Maktaba Wahhabi

314 - 645
تو یہ اس سے کم پر محمول کرنے کی نسبت سے زیادہ اولی ہوگا۔اس لفظ میں اس سے زیادہ کا بھی احتمال ہے ۔ لیکن شریعت میں مسلمان نفس کی دیت اسی مقدار میں رکھی گئی ہے ؛ اور شریعت میں مسلمان نفس کی دیت زیادہ مال ہی ہوسکتی ہے [چند ٹکے نہیں ]۔ جب خلیفہ ’’کثیر ‘‘ کا لفظ استعمال کرے تو اس اطلاق اتنی مقدار پر ہوگا جس پر عام لوگوں کے اس لفظ کے استعمال کرنے سے اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ اس لیے کہ اگر ہزار درہم رکھنے والا یوں کہے کہ فلاں کو کافی سارے دراہم دیدو ؛ تو اس سے مراددس ؛ بیس دراہم بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہ تمام باتین حالات کے اعتبار سے ہوتی ہیں ۔ اس لیے کہ کم اورزیادہ ہونا اضافت اور نسبت کے اعتبار سے ہے ۔ جیسے کہ لفظ عظیم وغیرہ۔ لوگوں کے اختلاف کے لحاظ سے ان کلمات کے اطلاق میں موقع و مناسبت کی طرح اختلاف ہوتا ہے۔ اور جو حکایت مسعودی سے ذکر کی گئی ہے ‘ وہ منقطع الاسناد ہے۔ تاریخ مسعودی میں اتنی جھوٹی روایات ہیں جن کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ تو پھراس کی بیان کردہ ایسی حکایت کو جس کی کوئی سند ہی نہ ہو ؛کیسے معتبر سمجھا جاسکتا ہے ؟ مسعودی جھوٹی روایات ذکر کرنے میں معروف ہے۔اور اس کے ساتھ ہی اس حکایت میں کوئی فضیلت کی بات بھی نہیں ‘ اس لیے عام مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس سے زیادہ فہم و دانست اور علم رکھتے ہیں ۔ حسن عسکری رافضی مصنف کا یہ قول کہ : ’’ اس کا بیٹا حسن عسکری اپنے زمانہ میں بہت بڑا عالم و فاضل ؛ عابد و زاہد تھا ۔اور ان سے عوام الناس نے بہت بڑی مقدار میں احادیث روایت کی ہیں ۔‘‘ یہ دعوی بھی اس سے پہلے کے دعوی کی طرح محض ایک جھوٹ اورفقط دعوی ہی ہے۔کیونکہ حسن بن علی عسکری کے زمانہ میں جو محدثین احادیث روایت کرنے میں مشہور تھے ‘ ان سے کوئی ایک روایت بھی کسی معتمد محدث کی کتاب میں جیسے امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی؛ ابن ماجہ اورامام نسائی وغیرہ کے ہاں ؛ایسی نہیں ملتی جس کی سند حسن عسکری سے ملتی ہو۔ یہ لوگ اس زمانے میں موجود تھے ؛ یا اس کے قریب قریب تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد میں ہوگزرے ہیں ۔ حافظ ابو القاسم بن عساکر رحمہ اللہ نے ان تمام محدثین کے شیوخ کی روایات جمع کی ہیں ۔ان ائمہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے حسن بن علی عسکری سے کوئی ایک بھی روایت نقل کی ہو‘ حالانکہ انہوں نے ہزاروں علماء و محدثین سے روایات نقل کی ہیں ۔تو پھر یہ دعوی کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ عامۃ الناس نے آپ سے روایات نقل کی ہیں ۔ اور یہ دعوی کہ:’’ آپ اپنے زمانہ میں افضل ترین انسان تھے۔‘‘ یہ بھی اس سے پہلے دعو ی کی طرح صرف دعوی ہی ہے ۔
Flag Counter