Maktaba Wahhabi

371 - 645
باندھا جائے ۔ ان حضرات کی مرادیہ تھی کہ : حج کے لیے علیحدہ سفر کیا جائے اور عمرہ کے لیے علیحدہ سفرکیا جائے۔ وگرنہ نہ ہی ان دونوں حضرات نے اپنے گھر سے احرام باندھا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا اورنہ ہی آپ کے خلفاء راشدین میں سے کسی ایک نے ایسے کیا۔ ٭ جب امام اپنی رعیت کے لیے کسی افضل چیز کو اختیار کرے ؛ تو اس صورت میں کسی بات کا حکم دینا گویاکہ اس کی ضد [ الٹ ]سے منع کرنا ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حج تمتع سے منع کرنا افضل کے اختیارکرنے کے لحاظ سے تھا تحریم کے لیے نہیں تھا۔ آپ نے یہ بھی نہیں فرمایا تھا: ’’ میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں ‘‘جیسا کہ رافضی نے نقل کیا ہے ۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا: ’’ میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں ۔‘‘پھر حج تمتع سے منع کرنا بھی اس لیے تھا کہ لوگ افضل چیزکو اختیار کریں تحریم کے لیے یہ ممانعت نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے تو حج کو عمرہ سے فسخ کرنے سے منع کیا تھا۔ ٭ بہت سارے فقہاء کے نزدیک فسخ حرام ہے۔یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے۔امام ابو حنیفہ ‘امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ فسخ کو حرام کہتے ہیں ۔لیکن امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے فقہاء حدیث فسخ کو حرام نہیں کہتے؛ بلکہ اسے مستحب کہتے ہیں ‘ اور بعض اسے واجب قرار دیتے ہیں ۔اور اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں لیتے۔ بلکہ اس مسئلہ میں حضرت علی ‘ حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا قول اختیار کرتے ہیں ۔ [متعہ کا مسئلہ]: ٭ ایسے ہی عورت سے متعہ کرنا بھی متنازع فیہا مسائل میں سے ایک ہے۔آیت کریمہ میں اس کے حلال ہونے کے متعلق نص صریح نہیں پائی جاتی۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے: ﴿وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾۔[النساء ۲۳] ’’ ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعہ حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو۔ پھر ان میں سے جن سے تم (نکاح کا)لطف اٹھاؤتو انہیں ان کے مقررہ حق مہر ادا کرو۔ ہاں اگر مہر مقرر ہوجانے کے بعد زوجین میں باہمی رضا مندی سے کچھ سمجھوتہ ہوجائے تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ ٭ اس آیت میں یہ قول: ﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُن﴾’’پھر ان میں سے جن سے تم لطف اٹھاؤ‘‘یہ تمام مدخول بہا
Flag Counter