Maktaba Wahhabi

401 - 702
وَالْمُوْمِنُوْنَ اِلَّا اَبَا بَکْرٍ‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ اور مؤمنین انکار کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی خلیفہ ہو۔‘‘ حدیث قرطاس کی مزید توضیح: حضرت ابن عباس کا قول کہ:’’مصیبت اس انسان کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد لکھنے میں حائل ہوا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہد نامہ کا نہ لکھنا ان لوگوں کے لیے باعث مصیبت ہے جوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک کرتے ہیں ؛ یاان پر یہ امر مشتبہ ہے اگر آپ عہد نامہ لکھوا دیتے تو شک کا ازالہ ہو جاتا۔ جن کے نزدیک آپ کی خلافت برحق ہے ان کے نزدیک عدم کتابت سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ وللہ الحمد۔ بخلاف ازیں جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا عہد لکھنے والے تھے وہ علماء اہل سنت و شیعہ ہر دو کے نزدیک بالاتفاق گمراہ ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل الامت تھے۔ لہٰذا آپ کی موجودگی میں دوسرا کوئی شخص خلیفہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیعہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا حق دار خیال کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبل ازیں ایک نص ّ جلی کے ذریعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر چکے تھے، لہٰذا عہد نامہ لکھنے کی مطلقاًضرورت نہ تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب ( بقول شیعہ) امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور و معروف (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق) نص کو چھپانے کی مرتکب ہو چکی تھی۔ [اس کا جواب یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہی تھا ]توپھر وہ اس عہد نامہ کو بھی بڑی آسانی سے چھپا سکتے تھے جس میں حاضرین کی تعداد بے حد قلیل تھی۔ نیز یہ کہ لوگوں کے شک کی بنا پر آپ عہد نامہ کو تاوفات کیوں کر ملتوی کر سکتے تھے؟نیز عہد نامہ میں جو کچھ آپ لکھنا چاہتے تھے اگر وہ کوئی واجب الاظہار بات ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہر کیف اسے لکھوا کر رہتے اور کسی شک کرنے والے کے قول کو بھی لائق التفات قرار نہ دیتے ۔ اس لیے کہ تمام خلق سے بڑھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاتی تھی۔ جب آپ نے کتابت ترک کر دی تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ دین کی کوئی ضروری بات نہ تھی۔اور نہ ہی کوئی ایسی بات تھی جس کا لکھنا واجب ہوتا ۔ اس لیے کہ اگر کوئی واجب چیز ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور تحریر کروا دیتے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی معاملہ مشتبہ ہوگیا تھا ؛ اور پھر واضح ہوگیا ؛ یاآپ کو بعض امور میں شک ہوا تھا ؛ تو پھر بھی یہ اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا جو ایسے معاملات میں فتوی دے یا فیصلہ کرے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دوسرا فتوی دے چکے ہوں ۔ [[ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ کے خلاف فیصلہ صادر کر سکتے ہیں تو کیاحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے غلطی کا صدور نہیں ہو سکتا ؟حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے شنیع تر ہے، اس
Flag Counter