڑنا۔ یہ سب صورتیں ضائع ہونے کی ہیں۔ سنو ! اور دل سے سنو ! جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کاملہ سے منکر ہیں نہ صرف خود منکر اور مخالف ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مر جاتے ہیں تو ان لوگوں کو اللہ ہرگز نہ بخشے گا بلکہ ضرور سزا دے گا۔ کیونکہ انہوں نے ڈبل جرم کیا ہے ایک تو خود مجرم بنے دوسرے اور لوگوں کو مجرم بنایا۔ پس تم ان لوگوں کے ظاہری رعب داب سے سست نہ ہو اور ان کو مصالحت کی طرف مت بلائو بلکہ ہمیشہ مقابلہ پر ڈٹے رہو اس میں تمہاری زندگی ہے اور اسی میں تمہاری ترقی ہے۔ اور سن رکھو تم ہی بلند رہو گے بشرطیکہ مضبوط اور ایماندار ہو گے اور اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا پس تم ہر طرح اس قومی کام میں لگے رہو۔ دنیا مقابلہ کا میدان ہے جو جتنی کوشش کرے گا اتنا ہی پھل پائے گا۔ دنیا میں باعزت رہنے کی یہی ایک سبیل ہے کہ تم ہر قسم کے قومی مقابلہ میں مضبوط رہو۔ تمہارا کسی قسم کا ضعف دیکھ کر دشمن کو تمہارے گرانے کی طمع نہ ہو۔ ہاں اگر دنیاوی عیش و آرام ہی پر فریفتہ ہو تو سن رکھو کہ سوا اس کے نہیں کہ اس دنیا کی زندگی کھیل تماشہ ہے یعنی چند روزہ تفریح ہے اور بس۔ بہتر ہے کہ اس زندگی میں کوئی اچھا کام کرلو جو دوسری زندگی میں کام آئے۔ پس سنو ! اگر تم ایماندار بن جائو۔ اور برے کاموں سے بچتے رہو۔ یعنی ایمان لا کر اعمال صالحہ کرتے رہو۔ اور بد اعمال سے پرہیز کرتے رہو۔ تو اللہ تمہارے کاموں کا بدلہ تم کو پورا دیگا۔ اور وہ اپنی ضرورت کے لئے تم سے مال نہیں مانگے گا۔ جیسے دنیا کے بادشاہ اپنی حاجت روائی کے لئے رعایا سے ٹیکس یا قرض وغیرہ مانگا کرتے ہیں۔ وہ مانگے تو کیوں ؟ جبکہ دراصل وہی داتا ہے تو اپنے محتاجوں اور سائلوں سے مانگے؟ ہاں اس میں بھی شک نہیں کہ اگر وہ اللہ تم سے اپنی ضرورت کے لئے مال مانگے اور تم کو چمٹ کر بھی مانگے تو بھی تم نہ دو گے بلکہ بخل کرو گے اور اس سے تمہارے چھپے راز اور دلی بغض وعناد وہ ظاہر کرے گا۔ کیونکہ اسلامی ضرورت کے موقع پر جو خرچ نہ کرے اس کے دل میں اسلام کی محبت کہاں بلکہ بغض کا ثبوت ہوگا۔ دنیا میں محبت کا اصول یہ ہے کہ پیارے پر سب کچھ قربان ہوتا ہے۔ اگر اسلام پیارا ہے تو اس پر سب کچھ قربان ہے۔ ورنہ دعویٰ غلط۔ اے مسلمان لوگو ! اسلام کے مدعیو ! تمہاری بہتری اور ترقی مدارج کے لئے تم کو بلایا جاتا ہے۔ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر بھی بعض تم میں سے بخل کرتے ہیں اور بعض اللہ کے بندے دلیری سے خرچتے بھی ہیں۔ اور اللہ کے ہاں سے اس کی نیک جزا کی امید رکھتے ہیں۔ سنو ! جو اللہ کی راہ میں نیک کاموں پر خرچ کرنے سے بخل کرتا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اللہ کے حق میں یا دین کے حق میں بخل کرتا ہوں جس سے اللہ کا یا دین کا کچھ بگڑے گا۔ بلکہ وہ اپنے نفس سے بخل کرتا ہے اس کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا۔ اور اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا۔ اللہ کو اس کے بخل کا کوئی اثر نہیں پہنچتا۔ کیونکہ بندوں کے خرچ سے اس کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں۔ وہ اللہ برتر دنیا کے سب لوگوں سے غنی بے نیاز اور بے پرواہ ہے اور تم ہر آن اس کے محتاج ہو۔ وجود میں۔ بقا میں حاجات میں غرض ہر بات میں۔ پھر تمہارے خرچ سے اس کا ذاتی فائدہ اور کام چلے تو کیونکر؟ اور بخل سے نقصان ہو تو کیوں۔ سنو ! اگر تم مسلمان اس کے دین کی خدمت سے روگردانی کرو گے یعنی اس کے راستے میں خرچ نہ کرو گے تو وہ تم کو اس خدمت کا نااہل جان کر تمہارے بجائے اور کوئی قوم لے آئے گا۔ جو دین کی خدمت کریں گے پھر وہ تمہارے جیسے نالائق نہ ہوں گے۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا ہی ہوگا اسلام کی خدمت کا احسان اللہ پر مت رکھو بلکہ اللہ کا احسان سمجھو کہ اس نے تمہیں اس خدمت کے لائق بنایا۔ منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منت ازد بداں کہ بخدمت گذاشتت محمد
32 محمد
33 محمد
34 محمد
35 محمد
36 محمد
37 محمد
38 محمد
0 الفتح
1 (1۔17) اے نبی (علیہ السلام) ہم نے تجھے کھلی فتح دی ہوئی ہے جو عنقریب ظاہر ہوگی جسے تمام دنیا دیکھ اور سن لے گی تاکہ اللہ تجھ پر ظاہر کرے کہ اس نے تیرے اگلے پچھلے سارے گناہ بخشے ہوئے ہیں نبوۃ سے پہلے کی غلطیاں اگر کچھ ہوئی ہیں تو وہ اور بعد نبوۃ جو سہو ونسیان ہوا ہے وہ بھی معاف ہوگا۔ کیونکہ قاعدہ شاہی ہے کہ ” سلام کاریگراں معاف“ چونکہ تو اے نبی اللہ احکام کی تبلیغ میں شب وروز لگا رہتا ہے اس لئے بطور انعام تجھے یہ سب کچھ دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ تو اس کا رسول ہے اس لئے کہ تو نے جو پیش گوئیاں کی ہیں وہ سچی ثابت ہوئی ہیں جن سے تیرا صدق اور اللہ کا جلالی ثابت ہوتا ہے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا تھا کہ ہم کعبہ شریف کا طواف کر رہے ہیں۔ خواب دیکھتے ہی سفر شروع کردیا۔ وہاں مشرکین مکہ مانع ہوئے آخر صلح ہوئی کہ آئندہ سال طواف کو آئو اور نو سال تک لڑائی بند۔ انہی نو سالوں میں مشرکین کی طرف سے بدعہدی ہوئی جس پر حضور (علیہ السلام) نے فوج کشی کرکے بغیر جنگ مکہ فتح کرلیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ سورت نازل ہوئی فتح سے مراد سلسلہ فتوحات ہے صلح حدیبیہ اس کی تمہید تھی (منہ) اور تاکہ اللہ تجھ پر اپنی مقدرہ نعمت پوری کرے یعنی جو فتوحات اور برکات تیرے لئے مقدر کی ہیں ارشاد الٰہی ہے کہ وہ تجھے ملیں اور تیرے نصب العین ترقی اسلام اور فتوحات ملکی میں تجھے سیدھی راہ دکھائے۔ بلکہ مقصود پر پہنچائے اور تیری زبردست مدد کرے۔ یہ سب واقعات بتدریج اپنے اپنے وقت پر ہو رہیں گے یقینا جانو کہ ایسا ہی ہو کر رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیا تمہیں وہ واقعات یاد نہیں جو مقام حدیبیہ پر ہوئے تھے۔ قدرت کے کیسے کرشمے ظاہر ہوئے تھے۔ سب سے پہلے قابل ذکر تو مسلمانوں کی گھبراہٹ کا دور کرنا ہے دنیا کی کوئی طاقت نہ تھی جو اس وقت مسلمانوں کو تسلی دے سکتی۔ وہ اللہ ہی تھا جس نے ایمانداروں کے دلوں میں تسلی نازل کی تھی تاکہ وہ اللہ کی طرف جھکیں اور ان کے سابقہ یقین میں ترقی ہو۔ جب وہ دیکھیں کہ جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اور جس امر پر مصالحت منظور فرمائی وہی بہتر اور مفید ثابت ہوئی اور ہماری رائیں اس کے مقابلے میں ہیچ۔ ورنہ کفار کی کثرت تو کوئی چیز نہ تھی۔ پدی کیا اور پدی کا شوربہ کیا۔ آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں اللہ کی فوج ہیں اور یہ فوجیں اللہ کے قبضے میں ہیں جس متکبر سرکش کو سزا دینا چاہے اپنی فوج میں سے جس کو چاہے حکم دے کر اس کو ہلاک اور تباہ کرا دے اس کے حکم سے کسی کو سرتابی ممکن نہیں اور اللہ بذات خود بڑے علم والا اور حکمت والا ہے مصالح کو وہ خود جانتا ہے کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں کسی کے اطلاع کرنے کی حاجت نہیں وہ اپنے افعال میں خود حکیم ہے اس کے افعال اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ کوئی ناواقف اس کے افعال کی تہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ فتح کا ثمرہ کچھ خاص تجھ نبی ہی سے مخصوص نہیں بلکہ امت بھی اس میں شریک ہے کیونکہ وہ کار میں شریک ہیں تو ثواب کار میں کیوں شریک نہ ہوں۔ یہ سب کچھ جو حدیبیہ میں ہوا اور اس کے بعد جو ہوگا اس لئے تاکہ اللہ تعالیٰ پختہ ایماندار مردوں اور عورتوں کو بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہیں نہ چند روزہ اقامت کریں گے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور اس لئے ہوا کہ اللہ ان سے گناہ دور کر دے اور کامل بخشش سے ان کو نوازے اور اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے جس کو نصیب ہو اس کا بیڑا پار اور جو اس سے محروم رہا اس کا ستیاناس پس یہ سب کچھ ہوگا۔ اور جو لوگ اس کار جہاد میں شریک نہیں ہوئے بلکہ مخالف رہے یعنی منافق مردوں‘ منافق عورتوں‘ مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے حق میں بدگمانی کرتے ہیں یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے رسول کی اور اپنے تابعدار غلاموں کی مدد نہ کریں گے اور یہ لوگ (مسلمان) گردش زمانہ سے تباہ ہوجائیں گے غلط ہے اور تاکہ اللہ ان بدگمانوں کو سخت عذاب کرے۔ بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے بندوں کو لاوارث چھوڑ دیں ؟ یہ تو ہمارے (اللہ کے) حق میں بدگمانی ہے۔ اس بدگمانی کی سزا میں خود ان پر بری گردش آنے والی ہے۔ اور اللہ نے ان پر غضب کیا ہے اور لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ اس قسم کے لوگوں میں بہت سے ذی عزت بلکہ حاکم بلکہ بادشاہ بھی ہیں۔ تو ایسے ذی عزت ذی وجاہت لوگوں کو گرفتار اور مبتلاء عذاب کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ پس ایسے واہمے کرنے والے سن لیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام فوجیں اللہ کے قبضے میں ہیں یعنی آسمان وزمین میں جو چیزیں ہیں وہ سب اللہ کی فوج ہیں اس کے حکم میں ہیں جس چیز کو حکم دے وہی چیز دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اور آن کی آن میں تباہ کر دے مثلا ہوا جو ہر ذی جان کی زندگی کا سبب ہے اللہ کے حکم سے موت کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح پانی جس پر زندگی موقوف ہے اللہ کے حکم سے طوفان کی شکل میں سب کچھ برباد کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ بذاتہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے اس کے مقابل کسی کی کیا مجال بلکہ کیا ہستی کہ اس کو ہستی کہا جائے یا اس کو شمار میں لایا جائے کیا تم نے نہیں سنا ؎ پناہ بلندی وپستی توئی ! ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی یہ تو ہے ہماری (اللہ کی) ذات اور صفات کا بیان۔ باقی رہا (اے رسول !) تیرا معاملہ سو یہ بالکل واضح ہے کہ تو نہ کسی کام کا ذمہ دار ہے نہ مدار المہام۔ ہم نے تجھ کو ان لوگوں کے حال پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جو تیرے سامنے واقع ہو جو تجھ سے برتائو کریں اللہ کے حضور تیرا بیان ہوگا۔ اور نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا۔ بس ان تینوں کاموں کے لئیے تجھ کو دنیا میں رسول بنا کر ہم نے بھیجا ہے۔ تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس میں (اللہ کے دین) کی اشاعت دین میں مدد کرو اور اس (اللہ) کی عظمت دل میں پیدا کرو اور اس (اللہ) کو صبح شام پاکی سے یاد کیا کرو۔ ! (اس آیت کا جو ترجمہ اور تفسیر ہم نے اس جگہ کی ہے۔ عام مفسرین کی رائے ہے۔ ہماری رائے میں اس آیت اور اس جیسی جملہ آئیتوں میں رسول کے شاہد ہونے سے مراد حاکم اور بادشاہ ہے۔ دوسرے پارہ کے شروع میں زیر آیت (لتکونوا شھدآء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا) مفصل لکھ آئے ہیں وہاں بلا خطہ ہو۔ (منہ) (اس آیت میں جو تین ضمیریں آئی ہیں میں نے بخوف انتشار ضمائر تینوں کا مرجع ایک (اللہ) ہی رکھا ہے۔ بعض مفسرین اور مترجمین نے پہلی دو ضمیروں کا مرجع رسول اور تیسری کا اللہ بتایا ہے۔ چنانچہ تفسیر القرآن عربی میں میں نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ ٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیکن اس موقع پر پہنچ کر میں مرجعوں کے اتحاد کو ترجیح دیتا ہوں۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے بھی یہی رائے اخیتار کی ہے۔ (منہ) اے نبی ! تیرے ان تابعداروں پر چونکہ یہ اثر ہوچکا ہے یعنی وہ ان تینوں کاموں میں بخوبی پاس ہوچکے ہیں پس ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت اطاعت کرتے ہیں اس بیعت کا مطلب اس کے سوا اور نہیں کہ وہ ہر کام میں تیرے تابع رہیں گے اس لئے وہ اللہ کے نزدیک ایسا قرب رکھتے ہیں کہ گویا وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں کیونکہ تو اے نبی ! درمیان میں ایک ذریعہ ہے اصل معاملہ تو اللہ کے ساتھ ہے پس بیعت کے وقت جو تیرا ہاتھ اوپر ہوتا ہے وہ ترتا نہیں ہوتا۔ بلکہ در حقیقت اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے کیونکہ دین کی خدمت کے متعلق جتنے وعدے کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب در حقیقت اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پس اب آئندہ کو جو اس وعدہ بیعت کو توڑے گا وہ سمجھ لے کہ اس عہد شکنی کا وبال اسی کی ذات پر ہوگا اور جو کوئی اس وعدے کو پورا کرے گا جو اللہ کے ساتھ اس نے کیا ہے تن من دھن سے فدا ہو رہے گا۔ جو کچھ کہا وہ پورا کر کے دکھائے گا۔ تو ایسے شخص کو اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ضرورت مواقع مختلفہ میں مختلف مضامین پر صحابہ کرام (رض) سے وعدہ لیتے کبھی اطاعت پر کبھی حسن سلوک پر کبھی جہاد پر خصوصا کبھی اثناء جہاد میں عدم فرار پر اس وعدہ کا نام بیعت ہے اس کو متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (منہ) (جہاد کے لئے کوئی ساری باقاعدہ فوج نہ تھی بلکہ ہر بالغ مسلمان فوجی تھا۔ جس کو ہر وقت بلایا جاتا تھا بعض دیہاتی لوگوں نے حاضری میں سستی کی اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔ (منہ) یہ مبایعین تو ماشاء اللہ ہر طرح خدمت دینی کو حاضر ہیں۔ اور حاضر رہیں گے لیکن ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی خدمات کو دوبھر جانتے ہیں مگر منہ کے لحاظ سے ہاں ہوں کرتے ہیں چنانچہ پیچھے رہنے والے ! دیہاتی لوگ تیرے سامنے آکر کہیں گے ہمارے مال اور اہل وعیال نے ہم کو دینی خدمت سے روک رکھا ہم اپنی خانگی ضرورتوں کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔ ورنہ دل سے تو دین کے سچے خادم ہیں۔ پس ہمارا عذر قبول کر کے حضور ہمارے لئے دعائے مغفرت فرما دیں اللہ ہم کو بخشے اور آئندہ کو توفیق دے۔ ہم (اللہ) تجھ کو آگاہ کئے دیتے ہیں کہ یہ لوگ زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ دل میں تو کھوٹ ہے مگر ظاہر کرتے ہیں وفا۔ دل میں کفر ہے مگر ظاہر کرتے ہیں ایمان۔ تو اے نبی ! ان کو کہہ کہ اگر اللہ تمہارے حق میں ضرر چاہے یا فائدہ کا ارادہ کرے تو کون ہے جو اللہ سے ورے تمہارے لئے کچھ اختیار رکھے ؟ یعنی تم جو مال اور اہل وعیال کی وجہ سے دینی خدمت سے رکتے ہو۔ اگر اللہ تمہارے مال اور عیال پر بلکہ خود تمہاری جانوں پر کوئی آفت نازل کرے تو کون تم کو بچا سکے گا؟ اور اگر وہ اللہ تم کو دینی خدمت کے عوض کوئی فائدہ پہنچائے تو کون اسے روک سکے گا؟ اس لئے تمہارے عذرات سب غلط ہیں۔ تمہارے منہ کی باتیں صحیح نہیں۔ ہاں اللہ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے۔ دراصل بات کچھ نہ تھی نہ تم کو گھر میں مشغولی تھی نہ کھیتوں میں کام تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ اس مصیبت کے وقت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان کوئی بھی اپنے اہل وعیال کی طرف کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے سب کے سب میدان جنگ میں کام آئیں گے جس سے تم اپنے دل میں خوش ہو رہے تھے کہ ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی ” جان بچی لاکھوں پائے“ اور یہ خیال تمہارے دلوں میں بڑی خوبصورتی سے جاگزین ہوچکا تھا اور بھی تم لوگوں نے بڑی بڑی بدگمانیاں دل میں کی تھیں دل میں سمجھ لیا کہ اس رسول کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ اس کے مرتے ہی قضیہ چک جائے گا۔ اس کے پیچھے نہ کوئی اس کا نام لے گا نہ پوچھے گا۔ یہ تمہارے خیال بہت برے ہیں۔ اور ان ہی کی وجہ سے تم لوگ برباد ہونے والے ہو۔ عنقریب تم دیکھ لوگے خود تمہارا ہی نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ تم ہی سے کیا خصوصیت ہے جو کوئی بھی اللہ اور رسول پر ایمان نہ لائے گا دل سے ان کو نہ مانے گا یا زبانی مان کر ان کی ہدائیتوں پر عمل نہ کرے گا تو اس کی خیر نہیں۔ ہم (اللہ) نے ایسے کافروں بدکاروں کے لئے جہنم کی بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ایسے لوگوں کا جتھہ بہت بڑا ہے اور ان کی قوت بہت زیادہ ہے۔ اللہ کی قوت اور قدرت کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ زمین پر بندوں میں سے کسی کی حکومت ایک ملک پر ہوگی کسی کی دو پر کسی کی چار پر‘ وہ بھی ناقص اور ادھوری۔ مگر اللہ کی حکومت کی یہ کیفیت ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اللہ ہی کے قبضے میں ہے اسی لئے تو اس کی شان ہے وہ جس کو چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے مگر نہ بے وجہ بلکہ باوجہ جس کی تفصیلی اطلاع اس نے بزبان الہام کردی ہے اور اللہ بڑا بخشنہار مہربان ہے اس کی بخشش اور مہربانی اس کے عذاب پر غالب ہے اس لئے کوئی مجرم ذرا بھی جھکے گا۔ تو اس کی صفت غفران اس کو لے لے گی۔ خیر یہ تو اللہ تعالیٰ کا اعلان کا مضمون تھا جو سنایا گیا۔ اب اصل بات کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں۔ تاکہ تم کو مزید حالات معلوم ہوسکیں۔ یہ لوگ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ ان کی بابت ہم تم کو بتا چکے ہیں۔ کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ کسی طرح شریک کار نہ ہوں گے ہاں جب تم لوگ جنگ جہاد میں غنیمتیں حاصل کرنے کو نکلو گے تو پیچھے رہنے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دیجئے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ نہیں تو پیچھے پیچھے چلیں اور دین کی خدمت کر کے ہم بھی کچھ فائدہ حاصل کریں ایسا کہنے سے ان کی نیت نیک نہ ہوگی بلکہ اس کی تہ میں بھی شرارت ہوگی کہ جو اللہ نے ان کی بابت بتایا ہے یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنا چاہیں گے کہ ہم ذرہ سا ظاہری ساتھ دے کر کہہ سکیں گے کہ دیکھو ہم تو دور تک تمہارے ساتھ گئے حالانکہ تمہارے اللہ نے ہماری بابت پیش گوئی کی تھی۔ کہ ہم تمہارے پیچھے نہ چلیں گے لہٰذا تم مسلمانوں کے اللہ کا دعوی غلط ہوا۔ پس اے نبی ! تم ان سے کہہ دیجیو کہ تم ہرگز ہرگز بغرض شرکت کار ہمارے ساتھ نہ چلو گے اللہ نے ہم کو ایساہی پہلے سے بتایا ہوا ہے جوپورا ہو کر رہے گا۔ یہ تمہارے صرف ظاہر داری کی باتیں ہیں پھر یہ سن کر کہیں گے نہیں ہم تو ظاہر داری نہیں کرتے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ کہ ہماری شرکت نہیں چاہتے ہو۔ تمہاری غرض یہ ہے کہ ساری خیرو برکت تم ہی حاصل کرلو۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ بھلا تم لوگ ان سے حسد کیوں کرنے لگے تم کو تو آدمیوں اور مددگاروں کی ضرورت ہے جتنے ہوں کم ہیں بلکہ وہ لوگ جو بات منہ سے کہتے ہیں اس کو بھی بہت کم سمجھتے ہیں۔ اگر پوری سمجھتے ہوتے تو آئندہ کو ایسی بات کہنے کی جرأت نہ کرتے جو ان کی بے وقوفی پر دلالت کرتی۔ جتنے لوگ کام سے جی چرانے والے ہیں اسی طرح کی کٹ حجتیں کیا کرتے ہیں۔ پس تو اے نبی ! ان کام چوروں پیچھے رہنے والے دیہاتیوں کو کہہ دے کہ عنقریب تم کو ایک بڑی جنگی قوم کی طرف بلایا جائے گا۔ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ یعنی بعض وہ لوگ آخر وقت تک لڑتے رہیں گے اور بعض فرمانبرداری اختیار کر جائیں گے۔ پھر تم لوگ جو ہر کام میں پیچھے رہنے والے ہو۔ اس وقت اسلامی فدائیوں کی طرح اگر احکام کی اطاعت کرو گے تو اللہ تم کو بہت اچھا بدلہ دے گا۔ دنیا میں تمہاری عزت ہوگی آخرت میں جنت ملے گی اور اگر حکم سے منہ پھیرو گے جیسے تم پہلے پھیر چکے ہو۔ تو اللہ تم کو سخت عذاب کرے گا۔ دنیا میں تم دشمنوں کی ماتحتی کی ذلت میں رہو گے اور آخرت میں جہنم میں جائو گے۔ ہاں اس دعوت جنگ سے یہ مقصود نہ ہوگا کہ سب لوگ نکل چلو چاہے نکل بھی نہ سکو نہیں بلکہ خاص خاص لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے مثلا اندھا۔ لنگڑا‘ مریض جو چل پھر نہیں سکتے۔ ان پر شریک جنگ نہ ہونے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ لوگ حقیقتا معذور ہیں اللہ کے ہاں یہ عام قانون ہے کہ کسی آدمی کو اس کی قوت سے زیادہ حکم نہیں دیا جاتا اور جو کوئی قوت ہو کر کہا مانے۔ اللہ اور رسول کی تابعدار کرے اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں جاری ہیں جس سے بڑھ کر کوئی انعام واکرام نہیں اور جو کوئی حکم الٰہی سے منہ پھیرے گا۔ اللہ اس کو سخت عذاب کرے گا بس یہ دو حرفہ فیصلہ ہے چاہے کوئی اس کان سنے یا اس کان سنے اللہ کا قانون یہی ہے الفتح
2 الفتح
3 الفتح
4 الفتح
5 الفتح
6 الفتح
7 الفتح
8 الفتح
9 الفتح
10 الفتح
11 الفتح
12 الفتح
13 الفتح
14 الفتح
15 الفتح
16 الفتح
17 الفتح
18 (18۔28) اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ ان ایمانداروں سے راضی ہوا ہے۔ جب وہ حدیبیہ کے مقام پر ایک درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کرتے تھے اس نیت سے کہ راہ اللہ میں جان دے دیں گے۔ مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جو ان کے دلوں میں اخلاص اور حق کی حمائت کا جوش تھا۔ اللہ کو سب معلوم تھا۔ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ شریف سے مکہ کی طرف آئے نیت آپ کی یہ تھی کہ کعبہ شریف کی زیارت کیں گے مکہ والوں نے اندر آنے سے روک دیا۔ آپ نے قریب مکہ حدیبیہ مقام پر ڈیرہ کیا۔ خطرہ جنگ پیدا ہوگیا۔ تو صحابہ کرام سے بیعت جدید لی کہ جنگ سے منہ نہ پھیریں گے۔ جنگ تو نہ ہوئی۔ تیاری چونکہ نیک نیتی سے تھی۔ اس لئے بطور رضا نامہ کے یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) (صلح حدیبیہ کے بعد خیبر (عرب) فتح ہوا تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔ منہ) اسی کا نتیجہ ہوا کہ اللہ نے انکو دشمنوں کے نرغے سے بچا لیا۔ اور ان کی جو گھبراہٹ ہوئی تھی اس کے دور کرنے کو ان پر تسلی اتاری کہ وہ سمجھ گئے کہ جو رسول فرماتے ہیں وہی بہتر ہے اور اسی میں خیر ہے اور اس اطاعت اور صبر وسکون کے بدلہ میں ان کو ایک قریبی ! فتح دی جس سے ان کی ڈھارس بند گئی ضعف جاتا رہا قوت آگئی اس کے سوا اور کئی غنیمتیں اور فوائد عطا کئے جن کو وہ مسلمان لیتے رہے اور اپنے کام میں لاتے رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے اس کے کاموں کی حکمتوں کو وہی جانتا ہے۔ دنیا میں بڑے باحکمت مدبران سلطنت ہوتے ہیں جن کی سیاسی چالیں بڑی گہری ہوتی ہیں جن کی تہ تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اسرار ان سب سے بالاتر ہیں اس اعتقاد کے ساتھ سنو ! اللہ نے تم سے بہت سی فتوحات اور غنیمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے پھر اسی اللہ نے اپنے کمال مہربانی سے یہ غنیمت فتح خیبر تم کو جلدی دلوا دی اور لوگوں کو تم سے روک دیا۔ باوجود کثرت مخالفین کے وہ تم پر غالب نہ آسکے۔ اس کا نتیجہ تمہارے حق میں فتح ہوئی تاکہ یہ واقعہ ایمانداروں کے لئے اللہ کے وعدوں کی سچائی کی ایک صحیح علامت ہو۔ اور اس کے بعد جب تم مسلمان ایمان میں پختہ ہوجائو تو تم کو روحانی مدارج میں سیدھی راہ پر پہنچا دے جس پر پہنچ جانا ایک ایماندار کے لئے معراج کمال ہے۔ مسلمانو ! سنو تمہارے لئے اللہ کے ہاں مقدر ہے کہ تم کو دو طرح کی فتوحات ہوں گی۔ ایک وعدہ تو تم موجودہ مسلمانان طبقہ اولیٰ کے سامنے اور انہی کے ہاتھوں سے اور ان کے سوا اور فتوحات بھی ہیں۔ جن پر تم نے ابھی تک قابو نہیں پایا۔ مگر اللہ کے علم میں مسلمانوں کے لئے مقدر ہے۔ وہ ضروری میں ت گی۔ فتوحات افغانستان‘ ہندوستان‘ قسطنطنیہ وغیرہ سب اسی قسم میں داخل ہیں۔ اور یہ گمان مت کرو کہ دنیا ساری تو مسلمانوں کے خلاف ہے۔ افریقہ‘ یورپ‘ ایشیا سب ادہار کھائے بیٹھے ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ مسلمان فتوحات حاصل کرسکیں۔ سو ایسے گمان کرنے والے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے اس کی قدرت کے مقابلہ میں کسی کو طاقت نہیں اس کے ارادے کے برخلاف کسی کا ارادہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے (یعنی اللہ کے) ارادہ نصرت کا رخ تمہاری طرف ہوچکا ہے اسی لئے ہم ایک گذشتہ واقعہ کی تم کو خبر دیتے ہیں کہ کافر لوگ جو مقام حدیبیہ میں تم سے مقابل ہوئے تھے اگر باز نہ آتے اور بضد لڑنے ہی پر مصر ہو کر تم سے لڑنے لگتے تو انجام یہ ہوتا کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ایسے بھاگتے کہ پھر کسی کو نہ اپنا حامی پاتے نہ مددگار۔ باوجود اس علم صحیح اور تقدیر کامل کے ہم نے تم کو ان مشرکین سے مصالحت کرنے کی ترغیب دی کیونکہ ان لوگوں کا بالکل تہس نہس کردینا ہمیں منظور نہیں۔ ان میں سے بعض کا اور ان کی اولاد میں سے اکثر کا دینی خادم ہونا ہمارے علم میں مقدر ہے۔ تم لوگ ہمیشہ قانون الٰہی کو ملحوظ رکھا کرو۔ جو پہلی قوموں میں گذرا ہے۔ اور آئندہ بھی جاری ساری رہے گا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قوم اپنی انسانی حد سے نکل کر غرور اور تکبر تک پہنچی وہ بقول ؎ حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے اس قانون کے ما تحت گر جاتی ہے یاد رکھو الٰہی قانون میں تم کبھی تبدیلی نہ پائو گے یہ ایک الٰہی قانون ہے کہ زمین جب بداعمالیوں کی غلاظت سے جب خراب ہوجاتی ہے۔ تو اس کی صفائی کے لئے اللہ کوئی منتظم بشکل مصلح بھیجا کرتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ کا مصلح اعظم دنیا میں آگیا اور تم لوگ جو اس کے تابع ہوئے ہو بہت خوش قسمت ہو۔ سنو ! وہی اللہ تمہارا مددگار ہے جس نے ان مخالفوں کے ہاتھوں کو میدان مکہ میں تم سے روک دیا۔ یعنی انکو تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور ان پر قابو دینے کے بعد تم کو ان سے ہٹا لیا۔ یعنی میدان حدیبیہ میں جنگ نہ ہونے دی۔ حالانکہ تم اتنی طاقت میں تھے کہ یقینا ان پر فتح پاتے۔ مگر دنیا کو دکھانا منظور تھا کہ مسلم قوم حتی الامکان صلح جو ہے نہ جنگ جو۔ نیز بیت الحرام کی حرمت ملحوظ تھی۔ جو کچھ تم سے اس وقت یہ کام بہ نیت نیک ظہور میں آیا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ سب کو دیکھتا تھا۔ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ دیکھو اس سے زیادہ صلح جوئی کی مثال اور کیا ہوگی کہ جن سے تم کو لڑنے سے روکا تھا وہ لوگ وہی تو ہیں جو خود تو کافر ہیں اور تم کو مسجد الحرام کعبہ شریف میں نماز پڑھنے سے انہوں ہی نے روکا اور مسلمانوں کی قربانیوں کو قربانگاہ میں پہنچنے سے روک رکھا۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئیں ان کا یہ ظلم اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اگر مومن مرد اور مومن عورتیں مکہ معظمہ میں ایسے چھپے ہوئے نہ ہوتے جن کو تم مسلمان لوگ نہیں جانتے تھے اس بے علمی میں کہیں تم ان کے پائوں تلے نہ روند دیتے یعنی تم لوگ ناواقفی میں ان کو بھی قتل کردیتے۔ پھر اس بے خبری کے فعل سے تم کو ان کی وجہ سے اللہ کے ہاں سے نقصان پہنچتا۔ سو اگر یہ امر مانع نہ ہوتا کہ خفیہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوں گی ( تو اللہ تم کو جنگ کرنے کی اجازت دے دیتا) لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے تمہاری مصالحت کرائی ( صحابہ کرام اس مصالحت سے خوش نہ تھے۔ بلکہ لڑنے کو اس صلح پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ مصالحت میں شروط دل شکن تھیں۔ اسی ناراضگی میں جو بالکل نیک نیتی سے تھی۔ صحابہ کرام کے منہ سے کچھ الفاظ تیز بھی نکل گئے تھے جو سب معاف ہوگئے منہ) تاکہ اللہ ان کافروں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت (دین اسلام) میں داخل کرے تم دیکھو گے کہ اس مصالحت میں اسلام کی ترقی جنگ سے زیادہ ہوگی۔ اور اگر وہ ضعیف کمزور مخفی مسلمان اہالیٔ مکہ سے ممتاز ہوئے ہوتے یعنی وہ ان سے ایسے الگ ہوتے کہ تم انکو پہچان سکتے تو ہم (اللہ) ان اہالی مکہ میں سے کافروں کو تمہارے ہاتھوں سے سخت عذاب پہنچاتے لیکن مصلحت اور حکمت الٰہی یہ تھی کہ غریب کمزور مسلمان لوگ نہ پسجائیں کیونکہ تم لوگوں کو ان کا علم اور پہچان نہ تھی ورنہ وہ خوب موقع تھا جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کی ضد پیدا کرلی تھی اور محض ضد سے مسلمانوں کو روک رہے تھے۔ جس سے مسلمانوں کو سخت پریشانی تھی۔ تو ایسے حال میں اللہ نے اپنے رسول اور رسول کے ساتھی ایمانداروں پر تسلی نازل کی اور ان کو اللہ نے حق گوئی پر جمائے رکھا کیونکہ رسول کی صحبت سے وہ اسی لائق تھے اور اس منصب کے بہت زیادہ حق دار اور لائق تھے۔ اس لئے اللہ نے ان کو ایسے نازک موقع پر لغزش کرنے سے بچایا۔ اور محفوظ رکھا۔ کیونکہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے جو جس لائق ہے اس کو وہی دیتا ہے۔ سنو ! بڑی گھبراہٹ اس وقت مسلمانوں کو اس امر کی تھی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب دیکھا اور بیان کیا۔ مسلمانوں کے خیال میں وہ خواب اس وقت پورا نہ ہوا جو وقت انہوں نے سمجھا تھا۔ حالانکہ اللہ نے اپنے رسول کا سچا خواب بالکل سچا کردیا۔ سرمو اس میں غلطی نہ رہی جس کا مضمون یہ تھا کہ تم مسلمان لوگ مسجد الحرام کعبہ شریف میں داخل ہوں گے اس حال میں کہ بعد احرام تم میں سے بعض سر منڈائے اور بعض بال ترشوائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کا خوف تم کو نہ ہوگا۔ مگر چونکہ علم الٰہی بہت وسیع ہے اور تمہارا علم ناقص ہے اللہ کے علم میں وہ بات تھی جو تمہارے ناقص علم میں نہ تھی۔ پس اللہ نے اس خواب کے ظہور سے پہلے ایک فتح قریب تم کو دی جس کا نام خیبر ہے اگر تم مسلمان یہاں مکہ میں لڑنے لگ جاتے اور تمہاری طاقت کمزور ہوجاتی تو تم خیبر میں فتح نہ پا سکتے۔ جس اللہ نے تم کو یہ سب کچھ دیا اسی اللہ نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ چونکہ اللہ نے بمصلحت خود اس رسول کو بھیجا ہے اس لئے وہ بحکمت ہی اس کی مدد کرتا ہے۔ تاکہ اس نبی کو غیر اسلام سب اہل مذاہب پر غالب ! کرے۔ تم دیکھ لوگے کہ تمہارے سامنے جتنے لوگ غیر اسلام مذاہب کے پیرو ہیں (ہمارے ملک پنجاب میں ایک صاحب مزرا غلام احمد قادیانی ہوئے ہیں جن کی وفات ٢٦ ١٣ ھجری مطابق ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء میں ہوئی ہے۔ موصوف کا دعوی شروع سے ملہم ہونے کا تھا۔ آخر میں مسیح موعود اور مہدی معہود تک پہنچا۔ انہوں نے ابتدائی دعوی الہام میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ” براہین احمدیہ“ اس کے متعلق ان کا دعوی ہے کہ یہ کتاب مجھ سے اللہ لکھواتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس آیت (ھو الذی) کی نسبت یوں لکھا ہے :۔ ھوا لذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کا ملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب مسیح (علیہ السلام) دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا“ (صفحہ ٤٩٨۔ ٤٩٩۔ جلد چہارم) اس عبارت کا مطلب بالکل صاف ہے کہ (بقول مرزا صاحب) اس آیت میں جس غلبہ اسلام کا ذکر ہے وہ دو طرح سے ہوگا۔ دینی اور سیاسی یعنی مسیح موعود جو امت اسلامیہ کے افسر ہو کر دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے ان کی اسلامی حکومت تمام دنیا میں ہوگی اور وہ حکومت اسلام کی تبلیغ کرے گی۔ یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا۔ ْْجناب موصوف نے اس کے بعد خود مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعوی کیا۔ فرمایا کہ میں ہی دونوں عہدوں کا منصب دار ہوں چنانچہ اپنی مشہور اور مستند کتاب ” ازالہ وہام“ میں اپنے موعود ہونے کا (بخیال خویش) کئی صفحات پر ثبوت پیش کیا۔ (ملاخطہ ہو ازالہ مذکوراز صفحہ ٦٦٥ طبع اول) گو دعوی میں تبدیلی ہوئی لیکن مقام شکر ہے کہ آیت موصوفہ کی تفسیر کے متعلق آخر تک انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔ بلکہ اپنی آخری تصنیف میں بھی اسی رائے کو بڑی شدو مد اور بڑی تاکید شدید سے ظاہر کیا۔ چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ درج ذیل ہیں : ” چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے اللہ نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا۔ کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لئے اللہ نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں۔ زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی۔ جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔ اور اس تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا۔ جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفا ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (چشمہ معرفت ٨٢۔ ٨٣) اس کتاب کے سرورق پر تاریخ اشاعت ٥۔ مئی ١٩٠٨ ء مرقوم ہے۔ اور مرزا صاحب کا انتقال ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء کو ہوا ہے اس لئے یہ کتاب آپ کی آخری کتاب ہے۔ عبارت منقولہ کا مطلب صاف اور واضح ہے۔ یعنی مسیح موعود کے آنے پر دنیا میں سیاسی اور دینی غلبہ اسلام ہی کا ہوگا۔ اسلام ہی کی حکومت ہوگی۔ اسلام ہی ساری قوموں کا دین ہوگا۔ قوانین تعزیرات وغیرہا سب اسلام کے ہوں گے۔ وغیرہ ناظرین ! ذرہ تکلیف کرکے مکرر عبارت مرقومہ کو پڑھیں اور غور کریں کہ مرزا صاحب کی پہلی عبارت منقولہ از براہین احمدیہ اور یہ دونوں کیسی متحد المعنی ہیں۔ ان دونوں کا مطلب وہی ہے جو ہم نے بتایا کہ مسیح موجود کے زمانہ میں ساری دنیا میں اسلام ہی کا طوطی بولے گا“ اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسیح موعود (مرزا) آئے اور چلے گئے مگر یہ صداقت کسی سے مخفی نہیں کہ اسلام اہل اسلام کی حالت زار پہلے سے بھی بد بلکہ بدترین ہوگئی۔ اس امر کا ثبوت (کہ مسلمان گزشتہ صدی سے زیادہ گر گئے) دینے کی حاجت نہیں۔ تاہم خود خاندان مرزائیہ ہی سے پیش ہوسکتا ہے۔ موجودہ بادشاہ انگلستان کا ولیعہد شہزادہ ویلز جب ١٩٢٢ ء میں ہندوستان میں آئے تو مرزا صاحب کے بیٹے میاں محمود خلیفہ حال قادیاں نے ان کو ایک تحفہ کتاب کی صورت میں پیش کیا جس کا نام ہے تحفہ شاہزادہ ویلز“ اس میں سے ایک دو فقرے ہم نمونۃً دکھاتے ہیں۔ خلیفہ قادیاں شاہزادہ موصوف کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ” اے شاہزادہ مکرم ! یہ تحفہ اس جماعت (احمدیہ) کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہو رہا ہے جس نے تیس سال سے زیادہ عرصہ تک آپ کی دادی آنجہانی علیا حضرت ملکہ وکٹوریہ اور ان کے بعد آپ کے دادا آنجہانی ایڈورڈ ہفتم اور پھر آپ کے مکرم معظم والد اپنے موجودہ بادشاہ کی وفا داری اور اطاعت میں اپنوں اور بیگانوں سے گونا گون تکالیف اٹھائی ہیں۔ اور اس کے بدلہ میں وہ حکومت سے کبھی بھی کسی صلہ کی طالب نہیں ہوئی : اس جماعت کا شروع سے یہ دستور العمل رہا ہے۔ اور اس کے بانی نے یہ شرط رکھی تھی کہ حکومت وقت کی پوری فرمانبرداری کی جائے“ (کتاب تحفہ شاہزادہ ویلز صفحہ ٤۔ ٥) غرض قادیانی امت انگریزی حکومت کو بزبان قال بتا رہی ہے کہ ہم نے آپ کی ایسی ایسی اطاعت کی کہ کوئی نہ کرے اس اطاعت میں ہماری کیفیت یہ ہوئی کہ گویا یہ شعر ہمارے حق میں صادق آیا۔ کسی سچے عاشق نے اپنے معشوق کے حق میں لکھا ہے دشمن کے طنز دوست کے پند‘ آسماں کے جور کیا کیا مصیبتیں نہ سہیں تیرے واسطے؟ ہماری غرض اس عبارت کے نقل کرنے سے یہ دکھانا ہے کہ سیاست اور حکومت کہاں؟ خود مزرا صاحب اور ان کا خاندان بھی ہنوز معمولی پستی (رعایا کی حیثیت) میں ہیں تابدیگراں چہ رسد۔ جب یہ سوال مرزا صاحب کے مریدین کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ کام جس کے لئے مسیح موعود کو آنا تھا چونکہ وہ مرزا صاحب کے آنے سے پورا بلکہ ادھورا بھی نہیں ہوا۔ (رسالہ شہادت مرزا) تو انہوں نے (بحوالہ تریاق القلوب مصنفہ مرزا صاحب ص ٣٧٨ طبع دوم) جواب دیا کہ مسیح موعود کا زمانہ تین سو سال تک ممتد ہے۔ مطلب یہ کہ جب تک تین سو سال ختم نہ ہوں یہ سوال وارد نہیں ہوسکتا۔ مرزا صاحب قادیانی نے خود اسی کتاب (چشمہ معرفت) میں اس جواب کو گویا غلط بتایا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں :۔ ”(غلبہ کاملہ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کامل طور پر ظہور پذیر ہونا ناممکن تھا۔ کیونکہ اس کے لئے یہ شرط تھی کہ دنیا کی تمام قوموں کو جو مشرق اور مغرب اور جنوب اور شمال میں رہتی ہیں یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے مذہب کی تائید میں اللہ سے چاہیں جو آسمانی نشانوں سے اس مذہب کی سچائی پر گواہی دے۔ مگر جس حالت میں ایک قوم دوسری قوم سے ایسی مخفی اور محجوب تھی کہ گویا ایک دوسری دنیا میں رہتی تھی۔ تو یہ مقابلہ ممکن نہ تھا۔ اور نیز اس زمانہ میں بھی اسلام کی تکذیب انتہاء تک نہیں پہنچی تھی اور ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ اللہ کی غیرت تقاضا کرے کہ اسلام کی تائید میں آسمانی نشانوں کی بارش ہو مگر ہمارے زمانہ میں وہ وقت آگیا۔ کیونکہ اس زمانہ میں گندی تحریروں کے ذریعہ سے اس قدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں کسی نبی کی توہین نہیں ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تو ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عیسائی یا یہودی نے اسلام کے رد اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین میں دو یا تین ورق کا رسالہ بھی لکھا ہو۔ مگر اب اس قدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین اور اسلام کے رد میں کتابیں لکھی گئیں اور اشتہار شائع کئے گئے۔ اور اخباریں تمام دنیا میں پھیلائی گئیں۔ کہ وہ تمام جمع کی جائیں تو وہ ایک بڑے پہاڑ کے برابر طومار ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ۔ ان اندھوں نے اسلام کو ہر ایک برکت سے بے بہرہ قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی آسمانی نشان نہیں دکھلایا اور اس بات پر زور دیا ہے؟ دنیا میں اسلام کا نام ونشان نہ رہے۔ اور ایک عاجز انسان کی الٰہی ثابت کرنے کے لئے اللہ کے پاک رسول کی وہ توہین کی گی ہے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی دین اور کسی رسول کی ایسی توہین نہیں ہوئی اور درحقیقت یہ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ شیطان اپنے تمام ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگا رہا ہے کہ اسلام کو نابود کردیا جائے اور چونکہ بلاشبہ سچائی کا جھوٹ کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے۔ اس لئے یہ زمانہ بھی اسبات کا حق رکھتا تھا کہ اس کی اصلاح کے لئے کوئی اللہ کا مامور آوے پس وہ مسیح موعود ہے جو موجود ہے اور زمانہ حق رکھتا تھا کہ اس نازک وقت میں آسمانی نشانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دنیا پر حجت پوری ہو۔ سو آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ دنیا میں بج جائے۔ اے قادر اللہ ! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تو نے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہوجائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو۔ آمین ثم آمین“ (چشمہ معرفت صفحہ ٨٦۔ ٨٧) یہ عبارت بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ مسیح موعود جس زمانہ میں موجود ہوگا اسی زمانہ میں اسلام کو غلبہ کاملہ ہونا مقدر ہے جو افسوس ہی نہیں ہوا ! پس نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب باقرار خود مسیح موعود نہیں۔ بلکہ محض مدعی ہیں جس کی نسبت کہا گیا ہے ؎ مدعی چوں رگ گردن بضرازد بجدل نیم تصدیق بیانش نہ و تحسینش کن (منہ) سب اس کے سامنے جھک جائیں گے۔ تم یقینا جانو ایسا ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس امر پر خود گواہ کافی ہے۔ اس کی گواہی آئندہ امور غیب کے متعلق ایک خبر ہوتی ہے جو ہمیشہ سچی ہوا کرتی ہے۔ مگر تم مسلمانوں کو ایسا خیال نہ کر بیٹھنا چاہیے کہ بس اب وعدہ ہے تو خود بخود ہوجائے گا۔ ہمیں اس میں ہاتھ پیر ہلانے کی کیا ضرورت؟ سنو ! تم کو بھی ضرورت ہے اللہ کے کام ہمیشہ قانون اور قواعد الٰہی کے ماتحت ہوتے ہیں۔ فتوحات اور قوت حاصل کرنے کا بھی ایک طریق ہے۔ جس کا نام اتفاق ہے۔ اس لئے تم مسلمانوں کو بھی چاہیے۔ کہ ایسے ہوجائو کہ تم کو دیکھنے والا حیرت زدہ ہوجائے۔ اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلے۔ کہ واہ کیا شان ہے۔ الفتح
19 الفتح
20 الفتح
21 الفتح
22 الفتح
23 الفتح
24 الفتح
25 الفتح
26 الفتح
27 الفتح
28 الفتح
29 حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور جو ایماندار ان کے ساتھ ہیں وہ بھی اپنے قومی رنگے میں ایسے رنگ ہوئے ہیں کہ اغیار کفار کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کوئی چیز ان میں رخنہ ڈال سکے جس سے وہ اس مقابلے میں کمزور ہوجائیں۔ اور آپس میں وہ ایک دوسرے پر بڑے مہربان ہیں کسی کا قصور ہو کسی نے کسی کی دل آزاری کی ہو۔ ذرہ سی نرمی کرنے پر فورا معاف کر کے یکدل ہوجاتے ہیں۔ غرض ان کی اس باری میں بالکل یکجہتی ہے یہی نہیں کہ متمدن لوگوں کی طرح قوم پرست ہیں بلکہ پورے اور پکے اللہ پرست ہیں۔ ان کی اللہ پرستی کا ثبوت زبانی نہیں بلکہ عمیی ہے کہ تم ان کو رکوع سجود کرتے یعنی نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ وہ اس نماز میں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں ان کی نیک بختی کی نشانی ان کی نمازوں کے اثر سے ان کے چہروں میں معلوم ہوتی ہے۔ یعنی وہ دیکھنے میں بھی بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اسلام میں بھل منسائو یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ تعلق وابستہ رکھے۔ اور مخلوق کے ساتھ اچھا نباہ کرے۔ ایسا شخص اللہ اور مخلوق کے نزدیک پاک صاف آدمی ہوتا ہے۔ یہی اوصاف ان بھلے مسلمانوں کے تورات میں مرقوم ہیں اور انجیل میں ان کے اوصاف ایک کھیتی کی طرح مرقوم ہیں جس سے پہلے ایک سوئی کی طرح کی باریک انگوری نکلی پھر وہ سوئی مضبوط ہوئی۔ پھر موٹی ہوئی۔ پھر وہ اپنی پنڈلی نال پر سیدھی ایسی کھڑی ہوئی کہ کسانوں کو بہت بھلی لگتی اور خوش کرتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی ابتدائی حالت ضعف اور آخری حالت ترقی کی امید افزا ہے اس کا انجام کار یہ ہوگا کہ اس آیت میں دو لفظ بہت قابل غور ہیں (١) اشداء علی الکفار۔ دوسرا رحماء بینھم۔ یہ دونوں آپس میں مقابل ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے معنے بتاتے ہوئے حداعتدال سے نکل گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اشدا کے معنے ہیں سختی کرنے والے یعنی صحابہ کرام کفار پر خوب سختی کرتے تھے۔ یہانتک کہ ان سے جزیہ وصول کرتے ہوئے ان کی گردن پر پیر رکھ کردہول رسید کرتے اور آپس میں بڑے رحم دل ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جونہی ذرہ سا اختلاف ہوا۔ ایسی تفسیر کرنے والوں نے آیت کی سند پر اپنے ہی کلمہ گھو بھائیوں کو کفار پر قیاس کر کے شدت کرنی شروع کی۔ سوال ہوا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو جواب ملا اشداء علی الکفار۔ ہمارے نزدیک اس قسم کی تفسیرات تعمیلات نفسانی جذبات سے خالی نہیں۔ آیت کے معنے سمجھنے کے لئے ذرہ قوموں کا مقابلہ دیکھنا چاہئے خاص کر زمانہ جنگ میں ایک قوم (بشرطیکہ مہذب قوم ہو اس) کا اپنے افراد سے اور دشمنوں سے کیا اور کیسا برتائوہوتا ہے۔ گزشتہ جنگ عظیم میں انگریزوں کا آپس میں کیا برتائو تھا اور جرمنوں سے کیا؟ انسانیت میں ہم سب بنی آدمی شریک ہیں۔ فطرتی طور پر جو خصلت ایک میں ہے وہی دوسرے میں حالت جنگ میں کوئی نرم سے نرم انسان بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے اور بیگانے میں فرق نہ کرتا ہو۔ وہ فرق یہی ہے کہ اپنے افراد سے نرم برتائو ہوتا ہے۔ بسا اوقات اپنی طبعی نرمی سے بعض اوقات مصلحت وقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ لیکن مخالف کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جاتا ہے۔ نہ طبیعت مانتی ہے۔ بس جو فرق طبعی طور پر ان دو حالتوں میں ہوتا ہے۔ وہی اس آیت میں مذکور ہے۔ یعنی مسلمانوں کی علامت بتائی گئی ہے کہ قومی برادران سے ان کا سلوک نرم ہوتا ہے اور قومی اعداء سے سخت۔ وہ ان کے دام میں انکے دھوکے میں نہیں آتے۔ بلکہ اپنے قومی مقاصد میں پخۃ رہتے ہیں۔ یہی معنے ہیں دوسری آیت کے ولیجد وا فیکم غلظۃ (تم ایسے بنو کہ دشمن بھی تم میں مضبوطی پائیں) یینے اپنے قومی مقصد میں پختہ رہو۔ اس سے ایک انچ بھی نہ ہٹو۔ اور باہمی معاملات میں نرمی اختیار کرو۔ لیکن زبان سے سخت گوئی اور بداخلاقی کا اظہار نہ ہوا کرے کیونکہ (قولو اللناس حسنا) عام حکم ہے اللہ اعلم۔ (منہ) (موجودہ تورات جو آج کل یہودیوں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اس کی پانچویں کتاب استثناء کے باب ٣٣ سے مسلمانوں کی اس صفت کا پتہ چلتا ہے جو یہاں ذکر ہوئی ہے۔ عبارت اس مقام کی یہ ہے۔ ” اللہ تعالیٰ سینا سے آیا‘ اور شعیر سے آون پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلویٔ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ (فقرہ ١۔ ٢) یہ عبارت فتح مکہ اور دخول مکہ معظمہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس روز حضور (علیہ السلام) فتح کر کے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں آپ کے ساتھ دس ہزار صحابی تھے۔ جنکو تورات میں دس ہزار قدوسی یعنی پاک لوگ کہا گیا ہے۔ اسی تمثیل کی طرف اشارہ ہے۔ انجیل میں یہ تمثیل ان لفظوں میں ملتی ہے۔ ” اس (مسیح) نے ایک اور تمثیل ان (لوگوں) کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لیکر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھجاتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہوجاتا ہے۔ کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں“ (انجیل متی باب ١٣ فقرہ ٣١۔ ٣٢) انجیل مرقس میں اس تمثیل کے الفاظ یہ ہیں۔ ’ وہ (مسیح) تمثیلوں میں بہت باتیں سکھانے لگا۔ اور اپنی تعلیم میں ان سے کہا سنو ! ایک بونے والا بیج بونے نکلا اور بوتے وقت ایسا ہوا کہ کچھ راہ کے کنارے سے گرا اور پرندوں نے آ کر اسے چگ لیا اور کچھ پتھریلی زمین پر گرا۔ جہاں اسے بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب جلد اگ آیا۔ اور جب سورج نکلا تو جل گیا۔ اور جڑ نہ ہونے کے سبب سوکھ گیا۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرا۔ اور جھاڑیوں نے بڑھکر اسے دبا لیا۔ اور وہ پھل نہ لایا۔ اور کچھ اچھی زمین پر گرا اور وہ اگا اور بڑھ کر پھلا۔ اور کوئی تیس گنا کوئی ساٹھ گنا کوئی سو گنا پھل لایا۔ پھر اس نے کہا۔ جس کے کان ہوں وہ سن لے“ (انجیل مرقس باب ٤ فقرہ ٣۔ ٩) انجیل لوقا میں اس تمثیل کے الفاظ یوں ہیں۔ ” پس وہ (مسیح) کہنے لگا۔ اللہ کی بادشاہت کس کی مانند ہے میں اس کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ رائی کے دانے کی مانند ہے جسکو ایک آدمی نے لیکر اپنے باغ میں ڈال دیا۔ وہ اگ کر بڑا درخت ہوگیا۔ اور ہوا کے پرندوں نے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کیا۔ اس نے پھر کہا میں اللہ کی بادشاہت کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے لیکر تین پیمانے آٹے میں ملایا اور ہوتے ہوتے سب خمیر ہوگیا“ (لوقا۔ باب ١٣۔ فقرہ۔ ١٨۔ ٢١) مطبوعہ لودہانہ ١٩١٦ ء تشریح : انجیلی اور مسیحی محاورے میں الٰہی بادشاہت سے وہ زمانہ مراد ہے جس میں حسب مرضی الہیٰ لوگ کام کریں اور نجات آخری کے مستحق ہوں۔ چنانچہ حضرت مسیح کا قول اس اصطلاح کے موافق انجیل میں یوں ملتا ہے۔ ” اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہ ہوں گے“ (انجیل متی باب ٥۔ فقرہ ٢٠) چونکہ حضرت مسیح کو یہ بتانا منظور ہے کہ زمانہ محمدی اللہ کا پسندیدہ اور اس زمانہ کے لوگ اللہ کے برگزیدہ ہونگے۔ اس لئے انہوں نے اسی زمانہ کو اللہ کی بادشاہت کے نام سے موسوم کر کے سمجھایا۔ معاند کفارنا ہنجار جو مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کے دن شمار کرتے ہیں وہ ان کی ترقی کی وجہ سے حیران ہوں گے۔ اور جی کے جی ہی میں جلتے ہوں گے۔ کہ ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ہم تو سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ مسلمان عنقریب مٹ جائیں گے اور یہ بڑھ رہے ہیں خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا مگر ان کی یہ جلن اور کاوش خود ان ہی کا نقصان کرے گی مسلمانوں کو نقصان نہ ہوگا کیونکہ اللہ نے ایمانداروں سے اور خاص کر جو ان میں سے نیک اعمال کرتے ہیں ان سے بخشش اور بڑے بدلہ کا وعدہ کیا ہوا ہے جو کبھی غلط نہ ہوگا۔ ہاں یہ بات البتہ قابل فہم ہے کہ بخشش کا ظہور تو آخرت میں ہوگا۔ مگر بڑے بدلہ کا ظہور اسی دنیا میں بھی ہوگا۔ جس سے معاندین کفار جلیں گے یعنی وہ فتوحات ملکی ہوں گی جن سے مسلمان دنیا کی زندہ اور ممتاز قوموں میں شمار ہوں گی چنانچہ یہ سب کچھ زمانہ خلافت میں ہوگیا۔ الحمدللہ۔ الفتح
0 الحجرات
1 اے ایمان والو ! سنو ہم تم کو ایک اخلاقی سبق سکھاتے ہیں۔ اخلاق کا اصل الاصول یہ ہے کہ ہر ایک شخص جس عزت کے لائق ہو اس سے وہی برتائو کیا جائے۔ چونکہ سب سے مقدم اللہ کا حق ہے اس سے بعد اس کے رسول کا۔ اس لئے تم کو حکم دیا جاتا ہے۔ کہ سب سے پہلے یہ دونوں حقوق ادا کیا کرو یعنی اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھا کرو۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ شرعی امور میں اللہ اور رسول کی اجازت کے بغیر کوئی کام از خود نہ کیا کرو۔ ورنہ تم طاغی بدعتی بن جائو گے۔ اور ہر وقت اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ سنو ! اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے اس کے سامنے تمہاری ایچ پیچ کی بات چلے گی نہیں۔ الحجرات
2 پس اے ایمان والو ! نبی کا ادب یہاں تک ملحوظ رکھا کرو کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کیا کرو۔ اور نہ اس کے سامنے ایسے زور سے بولا کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بولا کرتے ہو۔ کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ الحجرات
3 سنو ! جو لوگ اس خوف سے کہ ہمارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنی آوازیں پست کرتے ہیں یعنی بلند آواز سے نہیں بولتے کہ مبادا ہمارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں ان لوگوں کو اللہ نے تقویٰ اور پرہیزگاری میں جانچ لیا ہے وہ اس امتحان میں پاس ہوگئے اسی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان کے لئے بخشش ہے۔ اور بڑا اجر ہے۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورا ادب کیا۔ جیسا کہ کرنا چاہیے۔ الحجرات
4 مگر سارے لوگ سمجھدار نہیں ہیں۔ بعض لوگ دل سے مخلص ہیں لیکن عقل سے خام‘ ایسے لوگ قابل معافی ہیں۔ وہ لوگ جو اے نبی ! تیرے مکان کے باہر سے یا محمد یا رسول اللہ کہہ کہہ کر تجھے بلاتے ہیں وہ سب بااخلاص ہیں مگر ان میں سے بہت سے بے عقل ہیں۔ ان کو اس بات کی تمیز نہیں کہ کسی سردار کو گھر میں بھی ضرورتیں ہوتی ہیں جیسی باہر اس کی ڈیوٹی ہے۔ اندر بھی وہ ڈیوٹی ہی ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خانگی یا شخصی ضروریات بھی ہوا کرتی ہیں جو اس کو گھر میں ٹھہرنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں خاموش بیٹھے رہنا چاہیے الحجرات
5 اور اگر وہ صبر کرتے یعنی آوازیں نہ دیتے یہاں تک کہ تو خود ہی ان کے پاس آنکلتا تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔ کیونکہ ایک سردار کا دل خانگی اور شخصی ضروریات سے خالی ہو۔ تو بیرونی امور کی طرف اچھی طرح متوجہ ہوسکتا ہے مگر چونکہ یہ لوگ دل سے مخلص ہیں اور عقل کے خام۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ کیونکہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ الحجرات
6 اے ایمان والو ! آداب نبوت سے کہنے کے بعد اداب عامہ بھی سنو ! سب سے پہلے وہ ادب معلوم کرو۔ جو دین اور دنیا میں تم کو مفید ہو۔ اور جس پر عمل نہ کرنے سے بعض دفعہ فتنہ فساد تک نوبت پہنچ جاتی ہے پس سنو ! آج کل دنیا میں عام دستور ہے کہ جو کوئی کسی طرف سے آکر کچھ سنا دے اسی کو صحیح مان کر بعض اوقات بڑے برے کام بھی کر گزرتے ہیں۔ اس لئے تم کو بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بدکار یعنی ناقابل اعتبار آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے اور تم کو سنائے کہ فلاں شخص یا فلاں لوگ تم کو برا کہتے یا برا جانتے ہیں یا ازیں قسم کوئی خبر بتائے تو تم صرف اس کے کہنے سے صحیح نہ جان لیا کرو بلکہ اس بات کی تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ اصل بات کی بے خبری میں تم کسی قوم یا شخص سے الجھ پڑو پھر بعد اصلیت کھلنے کے تم خود ہی اپنے کئے پر شرمندہ ہوجائو لیکن اس شرمندگی کا نتیجہ بجز افسوس اور ندامت کے کچھ نہ ہوگا۔ اس لئے پہلے ہی سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ الحجرات
7 (7۔8) اور سنو ! کہ بعض دفعہ تم یہاں تک خود سر ہوجاتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی رائے پر چلانا چاہتے ہو۔ اس لئے تم جان رکھو کہ تم میں کوئی معمولی آدمی افسر نہیں ہے بلکہ اللہ کا رسول ہے اگر وہ بہت سے امور میں تمہارا کہا مانتا جائے تو نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ تم لوگ تکلیف میں پڑ جائو گے کیونکہ تمہاری غلط رائے پر عمل کر کے نتیجہ بھی غلط ہی نکلے گا جس کا اثر بھی سب قوم پر پڑے گا۔ مگر اللہ نے تمہارے حال پر نظر عنائت کی ہے۔ کہ تم کو ایمان کی محبت دی ہوئی ہے اور تمہارے دلوں میں اس ایمان کو مزین کر دکھایا ہے۔ اور کفر‘ فسق اور بے فرمانی سے تم کو نفرت دلائی ہے اس لئے تم کو چاہئے کہ تم لوگ رسول کو دنیاوی اور انتظامی امور میں بھی اپنی رائے پر چلانے کا کبھی خیال نہ کرو۔ جو لوگ ایسا کریں یعنی ہمہ تن اپنے آپ کو اتباع ثابت کریں۔ نہ متبوع بنیں گے وہی لوگ اللہ کے ہاں ہدایت یاب ہیں۔ انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے فضل اور نعمت فراواں ملے گی اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے۔ سب کو جانتا ہے اور اپنی حکیمانہ مصلحت کے احکام دیتا ہے۔ الحجرات
8 الحجرات
9 (9۔10) مسلمانو ! اس اخلاقی سبق کے بعد ایک اور سبق سنو جو تم مسلمانوں کے تمدن سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر دو مسلمان شخصوں میں یا دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے جو لوازم بشریہ سے ہے تو تم لوگ اس میں تماشہ نہ دیکھا کرو۔ بلکہ ان دونوں میں اصلاح کر کے فساد رفع کردیا کرو۔ خوب دل سے توجہ کر کے مصالحت میں کوشش کیا کرو اور سمجھ رکھو کہ جتنا گناہ فساد کرنے والوں کو ہے اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر اس فساد پر خاموش رہنے والوں کو ہے۔ کیونکہ وہ اپنے فرض سے غافل ہیں ان کی خاموشی سے فساد میں ترقی ہوتی ہے ان کو چاہیے تھا کہ فساد دور کرنے میں دلی کوشش کرتے مگر وہ الگ بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ذمہ دار ہیں باوجود کوشش کے پھر اگر دیکھو کہ کوئی فریق دوسرے پر ظلم زیادتی کرتا ہے یعنی صلح کی طرف مائل نہیں ہوتا یا بعد مصالحت ہوجانے کے پھر بگاڑ کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں تمہارا فرض بھی منقلب ہوجائے گا۔ یعنی بجائے درمیانی بنکر اصلاح کرنے کے تم پر فرض ہوگا کہ تم لوگ مظلوم اور مائل بصلح فریق سے مل کر اس زیادتی کرنے والے فریق کا مقابلہ کرو جتنی تم میں طاقت ہو اس کو تنگ کرو اس کو بدنام کرو اس کی نسبت لوگوں میں پھیلائو کہ فساد اسی کا ہے۔ جو مصالحت یا شرعی فیصلہ کی طرف نہیں آتا یا آکر پھر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی اور شرعی فیصلہ کی طرف مائل ہو۔ پھر بھی اگر وہ باغی فریق‘ اپنی شرارت اور بے فرمانی سے باز آجائے تو عدل کے ساتھ ان دونوں فریقوں میں اصلاح کردیا کرو اور … اصلاح کرنے میں اس فریق کے …انکار یا بغاوت سابقہ کی وجہ سے طبیعت میں ملال پیدا کر کے کسی طرح کی بے انصافی نہ کیا کرو بلکہ ہر حال میں انصاف ہی کیا کرو جو جس معاملہ میں جتنا قصور وار ہو اس فکو اتنا ہی قصور وار سمجھا کرو۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ دیکھو یہ رنجشیں جو مسلمانوں میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ خواہ کسی رنگ میں ہوں دینی صورت میں یا دنیاوی شکل میں ان رنجشوں کو خانگی رنجشیں سمجھ کر زیادہ طول نہ دیا کرو۔ کیونکہ آخر بات تو یہی ہے کہ ایماندار سب آپس میں بھائی بند ہیں پس تم لوگ ان لڑنے والے اپنے بھائیوں میں مصالحت بلکہ اصلاح کردیا کرو۔ دیکھو اصلاح کرنے میں دونوں کو اپنا بھائی جانا کرو اور اس خدمت کے ادا کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے ایسا نہ ہو کہ جانبداری کرنے میں بجائے ثواب کے تم کو عذاب ہو۔ الحجرات
10 الحجرات
11 مسلمانو ! نسل کے لحاظ سے یا پیشہ کی وجہ سے یا ملکی اختلاف سے گو تم مختلف قومیں ہو یا ہوسکتے ہو مگر یہ تمہاری قومیتیں سب دینی قومیت کے وقت سب ہیچ ہیں تم لوگ سب مسلمان ہو اس لئے کوئی قوم سے مسخری جس میں ان کی ذلت ہو نہ کیا کرے دور نہیں کہ وہی قوم جس کو کم درجہ سمجھا گیا ہے وہی اللہ کے نزدیک بوجہ نیک عملی کے ان سے اچھی ہو اور خاص کر عورتیں جن کو اس قسم کی عادت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ دوسری قوم کی عورتوں سے مسخری اور توہین نہ کیا کریں عجب نہیں کہ وہی اللہ کے نزدیک ان سے بہترہوں اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو۔ نہ عیب لگایا کرو۔ نہ آپس میں ایک دوسرے کے برے برے القاب رکھا کرو جس سے ان کی ہتک ہو۔ اور اس کو رنج پہنچے۔ سنو ! ایمانداری کے بعد کسی کے حق میں برا نام تجویز کرنا یا استعمال کرنا بہت معیوب ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے یہ ہدایت پہنچنے کے بعد بھی جو لوگ ایسی بدخصلتوں سے توبہ نہ کریں گے وہی اللہ کے نزدیک ظالم ہوں گے۔ الحجرات
12 مسلمانو ! چونکہ ہم (اللہ) کو تمہاری ہر طرح کی اصلاح کرنا خصوصا اخلاق فاضلہ کی اعلیٰ چوٹی پر پہنچانا منظور ہے اس لئے ایک اور اعلیٰ سبق تم کو بتایا جاتا۔ وہ یہ کہ تم بہت سے مواقع پر بدگمانی کرنے سے پرہیز کیا کرو۔ ہمیشہ ہر ایک کے حق میں یہی نہ سمجھ لیا کرو کہ یہ دل سے برا ہے کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ جو آدمی بظاہر اچھا ہے اس کو اچھا ہی سمجھا کرو کیا تم لوگوں نے شیخ سعدی کا کلام نہیں سنا۔ ہر کر اجامہ پارسا بینی پارسا دان ونیک مرد انگار جب تک اس کے اندرون کا علم نہ ہو۔ اس کی نسبت محض اپنے دل سے برا خیال پیدا کرلینا بدظنی ہے اور اسی سے تم کو منع کیا جاتا ہے ہاں اگر اس کے اندرون کا حال کسی قرینہ سے معلوم ہو تو حسب حال گمان کرنا ممنوع نہیں پس ان دونوں مواقع میں تمیز کیا کرو۔ اور سنو ! تم ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہا کرو۔ کہ اس کا کوئی مخفی عیب ملے تو گرفت کریں اور نہ تم میں سے کوئی کسی کو پیچھے برائی سے یاد کیا کرے جس کو شرعی اصطلاح میں غیبت کہتے ہیں سنو ! غیبت کرنی ایسا برا فعل ہے گویا مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ اسے تو تم یقینا برا سمجھو گے پھر غیبت کیوں کرتے ہو؟ ایسی باتیں چھوڑ دو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ اگر تم دل سے توبہ کرو گے تو وہ ضرور قبول کرے گا۔ پس پچھلے گناہ اور غلطیاں توبہ کر کے معاف کرا لو۔ اور آئندہ کو احتیاط رکھو۔ (آجکل کا سیاسی علم مطالعہ اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حکومت دوسری سے بدگمان ہے اور اس کی بدگمانی کچھ صحیح بھی ہوتی ہے۔ غالبا اسی لئے اللہ تعالیٰ عالم الغیب نے اس مقام پر بعض بدگمانیوں کو گناہ فرمایا ہے سب کو نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس بدگمانی کا قرینہ ہو وہ اس میں داخل نہیں۔ فافہم منہ ) الحجرات
13 اے لوگو ! سنو تمہارا یہ خیال کہ ہم شریف ہیں کیونکہ ہم قریش ہیں ہم سید ہیں ہم شیخ ہیں۔ ہم وہ ہیں ہم یہ ہیں اور مخالف ہمارا ذلیل ہے کمین ہے کیونکہ وہ دہنیا ہے جولاہا ہے وغیرہ۔ یہ خیال سرے سے غلط ہے۔ کیونکہ ہم (اللہ) نے تم سب کو ایک مرد اور ایک ہی عورت سے پیدا کیا ہے تم میں کوئی دوسرے کو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ننہال اچھے نہیں یا دو ہال برے ہیں کیونکہ تم دراصل ایک ہی خاندان سے ہو۔ باپ ایک ہے تو ماں بھی ایک ہے۔ اور ہم نے تم سب لوگوں کو مختلف قومیں اور قبائل اس لئے بنایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان لیا کرو۔ چونکہ دنیا میں بنی آدم کی کثرت اس حد سے متجاوز ہے جس حد پر کسی خاندان کا ایک ہی نام کافی ہوسکتا ہے۔ اس لئے بغرض معرفت ضرورت ہوئی کہ تمہارے قبائل اور قوموں کے نام مختلف رکھے جائیں۔ جیسے قریش۔ افغان وغیرہ۔ بس صرف یہ غرض ہے کہ لوگ اپنی معرفت کرائیں نہ کہ ان قومیتوں کو باعث افتخار بنائیں۔ افتخار کا ذریعہ تو دراصل ایک ہے دگر ہیچ۔ یعنی اللہ سے تعلق۔ اس لئے بگوش ہوش سنو کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور شریف وہ ہے جو بڑا پرہیزگار ہے۔ جتنا پرہیزگاری میں بڑہا ہوگا اتنا ہی اللہ کے دربار میں زیادہ معزز ہوگا۔ رہی بات کہ کون پرہیزگار ہے۔ کیا پرہیزگاری منہ سے کہنے یا کسی کے ذریعہ کہلانے سے ہوتی ہے ؟ نہیں۔ بلکہ اللہ خود سب کچھ جانتا اور ہر چیز سے خبردار ہے اسے کسی کے بتانے کی حاجت نہیں۔ اس لئے تو کسی کے غلط اظہار سے وہ فریب نہیں کھاتا الحجرات
14 چنانچہ یہ دیہاتی لوگ کسی دنیاوی غرض سے جھوٹ موٹ کہتے ہیں کہ عرصہ ہوا ہم تمہاری کتاب پر ایمان لا چکے ہیں۔ تمہارے رسول کی تصدیق کرتے ہیں قیامت کو مانتے ہیں ایمان کی اور پہچان کیا ہے۔ تو اے نبی ! ان کو کہہ کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ایمان تو دل سے ہوتا ہے اور یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں اس لئے ایمان کا دعوی نہ کرو۔ ہاں یہ کہو کہ ہم ظاہری صورت میں مسلمان ہیں یعنی مردم شماری میں تم مسلمان ہو اور ایمان تمہارے دلوں میں ابھی نہیں گھسا اور سچ تو یہ ہے کہ تمہارے اظہار کرنے کی حاجت نہیں۔ اگر تم اللہ اور رسول کی تابعداری کرو گے تو بے فکر رہو۔ وہ بھی تمہارے اعمال میں سے کچھ کاٹ نہ کرے گا۔ یعنی جو کچھ کرو گے وہی پائو گے بلکہ اپنی بخشش اور مزید عنایت کرے گا۔ کیونکہ یقینا اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ الحجرات
15 چونکہ ذکر ایمانداروں کا چل پڑا ہے اس لئے اصل حقیقت تم کو بتائی جاتی ہے کہ ایماندار وہ لوگ ہیں جو اللہ کی خالص توحید پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے رسول کی رسالت پر پھر اس ایمان پر جم کر الٰہی احکام میں کبھی شک وشبہہ نہیں کرتے۔ اور اپنے مالوں اور نفسوں کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یعنی اگر موقع جان لڑانے کا ہو تو جان سے بھی حاضر ہیں۔ مال کی تو کچھ حقیقت ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ اپنے دعوے میں سچے ہیں رہے الحجرات
16 (16۔18) یہ لوگ جو دل میں کفر رکھ کر اسلام کا اظہار کرتے ہیں تو اے نبی ! ان کو کہہ دے کیا تم اللہ کو اپنا دین بتاتے ہو؟ جو وہ نہیں جانتا کیونکہ اللہ تو آسمانوں اور زمینوں کی کائنات سب کو جانتا ہے اور تمہارا دین و ایمان اس کے وسیع علم میں نہیں تو دو نتیجوں میں سے ایک نتیجہ ضرور صحیح ہوگا یا تمہارے دلوں میں ایمان نہیں یا اللہ کو تمام کائنات کا علم نہیں۔ دوسری صورت تو غلط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ سب کچھ اس کے علم میں سمایا ہے ان کے دلوں میں ایمان ہو تو وہ کیوں نہ جانے۔ ایمان سے تو انکو غرض نہیں۔ یہ تو یورپین پالیسی کے آدمی ہیں جن کو ابن الوقت کہا جاتا ہے کہ ہوا کا رخ دیکھا اور ادہر چل پڑے دیکھو تو اے نبی ! تجھ پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یعنی باتوں باتوں میں اپنا ایمان اور اسلام بتا رہے ہیں تو ان کو جواب میں کہہ کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتائو بلکہ اگر تم ایمان کے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تم پر احسان جتاتا ہے کہ اس نے تم کو ایمان کی ہدایت کی ہے کیونکہ اگر تم واقعی مسلمان ہو تو ضرور ہے کہ اللہ کی توفیق سے مسلمان ہوئے ہو گے۔ لہذا تم کو اللہ کا احسان مند ہونا چاہیے۔ نہ کہ مجھ کو اور اللہ کو تمہارا ممنون احسان۔ کیا تم نے شیخ سعدی کا قول نہیں سنا۔ ؎ منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمے کنی منت ازوبداں کہ بخدمت گزاشتت سنو ! یقینا اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کی چھپی باتیں سب جانتا ہے اور خاص کر تمہارے کاموں کو جو تم کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ الحجرات
17 الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 (1۔15) میں اللہ قادر قیوم ہوں اے نبی ! مجھے اپنے کلام پاک قرآن مجید کی قسم ہے کہ تو میرا رسول ہے اس لئے جو کچھ تو ان کو کہتا اور سناتا ہے وہ سچ ہے آئندہ کی بابت جو تو ان کو بتاتا ہے۔ وہ ہو کر رہے گا۔ مگر ان مشرکین عرب کو تعجب اس بات سے ہے کہ ان میں سے ایک شخص اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ان کے پاس کیوں آیا۔ ان کے خیال میں یہ عہدہ کسی فرشتے یا کسی دولتمند ذی عزت آدمی کو ملنا چاہیے تھا مگر آیا تو ایک آدمی۔ آدمی بھی وہ جس کے پاس ظاہری مال ودولت کچھ نہیں۔ پس کافر کہتے ہیں یہ عجیب تعلیم ہے کہ مر کر پھر زندہ ہوں گے۔ بھلا ہم مر کر جب مٹی ہوجائیں گے تو پھر جی اٹھیں گے؟ یہ دوبارہ زندگی تو عقل سے بعید ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب ہم مٹی ہو کر مٹی میں مل گئے ہمارا گوشت رہا نہ ہڈی۔ نہ رگ نہ پٹھا۔ ایسی حالت میں ہم کیسے دوبارہ جئیں گے (مشرکین عرب کو مسئلہ توحید میں تو مشکلات تھیں۔ مگر مسئلہ قیامت اور حشر اجسام میں توحید سے بھی زیادہ مشکلات ان کو سوجہتی تھیں ان کے جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی (منہ) سنو ! ان کے جتنے کچھ جوڑ جاڑ ہیں اور جتنی کچھ زمین ان سے کھا کر کم کر رہی ہے ہم سب کو جانتے ہیں ہر چیز کا ذرہ ذرہ ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک دفتر محفوظ ہے جو ہماری ذات خاص میں ہے یعنی لوح محفوظ اور ہمارا علم اس سے کوئی چیز باہر نہیں۔ دنیا کے سب علوم اور سب کتابیں اس کی فرع ہیں۔ مگر ان کی تو حالت یہ ہے کہ حق بات اور سچی تعلیم جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ پس یہ لوگ ایک بے بنیاد بات پر جمے ہوئے ہیں یہ کہ اللہ کے ساتھ کچھ شریک ہیں جو اس کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں ان کو اگر کسی مسئلہ کا سمجھنا مقصود ہو تو آثار قدرت دیکھیں ان سے نتائج اخذ کریں۔ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اس کو بنایا۔ پھر ہم نے اس کو ستاروں سے سجایا اور اس میں کسی طرح کی درز یا شگاف نہیں ہے اور دیکھو زمین کو ہم نے پھالو دیا۔ اتنی وسیع ہے کہ اس کی پیمائش نہیں ہوسکتی۔ اور اس پر کئی ایک بھاری بھاری پہاڑ پیدا کر دئیے اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں پیدا کیں۔ ہری بھری کھیتی ایک طرف ہے تو لہلہاتے سبز باغ ایک طرف۔ چشم بینا کی بینائی کے لئے اور اللہ کی طرف جھکنے والے بندوں کی نصیحت کے لئے کیونکہ وہ ایک ایک پتے سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے ؎ برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتر یست معرفت کردگار اور سنو ! ہم اللہ اوپر سے بابرکت پانی اتارتے ہیں یعنی بارش پھر اس پانی کے ساتھ باغ اگاتے ہیں اور کھیت میں دانے پیدا کرتے ہیں اور لمبی کھجوریں پیدا کرتے ہیں جن کے گابھے تہ بتہ ہوتے ہیں یہ سب سامان بندوں کو رزق دینے کے لئے ہے۔ ورنہ ان کا فائدہ ہم کو کچھ نہیں پہنچتا اور سنو ! ہم اس پانی کے ساتھ خشک پڑی ہوئی زمین کو زندہ اور تازہ کردیتے ہیں جس سے زمین میں حالت دگرگوں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت کے روز قبروں سے مردوں کا خروج ہوگا۔ عرب کے مشرک قیامت کا ذکر سنتے ہی سر اٹھا کر تاکنے لگ جاتے ہیں کہ ہیں ؟ قیامت کیسے۔ یہ تو بالکل جھوٹ ہے پس تم اس سے دل برداشتہ نہ ہو۔ بلکہ سنو ! ان سے پہلے نوح کی قوم نے مقام رس کے کنویں والوں نے اپنے سمجھانے والوں کو۔ ثمود کی قوم نے عادیوں نے۔ فرعون اور فرعونیوں نے۔ لوط کی برادری نے۔ بن کے رہنے والوں حضرت شعیب کی قوم نے اور اللہ کی طرف بلانے والے تبع کی قوم نے بھی الٰہی احکام کی تکذیب کی تھی اور ان سب نے رسولوں کا جھٹلایا تھا۔ پس میرے عذاب کا حکم ان پر لگ گیا اسی طرح ان لوگوں کا انجام ہوگا جو اس زمانہ میں قیامت کے وجود سے منکر ہیں نہ صرف منکر بلکہ سخت مشدد مکذب ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کا پیدا کرنا اللہ کی طاقت سے باہر ہے۔ کیا ہم (اللہ) پہلی مرتبہ پیدا کر کے تھک گئے ہیں‘ کہ دوسری مرتبہ پیدا نہیں کرسکیں گے نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ بے وجہ اور بےدلیل نئی پیدائش کے وقوع سے سخت شک بلکہ انکار میں مبتلا ہیں۔ ق
2 ق
3 ق
4 ق
5 ق
6 ق
7 ق
8 ق
9 ق
10 ق
11 ق
12 ق
13 ق
14 ق
15 ق
16 (16۔38) ان کے دلوں میں جو جو خیالات آتے ہیں ہمیں معلوم ہیں کیونکہ ہم نے ہر انسان کو پیدا کیا ہے اور جس جس قسم کے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں اور کیوں نہ جانیں ہم تو اس کی شاہ رگ سے بھی قریب تر ہیں یہ سمجھو کہ خود انسان بھی اپنی جان سے اتنا قرب نہیں رکھتا نہ اتنا اس کو اپنا علم ہے۔ جتنا ہم (اللہ) کو اس کا قرب اور علم ہے۔ پھر اس کے حالات اور خیالات سے کیوں واقف نہ ہوں۔ خاص کر اس وقت جب ہمارے بھیجے ہوئے ضبط کرنے والے دو فرشتے (اس کے اقوال وافعال کو) ضبط کرتے جاتے ہیں۔ اس کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے یعنی ہر وقت موجود رہتے ہیں اس وقت وہ انسان جو بھی لفظ بولتا ہے۔ اس کے پاس نگران حال لکھنے والا مستعد تیار ہوتا ہے۔ کیا مجال کوئی لفظ اس کا ضائع جائے۔ جونہی نکلا بس محفوظ ہوا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ یہ سب کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور موت کی سختی واقعی شکل میں آئے گی وہمی اور خیالی نہ ہوگی اس وقت موت کے فرشتے اس مرنے والے کو کہیں گے۔ یہ وہ موت ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ لیکن آخر آج اس کے پھندے میں تجھے پھنسنا پڑا کیا تو نہیں جانتا تھا۔ ؎ گو سلیمان زماں بھی ہوگیا تو بھی اے سلطان آخر موت ہے اور سنو ! مرنے کے بعد قیامت کے روز اٹھنے کے وقت صور میں پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوجائے گی وہی دن ڈراوے کا ہوگا۔ جس سے تم کو انبیاء علیہم السلام کی معرفت ڈرایا گیا تھا اس روز ہر شخص اس میدان قیامت میں آئے گا۔ اس حال میں کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ اس کو چلانے والا اور ایک گواہ ہوگا۔ یہ دونوں وہی ہوں گے جو اس کے دائیں بائیں بیٹھے رہتے تھے۔ اس وقت اس کو کہا جائے گا۔ کہ تو اس دن سے غفلت اور بے پروائی میں تھا۔ لے اب تو ہم نے تیرا پردہ غفلت اس سے اٹھا دیا ہے۔ بس اب تو سب کچھ تیرے سامنے ہے۔ پس تیری نگاہ آج بڑی تیز ہے۔ ذرہ نظر تو اٹھا۔ جو کچھ تو دیکھتا ہے یہ محض وہم ہے۔ یا واقعی وہ تسلیم کرے گا کہ جو کچھ دیکھ رہا ہے یہ سب واقعی ہے۔ کیونکہ اس کو ہر طرف سے اس کا ثبوت ملے گا۔ اور اس کا ساتھی دنیاوی دوست‘ گرو‘ پیر وغیرہ جس نے اسے گمراہ کیا ہوگا۔ فوراً کہے گا کہ حضور یہ ہے اس کا کچا چٹھا جو میرے پاس تیار رہتا تھا۔ اس میں بھی اس کے اعمال کا کافی ذکر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی بدکار ہے۔ اس کی پیش دستی اس غرض سے نہ ہوگی کہ اللہ کو کوئی اطلاع دے بلکہ اس غرض سے ہوگی کہ میں چھوٹ جائوں مگر اللہ عالم الغیب کے سامنے ایسی ویسی باتیں کہاں چل سکتی ہیں اس لئے حکم ہوگا اے فرشتو ! سنو ! ہر ایک کافر‘ سرکش‘ مانع خیر‘ حد عبودیت سے بڑھنے والے متکبر بے فرمان اور سیدھے سادھے ایمانداروں کو شک وشبہ میں ڈالنے والے یعنی سیدھے سادھے مسلمانوں کو اسلام اور ایمان سے روکنے والے کو تم جہنم میں ڈالتے جائو۔ جانتے ہو؟ اس حکم سے کون لوگ مراد ہیں ؟ وہ شخص جس نے اللہ کے ساتھ اور معبود بنایا۔ کسی نے بت کو کسی نے قبر کو کسی نے پیر فقیر کو کسی نے اپنے نفس کو پس تم ایسے مشرک کافر سرکش متکبر شخص کو جو اللہ کی توحید خالص سے ہٹا ہو سخت عذاب میں جھونک دو۔ یہ حکم سن کر اس کا گمراہ کن ساتھی سمجھے گا کہ میری بھی خیر نہیں اس لئے وہ کہے گا اے اللہ میں نے تو اس کو گمراہ نہ کیا تھا لیکن وہ خود پر لے درجے کی کھلی گمراہی میں تھا۔ اس لئے میری رہائی ہونی چاہیے۔ اللہ بذریعہ ملائکہ کہے گا میرے سامنے مت جھگڑا کرو میں تم کو پہلے ہی سے برے کاموں پر عذاب کی اطلاع دے چکا ہوں۔ تم لوگون نے اس سے غفلت بلکہ روگردانی کی تو بس اب نتیجہ بھگتو اس میں قصور کس کا؟ میرے ہاں سے جو بات کہی جائے وہ بدلتی نہیں کیونکہ وہ صحیح علم اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور یہ بھی سب دنیا کو معلوم ہے کہ میں اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہوں۔ جو کچھ قصور ہے مجرموں کا ہے کیا تم لوگوں نے دنیا میں طبعی صورت میں میرے قوانین معلوم نہ کئے تھے ؟ کہ جو کوئی بدپرہیز ہوتا تھا۔ وہ تکلیف اٹھاتا تھا خواہ بد ہوتا یا نیک۔ اس میں ان کی کوئی رعائت یا لحاظ نہ ہوتا۔ اسی طرح مذہبی اور اخری قانون ہے جو رونے اور چیخنے سے مبدل نہیں ہوتا۔ پس میں بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہوں کہ ناکردہ گناہ ان کے سر تھوپ دوں۔ یا ان کی نیکیاں برباد کر دوں یہ سب کچھ اس روز پورا ظہور پذیر ہوگا۔ جس روز قیامت قائم ہوگی اور سب لوگ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے ایک طرف بہشت ہوگی دوسری جانب جہنم ایسی بھڑکتی ہوگی گویا ساری دنیا کو کھا جائے ایسے لوگ جن کا ذکر پہلے ہوا یعنی کفار‘ عنید‘ مناع‘ معتد‘ مریب جب اس میں داخل ہوجائیں گے تو ہم اس جہنم سے پوچھیں گے کیا تو ابھی بھری نہیں؟ ہمیں معلوم تو سب کچھ ہوگا لیکن اظہار نتیجہ کے لئے دریافت کیا جائے گا۔ وہ کہے گی میرے حصے میں سے ابھی کچھ اور بھی ہیں ؟ ہے تو ڈال دیجئے۔ اس وقت میری بھوک جوع البقر کی طرح ترقی پر ہے۔ آخر جتنے لوگ اس کے لائق ہوں گے سب اس میں ڈالے جائیں گے پھر تو وہ کہہ اٹھے گی بس اب بس۔ کیونکہ جن لوگوں کا اس میں داخلہ مقدر ہے وہ داخل ہوچکے پھر اس کو کس کی خواہش؟ (یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں ذکر ہے حتی یضع رب العزۃ فیھا قدمہ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اس آیت کے متعلق ایک حدیث آئی ہے جس کے الفاظ ہیں۔ لا تزال جھنم یلقی فیھا وتقول ھل من مزید حتی یضع رب العزۃ فیھا قدمہ فینز وی بعضھا الی بعض فتقول قط قط۔ متفق علیہ (مشکوۃ باب صفۃ النارواھلہا) ” جہنم میں ڈالا جاتا رہے گا۔ اور وہ کہتی رہیگی کچھ اور بھی ہے۔ یہانتک کہ رب العزۃ اس میں اپنا قدم رکھیگا بس وہ سکڑ جائیگی اور کہے گی بس بس “ اس حدیث میں دو لفظ قابل غور ہیں۔ ایک رب العزۃ دوسرا قدمہ۔ رب العزۃ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور قدم سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جن پر بحکم اللہ جہنمی ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ قاموس جو لغت عرب کی مستند کتاب ہے اس میں لفظ قدم کے معنے لکھے ہیں۔ وفی الحدیث حتے یضع رب العزۃ فیھا قدمہ ای الذین قدمھم من الا شرار فھم قدم اللہ للنا رکما ان الاخیار قدمہ الی الجنۃ (قاموس) یعنی قدم اللہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے جہنم میں داخل کئے جانے کا حکم لگایا ہوگا۔ جیسے نیک لوگ جنت کی طرف اللہ کے قدم ہیں مجمع البحار ” جو لغت حدیث کی معتبر کتاب ہے اس میں یہی قدم کے معنے یونہی لکھے ہیں۔ حتے یضع قدمہ فیھا ای الذین قدمھم لھا من شرار خلقہ کما ان المسلمین قدمہ الی الجنۃ (مجمع البحار) پس ان دو شہادتوں سے حدیث اور قرآن کے معنے صاف سمجھے گئے کہ اللہ کا قدم رکھنے سے مراد ان لوگوں کا داخلہ ہے جو اس (جہنم) کے لائق ہیں۔ اس توجیہہ پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ دوسری روایت میں رجلہ آیا ہے یعنی اللہ اپنا رجل دوزخ رکہیگا۔ جس کے معنے یقینا پیر کے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا ان دو لفظوں (قدم اور رجل) میں سے ایک روایت باللفظ ہے۔ دوسرا روایت بالمعنے۔ ہمارے سامنے دو لفظ ہیں ان میں سے ہم روایت باللفظ اس کو قرار دیں جو اپنے معنے کے لحاظ سے شان الوہیت کے مخالف نہ ہو۔ تو بہت مناسب اور موزون ہوگا۔ یہی اس کی ترجیح کا قرینہ ہے۔ پس اس اصول سے ہم کہتے ہیں کہ قدم کی روایت تو باللفظ ہے اور رجل کی روایت بالمعنے ہے یعنی راوی نے اپنے فہم سے قدم کے معنے پیر کے سمجھے تو وہی لفظ نقل کردیا۔ اس توجیہ سے دونوں لفظ بحال رہتے ہیں اور شان الوہیت کے بھی خلاف نہیں۔ اللہ اعلم۔ منہ) اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ جو ان کے سامنے بالکل نزدیک ہوگی اس کو دیکھ کر انکا شوق غالب ہوگا۔ تو ان کو کہا جائے گا۔ جلدی نہ کرو یہ وہی جنت ہے جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا ابھی تم اس میں داخل ہوجائو گے۔ جنت ہر کہ ومہ کے لئے نہ ہوگی بلکہ ہر ایک اللہ کی طرف جھکنے والے احکام اللہ کی حفاظت کرنے والے کے لئے ہوگی۔ یعنی جو شخص اللہ کی عظمت اور جلالت کا سکہ اپنے دلوں پر اتنا غالب رکھتا تھا کہ اللہ رحمن سے باوجود اس کی رحمانیت کے بن دیکھے ڈرتا تھا۔ اور جھکنے والا دل لے کر یہاں آیا ہے ایسوں کو حکم ہوگا کہ تم صحت سلامتی کے ساتھ اس بہشت میں داخل ہوجائو۔ اندر جا کر تم کو یہ فکر نہ رہے کہ کبھی نہ کبھی ہم کو ان نعمتوں سے نکالا جائے گا ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ آج جو کچھ کسی کو انعام واکرام ملے گا وہ ہمیشہ کے لئے ہوگا۔ وہ بہشتی لوگ جو کچھ چاہیں گے ان بہشتوں میں ان کو ملے گا یہ خیال مت کرنا کہ اتنے بے حساب لوگوں کی خواہشات پوری کس طرح کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی خواہشات کتنی بھی ہوں تھوڑی ہوں گی۔ اور ہمارے پاس ان کی خواہشات سے بڑھ کر غیر محدود ہے قیامت کا ذکر سنتے ہی یہ لوگ (صنا دید عرب) سر اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہیں ؟َ ہم اتنے شہ زور۔ دولت مند ہو کر بقول ان مسلمانوں کے ایسے بہشت سے محروم اور یہ غریب مفلس اس کے وارث؟ اینچہ بوالعجبی ست۔ پس سنو ! اور غور سے سنو ! ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں تباہ کردیں جو بل بوتے اور قوت میں ان سے زیادہ تھے۔ پھر وہ اپنے اردگرد کے تمام شہروں میں پھر نکلے۔ کبھی بغرض تجارت کبھی بغرض سیاست کبھی بغرض فلاحت اور سیاحت۔ غرض ہر قسم کی ترقی کی راہیں ان پر کھلیں اور وہ ان میں ظفریاب ہوئے کیا پھر جب عذاب ان پر آیا تو ان کو کوئی راہ فرار ملی؟ کیا وہ اس عذاب سے بچے ؟ ہرگز نہیں۔ تمہارے مخالفوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ ظلم اور اعتدا کا نتیجہ ہمیشہ برا ہے۔ سنو ! نہ سہی آج کبھی قہر اللہ آئے گا ٹھاٹھہ ان ظالموں کا خاک میں مل جائے گا بے شک اس واقعہ میں (جو گزشتہ لوگوں کا بیان ہوا ہے جس میں مذکور ہے کہ بدکار لوگ باوجود ترقی کے تباہ ہوئے) بڑی نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو دل سمجھدار رکھتے ہیں یا کسی بات اور نصیحت کو حضور قلب سے سنتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے ہم اپنی قدرت کا ایک واقعہ سناتے ہیں جس سے ان لوگوں کو ہماری طرف جھکنے کے لئے مزید تحریک ہوگی۔ پس سنو ! ہم (اللہ) نے سات آسمان زمین مع مختلف طبقات کے اور اس کے علاوہ جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کچھ چھ دنوں کی مدت میں پیدا کئے۔ تمام حجر‘ شجر‘ کون ومکان زمین و آسمان حیوان وانسان سب کچھ چھ دنوں کے عرصہ میں بنائے اور ہم کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچی کیونکہ ہمارے کام کوئی دست بازو سے نہیں ہوتے۔ بلکہ حکم سے ہوتے ہیں ہم جس کام کو کرنا چاہیں اس کو صرف حکم دینا کافی ہے حکم بھی لفظوں میں ضروری نہیں بلکہ ارادے میں اس کا آنا ہی اس کی پیدائش کے لئے کافی سبب ہے ق
