Maktaba Wahhabi

608 - 645
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ سے روایت ہے؛ فرمایا : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن ایک صاحب کو مسجد میں دیکھا کہ اپنا کپڑا ایک کونے میں پھیلا رہے تھے ۔ انہوں نے کہا دیکھو یہ کون صاحب ہیں ؟ کاش ! یہ میرے قریب ہوتے ۔ ایک شخص نے کہا اے ابوعبدالرحمن !کیا آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟ یہ محمد بن اسامہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ابن دینار نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے ہاتھوں سے زمین کریدنے لگے پھر بولے:’’ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھتے تو یقیناً آپ ان سے محبت فرماتے ۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی محبت میں جمع کیاہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں حضرات سے محبت کرے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں سے انفرادی محبت بھی بڑی معروف تھی۔ یہ دونوں حضرات ان جنگوں میں قتال کی رائے نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ صفین کے موقع پر قتال سے الگ تھلگ رہے۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی مل کر جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ [شہادت حسین رضی اللہ عنہ اور اہل سنت کا مؤقف ] حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد اور بھائی کو ہمیشہ جنگ ترک کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔پس جب معاملہ آپ کے ہاتھ میں آیا تو آپ نے قتال ترک کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے دو بڑے لڑنے والے گروہوں کے مابین آپ کے ذریعہ سے صلح کرادی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ واضح ہوا کہ جنگ ترک کرنے میں جو مصلحت تھی؛ وہ جنگ کرنے سے زیادہ بڑی اوراہم تھی۔ ایسے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی صرف اورصرف مظلومیت کی حالت میں شہید کیا گیا۔آپ نے امارت کا مطالبہ ترک کردیا تھا؛ اور آپ واپس جانا چاہتے تھے؛ یا تو اپنے شہر کی طرف چلے جائیں ؛ یا محاذ جہاد کی طرف ؛ یا پھر لوگوں پر والی یعنی یزید کی طرف۔ جب کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ : بیشک حضرت علی اورحضرت حسین رضی اللہ عنہما نے آخری مرحلہ میں عاجز آجانے کی وجہ سے قتال ترک کردیا تھا؛ اس لیے کہ آپ کے اعوان و انصار باقی نہیں رہے تھے۔تو اب جنگ لڑنے میں بلاوجہ اور بغیر کسی مصلحت کے حصول کے نفوس کو قتل کروانا تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بعینہ وہ حکمت ہے جس کی رعایت شارع علیہ السلام نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کرنے میں مد نظر رکھی ہے۔اور آپ نے فتنہ کے دور میں قتال ترک کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے والوں کی رائے میں ان کا مقصود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے۔ جیسا کہ وہ لوگ جنہوں نے حرہ میں یزید کے خلاف اور دیرہ جماجم میں حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا۔ لیکن برائی ایسے ہی باقی رہی ؛ بلکہ پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی۔ پس اس
Flag Counter