Maktaba Wahhabi

127 - 702
اور ہویٰ پرستی میں حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ شیعہ مصنفین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے اکثر اقوال صریح کذب کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔مگر وہ اپنے اقتدار و اختیار کو باقی رکھنے کے لیے ایسی کتابیں لکھتے رہتے ہیں ۔ ابن المطہر کا دامن بھی اس تہمت سے ملوث ہے۔ مگر اس نے یہ زحمت اپنے اتباع کو متاثر کرنے کے لیے گوارا کی ہے۔ اگر کوئی مصنف جانتا ہو کہ اس کی بات جھوٹ ہے اور اس کے باوجود اسے من جانب اﷲ حق قرار دیتا ہو تو وہ علماء یہود کی جنس میں سے ہے، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً فَوَیلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ وَ وَیلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾( البقرۃ:۷۹) ’’ایسے لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو کتاب تو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں ۔ پھر کہتے یہ ہیں کہ یہی اللہ کے ہاں سے ہے ۔ تاکہ اس سے تھوڑے سے دام لے سکیں ۔ ان کے ہاتھ کی تحریر بھی ان کے لیے بربادی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے ہلاکت کا سبب ہے۔‘‘ اور اگر وہ اسے حق سمجھتا ہے تو یہ اس کی جہالت و ضلالت کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔[بقول شاعر:] ’’اگر تمہیں اس کا علم ہے تو یہ بہت بڑی مصیبت ہے ۔ اور اس کا علم نہیں تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے۔‘‘ [شیعہ میں معتزلی اثرات ] شیعہ کے دین میں عقلیات اور شرعیات ہیں ۔عقلیات میں ان کے متا خرین معتزلہ کے پیروکار ہیں ۔ سوائے ان چند لوگوں کوکے جو اپنے تئیں فلسفی بننے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ پس ان کا کلام یا تو فلسفہ پر مشتمل ہوتا ہے یا پھر اس میں فلسفہ اور اعتزال کی آمیزش ہوتی ہے؛ اور اس کے ساتھ ان کی اپنی رافضیت بھی مل جاتی ہے ۔جیسا کہ اس کتاب ’’[ منہاج الکرامہ] ‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں کا حال ہے۔ اس وجہ سے شیعہ اللہ اور اس کے رسول اور عوام مسلمین سے سب لوگوں سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ جب کہ شرعیات میں ان کی بنیاد ان روایات پر ہے جو [ان کے تئیں ] اہل بیت سے منقول ہیں ۔ جیسے ابو جعفر الباقر ؛اور جعفر بن محمد الصادق اور دوسرے علماء [کی طرف منسوب روایات]۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سرداروں اورسرکردہ لوگوں میں سے اور ائمہ دین ہیں ۔اور ان کے اقوال کی بھی وہی عزت و احترام ہے جو ان جیسے دوسرے علماء کے اقوال کا ہے ۔ لیکن ان سے جو روایات نقل کی گئی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ پر مشتمل ہیں ۔ رافضیوں کو روایات کی اسانید کا کوئی علم و خبر نہیں ہوتے۔ اورنہ ہی وہ ثقہ اور ضعیف کے درمیان فرق کرسکتے ہیں ۔ بلکہ اس معاملہ میں وہ اہل کتاب کے مشابہ ہیں ۔یہ لوگ اپنی کتابوں میں اپنے اسلاف سے منقول جو بھی بات پاتے ہیں ‘ اسے قبول کرلیتے ہیں ۔ بخلاف اہل سنت والجماعت کے۔اہل سنت و الجماعت کو اسانید کا علم ہے جس کی بنا پر وہ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرسکتے ہیں ۔
Flag Counter