Maktaba Wahhabi

300 - 645
فصل: ....علی بن موسی الرضا[1] [اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علی بن موسیٰ الرضا اپنے زمانے میں سب سے بڑے عالم و زاہد تھے۔آپ سے جمہور فقہاء نے علم روایت کیا ہے۔مامون نے آپ کو آپ کے علم و فضل اور کمال کی وجہ سے والی بنالیا تھا۔ایک دن آپ نے اس کے بھائی زید کو وعظ کیا ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے زید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے جب خون بہایا جائے ‘ اور ناحق اور حرام طریقہ سے مال چھینا جائے اور راستوں کو پر خطر بنادیا جائے۔اور اہل کوفہ کے بیوقوف آپ کو دھوکہ میں مبتلا کر دیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی ؛ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو جہنم پر حرام کردیا ہے ۔‘‘اور ایک روایت میں ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا نام کیوں رکھا؟ آپ نے فرمایا: ’’ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو جہنم کی آگ سے آزاد کردیا تھا۔اور یہ عفت و پاکدامنی ان کے اولاد کے لیے جہنم کی آگ پر حرام ہونے کا سبب ہے ؛ اور تو ان پر ظلم کررہا ہے ۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے یہ مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے حاصل کیا ہے؛ اورتم یہ مقام اللہ کی نافرمانی سے حاصل کرنا چاہتے ہو جو انہوں نے اسکی فرمانبرداری سے حاصل کیا ہے۔ ’’مامون نے درہم اور دینار پر آپ کا نام لکھنا شروع کیا ؛ اور ملک کے ہر کونے میں آپ کی بیعت کے لیے آڈر جاری کیا اور کالے لباس اتار کر سبز لباس پہننے کا حکم دیا۔‘‘ کہتے ہیں : ابو نواس سے کہا گیا کہ : تم رضا کی مدح میں قصیدہ گوئی کیوں نہیں کرتے؟ تو اس نے کہا: ’’مجھ سے کہا جاتا ہے تم تازہ اور شیرین اور فی البدیہ کلام میں بہترین انسان ہو؛ تمہارے کلام سے نایاب قسم کے موتی ا و رجواہر نکلتے ہیں ۔ تو تم ابن موسی کی تعریف کیوں نہیں کرتے؛ اوران کے خصائل کیوں نہیں بیان کرتے۔ تو میں نے کہا : ’’ میں اس امام کی مدح نہیں کرسکتا جس کے بابا کا خادم حضرت جبریل علیہ السلام ہوں۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:واقعہ یہ ہے کہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے متعلقین جن مصائب و آلام میں مبتلا ہوئے ان میں سے شیعہ کا آپ کی طرف منسوب ہونا ہے۔ شیعہ نے ان کی مدح و ستائش میں حد درجہ مبالغہ آمیزی سے کام لینا شروع کیا۔
Flag Counter