Maktaba Wahhabi

487 - 645
ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کی نسبت اقرب الی الحق تھی۔اہل سنت و الجماعت علم کی روشنی میں عدل و انصاف کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرتے ہیں ۔ [ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نصرت پر رافضی کا تعجب]: [اشکال ]: شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرا ہوئیں تو دس ہزار مسلمان آپ کی تائید و نصرت کے لیے تیار ہو گئے۔ اور جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنا حق طلب کرنے کے لیے گئیں تو کسی ایک شخص نے بھی آپ کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں : واضح رہے کہ یہ دلیل شیعہ کے حق میں مفید ہونے کے بجائے انکے سخت خلاف ہے [ اور ان پر ایک بڑی حجت ہے]۔ کوئی سلیم العقل آدمی اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھتا کہ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے ؛ اسی لیے آپ کی بھی تعظیم کرتے تھے اور آپ کے قبیلہ اوربیٹی کی بھی تعظیم کرتے تھے ۔ آپ کے اقارب خصوصاً آپ کی دختر نیک اختر کا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سب سے زیادہ احترام کرتے تھے؛اگر آپ رسول نہ بھی ہوتے۔ توپھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘اور لوگوں کو اپنی جان و مال آل و اولاد سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ یہ امر بھی کسی بھی عاقل کے لیے شک و شبہ سے بالا ہے کہ عرب جاہلیت و اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ بنی عبد مناف کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی تیم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی عدی سے زیادہ مطیع فرمان تھے اور ان کی تعظیم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو ان کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ تو اس نے کہا : بہت بڑا حادثہ پیش آگیا۔ آپ کے بعد کون خلیفہ بنا؟ لوگوں نے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔تو ابو قحافہ نے پوچھا: کیا بنو مخزوم اور بنو عبد شمس رضا مند ہیں ؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں ! ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’یہ خاص عنایت ایزدی ہے۔‘‘ [طبقات ابن سعد(۳؍۱۸۳)] یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت ہوئی تو ابوسفیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے اور کہا: ’’ تمھیں یہ بات پسند ہے کہ خلا فت بنو تیم میں ہو؟‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا: ’’ ابوسفیان! اسلام کا معاملہ جاہلیت سے مختلف ہے ۔‘‘ [سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مظلوم نہ تھیں ]: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی ایک بھی مسلمان نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مظلوم نہیں سمجھا ۔ اور نہ ہی کسی نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ کہا کہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے پاس کوئی حق ہے ‘اور نہ ہی ان دونوں حضرات کو ظالم تصور کیا تھا۔کسی مسلمان نے اس بابت ایک لفظ تک زبان پر نہیں لایا۔ بفرض محال اگر مسلمان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی امداد سے قاصر تھے تو آخر بات کرنے میں کیا حرج تھا؟ تو یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ لوگ جانتے تھے کہ آپ پر ظلم نہیں ڈھایا گیا تھا۔اس لیے کہ اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ آپ مظلوم ہیں تو آپ کی
Flag Counter