Maktaba Wahhabi

218 - 702
اِِسْرَارَہُمْo فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْo ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْo﴾ (محمد: ۲۵۔۲۸) ’’بے شک جو لوگ اپنی پیٹھوں پر پھر گئے، اس کے بعد کہ ان کے لیے سیدھا راستہ واضح ہو چکا، شیطان نے ان کے لیے (ان کا عمل) مزین کر دیا اور ان کے لیے مہلت لمبی بتائی۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے ان لوگوں سے کہا جنھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی، عنقریب ہم بعض کا موں میں تمھارا کہا مانیں گے اور اللہ ان کے چھپانے کو جانتا ہے۔ تو کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے، ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوں گے ۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘ ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جو لوگ اپنے اسلام سے الٹے قدموں پھر گئے حالانکہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی تھی، تو انھیں شیطان نے ان کے عمل خوشنما بنائے اور انھیں جھوٹی امنگیں دلائیں ۔ یعنی شیطان نے انھیں یہ آرزو دلائی کہ ان کی عمر لمبی ہو گی اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان لوگوں نے ان کا ساتھ دینے کا ان سے وعدہ کیا تھا جو رب تعالیٰ کی نازل ہونے والی آیات کو ناپسند کرتے تھے۔ اسی لیے بعض اسلاف نے ’’کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ‘‘ کی تفسیر میں اس آیت کا سبب نزول منافقین اور یہود کو قرار دیا ہے۔ وعیدیہ کا قول ہے کہ رب تعالیٰ نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ لوگ اترنے والی آیات کو ناپسند کرتے ہیں اور کراہت کرنا یہ دل کا فعل ہے۔ جہمیہ کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق اور اس کے عمل کا نام ہے۔ یہ جہم، صالحی کا اور اشعری کا مشہور قول ہے اور یہی اکثر اشاعرہ کا بھی قول ہے۔ مرجئہ کے فقہاء کے نزدیک ایمان یہ دل کی تصدیق کے ساتھ زبان کے قول کو کہتے ہیں ۔ جبکہ ان دونوں اقوال کے مطابق ان حضرات کے نزدیک دل کے اعمال ایمان میں سے نہیں جیسا کہ اعضاء و جوارح کے اعمال بھی ایمان میں سے نہیں ۔ لہٰذا ان حضرات کے نزدیک ایک آدمی دل و زبان سے ایمان کی تصدیق کرنے کے باوجود ’’مَا نَزَّلَ اللّٰہُ‘‘ سے کراہت کر سکتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا آدمی کافر نہ ہو گا۔ حالانکہ یہ آیت اسے بھی شامل ہے۔ لہٰذا جب یہ آیت اس کے کفر پر دلالت کر رہی ہے تو یہ آیت ان لوگوں کے قول کے فساد کو بھی بتلا رہی ہے۔ [متقی کون ہے؟ مفسرین کا اختلاف] پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کا یہ کہنا کہ متقی سے مراد وہ ہے جو شرک سے بچتا ہو، تو ان کا یہ قول قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلَالٍ وَّعُیُوْنٍo وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَo﴾ (المرسلات: ۴۱۔۴۲) ’’یقیناً متقین سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اور پھلوں میں ، جس قسم میں سے وہ چاہیں گے۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بھی ارشادات ہیں :
Flag Counter