Maktaba Wahhabi

531 - 645
ہوسکتا ہو تو قتال جائز نہیں رہتا۔ اگر کسی ایک ایسے کے قتل سے بغاوت کا قلعہ قمع ہو سکتا ہو جس پر قدرت پالی گئی ہو ؛ یا حد قائم کرکے؛ یا کسی کو سزا دیکر ایسا ممکن ہو؛ جیسا کہ چور کے ہاتھ کاٹ کر ؛ یا ڈاکو کو سزا دیکر؛ یا پھر تہمت لگانے والے پر حد قائم کرکے ؛ تو پھر اس صورت میں قتال جائز نہیں رہتا۔ اور اکثر طور پر فتنہ تب واقع ہوتا ہے جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرتا ہے۔ جب بغیر قتال کے مظلوم کو اس کا حق دلوانا ممکن ہو تو پھر قتال جائز نہیں ہوتا۔ اس آیت مبارکہ میں کہیں بھی ایسا کچھ بھی نہیں کہ اگر کوئی گروہ کسی عادل حکمران کی بیعت کرنے سے انکار کردے تو اس سے قتال کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگرچہ انہیں امام کی اطاعت ترک کرنے کی وجہ سے باغی کہا جا رہا ہو۔ ایسا ہر گز نہیں کہ جو کوئی امام کی بات نہ مانتا ہو اس سے جنگ کی جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکواۃ سے جنگ اس لیے کی تھی کہ وہ زکواۃ بالکل ہی ادا نہیں کرتے تھے۔ تو کتاب و سنت کی روشنی میں ان سے جنگ کی گئی۔ ورنہ اگروہ اس کی ادائیگی کو تسلیم کرتے؛ اور یہ کہتے کہ : ہم آپ کو نہیں دیں گے؛ تو پھر ان سے جنگ جائز نہ ہوتی۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے۔ ان لوگوں کا یہ مسئلہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث عمار رضی اللہ عنہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے؛کہ بیشک حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ نے قتل کیا۔ ان کے لیے حضرت علی سے جنگ کرنا جائز نہ تھا۔ اور نہ ہی آپ کی بیعت اور اطاعت سے لیت و لعل کرنا جائز تھا۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان سے قتال کے لیے مامور بہ نہ تھے۔ اور نہ ہی صرف آپ کی اطاعت گزاری سے گریز کرنے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان سے جنگ کرنا فرض ہوگیا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ شرائع اسلام کا التزام کرتے تھے۔ اگرچہ ہر دو لڑنے والے گروہ متأول ؛ مسلمان اور اہل ایمان تھے۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے اس فرمان الٰہی کی روشنی میں استغفار اور دعائے رحمت کی جائے گی : ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر۱۰) ’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دل میں کہیں (بغض )نہ ڈال؛اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘ فصل:....حضرت امیر معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر اعتراض [ساتواں اعتراض]: [شیعہ مصنف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ] کہتا ہے :’’ [اہل سنت]آپ کو کاتب وحی کہتے ہیں ؛حالانکہ اس نے وحی کا ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔‘‘ [جواب ]: مصنف کا یہ قول جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔[ اس کے دیگر دعووں کی طرح یہ بھی کذب صریح
Flag Counter