Maktaba Wahhabi

549 - 702
ہے۔ اس لیے کہ آپ کے ہاں کسی بھی دلیل سے مروان کا شرعاً واجب القتل ہونا ثابت نہیں ہوسکا تھا۔اس لیے کہ محض جھوٹی باتیں گھڑ لینے سے کوئی واجب القتل نہیں ہوجاتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان کو قتل نہ کرکے ایک گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔تو ہم اس بارے میں تفصیلی کلام کر چکے ہیں ۔ [نیز ہم نے یہ دعویٰ کب کیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ گناہوں سے پاک تھے؟ اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے بے شمار اچھے کام بھی کیے ہیں ۔ مزید برآں آپ بدری صحابہ میں شامل ہیں ، جن کی مغفرت کا اﷲتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے]۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم: [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘ [جواب]: یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر صریح افتراء پردازی ہے۔ جو شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار سے آگاہ ہے ،اور وہ ذرا بھر بھی عدل و انصاف سے کام لینے والا ہے تو وہ جانتا ہے کہ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ آپ نے کبھی بھی محمد بن ابو بکر یا ان جیسے کسی بھی دوسرے انسان کوقتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔اورنہ ہی آپ کے بارے میں کبھی یہ ثابت ہوسکا ہے کہ آپ نے کسی ایسی بات پر کسی کو قتل کروایا ہو۔[بلکہ ]لوگ ان کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔کچھ لوگوں کے ساتھ محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے گھر میں داخل ہوئے تھے۔ آپ نے کسی ایک کو بھی اپنی ذات کے دفاع کے لیے لڑنے کا حکم نہیں دیا ۔تو پھر آپ ایک معصوم الدم کو بلا وجہ کیوں کر قتل کر سکتے تھے؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا تھا؛ تب بھی یہ بات آپ پر موجب طعن نہیں ہوسکتی۔بلکہ اگر آپ نے محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا [ تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایک شر کا ازالہ کیا جائے۔ لہٰذا امت کی مصلحت کے نقطۂ خیال سے ایسا کیاہوگا۔اور اگر آپ نے ایسا حکم دیا تھا]تو آپ ان لوگوں کی نسبت اطاعت کے زیادہ حق دار تھے جو مروان کو طلب کررہے تھے تاکہ اسے قتل کیا جائے۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہدایت کے امام ہیں ۔آپ خلیفہ راشد ہیں ۔ اور امت کی مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے ان کی سیاست کر نا آپ کی ذمہ داری تھی۔[اور آپ پر ]واجب تھا کہ ان لوگوں کو قتل کردیا جائے جن کے قتل کے بغیر شر وفساد کا خاتمہ ہونا ممکن نہ ہو۔جب کہ مروان کو قتل کرنے کے لیے طلب کرنے والے کچھ باغی لوگ تھے جن کے پیش نظر زمین میں فساد پھیلانے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔نہ ہی انہیں کسی ایک کو قتل کرنے کااختیار حاصل تھا اور نہ ہی کسی پر حد قائم کرنے کا اختیار تھا۔ان کی انتہائی غایت یہ ہوسکتی ہے کہ بعض امور میں ان پر ظلم ہوا ہو۔توکسی بھی مظلوم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ظلم کرنے والے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردے ۔بلکہ انہیں تو کسی پر حد قائم کرنے کا بھی اختیار حاصل نہیں ۔ مروان محمد بن ابوبکر سے بڑھ کر شریر اور فسادی نہ تھا۔اور نہ ہی محمد بن ابوبکر علم اور دینداری میں مروان سے زیادہ مشہور تھا۔ بلکہ صحاح ستہ کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں مروان سے کئی ایک احادیث روایت کی ہیں ۔ اور اہل علم و فتوی کے ساتھ اس کے اقوال کو بھی نقل کیا جاتا ہے۔ آپ کے صحابی ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔
Flag Counter