Maktaba Wahhabi

103 - 645
اور اس کی نظائروامثال بے شمار ہیں ۔ فصل:....اہل سنت پر اللہ کی طرف سفاہت کے انتساب کا الزام اوراس پر ردّ اہل سنت کے قدر کے بارے میں مقابلہ پر رافضی کا یہ قول کہ: ’’رب تعالیٰ کی طرف سفاہت کی نسبت جائز ہے کیونکہ وہ کافروں کو ایمان لانے کا امر تو دیتا ہے پر ان سے ایمان لانے کا ارادہ نہیں کرتا۔‘‘ [شبہ ]رافضی امامی کہتا ہے: اور ایک بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ کی طرف سفاہت کی نسبت لازم آتی ہے۔ کیونکہ وہ کافر کو ایمان لانے کا امر دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے اس کا ارادہ نہیں کرتا اور اسے معصیت سے روکتا ہے جبکہ اس سے معصیت کے ارتکاب کا ارادہ کرتا ہے اور ہر وہ عاقل جو ایسی بات کا حکم دے جس کا اس نے ارادہ نہ کیا اور ایسی بات سے روکے جس کا اس نے ارادہ کیا ہو کہ اس کی طرف سفاہت کی نسبت جائز ہے۔ حالانکہ رب تعالیٰ سے منزہ و بلند ہے۔ [جواب]: اس رافضی کو یہ جواب دیا جائے گا کہ گزشتہ میں محققین اہل سنت والجماعت کا یہ قول گزر چکا ہے کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک ارادۂ خلق (۲) اور دوسری ارادۂ امر۔ سو امر کا ارادہ یہ مامور سے مامور بہ فعل کا ارادہ ہے اور خلق کا ارادہ، یہ ان افعالِ عباد کے پیدا کرنے کا ارادہ ہے جن کو وہ بندے سے پیدا کرتا ہے اور امر یہ پہلے ارادہ کو مستلزم ہے نا کہ دوسرے کو۔ رب تعالیٰ نے کافر کو اس بات کا حکم دیا ہے جس کا اس نے اس سے اس اعتبار سے ارادہ کیا ہے اور وہ اسے محبوب اور پسند ہے اور اسے اس معصیت سے روکتا ہے جس کا اس نے بندے سے ارادہ نہیں کیا۔ یعنی اس اعتبار سے وہ اسے محبوب اور پسندنہیں ؛ یعنی رب تعالیٰ کو بندے سے کفر محبوب اور پسند نہیں اور نہ فساد ہی محبوب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النسآء: ۱۰۸) ’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘ ارادۂ خلق یہ وہ مشیئت ہے جو مراد کی وقوع کو مستلزم ہے۔ یہ ہے وہ ارادہ جو وجود سے متعلق ہوتا ہے سو جو رب نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا اور یہ کہ وہ بندے سے اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ خود فعل کرے کہ یہ لا محالہ ہو کر رہے گا کیونکہ وہ اپنی مراد پر قادر ہے۔ سو جب ارادہ اور قدرت دونوں جمع ہو جاتے ہیں تو مراد کا وجود واجب ہو جاتا ہے۔اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ بندے سے اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ اپنے لیے کوئی فعل انجام دے ؛ ان دونوں باتوں میں فرق ہے کیونکہ اس دوسرے ارادے میں یہ لازم نہیں کہ وہ بندے کی اس پر اعانت بھی کرے۔ رہی قائلین تقدیر کی ایک جماعت جن کا یہ گمان ہے کہ ارادہ کی صرف ایک قسم ہوتی ہے اور وہ ہے مشیئت۔ سو ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کا ارادہ نہیں کرتا۔ پھر یہ لوگ دو قسم پر ہیں : ایک وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ وہ اس بات کا حکم دیتا ہے جو اسے محبوب اور پسند ہو،
Flag Counter