Maktaba Wahhabi

255 - 645
درمیان میں ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باب میں بھی غالی اور جافی [جفاکرنے والے ] کے درمیان میں ہیں ۔ نہ ہی صحابہ کرام کی شان میں غلو کرتے ہیں جیسے رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلوکرتے ہیں [ان کے بعض لوگ حضرت علی کو رب مانتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ آپ نبی تھے ] اور نہ ہی خوارج کی طرح آپ کو کافر کہتے ہیں ۔ایسے ہی حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے باب میں بھی خوارج اور روافض کے درمیان میں ہیں ۔ نہ ہی خوارج کی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں او رنہ ہی روافض کی طرح حضرت ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو کافر کہتے ہیں ۔ [رافضیت کی ابتداء]: آٹھویں وجہ :....ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ : شیعہ کا کوئی ایک قول بھی ایسا نہیں ہے جس پر ان تمام کا اتفاق ہوا ہو۔ شیعہ مصنف نے جو قول ذکر کیا ہے وہ امامیہ شیعہ کا قول ہے۔پھر امامیہ میں بھی ایسے گروہ ہیں جو ان سے توحیداورعدل میں اختلاف رکھتے ہیں ۔جیسا کہ اس سے پہلے انکے بارے میں بیان ہوچکا۔ جمہور شیعہ بارہ اماموں کے بارے میں امامیہ اثنی عشریہ کے خلاف ہیں ۔ پس زیدیہ ؛ اسماعیلیہ اور کچھ دوسرے گروہ بارہ ائمہ کی امامت کے منکر ہونے پر متفق ہیں ۔ ٭ لوگوں کے عقائد پر لکھنے والے علماء فرماتے ہیں : ’’ شیعہ تین قسم کے ہیں : انہیں شیعہ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ [اپنے تئیں ] حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیروکار ہیں ‘ اور آپ کو باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ غالیہ کہلاتا ہے ۔ ان کا یہ نام اس وجہ سے رکھاگیا ہے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرتے ہیں اور ان کے بارے میں بہت ہی غلط قسم کے عقائد رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ آپ کو رب مانتے اور بعض نبی مانتے ہیں ۔ پھر ان کی بھی کئی ایک اقسام ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ نصیریہ کا ہے ۔ اور شیعہ کا دوسرا گروہ رافضہ کا ہے۔ علامہ اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ان میں سے ایک گروہ کا نام رافضی پڑ گیا ؛ اس لیے کہ یہ لوگ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت و امامت کا انکار کرتے تھے ۔‘‘ [المقالات ۱؍ ۶۵] میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے : ان کا نام رافضی اس وقت پڑا جب انہوں نے حضرت زید بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہم کا ساتھ اس وقت چھوڑ دیا جب آپ نے خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں کوفہ میں خروج کیا تھا۔ امام اشعری نے یہ بھی ذکر کیا ہے ؛ او ردوسرے علماء نے بھی ذکر کیا ہے۔ [المقالات ۱؍ ۱۲۹] کہتے ہیں کہ : [شیعہ کے ایک گروہ کانام]زیدیہ اس وجہ سے پڑگیا کہ انہوں نے حضرت زید بن علی رحمہ اللہ کی بات کو پکڑے رکھا۔ ہشام بن عبد الملک کے ایام حکومت میں کوفہ میں حضرت زید رحمہ اللہ کی بیعت کی گئی تھی۔ اس وقت کوفہ کا امیر یوسف بن عمر ثقفی تھا۔ حضرت زید رحمہ اللہ [اپنے پردادا ]علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو باقی تمام صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ؛ مگر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے۔ آپ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو جائز سمجھتے تھے۔ جب کوفہ میں
Flag Counter