Maktaba Wahhabi

551 - 702
شہید کر دیا گیا۔ یہ ایسا اور اتنا سخت فتنہ تھا کہ اس نے تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا؛ صرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ بلکہ [حق تو یہ ہے کہ ] حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ دوسرے کئی لوگوں سے بڑھ کر امن و سلامتی کے طلبگار تھے اور بہت سے لوگوں کی نسبت شر و فساد سے بہت زیادہ دور رہنے والے تھے۔ حضرت معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وُلاۃ و حَکام مثلاً اَشترنخعی و محمد بن ابی بکر و عبید اﷲ بن عمر؛و ابواعور سلمی ؛ ہاشم بن ہاشم بن ہاشم المرقال؛ اشعث بن قیس الکندی ؛ اور بشر بن ارطاۃ کے علاوہ دوسرے جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ؛ ان سے یقیناً افضل تھے۔ [عبداللہ بن عامر اورمروان سے متعلق اعتراض اور جواب:] [اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’آپ نے عبد اللہ بن عامر رحمہ اللہ کو بصرہ کا والی بنایا ؛ جس نے بہت سارے برے کام کیے۔‘‘ [جواب]: حضرت عبد اللہ بن عامر رحمہ اللہ کی اتنی نیکیاں ہیں اور لوگ آپ سے اس قدر محبت کرتے تھے جو کہ بیان محتاج نہیں ۔ بالفرض اگر آپ نے کوئی گناہ کا کام کیا بھی تھا تو اس کا بوجھ آپ پر ہی ہے ۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ کسی برائی پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ راضی تھے ؟ [اعتراض]:روافض کا یہ قول کہ :’’ آپ نے مروان کو والی مقرر کرکے اپنی انگوٹھی اس کے حوالے کردی جس کا نتیجہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔اور اس کی وجہ سے امت میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہوا ۔‘‘ [جواب]:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کا سبب صرف اکیلے حضرت مروان نہیں تھے۔بلکہ اس میں کئی امور جمع ہو چکے تھے۔ان جملہ امور میں سے وہ امور بھی تھے جن کا مروان پر انکار کیا جاتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑی عمر کے ہو چکے تھے۔یہ لوگ بعض ایسی حرکات کرتے جن کے بارے میں آپ کو نہیں بتایا کرتے تھے۔پس آپ نے انہیں ایسے امور کے کرنے کانہیں حکم دیاتھا؛ جن کا تم انکار کرتے ہو۔ بلکہ آپ رضی اللہ عنہ ایسی باتوں سے دور رہنے؛ اور انہیں ختم کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔ پس کبھی ایسے کیا کرتے اور کبھی ایسے کیا کرتے تھے۔ اس کا عام جواب پہلے گزر چکا ہے۔ ٭ جب مفسدین مدینہ میں آدھمکے اوروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کئی باتوں کی شکایت کی۔ جناب عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تمام شکایات کا ازالہ کیا۔اور جن لوگوں کو ان فسادیوں نے معزول کرنے کا مطالبہ کیا تھا؛ انہیں معزول کیا ۔ اور یہ بھی اعلان کیاکہ بیت المال کا کنٹرول ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جائے گا جنہیں وہ پسند کرتے ہوں گے ۔ اور یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ اور ان کی رضامندی کے بغیر کسی کو کچھ بھی نہیں دیا جائے گا۔ اب ان کا کوئی مطالبہ باقی نہ رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں : ’’انہیں تم نے ایسے نچوڑ دیا جیسے کپڑے کونچوڑ دیا جاتا ہے ‘ اور پھر تم نے ان کا قصد کیا اور ان پر ظلم کرتے ہوئے قتل کردیا۔‘‘ [مسلم ۳؍۱۴۸۱]
Flag Counter