Maktaba Wahhabi

473 - 645
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔مگر صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے ۔[دوران گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے]، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :’’زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں ۔‘‘ فرمایا:’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔‘‘ [1] جب یہ اصول ہے؛ او ر پھر یہ ثابت ہوجائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت عمار رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا صحابی اگرکسی دوسرے صحابی کو کافر سمجھے؛ مثلاً : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صحابی کو ؛ اور تأویل کی بنا پر اس کو قتل کرنا جائز سمجھے ؛ تو اس کا شمار بھی مذکورہ بالا تاویل کے باب سے ہوگا۔ اور یہ بات ان میں سے کسی ایک کے ایمان پر بھی قادح نہیں ہوگی۔ او رنہ ہی اس سے کسی کے اہل جنت ہونے میں کوئی فرق آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ۔حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی بہت بڑی ہے ؛ جب آپ کی یہ غلطی معاف کردی گئی ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی غلطی بالاولی مغفرت کی مستحق ہے۔ جب یہ جائز ہے کہ حضرت عمر او رحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما جیسے انسان کفر کا حکم لگانے اور مباح الدم سمجھنے میں اجتہاد کرسکتے ہیں ‘ اگرچہ یہ اجتہاد حقیقت واقع کے مطابق نہ بھی ہو؛ تو پھر اس قسم کے اجتہاد کا حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس قسم کے اجتہاد کا ہونا زیادہ اولی ہے ۔ [بڑے آدمی کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ]: چوتھی بات:....ان سے کہا جائے گا: ’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت منقول ہے ؛ اگر یہ صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس میں دو احتمال ہیں : یا تو آپ کی رائے درست ہوگی ؛ یا غلط ۔ اگر آپ کی رائے درست ہے ؛ تو پھر اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برائیوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے ۔اور اگر آپ کی یہ رائے غلط ہے تو پھر اسے سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی برائیوں میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے ۔ [ان روایات کی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter