Maktaba Wahhabi

396 - 645
گیارھویں وجہ :....شیعہ کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ظالم بادشاہوں کی عادت رہی ہے کہ وہ جب ان دوسرے لوگوں کے بعد اقتدار میں آجاتے ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ احسان کیا ہو‘اور ان کی اچھی تربیت کی ہو‘ اور انہوں نے اس گھرانے سے بادشاہی چھین لی ہو؛ تووہ اس متاثرہ گھرانے کے ساتھ مہربانی اور نرمی کا سلوک کرتے ہیں ‘ اور انہیں عطیات سے نوازتے ہیں تاکہ انہیں اس منازعت[تنازعہ ] سے روک سکیں ۔[اور انہیں کچھ دیکر خاموش کرادیں ]۔ اگر شیعہ کا یہ مفروضہ تسلیم کر لیا جائے کہ۔العیاذ باللہ ۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ظالم و غاصب تھے، اور انہوں نے جبراً خلافت پر قبضہ جما لیا تھا تو اس کا تقاضا تھا کہ وہ ان ورثاء سے مزاحم نہ ہوتے جو خلافت و امامت کا استحقاق رکھتے تھے، بلکہ خلافت کے دعوی سے دور رکھنے کے لیے انہیں من مانی دولت عطا کر دیتے تاکہ وہ حکومت و خلافت کا مطالبہ نہ کریں ۔جب کہ حکومت بھی چھین لینا اورمیراث بھی کلی طور پرروک لینا بادشاہوں کی سیرت میں ایسی کوئی بات معلوم نہیں ہوسکی؛ اگرچہ وہ سب سے ظالم اور فاسق و فاجر حکمران ہی کیوں نہ ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ جوکچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا گیا ہے وہ بادشاہوں اور حکمرانوں کی عادت و طبیعت سے خارج امر ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مؤمنین کی عادات شرعیہ سے بھی خارج ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس معاملہ میں خاص کیا ہوا تھا یہ خصوصیت دوسرے حکمرانوں کے نصیب میں نہیں آئی۔ آپ کی خصوصیت نبوت تھی ؛ او رانبیاء کرام علیہم السلام وراثت نہیں چھوڑا کرتے ۔ انبیاء کی میراث: بارھویں وجہ :....شیعہ قرآن کریم کی آیت: ﴿ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤٗدَ ﴾’’ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے ‘‘ نیز :﴿فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّاo یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْب﴾ [مریم۵۔۶] ’’پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما۔جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب علیہ السلام کے خاندان کا۔‘‘ [ان مذکورہ بالاآیات ]سے انبیاء علیہم السلام کی وراثت پر استدلال کرتے ہیں ۔حالانکہ ان کا دعوی اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ’’ ورثہ ‘‘ اسم جنس ہے اور اس کے تحت متعدد انواع ہیں ۔ اور ایک عام چیز کا ذکر کرنے سے کسی خاص چیز کا ذکر لازم نہیں آتا۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ یہاں حیوان موجود ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں انسان یا گھوڑا یا اونٹ موجود ہے ۔ بعینہ اسی طرح ورثہ کا لفظ میراث علم و نبوت اورملوکیت اور مادی وراثت پر بولا جاتا ہے، مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں : ﴿ ثُمَّ اَوْرَثنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَامِنْ عِبَادِنَا ﴾ (فاطر:۳۲) ’’پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس)کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں پسند فرمایا۔‘‘ نیز فرمانِ الٰہی ہے: ﴿اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ٭الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ﴾ [المؤمنون] ’’وہ ہی ہیں میراث لینے والے۔جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
Flag Counter