Maktaba Wahhabi

423 - 645
جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔بنا بریں یہ ثابت ہوا کہ تطہیر کا ارادہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ شخص فی الواقع پاک بھی ہو جائے۔ شیعہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی کسی کو پاک کرے بلکہ اﷲتعالیٰ جس کو پاک کرنا چاہتے ہیں اگر وہ چاہے تو اپنے آپ کو پاک کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ شیعہ کے نزدیک اﷲتعالیٰ کسی کی تطہیر پر قادر نہیں ہے۔ [صدقات اوربنی ہاشم]: [اشکال ]:شیعہ مصنف کا یہ قول :’’بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے۔‘‘ [جواب] :ہم کہتے ہیں کہ: صرف فرض صدقات بنی ہاشم پر حرام ہیں ۔ نفلی صدقات مباح ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بنی ہاشم وہ خیراتی پانی پی لیا کرتے تھے جو مکہ و مدینہ کے مابین تقسیم کیا جاتا تھا۔ اور کہا کرتے تھے کہ فرضی صدقات ہم پر حرام ہیں نفلی صدقات نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب بنی ہاشم اجنبی لوگوں کے نفلی صدقات سے متمتع ہو سکتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات سے نفع اندوز ہونا ان کے لیے بالاولیٰ روا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مال زکوٰۃ نہ تھا جسے لوگوں کی میل کچیل کہا گیا ہے، اور جو بنی ہاشم پر حرام ہے۔ بلکہ یہ وہ مال تھا جو کسی جہاد و قتال کے بغیر صلح کے نتیجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔ یہ بنی ہاشم کے لیے حلال تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب مال صدقہ کردیا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آپ کی ملکیت تھا اور آپ صدقہ کے طور سے اسے مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے اقارب صدقہ کے زیادہ مستحق تھے کیوں کہ صدقہ مسلمانوں کے حق میں صرف صدقہ ہے اور اقارب کے حق میں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔[1] نویں وجہ :....شیعہ قلم کار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت پر جو معارضہ کیا ہے ۔‘‘ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کسی غیر کے حق کا دعویٰ نہیں کیا تھا جو اس سے چھین کر ان کو دیا جائے۔ ان کا مطالبہ بیت المال سے تھا جو حاکم بآسانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے بغیر بھی پورا کر سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کرنے کی صورت میں حاکم کے لیے اس مطالبہ کی تکمیل اولیٰ بالجواز ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں گواہ کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص آتا ہے اوروہ بیت المال کی کسی زمین پر دعوی کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے۔تو امام کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ بغیر شرعی حجت [اورگواہی ] کے وہ زمین بیت المال کے قبضہ سے نکال کر اس کو دیدے۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا انسان آتا ہے ‘ اس کا کوئی ایسا دعوی تو نہیں ‘ مگروہ بیت المال میں سے جو مال مسلمانوں میں تقسیم ہونے کے لیے موجود ہے ‘ اس سے میں سے کچھ بغیر دعوی کے طلب کرتاہے ۔تو ایسے انسان کے لیے جائز ہے کہ بغیر گواہی کے بھی اس کی طلب پوری کردی جائے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات اوقاف ہیں ۔ اور آپ کے علاوہ باقی مسلمانوں کے
Flag Counter