Maktaba Wahhabi

32 - 702
۳۔ یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی مرتبہ حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے۔ ۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس انسان کا دوست ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے دوست ہوں ۔ اس لیے کہ ہر مؤمن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی رکھتا ہے۔ ۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سورۂ توبہ کو لے کر مکہ جانا؛ کیونکہ بنی ہاشم کے علاوہ کوئی یہ سورت مکہ نہیں پہنچا سکتا۔اس میں سارے بنی ہاشم مشترک ہیں ۔ان میں سے کوئی بات بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ نقض عہد کی اطلاع دینے کے لیے حاکم اعلیٰ کے قبیلہ کا کوئی شخص جایا کرتا تھا۔ اس سورۃ میں بھی نقض عہد کی اطلاع دی گئی ہے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکہ جانا ضروری تھا۔[1] دسویں فصل: ....شیعہ کی وضع کردہ احادیث؛ خطیب خوارزمی کی روایت [شبہ] : شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’خطیب اعظم خوارزمی [2]نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ اے علی! اگر کوئی شخص اس قدر عرصہ دراز تک اﷲکی عبادت کرے جتنا عرصہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٹھہرے تھے اور احد پہاڑ جتنا سونا اﷲکی راہ میں صرف کرے؛ اور پا پیادہ ایک ہزار مرتبہ حج کرے ؛پھر بحالت مظلومی صفاء و مروہ کے مابین مارا جائے؛ اوراے علی ! وہ تجھے دوست نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور نہ وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘[مزید من گھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں ]: ۱۔ ایک شخص نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اتنی شدید محبت رکھتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔اور
Flag Counter