Maktaba Wahhabi

139 - 702
[مختلف اسلامی فرقوں کا انفراد] [وہ عقائد جن میں اسلام کی طرف منسوب فرقے اہل کلام ؛ اہل سنت سے جداگانہ نظریات رکھتے ہیں ] خوارج اور معتزلہ اور جھمیہ وہ اہل سنت و الجماعت سے کسی حق مسئلہ میں منفرد نہیں ہوتے؛ بلکہ ان کے پاس جتنا بھی حق موجود ہے؛ اہل سنت و الجماعت میں کسی نا کسی نے اس کا ضرور کہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ قلت ِ عقل اور کثرت ِجہالت کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچے جہاں تک رافضی پہنچے ہیں ۔ ایسے ہی اہل کلام اور اہل رائے میں سے جو مختلف فرقے اپنے آپ کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛مثلاً کلابیہ؛ اشعریہ؛ کرامیہ؛ سالمیہ ؛ اور جیسے فقہی گروہ؛ حنفیہ ؛ مالکیہ ؛سفانیہ ؛ اوزاعیہ ؛ شافعیہ ؛ حنبلیہ؛ اور داؤدیہ اور ان کے علاوہ دیگر فرقے۔ اہل سنت و الجماعت سے منقول مشہور اقوال کی تعظیم کے باوجود ؛ان میں کسی ایک فرقہ کا بھی کوئی انفرادی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں وہ امت سے جدا ہوں ؛اورحق ان کے ساتھ ہو۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس جو بھی حق اور صواب پایا جاتا ہے؛ وہ ان کے علاوہ دوسرے فرقوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے۔ ہاں کبھی ان میں سے کسی ایک کے ہاں کوئی ایسی انفرادی غلطی پائی جاتی ہے جو کسی دوسرے فرقہ میں نہیں پائی جاتی ۔ لیکن کبھی کسی ایک گروہ میں کوئی منفردانہ حق مسئلہ ایسا ہوتا ہے جس میں وہ دوسرے فرقوں سے مناظرہ و مباحثہ کرتے ہیں ۔ جیسے اہل مذاہب اربعہ ۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاں کچھ انفرادی مسائل ہوتے ہیں ۔ تو حق اور صواب اسی کے پاس ہوتا ہے جسے سنت سے تائید حاصل ہو؛ دوسرے تین کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن ان کا یہ قول ان کے علاوہ صحابہ وتابعین اور دیگر تمام علمائے امت میں سے کسی نا کسی کا قول رہا ہوتا ہے۔ بخلاف اس مسئلہ کے جس میں یہ منفرد ہوں ؛ اوروہ مسئلہ ان کے علاوہ کسی دوسرے سے منقول نہ ہو۔ اس صورت میں یہ صرف خطاء ہی ہوسکتی ہے۔ یہی حال اہل ظاہر کا ہے۔ہر وہ قول جس میں وہ تمام امت سے منفرد اورامتیازی حیثیت رکھتے ہیں ؛ وہ خطاء ہوتا ہے۔ ہاں اگر وہ ائمہ اربعہ کے اقوال سے منفرد ہوں ؛اور وہ قول صواب بھی ہوتو پھر یہ ان کے علاوہ بھی اسلاف میں سے کسی ایک کا عقیدہ رہا ہوتا ہے۔ وہ انفرادی مسائل جن میں باقی تین گروہوں میں سے کسی ایک کی کوئی منفردانہ حیثیت ہو؛ تواس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ باقی تینوں مذاہب کے ماننے والوں میں سے بھی کچھ نہ کچھ حضرات اس مسئلہ میں ان کے موافق ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال ؛ جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ :’’محرم کے لیے کٹے ہوئے موزے اور اس مشابہ دوسرا لباس [جمجم اور مداس]پہننا جائز ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی اس کی ایک توجیہ موجود ہے۔ پھر آپ کا یہ مسلک کہ دادا بھائیوں کی وراثت کو ساقط کردیتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے کچھ اصحاب نے موافقت کی ہے اور ایسے ہی آپ کا قول کہ: مسح سے طہارت حاصل کرنے کے لیے دوام طہارت شرط ہے۔ نہ کہ ابتداء اورآپ کا یہ قول کہ نجاست کو جس چیز سے بھی ختم کیا جائے؛ وہ ختم ہو جاتی ہے۔یہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں ان کے تین اقوال میں سے ایک قول ہے؛ اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی ایک قول ہے۔ ایسے ہی
Flag Counter