Maktaba Wahhabi

388 - 702
فصل : ....حضرت عمر رضی اللہ عنہماکا آخری کلام اور شیعہ کا اعتراض [اعتراض] : رافضی قلم کار کا قول ہے:’’ ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں عمرسے روایت کیا ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت یہ الفاظ کہے: اے کاش! میں ایک مینڈھا ہوتا تولوگ اپنی مرضی سے میری قیمت لگاتے ؛ پھر ان کی قوم کا سب سے محبوب انسان ان کے پاس آتا ؛ وہ مجھے ذبح کرتے ؛ اور پھر مجھ آدھے کو بھون ڈالتے ‘ اور آدھے کا سالن تیار کرلیتے ۔ اور پھر مجھے کھا لیتے ؛ میں کچرا ہوتا مگر بشر نہ ہوتا۔ یہ تو اسی طرح ہوا جیسے کافر بروز قیامت کہے گا:﴿ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَاباً﴾۔’’اے کاش میں مٹی ہوتا۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عند الموت کہا:’’ اگر میرے پاس اتنا سونا ہوتا جس سے ساری کائنات بھر جاتی تو عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے اسے فدیہ کے طور پر دے دیتا۔‘‘ یہ بعینہٖ ایسے ہے جس طرح قرآن پاک میں فرمایا: ﴿وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہُ مَعَہٗ لاَفْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓئِ الْعَذَابِ﴾ [الزمر ۴۷]۔ ’’اگر ظالموں کے پاس تمام روئے زمین کی چیزیں ہوں اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو، توبھی بدترین سزا کے بدلے فدیہ ادا کردیتے ۔‘‘ ٭ ایک طرف عند الموت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے قول کو پیش نظر رکھیے، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ملاحظہ ہو کہ آپ اپنے آخری وقت میں فرماتے تھے کہ: ’’ میں محمد اور آپ کی جماعت سے کب ملوں گا؟ میں کب قیامت کو پہنچوں گا کہ جس دن بدبختوں کو اٹھایا جائے گا۔‘‘شہید ہوتے وقت فرمایا: ’’ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ ’’رب کعبہ کی قسم! میں نے اپنی مراد پالی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب ]: یہ ہے کہ مندرجہ بالا قول قائل کی جہالت کا آئینہ دار ہے۔یہ اقوال جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کئے گئے ہیں ایسے اقوال تو ان لوگوں سے بھی منقول ہیں جو حضرت ابوبکر و عمر و عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے مرتبہ سے فروتر تھے۔ بلکہ بعض ان خوارج نے بھی ایسے الفاظ کہے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے تھے۔ ایسے ہی جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا آخری وقت تھا اور آپ کی بیوی نے ’’وَاحَرَبَاہُ‘‘ (ہائے غم و افسوس ) کہا؛ تو آپ نے فرمایا :’’وَاطَرَبَاہُ۔‘‘(واہ خوشی کی بات) میں کل اپنے احباب سے ملوں گا؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت سے مل جاؤں گا۔‘‘
Flag Counter