Maktaba Wahhabi

416 - 702
جیسے کہ اسلام کی وجہ سے قتل کرنا ۔ پاگل کو اسلام قبول نہ کرنے پر قتل نہیں کیا جاسکتا۔اور بعض چیزوں میں غیر مکلف کے لیے بھی عقوبت و سزا موجود ہے ؛ جیسے کہ اس کا لوگوں پر حملہ آور ہونا؛ [جان و مال میں لوگوں کونقصان پہنچاناوغیرہ ]۔ اور بعض امور ایسے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے ۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مکلف بچہ جو کہ امتیاز کرسکتا ہو‘ اسے فحاشی کا کام کرنے پر انتہائی سخت سزا دی جائے گی۔یہی حال مجنون کا ہے ؛ اسے اس کے بعض افعال پر سزا دی جائے گی تاکہ وہ آئندہ کے لیے ڈر جائے۔ یہ امور شریعت میں معلوم شدہ ہیں ۔ لیکن ان کا شمار ان ظاہری امور میں نہیں ہوتا جن کا علم مخفی رہ جانے پر کسی کو طعنہ زنی کا نشانہ بنایا جائے؛حتی کہ وہ اس کا علم حاصل کرلے ۔ مزید برآں اکثر مجانین یا بہت سارے مجانین کو بعض احوال میں افاقہ حاصل ہوتا ہے‘ اور اس وقت ان کی عقل کام کر رہی ہوتی ہے۔ توشایداس عورت کے متعلق بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہی خیال ہوکہ اس نے افاقہ اور عقل کے وقت زنا کیا ہوگا۔ اس لیے کہ لفظ مجنون اس کے لیے بھی بولا جاتا ہے ؛ جس پر پاگل پن کامکمل غلبہ ہو؛ اور اس پربھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جو جسے ہلکا پھلکا پاگل پن ہو؛ [یا پھر جسے کبھی پاگل پن کا دورہ ہوتا ہواور کبھی افاقہ ہوجاتا ہو]۔ خلاصہ کلام ! رافضی مصنف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یادیگر اصحاب کے بارے میں جو مطاعن ذکر کیے ہیں ؛ ان کا مرجع دو چیزیں ہیں : ۱۔ علم کا نقص ۲۔ دین کا نقص ابھی ہم انہیں ہی چیزوں کا تذکرہ کررہے تھے۔شیعہ مصنف نے جتنے بھی امور ذکر کیے ہیں ؛ جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے میراث کا روکنا؛ اپنے احباب و اقارب کو نوازنا ؛ حدود شریعت کا خاتمہ ؛ اور ان کے علاوہ جتنے بھی امور ہیں ‘ ان کا مرجع یہ ہے کہ آپ [یعنی حضرت عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ]عادل نہیں تھے۔بلکہ آپ ظالم تھے۔یہ بات تو عام و خاص سبھی جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عدل و انصاف سے آفاق عالم کوبھر دیا تھا ۔ یہاں تک عدل و انصاف میں آپ کی ضرب المثل بیان کی جاتی تھی۔حتی کہ کہاجاتا ہے : دونوں عمر کی سیرت ۔ ان دو میں سے ایک حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں اور دوسرے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ۔ یہ اہل علم محدثین جیسے امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر حضرات اہل علم کا قول ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمالیے جاتے ہیں ؛ جیسا کہ اہل لغت کا ایک گروہ مراد لیتا ہے ۔ جیسے ابو عبید رحمہ اللہ وغیرہ ۔ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے فضائل: کسی انسان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خوارج انتہائی سرکش ہونے کے باوجود حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی سیرت پر راضی ہیں ۔ایسے ہی پہلے دور کے شیعان علی رضی اللہ عنہ بھی آپ پر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو افضلیت دیا کرتے تھے۔ ابن بطہ نے حسن بن عرفہ سے ذکر کیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : مجھ سے کثیر بن مروان فلسطینی نے بیان حدیث بیان کی؛ وہ انس بن سفیان سے ؛ وہ غالب بن عبد اللہ العقیلی سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ فرماتے ہیں :
Flag Counter