17 ق
18 ق
19 ق
20 ق
21 ق
22 ق
23 ق
24 ق
25 ق
26 ق
27 ق
28 ق
29 ق
30 ق
31 ق
32 ق
33 ق
34 ق
35 ق
36 ق
37 ق
38 ق
39 (39۔45) پس اے نبی ! ہر کام میں اس اللہ کی طرف رجوع کیا کر اور جو جو کچھ یہ لوگ تیرے حق میں ناشائستہ الفاظ کہتے ہیں تو اس پر صبر کیا کر اور الٰہی تعلق اور عبودیت کا اظہار کرنے کو طلوع شمس سے قبل اور غروب سے پہلے اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح یعی اس کو پاکی سے یاد کیا کر اور صبح شام سبحان اللہ وبحمدہ بکثرت پڑھا کر اور رات کو بھی کچھ دیر تک اور نماز کے بعد بھی تسبیح سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کر اور امت کو بھی حکم دے کہ پڑھا کریں اور تسبیح تہلیل پڑھتے اور دیگر امور مذہبی کے ادا کرتے وقت اس ہیبت ناک دن کی طرف کان لگائے رہا کر یعنی دل میں اس کا دھیان رکھا کرو۔ جس روز پکارنے والا فرشتہ پاس ہی سے پکارے گا کیونکہ اس کی آواز ایسی بلند اور دور رس ہوگی کہ ہر ایک شخص اس کو ایسا سنے گا گویا اس کے پاس سے کوئی بلا رہا ہے یعنی جس روز سچی واقعی نہ فرضی آواز کو سب لوگ سنیں گے آواز کا مضمون ہوگا۔ اے سڑی گلی ہڈیو ! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ زندہ ہوجائو۔ یہ سنتے ہی سب قبروں سے یا جہاں کہیں فنا ہو کر دبے دبائے ہوں گے نکل پڑیں گے کیونکہ وہ دن قبروں سے نکلنے کا ہوگا اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم ہی دنیا کو زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی مار دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم ہی سب کچھ کرتے کراتے ہیں سب دنیا کو ہمارے ساتھ وابستگی ہے اور ہماری طرف ہی سب کا رجوع ہے جیسا معلول کو علت کی طرف رجوع ہوتا ہے یہ وہ دن ہوگا جس دن یہ لوگ زمین کو پھاڑ کر فوراً نکل پڑیں گے ان لوگوں کا خیال کہ ایسا خروج کیسے ہوگا بالکل نا سمجھی پر مبنی ہے۔ یہ جمع کرلینا ہم پر بہت آسان ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں۔ بھلا غور تو کریں کہ کسی چیز کا نئے سرے سے پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے یا ایک دفعہ بن جانے کے بعد بنانا؟ تمہارا خیال ہی اگر مانا جائے تو اس کا جواب بس یہی کافی ہے کہ ایک دفعہ جب ہم نے دنیا کو بنا دیا تو اب دوبارہ بنانا اس کا پہلے کی نسبت آسان ہوگا۔ یہ جواب ان لوگوں کے مسلمہ پر ہے۔ ورنہ ہم (اللہ) کو تو سب کام آسان ہیں۔ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں مگر ہمارا حلم اور علم بھی بہت وسیع ہے دیکھو جو کچھ یہ لوگ تیرے حق میں اے نبی ! کہتے رہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے جھوٹا ہے وغیرہ یہ سب باتیں ہم خوب جانتے ہیں مگر تو باوجود نبی ہونے کے آخر مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ مخلوق کا حوصلہ خالق کے برابر نہیں ہوتا۔ اس لئے تو ان کی شرارت پر گھبراتا ہے مگر یاد رکھ کہ تو ان پر جابر حاکم کی طرح مسلط داروغہ نہیں ہے کہ ان کو جبرا مسلمان بنائے یا ان کے تعمیل نہ کرنے پر تجھ سے باز پرس ہو۔ بس تیرا فرض صرف یہی ہے اس سے زیادہ نہیں کہ جو شخص میرے (اللہ کے) عذاب سے ڈرے تو اس کو قران پڑھ کر سمجھا دے۔ نہ مانے تو اپنا سر کھائے والسلام ما بخیر شما بسلامت۔ ق
40 ق
41 ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 ق
0 الذاريات
1 (1۔ الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 الذاريات
8 الذاريات
9 الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 الذاريات
15 الذاريات
16 الذاريات
17 الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 الذاريات
23 الذاريات
24 (24۔37) کیا تم کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آنے والے معزز مہمانوں کی صورت میں فرشتوں کا قصہ پہنچا ہے؟ جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام عرض کیا۔ حضرت ابراہیم نے بھی جواب میں سلام کہا۔ چونکہ وہ فرشتے تھے جو نقصان اٹھانے والی قوم لوطیوں کی تباہی کے لئے بھیجے گئے تھے اس لئے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ان کو پہچان نہ سکے۔ اور دل میں خیال کیا کہ یہ لوگ بالکل اجنبی ہیں مگر مہمانداری کے خیال سے ان کے کھانے کی فکر میں اپنے گھر والوں کی طرف جلدی گئے اور موٹے تازے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور لا کر ان کے سامنے قریب رکھ دیا۔ مگر وہ فرشتے تھے وہ کیسے کھاتے۔ جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کھانے کی طرف نہیں جھکتے۔ تو حضرت ابراہیم نے ان کو کہا کیا تم لوگ کھایا نہیں کرتے؟ اگر کھاتے ہو تو اسے کیوں نہیں کھاتے؟ اور اگر نہیں کھایا کرتے تو کیوں نہیں کھاتے؟ ان کی خاموشی اور ترک طعام سے حضرت ابراہیم دل میں ڈرے کہ یہ اللہ کے فرستادہ ہیں اللہ نہ کرے کہ اس بستی پر کوئی عذاب نازل کریں چنانچہ حضرت ابراہیم کے چہرہ سے خوف محسوس ہوتا تھا یہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا حضرت ! اندیشہ نہ کیجئے آپ کے اور آپ کی بستی کے برخلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی بلکہ ہم تو ایک اور بدکار قوم کی طرف آئے ہیں۔ درمیان میں آپ سے بھی شرف نیاز حاصل کرنے کا حکم تھا اور ایک بات کی بابت آپ کو خوش خبری عرض کرنی تھی۔ یہ کہہ کر انہوں نے حضرت ابراہیم کو ایک حلیم‘ سلیم علمدار لڑکے کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی کہ اللہ آپ کو ایک فرزند دلبند عطا کرے گا۔ سو یہ سن کر ان کی بیوی سارہ بولتی ہوئی حیرت زدہ آگے آئی اور عورتوں کی طرح اپنے ماتھے کو پیٹ کر بولی میں جنوں گی؟ میں تو عمر کی بوڑھی اور اولاد سے بانجھ ہوں۔ میاں ہر کام کا وقت ہوتا ہے۔ ساری عمر نہ جنی تو اب کیا خاک جنوں گی؟ آپ کی مراد شائد بجائے حقیقت کے مجاز ہوگی یعنی بجائے میرے۔ کسی قریبی کو اولاد ہوگی یہ سن کر فرشتوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ واقعہ تو یہی ہے کہ آپ بوڑھی ہیں بانجھ ہیں مگر ہم بھی اپنی طرف سے نہیں کہتے۔ بلکہ آپ کے پروردگار کا حکم سناتے ہیں اس نے فرمایا ہے کہ میں بڑی حکمت والا علم والا ہوں۔ (ہمارے ملک پنجاب کے ملہم مرزا صاحب قادیانی نے بھی بخیال خویش الٰہی الہام سے اعلان کیا تھا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا جو دنیا کو نور اور ہدایت سے بھر دیگا۔ جب ایک لڑکا پیدا ہوا تو مرزا صاحب موصوف نے عام اشتہار دیا کہ یہی موعود لڑکا ہے مگر وہ چند ماہ زندہ رہکر مر گیا۔ نہ اس سے دنیا کو ہدایت پہونچی نہ نور۔ تفصیل اس کی ہماری کتاب ” تاریخ مرزا“ میں ملتی ہے (منہ) میرے سامنے کوئی کام ان ہونا نہیں میرے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ میں سب کچھ جانتا اور سب کچھ کرسکتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا اے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولو ! تمہارے انداز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر تمہارا آنا سرسری ہے تو اصل کام تمہارا کیا ہے ؟ جس کے لئے تم آئے ہو۔ وہ فرشتے بولے ہم ایک بدکار قوم لوطیوں کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر مٹی کے جمے ہوئے پتھر برسائیں۔ جو تیرے پروردگار کے پاس بے ہودہ لوگوں کے لئے مقرر ہوچکے ہیں۔ یعنی ایسے لوگوں کی سزا جو بصورت سنگ باری اللہ کے ہاں مقرر ہے وہ ان کو دینے کے لئے ہم دنیا میں آئے ہیں حضرت ابراہیم نے ان کے اس کہنے پر چند سوال کئے جن کے جواب ان کو دئیے گئے۔ چنانچہ وہ فرشتے حضرت ابراہیم سے فارغ ہو کر حضرت لوط کی بستی میں آئے تو ہمارے حکم سے انہوں نے ان کو ہلاک کردیا یہ نہیں کہ بلا تمیز ساری بستی کو مار ڈالا بلکہ جو لوگ اس میں باایمان رہتے تھے ہم نے ان کو ان تباہ ہونے والوں میں سے نکال لیا تھا۔ اور باقی لوگوں کو ہلاک کردیا۔ مگر ساری بستی میں ہم نے ایک گھر سے زیادہ کوئی مسلمان نہ پایا۔ افسوس آنچہ پر جستیم وکم دیدیم وبسیار ست ونیست نیست جز مسلم دریں عالم کہ بسیار ست ونیست اور جو لوگ اعمال بد کی سزا میں دردناک عذاب سے ڈرا کرتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے ہم نے اس بستی میں ایک بہت بڑی نشانی باقی رکھی جو اس کی کھنڈر کی صورت میں تھی بعد ہلاکت جو بستی کو دیکھتا وہ حیران ہو کر کہتا۔ ؎ ابھی اس راہ سے گذرا ہے کوئی کہے دیتے ہے شوخی نقش پاکی الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 الذاريات
37 الذاريات
38 (38۔60) اسی طرح فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں عبرت کے نشان ہیں خاص کر جس وقت ہم (اللہ) نے اس حضرت موسیٰ کو فرعون کی طرف روشن حجت کے ساتھ بھیجا یعنی صاف صاف اور صریح معجزات اور آیات بینات اس کو دیں تاکہ وہ ایسے با جبروت بادشاہ (فرعون) کے سامنے مغلوب نہ ہو۔ حضرت موسیٰ روحانی قوت سے دربار فرعونی میں پہنچے تو فرعون نے اس کے معجزات دیکھ کر اپنے زور کے گھمنڈ سے روگردان ہوا اور بولا کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے یا پاگل۔ جادوگری تو اس میں یہ ہے کہ جو اس کے پاس جاتا ہے اسی کا ہوجاتا ہے او پاگل پن اس میں یہ ہے کہ ایسے بڑے شاہ زور بادشاہ کی مخالفت کرتا ہے جو ایک اشارہ سے اس کو فنا کردے۔ پس اس کا یہ کہنا تھا کہ ہمارا غضب جوش میں آیا۔ تو ہم نے اس کو اور اس کی فوج کو پکڑ کر دریا میں غرق کردیا ایسے حال میں کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔ بس اس کی ساری شیخی کر کری ہوگئی۔ کسی عارف نے کیا سچ کہا ہے۔ حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے اور سنو ! قوم عاد کے واقعات میں بھی بہتیرے قدرتی نشان ہیں خصوصا جس وقت ہم نے ان پر ایک مضر تیز ہوا چلائی۔ جس سے وہ سب تباہ ہوگئے اس کی خاصیت تھی کہ جس چیز کو چھو جاتی اس میں سے روح نکال کر اسے چورا کردیتی غرض قوم عاد خود اور ان کا سب سامان اسی ہوا سے تباہ ہوگیا۔ اور سنو ! قوم ثمود میں بھی کئی نشان ہیں جب ان کو کہا گیا کہ تم لوگ ایک وقت خاص تک دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھا لو کیونکہ تمہاری اجل قریب ہے پس یہ سن کر وہ بجائے مستفید ہونے کے الٹے اکڑے اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکش ہوگئے۔ لگے اکڑنے اور اترانے پھر کیا تھا قہر الٰہی نے ان کو آ دبایا جبکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے پھر تو ایسے مر مٹے کہ نہ تو وہ اپنی جگہ پر کھڑے رہ سکے نہ اپنی مدد کرسکے اور سنو ! ان سے بہت مدت پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم کو ہم نے تباہ اور ہلاک کیا تھا۔ کیونکہ وہ بدمعاش اور بدکار لوگ تھے ان کی بدکاری کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ قریب ہزار سال کے حضرت نوح نے ان کو سمجھایا مگر وہ راستی پسند نہ ہوئے اور ہمارے نشانات انہوں نے نہ دیکھے اور کفر ہی پر اڑے رہے۔ اب بھی غور کرنے والے غور کریں۔ تو ان کو کافی ہو۔ دیکھو آسمان جو اتنا بڑا بلند اور بے ابتدا اور لاانتہا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سب ہم نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم بہت بڑی فراخی اور وسعت والے ہیں۔ ہماری وسعت قدرت کے سامنے یہ آسمان اور یہ زمین کیا چیز ہیں۔ یہ تو ہماری مقدورات میں ایک معمولی نمونہ ہیں۔ جن لوگوں نے نظام عالم پر غور کیا ہے وہ ہماری وسعت قدرت کا اندازہ جان سکتے ہیں۔ کسی اہل دل نے کیا اچھا کہا ہے مٹی سے ہوا سے آتش وآب سے یاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں پر تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہ غیب میں اسی طرح نہاں دیکھو ہم ہی نے یہ زمین فرش کے طور پر بچھا دی اور ہم کیسے اچھے فراش ہیں دیکھو تو اسی زمین پر تم رہتے ہو۔ اسی پر تم کھیتی کرتے ہو۔ اسی پر تم مکان بناتے ہو۔ اسی میں تمہارے لئے پانی کے چشمے ہیں کیا اب بھی کسی کو ہماری نعم الماھد ہونے میں شک ہے اور سنو ! اسی آسمان وزمین کی پیدائش پر کیا حصر ہے۔ ہم نے ہر چیز کی دو دو قسمیں پیدا کی ہیں ایک ادنیٰ اور ایک اعلیٰ اپنے مالک کے آموں اور دوسری میوجات کو دیکھو کیسی کیسی قسمیں پیدا کی ہیں تاکہ تم آثار قدرت دیکھ کر نصیحت پائو۔ پس اے نبی ! یہ بھی ان لوگوں کو کہہ دو کہ تمہاری نصیحت پانے کے یہ معنی نہیں کہ معمولی طور پر سبحان اللہ کہہ دیا کرو۔ بس۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ تم لوگ اللہ کی طرف لپک کر آئو۔ یعنی اسی کے ہو رہو۔ اسی سے مانگو۔ اسی کے آگے گڑگڑائو۔ دیکھو میں اسی کی طرف سے تم کو صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ یعنی صاف صاف لفظوں میں سناتاہوں کہ برے کاموں کا نتیجہ برا ہے پس تم برائیوں سے باز آئو۔ خاص کر شرک جیسی برائی سے بالکل الگ رہو۔ اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود مقرر نہ کرو نہ کسی نبی کو نہ ولی کو نہ کسی بت کو نہ دیوی کو نہ کسی پہاڑ کو نہ زمین کو۔ کیونکہ یہ سب چیزیں اس کی مخلوق ہیں نہ کسی کو اس کے سامنے ہستی کا دعویٰ ہے۔ بالکل سچ ہے۔ ؎ ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی سنو ! میں یقینا تم کو اس اللہ کی طرف سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ لوگو ! اللہ کے عذاب سے بچ جائو۔ مگر دنیا دار لوگ اپنی اغراض ومقاصد میں پھنسے ہوئے منہمک ہیں وہ ایسے صاف صاف سنانے والوں کو بنظر حقارت دیکھتے اور سنتے ہیں اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس بھی جب کبھی کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہی کہا یہ جادوگر ہے یا مجنون۔ یہ مختلف اقوال اس لئے تھے کہ بعض نے وہ کہا اور بعض نے یہ۔ باوجود بعد زمانہ کے یہ لوگ خیالات وعقائد میں پہلے لوگوں سے متفق ہیں۔ کیا انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اس کام کی وصیت کر رکھی ہے کہ ہمارے بعد تم نے بھی ایسا کرنا۔ ان دونوں قوموں کے حالات دیکھنے والے کو خیال ہوگا کہ ایسا ہی کیا ہوگا مگر دراصل یہ بات نہیں بلکہ یہ لوگ بذات خود سرکش قوم ہیں۔ پس تو اے نبی ! ان سرکشوں سے منہ پھیر لے یعنی بعد تبلیغ کے ان کی بے ہودہ گوئی کی کچھ پرواہ نہ کر ایسا کرنے میں تجھ کو کسی طرح کی ہماری طرف سے یا پبلک کی جانب سے کوئی ملامت نہیں۔ ہاں تو اپنے کام میں لگا رہ اور وعظ ونصیحت کرتا رہ۔ کیونکہ نصیحت ایمانداروں کو فائدہ دیا کرتی ہے۔ کسی سرکش گروہ کی سرکشی یا کسی مخالف شخص کی مخالفت سے اصلاح کا کام چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ورنہ کسی وقت بھی اصلاحی کام نہ چل سکے گا۔ کیونکہ جب کبھی بھی اصلاح شروع کی جائے گی معاندین مقابلے پر کھڑے ہوجائیں گے تو کیا ان کے ایسا کرنے سے کام چھوڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ جہاں سرکش اور مفسد لوگ ہیں۔ سلیم القلب اور اصلاح پسند بھی دنیا میں موجود ہیں۔ میرے (اللہ کے) نزدیک وہی لوگ مومن ہیں اور وہی لوگ خلق کائنات کے مقصود کے حصول کا ذریعہ ہیں کیونکہ میں (اللہ) گو اپنی ذات میں غنی ہوں مجھے اپنے افعال میں کوئی ذاتی غرض ملحوظ نہیں ہوتی جس سے میری ذاتی تکمیل ہو۔ اور میں اپنا کوئی نقصان پورا کروں مگر یہ بھی تو ہے کہ بغیر کسی خاص غرض کے کوئی کام کرنا عقلمندی اور حکمت سے خالی ہے۔ اس لئے میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اس عبادت کرانے سے میری ذات میں کوئی تکمیل نہیں ہوگی بلکہ انہی کا فائدہ ہوگا اور میں ان کو پیدا کر کے ان سے رزق کا طالب نہیں ہوں۔ اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ تنگی اور بھوک کے وقت مجھے کھانا کھلائیں ان تمام شبہات کے رفع کرنے کو اعلان کر دیجئے کہ اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا زبردست ہے۔ باوجود محتاج اور مرزوق اللہ ہونے کے پھر بھی یہ لوگ اللہ کے بے فرمانی سے ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں تو جو لوگ ایسا ظلم کرتے ہیں جس میں مخلوق کی حق تلفی ہوتی ہے ایذا رسانی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ بوجہ شرک وکفر کے اللہ کی بھی حق تلفی ہوتی ہے۔ ان ظالموں کے ذمہ بہت سے گناہ لگے ہوئے ہیں جیسے ان سے پہلے لوگوں کے ذمہ تھے جو ایک روز ان کو بھگتنے ہوں گے۔ پس یہ لوگ جلدی نہ کیا کریں۔ وقت آتا ہے انکو معلوم ہوجائے گا۔ کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ پھر جس دن کے عذاب سے ان کو ڈرایا جاتا ہے اس دن منکروں کے لئے اس روز افسوس ہوگا۔ وہ خود اپنی حالت کو قابل افسوس پائیں گے۔ مگر وہ پچھتانا انکو مفید نہ ہوگا۔ بہتر ہے کہ اس سے پہلے ہی انتظام کرلیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار الذاريات
39 الذاريات
40 الذاريات
41 الذاريات
42 الذاريات
43 الذاريات
44 الذاريات
45 الذاريات
46 الذاريات
47 الذاريات
48 الذاريات
49 الذاريات
50 الذاريات
51 الذاريات
52 الذاريات
53 الذاريات
54 الذاريات
55 الذاريات
56 الذاريات
57 الذاريات
58 الذاريات
59 الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 (1۔28) اے ہمارے پیارے پیغمبر علیک السلام آئندہ کے وعدوں کی بابت جو کچھ ہم بتا دیں تجھے تو اس کے ماننے میں کسی طرح کا شک نہیں ہے البتہ تیرے مخالفوں کو ضرور انکار ہے۔ سو ہمیں قسم ہے کوہ طور کی اور الہامی کتاب قرآن مجید کی جو بڑے بڑے کاغذوں میں لکھی ہوئی ہے اور آباد گھر یعنی عبادت خانوں کی (جن میں ملائکہ اور انسان بکثرت آیا جایا کرتے ہیں۔ بلند اور اونچی چھت کی طرح آسمانوں کی اور جوش مارنے والے سمندر کی۔ ان قسموں کا جواب کیا ہے وہ سنو ! تمہارے پروردگار کا عذاب جو بدکاریوں پر موعود ہے ضرور واقع ہوگا۔ اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں وہ اس روز ہوگا جس روز آسمان فنا ہونے سے کچھ پہلے حکم الٰہی کے ماتحت اپنے محور پر بڑی تیز حرکت کرے گا اور پہاڑ بڑی سرعت سے پھریں گے۔ یعنی آسمان زمین اور پہاڑ سب کی حرکت موجودہ حرکت سے بہت تیز ہو کر دنیا کو فنا کر دے گی اس کے بعد نئے سرے سے دنیا بنے گی اس روز کا نام روز قیامت ہے پھر اس روز مکذبین یعنی اللہ اور رسولوں کے حکموں کی تکذیب اور انکار کرنے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو بے ہودہ بکواسوں میں کھیل تماشہ کرتے رہتے ہیں جس روز یہ لوگ بڑی ذلت اور خواری سے جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے جب اسے دیکھ کر چیں بجبیں ہوں گے تو ان کو کہا جائے گا یہی وہ جہنم کی آگ ہے جس کی تم لوگ تکذیب کیا کرتے تھے بھلا دیکھو تو سہی یہ جو تم کو اس وقت نظر آرہا ہے۔ یہ جادو ہے‘ جس کی وجہ سے تم معدوم چیز کو موجود سمجھتے ہو یا تم نہیں دیکھتے ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو تو سہی تمہارے سامنے کیا ہو رہا ہے اچھا دیکھو یا نہ دیکھو چلو اس میں داخل ہوجائو پھر بعد داخلہ اس کی تکلیفوں پر صبر کرنا یا نہ کرنا تمہارے حق میں سب برابر ہے صبر کرنے سے عذاب میں کچھ تخفیف نہ ہوگی۔ نہ کرنے سے زیادتی نہ ہوگی بلکہ اس کے سوا کوئی بات نہ ہوگی۔ کہ تم لوگوں کو وہی بدلہ ملے گا جو تم دنیا میں کرتے رہے سنو ! تمہارے مقابل لوگ جن کو تم لوگ حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے یعنی پرہیزگار مسلمان جن کو تم لوگ ملیچھ اور ڈشٹ بلکہ شودر کہا کرتے تھے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ پرہیزگار آج کامیاب ہیں دیکھو وہ آج باغوں اور نعمتوں میں ہیں جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو دیا ہے اس کے ساتھ مزے کر رہے ہیں۔ اور ان کو ان کے رب نے جہنم کے عذاب سے بچالیا ہے۔ اس کے مقابل تم لوگ اپنی حالت کو دیکھو کہ دوزخ میں پڑے سڑ رہے ہو۔ ایک طرف جہنم کا عذاب ہے۔ دوسری طرف زمہریر کی مصیبت ہے الامان والحفیظ۔ دیکھو تو یہ پرہیزگار مسلمان کس عیش وعشرت میں ہیں ان کو اجازت ہے کہ اپنے نیک کاموں کے بدلہ میں مزے سے کھائو پیئو۔ بچھے ہوئے تختوں پر آرام سے بیٹھ کر جیسے امیر لوگ گائو تکئے لگائے بیٹھتے ہیں اور دیکھو ہم نے ان کو صرف کھانا پینا ہی نہیں دیا بلکہ زندگی کا پورا لطف دیا ہوگا جس کی صورت یہ ہوگی کہ بڑی خوبصورت سفید رنگ کی موٹی آنکھ والی عورتوں سے ان کو جوڑا بنا دیا۔ تاکہ ان کو تجرد کی تکلیف نہ ہو اور وہ خوب مزے سے گذاریں کھائیں پئیں اور مزے کریں۔ غور کرو ان لوگوں کی کیسی پاک زندگی ہوگی اور سنو ! ہمارے (اللہ) کے ہاں یہ بھی ایک قانون ہے جو ایماندار پرہیزگار ہیں اور ان کی اولاد بھی ایمان کے کاموں میں ان کی تابع ہے یعنی ماں باپ کی طرح بیٹا بیٹی بھی عمل صالح کرتے ہیں تو ہم نے ان کی اولادوں کو ان صالحین ماں باپ کے ساتھ ملا دیا ہے یعنی جیسے ماں باپ اور اولاد اعمال صالحہ میں ملتے جلتے ہیں ان کو قریب قریب جگہ دی گئی ہے اور ان والدین اور اولادوں کے اعمال سے ہم نے کوئی کمی نہیں کی ہمارا ایک عام قانون ہے جس سے یہ لوگ اہل جنت مستثنیٰ ہوں گے وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے کئے ہوئے اعمال کی سزا میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سے اسے فرصت نہ ہوگی۔ ہاں جنتی لوگ ہر طرح کی بندش سے آزاد ہیں۔ (اس استثناء کا ثبوت سورۃ مدثر کی آیت سے ملتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کل نفس بما کسبت رھینۃ الا اصحاب الیمین (یعنی سوائے اہل جنت کے سب لوگ اپنے کئے میں گرو (پھنسے ہوئے) ہونگے۔ ١٤ منہ) دور ہر طرح کے پھل پھول اور ہر طرح کے گوشت سے جو بھی وہ چاہتے ہیں ہم نے ان کو خوب وافر دے رکھا ہے وہ اس بہشت میں ایک دوسرے کو شراب کے پیالے بھر بھر کر دے رہے ہیں کیسی شراب؟ ایسی کہ اس میں نہ نشہ اور نہ نشہ کے اثر سے کوئی لغو حرکت اور نہ کوئی گناہ کا کام ہے اس کے علاوہ ان پر ایک مہربانی یہ بھی ہے کہ وہ متوحشانہ زندگی نہیں گزارتے بلکہ خانگی صورت میں جو امور دل بستگی کا ذریعہ ہوتے ہیں ان کو یہاں بھی میسر ہیں۔ مثلاً ان کی بیویاں ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے جو لڑکپن میں دنیا میں مر گئے یا ان کی حسب خواہش وہاں جنت ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے اردگرد ایسے پھر رہے ہیں گویا وہ چمکتے ہوئے موتی ہیں۔ لطف یہ کہ وہ بچے بچے ہی رہیں گے تاکہ ان کی دل بستگی اور تفریح کا سبب بنے رہیں وہ ان بچوں کو دیکھ دیکھ کر دل خوش کریں اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہمی سوال کریں گے یہاں اتنی بڑی نعمت ہم کو کون سے عمل کے بدلے میں ملی ہے ہمارے اعمال تو ایسے نہ تھے اس لئے وہ کہیں گے ہم تو اس سے پہلے اپنے اہل عیال میں ڈرتے رہتے تھے۔ کہ کہیں ہماری سستی یا کم عقلی کے باعث اللہ ہم پر خفا نہ ہوجائے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا خوف ہی ہم کو کام آگیا اس خوف کی برکت سے اللہ نے ہم پر احسان کیا اور محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیا ورنہ ہمارا نہ تو کوئی وسیلہ تھا نہ ہمارا کوئی مددگار اس لئے ہم تو پہلے ہی سے اسی کو پکارتے اور اسی سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور دل میں یقین تھا کہ بے شک وہی بڑا محسن اور اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے یہی ہمارا ایمان تھا اور یہی ہمارا کام۔ مختصر یہ کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی میں سوائے اللہ کے کسی اور کو اپنا سہارا نہ جانتے تھے اور نہ اس کے سوا کسی سے حاجت طلب کرتے تھے اسی عقیدت پر ہم خود رہے اور دوسروں کو بھی بلایا۔ ساری زندگی میں ہماری یہی پکار رہی۔ لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 الطور
13 الطور
14 الطور
15 الطور
16 الطور
17 الطور
18 الطور
19 الطور
20 الطور
21 الطور
22 الطور
23 الطور
24 الطور
25 الطور
26 الطور
27 الطور
28 الطور
29 (29۔49) اے نبی ! تو نے یہ سن لیا کہ سب سے اچھا اعتقاد اور اچھا کام یہ ہے کہ اللہ کی طرف بلایا جائے پس تو لوگوں کو ان باتوں کی نصیحت کیا کر تو اللہ کے فضل سے نہ تو کاہن ہے کہ لوگوں پر دم جھاڑا کرے نہ مجنون ہے۔ یہ تو سب کچھ ان لوگوں کے خیالات کا عکس ہے (عرب کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حق میں مختلف راہیں رکھتے تھے بلحاظ تاثیر کلام آپکو کاہن کہتے۔ کاہن عرب میں جھاڑ پھونک کرنے والے تھے اور بلحاظ مخالفت کرنے عام رائے کے آپ کو مجنون کہتے ان دونوں خیالات کی تردید کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) جو تجھے کبھی کچھ کہتے ہیں۔ کیا یہ لوگ تیری نسبت یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ؟ اس کا کلام نظم نہیں مگر ناظموں کی طرح ہوائی قلعے بناتا اور خیالی پلائو پکاتا ہے ہم اس کے حال پر زمانہ کے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں۔ چند روز تک اس کا شوروشر خود ہی ٹھنڈا پڑجائے گا ہمارے دخل دینے کی ضرورت نہ ہوگی ایسے ویسے کئی ہوئے اور چلے گئے اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ تم جو میرا انتظار کر رہے ہو میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے انجام کا منتظر ہوں یقینا تم لوگ خود دیکھ لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا ان کی عقلیں ان کو یہ راہنمائی کرتی ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کے رسول سے منہ موڑ کر اور طرف چلو یا یہ واقع میں سرکش لوگ ہیں دیکھنے والا ان کی نسبت کیا خیال کرے انکو بے عقل سمجھے یا سرکش قرار دے اسی قسم کی ان کی اور کئی باتیں ہیں جو ناقابل ذکر ہیں کیا ان کو یہ زیبا ہے جو کہتے ہیں کہ اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو از خود بنا لیا ہے ان کو ذرہ خیال نہیں آتا کہ یہ ایسا آدمی نہیں جو خود بنا لے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود کسی سچی بات کو ماننے والے نہیں پس اگر یہ اس دعویٰ میں سچے ہیں کہ اس رسول نے خود بنا لیا ہے تو اس کے بنائے ہوئے کلام جیسا کوئی کلام لے آئیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ بناوٹی ہے کیونکہ یہ کلام بلحاظ الفاظ مفردہ اور مرکبہ کے دوسرے کلاموں کے مشابہ ہے اور اس کا سنانے والا کوئی تعلیم یافتہ نہیں۔ کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ بغیر کسی چیز کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے ہیں یعنی ان کا کوئی خالق نہیں یا یہ خود ہی اپنے خالق آپ ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ نہ خود خالق ہیں نہ بغیر خالق کے بنے ہیں بلکہ خالق کی مخلوق ہیں تو کیا انہوں نے آسمان اور زمین بنائے ہیں جس کی وجہ سے یہ کچھ عویٰ رکھتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں بنایا بلکہ یہ لوگ کسی سچی بات پر یقین نہیں کرتے۔ پہلا یہ جو اعتراضات کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس رسول کو رسالت کیوں ملی یہ اس کا حقدار کیسے بنا۔ اس کو رسالت الٰہی کیوں ملی؟ ملتی تو کسی بڑے امیر آدمی کو ملتی۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ تیرے پروردگار کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ کہ ان سے دریافت کر کے دے یا یہ اس تقسیم رسالت پر مقرر کئے گئے حاکم ہیں کہ ان کی رائے لینی بھی ضروری تھی کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان سے باتیں سن پاتے ہیں؟ اچھا پھر ان میں کا سننے والا اپنی سنی ہوئی آواز کھلی دلیل کی شکل میں لے آئے ان کی کس کس بات کا ذکر کریں۔ ؎ جو بات کی اللہ کی قسم لاجواب کی ان سے پوچھو تو بھلا یہ بھی کوئی بات ہے جو تم کہتے ہو کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا اللہ کے حصے میں لڑکیاں اور تمہارے حصے میں لڑکے ہیں ؟ یہ تقسیم تو ناقص ہے کہ زور دار صنف اولاد تمہارے حصے میں اور کمزور صنف اللہ کے لئے۔ مگر ان کو یہ کہتے ہوئے بات کی سمجھ نہیں آتی۔ بھلا یہ جو تیری اتنی سخت مخالفت کرتے ہیں کیا تو ان سے اپنے تبلیغی کام کی مزدوری مانگتا ہے کہ وہ اس کے قرض کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں یا تیری مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ اس کو لکھتے ہیں اور اس لکھے ہوئے میں تیری تصدیق نہ پا کر تیری مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں کچھ نہیں تو کیا یہ تیرے برخلاف کوئی مکروفریب کرنا چاہتے ہیں ہرگز کامیاب نہ ہوں گے بلکہ بے ایمان لوگ خود الٰہی پکڑ میں آجائیں گے کیا ان کے لئے اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے ؟ کوئی نہیں معاذ اللہ اللہ ان کے شرک سے پاک ہے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں بلکہ صرف ضد اور عناد ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی ضد کی حد ہوگئی ہے۔ اگر کوئی جما ہوا ٹکڑا یعنی از قسم پتھر وغیرہ آسمان سے گرا ہوا پالیں جو بندوں کی بدکاری پر بطور بم کے گولہ کے بحکم الٰہی سے اوپر سے گرتا دیکھیں تو یہی کہیں گے کہ یہ تو جما ہوا بادل ہے۔ اس میں عذاب وغیرہ کچھ نہیں حسب معمول پہاڑ سے جما ہوا پانی گر پڑا ہے دگر ہیچ۔ پس جب ان کی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو اے نبی ! تو ان کو چھوڑ دے جو چاہیں کریں یہاں تک کہ یہ لوگ خود بخود اپنے جزا سزا کے دن کو جس کا وعدہ دئیے جاتے ہیں پائیں جس میں مارے صد مات رنج وغم کے یہ لوگ بے ہوش ہوجائیں گے یعنی جس روز نہ ان کی چالبازی کچھ کام آئے گی نہ ان کو مدد پہنچے گی یہ مت سمجھو کہ آخری عذاب ہی پر منحصر ہے نہیں بلکہ جو لوگ اللہ کے نزدیک ظالم ہیں ان کے لئے اس بڑے عذاب سے پہلے ایک عذاب ہے جو دنیا ہی میں ان کو آن پہنچے گا۔ مگر ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس تو اپنے کام میں لگا رہ اور اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے جا کچھ شک نہیں کہ تو ہمارے سامنے ہے اور جب کبھی کسی مجلس میں بیٹھ کر اٹھا کرے تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھا کر اور رات کو بھی تسبیح پڑھا کر اور ستاروں کے غروب ہوئے پیچھے یعنی بعد نماز صبح بھی تسبیحات یعنی سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کر۔ (حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مجلس سے اٹھتے تو آپ یہ دعا پڑھتے۔ سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ فرمایا جو کوئی مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ کلمات پڑھ لے اگر اس مجلس میں اس نے نیکی کی ہوگی تو اسپر مہر لگ کر محفوظ ہوجائے گی اور اگر برائی کی ہوگی تو اللہ کے ہاں سے اس گناہ کی بخشش ہوگی۔ غالبا حضور کا یہ عمل اس آیت کی تعمیل ہے۔ منہ) ! اس میں اشارہ ہے کہ عرب بلکہ دنیا ساری کا طلوع فجر قریب ہے۔ آفتاب رسالت محمد یہ علے صاحبھا الصلوۃ والتحیۃ کے ذریعہ سے (منہ) الطور
30 الطور
31 الطور
32 الطور
33 الطور
34 الطور
35 الطور
36 الطور
37 الطور
38 الطور
39 الطور
40 الطور
41 الطور
42 الطور
43 الطور
44 الطور
45 الطور
46 الطور
47 الطور
48 الطور
49 الطور
0 النجم
1 (1۔18) لوگو ! ہم کو بڑے ستارے کی قسم ہے جب وہ غروب کی جانب جھکتا ہے یعنی جس وقت طلوع صبح قریب ! ہوتا ہے۔ تمہارا ہم نشین حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ اللہ کے راستے سے گمراہ ہوا نہ بہکا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے نہیں بولتا کہ جو جی میں آیا کہہ دیا۔ بلکہ وہ یعنی اس کا کلام جو دینی رنگ اور مذہبی صورت میں ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ پھر اس میں کجی یا بے راہی کی گنجائش کہاں خاص کر اس وجہ سے کہ اس نبی کو بڑے قوی‘ زبردست‘ سب سے بالاتر اللہ نے روحانی تعلیم دی ہے تو اس تعلیم سے وہ نبی کار مفوضہ پر تیار ہوگیا اور اس وقت وہ محمد نبی بلحاظ انسانی مدارج کے بلند تر چوٹی پر تھا۔ پھر وہ اللہ کی طرف لگا اور جھکا رہا۔ پھر روحانی قرب میں وہ اتنا بڑھا کہ کمان کے دو گوشوں کے برابر بلکہ اس سے بھی بہت قریب ہوگیا۔ پس جب وہ روحانی قرب میں اس حد تک پہنچا تو اس وقت اللہ نے اپنے اس بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کرنا تھا کردیا۔ یہ اس کی نبوۃ کا پہلا دن تھا اس وقت اس کا قلب اس حد تک صاف اور مصفا ہوچکا تھا کہ جو کچھ اس نے حالت کشف میں ملاحظہ کیا اس کے دل نے اس کو جھوٹ نہ سمجھا بلکہ سچا پایا کیونکہ دل بھی اس کا صاف شفاف تھا۔ کیا پھر بھی تم لوگ اس نبی سے جھگڑتے ہو اس واقعہ پر جو وہ اپنی کشفی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ اس نے پہلی مرتبہ حالت کشفی میں جو دیکھا تھا شب معراج میں اس کو ایک دفعہ اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا جہاں پر تمام مراتب کمال انسانیۃ ختم ہوجاتے ہیں اس سدرہ کے پاس جنت الماویٰ ہے جس میں نیک لوگوں کا مقام ہے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جس وقت اس سدرہ پر بطور جسمانی تمثل کے عجیب کیفیت چھا رہی تھی جس کی کیفیت بیان کرنے اور سننے میں نہیں آسکتی۔ اس سدرہ کو دیکھنے سے دیکھنے والے (رسول اللہ ﷺ) کی آنکھ اس وقت نہ بہکی نہ اچٹ گئی بلکہ صاف صاف واقعات اس کے سامنے نمودار رہے اس دیکھنے والے نبی نے اپنے رب کی بہت بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ مطلب اس سارے بیان سے یہ ہے کہ نبی کی مثال سوانکھے کی ہے اور تمہاری مثال اندھے کی۔ اندھا سوانکھے کی شہادت کو مسترد نہیں کرسکتا۔ پھر تم لوگ کیسے اس نبی کی بات کو رد کرسکتے ہو۔ (معراج کی کیفیت حضرت شاہ ولی اللہ قدس سترہ نے حجتہ اللہ۔ باب الاسراء میں خوب لکھی ہے۔ اسے ملاحظہ کریں۔ (منہ) النجم
2 النجم
3 النجم
4 النجم
5 النجم
6 النجم
7 النجم
8 النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 النجم
13 النجم
14 النجم
15 النجم
16 النجم
17 النجم
18 النجم
19 (19۔30) کیا بھلا تم نے اپنے ان معبودوں لات‘ عزیٰ اور تیسرے منوٰۃ پر بھی کبھی غور کیا۔ یہ کیا ہیں ؟ سنو ! تمہارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے مصنوع ہیں کیا تم ان میں معبودیت کی کوئی نشانی پاتے ہو؟ پھر کیوں ان کو پوجتے ہو۔ کیا یہ خیال تمہارا بالکل ایسا ہی ہے جیسا تم گمان کرتے ہو کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کیا تمہارے لئے بیٹے یعنی نرینہ اولاد اور اللہ کے لئے بیٹیاں ؟ سبحان اللہ ! سچ تو یہ ہے کہ یہ تقسیم بڑے نقصان والی ہے۔ نقصان کس کا ؟ لڑکی والے کا۔ تم لوگ جس کمی رتبے کی نگاہ سے لڑکی والے کو دیکھتے ہو۔ وہ تمہیں خوب معلوم ہے۔ اس حیثیت سے اللہ کی جانب نقصان میں رہے گی۔ پھر تو تم مخلوق ہو کر خالق سے اچھے رہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ تمہارے معبود صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ کسی کا نام مشکل کشا رکھا ہے تو کسی کا حاجت روا۔ کسی کا داتا گنج بخش ہے تو کسی کا دستگیر۔ یہ سب نام ہی نام ہیں اصل حقیقت میں اس وصف کی کوئی مخلوق نہیں ہے اللہ نے ان ناموں پر کوئی نقلی دلیل نہیں نازل فرمائی بلکہ یہ لوگ دراصل صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں جدھر ان کے مجلسی دوست اور برادری کے لوگ پرانی رسوم کے ماتحت بلاتے ہیں ادھر ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کے ہاں سے رہنمائی کے لئے بذریعہ قرآن آچکی ہے کیا اس ہدایت کو چھوڑ کر کوئی انسان من مانی خواہش پا سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں کیونکہ اول آخر سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی سعی کو نتیجہ آور بنانا اللہ ہی کا کام ہے اور کسی دوسرے کا نہیں۔ سنو ! آسمانوں میں کئی فرشتے ہیں جو خود تو کسی کی مدد کیا کریں گے۔ ان کی سفارش بھی جو اللہ کو منظور نہ ہو کسی کام نہیں آتی۔ لیکن اللہ کے اجازت دینے اور پسند کرنے کے بعد مفید ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے سفارش بھی اللہ ہی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ لہٰذا کسی سفارشی کی پوجا بھی جائز نہیں پس تم ان غلط خیالات کو چھوڑو اور اللہ کی خالص توحید پر ایمان لائو۔ اور سنو ! جو لوگ آخرت سے منکر ہیں وہ فرشتوں کو عورتیں کہتے ہیں اور ان کا نام بنات اللہ تجویز کرتے ہیں حالانکہ اس بارے میں کوئی علم نہیں سوائے اٹکل پچو باتوں کے اور یہ تو قانون عقلی ہے کہ حقانیت کے موقع پر جہاں دلائل قطعیہ کی ضرورت ہو وہاں ظنی اور وہمی امور کچھ فائدہ نہیں دے سکتے پس تو اے نبی ! یہ عقلی اور نقلی ہدایت ان کو سنا دے اور اس سنانے کے بعد بھی جو کوئی ہماری ہدایت سے روگردانی کرے اور سوائے دنیاوی فوائد کے کچھ نہ چاہے۔ یعنی اس کی غرض وغائت صرف یہ ہو کہ جس طرح بن پڑے دنیا مل جائے اللہ ملے نہ ملے مگر فوائد دنیا حاصل ہوجائیں ایسے لوگوں سے تو بھی روگردانی اختیار کیجو کیونکہ ان کا منتہائے علم یہی ہے بھلا تم ان کو کیا سمجھائو گے۔ ان کا اور تمہارا اصولی اختلاف ہے تم اس اصول پر ہو کہ علم کا نتیجہ دیر پا اور انجام بخیر ہونا چاہیے اور وہ اس اصول پر ہیں کہ نقد ادہار سے بہر حال بہتر ہے اس لئے وہ فوری فوائد کے حاصل کرنے میں کو شان رہتے ہیں اور اخروی اور دائمی فوائد سے غافل ہیں یہ ان کے علم کا منتہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے علم سے دائمی اور پائدار فائدہ حاصل کرتے۔ جس علم سے پائدار فائدہ نہیں وہ علم نہیں جہل ہے ایسے لوگ گوزبان سے کتنا ہی بنیں اور اپنے آپ کو بنائیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے جو بہکے ہوئے ہیں وہ ان کو خوب جانتا ہے اور جو اس کی راہ پر ہدایت یاب ہیں ان کو بھی خوب جانتا ہے اسے کسی کے بتانے اور جتانے کی حاجت نہیں اس کا علم سب کو شامل ہے کیونکر شامل نہ ہو جبکہ وہ بذاتہ نور ہے النجم
20 النجم
21 النجم
22 النجم
23 النجم
24 النجم
25 النجم
26 النجم
27 النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 (31۔32) اور جو کچھ آسمان وزمین میں ہے سب اللہ ہی کی ملک ہے۔ تو کیا وہ اپنے مملوک سے بے خبر ہوجائے کیسے ہوسکتا ہے اس مالکیت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت میں برے کام کرنے والوں کو ان کے کاموں برا بدلہ دے گا اور نیک کام کرنے والوں کو نیک عوض عطا کرے گا۔ چونکہ ایک روز ایسا ضرور آنے والا ہے اس لئے ابھی سے اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ بڑے بڑے گناہ کے کاموں سے اور بالخصوص بے حیائی اور فحش امور سے بچتے رہتے ہیں مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں ان سے ہوجاتی ہیں جو تقاضائے بشریت ہے تو ایسے پرہیزگاروں کے لئے تمہارے پروردگار کی بخشش بڑی وسیع ہے وہ ان کو گھیر لے گی اور ان کی سب لغزشوں کو مٹا دے گی وہ تمہارے حال سے اس وقت سے خوب واقف ہے جب اس نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا تھا اور اس وقت سے بھی پہلے سے تمہارا واقف راز ہے۔ جب تم اپنے مائوں کے رحموں میں بچے تھے۔ دنیا کی کسی چیز سے واقف نہ تھے نہ اچھے برے کام کی تمہیں واقفیت تھی۔ بیرون رحم آکر اب جو تم کو خبر ہوئی تو یہ سب اللہ تعالیٰ کے بتانے اور سکھانے سے ہوئی پس تم اپنے آپ کو پاک صاف نہ سمجھا کرو۔ اللہ متقی لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے کوئی چھپا نہیں نہ اسے بتانے کی حاجت ہے جو لوگ کچھ نیک کام کرتے ہیں وہ تو رہے بجائے خود جو کچھ بھی نہیں کرتے وہ بھی اپنے آپ کو پاک وصاف جانتے ہیں النجم
32 النجم
33 کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جو قبول حق سے روگردانی کرتا ہے النجم
34 اور باوجود مال دار ہونے کے اللہ کی راہ میں بہت تھوڑا دیتا ہے اور پھر کوئی کتنا ہی کہے مگر سخت دل ہوجاتا ہے کیا مجال کہ کسی عاجز کے تڑپنے پر بھی اس کو رحم آجائے۔ باوجود اس کے کہتا ہے میں نجات کا مستحق ہوں النجم
35 کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اسے یہ دیکھتا ہے کہ جس میں یہ لکھا ہے کہ باوجود سخت دل اور کنجوسی کے مستحق نجات ہے النجم
36 (36۔37) کیا اس خیال کرنے والے کو حضرات موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کی صحیفوں کی خبر نہیں جنہوں نے الٰہی احکام کی وفاداری پوری طرح کی تھی النجم
37 النجم
38 ان صحیفوں میں یہ لکھا تھا کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا جیسا عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح ان کے گناہوں کا متحمل ہو کر کفارہ ہوگیا یہ عقیدہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی تعلیمات کے سراسر برخلاف ہے النجم
39 اور یہ بھی ان صحیفوں میں درج ہے کہ انسان جو کچھ محنت کرے گا وہی پائے گا۔ کسی اپنے جیسے انسان پر بھروسہ کر کے نقصان اٹھائے گا النجم
40 (40۔41) اور یہ بھی ان میں درج ہے کہ انسان اپنی کوشش کے نتائج دیکھ لے گا۔ پھر اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور یہ بھی ان کتب میں درج ہے۔ کہ سب چیزوں کی نقل وحرکت کی انتہا تمہارے پروردگار کی ذات پر ہے۔ سلسلہ کائنات میں گو ایک کڑی دوسری سے وابستہ ہے مگر درحقیقت سب کڑیاں اللہ کی ذات سے وابستہ ہیں بالکل اس طرح جیسے ریل گاڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں مگر سب کی سب آخرکار انجن سے وابستہ ہیں اس لئے اللہ کی ذات سب کا سہارا اور سارے سلسلہ کائنات کی علت العلل ہے اسی لئے کہا گیا ہے ؎ اوچو جان ست وجہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیر آلبد النجم
41 النجم
42 (42۔47) اور ان صحیفوں میں یہ بھی مرقوم ہے کہ وہی اللہ دنیا کو خوشی دکھا کر ہنساتا ہے اور غمی دکھا کر رلاتا ہے وہی مارتا ہے اور وہی جلاتا ہے اسی نے منی کے نطفے سے جو رحم میں ڈالا جاتا ہے دو قسم مرد اور عورت پیدا کئے اور نیک وبد کاموں کی جزا وسزا دینے کی غرض سے وہ اللہ دنیا کو دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ النجم
43 النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 النجم
48 اور ان صحیفوں میں یہ بھی مرقوم تھا کہ تحقیق دہی لوگوں کا مال بکثرت عطا کر کے غنی کردیتا ہے اور کمی کر کے گذارہ تنگ کردیتا ہے النجم
49 اور سنو ! اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ تمام دنیا کا خاص کر ستارہ شعرا ! کا پروردگار بھی وہی ہے جو لوگ کسی ستارے کو شعری ہو یا کوئی اور پوجتے ہیں سخت گمراہ ہیں حالانکہ اللہ ہی نے سب دنیا کو پیدا کیا۔ النجم
50 اور اسی نے پہلی قوم عاد کو ہلاک کردیا النجم
51 اور قوم ثمود کو ایسا فنا کیا کہ ان میں سے کوئی نہ چھوڑا النجم
52 اور قوم نوح کو بہت پہلے اسی نے تباہ کیا کیونکہ وہ بڑے ظالم اور بڑے سرکش تھے۔ النجم
53 اس سرکشی کی سزا ان کو اچھی کافی ملی جس کے باعث وہ برباد ہوگئے اور قوم لوط کی الٹی بستیوں کو گرا دیا۔ النجم
54 پھر ان کو پتھروں کی بارش سے خوب ڈھانپ دیا۔ النجم
55 یہ سب واقعات تاریخی ہیں پس ان کو عبرت سے سنو اور نتیجہ پائو اور بتائو کہ اپنے پروردگار کی کون سی مہربانی میں تم شک کرتے ہو؟ بتائو تو کیا کچھ اللہ نے تم کو نہیں دیا۔ جسمانی نعمتیں دیں۔ رزق دیا۔ اولاد دی۔ اس کے علاوہ تمہاری ہدایت کے لئے سمجھانے والے رسول بھیجے النجم
56 چنانچہ یہ سمجھانے والا بھی پہلے سمجھانے والوں میں سے ایک ہے النجم
57 پھر تم اس سے کیوں منکر ہوتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ دنیا میں گمراہی پھیلی رہے اور اس کو روکنے کے اسباب پیدا نہ ہوں نہ اس کی سزا کے لئے کوئی وقت ہو؟ یہ دونون خیالات غلط ہیں اللہ اپنے بندوں کے حال پر بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی کا مقتضا ہے کہ جس طرح وہ بندوں کو رزق دینے کے لئے بارش کرتا ہے گمراہی سے نکالنے کے لئے سمجھانے والے انبیاء اور علماء پیدا کرتا ہے اور فیصلہ عامہ کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا نام آزفہ ہے وہ آزفہ کی گھڑی بھی آنے والی ہے النجم
58 مگر اس کو ظاہر کرنے والا سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں بس وہی اس کو ظاہر کرے گا کیا النجم
59 تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ ہیں ؟ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ مردے قبر سے اٹھیں اور جزا وسزا پائیں النجم
60 اور اس بات پر تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو بلکہ مخول کرتے ہو النجم
61 اور تم بڑے غافل ہو۔ النجم
62 یہ غفلت تمہارے حق میں سخت مضر ہوگی پس اپنی بہتری چاہتے ہو تو اللہ کو سجدہ کیا کرو۔ یعنی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ اور اسی کی عبادت میں لگے رہو۔ سنو ! ؎ سر جھکا کاہل نہ ہو۔ اٹھ تو سہی بندہ ہونے کی علامت ہے یہی النجم
0 القمر
1 سنو جی ! قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ چکا۔ القمر
2 علامات قیامت ظاہر ہورہی ہیں۔ اور آئندہ بھی ہوتی جائیں گی مگر ان مشرکین کی حالت قابل رحم ہے کہ اگر کوئی نشان ! نبوت دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قدیمی جادو ہے جو دیکھنے والوں کو اپنا قائل بنا کر چھوڑتا ہے شان نزول :۔ مشرکین عرب نے معجزہ طلب کیا رسول اللہ نے بحکم الٰہی معجزہ شق القمر ان کو دکھایا جس کی صورت یہ تھی کہ ایک حصہ چاند کا ایک پہاڑ کے اوپر اور ایک اس سے ذرہ نیچے نظر آیا۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ اس نے ہم پر تو جادو کردیا مگر سارے لوگوں پر جادو نہیں ہوگا۔ چنانچہ آنیوالے مسافروں سے انہوں نے دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لوگو ! تم اس معجزہ پر گواہ رہو۔ (بخاری وغیرہ)۔ اسپر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ قرآن مجید میں ایۃ کے معنے تین آئے ہیں (١) حکم شریعت (٢) نشان قدرت (٣) اور نشان نبوۃ۔ حکم شریعت کی مثال ہے یبین اللہ لکم الایت (اللہ تمہارے لئے اپنے حکم بیان کرتا ہے) نشان قدرت کی مثال وفی الارض اٰیٰت للموقنین (زمین میں نشان ہیں یقین کرنیوالوں کے لئے) نشان نبوۃ کی مثال ہے ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ۔ ثمودیوں کو کہا گیا یہ اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے یعنی نشان نبوۃ۔ مقام غور یہ ہے کہ یہاں سورۃ قمر میں ایۃ سے کیا مراد ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اس جگہ بلکہ ہر اس جگہ جہاں رئویت آیت کے ساتھ کفار کی طرف سے سحر کا مقولہ نقل ہوا ہے وہاں ایۃ سے مراد نشان نبوۃ ہی ہوتا ہے۔ اگر نشان قدرت مراد ہو۔ تو معنے غلط ہونگے کیونکہ ترجمہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر کر اس کو جادو کہتے ہیں۔ حالانکہ نشان قدرت صبح سے شام تک شام سے صبح تک بے حساب دیکھتے تھے۔ سورج دیکھتے۔ دھوپ دیکھتے سایہ دیکھتے رزق دیکھتے پانی دیکھتے۔ ستارے وغیرہ دیکھتے خود اپنے آپکو دیکھتے۔ لیکن ان چیزوں کے دیکھنے پر وہ کبھی اعراض کر کے انکو جادو نہ کہتے۔ مشرکین کا جو ذکر ہے کہ وہ نشان دیکھکر اعراض کرتے اور اس کو جادو کہتے ہیں اس سے مراد قطعا نشان نبوۃ ہے یعنی وہ نشان جو زمانہ کے نبی کی نبوت پر دلالت کرے معنے یہ ہوئے کہ مشرکین معاندین جب کوئی ایسی آیۃ (نشانی) دیکھتے ہیں جو نبوہ محمد یہ پر دلالت کرے تو منہ پھیر جاتے ہیں اور اس کو جادو کہتے ہیں۔ ان معنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس تحقیق کے بعد یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ شق القمر کی کیا حقیقت ہے۔ کچھ شک نہیں کہ حسب روایت صحیح بخاری شق القمر منجملہ نشانہائے نبوۃ محمدیہ کے ایک نشان نبوۃ ہے جس سے نبوت محمدیہ کا ثبوت ہوتا ہے۔ فھو ما اردنا۔ بیرونی سوال :۔ آیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چاند پھٹ جائے۔ حالانکہ فلاسفہ یونان بالاتفاق کہتے ہیں کہ الفلک لا یقبل الخرق والالتیام یعنی آسمان اور آسمانی چیزیں پھٹتی اور ملتی نہیں۔ جواب :۔ بے شک یہ فلسفۂ یونان کا اصول ہے مگر حال کی تحقیق نے اس کی کافی تردید کردی ہے۔ میں نے بچشم خود ڈیرہ دون میں سرکاری رصد گاہ میں دیکھا ہے کہ سورج چاند کی روزانہ تصویریں لیجاتی ہیں ان میں ان دونوں کے سطح پر مختلف داغ ہوتے ہیں آج جو داغ پیدا ہوتا ہے وہ ہفتوں تک نکل جاتا ہے ایک سال ملک میں سردی بڑی شدت کی پڑی تھی اس سال کی تصویر آفتاب دیکھی تو غالبا دو ثلث آفتاب داغدار ہونے کی وجہ سے خفیف الحرارت ہو رہا تھا غرض یہ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ فلسفہ یونان کا اصول لا یقبل الخرق آج کے مشاہدے سے غلط ہے نتیجہ صاف ہے کہ چاند کا پھٹنا ممکن ہے اور ممکن تحت قدرت ہے۔ فھو علی کل شئی قدیر (منہ) ہمارے ملک پنجاب میں ایک صاحب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی چودھویں صدی ہجری میں مدعی نبوۃ ہوئے ہیں جن کا دعوی تھا میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار دُرِثمین نیز دعوی تھا آنچہ دادست ہر نبی راجام داد آں جام را مرا بتمام نیز کہتے تھے منم مسیح زمان و منم کلیم خدا منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد (تریاق القلوب) وہ لکھتے ہیں۔ مجھے بارہا اللہ مخاطب کر کے فرما چکا ہے کہ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنونگا۔ سو میں نوح نبی کی طرح ہاتھ پھیلاتا ہوں اور کہتا ہوں۔ رب انی مغلوب مگر بغیر فانتصر کے“ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ٥ صفحہ ٤) اس عبارت کا پورا مطلب جناب موصوف اور ان کے مرید سمجھے ہونگے ہمارا ناقص فہم تو اس کے سمجھنے سے قاصر ہے کہ کسی مدعی نبوۃ کو دعا کی قبولیت کا الہام والقا ہو اور وہ بوقت تکلیف دعا کرے تو یہ کہے کہ میں مغلوب ہوں مگر یہ نہ کہے کہ میری مدد کر اینچہ بوالعجبی ست۔ جس کی حکمت غامضہ اگر کچھ ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ ایسا قائل جانتا ہوگا۔ کہ میری دعا ان معنے میں تو قبول نہ ہوگی جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہوئی کیونکہ من آنم کہ من دانم اس لئے دعا کے الفاظ کی سبکی کے سوا کیا حاصل؟ سچ ہے بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ۔ ان حضرت کے حالات اور واقعات ہماری دوسری تصنیفات میں ملتے ہیں۔ جو ہم نے خاص ان کے متعلق لکھی ہیں۔ الہامات مرزا۔ تاریخ مرزا۔ نکاح مرزا۔ شہادات مرزا وغیرہ (منہ) القمر
3 ان کے خیال میں اس قسم کے نشا نات جادو ہیں جو بزعم ان کے انبیاء اولیا کرتے آئے ہیں لہذا نبوت کے صدق پر دلالت نہیں کرتے اس لئے یہ لوگ ایسے نشانوں کی تصدیق سے انکاری ہیں اور جھٹلاتے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اعتراض کرتے ہیں کہ نبی جو کچھ کہتا ہے آج ہی کیوں پورا نہیں ہوجاتا۔ مثلاً اسلام کی فتوحات یا قیامت کا قیام جو کچھ بھی یہ بتاتا ہے اس میں لیٹ پیٹ کیسی۔ یہ کہتے تو ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ہر کام اپنے وقت پر قائم ہوتا ہے جو اس کا وقت اللہ کے علم میں ہوتا ہے اسی میں وہ ہوتا ہے اس سے آگے پیچھے چاہے کوئی کتنا زور لگائے نہیں ہوتا۔ اور نہ ہوسکتا ہے القمر
4 اس مضمون کے ذہن نشین کرنے کے لئے ان کے پاس گذشتہ زمانہ کی خبریں آچکی ہیں۔ جن میں کافی زجر اور تنبیہ ہے القمر
5 جو کامل حکمت ہے کیونکہ جس جس طریق سے قرآن مجید میں گذشتہ واقعات بتائے گئے ہیں وہ ہر طرح دل نشین کرنے کو کافی ہیں قصص کی صورت ہے۔ کہیں امثال کی کہیں تصویرات کی۔ غرض عجب طرح کی کامل حکمت اور حکیمانہ تعلیم ہے کہ ہر ایک سمجھدار آدمی کو فائدہ ہوسکتا ہے القمر
6 پھر بھی یہ ڈرائونے واقعات ان لوگوں کو فائدہ نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ لوگ ان سے فائدہ لینے کی طرف رخ نہیں کرتے پس تو بھی ان سے رو گردانی کر۔ ان کی کسی بات کا دل پر اثر قبول نہ کر ہاں ان کو اس دن کا ذکر سنا دے جس روز اللہ کے حکم سے بلانے والا ایک ناپسندیدہ امر یعنی فیصلہ اعمال کی طرف بلائیگا جس کا نتیجہ ان کو اپنے حق میں برا معلوم ہوگا۔ القمر
7 یہ لوگ اس روز ایسے ہو نگے کہ ان کی آنکھیں شرمندہ اور ذلیل آدمی کی طرح جھکی ہونگی اس کثرت سے قبروں سے نکلیں گے گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہونگی القمر
8 قدرتی آواز کو تاثیر یہ ہوگی کہ بلانیوالے (اسرافیل) کی آواز کی طرف بھاگے چلے جاوینگے۔ اس روز کافر کہیں گے یہ دن بہت ناگوار اور تکلیف دہ ہے۔ القمر
9 یہ واقعات ہیں جن کی وجہ سے اس روز کو نکڑ یعنی ناپسندیدہ کہا گیا۔ یہ ناپسندیدگی کفار کے حق میں ہوگی جو اس دن کی جزا و سزا سے منکر ہیں ان سے پہلے منکروں نے بھی اس دن کے ماننے سے انکار کیا تھا چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اس کی تعلیم سے انکار کیا یعنی انہوں نے ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ تو مجنون ہے نہ صرف مجنون بلکہ ہمارے معبودین کی طرف سے جھڑکا ہوا ہے اسی لئے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے مگر حالت اصلی یہ تھی کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی پا کیزہ تعلیم ان کے گندے دماغوں کے خلاف تھی اس لئے وہ اس کو ناپسند کرتے تھے القمر
10 جب وہ عرصہ تک اسی اصرار پر جمے رہے تو پھر کیا ہوا نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ میرے اللہ میں ان کے مقابلہ میں کمزور ہوں تو ہی میری مدد کر۔ القمر
11 پس اس کی دعا کرنی تھی کہ ہم نے زوردار پانی کے ساتھ آسمان کے دروازے کھول دیئے یعنی بادلوں سے موسلادھار بارش کرنی شروع کردی وہ بر سا کہ الامان القمر
12 اور زمین کو چشموں کی طرح بہادیا یعنی سطح زمین پر پانی پھوٹ پڑا۔ پھر تو پانی اپنے اندازہ پر پہنچ گیا۔ جس اندازہ پر ان لوگوں کی ہلاکت مقدر تھی چناچہ اس پانی کے ساتھ سارے مخالف تباہ و برباد ہوگئے القمر
13 اور ہم اللہ نے اس نوح (علیہ السلام) کو تختوں اور میخوں سے بنی ہوئی بالکل معمولی کشتی پر سوار کیا اور خشکی پر جا اتارا۔ القمر
14 وہ کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سا منے چلتی تھی۔ جدھر کو ہم چلاتے وہ چلتی کیا مجال کہ انچ بھر بھی ادھر ادھرہو جائے۔ یہ سارا واقعہ کفار کی ہلاکت اور اتباع نوح کی نجات اس شخص یعنی نوح کے صبرو شکیب کے بدلہ میں ہوا جس کی بے قدری کی گئی تھی یعنی حضرت نوح ( علیہ السلام) کی تعلیم سے روگردانی اور انکار کا عوض ان کو ملا القمر
15 اور ہم نے اس بیڑی کو اور اس کے واقعہ کو دنیا کے لئے نشان قدرت اور علامت نبوت بنایا پس ہے کوئی نصیحت پانیوالا ؟ جو اس واقعہ سے نصیحت پائے القمر
16 پھر جانے کہ میرا عذاب اور ڈر کیسا سخت ہوا جو میں نے نوح نبی سے وعدہ کیا تھا اور حرف حرف پورا ہوا القمر
17 اے ساکنان عرب سنو ! ہم نے تمہاری نصیحت کے لئے قرآن کو بالکل آسان کیا ہے جو کوئی چاہے کہ میں قران مجید سے اپنے عمل کے لئے مسائل سیکھوں تو وہ بہت آسانی سے سیکھ سکتا ہے پھر کیا کوئی ہے نصیحت پانے والا جو دیدہ عبرت سے اسے دیکھے اور گوش ہوش سے سنے القمر
18 اور اگر تکذیب کریں توسن لیں کہ ان سے پہلے عاد کی قوم نے بھی انبیاء کی تکذیب کی تھی پھر میرا عذاب اور میرا ڈر کیسا ہوا۔ القمر
19 سنو ! ہم نے ایک برے وقت میں ان پر بڑی تیز ہوا بھیجی القمر
20 جو انسانوں کو اٹھا اٹھا کر مارتی تھی۔ وہ ایسے گر انڈیل جوان تھے جو مرے پڑے یوں معلوم ہوتے تھے گویا وہ کھجوروں کے اکھڑے ہوئے تنے تھے۔ القمر
21 پھر میرا عذاب اور خوف کس طرح واقع ہوا کہ دنیا کو معلوم ہوگیا کہ مجھ سے بگاڑ کر کوئی معزز سے معزز بھی بچ نہیں سکتا۔ القمر
22 چونکہ ہمارے ہاں قانون ہے کہ ہم بغیر تبلیغ کرنے کے کسی کو تباہ نہیں کیا کرتے اس لئے تبلیغ مقدم ہے۔ لہذا ہم نے قرآن مجید کو نصیحت کے لئے بہت آسان کیا ہے تاکہ سمجھنے والا اس کو سمجھے کیا کوئی ہے سمجھنے والا؟ کہ اس پر توجہ دے۔ القمر
23 ایک اور تاریخی واقعہ سنو ! تم سے پہلے قوم ثمود نے بھی سمجھانے والے رسولوں کی تکذیب کی تھی القمر
24 وہ اس تکذیب کے عذر میں کہتے تھے کیا ہم ایسے ہی گئے گذرے ہیں کہ اپنے میں سے ایک آدمی (صالح علیہ السلام) کی پیروی کریں جس کے پاس سوائے دعویٰ نبوت کے کوئی مزید بات نہیں۔ یقینا اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم بڑی گمراہی میں اور گمراہی کے نتیجے کے وقت سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے القمر
25 ہمارا سوال تو بالکل سیدھا ہے ہم تو صرف یہ پوچھتے ہیں کیا ہم سب میں سے منتخب ہو کر اسی صالح پر اللہ کی طرف سے نصیحت کا پیغام آنا تھا۔ کیا ہم آدمی یا اللہ کے بندے نہیں۔ بندے اللہ کے ! ہم بھی تو بندے اللہ کے ہیں پھر یہ اوندھی تقسیم کیسی کہ وہ تو اللہ کا رسول ہے اور ہم اس کے امتی ! چہ خوش اس لئے ہمارا یقین ہے کہ رسول وغیرہ تو کچھ نہیں یہ تو یاروں کی یوں ہی دل لگی ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ یہ جھوٹا لپاٹیا خود پسند ہے یونہی ایک مذاق بنا رکھا ہے کہ میں رسول ہوں۔ میں نبی ہوں۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے القمر
26 ہم (اللہ) نے صالح کو تسلی دی کہ ان کی بے ہودہ بکواس سے تو دل تنگ نہ ہو۔ عنقریب کل ہی ان کو معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا لپاٹیا اور خود پسند کون ہے القمر
27 دیکھو ہم (اللہ) ایک عجیب قسم کی اونٹنی ان کے جانچنے کو بھیجنے والے ہیں تاکہ اس کی وجہ سے ان کی بداعمالی کا اپنے پرائے لوگوں کو علم ہوجائے پھر جو ہم ان پر عذاب بھیجیں تو کسی با انصاف کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ پس تو اے صالح ! ان کی تباہی کا انتظار کر اور ان کی بدگوئی پر صبر کر جلدی تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے حضرت صالح کی اونٹنی کو اٰیۃ کہا گیا۔ اس میں بھی سابق تحقیق ملحوظ رہنی چاہئے کہ ایۃ سے کیا مراد ہے۔ آئیتہ قدرۃ یا آئتہ نبوۃ۔ آیتہ قدرت ایک تنکا بھی ہے تو ایک پہاڑ بھی۔ آیات قدرت اثبات نبوۃ میں پیش نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ آیت نبوۃ پیش ہوتی ہیں۔ مثلا کوئی شخص دعوے نبوۃ کرے اور نشان مانگنے پر کہے کہ یہ پہاڑ دیکھو یہ گھاس کا تنکا نشان دیکھو۔ تو اس سے اس کی نبوت ثابت نہ ہوگی۔ بلکہ اثبات نبوۃ کے لئے نشان نبوۃ دکھانا ہوگا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو ناقہ بطور آئتہ کے دیگئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے متعلق یہ الفاظ ہیں۔ والی ثمود اخاھم صالحا قال یقوم اعبدواللہ ما لکم من الہ غیرہ قدجاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ لکم ایۃ۔ (اعراف۔ رکوع ١٧) (یعنی حضرت صالح کو ہم نے اونٹنی بطور نشان کے دی تھی) ایک مقام پر فرمایا۔ اتینا ثمود الناقۃ مبصرۃ فظلموبھا (بنی اسرائیل) (ہم نے ثمود قوم صالح کو اونٹنی کھلی نشانی دی) اس آیت میں اس ناقہ کو آئتہ مبصرۃ کہا گیا ہے۔ یعنی واضح نشان۔ اس قسم کی ساری آیات سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ ناقہ صالح آیۃ نبوۃ تھی۔ جس سے حضرت صالح کی نبوۃ کا ثبوت ہوتا تھا۔ نہ یہ کہ وہ محض ایک نشان قدرت تھی جو اثبات نبوت میں کام نہ دے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس اونٹنی میں نشان نبوۃ کیا تھا اور کس حیثیت سے تھا۔ اس کے متعلق بعض مفسرین نے اظہار کیا ہے کہ وہ حضرت صالح کی دعا کے ساتھ پتھر سے پیدا ہوئی تھی۔ مگر میری ناقص تحقیق میں یہ ہے کہ اس کی پیدائش کا تو ذکر قرآن میں یا حدیث میں نہیں البتہ اس کی خاص بات جو وجہ اعجاز ہوسکتی ہے۔ یہ ہے اس کی صفت میں فرمایا۔ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم ایک حصہ پانی اسکا حق ہے اور ایک حصہ تم ثمودیوں کا اسی سورۃ قمر میں فرمایا۔ نبئہم ان الماء قسمۃ بینھم کل شرب محتضر پانی ان لوگوں میں اور اونٹنی میں برابر تقسیم ہے پس ہر ایک حصہ ہر فریق کا گھاٹ ہے۔ اس پر وہ بہت تنگ ہوئے اور انہوں نے اس اونٹنی کو بجائے نشان نبوۃ ماننے کے اس کو مار دینا چاہا۔ چنانچہ ارشاد ہے (فظلموابھا) القمر
28 اور ان کو بتا دے کہ اس اونٹنی کے آنے پر ان کا پانی جو اب ان کے لئے مخصوص ہے وہ ان میں تقسیم ہوجائے گا۔ ایک روز یہ لوگ اپنے مویشیوں کو پلائیں گے اور ایک روز وہ اونٹنی اکیلی پئے گی ہر حصہ پانی کا تقسیم شدہ ہوگا۔ جس پر دونوں کی حاضری ہوگی۔ اپنے اپنے وقت میں پئیں گے۔ اور دوسرے کے وقت میں جگہ خالی کردیں گے۔ القمر
29 یہ تقسیم جب ان کو ناگوار ہوئی پس انہوں نے اس بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کا مشورہ کیا۔ اور اپنے رفیق کار کو بلایا جو اس کام کو کرنے کا مدعی بنا تھا۔ تو اس نے اپنی بدمعاشی اور شرارت کی وجہ سے اس اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں وہ مر گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ اس کے مرنے سے ہمارا گھاٹ خالی ہوجائے گا۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ جس نے اسے بھیجا ہے وہ ہمارے گھات میں ہے۔ آخر اس نے جو اس کو خاص کیفیت سے بھیجا ہے تو وہ اس کی حمایت بھی کرے گا۔ اس امر پر انہوں نے غور نہ کیا یا کیا۔ مگر سرکشی اور طغیانی ان پر غالب تھی اس لئے وہ اس طرف نہ جھکے ان لوگوں نے اسپر ظلم کیا کہ اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ یہانتک جب پہونچے تو عذاب الٰہی ان پر آگیا۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ فعقروھا فدمدم علیھم ربھم بذنبہم فسوھا ثمودیوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹیں تو اللہ نے ان پر عام عذاب نازل کیا۔ پس یہ تھی وجہ اعجاز پیدائش کی حیثیت سے کہیں ثبوت نہیں ملتا۔ چنانچہ امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ واعلم ان القران قددل علی ان فیھا ایۃ فاما ذکر انھا کانت ایۃ من ای الوجوہ فھو غیر مذکور والعلم حاصل بانھا کانت معجزۃ من وجہ لا محالۃ واللہ اعلم (تفسیر کبیر جلد ٤۔ زیر آیت والی ثمود اخاھم صلحا) یعنی ناقہ کا معجزہ ہونا تو ثابت ہے مگر یہ ثابت نہیں کہ کس وجہ سے معجزہ تھی۔ لیکن ہم نے اس کی وجہ اعجاز بتا دی ہے۔ اللہ اعلم (منہ) القمر
30 پھر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا سب کو تباہ وبرباد کردیا کوئی کسی کا خبر گیراں اور حال پرساں نہ رہا۔ القمر
31 اس جرم کی سزا میں ہم نے ان پر زور کی ایک چیخ ماری یعنی ان کو ایک ہیبت ناک آواز کانوں میں آئی پس وہ سارے کے سارے کھیتی پر باڑ باندھنے والے کی روندی ہوئی باڑ کی طرح پائمال اور ذلیل ہوگئے ایسے کہ لوگ ان کو دیکھ کر عبرت پاتے اور سمجھدار اس نتیجے پر پہنچتے کہ دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را چنداں اماں نداد کہ شب راسحر کند القمر
32 ایسے لوگوں کے واقعات ہم نے بغرض نصیحت بتائے ہیں اور اسی لئے ہم (اللہ) نے قرآن مجید کو بغرض نصیحت آسان کیا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی نصیحت پانے والا ہے؟ القمر
33 اور ایک تاریخی واقعہ سنو ! حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی سمجھانے والوں کو جھٹلایا ان میں یہ عادت تھی کہ بجائے عورتوں کے لڑکوں سے شہوت رانی کیا کرتے جو منشا قدرت کے خلاف ہے حضرت لوط نے ہرچند ان کو سمجھایا مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے القمر
34 پس پھر ہم (اللہ) نے ان پر خوب پتھرائو کیا۔ جس سے دے سب کے سب تباہ ہوگئے۔ مگر لوط کے اتباع کو ہم (اللہ) نے صبح کے وقت اپنی مہربانی سے بچا لیا ان کو ذرہ آنچ نہ آنے پائی۔ القمر
35 ہم (اللہ) اسی طرح شکر گذاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ان کے مخالف اور حاسد چاہے کتنے ہی ہوں۔ ذرہ بھی ضرر نہیں دے سکتے القمر
36 حضرت لوط نے ان کو ہرچند ہماری پکڑ سے ڈرایا اور بہت کچھ سمجھایاکہ۔ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوز جو پھر بھی وہ لوطی لوگ اس کے ڈرانے میں حجتیں کرتے رہے لگے کہنے یہ تیری پرائی گیڈر بھبکی ہے ہم اس گیڈر بھبکی میں ہرگز نہ آئیں گے القمر
37 اور اسی قسم کی باتیں بناتے رہے اور اس لوط کو اس کے مہمانوں کی نگاہ داشت سے پھسلانا چاہا تاکہ ان مہمانوں کو جو دراصل فرشتے جوان لڑکوں کی صورت میں تھے اڑا لے جائیں اور من مانی کاروائی کریں یعنی ان کے ساتھ بدکاری کریں پھر ہم نے ان کو اندھا کردیا اور کہا لو اب میرا عذاب اور ڈرائو کا مزہ پائو القمر
38 صبح سویرے ان پر دائمی عذاب نازل ہوا جس سے مر کر بھی ان کو رہائی نہ ہوئی۔ القمر
39 ہم نے کہا لو ہمارا عذاب اور ڈرائو کا مزہ چکھو۔ القمر
40 یہ سب واقعات تاریخی ہیں جو گوش حق شنو کے لئے باعث ہدایت ہیں۔ لیکن ہم نے تم عربوں کو ان تاریخی واقعات کا محتاج نہیں رکھا بلکہ احکام شرعیہ قرآن مجید میں صاف صاف بیان کر دئیے ہیں اور ہم نے نصیحت کے لئے قرآن کو آسان کیا ہے کیا کوئی اس سے نصیحت پانے والا ہے۔ القمر
41 اور ایک تاریخی واقعہ سنو ! اور عبرت پائو فرعونیوں کے پاس سمجھانے والے رسول حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون آئے القمر
42 ان رسولوں نے ہر قسم کے نشانات ان کو دکھائے مگر انہوں (فرعونیوں) نے کل نشانات کی تکذیب کی جب کبھی کوئی نشان بطور عذاب کے ان کو دکھائی جاتی تو دب جاتے جونہی کہ وہ عذاب ان سے ہٹ جاتا فورا اکڑ جاتے پس ہم نے بڑی قدرت والے کی طرح جیسی کہ ہم کو قدرت ہے ان کو پکڑا اور تباہ کردیا۔ القمر
43 بھلا تم کفار لوگ جو عرب کے باشندے احکام الٰہیہ سے انکار کرتے ہو۔ ان گذشتہ لوگوں سے اچھے ہو۔ کہ جن گناہوں پر ان کو مواخذہ ہوا تمہیں معاف ہوں یا کیا باوجود تمہاری بدکاریوں کے الہامی نوشتوں میں تمہاری بریت تحریر ہوچکی ہے اگر ہے تو دعویٰ کا ثبوت دو۔ اگر نہیں تو پھر تم کو خوف کرنا چاہیے کہ بدکاریوں اور شرارتوں کا نتیجہ بھگتو گے القمر
44 کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بڑی قوت والے ایک دوسرے کے مددگار ہیں ہم آئے عذاب کو اپنی باہمی امداد سے ٹال سکتے ہیں القمر
45 ان کا خیال یہ ہے اور ہمارا اعلان یہ ہے۔ کہ عنقریب یہ لوگ شکست کھانے کے بعد بھگا دئیے جائیں گے اور پیٹھیں پھیر جائیں گی اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے قرآن مجید میں جتنی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک یہ بڑی زبردست پیشگوئی ہے۔ تمام ملک مخالف برسر جنگ ہے کسی کو سان گمان بھی فتح کا نہیں اسپریہ پیشگوئی کی جاتی ہے۔ جنگ بدر میں جبکہ مسلمانوں کی جماعت بہت کم تھی اور کفار کی بہت زیادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علیحدہ ہو کر بہت دعا کی تو آتے ہوئے یہ آیت پڑھتے آرہے تھے سیھزم الجمع ویولون الدبر (بخاری) حضرات انبیاء علیہم السلام جو کچھ اللہ کے بتانے سے غیب کی باتیں بتاتے تھے وہ ان کی نبوۃ کے لئے منجملہ دلائل قطعیہ کے روشن دلیل ہوتی تھیں۔ کیونکہ وہ کچھ وہ فرماتے تھے بقاعدہ علم لسان اس کلام کا جو مفہوم ہوتا تھا۔ وہ بالکل پورا پورا ظاہر ہوجاتا تھا۔ اس لئے اپنے پرائے سب اس کا وقوعہ مان جاتے تھے : مرزا صاحب قادیانی :۔ ہمارے ملک پنجاب کے مدعی نبوت مرزا صاحب قادیانی بھی اس اصول کو مانتے ہیں بلکہ پیش کرتے ہیں کہ پیشگوئیاں معیار صدق اور کذب ہوتی ہیں اسی اصول کو انہوں نے اپنی تصنیفات میں کئی ایک جگہ اپنے لئے پیش کیا منجملہ ایک مقام کی عبارت یہ ہے : ” ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔“ (کتاب دافع الوساوس صفحہ ٢٨٨) مگر ان کی پیشگوئیاں جب دیکھی جائیں تو اس معیار پر صحیح ثابت نہیں ہوتیں پس بحکم یوخذ المرء باقرارہ (آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے) ان کا دعوی الہام اور ادعاء نبوۃ ان کی پیشگوئیوں کے معیار پر غلط ثابت ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ” الہامات مرزا“ وغیرہ ملا خطہ ہو۔ (منہ) القمر
46 یہ تو ابھی دنیاوی ذلت ہے اسی پر بس نہیں بلکہ اصل وعدہ گاہ ان کا قیامت کی گھڑی ہے اور وہ گھڑی بہت وحشت ناک اور کڑی ہے اس کی تلخی سے کل مخلوق پریشان ہوگی القمر
47 یہ لوگ جو اس سے منکر ہیں سخت مجرم ہیں اور اس روز ان لوگوں کا فیصلہ مع سبب یہ ہے کہ مجرم لوگ جو گمراہی میں ہیں اور اس گمراہی کے بدلے میں جہنم میں پڑیں گے۔ القمر
48 یہ سب واقعات اس روز ہوں گے جس روز یہ مجرم لوگ مونہوں کے بل آگ میں کھینچے جائیں گے۔ حکم ہوگا کہ جہنم کا عذاب چکھو القمر
49 دیکھو تم لوگ سمجھتے ہو کہ قیامت کا ہونا محال ہے سنو ! ہم نے ہر ایک چیز کو خواہ وہ کیسی ہی ہو اندازہ کے ساتھ پیدا کیا ہے اس کا قدوقامت اس کی زندگی کی میعاد اور موت وحیوۃ سب کچھ ہمارے نزدیک مقدر مقرر ہے اسی طرح قیامت کا ظہور بھی مقدر ہے القمر
50 اور قیامت کے قائم کرنے کے لئے ہمارا حکم آنکھ کی جھپک کے برابر بلکہ اس سے کم ہے۔ القمر
51 تم لوگ جو اسلام سے انکار اور سخت ضد پر ہو۔ کیا تم جانتے نہیں کہ ہم نے تمہارے جیسی کئی مغرور قومیں پہلے تباہ کردیں پھر کیا تم میں سے کوئی نصیحت پانے والا نہیں ہے جو یہ سمجھے کہ اللہ کے سامنے اکڑنا گویا پہاڑ سے سر ٹکرانا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مضر ہے۔ القمر
52 سنو ! ان لوگوں نے بلکہ ان موجودہ لوگوں نے بھی جو کام کئے ہیں اور کر رہے ہیں یہ سب کے سب اعمالناموں میں موجود ہیں القمر
53 اور ہر بڑا چھوٹا ان میں مرقوم ہے۔ اس کے مطابق فیصلہ ہوگا القمر
54 فیصلہ کا رزلٹ (نتیجہ) یہ ہوگا کہ اللہ سے ڈرنے والے پرہیزگار لوگ عزت وجلال کے مرتبے میں سر سبز باغوں اور جاری نہروں میں ہوں گے القمر
55 دنیا کے اصل مالک قادر مطلق بادشاہ کے پاس ہوں گے اور جو ان کے بر خلاف کافرو مشرک ہوں گے وہ ابدی سزا میں رہیں گے پس یہ نتیجہ ہوگا اس فیصلہ کا جو اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار اور نافرمان بندوں میں کرے گا۔ القمر
0 الرحمن
1 اللہ رحمن کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی معیشت ومعاش کے سامان پیدا کر دئیے ہیں الرحمن
2 ان سامان عیش کے ساتھ ہی اس کی رحمت نے تقاضا کیا کہ ان کی ہدایت کے لئے بھی اسباب مہیا کئے جائیں چنانچہ اسی رحمن نے ان بے خبروں کو اپنی طرف سے نازل کیا ہوا قرآن پڑھایا ہے۔ قرآن کا نازل کرنا اور پڑھانا یہ سب اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔ الرحمن
3 دیکھو اس نے انسان کو پیدا کیا الرحمن
4 اور اس کو بولنا سکھایا۔ الرحمن
5 یہ سب اس کی قدرت کے آثار ہیں اسی طرح سورج اور چاند اس کے مقرر کردہ حساب سے چلتے ہیں۔ دراصل یہ بھی اسی کے ماتحت ہیں جو لوگ چاند سورج کو بڑی جسامت اور بڑی تاثیر والا جان کر انہیں معبود بناتے ہیں ان کی غلطی سے ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تو اللہ کی مخلوق ہیں پھر معبود کیسے الرحمن
6 اسی طرح جڑی بوٹیاں اور بڑے بڑے تنہ دار درخت کو سجدہ کرتے یعنی اس کے حکمبردار ہیں کئی لوگ بے عقلی سے درختوں کو پوجنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں الرحمن
7 اسی طرح اللہ نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قانون انصاف بنایا الرحمن
8 اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس قانون کے مطابق انصاف کیا کرو وہ قانون یہ ہے۔ {اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی} جب بولو انصاف سے بولو۔ چاہے کوئی فریق تمہارے زیادہ قریب ہے۔ اللہ کی ذات اور صفت کے متعلق تو خاص کر انصاف کیا کرو۔ کوئی بات یا کوئی عقیدہ غلط منہ سے نہ نکالو نہ دل میں جمائو ورنہ گرفت میں آجائو گے۔ اس لئے انصاف کا قانون بنایا اور تم کو حکم دیتا ہے کہ تم لوگ اے نوع انسان انصاف کرنے میں بے اعتدالی نہ کرو۔ الرحمن
9 سنو ! انصاف کئی قسم کا ہے دو شخصوں میں بوقت فیصلہ یہ تو ان لوگوں کا کام ہے۔ جو کسی نزاع میں منصف یا حاکم ہوں۔ دوم لین دین میں انصاف کرنا۔ یہ عام کاروباری اور دکاندار لوگوں کا کام ہے پس تم ان دونوں قسموں کے انصاف کے متعلق ہدایت یاد رکھو۔ دکانداری کے متعلق یہ ہدایت ہے کہ تم انصاف کے ساتھ وزن اور ماپ پورا کیا کرو اور (ماپ) تول کم نہ کیا کرو۔ سنو ! یہ بھی بطور ایک مثال کے ہے۔ ورنہ یہی حکم سب کاموں میں جاری ہے۔ کسی کی نوکری کرو تو مفوضہ خدمات کو پورا کرو۔ مالک ہو تو نوکر کی خدمات کی پوری قدر کرو۔ چھوٹے ہو تو بڑوں کی بڑائی کا لحاظ رکھو۔ بڑے ہو تو چھوٹوں کے حال پر نظر شفقت رکھا کرو۔ غرض ہر کام میں اس اصول کو ملحوظ رکھو اسی کا نام ہے میزان اور اسی کا نام ہے انصاف بین الاشخاص وبین الاقوام۔ الرحمن
10 اللہ کی مہربانی اور سنو ! خدانے یہ زمین انسانوں کے رہنے سہنے کے لئے بنائی ہے الرحمن
11 اس میں کئی قسم کے پھل ہیں اور غلاف دار کھجوریں جو عرب کی غذا ہے اور عام طور پر انسانوں کی غذا گیہوں وغیرہ بھوسی دار دانے ہیں الرحمن
12 اور ہر قسم کے خوشبو دار پھول بھی اسی زمین ہی میں ہوتے ہیں۔ الرحمن
13 پھر تم اے جنو ! اور انسانو ! اللہ کی کس نعمت کی تکذیب اور انکار کرتے ہو۔ یا کرسکتے ہو۔ الرحمن
14 دیکھو اس اللہ نے انسان کو گلی سڑی پٹپری کی طرح کی خشک مٹی سے پیدا کیا۔ الرحمن
15 اور جنوں کو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے سے الرحمن
16 پھر تم دونوں اپنے رب کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
17 سنو ! وہ اللہ تمہارا بھی خالق ہے اور سرد گرم موسموں کے دونوں مشرقوں اور مغربوں کا پروردگار بھی وہی ہے الرحمن
18 پھر تم کس نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
19 سنو ! اسی اللہ نے دو دریا (میٹھا اور کڑوا) جاری کر رکھے ہیں۔ جو آپس میں ملتے ہیں الرحمن
20 ان کے بیچ میں ایک قدرتی رکاوٹ ہے کہ ایک دوسرے میں گھستے نہیں۔ میٹھے کا پانی میٹھا اور کڑوے کا کڑوا برابر چلا جاتا ہے الرحمن
21 پھر تم اپنے پروردگار کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
22 سنو ! ان دونوں دریائوں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں جو تم لوگوں کے کام آتے ہیں الرحمن
23 پھر تم کس نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
