Maktaba Wahhabi

171 - 702
ہے کہ یہ نماز کفایت نہیں کرے گی۔ پس بیشک اگر کسی عذر کی وجہ سے نمازیں جمع کی گئی ہیں ؛ تو اس میں نیت شرط نہیں ہے۔ اوریہ واضح منصوص حکم موجود ہے کہ اگرمسافر نے غیاب شفق سے قبل عشاء کی نماز پڑھ لے تو اس کفایت کر جائے گی؛ کیونکہ اس کے حق میں نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ اگر اس نے عشاء مغرب کے ساتھ نہ پڑھی ہو۔ پس مسافر اور اس کے امثال کے لیے ظہر میں تاخیر او رعصر میں تقدیم جائز ہے؛ اور ایسے ہی مغرب میں تاخیر او رعشاء میں تقدیم جائز ہے۔ جیسا کہ سلف صالحین سے منقول ہے۔ پس یہاں پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر دوسری نماز کو اس کے خاص وقت سے قبل ادا کیا گیا تو کفایت کر جائے گی۔ وہ کہتے ہیں : یہاں پر اختلاف ایسی نماز کے درست ہونے کے متعلق ہے۔ جیسے رمی جمرات کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا وقت کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے؟ پہلے علماء کہتے ہیں : جو آپ نے تقسیم کی ہے؛ جمعہ ؛ رمی جمرات اور حج کی؛ تو شریعت میں ان اعمال کو ان کے متعین وقت کے بعد کسی بھی صورت میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی کوئی معذور او رنہ ہی غیر معذور۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ افعال زمانے کے ساتھ بھی ایسے ہی خاص ہیں جیسے وہ جگہ کے ساتھ خاص ہیں ۔ [معذور او رغیر معذور کا فرق] جبکہ پانچ نمازوں کا معذور کے لیے وقت گزرنے کے بعد قضاء کرنا جائز ہے۔ تو اس سے معلوم ہو ا کہ غیر وقت میں بھی ان نمازوں کا پڑھنا درست ہے۔اور وقت نماز کے لیے شرط نہیں ہے۔ جیسے یہ دوسری عبادات میں شرط ہے۔ جبکہ دوسرے حضرات کہتے ہیں : اس کے جواب میں دو توجیہات ہیں ؛ اول: یہ کہا جائے کہ: تصور کیجیے معذ ور کے لیے وقت گزرنے کے بعد بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسعت اور رحمت ہے۔ اور نیند میں پڑے انسان اور بھو ل جانے والے کا کوئی گناہ نہیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بیداری یا یاد آنے تک کی وسعت کردی ۔ کیونکہ اس وقت سے پہلے ان کے لیے نماز کا ادا کرنا ممکن ہی نہیں ۔ تو اس میں کون سی ایسی چیز ہے جو اس کبیرہ گناہ کے مرتکب جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرنے والے کے لیے جواز پر دلالت کرتی ہے؛ جس کا کوئی عذر ہی نہیں ۔ اگرحج ایک سال فوت ہوجائے تو اگلے سال میں اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اگر رمی جمرات رہ جائے تو اس کا بدل موجود ہے؛ اور وہ جانور ذبح کرکے تقسیم کرنا۔اور جب جمعہ رہ جائے تو اس کے بدلہ میں ظہر کی نماز پڑھی جائے۔ پس ایسے یہ معذور انسان اگر اس سے مقررہ وقت کی عبادات رہ جائیں تواس کے لیے بھی اس کے متبادل امور مشروع ہیں جنہیں بجا لایا جاسکتا ہے۔ اور اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یہ اس کے حق اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جب کہ غیرمعذور کے لیے حج میں بدل موجود ہیں ۔ اس لیے کہ حج میں نیابت جائز ہے۔ جب کوئی انسان مر جائے تو اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ بھلے یہ اس کی تقصیر او رکوتاہی کی وجہ سے رہ گیا ہو۔ کسی دوسرے کا اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ تو پھر اگروہ خود اس کا کوئی جائز بدل تلاش کرے؛ یہ زیادہ اولی ہے۔ اس لیے کہ جو خون وہ خود بہائے گا؛ وہ کسی دوسرے کے خون بہانے سے زیادہ اولی ہے۔
Flag Counter