Maktaba Wahhabi

109 - 645
ہوتا ہے یا سفاہت ہوتی ہے اور اگر یہ ایسی غرض کو ثابت کریں جو اس کے ساتھ قائم ہو تو اس کا محل حوادث ہونا لازمی آتا ہے اور وہ اس کا حیلہ کرتے ہیں ۔ پھر اگر ایک غرض دوسرے غرض کے لیے ہو تو تسلسل لازم آئے گا۔ وہ اس کو ماضی کی طرف لے جاتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ان کے دو اقوال ہیں اور اگر وہ دوسری غرض کے لیے نہ ہو تو اس کا کسی غرض کے بغیر حدوث جائز ہو گا۔ سو یہ وہ اصول ہیں جن پر قدریہ اور یہ متفق ہیں یہ اُں کی اِن پر حجت ہے۔ فصل:....امور اختیاریہ پر بحث جو امورِ اختیاریہ کے رب تعالیٰ کے ساتھ قیام کی نفی کرتا ہے اسے متناقض اور فاسد اقوال کرنے ہی پڑتے ہیں ۔ غرض جو رب تعالیٰ کے ساتھ امورِ اختیاریہ کے قیام کی نفی کرتا ہے وہ ضرور متناقض و فاسد اقوال کرے گا تو جب جھمیہ مجبر اور قدریہ معتزلہ اس بات میں مشترک تھے کہ ان میں سے کوئی چیز اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد ان لوگوں میں اس کے افعال و احکام کی تعلیل میں اختلاف ہو گیا تو دونوں میں سے ہر ایک قول اس امر کو لازم ہوا جو اس کے متناقض و فساد کو ظاہر کرتا ہے۔ سو تعلیل کے اثبات کے قائلین کا قول ہے کہ: جو حکمت کے بغیر کوئی فعل کرتا ہے وہ سفیہ ہے یہ بات اس میں تو ضرور ہے جو ایسی حکمت کے بغیر فعل کرے جو اسی کی طرف لوٹتی ہو۔ ان لوگوں کا گمان ہے کہ رب تعالیٰ اپنی طرف لوٹنے والی حکمت کے بغیر فعل کرتا ہے۔ پھر اگر بغیر حکمت کے فعل کرنے والا سفیہ ہے تو اسے سفاہت لازم آئی اور اگر وہ سفیہ نہیں تو تناقض لازم آیا۔ کیونکہ ان کا فعل کو ایسی حکمت کے ساتھ ثابت کرنا جو فاعل کی طرف نہ لوٹتی ہو، غیر معقول ہے۔ چہ جائیکہ ایسا فاعل حکیم ہو۔ یہ رب تعالیٰ کی صفات اور کلام میں ان کے قول کی نظیر ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں : وہ اپنی مشیئت اور قدرت سے ہی تکلم کرتا ہے، اور قرآن کا قدیم ہونا ممتنع ہے۔ کیونکہ اس میں قدم کے منافی امور ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ متکلم وہ ہی عاقل ہوتا ہے جو اپنی قدرت و مشیئت سے کلام کرتا ہو۔ نا کہ وہ کہ کلام اس کی قدرت کو لازم ہو اور اس کی قدرت و مشیئت سے حاصل نہ ہوتا ہو۔ ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ اسی طرح ایسا ہی متکلم معقول ہے کہ کلام جس کے ساتھ قائم ہو۔ رہا وہ متکلم جس کے ساتھ کلام قائم نہ ہو، یا وہ مرید کہ جس کے ساتھ ارادہ قائم نہ ہو، یا وہ عالم کہ جس کے ساتھ علم قائم نہ ہو تو یہ غیر معقول ہے۔ بلکہ خوفِ معقول ہے۔ بلکہ کلام کی بابت ان کا قول اس بات کو متضمن ہے کہ جس کے ساتھ کلام قائم ہو، وہ متکلم ہی نہ ہو۔ کیونکہ متکلم تو وہ ہوتا ہے جو اپنے غیر میں کلام کو حادث کرے۔ اسی طرح رب تعالیٰ کی محبت و رضا، اور ارادہ و غضب وغیرہ کی بابت کی بھی
Flag Counter