24 سنو ! یہ سمندر میں بڑے بڑے ٹیلوں جیسے جہاز ادھر سے ادھر۔ ادھر سے ادھر کو چلنے پھرنے والے یہ بھی اسی اللہ مالک کے قبضے میں ہیں۔ وہ چاہے تو ان کو چلائے چاہے تو روک دے۔ الرحمن
25 پھر تم کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
26 دیکھو اللہ نے دنیا کے لئے ایک قانون مقرر کر رکھا ہے اس کی اطلاع بھی تم کو دی جاتی ہے غور سے سنو ! جتنی مخلوق اس زمین پر ہے سب فنا ہوجائے گی الرحمن
27 اور تمہارے پروردگار کی ذات با برکات با جلال وباعزت باقی رہے گی اس پر فنا نہ کبھی آئے گی نہ آسکتی ہے کیونکہ وہ واجب الوجود قائم بالذات ناقابل فنا ہے۔ الرحمن
28 پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
29 دیکھو اس کی شان ایسی بلند تر ہے کہ کل آسمان والے اور زمین والے سب لوگ اپنی حاجات اسی واحد لا شریک سے مانگتے ہیں۔ مانگنا ان کا دو طرح سے ہے ایک فطرۃ دوم حاجۃً۔ یعنی جس وقت کسی مخلوق کو کسی قسم کی حاجت ہوتی ہے تو وہ طبعاً اپنے خالق کی طرف جھکتی ہے دوسری صورت زبان سے طلب کرنے کی ہے ان دونوں قسم کی حاجتوں کو پورا کرنے والا اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ وہ (اللہ) ہر دن بلکہ ہر آن ایک بلند شان کے مطابق مخلوق کے انتظام میں ہے۔ کوئی دن اور کوئی وقت ایسا نہیں آیا جس میں وہ دنیا کے انتظام اور نگرانی سے بے خبر ہو۔ اگر وہ بے خبر ہو۔ یا انتظام کسی اور کے ہاتھ میں دے دے۔ تو دنیا کا وجود نہ رہے۔ بلکہ فوراً فنا ہوجائیں۔ کیا تم نے مولانا جامی مرحوم کا قول نہیں سنا۔ ؎ اوچو جان ست وجہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیرد آلبد الرحمن
30 پھر تم اللہ کی کس نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
31 دیکھو ہم (اللہ) تمہارے نیک وبد اعمال کی جزا وسزا کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک دن یعنی قیامت کے روز کلی فیصلہ کرنے کو متوجہ ہونے والے ہیں الرحمن
32 پھر تم کس نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
33 یہ بھی تمکو اعلان کردیا جاتا ہے جو سراسر تمہارے حق میں رحمت ہے کہ اے جنو ! اور انسانو ! سنو ! اگر تم میں طاقت ہے کہ تم آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے یعنی پروردگار کی سلطنت سے نکل سکو اور نکل کر امن چین سے زندگی گذار سکو تو بے شک نکل جائو۔ جہاں تمہارے سینگ سمائیں چلے جائو۔ یہ سرکار الٰہی کا تم کو نوٹس ہے لیکن ہم تمہیں یہ بتائے دیتے ہیں کہ تم لوگ نہیں نکلو گے مگر اللہ پر غلبہ کرنے سے یعنی اللہ قدیر پر تم غالب آجائو تو اس کے ملک سے نکل سکو گے اور یہ ناممکن ہے الرحمن
34 پھر تم کس نعمت الٰہی کی ناشکری کرتے ہو۔ الرحمن
35 دیکھو ایک بڑی اہم بات پر ہم تمہیں اطلاع دیتے ہیں جس میں سراسر تمہارا فائدہ ہے۔ سنو ! قیامت کے روز تم دونوں پر یعنی جو تم میں سے مستوجب ہوگا اس پر آگ کے شعلے اور دھواں پھینکے جائیں گے پھر تم دونوں باوجود کثرت افراد کے ایک دوسرے کی مدد نہ کرو گے۔ پھر بتائو اتنے بڑے اہم کام کی تم کو اطلاع دی گئی ہے۔ الرحمن
36 پھر بھی تم پروردگار کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
37 پھر وہ وقت بھی تم کو یاد رکھنا چاہیے جب آسمان پھٹ کر مثل گل گلاب سرخ چمڑے کی طرح ہوجائے گا۔ اس وقت ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ ملے گا۔ الرحمن
38 پھر تم پروردگار کی کس نعمت سے انکار کرتے ہو۔ الرحمن
39 پس اس روز انسانوں اور جنوں کو ان کے گناہوں سے سوال نہ ہوگا کہ تم نے کوئی گناہ کیا یا نہیں بلکہ ان کے کام ان کے چہروں سے خود بخود نمایاں ہوں گے۔ دیکھو یہ اطلاع بھی تم کو ہدایت کرنے میں کہاں تک کیسی مفید ہے الرحمن
40 پھر بھی تم کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو؟ الرحمن
41 اور سنو ! اس روز مجرم لوگ اپنے چہروں کے نشانوں سے پہچانے جائیں گے اور پیشانی اور قدموں سے پکڑے جائیں گے الرحمن
42 پس بتائو کس نعمت الٰہی کی تکذیب کرتے ہو؟ الرحمن
43 جب ایسے لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے تو ان کو کہا جائے گا یہی وہ جہنم ہے جس کی مجرم لوگ تکذیب کرتے تھے۔ الرحمن
44 اس وقت وہ مجرم لوگ اس جہنم میں اور کھولتے ہوئے گرم پانی میں گھومتے ہوں گے جیسے سمندر کی لہروں میں مچھلیاں گھومتی ہیں الرحمن
45 پھر تم بتائو پروردگار کی کس نعمت سے انکار کرتے ہو۔ الرحمن
46 اور سنو ! ہم مدار کار ایک ہی بات تم کو بتلاتے ہیں جس پر عمل کرنے سے تمہارا بیڑا پار ہوجائے ہمارے ہاں نجات کے لئے مدار کار ایک ہی بات ہے۔ وہ یہ ہے جو کوئی اپنے پروردگار کے رتبہ سے ڈرتا رہے یعنی اس کی شان والا شان کے مطابق دل میں خوف رکھے اس کے لئے اللہ کے ہاں دو باغ ہوں گے ایک رہنے کے لئے ایک سیر سپاٹے کے لئے جیسے دنیا میں امراء ورئوسا کے لئے ہوتے ہیں۔ الرحمن
47 پھر تم کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ سنو ! الرحمن
48 وہ دونوں باغ اجڑے ویران نہ ہوں گے بلکہ سر سبز درختوں اور لہلہاتی شاخوں والے ہوں گے۔ الرحمن
49 پھر تم کونسی نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
50 دیکھو ان دونوں باغوں میں دو چشمے جاری ہوں گے جن سے ان باغوں میں مزید تروتازگی ہوگی اور جنتیوں کے مکانوں کے نیچے جو نہریں جاری ہوں گی الرحمن
51 پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کی تکذیب کرتا ہو الرحمن
52 اور سنو ! ان دونوں باغوں میں ہر میوے کی دو قسمیں ہوں گی رنگت میں بھی مختلف اور لذت میں بھی مختلف جیسے ہمارے ہاں انار دو قسم ہیں کابلی اور قندہاری۔ سنگترے بھی ناگپوری اور دیسی دو قسم ہیں اسی طرح آم‘ خربوزہ وغیرہ سب دو دو قسمیں ہوں گی۔ الرحمن
53 پھر تم پروردگار کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
54 الرحمن
55 پھر تم اللہ کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
56 ان باغوں میں اہل جنت کے لئے ایسی بیویاں ہوں گی جو شرم سے نیچے نگاہ رکھے ہوں گی خاص کیفیت ان کی یہ ہوگی کہ ان بہشتیوں سے پہلے نہ انکو کسی انسان نے چھوّا ہوگا نہ کسی جن نے یعنی وہ بالکل باکرہ جوان ہم عمر خوبصورت ہوں گی الرحمن
57 پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو الرحمن
58 وہ عورتیں ایسی خوبصورت ہوں گی گویا وہ یاقوت اور مونگا یا بالفاظ دیگر کشمیر کے سیب کی طرح چمکیلی اور سرخ سفید رنگت ملی ہوئی ہوں گی الرحمن
59 پھر تم پروردگار کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ الرحمن
60 ہمارے ہاں تو عام قاعدہ ہے کہ نیکی کا بدلہ تو نیک ہی ہوتا ہے اس لئے جو لوگ صالح ہوں گے ان کی جزا بھی اچھی ہوگی مگر تم کو بھی تو اس قانون کی پابندی کرنی چاہیے اللہ کے احسان تم لوگوں پر کتنے ہیں پیدائش سے موت تک سر سے پیر تک اس کے احسانات کے نیچے دبے ہو۔ پھر کیا تم اس کے احسانات کو ملحوظ رکھ کر اس کی فرمانبرداری کرتے ہو؟ اگر کرتے ہو۔ تو مبارک ہے نہیں کرتے الرحمن
61 وہ عورتیں ایسی خوبصورت ہوگی وہ بھی انہی چشموں سے ہوں گی پھر تم پروردگار کی کس نعمت کی تکذیب کرتے ہو۔ تو پھر تم اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتا ہو بتائو تو کیا اس نے تمہیں پیدا نہیں کیا۔ اس نے تم کو صحت اور تندرستی نہیں دی۔ اس نے تم کو رزق اور عافیت نہیں بخشی۔ آخر کہو تو سہی کیا کچھ نہیں دیا؟ دنیا میں دیا آخرت میں دوبہشت دینے کا وعدہ کیا۔ الرحمن
62 ان دو کے علاوہ بھی دو اور بہشت ہیں جو اہل جنت کو ملیں گے۔ الرحمن
63 پھر اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو؟ الرحمن
64 دیکھو وہ درخت ایسے سرسبز ہوں گے کہ دور سے دیکھنے میں سیاہی مائل دکھائی دیں گے الرحمن
65 پھر بتائو وہ پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
66 سنو ! ان بہشتوں میں سے ہر ایک بہشت میں دو دو چشمے جوش مارتے ہوں گے جیسے اونچے پہاڑ سے پانی کا چشمہ زور سے بہتا ہے اسی طرح بہشت میں پانی دودھ اور شہد خالص وغیرہ کے چشمے جوش سے جاری ہوں گے بہشتی لوگ ان کو اپنے استعمال میں لائیں گے الرحمن
67 پھر بھی تم دونوں (جنّ اور انسانی) گروہ پروردگار کی کون سی نعمت کی تکذیب کرتے ہو؟ الرحمن
68 سنو ! ان دونوں باغوں میں ہر قسم کے پھل خاص کر کھجوریں اور ہر قسم کے انار ہوں گے جو بہشتیوں کے لئے وقف ہوں گے الرحمن
69 پھر تم ہی بتائو اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
70 دیکھو ان بہشتوں میں بہشتی لوگ تنہائی میں نہیں رہیں گے کہ تجرد کی وحشت سے پریشان ہوں بلکہ ان بہشتوں میں ان کے لئے نیک خوبصورت عورتیں ہوں گی جن سے وہ حسب ضرورت مانوس رہیں گے اور ہر طرح کے جائز عیش کریں گے الرحمن
71 پھر بھی تم اپنے پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
72 سنو ! وہ عورتیں بڑی خوبصورت گورے رنگ کی حوریں ہوں گی جو ان باغوں میں بعد سیر وتفریح کے شاہی بیگمات کی طرح خیموں میں پردہ نشین ہوں گی کیا مجال کوئی غیر ان کو دیکھ سکے۔ الرحمن
73 پھر بتائو تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
74 وہ مہ جبین حوریں چونکہ پیدائشی باکرہ ہوں گی اس لئے بالکل صحیح سمجھو کہ بعد پیدائش ان بہشتی مردوں سے پہلے ان کو نہ کسی انسان نے بطور ملاپ کے چھوا ہوگا۔ نہ کسی جن نے بلکہ بالکل جوان غیر مدخولہ ہوں گی الرحمن
75 پھر تم پروردگار کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
76 دیکھو وہ بہشتی لوگ سبز قالینوں اور عمدہ خوبصورت فرشوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے جیسے یہاں تمہارے معزز رئیس لوگ بوقت فرصت بیٹھتے ہیں الرحمن
77 پھر تم کس نعمت الٰہی کا انکار کرتے ہو۔ الرحمن
78 سنو ! تمہارے پروردگار بڑی عظمت اور عزت والے کا نام بڑی برکت والا ہے۔ سُبحان رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ الرحمن
0 الواقعة
1 سنو ! لوگو ! جب قیامت کی ساعت واقع ہوجائے گی الواقعة
2 جس کے واقع ہونے میں کسی طرح کا شک وشبہہ نہیں۔ الواقعة
3 وہ قیامت کئی ایک بلند مراتب انسانوں کو جو دنیا میں بڑے رتبے والے ہوں گے پست کرے گی اور کئی ایک پست رتبہ لوگوں کو ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے بلند کرے گی۔ یعنی دنیا میں جو بد اعمال لوگ بلند رتبہ ہوں گے وہ وہاں پست ہوں گے اور جو نیک لوگ دنیا میں پست ہوں گے وہ وہاں بلند ہوں گے اس روز سب کی قلعی کھل جائے گی۔ سب کا کیا کرا یا معلوم ہوجائے گا۔ الواقعة
4 یہ واقعہ اس روز ہوگا جب زمین کو سخت حرکت دی جائے گی۔ الواقعة
5 اور اس حرکت کے ساتھ پہاڑوں کو ریزے ریزے کردیا جائے گا الواقعة
6 ایسے کہ خاک دھول ہو کر اڑیں گے۔ زمین پر نہ کوئی اونچی جگہ رہے گی نہ پست نظر آئے گی۔ الواقعة
7 اور تم دنیا کے لوگ اس روز تین قسم ہوجائو گے۔ الواقعة
8 ایک قسم دائیں ہاتھ والے جن کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں عزت کے ساتھ ملے گا۔ الواقعة
9 دوسری قسم بائیں ہاتھ والے جن کو اعمالنامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ الواقعة
10 تیسری قسم وہ لوگ جو ان لوگوں سے بالاتر ہوں گے یعنی نیک کاموں میں سبقت کرنے والے۔ پس ان تینوں قسموں کی کیفیت اور حالت سنو ! دائیں ہاتھ والے واہ کیسے مزے ہیں اچھے رتبے پر ہوں گے۔ اور بائیں ہاتھ والے کے سر برے درجے میں ہوں گے ان دونوں کا مختصر حال تو بس اسی سے معلوم ہوگیا۔ اب رہے سابق لوگ ان کا کیا کہنا؟ وہ تو جیسے دنیا میں نیک کاموں میں سابق تھے۔ آخرت میں بھی جنت کی طرف سب سے پہلے سابق ہوں گے۔ داخلہ میں سابق۔ ہر نعمت کی تحصیل میں سابق۔ اللہ کے دیدار میں سابق۔ غرض ہر امر میں سابق۔ الواقعة
11 کیونکہ وہی اعلیٰ درجے میں اللہ کے مقرب ہوں گے الواقعة
12 جو بڑی نعمتوں کے باغوں میں عیش عشرت کرتے ہوں گے الواقعة
13 چونکہ یہ بڑے رتبے کے لوگ ہوں گے اس لئے ان کی تعداد بہ نسبت دوسروں کے کم ہوگی تم سے پہلے بھلے لوگوں میں یعنی انبیاء اولیا سابقین میں سے ایک خاصی تعداد کی جماعت ایسے سابقین لوگوں کی ہوگی الواقعة
14 اور پچھلوں یعنی تم مسلمانوں میں سے بھی تھوڑے سے ان سابقین میں ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں یہ قانون عام ہے کہ اچھی اور اعلیٰ چیز بہ نسبت ادنیٰ اور ماتحت کے تھوڑی ہوتی ہے اسی قاعدے سے یہ جماعت سابقین میں کم ہوگی الواقعة
15 سونے چاندی کے جڑائو تختوں پر الواقعة
16 تکئے لگائے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے الواقعة
17 (17۔18) ان کی نسل کے خرد سال مرے ہوئے بہشت میں ہمیشہ رہنے والے بچے ان جنتیوں کے پاس شیشے کے گلاس اور بلوری لٹیاں اور اییل شراب کے پیالے لے کر اردگرد پھریں گے (یہ بچے وہ ہوں گے جو اہل جنت کی اولاد شیرخواری کی حالت میں دنیا میں مری ہوگی۔ کیونکہ اس جگہ ولدان کا لفظ آیا ہے اور سورۃ طور میں غلمان لھم کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” ان کے بچے“ یہ سب بچے اہل جنت کے بہلاوے کو ہوں گے۔ منہ ) الواقعة
18 الواقعة
19 جس سے نہ ان کو درد سر ہوگا نہ وہ نشہ کی وجہ سے بکواس بکیں گے کیونکہ وہ شراب بے نشہ محض پینے کی لذیذ چیز ہوگی الواقعة
20 (20۔21) اور جس جس قسم کے پھل اور جانوروں کا گوشت وہ چاہیں گے وہ بچے لے کر ان کے پاس آئیں گے کیونکہ ان کے ہاتھوں سے لے کر کھانے میں ان کو مزید لذت ہوگی الواقعة
21 الواقعة
22 (22۔26) اور ان کے لئے بڑی خوب صورت موٹی آنکھوں والی بیویاں محفوظ موتیوں کی طرح صاف شفاف ہوں گی یہ سب کچھ ان کو ان کاموں کے بدلے میں ملے گا جو وہ دنیا میں اعمال صالحہ کرتے تھے۔ اس جنت میں بے انتہا لوگ ہوں گے وہ اہل جنت کسی قسم کی لغو یا گناہ کی بات اس میں نہ سنیں گے۔ کیونکہ وہاں کسی قسم کی بیہودگی نہ ہوگی اس لئے کسی قسم کی ناجائز بات ان کے سننے میں نہ آئے گی۔ سوائے سلام سلام کے ہر طرف سے سلام علیکم وعلیکم السلام کی آوازیں آئیں گی۔ الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 یہ تو انجام ہوگا سابقین کا۔ اب سنئے اصحاب الیمین کا حال یعنی دائیں ہاتھ والوں کے کیا کہنے ؟ بڑے مزے کے عیش میں ہوں گے۔ الواقعة
28 بے کانٹے کی بیریوں میں الواقعة
29 ‘ اور تہ بتہ‘ کیلوں میں الواقعة
30 اور بڑی نعمتوں میں ( ظل ممدود محاورہ ہے نعماء کثیرہ و یعبر بالظل عن العزۃ والنعمۃ و عن الرفاھیۃ (مفروات راغب) منہ) الواقعة
31 اور گرتے ! پانی میں (لاہور اور سری نگر کشمیر کے شالامار باغ میں اس پانی کا نمونہ نظر آتا ہے جب اوپر کے درجے سے نیچے کو پانی گرتا ہے اس کے گرنے کے راستے میں ٹیڑھا پتھر ہے جس کو بڑی خوبصورتی سے تراشا ہوا ہے اس پر ہوتا ہوا پانی نیچے آتا ہے تو عجیب خوبصورت منظر پیدا ہوتا ہے۔ ماء مسکوب کی یہ نظیر ہے۔ منہ) الواقعة
32 اور بہت سے پھلوں میں الواقعة
33 جو نہ ختم ہوں گے۔ نہ ان سے ان کو روک ٹوک ہوگی۔ الواقعة
34 اور اونچے بستروں پر مزے لے رہے ہوں گے الواقعة
35 بستروں کے ذکر سے تمہارا ذہن ایک ضروری چیز کی طرف منتقل ہوا ہوگا۔ یعنی ازواج کیونکہ بستر بغیر زوج اور زوجہ کے آرام دہ نہیں ہوتا۔ پس سنو ! ان کے لئے ازواج بھی وہاں ہوں گی کیونکہ ہم نے وہاں کی ان ازواج عورتوں کو پیدا کیا ہے الواقعة
36 اور پیدا کر کے ہمیشہ کے لئے باکرہ جوان رکھا ہے الواقعة
37 (37۔38) خاوندوں کی نگاہ میں محبوبہ اور ان دائیں ہاتھ والوں کی ہم عمر بنایا ہے۔ غرض ایک پسندیدہ عورت میں جس جس قسم کی خوبی ہونی چاہیے وہ ان میں ہوگی اس لئے خاوند ان سے مسرور اور وہ خاوندوں سے محظوظ ہوں گی پس بڑے مزے کی زندگی ان کو نصیب ہوگی جو دنیا میں کسی راجہ‘ نواب کو تو کیا بڑے سے بڑے کسی بادشاہ کو بھی میسر نہ ہو الواقعة
38 الواقعة
39 (39۔40) اس دائیں ہاتھ والی جماعت میں بہت سے لوگ اس آخری زمان پیغمبر سے پہلے لوگوں میں سے ہوں گے اور بہت سے لوگ اس سے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے۔ غرض اس جماعت میں داخلہ کے لئے کوئی امت محمد علیٰ صاحبھا الصلوۃ والتحیۃ کی خصوصیت نہ ہوگی بلکہ پہلی امتوں کے نیک لوگ بھی اس گروہ میں داخل ہوں گے الواقعة
40 الواقعة
41 (41۔56) باقی رہے اصحاب الشمال یعنی ان سب کے مقابل بائیں ہاتھ والے لوگ ہائے کیسے برے اور کیسے بدنصیب ہوں گے۔ بائیں ہاتھ والے ان کی بابت کچھ نہ پوچھو۔ عام اوقات میں سخت گرم ہوا میں رہیں گے اور پیاس کے وقت سخت گرم پانی میں اور بالائی تپش کے وقت سخت سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے جیسا انجن میں پتھر کے کوئلے جلنے سے سخت سیاہ دھواں نکلتا ہے۔ غور کرو ان لوگوں کی زندگی اور راحت کیا ہوگی جن کو دھوپ اور تپش سے بچنے کے لئے ایسے دھوئیں میں آرام ملے گا جو نہ ٹھنڈا ہوگا نہ عزت کی جگہ بلکہ سخت ذلت اور خواری کا مقام ہوگا۔ کیوں نہ ہو یہ لوگ تھے بھی تو اسی لائق کیونکہ آج سے پہلے دنیا میں بڑے آسودہ تھے اور بڑے بڑے کبیرے گناہ‘ شرک‘ کفر‘ بدمعاشی کے سارے کام ہمیشہ کیا کرتے تھے نہ عید چھوڑتے‘ نہ بقر عید نہ رمضان نہ محرم‘ بلکہ ان کا یہ قول تھا۔ صبح تو جام سے گزرتی ہے شب دل آرام سے گزرتی ہے عاقبت کی خبر اللہ جانے اب تو آرام سے گذرتی ہے اور اگر ان کو کوئی سمجھاتا کہ میاں اللہ سے ڈرو۔ ایک روز کئے کا حساب دینا ہوگا۔ تو اس کے جواب میں کہتے تھے جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے۔ تو کیا ہم اور ہمارے پہلے باپ دادا حساب کتاب کے لئے اٹھائے جائیں گے ؟ یہ تو بڑی دور ازعقل بات ہے کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جسم سڑ گل کر مٹی میں مٹی ہوجائے۔ پھر وہ پورا بن کر زندہ ہوجائے۔ اے پیغمبر (علیہ السلام) تو ان کے جواب میں ان کو کہہ کہ اس میں مطلق شک کی گنجائش نہیں کہ تمہارے پہلے اور پچھلے سب لوگ ایک مقرر دن میں جمع کئے جائیں گے چاہے تم اقرار کرو یا انکار۔ ہوگا یہی جو ہم نے بتایا ہے پھر تم اے بھولے ہوئے غلط کار جھٹلانے والے لوگو ! پیٹ بھرنے کو سخت کڑوے زقوم کے درخت سے کھائو گے پھر اسی سے پیٹ بھرو گے پھر اس پر مزید طرفہ یہ کہ بغیر کسی برتن گلاس کٹورے وغیرہ کے اونٹوں کی طرح منہ سے گرم پانی پیئوگے انصاف یعنی قیامت کے روز ان جہنمیوں کی یہ ضیافت ہوگی جو ان کو پہلے روز آتے ہی پیش کی جائے گی۔ الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 (57۔67) اب سنو ! اصل استبعاد کا جواب جو تم کہتے ہو کہ مر کر کوئی جاندار کس طرح زندہ ہوسکتا ہے پس غور کرو ہم ہی نے تم کو پیدا کیا۔ کہاں سے کہاں تک تم نے ترقی کی۔ اس کا ثبوت تمہارے حالات بتارہے ہیں کیا تمہاری جوانی کی حالت اس ابتدائی حالت سے مشابہت رکھتی ہے جو تم کو بطن مادر میں اور اس کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اس حالت میں دیکھنے والا تم کو جوانی میں دیکھے تو باور کرسکتا ہے کہ تم وہی ہو؟ ہرگز نہیں۔ پس جس طرح ان مختلف مراتب سے گذرتے ہوئے خالق نے تم کو اس آخری مرتبے تک پہنچایا ہے اسی طرح فنا کے بعد دوسری صورت میں تم کو پیدا کرے گا۔ پھر تم اتنا ثبوت ہوتے ہوئے بھی وعدہ الٰہی متضمن حشر اجساد کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ آئو ذرہ تفصیل سے سنو ! بتائو جو پانی تم ارحام نساء میں ٹپکاتے ہو۔ جس سے تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے وہ اولاد بلکہ وہ پانی بھی خود تم پیدا کرتے ہو۔ یا ہم پیدا کرتے ہیں ؟ انصاف اور ایمان سے بتانا اس سے اصل بات کا پتہ چل جائے گا۔ تمہارا خیال اگر یہ ہو کہ تم پیدا کرتے ہو تو جن کے ہاں اولاد پیدا نہیں ہوتی ان سے بھی ذرہ دریافت کرو کہ ان کے ہاں کیوں پیدا نہیں ہوتی۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اصل بات وہی ہے جو ہم بتاتے ہیں کہ ہم اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے اور ہم ہی نے تمہارے حق میں موت مقرر کر رکھی ہے ایک وقت پر پہنچ کر تم خود بخود معدوم ہوجاتے ہو اور ہوجائو گے اور اگر خیال کرو کہ ہم سے کہیں چھپ جائو گے ایسے کہ ہم تم کو گرفتار نہ کرسکیں گے تو یہ خیال تمہارا غلط ہے کیونکہ ہم تمہارے گرفتار کرنے پر قادر ہیں اور اس سے بھی عاجز نہیں کہ اسی دنیا میں اسی حالت میں تمہاری شکلیں بدل دیں۔ اور تم کو ایک ایسی صورت میں پیدا کردیں جو تم نہیں جانتے ہو۔ یعنی کسی برے سے برے حیوان کی صورت میں مبدل کردیں اور اگر غور کرو تو تم کو ایک ہی مثال کافی ہے کہ تم پہلی پیدائش کو جو تم پر اور تمہاری اولاد پر آچکی ہے جان چکے ہو۔ جس سے تم سب موجود ہو۔ غور کرو کس طرح تم بنے اور کس طرح ترقی یاب ہوئے اور کس طرح بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ پیر مردبن گئے۔ پھر تم نصیحت کیوں نہیں پاتے ہو۔‘ یعنی یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ جس اللہ نے ہم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہ دوسری مرتبہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ضرور کرسکتا ہے اور کرے گا اور سنو ! بھلا بتائو تو سہی تم لوگ جو کھیتی باڑی کرتے ہو اس سے جو پیدا ہوتا ہے وہ تم اگاتے ہو۔ یا ہم اگاتے ہیں۔ کون ایسا عقلمند ہے جو کہے میں اگاتا ہوں۔ نہیں بلکہ تم بھی یہی کہو گے۔ نہ بارد ہوا تا نہ گوئی ببار زمین نآورد تانگوئی بیار سنو ! آج تم جو غلہ کھا رہے ہو اگر ہم چاہتے تو اس کو چورا چورا کردیتے نہ دانے تمہارے ہاتھ لگتے نہ بھوسہ۔ نہ تم کھاتے نہ تمہارے مویشی۔ پھر تم باتیں بناتے اور افسوس کرتے رہ جاتے۔ یہی کہتے نہ ؟ کہ ہائے ہم مقروض ہوگئے ہائے اتنی پیداوار بھی نہ ہوئی کہ ہم سرکاری معاملہ ہی ادا کرتے۔ نہ مہاجن کا روپیہ ادا ہوا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم بڑے ہی بدنصیب محروم ہیں۔ کہ پکی پکائی کھیتی ہماری ضائع ہوگئی یہ دوسرا سوال تھا جو ختم ہوا۔ الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 (68۔70) اب تیسرا سوال سنو ! بھلا بتلائو تو جو پانی تم پیتے ہو۔ کنوئوں کا چشموں کا‘ دریا کا یا جھیل کا۔ اسے بادلوں سے تم اتارتے ہو یا ہم (اللہ) اتارتے ہیں دیکھو ! اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں کیا تم نے شاعر کا قول نہیں سنا۔ ابرو بادومہ خورشید و فلک درکار اند کہ تو نانے بکف آ ری وبغفلت نخوری سنو ! اگر ہم (اللہ) چاہیں تو اس پانی کو کڑوا اور سخت کڑوا کردیں پھر تم اس میٹھے پانی کا شکر کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہی شکر ہے کہ کھائو پیئو تو اللہ کا اور گیت گائو غیرکا۔ یہ کسی طرح جائز نہیں۔ الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 (71۔74) آئو ایک اور سوال سنو ! بھلا بتائو تو سہی تم لوگ جو کھانا پکاتے اور دیگر ضروریات کے لئے آگ جلاتے ہو۔ کیا تم اس کے پیڑ جو اس کا ایندھن بنتے ہیں تم نے پیدا کئے ہیں یا ہم (اللہ) بناتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ہم ہی نے ان درختوں اور ان کی اور سب چیزوں کو عام طور پر نصیحت کے لئے اور خاص کر غربا کے گزارے کے لئے بنایا ہے۔ نصیحت تو اس طرح کہ اہل بصیرت ان درختوں کی پیدائش دیکھیں کہ کس طرح ہوتی ہے جس کی بابت ایک اہل بصیرت نے یوں کہا ہے۔ برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار اور غربا کا گذارہ یوں کہ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لائیں اور بستیوں میں فروخت کر کے گزارہ کریں۔ پس جب واقعہ یہ ہے کہ سب کچھ خدا ہی کا بنایا ہوا ہے تو تم لوگو ! اپنے پروردگار عالیشان کے اتنے احسانات کا شکریہ کرنے کو اس کے نام کی تسبیح پڑھا کرو۔ یعنی اس کو پاکی سے یاد کرنے کو یوں کہا کرو۔ سبحان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ اے رسول تم کہو کہ یہ کتاب جس میں اللہ کی ایسی تعریف اور ایسے احکام ہیں یہ تمہاری ہدایت کے لئے آئی ہے الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 (75۔82) مجھے ستاروں کی گذرگاہوں کی قسم ہے اور اگر تم اللہ طرز کلام جانتے ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے کیونکہ اس میں مقسم بہ کو مقسم لہ ! کے ساتھ تشبیہ پائی جاتی ہے (مقسم لہ یہاں قرآن ہے اور مقسم بہ ستارے ہیں۔ ستارے روشنی کی علت ہیں اسی طرح قرآن بہی دل کی روشنی کا سبب ہے۔ منہ) بے شک یہ قرآن بڑی قدر عزت کی کتاب ہے یہ خود یعنی اس کا مضمون علم الٰہی سے ماخوذ ہے اس لئے … یہ دراصل اس مخفی کتاب میں محفوظ ہے جس کا نام ہے لوح محفوظ یا کتاب مبین وغیرہ۔ اس کتاب قرآن مجید کو پاک لوگ ہی چھوتے یعنی وہی اس پر عمل کرتے ہیں اور وہی اس کو رہ نما اور ہدایت نامہ بناتے ہیں ایسے لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ قران رب العالمین کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ کیا پھر بھی تم اے عرب کے منکرو ! اس کلام کے ماننے میں سستی کرتے ہو۔ اور تم اپنا حصہ قسمت یہی بناتے ہو۔ کہ اس پاک اور مصدق کلام کی تکذیب کرتے ہو۔ واہ خوب عقل ہے۔ اللہ کی مہربانی کا شکر یہی ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمت کی بے قدری کرو۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 الواقعة
79 الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 (83۔96) کیا تمہیں اللہ پر بھی ایمان نہیں۔ بھلا جب تمہارے متعلقین کی مرتے وقت روح گلے میں آپہنچتی ہے اور تم سب اس وقت اس مرنے والے کا حال دیکھا کرتے ہو اور ہم خود اس مرنے والے کے پاس تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم لوگ ہم کو نہیں دیکھتے۔ پھر اگر تم لوگ کسی مالک کے دبیل اور ماتحت نہیں ہو۔ تو اس پیارے قریبی کی روح کو واپس کیوں نہیں کرتے۔ اگر تم اپنے خیال اور دعوے میں سچے ہو کہ ہم کسی کے دبیل نہیں ہرگز واپس نہیں کرسکتے۔ کیونکہ تم بلکہ تمام دنیا اسی اللہ کی محکوم اور مقہور ہے وہی تم کو جزا سزا دے گا مر کر تم سب لوگ اسی کے حضور حاضر ہوتے ہو۔ پھر بعد موت اگر وہ مردہ اللہ کے مقربوں سے ہوتا ہے تو اس کے لئے عیش و آرام اور نعمتوں کے بہشت ہیں بس مزے سے رہے اور عیش کرے مگر مقربان اللہ کون ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو ہر نیک کام میں بڑھنے والے ہیں وہ مقرب اللہ ہیں۔ اور اگر وہ مردہ دائیں ہاتھ والوں میں سے ہے یعنی جو پہلے لوگوں سے ذرہ نرم چال ہیں تو ان کی طرف سے بھی تجھ کو سلام یعنی تسلی ہو۔ آج کل کے دستور مطابق یوں سمجھو کہ مقرب لوگ ریل کے فسٹ کلاس (پہلے درجے) میں ہیں اور اصحاب الیمین سیکنڈ کلاس (دوسرے) میں۔ بس اتنا ہی ان میں فرق ہے ورنہ نعماء جنت میں دونوں فریق مزے سے گذاریں گے۔ جیسے فسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس والے ایک ہی ٹرین میں سفر کرتے ہیں ہاں اگر وہ مردہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہوگا۔ تو بس سخت کھولتے پانی سے اس کی مہمانی ہوگی۔ جو اس کو سخت پیاس کے وقت ملے گا اور وہ اس کو پی نہ سکے گا مگر پینا پڑے گا اور جہنم میں داخلہ ہوگا جہاں جانا نہ چاہے گا مگر بادل ناخواستہ جانا پڑے گا۔ یہ ہے ان تین گروہوں کا حال چال بعد موت جن میں انسان تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بے شک یہ وقوعہ قطعا صحیح ہے ایسا ہی ہو کر رہے گا۔ پس تم اے لوگو ! جو ان مقامات عالیہ اور نعماء جنت کی خواہش اور تمنا کرتے ہو اپنے عظمت اور جلالت والے پروردگار کے نام کی تسبیح پڑھا کرو۔ یعنی خالی وقت ضائع نہ کیا کرو۔ بلکہ سبحان اللہ العظیم پڑھا کرو۔ اس پر مداومت کرنے سے تم ان مراتب کو پالو گے۔ انشاء اللہ اللھم وفقنا۔ الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 الواقعة
88 الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 الواقعة
0 الحديد
1 آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ قادر قیوم کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں یعنی اللہ خالق کائنات کو پاکی سے یاد کرتی ہیں۔ کیا تم نے کسی عارف اللہ کا شعر نہیں سنا۔ مُرغان چمن بہر صباحے تسبیح کناں باصطلاحے اور وہ اللہ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ اس کے ہر امر میں غلبہ ہے الحديد
2 اس کی حکومت اتنی بڑی وسیع اور زبردست ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کا ملک اسی کے قبضہ قدرت میں ہے یعنی سارے ملک کا اصلی بادشاہ وہی ہے دنیا کے بادشاہ سب اس کے ماتحت اور غلام ہیں۔ مگر اس کی بادشاہی کوئی دنیاوی بادشاہوں کی سی نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بادشاہوں اپنی رعیت کو زندگی نہیں دے سکتے۔ نہ زندوں کو فنا کرسکتے ہیں یہ کام اللہ ہی کے کرنے کا ہے۔ اس لئے تم سن رکھو کہ وہی اللہ زندگی بخشتا ہے اور بخشی ہوئی زندگی چھین کر وہی موت وارد کرتا ہے۔ یعنی زندہ کو مردہ کردیتا ہے یہ سب کام اسی کے کرنے کے ہیں اس لئے کہ وہ ہر کام پر بہت بڑی قدرت رکھتا ہے۔ الحديد
3 سنو ! اس کی ذات ستودہ صفات ایسی ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہ اس سے پہلے تھی۔ نہ ساتھ۔ اس لئے کہ بحیثیت خالق لم یزل ہونے کے وہ ہی سب سے اول تھا اور تمام اشیاء کے فنا ہونے کے بعد بحیثیت لایزال ہستی ہونے کے وہی سب سے آخر ہوگا۔ کیا تم نے ایک شاعر کا قول نہیں سنا؟ خردو فہم سے گردل نے کوئی بات تراشی کہ ہوا اول وآخر کی حقیقت کا تلاشی میرے نزدیک سوا اس کے ہے سب شمع خراشی نہ بدی خلق تو بودی نبود خلق تو باشی نہ تو خیزی نہ نشینی نہ تو کا ہی نہ فزائی اور تمام چیزوں میں وہی ظاہر ہے یعنی اس کی قدرت کا جلویٰ نمایاں ہے مگر ایسا کہ اس کے دیکھنے کو چشم بینا چاہیے کیا تم نے کسی عارف کا قول نہیں سنا۔ تو یقینی وجہاں جملہ گمان من بیقیں مدتے شد کہ یقین رابگماں مے بینم اور چونکہ وہ ہر کہ ومہ کی نظر میں نہیں آتا۔ اس لئے وہ نظروں سے مخفی ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ علمی اور احاطہ قدرت سے باہر نہیں الحديد
4 وہی اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں کی مدت میں پیدا کیا اس مدت کا پورا علم اللہ کو ہے۔ پھر ساری مخلوق پر حکمران ہوا۔ جیسی حکومت اس کے شایان شان اور لائق ہے۔ اس خالق کائنات کا علم اتنا وسیع ہے کہ جو کچھ زمین میں از قسم بارش یا بیج وغیرہ داخل ہوتا ہے اس و جو اسے سے ازقسم سبزہ وغیرہ نکلتا ہے اس کو بھی اور جو آسمان کی طرف سے از قسم بارش وغیرہ اترتا ہے۔ اس کو اور جو اس کی طرف از قسم ابخرات وغیرہ چڑھتا ہے اس کو بھی غرض سب کو جانتا ہے اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ چھوٹی موٹی سب چیزیں اس کے احاطہ علم میں ہیں اور کمال اس کا یہ ہے کہ وہ باوجود واحد لاشریک ہونے کے تمہارے سب کے ساتھ ہے جہاں تم ہو۔ تم اس سے دور نہیں ہوسکتے۔ اور لطف یہ ہے کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ اس کی نظر سے نہ تم پوشیدہ ہو نہ تمہارے کام مخفی ہیں۔ الحديد
5 اور سنو ! تمام آسمانوں اور زمینوں پر حکومت اسی کی ہے دنیاوی بادشاہوں کی طرح اس کی حکومت نہیں بلکہ کائنات کے کل کام اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں وہ جب تک کسی چیز کو وجود پذیر نہ کرے نہیں ہوسکتی۔ اور جب تک وہ موجود رکھے اس سے زیادہ موجود نہیں رہ سکتی۔ الحديد
6 رات دن کی کمی بیشی بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے وہی رات کو دن میں داخل کردیتا ہے یعنی رات کم ہوجاتی ہے جیسے موسم سرما میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی دن چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے موسم گرما میں اور وہ ہر چیز کو بلکہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے الحديد
7 پس تم اے لوگو ! ایسے اللہ پر اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یقین کرو یہ جان لو کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے جو وعدہ کرتے ہیں سچ ہے ضرور ہو کر رہے گا اور ان پر ایمان لا کر ان کے حکم کے موافق اللہ کی راہ میں وہ چیزیں خرچ کرو جن کا تم کو اس اللہ نے مالک کیا ہے اس سے غریبوں کی حاجت روائی ہوگی اور تمہارے نام پر اطاعت لکھی جائے گی پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے یقینا بہت بڑا اجر ہے۔ تم ایک ایک کے دس گنا۔ ستر گنا۔ سات سو گنا۔ بلکہ زیادہ تک پائو گے۔ الحديد
8 اور اگر تم لوگو ! غور کرو تو تمہارا کوئی عذر ہے؟ جو تم لوگ اللہ پر اور رسول پر ایمان نہیں لاتے آخر یہ کام تم کو ناپسند ہے تو کیوں۔ کیا اس میں کوئی دنیاوی نقصان ہے یا تمہاری عقل اس کو باور نہیں کرتی حالانکہ اللہ کا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو اس غرض کے لئے بلا رہا ہے کہ تم اپنے رب پر ایمان لائو کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے رب کو دل سے مانو‘ اور اس تمہارے رب نے ایمان لانے کا تم سے پختہ وعدہ لیا ہوا ہے جانتے ہوکب؟ جس روز تم کو پیدا کیا تھا اگر تم کو اس روز کا یقین ہے تو بس یہی کافی ہے اور اگر تم کو اس کا یقین نہیں تو دوسرا وعدہ سنو ! جب دنیا کے اندر کسی بلا میں پھنستے ہو تو اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہو اور وعدہ کرتے ہو کہ اس دفعہ ہم کو اس بلا سے نجات ہو۔ تو ہم تیرے مخلص بندے بن جائیں گے مگر جب وہ بلا ٹل جاتی ہے تو تم بھی اپنے وعدہ سے ٹل جاتے ہو۔ الحديد
9 سنو ! جس اللہ نے یہ سب کام کئے ہیں اور جو دنیا کے سب کام کرتا ہے وہی اللہ وقتا فوقتا اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھلے کھلے احکام اور نشان نازل کرتا ہے تاکہ تم لوگوں کو گمراہی اور بےدینی کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور اگر سچ جانو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حال پر بڑا مہربان بڑا رحم کرنے والا ہے الحديد
10 اللہ کی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت تم کو یہ ہے کہ تم اللہ کے دئیے میں سے خرچ کیا کرو یعنی جو بھی کچھ تم کو اللہ نے دیا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کیا کرو۔ اور اگر غور کرو تو تمہارا اس میں کیا عذر ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے وہ تمہارا ہے۔ یا تمہارے ہی پاس ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی کل مالکیت اللہ ہی کے لئے ہے وہی سب چیزوں کا خالق ہے۔ وہی سب کا مالک ہے بلکہ دراصل وہی قابض ہے تم کو تو یونہی چند روزہ اس نے اجازت بخشی ہے۔ ورنہ دراصل تم اور تمہاری مملوکہ اشیاء سب اسی خالق کائنات کی ملک ہیں پھر تمہیں خرچ کرنے میں کیا عذر ہے سنو ! ہم اعلان کرتے ہیں کہ جس نے فتوحات محمدیہ جاری ہونے سے پہلے تنگی کی حالت میں قومی ضروریات پر خرچ کیا ہے اور جنگ میں شریک ہو کر کفار سے جہاد کیا ہے ایسے اور پچھلے لوگ برابر نہیں ہوسکتے یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ درجے والے ہیں جنہوں نے پیچھے خرچ کیا اور اللہ کی راہ میں کفار سے لڑے کیونکہ عام قانون مشہور ہے۔ الْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّم (پہلے کام کرنے والے کو پچھلے پر فضیلت ہے) اور اس میں شک نہیں کہ پچھلے لوگ بھی ثواب کے مستحق ہیں۔ اسلئے اللہ نے ہر ایک سے نیک وعدہ کیا ہوا ہے یعنی ذرہ جتنی نیکی کا بدلہ بھی اللہ کے ہاں سے ملے گا۔ اور یہ بھی اعلان عام ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے تم اگر اپنی حتثی کے مطابق ایک پیسہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ بھی اسے معلوم ہے اس کا بدلہ بھی تمہیں دے گا ایسا دے گا گویا کوئی قرض دار قرض خواہ کو دیتا ہے۔ تم دنیا میں ایک دوسرے سے قرض لیتے اور دیتے ہو جب تم اپنے جیسے انسانوں پر بھروسہ کرتے ہو۔ الحديد
11 پھر کون ایسا ہے جو اللہ پر بھروسہ کر کے اللہ کو قرض حسنہ دے یعنی نیک کاموں پر اللہ کی راہ میں خرچ کرے پھر اللہ اس کو کئی درجے بڑھا کر دے گا اور اس کے لئے بڑی عزت کا بدلہ ہوگا کب ہوگا؟ الحديد
12 جس روز تم دیکھو گے کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا ایمانی نور ان کے آگے اور دائیں بائیں چلتا ہوگا جیسے ریل گاڑی کے انجن کی لالٹین رات کو آگے آگے روشنی ڈالتی ہے اور جو گاڑیوں میں بھی دائیں بائیں روشنی دیتی ہے اسی طرح اس روز مؤمنوں کو روشنی حاصل ہوگی تاکہ ان کو چلنے میں راہ نمائی کرے ملائکہ کی معرفت ان کو کہا جائے گا کہ تم لوگوں کو آج کے روز خوشخبری ہو کہ تمہارے لئے بہشت ہیں۔ جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ہمیش ان میں رہو گے یہ خیال بھی دل میں نہ لانا کہ کبھی تم ان بہشتوں سے نکالے جائو گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے الحديد
13 جس روز ایسا ہوگا اس روز منافق مرد اور عورتیں جو بوجہ کفر کے اندھیرے میں ہوں گے اور بوجہ ظاہری کلمہ گوئی کے مؤمنوں کے ساتھ ہوں گے اس لئے وہ ایماندار مسلمانوں کو جب وہ جنت کی طرف جا رہے ہوں گے کہیں گے میاں ذرا ہمارا بھی انتظار کرو۔ ہم تمہاری روشنی سے کچھ فائدہ اٹھائیں آپ لوگ اگر آگے نکل گئے تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں گے ہمارے تھوڑے سے استفادہ کرنے سے تمہارا کیا نقصان۔ مؤمن تو ان کے حق میں بخل نہ کریں گے لیکن اللہ کو چونکہ انکو یہ فائدہ پہنچانا منظور نہ ہوگا اس لئے فرشتوں کی معرفت ان کو کہا جائے گا۔ یہاں بات اصل یہ ہے کہ یہاں جو کسی کو روشنی ملی ہے اس کا تیل بتی یہاں کی نہیں بلکہ دنیا ہی سے لائے ہیں یعنی اعمال صالحہ کا بدلہ ہے پس تم پیچھے کو پھر جائو یعنی یہاں تو یہ چیز نہیں مل سکتی تم سے ہوسکے تو تم پیچھے کو دنیا میں چلے جائو۔ پھر وہاں جا کر نور تلاش کرو یعیں نیک عمل کرو۔ تو یہاں تمہیں نور خودبخود مل جائے گا۔ پس یہ سن کر وہ سمجھیں گے کہ واقعی پیٹھ کی طرف منہ پھیرنے سے شائد نور ملتا ہو۔ پس وہ ذرہ سی ادھر سے روگردانی کریں گے کہ فورا ان کے اور مؤمنوں کے درمیان ایک دیوار بنائی جائے گی۔ اس میں ایک دروازہ ہوگا۔ جس کے اندر کی طرف جدھر مؤمن ہوں گے رحمت ہوگی اور باہر کی جانب جدھر منافق ہوں گے عذاب ہوگا۔ غرض مؤمنوں اور کافروں میں خوب امتیاز ہوجائے گا۔ الحديد
14 اس پر وہ منافق لوگ ان ایمانداروں کو بلائیں گے آوازیں دیں گے۔ بھائیو ! کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہ تھے۔ تمہاری برادری میں تمہارے نیک وبد میں شریک تھے بلکہ تمہاری مسجدوں میں تمہارے ساتھ تھے پھر یہ کیا بے مروتی ہے جو تم لوگ ہمارے ساتھ برت رہے ہو۔ ان کے جواب میں مؤمن کہیں گے ہاں یہی تو ہمیں تمہاری شکایت ہے کہ تم لوگ بظاہر تو ہمارے ساتھ تھے لیکن درحقیقت تم نے اپنے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کر کے اپنے تئیں فتنہ ضلالت میں ڈال رکھا تھا اس لئے کہ تم ظاہر میں ہمارے ساتھ تھے مگر دل میں تم ہمارے مخالفوں کا ساتھ دیتے تھے اور تم لوگ ہماری تباہی کے منتظر رہتے تھے۔ اور دین کے بارے میں تم شکوک میں پڑے رہے۔ جو وعدہ الٰہی تم سنتے اس کو مخول سمجھتے اور ہنسی ٹھٹھہ میں ٹال دیتے کہ ملانوں کی سی باتیں ہیں اور تم کو تمہاری غلط آرزوئوں نے فریب دے رکھا تھا تم سمجھتے تھے کہ مسلمان چند روز ہیں تھوڑے دنوں میں فنا ہوجائیں گے۔ تم اسی خیال میں رہے یہاں تک کہ تمہاری موت کے متعلق اللہ کا حکم آپہنچا اور اس بڑے فریبی شیطان نے اللہ کے بارے میں تم کو فریب دیا جس فریب میں پھنس کر تم شرک وکفر کرتے رہے اور لوگوں کو بھی یہی سکھاتے رہے الحديد
15 پس آج قیامت کے روز تم جیسے باطنی کافروں سے اور نہ دوسرے ظاہری کافروں سے مالی عوض لیا جائے گا۔ اس لئے کہ تمہارا سب کا ٹھکانہ جہنم ہے یہی جہنم گویا تمہاری رفیق ہے اور سن رکھو کہ وہ بہت بری جگہ ہے۔ الحديد
16 یہ تو ہوا ان بے ایمانوں کا ذکر جو اللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان کو چھوڑو۔ کیا ایمانداروں مسلمانوں کے لئے بھی ابھی وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو سچی کتاب اللہ کے ہاں سے اتری ہے اس کے پڑھنے سننے سے ان کے دل کانپ جائیں ۔ یعنی جب کبھی کوئی شخص قرآن کا وعظ کہتا ہو تو اور جب وہ خود قرآن مجید کو پڑھیں تو ان کے دلوں پر وہ اثر ہو جو آگ کا موم پر ہوتا ہے کہ پگھل جاتا ہے۔ اسی طرح ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر اور قرآن سننے سے نرم ہو کر اللہ کی طرف جھکا کریں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جن کو پہلے زمانہ میں کتاب تورات انجیل وغیرہ دی گئی پھر ان پر ایک مدت دراز گذر گئی۔ جس میں وہ عیش و آرام میں رہے پس ان کے دل سخت ہوگئے یعنی اللہ کے ذکر اور کتاب اللہ کی قرأت کا اثر ان پر نہ ہوتا تھا اور بہت سے لوگ ان میں سخت بدکار ہیں۔ اسی طرح اس زمانہ کے لوگ سخت دل بلکہ مردہ دل ہوگئے تو اللہ کی رحمت ان پر متوجہ ہوئی کہ نبی بھیجا اور کتاب اتاری تم الحديد
17 یقینا جانو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جیسا یہ قانون ہے کہ وہ زمین کے خشک ہوجانے کے بعد بذریعہ بارش اسے تروتازہ کردیتا ہے اسی طرح اس کے ہاں یہ بھی قاعدہ ہے کہ وہ انسانوں میں سخت گمراہی پھیلنے اور دل سخت ہوجانے کے بعد ان کی ہدایت کے سامان پیدا کردیتا ہے چنانچہ اسی قانون کے ماتحت ہم نے تمہارے لئے احکام شریعت اور نشانہائے قدرت بیان کر دئیے ہیں تاکہ تم عقل خداداد سے سمجھو۔ الحديد
18 دیکھو ایک بات ہم عقل کی بتاتے ہیں۔ جس کا ذکر پہلے بصیغہ انفِقُوا آچکا ہے اس کو سمجھو اور سنو ! اللہ کی راہ میں خیرات کرنا بہت اچھا کام ہے اس میں شک نہیں کہ صدقہ خیرات کرنے والے مرد اور عورتیں اور جو لوگ اللہ کو قرض حسنہ دیتے ہیں۔ یعنی حاجتمند انسانوں کو بوقت ضرورت بے سود قرض دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی حاجات میں صرف کریں ایسے لوگوں کے لئے بہت زیادہ بدلہ ہوگا اور ان کو بہت عزت کا اجر ملے گا۔ پس تم بھی اس اجر عظیم کے متلاشی رہو۔ تاکہ تم بھی ان صدیقین میں شمار ہوجائو الحديد
19 جن کی بابت یہ قانون الٰہی اور اعلان عام ہے کہ جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں یعنی ان کی تعلیم کے مطابق عمل کریں وہی لوگ اپنے رب کریم کے نزدیک صدیق بندے اور شہید ہیں یعنی بروز قیامت منکرین پر گواہ ہوں گے ان کا اجر انکو ملے گا اور ان کا نور ان کے آگے آگے چمکتا ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا۔ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ۔ اصل رتبہ ایمان کا ہے باقی سب اس کی فرع۔ اسی لئے ان کے ایمان کا عوض ان کو ملے گا اور جو لوگ منکر ہیں اور ہمارے احکام کی تکذیب کرتے ہیں۔ یعنی قرآن کو نہیں مانتے۔ آیات آفاقی پر یقین نہیں رکھتے وہی لوگ جہنمی ہیں۔ الحديد
20 یہ لوگ دنیا کے کھیل تماشا میں منہمک ہیں دنیاوی مشاغل کے سوا کسی دوسری طرف ان کو توجہ نہیں۔ حالانکہ دنیا کی زندگی اور اس کا عیش وعشرت محض دودھ کا ایک ابال ہے جس کو بہت جلد فنادا منگیر ہے پس تم مسلمان یقینا جان رکھو کہ دنیا کی زندگی بلحاظ تفریح کے کھیل تماشہ ہے اور بلحاظ ظاہری حسن کے زیب وزینت ہے اور بلحاظ مقابلہ کے ایک کا دوسرے پر فخر کرنا۔ مال اور اولاد میں بڑائی کا اظہار کرنا کہ میرے مکان اتنے ہیں۔ میرے باغ اتنے ہیں۔ میری اولاد اتنی ہے اس کی کوئی نہیں۔ یہ سب کچھ دنیا دار لوگ کرتے رہتے ہیں جو تم سب دیکھتے اور کرتے ہو۔ آخر کب تک؟ دو نہیں چار۔ چار نہیں آٹھ۔ بقول یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے ایک روز ان اموال کا اور ان اموال والوں کا نام ونشان نہ ہوگا۔ پس اس دنیا کی مثال بادل کی سی ہے جس سے سبزیاں پیدا ہوتی ہیں یعنی وہ خود سبزباں ہی دنیا کی مثال ہے جو لہلہاتی ہیں اور زمینداروں کو ان کی انگوریاں بہت بھلی لگتی ہیں۔ پھر وہ سوکھ کر خشک ہوجاتی ہیں پھر تم ان کو پیلی پڑی دیکھتے ہو۔ پھر وہ ٹوٹ کر تنکا تنکا ہوجاتی ہیں۔ آخر کار وہی زمین جو ابھی کل کے روز سر سبز نظر آتی تھی آج چٹیل میدان ہو رہی ہے۔ یہ ہے دنیا کی زندگی کا مختصر حال کہ صبح کچھ ہے تو شام کچھ۔ اس لئے دانا لوگ اس دنیا کو اپنا اصل گھر نہیں جانتے بلکہ اس کو آخرت کے لئے مثل کھیتی کے جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آخرت میں بدعملی پر سخت عذاب ہے یا نیک عملی پر اللہ کی طرف سے بخشش اور رضا ہے اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا سامان ہے جو اس کی ظاہری سطح پر فریفتہ ہوا۔ وہ تباہ ہوا۔ الحديد
21 پس مسلمانو ! تم بیہودہ اور بے کار کام چھوڑ کر نیک روش اختیار کرو اور اپنے پروردگار کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کا پھیلائو آسمان اور زمین کے پھیلائو جیسا ہے۔ جس میں ہر طرح کے سامان راحت مہیا ہوں گے وہ ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں اور اس ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ داخلہ جنت اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے گا دے گا اور اللہ کی طرف سے اس میں بخل نہیں۔ کیونکہ اللہ بڑے فضل والا ہے الحديد
22 (22۔24) بعض لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ دنیا میں تکلیفات آتی ہیں تو نیک وبد دونوں کو آتی ہیں نہ بد ان سے بچتے ہیں نہ نیک چھوٹتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو بھی مصیبت آتی ہے زمین پر ہوجیسے زراعت یا پھلوں کا نقصان یا خود تمہارے نفسوں پر ہوجیسی بیماریاں وغیرہ یہ سب کچھ ہماری تقدیری نوشت میں اس کے پیدا کرنے سے پہلے کی مکتوب ہے۔ یہ خیال نہ کرو کہ اتنے اتنے واقعات اتنی مدت پہلے کس طرح لکھے گئے۔ سنو ! اس میں شک نہیں کہ یہ کام اللہ تعالیٰ پر آسان ہے کیونکہ اس کا علم کسبی یا وہبی نہیں بلکہ ذاتی اور ازلی ابدی ہے مگر تم کو اس لئے یہ بتایا گیا ہے کہ تم لوگ کسی ضائع شدہ چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور جو تم کو اللہ نے دی ہے اس پر اترائو نہیں بلکہ اللہ کی تقدیر جان کر ضائع پر صبر کرو۔ اور حاصل شدہ پر شکر۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کے ہاں متکبر شمار ہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ متکبروں شیخی بازوں سے محبت نہیں کرتا جو مال کے گھمنڈ میں بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کرنے کا حکم کرتے ہیں۔ یعنی نہ اپنی ذات سے فیاض ہیں نہ دوسرے کو فیاضی کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ موقع بموقع یہی کہتے ہیں کہ میاں ان کنگلوں کا کیا ہے۔ یہ تو اسی طرح مانگا ہی کرتے ہیں ہم لوگ اگر ان کے کہنے میں آجائیں تو کل ہی ان جیسے ہوجائیں ایسی ایسی باتیں کر کے اللہ کے حکم سخاوت سے منہ پھیرتے ہیں۔ اور نہیں سمجھتے کہ جو کوئی بھی اللہ کے احکام سے منہ پھیرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اللہ اپنی ذات میں بے پرواہ تعریف کے لائق ہے۔ کسی شخص کی روگردانی اس کو مضر نہیں۔ نہ اس کا کوئی کام رکتا ہے نہ کسی کا انکار کرنا اس میں نقص پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بذاتہ جامع اور اوصاف حمیدہ ہے الحديد
23 الحديد
24 الحديد
25 (25۔29) یہی تعلیم دے کر ہم نے اپنے رسول کھلے نشانات دے کر بھیجے تھے اور ان کے ساتھ احکام کی کتاب اتاری۔ جس میں عبادت کے احکام تھے اور خاص کر تمدنی احکام کا ترازو یعنی مجموعہ دستور عدل وانصاف اتارا تاکہ لوگ انصاف کو قائم کریں یعنی لین دین قرض دام اداء امانت کے احکام بھی اللہ نے نازل کیے تاکہ لوگ ان پر عمل کریں۔ اور جو لوگ سرکشی کریں ان کی سزا دہی کے لئے سامان جنگ بنانے کو لوہا پیدا کیا جس میں بڑا سامان جنگ ہے اور لوگوں کے لئے بڑے بڑے منافع ہیں۔ کوئی چیز دنیا میں قابل استعمال نہیں جس کو لوہا نہ لگا ہو۔ یہ منافع کیا کم ہیں اس سے غرض یہ ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نمایاں کر دے جو اس کے اور اس کے رسولوں کے دین کی غیب میں مدد کرتے ہیں یعنی جہاد میں نیزہ تلوار بندوق توپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ اللہ کو اس کی ضرورت ہے ہرگز نہیں اللہ تو بذات خود قوی اور غالب ہے یہی بات سمجھانے کو ہم نے حضرت نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور ان کی ذریت کو کتاب عطا کی یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں نبی پیدا کئے جو باقی اولاد نیز اور لوگوں کو ہدایت کریں پھر بعض ان میں سے ہدایت یاب ہوئے۔ صلاحیت پر آئے اور بہت سے ان میں بدکار رہے مطلب یہ ہے کہ قوم بنی اسرائیل مختلف طبقوں کی تھی۔ بعض نیک تھے بعض بد۔ جیسے اور قومیں بھی ہوتی ہیں پھر ہم (اللہ) نے ان رسولوں کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ان کے بعد اخیر میں عیسیٰ بن مریم کو رسول بنا کر بھیجا۔ اور لوگوں کو ہدایت کے لئے ہم نے اسے کتاب انجیل دی تاکہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرے اور اللہ کے احکام سنائے اور جو لوگ اس حضرت مسیح کے پیرو ہوئے تھے ان کے دلوں میں ہم نے رحم اور نرمی پیدا کی تھی وہ عادتا نرم تھے اور نیک سلوک کرنے والے۔ مگر اس نیکی اور نرمی میں ان کے خلاف یہاں تک ترقی کر گئے کہ انہوں نے دنیا کو بالکل ترک کردیا اور رہبانیت گوشہ نشینی اختیار کرلی جس کا ہم اللہ نے ان کو حکم نہ دیا تھا۔ بھلا ہم کیسے اس کا حکم دیتے جبکہ دنیا کو آباد رکھنا ہمیں منظور ہے۔ پھر اس بربادی کی تعلیم کیسے دیتے؟ مگر انہوں نے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کو اسے اختیار کیا پھر انہوں نے اس کے لائق اس کی رعایت ملحوظ نہ رکھی۔ بلکہ آج کل کے خشک فقراء کی طرح محض ظاہری زاہد نما بنے رہے۔ درحقیقت اس کی حقیقت کھو بیٹھے۔ پس ان میں سے جو اصل ایمان پر مضبوط رہے تھے ان کو ہم نے ان کا پورا بدلہ دیا۔ جو بہت کم تھے اور بہت سے ان میں نافرمان تھے۔ اس لئے تم مسلمانوں کو ہدایت کی جاتی ہے اے مسلمان ایماندارو ! اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ پر مضبوط ایمان رکھنا۔ جو کسی کے بہکانے کے اثر سے زائل یا کمزور نہ ہو۔ یعنی رسول کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف نہ چلنا۔ دین میں کسی قسم کی ایجاد نہ کرنا۔ اللہ تم کو اپنی رحمت سے ڈبل حصہ دے گا۔ اور تمہارے لئے تمہارے دلوں میں نور پیدا کرے گا۔ جس کے ساتھ زندگی میں چلتے پھرو گے یعنی جو مرحلہ تم کو پیش آئے گا وہ نور تم کو اس میں راہ نما ہوگا۔ اور اللہ تم کو تمہاری غلطیاں بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ تاکہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ جو تم مسلمانوں کو مستحق رحمت الٰہیہ نہیں جانتے وہ تمہاری عزت اور ترقی دیکھ کر سمجھ لیں کہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر ان کو اختیار نہیں ہے ورنہ وہ تم کو کبھی نہ لینے دیتے اور یہ بھی جان لینا کہ فضل اور رحمت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔ الحديد
26 الحديد
27 الحديد
28 الحديد
29 الحديد
0 المجادلة
1 بے شک اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے خاوند کے بارے میں تجھ نبی سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ کے سامنے اپنی تکلیف کا گلہ کر رہی تھی۔ اور اس وقت تیرا (نبی کا) جواب اور اس کی عرض اور معروض تم دونوں کی گفتگو اللہ سنتا تھا۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا دیکھنے والا ہے۔ عرب میں دستور تھا کہ مرد خفا ہو کر عورت کو کہہ دیتا کہ تیری پیٹھ مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے اس کو ظہار کہتے تھے اس کہنے کے بعد عورت مرد سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتی۔ ایک صحابی نے اپنی بیوی خولہ کو ایسا کہہ دیا اور حسب دستور ملک اس کو طلاق جان کر اس سے جدا ہوگیا۔ خولہ نے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور حاضر ہو کر عرض معروض کی حضور نے بھی حسب دستور اس کی جدائی کا حکم فرمایا مگر وہ بہت کچھ مصر رہی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس آیت کو آیت ظہار کہتے ہیں۔ اسلام نے ظہار کو طلاق قرار نہیں دیا۔ ہاں اس سے روکنے کو تعزیری سزا مقرر کی ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں ہے (معالم بتفصیل منہ) المجادلة
2 پس اب قانون سنو ! جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں یعنی ان کو ماں کی پیٹھ کی طرح کہتے ہیں حقیقت میں وہ ان کی مائیں نہیں۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ ان کی مائیں وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ اور اس میں تو شک نہیں کہ ان بیویوں نے ان کو نہیں جنا اس لئے ان کا ایسا کہناغلط ہے اور وہ بہت مکروہ لفظ بلکہ جھوٹ کہتے ہیں۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ المجادلة
3 پرانی رسم کے مطابق جو ان لوگوں کے منہ سے ایسا نکل جائے وہ معافی کے قابل ہے مگر آئندہ کو یہ قانون ہے کہ جو لوگ اپنی عورتوں کو مائوں سے تشبیہ دیتے ہیں پھر وہ اپنے کہے کے خلاف ! کرنا چاہتے ہیں یعنی ان عورتوں کو مثل بیویوں کے رکھنا چاہتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں پر واجب ہے کہ آپس میں بیوی خاوند کی طرح ملنے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔ اس امر کی تم کو نصحتے کی جاتی ہے تاکہ تم آئندہ کو ایسی بات نہ کہو اور ایسی حرکت اور ایسا فعل نہ کرو اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اللہ کو اس کی سب خبر ہے۔ (! یہ ترجمہ اور تفسیر عام رائے کے مطابق ہے۔ میری رائے اس بارے میں یہ ہے کہ یعودون لما قالوا کے معنی ہیں ایک دفعہ مان کر پھر دوبارہ کہنے پر یہ سزا ہے ایک دفعہ پر نہیں کیونکہ عود لما قالوا کے معنی محاورہ عرب کے مطابق یہی ہیں کہ اپنی کہی ہوئی بات کو دوبارہ کہنا۔ یا کئے ہوئے فعل کو دوبارہ کرنا۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہ محاورہ بکثرت ملتا ہے۔ منجملہ یہ آیت ہے یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ۔ الم تر الی الذین نھوا عن النجوی ثم یعودون لما نھوا عنہ وغیرہ اس قسم کی مثالیں خود قرآن مجید میں بہت ہیں جہاں عود لما آیا ہے ان سب مقامات میں یہی معنی ہیں کہ ایک کام کرکے دوبارہ وہی کرنا پس آیت موصوفہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ ایک دفعہ ” ماں“ کہہ کر باز نہیں رہتے۔ دوبارہ پھر کہتے ہیں ان کی یہ سزا ہے۔ ان معنی سے پہلی دفعہ کا قول معاف ہے مگر عامہ مفسرین کی تفسیر سے پہلی دفعہ بھی معاف نہیں۔ ناظرین کو جو اچھا معلوم ہو۔ اختیار کریں (منہ) المجادلة
4 ہاں جو غلام نہ پائے یعنی اس کے پاس پیسہ نہ ہو یا غلام نہ ملے تو اس صورت میں ان پر ملاپ کرنے سے پہلے دو ماہ پے درپے روزے رکھنے ضروری ہیں تاکہ ایسے لوگوں کو ایسے غلط لفظ کہنے کی سزا ملے۔ پھر جو اس کام کی طاقت نہ رکھے۔ یعنی اتنے روزے نہ رکھ سکے اس پر واجب ہے کہ اس جرم کی سزا میں ساٹھ غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلائے پھر بیوی سے ملے۔ یہ حکم اس لئے دیا جاتا ہے کہ تم لوگ اللہ و رسول کے حق میں پختہ ایماندار ہوجائو اور یہ الٰہی احکام ہیں ان کی تعمیل کرو اور جان رکھو کہ منکروں کے لئے سخت عذاب ہے وہ اس عذاب سے کسی طرح چھوٹ نہ سکیں گے۔ المجادلة
5 انہی لوگوں پر بس نہیں عام قانون ہے کہ جو لوگ آج اور آج سے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کی مخالفت کریں گے وہ ذلیل اور ناکام ہوں گے جیسے ان سے پہلے لوگ انبیاء کے مقابلے میں ناکام ہوئے اور ہم (اللہ) نے اپنی طرف سے اپنے اس رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھلے احکام نازل کر دئیے ہیں۔ تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے نجات پائیں۔ اور منکروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ المجادلة
6 کب؟ دنیا میں اور خاص کر اس روز جب اللہ ان سبکو جمع کرے گا۔ پھر ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال کی اطلاعیں دے گا۔ جو اللہ کو خوب معلوم ہیں اور یہ ان کو بھول گئے ہوں گے اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے المجادلة
7 کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اللہ سب کو جانتا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی دو تین آدمیوں کی کانا پھوسی ہوتی چوتھا ان میں اللہ ہوتا ہے اور جو اس سے کم یا زیادہ ہوں ان سب کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی ہوں اللہ کے احاطۂ قدرت علم سے باہر نہیں ہوسکتے۔ پھر ان کو ان کے کئے ہوئے اعمال سے خبریں دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ پھر اس کو کسی کے بتانے یا سمجھانے کی کیا حاجت؟ مگر یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے۔ یعنی اللہ کو عالم الغیب نہیں جانتے اس لئے اس کے حکموں کی بے فرمانی کرتے ہیں المجادلة
8 کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو مجلس نبوی میں کانا پھوسی کرنے سے منع کیا گیا تھا پھر بھی وہی کام کرتے ہیں جس سے ان کو روکا گیا تھا۔ لطف یہ ہے کہ وہ بھری مجلس میں کرتے ہیں اور گناہ‘ بے جا ظلم زیادتی اور رسول اللہ کی بے فرمانی کی کانا پھوسی کرتے ہیں۔ اور اے رسول جب تیرے پاس یہ مخالف منافق آتے ہیں تو تجھے سلام کا تحفہ برعکس اس کے دیتے ہیں جو اللہ نے تجھے دیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں اللہ ہمارے ایسا کہنے پر ہمیں عذاب کیوں نہیں کرتا۔ اگر یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہے اور ہم اس کی ہتک کرتے ہیں تو چاہیے فوراً عذاب میں گرفتار ہوجائیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے رسول کی ہتک تو گوارا نہیں کرتا مگر یہ تو ہے کہ وہ حلیم اور بردبار بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ لیکن جب پکڑتا ہے تو بری طرح پکڑتا ہے۔ جیسا کسی بزرگ کا قول ہے۔ منافق لوگ جو اوپر اوپر سے ایماندار بنتے تھے اور دل میں کافر تھے جب آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں ہوتے تو بجائے وعظ و نصیحت سننے کے آپس میں کانا پھوسی کرتے ان کو ہرچند ایسا کرنے سے روکا گیا مگر وہ باز نہ آئے اور جب حاضر خدمت ہوتے السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہتے۔ جس کے معنی ہیں موت ہو تم پر۔ ان کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (منہ) تو مشو مغرور برحلم خدا دیر گیروسخت گیرد مرترا اس لئے ان کو اطلاع رہے کہ ان کے لئے جہنم کافی عذاب کا گھر ہے مرنے کے بعد اس میں داخل ہوں گے پس وہ بہت بری جگہ ہے جو اس میں جائے گا برابدلہ پائے گا۔ المجادلة
9 پس تم اے ایمان والو ! اس بری جگہ سے بچتے رہو۔ جس کی صورت یہ ہے کہ جب تم مجلس نبوی میں یا اور کہیں آپس میں کانا پھوسی کرنے لگو تو گناہ اور ظلم زیادتی کی کانا پھوسی نہ کیا کرنا۔ یعنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا کسی پر ناحق ظلم زیادتی کرنے کی بابت مشورے نہ کرنا۔ بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی بات ایک دوسرے کو کان میں کہہ دیا کرنا۔ مثلاً مجلس وعظ میں بیٹھے ہوئے واعظ کی کسی خاص نصتحک پر اپنے ساتھی کو توجہ دلانے کے لئے اس کے کان میں کہہ دینا کہ کیا اچھی بات ہے یہ تم کو جائز ہے اور مختصر بات یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا جس کے پاس تم قیامت بپا ہونے کے وقت جمع کئے جائو گے اس وقت تم سب ایک ایک اللہ کے سامنے حاضر ہو گے وہاں تمہارے کام آنے والی چیز صرف تمہارا تقویٰ ہوگا پس تم اپنے اس مقصد کو کسی طرح ہاتھ سے نہ دو۔ باقی رہی تمہارے دشمنوں کی حرکات سو ان کی حقیقت کچھ نہیں المجادلة
10 سنو یہ کانا پھوسی جو منافق لوگ کرتے ہیں محض شیطان کی طرف سے ہے یعنی اس میں شیطانی دخل ہے تاکہ ایماندار اس کی وجہ سے غمگین ہوں یعنی وہ خیال کریں کہ اللہ جانے ان کی کانا پھوسی کس مطلب کے لئے ہے اور ہم کو کیا مضرت ہوگی حالانکہ ان ایمانداروں کو یہ فعل ان کا بغیر اذن الٰہی کے کچھ بھی ضرر نہیں دے سکتا اور اصل بات تو یہ ہے کہ ایمانداروں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں بس اللہ پر بھروسہ کرنے سے ان کے سب کام سنور جائیں گے المجادلة
11 مسلمانو ! جس طرح تم کو کانا پھوسی کے متعلق حکم دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آداب مجلس تم کو بتایا جاتا ہے سنو ! جب تم مجلس نبوی میں یا کہیں تنگ دائرے میں بیٹھے ہو اور تم کو کہا جائے کہ مجلس میں کھل بیٹھو تاکہ اور لوگ بھی شریک مجلس ہوسکیں تو فوراً کھل جایا کرو۔ ایسا کرنے سے بظاہر تو ان بعد میں آنے والوں کو جگہ ملے گی مگر بباطن تم میں وسعت قلبی پیدا ہوگی اور اللہ تم پر فراخی کرے گا۔ ہر چیز تم کو حاجت سے زیادہ دے گا۔ ایک ادب مجلس اور سنو ! جب کبھی ایسا اتفاق ہو کہ کسی بزرگ یا کسی دنیاوی افسر یا کسی صاحب دعوۃ کے پاس بیٹھے ہو اور وہ مناسب سمجھے کہ اب مجلس برخاست ہونی چاہیے اور تم کو کہا جائے کہ بس اب جائو تو فوراً چلے جایا کرو۔ اس کے بدلہ میں اللہ تم ایمان والوں اور علم اخلاق والوں کے درجے بلند کرے گا۔ یعنی دنیا میں وہ ہر مجلس میں با اخلاق مہذب سمجھے جائیں گے اور آخرت میں نجات یا فتوں میں ہوں گے اور جو کچھ تم کرتے ہو‘ اللہ کو سب کی خبر ہے۔ پس تم جو کام کرو اس نیت سے کیا کرو۔ کہ اللہ دیکھتا اور جانتا ہے المجادلة
12 اے ایمان والو ! اور ایک حکم سنو جو منافقوں کی کانا پھوسی بند کرنے کے لئے ایک ذریعہ ہے وہ یہ ہے کہ جب تم لوگ رسول (علیہ السلام) سے کسی امر میں ضروری کام کے لئے سرگوشی کرنا چاہو یعنی بغیر اس کے تم کو چارہ نہ ہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ ! دے لیا کرو۔ کیونکہ تم اگر کانا پھوسی کرو گے تو تمہاری دیکھا دیکھی منافقین بھی کریں گے حالانکہ اس رسم کا بند کرنا ہم کو منظور ہے پس تم ایسے کام سے پہلے صدقہ دے لیا کرو۔ یہ لوگ چونکہ صدقہ دینے سے بہت گھبراتے ہیں اس لئے وہ صدقہ نہ دیں گے۔ تو خود بخود یہ رسم مٹ جائے گی۔ یہ طریق تمہارے لئے بہتر اور پاک صاف ہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ نہ پائو منافقوں اسلام اور اہل اسلام کے دشمنوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کانوں میں سر گوشیاں کرنے سے عقلمندی کے طریق پر سمجھایا گیا چونکہ ان کی نیت ہی شرارت کی تھی اس لئے باز نہ آتے جس سے مسلمانوں کو صدمہ بلکہ نقصان ہوتا۔ اس لئے مسلمانوں ہی کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا گیا۔ منافق بھی چونکہ مسلمان کہلاتے تھے۔ لہٰذا یہ حکم ان کو خود بخود شامل ہوگیا۔ (منہ) یعنی تم میں سے جو لوگ بوجہ غربت کے صدقہ نہ دے سکیں۔ اور ان کو کسی ضرورت کے لئے نبی کے کام میں عرض معروض کرنی ہو تو ایسے لوگوں کو بغیر صدقہ دئیے اجازت ہے کہ سرگوشی کرلیں۔ کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے کیونکہ صدقہ کا حکم عارضی ہے۔ تاکہ مخالفوں کی بندش ہوجائے۔ ورنہ اصل میں کوئی ضروری کام نہیں۔ المجادلة
13 کیا تم باوجود مخلص ہونے کے اس حکم سے ڈر گئے کہ اپنے نجویٰ (کانا پھوسی) سے پہلے صدقہ دے لو۔ تمہیں چاہیے تھا کہ تم خوشی خوشی اس حکم کی تعمیل کرتے پھر جب تم نے ایسا نہیں کیا یعنی نجویٰ سے پہلے صدقہ نہیں دیا اور اللہ نے تمہارے حال پر نظر عنایت کی ہے۔ تو اب تم نماز پڑھتے رہو۔ اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور رسول کی تابعداری کرتے رہو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔ اس سے کسی کا عجز بجر مخفی نہیں۔ تم مسلمان نہیں جانتے کہ یہ منافق لوگ مجلس نبوی میں آ کر کیوں ایسے دل آزار کام کرتے ہیں۔ پہلے حکم سے کئی دنوں بعد یہ آیت اتری۔ اس آیت کی تفسیر جو اوپر کی گئی ہے عامہ مفسرین کی یہی رائے ہے اس تفسیر کے ساتھ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حکم صدقہ کا منسوخ ہوگیا۔ میرے نزدیک اس آیت کا سیاق نسخ کے لئے نہیں بلکہ اصل حکم کو مضبوط کرنے کے لئے ہے سارا دارمدار اس پر ہے کہ اذ کی جزا کیا ہے اور تفعلوا کا مفعول بہ کیا ہے میرے نزدیک ترجمہ یوں ہے کہ جب کہ تم نے باوجود ناداروں کو معافی ہونے کے بھی نجوی کیا ہی نہیں تو بس ہمیشہ کے لئے اس فعل کو چھوڑو اور نماز اور زکوٰۃ وغیرہ فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہوجائو (اللہ اعلم۔ منہ) المجادلة
14 کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے ازراہ نفاق اس قوم سے تعلق پیدا کر رکھا ہے جن پر اللہ نے غضب کیا ہوا ہے یہی لوگ ہیں جو باوجود دعویٰ اسلام کے مخالفوں سے دوستانہ لگاتے ہیں حقیقت میں نہ وہ تم میں سے ہیں نہ ان میں سے بلکہ اپنی غرض کے بندے ہیں اور محض کذب اور جھوٹ پر حلف اٹھاتے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں المجادلة
15 اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے بے شک یہ لوگ برا کام کرتے ہیں۔ المجادلة
16 ان لوگوں نے اپنی قسموں کو مسلمانوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے اور ان قسموں کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ پس ان کے لئے اللہ کے ہاں ذلیل کرنے والا عذاب مقرر ہے۔ المجادلة
17 ان کو مال ودولت پر بڑا ناز ہے اس لئے ان کو سنا دیجئے کہ نہ ان کے مال ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچائیں گے۔ نہ ان کی اولاد کیونکہ یہ لوگ جہنمی ہیں اس جہنم کی آگ میں ہیشہ رہیں گے المجادلة
18 جس روز یعنی قیامت کے دن اللہ ان کو قبروں سے اٹھائیگا۔ تو اس اللہ کے سامنے بھی جھوٹ بولیں گے اور اس کے سامنے بھی اپنی بے گناہی پر قسمیں کھائیں گے۔ جس طرح وہ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں کہیں گے اللہ کی قسم ہمارے دل میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت ذرہ بھی نہیں تھی اور ایسا کرنے میں وہ سمجھیں گے کہ ایسا کرنے سے ان کا کچھ اعتبار ہے اور وہ اس اعتبار سے نجات کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ہرگز نہیں سنو ! لوگو ! درحقیقت وہ جھوٹے ہیں دنیا میں بھی جھوٹے ہیں۔ آخرت میں بھی جھوٹے ہی ثابت ہوں گے المجادلة
19 اس کی پہچان یہ ہے کہ شیطان نے ان پر غلبہ پا کر ان کو اللہ کا ذکر بھلایا ہے اللہ کی یاد سے باکل بے خبر ہیں اس لئے کہ یہ شیطان کی جماعت ہیں کیونکہ شیطانی اثر سے جب یہ لوگ اللہ کا ذکر چھوڑ بیٹھے تو پھر شیطانی جماعت ہونے میں کیا شبہ رہا سن رکھو شیطانی گروہ ہی آخرت میں نقصان پائے گا المجادلة
20 کیونکہ یہ لوگ اللہ اور رسول کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور جو لوگ اللہ اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہی ذلیل ترین لوگوں میں ہوں گے المجادلة
21 اللہ نے یہ لکھ رکھا ہے یعنی علم الٰہی میں مقرہ ہے کہ بمقابلہ ان مخالفوں کے میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے یعنی دین الٰہی پھلے ع گا اور انکے منصوبے سب فنا ہوجائیں گے بے شک اللہ تعالیٰ سب سے قوی اور سب پر غالب ہے اسکے ارادہ میں کوئی مانع نہیں ہوسکتا اس کے فعل پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ المجادلة
22 چونکہ یہ لوگ اللہ و رسول کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اس لئے ایسے لوگوں سے مومنوں کا تعلق یا ملاپ رکھنا مناسب نہیں اسی لئے اے مخاطب تو ایسی کوئی قوم نہ پائے گا جو اللہ اور پچھلے دن قیامت پر ایمان رکھتے ہوں۔ یعنی پختہ مسلمانوں سے یہ نہ ہوگا کہ وہ ان لوگوں سے محبت کریں جو اللہ اور رسول سے عناد رکھتے ہیں چاہے وہ اس کے باپ دادا ہوں یا بیٹے پوتے ہوں یا بھائی بندیا‘ کنبہ برادری ہوں اس لئے کہ ان ایمانداروں کو اللہ و رسول کی محبت سب سے زیادہ ہے لہٰذا وہ مخالفوں سے محبت نہیں رکھ سکتے کیونکہ ایک دل میں دو متضاد محبتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر رکھا ہے اور ان کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہ مومن لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کسی ناپسندیدہ حالت میں نہیں بلکہ اس حالت میں کہ اللہ ان سے راضی ہوگا اور یہ اس اللہ سے راضی بس مقطع کلام یہ ہے کہ یہی لوگ اللہ والے ہیں سنو ! جی اللہ والے ہی عذاب سے نجات پائیں گے۔ اللھم اجعلنا من المفلحین المجادلة
0 الحشر
1 سنو جی ! جتنی مخلوقات آسمانوں میں اور جتنی چیزیں زمینوں پر ہیں سب اللہ کی پاکی اور تقدس بیان کرتی ہیں بعض بزبان قال اور بعض بزبان حال کیونکہ وہ ان سب کا خالق ہے اور وہی سب پر غالب اور حکمت والا ہے الحشر
2 وہی اللہ جس نے اہل کتاب (یہود) میں سے منکروں کو پہلے ہی دھکے ! میں ان کے گھروں سے نکال دیا اور تم لوگوں کو ان پر غالب کیا۔ تمہیں اس امر کا گمان نہ تھا کہ وہ اپنے وطن سے نکلیں گے کیونکہ ان کی فوجی قوت بہت زبردست اور مقام محفوظ تھے انہوں نے سمجھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کی گرفت سے بچالیں گے مگر نہ بچا سکے پس اللہ کا عذاب ان پر ایسی جگہ سے آیا کہ ان کو اس کا گمان نہ تھا عذاب آیا اور اچھی طرح آیا اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا ایسے ڈرے کہ باجود مقدار کافی اور سامان حرب وافی ہونے کے موت کو دیکھ رہے تھے گھر بار ملک وطن سب چھوڑ کر ایسے حال میں نکلے کہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے گرا رہے تھے تاکہ ان کی چوکٹیں اور دروازوں کی جوڑیاں اکھاڑ کر ساتھ لے جائیں پس اے عقلمندو تم اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو۔ یہ سمجھو کہ اللہ جس قوم یا شخص پر غضب کرنا چاہتا ہے کوئی اسے بچا نہیں سکتا نہ اس کے سامنے کوئی تدبیر چلتی ہے (یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کا معاہدہ کیا تھا جو موقع پا کر توڑ دیا اس پر بحکم نبوی مسلمانوں نے ان پر فوج کشی کی اور ان کے دیہات سے نکال دیا اور حکم دیا کہ جو چیز اپنی تم لے جاسکتے ہو لے جائو انہوں نے اپنے اساس البیت سب اٹھالئے یہاں تک کہ مکانوں کی جوڑیاں اور چوکٹیں بھی اکھاڑ کرلے گئے اس بارے میں یہ سورۃ اتری ملحض۔ منہ) الحشر
3 اور ان یہودی کافروں کی یہ حالت تھی کہ اگر اللہ نے ان کی تقدیر میں جلا وطنی نہ لکھی ہوتی تو دنیا ہی میں ان کو عذاب کرتا ایسا کہ لوگوں کو عبرت ہوتی اب جو ان کو جلاوطن کردیا ہے تو دنیا میں اب ان کو عذاب نہ ہوگا اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کی آگ کا عذاب ہے الحشر
4 اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بضد مخالفت کی ہے اور ہمارے ہاں یہ عام قانون ہے کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اس کے حق میں اللہ سخت عذاب والا ہے۔ الحشر
5 پس مسلمانو ! سنو۔ ان فراری یہودیوں کا مال واسباب اراضی اور باغات پر تم مسلمانوں نے جو قبضہ نصرت کیا جو ان کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو سالم چھوڑا یہ سب کچھ اذن الٰہی سے کی پروا نہ کرو نہ دل تنگ ہو ہوا جو ہوا تاکہ ایسے بد عہد فاسقوں کو رسوا کرے الحشر
6 یہ تو محض اللہ کا فضل ہوا کہ تم لوگ ان پر فتحیاب اور کامیاب ہوئے ورنہ تم کو خوب معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی فوج کو جو کچھ ان یہودیوں سے دلوایا ہے تم مسلمانوں کی قوت اور محنت کا نتیجہ نہیں کیونکہ تم لوگوں نے بغرض جنگ اس پر گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے یعنی تمہارا رس یا پلٹن ان پر حملہ آور ہو کر فتحیاب نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے پس تم لوگ جو کچھ چاہو اسی قادر قیوم سے مانگا کرو۔ (مسلمانوں کے حملہ کے وقت یہودی قلعہ گیر ہوگئے تو مسلمانوں نے ان کے باغوں کو تباہ و برباد کردیا اس پر بعض نیک دل مسلمانوں کے دلوں میں کچھ شبہ ہوا کہ یہ کام اچھا نہیں ہوا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ ( جنگ میں کفار سے جو مال اسباب ہاتھ آتا ہے وہ اگر لڑ کر آئے تو اس کو غنیمت کہتے ہیں بے لڑے غلبہ ہونے کی صورت آئے تو اس کو (فیٔ) کہتے ہیں غنیمت میں چار حصے شرکاء جنگ غازیوں کے لئے ہوتے ہیں پانچواں حصہ (خمس) ان لوگوں کا جن کا ذکر اس آیت میں ہے مگر فیٔ ساری نمنزلہ خمس غنیمت کے ہے یعنی فی کا کل مال انہیں لوگوں پر تقسیم ہوگا اللہ کا حصہ الگ نہیں وہ انہیں مستحقین پر تقسیم ہوجاتا ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ زندگی میں رسول (علیہ السلام) کا تھا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ اور امام وقت کاﷺ۔ منہ) الحشر
7 سنو ! یہ جو کہا گیا کہ اللہ نے اپنے رسول پر انعام واحسان کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس سارا مال رسول کی ملک ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ جو کچھ ! اللہ نے بے لڑے بھڑے ان بستیوں کے رہنے والوں سے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ حقیقت میں اللہ کا اور اس کے رسول کا اور رسول اور مجاہدین کے قرابت داروں کا یتیموں کا‘ مسکینوں کا‘ غریب مسافروں کا حق ہے۔ یہ تقسیم اس لئے ہے کہ یہ مال تم میں سے مالدار اغنیا ہی میں دائر سائر نہ رہے بلکہ غربا کو بھی حصہ رسدی پہنچے اور سنو ! باوجود استحقاق مذکور کے جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں از قسم مال ہو یا از قسم حکم وہ قبول کیا کرو اور جس سے روکے اس سے رک جایا کرو باوجود استحقاق کے حسب مصلحت و ضرورت تقسیم کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد ہے پس تم مسلمان اس اصول شرعی کا خیال رکھا کرو اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے الحشر
8 اس قسم کے لوگوں کی حالت جو رسول کے ہر حکم پر عمل کریں اور ہر منع سے پرہیز کریں دیکھنا چاہتے ہو تو سنو ! اور دیکھو ان فقراء مہاجرین کو کیسے پکے ایماندار ہیں جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے محض اس گناہ پر کہ وہ اللہ کے بندے بن گئے ہیں بذریعہ عبادت اللہ کا فضل اور خوشنودی چاہتے ہیں اور حسب توفیق خود اللہ اور رسول کے دین کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ ایمان میں سچے ہیں الحشر
9 اور ان لوگوں کو بھی دیکھو کیسے مخلص باکمال ہیں جنہوں نے ان مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے مدینہ شریف میں دار الایمان ایمان کا گھر بنایا جو لوگ ان کی طرف ہجرت کر کے آتے ہیں وہ لوگ ان سے دلی محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو اللہ کی طرف سے مال واسباب ملا ہے بمقابلہ ضروریات مہاجرین کے اپنے دلوں میں اس مال واسباب کی حاجت نہیں پاتے بلکہ مہاجرین کو اپنا بھائی بند جانتے اور ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو کیونکہ اہل ایمان کے حق میں ان کا اصول ہے۔ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس لئے وہ ہر مومن کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم جانتے ہیں ایسا کرنے والے اپنے نفس پر قابو پا جاتے ہیں اس لئے وہ نفس کے بخل سے بچتے ہیں اور ہماری طرف سے عام اعلان ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کے جبلی بخل عادات قبیحہ جو قویٰ بہیمیہ سے پیدا ہوتی ہیں ان سے بچ جائیں وہی نجات یاب ہوں گے یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جو شمع محمدی پر مثل پروانوں کے نثار ہیں۔ یعنی دربار رسالت میں حاضر رہنے والے مہاجرین اور انصار جن کا ذکر اوپر ہوا۔ الحشر
10 اور وہ ایماندار لوگ بھی قابل اور لائق تعریف جو ان کے بعد آئیں گی جن کی علامت یہ ہوگی کہ دعا میں کہتے ہوں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایماندار گزرے ہیں یعنی صحابہ کرام اور ان کے بعد والے سب مومن لوگوں کو بخش دے اور ہمارے دلوں میں ان سابقہ اور موجودہ ایمانداروں کے لئے کسی طرح کا کینہ پیدا نہ کر بلکہ ہمیں ایسابناکہ ہم ایک دوسرے سے شیروشکر ہوجائیں اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے تو ہمارے حال پر اور ان کے حال پر رحم فرما۔ یہ آیت اپنے مضمون میں صاف ہے کہ کسی مومن کو دوسرے مومن سے کینہ عداوت رکھنا تعلیم اور منشا الٰہی کے خلاف ہے بلکہ مومن کا اصول یہ ہونا چاہیے ؎ آئین ماست سینہ چو آئینہ داشتن کفر است در طریقہ ماکینہ واشتن عام لوگوں کے لئے یہ حکم ہے تو خواص صحابہ کرام وغیرہم کے مراتب حقوق تو بہت زیادہ ہیں ان کے حق میں بد گمانی یا بدگوئی کرنا کسی طرح روا نہیں۔ رضی اللہ عنھم وار ضاھم۔ منہ الحشر
11 جس طرح ایماندار پچھلے پہلوں کے لئے دعاء مغفرت کرتے ہیں اسی طرح کافربھی بحکم الکفر ملۃ واحدۃ ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں۔ کیا تم نے ان منافقوں کی طرف نہیں دیکھا جو کفر میں اپنے ہم خیال اہل کتاب بھائیوں کو جو ان کی طرح کافر ہیں کہتے ہیں کہ تم مضبوط دل رہو۔ مسلمان تم کو نکال نہیں سکتے اور اگر بفرض محال تم لوگ نکالے جائوں گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے اور تمہارے حق میں کوئی ناصح مشفق ہم کو سمجھائے گا تو ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ سنیں گے نہ اس پر توجہ کریں گے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے تمہارے ساتھ جنگ شروع کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اللہ بذات خود شہادت دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں الحشر
