Maktaba Wahhabi

37 - 645
رہا ’’مالا یطاق‘‘ تو علماء نے اس کی دو تفسیریں بیان کی ہیں ۔ یا تو وہ امر اُس سے عاجز ہونے کی وجہ سے ’’لا یطاق‘‘کہلائے گا۔ تو ایسے کسی کام کا رب تعالیٰ نے بندوں کو سرے سے حکم ہی نہیں دیا۔ یا اس امر کی ضد میں استغال کا نام ’’لا یطاق‘‘ہے۔ تکلیف ایسے امر میں دی جاتی ہے۔ جیسا کہ بندوں کا ایک دوسرے کو امر دینا۔ اہلِ سنت ان دونوں قسموں میں فرق کرتے ہیں ۔ لہٰذا کوئی اپنے نابینا غلام کو عبادت پر نقطے لگانے کو نہ کہے گا۔ البتہ مثلاً بیٹھے ہوئے کو کھڑے ہونے کا امر ضرور کر دیا کرتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں فرق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ ان کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے، اور حسبِ موقع اس کے نکتے بھی بیان کر دیے ہیں ۔ اسی طرح یہ قول کہ: ’’اللہ نے کافر میں ایمان کی قدرت پیدا نہیں کی۔‘‘ یہ جمہور اہلِ سنت کا قول نہیں ۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں : اللہ نے اس میں تکلیف میں مشروط اس قدرت کو پیدا کر دیا ہوا ہے۔ بو امر و نہی کو درست کرنے والی ہے۔ جیسا کہ بندوں میں ہے کہ جب وہ ایک دوسرے کو حکم دیتے ہیں ۔ اس بارے جو قدرت پائی جاتی ہے، وہ اللہ کے بندوں کو امر دینے میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ اللہ کا تکلیف دینا زیادہ آسانی والا ہے اور حرج کی وجہ سے ’’تکلیف کا رفع زیادہ بڑا ہے، اور لوگ ایک دوسرے اس سے بھی بڑی بات کی تکلیف دیتے ہیں ، جس بات کی اللہ اور رسول نے لوگوں کو تکلیف دی ہے۔ اس پر بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تکلیفِ بالا یطاق ہے۔ جو بھی ملوک و سلاطین کے خدام کے احوال میں غور کرتا ہے جو ان کی خدمت و طاعت میں لگے رہتے ہیں ، تو وہ انہیں رب کی عبادت میں لگے بندوں سے بھی زیادہ محنت و مشقت کرتا پائے گا۔ فصل:....تقدیر کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ تقدیر کے بارے میں اہلِ سنت کے عقیدہ پر رافضی کا کلام، حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کا لا جواب ہونا اور ان کی دلیل کا ختم ہونا، اور اس باب میں اور رافضی کا رد۔ [شبہ ] رافضی کہتا ہے: ’’اور ان میں سے ایک انبیاء کا لا جواب ہونا، اور ان کی حجت نہ رہنا بھی ہے۔ کیونکہ نبی علیہ السلام جب کسی کافر کو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لے آ اور میری تصدیق کر، اور وہ جواب میں یہ کہتا ہے: اسی سے جس نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، یہ کہہ کہ وہ مجھ میں ایمان پیدا کر دے یا مجھ میں ایمان لانے کی قدرتِ مؤثرہ پیدا کر دے تاکہ میں ایمان پر قدرت پا سکوں اور تجھ پر ایمان لے آؤں ۔ وگرنہ تو مجھے ایک ایسی بات کا مکلف کیونکر بناتا ہے جس پر میری قدرت ہی نہیں ؟ بلکہ اس نے مجھ میں کفر کو پیدا کیا ہے، اور میں رب تعالیٰ پر قاصر آنے پر قادر نہیں تب پھر یقیناً وہ نبی دلیل سے خالی ہو جائے اور جواب نہ دے پائے گا۔‘‘ [جواب:] رافضی کی اس بات کا جواب یہ ہے کہ: اس مقام میں اکثر لوگوں نے دخل اندازی کی ہے۔ چنانچہ جب کسی کو اس کے ذمے واجب امر کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ کنی کترانے کے لیے تقدیر کو آڑ بناتا ہے اور کہتا ہے کہ: تب کروں گا
Flag Counter