Maktaba Wahhabi

545 - 702
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ولایت سے متعلق اعتراضات : [اعتراض ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نا اہل لوگوں کو عہدے عطا کیے تھے۔‘‘ [جواب] :اس کے جواب کی دوصورتیں ہیں : پہلا جواب یہ ہے کہ یہ دعوے ہی سرے سے باطل ہے ۔ اس لیے کہ آپ نے صرف وہی لوگ مناصب پر تعینات کیے تھے جو ان کے اہل تھے۔[کسی نااہل کو ہرگزکوئی منصب نہیں دیا]۔ دوسرا جواب: یہ ہے کہ [بالفرض اگر مان لیا جائے کہ ] آپ نے نااہل لوگوں کومنصب عطا کیے تھے۔توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرنے میں ایک مجتہد کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان سے اجتہادی غلطی سرزد ہوئی۔ آپ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ انسان اس منصب کا اہل ہے ؛مگر حقیقت میں وہ اس کا اہل نہ ہوا ہو۔[یہ ایسی غلطی ہے جو اﷲتعالیٰ نے معاف کردی] ۔تو پھر ایسی بات آپ کی شان میں قدح کا موجب نہیں ہوسکتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ولید بن عقبہ جس پر اعتراض کیا جارہا ہے ؛اس کا واقعہ تفسیر و حدیث اور سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ بڑا مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن معیط کو کچھ قبائل سے صدقات لینے کے لیے والی مقرر فرمایا۔ جب یہ ان کی بستی کے قریب پہنچا تو وہ لوگ اس کے استقبال کے لیے نکلے ؛ [چونکہ ان کے مابین کچھ پرانی رنجشیں تھیں ؛ اس وجہ سے یہ غلط سمجھا] اس نے سوچا یہ لوگ مجھ سے لڑنا چاہتے ہیں ۔اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ لوگ تو جنگ کرنے پر اتر آئے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کی سر کوبی کے لیے لشکر ورانہ کرنے کا ارادہ فرمایا ؛ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿یٰاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ [الحجرات۶] ’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی نا قابل اعتماد آدمی کوئی خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لیے پریشانی اٹھاؤ۔‘‘ اگر ایک عامل کا حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہ سکتا ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر کیسے مخفی نہیں رہ سکتا؟ اگریہ کہا جائے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد بھی اسے تعینات کیا تھا؟ تواس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ ا س کی مثال یہ ہے کہ عبد اﷲ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ مرتد ہو گیا تھا،پھر مسلمان ہو کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا، تو آپ نے اس کی معذرت قبول کی حالانکہ آپ نے اسے مباح الد م قرار دیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے سابقہ پڑا تھا اور عمّال کی ایسی حرکات ان کے علم میں آئیں جن کی آپ کو توقع نہ تھی۔ایسی باتیں نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شان میں موجب طعن ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کی شان میں ۔اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ علم ہونے کے باوجود کہ دوسرے افراد
Flag Counter