Maktaba Wahhabi

214 - 702
[متکلمین کی حالت:] غرض یہ ہے وہ علم جو ان لوگوں کی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ لوگ باطل سے باطل کا ردّ کرتے ہیں اور وہ دونوں ڈ اقوال ہی باطل ہوتے ہیں ۔ اسی لیے اکثر ائمہ سلف و خلف کے نزدیک یہ علم باطل اور مذموم ہے کیونکہ اس علم کے اکثر قائلین کو اپنے اقوال کا باطل ہونا معلوم ہی نہیں ہوتا۔ لیکن بہرحال یہ لوگ ایک دوسرے کے باطل کے عیوب کو بیان کرتے اور اس کی مذمت بیان کرتے ہیں جس سے کسی کا بھلا ہو جاتا ہے۔ جیسے ان لوگوں کا رب تعالیٰ کے اسماء اور احکام کے مسائل میں اور وعد و وعید میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنا، چنانچہ خوارج اور معتزلہ کہتے ہیں : کبیرہ کا وہ مرتکب جس نے اس سے توبہ نہ کی ہو وہ مخلد فی النار ہو گا۔ اور اس کے پاس ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہوتا۔ پھر خوارج مرتکب کبیرہ کو کافر بھی کہتے ہیں ، جبکہ معتزلہ حکم میں تو ان کے موافق ہیں البتہ مرتکب کبیرہ کا نام کافر رکھنے میں ان کے خلاف ہیں ۔ ادھر مرجئہ مرتکب کبیرہ کو کامل الایمان مومن باور کرتے ہیں کہ اس کے ایمان میں کوئی کمی نہیں بلکہ اس کا ایمان نبیوں اور ولیوں کے ایمان جیسا ہے۔ یہ ’’نام‘‘ میں اختلاف کا بیان ہے۔ پھر مرتکبین کبیرہ کے بارے میں ان کے فقہاء وہ کہتے ہیں جو اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں ۔ چنانچہ ان میں سے بعض جہنم میں داخل ہوں گے اور بعض داخل نہیں ہوں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں ؛ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کا اس بات پر اتفاق ہے۔ یہ لوگ مرتکبین کبائر کے اخروی حکم کی بابت اہل سنت و الحدیث سے کوئی اختلاف نہیں کرتے، ان کا اختلاف صرف ان کا نام رکھنے کے بارے میں ہے اور اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ جو کہتا تو ہے مگر مرتکب نہیں ہوتا۔ اکثر مرجئہ کا قول ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اہل قبلہ میں سے کوئی مرتکب کبیرہ جہنم میں داخل ہو گا اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں داخل ہو گا۔ بلکہ دیگر فساق و فجار کے ساتھ اس کا جہنم میں داخل ہونا بھی ممکن ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہو، جبکہ بعض داخل بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان لوگوں کا یہ بھی قول ہے کہ گناہ کر کے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہونا قطعی امر نہیں ۔ بلکہ ایسا شخص بھی جہنم میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ ان سب باتوں میں توقف کا شکار ہیں ۔ اسی لیے انھیں ’’الواقفۃ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ اشعریہ میں سے قاضی ابوبکر وغیرہ کا قول ہے۔ یہ لوگ وعید کی نصوص اور ان کے عموم سے استدلال کرتے ہیں اور دوسرے لوگ وعید کی نصوص اور ان کے عموم سے ان کا معارضہ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فساق وعدہ کی نصوص میں داخل نہیں کیونکہ ان کی کوئی نیکی نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ متقین میں سے نہیں ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (المائدۃ: ۲۷) ’’اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘
Flag Counter