Maktaba Wahhabi

410 - 702
اس بات پرعلماء کرام کے مابین اختلاف ہے کہ آیا قتل کا حکم منسوخ ہو چکا ہے یا ہنوز باقی ہے؟ جب بھی حاکم وقت اس کی ضرورت محسوس کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔اس میں تین اقوال ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ چالیس سے زیادہ کوڑے لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’ اگر کسی شخص پر حد لگائی جائے اور وہ مرجائے تو مجھے اس کا کچھ افسوس نہیں البتہ اگر شراب پینے والا حد لگانے سے مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کروں گا؛ کیوں کہ یہ حد ہم نے اپنی رائے سے مقرر کی ہے۔‘‘[1] یہ روایت امام شافعی نے ذکر کی ہے۔ اور اس سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ حاکم اپنے اجتہاد کی بنا پر تعزیر میں اضافہ کرنے کا مجاز ہے۔پھر اس کی بنیاد ایک دوسرے مسئلہ پر ہے ؛ وہ مسئلہ ہے کہ : جس پر حد یا تعزیر قائم کی جائے اور پھر وہ مرجائے تو کیا اس کی دیت ادا کی جائے گی یا نہیں ؟اس پر علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ طے شدہ واجب حد اگر موت کا سبب بن جائے تو اس پر کوئی دیت نہیں ؛ اس لیے کہ اسے پورا کرنا واجب تھا۔جیسا کہ قصاص ۔ اور غیر طے شدہ جیسے تعزیر اور میاں کا بیوی کو سزا دینا ؛ اور سوار کا چوپائے کو چابک لگانا ؛ اوربچے کوتأدیب دینے والے کی سزا ؛ اس میں تین اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ کسی بھی حال میں اس پر دیت نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ اس کے لیے سزا دینا مباح تھا۔یہ امام احمد اور امام مالک کا قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ : اس پر غیر واجب مباح میں دیت واجب ہوگی۔اس لیے کہ اسے سزا ترک کرنے کا اختیار حاصل تھا۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کاقول ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ غیر مقدر میں دیت ادا کرے گا ۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔اس لیے کہ غیر مقدر سے ظاہر ہوتا ہے کہ تلف ہونے کی صورت میں دیت ادا کرے گا۔ فصل:....حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حاملہ کو سنگسار کرنے کا حکم؛اعتراض اور ردّ [اعتراض ]:شیعہ لکھتا ہے: ’’عمر رضی اللہ عنہ شرعی احکام سے نابلد تھے۔ ایک حاملہ عورت کو جب سنگسار کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا اور فرمایا: ’’ اگر تمہیں اس عورت کو سزا دینے کا حق واختیار حاصل ہے لیکن اس کے جنین پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ۔تو آپ سزا دینے سے رک گئے ؛ اور فرمایا : ’’ اگر علی نہ ہوتا توعمر ہلاک ہوجاتا۔‘‘ [جواب ]:ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ درست ہے تو ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے حاملہ ہونے کا علم نہ ہو۔ کیوں کہ ایسے امور میں اصل عدم علم ہے۔اور جب حاکم کو کسی قتل کارجم کی مستحق عورت کے قتل ہونے کا علم نہ ہو؛ اور بعض لوگ اس کے حال کو جانتے ہوں ؛ تو یہ بھی ان جملہ غیبی امور میں سے شمار ہوگا جس کی خبر لوگوں کے ذریعہ سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ اور یہی اسی جنس سے ہے جیسے گواہ کسی غائبانہ بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ ایسا ہوتا بھی ضروری ہے ؛ ایسا انبیاء کرام یا ائمہ کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے ۔ اسی لیے اس کا شمار کلیہ شرعیہ میں نہیں ہوتا۔
Flag Counter