12 اگر وہ اہل کتاب بوجہ بغاوت یا سرکشی جلاوطن کئے گئے تو یہ لوگ ہرگز ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر ان سے لڑائی ہو پڑی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے کیونکہ ان کا اصول ہمدردی نہیں بلکہ وہ ہے جو مثل کے طور پر مشہور ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان ؟ جس میں رعائت ہو۔ اس لئے ان کے وعدے اور ہمدردیاں سب خود غرضی پر مبنی ہیں اور اس شعر کی مصداق ہیں۔ حلف عدو سے قسم مجھ سے کھائی جاتی ہے الگ ہر ایک سے چاہت بنائی جاتی ہے اور اگر بالفرض انہوں نے ان اہل کتاب یہودونصاری کی کچھ مدد کی بھی تو الٰہی مدد کے سامنے تم کو پیٹھ دکھاجائیں گے پھر ان کو کسی طرح سے مدد نہیں پہنچے گی الحشر
13 بات اصل یہ ہے کہ تم مسلمانوں کا خوف ان منافقوں کے دلوں میں اللہ کے خوف سے زیادہ ہے وہ اپنے زعم باطل میں سمجھتے ہیں کہ اللہ کی پکڑ اگر ہوگی تو وہ بعد ہوگی ممکن ہے ٹل جائے مگر ان مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ سے چھوٹنا مشکل ہے یہ ان کا خیال اس لئے ہے کہ یہ لوگ حقیقت حال کو سمجھتے نہیں یہ نہیں جانتے کہ اللہ کا قبضہ اتنا وسیع اور مضبوط ہے کہ ہمیں بیٹھے بیٹھے ہلاک کر دے اور مسلمانوں کو تو اتنی قدرت نہیں پھر کمزور سے زور آور کی نسبت زیادہ ڈرنا کہاں کی عقلمندی ہے الحشر
14 سنو ! یہ لوگ تم مسلمانوں سے سامنے ہو کر نہ لڑیں گے ہاں قلعبند بستیوں میں محفوظ رہ کر یا دیواروں کے پیچھے سے لڑیں گے پس تم مسلمان مطمئن رہو یہ لوگ تم پر فتحیاب نہ ہوسکیں گے کیونکہ ان کی باہمی مخالفانہ جنگ اور فساد بہت سخت ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ کسی سمجھوتے پر جمع نہیں ہوسکیں گے تم اپنے مقابلے میں ان کو یکجا جانتے ہو حالانکہ دل ان کے جدا جدا ہیں ہر ایک جماعت اور پارٹی اپنی بھی خواہ اور دوسرے کی بدخواہ یہ ان کی منافرت کی حالت اس لئے ہے کہ یہ لوگ بے وقوف بے عقل ہیں سمجھتے نہیں کہ اغراض عامہ میں صنفی خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہاں فوائد عائد عامہ پر نظر ہونی چاہیے ! ہندوستان میں آریہ قوم نے برخلاف دستور ہندئووں کے شدھی کا رواج دیا جس سے مطلب ان کا یہ تھا کہ غیر ہندئووں کو ہندو بنایا جائے اس تحریک شدھی سے ہندو مسلمانوں میں ملک کی بدقسمتی سے جو بدمزگی پیدا ہوئی تو باہمی جنگ و فساد تک نوبت پہنچی اس باہمی جنگ میں ہندئووں نے طریق جنگ یہ اختیار کیا کہ مسلمان جب ان پر حملہ آور ہوں تو وہ اپنے مکانوں پر سے ان پر اینٹیں برسائیں اور آپ دیواروں کی اوٹ میں چھپے رہے اس آیت سے اس ہندی واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہے۔ منہ الحشر
15 ان موجود مشرکین مخالفین کی حالت بالکل ان لوگوں کی سی ہے جو ان سے پہلے قریب ہی گذرے ہیں جنہوں نے اپنے کئے کا پھل دنیا ہی میں چکھا تھا اور ابھی آخرت میں ان کے لئے دکھ کی مار باقی ہے اس آیت کے حکیمانہ مضمون کو دیکھیں اور مسلمانوں کی اندرونی حالت نوعی اور صنفی پھر صنفی در صنفی کو دیکھیں تو بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہ آیت ہمارے ہی حق میں اتری ہے خواجہ حالی نے اس حالت اور کیفیت کا نقشہ یوں بنایا ہے۔ نہ سنی میں اور جعفری میں ہو ملت نہ نعمانی و شافعی میں ہو الفت وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ نفرت مقلد کرے نامقلد پہ لعنت رہے اہل قبلہ میں جنگ ایسی باہم کہ دین اللہ پر ہنسے سارا عالم کسی عام غرض کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ابتدا میں اگر ہوتے ہیں تو انتہا میں بگڑ جاتے ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ اطوار انہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو قومی اغراض عامہ سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ان کے حق میں یہ الہی فیصلہ بالکل حق اور بجا ہے ذلک بانھم قوم لا یعقلون منہ۔ الحشر
16 ان مخالفوں میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک تابع ہیں دوسرے متبوع یعنی رئیس لوگ یہ رئیس لوگ ان اتباع کو جدھر چاہتے ہیں لگاتے ہیں ان کی مثال شیطان کی سی ہے جب انسان کو کہتا ہے کفر اختیار کر پھر جب وہ اس کے کہنے کے مطابق کفر اختیار کرتا ہے اور شیطان جان جاتا ہے کہ اب یہ اچھی طرح پھنسا تو کھلے اور صاف لفظوں میں کہتا ہے تحقیق میں تجھ سے اور ترنے اس فعل سے بیزار ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں الحشر
17 پس انجام ان دونوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں جہنم میں جانے کے لائق ہوجاتے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ظالموں کا ہے ٹھیک اسی طرح یہ عوام کو بہکانے والے رئیس اپنے ماتحت لوگوں کو بہکاتے ہیں بلکہ غریب مسلمانوں کو بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ذمہ دار ہیں ہم تمہارے گناہ اٹھالیں ! گے مگر جب انجام کار عذاب کا وقت آئے گا تو نہ تابع چھوٹیں گے اور نہ متبوع الحشر
18 اے مسلمانو ! تم ان شیطانوں اور ان کے اتباع کی باتوں میں مت آئو بلکہ اپنے کام میں لگے رہو اور تمہارا اصلی کام یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو کوئی کام اس کی مرضی کے برخلاف نہ کیا کرو ہر آن اس کی رضا جوئی کا خیال رکھا کرو اور تم میں کا ہر شخص سوچا کرے کہ کل کے روز یعنی بعد الموت کے لئے اس نے آگے کے لئے کیا بھیجا ہے اور ہر آن اللہ سے ڈرتے رہو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے اسے کسی کے بتانے جتانے کی حاجت نہیں یہ تمہاری زندگی کا اصلی کام ہے یہی کرو قرآن مجید میں ان کا قول یوں ذکر ہے قال الذین کفرو اللذین امنوا اتبعوا سبیلنا و لنحمل خطایا کم و ما ھم بحاملین من خطایا ھم من شیء انم لکاذبون (عنکبوت ع ١) یعنی کافروں کے رئیس غریب مسلمانوں کو کہتے ہیں تم ہمارا اتباع کرو اگر اللہ نے اس بارے میں تم سے پوچھا تو ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ یہ ان کے گناہوں میں سے ذرہ بھر نہیں اٹھائیں گے بے شک یہ لوگ جھوٹے ہیں“ اس آیت کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ منہ الحشر
19 اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو اللہ کو بھول بیٹھے یعنی اللہ سے ایسے مستغنی ہوگئے گویا وہ اللہ کو جانتے ہی نہیں نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اپنی توفیق خاص کا تعلق ان سے ہٹا کر ان کے نفس ان کو بھلا دئیے وہ اپنی فکر نہیں کرتے ایسے لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ کھلے بندوں بلا خوف اور بلا روک ٹوک بدکاریاں کرتے ہیں اس لئے ایسے ایسے لوگوں پر الٰہی حکم لگ چکا ہے کہ یہی لوگ بدکار ہیں۔ الحشر
20 یہی اصحاب النار یعنی جہنمی ہیں اور جن لوگوں کو بوجہ ایمان اور اسلام کے یہ لوگ ذلیل اور حقیر جانتے ہیں حالانکہ وہ پرہیزگار تقویٰ شعار ہیں وہ اصحاب الجنہ یعنی نجات یافتہ جنتی ہیں پس سنو ! جہنمی اور جتنی اللہ کے نزدیک برابر نہیں برابر کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ قانون یہ ہے کہ جنتی لوگ ہی کامیاب بڑی عزت سے پاس ہیں الحشر
21 ایسے لوگوں میں داخل ہونیکا طریق صرف یہ ہے کہ ہمارے اتارے ہوئے قرآن پر عمل کریں جس کی صفت مؤثرہ یہ ہے کہ اگر ہم اس قرآن کلام اللہ کو پہاڑ پر اتارتے تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے ڈر جاتا بلکہ پھٹ جاتا کیونکہ وہ جانتا کہ ایسے کلام پر عمل کرنا میرے ذمہ ڈالا گیا جس کا بھیجنے والا ایسے قدرت والا ہے کہ اس کے پکڑے ہوئے کو کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ اللہ جانے مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی تو میری کیا حالت ہوگی حقیقت میں یہ پہاڑوں کا ذکر تمثیلات ہیں جو ہم (اللہ) لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔ ورنہ پہاڑ پر قرآن یا کلام اللہ اترنے کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ وہ مکلف نہیں لہذا یہ فرضی مثال بغرض تفہیم ہے۔ الحشر
22 سنو جی اس قرآن کی اصل تعلیم یہ ہے کہ بندوں کو اللہ کی معرفت کرائے۔ چنانچہ اس کی معرفت کا پہلا سبق یہ ہے کہ وہ اللہ جس کی طرف تم کو بلایا جاتا ہے وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں حاضر غائب سب کو جاننے والا ہے وہی سب سے بڑا رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے الحشر
23 اور سنو ! اس کی معرفت یہ ہے کہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ دنیا کا حقیقی بادشاہ ہے بادشاہوں کے ہر ایک عیب ظلم غفلت وغیرہ سے پاک ہے دنیا کے بادشاہوں کی طرف چند روز نہیں بلکہ اسکی ذات اور اس کا نام سلامتی والا ہے دناق کو امن اور سلامتی دینے والا وہی ہے سب کا فنا ہونے سے نگہبانی کرنے والا وہی سب پر غالب بگڑی کو سنوارنے والا بہت بڑائی والا جن جن باتوں میں لوگ شرک کرتے ہیں اللہ ان سے بالکل پاک ہے ان کی شرک آمیز باتوں کا اثر اس تک نہیں پہنچتا اور نہ پہنچ سکتا ہے۔ الحشر
24 اور سننا چاہو تو سنو ! وہ ہی اللہ تمہارا معبود ہے جو سب مادی چیزوں کا بنانے والا اور مادہ کے بغیر مادہ کو پیدا کرنے والا سب کی تصویر بنانے والا ہے تم دیکھتے ہو دنیا میں کوئی چیز بغیر تصویر کے نہیں یہ سب مختلف صورتیں اسی اللہ کی بنائی ہوئی ہیں مختصر یہ ہے کہ سب نیک نام جن سے صفات کمال کا ثبوت ہو اسی واحد لاشریک کے لئے ہے اس لئے آسمان وزمین کی کل چزخیں اس کے نام کی پاکی بیان کرتی ہیں اور وہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے یہ تو ہے اس کی معرفت کا قرآنی سبق عاجزانہ طریق اللہ کی معرفت کا یہ ہے۔ تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے ) یہاں دو لفظ آئے ہیں خالق اور باری اس لئے دونوں کا اثر جدا جدا بتانے کو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ خالق کا فعل مادیات سے تعلق رکھتا ہے اور باری کا تعلق مادی اور مادہ کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ سب چیزوں کا مادیات ہوں یا مادہ سب کا خالق ہے چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے اللہ خالق کل شی و ھو الواحد القہار اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے۔ وہ اکیلا سب پر غالب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کان اللہ و لم یکن معہ شیٔ (بخاری) ایک وقت اللہ تھا اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔ چنانچہ ایک شاعر نے اسلامی اور غیر اسلامی عقیدے کا اظہار ایک شعر میں یوں کہا ہے کسی موجود سے ایحاد کرنا نام رکھتا ہے : مگر لوح عدم پر نقش کرنا کام رکھتا ہے : پہلا مصرعہ غیر اسلامی (ہندوانہ) عقیدہ ہے دوسرا مصرع اسلامی عقیدہ ہے اس مضمون پر ہمارا ایک خاص سالہ ” اصول آریہ“ قابل دید ہے۔ منہ۔ ( الحشر
0 الممتحنة
1 اے مسلمانو !! سنو اور دل کے کانوں سے سنو ! میرے (اللہ کے) دین کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کافروں کو مخلص دوست دنہ بنانا وہ تمہاری ایذا رسانی میں کمی بیشی نہیں کرتے تم ان کی طرف محبت کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حقانی تعلیم کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آئی ہے یعنی قرآن مجید کو نہیں مانتے بلکہ اس کی سخت توہین کرتے ہیں وہ لوگ رسول کو اور تم کو مکہ سے تنگ کر کے نکالتے تھے یعنی کوشش کرتے تھے کہ تم نکل جائو کس گناہ کے لئے اس وجہ سے کہ تم اللہ پر جو تم سب کا پروردگار ہے خالص ایمان لائے ہو اور ان کا کچھ بگاڑا نہیں سنو ! اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کو اور میری رضا حاصل کرنے کو نکلتے ہو تو کچھ تم لوگ ان کی طرف محبت اور پیار کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں (اللہ) خوب جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ پھر نتیجہ کیا ہوگا یہی ہوگا کہ کئے کا بدلہ پائو گے اور جو کوئی بھی تم میں سے جو کوئی یہ کام کرے گا سمجھو کہ وہ سیدھی راہ سے بہک جائے گا۔ ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین مکہ سے وعدہ مصالحت تھا مکہ والوں نے اس کو توڑ دیا اس پر حضور کا ارادہ ہوا کہ ان پر ان کی بے خبری میں حملہ کیا جائے اس مخفی راز کی اطلاع ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے مکہ والوں کو بھیج دی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے با علام الٰہی آدمی بھیج کر اس عورت کو راستے ہی میں پکڑ منگایا حاطب کا خط اس سے نکلا حاطب کا بیان سن کر اس کی سابقہ مخلصانہ کار گذاری کی وجہ سے اس کو معاف فرمایا اس قصے کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں عام مسلمانوں کو سمجھایا کہ ایسا نہ کرنا چاہیے۔ منہ ( الممتحنة
2 تم ان سے دوستانہ کرتے ہو اور ان کا یہ حال ہے کہ اگر وہ تم پر قابو پائیں تو تمہارا سر کچلنے کو تمہارے اصلی دشمن ہوجائیں اور تکلیف دینے کو تمہاری طرف اپنے ہاتھ اور زبان دراز کریں جس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ تم بحیثیت مسلمان ہونے کے ہٹ جائو اس لئے تم کو کمزور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم اسلام کو جو ان کی نگاہ میں کانٹا سا کھٹکتا ہے چھوڑ کر کافر ہوجائو کافر ہونے کی کئی وجہ ہوتی ہیں ایک یہ کہ مسلمان کے دل میں اسلام کے حق میں شبہات پیدا ہوں اس کا علاج تو یہ ہے کہ کسی سمجھدار سے شبہات دور کرائے دوسری وجہ یہ ہے کہ کفار رشتہ داروں کا لحاظ کفر کی طرف کھینچے ) ہندوستان میں جب سے اسلام آیا ہے غیر مسلموں کو کانٹا چبھتا تھا مگر آج کل یہ کانٹا خصوصیت سے تیز ہوگیا ہے اسی لئے اس کے نکالنے کو ہندو اقوام نے باوجود اپنے اندر شدید اختلاف رکھنے کے کہیں ہندو سنگھٹن بنائی ہے یعنی ہندوئوں کا اجتماع اور کہیں ہندو مہاسبھا بنائی جاتی ہے ان سب سے بڑ کر شدھی سبھا ہے۔ جس کا یہ کام ہے جو اس آیت میں کفار مخالفین کا بتایا گیا ہے یعنی مسلمانوں کو کافر بنانا پس مسلمانوں کو ہوشیار رہنا اور سمجھ رکھنا چاہیے کہ ہنود کا یہ فعل وہی ہے جو کفار عرب زمانہ رسالت میں کرتے تھے پھر جو ان کا انجام ہوا وہی ان کا ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ منہ ( الممتحنة
3 سو اگر تم اس دوسری وجہ سے اسلام چھوڑ گئے تو یاد رکھو تمہارے رشتے اور تمہاری اولاد تم کو قیامت کے روز اللہ کے ہاں کچھ کام نہ دیں گے وہی اللہ تم میں سچا فیصلہ کرے گا اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے الممتحنة
4 اس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں تمہارے بزرگ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کو جو تم سے پہلے گذرے ہیں ان کو دیکھو وہ کیسے صاف دل یک طرفہ موحد تھے ان کی زندگی میں تمہارے لئے بہت عمدہ اور نیک مثال موجود ہے اس کی پیروی کرو خاص کر وہ وقت جب انہوں نے اپنی قوم سے علانیہ کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور اللہ کے سوا جن کی تم لوگ عبادت کرتے ہو ان سب سے علیحدہ ہیں ہم تمہارے طریقے اور مذہب کے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے مذہبی عداوت اور بغض پیدا ہوگیا ہے کیونکہ تم ہم کو شرک کی طرف بلاتے ہو جو ہمیں ناپسند ہے اور ہم تم کو توحید کی طرف بلاتے ہیں جو تم کو ناپسند ہے لہذا ہم فریقین میں عداوت تک نوبت پہنچ چکی ہے اس لئے ہم بھی کمال راستی سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم فریقین میں یہی حالت رہے گی جب تک تم اللہ اکیلے معبود پر ایمان نہ لائو یعنی یہ عداوت اور رنجش اس وقت ختم ہوگی جب تم مومن ہوجائو گے۔ کیونکہ ہماری تمہاری رنجش کوئی ذاتی نہیں تمہارے شرک وکفر کی وجہ سے عارضی ہے جب وہ وجہ اٹھ جائے گی تو رنجش خودبخود دور ہوجائے گی یہ ہے ابراہیمی سنت۔ پس تم مسلمان دین دار لوگ ان بزرگوں کی روش اختیار کرو اور ان کی سنت پر چلو۔ ہاں ابراہیم کی ساری عمر میں ایک بات ناقابل اتباع ہے وہ بھی سن لو وہ ان کا اپنے مشرک باپ کو یہ کہنا ہے کہ میں تیرے لئے اللہ سے بخشش مانگوں گا اور میں اے بابا تیرے لئے خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ باپ چونکہ مشرک تھا اور مشرک کی بخشش نہیں ہے اس لئے شریعت الٰہیہ میں مقرر ہے کہ مومن مشرک کے لئے بخشش نہ مانگیں اس فقرہ کے سوا ان کی یہ دعا بے شک تمہارے لئے قابل عمل ہے جو ان سب لوگوں نے مانگی تھی کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری طرف ہم جھکے ہیں اور تیری طرف ہی ہمارا رجوع ہے اپنی زندگی میں تو تیرے محتاج ہیں بعد وفات بھی تیری ہی طرف رجوع ہیں آیت قرآنی ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین و لوکالوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحب الجحیم (توبہ) یعنی نبی اور مومنوں کو مشرک کے حق میں بخشش نہ مانگنی چاہیے چاہے قریبی ہوں بعد اس سے کہ ان کو معلوم ہوجائے کہ وہ جہنمی ہیں اس آیت کی طرف ہم نے اشارہ کیا کیونکہ اس میں انبیاء اور ایمانداروں کا مشرکین کے حق میں بخشش مانگنا ناجائز قرار دیا ہے ممکن ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ابھی یہ اطلاع نہ ملی ہوجیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کا جنازہ پڑھا پڑھنے کے بعد نہی پہنچی اور فرمایا۔ لا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ حضرت ابراہیم کو اطلاع ملی اور باپ کا خاتمہ بھی شرک پر معلوم ہوا تو بیزار ہوگئے چنانچہ دوسرے مقام پر فرمایا۔ فلما تبین لہ انہ عدو اللہ تبرأ منہ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ ان کا باپ اللہ کے دین کا دشمن ہے یعنی شرک پر مصر ہے یا شرک پر مر گیا ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا۔ منہ الممتحنة
5 اس ہماری یکیہتک کیو جہ سے ہمارے دشمن ہم پر حملے کرتے ہیں پس تو ہم کو کافروں کے لئے عذاب کا ذریعہ نہ بنا کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائیں تو اور تیری گرفت میں آئیں نتیجہ برا بے شک ان کے حق میں ہوگا مگر تکلیف میں تو ہم بھی شریک ہوں گے پس اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے حال پر رحم فرما اور ہم کو ہماری خطائیں بخش دے بے شک تو ہی بڑاغالب بڑی حکمت والا ہے الممتحنة
6 اے مسلمانو ! یہ ابراہیمی لوگ تمہارے لئے عمدہ نمونہ ہیں تم میں سے خاص کر ان لوگوں کے لئے جو اللہ سے ملنے کی اور آخرت کی بہتری کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ جماعت بہت اچھا نمونہ ہے پھر جو کوئی ان کی روش سے منہ پھیرے گا کسی کا کچھ نہیں پگاڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور افعال میں بے نیاز اور بڑی تعریفات سے موصوف ہے۔ الممتحنة
7 سنو ! تمہیں اپنے مخالفوں کی پروا نہ کرنی چاہیے قریب ہے کہ اللہ تم میں اور تمہارے بعض سخت دشمنوں میں محبت پیدا کر دے گا یعنی ان کو اسلام سے بہرہ ور کر دے گا تو وہ خود بخود تم سے محبت کریں گے اور یقین کرو کہ اللہ بڑی قدرت والا بڑا بخشنہار مہربان ہے الممتحنة
8 یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کو کافروں کی شخصیت سے کوئی رنج یا عداوت ہے نہ یہ سمجھو کہ تم کو ہر حال میں کافروں کے ساتھ لڑنے بھڑنے کا حکم ہے نہیں ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تم کو ان کافرلوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کی وجہ سے تم سے نہیں لڑے اور نہ انہوں نے ازراہ جبر وستم تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ایسے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے نہیں روکتا۔ بے شک ان سے سلوک کے ساتھ پیش آئو اور احسان کیا کرو نہ ان کے حق میں انصاف کرنے سے تم کو منع کرتا ہے یہ لوگ چاہے تمہارے دین سے منکر اور کافر ہو پڑے ہوں۔ کفر اور اسلام کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے تم کو اس میں دخل کیا تم ایسے لوگوں کے ساتھ انصاف سے پیش آیا کرو اور دل میں جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں یعنی ہر بات میں منصفانہ برتائو کرنے والوں سے محبت کرتا ہے الممتحنة
9 پس تم اس بات کے خیال سے کہ کوئی شخص اسلام کو یا اللہ کو نہیں مانتا اس سے بے انصافی کرنے کا خیال بھی نہ کرنا نہ اس کی حق تلفی کرنا ورنہ جس طرح وہ اللہ کی مرضی کے خلاف ہے تم بھی مخالف ہو گے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن سے دوستانہ تعلقات رکھنے سے تم کو منع کیا جاتا ہے پس سنو ! جو لوگ تم سے دین کی وجہ سے لڑے اور لڑتے ہیں اور جنہوں نے تم کو تمہارے وطنوں مکہ وغیرہ سے نکالا اور انہوں نے تمہارے ملک بدر کرنے پر تمہارے دشمنون کی مدد کی بس ایسے لوگوں کو دلی دوست بنانے اور قلبی محبت کرنے سے اللہ تم کو منع کرتا ہے۔ نہ اس لئے کہ اللہ کو یا تم کو بخل ہے نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ لوگ چونکہ دل میں تمہارے دشمن ہیں دوستی کے پردے میں تمہیں نقصان نہ پہنچائیں کیا تم نے سنا نہیں۔ دشمنان کہن دوستان نوکر دن بدست دیو بود عقل راگردکر دن اس لئے جو لوگ ان سے دوستی لگائیں گے اللہ کے نزدیک وہی لوگ ظالم ہوں گے کیونکہ وہ قومی حقوق کو پائمال کرنے والے ہوں گے الممتحنة
10 پس تم مسلمانو ! ایسے لوگوں سے ایسا برتائو نہ کرو بلکہ بطور احتیاط کلمہ گو لوگوں کا بھی امتحان کرلیا کرواس لئے تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ مومن عورتیں مہاجر بن کر تمہارے پاس آئیں تو ان کا بھی امتحان لیا کرو کہ وہ دل سے مخلصات ہیں یا دھوکہ دینے کو آئی ہیں گویہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے مگر اللہ کے جاننے سے تم کو کیا فائدہ تم تو اپنے علم کے ذمہ دار ہو پس اگر تم ان عورتوں کو بعد امتحان کرلینے کے مومن پائو یعنی یہ جان لو کہ واقعی یہ عورتیں عقیدہ اسلام پر ہجرت کر کے آئی ہیں کسی دشمن کی فرستادہ نہیں تو ان کو کافروں کی طرف واپس نہ کروکیونکہ اللہ کے نزدیک نہ وہ مومن عورتیں ان کفار کے لئے حلال ہیں نہ وہ کفار ان عورتوں کے لئے پھر جو تم ان کو واپس بھیجو گے تو اس ناجائز ملاپ کا گناہ تم پر ہوگا۔ ہاں یہ انصاف کی بات ہے کہ اگر وہ کفار جن کی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تمہارے ساتھ مصالح ہیں یعنی ان کو کسی قسم کی تمہارے ساتھ جنگی آویزش نہیں تو جتنا مال انہوں نے خرچ کیا ہے تم ان کو دے دیا کرو اگر کوئی مسلمان مرد ان عورتوں سے نکاح کا خواہاں ہو تو وہ جیب خاص سے دے اگر کوئی خواہاں نہیں ہے تو سرکاری خزانہ سے دیا جائے بہر حال ان مصالحین کفار کا حق تلف نہ ہو اور تم کو ان عورتوں کے حق مہر دے کر ان سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور اگر تمہاری عورتیں بوجہ بت پرستی کے کافر ہوں اور تبلیغ کرنے سے بھی مسلمان نہ ہوں تو ایسی کافر عورتوں کو عقد نکاح میں مت رکھو بلکہ طلاق دے کر چھوڑ دو ایسی عورتوں پر بوقت نکاح از قسم مہر زیور اور پارچات وغیرہ جو تم نے خرچ کیا ہے ان کے ولیوں سے یا خود ان سے واپس طلب کرلو اور جو ان کفار نے اپنی منکوحات پر خرچ کیا تھا جو مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئی ہیں وہ طلب کرلیں پس یہ انصاف ہے اور یہ اللہ کا حکم ہے جو تم میں جاری کرتا ہے اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے الممتحنة
11 اور اگر کفار حربی ! ہیں اور تمہاری یعنی مسلمانوں کی کوئی عورت ان حربی کفار کی طرف بھاگ کر چلی جائے وہ کفار تو اس بیوی کا بدلہ دیں گے نہیں کیونکہ وہ حربی ہیں اس لئے ان سے کچھ طلب کرنا بے فائدہ ہے پھر اگر کبھی تمہار پالا پڑجائے یعنی ان حربیوں پر تم کو پوری فتح ہو یا ان میں سے کوئی عورت تمہاری طرف آجائے تو ان مسلمان لوگوں کو ان کے خرچ کئے ہوئے مال جتنا عوض دیا کرو جن کی بیویاں کفار کی طرف چلی گئی ہیں اگر وہ آئی ہوئی عورتیں نکاح کریں تو ناکح سے لے کر ان مسلمانوں کو ان کی بیویوں کا عوض دیا کرو اور اگر نکاح نہ کریں تو خزانہ سرکاری سے دلوائو بہر حال ان کا خرچ پورا کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ یہودی عیسائی عورتوں کے ساتھ شادی کرنی جائز ہے لہذا وہ اس حکم میں داخل نہیں و المحصنات من الذین او توا الکتاب الایۃ۔ منہ ! جس قوم سے مسلمان بادشاہ کی جنگ ہو وہ حربی ہیں۔ منہ الممتحنة
12 اے نبی یہ حکم مسلمانوں کو تم سنا چکے اب اپنے لئے سنو ! جب تمہارے پاس ایماندار عورتیں اس نیت سے آئیں کہ وہ اس شرط پر بیعت کریں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی نہ زناکاری کریں گی نہ مثل جاہل عربوں کے اپنی زنانہ اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے پاس سے گھڑ کر دوسرے پر بہتان لگائیں گی اور نہ دینی کام میں تمہاری بے فرمانی کریں گی پھر تم اے نبی ان شرطوں کے بعد ان عورتوں کی بیعت قبول کرلیا کرو اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگا کرو اللہ ان کو اس بیعت واقرار پر مستقل رکھے بیشک اللہ بڑے بخشنے والا مہربان ہے۔ الممتحنة
13 اے مسلمانو ! سورۃ ہذا کے شروع مضمون پر متوجہ ہو کر سنو کہ اس نالائق قوم کے لوگوں سے کبھی دوستی نہ لگانا جن پر اللہ نے غضب کیا ہے وہ آخرت سے ایسے ناامید ہیں جیسے کافر لوگ اہل قبور کی زندگی سے ناامید ہیں۔ کیونکہ ان کا قول ہے اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیٰوتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ سب کچھ یہی دنیا ہے آخرت کے لئے ہم زندہ نہ ہوں گے۔ پس تم اس سورۃ کے شروع اور آخر کو پڑھ کر ایسے مخالفوں سے دوستی نہ لگانا اور ان کو اپنا مخلص نہ سمجھنا۔ تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور بس۔ الممتحنة
0 الصف
1 آسمان اور زمین کی ساری مخلوقات اللہ کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے اس کا ہر حکم حکمت والا ہے اور اس کی ذات باکمال اپنے اندر غلبہ تامہ رکھتی ہے الصف
2 پس اس کے باحکمت احکام سنو اور دل لگا کر ان پر عمل کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارا دعویٰ ایمان سن کر اور اعمال میں غفلت دیکھ کر کوئی کہنے والا تم کو کہے اے ماننے والو اے مسلمانو ! کیوں ایسی بات کہتے ہو یعنی کیوں ایمان کا دعویٰ کرتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے ) مسلمان جہاد کی خواہش کرتے تھے عین موقع پر بعض کمزور دل جی چرانے لگتے ان کی تقویت قلوب کے لئے یہ سورۃ نازل ہوئی۔ منہ ( الصف
3 ایمان ہے تو اسلام بھی حاصل کرو اللہ کے احکام کی تابعداری کرو یہ بات تم لوگ جو کہو اس پر عمل کرو یعنی دعویٰ ایمان کے مطابق اسلام کا ثبوت نہ دو اللہ کے نزدیک بڑے غضب کی بات ہے۔ الصف
4 پس یہ اصولی بات یاد رکھ کر سنو ! ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو جہاد کے لئے مستعد ہوجائو کیونکہ جہاد میں دو فائدے ہیں ایک ایمانی امتحان دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر ڈٹ کر دشمنان دین سے جہاد میں لڑتے ہیں ایسے ڈٹ کر لڑتے ہیں گویا وہ چونے گچ دیوار ہیں کیا مجال کہ دشمن کا رعب یا ضرب ان کو ہلا یا پھسلا سکے کیونکہ ان کا قول ہے۔ ؎ سب نکل جائیں گی او قاتل ہماری حسرتیں جبکہ سر اپنا تیرے زیر قدم دے دیں گے ہم الصف
5 یہ حکم کوئی تم ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تم سے پہلی امتوں کو بھی یہ حکم ہوتا رہا جسے انہوں نے عمل کر کے ثمرہ پایا اور جنہوں نے عمل نہ کیا نقصان اٹھایا کیا تمہیں معلوم نہیں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل کی مخالفت پر تکلیف اور ایذا اٹھائی تو ان کو کہا تھا اے میرے قومی بھائیو ! کیوں مخالفت کر کے مجھے تکلیف دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں رسالت کی تصدیق کے بعد تعمیل فرمانی چاہیے نہ کہ عصیان پھر جب وہ ٹیڑھے ہی ہوتے گئے اور کسی طرح اطاعت پر نہ آئے تو اللہ نے ان بے فرمانوں کے دلوں کو ٹڑے ھا کردیا بس وہ ہدایت سے دور جا پڑے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قانون ہے کہ وہ بدکار لوگوں کو جو بدکاری پر مصر رہیں توفیق ہدایت نہیں دیا کرتا بنی اسرائیل بڑے گستاخ اور بے ادب تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کرتے اور بیہودہ الزام لگاتے یہاں تک جسمانی عیوب بھی آپ کی طرف نسبت کرتے ان کی طرف اشارہ ہے۔ منہ الصف
6 اسی طرح دیگر انبیا علیہم السلام کی تعلیم اور تعمیل کرنے والوں کے واقعات میں کیا تمہیں معلوم نہیں جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی بے فرمانی دیکھ کر کہا تھا کہ اے اسرائیل کے بیٹو ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں یعنی اعتراف کرتا ہوں کہ تورات میں الٰہی احکام ہیں اور ایک بڑی شان والے رسول کی خوشخبری سناتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام بڑی ! تعریف والا ہوگا پھر جب وہ رسول ان بنی اسرائیل کے پاس بصورت محمد (علیہ السلام) آگیا تو بولے یہ یعنی اس کی تعلیم صریح جادو ہے۔ حالانکہ جھوٹا دعویٰ کرنا خاص کر ایسا دعویٰ جو متضمن وحی یا الہام ہو بڑا ظلم ہے اس آیت میں احمد کے لفظ پر بڑی بحث ہے اس میں شک نہیں کہ اس پیشگوئی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں مگر آپ کا اسم گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور آیت میں اسمہ احمد ہے بس اسی امر کی تحقیق کرنی یہاں مقصود ہے۔ ہماری رائے میں اس بحث کا مدار لفظ احمدکی تحقیق پر ہے یہ لفظ اسم تفضیل ہے اسم تفضیل جیسے اسم فاعل کے لئے آتا ہے اسم مفعول کے لئے بھی آتا ہے اسم فاعل کی حالت میں اس کے معنی ہوتے ہیں بہت کام (مثلا حمد) کرنے والا اور اسم مفعول کے لئے ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوتے ہیں بہت تعریف کیا گیا اس امر کی مثال کہ اسم تفضلئ کبھی اسم مفعول کے لئے بھی آتا ہے خود قرآن مجید میں ملتی ہے۔ اقسموا باللہ جھد ایمانھم لئن جاء ھم نذیر لیکونن اھدی من احدی الامم (پ ٢٢ ع ١٧) اسی طرح اس آیت میں یقولون للذین کفرو اھولاء اھدی من الذین امنو سبیلا (پ ٥ ع ١٢) ان آیات میں اھدی اسم تفضیل مبنی للمفعول ہے یعنی بہت ہدایت کئے گئے ٹھیک اسی طرح آیت زیر بحث میں لفظ احمد بمعنی اسم مفعول ہے یعنی بہت تعریف کیا گیا معنی آیت کے یہ ہوئے حضرت مسیح نے فرمایا کہ میں ایسے رسول کی تم کو خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام بڑی تعریف والا ہوگا یہ بعینہ اسم محمد کا مفہوم ہے۔ اس بحث سے فارغ ہو کر ہم حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ارشاد کا پتہ چلاتے ہیں کہ ان کے الفاظ کیا ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ہمارے سامنے جوانا جیل عربی انگریزی یا اردو میں یہ سب ترجمہ در ترجمہ ہیں ان ترجموں میں باہمی اس قدر اختلاف ہے جتنا خود ان میں ہے یہ ترجمہ کرنے والے حضرات ہر لفظ کا ترجمہ کر جاتے ہیں چاہے وہ اسم نکرہ ہو یا اسم معرفہ اس لئے اس قسم کی پیشگوئیوں کے پورے پورے الفاظ کا ان اناجیل میں ملنا مشکل ہے۔ ہاں مفہوم مل جاتا ہے چنانچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے الفاظ جو مل سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا پر اگر میں جائوں تو میں اسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھیرائے گا گناہ سے اس لئے کہ دے مجھ پر ایمان نہیں لائے راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے عدالت سے اس لئے کہ اس جہاں کے سردار پر حکم کیا گیا ہے میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی وہ میری بزرگی کرے گی (یوحنا باب ١٦ فقرہ ٧) اس پیشگوئی میں حضرت مسیح نے آنے والے مقدس کی بابت چند باتیں کہی ہیں (١) تسلی دینے والا (٢) صاحب حکومت (٣) مسیح کا مصدق (٤) اللہ کی طرف سے ان تینوں اوصاف پر غائر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اوصاف کا موصوف سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضرت مسیح کے بعد دوسرا کوئی نہں۔ مثلا (١) تسلی دینے والا اس سے مراد یہ ہے کہ گنہگاروں کو اللہ کی رحمت کا امیدوار بنائیگا چنانچہ آنحضرت کی تعلیم میں صاف ملتا ہے لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا (اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہو اللہ سب گناہ بخش دے گا) (٢) صاحب حکومت سے مراد محض دنیاوی بادشاہ نہیں بلکہ دینی حکومت کا بادشاہ ہونا مراد ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت مخالف موافق سب کا اتفاق ہے کہ آپ صاحب حکومت شرعیہ تھے اسی وجہ سے اپنے مسیح کی واجبی عزت کا اظہار کر کے انکے منکروں یہودیوں وغیر ہم کو کافر قرار دیا۔ (٣) مسیح کا مصدق ہونا تو ایسا واضح ہے کہ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف حضرت مسیح کے اشد ترین دشمن یہود تھے جو ممدوح کے حق میں سخت تریں مکروہ الفاظ بولتے تھے دوسری طرف مسیح کے قائلین عیسائی تھے جو ان کے اصل مرتبہ (رسالت) سے بلند کر کے الوہیت تک پہنچاتے تھے ان دو سخت تریں غالی جماعتوں میں حقیقی فیصلہ کرنا الٰہی حکم سے پیغمبر (علیہ السلام) ہی کا کام تھا چنانچہ آپنے بحکم الٰہی اس سخت ترین مشکل کو صاف لفظوں میں حل فرما دیا کہ مسیح نہ تو ربوبیت میں حصہ دار ہے۔ نہ معمولی آدمی ہے بلکہ وجیہا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین (دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور اللہ کے مقربین میں سے ہے) اس کے علاوہ صاف لفظوں میں فرمایا ورسولا الی بنی اسرائیل (مسیح اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل کی طرف رسول تھا)۔ (٤) چوتھی بات تو بالکل صاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ کہا یا فرمایا وہ اللہ کے حکم سے کیا چنانچہ اس کے متعلق صاف ارشاد ہے ان ھو الا وحی یوحی (یہ قرآن جو محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو سناتے ہیں) اللہ کی وحی ہے (انکا اپنا کلام نہیں۔ ) نتیجہ صاف ہے : کہ ان اوصاف کا موصوف ہے وہ ذات ستودہ صفات ہے جس کا نام بہت تعریف والا محمد ہے علیہ السلام اندرونی نزاع اور اسکا فیصلہ : اس بیرونی فیصلہ سے فارغ ہو کر ہم ایک اندرونی نزاع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایک صاحب مدعی الہام پیدا ہوئے جنکا نام مرزا غلام احمد تھا۔ جو قصبہ قادیاں ضلع گورداسپور میں رہتے تھے آپکا دعوی تھا کہ میں مہدی معہود اور مسیح موعود ہوں۔ آپکا نام دراصل غلام احمد تھا کہتے تھے کہ آسمان پر میرا نام احمد ہے آپنے محمد اور احمد دو ناموں میں یہ فرق کیا تھا کہ محمد جلالی نام ہے یعنی اس نام میں حکومت اور جلالت کی شان ہے اس لئے آنحضرت صاحب حکومت تھے اور اس حکومت میں آپ نے جنگ جہاد بھی کئے جو حضور کی جلالت کا ثبوت ہے۔ احمد جمالی نام ہے یعنی اس میں محض نرمی ہی نرمی محض تبلیغ بلا سیاست ہے۔ چنانچہ میں (مرزا) اسی طرح (بلاسیاست اور بغیر جلالت) تبلیغ کرتا ہوں۔ اس تمہید کے بعد مرزا صاحب کے اپنے الفاظ درج ذیل ہیں فرماتے ہیں۔ اس آنے والے کا نام احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہو نیکی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی اور احمد اور عیسٰے اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں اسی کی طرف یہ اشارہ ہے ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد مگر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال وجمال ہیں لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا (ازالہ اوہام طبع اول ٦٧٣۔) اس عبارت کا مطلب منطقی اصطلاح میں یہ ہے کہ محمد بشرط شی کا درجہ ہے اور احمد بشرط لاشی کا رتبہ ہے۔ یعنی اس اقتباس میں مرزا صاحب نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پیشگوئی محض احمد کے متعلق ہے آنحضرت محض احمد نہ تھے بلکہ صاحب جلال محمد بھی تھے اس پیشگوئی کا مصداق محض احمد ہونا چاہیئے جس میں جلالت اور سیاست بالکل نہو اس لئے میں ہی اسکا مصداق ہوں۔ بہت خوب۔ اس کی تشریح یا تردید دوسرے مقام پر یوں فرمائی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعث اول (رسول ہونے) کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اوّل جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا مگر بعث دوم (پچھلے زمانہ چودہویں صدی میں دوبارہ رسول ہونیکا وقت) جسکی طرف آیت کریمہ واخرین منھم لما یلحقو بہم میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے جیسا کہ آیت ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد اسی کیطرف اشارہ کر رہی ہے اور اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مہدی معہود جس کا نام آسمان پر مجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہوگا تو اسوقت وہ نبی کریم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرائے میں ہو کر اپنی جمالی تجلی ظاہر فرمائیگا۔ یہی وہ بات ہے جو اس سے پہلے میں نے اپنی کتاب ازالہ اوہام (کی منقولہ بالا عبارت) میں لکھی تھی یعنی یہ کہ میں اسم احمد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شریک ہوں اور اسپر نادان مولویوں نے جیسا کہ انکی ہمیشہ سے عادت ہے شور مچایا تھا حالانکہ اس سے اگر انکار کیا جائے تو تمام سلسلہ اس پیشگوئی کا زیر وزبر ہوجاتا ہے بلکہ قرآن کریم کی تکذیب لازم آتی ہے جو نعوذ باللہ کفر تک نوبت پہنچاتی ہے۔ لہٰذا جیسا کہ مومن کیلئے دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان فرض ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ بعث ہیں (١) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جسکی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفّار رحماء بینھم دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جسکی نسبت بحوالہ انجیل و قرآن یہ آیت ہے ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (تریاق القلوب ٩٦) اس اقتباس میں جناب نے تسلیم کیا ہے کہ اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق آنحضرت تھے اور میں جو آخری زمانہ میں بشکل بعثت ثانیہ آیا ہوں مجھ میں حضور کی احمدیت مجازاً جلویٰ افگن ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ آپ میں احمدی جلویٰ افروز ہے یا نہیں بلکہ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ پہلی عبارت کی دوسری عبارت میں تردید ہے کیونکہ اس لفظ احمد کا مصداق محض اس آخری زمانہ کے احمد (مرزا غلام احمد) کو قرار دیا تھا ملاحظہ ہو اس میں لفظ (برطبق یعنی) مطابق پیشگوئی اور اس دوسری عبارت میں اپنے کمال فراخ دلی اور کشادہ پیشانی سے اصلی اور حقیقی مصداق اس پیشگوئی کا آنحضرت کو قرار دیا ہے اور اپنا نام بطور مجاز کے بتایا ہے جیسے مالک کے ساتھ خادم بھی سواری پر سوار ہوجاتا ہے۔ بات بھی صحیح ہے : اگر مرزا صاحب کی یہ اصطلاح (محمد جلالی اور احمد جمالی نام ہیں) مان لیجائے تو مطلقا یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی سے قطعا آنحضرت ہی مراد ہیں کیونکہ آپکی مکی زندگی بالکل خاموش (جمالی) زندگی تھی جو احمدی کی مصداق تھی اور مدنی زندگی جلالی زندگی تھی جو محمد کی مصداق تھی لہٰذا دونوں اسموں کے حقیقی مصداق آپ ہی ہوئے (ﷺ) ان دو عبارتوں کے علاوہ ایک تیسری عبارت بھی مرزا صاحب کی قابل غور ہے جس میں آپنے اپنے اصلی نام (مرزا غلام احمد) کا اظہار کیا ہے چنانچہ آپکے الفاظ یہ ہیں۔ چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد الماتین ہے ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی۔ کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونیوالا تھا پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور یہ وہ نام ہے غلام احمد قادیانی اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیاں میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام احمد نہیں ہے بلکہ میرے دل میں میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا نام نہیں (ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ١٨٥۔ ١٨٦) ناظرین : اس عبارت میں مرزا صاحب نے اپنا اصلی نام قرآن مجید کے حروف سے نکالا ہے یعنی مرزا غلام احمد۔ نہ کہ محض احمد پس واضح اور لائح ہوا کہ اس آیت کا حقیقی مصداق وہی ذات ستودہ صفات ہے جس کا نام ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ کوئی اور۔ منہ۔ الصف
7 اور جو اللہ پر جھوٹا افترا یعنی غلط دعویٰ الہام اور وحی کا کرے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اس سے بڑا ظالم کون ہے ایسے لوگوں کے ظالم بلکہ اظلم ہونے میں شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قانون ہے کہ اللہ ایسے ظالم لوگوں کو توفیق خیر نہیں دیا کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹے مدعی کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ الصف
8 یہ لوگ جو اپنے غلط دعویٰ کو بمقابلہ صداقت اسلام پیش کرنے میں یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونکوں سے بھجا دیں جیسے تیل کا دیا منہ کی پھونک سے بجھ جاتا ہے اسی طرح ان کا خیال ہے کہ نور الٰہی (اسلام) بھی ان کے پروپیگنڈے سے بجھ جائے گا یہ خیال ان کا غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کرے گا چاہے کافر لوگ برا جانیں ان کے برا جاننے سے کچھ نہ ہوگا الصف
9 وہی اللہ ہے جس نے اپنا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا تاکہ اس کی تعلیم کو سب دینوں کی تعلیم پر غالب کرے بت پرستی‘ عیسیٰ پرستی‘ آتش پرستی‘ ستارہ پرستی وغیرہ ہر قسم کی شرکیہ کفریہ رسومات مغلوب ہوں چاہے مشرک لوگ اسلام اور توحید کی اشاعت کو برا جانیں ایسا ہی ہو کر رہے گا الصف
10 پس اے نبی تو ان کی باتوں کی پرواہ نہ کر یہ کام ہمارے ہاتھ میں سونپ دے اور ایمانداروں کو اپنی تعلیم پہنچانے کو کہہ کہ اے ایمان والو میں تم کو ایک ایسی تجارت بتائوں ؟ جو تم لوگوں کو دکھ کے عذاب سے چھڑا دے غالباً تمہارا ولی مقصد یہی ہوگا کہ جس طرح ہو ہم عذاب الیم سے چھوٹ جائیں الصف
11 پس تم سنو ! اللہ اور رسول پر مضبوطی سے یقین رکھو اور بوقت ضرورت اللہ کی راہ میں مالوں اور جانوں کے ذریعہ سے جہاد کیا کرو یعنی جہاں جان لڑانے کا موقع ہوجان لڑائو اور جہاں مال کے خرچ کرنے کا موقع ہو مال خرچ کرو جہاں دونوں کا موقع ہو دونوں کو جمع کیا کرو کیونکہ بحیثیت مسلمان ہونے کے تمہارا اصول ہی یہ ہے۔ کہ سب نکل جائیں گے او قاتل ہماری حسرتیں جبکہ سر اپنا تیرے زیر قدم دے دیں گے ہم یہ کام تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے اور حق وباطل میں تمیز رکھتے ہو تو سمجھ رکھو کہ یہی کار خیر ہے الصف
12 اور یہی راہ نجات تمہارے ایسا کرنے پر اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور دنیا کی عزت کے علاوہ آخرت میں تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس کے علاوہ ہمیشہ رہنے کے باغوں میں عمدہ عمدہ محلات نفیسہ دے گا حقیقت یہ ہے کہ یہی بڑا باعزت پاس ہے جو ان نعمتوں کو پائے گا وہی اللہ کے پاس پاس سمجھا جائے گا۔ الصف
13 یہ تو ان نعمتوں کا ذکر ہے جو تم کو آخرت میں ملیں گی چونکہ اسلام تم کو آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ہر قسم کی عزت دلانے کا وعدہ کرتا ہے اس لئے وہ دنیا میں بھی تم کو عزت دے گا یعنی تمہارا نام روشن کرے گا اور ایک ایسی چیز دے گا کہ تم اس کو پسند کرتے ہو وہ مدد الٰہی اور فتح قریب ہے عنقریب دیکھ لو گے کہ تمہاری فتوحات کا سلسلہ کہاں تک پہنچتا ہے یہ ہے وہ وعدہ الٰہی جو ہم نے کیا ہے کہ سب ادیان پر اللہ تم کو غلبہ دے گا پس تو اے نبی یہ اعلان کھلے الفاظ میں لوگوں کو سنا دے اور ایمانداروں کو ان دونوں وعدوں کی خوشخبری سنادے کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ الصف
14 مگر اس وعدہ الٰہی سے کسی کو دھوکہ نہ لگے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا سب کام خود بخود ہوجائے گا نہیں بلکہ اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ پس اے ایمان والو ! مسلمانو ! تم سب اللہ کے دین کے مددگار بن جائو جو کا تم تمہارے ذمہ لگایا جائے اس کو جی کھول کر دل کی خوشی سے کیا کرو جیسے تم سے پہلی امتوں کے نیک لوگ کرتے رہے ہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم نے بوقت ضرورت اپنے اتباع کو کہا تھا اللہ کے رستے میں کون میرا مددگار ہے۔ یعنی دینی خدمت کا انجام دینا کون ذمہ لاتن ہے ان کے اتباع حواریوں نے جو دھوبی قوم تھے جواب میں کہا کہ ہم حسب توفیق اللہ کے دین کے مددگار ہیں ہم دینی خدمت کو اپنی سعادت جانتے ہیں پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت حواریین ایمان پر پختہ رہے اور ایک جماعت حضرت مسیح کی منکر زہی اس اختلاف کی وجہ سے ان دونوں گروہوں میں بہت دیر صدیوں تک جنگ جاری رہی پھر ہم (اللہ) نے ایمانداروں عیسائیوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو وہ ان پر غالب آگئے۔ اللھم ایدنا بروح منک الصف
0 الجمعة
1 آسمانوں اور زمینوں میں جو چیزیں ہیں وہ اللہ کو پاکی سے یاد کرتی ہیں جو دنیا کا حقیقی بادشاہ ہر قسم کے عیوب سے پاک ذات اور ہر ایک زور آور پر غالب بڑی حکمت والا ہے الجمعة
2 اس کی حکومت یا حکمت کا تقاضا ہوا ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے سلسلہ انبیاء قائم کیا ہے اسی نے ان قریش کے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ہے جو اس کے احکام پڑھ کر ان کو سناتا ہے اور اپنے اثر صحبت سے پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب قرآن اور خاص کر علم حکمت معرفت الٰہیہ سکھاتا ہے یعنی ان کو بتاتا ہے کہ اللہ سے تمہارا کیا تعلق ہے خالق اور مخلوق میں کیا نسبت ہے‘ اور سب امور کے لئے یہی مدار ہے یہ سب اس اللہ کی مہربانی ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ بت پرستی‘ شراب خوری‘ زناکاری ہر قسم کی بدکاری ان کا شعار تھا آج جو ان میں نور ایمان اور اثر ہدایت نظر آرہا ہے وہ اسی رسول کی بابرکت سے ہے الجمعة
3 ان موجودہ لوگوں کے علاوہ اور پچھلے لوگ جو ابھی تک ان کو نہیں ملے ان کے لئے بھی اللہ نے یہی رسول بھیجا ہے یعنی بعد اختتام حیوۃ محمدیہ قیامت تک جو لوگ ہوں گے ان سب کے لئے یہی نبوت محمدیہ راہنما ہوگی۔ اور وہ (اللہ) ہر بات پر غالب حکمت والا ہے۔ واخرین منھم۔ اس آیت پر بھی ہمارے پنجابی مسیح نے قبضہ کیا ہے کہتے ہیں کہ اخرین منہم کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں ایک مسیح موعود آئے گا وہ دراصل ظل محمدی (ﷺ) ہوگا۔ اور وہ میں (مرزا) ہوں چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ اس بارے میں کچھ تو حاشیہ سابقہ متعلقہ لفظ احمد میں نقل ہوئے ہیں کچھ اس جگہ نقل ہوتے ہیں مرزا صاحب کا قول ہے آخری زمانہ کا آدمی درحقیقت ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگردکی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ واخرین منھم لما یلحقوا بہم اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس آخرین کے لفظ میں فکر کرو اور اللہ نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے نطف اور جود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے آخرین منہم کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے۔ (تریاق القلوب صفحہ ١٧٠۔ ١٧١) اس دعوی کی مزید تشریح مرزا صاحب نے ایک اور مقام پر خوب کی ہے جو قابل وید وشنید ہے۔ فرماتے ہیں۔ اس وقت حسب منطوق آیت واخرین منھم لما لحقوا بہم اور نیز حسب منطوق قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تاء اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں کی ایک زبان مشترک ہوگئی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہﷺہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل وجان سرگرم ہیں آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپکا دعوی ہے۔ میں تمام کافہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتے ہیں قرآنی تبلیغ کرسکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہونچا سکتے ہیں اور تمام حجت کیلئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانتا نے جو ابدیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتاہوں مگر میں ملک ہند میں آئونگا کیونکہ جوش مذاہب واجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل ونحل اور امن و آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم (علیہ السلام) اسی جگہ نازل ہوا تھا پس ختم دور زمانہ کیوقت بھی وہ آدم کے رنگ میں آتا ہے اسی ملک میں اسکو آنا چاہئے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہو کر دائرہ پورا ہوجائے اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسب آیت واخرین منھم دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روحانیت نے ایک ایسے شخص (مرزا) کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ اس کا ظہور بعینہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظہور تھا۔ (تریاق القوب ١٠١۔) مطلب ان سب کا ایک ہی ہے کہ بقول مرزا صاحب آئت مذکورہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت جو ذکر ہے کہ آپکو اللہ نے قریش میں مبعوث کیا نیز پچھلے لوگوں میں مبعوث فرمایا اس سے مرادو بعثتیں ہیں ایک بعثت اصلی دوسری ظلی ظلی سے مراد عکس محمدی ہے اور وہ میں (مرزا) ہوں اسی طرح آپنے جملہ کمالات محمدیہ کو اپنے حق میں کرنا چاہا جو حدیث شریف میں بطور مثال کے آئے ہیں۔ (حدیث شریف کے الفاظ مع ترجمہ نقل ہیں) قال رسول اللہ ﷺمثلی ومثل الانبیاء کمثل قصر احسن بنیانہ ترک منہ موضع لبنۃ فطاف بہ النظار یتعجبون من حسن بنیانہ الاموضع تلک اللبنۃ فکنت انا سددت موضع اللبنۃ ختم بی اللبنیان وختم بی الرسل فانا اللبنۃ (بخاری مسلم) مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میری اور انبیاء کی مثال ایک بڑے شاندار مکان کی ہے جس کی عمارت بہت اچھی بنائی گئی مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی جس کو ناظرین دیکھتے اور اس کی عمدگی عمارت پر تعجب کرتے مگر اس ایک اینٹ کی وجہ سے (دل تنگ ہوتے) بس میں نے وہ اینٹ کی جگہ بند کردی اور میرے ساتھ رسول ختم کئے گئے ہیں میں ہی وہ آخری اینٹ ہوں۔ اس حدیث کا مطب یہ ہے کہ آنحضرت نے سلسلہ نبوت کو ایک بڑے شاندار مکان سے تشبیہ دیکر فرمایا کہ مکان نبوت میں ایک کونا خالی تھا میں اس کونے کی آخری اینٹ ہوں۔ ناظرین : اس حدیث کو یاد رکھیں اور مرزا صاحب کا دعوی سنیں کہ شاگرد ہو کر استاد کی مسند پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ کان خالیا موضع لبنۃ اعنی المنعم علیہ من ھذہ العمارۃ فاراد اللہ ان یتم البناء ویکمل البناء باللبنۃ الاخیرۃ فانا تلک اللبنۃ (کتاب خطبہ الہامیہ صـــــــ) اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی یعنی منعم علیہم پس اللہ نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے (ترجمہ خطبہ الہامیہ مترجمہ مصنف) اس عبارت میں اس حدیث کیطرف اشارہ ہے جس کے الفاظ ناظرین کے سامنے ہیں کتنی دلیری ہے کہ اپنے حق میں وہی الفاظ لکھے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے اپنے حق میں فرمائے ہیں یعنی (لبنہ) آخری اینٹ۔ ثابت ہوا کہ مرزا صاحب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شاگردی کا دعوی کر کے درحقیقت حضور کی مسند پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ورنہ شاگرد کا حق یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ استاد کی مسند پر شاگرد قبضہ کرے یا للعجب وضیعۃ الادب۔ مرزا صاحب کی بروزیت محمدیہ : ہمارے نزدیک بلکہ ہمارے خیال میں ہر ایک مسلمان بلکہ ہر ایک انسان کے نزدیک مذکورہ دعوی مرزائیہ اس قابل نہیں کہ اسکی تردید کرنے پر توجہ کیجائے اہل منطق کا قول ہے کہ بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں کہ انکی دلیل خود ان کے اندر ہوتی ہے ایسے دعاوی کو اہل منطق کہا کرتے ہیں قضا یا قیا ساتہا معھا۔ مرزا صاحب کا یہ دعوی بھی اس قسم کا ہے کہ اس کے بطلان کی دلیل خود اس کے اندر ہے تاہم جی چاہتا ہے کہ اپنے ناظرین کو ایک معقول امر پر مطلع کریں۔ دنیا کی تاریخ اور اہل دنیا متفق ہیں۔ کہ محمد اول (ﷺ) کے اوصاف کمال میں سے ایک کھلا وصف کمال یہ بھی ہے کہ حضور نے اپنی زندگی میں اپنے اتباع کو تختہ ذلت سے اٹھا کر تخت عزت پر بٹھا دیا دنیا جانتی ہے کہ حضور انتقال فرماتے وقت خود بھی صاحب تاج وتخت تھے اور امت کو بھی تخت سلطنت پر رونق افروز چھوڑ گئے۔ اب ہم محمد ثانی (قادیانی) کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کو عموماً اور امت مرزائیہ کو خصوصاً کس حالت پر چھوڑا؟ اس سوال کے جواب کیلئے کہیں دور جانے آنے کی ضرورت نہیں اتنا ہی کافی ہے کہ مرزا صاحب قادیانی اپنی ساری زندگی میں انگریزوں کی رعیت رہے یہانتک کہ ایک ادنی درجہ کے افسر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کے حکم سے آپکو اقرار کرنا پڑا کہ (١) میں (مرزا غلام احمد قادیانی) ایسی پیشگوئی شائع کرنے سے پرہیز کرونگا جس کے یہ معنے ہوں یا ایسے معنے خیال کئے جا سکیں کہ کسی شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔ (٢) اللہ کے پاس ایسی اپیل کرنے سے بھی اجتناب کرونگا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ (٣) میں کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہونگا جس کا یہ منشاہو یا ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص (مسلمان ہو خواہ ہندو یا عیسائی) ذلت اٹھا ئیگا یا مورد عتاب آلٰہی ہوگا وغیرہ۔ ٢٤۔ فروری ١٨٩٩؁ء اس کے علاوہ ساری عمر محمد ثانی (مرزا صاحب قادیانی) انگریروں کی ماتحتی میں انکی حکومت کی خدمت کرتے رہے یہانتک کہ آپکے بعد صاحبزادے میاں محمود احمد صاحب نے ماہ فروری ١٩٢٢؁میں شاہزادہ ویلز کی آمد پر ایک کتاب تحفہ شاہزادہ ویلز لکھی جس میں اپنے والد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی کے حالات اور دعاوی اور برکات لکھ کر یہ لکھا کہ۔ پھر اے شاہزادہ ! کس طرح اللہ تعالیٰ نے عین مایوسی اور ناامیدی کے وقت مسیح مودعود (مرزا صاحب) کی دعا سنکر برطانیہ کی فتح کا سامان پیدا کردیا (تحفہ شاہزادہ ویلز ١٣۔) اس عبارت سے صاف پایا جاتا ہے کہ مرزا حاحب کا خاتمہ زندگی انگریزی سلطنت کی خدمت گزاری میں ہوا ہے حتی کہ مرنے کے بعد بھی غیر مسلم حکومت کی خدمت کر رہے ہیں کیونکہ آپکا انتقال ١٩٠٨؁ھ میں ہوا تھا اور جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح ١٩١٨؁ء میں ہوئی تھی۔ گمان غالب ہے کہ اسوقت مرزا صاحب قادیانی زندہ ہوتے تو میدان جنگ میں جانے کی درخواست کرتے اس کا ثبوت اس سے ہوتا ہے اسی فروری ١٩٢٢؁ء کو قادیانی جماعت نے بحکم خلیفہ قادیانی شاہزادہ ویلز کو اڈریس دیا اس میں امت احمدیہ (مرزائیہ) کی خدمات کے ذکر میں شہزادہ ویلز کو مخاطب کر کے عرض کیا۔ حضور ملک معظم کی فرمانبرداری ہمارے لئے ایک مذہبی فرض ہے اس میں سیاسی حقوق کے ملنے یا نہ ملنے کا کچھ دخل نہیں جب تک ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے ہم اپنی ہر ایک چیز تاج برطانیہ پر نثار کرنے کیلئے تیار ہیں اور لوگوں کی دشمنی اور عداوت ہمیں اس سے باز نہی رکھ سکتی ہم نے بارہا سخت سے سخت سوشل بائیکاٹ کی تکالیف برداشت کر کے اس امر کو ثابت کردیا ہے اور اگر ہزار ہا دفعہ پھر ایسا ہی موقع پیش آئے تو پھر ثابت کرنے کیلئے تیار ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت ہمیں اس دعوی کے ثابت کرنے کی اس سے بھی زیادہ توفیق دیگا جیسا کہ وہ پہلے اپنے فضل سے دیتا رہا ہے (تحفہ شاہزادہ ویلز ٩٨۔ ١٩) اس بیان میں ہمارا مقصود یہ نہیں کہ مرزا صاحب انگریزی حکومت کی خدمت کیوں کرتے رہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ محمد ثانی ہونے کی حیثیت میں ان کا جو کام تھا وہ ان سے نہیں ہوا اس لئے محمد ثانی ہونے کا دعوی انکا غلط ہے کیونکہ محمد اول (ﷺ) نے اپنی بعثت اولیٰ میں مسلمان قوم کو تاج وتخت کا مالک بنایا تھا مرزا صاحب چونکہ بروزی طور پر محمد ثانی ہونے کے مدعی تھے۔ اس لئے ان کا کام محمد اول کے کام سے مشابہ ہونا چاہیئے تھا مگر واقع میں نہوا ؎ اے مرغ سحر عشق زپروانہ بیاموز کاں سوختہ راجان شدو آواز نآمد۔ الجمعة
4 یہ نبوت فضل الٰہی ہے اپنی حکمت اور علم کے تقاضا سے جس کو چاہتا ہے فضل نبوت دیتا ہے اس میں کسی کا اجارہ یا تقاضا نہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے الجمعة
5 آج سے پہلے اس کا فضل بنی اسرائیل کی معرفت دنیا میں پہنچتا رہا بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے اللہ نے تورات اور دیگر الہامے نوشتے بھیجے مگر ان لوگوں نے اس کی تعمیل نہ کی اس لئے یہ کہنابالکل صحیح ہے کہ جن لوگوں کو تورات ملی تھی پھر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا ان کی مثال بالکل گدھے کی سی ہے جو کتابیں محض بوجھ کی صورت میں اٹھاتا ہے جس کو سعدی مرحوم نے بھی یوں کہا ہے۔ علم چند انکہ بیشتر خوانی چوں عمل در تو نیست نادانی نہ محقق بود نہ دانشمند چارپایہ بروکتا بے چند حقیقت میں اس قوم کی بری مثال ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتی ہے گدھے کی ہو یا کتے کی وہ ان سب مثالوں کی مستوجب ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو توفیق خیر نہیں دیتا تا وقتیکہ اپنے ظلم کو ترک نہ کریں۔ الجمعة
6 یہ تو ہے قانون الٰہی اب ذرہ ان یہودیوں کو ہدایت کرنے کے لئے تو کہہ اے یہودیو ! ہم تو اللہ کے بتانے سے جان چکے ہیں کہ تم لوگ بوجہ ترک شریعت کے ہدایت پر نہیں ہو لیکن اگر تم کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ تمام لوگوں میں سے تم ہی اللہ کے ولی ہو مقربان بارگاہ الٰہی ہو تو پھر اس رذیل دنیا میں رہ کر کیا لو گے اللہ سے موت مانگو اگر سچے ہو تو مرو اور مر کر سیدھے جنت میں چلے جائو۔ الجمعة
7 مگر ہم تمہیں بتا دیتے ہیں۔ کہ یہ لوگ بوجہ اپنے بد اعمال کے ہرگز ہرگز موت نہ چاہیں گے کیونکہ ان کو سوجھتا ہے کہ بحکم کردنی خویش آمدنی پیش جو کچھ ہم نے کیا ہوا ہے ہمارے پیش آئے گا جس میں ہم بری طرح پھنسیں گے اور اللہ بالذات خود ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے اسے کسی کے بتانے کی حاجت نہیں الجمعة
8 اے ہمارے رسول تو ان لوگوں کو کہہ کہ جس موت سے تم لوگ بھاگتے ہو اور جان بچاتے ہو وہ جان بچے گی نہیں کیونکہ وہ موت تمہیں پا لے گی اور ضرور پا لے گی اس لئے کہ وہ اٹل ہے۔ کسی کی کوشش سے ہٹتی نہیں پس تم ضرور مرو گے پھر تم سب بنی آدم عالم الغیب پوشیدہ اور حاضر جاننے والے اللہ کی طرف پھیرے جائو گے پھر وہ تمہارے کئے ہوئے کاموں یعنی نیک وبد اعمال کی تمہیں خبر دے گا بس تم ہوشیار ہو کر دنیا سے رخصت ہونا اسلام قبول کرو یا نہ کرو مگر حق پسندی کی عادت کرو۔ الجمعة
9 اے ایمان والو ! جو لوگ اللہ کی مرضی حاصل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے تم بھی ان کی پرواہ نہ کرو بس تم ان کو چھوڑ دو اور اللہ کی رضا جوئی کی فکر کیا کرو دیکھو ایک خاص کام رضا جوئی کا تم کو بتاتے ہیں اس کی تعمیل کیا کرو۔ پس سنو ! جمعہ کے روز دوپہر کے وقت جب نماز کے لئے اذان دی جائے یعنی بذریعہ اذان تم کو بلایا جائے تو تم بلا تکلف اور بلا تاخر اللہ کے ذکر خطبہ اور نماز کی طرف چلا کرو اور سودا سلف اور دیگر کاروبار چھوڑ دیا کرو دنیاوی طمع نہ کیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم اللہ احکام کی حکمت جانتے ہو یعنی اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کام کا حکم دیتا ہے اس میں اگر نقصان ہو تو اس کی تلافی کردیتا ہے پس تم اس یقین کے ساتھ حکم الٰہی کی تعمیل کرو الجمعة
10 اور جب نماز ختم ہوجائے تو تمہیں اختیار ہے کہ تم مسجد سے نکل کر اپنے مکانوں کی طرف منتشر ہوجایا کرو اور بذریعہ کاروبار اللہ کا فضل تلاش کیا کرو مگر اس حال میں اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوا کرو بلکہ ہر دم دل ادھر لگائے رکھو اور اللہ کا ذکر بہت بہت کیا کرو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوا کرو تاکہ تم مراد پائو شان نزول :۔ مدینہ شریف میں جمعہ کے روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اثناء خطبہ میں تجارتی قافلہ آگیا۔ نمازی لوگ تجارتی مال خریدنے کی طمح میں خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے انکے حق میں یہ آیت اتری۔ مگر ایسا کرنے والے سارے نہ تھے۔ منہ الجمعة
11 یہ تو ہے اصلی تعلیم اسلام مگر ان کاروباری لوگوں نے جو کیا وہ کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھا یا اور اچھا ہو بھی کیسے سکتا تھا جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ جب یہ لوگ بازار میں مال تجارت دیکھتے یا کوئی کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے اے رسول خطبے کی حالت میں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی سمجھ کا کام ہے تو ان کو کہہ تم لوگ جو خطبہ اور نماز چھوڑ کر چلے گئے تو اس کی یہی وجہ تمہارے ذہن میں ہے کہ تم اس مال تجارت میں فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو۔ بس سنو ! جو اللہ کے پاس فائدہ اور ثواب ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھارزق دینے والا ہے وہ دینا چاہے تو خاک سے سونا دے دے نہ دینا چاہے تو سونے کو خاک کر دے پس تم اس سے رزق مانگو اور اپنی تدبیروں پر بھروسہ نہ کرو بلکہ چاہیے کہ تمہارا اصول یہ ہو کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے اللھم ارزقنا من عندک رزقا حلالا واسعا الجمعة
0 المنافقون
1 اے رسول چونکہ تو لوگوں کے دلوں کے حالات سے بے خبر ہے اس لئے منافق لوگ جو دل سے تیرے منکر ہیں تیرے پاس آکر کہتے ہیں کہ ہم دل کی سچائی سے شہادت دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے اس سے غرض ان کی محض فریب دہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں اللہ بھی خود گواہی دیتا ہے کہ بے شک تو اللہ کا رسول ہے مگر منافقوں کی غرض چونکہ دھوکہ دہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس امر کی بھی گواہی دیتا ہے کہ منافق لوگ جو اپنے غلط بیان کو شہادت سے تعبیر کرتے ہیں جھوٹے ہیں المنافقون
2 نہ ان کے دل میں تیری تصدیق ہے نہ وہ دل سے شہادت دیتے ہیں اس لئے جھوٹے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے رعب میں اپنی قسموں کو بچائو کی ڈھالیں بنا رکھا ہے ادھر ادھر آتے جاتے واللہ باللہ کہتے رہتے ہیں تاکہ تم مسلمان یہ سمجھو کہ تمہارے دوست ہیں پھر اس دوستی کے پیرائے میں ناواقف لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں کیونکہ اسلامی لباس میں ہو کر جب اسلام کی برائی بیان کریں گے تو نادان سننے والا خواہ مخواہ اعتبار کرے گا اس لئے یہ لوگ بہت برا کرتے ہیں اس کا نتیجہ بد ان کو بھگتنا پڑے گا۔ المنافقون
3 یہ حالت بد ان کی اس لئے ہوئی ہے کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے تھے اچھے بھلے کا۔ اسلام کے قائل ہوئے تھے پھر دنیاوی اغراض کے ماتحت منکر ہوگئے ایسے منکر ہوئے کہ پھر اسی انکار پر جم گئے پس اللہ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگائی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے بدافعال کا انجام بد سمجھتے نہیں اپنی دغابازی کو اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں المنافقون
4 دیکھئے تو بھلا اے نبی جب تیرے پاس آتے ہیں اور تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم بوجہ ڈیل ڈول کے حیران کرتے ہیں تو سمجھتا ہے کہ یہ بڑے معزز اور شریف لوگ ہیں اس لئے جب وہ بات کرتے ہیں تو تو ان کی بات پر توجہ کر کے سنتا ہے جیسے کسی معزز اور شریف کی بات سنی جاتی ہے کیونکہ ان کی ظاہر وجاہت ایسی ہے گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھنبے ہیں جن کے ساتھ لوگ بیٹھے ہوئے تکیہ لگاتے ہیں۔ بظاہر شکل وصورت تو ایسی ہے۔ خواہ مخواہ معتبر باشد مگر اندرونی کمزوری ان میں ایسی ہے۔ کہ ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں۔ کہیں کوئی جہاد کی آواز ہو تو اپنی موت جانتے ہیں کہیں آندھی تیز چلے تو موت کی طرح ڈرتے ہیں۔ ان کی نرم نرم باتیں سن کر پھندے میں نہ آنا بلکہ دل میں یقین رکھنا کہ یہی اصل دشمن ہیں پس تو اے پیغمبر (علیہ السلام) ان دشمنوں سے بچتے رہیو ! ان کو اللہ کی مار کہاں کو بہکائے جا رہے ہیں۔ مُسَنَّدَہٌ اسم مفعول کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے کیا ہے لکڑی لگائے دیوار سے۔ ان معنے سے ان کی جسامت اور ڈیل ڈول ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دیوار سے پتلی لکڑی بھی لگائی جاتی ہے میں نے اسکو اسم مفعول کہا ہے کہ انکی جسامت اور ڈیل ڈول بھی ثابت ہو یعنی بڑے ستون جن کے ساتھ لوگ سہارا لیں جیسے حرم کعبہ یا حرم مسجد نبوی کے کھنبے موٹے موٹے ہیں ہندوستان میں انکی مثل سری نگر کشمیر کے مسجد کے ستون ہیں۔ منہ المنافقون
5 دیکھو تو کیسی صاف صاف تعلیم سن کر بھی ادھر رخ نہیں کرتے اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ حضور رسالت میں آئو تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے بخشش مانگیں تاکہ اللہ تم کو بخش دے تو یہ لوگ سن کر سر پھیر لیتے ہیں اور تو دیکھنے والے ان کو دیکھتا ہے کہ دربار رسالت میں حاضر ہونے سے متکبرانہ وضع میں رکتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ نبی کے استغفار کی ہم کو حاجت نہیں۔ المنافقون
6 پس وہ سن رکھیں کہ ان کو اگر بخشش کی حاجت نہیں تو یہاں بھی کوئی خاص ضرورت ان کی نہیں اے نبی تو بھی سن رکھ کہ ان نالائقوں کے حق میں برابر ہے کہ تو بخشش مانگے یا نہ مانگے اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔ کیونکہ بخشش کے لئے دو ہی طریق ہیں یا تو بندہ گنہگار۔ خود توبہ کر کے متوجہ ہو یا الٰہی توفیق اس کی رفیق ہو۔ خود تو یہ لوگ توبہ کرنے سے رہے جن کی اکڑ یہ ہے کہ وہ استغفار نہ کرتے ہیں نہ کراتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اللہ اپنی رحمت سے دستگیری کر کے ہدایت کرے یعنی توفیق توبہ کی دے تو سنو ! اس کے ہاں یہ قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ بدکار قوم کو ہدایت خاصہ نہیں دیا کرتا یعنی جو ہدایت خاص بندوں کا حصہ ہے اس سے بدکار لوگ محروم ہیں۔ پس دونوں راستے ان کی ہدایت کے مسدود ہیں المنافقون
7 تم مسلمان ان کو نہ جانتے ہو تو سنو یہ وہی لوگ ہیں جو غریب مہاجرین مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کرتے ہیں کہ اے مدینہ والو ! جو لوگ محمد رسول اللہ کے پاس ادھر ادھر سے آکر رہتے ہیں اور ہم اہل مدینہ کے برابر بلکہ زیادہ قرب کے مدعی بنے بیٹھے ہیں حالانکہ ہماری (اہل مدینہ کی) روٹیوں سے پلتے ہیں ان پر اپنا مال نہ خرچ کیا کرو یہاں تک کہ معاش کی تنگی سے خود بخود منتشر ہوجائیں پس یہی ان مہاجرین کا علاج ہے کہ بائیکاٹ کر کے ان کو سیدھا کردو۔ حالانکہ اللہ سب کا رزاق ہے اور آسمانوں اور زمینوں کے خزانے اللہ ہی کے قبضے میں ہیں وہ جس طرح چاہے رزق دے سکتا ہے اس کے رزق دینے کے طریق سب مفتوح ہیں کسی طریق پر کسی غیر اللہ کا قبضہ نہیں لیکن یہ سیاہ باطن منافق لوگ سمجھتے نہیں ان کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ اس شعر کا مضمون سمجھیں ؎ اللہ گر بحکمت بندد درے کشائد بلطف و کرم دیگرے المنافقون
8 یہی کمبخت لوگ تھے جو جنگ کے موقع پر کہتے تھے اگر اب کی دفعہ ہم شہر مدینہ میں گئے تو سب سے پہلے یہ کام کریں گے کہ ہم معزز لوگ ان ذلیل لوگوں مہاجرین کو شہر سے نکال دیں گے تاکہ یہ میلے لوگ ہماری نظروں میں نہ آئیں نہ باعث تکلیف ہوں یہ کمبخت عزت اور عزت داری کا اصول بھی نہیں سمجھتے اصل عزت وہ ہے جو زوال پذیر نہ ہو مال‘ سرکاری نوکری‘ تجارت وغیرہ یہ سب زوال پذیر ہیں آج کوئی شخص مالدار ہے تو کل نہیں۔ آج کوئی سرکاری عہدہ پر ہے تو کل معزول ہے اس لئے ان لوگوں کی عزت اصلی نہیں اصل عزت اللہ کی ہے جو بلا ریب اپنی ذات میں عزت کا مستحق ہے اور عزت رسول کی ہے جو دائمی ہے اور عزت ایمانداروں صالحین کی ہے جو محض ایمان کی وجہ سے معزز ہیں چاہے امیر ہیں یا غریب اس میں کچھ فرق نہیں ان کے علاوہ علماء فقرا عزت کے مستحق ہیں وہ سب مومنین میں داخل ہیں مگر منافق لوگ جانتے نہیں کہ عزت کاہ شے ہے۔ المنافقون
9 مسلمانو ! تم جانتے ہو کہ ان منافقوں کا یہ گھمنڈ دو وجہ سے ہے ایک مال ودولت کی وجہ سے دوم قوۃ بازو سے یعنی یہ جانتے ہیں کہ ہم مالدار ہیں ہم اولاد والے ہیں ہم جہاں کھڑے ہوجائیں ہماری قوۃ ہمارے ساتھ ہے یہ باتیں غرور کی ہیں مسلمانو ! تم اللہ والے ہو اس لئے تمہارے مال اور اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں جیسا ان لوگوں کو کیا ہے یعنی مال واولاد کا گھمنڈ نہ کرنا کیونکہ یہ چیزیں آنے جانے والی ہیں ان پر گھمنڈ کرنا اور اترانا نہ چاہیے بلکہ شکر کرنا چاہیے جو لوگ یہ کام (تکبر اور غرور کریں گے وہی نقصان اٹھائیں گے المنافقون
10 پس تم مسلمان ایسے افعال مکروہ سے بچتے رہا کرو اور منافقوں کی طرح بخل نہ کیا کرو بلکہ ہمارے دئیے میں سے نیک کاموں میں خرچ کیا کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے کہ ہائے بیوقت موت آگئی اے میرے اللہ تو مجھے تھوڑے دنوں کی مہلت دیتا تو میں تیری راہ میں صدقہ خیرات کرتا اور میں نیک اعمال کر کے جماعت صالحین میں داخل ہوجاتا المنافقون
11 حالانکہ اللہ کے ہاں یہ قانون ہے کہ جب کبھی کسی نفس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اسے ذرہ جتنی بھی مہلت نہیں دیا کرتا پس کوئی کتنا ہی چیخے درخواستیں کرے‘ کبھی مہلت نہیں ملتی اور چیخنا اور رونا پیٹنا بے کار ہے اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر اور بذاتہ مطلع ہے اسے نہ کسی گواہ کی حاجت ہے نہ تمہارے انکار سے تم کو کچھ فائدہ۔ اللھم علمنا ما ینفعنا المنافقون
0 التغابن
1 سنو جی ! جو جو چیزیں آسمانوں اور جو زمینوں میں ہیں وہ سب اللہ کے نام کی تسبیحات پڑھتی ہیں تم نے سنا ہوگا۔ ؎ مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کناں باصطلاحے کیوں نہ پڑھیں جبکہ تمام ملک اسی کا ہے ہر قسم کی تعریفات اسی اللہ کے لئے زیبا ہیں وہی خالق ہے وہی مالک ہے وہی رازق ہے اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے التغابن
2 اللہ وہی تو ہے جس نے تم سب کو عدم سے وجود میں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض اسی خالق کے منکر ہیں اور بعض قائل مومن ہیں منکر دو قسم کے ہیں ایک تو سرے سے اللہ کی الٰہی کا انکار کرتے ہیں دوسرے اللہ کی الٰہی مان کر اس کے ساتھ غیروں کو شریک کرتے ہیں تم مسلمانوں کو ایسا نہ ہونا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اسے کسی کی اطلاع یا رپورٹ دینے کی ضرورت نہیں التغابن
3 وہ بذات خود عالم ہے‘ بصیر ہے‘ دانائِ راز ہے اگر وہ بذات خود عالم نہ ہوتا تو اتنی بڑی مخلوق کو ایسے احسن انتظام میں کس طرح پیدا کرتا اسی نے آسمان اور زمین کو اٹل قانون کے ساتھ پیدا کئے کیا مجال کہ ان میں کسی طرح کی خرابی یا نقصان آئے بلکہ شروع سے باقاعدہ چلاتا آیا ہے اور جب تک چاہے گا چلاتا جائے گا اسی نے تمہاری مائوں کے پیٹوں میں تمہاری صورتیں بنائیں اور تمہاری صورتیں مناسب شکل میں بہت اچھی بنائیں بہ نسبت دوسرے حیوانات کے اپنے چہروں کو دیکھ لو کیسے خوبصورت ہیں۔ ہر ضرورت کا سامان ان میں موجود ہے۔ سننے کو کان ہیں دیکھنے کو آنکھیں۔ سوچنے کو دماغ کھانے چبانے کو منہ کے اندر دانت چہرہ کیا ہے مجموعہ سامان ضروریہ کا خزانہ ہے پس تم ایسے خالق کا شکریہ ادا کرو اور دل میں یقین رکھو کہ اسی کی طرف تمہارا رجوع ہے جس طرح معلول کا علت کی طرف رجوع ہوتا ہے جتنا وقت وہ تم کو چاہے گا زندہ رکھے گا جب چاہے گا فنا کر دے گا التغابن
4 یہ تو اس کی قدرت کا ذکر ہے علم اس کا اتنا وسیع ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں پر یا ان کے اندر ہے وہ اللہ سب کو جانتا ہے کوئی چیز اس سے چھپی نہیں اور جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو وہ بھی جانتا ہے اور سنو ! کہ اللہ سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے ایسے عالم الغیب قادر قیوم اللہ سے بگاڑ کر تم کہاں پناہ لے سکتے ہو۔ التغابن
5 کیا تمہیں ان کافروں کے کاموں کی اطلاع نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے اپنے برے کاموں کا مزہ چکھا تھا یعنی جو کچھ کیا تھا اس کا بدلہ پایا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں تباہ ہوگئے اور ابھی آخرت میں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب وہ اس عذاب کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ واقعی وہ قصور وار تھے التغابن
6 یہ عذاب ان کو اس لئے ہوگا کہ ان کے پاس اللہ کے رسول کھلے احکام لے کر آتے رہے ان رسولوں نے ان کو احکام الٰہیہ کی تبلیغ کی تو انہوں کافروں نے ان کے حکموں کو نہ مانا بلکہ الٹا یوں کہا کہ میاں کیا ہمارے جیسا ایک آدم زاد بشر نبی بن کر ہمیں ہدایت کرنا چاہتا ہے انہوں نے اس بات کو غلط جانا کہ بشر اللہ کا رسول ہو ان کے خیال میں رسالت کے لئے فرشتہ ہونا چاہیے تھا پس وہ تعجب سے یہ کہہ کر ان رسولوں کے منکر ہوگئے اور الٰہی تعلیم سے منہ پھیر گئے ان کے ایسا کرنے سے رحمت الٰہی کی توجہ ان سے ہٹ گئی اور اللہ نے بھی ان کی پرواہ نہ کی اللہ تعالیٰ تو سب مخلوق سے بے نیاز ہے اسے کسی کی عبادت سے فائدہ نہیں اسے کسی کے کفر اور عصیان سے نقصان نہیں وہ بذات خود تعریف والا اور ساری خوبیوں کا مالک ہے کسی مخلوق کی خوبی سے اس میں خوبی نہیں آسکتی کسی کی برائی سے اس میں کمی نہیں آتی کیونکہ اس کا فعل خلق ہے اور خلق کسی مخلوق کی بری نہیں باقی جتنے افعال ہیں سب ان کے کسبی فعل ہیں اچھے ہیں تو ان کے لئے ہیں برے ہیں تو ان پر وبال ہیں ہمارے ملک پنجاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حنفی کہلاتے ہیں مگر عقیدہ انکا یہ ہے کہ کسی رسول کو خاصکر ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر جاننا کفر ہے اور بشر کہنے والا کافر ہے اس دعوٰی پر یہ آیت دلیل لاتے ہیں کہتے ہیں کہ دیکھو اس آئت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولوں کو بشر کہنے والے کافر ہوئے تھے لہذا رسولوں کو خاص کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہنا کفر ہے حالانکہ آیت کے سیاق سے ثابت ہوتا ہے کہ محض بشر کہنے سے کافر نہیں ہوئے بلکہ بشر ہونے کی وجہ سے انکی رسالت سے انکار کرنے پر کافر ہوئے تھے ثبوت قطعی اس کا یہ ہے کہ ایک مقام پر کفار کا قول یوں ذکر ہے۔ ان انکم الا بشر مثلنا تریدون ان تصدونا عما کان یعبد اباونا (پ ١٣ ع ١٤) تم رسول ہماری طرح کے بشر ہو ہم کو ہمارے باپ دادا کے معبودوں سے ہٹاتے ہو۔ ان کے جواب میں حضرت انبیاء علیہم السلام کا قول یوں مذکورہے۔ ان نحن الا بشر مثلکم ولکن اللہ یمن علے من یشاء من عبادہ (بیشک ہم تمہاری طرح بشر ہیں مگر اللہ جسپر چاہتا ہے احسان کرتا ہے) اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بشریت محل اختلاف اور باعث نزاع نہ تھی بلکہ بشریت کے ہوتے ہوئے رسالت زیر بحث تھی نبیوں نے اپنی بشریت کا اعتراف کر کے رسالت کو فضل الٰہی کی صورت میں پیش کیا جس سے معلوم ہوا رسولوں کو بشر کہنا کفر نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ منہ التغابن
7 جو کافر لوگوں کا گمان ہے کہ وہ بغرض جزا وسزا نہ اٹھائے جائیں گے یہ غلط خیال ان کا باعث عذاب ہوگا اے نبی تو ان کو اس غلطی پر اطلاع دینے کو کہہ کہ ہاں ضرور تم برروز حشر قبروں سے اٹھائے جائو گے پھر تم کو تمہارے کئے ہوئے کاموں سے اطلاع دی جائے گی کہ تم نے یہ کیا وہ کیا اور یہ مت سمجھو کہ اتنے پرانے اور کثیر واقعات کی خبر کس کو ہوگی نہیں ضرور ایسا ہوگا اور یہ کام اللہ پر آسان ہے کوئی امر اسے مانع نہیں ہوسکتا۔ التغابن
8 پس تم اے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول پر یقین رکھو اور اس نور قرآن پر ایمان لائو جو ہم نے اتارا دیکھو یہ ایمان لا کر خاموش نہ بیٹھ جائو بلکہ اس پر عمل کرو۔ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔ التغابن
9 اس وقت تم کو اطلاع دی جائے گی جب اجتماع کے روز قیامت کے دن اللہ تم کو جمع کرے گا وہ ہار جیت اور پاس فیل ہونے کا دن ہوگا نیکو کار جیت جائیں گے بدکار ہارے ہوں گے اور اگر تفصیل سے سننا چاہو تو سنو جو کوئی اللہ پر کامل ایمان لایا ہوگا اور اس کے مقتضا کے مطابق نیک عمل بھی کئے ہوں گے اور بڑے کبائر گناہ شرک کفر بدعت فسق وفجور سے بچتا رہا ہوگا تو اللہ اس کی غلطیاں دور کر دے گا اور اس کو جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے نہ وہ ایسا کوئی کام کریں گے کہ وہاں سے نکلنے کا موجب ہوگا نہ کوئی شخص بالجبر انکو نکالے گا یہی بڑی کامیابی ہے اللہ جسے نصیب کرے وہی خوش نصیب ہے التغابن
10 اور ان کے مقابل جنہوں نے ہماری (اللہ کی) ذات یا صفات سے انکار کئے اور ہماری آیات آفاقی یا قرآنی کی تکذیب کئے ہوں گے خواہ وہ کسی رنگ میں ہوں گے۔ وہ جہنمی ہوں گے ہمیشہ اس میں رہیں گے کوئی شخص ان کو اس عذاب سے نہیں نکال سکے گا وہ جہنم بہت بری جگہ ہے اس بری جگہ میں برے لوگ ہی جائیں گے۔ التغابن
