Maktaba Wahhabi

185 - 702
’’ وہ اب بھی مومن ہیں ۔‘‘ حضرت حابس اہل یمن میں سے تھے؛ اور بڑے ہی عابد و زاہد اور مجتہد انسان تھے۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں : ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا؛ ان سے مختار بن نافع نے؛ وہ ابی مطر سے روایت کرتے ہیں ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ وہ بد بخت کب اٹھے گا۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا : کونسا بدبخت ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ جو مجھے قتل کرے گا۔‘‘ پس ابن ملجم نے آپ کے سر پر تلوار کا وار کیا۔ مسلمانوں نے اس کو قتل کرنا چاہا؛ تو آپ نے منع کردیا؛ اور فرمایا: اس کو قتل نہ کرنا۔ اگر میں ٹھیک ہوگیا تو زخم کا بدلہ ہوگا۔ او راگر میں مر گیا تو اسے قتل کردینا۔ اس پر ابن ملجم نے کہا: آپ تو مریں گے ہی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا :اس کی تمہیں کیا خبر ہے ؟ تو وہ بولا: میری تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی۔‘‘[ تارِیخِ الطبرِیِ 5؍143 ] میں کہتا ہوں : حدیث عمار میں مروی ہے کہ جب انھوں نے یہ کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان پر شدید انکار کیا اور فرمایا: کیا تم اس رب کا انکار کرتے ہو جس پر عثمان رضی اللہ عنہ ایمان لے آئے ہیں ؟ اور انھیں واضح کیا کہ ان کا قول باطل ہے۔ اگرچہ خارجی لوگ یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ خونِ عثمان کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تکفیر عثمان رضی اللہ عنہ کا شدت کے ساتھ انکار کیا کرتے تھے۔ رہے حضرت عمار رضی اللہ عنہ جو تاویل کے ساتھ اس بات کے قائل تھے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد کہ ان کا قول باطل ہے، انھوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ [حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مؤقف خوارج کے متعلق] رہی اس بات کی دلیل کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوارج کی تکفیر کے قائل نہ تھے، تو وہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوارج کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نجدہ حروری کے پیچھے نماز ادا کر لیا کرتے تھے اور انھیں حدیث بھی بیان کرتے، انھیں فتویٰ بھی دیتے اور ان سے ایک مسلمان کی طرح بات چیت بھی کرتے تھے۔ چنانچہ نجدہ حروری نے جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چند مسائل پچھوا بھیجے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کا جواب عنایت فرمایا۔ یہ پوری حدیث صحیح بخاری میں مندرج ہے۔[1] جیسا کہ آپ نے نافع بن ازرق کے چند مشہور
Flag Counter