Maktaba Wahhabi

409 - 702
ہے۔آپ کسی ایسے آدمی کو نہیں دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ پر تہمت آئے کہ آپ اپنے اہل قرابت یا دوست واحباب کو زیادہ نوازتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنے بیٹے عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کم دیا کرتے تھے۔ اﷲکی قسم! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کی رو رعایت یا الفت و محبت کی اساس پر کسی کو زیادہ عطیہ جات دینے سے متہم نہ تھے۔آپ جن لوگوں کو ترجیح دیتے تو اس کا سبب بھی محض دینی ہوا کرتا تھا۔ اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی تمام گھروں پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہ آپ کی سیرت کا ایسا روشن پہلو ہے جس پر آپ کے بعد نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عمل ہوسکا ؛ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ؛ اور نہ ہی ان دونوں سے ہٹ کر کسی اور سے ۔اگر آپ پر اس لحاظ سے جرح و قدح کی جاسکتی ہے کہ آپ ازواج مطہرات کو زیادہ دیا کرتے تھے تو پھر یہ اعتراض بھی ہونا چاہیے تھا کہ آپ اہل بیت کے مردوں کو بھی فضیلت دیا کرتے تھے ؛ اور انہیں باقی لوگوں پر ترجیح دیتے اورمقدم رکھتے تھے۔ [حضرت عمر رضی اللہ عنہ اورملک بدری کی سزا پر عمل] [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ عمر شراب پینے والے کو ملک بدر کرکے شرعی حکم کی خلاف ورزی کیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]:بیشک شرعی حکم کی خلاف ورزی وہاں ہوتی ہے جہاں اللہ کے حکم کا الٹ کیا جائے ؛ یا اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ امور کو ساقط قرار دیا جائے ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھا جاتا ہو۔ جب کہ شراب نوشی کی حد میں جلا وطنی کا حکم تعزیری ہے جو کہ حاکم کی صواب دید پر موقوف ہے[اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے ]۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے والے کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی ؛ ان ہی اس کی مقدار مقرر ہے اور نہ ہی طریقہ کار۔ بلکہ اس میں لاٹھی اورجوتے سے مارنا بھی جائز ہے ۔ اور کپڑے کے کونے اور کھجوڑ کی ٹہنی سے بھی مارا جاسکتا ہے ۔ جب کہ زنا اور بہتان تراشی کی سزا میں کوڑے سے مارا جائے گا۔ جبکہ تعداد کے لحاظ سے صحابہ سے شراب کی حد کی بابت چالیس اور اسّی کوڑے مارنے کی روایات ملتی ہیں ۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ان دونوں پر عمل کر سکتے ہیں اور یہ دونوں سنت ہیں ۔ اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ چالیس سے زیادہ کوڑے مارنا واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ اور مالک رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ، امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : شراب نوشی کی سزا اصل میں تعزیر ہے ۔حاکم وقت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس سے زیادہ سزا دے یا پھر اسے ترک کردے ۔یہ مصلحت پر مبنی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چالیس پر اضافہ کرنا حاکم کی مرضی پر منحصر ہے۔یہی مسلک زیادہ ظاہر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شراب پینے والے کا سر منڈوا کر جلا وطن کردیا کرتے تھے ۔ ایسا کرنا بھی تعزیر کے باب میں سے ہی تھا۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جو شخص چوتھی مرتبہ شراب پئے اس کو قتل کردو۔[1]
Flag Counter