11 ہاں ہم نے جن ایمانداروں کی فضیلت بتائی ہے ان کی علامت بھی سنئے مگر اس سے پہلے تمہید ہے کہ جو کچھ مصیبت دنیا میں پہنچتی ہے وہ اللہ کے اذن مقررہ قانون سے پہنچتی ہے اس میں کسی پیر‘ فقیر وغیرہ کو دخل نہیں ہوتا جو کوئی اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت کرتا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ دنیا میں ہر فعل کلی ہو یا جزی اللہ کے ارادہ اور حکم سے وقوع پذیر ہوتا ہے اس لئے عارفان اللہ کا قول ہے۔ ؎ کار زلف تست مشک افشانی اماعاشقاں مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اور اس کے علاوہ یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے التغابن
12 پس تم ہر وقت اس یقین پر پختہ رہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر کام پر مطلع ہے اور اللہ و رسول کی تابعداری کیا کرواسی میں تمہاری بہتری ہیں۔ اسی میں تمہاری نجات ہے پھر اگر تم منکرین اسلام۔ اسلام سے روگردان ہی رہو گے تو سن رکھو کہ ہمارے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ صرف واضح الفاظ میں بیان کردینا فرض ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں التغابن
13 اللہ نے اپنے رسول کے ذمہ جو پیغام پہنچانا فرض کیا ہے اس کا سب سے مقدم حصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں پس للہ ہی کی عبادت کیا کرو اور ایمانداروں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسہ کیا کریں۔ اپنے سب کام اسی کے حوالہ کریں جیسا کسی عارف باللہ نے کہا ہے۔ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے التغابن
14 اے ایمان والو ! تم لوگ چونکہ اللہ کو مالک مختار مان چکے ہو اس لئے تمہارا فرض اولین ہے کہ تم اسی کے ہو رہو اس تعلق خاص سے روکنے والوں میں بڑے روکنے والے اولاد اور بیویاں ہوتی ہیں سو سنو کہ تمہاری بیویوں اور اولادوں میں سے بعض بعض حقیقت میں تمہارے دشمن ہیں کو لنکہ وہ تم کو الٰہی تعلق کے خلاف لے جاتے ہیں یا لے جانے کی کوشش یا مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ تم کو دنیاوی رسوم میں پھنساتے ہیں پس تم ان سے بچتے رہو اور اس بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان کو ہر وقت زدو کو ب کیا کرو اور بداخلاقی سے پیش آئو نہیں بلکہ اگر خود اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر ان کے قصور ان کو معاف کرو اور چشم پوشی کرتے رہو بلکہ ان کے قصور بخش دیا کرو تو اللہ تمہارے حق میں بخشنے والا مہربان ہے آخر تم بھی تو اللہ کی کبھی کبھار بے فرمانی کرتے ہو پس جو شخص اپنے گناہوں کی بخشش چاہے وہ اپنے ماتحتوں کے گناہ بخشے تو اللہ کی رحمت اور مغفرت سے حصہ پائے گا التغابن
15 باقی رہا یہ خیال کہ اہل خانہ اور اولاد کی مخالفت کرنے سے گھر میں بگاڑ کرنا اچھا نہیں ہے اس سے عیال کی حفاظت رہ سکتی ہے نہ اولاد کی تو سنو ! سوائے اس کے نہیں کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے حقیقت میں وبال جان ہیں اور باعث امتحان اور اگر ان کو بما تحتی حکم اللہ استعمال کرو گے تو انجام نیک ہوگا بدطریق سے کرو گے تو برابدلہ پائو گے۔ ہاں سن رکھو کہ اللہ کے نزدیک بڑا اچھا بدلہ ہے التغابن
16 پس تم ایماندار لوگ اولاد اور ازواج سے نہ ڈرو بلکہ جتنا ڈر سکتے ہو اللہ سے ڈرا کرو اور الٰہی احکام دل سے سنا کرو۔ اور اللہ و رسول کی اطاعت کیا کرو اور حلال کمائی کا پاک مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو اپنے لئے کار خیر مال سے علم سے عزت ووجاہت سے مخلوق اللہ کو فائدہ پہنچایا کرو۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کی عادت میں بخل ہے اور اللہ کے ہاں یہ قاعدہ ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچ جائیں۔ یعنی بخل ان کا ان کی فیض رسانی پر غالب نہ آئے بلکہ فیاضی ان کے بخل پر غالب رہے تو وہی لوگ نجات کے حقدار ہیں التغابن
17 پس تم اپنے نفسانی بخل کو فیاضی پر غالب نہ آنے دو۔ بلکہ فیاضی کو بخل پر غالب کات کرو سنو ! اگر تم اللہ کی راہ میں فقراء اور مساکین کی حاجت روائی میں خرچ کرو گے تو گویا اللہ کو قرض حسنہ دو گے اللہ کو قرض حسنہ دینے سے یہ مطلب نہیں کہ اللہ غریب نادار ہے اور تم امیر اور مالدار ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ کارخیر میں خرچ کرتے ہوئے تم دل میں یہ جانو کہ ہم اللہ کے پاس جمع کرتے ہیں جو مال ایسی نیت سے خرچ کرو گے تو اللہ اس مال کو بڑھا کر تمہیں دے گا ایک پیسہ کے سات سو پیسوں تک بلکہ ان سے بھی زیادہ عنائت کرے گا اور اس پر مزید یہ کہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور ہر طرح کے احسان تم پر کرے گا اللہ بندوں کے نیک کاموں کا بڑا قدردان اور علم والا ہے اس سے کسی کا نیک وبد مخفی نہیں باوجود جاننے کے بوجہ حلم کے جلدی سزا نہیں دیتا التغابن
18 وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے اس کے قدرتی کاموں میں کوئی مانع نہیں اس کے افعال بذات خود حکمت سے لبریز ہیں۔ مگر لوگ جلد باز ہیں کہ اس کے کاموں کی حکمت نہیں سمجھ سکتے۔ اللّٰھُمَّ عَلِّمْنَا الْحکمۃَ التغابن
0 الطلاق
1 اے نبی ! تو دنیا کے لوگوں کو تعبدی اخلاقی اور تمدنی ہر قسم کے احکام سکھانے کو ہماری طرف سے بھیجا گیا ہے اس لئے تو ان مسلمانوں کو تمدنی احکام سنا کہ مسلمانو ! جب تم عورتوں کو بوجہ ضرورت طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت یعنی طہر کی حالت میں طلاق دیا کرو اور بعد طلاق عدت شمار کیا کرو کہ تین ماہ گزر جائیں تاکہ عدت پوری ہونے پر ان کو نکاح ثانی کی اجازت ہوسکے اور بڑی بات تو یہ ہے کہ نکاح ہو یا طلاق ہر کام میں اللہ اپنے پروردگار سے ہر حال میں ڈرتے رہا کرو کوئی کام ایسا نہ کرو جو اس کی مرضی کے خلاف ہو سنو ! طلاق کے بعد ایام عدت ہیں تم ان عورتوں کو ان کے رہائشی مکانوں سے نہ نکالا کرو کیونکہ وہ بے چاری ابھی تک تم سے وابستہ ہیں اور نہ وہ خود نکلا کریں بلکہ چاہیے کہ ایام عدت اسی مکان میں گزارا کریں تاکہ تمہاری مصالحت کی بھی کوئی صورت ہوسکے ہاں جس وقت وہ اس مکان میں کسی قسم کی کھلی بدکاری کریں تو ان کو اپنے مکان سے نکال دو یہ جائز ہے کیونکہ اس صورت میں صاحب مکان کی بھی بدنامی متصور ہے جو کسی طرح گوارا نہیں اور سنو ! یہ اللہ کے احکام کی حدیں ہیں جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا یعنی ان احکام کی ہتک یا بے فرمانی کرے گا وہ سمجھے کہ اس نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا جس کا خمیازہ اسے اٹھانا پڑے گا۔ عدت کے اندر جو عورتوں کو اسی مکان میں رہنے کی پابندی کی گئی ہے تم اس کی حکمت نہیں جانتے سنو ! شایداللہ تعالیٰ اس واقعہ طلاق کے بعد کوئی امر پیدا کر دے یعنی ان میاں بیوی میں مصالحت کی صورت ہوجائے کیونکہ ایک دوسرے کو دیکھے گا تو محبت آجائے گی اس صورت میں خفگی دور ہو کر مصالحت ہوجائے گی تعبدی احکام وہ ہیں جو عبادت کے متعلق ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اخلاقی جیسے راست گوئی وغیرہ تمدنی انسانی ملاپ باہمی ہمدردی کے متعلق۔ منہ الطلاق
2 پھر جب اپنی مدت کو پہنچنے لگیں یعنی درصورت طلاق رجعی (ایک یا دو) ہونے کے عدت ختم ہونے کو آئے تو تم کو اختیار ہے کہ بحکم الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاک بمعروفٍ اَو تَسْریحٌ بِاِحْسَانٍ ان مطلقات کو عزت کے ساتھ روک لیا کرو یا دستور شرعی کے موافق ان کو جدا کردیا کرو۔ اور اس قسم کے واقعات پر اپنے مسلمانوں میں سے دو عادل حق گو گواہ بنا لیا کرو اور گواہوں کو فرمان اللہ تعالیٰ سنا دو کہ سچی سچی اللہ لگتی شہادۃ اللہ کے خوف اور اپنی نجات کے لئے دیا کرو یہ کام ایمانداروں کے ہیں اس لئے جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ان کو یہ نصیحت کی جاتی ہے وہی اس سے مستفید ہوں گے کچھ شک نہیں کہ عدل وانصاف اور سچی شہادت دینے میں بعض اوقات برادری یا خاندان میں یا شہر اور محلے میں بڑی مشکلات پیدا ہوتی ہیں سو یاد رکھو کہ ایسے وقت میں جو شخص اللہ سے ڈرے اور اس سے ڈر کر کام کرے اور شہادت ہو یا بیان حق تو اللہ اس کے لئے راہ نکال دے گا جس سے اس کی مشکلات حل ہوجائیں گے طلاق دو قسم پر ہے رجعی اور مغلظ رجعی ایک دو تک طلاق ہوتی ہے۔ تین کے وقوعہ پر مغلظ طلاق ہوجاتی ہے مغلظ میں مصالحت بالرجوع جائز نہیں رجعی میں عدت کے اندر مصالحت جائز ہے۔ منہ الطلاق
3 اور اگر اداء شہادت حقہ سے اس کو مالی نقصان ہوگا تو اللہ اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا پس تم ہر کام میں اللہ کی رضا جوئی کا خیال مقدم رکھا کرو اور دل میں یقین رکھو کہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے وہ اللہ اس کو کافی ہوگا پس تم ایمانداروں کو چاہیے کہ ہر کام اللہ کے سپرد کر دو اللہ تعالیٰ اپنے منشا کے مطابق اپنا کام کردیا کرتا ہے لیکن لوگ جلد باز ہیں کہتے ہیں کہ جتنے وقت میں ہم چاہیں ہوجائے مگر ہوتا اسی وقت ہے جو اللہ کے نزدیک وقت مقرر ہے کیونکہ اللہ نے ہر چیز کے لئے اندازہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے زندگی اور موت میں تو ہر چیز اندازہ میں محدود ہے شرعی احکام میں بھی اندازہ مقرر ہے الطلاق
4 دیکھو تم کو پہلے بتایا گیا ہے کہ جن عورتوں کو تم طلاق دے کر چھوڑ دو ان کی عدت کا وقت تین دفعہ حیض سے پاک ہونا ہے مگر جن کو حیض نہ آئے ان کا حکم سنو ! جو تمہاری قوم کی عورتیں بوجہ ضعیفی یا بسبب بیماری کے حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں اور وہ جن کو ابھی حیض آیا ہی نہیں قبل حیض ہی ان کی شادی ہوگئی ہو اور طلاق کی نوبت آجائے ان کو اگر عدت طلاق گزارنے کا موقع آئے تو ان کی تین مہینے کی میعاد ہے وہ قمری تین ماہ عدت گزار کر نکاح ثانی کرلیں اور اگر یہ عورتیں یا کوئی بھی منکوحہ بالغہ ہو یا نابالغہ خاوند سے ملی نہیں اور قبل ملاپ ہی ان کی جدائی ہوگئی تو ان پر کوئی عدت نیں۔ نہ تین حیض نہ تین ماہ نہ تین یوم۔ اور حمل کی حالت میں چونکہ حیض نہیں آتا نہ وہ بے امید ہی ہیں اس لئے اس کا حکم جدا ہے وہ بھی سنو جو حمل والی عورتیں ہیں ان کو اگر عدت طلاق یا عدت وفات لازم ہو تو ان کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے جب وہ حمل وضع کرچکیں تو فورا نکاح کرسکتی ہیں چاہے مدت نفاس ہی میں کرلیں ہاں عدت کا حکم اور اس میں انتظار بے شک اس مقولہ کا مصداق ہے الانتظار اشد من الموت اور اس میں غلطی ہوجانے کا احتمال ہے مگر جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے اس کے مشکل سے مشکل کام میں بھی آسانی پیدا کردیا کرتا ہے الطلاق
5 پس تمہاری زندگی کا مقصود اور تمہاری کامیابی کا گر یہی ہے کہ تم اللہ کا خوف دل میں جاگزین کر رکھو یہ اول درجہ میں الٰہی حکم ہے اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے جیسا تم سے پہلے لوگوں پر نازل کیا تھا پس اس کی محافظت کرتے رہو اور دل میں یقین رکھو کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کی غلطیاں معاف کر دے گا اور اس کے نیک کاموں کے بدلہ میں اس کو بہت بڑا اجر دے گا الطلاق
6 پس تم اللہ سے ڈر کر ان مطلقہ عورتوں کو اپنی مقدور کے موافق وہیں رکھا کرو جہاں تم خودرہتے ہو تاکہ تمہاری باہمی دیدہ بازی سے تمہاری رنجش دور ہو کر صلح ہوجائے ! اور تقاضائے انصاف یہ ہے کہ اپنے گھر میں رکھ کر ان کو تکلیف نہ دینا تاکہ ان کو تنگ کرو اور دیا ہوا مہر وغیرہ واپس وصول کرو یا وہ تنگ ہو کر نکل جائیں یہ سب مخفی راز اللہ کو معلوم ہیں کہ کون کس نیت سے کام کرتا ہے اور کون کس غرض سے ایک اور حکم بھی سنواگر وہ مطلقہ عورتیں حاملہ ہیں تو چاہے بسّہ طلاق مغلظہ ہوں تو بھی ان کے وضع حمل تک ان کو خرچ دیا کرو کیونکہ حمل کی وجہ سے ان کو تم سے ایک گونہ تعلق ہے اور وہ ایک طرح سے تمہاری خدمت میں مشغول ہیں پھر اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہاری اولاد جو بعد طلاق یا قبل طلاق جنی ہیں دودھ پلائیں تو اس حال میں ان کی دودھ پلائی کی اجرت ان کو دیا کرو کیونکہ اولاد تمہاری نسل ہے اور وہ عورتیں ان کی خدمت میں مشغول ہیں اور باہمی مشورے کے ساتھ نیک دستور کے موافق کاربند ہوا کرو بچے کے حق میں جو کچھ مشورے سے پخت وپز ہو اس پر عمل کیا کرو اور اگر تم دونوں فریق۔ فریق زوج اور فریق زوجہ کسی وجہ سے بچے کو ماں کا دودھ پلانے میں مضائقہ سمجھو مثلا عورت کو کسی قسم کی بیماری ہے جس میں اس کا دودھ بچے کو مضر ہونے کا احتمال ہے یا عورت مطلقہ نے دوسرا نکاح کرلیا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے خاوند سے مشغول ہوگئی ہے غرض کسی معقول وجہ سے ماں کا دودھ بچے کو پلانے میں تم حرج سمجھو تو اس مرد کی ذمہ داری پر اس کے لئے کوئی اور عورت اس بچے کو دودھ پلا دے تاکہ وہ بچہ ضائع نہ ہو اَیْت یا یھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا (٣٢ پ ٣ ع) کی طرف اشارہ ہے۔ منہ ! یہ حکم ان مطلقات کیلئے ہے جن کو ایک یا دو طلاقیں ملی ہوں جنکے بعد عدت کے اندر اندر رجوع جائز ہے کیونکہ شروع سورت سے سیاق عبارت رجعی طلاق کے متعلق چلا آرہا ہے۔ مثلا یہ ارشاد ہے کہ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا نیز ارشاد ہے فامسکوھن بمعروف وغیرہ پہلے ارشاد میں صلح کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے میں صاف لفظوں میں امساک (روک لینے) کی اجازت ہے۔ یہ تو مقررہ بات ہے کہ مطلقہ بسّہ طلاق ہونے کی صورت میں رجوع جائز نہیں ان قرائن صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم (نفقہ اور سکنی کا) مغلظہ بسّہ طلاق کو شامل نہیں رہا یہ سوال کہ مغلظ کیلئے کیا حکم ہے اس کا حکم حدیث فاطمہ بنت قیس (رض) میں ملتا ہے فاطمہ موصوفہ کو تین طلاق ہوئیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لئے نفقہ اور سُکْنٰی نہیں دلا یا تھا (صحیح مسلم باب للمطلق البائن لا نفقۃ لھا) منہ الطلاق
7 اور اس دایہ کے دودھ کی اجرت بچے کے والد پر ہوگی جو وسعت والا ہے وہ اپنی وسعت سے خرچ کرے اور جس کا رزق تنگ ہے وہ بھی اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرے یہ نہیں کہ غریب کو امیر کی برابری کا حکم دیا جائے اور امیر غریب کی ریس کرے نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اتنا ہی حکم دیتا ہے جتنی اس کو طاقت دی ہے امیر کو اس کی وسعت کے موافق غریب کو اس کی گنجائش کے مطابق غریب لوگ تعمیل کرنے میں حیل وحجت نہ کریں بلکہ تعمیل کر کے امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر بعد تنگی کے آسانی کر دے گا الطلاق
8 پس یاد رکھو کہ الٰہی حکموں سے سرتابی کرنی کسی طرح جائز نہیں نہ غنا کی وجہ سے نہ فقر کے سبب سے سنو ! کئی بستیوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تھی نہ اللہ کی توحید کو مانا نہ رسولوں کی رسالت تسلیم کی نہ ان کے حکموں کی تعمیل کی پھر ہم (اللہ) نے بڑی سختی سے ان کے اعمال کا محاسبہ کیا یعنی ذرہ ذرہ پر مواخذہ کیا اور ان کے اعمال بد کی سزا دی ان کو سخت عذاب کیا الطلاق
9 پس انہوں نے اپنے برے کام کا مزہ چکھا اور ان کا انجام کار نقصان ہوا یہ تو دنیا میں ان کو سزا ملی الطلاق
10 اور ابھی آخرت میں اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے پس تم اے عقلمندو ایمان والو ! یہ سمجھوکہ نفع نقصان عزت وذلت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے پس اسی سے ڈرتے رہو اور جو مانگنا ہے اس سے مانگا کرو الطلاق
11 دیکھو اسی اللہ نے ایک نصیحت کرنے والا رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری طرف بھیجا ہے جو اللہ کے کھلے کھلے احکام تم کو سناتا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لاکر عمل نیک کرتے ہیں ان کو کفر شرک حرص اور عداوت وغیرہ وغیرہ کی ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لے جائے چنانچہ تم مسلمان نبی کی صحبت تامہ سے اپنی طبیعتوں کا اندازہ خود کرلو کہ اس رسول کے آنے سے پہلے تم کیا تھے اور اب کیا ہو بس یہی ایک بات ہے جس کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے تم (موجودہ ایمانداروں) سے یہ مخصوص نہیں بلکہ الٰہی قانون عام ہے کہ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک کام کرے اللہ اس کو جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان میں چند روزہ ان کی رہائش نہ ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ تعالیٰ نے ان نیکوکار لوگوں کے لئے عزت کا رزق خوب تیار کر رکھا ہے ایسا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی نہ ملے گی اس واسطے کہ یہ لوگ اللہ کے مہمان ہوں گے الطلاق
12 اور اللہ وہ ذات ہے جس نے سات آسمان تہ بتہ پیدا کئے اور انہی کی طرح زمینوں کو بنایا ہر آن اللہ کا حکم تکوینی ان میں اترتا رہتا ہے جو چیز پیدا ہوئی ہے اسی کے حکم سے پیدا ہوئی ہے یہ بات تمہیں اس لئے بتائی جاتی ہے تاکہ تم جانو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے کیونکہ دنیا میں تکوینی حکم اسی کا جاری ہے اور یہ بھی تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علمی اور قدرتی احاطہ میں گھیرا ہوا ہے۔ الطلاق
0 التحريم
1 اے ہمارے پیارے نبی جس چیز کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے تم اسے اپنے نفس پر حرام کیوں کرتے ہو کسی چیز کو طبیعت نہ چاہے نہ کھائو۔ مگر مثل حرام کے ترک کرنا تو اچھا نہیں اللہ جانتا ہے کہ بنیت صالحہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو کیونکہ اخلاقی اصول ہے کہ جس گھر میں میاں بیوی کے درمیان سوء مزاجی ہو وہ گھر آباد نہیں رہتا اس اصول سے میاں کو بیوی کی رضا جوئی کرنی جائز بلکہ مستحسن کام ہے مگر چونکہ تم نبی ہو تمہارا ہر کام امت کے لئے شاہراہ ہدایت ہے اس لئے آئندہ ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ بخشنہار مہربان ہے التحريم
2 پس گزشتہ را صلوٰۃ آئندہ احتیاط کیونکہ اللہ نے تمہاری ایسی بے ضرورت اور پر ضرر قسموں کے توڑنے کا طریقہ تمہارے لئے مقرر کر رکھا ہے اور تم کو سمجھا دیا ہے کہ ایسی قسموں کے توڑنے کا کفارہ یہ دیا کرو کہ دس مساکین کو کھانا کھلائو یا تین روزے رکھو کیونکہ اللہ ہی تمہارا والی ہے اور وہ بڑا علم والا اور حکمت والا ہے التحريم
3 سنو ! تمہیں ایک مفید واقعہ سنائیں جس سے تم کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ خاص راز کی بات کسی کو سنانے سے پہلے اس کی رازداری کا حال جان لینا ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا معاملہ تمہیں بھی پیش آئے گا جیسا تمہارے نبی کو آیا جب نبی (علیہ السلام) نے اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی کو راز کی بات ! بتائی اور منع بھی کردیا۔ کہ کسی سے مت کہنا مگر وہ پختہ کار نہ تھی اس کے منہ سے وہ بات نکل گئی پھر جب اس بیوی نے دوسری کو وہ راز بتا دیا اور اللہ نے اس نبی پر وہ فعل ظاہر کردیا کہ تمہاری بیوی نے تمہارے راز کی بات بتا دی تو نبی نے اس بیوی کو اشارۃ کچھ سمجھایا اور کچھ ٹال دیا جیسا کہ بڑے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ماتحتوں کی ذرہ ذرہ بات پر گرفت نہیں کیا کرتے اشارۃ کچھ کہہ دیا کرتے ہیں اور کچھ ٹال بھی دیا کرتے ہیں پھر جب نبی نے اس بیوی کو اس کا یہ فعل بتایا کہ تم نے یہ راز افشا کیا تو بیوی نے کہا حضور آپ کو کس نے بتایا کیونکہ آپ نے بحکم الٰہی اعلان کیا ہوا ہے کہ میں غیب دان نہیں ہوں نبی نے اس کے جواب میں کہا ہاں۔ میں غیب دان نہیں ہوں مگر الٰہی علیم خبیر نے مجھے یہ ساراماجرا بتایا ہے یہ تو ہوا خانہ نبوی کا قصہ جو تم کو تعلیم کے لئے سنایا گیا ہے تاکہ تم مسلمان راز گوئی اور رازداری میں احتیاط کیا کرو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیوی زینب کے گھر میں جاتے تو وہ آپ کو شہد پلاتی۔ دوسری بیویوں نے اسپر رشک کر کے حضور سے عرض کیا کہ آپکے دہان مبارک سے موم کی بدبو آتی ہے۔ آپ کو یقین ہوا کہ یہ بدبو شہد پینے کا اثر ہے۔ آپ کو طبعی طور پر بدبو سے نفرت تھی اس لئے آپنے فرمایا میں قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ شہد نہیں پیونگا اسپر یہ سورۃ نازل ہوئی (بخاری) ! شیعہ سنی میں فیصلہ :۔ اس آیت کے شان نزول میں شیعوں کی معتبر تفسیر عسکری میں ایک روایت یوں درج ہے۔ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لحفصۃ ان ابا بکر یلی الخلافہ بعدی ثم من بعدہ ابوک (عمر) (تفسیر عسکری) سورۃ تحریم ترجمہ : کہ آنحضرت نے جو پوشیدہ بات اپنی بیوی حفصہ کو بتائی تھی۔ وہ یہ تھی کہ میرے بعد ابوبکر خلافت کا والی ہوگا پھر تیرا باپ (عمر) خلیفہ ہوگا یہ ایک راز تھا جو بیوی نے ظاہر کردیا تھا جس کے حق میں ارشاد پہنچا۔ واذا اسر النبی الی بضع ازواجہ حدیثا اسکی تائید دوسری تفسیر میں یوں ملتی ہے۔ اخبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حفصۃ انہ یملک بعدہ ابو بکر و عمر (تفسیر مجمع البیان شیعہ مطبوعہ ایران زیر ایت لم تحرم) ترجمہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیوی حفصہ کو مخفی بتایا تھا کہ میرے بعد ابو بکر اور عمر والی خلافت ہونگے۔ یہ دونوں روائتیں۔ معتبر کتب شیعہ کی ہیں جو سنی روایات کے مطابق ہو نیکی وجہ سے مسئلہ خلافت شیخین میں فیصلہ کن ہیں فافہم ولا تکن من القاصرین۔ منہ التحريم
4 اب ہم اس راز افشا کرنے والی اور دوسری سن کے آگے کہنے والی دونوں کو مخاطب کر کے حکم دیتے ہیں اے نبی کی بیویو ! اب تم اپنا حال سنو ! تم میں سے ایک وہ جس کو نبی نے راز بتایا تھا دوسری وہ جس کو اس بیوی نے راز بتایا اور اس نے شائع کیا تم دونوں بیویاں اس غلطی سے توبہ کرو (تو تم کو مناسب ہے) کیونکہ تمہارے دل اس غلط کاری سے بگڑ چکے ہیں اور اگر بفرض محال اس (رسول) کے خلاف منشا سازشیں کرو گی تو اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گی کیونکہ اللہ خود جبرئیل فرشتہ اور جملہ نیک ایماندار لوگ اس کے ہوا خواہ اور محب ہیں علاوہ ازیں تمام فرشتے اپنی اپنی حیثیت میں اس کے مددگار ہیں التحريم
5 اللہ اور ایماندار مسلمانوں کی خیر خواہی اور نصرت کا حال سنو ! بفرض محال اگر پمبرفر تم کو طلاق دے دے تو تمہارے بدلہ میں اللہ بہت جلد اس کو ایسی بیویاں دے گا جو بالخصوص رازداری میں تم سے بہتر ہوں گی فرمانبردار ایماندار اللہ کے سامنے عاجزی سے دعا کرنے والیاں غلطیوں سے توبہ کرنے والیاں روزے رکھنے والیاں بیوہ اور باکرہ غرض اللہ ہر قسم کی عورتیں نبی کو دے گا۔ جن سے تمہاری ضرورت اس کو نہ رہے گی کو نکہ رسول پر الٰہی فضل خاص ہے اللہ اس کو تمہارا محتاج نہ رکھے گا بلکہ کسی کا بھی نہیں۔ التحريم
6 خیر یہ تو ہوا واقعہ خاندان رسالت کا اے مسلمانو ! اب اپنے متعلق ہدایت سنو ! خانگی حکموں میں اہم حکم یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین بیوی بچوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن برے آدمی اور پتھر ہیں یعنی وہ ایسی تیز ہے کہ آدمی اور پتھر اس میں پتھر کے کوئلوں کا کام دیں گے خود بھی جلیں گے اور اس کو بھی تیز کریں گے اس پر نگرانی کرنے والے فرشتے بڑے تند خو سخت مزاج ہوں گے جو اللہ کے حکموں کی کسی حالت میں بے فرمانی نہ کریں گے اور جو ان کو حکم ہوگا وہی کریں گے التحريم
7 یہ جو ذکر ہوا ہے کہ اس نار جہنم کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ان آدمیوں سے مراد کافر لوگ ہیں نہ مومن یعنی کافر جب اس آگ میں ڈالے جائیں گے تو ہائے وائے اور عذر معذرت کریں گے ان کو جواب میں انہی مذکورہ فرشتوں کی زبانی کہا جائے گا اے کافرو آج تم عذر معذرت نہ کروکیونکہ تمہارا عذر معذرت معقول نہیں ہاں یہ یقین رکھو کہ تم پر ظلم نہ ہوگا بلکہ جو کچھ تم دنیا میں کیا کرتے تھے اسی کا بدلہ تم کو ملے گا التحريم
8 پس اے ایمان والو ! سنو ہم تم کو اصل کام بتاتے ہیں جو بعد الایمان تم پر فرض واجب ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی جناب میں صاف دل سے متوجہ رہو اس کا بدلہ تم کو یہ ملے گا کہ بہت جلد تمہارا پروردگار تمہاری غلطیاں تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ سب کچھ اس روز ہوگا جس روز اللہ اپنے اس نبی کو اور اس کے ساتھ والے ایمانداروں کو حسب وعدہ شرمندہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے تمام وعدے پورے کرے گا ایسے کہ ان کا نور جو ان کے ایمان کا اثر ہوگا ان کے آگے آگے اور دائیں (بائیں) چلتا ہوگا وہ ایماندار اس وقت کہیں گے اے اللہ ہمارا نور پورا کر یعنی جہاں تک ہمیں پہنچا ہے ہم کو اس کی ضرورت ہے وہاں (جنت) تک اس کو ہمارے ساتھ رکھو اور وعدہ سابقہ کے تحت ہمارے گناہ معاف فرما بے شک تو ہر کام پر قدرت رکھتا ہے التحريم
9 یہ تو اس روز ایمانداروں کی حالت ہوگی لیکن اے نبی یہ کیفیت اور یہ عزت یونہی نہیں مل جائے گی بلکہ چند افعال تم کو کرنے ہوں گے سب سے پہلے تو ایمان ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے اس کے بعد رجوع الی اللہ ہے وہ بھی مذکور ہوچکا اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ ہے پس تم بوقت ضرورت کافروں اور منافقوں سے ان کے حسب حال جہاد کیا کرو اور ان کے سامنے مضبوط رہا کرو کسی طرح تم سے سستی دیکھنے میں نہ آئے اور نہ عند الضرورت ان سے منہ پھیرو بلکہ یہ سمجھو کہ دنیا میں وہ تمہارے مفتوح ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ واپسی کی بہت بری جگہ ہے التحريم
10 (10۔12) سنو ! کافروں کا گھمنڈ ہے کہ وہ مالدار ہیں معزز ہیں اشراف ہیں اللہ ان کو عذاب نہیں کرے گا یہ خیال ان کا غلط ہے کفر ایسابدفعل ہے کہ نبی کا قریبی تعلقدار رات دن جان وجگر کی طرح ساتھ رہنے والا بھی کفر اختیار کرے تو وہ بھی نہیں بچ سکتا غور کرو اللہ تعالیٰ کافروں کے سمجھانے کے لئے حضرت نوح نبی اور لوط نبی کی عورتوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے جو دونوں ہمارے یعنی اللہ کے نیک بندوں کے ماتحت بطور بیویوں کے تھیں ان نبیوں کے ساتھ رات دن کا تعلق تھا پھر انہوں نے ان کی شرعی احکام میں بے فرمانی کی اور بجائے توحید کے شرک اور بجائے ایمان کے کفر اختیار کیا پس وہ دونوں نبی ان سے اللہ کا عذاب کچھ بھی نہ ہٹا سکے ان کی موجودگی میں وہ ہلاک ہوگئیں اور اللہ کی طرف سے ان دونوں عورتوں کو کہا گیا کہ جہنم کی آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ ہی تم بھی داخل ہوجائو سن لاک کفر کا انجام اب سنو ایمان کا۔ ایمان کہیں بھی ہو اپنا اثر دکھاتا ہے کوئی زبردست سے زبردست بھی اس کے اثر کو روک نہیں سکتا چاہے کوئی کتنا ہی ضعیف کسی زبردست کے ماتحت ہو اس کا ایمان اس کو ثمرہ دیتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی بشارت کے لئے فرعون جیسے جابر بادشاہ کی بیوی آسیہ (رض) کی مثال پیش کرتا ہے کہ دیکھو وہ فرعون کی الٰہی سے منکر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی اس پر فرعون نے اس کو سخت سے سخت عذاب دئیے مگر وہ صابرہ ہر تکلیف پر صبر کرتی رہی یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب اس نے آخری وقت میں سخت تکلیف پر دعا کرتے ہوئے کہا اے میرے رب مجھے یہ فرعونی محلات ناخوش گوار ہیں تو مجھے ان سے نکال اور اپنے پاس جنت میں میرے لئے گھربنا یہ لا تھنوا ولا تخرنوا کی طرف اشارہ ہے واغلظ کے معنی سخت کلامی اور بدگوئی نہیں کیونکہ آنحضرتﷺنے کبھی بدگوئی نہیں کی اور جنگ میں سخت کلامی یا بدگوئی کچھ مفید بھی نہیں وہاں تو قوت بازومفید ہے اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا ولیجدوا فیکم غلظۃ تم مسلمان ایسے یکدل ہو کر جہاد کیا کرو کہ غیر مسلم تم میں پختگی پائیں “۔ یہی پختگی یہاں مراد ہے۔ منہ اور مجھے ظالم فرعون اور اس کے ظالم عملے سے نجات دے جو مجھ پر ظلم کر رہے ہیں اور مجھ کو اس ظالم قوم قبط سے چھڑا میں ان کا منہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی اسی طرح اور اللہ نے ایک پاک دامن عفیفہ معصومہ مریم بنت عمران کو (بطور مثال کے پیش کر) جس کو ظالموں نے طرح طرح سے بدنام کیا اس کی پاک دامنی پر سیاہ دھبہ لگانا چاہا حق یہ ہے کہ اس ایماندار پاکدامن نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا تو ہم (اللہ) نے اس مریم کے اندر اپنی طرف سے زندگی کی روح پھونکی یعنی اس کے رحم میں بقدرت کاملہ بچہ پیدا کیا جس کا نام عیسیٰ بن مریم تھا چنانچہ وہ پیدا ہوا تو مخالفوں کے طعن کے جواب میں مریم نے اسی بچہ کی طرف اشارہ کر کے کہا اسے پوچھ لو یہ کیسے پیدا ہوا ہے اس بچے نے ان کو معقول جواب دئیے پس مخالف یہودیوں کے مطاعن غلط سمجھو کیونکہ مریم عفیفہ پاکدامن تھی اور اس نے اپنے رب کے احکام اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اللہ کے فرمانبرداروں میں تھی۔ پس تم اس کی نسبت کسی قسم کی بدگمانی نہ کرو ورنہ اللہ کے راست باز بندوں کے حق میں بد گو سمجھے جائو گے۔ یہودیوں نے حضرت صدیقہ مریم پر بہتان لگائے ان کے بیٹے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ناجائز مولود کہا قرآن مجید میں ان کے اس قول کو لعنت کاموجب فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہے وقولھم علی مریم بھتانا عظیما (یہودیوں کے مریم پر بہتان لگانے کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی)۔ یہودیوں کے اس فعل پر جو ناراضگی چاہیے تھے وہ اللہ نے قرآن مجید میں کی مگر آج ہمارے ملک میں ایک جماعت ہے جو قرآن مجید کو کلام اللہ مانتے ہے اور اپنا نام احمدی مسلمان رکھتی ہے ان کا عقیدہ بھی اس بارے میں یہی ہے کہ حضرت (علیہ السلام) معاذ اللہ ازروئے شریعت (معاذ اللہ) ناجائز مولود تھے چنانچہ اس جماعت کے رہبر (مرزا غلام احمد صاحب قادیانی) مریم صدیقہ کے حق میں لکھتے ہیں۔ ” افاغتہ مثل یہود فرقے میان نسبت ونکاح نہ کردہ دختران ازملاقات ومخالطت بامنسوب مضائیقت نگیر ند مثالا اختلاط مریم صدیقہ بامنسوب خویش (یوسف) وبمعیت دی خارج بیت گردش نمودن شہادۃ حقہ برایں رسم است عضے ازقبائل خواتین جبال قبل ازاجراء مراسم نکاح آبستنی شدہ دعادۃ محل عاروشنار قوم مگر دیدہ اغماض واعراض ازاں میشود چایں مردم ازماسی یہود نسبت رادر رنگ نکاح داشتہ تعیین کا بین ہم دراں میکنند“ (کتاب امام الصلح فارسی مصنفہ مرزا صاحب قادیانی ٦٥) اس عبارت کا مختصر ترجمہ یہ ہے کہ یہودیوں میں دستور تھا کہ بعد نکاح محض منگنی کی حالت میں دلہا دلہن باہم ملاپ کرلیا کرتے تھے مریم صدیقہ کی حالت ویسی تھی جو اپنے منسوب (یوسف) کے ساتھ منگائی کیحالت میں قبل نکاح ہی ہمبستر ہوئے اس سے اس کو حمل ہوا جو مسیح کے نام سے پیدا ہوا۔ اس مضمون کی اچھی طرح تشریح دوسری کتاب ” کشتی نوح میں مرزا صاحب نے کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں۔ ” مریم کی وہ شان ہے کہ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کرلیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں توڑا گیا اور تعددازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں اس صورت میں وہ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔ (کشتی نوح ص ١٦) ناظرین کرام ! اس سیدھی سادھی عبارت کا مطلب آپ سمجھ گئے ہونگے (بقول مرزا صاحب) مریم کو قبل ازنکاح حمل ہوگیا اس لئے بغرض پردہ پوشی صدیقہ کا نکاح کیا گیا۔ جیسے آجکل بھی کسی حاملہ لڑکی کی پردہ پوشی کی نیت سے نکاح کردیتے ہیں۔ ان دونوں عبارتوں کے ملانے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح (بقول مرزا صاحب قادیانی) شرعی اصطلاح میں ناجائز مولود تھے صدق اللہ تعالیٰ وقولھم علی مریم بھتانا عظیما نعوذ باللہ ان یقول بہ احد من المسلمین۔ منہ حدیث شریف میں ہے قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سورۃ فی القران ثلثون ایۃ شفعت لرجل حتی غفرلہ وھی تبارک الذی بیدہ الملک رواہ احمد۔ ترمذی۔ ابو دائود۔ نسائی۔ ابن ماجہ۔ ترجمہ :۔ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قرآن مجید میں ایک سورت تیس آیات کی ہے وہ اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرتی رہے گی۔ یہاں تک کہ اسے بخشا جائے گا۔ وہ سورۃ تبارک ہے۔ ایک حدیث میں ہے عن ابن عباس قال ضرب بعض اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خباءہ علی قبر وھو لا یحسب انہ قبر فاذا فیہ انسان یقرء سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک حتی ختمہا فاتی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاخبرہ فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھی المانعۃ ھی المنجیۃ تنجیہ من عذاب اللہ رواہ الترمذی ترجمہ۔ یعنی ابن عباس (رض) نے کہا کہ بعض اصحاب نے بے خبری میں ایک قبر کی جگہ پر خیمہ لگایا تو سنا کہ ایک انسان سورۃ تبارک الذی پڑھتا ہے یہانتک کہ اس نے سورۃ ختم کرلی اس خیمہ لگانیوالے شخص نے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا حضور نے فرمایا یہ سورۃ عذاب سے مانعہ ہے نجات دینے والی ہے اس پڑھنے والے کو (چونکہ وہ دنیا میں روزانہ اسے پڑھتا تھا) اللہ کے عذاب سے نجات دلائے گی۔ بعد نماز عشاء ہر روز اس سورۃ کو پڑھنا چاہیے۔ نوٹ۔ پڑھنے والا تو عالم ارواح میں تھا مگر آواز قبر سے آتی تھی جیسے فون میں بات کرنیوالا تو کہیں دورہوتا ہے مگر آواز یہاں فون سے آتی ہے۔ اللہ اعلم۔ منہ التحريم
11 التحريم
12 التحريم
0 الملك
1 بڑی برکت والا وہ اللہ جس کے قبضے میں تمام ملک کی حکومت ہے اور وہ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے فنا کردیتا ہے الملك
2 (2۔4) وہی ہے جس نے ہر چیز کے لئے موت اور حیوٰۃ مقرر کی ہے اور تم بنی انسان کو پیدا کیا ہے تاکہ اللہ تم کو جانچے یعیل اظہار کر دے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرنے والا ہے مطلب یہ کہ تمہاری زندگی کا مقصد اعمال صالحہ کرنا ہے دگر ہیچ اور وہ اللہ بڑا غالب بڑی بخشش والا ہے پس اگر کوئی انسان اس کی ہدایت کے ماتحت اعمال صالحہ نہیں کرے گا تو تباہ ہوگا چاہے کتنا ہی معزز اور مؤقر ہو اللہ کی عزت کے سامنے اس کی ایک نہ چلے گی اور اگر کوئی شخص غلطی کے بعد توبہ کرے گا اللہ کی بخشش سے حصہ وافر پائے گا سنو وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان تہہ بتہہ پیدا کئے اس کے سوا اور بھی ہزارہا قسم کی مخلوق پیدا کی کیا تم اللہ رحمن کی خلق میں کچھ فتور پاتے ہو جس قانون پر دنیا کو چلایا ہے اس میں کوئی قصور ہوتا ہے سورج چاند ستارے وغیرہ جس نہج پر چلائے ہیں اس میں کبھی کوئی خلل آیا ہے ذرہ اپنی نظر لوٹائو اور دیکھو کیا تمہیں فتور نظر آتا ہے پھر بار بارنظر لوٹاؤ اور دیکھو کہ صنعت الٰہی میں کوئی فتور تم کو دکھائی دیتا ہے ہرگز نہیں جتنا دیکھو گے نظر تمہاری طرف تھکی ماندی مطلب یابی میں ہاری واپس آئے گی الملك
3 الملك
4 الملك
5 سنو ! ہم اپنی صنعت تم کو دکھاتے ہیں دیکھو ہم نے چراغوں یعنی ستاروں کے ساتھ ورے آسمان کو مزین کیا ہے تم رات کے وقت دیکھتے ہو کیسے چمکتا ہے اور ستارے قندیلوں کی طرح لگے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ان ستاروں کو کئی ایک فائدوں کے لئے پیدا کیا ہے منجملہ ایک یہ ہے کہ ہم نے ان کو شیاطین کے لئے دھتکار بنایا ہے یعنی شیاطین جب آسمان کی طرف چڑھ کر ملائکہ کی گفتگو سننا چاہتے ہیں تو ان ستاروں کی تاثیر سے ہٹ جاتے ہیں جیسے آگ یا بجلی کی حرارت مانع ہوتی ہے اور ہم نے ان شیطانوں اور ان کے اتباع کے لئے آگ کا عذاب جہنم میں تیار کر رکھا ہے الملك
6 (6۔12) انہی کے لئے نہیں بلکہ ان کے اور ان کے اتباع میں ان لوگوں کے لئے بھی جو اپنے رب کی ذات یا صفات یا احکام سے منکر ہیں ان کے لئے بھی جہنم میں آگ کا عذاب ہے اور وہ بری جگہ ہے جب وہ لوگ اس میں ڈالے جائیں گے اس دوزخ کی بڑے زور کی آواز سنیں گے جو جوش اور تیزی کی حالت میں آگ سے نکلا کرتی ہے کیونکہ وہ جوش مارتی ہوگی ایسی جوش مارے گی کہ سننے والے کو اندیشہ ہوگا کہ مارے جوش کے پھٹ نہ جائے یعنی جہنم جو چار دیواری کی وجہ سے ایک محاط مکان کی صورت میں بنی ہوگی جوش نار سے اس کا پھٹنا قریب الفہم ہوگا جب کبھی کوئی جماعت اس میں ڈالی جائے گی تو اس دوزخ کے داروغے ان سے پوچھیں گے تم جو بدکاریوں میں مبتلا رہے جن کی وجہ سے تم یہاں ٹھہرائے گئے کیا تمہارے پاس کوئی سمجھانے والا نہیں آیا تھا عقلمند کا کام تو یہ ہے کہ سمجھانے والے کی سنے اور عمل کرے سمجھانے والے آئے تو ضرور ہوں گے پھر کیا بات ہے کہ تم کو اتنی سخت سزا ملی ہے وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں واقعی سمجھانے والے آئے تھے مگر ہم نے ان کی تکذیب کی اور ایک نہ سنی ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت کے لئے کبھی کوئی کتاب نہیں اتاری اسے کیا ضرورت کہ وہ وحی بھیجے رسول بنائے اس نے انسان کو عقل کامل دے رکھی ہے بس یہی عقل انسان کی رہنمائی کو کافی ہے اے سمجھانے والو تم بہت بڑی غلطی میں ہو جو لوگوں کے سامنے دعویٰ رسالت اور ادعاء نبوت کرتے ہو یہ بھی کہیں گے کہ اگر ہم ان کی سنتے یا عقل خداداد سے کام لیتے جس کو ہم نے چھوڑ دیا تھا تو آج ہم اس آگ والوں میں نہ ہوتے پس دیکھو اس سوال وجواب میں وہ اپنے گناہوں کے معترف ہوگئے سو ایسے جہنمیوں کے لئے جو اقراری مجرم ہیں الٰہی رحمت سے دوری ہو اللہ ایسوں کو نہ بخشے ہاں جو لوگ بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے بخشش کا حصہ اور بڑا اچھا بدلہ ہے الملك
7 الملك
8 الملك
9 الملك
10 الملك
11 الملك
12 الملك
13 (13۔14) یہ مت سمجھو کہ اللہ کو نیک وبد بتانے کی ضرورت ہے اور وہ کسی مخبر کے ذریعہ سے وہ اطلاع پاتا ہے نہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ کا علم اتنا وسیع ہے کہ تم اپنی بات آہستہ کہو یا پکار کر کہو اللہ کو سب معلوم ہے کیونکہ وہ سینوں کے راز بھی جانتا ہے سنو ! جو سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اس کی خالقیت کی صفت اس کے علم کی متقاضی ہے یعنی خالق کل علیم کل ہونا ضروری ہے اور وہ بڑا باریک بین ساری مخلوق کے حال سے باخبر ہے الملك
14 الملك
15 غور سے سنو جس اللہ کی طرف اے نبی تم ان لوگوں کو بلاتے ہو وہ اللہ وہی ہے جس نے زمین کو ہموار نرم پیدا کیا ایسی کہ چاہو تو اس پر مکان بنا لو چاہو تو کھیتی کر لوسفر کرنے کی ضرورت ہو تو سفر بھی کرو۔ بس تم اس زمین کے کناروں اور اطراف میں پھرو اور زمین کی پیداوار میں سے اس اللہ کا دیا ہوا رزق کھائو اور رزق کھاتے ہوئے تکبر اور غرور نہ کرو بلکہ دل میں جانو کہ بعد موت تم کو اسی کی طرف جانا ہے پھر جو کچھ تم نے یہاں کام کئے ہوں گے وہاں ان کا بدلہ پائو گے نیک کا نیک بد کا بد پس تم کو چاہیے کہ ابھی سے اللہ کے ساتھ اچھا تعلق رکھو یعنی ہر کام میں اس سے ڈرتے رہو الملك
16 کیا تم اس ذات پاک سے بے خوف ہو جو آسمان اور زمین میں حکومت کرتا ہے اس سے کہ تم بنی انسان سب کو زمین میں دھنسانے کا حکم دے پھر وہ زمین اس حکم کی تعمیل میں تیزی کے ساتھ ہلنے لگ جائے اور ہلتے ہلتے تم کو اپنے اندر لے لے جیسے زلزلے کے وقت ہوتا رہا اور ہوتا ہے الملك
17 اچھا تو کیا تم اس ذات پاک سے بے خوف ہو جو آسمان اور زمین میں حکومت کرتا ہے اس سے کہ وہ تم پر اپنے حکم سے پتھرائو کر دے پھر تم جان لو کہ میرا یعنی اللہ کا ڈرنا کیسا رہے گا الملك
18 اے مسلمانو اور ایک نصیحت کی بات سنو ! ان مکذب لوگوں سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تھی مثلا قوم نوح‘ قوم لوط‘ عاد‘ ثمود وغیرہ نے انبیاء کرام کی مخالفت اور تکذیب کی پھر میری (یعنی اللہ کی) ناراضگی ان پر کیسی ہوئی ایسی کہ سب کو تباہ کردیا آج ایک بھی ان میں سے نظر نہیں آتا الملك
19 کیا اللہ کے قبضہ قدرت کا ثبوت معلوم کرنے کو یہ لوگ اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھتے جو صفیں باندھ کر پروں کو بند کئے ہوئے چلتے ہیں وہ باوجود وزنی ہونے کے گرتے کیوں نہیں اس لئے کہ اللہ رحمن ان کو گرنے سے روکتا ہے یعنی اس نے ان کو یہ طاقت بخشی ہے اور اسی نے ہوا میں یہ قوت رکھی ہے کہ ان کو تھامے رکھے بے شک اللہ پیدا کرنے کے بعد ہر چیز کو دیکھ رہا ہے الملك
20 (20۔22) لطف یہ ہے کہ آہستہ آہستہ پوچھو تو یہ مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ واقعی ایسی بلکہ اس سے بھی زیادہ قدرت رکھتا ہے تاہم وہ اس شاہ راہ سے منحرف ہوجاتے ہیں ان سے پوچھ تو سہی کہ کون ایسا شخص ہے جو خدا سے ورے تمہارا حمائتی بن کر تمہاری مدد کرے سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں پس یہ منکر لوگ ایسا خیال کرنے میں سراسر دھوکے میں ہیں وہمی باتوں کے پیچھے جا رہے ہیں پتھروں اور اینٹوں کی بنی ہوئی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں ان سے پوچھو کہ بھلا بتائو تو سہی کہ اگر اللہ اپنا رزق تم سے بند کرلے اوپر سے بارش نہ کرے یا زمین سے پیدا نہ کرے تو اس کے سوا کون ہے جو تم لوگوں کو رزق دے حقیقت میں کوئی نہیں بلکہ یہ منکر لوگ اس سے انکار کر کے سرکشی اور حق سے نفرت کرنے پر اڑے ہوئے ہیں جبکہ اصلیت یہی ہے جو ذکر ہوئی ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی میں طاقت ہے نہ کوئی تمہارا حاجت روا اور مشکل کشا ہے پس جو لوگ اس حقیقت پر ہیں وہ تو ہدایت یاب ہیں اور جو اس سے ہٹے ہوئے ہیں وہ گمراہ ہیں ان مشرکوں سے پوچھو کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل اوندھا چلتا ہے وہ زیادہ ہدایت یاب اور قدرتی طریق پر چلنے والا ہے یا وہ جو سیدھا سروقد سیدھی راہ پر چل رہا ہے اس میں کیا شک ہے کہ دوسرا شخص ہی ہدایت یاب اور سیدھی راہ پر ہے بس وہی ایماندار ہے کیونکہ وہ ہر اس چیز کو مانتا ہے جو اللہ کی قدرت کا اظہار کرتی ہے سب سے پہلے اس کا اس بات پر یقین ہے کہ ہم انسانوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے الملك
21 الملك
22 الملك
23 (23۔30) تم اے نبی کہو میں اصل بات تم کو بتائوں جس پر تمام دنیا کا اتفاق ہے سنو ! میرا معبود وہی ہے جس نے تم کو اور مجھ کو پیدا کیا اور تمہارے اور ہمارے لئے سمع سننے اور دیکھنے کی قوۃ پیدا کی اور ہر جاندار میں دل بنائے جن سے ان کی زندگی ہے تاہم تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو بھلا یہ بھی شکر ہے کہ یہ سب نعمتیں تو دیں اللہ نے اور تم لوگ عبادت کرتے ہو غیر اللہ کی جو صریح شرک ہے اے نبی ان کو کہو کہ وہی اللہ میرا اور تمہارا معبود ہے جس نے تم کو زمین پر آباد کیا اور بروز قیامت تم لوگ اس کے پاس جمع کئے جائو گے اور اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ پائو گے دیکھو ان کی ضد اور جہالت کہ جزا اور یوم جزا کا ذکر سنکر ڈرتے نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ یوم وعدہ جس کا تم ذکر کرتے ہو کب ہوگا اگر تم سچے ہو تو بتائو ہم اس روز تمہارا صدق وکذب جانچیں گے تاکہ اظہار کرسکیں کہ تم سچے ہویا جھوٹے تم اے نبی ان کو کہو کہ اس کا جواب دینا علم غیب پر موقوف ہے جو مجھ میں نہیں واقعہ سوائے اس کے نہیں کہ اس وعدہ قیامت کا بلکہ ہر چیز کا علم اللہ ہی کو ہے اور بجز اس کے نہیں کہ میں صاف صاف سمجھانے اور برے کاموں پر ڈرانے والا ہوں پس یہ کہہ کر تم خاموش ہوجائو وہ وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ اس وعدہ قیامت کو سامنے قریب دیکھیں گے تو جو لوگ اس سے منکر ہوں گے ان کے چہرے مارے غم اور غصہ کے جھلسے جائیں گے اور کہیں گے کہ ہائے یہ کیا مصیبت ہے اور اللہ کی طرف سے فرشتوں کی زبانی کہا جائے گا یہی وہ یوم وعدہ ہے جو تم طلب کیا کرتے تھے یہ لوگ جو تمہیں کہتے اور دھمکاتے ہیں کہ تم لوگ تباہ اور برباد ہوجائو گے تمہیں کوئی جانے گا بھی نہیں تمہیں کوئی یاد نہ کرے گا تم اے نبی ان کو کہو بھلا بتائو تو اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اگر ہلاک کر دے تباہ کر دے یا رحم فرمائے جو اس کا جی چاہے کرے وہ ہمارا مالک ہے ہم اس کے مملوک تم یہ بتائو کہ کافروں کو جب سزا ملنے کا وقت ہوگا تو ان کو سخت عذاب سے کون چھڑائے گا اللہ کے حکم سے تو عذاب آئے گا لہذا وہ تو چھڑائے گا نہیں۔ ہاں تم اپنا عقیدہ بتانے کو کہہ دو کہ سنو جی ہمارا ایمان اور اعتقاد ہے کہ وہ اللہ بڑا رحمن رحم کرنے والا ہے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے وہ ہمیں جس حال میں رکھے گا ہمیں گلہ نہیں پس تم جو ہمارے ساتھ اس بارے میں رات دن جھگڑتے ہونیک وبد کا انجام دیکھ کر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون صریح اور کھلی گمراہی میں ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اصل حقیقت جان لو گے تم اے نبی ان مشرکوں سے پوچھو کہ تم لوگ جو اللہ کے سوا بے انت وبے انتہا معبود بناتے ہو بتلائو تو اگر تمہارا پانی جو اللہ تم کو بذریعہ بارش دیتا ہے جسے تم پیتے اور کھیتوں اور مویشیوں کو پلاتے ہو زمین میں دھنس کر خشک ہوجائے تو کون ہے جو تم کو پانی جاری کے چشمے لا دے کوئی نہیں کیا تم نے نظامی شاعر کا شعر نہیں سنا۔ نہ بارد ہوا تانگوئی ببار زمین نادرد تانگوئی بیار الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 الملك
28 الملك
29 الملك
30 الملك
0 القلم
1 (1۔16) میں (اللہ) رحمن ہوں میری رحمانیت کے تقاضا سے تجھے اے رسول قرآن ملا اور تو نبی ہوا تیرے مخالف تیرے حق میں غلط کہتے ہیں تو پاگل ہے مجنون ہے۔ ہرگز نہیں قسم ہے قلم اور ہر اس چیز کی جو قلم کے ساتھ لوگ لکھتے ہیں تو اللہ کے فضل سے مجنون نہیں ہے بھلا مجنون اور پاگل تیرے جیسے ہوتے ہیں مجنون اور ہوشیار میں ایک ہی بین فرق ہوتا ہے کہ مجنون کی حرکات منظم نہیں ہوتیں اس لئے اس کے قول وفعل پر نتیجہ مرتب نہیں ہوسکتا تیری بابت تو ہم شہادت دیتے ہیں کہ تیرے کاموں پر تیرے لئے ایسا دائمی بدلہ ہے جو ختم نہ ہوگا کیونکہ تیری تعلم کا سلسلہ آخر زمانہ تک جاری رہے گا اور تیری حرکات کی تنظیم کا یہ حال ہے کہ تو اعلیٰ خلق پر قائم ہے یہ نہیں کہ گاہے ما ہے کوئی خلق کی بات تجھ سے ہوجائے نہیں بلکہ دائمی اور مستقل تجھ سے اخلاقی باتیں ہوتی رہتی ہیں پس صریح حالت دیکھ کر بھی جو تجھے مجنون کہے وہ خود مجنون نہیں تو کیا ہے اچھا تو بھی دیکھیگا اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ تم فریقین میں سے کس کو جنون ہے یعنی کس کا انجام بخیر اور کامیاب ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے اور کون نامراد باقی رہا کسی مخالف فریق کا دوسرے کو گمراہ کہنا سو تو اس کی فکر نہ کر یقینا تروا پروردگار ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ ہدایت یا بوں سے بھی خوب واقف ہے پس تو اس سے بے فکر ہو کر اپنے اداء فرض میں لگا رہ تیرے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ تو اللہ کے کلام کو جھٹلانے والوں کا کہا نہ مانو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ تبلیغ احکام میں تھوڑا سا تو نرم ہوجائے یعنی شرک اور بت پرستی کی تردید زیادہ زور سے نہ کرے۔ تو وہ بھی مخالفت زیادہ زور سے نہ کریں گے بلکہ نرم پڑجائیں گے خبردار جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل وخوار آپس میں ایک دوسرے کے برخلاف اکسانے والے ادھر ادھر لگانے والے کارخیر کو یعنی اصلاح ذات البین کو روکنے والے انسانی اخلاق کی حد سے تجاوز کرنے والے بدکار طبیعت کے اکھڑ اور علاوہ ازیں بدخمیر انسان کی بات کبھی مت مانو کیونکہ بحکم کل اناء یترشح بما فیہ ایسے لوگ وہی کہیں گے جو یہ خود کرتے ہیں اور جو ان کا رویہ ہے جیسے تیرے زمانہ میں ایسے لوگ ہیں آئندہ بھی ہوں گے اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ جب ہمارے احکام اس کو سنائے جاتے ہیں تو بوجہ مالدار اور صاحب اولاد ہونے کے تسلیم احکام سے انکار کرتا ہوا کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ان کو وحی الٰہی سے کیا تعلق کہیں موسیٰ اور فرعون کا قصہ ہے کہیں آدم اور شیطان کا ذکر ہے کہیں کچھ ہے تو کہیں کچھ ایسے شخص کو چاہے اس زمانہ میں ہے یا آئندہ ہوگا ہم اس کی ناک پر داغ لگائیں گے یعنی اس کو برادری میں بلکہ ساری دنیا میں ذلیل اور نامراد کریں گے ایساکہ ہر کہہ ومہ جائے گا کہ یہ نامراد ہے (اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید میں جو الفاظ آئے ہیں یہ تمثیل ہیں جو ہر زمانے کے ایسے لوگوں پر صادق آتے ہیں جو ان اوصاف سے موصوف ہوں اس لئے تعلیم عام ہے اسکی ناک پر نشان لگانے سے مراد اس کی نامرادی اور ناکامی ہے یعنی جو جو منصوبے وہ اسلام اور نبی اسلام کے برخلاف دل میں رکھتا ہے ان سب میں وہ ناکام رہے گا۔ زمانہ رسالت میں ان اوصاف سے موصوف ایک شخص تھا جس کا نام ولید بن مغیرہ تھا بعد کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اللہ اعلم۔ ) القلم
2 القلم
3 القلم
4 القلم
5 القلم
6 القلم
7 القلم
8 القلم
9 القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 (17۔33) کچھ شک نہیں کہ ہم (اللہ) نے ان مشرکین عرب کو مال واسباب اور سامان آسائش وغیرہ دے کر اس طرح جانچا ہے جیسے ایک باغ والوں ! کو جانچا تھا۔ یعنی جس طرح اپنے چند روزہ عیش و آرام پر وہ مغرور ہوئے تھے اسی طرح یہ بھی مغرور ہیں سو جیسا ان کا انجام ہوا تھا ان کا بھی ہوگا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ان باغ والوں کی نیت تبدیل ہوئی تو خیرات نہ کرنے کی ان کو سوجھی اس پر ان کے باغ کی تباہی ہوئی یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ کل صبح سویرے ہی اس باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ اس ارادے میں کسی طرح کا استثناء نہ کرتے تھے یہاں تک کہ انشاء اللہ بھی نہ کہتے تھے ادھر انکا ارادہ ہوا ادھر اللہ کا حکم جاری ہوا تو ان کے سوتے سوتے ہی تیرے رب کی طرف سے تباہ کرنے والا حکم اس باغ پر پہنچ گیا پس وہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی صبح کو برباد ہوچکا تھا مگر ان کو اطلاع نہ تھی پھر ان لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق صبح سویرے ایک دوسرے کو بلایا کہ اپنی کھیتی اور باغ میں چلو اگر اس کو کاٹنے کا ارادہ رکھتے ہو (ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ باغ یمن میں تھا ایک شخص دیندار اس کا مالک تھا اس کے مرنے کے بعد تین بیٹے وارث ہوئے مورث کی زندگی میں غربا مساکین کا بھی اس میں حصہ ہوتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے وارثوں نے خیرات کا حصہ بند کردیا۔ اس خیال سے کہ ہمارا عیال زیادہ ہے ہم اتنی خیرات کرنے کے متحمل نہیں چنانچہ اس خیال پر پختہ ہو کر صبح سویرے باغ کا پھل کاٹنے کو نکلے تو باغ کو اس حال میں پایا جس کا ذکر آیات میں ہے۔ (ماخوذازمعالم) تو یہی وقت موزوں ہے پس وہ اس خوف سے چھپ چھپ کر صبح سویرے چلے کہ اس باغ میں آج بھی کوئی مسکین تمہارے پاس نہ پہنچ جائے چنانچہ اسی خیال کو لے کر وہ صبح سویرے پھل کاٹنے کے لئے پختہ ارادہ اور قوت کے ساتھ نکلے وہاں کیا تھا وہم وگمان کے خلاف باغ اجڑ چکا تھا پس جب انہوں نے اس باغ کو اجڑا ہوا دیکھا تو اپنے تصور کے خلاف پاکر بولے کہ یہ تو وہ باغ نہیں ہے یقینا ہم راہ بھول گئے ہیں پھر ادھر ادھر دیکھ بھال کر کہا بھولے نہیں بلکہ ہم اس باغ کے فوائد سے محروم کئے گئے ہیں ان مالکوں میں اچھی سمجھ والا بولا کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ صبح سویرے اٹھتے ہوئے اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے یعنی اللہ کو پاکی سے یاد کر کے اس کی دی ہوئی نعمت کا شکر کرو تاکہ اللہ ہمارے مال اور اولاد میں برکت کرے دیکھو یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہم اس نعمت سے محروم کئے گئے ہیں چونکہ شریف خاندان کے صالح زادے تھے اس لئے اس یاددہانی پر فورا سب نے کہا سبحان اللہ ربنا وبحمدہ بے شک ہم ہی قصور وار ہیں چونکہ ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ہم کو ملا ہے اس لئے وہ ایک دوسرے پر متوجہ ہو کر شرمندہ کرنے لگے بولے ہائے ہماری کمبختی ہم تو واقعی سرکش ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہر چہ برماست ازاست چونکہ دل سے ایماندار تھے اس لئے وہ اللہ سے ناامید نہ ہوئے تھے لہذا انہوں نے اللہ سے امید کا اظہار کرنے کو کہا انشاء اللہ بہت جلد اللہ ہم کو اس باغ سے بہت اچھا باغ دے گا کیونکہ ہم یقینا خدا کی طرف متوجہ اور رجوع ہیں یہ ان کا مقولہ بتا رہا ہے کہ وہ اللہ سے مایوس نہ ہوئے تھے اس لئے توقع ہے کہ اس باغ کے نقصان کی تلافی ان کے لئے اللہ کی طرف سے کی گئی ہوگی عذاب الٰہی جب آتا ہے تو اسی طرح آتا ہے اور عذاب آخرت اس سے بھی بڑا ہے یہ تو تھوڑا سا مالی نقصان ہے آخرت میں تو ہر طرح سے عذاب ہوگا کاش کہ لوگ اس عذاب کو جانیں القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 القلم
33 القلم
34 القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 (42۔52) ہاں اس میں شک نہیں کہ جو لوگ پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والے اور بدکاری سے بچنے والے ہیں ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمتوں کے باغ ہیں جن میں ہر قسم کے پھل پھول اور ہر قسم کا عیش و آرام ان کو حاصل ہوگا۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی زندگی میں نیکوکار رہے اچھے کام کرتے رہے اگر ان کو ہم نیک بدلہ نہ دیں تو کیا پھر فرمانبرداروں کو بے فرمانوں جیسا کردیں نہ ان کو سزا نہ ان کو جزا پھر تو دونوں برابر ہوگئے تم جو اس برابری کے قائل ہو تمہیں کیا ہوگیا تم لوگ کیسی کیسی رائیں لگاتے ہو کیا تمہارے پاس کوئی الٰہی کتاب ہے جس میں تم لوگ پڑھتے ہو کہ جو تم چاہو وہ تمہیں ملے گا چاہے تم کیسے بدعمل اور مشرک ہو کیا ہمارے ہاں تمہارے حق میں عہدوپیمان ہیں جو قیامت تک تمہارے لئے پٹہ ہیں کہ جو بھی تم اپنے حق میں فیصلہ کرو وہ تم کو بلا شک وشبہ مل جائے گا اے رسول تو ان سے پوچھ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار مدعی ہے جو بتائے کہ ان باتوں کا جواب کیا ہے مثبت ہے یا منفی کیا ان موجودہ مشرکوں کے بنائے ہوئے معبود اللہ کے شریک ہیں ؟ اگر یہ اپنے عقیدہ شرک میں سچے ہیں تو ان شریکوں کو یا ان کی تعلیم کو اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کریں آج ہوش وحواس کی حالت میں ان کو اللہ کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے تو نہیں آتے اس روز کیا کریں گے جس روز یعنی قیامت کے دن سخت گھبراہٹ ہوگی اور ان منکرین کو اللہ کے لئے سجدہ کرنے کو بلایا جائے گا تو یہ نہ کرسکیں گے یہی معنے حضرت ابن عباس (رض) نے کئے ہیں چنانچہ صحیح مسلم کی شرح میں مذکور ہے۔ ” فسرا بن عباس وجمھورا ھل اللغۃ وغریب الحدیث الساق ھہنا بمعنے الشدۃ ای یکشف عن شدۃ و امر مہرلی (نووی) ص ١٠٢ ج ١ “ ان کی آنکھیں خوفزدہ ہوں گی یعنی ان کی آنکھوں سے اللہ کا خوف اور دہشت معلوم ہوگی اور ان کے چہروں پر ذلت برستی ہوگی اور سجدے کی عدم طاقت اس لیے ہوگئی دنیا میں جب یہ لوگ صحیح سالم تھے اس حالت میں سجدے کی طرف بلائے جاتے تھے تو سجدہ نہ کرتے تھے تو اب قیامت کے روز کیسے کریں۔ اپنے مخالفوں کی سزا کا ذکر تو نے سن لیا پس جو لوگ اس کلام تیری الہامی تعلیم کو نہیں مانتے بلکہ جھٹلاتے ہیں ان کو ہمارے حوالے کر یعنی تو ان کی پروا نہ کر پھر دیکھیو ان کے بے خبری میں ہم انکو کہاں کہاں لے جائیں گے پہلے دنیا میں مغلوب اور ذلیل کریں گے فقروفاقہ سے تنگ کریں گے موت کے بعد عذاب برزخ میں مبتلا کریں گے بعد زاں عذاب جہنم میں ان کو ڈالیں گے اور سر دست تو ہم ان کو تھوڑی سی مہلت دے رہے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی چالوں اور بدارادوں سے بے خبر ہیں ۔ بلکہ ہمارا دائو خفیہ گرفت مضبوط ہے بھلا یہ جو تیری (اے نبی) نہیں سنتے کیا تو ان سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ مانگتا ہے جس کے دبائو میں یہ لوگ دبے جاتے ہیں۔ کچھ نہیں بلکہ تیری طرف سے تو صاف اعلان ہے کہ میں تم سے مزدوری نہیں مانگتا پھر کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے یہ لوگ مطلب کی باتیں لکھ لیتے ہیں جس میں یہ بھی مرقوم ہو کہ ان لوگوں کا رویہ بہتر ہے۔ کچھ نہیں نہ علم غیب ہے نہ کچھ اور بلکہ محض نفسانی شرارت ہے اور بس پس تو اے نبی اپنے رب کے حکم سے صبر کر اور اپنے نفس کو اللہ کے وعدہ پر مضبوط رکھ اور کسی طرح کا فکر پاس بھی نہ آنے دے۔ خبردار مچھلی والے یونس نبی کی طرح نہ ہوجیو اس کی زندگی میں خاص کر وہ وقت قابل ذکر ہے جب اس نے مچھلی کے پیٹ میں سخت اندھیرے اور تنہائی میں سخت رنج وغم کی حالت میں بامید نجات اللہ کو پکارا تھا کہ یا اللہ تو پاک ہے اور میں ظالم ہوں لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین کی طرف اشارہ ہے۔ اگر اس کے پروردگار اللہ عالم کی مہربانی سے اس کی دست گیری نہ ہوتی تو مردہ ہو کر ذلیل وخوار جنگ میں ڈالا جاتا یا مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتا۔ مگر چونکہ اس نے اپنے حق میں قصور اور اللہ کی تقدیس کا اعتراف کیا اسلئے وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر میدان میں ڈالا گیا لیکن آسمان اور زمین والوں کے نزدیک ذلیل وخوارنہواہاں مچھلی کے پیٹ کی وجہ سے بیمار ضرور تھا۔ پھر اللہ نے اس کو برگزیدہ کیا۔ اور اس کو صالحین کی جماعت میں داخل کیا یعنی خلعت رسالت دے کر اسی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا جو کہ اس کی غیبوبیت میں مومن ہوچکی تھی۔ سورۃ صافات میں حضرت یونس کے ذکر میں یوں فرمایا ہے۔ فلو لا انہ کان من المسبحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون فنبذ ناہ با العراء وھو سقیم۔ اس آیت میں اور زیر تفسیر آیت میں بظاہر اختلاف ہے کیونکہ اس آیت میں ذکر ہے کہ حضرت یونس تسبیح نہ پڑھتے تو مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتے یعنی ان کو رحمت الٰہی دست گیری نہ کرتی زیر تفسیر آیت میں ذکر ہے کہ اگر اللہ کی رحمت انکی دست گیری نہ کرتی تو جنگل میں مذموم حالت میں ڈال دیئے جاتے حالانکہ سورۃ صافات میں خود فرمایا ہے کہ اسکی تسبیح پڑھنے پر ہم نے اسکو جنگل میں ڈال دیا۔ یعنی جنگل میں ڈالنا علامت نجات بھی کہا اور اثر عذاب بھی فرمایا۔ اس اختلاف کی تطبیق اس طرح دی ہے بیشک درصورت عدم تسبیح اللہ کی رحمت دست گیر نہوتی۔ لیکن رحمت دست گیر نہ ہونے کے دو اثر بتائے ان دو میں نسبت مانعۃ الخلو ہے یعنی مچھلی کے پیٹ میں رہنے یا جنگل میں ڈالے جانے میں سے ایک ضرور ہوتا۔ دوسرے اعتراض کا جواب یہ دیا ہے کہ جنگل میں ڈالا جانا دو طرح ہے (ایک) بحالت ذلت۔ دوم بحالت علالت بحالت ذلت ڈالا جاتا بے شک علامت عتاب ہے مگر بحالت علالت عتاب نہیں بلکہ اثر نجات ہے۔ فافھم جس طرح یونس نبی کی قوم اس کی مخالف تھی یا اور انبیاء کرام کی قومیں ان سے برسر جنگ رہتی تھیں۔ تیرے زمانہ کے منکرین بھی کم نہیں ایسے شدید الغضب ہیں کہ جب تیری نصیحت سنتے ہیں تو ایسے آگ بگولہ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ قریب ہے کہ گھور گھور کر اپنی نیلی پیلی آنکھوں کے خوف سے تجھے تیرے عزم مصمم سے پھسلا دیں اور بجائے اس کے اپنے جوش کو جنون کہیں کہتے ہیں کہ تحقیق یہ رسول مجنون ہے جو سب دنیا کے خلاف تعلیم دیتا ہے کبھی کہتا ہے کہ معبود سب کا ایک ہی ہے کبھی کہتا ہے مر کر اٹھنا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ حالانکہ وہ قران جو تو تعلیم دیتا ہے تمام دنیا کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے نہ اس میں کوئی بات خلاف عقل ہے نہ مخالف نقل۔ ہاں ان کی کج طبائع کے خلاف ہے سو ایسا ہونا ہی چاہیے وہ دوا ہی کیا جو مریض کے خلاف منشا نہ ہو۔ کہ داروئے تلخ است دفع مرض لو لا کانت قریۃ امنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس لما امنوا کشفنا عنہم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا۔ اس آیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں قوم یونس کا بوجہ ایمان لے آنے کے عذاب سے بچ جانے کا ذکر ہے۔ فافہم القلم
43 القلم
44 القلم
45 القلم
46 القلم
47 القلم
48 القلم
49 القلم
50 القلم
51 القلم
52 القلم
0 الحاقة
1 قیامت کی سچی گھڑی ہونے والی ہے۔ الحاقة
2 آہ وہ کیسی گھڑی ہے الحاقة
3 اے سننے والے تجھے کیا معلوم وہ کیسی گھڑی ہے الحاقة
4 سنو ! اس کا دوسرانام قارعہ ہے یعنی اپنی ہیبت اور سخت آواز سے کانوں کو پھاڑ ڈالنے والی اس قارعہ کو جو قیامت کا دوسرا نام ہے قوم ثمود اور عاد نے نہ مانا تھا الحاقة
5 نتیجہ یہ ہوا کہ ثمود نے تو سخت عذاب سے جو ایک ہیبت ناک آواز ! کی صورت میں تھا ہلاک کئے گئے بارہویں پارے کے چھٹے رکوع میں عذاب کا صیحۃ نام رکھا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ واخذت الذین ظلموا الصیحۃ فاصبحوا فی دیارھم جثمین (پ ١٢ ع ٦) اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ الحاقة
6 اور عادی لوگ بڑے زور کی سخت ہوا سے ہلاک کئے گئے الحاقة
7 جو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن برابر مسلط رہی تھی یہ تو اس کی تندی کا ذکر ہے تاثیر اس کی یہ تھی کہ جس چیز کو چھو جاتی تھی وہ فنا ہوجاتی تھی پس تو اگر اس وقت ہوتا تو اس قوم عاد کو اس ہوا کے عذاب میں دیکھتا کہ اوندے پڑے مر چکے ہیں وہ درازی قد اور قوت جسمانی کے لحاظ سے ایسی ڈیل کے لوگ تھے کہ گویا کھجوروں کے اکھڑے ہوئے کھوکھلے تنے تھے الحاقة
8 پس وہ ایسے مرے کہ ایک بھی نہ بچا۔ کیا تو ان میں سے کسی کی ذات کو یا اس کی اولاد کو دنیا میں زندہ باقی دیکھتا ہے الحاقة
9 اور سنو ! اسی طرح فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والے لوگ یعنی لوط کی قوم بھی بدعمل کرتے رہے الحاقة
10 پھر وہ بدعملی میں ایسے بڑھے کہ اپنے رب کے رسول کو جو جو جس کی طرف آتا بے فرمانی کرتے رہے تو اللہ نے ان کو سخت پکڑا جس کا نتیجہ وہی ہوا جو اوپر مذکور ہے کہ ان میں ایک بھی نہ بچا الحاقة
11 ان تباہ شدگان میں ایک نوح کی قوم ہے جس کا مختصر ذکر یہ ہے کہ جب ہمارے حکم سے پانی جوش میں آیا تو ہم (اللہ) نے تم بنی آدم کو جو اس وقت نوح کے ساتھ تھے چلنے والی کشتی پر بٹھایا الحاقة
12 تا کہ ہم اس کو تمہارے لئے باعث نصیحت بنائیں دیکھنے اور سننے والے اس سے نصیحت پائیں کہ اتنے پانی میں جس میں بڑی سے بڑی چیزیں ڈوب گئیں ایک معمولی سی لکڑی کی کشتی نہ ڈوبی کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اللہ کے حکم سے اسی غرض سے بنائی گئی تھی کہ جو اس میں بیٹھے وہ نجات پائے دیکھنے والے دیکھ کر نصیحت پائیں اور سننے والے کان یعنی پچھلی نسلیں سن کر یاد رکھیں کیونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے یہ تو ہوا دنیاوی حال الحاقة
13 (13۔37) پھر جب صور میں ایک ہی آواز سے پھونکا جائے گا یعنی بحکم الٰہی قیامت برپا ہوگی اور زمین مع پہاڑوں کے اٹھا کر دونوں ایک ہی دفعہ توڑ دئیے جائیں گے یعنی چور چور کر دئیے جائیں گے تو اس روز واقعہ ہونے والی ساعت جس کو شروع میں الحاقہ سے موسوم کیا گیا ہے ظاہر ہوجائے گی اور اس روز آسمان بھی حکم الٰہی سے پھٹ کر پھسپھسا ہوجائے گا۔ فرشتے بحکم اللہ اس روز آسمان کے کناروں پر کھڑے ہوں گے اور ملائکہ کی آٹھ جماعتیں پروردگار عالم کا تخت حکومت اٹھائے ہوں گی (یہ تخت حکومت عرش عظیم ہوگا یا کوئی اور تخت جو میدان قیامت میں رکھا جائیگا۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے یحتمل ان یکون المراد بھذا العرش العرش العظیم اوالعرش الذی یوضع فی الارض یوم القیامۃ لفصل القضائ (سورہ الحاقہ) قیاس یہ چاہتا ہے کہ دوسرے معنے راجج ہیں : اب ایک بات یہ رہ گی کہ آیا حقیقتاً تخت رکھا جائے گا یا یہ تمثیل اور تصویر ہے مفسرین نے دونوں قول اختیار کئے ہیں حقیقت کہنے والے بھی ہیں اور تمثیل اور تصویر کے قائل بھی ہیں چنانچہ تفسیر نیشاپوری میں لکھا ہے۔ لما کان من شان الملک اذا اراد محاسبۃ عما لہ ان یجلس لھم علی سریر ویقف الاعوان حوالیہ صور اللہ تعالیٰ تلک الصورۃ المھیبۃ لا لانہ یقعد علی السریر (تفسیر نیشا پوری بر حاشیہ تفسیر ابن جریر سورۃ الحاقہ) ” یعنی بادشاہ جب اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہتا ہے تو تخت پر بیٹھتا ہے اور ارکان سلطنت بادشاہ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں اللہ نے اس ہیبت ناک دربار کی تصویر اپنے حق میں بتائی ہے نہ اس لئے کہ وہ تخت پر بیٹھے گا“ (اللہ اعلم بذاتہ وصفاتہ منہ) الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوء من الجنۃ حیث نشآء فنعم اجر العاملین (پ ٢٤۔ ع ٥) اللہ کی تعریف ہے جس نے ہم سے وعدہ سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا مالک بنادیا ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں رہتے ہیں کام کرنے والوں کا بدلہ اچھا ہے۔ اس آیت میں اہل جنت کا مصدقہ الٰہی کلام منقول ہے کہ ہم زمین پر رہتے ہیں“ یہ تو مسلم ہے کہ عرش عظیم زمین بلکہ سارے آسمانوں کے مجموعے سے بھی بڑا ہے پھر وہ زمین پر کیسے رکھا جائے اور فرشتے اسے کیسے اٹھائیں اس لئے حافظ ابن کثیر نے دوسرا احتمال لکھا کہ یہ عرش عرش عظیم نہیں بلکہ دوسرا ہوگا۔ ) یعنی بڑی ہیبت کا دن ہوگا اللہ کے ملائکہ چاروں طرف منتظر حکم کھڑے ہوں گے اس ہیبت اور رعب دربار کی مثال دیکھنی ہو تو دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھو جو کسی تقریب پر کیا کرتے ہیں جس میں ایک طرف پولیس بڑی طمطراق سے صف بستہ کھڑی ہوتی ہے تو دوسری طرف فوج اپنی شان اور چمک دمک دکھاتی ہے درمیان میں بادشاہ سلامت جلویٰ افروز ہیں۔ چاروں طرف ہیبت کا نظارہ ہوتا ہے قیامت کے روز اتنا جلال اور ہیبت الٰہی ہوگی کہ کوئی آواز سننے ! میں نہ آئے گی اس روز تم سب لوگ میدان حشر میں پیش کئے جائو گے ایسے کہ تمہاری کوئی مخفی حرکت چھپی نہ رہے گی پھر اس وقت جس کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا اس کی نجات کی علامت ہوگی وہ کہے گا کہ میرے ساتھیو ! آئو میرا اعمالنامہ پڑھو دیکھو اس میں مجھے نجات مل جانے کا ذکر ہے میں پہلے ہی اپنے حق میں اچھا گمان کرتا تھا کہ مجھے میرا حساب یعنی میرے کاموں کا بدلہ پورا پورا ملے گا ضائع نہ ہوگا پس یہ ایسا شخص اپنے پسندیدہ عیش میں رہے گا جس میں اس کی ہر مطلوبہ چیز ملے گی یعنی وہ بڑی عالیشان بہشت میں رہے گا جس کے درخت پھلوں سے اتنے لدے ہوں گے کہ پھل ان کے نیچے کو جھکے ہوئے ہوں گے ان کو اجازت ہوگی کہ ان پھلوں کو خوب خوشگوار کھائو پیئو بعوض اس کے جو تم نے پہلے زمانہ دنیا میں اس جہان کے لئے اچھے اعمال یہاں کے لئے بھیجے تھے وہ اعمال اگرچہ حقیقت میں اتنی نیک جزا کے قابل نہ تھے مگر اللہ کے وعدہ سے اس لائق ہوگئے کہ تم نے ان تھوڑے سے کاموں کا اتنا بڑا بدلہ پا لیا یہ تو ہوا ان لوگوں کا ذکر جو صالح ہوں گے ان کے مقابلے میں جو بد اطوار اور بدافعال ہوں گے یعنی جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا یہ علامت اس کی گرفتاری کی ہوگی وہ اس کو دیکھ کر کہے گا ہائے افسوس مجھے یہ اعمالنامہ نہ ملا ہوتا اور میں اپنا حساب نہ جانتا گو مگو میں رہتا امید خیر تو رہتی اب تو سارا حال کھل گیا۔ ہر گناہ اس میں درج ہے اور مجموعہ گناہوں کا بمقابلہ اعمال صالحہ کے بہت زیادہ ہے اے کاش وہ میری پہلی موت میرا فیصلہ کردیتی ایسا کہ میں مکرر کسی طرح وجود میں نہ آتا آہ میرے مال نے بھی مجھے کچھ فائدہ نہ دیا میرا زور بھی جاتا رہا فرشتوں کو حکم ہوگا۔ اس کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو پھر اسی حالت میں اس کو جہنم میں داخل کروستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اس کو جکڑ کر دوزخ میں ڈالو اس کی یہی سزا ہے کیونکہ یہ اللہ عظیم پر یقین نہ رکھتا تھا یہ تو اس کا اعتقادی قصور تھا عملی قصور یہ تھا نہ غریب غرباء کو اپنے پاس کھانا کھلاتا نہ کسی دوسرے کو کھلانے کی ترغیب دیتا یعنی خود بخیل تھا اور لوگوں کو بھی بخل سکھاتا تھا۔ اس کے خیال میں کسی غریب مسکین کے ساتھ سلوک کرنا اپنا نقصان کرنا تھا چونکہ یہ خود بخیل غیر مفید شخص تھا پس اس کے لئے بھی آج میدان قیامت میں نہ کوئی حمایتی ہے نہ زخموں کے دھون کے سوا اس کے لئے کھانے کو کھانا ہے جس کو سوائے بدکاروں کے اور کوئی نہیں کھائیگا کیونکہ وہ انہی کے لئے مخصوص ہے۔ الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 الحاقة
18 الحاقة
19 الحاقة
20 الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 الحاقة
29 الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 الحاقة
34 الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 پس سنو ! میں (اللہ) ہر اس قدرتی چیز کی قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو الحاقة
39 اور جو تم نہیں دیکھتے الحاقة
40 یعنی جو چیز تم بنی آدم کی نظر میں ہے اور جو جو چیز ان کی نظر سے غائب ہے قسم کھا کر بتاتا ہوں کہ یہ کلام قرآن مجید جسے تم بگوش خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے سنتے ہو یہ اس رسول کریم کا قول یعنی بحیثیت رسالت ان کا پیغام ہے جو اللہ کی طرف سے وہ سناتے ہیں ورنہ اس رسول کا خود ساختہ کلام نہیں الحاقة
41 اور نہ کسی شاعر کا قول ہے جیسا تم منکر کہتے ہو مگر تم لوگ بہت کم یقین کرتے ہو الحاقة
42 نہ وہ کسی رملی جوگی کا قول ہے جیسا تم ناواقف لوگوں میں پھیلاتے ہو کیونکہ اس کلام کا نظام اور نتیجہ اور ہوتا ہے مگر تم لوگ بہت کم سمجھتے ہو الحاقة
43 سنو ! غلطی میں نہ رہنا اصلی حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن بندوں کی ہدایت کے لئے اللہ کا اتارا ہوا ہے تاکہ تم لوگ اس پر عمل کر کے نجات پائو الحاقة
