Maktaba Wahhabi

236 - 645
کا مذہب ہے ۔ جس بادشاہ کا ذکر اس رافضی نے کیا ہے وہ محمد بن سبکتکین ہے؛ جو کہ ایک بہترین اور عادل بادشاہ تھا۔ اس نے رجوع بھی اس چیز کی طرف کیا تھا جس کا سنت نبوی ہونا اس کے لیے ظاہر ہوگیا تھا۔ یہ بادشاہ خود نیک تھا او راہل بدعت اور خصوصاً رافضیوں پر بہت سخت تھا۔ اس نے اپنے ملک میں روافض اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر لعنت کرنے کا حکم جاری کررکھا تھا۔ مصر کے عبیدی حاکم نے اسے خط لکھ کر دعوت دی تھی ؛ اس نے اس کے ایلچی کے سامنے یہ خط جلا دیا۔اور اہل سنت والجماعت کی جو مدد کی وہ تاریخ میں مشہورو معروف ہے۔ [غصب کی اباحت] [اعتراض]: رافضی کا کہنا کہ : انہوں نے غصب کو مباح قرار دیا ہے ۔اگرچہ غصب کرنے والا اس میں تبدیلی ہی کیوں نہ کر دے ۔ان کا کہنا ہے : اگر چور کسی چکی پر پہنچ کر آٹا پیس لے تو وہ آٹے کا مالک قرار پائے گا، اگر مالک آکر اس سے جھگڑنے لگے تو ظالم ہوگا،اور چور مظلوم ہوگا۔ اگر وہ دونوں لڑنے لگیں اور چور مارا جائے تو وہ شہید تصور کیا جائے گا، اگر چور مالک کو مار ڈالے تو چور پر قصاص یا دیت نہیں آئے گی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب] : یہ مسئلہ جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کانہیں ہے۔یہ جس کسی نے بھی کہا ہے ؛ جمہور اس کے مخالف ہیں ۔اور اس قول پر شرعی دلائل کی روشنی میں رد کرتے ہیں ۔یہ بعض علماء کا قول ہے۔لیکن فقہاء کا اس غاصب کے بارے میں اختلاف ہے جس نے غصب شدہ چیز میں ایسی تبدیلی کردی ہو جس کی وجہ سے اس کا نام ہی بدل جائے۔ مثال کے طور پر دانے پیسنے کے بعد آٹا بن جاتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ: ’’ یہ ایسے ہی ہے جیسے اس [غصب شدہ ] چیز کو تلف کردینا۔تواس صورت میں اس غاصب پر غصب شدہ چیز کی قیمت ادا کرنا واجب ہوگی۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ وہ چیز اپنے اصل مالک کی ملکیت پر باقی رہے گی۔اگر اس میں جوکچھ زیادتی ہوگئی ہے تو وہ مالک کے لیے ہے ؛ اور اگر کچھ کمی ہوگئی ہے تو اس کا تاوان غصب کرنے والے پر ہے ۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ : مالک کو اختیار دیا جائے گاکہ وہ اپنی چیز قبضہ میں لے لے ‘ اور جو کچھ اس میں کمی واقع ہوئی ہے ‘ اس کا غصب کرنے والے سے تاوان طلب کرے ۔یا پھر اس کے متبادل کا مطالبہ کرے؛اور یہ چیز غصب کرنے والے کے لیے چھوڑ دے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں یہ مشہور قول ہے ۔ اگر مالک اپنی ہی چیز لے لے ‘تو پھر کہا گیا ہے کہ : غصب کرنے والے نے اس میں جو تبدیلی کی ہے ‘ وہ اس میں شریک ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ : اب اس کا کچھ بھی حق باقی نہیں ۔ یہ اقوال امام احمد اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کے مذاہب میں موجود ہیں ۔ پس رافضی جس نے اس کا انکار کیا ہے ؛ وہ جمہور اہل سنت کے مذہب کے خلاف کہہ رہا ہے۔ دوسری بات :....رافضی نے اس قول کے نقل کرنے میں جھوٹ بولا ہے ۔ اس نے کہا ہے : ’’ اگروہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں تو مالک ظالم ہوگا۔‘‘اس لیے کہ اگر مالک متأول ہو‘اور اس قول کے علاوہ کسی دوسرے قول پر اعتقاد نہ رکھتا ہوتو وہ ظالم نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی اس کے لیے لڑائی کرنا جائز ہے ۔ بلکہ جب ان دونوں کے درمیان تنازع پیدا ہوجائے تو انہیں
Flag Counter