Maktaba Wahhabi

193 - 702
[دین اور اختلاف کا وقوع ] دین کی اصل یہ ہے کہ محبت، نفرت، دوستی، دشمنی، عبادت و استعانت سب اللہ کے لیے ہو اور اللہ ہی سے ڈرنا ہو اسی سے امید ہو، اسی کی خاطر دے، اسی کے لیے روکے اور یہ بات صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی مل سکتی ہے کیونکہ آپ کا امر و نہی بھی دراصل اللہ ہی کا امر و نہی ہے۔ چنانچہ نبی سے دشمنی یہ اللہ سے دشمنی ہے، نبی کی طاعت، یہ اللہ کی طاعت ہے اور نبی کی نافرمانی اللہ کی ہی نافرمانی ہے۔ رہی خواہش پرستی تو بندہ اپنی خواہش کے ہاتھوں اندھا اور بہرا بن جاتا ہے، اسے کسی کام میں اللہ اور اس کے رسول کا استحضار نہیں رہتا اور نہ وہ رب کی رضا کا طلب گار ہی ہوتا ہے۔ نہ وہ اللہ رسول کے لیے راضی ہوتا ہے اور نہ ان کے لیے ناراضی ہوتا ہے۔ بلکہ راضی ہوتا ہے تو ہوائے نفس کے حصول پر۔ ناراض ہوتا ہے تو خواہش نفس پر زَد آنے پر اور اس کے ساتھ اسے دین میں یہ شبہات بھی پیش آنے لگتے ہیں کہ اس کی ناراضی اور رضا سنت کے عین موافق ہے اور وہ حق اور دین ہے۔ پھر فرض کیا کہ اگر حق اسی کے ساتھ تھا اور وہ خالص دین پر بھی تھا لیکن افسوس کہ اس کا قصد و ارادہ یہ نہ تھا کہ یہ دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے اور اس کا کلمہ سربلند ہو، بلکہ اس کا ارادہ اپنی ذات اور اپنی جماعت کی حمیت تھا، یا نمود و نمائش اور دکھلاوا تھا تاکہ اس کی تعریف ہو اور اس کی تعظیم کی جائے۔ یا اس نے یہ حق کام بھی دادِ شجاعت لینے کے لیے یا طبیعت کے مقتضٰی کی خاطر یا کسی دنیاوی غرض کے لیے کیا تو یہ کام بھی حق ہونے کے باوجود اللہ کے لیے نہ ہو گا اور نہ ایسا شخص مجاہد فی سبیل اللہ کہلوائے جانے کا سزاوار رہے گا۔ بھلا جو حق اور سنت پر مستقیم ہونے کا مدعی ہونے کے باوجود ایسا ہے تو جس کے ساتھ حق و باطل اور سنت و بدعت دونوں گڈ مڈ ہو چکے ہیں ، وہ اس کی نظیر کیونکر بن سکتا ہے اور خود حق و باطل کے ورطوں میں غوطے کھانے والا حق والے کی نظیر کیونکر بن سکتا ہے اور ایسا شخص اپنے اس خصم کی نظیر بھی نہیں بن سکتا جو حق و باطل اور سنت و بدعت غرض سب رطب و یابس کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔ یہ ان اختلاف کرنے والوں کا حال ہے جنھوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ پھر ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کی۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنَۃُo وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِo﴾ (البینۃ: ۴۔۵) ’’اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی دلیل آگئی۔ اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نمازقائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
Flag Counter