Maktaba Wahhabi

86 - 184
دوسرا مبحث: اہل سنت کے ہاں اس مسئلے میں ضابطہ یہ ہے کہ واضح لفظوں میں بول کر یا لکھ کر حاکم کہے،محض عمل کافی نہیں ہے اہل سنت والجماعت اس وقت تک کسی کو گناہوں کی وجہ سے کافر نہیں کہتے جب تک کوئی گناہوں کو اپنے لیے حلال نہ سمجھ لے[1]، دوسری طرف خوارج اور معتزلی فکر کے حامل افراد کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمان پر کافر ہونے کا حکم لگا دیتے ہیں،اس مسئلے میں اہل سنت و الجماعت کے دلائل عقیدے کی کتابوں میں تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں،اس مبحث میں ہم گناہوں کو حلال سمجھنے کا معنی بیان کریں گے کہ اہل سنت کے ہاں یہ کب ہوتا ہے اور اس کا ضابطہ کیا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ جس کام کے حرام ہونے پر سب کا اجماع ہو چکا ہو اسے حلال سمجھنے والا کافر اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دینے والے کا کفر استحلال کی بنا پر ہو تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ -نعوذ باللہ- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دینا جائز ہے"[2] اور استحلال یہ ہے کہ کسی حرام چیز کو حلال سمجھنا۔ پھر چونکہ استحلال کا تعلق دل سے اور دل کی بات کسی کے علم میں نہیں آ سکتی اس لیے کسی گناہ کا ارتکاب استحلال کی دلیل نہیں بن سکتا چاہے بندہ اس گناہ پر اصرار ہی کیوں نہ
Flag Counter