Maktaba Wahhabi

120 - 645
٭ ہم نے بعض ظلم و ستم پر قادر لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ ظلم و عدوان سے کسی کے ضرر کا حکم دیتے ہیں اور تب ان سے کوئی پناہ مانگ لے اور ان کے آگے عاجزی و زاری کرنے لگے تو اس پر ہونے والے ظلم کو روک دینے کا حکم دے دیتا ہے۔ پھر رب تعالیٰ کے لیے تو اونچی مثال ہے۔ وہ تو ظلم و ستم سے منزہ ہے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے جتنی والدہ اپنی اولاد پرمہربان ہوتی ہے، لہٰذا اسباب شر سے اس کی پناہ طلب کرنا عین قرین ِعقل و دانش ہے۔ دوسرا طریق:....ارباب ِعلت و حکمت کا قول ہے کہ:’’اﷲ تعالیٰ نے ابلیس کو اسی طرح پیدا کیا جس طرح سانپوں ، بچھوؤں اور آگ جیسی موذی اشیاء کو۔ کیونکہ ان کی تخلیق گہری حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو اس نے حکم دیا ہے کہ ہم امکانی حد تک اپنے سے ضررو ایذا کو دور کریں جس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے دامن حکمت و رحمت میں پناہ لی جائے۔‘‘ [اہل سنت پر شیعہ مصنف کا افتراء]: [اشکال ]: چھٹی وجہ: شیعہ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ:’’ اہل سنت کے یہاں کافر و ابلیس گناہوں سے پاک ہیں ، اور ان کو اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ [جواب]: یہ صریح قسم کا بہتان ہے۔ بخلاف ازیں اہل سنت بالاتفاق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معصیت کا ارتکاب کرنے والا عاصی اور قابل مذمت ہے۔ نیز یہ کہ افعال کے ساتھ اس شخص کو موصوف کر سکتے ہیں جو ان کو انجام دیتا ہو، پیدا کرنے والے کو نہیں ۔ تو جب ان باتوں کا ارادہ سے تعلق بھی نہ تھا۔ جیسے ذائقے اور رنگ کہ ان سے متصف ان کے محل ہوتے ہیں نا کہ ان کا خالق تو پھر افعالِ اختیاریہ کا کیا حال ہو گا؟ رب تعالیٰ نے جب ان فواسق کو پیدا فرمایا: جیسے سانپ، بچھو، پاگل کتے وغیرہ، اور ان کو فواسق قرار دیا تو کیا رب تعالیٰ ان سے موصوف بھی کہلائے گا؟ اور جب اس نے خبیث چیزوں کو پیدا کیا جیسے نجاستیں ، گندیاں ، خون اور شراب وغیرہ اور ان اشیاء کو خبیث کو ٹھہرایا تو کیا وہ ان اشیاء سے متصف بھی ٹھہرے گا؟ بھلا کہاں اس صفت کی اس موصوف کی طرف نسبت جو اس موصوف کے ساتھ قائم ہے اور کہاں اس مخلوق کی اپنے خالق کی طرف نسبت؟ جوان دونوں فرقوں کو نہ سمجھے تو سمجھ لو کہ اس سے انسانیت مسلوب ہو چکی ہے۔ ساتویں وجہ:....یہ کہ رب تعالیٰ نے ہمیں عذابِ قبر اور عذابِ جھنم وغیرہ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے جن کے مخلوق ہونے پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ تو معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے پیدا کردہ شر سے پناہ مانگنے میں کوئی امتناع نہیں ۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الفلقo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo﴾ (الفلق: ۱۔ ۲) ’’تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘
Flag Counter