Maktaba Wahhabi

408 - 702
اللہ کے پاس بہت زیادہ رکنے والے تھے(یعنی بہت زیادہ عمل کرنے والے تھے)۔‘‘ [1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ آپ کو حدودشریعت میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہ ہوتی ۔ اپنے بیٹے پر شراب کی حد لگائی۔ واقعہ یہ تھا کہ ان کا بیٹا مصر میں شراب نوشی کا مرتکب ہوا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے چپکے سے گھر میں ہی اس پر حد لگادی۔ حالانکہ باقی لوگوں پر علانیہ حد لگائی جاتی تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انھوں نے عمرو بن عاص کو ڈانٹا؛ اس لیے کہ انہوں نے آپ کے بیٹے سے بے جا محبت کا ثبوت دیا تھا؛ اور اپنے بیٹے کو مدینہ بلا کر دوبارہ حد لگائی۔جب حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے انہیں بھی ڈانٹ دیا۔اور بعض روایات میں جو کہا گیا ہے کہ آپ نے مرنے کے بعد اپنے بیٹے کو کوڑے لگائے یہ آپ پر جھوٹاالزام ہے۔ اور میت کو سزا دینا ہر گز جائز نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق شرعی حدود قائم کرنے کی خبریں تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ۔آپ شرعی حدود میں کسی کی ملامت کی پروا نہ کرتے تھے۔یہ واقعات اتنی کثرت کیساتھ ہیں کہ ان کا یہاں پر ذکر کرنا دشوار ہے۔ اور پھ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوکونسی غرض ہوسکتی تھی کہ ان پر حد قائم نہ کرتے۔ جب کہ آپ کے عدل وانصاف کے بارے میں مشہور ہے ؛ اور آپ راہ حق سے ادھر ادھر نہ ہوا کرتے تھے۔ فصل:....حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے عطیات [اعتراض ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ عمر رضی اللہ عنہ ازواج مطہرات کو اس سے زیادہ مال دیا کرتے تھے جس قدر عطا کرنا ضروری تھا، عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کو سالانہ دس ہزار درہم دیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]:حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ نسبتاً کم دیا کرتے تھے۔اس لیے کہ آپ ان کی بیٹی تھیں ۔جیسا کہ اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کم دیا کرتے تھے۔یہ عدل و انصاف میں آپ کے کمال احتیاط ؛خوف الٰہی ؛ اور اپنے نفس کو خواہشات سے روک کر رکھنے کی علامت ہے۔ عطیہ جات دینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فضیلت کے مسلک پر عمل پیرا تھے۔ آپ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کوباقی خواتین کی نسبت بڑھ چڑھ کر دیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ بنی ہاشم کو آل ابی طالب اور آل عباس کو بھی سب سے پہلے دیتے اور سب سے زیادہ دیتے۔ جب کسی انسان کی فضیلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ثابت ہوجاتا تو آپ اس کے استحقاق اور اسلام میں سبقت کی وجہ سے اسے زیادہ نوازا کرتے تھے۔آپ فرمایا کرتے تھے:’’ اس مال کے حق دار ہونے میں سب لوگ مساوی ہیں ۔ البتہ ہر شخص کی اپنی اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔ پھراسلام کی راہ میں صعوبات اٹھانے اور سبقت اسلام کابھی لحاظ ہے۔ اور لوگوں کو اسلام میں سبقت بھی حاصل
Flag Counter