Maktaba Wahhabi

418 - 702
ترجیح دیتے ہیں ‘ اور کبھی کسی امام کے قول کو۔ جیسے بھی شریعت کے دلائل وارد ہوتے ہیں ‘ ایسے فیصلہ کرتے ہیں ۔جیسے حضرت سعید بن المسیب ؛ اور فقہاء مدینہ ۔ جیسے عروہ بن زبیر ؛ قاسم بن محمد؛ علی ابن الحسین ؛ ابو بکر بن عبد الرحمن ؛ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ ؛ سلیمان بن یسار؛ خارجہ بن زید؛ اور سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دوسرے علماء و فقہاء۔ ان کے بعد جیسے : ابن شہاب الزہری ؛ یحی بن سعید؛ ابو زناد؛ ربیعہ ؛ مالک بن انس؛ ابن ابی ذئب ؛ اور عبدالعزیز الماجشون وغیرہم رحمہم اللہ ۔ جیسے طاؤوس الیمانی ؛ مجاہد؛ عطاء؛ سعید بن جبیر ؛ عبید بن عمیر ؛ عکرمہ مولی ابن عباس وغیرہم رحمہم اللہ ۔ ان کے بعد : عمرو بن دینار ؛ ابن جریج ؛ ابن عینیہ وغیرہم رحمہم اللہ ۔اہل مکہ میں سے ۔ جیسے : حضرت حسن بصری ؛ محمد بن سیرین ؛ جابر بن زید ابو الشعثاء ؛ مطرف بن عبد اللہ بن الشخیر ؛ ایوب السختیانی ؛ عبداللہ بن عون؛ سلیمان التیمی؛ قتادہ؛ سعید بن ابی عروبہ ؛ حماد بن سلمہ ؛ حماد بن زید وغیرہم رحمہم اللہ ۔اور ان کے امثال۔ پھر ان کے بعد جیسے : علقمہ ؛ اسود ؛ شریح القاضی ؛ وغیرہم رحمہم اللہ ۔اور ان کے امثال ۔ پھر ان کے بعد جیسے : ابراہیم النخعی ؛ عامر الشعبی ؛ حکم بن عتیبہ ؛ منصور بن المعتمر ؛ سفیان الثوری ؛ ابو حنیفہ ؛ ابن ابی لیلی ؛ شریک ؛ وکیع بن الجراح ؛ ابو یوسف اور محمد بن الحسن وغیرہم رحمہم اللہ ۔اوران کے امثال ۔ پھر ان کے بعد : امام شافعی ؛ احمد بن حنبل ؛ اسحاق بن راہویہ ؛ ابو عبید القاسم بن سلام؛ اور حمیدی عبد اللہ بن الزبیر ؛ ابو ثور ؛ محمد بن نصر المروزی ؛ محمدبن جریر الطبری؛ ابوبکر ابن المنذر ؛ وغیرہم رحمہم اللہ ۔اوران کے امثال ۔ ان کے علاوہ علماء کرام کی اتنی بڑی تعداد ہے جن کی صحیح گنتی کو اللہ ہی جانتا ہے۔جن تعلق مسلمانوں کی کئی اصناف سے ہے۔ یہ تمام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف اور آپ کے علم کے معترف و مداح ہیں ۔ [علمائے کرام اور مناقب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ] بعض علماء کرام نے مناقب عمر رضی اللہ عنہ پر منفرد کتابیں لکھی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں میں آپ کی سیرت کی طرح کسی کی سیرت متعارف نہیں ہوسکی۔ ابو المعالی علی الجوینی رحمہ اللہ نے بھی یہی ارشادفرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ آسمان نے آپ جیسا کوئی دوسرا عبقری نہیں دیکھا ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں : ’’ اپنی مجالس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذکر سے زینت بخشو ۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ’’ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب فراست تین افراد ہیں : ۱۔ ’’حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی ؛ جب اس نے اپنے والد سے کہا تھا: ﴿یٰٓاَیَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ﴾ [القصص ۲۶] ’’ ابا جی!آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔‘‘
Flag Counter