Maktaba Wahhabi

494 - 702
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا حق دار نہیں ہے تو آپ کے لیے بہت ساری راہیں ایسی تھیں کہ آپ حضرت کو خلیفہ مقرر کردیتے اور لوگوں کو پتہ بھی نہ چلتا ۔ ٭ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں رافضی کا یہ قول بھی ہے :’’اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کبھی بھی ایک بات پر اکھٹے نہیں ہوسکتے۔‘‘ [جواب:] یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جھوٹا الزام ہے۔ ساری زندگی میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکے مابین کوئی اختلاف یا جھگڑا نہیں ہوا۔بلکہ یہ دونوں حضرات باقی چاروں کی نسبت آپس میں بہت زیادہ قریب تھے ۔ دونوں کا تعلق بنو عبد مناف سے تھا۔اور اس وقت تک بنو عبد مناف سارے ایک مٹھی کی طرح تھے۔ حتی کہ ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ؛ اورخلیفہ بننے کے بارے میں کہنے لگے ۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی کے بیٹے تھے۔ اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ میں ابھی تک جاہلیت کی رمق باقی تھی۔انہیں یہ بات ناگوار تھی کہ ان کے قبیلہ پر کوئی دوسرا آدمی حاکم بنے۔ اور یہ پسند کرتے تھے کہ خلافت و امارت بنو عبد مناف میں باقی رہ جائے۔ ایسے خالد بن سعید رضی اللہ عنہ بھی اس وقت غائب تھے۔ جب آپ حاضر ہوئے تو آپ نے بھی حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما سے بات کی ۔اور کہنے لگے : کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ خلافت بنوعبدمناف سے نکل جائے؟ [بنو ہاشم و بنو امیہ کے باہمی روابط]: جو بھی انسان کچھ تھوڑا بہت بھی جانتا ہے اسے ان لوگوں کی سیرت اور کردار کا علم ہے۔اسے علم ہے کہ عہد رسالت مآب میں اور خلافت صدیقی و فاروقی میں بنو ہاشم وبنو امیہ کے مابین حد درجہ یگانگت و اتحاد پایا جاتا تھا۔ فتح مکہ کے سال جب ابو سفیان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے مکہ سے نکلا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا تو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا، اے اﷲ کے رسول! ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کوئی منصب عطا کیجیے کیوں کہ یہ عز و جاہ کا حریص ہے۔[1] یہ سب محبت کی کرشمہ سازی ہے اس لیے کہ بنو ہاشم و بنو امیہ دونوں بنی عبد مناف سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حد بندی کے بارے میں کسی مسلمان کے ساتھ جھگڑا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ چند آدمیوں کے ساتھ نکلے، ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حد کے ایک نشان کے بارے میں دریافت کیا کہ آیا یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی موجود تھا؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا؛ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ ناروا ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے تبدیل کردیتے۔‘‘ اس جھگڑا میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا حالانکہ علی رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے۔ بلکہ آپ نے ابن جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل بنا کر بھیجا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
Flag Counter