Maktaba Wahhabi

150 - 702
تو آپ نے فرمایا:’’ بیشک میں نے وسوسوں کے آنے سے جلدی کی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؛ آپ نے فرمایا:’’ بیشک کوئی انسان اپنی نماز ختم کرتا ہے تو اس کے نصیب میں اس کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے؛ نوواں حصہ ؛ آٹھواں حصہ ؛ ....حتی کہ آدھا حصہ لکھا جاتا ہے ۔‘‘ ٭ یہ حدیث ابن حامد پر حجت ہے۔ کیونکہ اس کی کم مقدار آدھی ذکر کی گئی ہے۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے ؛ اس کا دسواں حصہ لکھاجاتا ہے۔ [ادائے واجب سے مقصود] ٭ ادائے واجب سے دو چیزیں مقصود ہوتی ہیں : اول:....برأت ذمہ : وہ اس طرح سے کہ اس سے وہ مذمت اورعقاب ختم ہوجاتے ہیں ؛ جن کا ترک واجب کی وجہ سے وہ مستحق ٹھہرتا۔ تو اس صورت میں اس پر اعادہ واجب نہیں ہوتا۔ بیشک اعادہ کا مقصود ابھی باقی ہے؛ اور وہ ہے صرف اور صرف ثواب کا حصول ۔یہ نفلی عبادات کی شان ہے۔ لیکن نیکیاں حاصل ہونے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں ۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عبادت قبول ہو؛ اور اس پر ثواب مرتب ہو۔ پس جس قدر اس کے لیے ثواب لکھا جائے گا؛ اسی قدر اس کے ماضی کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اورجس چیز میں کوئی ثواب نہ ہو؛ اس سے گناہ بھی معاف نہیں ہوتے۔ بھلے اس سے ذمہ داری سے برأت ثابت بھی ہوجائے۔ جیسا کہ ایک ماثور حدیث میں ہے: ’’ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے ان کے روزے سے صرف بھوک او رپیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا او رکتنے ہی تہجد گزار ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے رات جاگنے کے علاوہ نصیب میں کچھ نہیں آتا۔‘‘[1] یہ کہہ سکتے ہیں : اس انسان نے تھکاوٹ اٹھائی۔ مگر اسے کوئی فائدہ نہ ملا۔ لیکن اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ اور سزا سے بچ گیا۔ اور اپنے حال پر ہی باقی رہا۔ اس میں کسی خیر و بھلائی کا کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ٭ بیشک روزہ کی مشروعیت کا مقصد تقوی کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰت﴾ [البقرۃ ۱۸۳] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔ گنے ہوئے چند دنوں میں ۔‘‘
Flag Counter