Maktaba Wahhabi

320 - 702
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (آل عمران: ۴۲) ’’اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تجھے چن لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سب جہانوں کی عورتوں پر تجھے چن لیا ہے۔‘‘ کسی مخلوق کے لیے ایسا کہنے کی ہرگزر بھی گنجائش نہیں ہے کہ ’’انی انا اللّٰہ رب العالمین‘‘ اور نہ یہ کہنا جائز ہے: ’’جو مجھے پکارے گا میں اس کی پکار سنوں گا۔ جو مجھ سے مانگے گا میں اسے دوں گا، اور جو مجھ سے بخشش چاہے گا میں اسے بخش دوں گا۔‘‘ رب تعالیٰ جب کسی محل میں ایک صفت پیدا فرماتے ہیں تو وہ محل اس صفت کے ساتھ متصف ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ جب کسی محل میں علم یا قدرت یا حیات یا حرکت یا رنگ یا سمع یا بصر وغیرہ کو پیدا فرماتے ہیں تو وہ محل اس صفت علم کے ساتھ علم بن جاتا ہے۔ اسی طرح قادر، زندہ، متحرک، متلون، سامع اور بصیر بن جاتا ہے اور رب تعالیٰ ان صفات کے ساتھ متصف نہیں ہوتا جن کو وہ مخلوقات میں پیدا کرتا ہے، بلکہ ان صفات کے ساتھ متصف ہوتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائل ہوتی ہیں ۔ بلکہ ہر موصوف تبھی موصوف بنتا ہے جب وہ صفت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو، نہ کہ اس صفت کے ساتھ موصوف کہلاتا ہے جو اس ذات کے ساتھ قائم نہ ہو بلکہ دوسرے کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ پس اگر وہ ندا اس شجر میں پیدا کی گئی ہوتی تو پھر یہ کہنے والا کہ ’’انی انا اللّٰہ‘‘ وہ شجرہ ہوتا اور جب وہ کلام جسے رب تعالیٰ نے دوسرے میں پیدا کیا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے تو لازم آیا کہ روزِ قیامت رب تعالیٰ انسانی اعضاء کو جو گویائی دے گا اور وہ بولیں گے تو یہ بھی اللہ کا ہی کلام ہو گا۔ اسی طرح کنکریوں کی تسبیح بھی اس کا کلام کہلائے گی اور مکہ کی راہ میں پڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہنے والے پتھر کا کلام بھی اسی اللہ کا ہو گا۔بلکہ یہ تک لازم آئے گا کہ وجود میں آنے والا ہر کلام اسی کا ہے۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ [حلولیہ اور اتحادیہ پر رد:] حلولیہ اور اتحادیہ جیسے ابن عربی وغیرہ کے قول کا ردّ اور جواب بھی اسی طریق پر ہے۔ جو یہ کہتا ہے: ’’وجود میں آنے والا ہر کلام اللہ کا کلام ہے چاہے وہ نثر ہے یا نظم ہمارے لیے دونوں باتیں برابر ہیں ۔‘‘[1] اسی لیے سلیمان بن داؤد ہاشمی کا قول ہے ’’جو یہ کہتا ہے کہ ’’اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ‘‘ (طہ: ۱۴) یہ قول مخلوق ہے؛ تو اس کا یہ قول فرعون کے اس قول کی جنس میں سے ہے: ’’ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی‘‘ (النازعات: ۴۲) مخلوق ہونے کے اعتبار سے یہ دونوں قول یکساں ہیں ۔ ہاشمی کہتا ہے: اس سے واجب ٹھہرتا ہے کہ جس میں یہ قول
Flag Counter