Maktaba Wahhabi

119 - 184
کاٹ کر حجاج کے پاس لے جایا گیا اور حجاج نے حکم دیا کہ اسے عراق کی گلیوں میں گھمایا جائے پھر اسے عبد الملک بن مروان کے پاس شام بھیج دیا گیا اور وہاں بھی ابن اشعث کے سر کو گھمایا گیا۔ پھر حجاج نے اس فتنے میں شریک ہونے والے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا اور اہل عراق میں سے بہت سے لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا، حتی کہ جن لوگوں کو حجاج نے باندھ کر قتل کیا تھا ان کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار بنتی ہے، جن میں سے چار ہزار لوگ اہل علم، عبادت گزار اور با اثر شخصیات تھیں،اس طرح یہ فتنہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ اس فتنے کے نتائج 1۔ مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوا،صفوں میں کھلبلی مچی اور معاملات بگڑتے چلے گئے۔ 2۔ بہت سی جانوں کا خون بہا، آبرو پامال ہوئی اور وسیع و عریض خرابیاں پیدا ہوئیں ۔ 3۔ حکومتی سطح پر فتوحات اور جہاد کا سلسلہ روک گیا،حالانکہ جہاد اور فتوحات حجاج کا پسندیدہ ترین مشغلہ اور خوبی تھی۔ عامر شعبی رحمہ اللہ بھی اس فتنے میں ملوث ہو گئے تھے لیکن بعد میں اس پر پشیمان بھی ہوئے، پھر جب انہیں بھی حجاج کے سامنے انقلابیوں کے ساتھ پیش کیا گیا تو حجاج نے انہیں جان کی امان دے دی، حجاج فتنے میں ملوث ہونے سے پہلے بھی ان کی عزت کیا کرتا تھا، تو حجاج نے کہا: شعبی! ہمارے علاوہ دوسروں کو کیسا پایا؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا: "اللہ تعالیٰ ہمارے امیر کو صلاحیتوں سے نوازے، آپ کے بعد تو میری آنکھوں میں بے خوابی رہی، میں نے آسان امور بھی مشکل بنا لیے، آپ کو بارِ گراں سمجھا اور اپنے اوپر خوف کی تہیں جما لیں،یہاں تک کہ مجھے پریشانیوں کو بھی اچھا سمجھنا پڑا، میرے اچھے اچھے دوست مجھ سے بچھڑ گئے، لیکن اس کے باوجود
Flag Counter