Maktaba Wahhabi

181 - 702
اہل بدعت کا قول ہے جو خودکوئی بدعت ایجاد کرلیتے ہیں ‘ اور پھر جو کوئی اس بدعت میں ان کی مخالفت کرے اسے کافر کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ جیسے کہ خوارج اور معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ ۔ ائمہ کے متبعین میں بھی یہ بات کافی حد تک واقع ہوئی ہے۔جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے بعض ساتھیوں سے منقول ہے۔ ٭ یہ لوگ تکفیر میں اس مسلک پر عمل کرتے ہیں ۔ بسا اوقات مطلق طور پر اہل بدعت کی تکفیر کرتے ہیں ۔پھر جو بھی ان کی راہ سے ہٹ جائے اسے اہل بدعت قراردیتے ہیں ۔ یہ بالکل خوارج ؛ معتزلہ اور جہمیہ کے قول کی طرح ہے۔ یہ قول بھی اصحاب مذاہب اربعہ کے کچھ گروہوں میں پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ نہ تو ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا قول ہے اور نہ ہی مذاہب اربعہ میں سے کسی قابل اعتماد امام کاقول ۔ اس لیے کہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہر بدعتی کو کافر کہتا ہو۔بلکہ ان ائمہ سے منقول صریح روایات اس کے متناقض ہیں ۔لیکن کبھی کبھار بعض ائمہ سے بعض مخصوص عقائد و اقوال والوں کی تکفیر نقل کی جاتی ہے اس تکفیر سے مقصود ان کو ڈرانا ہوتا ہے۔ لیکن کفریہ قول صادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس نے بھی یہ قول کہہ دیا وہ کافر ہوگیا ؛ خصوصاً جب وہ انسان جہالت یا تأویل کا شکار بھی ہو۔ اس لیے کہ کسی متعین شخص کے حق میں کفر کا ثابت کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کے حق میں آخرت میں عذاب اوروعیدثابت کرنا۔ اس کی کئی شروط اور موانع ہیں ؛ ہم اپنی جگہ پر اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ ٭ جب کوئی نفسِ امر میں کافر نہ ہو تو وہ منافق بھی نہ ہوگا۔توپھر اس کا شمار مؤمنین میں ہوگا ؛ اس کے لیے استغفار کیا جائے گا اور رحم کی دعا بھی کی جائے گی۔ جیسا کہ ایک مسلم دعا کے دوران جب کہتا ہے: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ (الحشر:۱۰) ’’اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے؛ او رہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کو بھی ۔‘‘ تو اس سے مراد وہ مومن ہوتا ہے جوگزشتہ زمانہ میں گزر چکا ہو۔ قطع ِنظر اس سے کہ غلط تاویل کرکے وہ سنت کی خلاف ورزی کر چکا ہو یا کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہو۔ بہر کیف گناہ کا مرتکب ہونے کے باوجود وہ آیت کے عموم میں داخل رہے گا اور اس سے خارج نہ ہو گا؛ اور اس کا شمار ایمان میں سبقت لے جانے والے مؤمن بھائیوں میں ہوگا۔ اگرچہ اس کا شمار بہتر فرقوں میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو، اس لیے کہ ہر فرقہ میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کافر نہیں ہوتے، بلکہ وہ مومن ہوتے ہیں ، اگرچہ گمراہی و گناہ گاری کے باعث عاصی مومنین کی طرح وعید کے مستحق ہوا کرتے ہیں ۔ [کیا خوارج مشرک یا منافق تھے؟] رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی امت سے خارج نہیں کیا ؛ بلکہ اپنی امت میں شمار کیا ہے ‘ اور نہ ہی انھیں دائمی جہنمی قرار دیا ہے ۔مذکورہ صدر قاعدہ ایک عظیم اصول ہے جسے ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس لیے کہ سنت کی جانب منسوب بعض فرقوں میں خوارج اور روافض کی قسم کی بدعات پائی جاتی ہیں ۔ یہ بات بھولنے نہ پائے کہ اصحاب رسول مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خوارج کی تکفیر نہیں کرتے تھے جن کے خلاف وہ جنگ آزما تھے۔ خوارج نے جب پہلی
Flag Counter