Maktaba Wahhabi

477 - 702
علی و طلحہ و زبیر اور سعد و عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حریف نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے طرز عمل میں چنداں فرق و امتیاز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا: ’’ دنیا میں عاقل ترین افراد تین تھے:۱۔حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جس نے کہاتھا: ﴿یٰٓاَیَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ﴾۔[القصص ۲۶]۔ ’’ ابا جی!آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔‘‘ ۲۔ عزیز مصر جس نے اپنی بیوی سے کہا تھا: ﴿اَکْرِمِیْ مَثْوٰیہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ﴾(یوسف ۲۱)۔ ’’اس کی عزت کیجیے؛ ممکن ہے ہمیں فائدہ دے یاہم اسے اپنا لڑکا بنالیں ۔ ‘‘ ۳۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جنھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا۔‘‘ [1] [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاخطبہ ]: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ میرے والد محترم کے کیا کہنے؟ وہ ایک بلند پہاڑ اور اونچی شاخ تھے۔ لوگوں کے سب خیالات جھوٹے ثابت ہوئے۔ وہ کامیاب ہوئے اور تم ناکام ٹھہرے، وہ آگے بڑھ گئے اور تم پیچھے رہے، جیسے گھوڑا منزل مقصود پر پہنچ کر تیز ہو جاتا ہے۔ عنفوان شباب میں وہ نوجوان قریش تھے۔ ادھیڑ عمر کو پہنچ کر قریش کی جائے پناہ تھے ۔ قیدیوں کو چھڑاتے، تنگ دست کو کپڑے پہناتے۔ پراگندہ خاطر کو تسلی دلاتے۔ یہاں تک کہ ان کے دلوں کو آپ نے موہ لیا۔ پھر دینی کوششوں میں لگ گئے اور آپ کی غیر ت و خودداری بڑھتی ہی چلی گئی۔ آپ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا کر اسلامی رسوم کو زندگی بخشی۔ آپ حزین القلب اور کثرت سے رونے والے تھے۔ آپ کی آواز بڑی درد بھری تھی۔ مکہ کی عورتیں اور بچے آپ کی آواز سننے کے لیے جمع ہو جاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے۔[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :] ﴿اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِہِمْ وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ﴾۔[البقرۃ ۱۵]۔ ’’اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔‘‘ قریش کو اس پر بڑی حیرت ہوئی اور انھوں نے تیراندازی کے لیے اپنی کمانیں تان لیں اور آپ کو تیروں کا
Flag Counter