Maktaba Wahhabi

461 - 702
آتا ہے کہ وہ جہاد نہ کریں ۔ اہل دین لوگ جہاد میں انتظار کا وقفہ کریں ۔پھر یاتو اسے وقتی طور پر معطل سمجھا جائے یا پھر اکیلے ہی فساق و و فجار سے جہاد کرے۔ اس سے کفار کا غلبہ اور اہل فجور کی شوکت کو غلبہ ملے گا۔ کیونکہ دین تو اس کا ہے جو اس کی وجہ سے جہاد کرے۔ یہ رائے اہل بدعت روافض اور معتزلہ کی انتہائی فاسد رائے ہے۔ حتی کہ جب بعض شیعہ علماء سے پوچھا گیا : جب کفار ہمارے ملک پر حملہ کردیں ‘اور لوگوں کو قتل کریں ‘ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں ۔ اور اموال چھین لیں تو کیا ہم ان سے جنگ کرسکتے ہیں ؟ تو اس نے جواب میں کہا: ’’ نہیں ؛ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم امام معصوم کی قیادت کے بغیر جنگ نہیں کرسکتے۔سوال پوچھنے والے نے کہا: کیا اہل سنت کے ساتھ مل کر لڑ سکتے ہیں ؟ تواس سوال کرنے والے نے کہا: اللہ کی قسم ! نہیں ؛ یہ پلید مذہب ہے ‘ کیونکہ اس مذہب کی وجہ سے دین اوردنیا میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات کہنے والے نے اپنے گمان کے مطابق ظلم سے بچنے کی کوشش کی تھی؛ مگر اپنے فاسد ورع وزہد کی وجہ اس سے کئی گنا بڑے ظلم کا شکار ہوگیا۔بعض ولاۃ الامور کے کفار پر غلبہ پانے کے لیے ظلم کو اس سے کیا نسبت ہے جو ان سے بھی بڑھ کر ظالم ہو۔ چاہیے تو یہ تھا زیادہ ظلم کرنے والے کے خلاف کم ظلم کرنے والے کی مدد کی جاتی ۔ اس لیے کہ شریعت کی بنیاد مصالح کے حصول و تکمیل ؛ اورمفاسد کے خاتمہ یا ان کے کم کرنے پر رکھی گئی ہے۔اور اس امر پر مبنی ہے کہ دو بھلائیوں میں سے بڑی بھلائی اور دو برائیوں میں سے بڑی برائی کی معرفت حاصل ہو۔ تاکہ بوقت ضرورت بھلائی کے حصول بڑی بھلائی حاصل کرنے کے لیے اور برائی سے دفاع کے لیے بڑی برائی سے بچنے کی کوششیں بروئے کار لائی جائیں ۔ یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ کفار‘ مرتدین اور خوارج کا شر اورظلم کسی بھی ظالم کے ظلم سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ہاں اگر ان کی طرف سے مسلمانوں پرکوئی ظلم نہ ہورہا ہو؛ اور ان سے لڑنے والا ان پر ظلم کرنا چاہتا ہو تو پھر یہ اس کی طرف سے سرکشی اور بغاوت ہوگی ؛ اور سرکشی کے کاموں میں کسی کی مدد نہیں کی جائے گی۔ فصل:....[حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شوری اوررافضی اعتراض] [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد انتخاب خلیفہ کو شوریٰ کے حوالہ کرکے اپنے سے پہلے والوں کی مخالفت کی۔ اس لیے کہ لوگوں کو خود اپنا امیر منتخب کرنے کا موقع نہیں دیا۔اورنہ ہی اپنے بعد کسی ایک کو متعین کرکے حاکم مقرر کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اگر سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے میں انھیں خلیفہ مقرر کردیتا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت موجود تھے۔ ٭ اس مجلس میں چناؤ کے لیے فاضل اور مفضول کو جمع کردیا۔حالانکہ فاضل کا حق تھا کہ اسے مفضول پر مقدم رکھا
Flag Counter