44 (44۔47) اور سنو ! تمہارا جو یہ خیال ہے کہ اس شخص (محمدﷺ) نے از خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے یہ خیال غلط ہے یہ رسول اگر کوئی بات از خود گھڑ کر ہم پر لگا دے تو ہم اس کو بڑی قوت سے گرفتار کر کے اس کی رگ جان کاٹ دیں پھر تم میں سے کوئی بھی اس کی طرف سے اس سزا میں مانع نہ ہوسکے۔ کیونکہ وہ اگرچہ رسول ہے اور بڑی عظمت کا رسول ہے تاہم ہمارا تو بندہ ہے اس آیت سے مرزا صاحب قادیانی اور ان کی جماعت نبوت قادیانیہ کی صحت پر دلیل دیا کرتے ہیں کہتے ہیں کہ آیت سے ایک عام قانون ثابت ہوتا ہے کہ مدعی نبوت کا ذبہ ہلاک ہوجاتا یا مارا جاتا ہے چونکہ مرزا صاحب قادیانی باوجود دعوی نبوت کے مارے نہیں گئے نہ اس مدت کے اندر مرے ہیں جو نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والتحیہ کی ہے یعنی ٢٣ سال کیونکہ (بقول ان کے) مرز صاحب کا دعوی ١٢٩٠ ھ میں شروع ہوا ہے اور ١٣٢٦ ھ میں انتقال ہوا تو آپ نے ٣٦ سالہ الہامی زندگی پائی ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ چنانچہ مرزا صاحب کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے۔ حافظ محمد یوسف صاحب امر تسری پنشنر کو مخاطب کر کے بڑے زور سے ڈانٹا ہے کہ تم یہ کیوں کہتے ہو کہ مدعی نبوت کا ذبہ تئیس سال تک زندہ رہ سکتا ہے کیا حافظ ہو کر تمہیں آیت لو تقول علینا نظر سے نہیں گزری ” اربعین نمبر ٣ مصنف مرزا صاحب ص ٤/٢ پھر اس کی مزید توضیح دوسری اربعین میں یوں کی ہے کہ ” اربعین نمبر ٣ میں گو ہم دلائل بیّنہ سے لکھ چکے ہیں کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص اللہ پر افترا کرے وہ ہلاک کیا جاتا ہے مگر تاہم دوبارہ ہم عقلمندوں کو یاد دلاتے ہیں کہ حق یہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے مقابل پر کسی مخالف مولوی کی بات مان کر ہلاکت کی راہ اختیار کرلیں اور لازم ہے کہ قرآن شریف کی دللک کو بنظر تحقیق دیکھنے سے ڈریں۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت لو تقول علینا کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ سے ہر ایک لغو کام سے پاک ہے پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں و اذا لا ذ قناک ضعف الحیوۃ و ضعف المماۃ محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کرلے تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا ورنہ یہ استدلال کی طرح صحیح نہیں ٹھیرے گا۔ اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر اللہ پر افترا کرے اور جھوٹا دعوی مامور من اللہ ہونے کا کرکے تیئس برس کی زندگی پائے اور ہلاک نہ ہو تو بلاشبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہوجائے گا کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے جب کہ اس دروغ گو نے جس کا دروغ گو ہونا تم تسلیم کرتے ہو تیئس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پا لی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیونکر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا ایک کاذب کو تیئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کاذب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے پھر لو تقول علینا کا صدق لوگوں پر کیونکر ظاہر ہوگا اور اس بات پر یقین کرنے کے لئے کون سے دلائل پیدا ہوں گے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افترا کرتے تو ضرور تیئس برس سے اندر اندر ہلاک کئے جاتے لیکن اگر دوسرے لوگ افترا کریں تو وہ تیئس برس سے زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور اللہ ان کو ہلاک نہیں کرتا۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور اللہ پر افترا کرکے آنحضرتﷺکے زمانہ بنوت کے موافق یعنی تیئس برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا“ (اربعین نمبر ٤ ص ٤/ ١) اس توضیح کا خلاصہ یہ ہے کہ مدعی نبوت کا ذبہ دعویٰ نبوت کے وقت سے لے کر تیئس سال کے اندر اندر مر جانا یا مارا جانا ضروری ہے تئییس سال پورے یا تیئس سال سے زیادہ مدت تک زندہ رہے تو صادق سمجھا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزا صاحب نے دعوی نبوت کے وقت سے تیئس سال مدت پائی اس تحقیق کے لئے یہ حاشیہ لکھا گیا۔ کچھ شک نہیں کہ مرزا صاحب کی زندگی کے دو زمانے تھے (١) دعوے مجددیت (٢) دوسرا زمانہ دعوے مسیحیت کا تھا پہلے زمانہ میں تو ان کو نبوت کا خواب بھی نہ آیا تھا دوسرے زمانہ کے شروع میں بھی نبوۃ کے دعوے کو ناپسند ہی نہیں بلکہ موجب کفر جانتے تھے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ آپ کے دعوے مسیحیت کے ابتدائی اعلان کے دو رسالے ہیں (١) فتح اسلام (٢) توضیح مرام یہ دونوں رسالے ١٣٠٨ ھ؁ میں شائع ہوئے تھے ان میں سے پہلا رسالہ فتح اسلام جب شائع ہوا اس میں اپنے آپ کو ” مثیل مسیح“ لکھا تھا تو اعتراض ہوا کہ حضرت مسیح تو نبی تھے مگر آپ تو نبی نہیں پھر آپ مثیل مسیح کیسے ہوئے اس کا جواب آپ نے رسالہ“ توضیح مرام میں جو دیا وہ اس مسئلہ کے لئے فیصلہ کن ہے آپ نے لکھا۔ ” اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح (موعود) کے لئے ہمارے سیدو مولا (ﷺ) نے نبوت شرط نہیں ٹھیرائی (توضیح مرام کلاں صفحہ ٩) اس جواب سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے حق میں نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ عام طور پر مسیح موعود کے لئے نبوت کے لزوم سے بھی انکار کردیا یہی ایک اعتراف بعدم النبوۃ ہمارے مقصود کو کافی ہے لیکن ہم ایک ہی اعتراف پر قناعت نہیں کرتے بلکہ ایک اور اعتراف بھی بمنزلہ دوسرے گواہ کے نقل کرتے ہیں جو یہ ہے۔ مرزا صاحب نے کتاب ” حمامۃ البشری“ ١٣١١؁ ہجری میں شائع کی ہے اس میں آپ لکھتے ہیں۔ قول اللہ تعالیٰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمی نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء بغیر استشناء و فسرنبینا فی قولہ لا نبی بعدی ببیان واضح للطالبین و لو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا لجوزنا انفتاح باب النبوۃ بعد تغلیقھا و ھذا خلف و کیف یجیئ نبی بعد رسولنا صلعم و قد انقطع الوحی بعد و فاتہ و ختم اللہ بہ النبیین (حمامۃ البشری صفحہ ٢٠) قرآن مجید میں اللہ کا قول ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ اس کی تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح بیان سے فرمائی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اگر ہم بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی نبی کا ظہور مانیں تو نبوت کا دروازہ بعد بندش کے مفتوح (کھلا) ہم کو ماننا پڑے گا یہ تسلیم کے خلاف ہے بھلا بعد آنحضرت کوئی نبی آئے تو کیسے آئے جب کہ بعد وفات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنخضرت کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے “ ما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین (حمامۃ ص ٧٩) مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوۃ کا دعوی کرکے اسلام سے خارج ہوجائوں اور کافروں میں جاملوں یہ عبارات بآواز بلند اپنا مطلب بتا رہی ہیں کہ مرزا صاحب نہ مدعی نبوت تھے نہ دعوے نبوت کو جائز جانتے بلکہ موجب کفر سمجھتے تھے یہ ہے ١٣١١ ھ تک کا ذکر۔ کچھ شک نہیں کہ اس کے بعد مرزا صاحب نے نبوت کا دعوی کیا اور ان انکاروں کی تاویل بھی بہت خوبصورتی سے کی چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں : ” ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوی اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کرسکے وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقع کے خلاف ہوتا ہے اسلئے باوجود اہل حق ہونے کے انکو ندامت اٹھانی پڑتی ہے چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ میں دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود ہیں جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فونض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اسکے واسطہ سے اللہ کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہو مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے اللہ نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔“ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ٥۔ نومبر ١٩٠١ئ۔) یہاں تک کہ اپنی آخری تصنیف ” حقیقۃ الوحی“ میں یہ بھی لکھ دیا کہ تیرہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں کوئی ولی یا قطب وغیرہ نے نبی کا لقب نہیں پایا چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہوسکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اور کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی۔ (حقیقۃ الوحی ص ٣٩٠/ ٣٩١ مطبوعہ مئی ١٩٠٨ئ۔) ان عبارات میں مرزا صاحب نے اپنے حق میں نبوت کا دعوی کیا ہے ہاں یہ بھی بتایا ہے کہ میری نبوت بماتحتی نبوت محمدیہ ہے جس کو فلسفی اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ نبوۃ محمدیہ نبوۃ مرزا کے لئے واسطہ فی العروض ہے جس کی مثال حرکت قلم یا حرکت چابی بواسطہ حرکت ہاتھ ہے۔ اس واسطہ میں دونوں (واسط اور ذی واسطہ) موصوف ہوتے ہیں اسی لئے مرزا صاحب نبی بھی بنتے تھے اور امتی بھی کہتے تھے۔ ہمیں اس موقع پر مرزا صاحب کی نبوت پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ حقہ تھی یا کاذبہ تھی بلکہ دکھانا صرف یہ ہے کہ مرزا صاحب نے جو آیت زیر بحث (لو تقول علینا) کے جو معنی اور تفسیر کی ہے اس تفسیر کے مطابق مرزا صاحب کی میعاد نبوت پورے سال چھ ماہ ہوتی ہے جو نومبر ١٩٠١ئ؁ سے شمار کرنے سے ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء تک پہنچتی ہے کوئی پرائمری کا لڑکا بھی اس حساب میں غلطی نہیں نکال سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی نبوت سے تئیس سال عمر نہیں پائی بلکہ بہت جلد فوت ہوگئے۔ ابطال نبوۃ مرزا : اس حاشیہ میں اس بحث کی جگہ نہیں تاہم مختصر چند جملوں میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے جناب مرزا صاحب کی عبارات متعددہ اس بیان میں نصوص قطعیہ ہیں کہ آپ کو جو نبوت ملی ہے یہ نبوت محمدیہ علی صاجہا الصلوۃ التھیہ ہی کی ظل یا بروز یا عکس ہے جلد ہذا کے ص ٦٢ پر عبارات مرزا منقول ہوچکی ہیں۔ اس عبارت کا مطلب صاف ہے کہ مرزا صاحب کی بعثت بعینہ بعثت محمدیہ ہے بہت خوب ! ہم دیکھتے ہیں کہ نبوت محمدیہ میں ایک چیز ضد اور منافی نبوت ہے اور وہی چیز نبوۃ مرزا میں جمع ہے حالانکہ عکس میں ایسا ہونا ابطال عکس ہے مثلا ایک شخص (مرد) کے ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں کبھی نہیں ڈالیں بلکہ صاف لفظوں میں اس کا انکار ہے کہ ایسا زیور پہننا مردوں کی مرادنگی کے خلاف ہے بایں ہمہ ایک فوٹو (عکس) ہمارے پیش کیا جائے جس کی ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں ہوں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ دیکھتے ہی ہم کہہ دیں کہ یہ اس مرد کا عکس (فوٹو) نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔ ناظرین ! آئیے ہم یہ مثال بالکل پوری منطبق کرکے دکھائیں قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔ ما علمناہ الشعر و ما ینبغی لہ ہم (اللہ) نے اس نبی (محمدﷺ) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور یہ شعر گوئی اسے لائق بھی نہیں۔ یہ آیت صاف اور واضح الفاظ میں شعر گوئی کو منافی نبوت محمدیہ بتاتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی تصنیفات میں ایک دو شعر نہیں بلکہ بہت بڑے بڑے قصیدے موجود ہیں یہاں تک کہ ایک بڑی کتاب بطور کلیات مرزا درثمین شائع ہے جس کے چند اشعار یہاں درج ہیں آپ اپنے کمالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎ میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار فارسی میں فرمایا۔ انبیاء گرچہ بودہ اندبسے من بعرفاں نہ کمترم نہ کسے آنچہ داد ست ہر نبی راجام دادآں جام رامرا بتمام آنچہ من بشنوم زوحی خدا باللہ پاک دانمش زخطا ہمچو قرآن منزئش داعم ازخطاہا ہمین ست المانیم یہاں تک کہ کتاب ” اعجاز احمدی“ اور ” اعجاز مسیح“ میں اعجازی قصیدے شائع کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بڑے ماہر شاعر تھے پھر با انصاف ناظرین بتا دیں کہ جس نبوۃ میں شعر وشاعری داخل ہو وہ اس نبوت کا ظل یا عکس یا بروز کیسے ہوسکتی ہے جس میں شعر گوئی کو منافی نبوت قرار دیا ہو۔ نوٹ : ہمارے نزدیک اس آیت کے معنی بالکل صاف ہیں جو اصطلاحی الفاظ میں یوں ادا ہوسکتے ہیں قضیۃ عین لا عموم لھا یعنی یہ آیت خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بطور اظہار صداقت ہے اس کا حکم عام نہیں بلکہ بالخصوص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان والا شان کے مطابق ہے جیسے ازواج مطہرات کے حق میں فرمایا من یات منکن بفاحشۃ مبنیۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین جو کوئی تم بیویوں میں سے بدکاری کا کام کرے گی اس کو دگنا عذاب ہوگا پس ٹھیک اسی طرح یہ آیت (لوتقول) خاص آنحضرت کے حق میں ہے جو اپنے معنی میں بالکل سچی ہے۔ لہ الحمد۔ نبوت مزرائیہ کا آخری فیصلہ : مرزا صاحب قادیانی کے جملہ دعا دی (از قسم تجدید یا الہام یا نبوت و رسالت) کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے دست تصرف نے ایسے طریق سے خود ان کے ہاتھوں کرا دیا ہے کہ اب مسلمانوں کو ان کے متعلق کسی بحث کرنے کی ضرورت نہیں وہ فیصلہ یہ ہے۔ مرزا صاحب نے اپریل ١٩٠٧ئ؁ کو ایک اشتہار دیا تھا جو بعینہ درج ذیل ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ یستنبونک احق ھو قل ای و ربی انہ لحق بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب السلام علی من اتبع الھدی۔ مدت سے آپ کے پر چہ اہلحدیث میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ مجھے آپ اس پر چہ میں مردود کذاب دجال مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کا دعوی مسیح مو عود ہونے کا سراسر افترا ہے میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق کے پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سی افترا میرے پر کرکے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں ان تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی سخت لفظ نہیں ہوسکتا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ ہر ایک پر چہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے تاکہ اللہ کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور اللہ کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اللہ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں اللہ کی طرف سے نہیں یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشین گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے اللہ سے فصلہ چاہا ہے اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعوی مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افترا کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین۔ مگر اے میرے کامل اور صادق اللہ اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر دے مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے آمین یا رب العالمین میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گذر گئی وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی بدتر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لا تقف ما لیس لک بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بد اثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ انہی تہمتوں کے ذریعہ سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا اور اس عمارت کو مہندم کرنا چاہتا ہے جو تو نے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی ہی میں دنیا سے اٹھا لے یا کسی اور سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر آمین ثم آمین ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین آمین۔ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پر چہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھدیں۔ اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ الراقم : عبد الصمد میرزا غلام مسیح موعود عافاہ اللہ واید (مرقومہ ١٨۔ اپریل ١٩٠٧ئ۔) اس اشتہار کا خلاصہ یہ ہے کہ ” ہم دونوں میں سے جو اللہ کے نزدیک جھوٹا ہے وہ پہلے مرے “ کچھ شک نہیں کہ اس اشتہار کی بابت آپ نے یہ لکھا ہے کہ ” کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں بلکہ دعا کے طور پر میں نے اللہ سے فیصلہ چاہا ہے “ مگر اس دعا کے بعد اس کی قبولیت کا الہام آپ کو ہوگیا تھا چنانچہ ٢٥۔ اپریل کو اخبار بدر قادیاں میں اس واقعہ کے متعلق آپ کے الفاظ یوں مرقوم ہیں۔ ان کا ڈائری نویس لکھتا ہے۔ (مرزا صاحب نے) فرمایا زمانہ کے عجائبات ہیں رات کو ہم سوتے ہیں تو کوئی خیال نہیں ہوتا کہ اچانک الہام ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے کوئی ہفتہ عشرہ نشان سے خالی نہیں جاتا۔ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ الٰہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ایک دفعہ ہماری توجہ اسطرف ہوئی اور رات کو توجہ اسکی طرف تھی الہام ہوا ”(اجیب دعوۃ الداع صوفیائے کرم کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہے باقی سب اسکی شاخیں“ (اخبار بدر قادیاں ٢٥۔ اپریل ١٩٠٧؁ئ) ١٣ جون کے اخبار بدر میں لکھا ہے کہ اس دعا کی تحریک مرزا صاحب کے دل میں اللہ کی طرف سے ہوئی۔ اسکے علاوہ مرزا صاحب کا ایک الہام یہ بھی ہے۔ ” اجیب کل دعاءک الا فی شرکائک“ (تریان القوب ٣٨) یعنی میں (خدا) تیری (اے مرزا) سب دعائیں قبول کرونگا سوائے اس دعا کے جو تیرے شریک برادروں کے متعلق ہو “۔ اس الہام سے بھی دعا مندرجہ اشتہار مورخہ ١٥۔ اپریل ١٩٠٧؁ء کو تقویت ہوتی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب مدعی اور ملہم ٢٦ مئی ١٩٠٨؁ء کو بمرض ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور خاکسار ابو الو فاثناء اللہ آج (٢٢ جولائی ١٩٣٠۔) تک زندہ ہے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے اعلان اور الہام کے مطابق جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس الزام کو دور کرنے کیلئے مجھ سے مباحثہ کرنا چاہا جس میں (بتصرف الٰہی) خود بخود یہ صورت پیش کی کہ مباحثہ کے فیصلہ کیلئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اگر ہم (اتباع مرزا) ہار جائیں تو مبلغ تین سو روپیہ غالب کو انعام دیں گے اس اعلان پر اپریل ١٩١٣؁ء کو بمقام لودہانہ مباحثہ ہوا جس کے ثالث سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودہانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث صاحب نے میرے حق میں فیصلہ دیا جسکی وجہ سے مبلغ تین سو میں نے پائے۔ اس ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ” مرزا صاحب کے دعوی الہام اور نبوت کی تردید آسمانی بھی ہوئی اور زمینی بھی“ لہ الحمد۔ تاریخ تحریرہذا “ الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 (48۔52) اور اصل بات تو یہ ہے کہ وہ قرآن بے شک پرہیزگاروں کے لئے نصیحت اور یاددہانی ہے یعنی جب کبھی انہیں کسی امر میں ہدایت کی ضرورت ہو تو اس سے حاصل کرتے ہیں اور جب ان سے کسی قسم کی غلطی ہو تو اس کے موافق اس کا ازالہ کرتے ! ہیں اور ہم (اللہ) خوب جانتے ہیں کہ تم سامعین اور حاضرین میں بعض لوگ اس قرآن کے مکذب ہیں اور یہ قرآن یعنی اس کا انکار کرنا منکروں پر حسرت ہوگا وہ روز حساب کہیں گے کہ ہائے ہم نے انکار نہ کیا ہوتا اور اس میں شک نہیں کہ یہ قرآن حق الیقین قطعا صحیح ہے پس تم اس کے ماننے والو تم اس کے احکام پر عمل کیا کرو ان احکام میں ایک ضروری حکم یہ ہے کہ اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑہا کرو یعنی اس کو پاکی سے یاد کیا کرو۔ سُبْحانَ رَبِّنَا الْعَظِیْمِ پڑھا کرو۔ الحاقة
49 الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 المعارج
1 (1۔4) ایک پوچھنے والے نے اس عذاب کا حال پوچھا ہے جو بعد از موت کافروں پر آنے والا ہے جس کو ہٹانے والا اللہ صاحب کمالات عالیہ کے سوا کوئی نہیں۔ فرشتے اور روح بقا اور ثبات میں اسی کی طرف چڑھتے یعنی رجوع کرتے ہیں وہ پوچھنے والا بطور استہزا پوچھتا ہے کہ وہ عذاب کب ہوگا اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ عذاب اس دن میں ہوگا جس کی مدت پچاس ہزار سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ شان نزول :۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عذاب الٰہی سے ڈرایا تو کفار نے پوچھا کہ یہ عذاب کس کو ہوگا۔ ان کے حق میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (خازن) اس آیت کا ترجمہ بہت مشکل ہے بطور نمونہ ہم چند ترجمے نقل کرتے ہیں ناظرین ان کو ملاحظہ کریں کہ مترجمین کو کتنی دقتیں پیش ہیں۔ فارسی :۔ ” طلب کرد طلب کنندہ عقوبتے برکافراں فردد آئندہ نیست اور اہیچ بازد ارندہ فرود آئندہ از جانب اللہ مرتبہ کہ برآں صعود کردہ شود بالامیروند فرشتگان وروح نیز بسوئے اللہ عقوبت فردد آئندہ برکافراں در روزے کہ ہست مقدار آں پنجاہ ہزار سال (حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ) تشریح :۔ ” اس ترجمہ میں من او فی کے واقعہ کے متعلق کہا گیا ہے “ اردو ترجمہ :۔ ” مانگا ایک مانگنے والے نے عذاب بڑنے والا منکروں کے واسطے کوئی نہیں ہٹانے والا اللہ کی طرف سے چڑھنے درجوں کا صاحب اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کا لنبائو پچاس ہزار برس ہے۔“ (شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ) تشریح :۔ اس ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ من اللہ کو واقع کے اور فی کو تعرج کے متعلق کیا گیا ہے۔ ترجمہ نذیریہ :۔ ” اللہ جو آسمان کی سیڑھیوں کا مالک ہے جن کی راہ فرشتے اور جبرئیل اس کی راہ چڑھتے ہیں اس کے حکم سے قیامت کے دن جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا کافروں کو عذاب ہونا ہے اور کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا۔ تشریح :۔ اس میں فی یوم متعلق واقع کے کیا گیا ہے۔ ترجمہ شیعہ :۔ ” ایک سوال کرنے والے نے بڑے درجوں والے اللہ سے ایسے عذاب کا سوال کیا جو کافروں کے لئے واقع ہوتا رہتا ہے اور اس کا دفع کرنے والا کوئی نہیں ہوسکتا فرشتے اور روح اس کے حضور میں حاضر ہونے کے لئے ایک ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہوگا چڑھ جائیں گے۔“ (ترجمہ مشہور بنام مولوی مقبول احمد لکھنوی) تشریح :۔ اس میں فی یوم۔ تعرج کے متعلق کیا گیا ہے۔ ترجمہ اشرفی :۔ ایک درخواست کرنے والا اس عذاب کی درخواست کرتا ہے جو کہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے جس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں جو اللہ کی طرف سے واقع ہوگا جو سیڑھیوں کا مالک ہے فرشتے اور روحیں اس کے پاس چڑھ جاتی ہیں۔ ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔“ (از مولوی اشرف علی صاحب تھانہ بھون) تشریح :۔ اس میں فی یوم کو واقع کے متعلق کیا گیا ہے۔ جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے کیا۔ ان تراجم کا باہمی اتنا اختلاف آئت کے مشکل تریں ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کے حل کرنے پر ہر ایک مترجم نے اپنی توجہ صرف کی۔ شکر اللہ سعیہم۔ منہ المعارج
2 المعارج
3 المعارج
4 المعارج
5 (5۔14) پس تو اتنا ان کو سنا دے اور ان کی ناجا ئز بے ہودہ گوئی پر اچھی طرح خوش اخلاقی سے صبر کیا کریہ لوگ اس عذاب کو دور جانتے ہیں کیونکہ ان کی نظر سے اوجھل ہے اور ہم (اللہ) اس کو قریب دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے سامنے ہے اس عذاب کا وقوع اس روز ہوگا جس روز آسمان پگلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے یعنی اتنے بڑے بڑے اجسام ہوا میں اڑ کر سمندر کے پانی میں مل جائیں گے اور اس روز کوئی گہرا دوست بھی کسی دوست کو نہ پوچھے گا کہ تیرے منہ میں کے دانت ہیں حالانکہ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ تاہم کوئی کسی کی مدد نہ کرے گا نہ کرسکے گا عذاب اور گرفت کی سختی کا حال یہ ہوگا کہ بدکار آدمی جو عذاب میں گرفتار ہوگا وہ چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے وہ اپنے بیٹوں‘ بیوی‘ سگے بھائی‘ کنبہ برادری کو جو اسے مصیبت میں پناہ دیتی تھی اور دنیا کے سب لوگوں کو اپنے فدیے میں دے دے پھر یہ فدیہ اس کو عذاب سے چھڑا لے۔ ہرگز ایسا نہ ہوگا۔ بے شک وہ دوزخ شعلے مار رہی ہوگی اس کے جوش اور شعلہ افگنی کی یہ حالت ہوگی کہ مجرموں کے چمڑے جلا کر اتار دے گی یعنی چمڑہ جلا کر بدن ننگا کر دے گی ننگا ہونے کے بعد نیچے سے پھر نیا چمڑا نکلے گا جس نے ہدا یت قبول کرنے سے ازروئے تکبر پیٹھ اور منہ پھیرا ہوگا اور جائز ناجائز طریق سے مال جمع کیا اور نیک کام میں خرچ کرنے سے محفوظ رکھا ہوگا ایسے لوگوں کو اپنے اندر بلائے گی پس تم سننے والے ہوشیار رہو کہ کوئی کام تم ایسا نہ کرو جس سے تم جہنم کے لائق ہوجائو۔ المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 المعارج
10 المعارج
11 المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 (15۔35) ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض انسان بے شک جلد باز ہیں کہ دیکھنے والا سمجھے کہ انسان پیدائشی تھڑولا ہے اسی لئے تو اس کی حالت ہے کہ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے واویلا اور ہائے وائے کرنے لگ جاتا ہے اور جب اسے کسی قسم کی خیروبرکت پہنچتی ہے تو دوسروں تک اس کا فیض نہیں پہنچاتا بلکہ روک لیتا ہے مگر یہ حال سارے انسانوں کا نہیں جو لوگ نمازوں کے ادا کرنے پر دوام کرتے ہیں وہ ایسے نہیں اور جن کے مالوں میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کے لئے یعنی جو نہ مانگنے کی وجہ سے اغنیاء کے عطیات سے محروم رہ جاتے ہیں درحقیقت وہ مستحق ہوتے ہیں ان دونوں قسموں کے مستحقین کے لئے جن کے اموال ہیں حق مقرر ہیں وہ ان کو برابر دیتے ہیں اور جو لوگ روز جزا قیامت کی تصدیق کرتے ہیں وہ بھی ایسے تھڑدلے نہیں ہیں اور جو لوگ اپنے پروردگار کے عذاب سے ہر وقت اور ہر آن ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ان کے پروردگار کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں اور وہ لوگ بھی گھبرانے والے تھڑولے نہیں جو بدکاری سے اپنے فرجوں شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی زناکاری وغیرہ کے ذریعہ شہوت رانی نہیں کرتے مگر جو لوگ بوقت ضرورت اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے ملتے ہیں ان کو ایسا کرنے میں ملامت نہیں ہاں جو لوگ اس مذکورہ طریق کے سوا کوئی اور طریق اختیار کریں گے وہ حد شرع سے باہر نکلے ہوئے ہوں گے اور وہ لوگ بھی جلد باز تھڑولے نہیں جو اپنی امانات اور وعدوں کی نگہداشت کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی کم حوصلہ لوگوں سے نہیں ہیں جو اپنی شہادت واجبہ پر قائم رہتے ہیں اور وہ لوگ بھی ان سے مستثنیٰ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں پڑھتے ہیں اور پڑھنا ہی نہیں بلکہ ایک پڑھ کر دوسری کی فکر میں رہتے ہیں مثلا دھوپ یا گھڑی دیکھتے رہتے ہیں۔ ان اوصاف والے کیوں تھڑولے نہیں اس لئے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ جو خیروبرکت ملی ہے یہ اللہ کے حکم سے ملی ہے اور جو تکلیف آئی ہے یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لئے وہ نہ خیر پر اتراتے ہیں نہ شر پر گھبراتے ہیں یہی لوگ بہشتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 (36۔44) اتنی صاف صاف تعلیم سن کر پھر بھی تیرے مخالف تجھ سے بدکتے ہیں کیا وجہ ہے کہ منکرین ٹولی ٹولی ہو کر تیری طرف سے دائیں بائیں بھاگ جاتے ہیں یوں بھاگتے ہیں گویا جنگلی گدھے ہیں۔ (عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر یوں کی گئی ہے ” ٹولیاں تیری طرف چلی آتی ہیں“ عربی تفسیر میں میں نے یہی تفسیر اختیار کی ہے لیکن یہاں میں نے یہ تفسیر ترک کر کے یہ ترجمہ کیا ہے ” تیری طرف سے بھاگتے ہیں“ اس ترجمہ کی شہادت سورۃ مدثر کی آیت ہے جس کے الفاظ ہیں فمالھم عن التذکرۃ معرضین کانھم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ اصل بناء اختلاف یہ ہے کہ قبلک پر حرف جارہ محذوف ہے۔) کیا باوجود ان حالات کے ان میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ نعمتوں کے باغوں میں داخل کیا جائے یعنی خواہش تو ان کی یہی ہے کہ ہم زندگی آرام چین سے نعماء اور آسائش میں گذاریں اور اعمال ایسے ہیں کہ ان پر یہ کہنا زیبا ہے۔ جی عبادت سے چرانا اور جنت کی ہوس ام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی ہوس ان کا مقصور ہرگز پورا نہیں ہوگا ان کا خیال اور تکبر اس حد تک ترقی کر گیا ہے کہ یہ ہماری قدرت کاملہ سے بھی منکر ہو رہے ہیں حالانکہ ہم نے ان کو ایسی چیز ( منی کے نطفے) سے پیدا کیا ہے جسے یہ جانتے ہیں پھر اتنی بدمزاجی کیوں ؟ ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار یعنی اپنی ذات کی قسم ہے کہ یہ تو کیا ہم قادر ہیں کہ ان سے اچھی مخلوق پیدا کردیں اور ایسا کرنے میں ہم عاجز نہیں ہیں پس تو اے نبی ان کو ان کے اس حال پر چھوڑ دے بے ہودہ باتیں بنائیں اور کھیل کود میں مشغول رہیں یہاں تک کہ بعد الموت ان پر وہ وقت آجائے جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے اس روز اپنے کئے کی جزا سزا پوری پوری پائیں گے یعنی جس روز یہ لوگ زندہ ہو کر قبروں سے جلدی جلدی نکلیں گے ایسے جلدی کہ گویا وہ نشانہ چاند ماری کی طرف بھاگے جاتے ہوں گے ان کی آنکھیں ندامت کے مارے جھکی ہوں گی ذلت ان کے چہروں پر چھائی ہوگی کہا جائے گا کہ یہی انصاف کا دن ہے جس کا کل انسانوں کو وعدہ دیا جاتا تھا جو آج پورا ہوگیا دیکھو ہر انسان اپنے اعمال کے موافق بدلہ پا رہا ہے۔ المعارج
37 المعارج
38 المعارج
39 المعارج
40 المعارج
41 المعارج
42 المعارج
43 المعارج
44 المعارج
0 نوح
1 تمہیں معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت نوح بھی ایک نبی گزرے ہیں ہم (اللہ) نے نوح کو اس کی قوم کفار کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو اس سے پہلے ڈرا دے کہ دردناک عذاب ان پر آجائے ان لوگوں کی بداعمالی کی وجہ سے جو ان پر دردناک عذاب آنے والا ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے ان کو سمجھا دے تاکہ جو لوگ اس عذاب سے ڈر کر بداعمالی چھوڑ دیں وہ بچ جائیں اور جو نہ مانیں وہ اپنے کئے کا پھل پائیں نوح
2 نوح نے اس الٰہی حکم کے موافق کہا اے میرے بھائیو ! تحقیق میں تم کو واضح الفاظ میں تمہاری بداعمالی پر اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ نوح
3 (3۔4) میرے ڈرانے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرتے رہو اور جو میں تم کو دین کے بارے میں حکم دوں اس میں تم میری اطاعت کرو اس کا بدلہ تم کو یہ ملے گا کہ اللہ تمہارے سابقہ گناہ بخش دے گا اور تم کو ایک مقرر وقت تک جو تمہارے موت کے لئے مقرر ہے بخیروعافیت مہلت دے گا یقینی بات ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت موت کا ہو یا فنا کا مرض کا ہو یا شفا کا جب آجاتا ہے تو پیچھے نہیں ہٹتا کاش تم لوگ میری اس بات کی حقیقت کو جانو نوح
4 نوح
5 (5۔28) حضرت نوح اپنی تبلیغ میں برسوں نہیں صدیوں تک مشغول رہے قوم کی طرف سے ایک ہی جواب ملتا رہا کہ ہم تیری نہ مانیں گے جب یہاں تک نوبت پہنچی تو نوح نے کہا اے میرے اللہ میں نے اپنی قوم کو رات دن دین کی طرف بلایا اور خوب تبلیغ کی مگر میری دعوت پر یہ لوگ فرار ہی کرتے رہے اور میں نے جب ان کو بلایا کہ اپنی بدکاری سے توبہ کریں تاکہ تو ان کو بخش دے تو انہوں نے مارے تکبر اور نخوت کے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تاکہ میری بات نہ سنیں اور اپنے کپڑے مونہوں پر اوڑھ لئے تاکہ میری شکل بھی نہ دیکھ سکیں سننا تو کجا اور اپنے کفر شرک پر اڑے رہے اور تکبر ہی کرتے رہے پھر میں ان کو بلند آواز سے بلایا تو بھی متوجہ نہ ہوئے پھر میں نے ان کو کھلا اور مخفی بلایا یعنی ہر ایک کو جلوۃ اور خلوۃ میں توحید کی دعوت دی پھر سمجھاتے ہوئے میں نے یہ بھی کہا کہ بداعمالی سے توبہ کر کے اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے تم پر جو بارش نہ ہونے سے قحط ہو رہا ہے تمہارے استغفار کرنے سے اللہ تم پر موسلادہار مینہ برسائے گا جس سے سارا قحط دور ہوجائے گا اور مال مویشی اور اولاد ذکور کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے پانی کے چشمے اور دریا جاری کر دے گا جن سے تم اپنے کھیت سیراب کرو گے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم دل سے اللہ کی عزت نہیں کرتے بھلا یہ بھی کوئی عزت ہے جو تم کرتے ہو کہ اس کے سوا دوسروں سے حاجات مانگتے ہو حالانکہ اسی نے تم سب کو مختلف حالات میں پیدا کیا ہے دیکھو پہلے تم منی کے قطرے تھے پھر منجمد خون بنے۔ پھر لوتھڑے بنے پھر جسم بے روح بنے پھر تم میں روح پھونکی گئی پھر بصورت ایک بے ہوش بچے کے تم کو باہر نکالا پھر تم کو عقل سمجھ عطا کی کیا تم نے اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اس امر پر کبھی غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان تہہ بتہہ کیسے پیدا کئے اور چاند کو ان میں روشن چیز بنایا اور سورج کو روشن چراغ پیدا کیا ایسا چراغ دنیا میں کوئی ہوگا؟ جس کی ضخامت ساری زمین سے جس میں سمندر اور پہاڑ بھی داخل ہیں ایک سو چوالیس درجے زیادہ ہے یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں اور سنو ! اللہ تعالیٰ نے تم سب بنی آدم کے باپ آدم (علیہ السلام) کو ابتدا پیدائش عالم میں زمین کی مٹی سے پیدا کیا پھر تم سب کو اسی میں لوٹا دیتا ہے پھر تم کو بروز قیامت زندہ کر کے اس زمین سے نکالے گا اور سنو اللہ نے تمہارے لئے زمین کو بنایا تاکہ حسب ضرورت مکان بنائو زراعت کرو۔ کنویں کھودو سیروسیاحت کرنے کو اس میں کھلے رستوں پر چلو زمین کی شکل ہیئت ہی بتا رہی ہے کہ تمہاری پائمال ہے یہ سب تقریر سن کر بھی وہ لوگ حضرت نوح کی تعلیم سے انکار پر مصر رہے اس لئے نوح نے اللہ کو مخاطب کر کے کہا اے میرے پروردگار تو سب کچھ جانتا ہے کہ انہوں نے بڑی سختی سے میری بے فرمانی کی ہے اور جن مالداروں کو ان کے اموال اور اولاد نے بوجہ ان کے تکبر کے سوائے ٹوٹے کے کچھ فائدہ نہیں دیا ان نالائقوں اور متکبروں کے پیرو ہوگئے ہیں وہ جدھر ان کو چلاتے ہیں یہ چلتے ہیں اور یہ بات بھی سرکار سے مخفی نہیں ہے کہ انہوں نے میری ایذا رسانی میں بڑے بڑے مکر اور فریب کئے ہیں سرکار میں اگر الٰہی حفاظت میں نہ ہوتا تو مدت سے یہ لوگ مجھے ختم کئے ہوتے اس بندہ درگاہ کی ایک اور گزارش معروض ہے کہ میری تعلیم توحید جو میں نے بطور سرکار پیغام کے پہنچائی ہے اس کے جواب میں ان بڑے مالدار کنبہ دار لوگوں نے ماتحتوں کو کہا کہ خبردار اپنے مصنوعی معبودوں کو مت چھوڑنا یہاں تک کہ پختگی کی غرض سے اپنے مصنوعی معبودوں کے نام لے لے کر تاکید کر رکھی ہے اور کہا ہے کہ نہ بڑے بت ود کو چھوڑنا نہ سواع کو نہ یغوث کو نہ یعوق کو اور نہ نسر کو چھوڑنا۔ سرکار ! انہوں نے میری سخت تکذیب کی ہے اور بہت سے مخلوق کو گمراہ کیا ہے اور کر رہے ہیں اس لئے اے میرے پروردگار ان ظالموں نے ہدایت کے رستے جیسے خود بند کر لئے ہیں تو بھی بطور سزا کے ان ظالموں کو ضلالت ہی میں بڑھاتے جا تاکہ اپنی گمراہی اور بدکاری کے حسب حال سزا پائیں۔ پس نوح کی اس مظلومانہ دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور شرارتوں کی وجہ سے اسی زندگی میں بارش کے پانی میں غرق کئے گئے پھر بعد غرق جہنم کی آگ میں داخل کئے گئے پھر انہوں نے اللہ سے ورے اپنے مصنوعی معبودوں میں سے کوئی مددگار نہ پایا بلکہ سب کے سب ان کے دشمن ہوگئے اور یہ بھی نوح نے دعا میں کہا اے میرے پروردگار ان کافروں کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے لہذا اب تو ان میں سے کسی آباد گھر کو نہ چھوڑ سب کو تباہ کر دے مجھے علم غیب حاصل تو نہیں مگر میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں اگر تو ان کو اس حالت میں زندہ چھوڑ رکھے گا تو مثل سابق تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور جو بھی بچہ جنیں گے اپنے اثر نطفہ اور تاثیر صحبت سے بدکار اور کافر ہی جنیں گے پس جس طرح سمجھدار باغبان پھل دار درختوں کو نقصان پہنچانے والے پیڑوں کو کاٹ دیتا ہے حضور بھی ایسا ہی کریں اس کے ساتھ نوح نے یہ دعا بھی کی اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور پھر اس شخص کو بھی بخش دے جو ایماندار ہو کر میرے گھر میں یا حلقہ اثر میں داخل ہو اور ان کے سوا دنیا کے موجودہ اور آئندہ سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں پر تباہی ڈال حضرت نوح کی یہ دعا قریبا ایک ہزار سال کے تجربہ پر مبنی تھی جو ممدوح نے ان میں گذارے تھے یہ نہیں کہ جلدی میں گھبرا گئے تھے سچ ہے۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں نوح
6 نوح
7 نوح
8 نوح
9 نوح
10 نوح
11 نوح
12 نوح
13 نوح
14 نوح
15 نوح
16 نوح
17 نوح
18 نوح
19 نوح
20 نوح
21 نوح
22 نوح
23 نوح
24 نوح
25 نوح
26 نوح
27 نوح
28 نوح
0 الجن
1 اے نبی (علیہ السلام) تو ان منکرین کو کہہ میری طرف اللہ کی وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے میرے پڑھتے ہوئے قرآن سنا تو سن کر کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد اترا ہے الجن
2 اس کی خوبی یہ ہے کہ سنتے ہی نیکی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے پس ہم تو اس کو سنتے ہی بغیرا یچ پیچ کے مان گئے اس کی بڑی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کو واحد سمجھو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ سمجھو پس ہم آئندہ کو اپنے رب کے ساتھ کسی ایک شخص یا چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے الجن
3 اور جنوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے اپنے لئے نہ بیوی بنائی ہے نہ اولاد کیونکہ یہ سب لازمہ مخلوقات ہیں الجن
4 اور جنوں نے یہ بھی کہا کہ آج سے پہلے ہم شرک وکفر کی باتیں سنا کرتے تھے تو ان کی تصدیق کیا کرتے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ یقینا ہم میں سے بے وقوف لوگ اللہ کی ذات اقدس پر غلط باتیں کہا کرتے تھے الجن
5 اور ہم سمجھتے تھے کہ انسان اور جن اللہ پر جھوٹ نہیں کہتے مگر دراصل ہمارا گمان غلط نکلا اب تو ثابت ہوا کہ یہ سارے کے سارے ہی دروغ گو ہیں الجن
6 اور اس قرآن کے اترنے سے پہلے کئی انسان جنگلوں میں چلتے ہوئے جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے جب کبھی کسی گھن کے جنگل میں اترتے تو پہلے کہہ لیتے نَعُوْذُ بِسَیِّدِ ھٰذَا الْوَادِیْ ہم اس جنگل کے سردار بڑے جن کی پناہ لیتے ہیں پھر اتنا کہنے سے وہ جن ! ان کو بجائے فائدہ پہنچانے کے نقصان پہنچاتے الجن
7 اور یہ بھی جنوں نے اپنے مخاطبوں کو کہا کہ دیکھو ان گمراہ انسانوں نے بھی تمہاری طرح یہی سمجھ رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا حالانکہ اب قرآن سننے سے معلوم ہوا کہ دوبارہ زندگی ہوگی اس لئے ہم جان گئے کہ واقعی وہ خیالات سب غلط تھے الجن
8 اور سنو ! اس قرآن کے سننے سے پہلے ہم نے آسمان کو چھوا تو بڑی سخت حفاظت اور آگ کے شعلوں سے گھرا ہوا پایا ایسا کہ کبھی ایسا نہ دیکھا نہ سنا چاروں طرف سے ہیبت کا نظارہ تھا معلوم ہوتا تھا کہ بہت بڑا انتظام ہورہا ہے (اس سورۃ میں اَنَّ مفتوحہ جتنے آئے ہیں ان کی وجہ سے نحوی قواعد کی پابندی میں بڑی مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ اَنَّ مفتوحہ قول کا مقولہ نہیں ہوا کرتا۔ اسکی توجیہ کرنے میں نحوی علماء مفسرین کو بعید از کار توجیہیں کرنی پڑیں۔ مگر ہماری رائے اس بارے میں یہ ہے کہ شذوذ کے طور پر قول کے بعد اَنَّ مفتوحہ آجاتا ہے حضرت استاذ الہند شاہ ولی اللہ قدس سرہ بھی ایسے دوراز کار تکلفات سے ناراض ہیں (فوز الکبیر) الجن
9 اور ہم آج سے پہلے آسمان سے ورے آواز پہنچنے کی جگہ بیٹھا کرتے اور سنا کرتے تھے اب جو کوئی کان لگائے تو آگ کا شعلہ تیار پاتا ہے الجن
10 ان حالات کو دیکھ کر ہم متحیر ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ اس انقلاب سے زمین والوں کے حق میں اللہ کی طرف سے برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے پروردگار نے ان کے لئے بہتری کا ارادہ کیا ہے بہر حال جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔ اللہ اچھا کرے الجن
11 اور بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ تو نیک ہیں جو پہلے سے نیک چلے آئے ہیں نہ مشرک ہیں نہ بدکار اور بعض اس کے سوا کچھ اور طرح کے بھی ہیں غرض ہم مختلف اقسام کے تھے الجن
12 اور اب ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہم اللہ کو اس کی زمین میں عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر یا گم ہو کر ہم اسے عاجز کرسکتے ہیں یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ہم کو فنا کرنا چاہے تو ہم اس سے بھاگ کر کہیں پناہ لے سکیں یا بعد فنا کے دوبارہ پیدا کرنا چاہے تو ہم پیدا نہ ہوسکیں۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ سب کام اس کے ایک لفظ کن کے ماتحت ہیں یہ سب کچھ ہم نے قرآن سے سیکھا ہے الجن
13 اور جب ہم نے ہدایت کی کتاب (قرآن) کو سنا تو اس کو معقول پایا اس لئے ہم نے اس پر یقین کرلیا یعنی یہ سمجھ لیا کہ یہ کتاب واقعی الہامی کتاب ہے پس چونکہ یہ الہامی اور الٰہی کتاب ہے اس لئے ساری مخلوق کا اس میں مساوی حصہ ہے پس جو کوئی اپنے رب ذوالجلال پر صحیح ایمان لائے گا اسے نہ نقصان کا خوف ہوگا نہ ظلم کا یعنی اس کا کوئی کام ضائع نہ ہوگا الجن
14 اور جنوں نے یہ بھی کہا کہ ہم میں بعض لوگ اللہ کے فرمانبردار یعی نیک ہیں جن کو ہم پہلے صالحون کے لفظ سے بیان کر آئے ہیں اور بعض بدکار ہیں جن کو ہم دون ذلک میں بتا آئے ہیں اور اگر غور کریں تو ہر قوم میں ایسا ہوتا ہے یہ کوئی ہم سے مخصوص نہیں پس جو لوگ اللہ کے ہو رہیں۔ یعنی ہر وقت ان کو خیال رہتا ہے کہ اللہ راضی ہو یقینا سمجھو کہ انہوں ہی نے ہدایت کی تلاش کی الجن
15 اور جو سیدھی راہ سے ٹیڑھے ہیں یعنی اللہ کی رضا جوئی کی پروا نہیں کرتے وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے کیونکہ کفروشرک اور بدکار کا نتیجہ یہی ہے الجن
16 (16۔17) اور اے نبی تیری طرف یہ بھی وحی کی جاتی ہے یعنی ہم تمہیں اطلاع دیتے ہیں کہ اگر یہ لوگ مشرکین عرب دین کے سیدھے راستے پر آکر مضبوطی سے جمے رہتے تو ہم ان کو کافی پانی پلاتے جو ان کو اور ان کے کھیتوں کو سیراب کرتالیکن اب جو امساک باراں کی وجہ سے قحط مسلط ہو رہا ہے اس لئے ہے کہ تاہم (اللہ) ان کو اس میں مبتلا عذاب کریں جو ان کی بدعملی کی سزا ہے کیونکہ یہ لوگ بداعمال ہیں اور الٰہی قانون یہ ہے کہ جو کوئی اپنے رب کی نصیحت سے جو اس نے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کی ہو روگردانی کرے اللہ اس کو سخت عذاب جہنم میں داخل کرے گا الجن
17 الجن
18 اور سنو یہ بھی میری طرف وحی ہوئی ہے کہ تمام مسجدیں خاص کر مسجد حرام خاص اللہ کی عبادت کے لئے ہیں پس تم ان مساجد میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارا کرو ورنہ یہ فعل تمہارا مسجد کی غرض وغائت کے خلاف ہوگا الجن
19 اور یہ بھی مجھے بغرض تبلیغ اطلاع ملی ہے کہ مشرکوں کی یہ حالت ہے کہ جب کبھی اللہ کا بندہ محمد رسول اللہ مسجد حرام میں کھڑا ہو کر اللہ کو اوصاف حمیدہ مخصوصہ کے ساتھ پکارتا تو مشرک لوگ ایسے بیزار ہوتے کہ اس پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ہوجاتے الجن
20 اے نبی ! تو ایسے لوگوں کو کہہ کہ تمہاری ایسی گھبراہٹ اور اضطراب سے کچھ نہ ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ میں اللہ کے حکم سے صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی ایک کو شریک نہیں کرتا الجن
21 ایسا نہ ہو کہ تیری امت ہی حسن عقیدہ سے تجھ ہی کو نفع نقصان رساں جان کر شرک میں مبتلا ہوجائے اس لئے تو ان کو کہہ کہ ہمیشہ کے لئے یہ خیال دل سے نکال دو کیونکہ یقینا میں تمہارے لئے کسی قسم کے ضرر یا فائدہ پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا خبردار اب یا آئندہ کو مجھ سے یہ امید نہ رکھنا کہ میں تم کو اولاد دے سکتا ہوں یا اور کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہوں یہ آئت اصل اصول توحید ہے اس لئے اس جگہ ایک مثال سے مسئلہ توحید سمجھانے کی ضرورت ہے جسکی صورت یہ ہے ہندوستان میں حکومت کا سلسلہ یہ ہے کہ سب سے اونچا حاکم وایسر اے ہے جو بادشاہ کا نائب ہے اس کے نیچے صوبوں کے گورنر ہیں۔ گورنروں کے نیچے کمشنر ہیں کمشنروں کے نیچے حکام ضلع ہیں حکام ضلع کے ماتحت تحصیلدار ہیں اس سارے سلسلہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ جس کام کا اختیار وایسراے کو نہو اسکے ماتحتوں میں اسکا اختیار سمجھنا سخت نادانی بلکہ وایسراے کی توہین ہے۔ ہم اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب مخلوق میں برتر اور برگزیدہ ہیں باقی اصحاب کبار اور اولیاکرام سب آپ کے ماتحت ہیں۔ پس اصول مذکورہ کے موافق ہمیں سوچنا چاہئے کہ جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بابت اعلان کردیں کہ مجھ میں مخلوق کو نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں تو آپکے ماتحتوں کو کب ہوگی پھر جو لوگ اولیاء اللہ کے حق میں گمان کرتے ہیں کہ وہ نفع رسانی یا دفع ضرر کی قوت رکھتے ہیں وہ دراصل غلط خیال ہی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ ان کے اس خیال سے توہین انبیاء لازم آتی ہے کیونکہ جب آنحضرت جیسے اولو العزم نبی کو اختیار نہیں تو ماتحتوں کو کیا ہوگا پس کسی ولی اللہ کو مخاطب کر کے یہ کہنا امداد کن امداد کن از بندوں غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادر کسی طرح صحیح نہیں۔ ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ جو اختیار اللہ نے اپنے رسول برتر کو نہیں دیا وہ کسی ولی کو کیا ہوگا۔ اللہ اعلم۔ منہ الجن
22 (اے نبی تو یہ بھی کہہ دے کہ بذات خود مجھے بھی اللہ کے سوا کوئی پناہ نہیں دے گا اور اس کے سوا میں کہیں پناہ نہیں پائوں گا اس لئے میں قدرتی امور میں کوئی اختیار نہیں رکھتا الجن
23 ہاں مجھے اللہ کی طرف سے صرف نصیحت کرنے اور پیغام پہنچانے کا اختیار ہے پس یہی میری ڈیوٹی ہے اور یہی میرا فرض منصبی ہے اس لئے مناسب بلکہ ضروری ہے کہ تیری ہی زبانی یہ اطلاع شائع ہوجائے کہ اب آئندہ کو جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بے فرمانی کرے گا بس اس کے لئے جہنم کی سزا ہوگی وہ ہمیشہ اس میں رہے گا الجن
24 یہ اطلاع ان کو سنا دے مگر یہ خیال رکھ کہ ان کی ضد یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مرتے دم تک بھی نہ مانیں گے اور جب یہ لوگ اپنے موعودہ عذاب کو دیکھیں گے تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کس فریق کے مددگار کمزور ہیں اور کون شمار میں کم ہے۔ یعنی یہ لوگ جو بار بار کہتے ہیں ہماری جماعت بہت ہے ہم ایک دوسرے کے مددگار ہیں اس وقت ان کو کیسے معلوم ہوگا ؟ اس طرح کہ عذاب میں مبتلا ہوں گے تو کوئی ان کا حال پرسان یا خبرگیران نہ ہوگا الجن
25 یہ سن کر فورا کہیں گے کہ تم جس عذاب سے ڈراتے ہو وہ کیسا ہوگا اس لئے اے نبی تو ان کو کہہ کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا موعودہ عذاب قریب ہے یا میرا پروردگار اس کو دور کر دے گا الجن
26 وہ عالم الغیب ہے اس کے علم میں جو وقت مناسب ہوگا اس وقت خود بخود عذاب آموجود ہوجائے گا وہ اللہ اپنے علم غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا الجن
27 مگر انبیاء کرام میں سے جس رسول کو جتنا دینا پسند کرتا ہے اطلاع دیتا ہے یعنی بذریعہ وحی بمعرفت جبرئیل جب پیغام بھیجتا ہے۔ تو اس کے آگے اور پیچھے فرشتوں کی گارد کا پہرا بھیجتا ہے مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ چلا آرہا ہے کہ بعد زمانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبوت ختم ہے کیونکہ قرآنی نص صریح ہے خاتم النبین اور احادیث قریب تواتر کے آئی ہیں لا نبی بعدی یعنی حضور (علیہ السلام) نے فرمایا ہے میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ یہاں تک فرمایا لو کان بعدی نبی لکان عمر یعیگ میرے بعد نبی ہوسکتا تو عمر (رضی اللہ عنہ) نبی ہوتا لیکن وہ بھی نہیں کیونکہ لا نبی بعدی۔ ہمارے ملک پنجاب میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ١٣٦١؁ھ میں پیدا ہوئے آپ آہستہ آہستہ سلسلہ وار نبوت تک پہنچے اس لئے انہوں نے اس آئت سے اجراء نبوت کا استدلال کر کے اپنی نبوت کا ثبوت دیا ہے چنانچہ آپ لکھتے ہیں۔ اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کیلئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپکی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص امتی نہ ہو اسپر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو۔ سو اللہ نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا۔ لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپکی متابعت میں اپنا وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرتﷺپر ختم ہوگئی ہے مگر ظلی نبوت جسکے معنے ہیں کہ فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جا دے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الٰہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہوجاوے مرزا صاحب کا دعوی یہ تھا کہ نبوت مستقلہ تو ختم ہے اور خاتم النبیین کے معنی وہ یہی کرتے ہیں کہ براہ راست نبوۃ پانیوالے نبیونکا ختم کرنیوالا دوسری قسم نبوت مستفیضہ ہے یعنی پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کے فیض اتباع سے بنی بننا سو وہ کہتے ہیں یہ جاری ہے چنانچہ میں (مرزا) اسی قسم کا نبی ہو۔ اس اصولی تقریر کے بعد مرزا صاحب کا اثبات نبوت سننا چاہئے۔ مرزا صاحب اپنی اس نبوت کا ثبوت یوں دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کیلئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے حالانکہ یہ انکا سراسر افترا ہے بلکہ جس نبوت کا دعوی کرنا قرآن شریف کی رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا گیا صرف یہ دعوی ہے کہ ایک پہلو سے میں امتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں بات یہ ہے کہ جیسا مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ” اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ “ اب واضح ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بخبر نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہوسکتے جبسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اللہ نپے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہوسکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی (حقیقۃ الوحی ص ٣٩٠۔ ٣٩١) پہلے تو ہمیں یہ دکھانا ہے کہ جناب مرزا صاحب نے جو حضرت مجدد قدس سرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ امور غیبیہ جاننے والا نبی کہلاتا ہے یہ صحیح نہیں۔ بالکل غلط ہے حضرت مجدد صاحب کا یہ مکتوب گرامی بنام محمد صدیق مکتوبات مجددیہ مرقوم ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ اعلم ایھا الصد یق ان کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاھا و ذلک لا فرا دمن الانبیاء و قد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم و اذ اکثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثا (کما کان امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) و ھذا غیر الالھام و غیر الالقاء فی الروع و غیر کلام الذی مع الملک انما یخاطب بھذا الکلام الانسان الکامل واللہ یختص برحمتہ من یشاء (دفتر دوم مکتوبات نمبر ٥١) یہ ہے اصل عبارت مکتوبات مجددی کی اس عبارت میں جس فقرہ پر ہم نے خط دیا ہے مرزا صاحب نے اسے حذف کرکے باقی سارا خود ازالہ اوہام میں نقل کرکے ترجمہ یوں کیا ہے یعنی اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جل شانہ کا بشر کے ساتھ کبھی روبرو اور ہمکلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو اللہ تعالیٰ کے ہمکلام ہوتے ہیں وہ خواص ابنیا میں سے ہیں اور کبھی یہ ہم کلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتا ہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہمکلامی کا پاتا ہے‘ اس کو محدث بولتے ہیں اور یہ مکالمہ الٰہی از قسم الہام نہیں بلکہ غیر الہام ہے اور یہ القاء فی الروع بھی نہیں ہے اور نہ اس قسم کا کلام ہے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتا ہے اس کلام سے وہ شخص مخاطب کیا جاتا ہے جو انسان کامل ہو اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے۔ (ازالہ اوہام حصہ اول ص ٩١٥) اس سے پہلے مرزا صاحب اپنی الہامی کتاب ” براہین احمدیہ“ میں بھی اس مکتوب مجددی کو نقل کرچکے ہیں۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ ” امام ربانی (مجدد) صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت (اللہ تعالیٰ) سے مشرف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے“ ص ٥٤٦ مجدد صاحب کی اس عبارت میں خود مرزا صاحب کو تسلیم ہے کہ ایسا ملہم غیر نبی ہے پس اس تصریح مجددی اور مرزا صاحب کی اپنی دوشہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ” مرزا صاحب کا یہ دعویٰ کہ حضرت مجدد صاحب نے کثرت سے امور غیبیہ پانے والے کو نبی کہا ہے “ غلط اور مجدد صاحب پر افترا ہے اس انکشاف کے بعد ہم مرزا صاحب کے امور غیبیہ کی پڑتال کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آپ پر جو امور غیبیہ کھولے جاتے تھے جن کی وجہ سے آپ نے منصب نبوۃ پایا ہے کہاں تک صحیح ثابت ہوتے تھے۔ نمونہ غیب :۔ مرزا صاحب کے ایک قریبی رشتہ دار کو اس کی لڑکی سے رشتہ کی درخواست کی۔ والد لڑکی نے انکار کردیا تو مرزا صاحب نے الہام شائع کیا کہ یہ لڑکی دوسری جگہ بیاہی گئی تو بیوہ ہو کر بھی میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ چنانچہ مرزا صاحب کے الہامی الفاظ درج ہیں جن کو مرزا صاحب بڑی خفگی کے لہجہ میں اللہ کی طرف سے سناتے ہیں۔ ” اس اللہ نے اس تمام گروہ کے حق میں مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ کذ بوابا یتنا و کانوا بھا یستہزئون فسیکفیھم اللہ و یردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ ان ربک فعال لما یرید یعنی ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی اور ان سے ٹھٹھا کیا سو اللہ ان کے شر دور کرنے کے لئے تیرے لئے کافی ہوگا اور انہیں یہ نشانیاں دکھلائے گا کہ احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور اللہ اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا۔ یعنی آخر کار وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور اللہ سب روکیں درمیان سے اٹھائے گا اللہ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تیرا رب ایسا قادر ہے کہ جس کام کا وہ ارادہ کرے وہ اپنے منشا کے موافق ضرور پورا کرتا ہے “ (اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد سوم ص ١١٣) اس الہام کی تشریح میں مرزا صاحب لکھتے ہیں۔ ” نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سیتج کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری یہ بات ہرگز نہ ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو ان ٹل اللہ تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے (حوالہ مذکور) اس الہام اور اس کی معقول تشریح سے جو امر ثابت ہوتا ہے محتاج بیان نہیں نہ کسی تشریح کا محتاج ہے نہ تاویل کا کیونکہ مضمون صاف ہے کہ یہ نکاح ضرور ہوگا اور ضرور ہوگا اس تشریح اور تفصیل کے بعد گو کسی اندرونی یا بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں تاہم ایک بیان مرزا صاحب کا ہم اور پیش کرتے ہیں تاکہ کسی اپنے بیگانے کو مجال سخن نہ رہے۔ مرزا صاحب ١٩٠١ئ؁ کو عدالت گورداسپور میں ایک شہادت دینے کو پیش ہوئے تو عدالت میں آپ سے اس نکاح کی بابت سوال ہوا جس کے متعلق آپ کے الفاظ یہ ہیں۔ ” عورت اب تک زندہ ہے میرے نکاح میں ضرور آئے گی امید کیسی کامل یقین ہے یہ اللہ کی باتیں ہیں ٹلتی نہیں ہو کر رہے گی“ (مرزا صاحب کی شہادت مندرجہ اخبار الحکم قادیاں ١٠ اگست ١٩٠١ئ۔) ان تصریحات کے بعدواقعہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب ساری عمر کوشش کرتے کرتے ٢٦ مئی ١٩٠٨ئ؁ کو انتقال کر گئے اور مسماۃ مذکورہ آج (جنوری ١٩٣٠ئ۔) تک اپنے بال بچوں میں بخوشی و خورمی قصبہ پٹی ضلع لاہور (پنجاب) میں زندہ موجود ہے یہ ہے مرزا صاحب کے الہامی غیوب کی ایک مثال۔ دوسرا نمونہ :۔ جون ١٨٩٣ئ؁ میں مرزا صاحب کا امرتسر میں پادری عبد اللہ آتھم عیسائی سے پندرہ روز تک مباحثہ ہوتا رہا اخیر مباحثہ کے مرزا صاحب نے اپنا ایک غیبی الہام سنایا جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ” آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب آلہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو اللہ بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے اللہ کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے“ (کتاب جنگ مقدس ص ١٨٨) اس بات پر سب متفق ہیں کہ انسان کو اللہ بنانے والا فریق یقینی پادری آتھم تھا کیونکہ اس کا مذہب یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ْ معبود اور اللہ کا بیٹا تھا چنانچہ اسی مسئلہ پر اس کا مزرا صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوا باوجود اس کے پادری آتھم پندرہ ماہ میں مرنے کی بجائے قریبا دو سال زیادہ مدت لے کر مرا۔ کیونکہ اس الہامی پیشگوئی کے مطابق پادری آتھم کو ستمبر ١٨٩٤ئ؁ تک مر جانا چاہیے تھا حالانکہ وہ جولائی ١٨٩٦ئ؁ میں مرا چنانچہ اس بارے میں مرزا صاحب کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ ” چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ٢٧ جولائی ١٨٩٦ئ؁ کو بمقام فیروز پور فوت ہوگئے ہیں۔“ (کتاب انجام آتھم ص ١) ان تصریحات اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ الہام غیب دان اللہ کی طرف سے نہ تھا ورنہ غلط نہ ہوتا۔ اسی طرح کے ان کے ادعاے الہام اور بہت سے ہیں۔ ہم نے جہاں تک مرزا صاحب کے غیبی امور کو جانچا ان میں جتنے امور کی بابت انہوں نے ادعا کیا ہے ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں پایا وہ سب یہاں درج نہیں ہوسکتے ہم نے ان کو ایک مستقل کتاب میں جمع کرکے ان پر مکمل بحث کی ہوئی ہے جس کا نام ” الہامات مرزا “ اطلاع مرزا صاحب نے اس خاکسار کے حق میں بھی ایک غیبی خبر شائع کی تھی وہ ص جلد ہذا پر درج ہے۔ اللھم ارنا الحق حقا والباطل باطلا علماء سلف سے خلف تک سب اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ علم غیب اللہ کے سوا کسی کو نہیں نہ ذاتی نہ وہبی نہ کسبی مگر آج کل بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب حاصل تھا۔ علم غیب سے مراد کل اشیاء کائنات کا علم ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آئت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے‘ اور ہمارے رسول تو سید الرسل ہیں اس لئے آپکو تو علم غیب کامل اکمل حاصل ہوگا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ غلطی دراصل آئت کی نحوی ترکیب نہ سوچنے سے لگی ہے۔ نحوی ترکیب سے الا حرف استثناء کے بعد کا حصہ مستثنی ہے اور مستثنی میں جو حکم ہوتا ہے وہ پہلے حصے کے خلاف ہوتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے حصے میں کیا مذکور ہے کچھ شک نہیں کہ پہلے حصے میں دو چیزیں منفی ہیں (١) احدا (٢) دوسرا غیبہ۔ احد سے مستشنی یقینا رسول ہے کچھ شک نہیں کہ ” غیبہ“ کا مفہوم سلب کلی ہے استثناء کے بعد مستثنی منہ کی نقیض ہے جو موجبہ جزئیہ ہے پس ان دونوں مستثنی منہ اور مستثنی یعنی سلب اور ایجاب سے جو وہ قضیے ماخوذ ہوتے ہیں وہ یوں ہیں۔ لاشی من الغیب بمعلوم لاحد بعض الغیب معلوم لرسل پہلا قضیہ لا یظہر علی غیبہ احدا سے ماخوذ ہے دوسرا الا من ارتضی من رسول کا مفہوم ہے پس اس جزئیہ موجبہ سے کسی رسول یا نبی کی غیب دانی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ غیب دانی کے معنی ہیں کل غیوب کا جاننا اسی کی قرآن مجید میں نفی کی گئی ہے قیاس استشنائی :۔ قرآن مجید میں جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیب دانی کی نفی کی ہے وہاں منطقی شکل میں قیاس استشائی سے کام لیا ہے جو اعلی درجہ کا برہان ہے چنانچہ ارشاد ہے لو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر و ما مسنی السوء (پ ٩ ع ١٣) یعنی میں (آنحضرت) اگر غیب جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ منطقی اصطلاح میں یہ قیاس استشنائی ہے جس کے دونوں اجزا مذکور ہیں پہلے کا نام مقدم ہے دوسرے کا نام تالی حرف لو رفع تالی پر دلالت کرنے والا ہوتا ہے چنانچہ دوسری آیت جس میں اثبات توحید کے متعلق قیاس استثنائی ہی سے کام لیا گیا ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔ لو کا نا فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا (پ ١٧ ع ٢) اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں خراب ہوگئے ہوتے۔ بعینہ اس آیت کی تقریر کی طرح پہلی آیت کی تقریر ہے یعنی آسمان و زمین کا برباد ہونا متعدد معبوددں کے وجود کو لازم ہے اس طرح خیر کثیر جمع کرنا اور برائی سے محفوظ رہنا علم غیب کو لازم ہے جس طرح آیت توحید میں لو کا حرف دلالت کرتا ہے کہ آسمان و زمین خراب نہیں ہوئے اور ان کے خراب ہونے سے تعدد الہ کی نفی ہوتی ہے اسی طرح آیت غیب میں حرف لو دلالت کرتا ہے کہ خیر کثیر کا جمع کرنا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنا نہیں ہوا اور ان کے نہ ہونے سے آنحضرت کا عالم الغیب ہونا منفی ہوتا ہے مختصر لفظوں میں اہل منطق کا قانون یہ ہے ” انتفاء التالی یستلزم انتفاء المقدم“ قائلین علم غیب اس آیت کی تاویل میں کہا کرتے ہیں کہ آنحضرت کو علم غیب ذاتی نہ تھا بلکہ اللہ کی طرف سے وہبی تھا اور اس آیت میں جس علم غیب کی نفی کی گئی ہے وہ علم ذاتی ہے مطلب (آیت بقول ان کے) یہ ہے کہ مجھ (رسول اللہ) میں علم غیب ذاتی نہیں اس سے وہبی کا انکار ثابت نہیں ہوتا۔ جواب :۔ یہ ہے کہ علم ذاتی اور علم وہبی کے مرتبے میں بیشک فرق ہے یعنی علم ذاتی اصل اور وہبی فرع ہے مگر علم کے اثر (نتیجہ) میں فرق نہیں ہوتا یعنی بعد حصول علم و ہبی کے جیسا ذاتی کا عالم اَعْلَمُ کہتا ہے وہبی کا عالم بھی اَعْلَمُ (جانتا ہوں) کہہ سکتا ہے۔ یہ دونوں اس کہنے میں مسادی ہیں پس اس اصول معقول کے ماتحت قرآن مجید کو دیکھئے کہ اعلم کہہ کر علم کی نفی کی ہے یعنی فرمایا ہے۔ لو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر۔ ثابت ہوا کہ یہ تاویل آیت موصوفہ کی منشاء الہی کے خلاف ہے علاوہ اس کے استکثار خیر (بھلائی کا جمع کرنا) جیسے علم ذاتی کا نتیجہ ہے وہبی کا بھی ہے مثلا ایک شخص کسی شہر کی منڈی میں کسی خاص قسم کی تجارت میں کثیر فائدہ حاصل ہوتا دیکھے جسے علم ذاتی کہا جاتا ہے جے سخ اسے وہاں مال لے جانے میں فائدہ ہوگا جو شخص اس سے علم صحیح حاصل کرکے وہاں مال لے جائے اسے بھی ثابت ہوا کہ استکثار خیر اگر ذاتی علم پر متفرع ہے تو وہبی علم پر بھی ویسا ہی فرع ہے اس میں کوئی فرق نہیں پس عدم استکثار خیر دونوں قسموں کے عدم علم کو مستلزم ہے۔ منطقی طرز بیان کے بعد ہم قرآن مجید کے واضح الفاظ میں اس مسئلہ کا فیصلہ سناتے میں صاف ارشاد ہے۔ قل لا اقول لکم عندی خزائن اللہ و لا اعلم الغیب و لا اقول لکم انی ملک ان اتبع الا ما یوحی الی (پ ٧ ع ١١) یعنی اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں کو نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں نہ میں تم کو یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتا ہوں۔ کیسی صاف تصریح ہے کہ الٰہی الفاظ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان الہام ترجمان سے کہوایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا اس صاف تصریح کے ہوتے ہوئے کسی دوراز کار قیاس سے اس بات کا عقیدہ رکھنا قرآنی تصریح کے خلاف کس طرح ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ واقعات حدیثیہ اور اقوال فقہاء بکثرت ہیں جن سے مسئلہ علم غیب کی مکمل نفی ہوتی ہے مگر ہم بحیثیت تفسیر قرآنی تصریحات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اللہ اعلم منہ الجن
28 تا کہ اللہ اس رسول پر ظاہر کر دے کہ ان فرشتوں نے اپنے رب کے پیغامات پورے پورے پہنچا دئیے اور اللہ کو ذاتی علم تو ہر چیز کا ہے کیونکہ اس نے ان کے پاس کی ساری چیزوں پر علمی احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر چیز کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے۔ الجن
0 المزمل
1 (1۔8) اے کملی پوش نبی رات کو نماز کے لئے قیام کیا کر مگر کچھ حصہ رات کا نصف یا اس سے کچھ کم یا بیش سو کر آرام کرلیا کر یعنی جس قدر آرام کرنا تیری انسانی طبیعت کی راحت کے لئے ضروری ہو بے شک کرلیا کر اور قیام کے وقت تسبیح تہلیل کے ساتھ قرآن مجید بھی ٹھیر ٹھیر کر پڑھا کر نہ بہت زیادہ چلا کر نہ بہت جلدی جلدی کیونکہ ایسا کرنے سے مقصود فوت ہوجاتا ہے مقصود اس سے یہ ہے کہ دل پر اس کا اثر ہو سو اس مقصود کے لحاظ سے تھوڑا پڑھنا بھی کافی ہے۔ اس شب بیداری کے علاوہ ہم (اللہ) تجھ پر اے نبی بہت بھاری حکم بھیجیں گے سارے لوگوں کو تبلیغ کرنا تیرے ذمہ کیا جائے گا۔ پس تو اپنے نفس کو اس کا متحمل بنا جس کی صورت یہی ہے کہ تو ہمہ تن اللہ کی طرف لگ جا جیسا کہ ہم نے تجھے حکم دیا ہے شب بیداری کیا کر کیونکہ رات کو اٹھنا بڑی سخت کوفت اور ذکر الٰہی کے بہت لائق ہے بس اے نبی تو شب بیدار ہو کر ذکر اللہ کیا کر اس کے علاوہ دن میں تجھے بڑا شغل ہے اور یہ شغل روز بروز بڑھتا جائے گا۔ کیونکہ ابھی تو تو اکیلا ہے جب تیری ترقی ہوگی تو علاوہ تبلیغ کے انتظام ملک بھی تجھے کرنا ہوگا پس تو اپنے کام میں اللہ سے مدد مانگ اور اپنے رب کا نام جپا کر اور بڑی بات ہے کہ سب سے کٹ کر اسی سے جڑ جا تیرے منہ پر یہی جاری ہو۔ نداریم غیراز تو فریاد رس توئی عاصیاں راخطا بخش وبس المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 المزمل
6 المزمل
7 المزمل
8 المزمل
9 کیونکہ وہ مشرق مغرب کے باشندوں بلکہ سب اشیاء کا پروردگار ہے اسی لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تو اسی کو اپنا کارساز حامی کار سمجھ تیرے منہ سے ہر وقت یہی نکلے۔ ہیں تیرے سوا سارے سہارے کمزور سب اپنے لئے ہیں اور تو سب کے لئے یہ آیت قرآن کے توحیدی مضامین کی روح ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا امر ہے جو بہت مامور کی بنا ہے انسان ہمیشہ اپنی ضروریات میں کسی کی مدد اور حمائت کا متلاشی ہوا کرتا ہے مشرکین اسی تلاش میں دربدر مارے مارے پھرتے ہیں کہ کہیں کوئی مددگار حامی مل جائے قرآن پاک کی اس آیت میں اللہ نے اپنے موحد بندوں کو اس سرگردانی سے سبکدوش کرنے کو سب سے بڑا حامی مددگار بتا دیا ہے کہ وہ اللہ جل شانہ ہے پس مسلمان کامل الایمان اس حامی مددگار کو چھوڑ کر کسی بے جان یا جاندار زندہ یا مردہ کو کیوں حامی بنانے لگا بلکہ اس کا قول یہی ہوگا پناہ بلند و پستی توئی ہمہ نیستد آنچہ ہستی توئی مسئلہ توحید سمجھانے کو ہم یہاں ایک مثال دیتے ہیں کہ کم فہم آدمی بھی جس سے توحید کا مضمون خوب سمجھ جائے۔ مثلاً ایک مکان دو منزلہ ہے نیچے کی منزل میں نوکر لوگ رہتے ہیں اوپر کی منزل میں مالک رہتا ہے اس لئے نیچے اور اوپر کے حصوں میں فرق ہوگا یعنی نیچے کے حصے میں بے اجازت داخل ہونا منع نہ ہوگا مگر اوپر کے حصے میں منع ہوگا وغیرہ۔ اسی طرح انسانی ضروریات دو قسم کی ہیں۔ (١) پہلی وہ ہیں جن میں ایک انسان دوسرے کی مدد کرسکتا ہے بلکہ کرتا ہے جیسے کھانا کھلانا پانی پلانا۔ کپڑا سی دینا کسی حاکم سے سفارش کردینا وغیرہ ان امور میں اگر ایک حاجت مند انسان دوسرے سے مدد مانگے تو جائز ہے مثلاً کسی سے کہے مجھے پانی پلا دو۔ مجھے فلاں چیز لا دو۔ میری سفارش کر دو وغیرہ ایسے امور کی نسبت قرآن مجید کی صریح تعلیم ہے۔ تعاونوا علی البر والتقوی (یعنی باہمی نیک کاموں میں مدد کیا کرو)۔ دوسرے وہ امور ہیں جو اللہ نے محض اپنے قبضے میں رکھے ہیں۔ مثلاً (١) اولاد دینا (٢) مرض میں شفا دینا (٣) رزق دینا (٤) موت و حیوۃ وارد کرنا (٥) بارش کا اتارنا (٦) سبزیوں کا پیدا کرنا وغیرہ۔ یہ سب امور ایسے ہیں کہ قرآن مجید نے ان امور کو قبضہ الٰہی میں بتایا ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کا ان میں تصرف جائز نہیں رکھا اب ہر ایک دعویٰ کی دلیل پیش کی جاتی ہے سنیے ارشاد ہے۔ (١) یھب لمن یشآء انا ثاو یھب لمن یشآء الذکور اویزوجھم ذکرانا واناثا ویجعل من یشآء عقیما انہ علیم قدیر (پ ٢٥ ع ٦) یعنی اللہ ہی جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جیسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں قسمیں لڑکے اور لڑکیاں بخشتا ہے جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے بے شک وہ سب کچھ جاننے والا اور قدرت والا ہے۔ اس آیت کا مضمون بالکل صاف ہے کہ اولاد کا دینا خاص الٰہی فعل ہے اس میں کسی دوسرے کو دخل نہیں۔ (٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مصدقہ قول قرآن مجید میں مذکور ہے جس میں ارشاد ہے واذا مرضت فھو یشفین (میں جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا بخشتا ہے) اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرض میں شفا پیدا کردینا خاص اللہ کے اختیار میں ہے۔ (٣) رزق کی وسعت اور تنگی کی بابت ارشاد ہے اولم یروا ان اللہ یبسط الرزق لمن یشآء ویقدر ان فی ذلک لایات لقوم یؤمنون (پ ٢١ ع ٧) کیا لوگ جانتے نہیں کہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے بے شک اس امر میں مومنوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (٤) موت و حیوۃ کی بابت صاف ارشاد ہے وانہ ھو امات و احی (پ ٢٧ ع ٦) تحقیق اللہ ہی سب کو زندگی بخشتا اور مارتا ہے۔ (٥) امن خلق السموت والارض وانزل لکم من السمآء مآء فانبتنابہ حدآئق ذات بھجۃ ما کان لکم ان تنبتوا شجرھاء الہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون (پ ٨ ع ١) یعنی اللہ کے کس نے آسمان زمین بنائے اور کون تمہارے لئے اوپر پانی سے اتارتا ہے سب کچھ ہم (اللہ) ہی کرتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ تمہارے لئے رونق دار باغ پیدا کرتے ہیں جو تم سارے مل کر بھی نہیں اگا سکتے کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے۔ کوئی نہیں مگر مشرک لوگ ٹیڑھے جاتے ہیں۔ یہ آیات اور ان جیسی اور بہت سی آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام قبضہ قدرت الہیہ میں ہیں کسی کو ان میں دخل نہیں۔ پس ان امور میں اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے اسی کے متعلق ارشاد ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ یعنی اللہ نے تعلیم دی ہے کہ اے میرے بندو ! تم کہا کرو۔ ” اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں “ پس ان امور میں اللہ کے سوا (زندہ ہو یا مردہ نبی ہو یا ولی۔ صدیق ہو یا شہید) کسی سے بھی مدد مانگنا یا امداد پہونچنے کا خیال کرنا صریح شرک ہے۔ مثلاً ایک بیمار ہے وہ اپنے معالج سے تشخیص مرض میں امداد لے تو جائز ہے اور دوا سازی میں اپنے ساتھیوں سے مدد لے تو جائز ہے مگر شفا پیدا کرنے میں کسی پر نظر نہ رکھے واذا مرضت فھو یشفین اس طرح کسی شخص کو اولاد کی ضرورت ہے وہ نکاح کرے نکاح کرنے میں اپنے واقفوں سے مدد لے کوئی مانع اولاد ہے تو طبیب سے علاج میں استمداد کرے مگر اولاد پیدا کرنے والا صرف اللہ کو جانے اس فعل میں کسی پر نظر نہ رکھے یہب لمن یشاء اناثا الایۃ یہ ہیں اصول توحید جن کی بابت اس آیت میں ارشاد ہے و تبتل الیہ تبتیلا فاتخذہ و کیلا پس جو لوگ یہ شعر پڑھتے ہیں یا اس کے مضمون کے قائل ہیں اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے انہوں نے نہ اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کی نہ محمد (ﷺ) کو پہچانا سچ ہے ما قدروا اللہ حق قدرہ۔ اللم ارناا لحق حقا والباطل باطلا۔ منہ المزمل
10 (10۔19) اس ساری تبلیغ پر مشرک لوگ تیرے مخالف ہوں گے اور برا بھلا کہیں گے تو جو کچھ یہ لوگ کہیں گے تو اس پر صبر کیجیو اور ان کو یعنی ان کی بیہودہ گوئی کو بڑی وضع داری سے نظر انداز کیجئیو اور مالدار خوشحال مکذبین کو میرے حوالے کر کے تھوڑا سا وقت ان کو مہلت دیجئیو عنقریب دیکھ لیں گے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہم تجھے بتائے دیتے ہیں کہ ہمارے پاس مختلف قسم کے عذاب ہیں منجملہ تپتی ہوئی جہنم ہے اور گلا گھونٹنے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے یہ کب ؟ جس روز بوجہ پہونچال کے زمین اور پہاڑ اپنی اپنی جگہ سے ہل جائیں گے اور بڑے بڑے پہاڑ بھر بھرے ہوجائیں گے اس روز سب لوگ اپنے اعمال کے بدلے پائیں گے۔ اے مکہ کے لوگو ! اسی بات کے سمجھانے کو ہم نے تمہاری طرف رسول (محمدﷺ) بھیجا جو تم پر نگران ہے تمہارے اعمال کا سیاسی طور پر محاسبہ کرے گا ہمارا یہ فعل (ارسال رسول) نیا نہیں بلکہ ہم نے اسی طرح بھاجا ہے جیسے پہلے ہم نے فرعون کی طرف حضرت موسیٰ کو رسول بنا کربھیجا تھا جس نے فرعون کو توحید الوہیت اور اتباع رسالت واضح الفاظ میں تبلیغ کردئیے پھر بھی فرعون نے اس صادق رسول موسیٰ (علیہ السلام) کی بے فرمانی کی تو ہم (اللہ) نے اس کو بری طرح پکڑا ایسا پکڑا کہ اس کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو پانی میں ڈبو دیا۔ پس اس کا انجام دیکھو اور سوچو کہ اگر تم لوگ بھی اس رسول کی اطاعت سے منکر ہی رہے تو اس دن کی تکلیف سے کیسے بچ سکو گے جو بوجہ اپنی درازی اور بسبب اپنی مصائب کے بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ آسمان اس روز پھٹ جائے گا زمین برباد ہوجائے گی کوئی چیز زندہ نظر نہ آئے گی یہ اس اللہ کا وعدہ صرف لفظی نہیں بلکہ کیا ہوا ہے اس میں کسی قسم کا التوا یا محو اثبات نہ ہوگا بے شک یہ آیات قرآنیہ جو تم لوگوں کو سنائی گئی ہیں نصیحت ہیں پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کرے جیسا کہ اے رسول تو نے اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے کہ طاقت سے بھی زیادہ عبادت کرتا ہے المزمل
11 المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 المزمل
16 المزمل
17 المزمل
18 المزمل
19 المزمل
20 تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تو کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی نصف کے لگ بھگ اور کبھی ثلث شب کے قریب عبادت میں لگا رہتا ہے اور تیرے ساتھیوں میں سے مومنین کی ایک جماعت بھی عبادت میں مشغول رہتی ہے تیرا اور ان کا اخلاص نمایاں ہے کیونکہ رات کے وقت وہی شخص عبادت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دلی تعلق رکھتا ہو اور اللہ کو رات اور دن کا اندازہ خوب معلوم ہے اسی علم کی بنا پر وہ بتاتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہو اسی علم کلی سے اسے معلوم ہے کہ تم لوگ ہرگز اس کو نباہ نہیں سکو گے تو اس نے تم پر نظر عنائت کی ہے پس جس قدر قرآن پڑھنا تمہیں آسان ہو پڑھا کرو یعنی بوقت شب نماز تہجد جتنی آسانی سے پڑھ سکو پڑھا کرو اور بے حد تکلیف نہ اٹھایا کرو اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں بعض لوگ بیمار ہوں گے اور کئی ایک ملک میں سفر کریں گے جس میں وہ بذریعہ تجارت اللہ کا فضل تلاش کریں گے جو بالکل جائز بلکہ مستحسن فعل ہے اور کئی لوگ ایسے ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے پس یہ وجوہات ہیں جن سے تم کو نرم حکم دیا جاتا ہے کہ جتنا کچھ قرآن پڑھنا تم کو آسان ہو اتنا پڑھ لیا کرو‘ بہت زیادہ بوجھ اپنے نفس پر نہ ڈالو اور مفروضہ نماز پڑھتے رہو اور مال کا فریضہ زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور دے سکو تو اللہ کے بندوں میں سے حاجتمندوں کو بلا سود قرض حسنہ دیا کرو اور ان مذکورہ مواقع کے علاوہ بھی نیک کام میں خرچ کیا کرو کیونکہ جو بھی تم لوگ اپنے لئے نیک کام اپنے اعمالنامہ میں لکھوا کر آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے نزدیک بہتر اور اچھے اجر کی صورت میں پائو گے اور اس کے پانے سے تم لوگ خوش ہوگے اس بدنی اور مالی عبادت کے علاوہ ایک وسیع الذیل کام سنو ! جو کسی وقت بھی ختم نہ ہو یا ختم ہونے پائے وہ یہ کہ اللہ سے بخشش مانگا کرو بے شک اللہ گناہوں کا بخشنے والا مہربان ہے اس کی رحمت سے کسی حال میں ناامید نہ ہونا چاہیے۔ یَا غَفُوْرُ یَا رَحِیْمُ نَسْتَغْفِرُکَ المزمل
0 المدثر
1 سورۃ مزمل اور مدثر کی بابت مفسرین میں اختلاف ہے کہ پہلے کون اتری بعض علماء مدثر کو پہلے کہتے ہیں۔ ہم نے مزمل کو تقدم کے لحاظ سے مقدم ہی سمجھا ہے اور مدثر کے جو معنی کئے ہیں تفسیر کبیر میں ملتے ہیں “ اے لباس نبوۃ اوڑھنے والے محمد رسول اللہ e المدثر
2 اللہ کا نام لے کر اٹھ اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا المدثر
3 اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر یعنی چلتے پھرتے اللہ اکبر کہا کر المدثر
4 اور اپنے کپڑوں اور دل ! کو پاک صاف رکھ رب کے شعراء ثیاب سے مراد دل لیا کرتے ہیں امرء القیس کہتا ہے وان کنت قد سائتک منی خلیقۃ نسلی ثیابی من ثیابک تنسلی اس شعر میں ثیاب سے مراد دل ہے یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوۃ کے لئے ضروری ہے مگر دل کا پاک صاف رکھنا ہر حال میں لازمی ہے حدیث میں وارد ہے ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ الاھی القلب یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑا جاتا ہے ! وہ دل ہے۔ اللھم اصلح قلبی وقلب کل ناظر۔ منہ المدثر
5 یعنی شرک‘ کفر‘ سوء اخلاق وغیرہ کی نجاست دل سے دور رکھ المدثر
6 اور کسی انسان پر اس نیت سے احسان نہ کیا کر کہ اس سے زیادہ حاصل کرے ایسا کرنا بخیلوں اور کنجوسوں کا کام ہے المدثر
7 اور تبلیغ حق کرنے میں جو تکلیف پہنچے اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے یہ مذہبی اور اخلاقی سبق یاد کر کے اس پر صبر کریو۔ شان نزول :۔ ایک شخص ولید بن مغیرہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن شریف سن کر قرآن کی تعریف کی تو قریش نے اس کو گھیر لیا کہ تو نے یہ کیا غضب کیا آخر اس پر جبر کرکے اس کی رائے تبدیل کرالی تھوڑا تامل کرکے اس نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر نہیں مجنون نہیں ہے تو جادو گر ہے اور یہ قرآن اس کا جادو ہے اس کے جادو گر ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ باپ بیٹے میں بیوی خاوند میں جدائی کردیتا ہے۔ اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ملخص من خازن) منہ المدثر
8 اعتقادی بات سنو ! جب صور میں پھونکا جائیگا۔ یعنی جس روز قیامت قائم ہوگی المدثر
9 وہ دن بڑا سخت ہوگا المدثر
10 کافروں پر کسی طرح سے آسان نہ ہوگا المدثر
11 اور اگر منکرین فساد پر آمادہ ہوں تو دل میں غمگین نہ ہوجائو بلکہ دل میں یقین رکھیو کہ یہ سب میرے اللہ کی مخلوق ہیں اور جس جس انسان کو میں نے پیدا کیا ہے یعنی کل مخلوق اللہ ان کو میرے حوالے کریو یعنی ایسے مخالفوں کی نسبت فکر نہ کیجئیو میں ان کو سنبھال لوں گا کیونکہ میں نے اس کو پیدا کیا ہے المدثر
12 اور اس کو بہت بہت مال دیا ہے المدثر
13 اور بیٹے جوان جوان ہمہ تن مستعد حاضر خدمت دئیے۔ المدثر
14 اور ہر طرح کا سامان بھی دیا ہے پھر بھی وہ میری نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے المدثر
15 اور امید رکھتا ہے کہ اس ناشکری پر بھی میں (اللہ) اس کو زیادہ دوں گا؟ المدثر
16 ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے احکام کا مخالف ہے المدثر
17 ہم اس کو بجائے ترقی دینے کے سخت عذاب میں مبتلا کریں گے المدثر
18 وجہ یہ کہ بالضرور اس نے فکر کیا اور غور کیا المدثر
19 اس پر پھٹکار ہو اس نے کیسا غلط غور کیا المدثر
20 پھر اس پر پھٹکار ہو اس نے کیسا غور المدثر
21 اور فکر کیا المدثر
22 پھر تیوڑی چڑھائی اور منہ بسورا المدثر
23 پھر پیٹھ پھیر گیا اور تکبر کیا المدثر
24 تو آخر کار کہا کہ یہ قرآن محض جادو ہے جو پہلے لوگوں سے بطور افسانوں کے نقل چلا آیا ہے المدثر
25 کمبخت بدنصیب نے یہ بھی کہا کہ یہ قرآن محض آدمی کا کلام ہے المدثر
26 جو اس کے جی میں ہے کہہ لے میں (اللہ) اس کو جہنم میں داخل کروں گا المدثر
27 اے مخاطب تجھے کیا معلوم وہ جہنم کیا ہے المدثر
28 وہ ایسی گرم آگ ہے کہ جان وجسم کا کوئی حصہ نہ باقی رکھے گی نہ کچھ چھوڑے گی المدثر
29 چمڑہ کو جلا دے گی المدثر
30 اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں المدثر
31 جو اس میں ڈالے ہوئے مجرموں کی نگرانی کرتے ہیں فرشتوں کا نام سن کر تم حیران نہ ہو کیونکہ ہم نے جہنم کے محافظ فرشتے ہی بنائے ہیں اور کسی کا یہ کام نہیں اور ہم نے ان کی گنتی اتنی تھوڑی مقرر کی ہے اور بتائی بھی تھوڑی ہے تاکہ منکروں کے لئے پریشانی ہو وہ اپنے زعم میں اس مقدار کو اتنا کم جانتے ہیں کہ ان پر ہنستے ہیں اور اہل کتاب اس بات پر یقین کریں کیونکہ وہ فرشتوں کی قوت کو جانتے ہیں اور ایماندار مسلمان لوگ ایمان میں ترقی کریں اور اہل کتاب اور مسلمان کسی قسم کا شک نہ کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں قوت روحانی ہے اور اس مقدار بتانے کا یہ بھی نتیجہ ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں باوجود ادعائے ایمان کے ضعف اور اغراض دنیا ویہ کی بیماری ہے اور جو صریح کافر اور منکر اسلام ہیں وہ کہیں گے کہ یہ بات بتانے میں اللہ کی کیا غرض ہے کہ اتنے فرشتے ہوں گے ان کے نزدیک یہ تعداد کوئی کہاوت ہے حقیقت نہیں۔ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی بات سمجھنے سے گمراہ کردیتا ہے ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ کلام الٰہی کو صحیح معنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے نہ سمجھنا چاہتے ہیں اور اپنے فضل وکرم سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اصلی بات یہ ہے کہ تیرے رب کی فوج اسباب عذاب کو خود ہی جانتا ہے مجرم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اکڑیں گے یا ہم بھاگ جائیں گے ان کو خبر نہیں کہ ان کے اجسام کی ہڈی بوٹی بلکہ بال بال بھی اللہ کی فوج ہے وہ جس بال کو جس ہڈی کو حکم دے وہی عذاب قائم کر دے۔ پھر یہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد سن کر کیوں مخول کرتے ہیں وہ تو ایک انتظامی صورت ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہر چیز اس کی سپاہی ہے اور وہ جہنم یعنی اس کا ذکر اذکار انسانوں کے لئے صرف نصیحت ہے المدثر
32 اور بس سنو ! سچ مچ ہمیں چاند کی قسم ہے المدثر
33 اور رات کی قسم ہے جب جانے لگے المدثر
34 اور صبح کی قسم ہے جب روشن ہو۔ المدثر
35 بے شک وہ جہنم بہت بڑی نشانی ہے المدثر
36 کل انسانوں کو ڈرانے والی ہے المدثر
37 خاص کر ان لوگوں کو جو نیک کام میں آگے بڑھنا یا بخوف عذاب برے کام سے پیچھے ہٹنا چاہیں کیونکہ ڈرانا ایسے ہی لوگوں کو مفید ہوتا ہے دوسرے لوگ سن لیتے ہیں مگر ان کی کج روی کی وجہ سے ان کو اثر نہیں ہوتا۔ المدثر
38 قیامت کا ڈر اس وجہ سے مفید ہے کہ اس میں اعمال کے نتائج بھگتنے ہوں گے کیونکہ اس روز ہر آدمی اپنے کئے اعمال میں پھنسا ہوا مثل گرو کے ہوگا جب تک وہ سزا نہ بھگت لے چھوٹے گا نہیں المدثر
