Maktaba Wahhabi

110 - 184
حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا: ہم سب نے انہیں قتل کیا ہے! اس پر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں توبہ اور اطاعت گزاری میں آنے کی دعوت دی؛ لیکن انہوں نے انکار کر دیا بلکہ ثالثی کے عمل کو درست سمجھنے والوں کو کافر بھی قرار دے دیا۔ جب معاملہ اس حد تک بگڑ گیا تو علی نے اپنے لشکر کو ان سے جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث پڑھ پڑھ کر سنائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خارجیوں سے لڑنے کے بدلے میں جو اجر و ثواب بتلایا تھا وہ بھی ان کے سامنے بیان کیا: مثال کے طور پر: (اگر ان [خارجیوں ] کو قتل کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والا اجر جان لیں تو عمل کرنا ہی چھوڑ دیں ) پھر اس کے بعد نہروان کا مشہور معرکہ شروع ہوا،اس میں علی کو فتح ملی اور کچھ ہی دیر میں سب کے سب خارجیوں کا صفایا کر دیا ان میں سے دس بھی باقی نہیں رہے، اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سے دس افراد بھی قتل نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ مقتولین میں عورت کے پستان جیسے بازو والا شخص تلاش کرو، آپ کے سپاہیوں نے اسے مقتولین میں ڈھونڈ نکالا تو علی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ شکر میں گر پڑے۔ ان خارجیوں میں سے باقی ماندہ لوگ اس واقعے کے بعد روپوش ہو گئے،یہاں تک کہ عبدالرحمن بن ملجم نے علی کو نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے قتل کر دیا۔ اس فتنے کے نتائج 1۔ خارجیوں کے سیدنا علی سے الگ ہونے کی بنا پر مسلمان مزید گروہوں میں بٹ گئے۔ 2۔ مسلمانوں کا خون بہا، امت میں مسلح بغاوت ہوئی اور خارجیوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان صادق آیا: (وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو
Flag Counter