Maktaba Wahhabi

329 - 702
فاسد ہے۔ البتہ جب یہ کہا جائے کہ وہ بایں معنی موجب بالذات ہے کہ وہ اپنی قدرت اور مشیت سے جو کرنا چاہتا ہے اسے واجب اور موجود کرتا ہے۔ تو یہ اپنی قدرت اور مشیت کے ساتھ فاعل ٹھہرا۔ تب پھر اسے موجب بالذات کا نام دینا لفظی نزاع کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔اکثر جہمیہ اور قدریہ اس بات کے قائل نہیں کہ اس کی قدرت و مشیت سے مقدور کا وجود لازم ہوتا ہے۔ بلکہ کبھی وہ مقدور حاصل ہوتا ہے اور کبھی حاصل نہیں بھی ہوتا۔ پس اگر وہ حاصل ہوتا ہے تو وہ بلا مرجِّح کے اسے ترجیح دیتا ہے۔ ان امور کی تفصیل دوسرے مواقع پر کر دی گئی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ جہمیہ ایک ایسی نبوت کو ثابت کرتے ہیں جو صاحب نبوت میں کسی فضل و کمال کو اور اس کے کسی اختصاص کو ثابت نہیں کرتی اور وہ نبوت کسی صفت کمال کو مستلزم و خاص نہیں ۔ بلکہ ان کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا جاہل بھی نبی بن سکتا ہے۔ پھر کٹر جہمیہ کے نزدیک اللہ اپنے غیر میں کلام کو پیدا کرتا ہے؛اور فرشتہ اسے لے کر اترتا ہے۔ پھر کلابیہ کے نزدیک نبوت کا نبی کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ ان کا نبوت کے بارے میں وہی عقیدہ ہے جو افعالِ عباد کے احکام کی بابت ہے؛ کہ حکم کا کوئی معنی نہیں ، یہ تو بس قائم بالذات ایک معنی کا بندے کے متعلق ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے متعلق قائم بالذات معنی کو ایمان ؛ اعمال صالحہ ؛ اور ان خاص امتیازی امورمیں ثابت نہیں کرتے جو انہیں برائیوں سے جدا کرتے جن کی وجہ سے ان کا حکم دیا گیا ہے۔ایسا ہی ان کا عقیدہ نبوت میں بھی ہے۔ [معتزلہ اور ان کے امثال کا فاسد قیاس :] پھر معتزلہ اور ان کے ہم نوا اللہ کے لیے اس کے بندوں پر قیاس کر کے ایک شریعت کو ثابت کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اللہ پراسی جنس کے احکام واجب کرتے ہیں جو بندوں پر واجب ہوتے ہیں ۔ اور اللہ پر اسی جنس کے احکام حرام قرار دیتے ہیں جو وہ بندوں پر حرام ہیں ۔ یہ لوگ اللہ کے امر و نہی، اس کی محبت و کراہت اور رضا اور ناراضگی کا اعمال پر کوئی اثر نہیں مانتے؛ بلکہ یہ اس کی صفاتِ ثابتہ ہیں جو بغیر خطاب کے ہیں ۔جبکہخطاب تو وہ حقائق کو وا کرنے والا ہوتاہے جیسے کسی شخص کا شمس و قمر اور نجوم و کواکب کی صفات وغیرہ کے بارے میں خبر دینا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے اپنے فرشتوں میں سے اور لوگوں میں سے اپنے رسول چن لیے ہیں ۔لفظ’’ اصطفاء‘‘ یہ تصفیہ سے بابِ افتعال کا مصدر ہے۔ جیسا کہ اختیار، یہ الخیرہ سے بابِ افتعال کا مصدر ہے۔ پس رب تعالیٰ اسے ہی اختیار فرماتے ہیں جو مصطفی (چنا ہوا) ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رسالتہ ﴾ (الانعام: ۱۲۴) ’’اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔‘‘ اب کس کو نبی اور رسول بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا وہ اس بات کو خوب جانتا ہے۔ اگر ہر ایک نبی اور رسول بننے کا
Flag Counter