39 لیکن دائیں ہاتھ والے ایماندار لوگ یعنی جن کو ایمان کی وجہ سے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا وہ اس حال میں نہ ہوں گے المدثر
40 (40۔41) بلکہ آرام کے باغوں میں ہوں گے وہاں رہ کر وہ بذات خود آرام پائیں گے اس آرام کی حالت میں آپس میں ایک دوسرے کو مجرموں کی بابت پوچھیں گے کہ وہ کہاں گئے یہاں وہ نظر کیوں نہیں آتے آخر ملائکہ کے بتانے سے وہ ان کو پہچان لیں گے المدثر
41 المدثر
42 ان مجرموں کو مخاطب کر کے دریافت کریں گے کہ اے لوگو ! تم تو بڑے ذہین‘ ذکی معلوم ہوتے ہو پھر تم یہاں دوزخ میں کس وجہ سے داخل ہوئے۔ کیا تمہاری عقل پر فتور آگیا تھا کہ تم نے اپنے انجام بد کا خیال نہ کیا المدثر
43 وہ جواب میں کہیں گے کہ میاں چھپانے کی کوئی بات نہیں نہ انکار کی جگہ ہے سب سے پہلے کہ یہ ہم نماز وغیرہ واجبات ضروریہ ادا نہ کرتے تھے المصلین کے معنی میں نماز ہی کا ذکر ہے مگر ہم نے عام کردیا کیونکہ شریعت اسلام میں نماز کے سوا اور احکام بھی فرض ہیں چونکہ نماز سب سے مقدم ہے اس لئے بطور اہم اس کو ذکر کیا۔ ہاں اس سے بڑا خطرناک امر ثابت ہوتا ہے کہ ترک نماز اتنا بڑا جرم ہے کہ باعث دخول نار ہے جیسے تکذیب یوم الدین موجب عذاب ہے پس جو لوگ مسلمان کہلا کر ترک نماز کے عادی ہیں ان کو اس آیت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کسی اھل دل نے خوب کہا ہے بے نمازو ! کیا غضب کرتے ہو تم حق تعالیٰ سے نہیں ڈرتے ہو تم کچھ نہ اپنے رب کی تم نے یاد کی عمر اپنی مفت میں برباد کی سر جھکا کاہل نہ ہو اٹھ تو سہی بندہ ہونے کی علامت ہے یہی المدثر
44 اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم ایسے بخیل تھے کہ غربا کو کھانا نہ کھلاتے تھے المدثر
45 اور تیسریبات یہ کہ ہم بے ہودہ غیر مفید کاموں میں لگے رہتے تھے المدثر
46 چو تھی بات جو سب کی جڑ اور سب سے زیادہ خراب تھی یہ کہ ہم یوم الجزا کا انکار کرتے رہے المدثر
47 یہاں تک کہ ہمیں موت کی وجہ سے اس کا یقین ہوگیا یہ ہیں ہمارے افعال قبیحہ جن کی وجہ سے ہم کم بختوں کا یہاں داخلہ ہوا المدثر
48 جب یہ ان کے جرم ہیں جن کا خود ان کو اعتراف ہے پس ان کے اپنے اعمال صالحہ تو ہوئے ہی نہیں لہٰذا کسی سفارشی کی سفارش بھی ان کو مفید نہ ہوگی بلکہ اسی حالت میں رہیں گے جس میں تم اہل جنت ان کو دیکھ رہے ہو المدثر
49 وہ تو اپنی بھگتیں گے بھلا ان موجودہ لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ نصیحت کی بات قرآن شریف سے منہ پھیر رہے ہیں المدثر
50 ایسے کہ گویا یہ لوگ وحشی گدھے ہیں جو جنگل میں رہنے کے باعث آدمیوں سے نفرت اور وحشت کیا کرتے ہیں المدثر
51 خاص کر ایسے گدھے جو شرگ سے بھاگتے ہوں کسی مجلس میں کوئی تقریر سنیں گے جونہی یہ معلوم ہوجائے کہ قران مجید کی تقریر ہے تو بس فوراً پیر سر پر رکھ کر بھاگ جاتے ہیں المدثر
52 ہاں ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اعمالنامہ کھلا اس کو مل جائے یعنی اگر کوئی کہے کہ ہر قسم کے اعمال لکھے جاتے ہیں تو بطور طنز کے کہہ دیتے ہیں اچھا بھئی لائو جو جو کام ہم نے کئے ہیں ہمارا اعمالنامہ ہم کو دے دو ہم دیکھ لیں گے المدثر
53 یہ کہنا بھی محض ایک مخول اور طنز کے طور پر ہے اصلیت اس میں ہرگز نہیں بلکہ یہ تو آخرت سے مطلقا ڈرتے ہی نہیں المدثر
54 ڈرتے ہوں تو قرآن مجید پر غور کریں بے شک وہ قرآن شریف نصیحت کی بات ہے المدثر
55 جو چاہے اس سے نصیحت پائے اور جو چاہے روگردانی کرے جو روگردانی کرے گا وہ اپنا کچھ کھوئے گا کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا المدثر
56 مگر بات یہ ہے کہ یہ لوگ مشیت اور حکم الٰہی کے بغیر نصیحت نہیں پا سکتے جو طریق ہدایت کار اس نے مقرر کیا ہوا ہے اسی طریق سے ہدایت ملے گی اس پر چلنے والوں کو وہ توفیق دیتا ہے اور جو اس راہ سے ہٹ جائیں انہیں بدنصیب کردیتا ہے وہ اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہ اس لائق ہے کہ ڈرنے والوں کو بخشے۔ اللھم اٰتِ نَفْسِی تقوٰھا وزکھا انت خیر مَنْ زکھا انت ولیھا ومولٰھا المدثر
0 القيامة
1 قسم ہے روز قیامت کی القيامة
2 اور قسم ہے گناہ پر ملامت کرنے والے نفس کی جو اللہ کی بے فرمانی پر فاعل کو شرمندہ کرتا ہے ایسا نفس مومن کا ہے اس لئے اس کی قسم کھا کر ہم بتاتے ہیں کہ ہمارا وعدہ سچا ہے نیک وبد اعمال کا بدلہ ملتا ہے ملے گا اور ضرور ملے گا القيامة
3 کیا منکر انسان سمجھتا ہے کہ ہم (اللہ) اس کے مرنے کے بعد اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے القيامة
4 بے شک کریں گے کیونکہ اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے ہر پور کو برابر کردیں۔ یعنی مرنے سے پہلے جہاں کوئی پور تھا اور بعد مرنے کے وہاں سے وہ بدل گیا قیامت کے روز ہم ان سارے پوروں کو یکجا ٹھیک کردیں گے القيامة
5 ان لوگوں کی بدعملی نقطہ انکار نہیں بلکہ یہ منکر انسان یہی چاہتا ہے کہ اپنی عمر کے آئندہ کے حصے میں بدکاری ہی کرتا جائے ہمیشہ رنگ رلیاں کرے کوئی اسے نہ پوچھے چنانچہ اسی خیال میں اس کے منہ سے یہ نکل جاتا ہے۔ ع بابر العیش کوش کہ عالم دوبارہ نیس القيامة
6 اگر کوئی اسے سمجھائے کہ میاں ! کیا کرتے ہو قیامت کے روز اللہ کو کیا منہ دکھا ئو گے تو پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا بلکہ سمجھانے والوں کو کہتا ہے تم لوگ اپنی بھول بھلیوں میں پھنسے ہو قیامت ہوگی۔ جزا سزا ہوگی بہشت ہوگی دوزخ ہوگی مارے میاں۔ ؎ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے القيامة
7 پس ایسا فاسق ملحد مزاج شخص سن لے قیامت اس روز ہوگی جب آنکیں پتھرا جائیں گی القيامة
8 اور چاند بے نور ہوجائے گا کیونکہ وہ سورج سے روشنی لیتا ہے جب سورج ہی روشن نہ ہوگا تو چاندکہاں سے روشنی لے گا اس لئے لازم ہے کہ چاند بے نور سیاہ پڑ جائے القيامة
9 اور سورج اور چاند بجائے گردش کرنے کے ایک جگہ جمع کر دئیے جائیں گے یعنی ان کی گردش روک دی جائے گی کیونکہ دنیا کی مشینری کا وقت ختم ہوجائے گا القيامة
10 اس روز انسان کہے گا اب کدھر کو بھاگوں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن القيامة
11 ہرگز کہیں پناہ نہیں ‘ القيامة
12 اس روز تمہارے رب کے پاس ہی ٹھکانہ ہوگا۔ یعنی جس کو وہ پناہ دے گا اس کو پناہ ہوگی جس کو وہ امن نہ دے گا اس کو کہیں بھی امن نہ ملے گا القيامة
13 اس روز اس منکر انسان کو اس کی زندگی میں پہلے کئے ہوئے اعمال اور بعد زندگی کے بطوراستمرار پیچھے چھوڑے ہوئے کاموں کی پوری پوری خبر دی جائے گی۔ ایسی کہ کسی طرح انکار نہ کرسکے گا القيامة
14 بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ اب بھی یہ منکر انسان اپنے حال پر پورا پورا واقف ہے اپنے عیب صواب خوب جانتا ہے القيامة
15 چاہے کتنی ہی حیلے بہانے اور حجتیں کرے مگر دل اس کا مانتا ہے کہ میں ایسے کام کرتا ہوں کہ اگر جزا سزا کا اصول صحیح ہوا تو میری خیر نہیں القيامة
16 اے رسول ایسے لوگوں کا بقیہ حال تم کو ہم پھر سنائیں گے سر دست تم کو ایک حکم بتا لیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تم اس امر میں جلدی کرتے ہو گو تمہاری جلدی بھی تمہاری نیک نیتی سے ہے۔ لیکن ہمیں پسند نہیں اس لئے تمہیں ہدایت کرتے ہیں کہ تم جبرئیل کے قرآن پڑھتے وقت اس قرآن کے لفظوں کے ساتھ اپنی زبان نہ ہلایا کرو تاکہ اس کو جلدی جلدی یاد کرلو یعنی تمہاری نیت یہ ہوتی ہے کہ جبرئل کے پڑھ چکنے کے بعد میں بھول نہ جائوں آنحضرت جبرئیل کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ یاد کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ القيامة
17 اس کا انتظام ہم نے کر رکھا ہے کہ تم قرآن نہ بھول سکو گے کیونکہ تمہارے سینے میں اس کا جمع کردینا اور اس کو پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے پس تم اس سے بے فکر ہوجائو القيامة
18 جب ہم پڑھیں یعنی ہمارا فرستادہ فرشتہ جبرئیل پڑھے تو خاموشی سے اس کی قرأت کی پیروی کیا کرو یعنی دل لگا کر اسے سنتے رہا کرو القيامة
19 پھر بعد اس کے ایک کام اور باقی ہے کہ اس قرآن کا بیان کردینا یعنی اس کا صحیح مفہوم تجھے سمجھا دینا ہمارے ذمے ہے القيامة
20 (20۔40) خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو اثناء کلام میں آگیا اب اصلی مضمون سنئیے یقینا تم لوگ جلدی کا فائدہ پسند کرتے ہو اور آخرت کو پس پشت ڈالتے ہو یعنی بعد الموت کا خیال تم کو نہیں حالانکہ وہی قابل اعتنا اور قابل توجہ ہے کیونکہ بہت سے منہ اس روز اپنے رب کی طرف تاکتے ہوئے تروتازہ ہوں گے۔ کیونکہ اللہ کے دیدار میں وہ لذت اور سرور پائیں گے جو دنیا کی کسی چیز میں انہوں نے نہ پایا ہوگا اور کئی منہ اس روز برے بن رہے ہوں گے وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ بڑی سختی کی جانے والی ہے اس لئے آخرت سے تم لوگوں کی بے اعتنائی ہرگز مناسب نہیں۔ سنو جب مرتے وقت روح ہنسلی تک پہنچتی ہے اور گھر میں کہا جاتا ہے دم جھاڑنے والا یا علاج کرنے والا کوئی ہے یہ تو بیمار کے متعلقین کی آواز یا خواہش ہوتی ہے اور وہ خود جانتا ہے کہ یہ وقت جدائی کا آگیا ہے اور بیمار کی نزعی حالت میں پنڈلی پنڈلی سے لڑکھڑاتی ہے اس روز تمہارے پروردگار کی طرف ہی بیمار کا کوچ ہوتا ہے پس شخص مذکور جو دنیا کے منافع کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ نہ کلام اللہ اور مواعید اللہ کی تصدیق کرتا ہے نہ فرض نماز پڑھتا ہے ہاں الٰہی کلام کی تکذیب ضرور کرتا اور حق سے روگردانی کرتا ہے پھر وہ جس روز زیادہ غرور کرتا ہے اس روز اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا جاتا ہے ایسے آدمی کو اس روز کہا جائے گا تیرے حال پر سخت افسوس پر افسوس ہے کیونکہ تو نے نہ سمجھا کہ جس راہ پر تو چل رہا ہے غلط ہے اصل یہ ہے کہ انسان جب اپنی پیدائش بھول جاتا ہے تو اللہ سے مستغنی ہوجاتا ہے پس اس کی ہدایت کا ذریعہ بس یہی ہے کہ وہ اپنی سابقہ حالت کو پہچانے اس لئے ہم ایک فیصلہ کن سوال پوچھتے ہیں جس سے اس متکبر انسان کو فائدہ ہوسکتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ بھلا انسان جو اکڑ کر چلتا اور الٰہی حکم سے گردن کشی کرتا ہے خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی شتر بے مہار کس مپرس چھوڑا جائے گا وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ ابتدا اللہ سے اللہ کے حکم کے ماتحت ہے کیا وہ پہلے نطفہ کی صورت میں نہ تھا جو رحم مادہ میں ڈالا جاتا ہے پھر وہ چند روز بعد اسی جگہ لوتھڑا بنا پھر اسی لوتھڑے سے اللہ دو قسم نر اور مادہ بنا دیتا ہے بعض دفعہ وحدت نوعی سے بعض دفعہ وحدت شخصی سے بھی یعنی ایک ہی نطفے سے دو بچے لڑکا اور لڑکی پیدا کردیتا ہے کیا یہ پیدا کرنے والا اللہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ایماندار تو اس کا جواب یہی دے کا کہ ہاں وہ قادر ہے۔ بلی وھو علی کل شی قدیر القيامة
21 القيامة
22 القيامة
23 القيامة
24 القيامة
25 القيامة
26 القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 القيامة
40 القيامة
0 الإنسان
1 انسان کی ہدایت کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ صرف اپنی ہستی پر غور کرے اور سوچے کہ اس پر ایک وقت ضرور آچکا ہے کہ وہ کچھ نہ تھا‘ جس کی عمر اس وقت بیس سال کی ہے وہ بیس سال پہلے کچھ نہ تھا جس کی عمر اس وقت تیس سال ہے وہ تیس سے پہلے کچھ نہ تھا الإنسان
2 پھر ہم (اللہ) نے انسان کو مرکب القویٰ نطفے سے پیدا کیا مختلف حالات میں ہم اس کو تبدیل کرتے رہے پہلے نطفہ بنا پھر مضغہ بنایا پھر جسم بنایا پھر اس کو زندگی بخشی پھر ہم (اللہ) نے اس کو سننے والا سمیع دیکھنے والا بصیر بنایا الإنسان
3 محض پتلہ بنا کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ ہم نے اس کو نیک وبد کی راہ بتائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کے بعض افراد شکر گذار ہوگئے جنہوں نے ہماری تعلیم سے فائدہ اٹھایا بعض افراد اس کے ناشکر ہوگئے جنہوں نے ہماری ہدایت سے منہ پھیرا الإنسان
4 چونکہ دنیا میں دو مختلف قسم کے انسان ہوگئے ہیں اس لئے لازمی ہے کہ ان کے نتائج بھی مختلف ہوں گے جن کا ذکر یہ ہے کہ ہم (اللہ) نے ناشکر لوگوں کے لئے پیروں میں ڈالنے کو زنجیر اور گلے میں ڈالنے کے لئے طوق اور جلانے کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے الإنسان
5 یہ تو ہوا ان ناشکروں کا انجام اور جو نیک لوگ ہوں گے ان کی تو کچھ پوچھو ہی نہیں وہ تو عیش میں گذاریں گے نہایت عمدہ شیشے کے گلاس میں ایسا شربت پئیں گے جس کی ملاوٹ کافور کی ہوگی۔ کافور بھی معمولی نہیں جنت کا کافور جو سب سے اعلیٰ خوشبودار ہے الإنسان
6 یہ شربت ان کو ایک ایسے چشمے سے ملے گا جس پر اللہ کے مقبول بندے انبیاء کرام واولیاء عظام پیتے ہوں گے اپنی مرضی موافق ان کو پھرہ لیا کریں گے یعنی بیٹھک میں جائیں گے تو وہاں لگوا لیں گے بالاخانہ پر جائیں گے تو وہاں پہنچا لیں گے جس طرح آج کل بڑے بڑے شہروں میں نلکے ہیں جہاں کوئی چاہے پہنچا دیا جاتا ہے الإنسان
7 ان نیک لوگوں کے نیک افعال سے سوال ہو تو سنو ! پہلی بات ان میں یہ تھی کہ یہ لوگ شرعی واجبات ادا کیا کرتے ہیں اور اس روز یوم جزا کے واقعات سے ڈرتے ہیں جس کی تکلیف بہت لمبی ہے یعنی ان کو ہر دم خوف دامن گیر رہتا ہے کہ روز حساب ہم کو سرخروئی حاصل ہو اور اس میں الٰہی باز پرس سے چھوٹ جائیں جیسے کسی محنتی طالب علم کو امتحان میں پاس ہونے کا فکر دامن گیر رہتا ہے۔ الإنسان
8 یہ ابرار نیک لوگ بھی اسی فکر میں رہتے ہیں اس لئے کھانے کی خواہش ہونے پر بھی اپنا کھانا مسکین یتیم اور قرض میں گرفتار قیدیوں ! کو کھانا کھلایا کرتے ہیں۔ پرانا دستور تھا کہ قیدی خصوصا مقروض قیدی گداگری سے پیٹ بھرتے تھے قرآن مجید نے ان کو کھانا کھلانا کار ثواب قرار دیا۔ منہ الإنسان
9 اس خیال سے کہ اللہ ہم کو اس کا بدلہ دے اسی لئے موقع ہو تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تم مسکینوں قیدیوں وغیرہ کو محض اللہ کو راضی کرنے کے لئے کھلاتے ہیں اس کا احسان تم پر نہیں رکھتے اور نہ تم سے اس کا بدلہ یا شکریہ چاہتے ہیں یہ اس لئے کہتے ہیں کہ کھانا کھا کر غریب لوگ ان کے سامنے ذلیل نہ ہوں الإنسان
10 بلکہ وہ دل میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حکم سے آنے والے اس دن سے ڈرتے ہیں جو منہ بنانے تیوری چڑہانے والا ہوگا۔ الإنسان
11 یعنی لوگ اس روز ایسے غمگین اور مغموم ہوں گے کہ کسی سے بولیں چالیں گے نہیں ان نیک لوگوں کو جو بےدیکھے اللہ کے خوف سے دہشت زدہ رہتے ہیں اللہ ان کو اس دن کی تکلیف سے بچالے گا نہ صرف بچائے گا بلکہ اور بھی کچھ دے گا یعنی ان کو تازگی اور خوشی نصیب ہوگی انشاء اللہ الإنسان
12 اور نیک اعمال پر ان کے صبر کرنے کی وجہ سے اللہ ان کو جنت میں بسائے گا اور ریشمی لباس میں پہنائے گا الإنسان
13 ان باغوں میں گدیلے لگے ہوئے تختوں پر تکئے لگائے ہوں گے ان بہشتوں میں موسم ایسا خوشگورا اور یکساں ہوگا کہ اہل جنت وہاں نہ سورج دیکھیں گے نہ سورج کے نہ ہونے سے سخت سردی محسوس کریں گے اس آیت میں ایک مشکل ہے کہ پہلے لفظوں میں سورج کی نفی ہے اس کے متصل ہے ظلال کا لفظ آیا ہے حالانکہ ظلال ظل کی جمع ہے اور ظل کا وجود سورج سے ہوتا ہے جب سورج نہیں تو ظل کہاں اس لئے ظلال کا ترجمہ ٹہن کیا گیا۔ ١٢ منہ الإنسان
14 اور ان باغوں میں درختوں کے ٹہن ان اہل جنت پر جھکے ہوں گے اور ان کے پھلوں کے گچھے ان کے اختیار میں دئیے گئے ہوں گے الإنسان
15 (15۔16) اور سنو ! اس کے علاوہ ان اہل جنت پر چاندی کے برتن رکابیاں وغیرہ اور گلاس پھیرے جائیں گے چاندی سے بنے ہوئے مگر صفائی میں گویا شیشے ہوں گے ان گلاسوں اور برتنوں کو اپنی ضرورت کے اندازہ کا پائیں گے الإنسان
16 الإنسان
17 اور ان اہل جنت کو ان باغات میں ایسے پیالے مزیدار اور لذیذ چائے وغیرہ سے بھرے ہوئے پلائے جائیں گے جن میں آمیزش خوشبودار اور سونٹھ کی ہوگی یعنی کھانے کے بعد بڑا مزیدار جنجر واٹر ان کو پلایا جائے گا الإنسان
18 وہ جنجر واٹر اس چشمے سے بنا ہوگا جس کا نام سلسبیل چشمہ رواں ہے الإنسان
19 اس لطف کی زندگی میں کھانے پینے کے علاوہ ایک بات اور بھی آرام دہ ان کو حاصل ہوگی وہ یہ کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے جو ان اہل جنت کی اولاد میں سے چھوٹی عمر میں مر چکے ہوں گے یا ان کی خواہش سے جنت میں پیدا ہوں گے ہمیشہ ان کے قریب قریب پھرتے رہیں گے وہ بچے ایسے خوبصورت ہوں گے کہ جب تو اے مخاطب انسان ان کو دیکھے گا تو بکھرے ہوئے موتی سمجھے گا الإنسان
20 یہ سب کچھ اہل جنت کے دل بہلانے کا سامان ہوگا اور جب تو اس جنت میں نظر کرے گا تو وہاں ایک بہت بڑی آبادی دیکھے گا کیونکہ دنیا کے تمام صلحا اس میں رہتے ہوں گے جن کا شمار گو اہل دوزخ کی نسبت کم ہوگا تاہم ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں سے متجاوز ہوں گے الإنسان
21 یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ اہل جنت کو ریش میں لباس پہنایا جائے گا اس لئے ان اہل جنت کے اوپر سبز رنگ کے باریک کپڑے مثل الپا کے کی اور دبیز مثل مخمل کے ہوں گے اور ان کو حسب مراتب چاندی اور سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار ان کو بے نشہ اور بے خرابی پاک شراب پلائے گا الإنسان
22 اللہ کی طرف سے ان کو کہا جائے گا یہ تمہارا یعنی تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے اور نیک اعمال میں جو تم کوشش کرتے تھے وہ تمہاری کوشش اللہ کے ہاں قابل قدر یعنی قبول ہے الإنسان
23 (23۔31) اے رسول یہ ان پر مہربان اس لئے ہوگی کہ وہ ہماری اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کئے ہوں گے کیونکہ ہم ہی نے تجھ پر وہ کتاب یعنی قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے پس اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کے پیرو جنت حاصل کریں اور تو بھی کمال اولوالعزم ہو یعنی تو اپنے رب کے حکم کے موافق کفار کی تکلیفات اور ایذا پر صبر کیجو اور اس تکلیف میں کوئی کافر یا بداعمال فاسق فاجر تجھے راہ راست سے پھسلائے تو ان میں سے کسی بدکار یا کافر ناہنجار کی بات نہ مانیو اور صبح شام عموماً اور جب کسی تکلیف پر دل گھبرائے خصوصاً اپنے رب کا نام ذکر کیا کر یعنی یا اللہ یا رحمن وغیرہ پڑھا کر اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس اللہ کے سامنے سجدہ کیا کر اور رات کو بہت دیر تک اللہ کو پاکی سے یاد کیا کر یعنی سبحان اللہ وبحمدہ واستغفر اللہ پڑھا کر انشاء اللہ تیرا کام باحسن وجوہ انجام پذیر ہوجائے گا یہ لوگ جو تیری تعلیم میں دنیا وآخرت کے متعلق وعدے وعید سن کر جلدی مانگتے ہیں اس لئے کہ جلدی ان کی عادت میں داخل ہے۔ لہٰذا یہ لوگ جلدی کی چیز کو پسند کرتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ جو کچھ تو کہتا ہے جلدی کر دے اور اپنے آگے سخت دن کے لئے اعمال صالحہ کو چھوڑے ہوئے ہیں یعنی اپنی کھیل کود میں روز قیامت کو بھولے ہوئے ہیں حالانکہ ہم (اللہ) نے ان کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش مضبوط کی دیکھو انسان اپنی نازک اور پتلی پتلی انگلیوں سے بڑے بڑے بھاری پتھر اور لوہے کو توڑ دیتا ہے یہ سب کچھ ہماری دی ہوئی طاقت کا اثر ہے اور جب ہم چاہیں گے ان کی شکلیں بدل دیں گے یعنی زندہ سے مردہ بنا دیں گے اور مردہ سے زندہ کردیتے ہیں اگر کوئی جھگڑا بکھیڑا چھوڑ کر مطلب کی بات سننا چاہے تو سنے کہ یہ سورۃ بلکہ سارا قرآن نصیحت کی بات ہے پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف چلنے کی راہ اختیار کرے یعنی قرآن پر عمل کرے اور اصل بات بھی یہ ہے کہ تم کسی کام کو نہیں چاہتے یعنی کامیاب نہیں ہوسکتے مگر جس وقت اللہ چاہے یعنی تمہاری خواہش کی تکمیل اس کے ارادہ کے ماتحت ہے اس لئے ہر کام میں اسی سے نیک توفیق مانگا کرو بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا اور حکمت والا ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت اسلام میں داخل کرلیتا اور نیک اعمال کی توفیق بخشتا ہے اور جو لوگ اس سے توفیق خیر نہیں مانگتے وہ ظالم ہیں اور اس نے ایسے ظالموں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ نَعُوذ باللہ من غضب اللہ اس آیت کے معنی کی اور بہت سی آیات ہیں مثلاً ما تشاون الا ان یشآء اللہ رب العالمین اور ماتشاؤن الا ان یشاء اللہ ھو اھل التقوی واھل المغفرۃ اور ماکان لنفس ان تو من الا باذن اللہ۔ وغیرھا ان سب آیات میں ایک ہی مشکل قابل حل ہے وہ یہ کہ اللہ کی مشیت سے کام ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایمان بھی اسی کی مشیت سے حاصل ہوتا ہے تو پھر جو ایمان نہ لائیں یا نیک کام کی خواہش نہیں کرتے ان کا قصور کیا۔ جواب یہ ہے کہ قرآن مجید پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت انسان اور مشیت اللہ اور صدور فعل میں ایک سلسلہ نظام ہے انسانی مشیت پہلے ہوتی ہے کہ یہ کام کروں اس پر ثبوت قرآن مجید سے سنئیے۔ بیوی خاوند میں مصالحت کے لئے جو کمیشن مقرر ہوتا ہے ان کے حق میں فرمایا ہے ان اردواصلاحایوفق اللہ بینھما (پ ٣ ع ٣) (یعنی بیوی خاوند میں اصلاح کرانے والے اگر واقعی اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ ان کو توفیق دے گا) اس آیت میں ارادہ انسانی پر اپنی توفیق کو مرتب فرمایا من شاء فلیئو من و من شاء فلیکفر (پ ١٥ ع ١٦) جو کوئی چاہیے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے اس آیت میں انسانی مشیت پر ایمان اور کفر مرتب فرمایا ہے۔ پس ان آیات سے دو امور ثابت ہوئے۔ (١) انسانی مشیت پر ایمان اور کفر مرتب ہے (٢) توفیق اللہ کے بغیر اعمال خیر کا صدور نہیں ہوتا۔ نتیجہ صاف نکلتا ہے کہ انسانی مشیت کے بعد توفیق ہوتی ہے توفیق کے بعد انسان عزم پختہ کرتا ہے اس عزم کے حق میں فرمایا ہے ما تشاؤن الا ان یشآء اللہ یعنی تم انسان کسی فعل پر پختہ ارادہ نہیں کرسکتے مگر جس وقت اللہ توفیق دے۔ اس سے پہلی مشیت کی نفی نہیں ہوتی۔ صدق اللہ۔ منہ۔ الإنسان
24 الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 الإنسان
28 الإنسان
29 الإنسان
30 الإنسان
31 الإنسان
0 المرسلات
1 (1۔24) قسم ہے ہوائوں کی جو حسب دستور چلتی ہیں اور ان ہوائوں کی جو تیزی سے چلتی ہیں اور ان ہوائوں کی جو بادلوں کو پھیلا دیتی ہیں اور ان ہوائوں کی جو جڑے ہوئے بادلوں کو پھاڑ دیتی ہیں اور ان ملائکہ کی جماعتوں کی قسم ہے جو انبیاء کرام پر نصیحت پہنچاتی ہیں تاکہ مخلوق کے عذر دور کریں اور عذاب آخرت سے ڈرا دیں ان ساری قسموں سے مقصود یہ ہے کہ تم کو بتایا جائے کہ جس عذاب سے تم کو ڈرایا جاتا ہے وہ ضرور واقع ہوگا اگر یہ معلوم کرنا چاہو کہ وہ کب ہوگی اور اس کی علامات کیا ہوں گی پس سنو قریب قیامت جب ستارے بے نور ہوجائیں گے کیونکہ ان کو نور سورج سے حاصل ہے اور سورج تو اس روز بے نور ہوجائے گا تو ان کو کہاں سے ہو‘ اور جب بحکم اللہ آسمان پھٹ جائے گا اور جب پہاڑ اڑا دئیے جائیں گے اڑا کر سمندر ان سے پاٹ دیا جائے گا ایسا ہوگا کہ زمین ساری ایک سان ہوجائے گی اور جب اللہ کے بھیجے ہوئے رسول قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے کس روز کے لئے ان کو ملتوی رکھا گیا تھا فیصلے کے دن کے لئے تمہیں کیا معلوم وہ فیصلے کا دن کیا ہے پس کچھ نہ پوچھو وہ کیسا ہولناک ہے انبیاء کرام کی حقانی تعلیم کے مکذبوں جھٹلانے والوں کے لئے اس روز افسوس ہوگا افسوس تو اب بھی ہے کہ یہ سمجھنے کو رخ نہیں کرتے کیا ہم (اللہ) نے پہلے مجرموں کو تباہ نہیں کیا عاد‘ ثمود‘ فرعون وغیرہم کے قصے یہ لوگ سن چکے ہیں غور کریں تو اس سے اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ہم مجرموں بدکاروں کو تباہ کیا کرتے ہیں اور ان کے بعد اور لوگوں کو لاتے ہیں یعنی دنیا کو آبادی سے خالی نہیں چھوڑتے پھر جب وہ لوگ پیچھے آئے ہوئے بھی بدکاریوں میں لگ جاتے ہیں تو ان کو بھی اٹھالیتے ہیں اسی طرح ہم مجرموں کے ساتھ معاملہ کرتے رہتے ہیں مگر مکذب لوگ سمجھتے نہیں۔ اس لئے اس روز مکذبوں کے حق میں افسوس ہوگا اے جھٹلانے والو ! کیا ہم (اللہ) نے تم کو ایک حقیر پانی نطفے سے پیدا نہیں کیا بے شک کیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمہارے لئے غذا پیدا کی اس غذا سے خون بنایا خون سے منی کا نطفہ بنایا نطفہ کو مرد و عورت کے ملاپ سے رحم میں پہنچایا پھر اس کو ایک مضبوط محفوظ مکان عورت کے رحم میں ایک معین وقت۔ ٦‘ ٧‘ ٨‘ ٩۔ ماہ تک ٹھیرائے رکھا پھر ہم نے اس کا یعنی اس کی ترقی تنزل جسمانی کیفیت موت وحیوٰۃ کا وقت مقرر کردیا ہم بڑے اچھی قدرت والے ہیں ہمارا مقررہ وقت کیا مجال غلط ہوجائے اسی لئے اس روز جھٹلانے والوں کے حق میں افسوس ہوگا المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 المرسلات
16 المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 المرسلات
24 المرسلات
25 (25۔40) کیا ہم (اللہ) نے زمین کو زندہ انسانوں اور مردوں کے لئے جائے رہائش نہیں بنایا یعنی زندہ بھی زمین پر رہتے ہیں اور مر کر بھی زمین میں جاتے ہیں یقینا ہم ہی نے زمین کو ایسا بنایا ہے اور ہم ہی نے اس پر بڑے مضبوط بلند پہاڑ پیدا کئے ہیں اور ہم ہی تم کو بارش کا اور کنوئوں کا میٹھا پانی پلاتے ہیں مگر مکذب لوگ پھر بھی ہماری قدرت کے منکر ہیں اسی لئے اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا اس روز ان کو حکم دیا جائے گا کہ برے کاموں پر جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے آج اسی کی طرف چلو یعنی دھوئیں کے تین شاخوں واے سائے کی طرف چلو جو نہ تو (ٹھنڈا) سایہ ہے اور نہ تپش اور گرمی میں مفید بلکہ سخت عذاب کا ذریعہ ہوگا کیونکہ وہ دوزخ سے نکلتا ہے اس لئے اس میں نہ آرام ملے گا اور نہ ٹھنڈک ہوگی بلکہ وہ جہنم اس دھوئیں کے ذریعے بڑے بڑے مکانوں جیسے بھاری بھاری شرارے پھینکے گی جو رنگت میں گویا زرد اونٹ ہوں گے یعنی دوزخ میں اتنا جوش ہوگا کہ اس کے دھوئیں میں بڑے بڑے چنگاڑے نکلیں گے جیسے ریل کے انجن سے بعض اوقات دھوئیں کے ساتھ چنگاریاں نکلا کرتی ہیں اس روز مکذبین کے لئے افسوس ہوگا اس روز ایک موقع پر ان کے منہ بند ہوجائیں گے ایسے کہ وہ نہ بولیں گے نہ ان کو اجازت ہوگی کہ وہ معذرت کریں بلکہ کہا جائے گا بولو مت اس روز مکذبین کے لئے افسوس ہوگا وہ فیصلہ کا دن ہوگا جس میں ہم تم مشرکین عرب کو اور تم سے پہلے سب لوگوں کو جمع کریں گے اور تمہارے نیک وبد کاموں کی جزا وسزا دیں گے پھر اگر تم کو میرے (اللہ) کے مقابلے میں کوئی چال چلنے کی طاقت ہو تو چلا لینا۔ یعنی بھاگ سکو تو بھاگ جانا گم ہوسکو تو گم ہوجانامر سکو تو مر جانا ہم بتائے دیتے ہیں کہ کچھ نہ کرسکو گے پس یاد رکھو اس روز مکذبین کے لئے افسوس ہوگا کیونکہ انہوں نے اللہ کے احکام کی تکذیب کی ہوگی المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 (41۔50) ان کے مقابلے کے متقی لوگ بڑی نعمتوں کی چھائوں‘ ٹھنڈے چشموں اور من بھانے پھلوں کے باغوں میں عیش کرتے ہوں گے مزے عیش کی جگہ میں نہ رہیں گے بلکہ ان کو کہا جائے گا کہ اپنے کئے اعمال کی برکت سے خوش گوار کھائو پیو نیک لوگوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیں گے کہ وہ ہر طرح کی عیش و آرام میں ہوں گے اور ان کو کسی طرح سے تکلیف نہ ہوگی اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا ہاں اے مشرکو اس روز کے آنے سے پہلے تم زندگی کے چند روز کھالو اور مزے اڑا لواس میں شک نہیں کہ تم لوگ بداعمال ہو اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا دیکھو تو ان کے مجرم ہونے میں کچھ شک ہے ؟ کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اللہ کے حکم قرآن کی اطاعت کرو تو اطاعت نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں اسی لئے اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا قرآن مجید کو تو سنتے اور مانتے نہیں پھر اس کے سوا کس کلام پر یقین کریں گے۔ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْنَا آیت میں لفظ جمعنا ماضی ہے مگر ہم نے اس کا ترجمہ (کم) کی وجہ سے مستقبل سے کیا ہے کیونکہ میدان قیامت میں تو سارے لوگ بوقت واحد مخاطب ہوں گے پھر اس وقت تم ” اور اولین میں فرق کیونکر ہوگا۔ ہاں بوقت تکلم اور بوقت نزول قرآن یہ تفریق صحیح ہوسکتی ہے کہ ” تم“ سے مراد حاضرین اور اولین سے مراد گذشتہ لوگ جیسے فرمایا قل ان لاولین والاخرین لمجموعون الی میقات یوم معلوم تو کہدے کہ تم سے پہلے اور پچھلے سب جمع کئے جائیں گے۔ منہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں رکوع سجود کا لفظ آیا ہے چنانچہ فرمایا اذا قیل لھم اسجدوا للرحمن قالوا وما الرحمان انسجد لما تامرنا اس قسم کی جتنی آیات ہیں ان میں رکوع اور سجود سے مراد اطاعت ہے اس لئے کہ آیت نے صاف کہہ دیا ہے۔ اذا قرء علیھم القرآن لا یسجدون بل الذین کفروا یکذبون (پ ٣٠۔ ع ٩) کافروں پر جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ (اطاعت) نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں اس لئے ہم نے اس جگہ ارکعو کا ترجمہ اطاعت سے کیا ہے۔ منہ المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 المرسلات
47 المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 المرسلات
0 النبأ
1 (1۔5) قرآن مجید میں ہم نے جو مسائل اعتقادیہ بتائے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ معاد بھی ہے یعنی روز جزا کا یقین رکھنا بھی داخل ایمان ہے اور مشرکین مکہ اس سے سخت منکر ہیں اس لیے آپس میں ایک دوسرے سے بطور استفہام یا بطور طنز کے پوچھتے تھے میاں یہ مدعی کیا کہتا ہے یہ کہ مر کر اٹھیں گے ان کو معلوم نہیں کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو کس بات سے سوال کرتے ہیں ہم ان کو بتاتے ہیں کہ بڑی ہیبت ناک خبر قیامت سے سوال کرتے ہیں یہ وہ خبر ہے جس میں وہ لوگ مومنوں سے مختلف رائے ہیں۔ سن رکھیں ان کو اصل حال معلوم ہوجائے گا پھر سن رکھیں ضرور جان لیں گے اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 النبأ
6 (6۔20) باوجود وضاحت امر کے ہم ان کو سمجھاتے ہیں ہیں کیا ہم (اللہ تعالیٰ) نے تمہارے رہنے سہنے کے لیے زمین کو گہواراہ کی طرح نہیں بنایا اور پہاڑوں کو زمین کے لیے گریا میخیں نہیں بنایا جس کی وجہ سے زمین پانی پر ہلتی نہیں اور ہم (اللہ تعالیٰ) نے تم کو مختلف قسمیں بنایا کہ کوئی گرا کوئی کالا نیز مرد و عورت کے جوڑے وغیرہ اور ہماری قدرت کا کرشمہ دیکھو کہ ہم نے تمہارے اندر اپنا تصرف اس طرح دکھایا کہ تمہارے دماغوں میں جو تھکاوٹ آجاتی ہے اس کے دور کرنے کو اور تم کو آرام دینے کے لیے ہم نے تمہاری نیند کو باعث آرام بنایا دیکھو نیند بظاہر نقصان اور تضیع اوقات ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک نعمت ہے جن لوگوں کو بوجہ مرض نیند نہیں آتی ان کو اس کی قدر پوچھیے یہ ہماری قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے اور سنو ہم نے رات کو تمہارے لیے بنایا کیونکہ رات کے وقت گھروں میں جس طرح بے پردگی میں رہتے اور سوتے ہو دن کو نہیں رہ سکتے اور سنو ہم (اللہ تعالیٰ) نے دن کو تمہاری روزی کمانے کے لیے وقت بنایا جس میں تم کمائی کرو اور کھاؤ اور تم سے اوپر سات سکت آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو زیادہ علم حاصل کرنا چاہو تو آئینہ یا پانی میں نظر کر کے دیکھ لو اور چونکہ کام کرنے میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہم نے تمہارے اوپر آسمان پر چمکیلا چراغ سورج بنایا جس کی روشنی بجلی کی روشنی سے بھی اعلیٰ درجہ کی ہے دیکھو جب سے ہم (اللہ تعالیٰ) نے یہ چراغ جلایا ہے تم نے کبھی اس میں تیل نہیں ڈالا نہ اس کی بجلی تیز کی کیونکہ یہ سب کام تمہارے (انسان کے) دست عمل سے بلند تر ہیں یہ تو تمہارے کمانے کے سامان ہیں جو حقیقت میں کچھ نہیں کیونکہ تم چار پیسے کما لو تو کیا کرو گے جب تک ہم (اللہ تعالیٰ) تمہارے لیے غلبہ پیدا نہ کریں کیا کھاؤ گے اس لیے ہم نے یہ بھی انتظام کر رکھا ہے کہ تمہارے لیے۔ بوقت ضرورت بادلوں سے زور کا پانی اتارتے ہیں تاکہ ہم اس پانی کے ساتھ تمہارے لئے غلہ کے دانے اور تمہارے مویشیوں اور دیگر جانوروں کے لئے سبزیاں اور گھنے گھنے باغ پیدا کریں یہ ایسے واقعات ہیں جن سے تم لوگ کسی طرح انکار نہیں کرسکتے اس لئے تم کو سمجھایا جاتا ہے کہ روز قیامت سے بھی انکار نہ کرو کیونکہ وہ عام فیصلے کا دن ہے تم اس کو تسلیم کرو کہ فیصلے کا دن وقت مقرر ہے جس روز اسرافیل فرشتے کی معرفت صور میں مردوں کی زندگی کی آواز پھونکی جائے گی ! پس اس کی تاثیر سے تم سب انسان گروہ گروہ بن کر میدان محشر میں آجائو گے اور اس روز یہ موجودہ آسمان پھٹ کر دروازے دروازے ہوجائے گا اور یہ اتنے بڑے جسم پہاڑ اپنی جگہوں سے بذریعہ حرکت چلائے جائیں گے تو وہ غبار ہوجائیں گے پھر ان کو سمندر میں ڈال دیا جائے گا النبأ
7 النبأ
8 النبأ
9 النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 النبأ
13 النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 (21۔40) اس روز کافروں کے لئے جہنم گھات بنی ہوئی ہے ظالموں مشرکوں اور بدکاروں کے لئے ٹھکانہ ہوگی جس میں وہ مدت دراز تک ٹھہرے ہوں گے باوجود سخت تپش اور گرمی کے اس میں نہ ٹھنڈک چکھیں گے نہ پینے کو پانی مگر سخت گرم پانی اور زخموں کی پیپ پئیں گے یہ ان پر ظلم نہ ہوگا بلکہ پورا پورا بدلہ ہوگا دنیا میں ایسے لوگوں کی پہچان چاہو تو سنو ! وہ لوگ ایسے غافل اور بدکاری میں منہمک ہیں کہ نیک وبد اعمال کے حساب کا یقین نہیں رکھتے اور ہمارے احکام کی کھلی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ ہم ان کے خالق اور مالک ہیں اور ہم نے ہر چیز کو خاص کر ان کے اعمال کو قلمبند کر رکھا ہے یعنی ہمارے فرشتوں نے سب کچھ لکھ رکھا ہے علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں ضرورت نہیں لیکن ان کے دکھانے کو یہ سارا انتظام کر رکھا ہے چونکہ ان کا جرم ہر طرح ثابت ہوگا پس ان کو کہا جائے گا عذاب کا مزہ چکھو اور یہ خیال دل سے نکال دو کہ کبھی تم چھوٹو گے ہرگز نہیں ہم تم کو سوائے عذاب کے کچھ بڑہائیں گے یعنی ہر آن تم کو عذاب ہی عذاب ہوگا۔ یہ تو ہوا ان ظالموں کا انجام اب ان کے مقابل نیک لوگوں کا حال بھی سننے کے قابل ہے بے شک پرہیزگار لوگوں کے لئے جو شریعت کی تعلیم کے ماتحت زندگی گزارتے تھے آخرت میں بڑی مراد ملے گی یعنی رہنے کے لئے باغ اور کھانے کو انگور اور دل خوش کرنے کو ان کی طرح کی نوجوان ہم عمر موتیوں جیسی خوبصورت عورتیں اور شراب صافی کے بھرے ہوئے پیالے جس میں نشہ نہ ہوگا محض قوت اور لذت ہوگی یہ مت سمجھو کہ دنیا میں جہاں ایسے باغوں (مثلا شالامارباغ لاہور وغیرہ) میں ایسے لوگوں کا اجتماع اور میلے ہوتے ہیں وہاں فحش گوئی اور لچ پنے کی باتیں ہوا کرتی ہیں وہاں بھی ہوں گی ہرگز نہیں وہ متقی لوگ ان بہشتوں میں کسی طرح کی بے ہودہ بات یا جھوٹ نہ سنیں گے نہ بولیں گے بلکہ نہایت مہذب عیش میں زندگی گزاریں گے یہ تیرے رب کی طرف سے ہے جو آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا مہربان پروردگار ہے پورا پورا بدلہ ہوگا۔ باوجود اس کی رحمت اور بخشش کے ہیبت اور رعب کا یہ عالم ہوگا کہ وہ دنیا کے سارے لوگ اس (اللہ) سے خطاب کر کے گفتگو کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے کیا مجال کہ مخاطب کر کے کچھ عرض معروض کرسکیں یہ اس روز ہوگا جس روز روح امین جبرئیل اور فرشتے صفیں باندھ کر اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے ایسے چپ چاپ غلامانہ خاموش کہ بول نہ سکیں گے مگر وہی بول سکے گا جس کو اللہ رحمن نے اجازت دی ہو اور اس سے پہلے دنیا میں اس شخص نے بات صحیح کہی ہو یعنی شرک سے لوگوں کو ہٹایا ہو اور توحید کی طرف بلایا ہو ہر ایک ایرے غیرے کو نہ اجازت ہوگی نہ وہ بول سکے گا پس وہ دن واقعی ہونے والا ہے اس کے واقعات حقہ ہیں جو تیرے ہی بتائے ہوئے نہیں سب انبیائے کرام کے بتائے ہوئے ہیں پس جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختادر کرے تاکہ اس کی نجات ہوجائے دیکھو اسی لئے ہم نے تم انسانوں کو قریب الوقوع بعد الموت عذاب سے ڈرایا ہے جو اس روز ہوگا جس روز ہر آدمی اپنے ہاتھوں کی کمائی کئے ہوئے برے اعمال بنظر خود دیکھ لے گا اور ان کو دیکھ کر کافر منکر اور ناشکر انسان کہے گا کہ اے کاش میں آج مر کر مٹی میں مٹی ہوجاتا۔ اللھم احفظنا من حول الدنیا والاخرۃ النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 النبأ
31 النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 النبأ
37 النبأ
38 النبأ
39 النبأ
40 النبأ
0 النازعات
1 (1۔14) سنو جی ! ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایک روز آنے والا ہے جس میں تم سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے اس کو یوم الجزا کہتے ہیں چونکہ تم لوگ منکر ہو اس لئے ہم اپنا بیان حلفیہ دیتے ہیں کہ قسم ہے فرشتوں کی ان جماعتوں کی جو بڑی سختی اور بے عزتی سے بدکاروں کی روحیں نکالتی ہیں علم بلاغت کا قاعدہ ہے کہ منکر کے سامنے کلام مؤکد بقسم بولا جاتا ہے (مطول) منہ اور ان جماعتوں کی قسم ہے جو نیک لوگوں کی روحیں خوشی خوشی عزت کے ساتھ نکالتی ہیں اور مجاہدین کی تیز چلنے والی سواریوں ! کی قسم ہے جو ایسی تیز چلتی ہیں گو یا وہ پانی میں بے روک ٹوک تیرتی ہیں نیز گھوڑے کو سابحہ کہتے ہیں امرء القیس اپنے گھوڑے کی تعریف میں کہتا ہے مسح اذا ما السابحات علی الونی (معلقہ) اور نیکوں میں بڑھنے والوں کی قسم ہے اور ان دینی سیاسی کام کے مدبرین کی قسم ہے جو ملک کے کام کا احسن تدبیر سے انتظام کرتے ہیں ان قسموں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمہارے اعمال نیک وبد کا بدلہ ضرور ملے گا جس روز پہلا نفخہ ہلا دینے والا زمین کو ہلا دے گا تو اس کے پیچھے آنے والا دوسرا نفخہ آئے گا۔ پہلا فنا کا ہوگا دوسرا بعثت کا اس روز کئی دل یعنی دلوں والے انسان مارے خوف دھڑک رہے ہوں گے ان کی آنکھیں مارے دہشت کے جھکی ہوں گی اسی حال میں سب کا فیصلہ کیا جائے گا جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل کئے جائیں گے قیامت کا ذکر سن کر کہتے ہیں کیا ہم مر کر ایک دفعہ پھر پہلی زندگی میں لوٹائے جائیں گے جب ہماری ہڈیاں سڑ گل جائیں گی تو ہم اٹھائے جائیں گے) ضرور اٹھائے جائو گے یہ سن کر کہتے ہیں یہ واپسی تو عقل سے بعید" ہونے کی وجہ سے بہت نقصان دہ ہوگی کیونکہ ہم نے اس زندگی میں برے برے کام کئے ہیں اگر دوبارہ زندہ ہو کر جزا وسزا ملی تو ہماری خیر کہاں بھلا سڑی گلی ہڈیاں کہاں زندہ ہوں اور کہاں ہم سزا پائیں۔ یہ تو محض وہمی باتیں ہیں حالانکہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کے تحت ہے پس اس کی حقیقت سوائے اس کے نہیں کہ وہ ہمارے حکم سے اسرافیل کی ایک آواز ہوگی پس دو مردگان فوراً میدان محشر میں سطح زمین پر آجائیں گے آواز سن کر کچھ بھی دیر نہ کرسکیں گے النازعات
2 النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 النازعات
6 النازعات
7 النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 (15۔26) تیرے جیسی تعلیم دینے والے رسول پہلے بھی گذرے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک حضرت موسیٰ بھی رسول تھے کیا تجھے موسیٰ کی خبر پہنچی ہے ؟ خاص کر اس وقت کی جب اس کے پروردگار نے مقدس جنگل طویٰ میں اس کو بلایا۔ حکم دیا کہ فرعون جو مدعی الوہیت ہے اس کے پاس جا کیونکہ وہ سرکش ہوگیا ہے انسان ہو کر الوہیت کا مدعی بن بیٹھا ہے پس تو اس سے کہہ اے فرعون کیا تجھے اس بات کی رغبت ہے کہ میں تجھے نصیحت کروں تو اسے قبول کر کے پہلے گناہوں سے پاک صاف ہوجائے اور تجھے شوق ہے کہ میں تجھے اللہ کے بتانے سے ہدایت کروں تو تو اس کو قبول کر کے اللہ کے عذاب سے ڈر جائے یعنی اے شاہ مصر میں جو کچھ کہتا ہوں۔ خیر خواہی کی نیت سے کہتا ہوں آپ بھی توجہ سے میری گذارش کو قبول کریں اس نے کہا تیرے اس دعویٰ رسالت پر کچھ دلیل بھی ہے ؟ ہے تو لا پس اس موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو بڑی نشانی دکھائی یعنی اس کے دربار میں لکڑی پھینکدی جو سانپ بن گئی پھر بھی اس فرعون نے تکذیب اور بے فرمانی ہی کی اور پیٹھ پھیر کر حضرت موسیٰ کے برخلاف کوشش کرنے لگا چونکہ اللہ کی طرف سے اس کی تباہی کے دن قریب آگئے تھے اس لئے جو اسے سوجھتی الٹی سوجھتی پھر اس نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور بلند آواز سے پکار کر کہا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں کیونکہ میں تم سب کی پرورش کرتا ہوں میرے سوا اور کوئی تمہارا رب اور الہ نہیں ہے فرعون اس دعویٰ پر اڑا رہا اور اس کے خوش آمدی ارکان اس کے اس غلط دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہمہ تن کوشاں تھے پس اللہ نے اس کو آخرت اور دنیا دونوں کے عذاب میں پکڑا دنیاوی عذاب تو یہ تھا کہ دریا میں اسے غرق کیا آخرت کا عذاب یہ ہے کہ صبح وشام دوزخ ! کی آگ میں ڈالے جاتے ہیں (! النار یعر ضون علیھا غدوا و عشیا الآیۃ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ منہ) بے شک اس واقعہ فرعون میں ڈرنے والوں کے لئے بڑی عبرت کا مقام ہے کہ ایک کمزور انسان الوہیت کا مدعی ہوا اور انجام اس کا یہ ہو کہ مع اپنے محافظ دستہ فوج کے دریا میں غرق کیا جائے اور نہ وہ خود اپنے آپ کو عذاب اللہ سے بچائے نہ کوئی جماعت اس کو بچا سکے اس سے سمجھو کہ جھوٹے مدعی کا انجام اچھا نہیں اور سچوں سے مقابلہ کرنے والوں کا خاتمہ بھی ٹھیک نہیں النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 (27۔36) پس تم قریش اپنے غلط خیال (کہ مکرر پیدائش نہ ہوگی اس) سے باز آجائو کیا تمہارا مکرر پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے یا آسمان کا بنانا دیکھو اور خوب دیکھو کہ اللہ نے اس آسمان کو بنایا اس کی بلندی کو خوب اونچا کیا اتنا کہ کروڑوں میل اونچا ہے پھر اس کو صاف ہموار کیا ایسا کہ کہیں شگاف یا سوراخ نام کو نہیں اور دیکھو اسی اللہ نے رات دن پیدا کئے اس آسمان کے نیچے کی رات کو دن کی نسبت سیاہ بنایا اور اسی کے نیچے روشنی پیدا کی یعنی دن کو روشن کیا تم دیکھتے ہو کہ رات دن ایک دوسرے کے ساتھ دورہ کرتے ہیں اور دیکھو زمین کو جو دراصل آسمان سے پہلے پیدا ہوچکی تھی مگر ٹھوس گولے کی طرح تھی اللہ نے جب آسمان بنایا تو اس کے بعد زمین کو موجودہ مشہور صورت میں بچھا دیا ایسا بچھایا کہ تمہاری ضرورتوں کے سامان اس میں ودیعت کر دئیے دیکھو اس کے چشموں کی جگہ سے اس کا پانی نکالا اور پانی کے ساتھ اس زمین کا چاراپیدا کیا جس کی تم کو سخت ضرورت ہے اور اس کی قدرت کا نظارہ دیکھو کہ خشک زمین جو بوجہ کثرت پانی کے کانپ رہی تھی اس پر پہاڑ گاڑ دئیے تاکہ زمین ڈانواں ڈول حرکت نہ کرے جو تمہاری تکلیف کی باعث نہ ہو بلکہ مستقر رہ کر تمہارے لئے غذا پیدا کرے۔ یہ سب انتظام تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے گذارے کے لئے کیا تاکہ تمہارے مویشی کھا کر تمہاری خدمت کریں اور تم ان سے خدمت لے کر زمین کو آباد کرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھائو پھر کیا یہ سب انتظام بے نتیجہ اور بے حساب ہے نہیں بلکہ اس کے لئے ایک وقت مقرر ہے جس کا نام روز قیامت یا بڑی مصیبت ہے پس جب وہ بڑی مصیبت کی گھڑی آجائے گی یعنی جس روز انسان اپنی کی ہوئی کوشش نیک ہو یا بد یاد کرلے گا اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے کی جائے گی النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 (37۔46) اس روز کا فیصلہ یہ ہوگا کہ جس نے دنیا میں الٰہی حکموں سے سرکشی کی ہوگی ایک طرف اللہ کی شریعت اس کو بلاتی تھی دوسری طرف اس کا نفس یا اس کی سوسائٹی اس کو اپنی طرف کھینچتی تھی وہ اللہ کی شریعت کی پرواہ نہ کرتا تھا یہی اس کی سرکشی تھی جو اس نے کی اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دی تھی یعنی دنیاوی فوائد یا دنیاوی جماعت کو الٰہی شریعت پر مقدم سمجھا تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہی ٹھکانہ ہوگا جہاں سے وہ نہ خود نکل سکیں گے نہ ان کو کوئی نکال سکے گا اور جو کوئی اللہ کے مقام یعنی رتبہ شان سے ڈرا ہوگا اور جس نے اپنے نفس امارہ کو ناجائز خواہشوں سے روکا ہوگا بس اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا یہ واقعات سب اس روز ہوں گے جس روز کا نام قرآن مجید میں الساعۃ بھی ہے یعنی آخری گھڑی اس لئے منکرین قیامت اے نبی تجھ سے ساعت قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہوگی بتا کہ ہم اس سے پہلے پہلے توبہ کر کے جنت کے مستحق ہوجائیں ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس ساعت کے متعلق تیرا کیا فرض ہے یہ کہ تو بتا دے کہ آنے والی ہے یہ نہیں کہ یہ بتا کہ کب آئے گی اس کا انتہائی علم اللہ ہی کو ہے کیونکہ اس کا انجام کار اللہ ہی کو ہے کیونکہ اس کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے تیرا رتبہ اتنا ہے کہ جو اس ساعت قیامت سے ڈرے تو اس کو سمجھا دے کہ اس کے آنے سے پہلے کچھ کرلو آج تو یہ سوال پر سوال کرتے ہیں مگر جس روز اس کو آنکھوں سے دیکھیں گے ایسے بے خبر ہوجائیں گے گویا وہ دنیا میں دن کا آخری وقت رہے ہوں گے یا صبح کا ناشتہ کا وقت اور بس سچ ہے۔ حال دنیارا بپر سیدم من از فرزانہ گفت آں خواب ست یا بادست یا افسانہ اللھم لا تجعلنا منھم النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 النازعات
46 النازعات
0 عبس
1 عبداللہ بن ام مکتوم نابینا (رض) ایسے وقت مجلس نبوی میں آیا کہ اکابر قریش حضور کے پاس بیٹھے دینی باتیں کر رہے تھے اور حضور ان کو دلی توجہ سے سمجھا رہے تھے عبد اللہ چونکہ نابینا تھا مجلس کی ہیئت و صورت کو نہ دیکھ سکا بار بار حضور کو اپنی طرف متوجہ کرتا مگر حضور (علیہ السلام) اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ خلاف آداب مجلس عبد اللہ کی گفتگو پر چیں بجبیں ہوئے عبد اللہ ایک مقرب صحابی تھا اس لئے اس کے اس قصے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ خازن۔ منہ اس مقام کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ تیوڑی چڑہانے والا عثمان بن عفان تھا (رضی اللہ عنہ) قطع نظر عدم مطابقت واقعات کے یہ ترجمہ سیاق عبارت اور عربیت کے خلاف ہے کیونکہ اس سے انتشار ضمائر لازم آتا ہے۔ عبس اور تولی میں دو ضمیریں تو بقول شیعہ مترجم حضرت عثمان کی طرف ہوئیں مگر ہ کی ضمیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلی گئی یہی انتشار ضمائر ہے جو عربیت میں قبیح سمجھا گیا ہے۔ منہ)۔ (1۔16) دیکھو جی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسا پاک اخلاق اور ذی حوصلہ ہے مگر نیک نیتی سے اسے بھی کبھی غصہ آجاتا ہے ایک نابینا عبداللہ اس کے پاس آیا کہ مسائل اسلام پوچھے مگر وہ اس وقت اکابر قریش کے ساتھ مشغول تھا تو وہ رسول نابینا کے آنے سے چیں بجبیں ہوا اور منہ پھیر لیا کہ نابینا نے بے موقع سوال کیوں شروع کر دئیے ذرہ صبر کرتا جب تک میں ان اکابر قریش سے فارغ ہوجاتا یہ تو گھر کا آدمی ہے تھوڑی دیر خاموش رہتا تو حرج نہ تھا ہم جانتے ہیں کہ اے رسول تیری نیت نیک تھی مگر حقیقت کا تجھے کیا علم شاید وہ نابینا پوچھ کر عمل کے گناہوں کی آلودگی سے بالکل پاک ہوجاتا یا کسی قدر نصیحت پا جاتا اور وہ نصیحت اسے فائدہ دیتی پس آئندہ کو یہ خیال رکھا کر مادروں را بنگریم وحال را نے بردں رابنگریم وقال را تیری نیک نیتی اس اصول پر غالب ہے اسی لئے جو شخص دین اور اللہ سے مستغنی اور بے پرواہ ہے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے تاکہ وہ کسی طرح راہ راست پر آجائے حالانکہ اس بات میں تجھ پر گناہ نہیں کہ وہ آلودگی سے پاک نہ ہونا چاہے نہ ہو سر کھائے اور جو تیرے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہوا آتا ہے اور وہ دل میں اللہ سے ڈرتا بھی ہے تو تو اس سے بے اعتنائی کرتا ہے گو ایسا کرنے میں تیری نیت نیک ہے‘ تاہم ہم بتاتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہ چاہیے پس تو ہر ایک کو باقاعدہ نصیحت کیا کر تحقیق یہ آیات قرآنیہ نصیحت ہیں جو چاہے اس نصتحد کو یاد کرلے اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم بڑے آدمی ہیں بڑے جس دین یا جس کتاب کو مان لیں اس کی عزت ہوتی ہے تو ان کو جاننا چاہیے کہ قرآن اس بات کا محتاج نہیں کیونکہ یہ قرآن انبیائے کرام کے عزت والے صحیفوں میں چلا آیا ہے جو بڑے بلند رتبہ عزت دار نیکوکار لکھنے والوں یعنی انبیاء اور ان کے اصحاب کے ہاتھوں میں رہتا رہا ہے پھر اس کو کسی (شیعہ ترجمہ میں بحوالہ تفسیر صافی یوں لکھا ہے۔ ” ایک شخص نے اس سے تیوڑی چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ نبی کے پاس ایک نابینا آگیا“ (ترجمہ مولوی مقبول احمد) ! ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ کی طرف اشارہ ہے۔ منہ دنیادار عزت دار کی کیا حاجت بلکہ اہل دنیا کو عزت حاصل کرنے کے لئے اس کی حاجت ہے عبس
2 عبس
3 عبس
4 عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 عبس
10 عبس
11 عبس
12 عبس
13 عبس
14 عبس
15 عبس
16 عبس
17 (17۔32) افسوس ہے کہ دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں جو اس نعمت قرآن کی قدر نہیں کرتے ایسے انسان کو اللہ کی مار کیسا ناشکرا ہے جو اللہ کی مہربانی کی قدر نہیں کرتا کمبخت یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اللہ نے اس کو کس چیز سے پیدا کیا وہ اگر بھولا ہو تو ہم ہی بتاتے ہیں منی کی بوند سے پیدا کیا دیکھو تو اس اللہ نے اس کو اندر ہی اندر بنایا پھر اس کا اندازہ باندھ دیا اس کے اعضاء کا اس کے قد کا اس کی عمر کا اس کی خوراک کا اس کی زندگی اور موت کا غرض اس کی سب چیزونکا اندازہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے یہ سب کام اس کے یا ہر کرانے سے پہلے ہی کردیتا ہے پھر اس کے لئے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کردیا پھر وہ دنیا میں زندہ رہتا ہے جب تک اس کی زندگی مقدر ہوتی ہے پھر جب ختم ہوتی ہے تو اس کو مار کر قبر میں داخل کردیتا ہے یا جہاں کوئی مرتا ہے وہاں ہی اس کو نظروں سے گم کردیا جاتا ہے جل کر راکھ کی صورت ہوجائے دریا میں مچھلیوں کی غذا کی شکل میں غرض ہر طرح پر وجود سے فنا کی طرف چلا جاتا ہے پھر جب اللہ چاہے گا اس کو جزا وسزا کے لئے مکرر زندہ کر کے اٹھا لے گا دیکھو اتنا سن سنا کر اور قدرت کے اتنے واقعات دیکھ کر بھی انسان نے اپنا فرض ادا نہیں کیا کمبخت ایسا اکڑا پھرتا ہے کہ الٰہی احکام سنکر پرواہ نہیں کرتا بھلا گذشتہ واقعات کی نسبت تو یہ کہہ سکتا ہے گو اس کا کہنا یہ لغو ہے کہ میں نہیں جانتا مجھے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور کب کیا مگر حالات حاضرہ کی نسبت کیا کہہ سکتا ہے پس ایسا انسان اپنے کھانے کی طرف بغور نظر کرے یہ گول مول روٹی یا چاولوں کی رکابی کہاں سے آئی وہ کیا بتائے گا ہم (اللہ) ہی بتاتے ہیں کہ زمیندار جب دانہ زمین میں ڈال چکا اور اس کا کام ختم ہوگیا تو ہم (اللہ) نے اوپر سے مینہ کا پانی ڈالا پھر اس کے ساتھ زمین کو پھاڑا پھر اس میں وہ دانے پیدا کئے جو یہ ناشکر انسان اس وقت کھا رہا ہے اور اسی پانی کے ساتھ ہم نے انگور اور ہر قسم کی سبزیاں انسانوں اور حیوانوں کے کھانے کے لائق اور زیتوں کا درخت جس سے تیل بھی نکلتا ہے اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور ہر قسم کے میوہ جات اور جانوروں کے لئے چارہ پیدا کیا یہ کیوں کیا تمہارے گزارے کے لئے اور تمہارے مویشیوں کے گذارے کے لئے اتنے احسانات اور انعامات پا کر بھی یہ مغرور انسان اللہ کی طرف نہیں جھکتا عبس
18 عبس
19 عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 (33۔42) پھر جب وہ بوجہ ہیبتناک آواز کے کانوں کے پردے پھاڑنے والی قیامت کی گھڑی آجائے گی اس روز اس کا حال کیا ہوگا یعنی جس روز ہر آدمی اپنے بھائی سے اپنی ماں سے اپنے باپ سے اپنی بیوی سے اپنے بیٹوں سے بھاگ جائے گا اس خیال سے کہ کہیں ان کی ذمہ داری مجھ پر نہ آجائے اس روز کا ادنیٰ کرشمہ یہ ہوگا کہ ہر ایک آدمی کو اپنا فکر ہوگا جو دوسروں سے اس کو بے خبر کر دے گا کیا تم نے کسی نیک دل شاعر کا قول نہیں سنا۔ بیٹا نہ پوچھے باپ کو جب دیکھے اس کے پاپ کو سب یار ہوں آپ آپ کو ساتھی نہ ہو جزاپنا دم اور کتنے چہروں پر مٹی پڑی ہوگی جن پر بداعمالی کی وجہ سے سیاہی چھائی ہوگی سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ کافر بدکار بداعمال ہوں گے اور بس۔ اللھم لا تجعلنا منھم عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 عبس
42 عبس
0 التكوير
1 (1۔3) ان لوگوں کو روز حساب کی اطلاع دی جاتی ہے تو بجائے ڈرنے کے الٹے معاندانہ سوال کرتے ہیں کہتے ہیں یہ دن کب ہوگا تم ان لوگوں کو بتائو کہ جس روز یہ ہونا ہے اس کے حصے دو ہیں پہلا حصہ فنا کا جب یہ موجودہ سورج لپیٹ دیا جائے گا یعنی یہ سارا نظام شمیا برباد کردیا جائے گا۔ اور جب سورج لپیٹ لئے جانے سے ستارے بے نور ہوجائیں گے اور کو ہی سلسلہ سب برباد کر کے پہاڑوں کو ان کی جگہ سے چلایا جائے گا یعنی پہاڑوں کو گر کر زمین کو میدان صاف کردیا جائے گا التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 اور جس وقت مارے دہشت کے محبوب تریں مال جیسا عرب میں گابھن اونٹنیاں ہیں یہ بھی بے کار بے رغبت چھوڑی ! جائیں گی کوئی ان کا مالک نہ بنے گا نہ کوئی ان کے ضائع ہوجانے کا خیال کرے گا ہمارے پنجاب کے مدعی نبوت جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اس آیت کو اپنے حق میں لیا ہے کہتے ہیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اونٹنیوں پر سواری کرنی ترک ہوجائے گی تو مسیح موعود آجائے گا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ ” آسمان نے میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہوگئے اور پیشگوئی آیہ کریمہ و اذا العشار عطلت پوری ہوئی اور پیشگوئی حدیث و لیترکن القلاص فلا یسعی علیھا نے اپنی پوری پوری چمک دکھلائی یہاں تک عرب اور عجم کے اڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے جو قرآن و حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے“ (اعجاز احمدی ص ٢) اس مضمون کو دوسرے مقام پریوں لکھتے ہیں۔ ” اور یاد رہے کہ اسی زمانے کی نسبت مسیح موعود کے ضمن بیان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی خبر دی ہے جو صحیح مسلم میں درج ہے اور فرمایا و لیتر کن القلاص فلا یسعی علیھا یعنی مسیح موعود کے زمانے میں اونٹنی کی سواری موقوف ہوجائے گی پس کوئی ان پر سوار ہو کر ان کو نہیں دوڑائے گا اور ریل کی طرف اشارہ تھا کہ اس کے نکلنے سے اونٹوں کے دوڑانے کی حاجت نہیں رہے گی اور اونٹ کو اس لئے ذکر کیا کہ عرب کی سواریوں میں سے بڑی سواری اونٹ ہے جس پر وہ اپنے مختصر گھر کا تمام اسباب رکھ کر پھر سوار بھی ہوسکتے ہیں اور بڑے کے ذکر میں چھوٹا خود ضمنا آجاتا ہے پس حاصل مطلب یہ تھا کہ اس زمانے میں ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ پر بھی غالب آجائے گی جیسا کہ دیکھتے ہو کہ ریل کے نکلنے سے قریبا وہ تمام کام جو اونٹ کرتے تھے اب ریلیں کر رہی ہیں پس اس سے زیادہ تر صاف اور منکشف اور کیا پیشگوئی ہوگی چنانچہ اس زمانہ کی قرآن شریف نے بھی خبر دی ہے جیسا کہ فرمایا ہے واذا العشار عطلت یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب کہ اونٹنی بیکار ہوجائے گی یہ بھی صریح ریل کی طرف اشارہ ہے اور وہ حدیث اور یہ آیت ایک ہی خبر دے رہی ہیں اور چونکہ حدیث میں صریح مسیح موعود کے بارے میں یہ بیان ہے اس سے یقینا یہ استدلال کرنا چاہیے کہ آیت بھی مسیح موعود کے زمانے کا حال بتا رہی ہے اور اجمالا مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے پھر لوگ باوجود ان آیات بینات کے جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں ان پیشگوئیوں کی نسبت شک کرتے ہیں“ (دافع البلاء ص ١٣) ناظرین کرام ! مرزا صاحب کا مدعا صاف ہے کہ آپ نے ریل کی وجہ سے اونٹوں کا متروک ہونا مسیح موعود کی علامت بتائی ہے جو لوگ اس بات کو نہیں مانتے ان پر خفگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ان کی خفگی کے الفاظ یہ ہیں۔ ” یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ ترک کئے جاویں گے اور قرآن مجید میں بھی وارد تھا و اذا العشار عطلت اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سرگرمی سے ریل تیار ہو رہی ہے اور اونٹوں کے الوداع کا وقت آگیا پھر اس نشان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے (اشتہار انعامی پانچ سو ملحقہ تریاق القلوب ص ٨) اللہ کی شان واقعات پر کسی کو قبضہ نہیں یہ وہ زمانہ ہے جب سلطان عبد الحمید خاں مرحوم نے مسلمانان دنیا سے اپیل کی تھی کہ حجاز ریلوے کے لئے چندہ دو مرزا صاحب نے سمجھا کہ عبد الحمید جیسا ضابط اور مقبول سلطان حجاز میں ریل بنانے کا ارادہ کرچکا ہے تو پھر دیر کے سچ ہوسکتی ہے مگر انہوں نے خیال نہ کیا کہ سلطان موصوف سے اوپر جو سلطان جہان ہے اس میں یہ طاقت ہے کہ سلطان کے ارادہ کو ناکام کر دے اللہ کی حکمتیں وہی جانتا ہے حجاز ریلوے اسلامی دنیا کے لئے عموما اور حجاز کے لئے خصوصا کتنی کچھ مفید تھی شاید اس فائدہ کے مقابلے میں جو مسلمانوں کو غلطی سے بچانا تھا وہ اہم ہو اس لئے جونہی مرزا صاحب اس ریلوے کو اپنے حق میں لکھا حکیم مطلق نے اسے بند کردیا یہاں تک کہ زائرین حجاز دیکھ رہے ہیں اور ہر سال دیکھتے ہیں کہ مدینہ شریف سے مکہ معظمہ کی طرف قدم بھر بھی ریلوے لائن نہیں بنی پھر انہیں معلوم مرزا صاحب حجاز ریلوے کو اس آیت کے ماتحت کیوں لکھ کر اپنے بر خلاف ایک پہاڑ کھڑا کرلیا۔ یہ تو ہے واقعات سے جواب اب ہم آیت کے الفاظ سے جواب دلاتے ہیں۔ آیت کریمہ میں بارہ دفعہ (اذا) آیا ہے علما اور طلبا جانتے ہیں کہ (اذا) ظرف زمان کے لئے ہوتا ہے اس لئے جو جواب اس کا آگے آتا ہے اسی سے اس کا تعلق ہوتا ہے اس جگہ اس ” اذا“ کا جواب خود قرآن مجید کے الفاظ میں موجود ہے علمت نفس ما احضرت یعنی جب یہ واقعات ہوں گے اس وقت ہر کوئی اپنے نیک و بد کا مونکوجان جائے گا اگر اس سے مرزا صاحب کی مسیحیت موعود مراد ہوتی تو ” اذا“ کا جواب یوں چاہیے تھا۔ ” خرج المسیح الموعود“ جب یہ واقعات ہوں گے تو مسیح موعود آجائے گا۔ “ پس قرآن مجید کے الفاظ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے پیچھے جانے سے ڈر لگتا ہے کہ اس آیت کے مصداق نہ بن جائیں۔ اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر۔ منہ التكوير
5 اور جب وحشی جنگلی جانور جمع کئے جائیں گے یعنی زمین کی تیز حرکت سے مارے خوف کے ایک جگہ ہوجائیں گے التكوير
6 اور جب دریا یعنی ان کے پانی نیچے کی گرمی سے سخت گرم کئے جائیں گے التكوير
7 یہ تو ہیں وہ واقعات جو روز قیامت کے پہلے حصے میں ہوں گے اور دوسرا حصہ وہ ہے جب ہر قسم کے نفوس اپنی امثال کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے ایک دوسرے کو پہچانیں گے التكوير
8 اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی کے حق میں سوال ہوگا التكوير
9 کہ وہ کس جرم میں ماری" گئی تھی اس سے مطلب یہ ہوگا کہ اس کے مرتکب ذلیل ہوں کیونکہ بے گناہ بچی کو انہوں نے مار ڈالا ٣ ؎ عرب میں بدرسم تھی کہ لڑکی سے بہت نفرت کرتے تھے بس چلتا تو زندہ در گور کردیتے اس رسم کی بابت مولنا حالی مرحوم نے کہا ہے۔ جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر تو خوف شماتت سے بے رحم مادر پھرے دیکھتی جو خاوند کے تیور کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی قرآن مجید چونکہ ہر قسم کی رسوم قبیحہ کی اصلاح کرنے کو آیا تھا اس لئے بدرسم کی اصلاح بھی کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ التكوير
10 اور جب بروز حشر اعمالنامے سب کے سامنے پھیلا دئیے جائیں گے تاکہ سب لوگ خود پڑھ لیں التكوير
11 اور فنا کے وقت جب آسمان ایسا سرخ ہوگا گویا اس کی کھال کھینچی جائے گی التكوير
12 اور جب اہل کفر اور اہل فسق کے لئے حسب اعلان جہنم تیز کی جائے گی التكوير
13 اور جس وقت بہشت اہل ایمان کے نزدیک کی جائے گی التكوير
14 یہ واقعات جب حشر کے میدان میں ہوں گے تو ہر آدمی نے جو جو کام یہاں سے وہاں اپنے لئے حاضر کئے ہوں گے اس وقت جان لے گا یعنی ہر نیک وبد اس کے سامنے آجائے گا یہ تو مسئلہ معاد (قیامت) کا التكوير
15 (15۔18) اب سنئیے مسئلہ رسالت یعنی قرآن مجید کی صداقت کا ذکر پس ہمیں قسم ہے چھپ چھپ کر چلنے والے سیاروں کی اور قسم ہے رات کی جب وہ خوب تاریک ہوجاتی ہے اور قسم ہے دن کی جب وہ خوب روشن ہوتا ! التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 (19۔21) بے شک یہ قرآن معزز رسول جبرئیل فرشتہ کا پہنچایا ہوا پیغام ہے جو اللہ کی طرف سے وہ حضور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر لاتا ہے بڑی قوت اور طاقت والا ہے۔ اللہ مالک الملک کے پاس بڑی عزت والا سب فرشتوں کا رئیس جس کا کہا سب مانتے ہیں اس جگہ وہ معتبر امین بھی ہے جو کسی طرح الٰہی پیغام میں کمی بیشی نہیں کرتا نہ کرسکتا ہے اس شان کا فرشتہ اس قرآن کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا ہے جو رات دن کا تمہارا ہم نشین ہے ! حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد نبوت قریباً چھ سو برس بند رہی یہاں تک کہ دنیا میں بالکل ظلمت ضلالت ہوگئی اس کے بعد ضیاء محمدی طلوع ہوئی اس سلسلہ قسم میں ان تینوں باتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے الہٓی ہدائت جو حضرت مسیح سے زمانہ نبوت محمدیہ تک ہے اس کو مخفی ستاروں سے تشبیہہ دی زمانہ ضلالت کو مکمل شب تاریک سے تشبیہہ دے کر زمانہ نبوت محمدیہ کو روز روشن بتا کر جواب قسم میں فرمایا ہے اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ الآیۃ اللّٰہ اعلم التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 (22۔29) پھر بھی تم اس کی تصدیق نہیں کرتے اور ادہر ادھر کی بدحواس باتیں کہتے ہو اور سوچتے نہیں ہو کہ یہ تمہارا ہم نشین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون تو نہیں جو تمہارے سامنے غلط دعویٰ نبوت کرتا ہے بلکہ یہ تو اس جبرئیل کو بچشم خود بلند اور روشن کنارہ پر دیکھ چکا ہے جب وہ اس کے پاس پہلی مرتبہ آیا اور پیغام رسالت دے گیا پس یہ تمہارا ہم نشین اس جبرئیل کے پیغام سے بولتا ہے اور وہ اس کے بتائے ہوئے غیب پر بخیل نہیں کیسے ہو وہ تو مامور ہے جو اسے بتایا جاتا ہے وہ کہہ دیتا ہے اس کو اس میں کوئی دخل نہیں اس لئے نہ وہ قرآن کسی غیر کا کلام ہے اور نہ وہ شیطان مردود کا قول ہے جیسا کہ تم مشرک لوگ بدگمانی کرتے ہو پھر تم لوگ اسے چھوڑ کر کہاں جاتے ہو یہ قرآن تو دنیا کے سب لوگوں کے لئے نصیحت ہے مگر ہاں اس کے لئے نصیحت ہے جو راہ راست پر سیدھا چلنا چاہے اور حق بات یہ ہے کہ تم انسان چاہ کر کامیابی نہیں کرسکتے مگر جس وقت اللہ ہی اس کام کو چاہے کیا تم نے کسی عارف کا قول نہیں سنا۔ ؎ داد حق را قابلیت شرط نے بلکہ شرط قابلیت داد اوست پس تم یہ دعا میں پڑھا کرو اھدنا الصراط المستقیم۔ التكوير
23 التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 الإنفطار
1 مشرک منکرین قیامت پوچھتے ہیں قیامت کب ہوگی سو اے نبی ان کو کہہ کہ سنو جی جب موجودہ آسمان پھٹ جائے گا الإنفطار
2 اور موجودہ روشن ستارے آفتاب سے بے تعلق ہو کر بے نظام ہوجائیں گے الإنفطار
3 اور جب یہ دریا رواں چیر دئیے جائیں گے یعنی ان کا پانی ادھر ادھر پھیلا دیا جائے گا تاکہ زمین خشک ہوجائے الإنفطار
4 اور جب اہل قبور میدان حشر میں جمع کئے جائیں گے ان واقعات میں بعض قبل حشر اور بعض بعد حشر ہوں گے الإنفطار
5 اس روز قیامت ہوگی تو اس وقت ہر نفس جو زندگی میں پہلے کرچکا ہوگا اور جو نیک کام مثل صدقہ جاریہ یا بدعمل مثل رسوم قبیحہ پیچھے چھوڑ گیا ہوگا سب جان لے گا کیونکہ وہ اس کے سامنے آجائیں گے نیک کام کرنے والا خوش ہوگا بد کرنے والا روئے گا مگر رونے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا فائدہ اس صورت میں ہے کہ ابھی سے سیدھا ہو کر چلے الإنفطار
6 اسی لئے نوع انسان کو سمجھایا جاتا ہے کہ اے آدم کے بچے انسان تو جو اللہ بخشنہار سے ہٹ رہا تھا تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے ہٹا رکھا ہے وہ تیرا رب کوئی ایسا نہیں جس کا تعلق تجھ سے نیا ہو بلکہ تیری پیدائش سے پہلے کا ہے الإنفطار
7 کیونکہ وہ وہی ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں پیدا کیا پھر درست اندام بنایا پھر قد وقامت کے لحاظ سے بھی تجھے معتدل بنایا الإنفطار
8 جس شکل وصوررت میں چاہا اپنے قانون قدرت سے تجھے مرکب کردیا اے بنی آدم کیا تمہیں ان واقعات میں شک ہے پھر کیوں تم ان باتوں کو مان کر الٰہی شریعت کے منکر ہو الإنفطار
9 (9۔19) بلکہ تم لوگ نیک وبد اعمال کی جزا وسزا کی تکذیب کرتے ہو اور خیال نہیں کرتے ہو کہ تمہارا یہ انکار اللہ کی بے انصافی تک پہنچتا ہے کیونکہ جب نیک وبد اعمال کی جزاوسزا نہیں تو انصاف اور بے انصافی کیا ہوئی اسی انکار کی وجہ سے تم لوگ ہر قسم کی بد اعمالی کرنے میں مشغول رہتے ہو حالانکہ اللہ کی طرف سے معتبر محررین تم پر محافظ ہیں جو کچھ تم لوگ کرتے ہو وہ سب کچھ جانتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں ! نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ نیک لوگ جن کے اعمالنامہ میں نیکیوں کی کثرت ہوگی وہ بہشت کی نعمتوں میں ہوں گے اور ان کو کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے یہاں کے لئے کیا تھا اس کا انعام پائو اور ان کے مقابل بدکار لوگ جہنم کے عذاب میں ہوں گے بعد الموت فیصلے کے روز اس میں داخل ہوں گے اور پوری سزا پائیں گے ہرچند کوشش کریں گے کہ باہر آئیں مگر وہ اس سے دور نہ ہوسکیں گے اور میاں تمہیں کیا معلوم کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے ہم پھر کہتے ہیں کہ تمہیں کیا معلوم کہ وہ فیصلہ کا دن کیا ہوگا اور ایسا بھاگڑ کا دن ہے کہ اس روز کوئی شخص کسی دوسرے کے لئے کچھ بھی اختیار نہ رکھے گا اور سارا اختیار اس روز اللہ ہی کو ہوگا اگرچہ آج بھی سب اختیار اللہ ہی کا ہے تاہم لوگ دعویدار تو ہیں وہاں دعویٰ بھی کسی کو نہ ہوگا جس کو چاہے گا پکڑے گا جسے چاہے گا چھوڑے گا۔ اللھم اغفِر لَنَا الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 الإنفطار
0 المطففين
1 (1۔17) دنیا میں جتنی خرابیاں ہیں قرآن مجید سب کی اصلاح کرنے کو آیا ہے ان خرابیوں میں سے ایک خرابی کم تول بھی ہے جس کو بدنیت دکاندار صنعت تجارت جان کر کرتے ہیں ایسی خرابی کو بند کرنے کے لئے ان کو سنا دے کہ ان کم دینے والوں کے لئے افسوس ہے جو لوگوں سے لیتے وقت ٹھوک بجا کر پورا پورا بلکہ دائو چلے تو زیادہ بھی لیتے ہیں اور جب ناپ سے یا وزن سے دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں لطف یہ ہے کہ دیکھنے والے کو کبھی معلوم نہیں ہونے دیتے بظاہر پیمانہ اور ترازو دونوں ٹھیک ہیں مگر اندر کمی کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک بڑے دن میں جو وقت الحساب ہے اٹھائے جائیں گے جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور حساب دیں گے جو لوگ اس دن کو مانتے ہیں وہ تو اپنا عمل اعتقاد کے موافق کریں اور جو اس دن کو نہیں مانتے انہیں ماننا چاہیے کیونکہ اس کے نہ ماننے سے انسان بدکار رہتا ہے اور بدکاری کا نتیجہ یہ ہے کہ بدکاروں کے اعمال بدسجین میں ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے وہ ایک بہت بڑی لکھی ہوئی کتاب ہے یعنی مسلہائے بدکاراں ہے اس روز یعنی جزاوسزا کے دن جھٹلانے والوں کے لئے افسوس ہوگا۔ جو اس دنیا میں یوم الجزا کو نہیں مانتے اور دراصل بات یہ ہے کہ اس یوم الجزاء کو حدود الہیہ سے گزر جانے والے بدکار ہی جھٹلاتے ہیں کیونکہ اگر وہ یوم الجزاء پر یقین رکھیں تو ان کو بدعملی کرتے وقت دل میں کھٹکا ہو جس سے ان کے عیش میں تکدر آجائے اور بے لطفی ہو اس لئے وہ سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہوتے کہ نیک وبد اعمال کا کوئی بدلہ ہے بلکہ ان کا قول یہی ہے۔ صبح تو جام سے گذرتی ہے شب دل آرام سے گذرتی ہے عاقبت کی خبر اللہ جانے اب تو آرام سے گذرتی ہے اسی لئے تو ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جب کبھی ان پر ہمارے حکم پڑھے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں کہیں موسیٰ عیسیٰ کا ذکر ہے تو کہیں فرعون قارون کا۔ یہ تو محض بچوں کے بہلانے کی باتیں ہیں ہم بڑی عمر کے اس قسم کے قصوں سے نہیں بہلتے ایسا نہیں جو شخص مذکور کہتا ہے بلکہ ان کے دلوں پر ان کے کئے ہوئے کاموں نے زنگ لگا دیا ہے اس لئے وہ سمجھ نہیں سکتے کہ از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوزجو بے شک یہ لوگ اس دن جس روز سب سے بڑی نعمت اللہ کی زیارت ہوگی اپنے رب سے پردے میں کئے جائیں گے یعنی ایسے لوگوں کو اللہ کی زیارت نہ ہوگی پھر یہ سارے کے سارے جہنم میں داخل ہوں گے پھر ان کو کہا جائے گا کہ یہ وہی دن ہے جس کی تم لوگ تکذیب کرتے تھے ان کے مقابل المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 (18۔36) نک لوگوں کا حال بھی تم کو معلوم ہے سنو ! بے شک نیک لوگوں کے اعمال علیین میں رکھے جاتے ہیں تمہیں کیا معلوم علیین کیا ہے سنو ! وہ بھی ایک بڑی مرقوم کتاب ہے جس میں اللہ کے مقرب بندے فرشتے اور بنی آدم بڑے بڑے درجوں والے لوگ بھی آتے رہتے ہیں یعنی وہ ایک اعلیٰ درجہ کا کتاب گھر ہے کسی کے اعمال نامہ کا اس میں ہونا اس شخص کی نجات کی علامت ہے اسی لئے ایسے نیک لوگ بڑی نعمتوں میں ہوں گے اپنے اپنے محلات میں تختوں پر بیٹھے ہوئے آمنے سامنے ایک دوسرے کو تاکتے ہوں گے یعنی دنیا میں جن لوگوں کی باہمت مصاحبت ہوگی وہ جنت میں بھی اسی طرح باہمی میل جول سے لطف صحبت پائیں گے تو اے سننے والے ان کے چہروں میں نعمتوں کی تروتازگی معلوم کرے گا جیسے دنیا میں امیر آدمی کھانے پینے والا بمقابلہ غریب فاقہ کش کے ممتاز دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نعمتوں کا شمار کیا ان میں سے ایک بتاتے ہیں کہ ان کو سر بمہر خالص انگوروں کی بڑی لذیذ شراب پلائی جائے گی جس میں لذت تو اعلیٰ درجہ کی ہوگی مگر نشہ یا درد سر نام کو نہ ہوگا بوتلوں میں بھری ہوئی مہریں لگی ہوئی ان کے سامنے لائی جائیں گی مہر کیسی دنیا میں ایسی بوتلون پر مہرلاکھ کی ہوتی ہے مگر اس کی مہر کستوری کی ہوگی یہ ایک نعمت ہے جو نجات یافتہ لوگوں کو ملے گی۔ بانی کا کیا شمار پس چاہیے کہ نجات کے شائق نیک کام کرتیں اور اس معاوضہ پر خوش قمست لوگ نیک کام کریں اور نجات کے شائقین اس قسم کی نعمتوں میں رغبت کریں یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے یہ تو اس چیز کا ہے جو بوتلوں کے اندر ہوگی اور سنو جیسے دنیا میں تیز شراب میں سوڈا واٹر وغیرہ ملاتے ہیں اس شراب میں بھی ملائیں گے اس کی ملاوٹ تسنیم کے خالص پانی سے ہوگی وہ ایک چشمہ ہوگا جس پر اللہ کے مقرب بندے پانی پئیں گے اس کی مٹھاس اور لذت یہاں کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی وہ چکھنے اور پینے ہی پر موقوف ہے ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو خلاف تعلیم اللہ بدکار ہیں وہ ان ایمانداروں سے ہنسی کرتے ہیں کہتے ہیں یہ لوگ مذہبی مجنون ہیں اور جب ان کے پاس سے گزرتے ہیں تو گوشہ چشم سے ایک دوسرے کی طرف اشارے کرتے ہیں اس اشارہ کا مضمون یہ ہوتا ہے کہ دیکھو میاں یہی لوگ جنت کے وارث ہیں ان کی حیثیت اور ان کی صورت دیکھئے کیا کہتے ہیں مثل مشہور ہے ذات کی چھپکلی شہتیروں سے پکڑ ان ہی پر صادق ہے اور یہ اشارے کر کے مسرت حاصل کرتے ہیں جیسے مسخرے کسی سے مسخری کر کے مسرور ہوتے ہیں اور جب یہ مسخری کرنے والے لوگ اپنے گھر والوں کی طرف جاتے ہیں تو بڑے خوش خوش جاتے ہیں کہ آج ہم نے ان مذہبی پاگلوں سے خوب ہی دل لگی کی اور جب ان مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ لوگ راہ راست سے بھولے ہوتے ہیں حالانکہ یہ کفار ان مسلموں پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجے گئے پس اس روز قیامت کے دن ایماندار لوگ کافروں سے ہنسیں گے یعنی یہ کہیں گے کہ کیوں جی ہم سے جو اللہ کے وعدے تھے وہ پورے ہوئے یا نہیں دیکھو ہم کس بہار میں ہیں اور تم کس عذاب میں واقعی وہ ایماندار باغوں میں تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور کہیں گے کیوں جی اسلام کے منکروں کو ان کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملا؟ یا نہیں ! اللھم لا تجعلنا منھم المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 المطففين
28 المطففين
29 المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 المطففين
0 الانشقاق
1 سنو ! جی جو کچھ تم کو وعدہ دیا جاتا ہے یہ اس روز واقع ہوگا جب آسمان پھٹ جائے گا الانشقاق
2 اور اپنے پروردگار کے حکم سننے کو کان لگائے گا یعنی ہمہ تن متوجہ ہوجائے گا اور وہ اسی لائق کیا گیا ہے یعنی وہ تعمیل کو ہر وقت آمادہ ہے الانشقاق
3 اور جب زمین تان دی جائے گی یعنی اس میں جو نیچائی ہے وہ پہاڑوں سے پر کر کے زمین کو اونچائی نیچائی سے خالی کیا جائے گا الانشقاق
4 اور اس میں جو کچھ از قسم مردگان ! ہوگا وہ باہر پھینک دے گی اور ان سے خالی ہوجائے گی الانشقاق
5 اور اپنے رب کی طرف کان لگائے گی اور وہ اس لائق کی گئی ہے الانشقاق
6 اے انسان ضعیف البنیان تو چاہے کتنا ہی اللہ سے سرکشی کرتا ہوتا ہم اس میں شک نہیں کہ تو اپنی عمر کی گھڑیاں ختم کرتا ہوا اپنے پروردگار کی طرف جا رہا ہے پھر اس سے تو ملے گا۔ یعنی دنیاوی تعلقات تیرے سب ٹوٹ جائیں گے اور تو تن تنہا اللہ کے حضور حاضر ہوگا الانشقاق
7 (7۔15) پھر وہاں کیا ہوگا یہ کہ جس شخص کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا جو اس کی صلاحیت کی علامت ہوگا اس کا حساب آسان ہوگا یعنی اس کے اعمالنامہ میں اگر کوئی گناہ بھی ہوگا تو اسے آگاہ کردیا جائے گا کہ تو نے یہ کیا اچھا نہیں کیا جا ہم نے بخش دیا اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف جنت میں خوشی بخوشی لوٹے گا۔ پس یہ علامت اس کی نجات کی ہوگی اور جس شخص کو پیٹھ کے پیچھے سے کتاب یعنی بائیں ہاتھ کے کندھے کے اوپر سے بائیں ہاتھ میں اعمالنامہ ملے گا وہ موت مانگے گا اور جہنم کی بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا کیوں ایسا ہوا اس لئے کہ بے شک وہ اپنے گھر والوں میں بڑا خوش وخرم رہتا تھا کسی طرح کا اسے فکر یا غم نہ تھا یہاں تک کہ زوال نعمت کا بھی اسے خوف نہ تھا اس نے سمجھ رکھا تھا کہ وہ پلٹ کر بغرض جزا وسزا واپس نہیں ہوگا ہاں ضرور ہوگا۔ بے شک جب وہ مستی کے عالم میں کچھ کچھ ناجائز حرکات کرتا تھا اس کا پروردگار اس کو دیکھتا تھا۔ الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 الانشقاق
14 الانشقاق
15 الانشقاق
16 (16۔25) پس سنو ! ہم سچ کہتے ہیں قسم ہے غروب کے وقت کی روشنی کی اور قسم ہے رات کی اور ہر اس چیز کی جس کو رات ڈھانکتی ہے یعنی ہر چیز کی جس پر رات کا اندھیرا پڑتا ہے اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہوتا یعنی بدر کا مل ہوجاتا ہے تم بنی نوع انسان درجہ بدرجہ ضرور چڑھو گے یعنی مرو گے۔ مر کر قبر میں سڑو گے سڑ کر قبروں سے اٹھو گے پس یہ حلفی بیان انکو سنائو اور تعجب نہ کرو ان کو کیا ہوگا کہ یہ لوگ اللہ کی قدرت کاملہ اور آیات قاہرہ پر ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کو سنایا جاتا ہے تو اس کی اطاعت نہیں کرتے بلکہ بجائے ایمان لانے اور اطاعت کرنے کے الٹے کافر لوگ جھٹلاتے ہیں حالانکہ جو کچھ یہ لوگ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے پس تو اے رسول ان کو دردناک عذاب کی خبر سنا صاف صاف کہہ دے کہ اپنے کئے کا بدلہ پائو گے ہاں جو لوگ ایماندار ہیں اور نیک عمل کیا کرتے ہیں ان کے لئے بے انتہا بدلہ ہے۔ اللہ ہم کو نصیب کرے آمین ! بعد غروب آفتاب کچھ وقت آسمان پر سرخی رہتی ہے اس کو شفق کہتے ہیں اس کے بعد سیاہی کا اندھیرا ہوتا ہے اس کے بعد روشنی چاند نکلتا ہے تو اندھیرے پر غالب آجاتا ہے یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ماہتاب نبوت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتیحہ کے نکلنے سے پہلے ظلمات کفر کا اندھیرا تھا لیکن بعد طلوع قمر سب پر روشنی چھا جائے گی اس روشنی میں یہ بات خوب سمجھ میں آجاوے گی کہ واقعی ہم پر احوال مختلفہ آنے والے ہیں کیونکہ ہماری ہستی ابتدا سے انتہا تک انقلابات کی محل رہی ہے فافہم ١٢ منہ الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 الانشقاق
20 الانشقاق
21 الانشقاق
22 الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 البروج
