Maktaba Wahhabi

499 - 702
تو پھر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل نہ کیا جاتا ۔ اس لیے کہ قتل اسے کیا جاتا ہے جس سے کوئی خوف محسوس ہورہا ہو۔ [حضرت علی کا کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا]۔ نیزیہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت نہ کی مگر کسی شخص نے انھیں پیٹا نہ قید کیا جب کہ قتل کرنا تو درکنارہے۔ ایسے ہی جو لوگ کہتے ہیں کہ:بنوہاشم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی۔ تاہم آپ نے انھیں کچھ نہ کہا؛ نہ ہی ان میں سے کسی کو مارا پیٹا گیا اور نہ ہی اسے بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔یہاں تک کہ بلاجبر و اکراہ خود حاضر ہو کر انھوں نے بیعت کرلی۔جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کی بیعت متعین ہوچکی تھی ؛ [آپ کی بیعت سے پیچھے رہنے پر نہ ہی کسی کوقتل کیا گیا اور نہ ہی کسی کو مارا پیٹاگیا]تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہنے پر کیسے قتل کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے ؛ جب کہ ابھی تک آپ کی بیعت متعین بھی نہیں ہوئی۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمادونوں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تمام بنی ہاشم کی تعظیم و تکریم بجا لاتے رہے اور باقی لوگوں پر انہیں مقدم رکھا کرتے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’ لوگو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے آپ کے اہل بیت کا خیال رکھو۔‘‘ [1] [اکرام اہل بیت اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما]: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے، وہاں دیگر بنو ہاشم بھی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی مدح و ستائش کی۔ اس کے جواب میں بنو ہاشم نے آپ کے مستحق خلافت ہونے کااعتراف کیا؛ اور بیعت کرنے میں تاخیر پر اپنا عذر پیش کرنے لگے؛ اور آپ کی بیعت اس حال میں کی کہ آپ ان کے پاس اکیلے تھے۔ [2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و الفت کے بارے میں آثار و احادیث اس کثرت سے ہیں جن سے ایسی جھوٹی روایات کی عمارت خودبخود دھڑم سے گر جاتی ہے ۔ اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمااپنے اپنے عہد خلافت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کوکسی طرح بھی الم و رنج پہنچانا چاہتے تو وہ بہمہ وجوہ اس کی قدرت رکھتے تھے۔ مگر ان کا مقام بلحاظ تقویٰ اس سے کہیں بلند تھا کہ وہ ایسی پست حرکات پر اتر آتے ؛ اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد [جب کہ اس گھرانے کو ہمدردوں اور غمگساروں کی ضرورت تھی]۔ جاہل شیعہ اس زعم فاسد میں مبتلا ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت ظلم کا نشانہ بنایا جب وہ ظلم کی مدافعت کر سکتے تھے۔اور یہ دونوں حضرات اگر چاہتے بھی تو آپ پر ظلم کرنے سے عاجز تھے۔ پھر جب انہیں قوت اور طاقت حاصل ہوگئی؛ اور لوگ ان کی اطاعت کرنے لگے تواس وقت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمانے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم و ستم کیوں
Flag Counter