Maktaba Wahhabi

169 - 645
کلی طبیعی کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ خارج میں پائی جاتی ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ انسان ہے تو اس میں انسان ’’من حیث ہو ہو‘‘ ہوتا ہے لیکن کہا جائے گا کہ یہ خارج میں ثابت ہے۔ لیکن تعیین اور تخصیص کی قید کے بغیر۔ ناکہ اطلاق کی قید کے ساتھ، اور مطلق لا بشرط ہو گا۔ سو خارج میں نہ تو مطلق لا بشرط ہوتا ہے اور نہ مطلق بشرط الاطلاق ہوتا ہے۔ بلکہ خارج میں معین اور مخصص ہوتا ہے۔ پس ذہن جسے مطلق لا بشرط التقیید مانتا ہے، وہ خارج میں بشرط التقیید ہوتا ہے دراصل ان لوگوں پر اذہان کی چیزیں اعیان کے ساتھ مشتبہ ہو گئی ہیں ۔ ہم نے ایک اور جگہ اس کی تفصیل بیان کر دی ہے اور منطقیوں کی اس غلطی پر تنبیہ کر دی ہے جس کی بنا پر وہ امور الٰہی اور طبیعیہ میں گمراہ ہوئے ہیں ۔ جیسے صرف عقل میں موجود امورِ عقلیہ کو خارج میں موجود امور سمجھ لینا وغیرہ کہ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ الٰہیات پر بحث کرنے والے منطقی یہ بھی کہتے ہیں کہ کلیات صرف اذہان میں ہوتی ہیں نہ کہ اعیان میں ۔ چنانچہ ان کا ایک جگہ کا کلام خود ان کے دوسری جگہ کے کلام کی خطا کو واضح کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے اپنے بندوں کو صحت و سلامتی پر پیدا کیا ہے، جبکہ فسادِ فطرت عارضی ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی کے اپنے فاسد کلام میں ہی ایسی بات مل جاتی ہے جو اس کے پہلے کلام کے فاسد ہونے کو بتلاتی ہے۔ یوں دونوں کلاموں میں تناقض سامنے آ جاتا ہے۔ غرض یہاں ان فلسفیوں کی توحید پر تنبیہ کرنا مقصود ہے۔ یہ لوگ لفظ واجب میں اسی بات کو پہنچے جس کو معتزلہ لفظ قدیم میں پہنچے۔ سو انھوں نے کہا کہ واجب ایک ہی ہو گا۔ اس کی کوئی صفت ثبوتیہ نہ ہو گی۔ جیسا کہ ان لوگوں نے کہا کہ قدیم صرف ایک ہو گا اور اس کی کوئی صفت ثبوتیہ نہ ہو گی۔ جس سے ان فلسفہ زدہ متاخرین متکلمین کے کلام کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ جنھوں نے فلسفہ اور کلام کو ایک کر دیا اور ان کے کلام کی خطا و غلطی بھی سامنے آ گئی جنھوں نے تصوف میں فلسفہ گھسا دیا۔ جیسے ’’صاحب مشکاۃ الانور‘‘ اور ’’الکتب المضنون بہا علی غیر اہلہا‘‘ وغیرہ۔اور ان جیسی دیگر کتب۔ اس مسئلہ پر کئی مقامات پر تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ برہان تمانع: حتی کہ یہ متاخرین اپنے متقدمین کی دلیل توحید کی تقریر تک نہ پہنچ سکے اور وہ ہے دلیل تمانع ۔ انھیں اس دلیل میں اشکال پیش آیا اور یہ سمجھے کہ شاید یہ دلیل قرآن کی اس آیت میں مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الانبیاء: ۲۲) ’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔‘‘ حالانکہ بات یوں نہیں ۔ بلکہ یہ لوگ معرفت قرآن سے قاصر رہ گئے ہیں اور یہ متاخرین ان کوتاہ بینوں کے کلام کے سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں ۔ سو جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر رہے تو ان باتوں کی طرف پھرے جنھوں نے انھیں سوائے حیرت و شک ضلالت و غوایت کے اور کچھ نہیں دیا۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود
Flag Counter