Maktaba Wahhabi

486 - 702
پربعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا ؛ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا]۔ خلافت عثمانی میں جو خیر اور فتوحات اور مصلحتیں اور خیر و برکات پائی جاتی تھیں ان کوصحیح معنوں میں تواللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔[1] [عثمانی دور کی کثیر فتوحات تاریخ اسلام کا زریں باب ہیں ]: جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو مناصب جلیلہ پر فائز کیااور ان کو بھاری انعامات دیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور اقرب کو ولایت و امارت پر فائز کیا جاتا رہا۔بلکہ بعض کے دور میں وہ فساد اور شر بپا ہوا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں نہیں ہوا تھا۔ بعض قریبی لوگوں کو ولایت سے نوازنے اور مال بخشنے میں ترجیح دینے کو اس سے کیا نسبت کہ امت آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتی رہے ۔ اپنی دینی اور دنیاوی مصلحتوں کو فراموش کردے۔ یہاں تک کہ کفار بلاد اسلامیہ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے۔مسلمانوں کا اتحاد اور یکجہتی ختم ہوجائے ۔ فتوحات کا سلسلہ رک گیا؛ خود ان کے مابین پھوٹ پڑگئی۔اور دشمن کے سامنے اتنے عاجز آگئے کہ بعض اسلامی شہروں پر دوبارہ کافروں نے تسلط جمالیا؛ اور ان سے کچھ شہر اور اموال صلح یاغلبہ کے ذریعہ سے واپس لے لیے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پرتناقض کا الزام : [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کے لیے جن صحابہ کو چنا تھا، ان میں سے ہر ایک کو آپ نے موردِ طعن بنایا اور یہ ظاہر کیا کہ آپ اپنی موت کے بعد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کرنا چاہتے۔اس کے برعکس تعیین امام کے لیے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بھی بنا دی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: یہ ہے کہ آپ نے ان چھ حضرات پر اس طرح نقد و جرح نہیں کیا تھا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہو کہ
Flag Counter