Maktaba Wahhabi

544 - 702
جنت و جہنم کے درمیان انھیں ایک پل پر ٹھہرا لیا جائے گا، جہاں وہ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کے بعد پاک صاف ہو کر جنت میں جا داخل ہوں گے۔‘‘ [1] یہ ایسے امور ہیں جو شاذ و نادر ہی مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں ، پھر صحابہ خیر القرون کے مصداق ہونے کے باوجود انھیں کیوں کر نظر انداز کر سکتے ہیں ۔یہ ان گناہوں کے بارے میں ہے جو حقیقت میں سر زد ہوئے ہوں ۔ پھر ان کا کیا کہنا ہوگا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذمہ جھوٹ موٹ لگادیئے گئے ہوں ؟یا وہ امور جو حقیقت میں تو نیکیاں اور اچھائیاں ہیں ‘ مگر جان بوجھ کر انہیں بدل کر برائیوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے؟ [معائب صحابہ حسد یا کذب پر مبنی]: یہ صحیح روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حضرت عثمان پر تنقید کی اور کہا کہ وہ جنگ احد میں بھاگ گئے تھے؛ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے۔اوربیعت رضوان میں شرکت نہیں کی تھی۔ یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’احد میں بھاگ جانے پر اﷲتعالیٰ نے ان کی یہ لغزش معاف کردی تھی۔‘‘ ایک روایت میں ہے؛ آپ نے فرمایا: ’’وہ احد کے دن بھاگے اللہ تعالیٰ نے یہ لغزش معاف کردی ؛ مگر تم اسے گناہ سمجھ کر ابھی تک معاف نہیں کررہے ہو۔ جب کہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی کی تیمار داری کے لیے پیچھے چھوڑ دیاتھا؛ اور مال غنیمت میں سے ان کو حصہ بھی دیا تھا۔جب کہ بیعت رضوان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ بیعت کرتے وقت اپنا ہاتھ استعمال کیا تھا اور آپ کا ہاتھ عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بہتر تھا۔ [2] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماکے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جس چیز کو عیب سمجھتے ہیں حقیقت میں وہ عیب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ہے۔ اور باقی چیزیں بھی عیب والی نہیں ۔ بلکہ یہ آپ کی نیکیاں ہیں ۔ یہی حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لگائے جانے والے تمام الزامات کا ہے؛ یا تو وہ ان کی نیکیاں ہیں ؛ یا پھر اگر غلطی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ہے [ یا بھر اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس سے وہ بری ہیں ]۔ [حضرات صحابہ پر وارد کیے جانے والے عام اعتراضات یا تو بغض و حسد کے آئینہ دار ہیں یا کذب و دروغ گوئی پر مبنی ہیں ]۔
Flag Counter