Maktaba Wahhabi

160 - 702
بلاشک و شبہ نماز کے لیے اس کے واجب وقت سے تاخیر کرنا؛حقیقت میں نماز کو ضائع کرنا اور اسے بھلا دیناہے۔اس بارے میں علماء کے مابین ہمیں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں ہوسکا۔اور اس بارے میں صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ سے آثار بھی وارد ہوئے ہیں ۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حکمرانوں کے متعلق فرمایا؛ جو نماز کو اپنے وقت سے تاخیر کرکے پڑھیں گے؛ :’’تم اپنی نماز مقررہ وقت پر پڑھ لو؛ اور ان کے ساتھ اپنی نمازوں کو نفل بنادو۔‘‘[1] [نمازوں میں تاخیر] یہ وہ لوگ تھے جو ظہر کی نماز میں عصر تک تاخیر کرتے اور عصر کو آسمان میں زردی چھا جانے تک تاخیر کرتے۔ اس تاخیر پر تو ان کی مذمت کی گئی ہے؛ مگر یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو نماز کو بالکل ہی ترک کردیتے ہیں ؛ یا سورج کے ڈوب جانے کے بعد پڑھتے ہیں ۔ بیشک ان لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ لڑنے کا حکم دیا ہے۔جب کہ نماز میں تاخیر کرنے والوں سے جنگ لڑنے سے منع فرمایا ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حکمرانوں کا تذکرہ کیا جو بری بری حرکتیں کریں گے؛ تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم تلواریں لیکر ان پر ٹوٹ نہ پڑیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ [تخریج گزرچکی ہے] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ وہ نمازوں کے اوقات میں تاخیر کریں گے؛اور حکم دے رہیں کہ تم اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کرو؛ او ران کے ساتھ نمازیں دھرا لیا کرو۔ تویہ حدیث ان کی نماز کے درست ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ان کی نماز بالکل ہی نہ ہوئی ہوتی تو ان سے لڑنے کا حکم دیا جاتا۔ صحیحین میں ثابت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر)) [2] ’’جو کوئی سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے ؛ تو اس نے نماز عصر پالی ۔‘‘ حالانکہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا : (( تِلک صلاۃ المنافِقِ، تِلک صلاۃ المنافِقِ، یرقب الشمس حتی ِإذا کانت بین قرنی شیطان قام فنقر اربعا لا یذکر اللّٰہ فِیہا إِلا قلِیلا ۔)) [3]
Flag Counter