Maktaba Wahhabi

297 - 645
نے ابو جعفر کا نام باقر تجویز کیا تھا۔ اہل علم کے ہاں کسی بھی ایسی روایت کی کوئی خبر نہیں ملتی۔بلکہ اس کا شمار من گھڑت روایات و حکایات میں ہوتا ہے۔ یہی حال حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب سلام پہنچانے والی روایت کا ہے۔ یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے۔ لیکن اس راوی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دیگر چند روایات نقل کی ہیں ۔جیسے کہ غسل اور حج کی احادیث ؛ اور ان کے علاوہ دیگر بھی کئی ایک صحیح احادیث منقول ہیں ۔ آپ اپنے والد علی بن حسین کے ساتھ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت تشریف لے گئے جب وہ نابینا ہوچکے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے ۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا تھا۔ اوراس کے ساتھ ہی صحابہ کرام میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما ابو سعید ؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی روایات نقل کی ہیں ۔ ان کے علاوہ سعید بن المسیب ؛محمد بن الحنفیہ ؛ وعبید اللہ بن ابی رافع منشی حضرت علی؛ ابو اسحق ہمدانی؛ عمرو بن دینار زہری ؛ عطا ء ابن ابی رباح؛ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن رحمہم اللہ سے بھی کسب فیض کیا ہے۔ امام اعرج عمر میں آپ سے بڑے تھے۔ ان کے بیٹے جعفر ؛ ابن جریج ؛ یحی بن ابی کثیر اور اوزاعی وغیرہ۔ رحمہم اللہ ۔سے بھی کسب علم کیا ہے ۔ جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی مدح و ستائش: جعفر الصادق رحمہ اللہ اہل علم و دین کے بہترین لوگوں میں سے تھے ۔ آپ نے اپنے دادا سے کسب فیض کیا ؛ ان کی والدہ ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ تھیں ۔ان کے علاوہ محمد بن المنکدر ؛ نافع مولی ابن عمر؛ زہری؛ عطاء ابن ابی رباح ؛ اور دوسرے تابعین کرام رحمہم اللہ سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ سے یحی بن سعید الانصاری ؛ مالک بن انس ؛ سفیان ثوری ؛ سفیان بن عیینہ ؛ ابن جریج ؛ یحی بن سعید القطان ؛ حاتم بن اسماعیل؛ حفص بن غیاث؛ محمد ابن اسحق ابن یسار رحمہم اللہ نے کسب فیض اور نقل علم کیا ہے۔ عمرو ابن ابو المقدام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب میں امام جعفر بن محمد رحمہ اللہ کو دیکھتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ آپ انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔‘‘[1] [اشکال ]:شیعہ مصنف آپ کی بابت کہتا ہے : ’’آپ حکومت طلبی کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے ۔‘‘ [جواب]:یہ امامیہ کے اقوال میں تناقض کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک امامت کا بوجھ برداشت کرنا امامت کے واجبات میں سے ہے۔ آپ کے زمانے میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا امام بھی نہیں تھا ۔ اگر اس عظیم الشان امر کو ادا کرنا واجب تھا تو پھر اس کے حقوق پورے کرنا نفل عبادت میں مشغول ہونے سے زیادہ اولی تھا۔ [اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’جعفر بن محمد نے امامیہ کی فقہ اور عقائد و معارف کو خوب پھیلایا۔‘‘
Flag Counter