1 (1۔22) قسم ہے بلند آسمان کی اور یوم موعود کی جس کا ہر نبی نے وعدہ دیا ہے اور قسم ہے آنے والے شاہد کی جو ذات رسالت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والتحیہ ہے اور مشہود کی جو روز قیامت ہے دہکتی ہوئی آگ کی خندقوں ! والے مشرک لوگ جنہوں نے مومنین کو آگ میں جلایا دنیا ہی میں اللہ کی طرف سے لعنت کئے گئے تھے جب وہ ان خندقوں پر بیٹھے ہوتے اور اللہ کے بندے ایمانداروں سے جو کچھ تکلیف دہی کے کام ان کے ماتحت لوگ کرتے تھے وہ بڑے لوگ بطور تماشہ اس کو دیکھتے تھے سننے والے کا خیال ہوگا کہ وہ مومن لوگ قصور وار ہوں گے اخلاقی یا قومی یا حکومتی جرم کئے ہوں گے سو ایسے لوگوں کو واضح ہو کہ ان مومنوں کا یہی ایک کام ان ظالموں کو برا معلوم ہوا تھا کہ اللہ واحد غالب صفات حسنہ سے متصف اللہ پر کامل ایمان لائے تھے اور اس کے سوا کل معبودوں کو چھوڑ چکے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت جس کے قبضے میں ہے اور وہی اللہ ہر چیز پر حاضر اور واقف ہے اس لئے ان کو تسلی تھی کہ جو کچھ یہ لوگ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں یہ بھی اللہ دیکھتا ہے اور جو ہم کو مصیبت پہنچ رہی ہے وہ بھی دیکھتا ہے اور ہمارے منہ سے جو نکلتا ہے۔ ؎ بجرم عشق تو ام میگشند غو غائیست تو نیز برسر بام آکہ خوش تماشا ئیست یہ بھی سنتا ہے اس لئے ہمیں کوئی فکر نہیں انجام کار فتح ہماری ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اللہ کی طرف سے اعلان ہے کہ جو لوگ ایماندار مردوں اور عورتوں کو محض ایمان کی وجہ سے تکلیف دیا کرتے ہیں پھر وہ توبہ بھی نہیں کرتے ان کی سزا کے لئے جہنم کا عذاب اور جلانے والی تکلیف ہے اور جو لوگ ایمان لا کر نیک کام بھی کرتے ہیں ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جہاں بے غم بے فکر رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے دنیا میں اہل کفر بڑے مست پھر رہے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ تیرے پروردگار کی پکڑ بڑی سخت ہے وہ جس کو پکڑے کوئی چھڑا نہیں سکتا وہی ہر ایک چیز کو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر مدت مقررہ کے بعد اس کو فنا کی طرف لوٹا دیتا ہے جس پر کہا جاتا ہے چار دن کی چاندنی آخر اندھیری رات ہے اور وہ باوجود قدرت تامہ کے گنہگار تائبوں کے حق میں بڑا بخشنے والا بڑا مہربان مالک تاج وتخت بڑی عزت اور بڑی بزرگی والا جو کام کرنا چاہے اسے کر گزرنے والا اس لئے چاہیے کہ گمراہ بندے اس کی طرف جھکیں یہ الٹے اکڑتے ہیں جیسے پہلے لوگ اکڑتے تھے جس کی پاداش میں وہ سب تباہ ہوئے کیا تم کو ان لوگوں کی فوجوں کی اطلاع آئی ہے؟ یعنی فرعون اور ثمود وغیرہ کی اتباع کی آئی تو ضرور ہوگی اور تم نے ان لوگوں کو سنائی بھی ہوگی مگر اس کا اثر نہیں بلکہ کافر لوگ انبیاء علیہم السلام کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے قرآن کی نسبت ان کا خیال اساطیر الاولین وغیرہ غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن بڑی عظمت اور بزرگی کی کتاب ہے جس کا اصل ماخذ لوح محفوظ میں ہے جو اللہ کی صفت علم کا یا اس کی اول مخلوق کا نام ہے۔ واللہ اعلم شیعوں کی بعض روایات و (کافی) میں ہے کہ شاہد سے مراد ذات رسالت (علیہ السلام) ہیں اور مشہود سے مراد جناب علی مرتضیٰ ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں آیا ہے جِئْنابِکَ عَلٰی ھؤُلَآئِ شَہِیْدًا مگر جناب علی (رض) کی بابت دعویٰ ثبوت طلب ہے ١٢ منہ حدیث شریف میں ہے کہ سابق زمانہ میں عرب کے ایک صوبہ میں ایک بادشاہ تھا حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں اس بادشاہ کا نام یوسف اور اس علاقہ کا نجران آیا ہے اس بادشاہ نے خندقیں کھودوا کر ان میں آگ جلوائی اور اس زمانہ کے موحدین مومنین کو اس آگ میں ڈال کر آپ مع خدم و حشم کے تماشہ دیکھتے رہے اس کی طرف اشارہ ہے تفصیل اس کی مطولات میں ہے اللہ اعلم ١٢ منہ قرآن مترجم مولوی مقبول احمد شیعہ میں اس لفظ کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ ” بڑے عرش کا مالک“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے المجید کو عرش کی صفت سمجھا ہے حالانکہ المجید مرفوع ہے عرش کی صفت ہوتا تو مجرور ہوتا۔ نعوذ باللّٰہ من زلۃ القلم ١٢ منہ البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 البروج
10 البروج
11 البروج
12 البروج
13 البروج
14 البروج
15 البروج
16 البروج
17 البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 البروج
22 البروج
0 الطارق
1 (1۔17) قسم ہے اس نیلگوں آسمان کی اور قسم ہے رات کو آنے والے طارق کی اے انسان تجھے کس نے بتایا کہ طارق کیا ہے ہم بتاتے ہیں وہ چمکنے والا ستارہ ہماری قسم کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک نفس پر اللہ تعالیٰ محافظ ہے جو اس کی ہستی کو بحال رکھتا ہے اگر اللہ اپنی حفاظت اٹھا لے تو کوئی دوسرا شخص حفاظت نہیں کرسکتا پس انسان کو یہی چاہیے کہ اس امر کا خیال رکھے ایسا نہ ہو کہ وقت پر اسے تکلیف پہنچے خیال رکھنے کی صورت یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے غور کرے کہ وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے اس امر کے سمجھنے میں اسے کچھ وقت ہو تو ہم اسے بتاتے ہیں کہ وہ اچھل کر نکلنے والے پانی منی کے نطفے سے پیدا ہوا ہے جو اپنی پہلی صورت یعنی خون ! ہونے کی حالت میں سینے اور پسلیوں کے بیچ میں سے خصیوں میں آتا ہے منی کا ظرف خصتین ہیں جہاں سے وہ نکل کر رحم عورت میں جاتی ہے آئت موصوفہ میں جو صلب اور ترائب میں سے نکلنے کا ذکر ہے یہ اس کی پہلی صورت دمویہ ہے نہ منویہ۔ کذا فی التفسیر الکبیر۔ ١٢ منہ اپنی ہستی کی ابتدا جان کر وہ اس بات کو دل میں جمائے کہ بے شک وہ اللہ اس کو دوبارہ زندگی دینے پر قادر ہے مگر یہ کام یعنی اس کا دوبارہ زندگی میں آنا اس روز ہوگا جس روز انسانوں کی تمام مخفی باتیں کھل جائیں گی اور سب کے سامنے آجائیں گی ایسی کہ وہ جان لیں گے کہ واقعی ہم نے یہ کی ہیں پھر اس کو نہ اپنی قوت ہوگی نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا بلکہ صرف اپنی جان ہوگی اور گناہوں کا انبار بس انسان کو چاہیے کہ اس روز کا فکر دل میں رکھے سنو قسم ہے گردش کرنے والے آسمان کی اور پھٹنے والی زمین کی جو سبزیاں نکلتے وقت پھٹتی ہے اس قسم سے ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ قرآن کا پیغام طے شدہ بات ہے اور مخول یا دل لگی نہیں پس تم اسے قبول کرو ہم جانتے ہیں کہ یقینا یہ لوگ اسے نہیں مانتے بلکہ تیری ایذا رسانی میں مخفی مخفی چالیں چلتے ہیں میں اللہ بھی ان کو جواب میں ان کی نظروں سے مخفی حکم جاری کرتا ہوں جس سے ان کی چالوں کا اثر مٹ جاتا ہے عنقریب ایسے حال میں پھنسیں گے کہ نکلنا مشکل ہوجائے گا پس اے رسول تو ان کو مہلت دے اور کچھ عرصہ انہیں چھوڑ دے عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 الطارق
11 الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 الطارق
17 الطارق
0 الأعلى
1 (1۔19) اے نبی اے رسول ! تو ان بدگو لوگوں کی باتوں پر کان نہ لگا یا کر بلکہ اپنے رب بہت بلند شان پروردگار کا نام پاکی سے یاد کیا کر یعنی یوں کہا کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔ یہ تیرا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ایسا کہ اس سے اچھا ہونے کا خیال بھی نہیں آسکتا جس نے ہر چیز کو بااندازہ بنایا پھر فطری ہدایت کی انسان کا بے سمجھ بچہ اور مرغی وغیرہ کا بے عقل بچہ اسی فطری ہدایت سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے جو چارپائوں کے کھانے کو چارہ پیدا کرتا ہے پھر وقت مقررہ پر اس کو خشک برنگ سیاہ کردیتا ہے اے رسول اور اے سننے والے دلجمعی سے پروردگار کے نام کی تسبیح پڑھا کر ہم اس نیکی پر بہت سے انعامات تجھ کو دیں گے منجملہ ایک انعام یہ ہوگا کہ ہم تجھے بہت سے علوم پڑھائیں گے خصوصا قرآن کا درس بھی دیں گے پھر تو اسے نہ بھولے گا لیکن جو کچھ اللہ چاہے گا بتقاضائے بشریت تو بھول جائے گا چاہے کاغذوں میں لکھا ہو مگر حافظہ سے نکل جائے گا اس سے دین یا تبلیغ میں کوئی نقصان نہیں آئے گا بلکہ اظہار قدرت ہوگا کیونکہ علم غیب کلی خاصہ الٰہی ہے بے شک ظاہر اور مخفی کو وہی جانتا ہے اس لئے کسی بشر میں یہ وصف نہیں ہوسکتا ہم ایک اور انعام بھی تجھے دیں گے وہ یہ کہ مشکلات پیش آمدہ میں ہم (اللہ) تجھے آسانی کریں گے یعنی تیرے کام میں جب کبھی مشکل پڑے گی ہم اسے آسان کردیں گے کسی قسم کا ہم یا غم نہ رہنے دیں گے پس تو اپنے تبلیغی کام میں لگ کر نصیحت کیا کر اگر نصیحت نافع ہوسکے یعنی جب تک تیرے علم میں نصیحت کے نافع ہونے کا امکان ہو نصیحت کرتا رہ تو اس بات کا خیال نہ کر تیری نصیحت سے کچھ فائدہ ظاہر نہیں ہوا جو شخص برے اعمال کی پاداش سے ڈرے گا وہ نصیحت پالے گا اور بدبخت اس سے مٹا رہے گا جو آخرکار بڑی آگ یعنی دوزخ میں داخل ہوگا پھر اس میں جان نکلنے سے نہ مرے گا نہ آرام کی صورت میں زندہ رہے گا یہ تو ہے تیری نصیحت کا انجام جو دونوں فریقوں پر مختلف ہوگا ایک پر اچھا دوسرے پر برا اس آیت کی بنا پر بعض لوگ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں نصیحت کے نفع دینے کی صورت میں نصیحت کرنے کا حکم ہے لیکن جہاں گمراہ لوگ اس حد تک بڑھ جائیں کہ کسی کی سنیں ہی نہیں تو پھر نصیحت کرنے کا حکم نہیں یہ ان کی غلطی ہے آئت موصوفہ میں (اِنْ) ہے جب تک انسان کو کسی قطعی دلیل سے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت نفع نہ دے گی (اِنْ) کا محل رہتا ہے اور قطعی دلیل تو وحی الہٓی ہے وحی کے بغیر ہر حال میں نصیحت کے مفید ہونے کا امکان باقی ہے پس معنی یہ ہیں کہ جب تک تمہیں کسی قطعی دلیل سے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت مفید نہ ہوگی تم وعظ و نصیحت کرتے رہو اور قطعی دلیل چونکہ وحی الہٓی کا نام ہے جو تم کو حاصل نہیں نتیجہ یہ ہے کہ تم وعظ و نصیحت ہمیشہ کرتے رہو مگر کرو اس طریق سے جو تم کو سکھایا ہے یعنی قُلْ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُوْا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ بہت عمدہ نرم بات کیا کریں جس سے لڑائی فساد نہ ہو۔ ١٢ منہ دوسرے لفظوں میں سنو۔ جو نصیحت پر عمل کر کے نفسانی آلائشوں سے پاک صاف ہو کر اپنے رب کا نام یاد کرتا ہے اور باقاعدہ وقت بوقت نماز ادا کرتا ہے وہ نجات کے ذریعہ مراد پاجائے گا اسی کو تیری نصیحت کا فائدہ ہوگا اے منکر لوگو ! تم نصیحت قبول نہیں کرتے مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کے فوائد کو آخرت پر ترجیح ! دیتے ہو یعنی دنیاوی عیش و آرام کو پسند کرتے ہو اور آخرت سے بے پرواہی برتتے ہو حالانکہ آخرت ہر چیز سے بہتر اور دائم رہنے والی ہے اس آیت کا مطلب اسی وقت خوب سمجھ میں آتا ہے جہاں دین اور دنیا کا مقابلہ ہوتا ہے جیسے کمیٹی یا کونسلوں کی ممبری جس میں جان توڑ کوشش کے علاوہ روپیہ اور وقت خرچ ہوتا ہے مکر و فریب ہر طرح کے کئے جاتے ہیں کیوں؟ محض ایک دنیاوی عزت کے لئے جو اسی جیسی امثال میں صادق ہے بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا فانا للّٰہ الخ ١٢ منہ جو لوگ آخرت کی کھیتی یہاں بوئیں گے وہاں کاٹیں گے یہ مضمون پہلی کتابوں میں بھی درج ہے یعنی حضرت ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی ہے بلکہ ہر زمانہ میں ہر ملک میں اللہ کی طرف سے بندوں کو اس نصیحت سے مخاطب کیا گیا۔ اللھم اھدنا فیمن ھدیت الأعلى
2 الأعلى
3 الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 الأعلى
7 الأعلى
8 الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 الأعلى
18 الأعلى
19 الأعلى
0 الغاشية
1 (1۔16) اے رسول تجھے بڑی مصیبت والی گھڑی کی بابت خبر پہنچی ہے ؟ جس کا نام قیامت ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں اس روز کئی لوگ ذلیل ورسوا ہوں گے دنیا میں دنیاوی کام کرنے والے کرتے کرتے تھکے ہوئے آخرت سے غفلت اختیار کرنے کی وجہ سے بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے اس وقت وہ جانیں گے کہ ہم نے جو غفلت اختیار کی برا کیا اس غفلت اور عدم عملی کی وجہ سے ان کو کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلایا جائے گا وہ پانی ایسا تیز گرم ہوگا کہ پیتے ہی ان کی آنتیں کاٹ دے گا یہ تو پانی ہوگا کھانا ان کا سوائے تلخ تھوہر کے کچھ نہ ہوگا بھلا وہ اس کو کھائیں گے کیا مگر اندر کی سخت خواہش کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ان کو نگلنا ہی پڑے گا مگر اس کو کھانے سے کیا ہوگا نہ وہ ان کے بدن کو موٹا کرے گا نہ بھوک سے بچائے گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ ان سے کھایا بھی نہ جائے گا ! ہاں کئی اشخاص اس روز اپنی نیک عملی کی وجہ سے خوشحال پسندیدہ عیش میں ہوں گے اپنی کوشش پر راضی خوشی عالیشان باغات میں ہوں گے جن میں کسی قسم کی فضول بات نہ سنیں گے اس باغ میں چشمے جاری ہوں گے جنتی جہاں چاہیں گے پانی لے جائیں گے اور سنئے ان میں بڑے بلند تخت بچھے ہوں گے جن پر وہ جنتی لوگ بیٹھیں گے اور آپس میں دوستانہ گفتگو کیا کریں گے اور وہاں ایک حوض کو ثر ہوگا۔ جس پر آبخورے چنے ہوں گے اور جنت کے مکانات میں برابر لگے ہوئے تکئے ہوں گے اور بچھے ہوئی مسندیں یہ سب نعمتیں اہل جنت کو ملیں گی مگر ان منکرین کو کیا ملے گا جو اس پر یقین ہی نہیں رکھتے الغاشية
2 الغاشية
3 الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 (17۔26) کیا یہ لوگ انکار ہی پر مصر رہیں گے اور یہی کہتے جائیں گے کہ ایسا ہونا مشکل بلکہ محال ہے۔ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات کو نہیں دیکھا کیا انہوں نے اپنے اردگرد کے بڑے جانور اونٹ کو نہیں دیکھا وہ کیسا پیدا کیا گیا ہے کیسی اس کی گردن کیسی اس کی ٹانگیں کیسا اس کا جسم عرب کے ریگستان کے لئے کیسا مناسب اور آسمان کی طرف بھی نہیں دیکھا کیسا بلند کیا گیا ہے آج اس کی بلندی کروڑ ہا میل تک سمجھی گئی ہے اور پہاڑوں کی طرف بھی نہیں دیکھا کہ وہ کیسے زمین پر گاڑے گئے ہیں اور زمین کو بھی انہوں نے نہیں دیکھا کیسی بچھائی گئی ہے اونٹ ایک جاندار چیز ہے جس کی تعریف میں عرب کے شاعر رطب اللسان ہیں آسمان کی شکل وصورت بھی بے حدو بے عد ہے پہاڑ کیسی بے مثل مخلوق ہے زمین تو سب چیزوں کا مخزن ہے تمہارا رہنا سہنا اس پر زندگی میں اور تمہارا اس میں مر کر سمانا کیا ایسی بڑی بڑی مخلوق بنانے والا اللہ تم جیسی چھوٹی چیز انسان کو دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا ضرور کرے گا پس اے رسول تو ان کو واقعات سنا سنا کر نصیحت کیا کر اس کے سوا نہیں کہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے اور بس صرف کہہ دینے سے تو فرض منصبی سے فارغ ہوجائے گا کیونکہ تو ان پر داروغہ مقرر نہیں ہے کہ ان کے قبول نہ کرنے پر تجھے سوال ہوجیسے ماتحتوں کی غفلت پر افسر کو سوال ہوتا ہے ہاں بات یہ ہے کہ جو کوئی تیری بتائی ہوئی حقانی تعلیم سے منہ پھیرے گا اور انکار کرے گا تو اللہ اس کو بہت بڑا عذاب کرے گا مگر یہ کام ہمارا ہے تیرا نہیں اس واسطے ہم اعلان کرتے ہیں کہ یقینا ہماری ہی طرف ان سب کا آنا ہے پھر ان سے حساب لینا بھی ہمارا کام ہے پس تو اے رسول تبلیغ کر کے بے فکر رہ تجھے کسی طرح کی باز پرس نہیں۔ الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 (1۔20) سنو جی ایک روز تمہارے نیک وبد اعمال کی جزا وسزا کے لئے مقرر ہے جو منکر ہیں ان کو ہم حلفیہ سناتے ہیں کہ قسم ہے فجر کی اور قسم ہے دس راتوں کی جو ماہ ذی الحجہ کی عرب میں مشہور ہیں اور قسم ہے ہر جفت چیز کی اور قسم ہے ہر طاق ! چیزکی شیعہ کی ایک روایت میں ہے شفع سے مرا دامام حسین ہیں اور وتر سے حضرت علی (رض) یا للعجب حضرت فاطمہ (رض) کا ذکر ہی نہیں۔ ١٢ منہ اس قسم کی قسمیں کھانے کا عرب میں عام دستور تھا۔ قیس مجنوں کا شعر ہے ؎ الازعمت لیلی اننی لا احبھا بلیٰ ولیال العشر والشفع والوتر یعنی لیلی کہتی ہے مجھے اس سے محبت نہیں قسم ہے عشرہ کی راتوں کی قسم ہے جوڑے اور طاق کی قرآن مجید چونکہ محاورہ عرب میں نازل ہوا ہے اس لئے اس قسم کی قسموں کا اس میں ذکر آتا ہے۔ ١٢ منہ اور قسم ہے رات کی جب چلتی ہے جس بات کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے بے شک ہو کر رہے گا" ضرور اس قسم میں عقلمند انسان کے لئے اعتبار ہے یا ہونا چاہیے تم مشرکین عرب جو قیامت کے منکر ہو کیا تم نے کبھی فکر نہیں کیا کہ تمہارے پروردگار نے اس بڑی طاقتور ارم کی قوم عاد کے ساتھ کیا برتائو کیا سب کو ایسا تباہ کیا کہ آج کوئی ان کا نام لیوا یا شناسا بھی نہیں رہا اور ان جیسی زور آور کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں ہوئی بڑے شاہ زور تھے مگر جب الٰہی عذاب نازل ہوا تو سب فنا ہوگئے اور عاد کے ساتھ ہی قوم ثمود کو بھی تباہ کردیا جنہوں نے جنگلوں میں پہاڑ کھود کھود کر گھر بنائے تھے ارم کی بابت کئی اقوال ہیں میں نے یہ اختیار کیا ہے کہ ارم عاد قوم کا مورث اعلیٰ تھا پس ارم عاد کا بدل ہے یہ نام اسی طرح ہے جیسے قریش جو مورث اعلیٰ کا نام ہے مگر قوم پر بولا جاتا ہے۔ ١٢ منہ اور اسی انکار کی وجہ سے بڑی قوت والے فرعون کو ہلاک کردیا یہ سب لوگ ایسے تھے کہ انہوں نے ملک میں سرکشی کی تھی یعنی ان بلاد میں بڑا فساد پھیلایا تھا شرک وکفر کیا یہاں تک کہ الٰہی کے مدعی بنے پس تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا ایساکوڑا مارا کہ نام ونشان ان کا نہ چھوڑا مغرور لوگ جانتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس پر مطلع نہیں یا مطلع ہے مگر پکڑتا نہیں تو ہم لائق مواخذہ نہیں اسلئے تم بلند آواز سے کہہ دو کہ تمہارا پروردگار تمہارے نیک وبد پر مطلع ہے اور جلدی نہیں پکڑتا بے شک وہ بدکاروں کی گویا گھات میں ہے جب پکڑے گا اچانک پکڑے گا مگر الٹی عقل والا انسان اس ڈھیل سے الٹا نتیجہ نکالتا ہے جب ایسے انسان کو اس کا پروردگار کسی دھندے میں پھنسا کر انعام کرتا ہے مثلاً خانہ داری کے جھمیلے میں پھنس کر صاحب اولاد ہوجاتا ہے یا تجارت میں مشغول ہو کر مالدار ہوجاتا ہے تو کہتا ہے میرے پروردگار نے مجھ پر مہربانی فرمائی ہے یہاں تک تو ٹھیک کہتا ہے اور جب کسی اور دھندے میں پھنسا کر اس پر رزق تنگ کردیتا ہے یا مال اولاد دی ہوئی چھین لیتا ہے تو بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کے کہتا ہے میرے رب نے مجھے بے وجہ ذلیل کیا ہرگز بے وجہ نہیں بلکہ اس کا سبب ایک نہیں کئی ایک ہیں منجملہ یہ کہ تم لوگ دولت اور زور کے گھمنڈ ! میں جتنا تم سے ہوسکتا ہے تکبر کرتے ہو پہلا تکبر تمہارا یہ ہے کہ تم لوگ یتیم کی دل سے عزت نہیں کرتے یعنی اس کو قابل رحم نہیں جانتے اور ذلیل وخوار جانتے ہو یہ کام اللہ کے نزدیک تمہاری نعمت کے زوال کا سبب ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ غریبوں مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے ہو اپنے پاس سے اور دوسرے لوگوں کو کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتے ہو کسی کو خود کھلانے کی توفیق نہ ہو دوسروں کو ترغیب دینے میں کیا لگتا ہے مگر تم لوگ ایسے کچھ ڈبل بخیل ہو کہ نہ از خود کسی کو فائدہ پہنچاتے ہو بلکہ دوسروں پر ظلم کرتے ہو اور مردوں کا ترکہ سارا سمو لچہ کھا جاتے ہو بہنیں ہوں تو ان کو نہیں دیتے لڑکیاں ہوں تو ان کو نہیں دیتے یتیموں کا مال قبضے میں آئے تو اسے کھا جاتے ہو کیونکہ تم لوگ طبعا بخیل ہو اور مال کی محبت تم لوگوں کو بہت زیادہ ہے اتنی کہ اس محبت میں اندھے ہو کر اپنے پرائے میں تمیز نہیں کرتے تم کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 الفجر
5 الفجر
6 الفجر
7 الفجر
8 الفجر
9 الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 الفجر
15 الفجر
16 الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 (21۔30) اس بدعملی کا بدلہ تم لوگوں کو اس وقت ملے گا جب زمین اپنی موجودہ شکل میں بالکل توڑ دی جائے گی پہاڑوں کو اٹھا کر پانی میں ڈال کر چٹیل میدان کردیا جائے گا اور تمہارے پروردگار کا حکم فیصلہ کا آپہنچے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر میدان محشر میں آموجود ہوں گے حکم کے منتظر تعمیل کرنے پر مستعد اور ادھر بدکاروں کو ڈرانے کے لئے جہنم لا موجود کی جائے گی اس روز بد سے بد انسان بھی ٹھیک ٹھیک نصیحت پاجائے گا مگر اس نصیحت کا فائدہ کہاں ہوگا جب حالت مایوسی کی دیکھے گا تو کہے گا کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ بھیجا ہوتا جو آج میرے کام آتا پس اسی روز نہ تو کوئی اللہ جیسا عذاب کرے گا نہ اس جیسی کوئی قید کرے گا یعنی اللہ کی گرفت بڑی سخت ہے اور بڑی سخت ہوگی پس اسی سے تم سوچ لو جو کام تمہیں اس زندگی میں مفید ہو وہ اختیار کرو اصل کام یہ ہے کہ تم دل کو اللہ کے ساتھ اس طرح لگا ئو کہ ہر رنج وراحت کو اللہ کی طرف سے بلکہ اس کے حکم سے سمجھ کر اس پر تسلی پائو راحت میں غرور تکبر نہ کرو رنج میں گھبراہٹ نہ کرو تاکہ موت کے وقت تم کو کہا جائے اے اللہ کے ماتحت تسلی پانے والے نفس اپنے رب کی طرف خوشی بخوشی چل ایسا کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی پس اس رضا کے ساتھ میرے نیک بندوں میں (جن کی اقسام انبیاء اولیاء صدقاء وغیرہ میں داخل ہوجا۔ یعنی ! میری جنت میں جو مطمئنین کے لئے آرام گاہ ہے داخل ہوجا اور ہمیشہ آرام پا۔ اللھم اجعلنا منھم الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 (1۔20) دیکھو جی میں جو کہتا ہوں بالکل سچ جانو مجھے اس تمہارے معزز محترم شہر مکہ کی قسم ہے جب تو اے نبی فتح مکہ یا حجۃ الوداع کے روز اسی شہر میں اترے گا مکہ میں رہنے کی حالت میں فتح مکہ کی پیشگوئی ہے۔ ١٢ منہ اور قسم ہے والد آدم کی اور قسم ہے اس کے مولود کی بے شک ہم نے انسانوں کو تکلیف میں پیدا کیا پیدا ہونے کے وقت تکلیف‘ اس کی زندگی میں تکلیف‘ اس کے تجرد میں تکلیف‘ اس کے تاہل میں تکلیف‘ اس کی عیالداری میں تکلیف‘ سردی میں تکلیف‘ گرمی میں تکلیف‘ غرض ہر طرح سے تکلیفات میں گھرا ہوا ہے کیا انسان اس پر بھی گمان کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا بطور فخر کہتا ہے میں نے بہت مال کمایا اور بہت خرچ کیا کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس کو خرچ کرتے یا کوئی عمل کرتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں یہاں تک کہ ہم (اللہ) نے بھی نہیں دیکھا۔ کیا ہم نے اس کی جسمانی ضرورت پوری کرنے کو سب سے پہلے دیکھنے کو اس کے لئے وہ آنکھیں نہیں بنائیں اور بولنے کو زبان اور چبانے کو دانت اور دانتوں پر پردہ رکھنے کو وہ ہونٹ نہیں بنائے اس سے کسی کو انکار نہیں کہ بے شک بنائے اور سنو اس کو نیک وبد کام کے دونوں راستے سمجھا دئیے پھر وہ اپنی گھاٹی سے نہیں گزرا یعنی اس نالائق انسان نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے میاں تمہیں کیا معلوم کہ وہ اس کے فرائض کی گھاٹی کیا ہے غور سے سنو وہ یہ ہے توفیق ہو تو غلاموں کی گردن خرید کر غلامی سے آزاد کرنا اور تکلیف کے زمانہ میں ننگے بھوکوں کی دست گیری کرنا قرابتدار یتیموں کو مثلا بھائی بہن کے یتیم بچوں کی پرورش کرنا اور خاک نشین مسکینوں کا کھانا کھلانا ایسا کرنے سے انسان اپنے فرائض کا کچھ حصہ ادا کرتا ہے مگر ابھی اور بہت کچھ باقی وہ یہ ہے کہ اللہ پر خالص ایمان رکھنے والوں اور ایک دوسرے کو صبر کی نصتحک کرنے والوں اور مہربانی کی ہدایت کرنے والوں میں ہونا یعنی جو کوئی فک رقبہ کرے اور غربا کو کھانا کھلائے اس کو ان کاموں کا اجر اسی صورت میں ملے گا جس صورت میں وہ ایماندار ہوگا اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہی لوگ اپنے حق میں بابرکت ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے منکر ہیں وہ آیات قرآنی ہوں یا ارضی اور سمائی ان سے انکار کرتے ہیں وہی لوگ اپنے حق میں منحوس ہیں اپنی نحوست کا پھل اللہ کے ہاں پائیں گے جہنم میں داخل ہوں گے اس حال میں کہ ان پر آگ تہہ بتہہ ہوگی جس میں جلتے رہیں گے۔ اللھم لا تجعلنا منھم البلد
2 البلد
3 البلد
4 البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 البلد
9 البلد
10 البلد
11 البلد
12 البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 البلد
17 البلد
18 البلد
19 البلد
20 البلد
0 الشمس
1 (1۔15) سنو جی ایک ہی بات ہے جس پر دین اور مذہب کی بنیاد ہے بلکہ وہی دین ہے اور وہی مذہب ہے وہ کیا ہے نفس کو بری آلائشوں سے پاک کرنا چونکہ تم لوگ منکر ہو کا ہے کو مانو گے ہم حلفیہ کہتے ہیں قسم ہے سورج کی او اس کی روشنی کی اور قسم ہے قمر کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے قسم ہے دن کی جب وہ اس سورج سے روشنی لیتا ہے اور قسم ہے سیاہ رات کی جب وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی اس کی سیاہی پھیل جاتی ہے اور قسم ہے آسمان کی اور جس پاک اللہ نے اس کو بنایا اور قسم ہے زمین کی اور جس نے اسے پھیلایا ہے اور قسم ہے ہر نفس کی اور جس نے اسے ٹھیک کیا پھر اس کو برائی اور بھلائی کی سوجھ دی یعنی ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے ہم ٹھیک کہتے ہیں کہ جو کوئی نفس کو برائیوں اور بری آلائشوں سے پاک کرے وہ یقینا اللہ کے پاس اپنے مقصد نجات میں کامیاب ہوگا اور جو اس نفس کو برائیوں میں گاڑ دے گا وہ نامراد رہے گا انسان کا نفس مثل سونے کے ہے جو کان سے خاک آلودہ نکلتا ہے بعد نکالنے کے اسے صاف کرتے ہیں تو قیمت پاتا ہے اسی طرح انسانی نفس فطرتاً شرارت آمیز ہے اسی لئے ملائکہ نے کہا تھا۔ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا اس لئے ضرورت ہے کہ نجات کا متلاشی نفس کو شرارت کی آمیزش سے پاک کرے وہ شرارت کیا ہے منعم کی ناشکری۔ ہم جنس سے حسد۔ نچلے لوگوں پر غرور۔ کینہ عداوت سب سے بڑی بات اللہ سے بے نیازی۔ جو شخص نفس کو ان فطری آلائشوں سے مثل سونے کے پاک کرے وہ مثل سونے کے قیمت پاوے گا جس کا نام نجات ہے اور جو ان آلائشوں میں گڑار ہے وہ خاک آلودہ سونے کی طرح قدر و قیمت سے بے نصیب رہے گا یہی معنی ہیں قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ اللّٰھم اجعلنَا من المفلحین ١٢ منہ یہی وہ تعلیم ہے جو حضرات انبیاء کرام دینے آئے چنانچہ قوم ثمود (جو بہت پرانی قوم ہے اس) کی طرف ہم نے حضرت صالح کو رسول کر کے بھیجا جب انہوں نے ان کو وعظ ونصیحت کی تو ثمودیوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اسے جھٹلایا کہنے لگے ہم تیری نہیں سنیں گے کیونکہ تو جھوٹا ہے اس کافر قوم کا صالح پیغمبر (علیہ السلام) سے دیر تک جھگڑا رہا یہاں تک کہ ان کی ہلاکت کا سامان مہیا ہوگیا جب ان میں ایک بڑا شریر النفس (قیدار) کھڑا ہوا (اور اس نے اعجازی اونٹنی کو تکلیف سے ماردیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ثمود قوم نے خود ہی اعجازی اونٹنی مانگی جب وہ نبی کی دعا سے پیدا ہوئی تو وہ لوگ اس کی ایذا رسانی کے درپے ہوئے پس ان کو صالح رسول اللہ نے نہایت نرمی سے کہا اللہ کی پیدا کی ہوئی اونٹنی اور اس کا پینے کا حصہ چھوڑ ! دو مگر وہ باز نہ آئے کیونکہ پانی کی تقسیم تھی ایک دن اس اکیلی اونٹنی کا دوسر ادن ساری اونٹنیوں کا تھا پس انہوں نے اس صالح نبی کو جھٹلایا اور اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں پس پھر کیا تھا ان کے پروردگار یعنی اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کے سبب سے ان کو تباہ کردیا ایسا تباہ کیا کہ سب کا صفایا کردیا اور ان کے بدلہ لینے سے ڈرتا نہ تھا یعنی جس طرح دنیا میں کوئی بادشاہ کسی دشمن کو مغلوب کر کے زیادہ ستانا نہیں چاہتا اس خیال سے کہ کبھی اس کو مجھ پر غلبہ ہوجائے تو اس سے زیادہ مجھے تکلیف نہ دے یا اس کا کوئی حمائتی مجھ پر ٹوٹ پڑے یہ خوف اللہ کو ان سے نہ تھا کیونکہ کسی مخلوق کا خالق پر غالب آجانا محالات سے ہے۔ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَعَزَّتِہ وَجَلَالِہٖ الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 الشمس
9 الشمس
10 الشمس
11 الشمس
12 الشمس
13 الشمس
14 الشمس
15 الشمس
0 الليل
1 (1۔21) اے عرب لوگو ! ممالک دنیا میں تم ایک کونے میں رہتے ہو اس لئے تمہیں معلوم نہیں کہ دنیا میں کیا کیا نشیب وفراز ہیں دیکھو جیسا لیل ونہار کا انقلاب ہے ویسے ہی نور اور ظلمت کا انقلاب ہوتا رہتا ہے ہم تم کو حلفیہ کہتے ہیں قسم ہے رات کی جب وہ سب روشن چیزوں پر چھا جاتی ہے اور قسم ہے دن کی جب سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے اور قسم ہے ہمیں اپنی ذات کی جس نے نر اور مادہ پیدا کئے جواب قسم یہ ہے کہ بے شک تمہاری کوشش مختلف ہے کوئی بت پرست ہے تو کوئی اللہ پرست کوئی صالح ہے تو کوئی طالح اس سے تمہیں خیال ہوتا ہے کہ ان سب کا انجام ایک سا ہوگا۔ ہرگز نہیں بلکہ اصلی بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کے نام پر دیتا ہے اور پرہیزگاری کرتا ہے اور ہر ایک اچھی بات کی تصدیق کرتا ہے چاہے وہ کسی کے منہ سے نکلی ہو مختصر یہ ہے کہ جو شخص شیخ سعدی کے اس شعر پر کار بند ہے۔ ؎ مردباید کہ گیرد اندرگوش ور بنشقت پند بردیوار ہم اس کی مشکلات دنیا میں بھی آسان کردیتے ہیں اور بعد موت بھی ہم ان کو آسانی کریں گے اور جو کوئی بخل کرتا ہے یعنی باوجود وسعت کے نیک کام میں خرچ نہ کرے اور باوجود خرچ نہ کرنے کے اپنے آپ کو غنی اور اللہ سے بے نیاز جانے اور سچی تعلیم نہ مانے بلکہ تکذیب کرے تو ہم اس کو مشکلات میں پھنسائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان مشکلات میں ایسا پھنسے گا کہ یاد کرے گا اور وہ جب مرے گا تو اسے اس کا مال کچھ کام نہ آئے گا ہم (اللہ) جو ان سرکش بندوں کو ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ از روئے رحمت ہدائت پہنچانا ہمارے ذمہ ہے جیسا یہ کام ضروری ہے اسی طرح دنیا کی ابتدا اور اتنہا ہمارے قبضے میں ہے ہم ہی اس کے واحد مختار کل ہیں تمام دنیا ہماری مخلوق ہے پھر ہم اپنی مخلوق کی ہدایت کا سامان نہ کریں تو کون کرے پس اسی لئے میں (اللہ) نے تم سب لوگوں کو جہنم کی بھڑکتی آگ سے ڈرایا ہے جس میں سوائے بڑے بد بخت بد نصیب کے جس نے ہر نیک ہدائت کو جھٹلایا اور قبول کرنے سے منہ پھیرا ہوگا کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا اور متقی اللہ ترس جو اپنا مال پاک ہونے کی غرض سے مواقع حسنہ میں دیتا ہے اس نار جہنم سے بحکم اللہ بچایا جائے گا اور سچ تو یہ ہے کہ کسی انسان کا اس اللہ کے پاس کوئی نیک کام قابل عوض نہیں جس کا اسے بدلہ دیا جائے مگر جو کام اس نے اپنے پروردگار بلند شان کی رضا جوئی کے لئے کیا ہوگا اس کا بدلہ اسے ملے گا اور وہ اس کا بدلہ پاکر راضی ہوجائے گا۔ اللھم اجعلنا منھم الليل
2 الليل
3 الليل
4 الليل
5 الليل
6 الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 الليل
11 الليل
12 الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 الليل
18 الليل
19 الليل
20 الليل
21 الليل
0 الضحى
1 (1۔11) حلفیہ بیان سنو ! قسم ہے ضحٰی کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاتی ہے سنو ! اے نبی تیرے پروردگار نے تجھ کو کر چھوڑا نہیں نہ تجھ پر خفا ہوا ہے یہ تو ان لوگوں کی محض غلط گوئی ہے یہ تو ہے تیرے دشمنوں کے غلط پر اپگنڈے کا جواب اور مزید سنو تیری ہر آخری گھڑی تیرے لئے پہلی گھڑی سے اچھی ہوگی یعنی ہر آن تیری ظاہری اور باطنی ترقی ہوگی اور اللہ تجھ کو دنیا اور آخرت میں اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا اس وعدے کے ایفا میں جس کو شبہ ہو وہ سن رکھے کیا اللہ نے تجھے یتیم پا کر حضرت خدیجہ (رض) سے نکاح کرا کر گھر بار میں ٹھکانہ نہ بنا دیا۔ بے شک اور تجھے دینی مسائل کی تفصیل سے بے خبر ! پایا تو رہنمائی کی اور تجھے بے مال ومددگار پایا تو محض اپنے فضل سے غنی کردیا۔ یہ سب واقعات ایسے ہیں کہ تمہارے معاصرین اہل دنیا نے ان کو بچشم خود دیکھ لیا ہے پھر بھی اس میں کیونکر شک رہ سکتا ہے کہ تمہارے پر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے پس اب تم اس شکریہ میں ایسا کرنا کہ کسی یتیم پر زبردستی نہ کرنا اور سائلوں کو کبھی نہ جھڑکنا چاہے وہ سختی سے مانگیں بلکہ سائل کا سوال اس کے حسب منشا پورا کیا کرنا اگر سوال پورا نہ کرسکو تو نرمی سے جواب دینا جھڑکنا ٹھیک نہیں اور جو اللہ تم پر مہربانی کرے از قسم مال یا از قسم علم جائز طریق سے اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرتے رہنا مال ہے تو غرباء پر مہربانی کرنے سے علم ہے تو اس کی تعلیم اور اشاعت سے اظہار کرنا مگر یہ خیال رہے کہ کسی طرح ریا پیدا نہ ہو۔ اللھم جنبنا شرک الریاء الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 الضحى
5 الضحى
6 الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 الضحى
10 الضحى
11 الضحى
0 الشرح
1 (1۔8) شان نزول :۔ چند روز وحی بند رہنے سے مشرکوں نے افواہ اڑائی کہ محمد (ﷺ) کو اس کے اللہ نے چھوڑ دیا ان کے جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی ١٢ منہ اے نبی ( علیہ السلام) تو جو ان مخالفوں کی باتوں سے دل تنگ ہوتا ہے مانا کہ وہ باتیں ایسی ہیں کہ حلیم سے حلیم انسان بھی تنگ دل ہو مگر تو بہت بڑے حوصلے کا انسان ہے کیا ہم نے ایسی خدمت ثقیلہ کے تحمل کے لئے تیرا سینہ فراخ نہیں کیا بے شک کیا اسی شرح صدر ہی کا نتیجہ ہے۔ کہ تو حوصلہ کرتا ہے مگر ان کی بدزبانی اور طعن تشنیع چونکہ از حد فروں ہے اس لئے تیرے جیسا حلیم سلیم بھی گاہے ما ہے دل تنگ ہوجائے گو چاہیے نہیں کیونکہ تو ہماری طرف سے اس عہدہ پر مامور کیا گیا ہے اور ہم نے تجھ سے تیرا تبلیغی بوجھ بذریعہ اتباع ! کے ہلکا کردیا ہے جس نے تیری پیٹھ توڑی ہوئی تھی یعنی جب تو اکیلا تھا تو تبلیغی بوجھ تجھ اکیلے پر تھا اب جو چند باہمت افراد تیرے تابع ہوگئے ہیں تو تیرے کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور بٹائیں گے اور ہم نے تیرا ذکر بہت بلند کردیا ہے اذانوں میں نام نامی واسم گرامی بلند آواز سے لیا جائے گا اور مؤرخین کتب تاریخ میں تیرا نام بڑی عزت کے ساتھ دنیا کے مصلحین میں لکھیں گے یہ کیوں ہوا اس لئے کہ صبر کرنے کی حالت میں تنگی کے ساتھ آسانی ضرور ہوتی ہے بالضرور تنگی کے ساتھ آسانی ہے یہ الٰہی قانون ہے اس قانون کا ظہور تیرے حق میں بھی ضرور ہوگا پس جب تو اس فرض منصبی سے بکلی فارغ ہوجائے تو عبادت میں زیادہ محنت کیجئیو اور اپنے پروردگار کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجائیو کیونکہ اس وقت دنیا سے تیرے انتقال کا وقت آجائے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب امور الہٓی ہوئے تھے تو دعا کی تھی رب اشرح لی صدری یہ شرح صدر وہ وصف ہے جس کی بابت کہا گیا ہے۔ ؎ دریائے فراواں نشود تیرہ بسنگ عارف کہ برنجدتنک آب است ہنوز اور جو بعض روایات میں آیا ہے کہ لڑکپن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ مبارک چیرا گیا تھا وہ بھی دراصل اس شرح صدر کا پہلا زینہ ہے۔ اصل مقصود شرح موسوی ہے۔ فافہم سورۃ نصر میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ (یعنی جب اللہ کی مدد آجائے گی اور تو اے رسول دیکھ لے گا کہ لوگ دین الہٓی میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں تو اس وقت اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھیو اور استغفار کیجئیو وہی بندوں پر نظر رحمت سے متوجہ ہونے والا ہے) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ سورۃ نصر میں اللہ نے اشارۃً فرمایا ہے کہ فتح کے بعد حضور (علیہ السلام) کا انتقال قریب ہے‘ (بخاری) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہی مضمون آیت زیر تفسیر کا ہے یعنی جب تو تبلیغ کے اہم فرض کو پورا کرچکے تو ہمہ تن عبادت کے ذریعہ اللہ کی طرف لگ جائیو۔ ترجمہ شیعہ :۔ مولوی مقبول احمد صاحب شیعہ کے مترجم قرآن میں یوں لکھا ہے ” جب تم فارغ ہوچکو تو اپنا قائم مقام مقرر کردو “ مطلب آپ کا یہ ہے کہ خلافت کے لئے مقرر کرنے کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم الہٓی تھا چنانچہ آپ نے حضرت علی (رض) کو اپنا قائم مقام فرمایا۔ مگر اصحاب نے نہ مانا اور ان کے بعد اہل سنت کے تمام فرقوں نے اس تقرر کو تسلیم نہ کیا جو درحقیقت اللہ کے حکم سے رسول (علیہ السلام) نے فرمایا تھا اس لئے یہ لوگ ظالم ہیں اور لایَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمِیْنَ کے تحت ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے : کہ واقعہ میں یہ نہیں ہوا اس امر کے سمجھنے کے لئے ہم ایک چھوٹی سی بات پیش کرتے ہیں۔ انصار مدینہ (رض) نے جب کہا کہ امیر ہم میں سے بھی ہوگا (مِنَّا اَمِیْرٌ وَّمِنْکُمْ اَمِیْرٌ) ان کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حدیث پیش کی اَلْاَئِمَّۃُ مِنَ الْقُرَیْشِ امیر قریش میں سے ہوگا چونکہ حدیث رسول (علیہ السلام) تھی سب نے تسلیم کی اور اپنا دعویٰ امارت چھوڑ دیا مگر اس کے مقابل کسی نے وہ حدیث پیش نہ کی جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب علی مرتضیٰ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا؟ اگر انصار سے بھول چوک ہوگئی تھی تو حضرت علی (رض) یا دیگر ارکان اہل بیت نے وہ حدیث کیوں نہ پیش کردی۔ مضمون صاف تھا کہ جناب ابوبکر آپ نے حدیث پیش کر کے انصار کو روکا ہے اب ایک حدیث فیصلہ رسالت کی سنا کر ہم آپ کو قائل کرتے ہیں۔ وہ حدیث یہ ہے کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش میں سے حضرت علی (رض) کو قائم مقام اپنا مقرر فرمایا ہوا ہے جس کے آپ اور فلاں فلاں گواہ ہیں‘ حالانکہ اس کے پیش کرنے کا موقع تھا تاہم پیش نہیں کی کیونکہ اس مضمون کی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے شیعہ کا دعویٰ ثابت ہوسکے اسی ایک ہی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا دعویٰ خلافت بلافصل ثابت نہیں۔ ہاں اہل السنت کا دعویٰ خلافت ابوبکر (رض) بلافصل کو قوت پہنچ سکتی ہے ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ تحریم (ص ٨٠) جلد ہذا۔ منہ۔ الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 الشرح
5 الشرح
6 الشرح
7 الشرح
8 الشرح
0 التين
1 (1۔8) دیکھو جی تم لوگ تو اپنی زندگی کو مثل حیوانوں کے ایک بے کار چیز بنائے ہوئے ہو جس کا نتیجہ نیک وبد کچھ بھی نہیں مگر ہم تمہیں اصل بات بتاتے ہیں قسم ہے ہم کو انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر مکہ کی بے شک ہم نے انسان کو بڑے اچھے ڈھانچ پر بنایا اس کے جوڑ دیکھو اس کے اندر کی رگیں اور شرائین دیکھو اس کے سمجھ بوجھ کے اعضاء دیکھو مگر اس کمبخت انسان نے ہماری دی ہوئی طاقتوں سے کام نہ لیا بلکہ ان کو ضائع کردیا پھر ہم نے اس کی سزا میں اس کو نچلوں سے نیچے گرا دیا یعنی حیوانوں سے بھی بدتر کردیا کیونکہ حیوانوں کو تو کسی برے کام پر بھی عذاب نہیں مگر اس شریر بدکار انسان کو برے کاموں پر سزا ضرور ہوگی اس لئے یہ اپنے نچلوں سے نیچے کیا گیا مگر جو لوگ ایمان لا کر نیک اعمال کرتے ہیں یعنی موافق شریعت اسلام اپنی زندگی گزارتے ہیں ان کے لئے دائمی غیر منقطع اجر ہے اب بھی اے سرکش انسان تجھ سے کیا چیز اللہ کی تکذیب کراتی ہے یعنی کن وجوہ سے تو اللہ کی تعلیم قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیا اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین شاہنشاہ دو عالم نہیں ہے ؟ بے شک ہے۔ اللھم اٰمنا فاکتبنا مع الشاھدین التين
2 التين
3 التين
4 التين
5 التين
6 التين
7 التين
8 التين
0 العلق
1 (1۔19) یہ سورۃ سب سے پہلے اس وقت اتری ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں مشغول بعبادت تھے جبرئیل ( علیہ السلام) نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زور سے بھینچا اور چھوڑ دیا حضور نے سمجھا کہ مجھے کسی تحریر کے پڑھنے کو کہتا ہے فرمایا : میں کیا پڑھوں؟ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے پھر بھینچا۔ پھر ییس گفتگو ہوئی پھر تیسری مرتبہ بھینچا (صحیح بخاری) تیسری مرتبہ کے بعد کا نتیجہ روایت میں مذکور نہیں خاکسار کی ناقص تحقیق یہ ہے کہ تیسری مرتبہ کے بعد حضور کو شرح صدر ہوا کہ جبرئیل ( علیہ السلام) کے اقرأ کہنے سے کسی عبارت کا پڑھنا مقصود نہیں بلکہ رب کا نام ذکر کرنا ہے اس لیے آپ ذکر شغل میں لگ گئے۔ اصل تہہ کی بات یہ ہے کہ ” اِقْرَأْ باسْمِ“ پر جو بؔ ہے اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ بؔ ذریعہ پر ہے ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے نام کے ساتھ پڑھ ان معنی سے حضور (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ میں پڑھا نہیں ہوں دوسرے معنی یہ ہیں کہ بؔ مفعول بہ پر آئی ہے جیسا کہ تفسیر کبیر میں امام لغت ابوعبیدہ کے حوالہ اور عربی شعر کی سند پر ان معنی کا ثبوت دیا ہے کہ قرئت کے مفعول بہ پر بؔ جارہ آجایا کرتی ہے پہلے معنی دوسرے کی نسبت زیادہ متبادر ہیں اس لیے حضور (علیہ السلام) کا ذہن مبارک اودہر منتقل ہوا۔ مگر جبرئیل (علیہ السلام) کے بھینچنے سے دوسرے معنی کا کشف ہوگیا اس لئے تیسری مرتبہ وہ جواب نہیں دیا جو پہلی دو مرتبہ دیا تھا۔ کیونکہ آپ سمجھ گئے کہ مراد یہ ہے کہ اللہ کے نام کا ذکر کر۔ لہ الحمد۔ اے رسول محمد علیک السلام تو اپنے رب کا نام پڑھا کر یعنی ذکر الٰہی کیا کر جس نے سب کچھ بنایا ہے انسان کی پیدائش خاص قابل ذکر ہے اس کو اللہ نے بستہ خون سے پیدا کیا تجھے کہتا ہوں کہ اپنے رب کا نام پڑھا کر اس کے نام کی مالا جپا کر اور دل میں یقین رکھ کہ تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے اور بڑی شان والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ لکھنا اور اظہار ما فی الضمیر کرنا سکھایا دیکھو فن کتابت سے دنیا میں کتنے فائدے ہیں یہ فن سارا اللہ کی تفہیم سے انسان کو حاصل ہوا ہے اس کے علاوہ بھی انسان اپنی ضروریات میں جو نہ جانتا تھا وہ اس کو سکھایا اللہ کی اس تعلیم میں مومن کافر سب برابر ہیں یہ فیض علمی کسی سے مخصوص نہیں ہے نہ کوئی بلا عذر اس سے محروم ہے باوجود اس احسان اور کمال مہربانی کے بے شک انسان گمراہ ہوجاتا ہے یعنی اللہ کی رحمت سے یہ بدنصیب ہٹ جاتا ہے اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو اللہ سے بے نیاز بے پرواہ جانتا ہے سمجھتا ہے کہ مجھے اللہ کی ضرورت نہیں میرے رہنے کو گھر ہے کھانے کو اناج ہے پہننے کو کپڑا ہے اس ساری گمراہی کا ایک ہی علاج ہے کہ اے انسان تو دل میں یقین کرلے کہ تیری ہر بات میں ہر کام میں تیرے پروردگار اللہ کی طرف رجوع ہے کیونکہ دنیا کی تمام حرکات کا پاور ہاوس (موجد) وہی ہے تمہارا وجود تمہارا مال تمہاری زندگی تمہاری موت سب اسی کے حکم سے وابستہ ہے کیا میاں تو نے اس نالائق کو دیکھا جو اللہ کے ایک بندے کو جبکہ وہ نماز پڑھتا ہے نماز سے روکتا ہے اسے اتنی بھی تمیز نہیں کہ نماز تو اللہ کی ہے جو سب کا مشترک اللہ ہے کیا تم نے اس امر پر بھی غور کیا کہ اگر وہ بندہ جس کو یہ نالائق نماز سے روکتا ہے واقع میں ہدایت پر ہو اور لوگوں کو بھی پرہیزگاری اور نیکی کا کام بتاتا ہو تو اس مانع کا اللہ کے نزدیک کیا حال ہوگا کیونکہ نیکی سے روکنا تو کسی مذہب اور کسی اخلاقی اصول میں جائز نہیں بھلا یہ بھی تم نے غور کیا کہ اگر یہ روکنے والا ہی سچ کا مکذب اور حق سے روگردان ہو تو اس کا کیا کیا حال ہوگا اس سورۃ کا پہلا حصہ ابتدائے نبوت کے وقت اترا تھا یہاں سے اخیر تک بزمانہ تبلیغ نازل ہوا۔ ١٢ منہ کیا یہ شریر مانع خیر یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ہرگز اسے کسی انسان اللہ کے نیک بندوں سے ایسا سلوک نہ کرنا چاہیے اب آئندہ کو ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر وہ ایسی شرارت سے باز نہ آیا تو ہم ضرور اسے جھوٹی بدکار پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں گے یعنی اس کو ایسا پکڑیں گے اور ذلیل کریں گے تو دیکھنے اور سننے والے یقین کریں گے کہ یہ پکڑ اس کے اعمال بد کا نتیجہ ہے پس وہ اپنے ممبران مجلس کو بلا لے جن پر اس کو گھمنڈ ہے ہم بھی اس کی گرفتاری کے لئے جہنم کے فرشتوں کو بلا لیں گے جو کچھ یہ کرتا ہے اسے ہرگز ایسا نہ چاہیے تو اے مخاطب اس کا اور اس جیسے شریروں بدمعاشوں کا کہا کبھی نہ مانو اور اللہ کے سامنے سجدہ کر کے قرب چاہو۔ اللھم اجعلنا من السجدین العلق
2 العلق
3 العلق
4 العلق
5 العلق
6 العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 العلق
16 العلق
17 العلق
18 العلق
19 العلق
0 القدر
1 (1۔5) بے شک ہم (اللہ) نے اس قرآن کو رمضان کی ستائیسویں رات لیلۃ القدر میں نازل کرنا شروع کیا تمہیں کیا معلوم لیلۃ القدر کیا ہے سنو ہم ہی بتاتے ہیں لیلۃ القدر میں عبادت کرنی ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے جن میں وہ رات نہو اس میں فرشتے اور روح القدس جبرئیل اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں دنیا میں نیک وبد بندوں کے اعمال دیکھتے ہیں بدوں کے لئے توفیق عمل کی دعا کرتے ہیں اور نیکوں کے لئے استغفار کرتے ہیں وہ رات طلوع صبح تک پر ہر طرح سے سلامتی والی اور بڑی برکت والی ہے۔ اللھم قدرلنا قیام ھذہ اللیلۃ لیلۃ القدر کی بابت بہت سی صحیح حدیثوں میں ذکر ہے جو اپنا مضمون بتانے میں متفق ہیں۔ منجملہ یہ ہیں۔ (١) عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تحرو الیلۃ القدر فی الوتر من العشر الا واخر من رمضان۔ (بخاری) (١) حضرت عائشہ (رض) نے کہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دھا کے طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (٢) عن ابن عمر قال ان رجلا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور الیلۃ القدر فی المنام فی السبع الا واخر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اری رویاکم قد تواطئت فی السبع الا واخر فمن کان متحریا فلیتحرھا فی السبع الا واخر (بخاری و مسلم) (٢) ابن عمر (رض) نے کہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں چند آدمیوں کو لیلۃ القدر رمضان کے آخری ہفتہ میں خواب میں دکھائی گئی حضور (علیہ السلام) نے فرمایا میں سمجھتا ہوں تمہارا خواب رمضان کے آخری ہفتہ میں واقع ہوگا پس جو کوئی لیلۃ القدر کی تلاش کرنا چاہے وہ آخری ہفتہ میں کرے۔ (٣) عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال التمسوھا فی العشر الاواخر من رمضان فی تاسعۃ تبقی فی سابعۃ تبقی فی خامسۃ تبقی (بخاری) (٣) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دھاکہ میں تلاش کیا کرو۔ یعنی مہینے کی انتیسویں ستائیسویں پچیسویں وغیرہ۔ ان جیسی اور بھی احادیث صحیحہ انہی معنی میں متفق و متحد ہیں اسی لئے امت مسلمہ کا اسی پر اتفاق ہے جو ان احادیث کا مضمون ہے کہ ماہ رمضان شریف میں ایک رات ایسی بابرکت ہے۔ مگر ہمارے ملک کے مشہور مصنف بلکہ (علیٰ زعمہ) ملہم۔ بلکہ مجدد بلکہ نبی بلکہ رسول مرزا صاحب قادیانی نے لیلۃ القدر کی بابت کچھ عجیب ہی انکشاف کیا جو قابل دید و شنید ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اس کا کلام اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے اور ہر ایک مصلح اور مجدد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے تم سمجھتے ہو کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے؟ لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس لئے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے مگر درحقیقت یہ رات نہیں ہے یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے نبی کی وفات یا اس کے روحانی قائم مقام کی وفات کے بعد جب ہزار مہینہ جو بشری عمر کے دور کو قریب الاختتام کرنے والا اور انسانی حواس کو الوداع کی خبر دینے والا ہی گزر جاتا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے تب آسمانی کاروائی سے ایک یا کئی مصلحوں کی پوشیدہ طور پر تخم ریزی ہوجاتی ہے جو نئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کے لئے اندر ہی اندر تیار ہو رہتے ہیں اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ یعنی لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اسی ٨٠ برس کے بڈھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت اس وقت کو پالیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گزر چکے کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اس لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تامستعددلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پردوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ ظلمت غفلت نسور ہو کر صبح ہدائت نمودار ہوجاتی ہے۔“ (فتح اسلام تقطیع کلاں ص ٢٦) ناظرین : اس رائے کو احادیث نبویہ کے سامنے رکھ کر دیکھیں کہ اس میں اور احادیث نبویہ میں موافقت اور مطابقت کی کوئی صورت ہے؟ ہم تو اس کو تصریحات نبویہ کے مقابلہ میں محض تجدید قادیاں جانتے ہیں ہاں مزید توضیح کے لئے مرزا صاحب کا ایک اور کلام دکھاتے ہیں جس میں انہوں نے عمر دنیا کی تقسیم کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ” اللہ نے آدم ( علیہ السلام) سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ مینے بیان کیا اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار پر تقسیم کئے گئے ہیں اول دور ہدائت کے غلبہ کا تھا اس میں بت پرستی کا نام و نشان نہ تھا جب یہ ہزار سال ختم ہوا تب دوسرے دور میں جو ہزار سال کا تھا طرح طرح کی بت پرستیاں دنیا میں شروع ہوگئیں اور شرک کا بازار گرم ہوگیا اور ہر ایک ملک میں بت پرستی نے جگہ لی پھر تیسرا دور جو ہزار سال کا تھا اس میں توحید کی بنیاد ڈالی گئی اور جس قدر اللہ نے چاہا دنیا میں توحید پھیل گئی پھر ہزار چہارم کے دور میں ضلالت نمودار ہوئی اور اسی ہزار چہارم میں سخت درجہ پر بنی اسرائیل بگڑ گئے اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہوگیا اور اس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدائت کا دور تھا یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا پس آپ کے من جانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہائت زبردست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اس ہزار کے اندر ہوا جو روز ازل سے ہدائت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس تقسیم کی رو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودھویں صدی کے سر تک ختم ہوجاتا ہے اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدائت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔“ (لکچر اسلام بمقام سیالکوٹ) ص ٦ ناظرین کرام ! اس حوالے میں مرزا صاحب نے بڑی صفائی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ پیدائش کو زمانہ ہدایت بتایا ہے جو تیسری صدی کے خاتمہ تک رہا چوتھی کے شروع سے الف ضلالت شروع ہوا جس کے گیارہ سال رہتے مرزا صاحب پیدا ہوئے ١٤٠٠؁ھ شروع ہونے پر آپ کی عمر گیارہ سال ہوگی یقینا اس عمر میں تو آپ نے تبلیغی کام شروع نہ کیا ہوگا بلکہ ابھی طالب علمی کے ابتدائی مرحلے میں ہوں گے تبلیغی کام یقینا آپ نے ساتویں ہزار میں شروع کیا جو ہدائت کا ہزار ہے حالانکہ بقول آپ کے چاہیے یہ تھا کہ آپ ہزار ششم میں ایسے وقت پیدا ہوتے جب کہ ضلالت کی وجہ سے لیلۃ القدر تھی تاکہ اس کا مقابلہ کرتے جیسا کہ آپ کے یہ الفاظ منقولہ از ” فتح اسلام “ (ہر مصلح لیلۃ القدر میں ہی آتا ہے) دلالت کرتے ہیں مگر آپ بحیثیت مصلح آتے تو ہزار ہفتم میں آئے تاہم ہم وسعت قلبی سے آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎ دیر آمدی و بخیر آمدی بیٹا باپ سے آگے : ناظرین مرزا صاحب کی منقولہ از لکچر سیالکوٹ عبارت ایک نظر پھر دیکھ جائیں کہ ایسی وضاحت سے دنیا کی عمر سات ہزاروں پر تقسیم کر کے ساتویں ہزار کے بعد دنیا کا خاتمہ (فنا) بتا رہے ہیں کہ کسی مزید توضیح کی ضرورت نہیں اس کے بعد آپ کے خلف الصدق میاں محمود احمد خلیفہ کی تحریر دل پذیر دیکھئے جو اپنی وضاحت اور صفائی کے لحاظ سے بے نظیر ہے آپ فرماتے ہیں تیرا (محمود کا) اپنا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) اس دور کے خاتم ہیں اور اگلے دور کے آدم بھی آپ ہی ہیں کیونکہ پہلا دور سات ہزار سال کا آپ پر ختم ہوا اور اگلا دور آپ سے شروع ہوا اسی لئے آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء اس کے یہی معنی ہیں کہ آپ آئندہ نبیوں کے حلوں میں آئے ہیں جس طرح پہلے انبیا کے ابتدائی نقطہ حضرت آدم (علیہ السلام) تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) جو اس زمانہ کے آدم ہیں آئندہ آنے والے انبیاء کے ابتدائی نقطہ ہیں“ (جل جلالہ) (اخبار الفضل قادیاں ١٤ فروری ٢٨ئ۔) پس : باپ بیٹے کی عبارات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرزا صاحب کی زندگی میں دنیا کا دور ثانی شروع ہوگیا جو بقول مرزا صاحب (لیکچر سیالکوٹ) ابتدائی ہزار ہونے کی وجہ سے سراسر ہدائت کا زمانہ ہے اس میں نہ شرک ہے نہ کفر نہ بت پرست ہے نہ قبر پرستی غرض اس زمانہ کی توحید خالص اور دین کامل کا زمانہ کہنا چاہیے جس میں کسی قسم کا شرک و کفر نمودار نہیں۔ ہاں یہ بھی کہنا ہوگا کہ ابھی نہ ابراہیم نہ موسیٰ نہ عیسیٰ پیدا ہوئے‘ اور محمدی دور (علیہم السلام) تو کہیں پانچویں ہزار سال میں ہوگا اس لئے سوال یہ ہے کہ آج کل کلمہ کس کا خلیفہ قادیانی کا پڑھیں اور کس کا پڑھنا چاہیے کچھ شک نہیں کہ آج کل کلمہ تو ہم سب کا یہی ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ لیکن بقول باپ بتشریح بیٹا یہ کلمہ قبل از وقت ہے صحیح بروقت یہ ہے کہ آج کل سب لوگوں کو یہ کلمہ پڑھنا چاہیے۔ لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ مرزا اٰدم صفی اللّٰہ چنانچہ مرزا صاحب قادیانی کا شعر ہے ؎ میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بیشمار مرزا صاحب کی وفات سے پانچویں ہزار سال محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوں گے تو اس وقت کلمہ میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ملاپ ہوگا۔ کیا اچھی تجدید اسلام ہے۔ منہ میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے۔ (قول مرزا در حاشیہ ص ٩٥ تحفہ گولڑدیہ) القدر
2 القدر
3 القدر
4 القدر
5 القدر
0 البينة
1 (1۔8) اہل کتاب میں سے کافر لوگ یہودو نصاری اور عرب کے مشرکین اپنی رسومات اور دینی بدعات سے کبھی ہٹنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس کھلی بات بتانے والا رسول اللہ کی طرف سے نہ آئے جو پاک الہامی نوشتے پڑھ کر ان کو سنائے جن میں محکم مسائل دینیہ درج ہوں یعنی اس زمانہ کے اہل کتاب اور مشرکین ایسے شدید الکفر تھے کہ کسی واعظ کے وعظ سے ان کو اثر نہ ہوتا بلکہ ضرورت تھی کہ بڑی قوت والا رسول ان کے پاس آئے اور اپنی قوت قدسیہ سے ان کو پاک کرے چنانچہ بہتوں کو اس رسول سے فائدہ ہوا اور جن کو پہلے الہامی کتاب ملی تھی یعنی اہل کتاب یہودو نصاری یہ سب کے سب صاحب البینہ نبی کے انتظار میں متفق تھے مگر جب وہ نبی آیا اور ان کو اس کی صداقت کا علم بھی حاصل ہوگیا تو وہ بعد آجانے اس بینہ والے نبی کے تسلیم اور عدم تسلیم میں مختلف ہوگئے بعض تو اپنے علم پر قائم رہ کر ایمان لے آئے اور بعض منکر ہوگئے حالانکہ اس بینہ والے رسول کی معرفت ان کو جو حکم ہوا ہے وہ شریعت انبیاء کے خلاف نہیں بلکہ ان کو یہی حکم ہوا ہے کہ شرک کفر چھوڑ کر یک رخے ہو کر اللہ ہی کی مخلصانہ عبادت کریں جس میں کسی قسم کا شرک یا نمائش نہ ہو اور فرائض نماز باقاعدہ پڑھیں اور وافر مال کی زکوٰۃ ادا کیا کریں ہمارے نزدیک دین قیم محکم طریق یہی ہے باوجود اس صاف تعلیم کے یہ لوگ انکاری ہو رہے ہیں تو سن رکھیں جو لوگ اہل کتاب میں سے اور عرب کے دیگر مشرکوں میں سے اسلام کے منکر ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ وہ لوگ اللہ کے نزدیک سب لوگوں میں سے بدترین لوگ ہیں برعکس ان کے جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں وہی لوگ سب لوگوں میں سے اچھے ہیں کیونکہ زندگی کا مقصد انہوں ہی نے سمجھ کر پورا پا لیا ہے یعنی اللہ کے ہو رہے اور اسی کی لگن میں دنیا سے رخصت ہوئے اس لئے ان کا بدلہ ان کے پروردگار کے پاس ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی بغیر اخراج کے ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے دائمی عیش و آرام کے علاوہ بڑی نعمت ان کو یہ ملے گی کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یعنی مالک اور غلام میں کسی قسم کی سوء مزاجی کا اندیشہ نہ رہے گا یہ انعام واکرام ان لوگوں کو ملے گا جو اپنے رب کے عذاب سے دنیا میں ڈرتے رہے ہوں گے۔ اللھم اجعلنا منھم البينة
2 البينة
3 البينة
4 البينة
5 البينة
6 البينة
7 البينة
8 البينة
0 الزلزلة
1 (1۔8) سنو جی قیامت سے پہلے ایک زلزلہ عظیمہ آئے گا جس سے دنیا کی ساری آبادی برباد ہوجائے گی اس وقت کا حال ہم تم کو سناتے ہیں جب زمین غیر معمولی زور سے ہلائی جائے گی ایسی کہ تمام اونچائی نیچائی سب برابر ہوجائے گی اور زمین اس تیز حرکت سے اپنے اندر کے دفینے سب باہر پھینک دے گی یعنی آج جو کچھ اس کی کانوں میں از قسم چاندی‘ سونا‘ تانبا‘ پیتل وغیرہ معدنیات ہیں وہ سب باہر آجائیں گے تو کوئی ان خزانوں کو دیکھے گا چھوئے گا نہیں اور انسان کہے گا اس زمین کو کیا ہوگیا کہ ایک دم اس میں انقلاب ہوگیا اس روز زمین اپنی سطح پر گزرے ہوئے واقعات کی تمام خبریں بتائے گی اس وجہ سے کہ تیرے پروردگار اللہ ذولجلال نے اس کو بذریعہ القاء خاص سب کچھ سمجھا دیا ہوگا وہ تمام خبریں مجمل بتائے گی یا مفصل اس کا علم اسی وقت تم کو ہوگا اس روز انسان اپنے اپنے اعمال کے مطابق مختلف حالتوں میں نکلیں گے کوئی اعلیٰ درجہ کا نیک کوئی پرلے درجہ کا بدمعاش کوئی ان دو درجوں کے مابین تاکہ ان لوگوں کو ان کے کئے ہوئے ان کے نیک وبد اعمال دکھائے جائیں پس جس شخص نے ذرہ جتنا بھی اچھا کام کیا ہوگا وہ اسے اپنے اعمال نامہ میں دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ جتنا برا کیا ہوگا (اگر توبہ نہ کرے یا اس سے اچھانیک کام نہ کرنے سے اس کے ذمہ سے اترانہ ہوگا تو وہ بھی اسے اپنے اعمالنامہ میں دیکھ لے گا اسی کے مطابق ان کو جزا سزا ملے گی۔ الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 العاديات
1 (1۔11) اے عرب کے لوگو ! تم اللہ کے وعدے کا انکار کیوں کرتے ہو اتنی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ انسان کے نیک وبد کاموں کی جزا وسزا ملنی ضروری ہے ہم تمہیں حلفیہ بتاتے ہیں قسم ہے سر پٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی جو خراٹے سے جاتے ہیں اور قسم ہے پتھر پر ٹاپ مارنے سے آگ چمکانے والوں کی اور قسم ہے جہاد میں صبح کے وقت دشمنوں پر حملہ کرنے والوں کی جو اس وقت ایسی تیزی سے چلنے میں زمین سے غبار اڑاتے ہیں پھر اسی غبار کے ساتھ ہی دشمنوں کی جماعت میں گھس جاتے ہیں ان قسموں کا جواب یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اس کی ناشکری کا کیا ٹھکانہ ہے کھائے پئے رب کا اور گائے کسی اور کا حالانکہ وہ پروردگار ہر آن اس پر نگران ہے اس کی کوئی حرکت یا سکون اس پر مخفی نہیں اور یہ ناشکرا انسان اپنے حق میں ہر طرح کی خیروبرکت کا سخت متمنی رہتا ہے باوجود اس تمنی کے جس سے خیروبرکت ملتی ہے اس سے غافل ہے تو اس کی کتنی بے عقلی اور کیسی غفلت ہے یہ تو ہوئی اس کی اصولی غلطی کہ ایک چیز کا خواہش مند ہے مگر جس سے وہ چیز ملتی ہے اس سے روگردان ہے اس کے علاوہ سنو ! کیا یہ جانتا نہیں کہ جس وقت قبروں میں رکھے ہوئے مردے اٹھائے جائیں گے اور جو ان کے اعمال نیک وبد ہوں گے وہ سارے بلکہ جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے دین کی محبت یا عداوت سب ظاہر کیا جائے گا اس روز ان کا پروردگار رحمن عالم ان کے حال سے خبردار ہوگا کوئی بات اس سے نہ چھپی ہوگی نہ چھپا سکیں گے اللھم ارحمنا یومئذ قرآن مجید میں اعمال بد معاف ہونے کے دو طریق آئے ہیں ایک تو یہ ہے فرمایا اِنْ یَّنْتَہُوْا یَغْفِرْلَھُمْ مَّاقَدْ سَلَفْ (باز آجائیں تو گزشتہ گناہ معاف کئے جائیں گے) دوسرا طریق یہ ہے کہ گناہ سے نیک کام زیادہ کئے ہوں جیسا فرمایا اِنَّ الْحَسََنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ تفسیر میں ہم نے انہی دو طریقوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ١٢ منہ العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 العاديات
7 العاديات
8 العاديات
9 العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 القارعة
1 (1۔11) اے عرب کے منکرو قیامت کی جس گھڑی سے تم منکر ہو وہ کھڑ کھڑانے والی گھڑی کیسی کھڑکھڑانے والی ہے تمہیں کیا معلوم وہ کھڑکھڑانے والی کیا چیز ہے اور کب ہوگی وہ اس دن ہوگی جس روز انسان مومن کافر سب کے سب ایک میدان میں پھیلے ہوئے بتنگوں کی طرح ہوں گے یعنی اس کثرت سے ہوں گے جس کثرت سے موسم برسات میں کبھی ٹڈی دل نکلتا ہے اور یہ بڑے بڑے پہاڑ دھنی ہوئی روئی یا اون کی طرح ہوجائیں گے یعنی دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑتے ہوئے نظر آئیں گے یہاں تک کہ سب زمین یکساں ہوجائے گی جس میں کوئی اونچائی نیچائی نہ ہوگی قیامت کے دن کا یہ پہلا حصہ ہے اس کے بعد پھر پیدائش ہوگی اور سب میدان حشر میں جمع ہوں گے پھر اس میدان میں جس کے نیک اعمال کمیت اور کیفیت میں بداعمال پر غالب ہوں گے وہی مزے کے عیش میں ہوں گے اور جن کے اعمال وزن اور صلاحیت میں مغلوب ہوں گے یعنی بدعملی زیادہ اور نیکی نہ ہوگی ہوگی تو بہت کم پس ان کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا تجھے کیا معلوم ہاویہ کیا ہے وہ دہکتی ہوئی تیز آگ ہے اس میں وہی داخل ہوں گے اپنی بدعملی کی وجہ سے جو اس کے لائق ہوں گے اللھم اجرنا منھا القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 التکاثر
1 (1۔8) مال عزت رتبہ وجاہت وغیرہ میں تقابل کی عادت انسان کو بہت مضر ہے اس لئے کہ ہم تم کو بتاتے ہیں کہ تم موجودہ لوگوں کو کافر ہو یا مومن کثرت مال وکثرت اولاد کی حرص نے یعنی ایک دوسرے پر بڑھنے کی خواہش نے تم کو اللہ کی یاد اور تعمیل احکام سے غافل کردیا ہے یہاں تک کہ اسی مقابلہ میں تم ! نے قبریں بھی دیکھیں یا خود مر کر قبروں میں داخل ہوگئے ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے باز نہ آئو گے تو تم اس کا انجام جان لو گے ہم پھر کہتے ہیں کہ ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے تم جان لو گے ہرگز ہرگز ایسا نہ چاہے۔ ف اگر تم یقینی طور پر جانتے تو ایسی غفلت نہ کرتے لیکن تمہاری غفلت سے اخروی جزاو سزا ٹلے گی نہیں بلکہ ضرور تم اپنے بداعمال کی سزا میں جہنم دیکھو گے ہم پھر تمہیں کہتے ہیں کہ ضرور اسے دیکھو گے اسے دیکھنے کے بعد پھر اس روز تم کو نعمتوں پر شکر گذاری سے ضرور سوال ہوگا۔ اللھم لا تسئلنا لوگ کہا کرتے ہیں فلاں نے مکان بنایا میں اس سے اچھا بنائوں فلاں اتنی جائداد کا مالک ہے میں اس سے زیادہ حاصل کروں یہ ہے۔ ” تکاثر“ اور ” تقابل “۔ ١٢ منہ ! بعض قبائل نے اپنی کثرت بتانے کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہمارے مردے بھی تمہارے مردوں سے زیادہ ہیں ان کو خطاب ہے۔ حتی زرتم المقابر۔ ١٢ منہ التکاثر
2 التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 التکاثر
7 التکاثر
8 التکاثر
0 العصر
1 (1۔3) انسان سمجھتا رہے کہ میں دن بدن ترقی کر رہا ہوں حالانکہ یہ تنزل کو جا رہا ہے زمانہ کی ہر آن متحرک ہے اس کے ساتھ ہی انسان میں بھی حرکت ہے اس لئے ہم سچ کہتے ہیں قسم ہے زمانہ کی جو گیا واپس نہیں آتا تحقیق انسان سراسر نقصان میں ہے اس کی عمر کا ہر لمحہ قیمتی ہے مگر یہ اسے بے فائدہ ضائع کرتا ہے انسان کی زندگی کا اصل مقصود ہے ذکر اللہ اور عبادت الٰہی جو لوگ اس مقصود سے غافل ہیں وہ اپنی زندگی کی حیثیت میں بالکل ٹوٹے میں ہیں لیکن جن لوگوں نے حسب تعلیم الٰہی ایمان قبول کر کے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق پسندی کی نصیحت کرتے رہے یعنی یہ کہتے رہے کہ میاں سچی بات کسی کی ہو قبول کرلینی چاہیے کیونکہ ؎ مرد باید بگیر داندرگوش درنبشت است پند بردیوار اور تکلیفات اور مصائب پر صبر کی تلقین کرتے رہے وہ نقصان یا ٹوٹے میں نہیں۔ اللھم اجعلنا منہم العصر
2 العصر
3 العصر
0 الهمزة
1 (1۔9) دنیا میں فسادات کی وجہ ایک تو خود غرضی ہے‘ دوسری بڑی وجہ بسا اوقات ادھر کی ادھر لگانے والوں کی ریشہ دوانی ہوتی ہے جو ایک کی دوسرے کے پاس عیب شماری کرتا ہے جس کے حق میں سعدی مرحوم نے کہا ہے ؎ میاں دوکس جنگ چوں آتش است سخن چین بدبخت ہیزم کش است اس لئے اعلان ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر عیب جو طعنہ زن کے لئے افسوس ہے اس کے طعنے عموما غریب مسلمانوں کے حق میں ہوتے ہیں کیونکہ مال کا اس کو گھمنڈ ہے یہی وہ شخص ہے جس نے تھوڑا سا مال جمع کیا ہے اور اس کو بڑے فخر سے شمار کرتا رہتا ہے سمجھتا ہے کہ اس مال کی وجہ سے اس کو کوئی تکلیف نہیں آسکتی بلکہ یہ مال اس کو ہمیشہ بخیر وعافیت رکھے گا یہ خیال اس کا ہرگز صحیح نہیں اپنے کئے ہوئے بداعمالی کی وجہ سے بھسم کرنے والی آگ میں ڈالا جائے گا جہاں اس کی ساری شیخی کر کری ہوجائے گی تمہیں کیا معلوم کہ وہ بھسم کرنے والی کیا چیز ہے وہ اللہ کی طرف سے بطور سزا مقرر کی ہوئی تیز آگ ہے جو بدن سے گزر کر دلوں تک جا چڑھے گی اس کے شعلے بہت بلند ہوں گے ایسے تحقیق وہ آگ بڑے بڑے ستونوں کی صورت میں جیسے مسجد الحرام کے دالانوں میں بلند ستون ہیں اور اہل نار بدکاروں سے مخصوص ہوگی۔ اللھم اجرنا من النار الهمزة
2 الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 الهمزة
9 الهمزة
0 الفیل
1 (1۔5) اے مکے والو ! تم جو اس رسول کے ساتھ اتنی مخالفت کرتے ہو کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اس میں کامیاب ہوجائو گے؟ ہرگز نہیں کیا تم نے ہاتھی والوں کا قصہ نہیں سنا اور اس پر فکر نہیں کیا کہ تمہارے پروردگار نے ان اصحاب الفیل ہاتھیوں والے لوگوں کے ساتھ کیا برتائو کیا تھا جو بخیال خود کعبہ شریف کو گرانے آئے تھے کیا اس اللہ نے ان کی چال کو جو دربارہ گرانے کعبہ شریف کے تھی بے اثر نہ کردیا تھا۔ بے شک کیا تھا اور ان پر دل کے دل پرندے بھیجے جو ان پر پتھر یلی مٹی کی کنکریاں مارتے تھے پس انہی کنکریوں کے ساتھ اللہ نے ان کو چبائے ہوئے بھوسے کی طرح بے کار بے اعتبار کردیا۔ الھم اعذنا من عذابک کیفیت اصحاب الفیل جاہلیت کا زمانہ تھا اس کا کرشمہ ہوا کہ حکومت حبشہ کی طرف سے یمن کے صوبہ پر ایک احمق ابرہہ نام گورنر تھا اس نے دیکھا کہ عرب لوگ مکہ شریف کو حج کرنے جاتے ہیں دل میں خیال کیا کہ ایسا کریں کہ یہ لوگ وہاں نہ جائیں چنانچہ اس نے اپنے علاقہ میں ایک کعبہ بنایا اور اعلان کیا کہ حج یہاں کرلیا کرو مکہ میں جانے کی ضرورت نہیں ادھر سے ایک منچلا عرب سردھرا اس کعبہ میں جا گھسا چپکے سے اس میں پائخانہ کر کے دیواروں پر لیپ دیا یہ واقعہ سن کر ابرہہ کو بہت غصہ آیا مکہ پر فوج کشی کی قریب مکہ کے پہنچ کر سردار مکہ عبدالمطلب کو کہا میں تم لوگوں سے لڑنے کو نہیں آیا میں تو تمہارے کعبہ کو گرانے آیا ہوں عبدالمطلب نے کہا کعبہ ہمارا گھر نہیں ہے جس کا ہے وہ اگر تمہیں ایسا کرنے دے تو کر گزرو یہ کہہ کر عبدالمطلب نے کعبہ شریف میں جا کر مندرجہ ذیل اشعار میں دعا کی یَا رَبِّ لَا اَرْجُوْ سِوَاکَا یَا رَبِّ فَامْنَع حِمَاکَا اِنَّ عَدُوَّ الْبَیْتِ مَنْ عَادَاکَا اِمْنَعْھُمْ اَنْ یُخَرِّبُوْا قِرَاکَا ان اشعار میں موحدانہ اللہ سے دعا کی کہ کعبہ شریف کو ان ظالموں سے بچائیو عبدالمطلب کی دعا قبول ہوئی ابرہہ کی فوج جب کعبہ شریف پر حملہ آور ہوئی تو اللہ نے چھوٹی چھوٹی چڑیاں پہاڑوں اور سمندروں کی طرف سے بھیج دیں جو ان حملہ آوروں پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارتے تھے جن سے وہ مرے اور زخمی ہو کر بھاگ گئے۔ لہ الحمد۔ ١٢ منہ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 قریش
1 (1۔4) عرب کی معزز قوم قریش تجارت پیشہ ہے نہ وہ سردی دیکھتی ہے نہ گرمی قریش کو سردی گرمی کے سفر سے الفت رکھنے اور اصل مقصد زندگی (عبادت الٰہی) ترک کرنے پر ایک ہمدرد انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ دونوں موسموں میں یکساں سفر کرتے ہیں دنیا کے دھندوں میں مشاق اور اللہ سے غافل پس اب ان کو چاہیے کہ زندگی کے اصل مقصد کی طرف توجہ کریں کہ اس خانہ کعبہ کے پروردگار واحد مالک اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں جو ان کو بھوک میں کھانا دیتا ہے یعنی ان کے لئے رزق پیدا کرتا ہے ورنہ محض تجارت سے کیا کھائیں گے اور جس نے دشمن کے خوف سے ان کو امن دے رکھا ہے ورنہ نہ سفر کرسکیں نہ تجارت پس قرین عقل بات یہ ہے کہ جس نے یہ سب کچھ دیا ہے اسی کے ہو رہیں۔ اللھم وفقنا بما تحب وترضی قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 الماعون
1 (1۔7) دنیا میں کوئی کیساہی بدکار ہو یتیم بچے پر اسے بھی رحم آجاتا ہے مگر ان منکرین اسلام کی حالت اس سے دگر گوں ہے کیا تو نے اس نالائق ذلیل ترین انسان کو دیکھا ہے جو تکبر میں دین الٰہی کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ دین اس کو اخلاق سکھاتا ہے اور وہ آزاد رہنا چاہتا ہے یہ وہی ظالم تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے کسی غریب مسکین کو کھانا کھلانا تو بجائے خود رہا کمبخت کسی دوسرے کو کھلانے کی رغبت بھی نہیں دیتا ایسے لوگ مسلم نما بن کر تمام مسلمانوں میں شریک ہیں دکھاوے کی نمازیں بھی پڑھتے ہیں پس ان نمازیوں کے لئے افسوس ہے جو اپنی نماز کی شان اور حیثیت سے غافل ہیں جو لوگوں کو نمازیں دکھاتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ معمولی برتائو کی چیزیں جو گھروں میں برتی جاتی ہیں اور ایک دوسرے سے مستعار لے لی جاتی ہیں جیسے برتن ڈول وغیرہ جو استعمال کے بعد واپس دئیے جاتے ہیں کسی کو نہیں دیتے۔ اللھم لا تجعلنا منھم الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 الماعون
0 الكوثر
1 (1۔3) اے رسول یہ لوگ تو تجھے ہر قسم کی برائی سے آلودہ جانتے بلکہ ابتر (بے اولاد) بھی کہتے ہیں مگر ہمارے نزدیک تو سراسر خیروبرکت ہے ہم نے تجھ کو بہت سی خیروبرکت دے رکھی ہے جس کا ظہور وقتا فوقتا ہوتا رہے گا دنیا میں تیری امت بہت ہوگی آخرت میں سب انبیاء کرام سے زیادہ تیری عزت ہوگی۔ پس تو ان بدگووں کی بدگوئی کی پرواہ نہ کر بلکہ اللہ کی عبادت نماز فرض نوافل پڑھا کر یقین رکھ کہ تیرا دشمن جو تیرے حق میں ابتر وغیرہ کہتا ہے‘ انشاء اللہ وہی ابتر ہوگا نہ اس کی نسل ہوگی نہ اس کا نام لیوا ہوگا اور تیرا نام چہار دانگ عالم میں روشن ہوگا چنانچہ ہوا۔ لہ الحمد شان نزول :۔ ایک بدبخت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں ابتر کہا ابتر اس کو کہتے تھے جس کی نرینہ اولاد نہ ہو اس نے چونکہ بنیت توہین کہا تھا جس سے مطلب اس کا یہ تھا کہ حضور بے حیثیت اور بے قدر ہیں اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کو ثر کے معنی خیر کثیر ابن عباس (رض) سے آئے ہیں (معالم وغیرہ) منہ تصحیح : وانحر اور اللہ کی راہ میں حسب توفیق اور حسب موقع اپنی جان یا مملوکہ جانور کی قربانی کیا کر یقین رکھ کر الكوثر
2 الكوثر
3 الكوثر
0 الكافرون
1 (1۔6) تیرے منکر لوگ تجھے اور تیرے ساتھ والوں کو تنگ کرتے ہیں تو ان کو کہہ اے میرے منکرو میرا تمہارا جھگڑا کوئی ذاتی یا مالی نہیں فقط بات یہ ہے کہ میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی اللہ کے سوا تم لوگ عبادت کرتے ہو اور نہ تم خالص اس اکیلے معبود کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں یعنی اس کام میں میرا تمہارا نہ حال میں اتحاد ہے نہ آئندہ ممکن ہے پس چونکہ ہم دونوں کے راستے دو ہیں لہذا تمہارا دین تمہارے نزدیک تمہارے لئے واجب العمل ہے میرے نزدیک میرا دین میرے لئے واجب العمل ہے‘ آئو ہم دونوں لڑائی دنگا چھوڑ کر اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں جب تک کہ اللہ سچے کو جھوٹے پر غالب کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اللھم اجعلنا من الفائزین بعض لوگ اس سورۃ کو منسوخ کہتے ہیں حالانکہ نسخ کی شروط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ منسوخ اور ناسخ دونوں بصیغہ امر احکام شرعیہ میں سے ہوں یہاں تو دونوں میں سے کوئی بھی حکم نہیں بلکہ خبر ہے پس معنی وہی صحیح ہیں جو ہم نے تفسیر میں کئے ہیں۔ ١٢ منہ الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 النصر
1 (1۔3) ہم جو پہلی سورت میں کہہ آئے ہیں کہ اللہ سچے کو غالب کرے گا اسی کے متعلق سنئیے جب اللہ کی مدد تیرے حق میں آئے گی اور فتح ونصرت آپہنچے گی اور تو لوگوں کو دین الٰہی میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھے گا تو اے رسول اس وقت سمجھو کہ اب تیرا کام ختم ہے اس لئے ہمہ تن آخرت پر توجہ کرنے کو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہو اور بخشش مانگنے میں لگ جائو کیونکہ وہ تیرا پروردگار بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اللھم تب علینا النصر
2 النصر
3 النصر
0 الہب
1 (1۔5) اے رسول تیری فتح ونصرت کی خبر سن کر تیرا دشمن جوش دکھاتا ہے مسلمانوں کی توہین کرنے میں اچھلتا پھرتا ہے ایسے جوش والے دشمن کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تو سمجھ کہ ٹوٹ چکے کیونکہ ہمارے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں یہ کمبخت مر کر ایسے عذاب میں پھنسے گا نہ اس کا مال اس کے کچھ کام آئے گا نہ اس کی اور کسی طرح کی کمائی بلکہ مرتے ہی اپنے جیسی جوش والی میں داخل ہوگا اس کی عورت بھی اس کے ساتھ ہی ایندھن اٹھائے ہوئے داخل جہنم ہوگی اس کی گردن میں مونج کی رسی ہوگی جس سے بندریوں کی طرح کھینچی ہوئی دوزخ میں داخل ہوگی۔ اللھم اعذنا منھا ” ابولہب“ کا اصلی ترجمہ جوشیلا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کو بھی ابولہب اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں بڑا جوش تھا۔ الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 الاخلاص
1 (1۔4) اے رسول تو ان جوشیلے دشمنوں کی پرواہ نہ کر بلکہ اپنی حقانی تعلیم لوگوں کو بتانے کو کہہ کہ بھائیو ! دل لگا کر میری تسلیم سنو بات یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات اور صفات میں ایک ہے نہ اس کی ذات جیسی کوئی ذات ہے نہ اس کی صفات جیسی کسی کی صفات ہیں باوجود اس کے اللہ اپنے قدرتی کاموں میں ہر ایک مخلوق سے بے نیاز اور بے پرواہ ہے اس کا کوئی کام کسی مخلوق پر موقوف نہیں نہ اس نے کسی کو جنا نہ کسی سے وہ جنا گیا یعنی نہ وہ کسی کا والد ہے نہ مولود نہ اس کی ذات برادری کا کوئی دوسرا ہمسر ہے۔ اللھم نؤمن بک وبصفاتکٖ الاخلاص
2 الاخلاص
3 الاخلاص
4 الاخلاص
0 الفلق
1 (1۔5) اے رسول تیری تعلیم اور ترقی پر اعداء دین تجھ سے حسد کریں گے تو ان کی پیش بندی کرنے کو یوں کہہ کہ میں سفیدہ صبح کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی شر سے جو اس نے پیدا کی ہے کیونکہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں کسی نہ کسی وجہ سے شر نہ ہو کھانا کسار طیب اور لذیذ ہو بعض دفعہ اس سے بھی تکلیف ہوجاتی ہے اولاد کیسی ہی پیاری ہو بسا اوقات اس سے بھی تکلیف پیدا ہوجاتی ہے اس لئے تم ہر چیز کے شر سے پناہ مانگا کرو اور اندھیری رات کے اندھیرے سے جب وہ عام طور پر سب جگہ چھا جاتا ہے کیونکہ اس اندھیرے میں بڑے بڑے موذی جانور نکلا کرتے ہیں اور جھاڑا کرنے کو دھاگوں کی گرہوں میں پھوپھو پھونکنے والی عمال ٹولیوں کے شر سے بھی میں پناہ مانگتا ہوں کہ ان کا اثر مجھ تک نہ پہنچے اور حاسد کے حسد سے جب وہ میرے حق میں حسد کرے اس کی شرارت سے بھی پناہ مانگتا ہوں یعنی میں بڑی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ میرے حاسد کو توبہ کی توفیق دیے اور مجھے اس کے مکرو خدع سے محفوظ رکھے۔ اللھم اعذنا من الحاسدین الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 الفلق
0 الناس
1 (1۔6) اے رسول گذشتہ دعا کے ساتھ یہ بھی کہہ کہ میں انسانوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں جو سب لوگوں کا حقیقی بادشاہ ہونے کے علاوہ سب انسانوں کا حقیقی معبود ہے اس کی پناہ لیتا ہوں چھپ چھپا کر وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے خواہ جنوں سے ہوں یا انسانوں سے یعنی انسان جو دوست بن کر دشمنی کریں ان سے اور جو کھلے دشمنی کریں ان سے بھی میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اللہ مجھے ان ہر قسم کے اعداء سے محفوظ رکھے۔ آمین اللھم اعذنی من شر حاسد من کل خناس اٰمین الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter